اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 352
مشاہدے: 110466
ڈاؤنلوڈ: 2228


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110466 / ڈاؤنلوڈ: 2228
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد 3

مؤلف:
اردو

خداوندعالم نے حضرت عیسیٰ کو رسالت کے ساتھ بنی اسرا ئیل کی جانب بھیجا. اور انھیں چند معجزات بھی عطا کئے تا کہ ان کی رسالت کی صداقت پر گواہی رہے۔

آپ مٹی سے پرندہ کی شکل بناتے تھے اور اُس میں پھو نک مارتے تھے،،تو وہ مجسمہ خدا کے اذن سے ایک زندہ پرندہ ہو جاتا تھااور اپنے ،بال وپر پھڑ پھڑانے لگتا تھا ؛ اور جوکچھ وہ اپنے گھروں میں کھاتے یا ذخیرہ کرتے تھے اس کی وہ خبر دیتے .اور پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو خدا کی اجازت سے شفا دیتے اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کر دیتے تھے۔

جو کچھ ان کے بارے میں اُن سے پہلے توریت میں ذکر ہوا تھا ان میںمکمّل طور پر صادق آیا اور وہ ان سے بھر پور مطابقت رکھتا تھا وہ اسی طرح حضرت خا تم الانبیاء محمد مصطفی صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کی خبر دیتے تھے۔

آخر کار بنی اسرائیل اُ ن پر ایمان نہیں لائے اور ان کی تکفیر کرتے ہوئے بو لے:یہ کھلا ہوا اور واضح سحر ہے ۔

آخر کار جب حضرت عیسیٰ نے ان کے کفر وعناد کا احساس کیا تو فرمایا! کون لوگ ہمارے ساتھ خدا کے دین کی نصرت کریں گے؟

حواریوں نے انھیں جواب دیا :ہم خدا کے ناصر ومدد گار ہیں،ہم خدا پر ایمان لائے ہیںاور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں. اس طرح سے بنی اسرائیل نے جو حضرت موسیٰ کے ذریعہ خدا سے عہد و پیمان کیا تھا؛( وہ یہ کہ جوکچھ توریت میں مذکور ہے اس پر ایمان لائیں گے اور حضرت عیسیٰ اور ان کے بعد خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائیں گے). اُس عہد و پیمان کو توڑ ڈالا اور کفر وعناد کا راستہ اختیار کر لیا۔

انھوں نے اسی طرح حضرت مریم پر عظیم بہتان باندھا اور بہت بڑی تہمت لگائی اور بو لے:

وہ یوسف نا می ایک بڑھی شخص سے حا ملہ ہوئی ہے اور عیسیٰ کو پیدا کیا ہے۔

پھر وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے قتل اور دار پر لٹکا نے کے درپئے ہوگئے۔

تو خدا وند عالم نے،اسی یہودی مرد کو جو حضرت عیسیٰ کو پکڑ کر لانے کے لئے دشمنوں کا راہنما بنا تھا اسے حضرت عیسیٰ کی شکل و صورت میںتبدیل کر دیا اور بنی اسرا ئیل نے بھی اُسی کو پھانسی کے پھند ے پر لٹکا یااور یہ خیال کیا کہ عیسیٰ بن مریم کو دار پر لٹکا دیا ہے؛جبکہ خدا وند منّان نے انھیں اپنی طرف بلندی پر بلا لیا ہے۔

۲۰۱

( ۱۱ )

فترت کا زمانہ

*عصر فترت کے معنی.

*فترت کے زمانے میں ،پیغمبر کے آباء و اجداد کے علا وہ انبیاء اور اوصیاء

*حضرت ابراہیم کے وصی حضرت اسمٰعیل کے پوتوں کے حالات

*پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کہ جو لوگ فترت کے زمانے میں تبلیغ پر مامور تھے.

۲۰۲

عصر فترت کے معنیٰ

خداوند سبحان سورۂ مائدہ کی ۱۹ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( ...قَدْ جَاْء َکُمْ رَسُوْلُنَاْ یُبیِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُوْ لُوامَاجَاْئَنَا مِنْ بَشِیرٍ وَ لَاْ نَذیرٍ فَقَدْ جَائَ کُمْ بَشِیْر وَنَذیر وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیِٔ قَدِیْر )

... تمہارے پاس ہمارا رسول آیا تاکہ تمہارے لئے ان دینی حقائق کو رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد بیان کر ے،تا کہ یہ نہ کہو کہ ہمارے لئے کوئی بشارت دینے اور ڈارنے والا نہیں آیا بیشک تمہاری طرف بشارت دینے والا،ڈرانے والارسول آیا اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اور سورۂ یس کی ۱ اور ۳ اور ۶ آیات میں ارشاد فر ماتا ہے:

( یٰس٭وَاْلقُرْآنِ الْحَکِیْمِ٭اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینْ٭...٭لِتُنذِرَ قَوْ ماً مَا أُنذِر آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَاْفِلُونَ )

ےٰس (اے پیغمبروں کے سید وسردار ) قرآن کریم کی قسم کہ تم رسولوں میں سے ہو..... تا کہ ایسی قوموں کو ڈراؤ جن کے آباء واجداد کو ( کسی پیغمبر کے ذریعہ)ڈرایا نہیں گیا ہے،کہ وہ لوگ غافل اور بے خبر ہیں۔

اسی کے مانند سورۂ قصص کی ۲۸ویں آیت اور سورۂ سجدہ کی تیسری آیت اور سورۂ سبا کی ۳۴ویں اور ۴۴ویں آیا ت میں بھی مذکور ہے۔

اور سورۂ شوریٰ کی ۷ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ کَذلِکَ أَوْ حَیْنَاْ اِلیکَ قُرآناً عَراَبِیّاً لِتُنذِرَ أُمَّ الْقُریٰ وَمَنْ حَوْلَهَاْ... )

اور اسی طرح قرآن کو (گویا اور فصیح) عربی میں ہم نے تم پر وحی کیا تا کہ مکّہ کے رہنے والوں اور اس کے اطراف ونواحی میں رہنے والوں کو انذار کرو(خدا کے عذاب سے ڈراؤ)۔

سورہ ٔسبا کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَاْاَرسَلْنَاْکَ اِلاَّ کَافَّةًلِلنَّاسِ بَشِیْراً وَ نَذْیَراًوَلکنََّ اَکْثَرَ الَنّاسِ لَاْ یَعْلَمُوْنَ )

ہم نے تمھیں تمام لو گوں کے لئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے؛ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے نا واقف ہیں۔

۲۰۳

کلمات کی تشریح

۱۔ فَتْرة:

فترت لغت میں دو محدود زمانوں کے فاصلہ کو کہتے ہیں.اور اسلامی اصطلاح میں زمانہ کا ایسا فاصلہ جو دو بشیر ونذیر رسول کے درمیان واقع ہوتا ہے۔

۲۔ اُمُّ الْقُریٰ:

شہر مکّہ مکرمہ۔

۳۔کا فة :

سب کے سب،سارے کے سارے اور تمام۔

حضرت اما م علی نے ارشاد فرما یا:خدا وند عالم نے رسول اکر م صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبروں کے درمیان زمانے کے فاصلے میں اور اُس وقت مبعوث کیا جب امتیں خواب غفلت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں.اور وہ احکام خدا وندی جو رسولوں کی زبانی محکم اور استوار ہوئے تھے ان کو پامال کررہی تھیں ۔( ۱ )

گزشتہ آیات کی تفسیر

خا تم الا نبیاء حضرت محمد مصطفی صلّیٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم پیغمبروں کے درمیان فترت کے زمانے میں نہ کہ انبیاء کے درمیان فترت کے زمانے میں مبعوث بہ رسالت ہوئے۔

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ، تالیف محمد عبدہ، طبع مطبع الاستقامة مصر، ج ۲، ص ۶۹،خطبہ، ۱۵۶ اوراسی سے ملتا جلتا مطلب خطبہ نمبر ۱۳۱ میں بھی ذکر ہوا ہے.

۲۰۴

کیو نکہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بعد کو ئی بشارت دینے والا،انذار کرنے والا(اللہ کے ثواب اور اس کی جز ااور پا داش کی بشارت دینے والا اور گناہ و نا فرمانی کی بناء پرخدا کے عذاب سے ڈرانے والا )کہ جس کے ہمراہ اس کے ربّ کی طرف سے کو ئی آیت یا معجزہ ہو کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا۔

حالت اسی طرح تھی یہاں تک کہ خدا وند عالم نے خاتم ا لانبیاء صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کو بشیر ونذیر بناکر اور قرآنی معجزوں کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ مکّہ اور اس کے اطراف ونواحی میں رہنے والوں کو بالخصوص اور عمومی طور پر دیگر لوگوں کو انذار کر یں۔

اس نکتہ کی طرف تو جہ ضروری ہے کہ پا نچ سو سال سے زیادہ کے طولا نی دور میں انبیا ء اور اوصیاء کا وجود لوگوں سے منقطع نہیں تھا اور خدا وندا عالم نے انسانوں کو اس طولا نی مدت میں آزاد نہیں چھوڑا تھا بلکہ اپنے دین کی تبلیغ کر نے والوں اور حضرت عیسیٰ کی شریعت پر اور ابرا ہیم کے دین حنیف کی تبلیغ کے لئے اوصیاء کو آمادہ کر رکھا تھا کہ ہم انشاء اللہ ان اخبار کو تحقیق کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔

۲۰۵

( ۱۲ )

*پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد کے علاوہ فترت کے زمانے میں انبیاء اور اوصیائ

فترت کے زمانے میں انبیاء اور اوصیائ

سیرۂ حلبیہ میں خلا صہ کے طور پر اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے :

حضرت اسمٰعیل کے بعد حضرت محمد مصطفیٰ صلّیٰٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کے سوا عرب قوم کے درمیان کوئی پیغمبر مستقل شریعت کے ساتھ رسالت کے لئے مبعوث نہیںہو ا ۔

لیکن ''خالد ابن سنان'' اور اس کے بعد '' حنظلہ'' ایک مستقل شریعت کے لئے مبعوث نہیں ہوئے تھے ، بلکہ حضرت عیسیٰ کی شریعت کا اقرار اور اس کی تثبیت کرتے ہوئے اس کی تبلیغ کرتے تھے۔

حضرت عیسیٰ اور حنظلہ کے درمیان زمانے کے لحا ظ سے تین سو سال کا فاصلہ تھا۔( ۱ )

حضرت عیسیٰ اور حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کے درمیان فترت کے زمانے میں جن لوگوں کا نام مسعودی اور دیگر لوگوں نے ذکر کیاہے ان میں سے ایک''خالد ابن سنان عبسی'' ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں فرما یا ہے:

''وہ ایک نبی تھے جن کی ان کی قوم نے قدر وقیمت نہیں جا نی'' اور تاریخ میں دوسرے لوگوں کا نام بھی نبی کے عنوان سے ذکر ہواہے جو کہ جوحضرت عیسیٰ اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان گزرے ہیں ۔( ۲ )

اسی طرح علامہ مجلسی نے اپنی عظیم کتاب بحار الانوار میں کے حالات کو بسط وتفصیل سے حضرت عیسیٰ کے آسمان کی طرف اُٹھائے جا نے کے بعد کے واقعات اور زمانۂ فترت کے واقعات کے باب میں کا ذکر کیا ہے( ۳ )

وہ انبیاء اور اوصیاء جن کی خبریں قرآن کریم،تفا سیر اور تمام اسلامی منابع اور مصادر میں مذکور ہیں وہ لوگ ہیں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے جزیرة العرب اور اس کے اطراف

____________________

(۱)سیرۂ جلسہ:ج ۱، ص ۲۱ اور تاریخ ابن اثیر،طبع اوّل مصر ،جلد ۱ ، ص ۳۱اور تاریخ خمیس جلد۱ ص ۱۹۹. (۲)مروج الذھب مسعودی، ج۱ ص۷۸ اور تاریخ ابن کیثر ج،۲،ص ۲۷۱.(۲)بحار الانوار، ج، ۱۴،ص ۳۴۵.

۲۰۶

میں حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کے اوصیاء کے زمانے تک اور پاک و پاکیزہ اسلامی شریعت کے مطابق مبعوث کیا ہے اور آپ کے اوصیاء حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی شریعت کے پا بند تھے۔

حضرت عیسیٰ کی شریعت کے جملہ اوصیاء میں سے ایک، جن سے اُن کے ماننے والوں نے علم و دانش سیکھا ہے بزرگ صحا بی جناب سلمان فارسی محمدی ہیں کہ جو اس دین کے راہبوںمیں شما ر ہوتے تھے اور ان کی داستان ذیل میں بطورخلا صہ نقل کی جا رہی ہے:( ۱ )

احمد کی مسند، ابن ہشام کی سیرة اور ابو نعیم کی دلا ئل النبوہ میں سلمان فارسی سے متعلق ایک روایت کے ضمن میں اس صحابی کی داستان کو ، حضرت عیسیٰ بن مریم کے اوصیا ء کی آخری فرد کے ساتھ جو کہ عموریہ( ۲ ) نامی جگہ پر مقیم تھے اور سلمان اُن کے ساتھ زندگی گذار رہے تھے اس طرح نقل کیا ہے:

میں عموریہ میں دیر کے راہب کی خد مت میں پہنچا اور اپنی داستان اُن کے سامنے بیان کی !انھوں نے کہا ؛میرے پا س رک جاؤ لہٰذاایک ایسے انسا ن کے پاس جو اپنے چا ہنے والوں کی ہدایت و سرپرستی کی ذمّہ داری لئے ہوا تھا سکونت اختیار کی یہاں تک کہ اسے موت آگئی اور جب وہ مرنے کے قریب ہوا تو میں نے اُس سے کہا: میں فلاں کے پاس تھا مگر جب وہ مرنے لگا تو اُس نے فلاں کے پاس جانے کی وصیت کی،اس دوسرے نے بھی مجھے حا لت احتضار میں فلاں شخص کی وصیت کی اور تیسرے نے بھی تمہارے پاس جا نے کی وصیت کی.اب تم مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہو اور کیا دستور دیتے ہو؟

اس نے کہا: ہاں بیٹا!خدا کی قسم میں اپنے زمانے کے لوگوں میں اپنے دین سے متعلق کسی کو سب سے زیادہ عالم اور عاقل نہیںجانتا کہ میں تمھیں حکم دوں کہ اُس کے پا س چلے جاؤ لیکن تم ایک ایسے پیغمبر کے زمانے میں ہو جو دین ابرا ہیم پر مبعوث ہو گا.وہ سر زمین عرب میں قیام کرے گااور ایسے علاقے میں (جو دوسوختہ زمینوں کے درمیان واقع ہے اور ان کے درمیان نخلستان ہیں) ہجرت کرے گا. اس کی واضح اور آشکار علامتیں اورنشا نیاں ہیں ،ہدیہ تو کھاتا ہے لیکن صدقہ نہیں کھاتا اور اس کے دونوں شانوں کے درمیان نبوت کی مہر لگی ہوئی ہے۔

____________________

(۱) ان کی خبروں سے متعلق سیرہ ٔابن ہشام، ج۱ ،ص ۲۲۷ پر رجوع کریں.

(۲) حموی وفات ۶۲۶ ھ قمری نے اپنی کتاب معجم البلدان میں عموریہ کے بارے میں تحریر کیا ہے: وہ روم کے شہروں میں سے ایک شہر ہے جسے معتصم عباسی وفات ۲۲۷ ھ ق) نے ۲۲۳ میں اُ س پر قبضہ کیا تھا.

۲۰۷

اگر خود کو ایسے علا قے میں پہنچا سکتے ہو تو ایسا ہی کرو اور پھر اس وقت اس کی آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہو گیا۔( ۱ )

یہ فترت کے زمانے میں حضرت عیسیٰ کے بعض اوصیاء کی خبریں ہیں.لیکن حضرت ابراہیم کے دین حنیف کے اوصیاء کے بارے میں آیندہ فصل میں تحقیق کریں گے.اس سے پہلے حضرت اسمٰعیل کی سیرت کا کچھ اجما لی خا کہ پیش کریں گے جو کہ حضرت ابرا ہیم کے اوصیاء کی پہلی شاخ ہیں.پھر جہاں تک ممکن ہو گا انشا ء اللہ ان کے فرزندوں سے اوصیاء کی سیرت کی تشریح کریں گے۔

____________________

۱ ۔ مسند احمد،ج۴،ص۴۴۲۔۴۴۳؛ سیرہ ابن ہشام،وفات ۲۱۳ھ،ج۱،ص۲۲۷؛ دلائل النبوہ، ابو نعیم،وفات ۴۳ ھ.

۲۰۸

( ۱۳ )

حنیفیہ شریعت پر آنحضرت کے وصی حضرت اسمٰعیل کی بعض خبریں.

*مناسک حج ادا کرنے کے لئے حضرت ابرا ہیم

کی حضرت اسمٰعیل کو وصیت.

*حضرت اسمٰعیل کی نبوت اور عمالیق،جر ھم

اور یمنی قبائل کو خدا پرستی کی دعوت دینا.

قرآن کریم میں حضرت اسمٰعیل کی نبوت کی خبر

خدا وند سبحان سورۂ مریم کی ۵۴ویں اور ۵۵ویں آیات میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ اذْکُرْ فِی الْکِتاب ِاِسْمَاْعِیْلَ اِنَّهُ کَانَ صَادِقَ الَوعدِوَکَان رسُو لاً نبیّاً٭وَ کَانَ یَأمُرُ اَهلهُ با لصَّلَاةِ وَالزَّکَاْهِ وَکَان عِندَ راَبِهِ مَرْضِیّاً )

اور اپنی کتاب میں حضرت اسمٰعیل کے حالات زندگی کو یاد کرو کہ وہ وعدہ میں صادق اور رسول ونبی تھے. وہ اپنے اہل وعیال کو نماز (ادا کرنے ) اور زکا ة(دینے) کا حکم دیتے تھے اور اپنے ربّ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ تھے۔

سورہ ٔنساء کی ۱۶۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( ِنَّا َوْحَیْنَا الَیکَ کَمَا َوْحَیْنَإ الَی نُوحٍ وَالنّاَبِیِّینَ مِنْ بَعْدِهِ وََوْحَیْنَإ الَی بْرَاهِیمَ وَِسْمَاعِیلَ وَِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالَسْبَاطِ وَعِیسَی وََیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا )

ہم نے تمہاری طرف بھی تو اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد کے پیغمبروں پر وحی کی تھی اور ابراہیم ،اسمٰعیل ،اسحق ،یعقوب ، اسباط ، عیسیٰ، اےّوب ،یونس ،ہارون ،سلیمان اور داؤد پر ہم نے وحی کی اور داؤد کو زبور بھی دی۔

۲۰۹

حضرت اسمٰعیل کی نبوت،دیگر منابع اور مصادر میں:

حضرت اسمٰعیل اپنے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے سے ہی مکّہ میں زندگی گذار رہے تھے اور اپنے والد کی وصیت کے اجراء کر نے میں جو کہ حج کے شعا ئر کی ادائیگی سے متعلق تھی اورحضرت ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کا ستون ہے، کوشش کی اور انھوں نے رسالت کی تبلیغ بھی انجام دی ہے جس کے متعلق ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں۔

۱۔ تا ریخ یعقوبی میں مذکو رہے:

جب حضرت ابراہیم نے فریضۂ حج انجام دیا اور واپسی کاارادہ کیا تو اپنے فرزند اسمٰعیل سے وصیت کی کہ بیت ﷲ الحرام کے پاس سکونت اختیار کریں اور لوگوں کی حج اور مناسک حج کی ادائیگی میں راہنمائی کریں،اسمٰعیل نے اپنے باپ کے بعد بیت ﷲ الحرام کی تعمیر کی اورمناسک حج کی ادائیگی میں مشغول ہوگئے۔( ۱ )

۲۔ اخبار الزمان میں منقول ہے:

خدا نے حضرت اسمٰعیل کو وحی کی اور آپ کو عمالیق،جرھم اور یمنی قبائل کی جانب بھیجا اسمٰعیل نے انھیں بتوں کی پرستش کرنے سے منع کیا. لیکن صرف معدود ے چند افراد ان پر ایمان لائے اور ان کی اکثریت نے کفر وعناد کا راستہ اختیار کیا۔

یہ خبر کچھ لفظی اختلا ف کے ساتھ مرآة الزمان میں بھی مذکور ہوئی ہے۔( ۲ )

اس طرح حضرت اسمٰعیل نے اپنی پو ری زندگی ان امور کی انجام دہی میں صرف کر دی جن کی ان کے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اُن سے وصیت کی تھی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور مکّہ میں سپرد لحد کردئے گئے۔

ان کے بعد ایسے فرائض کی انجام دہی کے لئے ان کی نسل سے نیک اور شائستہ فرزندوں نے قیام کیا؛ہم انشاء اللہ ان میں سے بعض کا تعارف کرائیں گے۔

____________________

(۱) تا ریخ یعقوبی،ج۱، ص ۲۲۱.(۲) اخبار الزمان، ص ۱۰۳؛ مرآة الزمان ،ص ۳۰۹و ۳۱۰.

۲۱۰

( ۱۴ )

فترت کے زمانے میں پیغمبر کے بعض اجداد کی خبریں عدنان،

مضر اور دیگر افراد

* الیاس بن مضر.

*کنانہ بن خز یمہ.

*کعب بن لؤی.

مکّہ میں بت پرستی کا عام رواج اور اس کے مقابل

اجداد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا موقف

* قُصیّ

*عبد مناف

*جناب ہاشم

*جناب عبد المطلب

*حضرت اسمٰعیل کے خاندان کا خلاصہ

*پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے والدجناب عبد اللہ اور جناب ابو طالب.

۲۱۱

فترت کے زمانے میں پیغمبر اسلام کے بعض اجداد کے حالات.

''سُبل الھدی'' نامی کتاب میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے کہا:

عدنان،مضر، قیس، عیلان، تیم، اسد، ضبّہ اور خزیمہ کے والد''ادد '' مسلمان تھے اور ان کی رحلت بھی ملت ابراہیم پر ہوئی ہے۔( ۱)

ابن سعد کی طبقات میں بھی مذکور ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا:مضر کو بُرا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ مسلمان تھے۔( ۲ )

الیاس بن مضر بن نزاربن محمد بن عدنان

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

''مضر کے فرزندالیاس'' ایک شریف اور نجیب انسان تھے ان کی دوسروں پر فوقیت اور برتری واضح اور آشکا ر ہے.یہ وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اسمٰعیل کی اولا د پر نکتہ چینی کی اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے آباء واجدا کی سنتوں میں تبدیلی کردی تھی .انہوں نے بہت سے نیک افعال انجام دئیے لوگ آپ سے اس درجہ شاد ومسرور تھے کہ اسمٰعیل کے فرزندوں میں''ادد'' کے بعد کسی کے لئے ایسی شادمانی اور مسرت کا اظہار نہیں کیا تھا۔

اُنھوںنے حضرت اسمٰعیل کی اولا د کو اپنے آباء واجداد کی سنت کی مراعات کرنے کی طرف لوٹا یا اس طرح سے کہ تمام سنتیں اپنی پہلی حالت پر واپس آگئیں. وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے موٹے تازے اونٹوں کو خا نہ خدا کی قربانی کے لئے مخصوص کیا اور وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے حضرت ابراہیم کی وفات کے بعد رکن کی بنیاد رکھی؛اسی وجہ سے عرب(الیاس) کو بزرگ اور محترم سمجھتے ہیں...( ۳ )

____________________

(۱)سبل الھُدیٰ والرشاد محمد بن یو سف شامی کی تالیف جو ۹۴۲ھ ق میں وفات کر گئے ہیں،طبع دار الکتب،بیروت، ۱۴۱۴ ھ ق، ص ۲۹۱ اور فتح الباری، ج۷، ص۱۴۶ بھی ملاحظہ ہو.(۲)طبقات ابن سعد،طبع یورپ، ج۱، ص.۳؛اور تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۲۲۶؛ اور کنزالعمّال، ج۱۲، ص۵۹ ،باب الفضائل،چوتھا حصّہ،مضر قبیلہ کے فضائل کے بارے میں حدیث نمبر ۳۳۹۷۸.(۳)تاریخ یعقوبی،ج۱،ص ۲۲۷.

۲۱۲

ان تمام مطالب کے نقل کے بعد''سبل الھدایٰ'' نامی کتاب میں تحریر فرما تے ہیں:

عرب جس طرح سے لقمان کی عظمت اور بزرگی کے قائل تھے اسی طرح انھیں بھی محترم اور معزز شمار کرتے تھے۔( ۱ )

صاحبان شریعت پیغمبروں کے تمام اوصیاء ان صفات اور خصوصیات کے حامل تھے.اس لحاظ سے ''الیاس'' بھی حضرت ابراہیم کے بعد ان کی حنیفیہ شریعت کے ان کے بعد محافط ونگہبان اوصیاء میں سے شمار کئے جاتے ہیں۔

کنانة بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر

''کنانة'' ایک عالی قدر،بلند مقام،نیک صفت اور با عظمت انسان تھے اور عرب ان کے علم وفضل اور ان کی فو قیت اور برتری کی بناء پر ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔

وہ کہا کرتے تھے:مکّہ سے احمد نامی ایک پیغمبر کے ظہور کا وقت آچکا ہے جو لوگوں کو خدا ، نیکی ،جوود بخشش اور مکارم اخلاق کی دعوت دے گا.اس کی پیروی کرو تاکہ تمہاری عظمت وبزرگی میں اضافہ ہو اور اس کے ساتھ عداوت و دشمنی نہ کرنا اور جو کچھ بھی وہ پیش کرے اس کی تکذیب نہ کر نا .کیونکہ جوچیز بھی وہ پیش کرے گا وہ حق ہو گی۔( ۲ )

''کنانہ'' کی بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے اپنے پہلے والے وصی سے علم دریافت کیا ہے۔

کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانة

انساب الاشراف اور تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے(اور ہم انساب الاشراف کی باتوں کو نقل کررہے ہیں ) :

''کعب '' عرب کے نزدیک بڑی قدر وقیمت اور عظیم منزلت و مرتبہ کے حامل تھے اور ان کے روز وفات کو ان کے احترام میں تاریخ کا مبداء قرار دیا تھا. یہاں تک کہ ''عام الفیل'' آگیاا ور اسے تاریخ مبداء قرار دیا اس کے بعد ''جناب عبد المطلب'' کی موت کو تاریخ کا مبداء قرار دیا۔

____________________

(۱)سُبُل الھُدیٰ،ج۱،ص۲۸۹.

(۲) سیرہ ٔحلبیہ،ج۱،ص ۱۶؛ اور سبل الھدیٰ،ج۱،ص ۲۸۶،میں یہاں تک ہے...تا کہ تمہاری عظمت اور بزرگی میںاضافہ ہو.

۲۱۳

کعب حج کے موسم میں لوگوں کے لئے خطبہ پڑھتے اور کہتے تھے:''اے لوگو''! سنو اور سمجھو اور جان لو کہ رات پُر سکون اور خاموش ہے اور دن روشن اور آسما ن کا شامیانہ لگا ہوا ہے اور زمین ہموار و برابر ہے اور ستارے ایسی نشا نیاں ہیں جو بے کا راور لغو پیدا نہیں کئے گئے ہیں کہ تم لوگ اُن سے روگرداں ہو جاؤ. گزشتہ لوگ آیندہ کے مانند ہیں؛اور گھر تمہارے سامنے ہے اور یقین تمہارے گمان کے علا وہ چیز ہے.اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال کرو اور صلہ رحم قائم کرو اور ازداجی رشتوں کو باقی رکھو اور اپنے عہد وپیمان کا پاس ولحاظ کرو اور اپنے اموال کو(تجارت اور معا ملات کے ذریعہ) بار آور اور نفع بخش بناؤ جو کہ تمہاری جوانمردی اور جود و بخشش کی علا مت ہے اور جہاں تم پر انفاق لا زم ہو اُس سے صرف نظر نہ کرو اور اس حرم (خدا کے گھر)کی تعظیم کرو اور اس سے متمسک ہو جاؤ کیونکہ یہ ایک پیغمبرکی مخصوص جگہ ہے اور یہیں سے خاتم الانبیاء اُس دین کے ساتھ جو موسیٰ اور عیسیٰ لائے تھے مبعوث ہو گے پھر اس وقت اس طرح فرماتے تھے:

فترت کے بعد وہ محافظ ونگہبان نبی عالمانہ خبروں کے ساتھ آئے گا .اور یعقوبی کی عبارت میں اس طرح ہے:

اچانک وہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی آجا ئے گا اور سچی اور عالمانہ خبریں دے گا:

پھر کعب کہتے تھے: اے کاش ان کی دعوت اور بعثت کو ہم درک کرتے۔( ۱ )

سبل الھدیٰ والرشاد نامی کتاب میں بطور خلا صہ اس طرح مذکور ہے:

جمعہ کے دن کو ''عروبة'' کا دن کہتے تھے اور کعب وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس کا نام جمعہ رکھا ہے۔( ۲ )

پھر اس کے بعد لفظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ انھیں مذکورہ مطا لب کو اُس نے ذکر کیا ہے۔

جو کچھ ''کعب '' کی تعریف میں مورخین نے ذکر کیا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کے بعد'' اوصیائ'' میں سے ایک وصی تھے کعب اور الیاس حضرت ابراہیم کی دعا کے قبول ہو نے کے دو نمایاں مصداق تھے؛ جب انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں اپنی ذریت کے حق میںدعا کی اور کہا : میری اولاد میں اپنے سامنے سراپا تسلیم ہو نے والی امت قرار دے۔

____________________

(۱)انساب الاشراف، بلاذری، طبع مصر، ۱۹۵۹۔ ج۱، ص۱۶ اور ۴۱؛ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۲۳۶، طبع بیروت، ۱۳۷۹ ھ؛سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص ۹، ۱۵، ۱۶؛ سیرۂ نبوےة، حلیبہ کے حا شہ پر، ج۱، ص۹.(۲)سبیل الھدیٰ والر شادج۱ ،ص۲۷۸.

۲۱۴

مکّہ میں بت پرستی کا رواج اور اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کا موقف

گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ ''جر ھم'' قبیلہ نے ''ہاجرہ'' سے ان کے پاس سکونت کرنے کی اجازت مانگی تا کہ آب زمزم سے بہرہ مند ہوں تو ہا جرہ نے بھی انھیں اجازت دے دی۔

پھر سالوں گزرنے کے بعد ان کے فرزند (اسمٰعیل ) ایک مکمّل جوان ہوگئے، تو ''مضاض جرھمی'' کی بیٹی سے شادی کر لی اور اس سے صاحب اولا د ہوئے۔

پھر حضرت اسمٰعیل کی وفات کے بعد ، ان کے فرزند'' ثابت ''مضاض جرھمی کے نواسے نے امور کی باگ ڈور اپنے ہا تھوںمیں لے لی. ان کی وفات کے بعد ،جر ھم مکّہ کے امور پر قابض ہوگئے اور طغیانی اور سر کشی کی اور حق سے منحرف ہوگئے. ''خزاعہ قبیلہ ''نے اُن سے جنگ کی اور ان پر فاتح ہوگئے( ۱ ) اور مکّہ کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی.بیت ﷲ الحرام کی تو لیت کے ذمّہ دار ہوئے اور رفتہ رفتہ اسمٰعیل کی اولا د بھی کوچ کر گئی اور مختلف شہروں میں پھیل گئی جز معدودے چند افراد کے کہ جنھوں نے خانہ خدا کا جوار ترک نہیں کیا۔( ۲ )

خزاعہ قبیلہ کے سردار سالہا سال تک یکے بعد دیگرے مکّہ کی حکو مت اور بیت اللہ الحرام کی تولیت کے ما لک ہوتے رہے یہاں تک کہ ''عمر وبن لحّی'' کہ جو بڑا مالدار اور کثیر تعداد میں اونٹوں کا مالک تھا اور لوگ اس کے گھر پر کھانا کھا تے تھے جب تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوا ،تو اس کا کا فی اثر و رسوخ تھا اس طرح سے کہ اس کی رفتار وگفتار لوگوں کے لئے قوانین شرعیہ کے مانند لا زم الاجراء مانی جاتی تھی۔( ۳ )

شام کے شہروں میں ایک سفر میں عمر وبن لحی نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ بت کی پو جا کر تے ہیں اور جب اُس نے ان کے بارے میں اُن سے سوال کیا تو اسے جواب دیا:

____________________

(۱)تاریخ ابن کثیر، طبع اوّل، ج۲، ص ، ۱۸۴و۱۸۵ کو ملاحظہ کریں. (۲)تاریخ یعقوبی ج ۱، ص ۲۲۲۔ ۲۳۸.

(۳)تاریخ ابن کثیر، ج۲، ص۱۸۷.

۲۱۵

یہ وہ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں، ان سے بارش کی درخواست کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں بارش سے نوازتے ہیں اور ان سے نصرت طلب کر تے ہیں وہ ہماری مدد کرتے ہیں۔

عمرو نے اُن سے کہا:

ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی بت ہمیں بھی دو تاکہ اسے اپنے ساتھ سرزمین عرب تک لے جائیں اور وہاں کے لوگ اس کی عبادت کریں؟

انھوں نے ا سے '' ہبل'' نامی بت دے دیا، عمرو اس بت کو لے کر مکّہ آیا اور حکم دیا کہ لوگ اس کو عظیم سمجھتے ہوئے اس کی عبادت کریں اس نے حد یہ کی کہ ان بتوں کو حج کے تلبیہ میں داخل کر دیا اور اس طرح سے کہہ رہا تھا:

(لبیک اللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ لاشریک لک،الّا شریک هو لک تملکه و ما ملک )

یعنی لبیک خدایا لبیک، تیرا کوئی شریک نہیں ہے جز اُس شریک کے کہ جو تیری ہی طرف سے ہے، وہ اور جو کچھ اس کے پاس ہے تیری بدولت ہے۔

خدا کے شریک سے اس کی مراد بت تھے۔اس سے خدا کی پناہ۔اسی طرح اُس نے حضرت ابراہیم کے حنفیہ آئین کو بدل ڈالا اور خود اس نے دیگر قوانین بنائے۔

''بحیرہ'' اور'' سائبہ'' کے قوانین اسی کے ساختہ اور پرداختہ افعال میں سے ہیں(اسی کے کارناموں میں شمار ہوتے ہیں) بحیرہ وہ اوٹنی ہے کہ جو کچھ حالات کے تحت اس کا دودھ بتوں اور جعلی خداؤں کی خدمت میں پیش کرتے تھے.سائبہ بھی ایک اونٹ ہی تھا کہ اُسے بتوں سے مخصوص کر دیا تھا ا س سے بوجھ ڈھونے اور بار اٹھانے کا کام نہیں لیا جا تا تھا اور اسے کسی کام میں استعمال نہیں کر تے تھے.( ۱ )

اس طرح سے توحید کی سرزمین پر بت پرستی عام ہوگئی. البتہ ان ناپسندیدہ انحرافات کا صرف ھبل پر انحصار نہیں ہے بلکہ ان بتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور انھیں کعبہ کی دیوار پر بھی آویزاں کردیا گیا۔ان بتوںکی عبادت اور پر ستش مکّہ سے جزیرة العرب کی دیگر آباد سرزمینوں اور مختلف قبائل تک منتقل ہوگئی. وہاں کے لوگوں کے درمیان سے توحید کی علا متیں غائب ہو کرفراموشی کاشکار ہوگئیں اور حضرت ابراہیم کی حنفیہ شریعت میں تحریف واقع ہوگئی۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد کی سیرت کی تحقیق کے بعد بُت پرستی کے مقابلے میں ان کے موقف اور عکس العمل کو بیان کرہے ہیں۔

____________________

(۱)تاریخ ابن کثیر،ج۲، ص۱۸۷ ۔۱۸۹؛ اور اس کا خلا صہ بلا ذری کی انساب الاشراف کی پہلی جلد کے ۲۴ صفحہ پر ملا حظہ ہو.

۲۱۶

قُصیّ بن کلاب بن مرّہ بن کعب

قُصیّ کے جوان اور قوی ہو نے تک مکّہ کی حکومت اور خانہ خدا کا معاملہ خزاعہ قبیلہ کے ہاتھ میں رہا۔ انھوں نے اپنے پر اگندہ اور بکھرے ہوئے خاندان کو جمع کیا اور اپنے مادری بھائی''درّاج بن ربیعہ عذری'' سے نصرت طلب کی.درّاج قضاعہ کے ایسے گروہ کے ساتھ جسے وہ جمع کر سکتا تھا ان کی مدد کو آیا.پھر وہ سب خزاعہ سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں طرف سے کثیر تعداد میں لوگ ما رے گئے،نتیجہ کے طور پر''عمرو بن عوف کنانی'' کے فیصلے پر آمادہ ہوئے.

عمروبن عوف فیصلہ کے لئے بیٹھا اور اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ قُصیّ مکّہ کی حکومت اور خا نہ خدا کی تو لیت کے لئے خزاعہ کے مقابل زیادہ سزاوار ہیں.

قُصیّ نے خزاعہ قبیلہ کو مکّہ سے نکال باہر کیا اور مکّہ کی حکو مت اور خانہ خدا کی خدمت کی ذمّہ داری اپنے ہاتھوںمیں لے لی .اور قریش کے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے قبا ئل کو جو کہ پہاڑوں اور درّوں میں زندگی گزار رہے تھے جمع کیا اور مکّہ کے درّوں اور اس کی دیگر زمینوں کو ان کے درمیان تقسیم کردیا ، اسی لئے اُنھیں '' مجمّع '' ( جمع کر نے والا) کہتے ہیں شاعر نے اس سلسلے میں کیا خوب کہا ہے:

اَبُوْ کُمْ قُصیّ کَاْنَ یُُدْعَیٰ مُجَمِّعا

بِه جَمَعَ اللّٰهُ الْقَبَائِلَ مِنْ فَهِرْ

تمہارے باپ قُصیّ ہیں جنھیں لوگ مجمّع(جمع کرنے والا) کہتے تھے۔

خدا وند عالم نے ان کے ذریعہ فھر کے قبیلوں کو ایک مرکز پر جمع کر دیا۔

قُصیّ نے قریش کے قبیلوں کے لئے''دار الندوة'' جیسی ایک جگہ تعمیر کی تاکہ وہاں اکٹھا ہو کراپنے سے مربوط امور میں ایک دوسرے سے مشورہ کریں .اُنہوں نے اسی طرح خانہ کعبہ کو اس کی بنیاد سے ایسا تعمیر کیا کہ ویسی تعمیر ان سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی۔ (۱ ) قُصیّ بتوں کی پرستش سے شدت کے ساتھ روکتے تھے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی۔ ج۱، ص۲۳۸ ۔۲۴۰.

۲۱۷

قُصیّ اور بیت اللہ الحرام اور حاجیوں سے متعلق ان کا اہتمام

۱۔ ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے :

قُصیّ نے سقایت(سیراب کرنے) اور رفادت (حجاج کی مدد کرنے) کی ذمّہ داری قریش کو دی اور کہا: اے جماعت قریش ! تم لوگ خدا کے پڑوسی،اس کے گھر اور حرم کے ذمہ دار ہو اور حجاج خدا کے مہمان اور اُس کے گھر کے زائر ہیں اور وہ لوگ تعظیم و تکریم کے زیادہ حق دار مہمان ہیں۔لہٰذا حج کے ایام میں ان کے لئے کھانے اور پینے کی چیزیں فراہم کرو جب تک کہ وہ تمہارے علا قے سے اپنے گھروں کو نہ لوٹ جائیں۔

قریش نے بھی حکم کی تعمیل کی اور سا لانہ ایک مبلغ حجاج پر صر ف کر نے کے لئے الگ کر دیتے تھے اور اُسے قُصیّ کو دے دیتے تھے.قُصیّ ان مبلغوں سے مکّہ اور منی کے اےّام میں لو گوں کے کھا نے پینے کا بندوبست کرتے اور کھال سے حوض بنا تے اور اس کو پا نی سے بھرتے اور مکّہ،منی اورعرفات میں لو گوں کو پا نی پلا تے تھے،قُصیّ کی یہ یاد گار اسی طرح ان کی قوم (قریش) کے درمیان زمانۂ جاہلیت میں جاری رہی یہاں تک کہ اسلام کا ظہو ر ہوا اور یہ سنت آج تک اسی طرح اسلام میں باقی اور جا ری ہے۔( ۱ )

۲۔ تا ریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

قُصیّ نے قریش قبیلے کے افراد کو خانہ خدا کے ارد گرد جمع کر دیا اور جب حج کا زمانہ آیا تو قریش سے کہا:

حج کا زمانہ آگیا ہے اور میں کوئی بھی احترام واکرام عرب کے نزدیک کھا نا کھلا نے سے بہتر نہیں جانتا ہوں لہٰذا تم میں سے ہر ایک اس کے لئے ایک مبلغ عطا کرے۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور کا فی مبلغ اکٹھا ہو گیا

جب حاجیوں کا سب سے پہلا گروہ پہونچا،تو آپ نے مکّہ کے ہر چوراہے پر ایک اونٹ ذبح کیا اور مکّہ میں بھی ایک اونٹ ذبح کیا اور ایک جگہ بنائی جس میں غذا،روٹی اور گوشت رکھااور پیاسوں کو دودھ اور پانی سے سیراب کیا اور خا نہ کعبہ کی طرف گئے تو اس کے لئے کنجی اور آستانہ کا انتظام کیا۔( ۲ )

انساب الاشراف میں مذکور ہے:

____________________

(۱)طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج۱،ص۴۱،۴۲.(۲) تاریخ یعقوبی،ج۱،ص ۲۳۹۔۲۴۱،طبع بیروت،۱۳۷۹ھ.

قُصیّ نے کہا : اگر میری دولت ان تمام چیزوں کیلئے کا فی ہوتی تو تمہاری مدد کے بغیر انھیں انجام دیتا (۱)

۲۱۸

۳۔ سیرۂ حلبیہ میں خلا صہ کے طور پر اس طرح مذکور ہے:

جب حج کا وقت نزدیک آیا تو قُصیّ نے قریش سے کہا:

حج کا موقع آچکا ہے اور جو کچھ تم نے انجام دیا ہے عرب نے سنا ہے اور وہ لوگ تمہارے احترام کے قائل ہیں.اور میں کھانا کھلانے سے بہتر عرب کے نزدیک کوئی اور احترام واکرام نہیں جانتا.لہٰذا تم میں سے ہر شخص اس کام کے لئے ایک مبلغ عنایت کرے۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور کافی مبلغ اکٹھا ہو گیا، جب حا جیوں کا سب سے پہلا گروہ پہونچا تو انھوں نے مکّہ کے ہر راستہ پر ایک اونٹ ذبح کیا اور مکّہ کے اندر بھی ایک اونٹ ذبح کیا اور گوشت کا سالن تیار کیا اور میوے کے پانی سے ملا ہوا میٹھا پا نی اور دودھ حجاج کو پلا یا ۔

قُصیّ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے''مزدلفہ '' میں آگ روشن کی تا کہ شب میں لوگ عرفہ سے نکلتے وقت اندھیرے کا احساس نہ کر سکیں۔

اُنھوںنے مکّہ کی تمام قابل اہمیت اور لا ئق افتخار چیزوں کو اپنے ہاتھ میںلے لیااور سقایت (سیرابی) حجاج کی مدد، کعبہ کی کلید برداری، مشاورتی اجلاس کی جگہ دار الندوہ، علمبرداری اور امارت و حکومت اپنے اختیار میں رکھی۔

''عبد الدار'' قُصیّ کی اولاد میں سب سے بڑے تھے اور ''عبد مناف'' اُن سب میں شریف ترین، اُنھوں نے شرافت کو اپنے باپ (قُصیّ) کے زمانے ہی میں اپنے سے مخصوص کر لیا تھا اور ان کی شرافت کا شہرہ ،آفاق میں گونج رہا تھاان کے بھائی ''مطلّب'' کا مرتبہ بھی علو مقام اور بلندی رتبہ کے لحاظ سے ان کے بعد ہی تھا اور لوگ ان دونوں بھائیوں کو بدران ( دو چاند )کہتے تھے.قریش نے عبد مناف کو ان کی جود و بخشش کی وجہ سے فیّاض کا لقب دیاتھا۔

قُصیّ نے اپنے بیٹے عبد الدار سے کہا:

میرے بیٹے: خدا کی قسم تمھیںتمہا رے بھا ئیوں عبد مناف اور جناب عبد المطلب کے ہم پلّہ دوںگا، اگر چہ وہ لوگ مر تبہ کی بلند ی اور رفعت کے لحاظ سے تم پر فو قیت رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) انساب الا شراف۔۱،ص ۵۲.نکلنے کی راہ دیکھ سکیں.

۲۱۹

قرار کوئی مرد بھی کعبہ کے اندار داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم اس کا دروازہ کھو لو. تم کعبہ کے پردہ دار ہو گے قریشیوں کا کوئی پرچم جنگ کے لئے اس وقت تک سمیٹا نہیں جا ئے گا جب تک کہ تم اجازت نہیں دوگے تم قریش کے علمبردار ہو۔

مکّہ میں کو ئی آدمی بھی تمہاری اجازت کے بغیر سیراب نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم پلاؤ کیو نکہ سقایت کامنصب تم سے مخصوص ہے۔

کوئی بھی حج کے ایام میں کچھ نہیں کھا ئے گا مگر یہ کہ تم اسے کھلاؤ ، تم حاجیوں کے میزبان ہو. قریش کا کوئی کام قطعی اور یقینی مرحلہ تک نہیں پہونچے گا مگر یہ کہ تمہارے گھر میں ، تم دار الندوہ کے ذمّہ دار ہو۔ تمہارے سوا کوئی اس قوم کی رہبری نہیں کر ے گا تم اس قوم کے رہبر ہو.اور یہ سارے فخرو مباہات قُصیّ کے عطا کردہ ہیں۔

جب قُصیّ کی موت کا زمانہ قریب آیا تو انھوں نے اپنے فرزندوں سے کہا:شراب سے پرہیز کرو۔( ۱ )

گزشتہ مباحث میں ہم نے حضرت ابراہیم کی سنت میں دو واضح اور آشکار خصوصیتوں کا درج ذیل عنوان کے ساتھ تحقیقی جا ئزہ لیا ہے:

۱۔ بیت اللہ الحرام کی تعمیر اور انجام حج کے لئے لوگوں کو دعوت دینا اور اس کے شعائر کا قائم کرنا۔

۲۔ مہمانوں کو کھانا کھلا نے اور ان کی تعظیم وتکریم کی جانب ان کی تو جہ۔

ان دوخصلتوں کو ہم حضرت ابراہیم کی ذریت قُصیّ اور ان لوگوں میں جن کی خبریں اس کے بعد آئیںگی واضح انداز میں ملا حظہ کرتے ہیں کہ ان دو خصلتوں کے وہ لوگ مالک تھے۔

انبیاء اور مرسلین کے اوصیاء (اُس پیغمبر کی سنتوں کا احیاء کرنے میں جس کی شریعت کی حفاظت اور تبلیغ کے ذمہ دار ہوتے ہیں )ایسے ہی ہوتے ہیں ۔

لیکن یہ بات کہ قُصیّ نے اپنے دو فرزندوں کا نام(عبد مناف) اور(عبد العزی) رکھا ایک ایسا مطلب ہے کہ انشاء اللہ جناب عبد المطلب کی جہاں سیرت اور روش کے بارے میںگفتگو کریں گے وہاں اس کے بارے میں بھی بیان کر یں گے۔

____________________

(۱)سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص۱۳. کہ اُن میں سے بعض کا ذکر اُس کے حا شیہ سیرۂ نبویہ زینی دحلان کی تا لیف میں ہوا ہے.

۲۲۰