اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134180 / ڈاؤنلوڈ: 3954
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہم نے داؤد اور سلیمان کو مخصوص دانش عطا کی.اور ان دونوں نے کہا:اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سارے مومن بندوں پر فوقیت اور بر تری دی.سلیمان نے داؤد کی میراث پائی اور کہا:اے لوگو!ہمیں پرندوں کی زبان سکھا ئی گئی ہے اور ہر چیز سے ہمیں عطا کیا گیا ہے، یقینا یہ برتری آشکار ہے ، سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جن وانس اور پرندے کو جمع کر دیا اور ان کو پرا گندہ ہونے سے روکاجاتا تھا یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کی وادی سے گذر ے! تو ایک چیو نٹی نے کہا:اے چیونٹیوں !اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ تا کہ سلیمان اور ان کے سپا ہی نا دانستہ طور پر تمھیں کچل نہ ڈ الیں سلیمان چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور ہنس کر کہا:خدا یا ! مجھ پر لطف کر تا کہ تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کروں جوتو نے مجھے اور میرے ماںباپ کو عطا کی ہیں. اور وہ عمل صالح انجام دوں جو تیری رضا اور خوشنودی کا باعث ہو اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ ساتھ اپنے نیک بندوں کے زمرہ میں قرار دے.سلیمان نے ایک پرندوے کو غیر حاضر دیکھا،تو کہا:کیا بات ہے کہ ھُدھُد کو نہیں دیکھ رہاہوں؟ کیا وہ غا ئبین میں سے ہے(بغیر عذر کے غا ئب ہو گیا ہے)؟ قسم ہے اسے سخت سزا دوں گا یا اس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ کوئی واضح اور قابل قبول عذر پیش کرے۔

زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی (کہ ھد ھدآگیا اور )بولا: ایک ایسی خبر لا یا ہوں جس سے آپ بے خبر ہیں اور قوم سبأ کی یقینی خبر آپ کے لئے لایا ہوں. میں نے ( سبائیوں ) پر ایک عورت کو حکومت کرتے دیکھا ہے اور اُسے سب کچھ دیا گیا ہے،اس کے پاس ایک عظیم تخت ہے.میں نے دیکھا کہ وہ اور ا س کی قوم خدا کے بجائے سورج کو سجدہ کرتی ہیں.اور شیطان نے ان کے امور کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے اور انھیں راہ حق سے روک دیاہے وہ ہدایت نہیں پا ئیںگے.....

۱۸۱

سلیمان نے کہا: عنقریب دیکھوں گا کہ تم نے سچ کہا ہے یا جھوٹ.یہ میرا خط لے جاؤ اور ان کے پاس ڈال دو،پھر واپس آؤ اور دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.(بلقیس نے خط کا دقت سے مطالعہ کیا اور اپنے دربار کے مردوں سے خطاب کر کے) کہا:اے بزرگو ! ایک محترم خط ہماری طرف بھیجا گیا ہے. وہ خط سلیمان کا ہے.اور (اس کا مضمون)اس طرح ہے:بخشش کرنے والے اور مہربان خدا کے نام سے میرے خلاف طغیانی اور سرکشی نہ کرو اور سراپا تسلیم ہو کر میرے پا س آجاؤ۔

ملکہ نے کہا:اے بزرگو ! میرے معا ملہ میں رائے دو کہ میں تمہارے ہوتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔

(اشراف نے ) کہا:ہم طاقتور اور دلاور ہیں(اس کے باوجود) فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کیا سونچتی ہیں اور کیا حکم دیتی ہیں ۔

ملکہ نے کہا:بادشاہ لوگ جب کسی شہر میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس جگہ کو ویران کر دیتے ہیں اور وہاں کے آبرومندوں کو ذلیل ورسواکر دیتے ہیں کیو نکہ ان کی سیاست کی رسم اسی طرح ہے میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوںاور (اس بات ) کی منتظر رہوں گی کہ ہمارے بھیجے ہوئے قاصد کس جواب کے ساتھ واپس آتے ہیں۔

جب(ہدیہ)سلیمان کے پاس پہنچا تو کہا: تم لوگ مال کے ذریعہ ہماری نصرت کرو گے؟!جو کچھ خدا نے ہمیں دیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے،جاؤ تم لوگ خود ہی اپنے ھدیہ سے شاد وخرم رہو۔

انکی طرف لوٹ جائو کہ ان کے سر پرایسے سپا ہی لاؤں گا کہ اُن سے مقابلہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں گے اور ذلت وخواری کے ساتھ انھیں ان کے شہر اور علا قے سے نکال باہر کر دیں گے

(پھر اس وقت سلیمان اپنے اصحاب سے مخاطب ہوئے) اور کہا: اے لوگو! تم میں سے کون ہے جو ان کے سراپا تسلیم ہو نے سے پہلے ہی اس (بلقیس) کا تخت میرے پا س حاضر کردے؟ .(اس اثناء میں)جنوں میں سے ایک دیو نے کہا:میں اسے قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں حاضر کردوں گا(یعنی آدھے دن سے بھی کم میں) اور میںاس کے لانے پر قادر اور امین ہوں ۔

وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا اس نے کہا:میں اُسے پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دوں گا. اور جب (سلیمان نے) اُسے اپنے پاس حاضر پا یا تو کہا:یہ میرے ربّ کا ایک فضل ہے تا کہ ہمیں آزمائے کہ ہم شکر گذار ہوتے ہیں یا نا شکرے.جو شکر گذا ر ہو گا وہ اپنے فائدہ کے لئے شکرکرے گا اور جو نا شکر ی کرے گا اس کی طرف سے میرا ربّ بے نیاز اور کریم ہے ۔

۱۸۲

سلیمان نے کہا:اُس کے تخت کو(شکل بدل کر) نا قابل شناخت بنا دو تا کہ دیکھیں کہ اسے پہچانتی ہے یا اس کو پہچا ننے کے لئے کو ئی راہ نہیں ملتی .جب بلقیس آئی(اس سے) کہا گیا کیا تمہارا تخت یہی ہے؟ملکہ نے کہا: گویا وہی ہے ہم اس سے پہلے ہی(سلیمان کی قدرت و شوکت ) سے آگاہ اور سراپا تسلیم تھے.غیر اللہ کی عبادت(آفتاب پرستی) اسے (اسلام قبول کرنے سے)مانع تھی کہ وہ کافر قوموں میں تھی.اس سے کہا گیا:محل میں داخل ہو جاؤ!جب اُس نے دیکھا تو گمان کیا کہ صرف گہرا پا نی ہے لہٰذا اپنی دونوں پنڈلیوں کو کھول دیا۔

سلیمان نے کہا:یہ محل(قصر) صاف وشفاف شیشہ سے بنا یا گیا ہے۔

ملکہ نے کہا: خدا یا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا.(اب ) سلیمان کے ساتھ عالمین کے خدا پر ایمان لا تی ہوں۔

سورہ ٔسبأ کی ۱۲ویں تا ۱۴ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ غُدُوُّهَا شَهْر وَرَوَاحُهَا شَهْر وََسَلْنَا لَهُ عَیْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِإِذْنِ راَبِهِ وَمَنْ یَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ َمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیرِ ٭ یَعْمَلُونَ لَهُ مَا یَشَائُ مِنْ مَحَارِیبَ وَتَمَاثِیلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِیَاتٍ اِعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْرًا وَقَلِیل مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ ٭ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَی مَوْتِهِ ِلاَّ دَابَّةُ الَرْضِ تَْکُلُ مِنسََتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ َنْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْبَ مَا لاَبِثُوا فِی الْعَذَابِ الْمُهِین )

ہم نے ہواکو سلیمان کا تا بع بنایا تا کہ (ان کی بساط کو)صبح سے ظہر تک ایک ماہ کی مسافت کے بقدر اور ظہر سے عصر تک ایک ماہ کی مسا فت کے بقدرجا بجا کردے اور پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ اُن کے لئے ہم نے جاری کیا اور ایسے جنات تھے جو اپنے ربّ کے حکم سے ان کے حضور خدمت میں مشغول رہتے اور ان میں جو بھی ہمارے حکم کے خلا ف کرتا تو ہم اسے گرم آگ سے عذاب کرتے ۔

وہ جنات اور دیو سلیمان کے لئے وہ جو چا ہتے بنادیتے تھے جیسے محراب، عبادت گا ہیں،مجسمے، حوض آب جیسے بڑے بڑے پیا لے اور بڑے بڑے دیگ ۔

۱۸۳

اب اے آل داؤد! اللہ کاشکر ادا کرو اور میرے بندوں میں کم لوگ شکر گذار ہیں۔

اور جب ہم نے سلیمان کے لئے موت مقرر کی،تودیمکوں کے سوا جو ان کے عصا کو کھا کر خالی کر رہی تھیں(یہاں تک کہ سلیمان زمین پر گر پڑے) کسی کو ان کی موت سے آگا ہی نہیں تھی ۔

اور جب سلیمان زمین پر گر پڑے توجنوں کواُن کی موت سے آگاہی ہو ئی ۔

کہ اگر وہ اسرار غیبی سے آگاہ ہوتے تو دیر تک عذاب اور ذلت وخواری میں پڑ ے نہ رہتے۔

کلمات کی تشریح

۱۔ذاالاید:

آد، یئیدُ،ایداً:قوی اور طاقتور ہو گیا.ذاالا ید:قوی اورتوانا۔

۲۔اَوّاب:

آب الیٰ اللّہ: اپنے گناہ سے توبہ کیا اور ایسا شخص آئب اور اوّاب ہے.بحث سے منا سب معنی:جو گناہ سے شرمندہ اور نادم ہو اور خدا کی خوشنودی اور رضا کا طالب ہو۔

۳۔اُوِّبی:

(مونث سے خطا ب) خدا وند عالم کی تسبیح میں اس کے ہماہنگ اور شانہ بشانہ رہو۔

۴۔سابغات:

سبغ الشی سبوغاً:تمام کیا اور کامل کیا.سابغات:استفادہ کے لئے آمادہ اور مکمّل زرہیں۔

۱۸۴

۵۔قدِّرْ فی السّرد:

سر د ، زرہ کے حلقوں کے معنی میں ہے،(و قدَّر فی السرد)

یعنی حلقے یکساں اورایک جیسے بنائو کہ نہ ڈھیلے ہوں اور نہ کسے ہوئے ہوں اور ایک ناپ کا تےّار کرو۔

۶۔رُخائ:

نرمی.

۷۔مقّرنین فی ا لاصفاد:

رسّی یا زنجیر میں آپس میں بندھے ہوئے۔

۸۔محشورةً:

اکٹھا کیا گیا،جمع کیا گیا۔

۹۔ےُوزَعون:

وَزَعَ الْجیْش : الگ الگ صف کے ساتھ منظم ہوئے، پیکار کے لئے آمادہ ہوئے۔

۱۰۔ عفریت:

جناتوں میں سب سے قوی ومضبوط اور ان میں سب سے زیادہ تن وتوش والادیو۔

۱۱۔صَرْحُ مُمَّرَد مِنْ قَوَاْرِیرَ:

الصرح:آراستہ گھر،بلند عمارت،ممَّرد:خوشنما اور عالی شان قصر، کہ جس کا فرش اورسطح آئینہ سے بنا یا گیا ہو۔

۱۸۵

۱۲۔لُجَّة :

کثیر پا نی،آہستہ آہستہ موجوں کے ساتھ موج مارنے والا حوض ،اس کی جمع لجج آئی ہے۔

۱۳۔اَسَلْنَاْ لَہُ عَےْنَ القِطْر:

سال المائع : بہنے والی چیز بہنے لگی، القطر: پگھلا ہوا تانبا،عبارت کے معنی یہ ہیں کہ:اُس پر پگھلا ہوا تا نبا ڈالیں۔

۱۴۔ےَزِغْ عَنْ اَمْرِنَا:

زَاْغَ عَنِ الَطّرِیق:

راستہ سے منحرف ہو گیا،آیت کے منا سب معنی یہ ہیں کہ جناتوں میں سے جو بھی سلیمان کے دستورات سے سر پیچی اور مخالفت کرے اسے ہم عذاب دیں گے۔

۱۵۔سعیر:

آگ اور اس کا شعلہ۔

۱۶۔جَفَانٍ کَالْجَواب:

جفان(جفنہ کی جمع ہے)یعنی کھانے کے بہت بڑے بڑے ظروف اور جواب یعنی بڑا حوض.جفان کالجواب یعنی:کھانے کے ایسے ظروف جن میں بہت زیادہ گنجائش اور وسعت ہوتی ہے۔

۱۷۔قُدور راسیات:

قدر راسیة: بہت بڑا دیگ جو بڑے ہو نے کی وجہ سے حمل و نقل کے قابل نہ ہو، الرّاسی: عظیم اور استوار پہاڑ۔

۱۸۔دابَّة الارض:

دیمک۔

۱۹۔منساة:

عصا(لاٹھی)۔

۱۸۶

آیات کی تفسیر

ارشاد فرماتا ہے: اے پیغمبر! خدا کے قوی،بہت زیادہ توبہ کر نے والے اور خدا کی خوشنودی اور رضایت کے طالب بندے داؤد کو یاد کرو.جب کہ خدا نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنا دیا تا کہ ان کی تسبیح کے ہمراہ خدا کی صبح و شام تسبیح کریںاور پرندوں کو ان کے ارد گرد جمع کر دیا تا کہ ان کی تسبیح کے ساتھ ہم آواز ہوں.اس کی بادشاہی کوپر ھیبت اور سپاہیوں کو قوی بنا دیا اور مقام نبوت،امور میں دور اندیشی اور صحیح تفکر اور منازعات (لڑائی جھگڑے)میں واضح بیان اور قطعی حکم اُسے عطا کیا. لوہا اس کے ہاتھوں میں نرم ہو گیا تا کہ اُس سے حلقہ دار اور منظم زرہیں بنا ئیں.داؤد سب سے پہلے آدمی ہیں جنھوں نے جنگ کے لئے زرہ تیار کی۔

خدا وند منّان نے داؤد کو سلیمان(سا فرزند) بخشا کہ انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں بہت توبہ کی اور اللہ کی خو شنودگی ورضا کے طالب تھے. یہ سلیمان تھے جنھوں نے کہا:خدا یا ہمیں بخش دے اور ہمیں ایسی بادشاہی عطا کر کہ ہمارے بعد ویسی کسی کو نہ ملے،لہٰذا خد انے ان کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ ان کے حکم کے تحت نرمی کے ساتھ جہاں وہ چاہیں روانہ ہو جا ئے، جنوں، دیووں، آدمیوں اور پرندوں میں سے ان کے سپاہی مقرر کئے اور ساری زبا نیں انھیں تعلیم دی، جنوں اور دیووں کو ان کا فرما نبردار بنا یا تا کہ جس چیز کی خواہش ہو ان کے لئے تعمیر کر دیں اور سمندروںکے اندر غوطہ لگا کر موتیاں لے آئیں اور اُن میں سے بعض کو زنجیر میں جکڑ کر قید خانہ میں ڈال دیا۔

وہ ایک دن اپنے سپا ہیوں کے ساتھ چیونٹیو کی وادی سے گذر رہے تھے تو سنا کہ ایک چیو نٹی اپنے ساتھیوں کو خبر دے رہی ہے اے چیونٹیوں! اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر نا دانستہ طور پر تمھیں کچل ڈالے، اس حال میں جو کچھ خدا وندسبحان نے انھیں اوران کے ماں باپ کو نعمت عطا کی تھی اس پر خدا کا شکر ادا کیا۔

ایک دن پرندوں کی فوجی پریڈ کا معائنہ کیا تو ھُد ھُد کو ان کے درمیان اپنے سر پر سایہ فگن نہیں دیکھا.تو کہا اسے تنبیہ کروں گا یااس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ اپنی غیبت کے لئے کوئی قابل قبول عذر پیش کرے، زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہُدہُد آگیا اور ان کے لئے سبا اور یمن والوں کی خبر لے کر آیا کہ :

میں نے دیکھا کہ ایک عورت اُن پر حکومت کررہی ہے اور وہ ایک عظیم اور بڑے تخت کی مالک ہے.وہ اور اس کے افراد خدا کا سجدہ نہیں کرتے،بلکہ سورج کی پو جا کر تے ہیں۔

سیلمان نے کہا:دیکھوں گا کہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ گڑھ لیا ہے.میرا خط لے جا کر ان کے سامنے ڈال دے،پھر اُن سے دور ہوجا اوردیکھ کہ وہ کیا کہتے ہیں۔

۱۸۷

حضرت سلیما ن کا خط اس طرح تھا.

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجھ پر طغیا نی اور سر کشی نہ کرو.اور مسلمان ہو کر میرے پا س آجاؤ. دلچسپ اور مزہ کی بات یہ ہے کہ یہ خط خو د ہی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ کلمہ اسلام گزشتہ ادیان کا ایک نام تھا.اور امور کی ابتداخدا کے نام اور بسم اللہ سے ان کی شریعتوں میں ایک عام بات تھی۔

ہاں ، جب سبا کی ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان کا خط لیا تو اپنے مشاورین سے مشورہ کیا کہ سلیمان کے خط کا کیا جواب دیں؟

بو لے: ہم قوی ،شجاع ، دلیر،صاحب شوکت اور نڈرسپا ہی ہیں،اس کے با وجود حکم آپ کا ہے۔

ملکہ نے کہا: بادشا ہ جب کسی شہر میں قہر وغلبہ سے داخل ہوتے ہیںتو فساد کرتے اور تباہی مچاتے ہیں اور وہاں کے معزز افراد کو رذلیل اور رسوا کرتے ہیں میں بہت جلد ہی سلیمان کے لئے ایک ھدیہ بھیجتی ہوں اور ان کے جواب کا انتظا ر کروں گی کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟

جب بلقیس کے تحفے سلیمان کی خد مت میں پہونچے توآپ نے ان نمائندوں سے جنھوں نے آپ کی خد مت میں تحفے دئیے تھے فرما یا : جو کچھ خدا وند سبحان نے مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے؛ اور تحفوں کو قبول نہیں کیابلکہ فرمایا: میں ایک ایسے لشکر کے ساتھ تم پر حملہ کروں گا کہ جس کے مقا بلے کی طا قت نہیں رکھتے ہو اور تمھیں ذلت ورسوائی کے ساتھ کھینچ لاؤں گا۔

اُس وقت مجلس میں حاضر سپا ہیوں سے مخا طب ہوئے اور کہا :کون تخت بلقیس ہمارے لئے حاضر کرے گا؟

تو ایک بلند و بالا،قوی ہیکل اور طاقتور دیو نے کہا : میں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں تخت بلقیس کو آپ کے سا منے حا ضر کر دوں گا۔

اور حضرت سلیمان کی عادت تھی کہ آدھا دن دربار میں بیٹھتے تھے اتنے میں وہ شخص (گزشتہ زمانے میں نا زل شدہ کتا ب کا ) جس کے پا س کچھ علم تھا آگے بڑھا اور بو لا:میں اسے چشم زدن میں حاضر کردوں گا اور حاضر کر دیا اس وقت سلیمان نے خدا کی تما م نعمتوں کا شکر ادا کیا۔

۱۸۸

کہتے ہیں کہ اس کتاب کے عا لم حضرت سلیما ن کے وزیر آصف ابن برخیا تھے۔

پھر سلیمان نے فرمایا:بلقیس کے تخت میں کچھ تبد یلیاں کردو تا کہ اس کی عقل ودرایت کا معیار درک کریں.جب بلقیس آئی ،تو اس سے پوچھا:آیا یہ تمہارا تخت ہے؟

کہا: ایسا لگتاہے کہ وہی ہے.پھر بعد میں اس سے کہا: شاہی محل میں داخل ہو جاؤ محل کی دالان کا فرش صاف وشفاف شیشہ کا تھا اور اس کے نیچے پا نی بہہ رہا تھا. بلقیس نے پا نی کا گمان کیا اس لئے لبا س کے نچلے حصّہ کو اوپر اٹھا لیا اور اپنی پنڈ لیوں کو نما یاں کر دیا تا کہ اُس پانی سے گذر سکیں. یہ ماجرا دیکھ کر لوگوں نے بتایا یہ صاف و شفاف شیشہ ہے جس کے نیچے پا نی بہہ رہا ہے. بلقیس ایسے امور کے مشا ہدہ کے بعد جن کا آمادہ اور فراہم کرنا انسان کے بس سے با ہر ہے ایمان لے آئیں اور مسلمان ہوگئیں۔

خدا وند عالم نے سلیمان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا اور ان کے لئے دیو بڑی سے بڑی بلند عمارتیں تعمیر کر تے تھے اور درختوں کے تنوں سے مجسمہ اور اس جیسی دوسری چیزیں ان کے لئے تراشتے تھے اور کھانے کے بڑے بڑے ظروف اور اتنے گہرے اور بڑے بڑے دیگ جو بڑے ہو نے کی بنا پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل ونقل کے قابل نہیں تھے بناتے تھے۔

ایک دن حضرت سلیماناپنے محل کی چھت پر تشر یف لائے اور اپنے عصاپر ٹیک لگایا اور جنا تی کا ریگروں کے کاموں کا نظا رہ کر نے لگے وہ جنات جو اپنی کار کردگی میں زبردست مشغول تھے،اسی حال میں خدا وند عالم نے ان کی (حضرت سلیمان کی )روح قبض کر لی اورچند دنوں تک ان کا بے جا ن جسم عصا کے سہارے دیوؤں کے کاموں کو دیکھتا رہا، دیو لوگ بڑی محنت اور زحمت کے ساتھ اپنے ذمّہ امور کے لئے کوشش کر رہے تھے اور ذرہ برابر بھی نہ جان سکے کہ سلیمان مرچکے ہیں. یہ حا لت اسی طرح اُس وقت تک باقی رہی جب تک دیمک نے ان کے لکڑی کے عصا کو کھوکھلا نہ کر دیا اور سلیمان کے جسم کو بلندی سے زمین پر نہ گرا دیا ان کے گر تے ہی جنّات اور دیوؤںکو ان کے مرنے کی اطلا ع ہو گئی، کیو نکہ جنات کو اگر غیب کا علم ہوتا تو سلیمان کے مرنے کے بعد ایک آن بھی ان طاقت فرسا امور کو جاری نہ رکھتے!

۱۸۹

پانچواں منظر: زکری اور یحییٰ

خدا وندسبحان سورہ ٔمریم کی پہلی تا ۱۵ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

(بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم )

( کهٰیٰعص٭ ذِکْرُ رَحْمَةِ راَبِکَ عَبْدَهُ زَکَرِیَّا ٭ إِذْ نَادَی رَبَّهُ نِدَائً خَفِیًّا ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّی وَاشْتَعَلَ الرَّْسُ شَیْبًا واَلَمْ َکُنْ بِدُعَائِکَ راَبِ شَقِیًّا ٭ وَِنِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَکَانَتْ امْرََتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ٭ یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ راَبِ رَضِیًّا ٭ یَازَکَرِیَّا ِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ٭ قَالَ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی غُلَام وَکَانَتِ امْرََتِی عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنْ الْکِبَرِ عِتِیًّا ٭ قَالَ کَذَلِکَ قَالَ رَبُّکَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّن وَقَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ قَبْلُ واَلَمْ تَکُنْ شَیْئًا ٭ قَالَ راَبِ اجْعَل لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ َلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فََوْحَی الَیهِمْ َنْ ساَبِحُوا بُکْرَةً وَعَشِیًّا ٭ یَایَحْیَی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صاَبِیًّا ٭ وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَ زَکَاةً وَکَانَ تَقِیًّا ٭ وَبَرًّا بِوَالِدَیْهِ واَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ٭ وَسَلَام عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا ٭ )

کھٰےٰعص .ان آیات میں، تمہارا ربّ اپنے خاص بندہ زکریا پر اپنی رحمت کے متعلق گفتگو کرتا ہے۔

جب اُس نے تنہا ئی میں اپنے خدا کوآواز دی۔

اُس نے کہا:خدا یا!ہماری ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔

خدا یا میں نے جب بھی تمھیں پکا را محروم نہیں رہا ہوں میں اپنے موجودہ وارثوں (چچا زاد بھائیوں) سے خوفزدہ ہوں اور میری بیوی ابتدا ہی سے بانجھ ہے۔

لہٰذا مجھے ایک فرزند عطا کر جو میری اور آل یعقوب کی میراث پا ئے اور اسے اپنا پسندیدہ قرار دے ۔

(اُنھیںخطاب ہوا) اے زکریا! ہم تجھے یحییٰ نامی ایک فرزند کی خوشخبری دے رہے ہیں.اور اب تک کسی کو اس کا ہم نام قرار نہیں دیا ہے ۔

۱۹۰

کہا:خدا یا ! مجھے کیسے کوئی فرزندپیدا ہو گا جبکہ میری بیوی پہلے ہی سے بانجھ ہے اور میں خود بھی مکمّل بوڑھا ہو چکا ہوں.(فرشتہ نے کہا) تمہارے ربّ کا ارشاد ہے:یہ کام میرے لئے نہا یت آسان ہے.تمھیں اس سے قبل جب کہ تم کچھ نہیں تھے میں نے خلق کیا۔

کہا: خدا یا ! ہمارے لئے کوئی نشا نی قرار دے.کہا: تمہاری علامت اور نشا نی یہ ہے کہ تین شب کلام نہیں کرو گے ۔

(زکریا) محراب(عبادت)سے خا رج ہوئے اور اپنی قوم کی طرف اشارہ کیا کہ صبح اور عصر کے وقت خدا کی تسبیح کرو.اے یحییٰ! کتاب (توریت ) کو مضبوطی سے پکڑلو؛اور اُس کو بچپنے میں مقام نبوت عطا کیا ۔

اور اپنی طرف سے اسے شفقت ، مہر بانی اور پاکیز گی عطا کی اور وہ پارسا اور پرہیز گار تھا.اور اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا تھا ۔

ستمگر اور سرکش نہیں تھا!اُس دن پر درود ہوجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن ابدی زندگی کے لئے مبعوث ہو گا(اُٹھا یا جا ئے گا)۔

سورہ ٔآل عمران کی ۳۸ویں تا ۴۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهُ قَالَ راَبِ هَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً ِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَائِ ٭ فَنَادَتْهُ الْمَلاَئِکَةُ وَهُوَ قَائِم یُصَلِّی فِی الْمِحْرَابِ َنَّ ﷲ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیَی مُصَدِّقًا بِکَلِمَةٍ مِنَ ﷲ وَسَیِّدًا وَحَصُورًا وَناَبِیًّا مِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی غُلاَم وَقَدْ بَلَغَنِی الْکِبَرُ وَامْرََتِی عَاقِر قَالَ کَذَلِکَ ﷲ یَفْعَلُ مَا یَشَائُ ٭ قَالَ راَبِ اجْعَلْ لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ َلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ َیَّامٍ ِلاَّ رَمْزًا وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیرًا وَساَبِحْ بِالْعَشِیِّ وَالِْبْکَارِ ٭ )

یہاں تک کہ زکریا نے اپنے ربّ سے دعا کی اور کہا:خدا یا ! اپنی طرف سے ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا کر کہ تو دعا کا سننے والا ہے ۔

فرشتوں نے اُ نھیں آواز دی جب کہ وہ محراب عبادت میں کھڑے ہوئے تھے کہ:خدا وند عالم تمھیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کہ ایک کلمہ ( حضرت عیسیٰ ہیں) کی تصدیق کر نے والا رہبر، پرہیز گار اور پاکیزہ افراد میں سے پیغمبر ہے۔

آپ نے کہا: خدا یا !مجھے کس طرح کوئی فرزند ہو گا جب کہ میری ضعیفی کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور میری بیوی بانجھ ہے؟!(فرشتہ نے کہا) ایسا ہی ہے خدا جو چا ہتا ہے انجام دیتا ہے۔

(زکریا نے کہا):خدا یا!میرے لئے کوئی علامت قرار دے۔

کہا تمہاری علامت یہ ہے کہ تین دن تک لوگوں سے بات نہیں کرو گے مگر اشارہ سے؛ اپنے ربّ کو بہت زیادہ یاد کرواور صبح وشام اس کی تسبیح کرو۔

۱۹۱

کلمات کی تشریح

۱۔اِشْتَعَلَ الرَّأسُ شَیْباً :

میرے سر کی سفیدی نے پو را سر گھیر لیا ہے؛(بڑھاپے کی وجہ سے میرے سر کے سارے بال سفید ہوگئے) خداوند سبحان نے بو ڑھاپے اور بال کی سفیدی کوآگ سے تشبیہ دی اور بال میں اس کی وسعت وگسترش کو اُس کے شعلہ سے تشبیہ دی ہے۔

۲ ۔ عاقر:

بانجھ عورت۔

۳۔ عَتِیاً:

بہت زیادہ ضیعف،کھو کھلی اور بالکل خالی ۔

۴۔سوّیاً :

یعنی تم بغیر اس کے کہ بیماری میں مبتلا ہو اورصحیح وسالم ہو نے کے باوجود کلام نہیں کر سکتے۔

۵۔فاوحیٰ الیھم :

ان کی طرف اشارہ کیا۔

۶۔خُذ الکتاب بقُوَّةٍ :

اپنی تمام تر طاقت سے توریت کو لے لو۔

۷۔( آتَیْناهُ الحُکْمَ صَبیّاً ) :

جب وہ تین سالہ بچہ تھا تو ہم نے اسے نبوت عطا کی۔

۸۔ حنا ناً :

اُس پر ہماری رحمت اور لطف۔

۱۹۲

آیات کی تفسیر

حضرت زکریا پیری کی منزل کو پہنچ چکے تھے(یعنی بوڑھے ہو چکے تھے)ان کی ہڈیاں کمزور اور سر کے بال سفیدی کی طرف ما ئل ہو چکے تھے. کہ اپنے ربّ سے خطاب کیا، میںبوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے اور اپنے چچا زاد بھا ئیوں کے انجام کا ر سے جو کہ میرے بعد میرے وارث ہو گے خوفزدہ ہوں۔

لہٰذا مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو اور اسے اپنے نیک بندوں میں قرار دے .خدا وند منّا ن نے حضرت زکریا کی دعا قبول کی اور انھیں یحییٰ نامی فرزند کی کہ اُس وقت تک کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا گیاتھا بشارت دی ۔

زکریانے کہا:مجھ سے کیسے فرزند پیدا ہو گا جبکہ میں بوڑھا ،کمزور ،لا غر اور سوکھ چکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے(تولید کے سن سے باہر اور بچہ پیدا کر نے کے قا بل نہیں ہے)۔

خدا وند عالم نے فرمایا یہ کام میرے لئے بہت سہل اور آسان ہے،تمہارا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا لیکن میں نے پیدا کیا۔

زکریا نے کہا: خدا یا! اگر ایسا ہے تو میرے لئے اس عطیہ میں کو ئی علامت اور نشانی قرار دے۔

خدا وند متعال نے فرمایا: وہ علا مت یہ ہے کہ تم صحیح وسالم ہو نے کے باوجود تین رات تک تکلم پر قادر نہیں ہو سکو گے ۔

زکریاجب محراب عبادت سے با ہر نکلے تو اپنی قوم کی طرف اشارہ کیا کہ روزانہ صبح وشام خدا کی تسبیح کرو۔

خدا وند عالم نے یحییٰ پر وحی نازل کی کہ: اے یحییٰ!اپنی تمام طاقت سے توریت کو پکڑ لو: اور اسے عہد طفولیت ہی میں مقام نبوت اور توریت کے مطا لب کا ادراک عطا فرمایا۔

۱۹۳

چھٹا منظر: عیسیٰ بن مریم :

خدا وند سبحان سورۂ مریم کی ۱۶ویں تا ۳۳ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ َهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا ٭ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فََرْسَلْنَا الَیهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا ٭ قَالَتْ ِنِّی َعُوذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ ِنْ کُنتَ تَقِیًّا ٭ قَالَ ِنَّمَا َنَا رَسُولُ راَبِکِ لَِهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا ٭ قَالَتْ َنَّی یَکُونُ لِی غُلَام واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر واَلَمْ َکُنْ بَغِیًّا٭ قَالَ کَذَلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّن وَلِنَجْعَلَهُ آیَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَکَانَ َمْرًا مَقْضِیًّا ٭ فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَکَانًا قَصِیًّا ٭ فََجَائَهَا الْمَخَاضُ الَی جإِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَالَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا ٭ فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا َلاَّ تَحْزَنِی قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا ٭ وَهُزِّی الَیکِ بِجإِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا ٭ فَکُلِی وَاشْراَبِی وَقَرِّی عَیْنًا فَِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ َحَدًا فَقُولِی ِنِّی نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ ُکَلِّمَ الْیَوْمَ ِنسِیًّا ٭ فََتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا ٭ یَاُخْتَ هَارُونَ مَا کَانَ َبُوکِ امْرََ سَوْئٍ وَمَا کَانَتْ ُمُّکِ بَغِیًّا ٭ فََشَارَتْ الَیهِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صاَبِیًّا ٭ قَالَ ِنِّی عَبْدُ ﷲ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی ناَبِیًّا ٭ وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا َیْنَ مَا کُنتُ وََوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا٭ وَبَرًّا بِوَالِدَتِی واَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا ٭ وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ َمُوتُ وَیَوْمَ ُبْعَثُ حَیًّا ٭ )

قرآن میں مریم کو یاد کرو،جب کہ اُس نے اپنے گھرانے سے جدا ہو کر شرقی علاقہ (بیت المقدس) میں سکو نت اختیار کی .اوراپنے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیا میں نے اپنی روح (روح القدس) کو انسانی شکل (خوبصورت) میں اس کے پاس بھیجا۔

مریم نے کہا:میں تم سے خدا کی پناہ چاہتی ہوں شاید کہ تم پارسا اور پاک باز ہو .(روح القدس نے) کہا :یقینا میں تمہارے ربّ کا فرستادہ ہوںآیا ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں ۔

مریم نے کہا! مجھے کیسے کوئی بچہ ہو گا،جبکہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگا یاہے اور نہ ہی میں بد کار ہوں؟!

فرشتہ نے کہا ایسا ہی تمہارے ربّ نے کہا ہے کہ یہ کام ہمارے لئے نہایت آسان اور سہل ہے ہم اس بچہ کو لوگوں کے لئے آیت اورنشانی اور اپنی طرف سے ایک رحمت قرار د یں گے اور یہ امر یقینی ہے ۔

مریم اس بچہ سے حاملہ ہوئیں اور اس کے ساتھ ایک دور دارز جگہ پر ایک گو شہ میں قیام کیا.

۱۹۴

دردِ زہ کھجور کے درخت کے نیچے عارض ہوا(غم واندوہ اور کرب کی شدت سے ا پنے آپ سے کہا ) اے کاش اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور فراموش ہو گئی ہوتی۔

(بچہ نے ) اسے نیچے سے آواز دی کہ : غم نہ کرو،تمہارے ربّ نے تمہارے قدم کے نیچے ایک نہر جاری کی ہے۔

خرمے کی شاخ کو اپنی طرف حرکت دو،تو تم پر تازہ خرمے گریں گے.کھاؤ پیؤ اور خوش وخرم رہو.اور اگر آدمیوں میں سے کسی کودیکھوتو کہو:میں نے خدا وند رحمن کے لئے خاموشی کا روزہ رکھا ہے آج میں کسی سے بات نہیںکروں گی۔

(مریم) حضرت عیسیٰ کو آغوش میں لئے ہوئے قوم کے سامنے آئیں۔

تو انھوں نے کہا:اے مریم! عجب تم نے بُرا کام کیاہے! اے ہا رون کی بہن! تمہارا باپ کوئی بُرا انسان نہیں تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بد کار تھی۔

مریم نے عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا؛انھوں نے کہا:ہم گہوارہ میں موجود بچے سے کیسے کلام کریں ؟! (بچہ امر خدا وندی سے گو یا ہوا)اور کہا! میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے آسمانی کتاب اور نبوت کا شرف عطا کیا ہے..اور ہمیں ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں مبارک قرار دیا ہے۔

اور جب تک زندہ ہوں نماز اور زکاة کی وصیت کی ہے۔

اور میرے لئے اس کا حکم ہے کہ میں اپنی ماں کی ساتھ نیکی کروں اور مجھے بدبخت اور ستم گر قرار نہیں دیا ہے.مجھ پر درود ہو جس دن میں پیدا ہوا ہوںاور جس دن موت آئے گی اور اس د ن جب آخرت کی ابدی زندگی کے لئے دوبارہ مبعوث کیا جاؤں گا۔

۱۹۵

عیسیٰ بن مریم کے ساتھ بنی اسرائیل کی داستان

خداوند عالم سورۂ آل عمران کی ۴۵ تا ۵۲ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ ِنَّ ﷲ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهًا فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَتْ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی وَلَد واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر قَالَ کَذَلِکِ ﷲ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ ِذَا قَضَی َمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ٭ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالِنجِیلَ ٭ وَرَسُولًإ الَی بَنِی ِسْرَائِیلَ َنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ َنِّی َخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فََنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ ﷲ وَُبْرِئُ الَکْمَهَ وَالَبْرَصَ وَُحْیِ الْمَوْتَی بِإِذْنِ ﷲ وَُناَبِئُکُمْ بِمَا تَْکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ ِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ ٭ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلُِحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَجِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ ِنَّ ﷲ راَبِی وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُسْتَقِیم ٭ فَلَمَّا َحَسَّ عِیسَی مِنْهُمْ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ َنْصَارِی الَی ﷲ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ َنْصَارُ ﷲ آمَنَّا بِﷲ وَاشْهَدْ بَِنَّا مُسْلِمُونَ ) ٭)

جب فرشتوں نے مریم سے کہا: اے مریم!خداوند رحمن تمھیں اپنے ایک کلمہ مسیح بن مریم کے نام کی بشارت دیتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں محترم اور معزز ہے اور خدا کے مقر ب لوگوں میں ہے۔

اور وہ گہوارہ میں لوگوں سے بات کرلے گا جس طرح بڑے لوگ کرتے ہیں اور وہ نیک اور شائستہ لوگوں میں ہے۔

(مریم نے )کہا خد ایا! کس طرح مجھے بچہ ہو گا جب کہ مجھے کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگا یا ہے.فرشتہ نے کہا:( خدا کا حکم) ایسا ہی ہے،خدا جو چا ہتا ہے پیدا کر دیتا ہے۔

جب وہ کسی چیز کا ارداہ کرتا ہے تو اس سے کہتاہے ہو جا تو وہ چیز اسی وقت ہو جاتی ہے خدا نے عیسیٰ کو کتاب وحکمت ،توریت وانجیل کی تعلیم دی ہے۔

اور اُس کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبری کیلئے مبعوث کرے گا( تاکہ وہ کہے) میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے لئے ایک معجزہ لایا ہوں.میں تمھارے لئے مٹی سے ایک پرندے کا مجسمہ بناؤں گا اور اس میں پھونک ماروں گا تا کہ خدا کے اذن سے ایک پرندہ بن جا ئے اور کور مادر زاد اور کوڑھی کوخدا کے اذن سے شفادوں گا اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کروںگااور جو کچھ کھاتے ہو یا جو کچھ اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو اس کی خبر دوں گا۔

۱۹۶

یہ معجزات تمہارے لئے(میری رسالت پر) ایک دلیل ہیں اگر تم مومن ہو .وہ توریت جو مجھ سے پہلے تھی اس کی تصدیق کرتا ہوں اور بعض وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اُسے حلال کروں گا اور تمہارے ربّ کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشا نی لا یا ہوں.لہٰذا اے بنی اسرا ئیل خدا سے ڈرو اور میرے حکم کی تعمیل کرو.ﷲ ہی ہمارا اور تمہارا ربّ ہے لہٰذا اس کی عبادت اور پرستش کرو کہ سیدھا راستہ یہی ہے۔

جب عیسیٰ نے ان میں کفر کا احساس کیا،تو کہا ! خدا کی راہ میں ہمارے ساتھی اور چاہنے والے کون لوگ ہیں؟حواریوں نے کہا:ہم خدا کے ناصر ہیں اور خدا پر ایمان لائے ہیں؛گواہ رہو کہ ہم اس کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔

سورۂ صف کی چھٹی آیت میں ارشاد ہوتا ہے؛

( وَإِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِی ِسْرَائِیلَ ِنِّی رَسُولُ ﷲ الَیکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَاْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ َحْمَدُ فَلَمَّا جَائَهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْر مُبِین )

اُس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا:اے بنی اسرائیل!میں تمہاری طرف اللہ کا پیغمبر ہوں،اس توریت کی تصدیق کرتا ہوں کہ جو میرے سامنے ہے اور اپنے بعد ایک ایسے پیغمبر کی خوشخبری اور بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہے۔

پھر جب وہ پیغمبر( رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم ) آیات اور معجزات کے ساتھ خلق کی طرف آیا،تو انھوں نے کہا :یہ (معجزات اور اس کا قرآن)کھلا ہوا سحر ہے ۔

سورہ ٔ نسا کی ۱۵۵ویں تا ۱۵۸ویں آیات میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

( فاَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآ یَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمُ الَنْبِیَائَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ قَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْف بَلْ طَبَعَ ﷲ عَلَیْهَا بِکُفْرِهِمْ فَلاَیُؤْمِنُونَ ِلاَّ قَلِیلًا ٭ واَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا ٭ وَقَوْلِهِمْ ِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ ﷲ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ لَفِی شَکٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ ِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ یَقِینًا ٭ بَلْ رَفَعَهُ ﷲ الَیهِ وَکَانَ ﷲ عَزِیزًا حَکِیمًا )

پھر ان کی عہد شکنی اور آیات خدا وندی کے انکار اور پیغمبروں کے ناحق قتل کی وجہ سے (خدا نے انھیں کفیر کردار تک پہنچا یا یعنی انھیں عذاب دیا) اور کہتے تھے:ہمارے قلوب پو شیدہ اور مستور (چھپے) ہیں بلکہ خدا نے ان کے کفر کی وجہ سے اُن پر مہر لگا دی ہے کہ بجز معدودے چند افراد کے ایمان نہیں لائے اور ان کے کیفر کے با عث اور اس لئے کہ انھوں نے مر یم پر عظیم بہتان باندھا ہے ۔

۱۹۷

اور یہ کہ انھوں نے کہا:ہم نے (حضرت ) مسیح عیسیٰ بن مریم خدا کے پیغمبر کو قتل کرڈ الاہے جبکہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا ہے اور دار پر نہیں لٹکا یا ہے.بلکہ دوسرے کو ان کی شبیہ بنادیا گیاتھااور جن لوگوں نے ان کے قتل کے بارے میں اختلا ف کیا ہے، وہ اس کے بارے میں شک و تردید میں ہیں اور گمان کا اتباع کرنے کے علا وہ کوئی علم نہیں رکھتے؛اور انھوں نے اس کو یقینا قتل نہیں کیا. بلکہ خدا وند عالم نے انھیں اپنی طرف اوپر بلا لیا اور خدا عزیز اور حکیم ہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔ کَلِمة :

یہاں پر ایک ایسی مخلوق کے معنی میں ہے کہ خدا وند عالم نے جس کو کلمہ کن(ہو جا)اور اس جیسے الفاظ کے ذریعہ اور خلقت کے عام اسباب و وسائل کو اس میں دخیل بنائے بغیر پیدا کیا ہے۔

۲۔ انتبذت:

کنارہ کشی اختیار کی،دور ہو کر ایک گوشہ میں چلی گئی۔

۳۔زکےّاً:

طاہر،ہر قسم کی آلودگی سے پاک ۔

۴۔سَرےّاً:

چھوٹی ندی ، پانی کی نہر۔

۵۔ جنّی:

تازہ چُنے ہوئے میوے۔

۱۹۸

۶۔فریّاً:

ایک حیرت انگیز اور نا معلوم امر۔

۷۔اکمہ:

مادر زاد نابینا۔

۸۔مُصدِّقاً :

چونکہ توریت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کی بشارت ہے وہ بھی انھیں صفات کے ساتھ آنا جو کہ توریت میں مذکورہیں لہٰذاحضرت رسول اکر م صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کا وجود توریت کے لئے مصدِّ ق اور تصدیق کر نے والا ہے۔

۹۔بغےّاً :

وہ بد کار(طوائف)عورت جو زنا کے ذریعہ کسب معا ش کرتی ہے۔

گزشتہ آیات کی تفسیر

بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ گرامی حضرت مریم کی داستان قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

فرشتوں نے حضرت مریم کو آواز دی اور اللہ کی خوشخبری دی جو کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی ولا دت سے متعلق تھی کہ حضرت باری تعالیٰ ان کو اپنے کلمہ کن ( ہو جا ) سے اور معروف ومشہور اسباب ووسائل کے بغیر، کو خلق کرے گا اور وہ خدا کے کلام کو گہوار ہ میں اور بڑے ہو نے پر لوگوںکوابلا غ کرے گا۔

حضرت مریم نے ایسا خطاب سن کر کہا: خدا یا ! میں کس طرح دنیامیں کو ئی بچہ پیدا کرسکتی ہوں جب کہ کسی انسان نے مجھے مس تک نہیں کیاہے؟

۱۹۹

جبرئیل خدا کا پیغام انھیں اس طرح ابلا غ کرتے ہیں:

خدا جس کو (اورجو بھی )چا ہتا ہے بغیر اسباب اور بغیر کسی وسیلہ کے صرف (کن) جیسے لفظ سے پیدا کر دیتا ہے اور وہ چیز اسی گھڑی پیدا ہو جا تی ہے ٹھیک اسی طرح جو اسباب ووسائل کے ذریعہ خلق ہوتی ہے۔

پھر جبرائیل نے حضرت مریم کے گلے کے سامنے گریبان میں روح پھونکی اور جو کچھ خدا وند عالم کا ارادہ تھا خود بخود تحقق پاگیا اور مریم حاملہ ہو گئیں۔

جب حضرت مریم نے اپنے اندر کسی بچے کا احساس کیا،تو اپنے خاندان سے ایک دور جگہ چلی گئیں،درد زہ نے انھیںخرمے کے سوکھے درخت کی جانب آنے پر مجبور کیا آپ نے اس سے ٹیک لگا کر کہا:اے کاش اس سے پہلے ہی مر کر نیست ونابود ہو گئی ہوتی ، کہ اسی حال میں ان کے پہلو سے عیسیٰ یا جبرائیل نے آواز دی غمگین نہ ہو خدا وند عالم نے تمہارے قدم کے نیچے ایک چھوٹی نہر جاری کی ہے ، خرمے کی سوکھی شاخ کو حرکت دو تو تازے خرمے گریں گے.پھر اسوقت وہ خرمے کھاؤ اور اس پانی سے سیراب ہو کر خوش وخرم ہو جاؤ اور جب کسی کو دیکھو تو کہو:میں نے خدا کے لئے خاموشی کے روزہ کی نذر کر لی ہے اور ہرگز آج کسی سے بات نہیں کروںگی۔

مریم نومولود کو اٹھا کر قوم کے سامنے آئیں. وہ لوگ منھ بنا نے اور چہر ہ سکوڑ نے لگے اور ناراض ہوکر کہا: اے ہارون کی بہن ! تم نے بہت گندہ اور ناپاک فعل انجام دیا ہے نہ تو تمہارا باپ زنا کار تھا اور نہ تمہاری ماں کوئی بد کار خاتون تھی حضرت مریم نے جناب عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ اس بچے سے بات کرو، وہ تمھیں جواب دے گا،بولے: ہم گہوارہ میں نو مولود سوئے ہوئے بچے سے کیسے بات کریں؟!تو خدا وند عالم نے عیسیٰ کو قوت نطق دی اور زبان گویا ہوئی، کہا: میں خدا کا بندہ ہوں،اس نے مجھے انجیل نامی کتاب دی ہے اور مجھے نبوت کا شرف عطا کیا ہے اور میں جہاں کہیں بھی رہوں مجھے مبارک اور نیک اور امور خیر کے لئے ایک معلّم قرار دیا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اُس وقت تک مجھ نماز(قائم کرنے) زکوة(دینے) اور اپنی ماں کے حق میں نیکی کرنے کاحکم دیا ہے۔

۲۰۰

زيادہ نہ ہوں تو اس پرحج كيلئے انہيں بيچنا واجب نہيں ہے اور وہ مستطيع نہيں ہوگي_

س ۳۶: ايك عورت حج كيلئے استطاعت ركھتى ہے ليكن اس كا شوہر اسے اسكى اجازت نہيں ديتا تو اسكى ذمہ دارى كيا ہے ؟_

ج: واجب حج ميں شوہر كى اجازت معتبر نہيں ہے ہاں اگر شوہر كى اجازت كے بغير حج پر جانے سے عورت حرج ميں مبتلا ہوتى ہو تو وہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_

س ۳۷: اگر شادى كے عقد كے وقت ميرے شوہر نے مجھے حج كرانے كا وعدہ ديا ہو تو كيا ميرے ذمے ميں حج مستقر ہوجائيگا؟

ج: صرف اس سے حج ذمے ميں مستقر نہيں ہوتا_

س ۳۸: كيا حج كى استطاعت حاصل كرنے كيلئے ضروريات زندگى ميں تنگى

۲۰۱

لانا جائز ہے ؟

ج: يہ جائز ہے ليكن شرعا واجب نہيں ہے البتہ يہ تب ہے جب تنگى اپنے آپ پر كرے ليكن جن اہل و عيال كا خرچ اس پر واجب ہے ان پر معمول كى حد سے تنگى كرنا جائز نہيں ہے_

س ۳۹:ماضى ميں ميرى طرف سے دين كى پابندى اور اس كا اہتمام كوئي اچھا نہيں تھا اور ميرے پاس اتنا مال تھاجو سفر حج كيلئے كافى تھا ( يعنى ميں مستطيع تھا) ليكن اپنى اس حالت كيوجہ سے ميں حج پر نہيں گيا تو اس وقت ميرے لئے كيا حكم ہے؟جبكہ اس وقت ميرے پاس لازمى رقم نہيں ہے _ جيسا كہ اسكے دو راستے ہيں ايك ادارہ حج ميں نام لكھوا كر اور ايك دوسرا راستہ كہ جس ميں زحمت زيادہ ہے تو كيا حكومت كے ہاں نام لكھوا دينا كافى ہے ؟

ج: اگر آپ ماضى ميں مستطيع تھے اور فريضہ حج كى ادائيگى

۲۰۲

كيلئے سفر پر قادر تھے اسكے باوجود آپ نے حج كو مؤخر كيا تو آپ پر حج مستقر ہوچكاہے اور آپ پر ہر جائز اور ممكن طريقے سے حج پر جانا واجب ہے البتہ جبتك عسر وحرج نہ ہو اور اگر آپ سب جہات سے مستطيع نہيں تھے تو سوال كى مفروضہ صورت ميں آپ پر حج واجب نہيں ہے_

س ۴۰: جب مسجدالحرام خون يا پيشاب كے ساتھ نجس ہوجاتى ہے تو جو لوگ اسے پاك كرنے پر مامور ہيں وہ ايسے طريقے كو استعمال كرتے ہيں جو پاك نہيں كرتا تو رطوبت ہونے يا نہ ہونے كى صورت ميں مسجد كى زمين پر نماز پڑھنے كا كيا حكم ہے ؟

ج: جبتك سجدے والى جگہ كے نجس ہونے كا علم نہ ہو نماز پڑھنے ميں كوئي حرج نہيں ہے _

س ۴۱: كيا مسجد نبوى ميں جائے نماز پر سجدہ كرنا صحيح ہے؟ بالخصوص روضہ

۲۰۳

شريفہ ميں كہ جہاں كوئي ايسى چيز ركھنا جس پر سجدہ كرنا صحيح ہے _جيسے كاغذ يادرخت كى شاخوں سے بنى ہوئي جائے نماز _توجہ كو جذب كرتاہے اور نمازى لوگوں كى نظروں كا نشانہ بنتاہے جيسے كہ اس سے مخالفين كو مذاق اڑانے كا بھى موقع ملتاہے_

ج: كسى ايسى چيز كا ركھنا كہ جس پر سجدہ صحيح ہے اگر تقيہ كے خلاف ہو تو جائز نہيں ہے اور اس پر واجب ہے كہ ايسى جگہ كا انتخاب كرے كہ جس ميں مسجد كے پتھروں پريا كسى ايسى چيز پر سجدہ كرسكے كہ جس پر سجدہ كرنا صحيح ہے البتہ اگر اس كيلئے يہ ممكن ہو ورنہ تقيةً اسى جائے نماز پر سجدہ كرے_

س ۴۲: اذان و اقامت كے وقت دو مسجدوںسے نكلنے كا كيا حكم ہے جبكہ اہل سنت برادران انكى طرف جارہے ہوتے ہيں اور اس وقت ہمارے نكلنے كے بارے ميں باتيں كررہے ہوتے ہيں ؟

ج: اگر دوسروں كى نظر ميں يہ كام نماز كو اسكے اول وقت

۲۰۴

ميں قائم كرنے كو ہلكا سمجھنا شمار ہوتاہو تو جائز نہيں ہے بالخصوص اگر اس ميں مذہب پر عيب لگتاہو_

س ۴۳: ايك شخص اپنے شہر پلٹنے كے بعد متوجہ ہوتاہے كہ عمل كے دور ان اس كا احرام نجس تھا تو كيا وہ احرام سے خارج ہے يانہيں ؟

ج: اگر وہ موضوع يعنى عمل كى حالت ميں اپنے احرام ميں نجاست كے وجود سے جاہل ہو تو وہ احرام سے خارج ہے اور اس كا طواف اور حج صحيح ہے ؟

س ۴۴: جسمكلفنے كسى كو نائب بنايا ہو كہ اسكى طرف سے قربانى كرے تو كيا نائب كے پلٹنے اور اسكے يہ خبر دينے سے پہلے كہ قربانى ہوچكى ہے اس كيلئے تقصير يا حلق كرنا جائز ہے ؟

ج: اس پر واجب ہے كہ انتظار كرے يہاں تك كہ نائب كى طرف سے قربانى ہوجانے كا انكشاف ہوجائے ليكن

۲۰۵

اگر حلق يا تقصير ميں جلدى كرے اور اتفاقاً يہ نائب كى طرف سے قربانى ہو جانے سے پہلے ہو تو اس كا عمل صحيح ہے اور اس پر اعادہ واجب نہيں ہے _

س۴۵: جس مكلف نے اپنى طرف سے قربانى كرنے كيلئے كسى كو نائب بنايا ہوا ہے كيا اس كيلئے نائب كى طرف سے اسے ذبح كرنے كى خبر پہنچنے سے پہلے سونا جائز ہے ؟

ج: اس سے كوئي مانع نہيں ہے _

س۴۶: موجودہ دور ميں منى ميں قربانى كو ذبح كرنا ممكن نہيں ہے بلكہ اس كيلئے انہوں نے منى سے باہر ليكن منى كے قريب ہى ايك جگہ معين كرركھى ہے اور دوسرى جانب سے قربانى كے جانور كہ جن كيلئے بڑى رقوم خرچ كى جاتى ہيں كہاجاتاہے كہ ان كاگوشت وہيں پھينك دياجاتاہے اور وہ گل سٹر كر ضائع ہوجاتاہے جبكہ اگر انہيں ديگر ممالك ميں ذبح كيا جائے تو ان كا

۲۰۶

گوشت ضرورت مند فقرا كو ديا جاسكتاہے تو كيا حاجى كيلئے جائز ہے كہ وہ اپنے ملك ميں قربانى كرے اور كسى كے ساتھ طے كرلے كہ وہ اسكى طرف سے قربانى كردے يا ديگر ممالك ميں اور ٹيليفون كے ذريعے قربانى كرلے يا اسے مقررہ جگہ پر ہى ذبح كرنا واجب ہے اور كيا اس مسئلہ ميں اس مرجع كى طرف رجوع كرنا جائز ہے جو اسكى اجازت ديتاہے جيسے كے بعض بزرگ فقہاء سے يہ منقول ہے ؟

ج: يہ كام جائز نہيں ہے اور قربانى صرف منى ميں ہوسكتى ہے اور اگر يہ ممكن نہ ہو توجہاں اس وقت قربانى كى جاتى ہے وہيںكى جائيگى تا كہ قربانى كے شعائر كى حفاظت كى جاسكے كيونكہ قربانى شعائر اللہ ميں سے ہے _

س ۴۷: اگر حكومت منى كے اندر قربانى كرنے پر پابندى لگادے تو كيا حجاج كيلئے مكہ مكرمہ سے باہر قربانى كرنا جائز ہے اور كيا مكہ كے اندر قربانى كرنا كافى ہے ؟

۲۰۷

ج: حج كى قربانى كافى نہيں ہے مگر منى ميں ہاں اگر اس ميں قربانى كرنے پر پابندى لگ جائے تو اس كيلئے جو جگہ تيار كى گئي ہے وہاں قربانى كرنا كافى ہے جيسے كہ اس صورت ميں مكہ كے اندر قربانى كرنا بھى كافى ہے ليكن اگر قربانى كى جگہ كا منى سے فاصلہ اتنا ہى ہو جتنا اس جگہ كا ہے جو قربانى كيلئے تيار كى گئي ہے يا اس سے كم ہو_

۴۸: ايسے خيراتى ادارے موجود ہيں جو حاجى كى نيابت ميں قربانى كرتے ہيں اور پھر اسے ضرورتمند فقرا كے حوالے كرديتے ہيں اس سلسلے ميں راہبر معظم كى رائے كيا ہے اور كيا جناب عالى كى نظر ميں اسكى شرائط ہيں ؟

ج: قربانى كى ان شرائط كا احراز كرنا ضرورى ہے كہ جو مناسك ميں ذكر ہوچكى ہيں _

س ۴۹: كيا قربانى كو ذبح كرنے كے بعد اسے ان خيراتى اداروں كو دينا

۲۰۸

جائز ہے جو اسے فقرا تك پہنچاتے ہيں ؟

ج: اس ميں كوئي حرج نہيں ہے _

س ۵۰: صفا و مروہ كے درميان سعى كرتے وقت صفا و مروہ كے پہاڑوں كے پاس لوگوں كى بڑى تعداد جمع ہوجاتى ہے جو سعى كرنے والوں كى بھيڑ كا سبب بنتى ہے تو كيا سعى كرنے والے پر واجب ہے كہ وہ ہر چكر ميں خود پہاڑ تك جائے يا سنگ مر مر سے بنى ہوئي پہلى بلندى كافى ہے كہ جو چلنے سے عاجز لوگوں كے راستے كے ختم ہونے كے ساتھ شروع ہوتى ہے ؟

ج: اس حد تك چڑھنا كافى ہے كہ جسكے ساتھ يہ صدق كرے كہ يہ پہاڑ تك پہنچاہے اور اس نے دو پہاڑوں كے درميان كے پورے فاصلے كى سعى كى ہے _

س ۵۱: كيا عمرہ مفردہ اور حج تمتع كيلئے ايك طواف النساء كافى ہے ؟

ج: عمرہ مفردہ اور حج تمتع ميں سے ہر ايك كيلئے الگ

۲۰۹

طواف النساء ہے پس ايك طواف دو طواف سے كافى نہيں ہے ہاں مُحل ہونے كيلئے ايك طواف كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے_

س ۵۲: جو شخص بارہويں كى رات منى ميں بسر كرے اور آدھى رات كے بعد كوچ كرے تو كيا اس پر واجب ہے كہ زوال سے پہلے اسكى طرف واپس پلٹ آئے تا كہ يہ بھى وہ كو چ كرسكے جو وہاں پر موجود لوگوں كيلئے زوال كے بعد واجب ہوتاہے اور اس بات سے كوئي مانع ہے كہ وہ صبح كے وقت منى آكر جمرات كو كنكرياں مارلے پھر مكہ پلٹ جائے يا اس پر وہيں رہنا واجب ہے ؟ بالخصوص جب وہ اپنے اختيار كے ساتھ ظہر كے بعد جمرات كو كنكرياں مارنے اور مغرب سے پہلے منى سے نكلنے پر قادرہے_

ج : جو شخص منى ميں ہے اس پر واجب ہے كہ زوال كے بعد كوچ كرے اگر چہ اس طرح كے زوال كے بعد جمرات

۲۱۰

كو كنكرياں مارنے كيلئے مكہ سے آجائے اور كنكرياں مارنے كے بعد غروب سے پہلے كوچ كرجائے پس آدھى رات كے بعد مكہ جانا جائز ہے ليكن كنكرياں مارنے كيلئے بارہويں كے دن پلٹ آئيگا اور زوال كے بعد كوچ كرےگا_

س ۵۳: آيت اللہ گلپايگانى (قدس سرہ) كے اعمال حج كى كتاب ميں اعمال حج سے متعلقہ بہت سارے مستحبات مذكور ہيں _ ان مستحبات پر عمل كرنے كے سلسلے ميں جناب كى كيا رائے ہے؟

ج: قصد رجاء كے ساتھ ان پر عمل كرنے ميں كوئي حرج نہيں ہے_

س ۵۴: كيا اس آب زمزم سے وضو كرنا جائز ہے جو پينے كيلئے مخصوص ہے_

ج: مشكل ہے اور احتياط كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

دعای عرفه

اس کتاب کے صفحہ ۲۱۹ سے ۲۴۷ تک دعا عرفہ ہے

۲۱۱

فہرست

مقدمہ: ۷

وجوب حج كے منكر اور تارك حج كا حكم ۸

حج كى اقسام: ۹

نيز حج كى تين قسميں ہيں تمتع ، افراد ، قران ۱۰

باب اول: ۱۱

حَجة الاسلام اورنيابتى حج كے بارے ميں ۱۱

فصل اول : حجة الاسلام ۱۲

حجة الاسلام كے وجوب كے شرائط ۱۳

پہلى شرط : ۱۳

دوسرى شرط: ۱۴

تيسرى شرط : ۱۵

ہر ايك كى تفصيل ۱۵

الف : مالى استطاعت : ۱۵

۱_ زاد و راحلہ ۱۶

۲_ سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات ۲۰

۳_ ضروريات زندگي: ۲۱

۴_ رجوع الى الكفاية: ۲۴

مالى استطاعت كے عمومى مسائل ۲۶

ب_ جسمانى استطاعت: ۲۹

۲۱۲

ج_ سربى استطاعت: ۳۰

د_زمانى استطاعت: ۳۱

دوسرى فصل :نيابتى حج ۳۲

نائب كى شرائط : ۳۵

منوب عنہ كى شرائط : ۳۷

چند مسائل : ۳۸

باب دوم : ۴۴

حج و عمرہ كے اعمال كے بارے ميں ۴۴

حج و عمرہ كى اقسام ۴۵

چند مسائل: ۴۶

حج تمتع اور عمرہ تمتع كى صورت ۴۹

حج افراد اور عمرہ مفردہ ۵۱

حج قران ۵۲

حج تمتع كے عمومى احكام : ۵۳

پہلاحصہ : ۵۶

اعمال عمرہ كے بارے ميں ۵۶

پہلى فصل :مواقيت ۵۷

مذكورہ مواقيت كے بالمقابل مقام ۶۰

چند مسائل : ۶۱

دوسرى فصل :احرام ۶۶

۲۱۳

۱_ احرام كے واجبات ۶۶

اول : نيت ۶۶

دوم : تلبيہ ۶۹

سوم : دو كپڑوں كا پہننا ۷۲

۲_ احرام كے مستحبات ۷۶

۳_ احرام كے مكروہات ۷۷

۴_ احرام كے محرمات ۷۸

محرمات احرام كے احكام : ۸۰

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا ۸۰

۲_ اس چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے پورے حصے كو چھپالے_ ۸۲

۳_ مرد كا اپنے سر اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھا نپنا ۸۴

۴_ مردوں كيلئے سايہ كرنا _ ۸۷

۵_ خوشبو كا استعمال: ۸۹

۶_ آئينے ميں ديكھنا: ۹۱

۷_ انگوٹھى پہننا: ۹۲

۸_ مہندى اور رنگ كا استعمال كرنا : ۹۳

۹_ بدن پر تيل لگانا : ۹۳

۱۰_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا: ۹۴

۱۱_ سرمہ ڈالنا: ۹۶

۱۲_ ناخن تراشنا: ۹۶

۲۱۴

۱۳_ بدن سے خون نكالنا ۹۸

۱۴_ فسوق: ۹۹

۱۵_ جدال ۹۹

۱۶_ حشرات بدن كو مارنا: ۱۰۱

۱۷_ حرم كے پودوں اور درختوں كو كاٹنا: ۱۰۱

۱۸_ اسلحہ اٹھانا: ۱۰۲

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا: ۱۰۲

۲۰_ جماع ۱۰۳

۲۱_ عقد نكاح: ۱۰۴

۲۲_ استمنائ ۱۰۵

محرمات احرام كے كفارات كے احكام ۱۰۵

مكہ مكرمہ كى طرف جانا ۱۰۶

حرم ميں داخل ہونے كى دعا ۱۰۷

مسجد الحرام ميں داخل ہونے كے مستحبات ۱۰۸

تيسرى فصل : ۱۱۰

طواف اور نماز طواف كے بارے ميں ۱۱۰

طواف: ۱۱۰

طواف كى شرائط ۱۱۱

پہلى شرط نيت ۱۱۱

دوسرى شرط : حدث اكبر اور اصغر سے پاك ہونا ۱۱۳

۲۱۵

تيسرى شرط: بدن اور لباس كا خبث سے پاك ہونا ۱۲۰

چوتھى شرط : ختنہ ۱۲۳

پانچويں شرط: شرم گاہ كو چھپانا ۱۲۳

چھٹى شرط: طواف كى حالت ميں لباس كاغصبى نہ ہو نا ۱۲۴

ساتويں شرط: موالات ۱۲۴

طواف كے واجبات ۱۲۶

اول: حجر اسود سے شروع كرنا يعنى اسكے بالمقابل جگہ سے شروع ۱۲۶

دوم: ہر چكر كو حجر اسود پر ختم كرنا : ۱۲۶

سوم: طواف بائيں جانب ہوگا اس طرح كے طواف كے دوران خانہ كعبہ حاجى كى بائيں طرف ہو اور اس سے مقصود طواف كى سمت كو معين كرنا ہے _ ۱۲۷

چہارم: حجر اسماعيل عليہ السلام كو اپنے طواف كے اندر داخل كرنا اور اسكے باہر سے طواف كرنا _ ۱۲۸

پنجم : طواف كے دوران ميں خانہ كعبہ اور اسكى ديوار كى نچلى جانب كى ۱۲۸

ہفتم : طواف كے سات چكر ہيں _ ۱۳۰

نماز طواف : ۱۳۳

چوتھى فصل :سعي ۱۳۶

سعى كے ترك كرنے اور اس ميں كمى بيشى كرنے كے بارے ميں چند مسائل ۱۳۹

پانچويں فصل: تقصير ۱۴۱

دوسرا حصہ: ۱۴۵

اعمال حج كے بارے ميں ۱۴۵

پہلى فصل :احرام ۱۴۶

۲۱۶

دوسرى فصل :عرفات ميں وقوف كرنا ۱۴۹

تيسرى فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف كرنا ۱۵۲

چوتھى فصل :كنكرياں مارنا ۱۵۴

كنكرياں مارنے (رمي) كى شرائط ۱۵۴

كنكريوں كى شرائط: ۱۵۶

پانچويں فصل :قربانى كرنا ۱۵۸

دوم : صحيح و سالم ہونا ۱۵۹

سوم: يہ كہ بہت دبلا نہ ہو ۱۵۹

چھٹى فصل :تقصير يا حلق ۱۶۳

ساتويں فصل : مكہ مكرمہ كے اعمال ۱۶۷

آٹھويں فصل: منى ميں رات گزارنا ۱۷۱

نويں فصل :تين جمرات كو كنكرياں مارنا ۱۷۴

متفرق مسائل : ۱۷۸

حج كا حكم كيا ہے ؟ ۱۸۱

دعای عرفه ۲۱۱

۲۱۷

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352