اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )11%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134143 / ڈاؤنلوڈ: 3952
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

خداوندعالم نے حضرت عیسیٰ کو رسالت کے ساتھ بنی اسرا ئیل کی جانب بھیجا. اور انھیں چند معجزات بھی عطا کئے تا کہ ان کی رسالت کی صداقت پر گواہی رہے۔

آپ مٹی سے پرندہ کی شکل بناتے تھے اور اُس میں پھو نک مارتے تھے،،تو وہ مجسمہ خدا کے اذن سے ایک زندہ پرندہ ہو جاتا تھااور اپنے ،بال وپر پھڑ پھڑانے لگتا تھا ؛ اور جوکچھ وہ اپنے گھروں میں کھاتے یا ذخیرہ کرتے تھے اس کی وہ خبر دیتے .اور پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو خدا کی اجازت سے شفا دیتے اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کر دیتے تھے۔

جو کچھ ان کے بارے میں اُن سے پہلے توریت میں ذکر ہوا تھا ان میںمکمّل طور پر صادق آیا اور وہ ان سے بھر پور مطابقت رکھتا تھا وہ اسی طرح حضرت خا تم الانبیاء محمد مصطفی صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کی خبر دیتے تھے۔

آخر کار بنی اسرائیل اُ ن پر ایمان نہیں لائے اور ان کی تکفیر کرتے ہوئے بو لے:یہ کھلا ہوا اور واضح سحر ہے ۔

آخر کار جب حضرت عیسیٰ نے ان کے کفر وعناد کا احساس کیا تو فرمایا! کون لوگ ہمارے ساتھ خدا کے دین کی نصرت کریں گے؟

حواریوں نے انھیں جواب دیا :ہم خدا کے ناصر ومدد گار ہیں،ہم خدا پر ایمان لائے ہیںاور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں. اس طرح سے بنی اسرائیل نے جو حضرت موسیٰ کے ذریعہ خدا سے عہد و پیمان کیا تھا؛( وہ یہ کہ جوکچھ توریت میں مذکور ہے اس پر ایمان لائیں گے اور حضرت عیسیٰ اور ان کے بعد خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائیں گے). اُس عہد و پیمان کو توڑ ڈالا اور کفر وعناد کا راستہ اختیار کر لیا۔

انھوں نے اسی طرح حضرت مریم پر عظیم بہتان باندھا اور بہت بڑی تہمت لگائی اور بو لے:

وہ یوسف نا می ایک بڑھی شخص سے حا ملہ ہوئی ہے اور عیسیٰ کو پیدا کیا ہے۔

پھر وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے قتل اور دار پر لٹکا نے کے درپئے ہوگئے۔

تو خدا وند عالم نے،اسی یہودی مرد کو جو حضرت عیسیٰ کو پکڑ کر لانے کے لئے دشمنوں کا راہنما بنا تھا اسے حضرت عیسیٰ کی شکل و صورت میںتبدیل کر دیا اور بنی اسرا ئیل نے بھی اُسی کو پھانسی کے پھند ے پر لٹکا یااور یہ خیال کیا کہ عیسیٰ بن مریم کو دار پر لٹکا دیا ہے؛جبکہ خدا وند منّان نے انھیں اپنی طرف بلندی پر بلا لیا ہے۔

۲۰۱

( ۱۱ )

فترت کا زمانہ

*عصر فترت کے معنی.

*فترت کے زمانے میں ،پیغمبر کے آباء و اجداد کے علا وہ انبیاء اور اوصیاء

*حضرت ابراہیم کے وصی حضرت اسمٰعیل کے پوتوں کے حالات

*پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کہ جو لوگ فترت کے زمانے میں تبلیغ پر مامور تھے.

۲۰۲

عصر فترت کے معنیٰ

خداوند سبحان سورۂ مائدہ کی ۱۹ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( ...قَدْ جَاْء َکُمْ رَسُوْلُنَاْ یُبیِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُوْ لُوامَاجَاْئَنَا مِنْ بَشِیرٍ وَ لَاْ نَذیرٍ فَقَدْ جَائَ کُمْ بَشِیْر وَنَذیر وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیِٔ قَدِیْر )

... تمہارے پاس ہمارا رسول آیا تاکہ تمہارے لئے ان دینی حقائق کو رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد بیان کر ے،تا کہ یہ نہ کہو کہ ہمارے لئے کوئی بشارت دینے اور ڈارنے والا نہیں آیا بیشک تمہاری طرف بشارت دینے والا،ڈرانے والارسول آیا اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اور سورۂ یس کی ۱ اور ۳ اور ۶ آیات میں ارشاد فر ماتا ہے:

( یٰس٭وَاْلقُرْآنِ الْحَکِیْمِ٭اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینْ٭...٭لِتُنذِرَ قَوْ ماً مَا أُنذِر آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَاْفِلُونَ )

ےٰس (اے پیغمبروں کے سید وسردار ) قرآن کریم کی قسم کہ تم رسولوں میں سے ہو..... تا کہ ایسی قوموں کو ڈراؤ جن کے آباء واجداد کو ( کسی پیغمبر کے ذریعہ)ڈرایا نہیں گیا ہے،کہ وہ لوگ غافل اور بے خبر ہیں۔

اسی کے مانند سورۂ قصص کی ۲۸ویں آیت اور سورۂ سجدہ کی تیسری آیت اور سورۂ سبا کی ۳۴ویں اور ۴۴ویں آیا ت میں بھی مذکور ہے۔

اور سورۂ شوریٰ کی ۷ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ کَذلِکَ أَوْ حَیْنَاْ اِلیکَ قُرآناً عَراَبِیّاً لِتُنذِرَ أُمَّ الْقُریٰ وَمَنْ حَوْلَهَاْ... )

اور اسی طرح قرآن کو (گویا اور فصیح) عربی میں ہم نے تم پر وحی کیا تا کہ مکّہ کے رہنے والوں اور اس کے اطراف ونواحی میں رہنے والوں کو انذار کرو(خدا کے عذاب سے ڈراؤ)۔

سورہ ٔسبا کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَاْاَرسَلْنَاْکَ اِلاَّ کَافَّةًلِلنَّاسِ بَشِیْراً وَ نَذْیَراًوَلکنََّ اَکْثَرَ الَنّاسِ لَاْ یَعْلَمُوْنَ )

ہم نے تمھیں تمام لو گوں کے لئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے؛ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے نا واقف ہیں۔

۲۰۳

کلمات کی تشریح

۱۔ فَتْرة:

فترت لغت میں دو محدود زمانوں کے فاصلہ کو کہتے ہیں.اور اسلامی اصطلاح میں زمانہ کا ایسا فاصلہ جو دو بشیر ونذیر رسول کے درمیان واقع ہوتا ہے۔

۲۔ اُمُّ الْقُریٰ:

شہر مکّہ مکرمہ۔

۳۔کا فة :

سب کے سب،سارے کے سارے اور تمام۔

حضرت اما م علی نے ارشاد فرما یا:خدا وند عالم نے رسول اکر م صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبروں کے درمیان زمانے کے فاصلے میں اور اُس وقت مبعوث کیا جب امتیں خواب غفلت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں.اور وہ احکام خدا وندی جو رسولوں کی زبانی محکم اور استوار ہوئے تھے ان کو پامال کررہی تھیں ۔( ۱ )

گزشتہ آیات کی تفسیر

خا تم الا نبیاء حضرت محمد مصطفی صلّیٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم پیغمبروں کے درمیان فترت کے زمانے میں نہ کہ انبیاء کے درمیان فترت کے زمانے میں مبعوث بہ رسالت ہوئے۔

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ، تالیف محمد عبدہ، طبع مطبع الاستقامة مصر، ج ۲، ص ۶۹،خطبہ، ۱۵۶ اوراسی سے ملتا جلتا مطلب خطبہ نمبر ۱۳۱ میں بھی ذکر ہوا ہے.

۲۰۴

کیو نکہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بعد کو ئی بشارت دینے والا،انذار کرنے والا(اللہ کے ثواب اور اس کی جز ااور پا داش کی بشارت دینے والا اور گناہ و نا فرمانی کی بناء پرخدا کے عذاب سے ڈرانے والا )کہ جس کے ہمراہ اس کے ربّ کی طرف سے کو ئی آیت یا معجزہ ہو کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا۔

حالت اسی طرح تھی یہاں تک کہ خدا وند عالم نے خاتم ا لانبیاء صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کو بشیر ونذیر بناکر اور قرآنی معجزوں کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ مکّہ اور اس کے اطراف ونواحی میں رہنے والوں کو بالخصوص اور عمومی طور پر دیگر لوگوں کو انذار کر یں۔

اس نکتہ کی طرف تو جہ ضروری ہے کہ پا نچ سو سال سے زیادہ کے طولا نی دور میں انبیا ء اور اوصیاء کا وجود لوگوں سے منقطع نہیں تھا اور خدا وندا عالم نے انسانوں کو اس طولا نی مدت میں آزاد نہیں چھوڑا تھا بلکہ اپنے دین کی تبلیغ کر نے والوں اور حضرت عیسیٰ کی شریعت پر اور ابرا ہیم کے دین حنیف کی تبلیغ کے لئے اوصیاء کو آمادہ کر رکھا تھا کہ ہم انشاء اللہ ان اخبار کو تحقیق کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔

۲۰۵

( ۱۲ )

*پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد کے علاوہ فترت کے زمانے میں انبیاء اور اوصیائ

فترت کے زمانے میں انبیاء اور اوصیائ

سیرۂ حلبیہ میں خلا صہ کے طور پر اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے :

حضرت اسمٰعیل کے بعد حضرت محمد مصطفیٰ صلّیٰٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کے سوا عرب قوم کے درمیان کوئی پیغمبر مستقل شریعت کے ساتھ رسالت کے لئے مبعوث نہیںہو ا ۔

لیکن ''خالد ابن سنان'' اور اس کے بعد '' حنظلہ'' ایک مستقل شریعت کے لئے مبعوث نہیں ہوئے تھے ، بلکہ حضرت عیسیٰ کی شریعت کا اقرار اور اس کی تثبیت کرتے ہوئے اس کی تبلیغ کرتے تھے۔

حضرت عیسیٰ اور حنظلہ کے درمیان زمانے کے لحا ظ سے تین سو سال کا فاصلہ تھا۔( ۱ )

حضرت عیسیٰ اور حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کے درمیان فترت کے زمانے میں جن لوگوں کا نام مسعودی اور دیگر لوگوں نے ذکر کیاہے ان میں سے ایک''خالد ابن سنان عبسی'' ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں فرما یا ہے:

''وہ ایک نبی تھے جن کی ان کی قوم نے قدر وقیمت نہیں جا نی'' اور تاریخ میں دوسرے لوگوں کا نام بھی نبی کے عنوان سے ذکر ہواہے جو کہ جوحضرت عیسیٰ اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان گزرے ہیں ۔( ۲ )

اسی طرح علامہ مجلسی نے اپنی عظیم کتاب بحار الانوار میں کے حالات کو بسط وتفصیل سے حضرت عیسیٰ کے آسمان کی طرف اُٹھائے جا نے کے بعد کے واقعات اور زمانۂ فترت کے واقعات کے باب میں کا ذکر کیا ہے( ۳ )

وہ انبیاء اور اوصیاء جن کی خبریں قرآن کریم،تفا سیر اور تمام اسلامی منابع اور مصادر میں مذکور ہیں وہ لوگ ہیں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے جزیرة العرب اور اس کے اطراف

____________________

(۱)سیرۂ جلسہ:ج ۱، ص ۲۱ اور تاریخ ابن اثیر،طبع اوّل مصر ،جلد ۱ ، ص ۳۱اور تاریخ خمیس جلد۱ ص ۱۹۹. (۲)مروج الذھب مسعودی، ج۱ ص۷۸ اور تاریخ ابن کیثر ج،۲،ص ۲۷۱.(۲)بحار الانوار، ج، ۱۴،ص ۳۴۵.

۲۰۶

میں حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کے اوصیاء کے زمانے تک اور پاک و پاکیزہ اسلامی شریعت کے مطابق مبعوث کیا ہے اور آپ کے اوصیاء حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی شریعت کے پا بند تھے۔

حضرت عیسیٰ کی شریعت کے جملہ اوصیاء میں سے ایک، جن سے اُن کے ماننے والوں نے علم و دانش سیکھا ہے بزرگ صحا بی جناب سلمان فارسی محمدی ہیں کہ جو اس دین کے راہبوںمیں شما ر ہوتے تھے اور ان کی داستان ذیل میں بطورخلا صہ نقل کی جا رہی ہے:( ۱ )

احمد کی مسند، ابن ہشام کی سیرة اور ابو نعیم کی دلا ئل النبوہ میں سلمان فارسی سے متعلق ایک روایت کے ضمن میں اس صحابی کی داستان کو ، حضرت عیسیٰ بن مریم کے اوصیا ء کی آخری فرد کے ساتھ جو کہ عموریہ( ۲ ) نامی جگہ پر مقیم تھے اور سلمان اُن کے ساتھ زندگی گذار رہے تھے اس طرح نقل کیا ہے:

میں عموریہ میں دیر کے راہب کی خد مت میں پہنچا اور اپنی داستان اُن کے سامنے بیان کی !انھوں نے کہا ؛میرے پا س رک جاؤ لہٰذاایک ایسے انسا ن کے پاس جو اپنے چا ہنے والوں کی ہدایت و سرپرستی کی ذمّہ داری لئے ہوا تھا سکونت اختیار کی یہاں تک کہ اسے موت آگئی اور جب وہ مرنے کے قریب ہوا تو میں نے اُس سے کہا: میں فلاں کے پاس تھا مگر جب وہ مرنے لگا تو اُس نے فلاں کے پاس جانے کی وصیت کی،اس دوسرے نے بھی مجھے حا لت احتضار میں فلاں شخص کی وصیت کی اور تیسرے نے بھی تمہارے پاس جا نے کی وصیت کی.اب تم مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہو اور کیا دستور دیتے ہو؟

اس نے کہا: ہاں بیٹا!خدا کی قسم میں اپنے زمانے کے لوگوں میں اپنے دین سے متعلق کسی کو سب سے زیادہ عالم اور عاقل نہیںجانتا کہ میں تمھیں حکم دوں کہ اُس کے پا س چلے جاؤ لیکن تم ایک ایسے پیغمبر کے زمانے میں ہو جو دین ابرا ہیم پر مبعوث ہو گا.وہ سر زمین عرب میں قیام کرے گااور ایسے علاقے میں (جو دوسوختہ زمینوں کے درمیان واقع ہے اور ان کے درمیان نخلستان ہیں) ہجرت کرے گا. اس کی واضح اور آشکار علامتیں اورنشا نیاں ہیں ،ہدیہ تو کھاتا ہے لیکن صدقہ نہیں کھاتا اور اس کے دونوں شانوں کے درمیان نبوت کی مہر لگی ہوئی ہے۔

____________________

(۱) ان کی خبروں سے متعلق سیرہ ٔابن ہشام، ج۱ ،ص ۲۲۷ پر رجوع کریں.

(۲) حموی وفات ۶۲۶ ھ قمری نے اپنی کتاب معجم البلدان میں عموریہ کے بارے میں تحریر کیا ہے: وہ روم کے شہروں میں سے ایک شہر ہے جسے معتصم عباسی وفات ۲۲۷ ھ ق) نے ۲۲۳ میں اُ س پر قبضہ کیا تھا.

۲۰۷

اگر خود کو ایسے علا قے میں پہنچا سکتے ہو تو ایسا ہی کرو اور پھر اس وقت اس کی آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہو گیا۔( ۱ )

یہ فترت کے زمانے میں حضرت عیسیٰ کے بعض اوصیاء کی خبریں ہیں.لیکن حضرت ابراہیم کے دین حنیف کے اوصیاء کے بارے میں آیندہ فصل میں تحقیق کریں گے.اس سے پہلے حضرت اسمٰعیل کی سیرت کا کچھ اجما لی خا کہ پیش کریں گے جو کہ حضرت ابرا ہیم کے اوصیاء کی پہلی شاخ ہیں.پھر جہاں تک ممکن ہو گا انشا ء اللہ ان کے فرزندوں سے اوصیاء کی سیرت کی تشریح کریں گے۔

____________________

۱ ۔ مسند احمد،ج۴،ص۴۴۲۔۴۴۳؛ سیرہ ابن ہشام،وفات ۲۱۳ھ،ج۱،ص۲۲۷؛ دلائل النبوہ، ابو نعیم،وفات ۴۳ ھ.

۲۰۸

( ۱۳ )

حنیفیہ شریعت پر آنحضرت کے وصی حضرت اسمٰعیل کی بعض خبریں.

*مناسک حج ادا کرنے کے لئے حضرت ابرا ہیم

کی حضرت اسمٰعیل کو وصیت.

*حضرت اسمٰعیل کی نبوت اور عمالیق،جر ھم

اور یمنی قبائل کو خدا پرستی کی دعوت دینا.

قرآن کریم میں حضرت اسمٰعیل کی نبوت کی خبر

خدا وند سبحان سورۂ مریم کی ۵۴ویں اور ۵۵ویں آیات میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ اذْکُرْ فِی الْکِتاب ِاِسْمَاْعِیْلَ اِنَّهُ کَانَ صَادِقَ الَوعدِوَکَان رسُو لاً نبیّاً٭وَ کَانَ یَأمُرُ اَهلهُ با لصَّلَاةِ وَالزَّکَاْهِ وَکَان عِندَ راَبِهِ مَرْضِیّاً )

اور اپنی کتاب میں حضرت اسمٰعیل کے حالات زندگی کو یاد کرو کہ وہ وعدہ میں صادق اور رسول ونبی تھے. وہ اپنے اہل وعیال کو نماز (ادا کرنے ) اور زکا ة(دینے) کا حکم دیتے تھے اور اپنے ربّ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ تھے۔

سورہ ٔنساء کی ۱۶۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( ِنَّا َوْحَیْنَا الَیکَ کَمَا َوْحَیْنَإ الَی نُوحٍ وَالنّاَبِیِّینَ مِنْ بَعْدِهِ وََوْحَیْنَإ الَی بْرَاهِیمَ وَِسْمَاعِیلَ وَِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالَسْبَاطِ وَعِیسَی وََیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا )

ہم نے تمہاری طرف بھی تو اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد کے پیغمبروں پر وحی کی تھی اور ابراہیم ،اسمٰعیل ،اسحق ،یعقوب ، اسباط ، عیسیٰ، اےّوب ،یونس ،ہارون ،سلیمان اور داؤد پر ہم نے وحی کی اور داؤد کو زبور بھی دی۔

۲۰۹

حضرت اسمٰعیل کی نبوت،دیگر منابع اور مصادر میں:

حضرت اسمٰعیل اپنے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے سے ہی مکّہ میں زندگی گذار رہے تھے اور اپنے والد کی وصیت کے اجراء کر نے میں جو کہ حج کے شعا ئر کی ادائیگی سے متعلق تھی اورحضرت ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کا ستون ہے، کوشش کی اور انھوں نے رسالت کی تبلیغ بھی انجام دی ہے جس کے متعلق ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں۔

۱۔ تا ریخ یعقوبی میں مذکو رہے:

جب حضرت ابراہیم نے فریضۂ حج انجام دیا اور واپسی کاارادہ کیا تو اپنے فرزند اسمٰعیل سے وصیت کی کہ بیت ﷲ الحرام کے پاس سکونت اختیار کریں اور لوگوں کی حج اور مناسک حج کی ادائیگی میں راہنمائی کریں،اسمٰعیل نے اپنے باپ کے بعد بیت ﷲ الحرام کی تعمیر کی اورمناسک حج کی ادائیگی میں مشغول ہوگئے۔( ۱ )

۲۔ اخبار الزمان میں منقول ہے:

خدا نے حضرت اسمٰعیل کو وحی کی اور آپ کو عمالیق،جرھم اور یمنی قبائل کی جانب بھیجا اسمٰعیل نے انھیں بتوں کی پرستش کرنے سے منع کیا. لیکن صرف معدود ے چند افراد ان پر ایمان لائے اور ان کی اکثریت نے کفر وعناد کا راستہ اختیار کیا۔

یہ خبر کچھ لفظی اختلا ف کے ساتھ مرآة الزمان میں بھی مذکور ہوئی ہے۔( ۲ )

اس طرح حضرت اسمٰعیل نے اپنی پو ری زندگی ان امور کی انجام دہی میں صرف کر دی جن کی ان کے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اُن سے وصیت کی تھی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور مکّہ میں سپرد لحد کردئے گئے۔

ان کے بعد ایسے فرائض کی انجام دہی کے لئے ان کی نسل سے نیک اور شائستہ فرزندوں نے قیام کیا؛ہم انشاء اللہ ان میں سے بعض کا تعارف کرائیں گے۔

____________________

(۱) تا ریخ یعقوبی،ج۱، ص ۲۲۱.(۲) اخبار الزمان، ص ۱۰۳؛ مرآة الزمان ،ص ۳۰۹و ۳۱۰.

۲۱۰

( ۱۴ )

فترت کے زمانے میں پیغمبر کے بعض اجداد کی خبریں عدنان،

مضر اور دیگر افراد

* الیاس بن مضر.

*کنانہ بن خز یمہ.

*کعب بن لؤی.

مکّہ میں بت پرستی کا عام رواج اور اس کے مقابل

اجداد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا موقف

* قُصیّ

*عبد مناف

*جناب ہاشم

*جناب عبد المطلب

*حضرت اسمٰعیل کے خاندان کا خلاصہ

*پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے والدجناب عبد اللہ اور جناب ابو طالب.

۲۱۱

فترت کے زمانے میں پیغمبر اسلام کے بعض اجداد کے حالات.

''سُبل الھدی'' نامی کتاب میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے کہا:

عدنان،مضر، قیس، عیلان، تیم، اسد، ضبّہ اور خزیمہ کے والد''ادد '' مسلمان تھے اور ان کی رحلت بھی ملت ابراہیم پر ہوئی ہے۔( ۱)

ابن سعد کی طبقات میں بھی مذکور ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا:مضر کو بُرا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ مسلمان تھے۔( ۲ )

الیاس بن مضر بن نزاربن محمد بن عدنان

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

''مضر کے فرزندالیاس'' ایک شریف اور نجیب انسان تھے ان کی دوسروں پر فوقیت اور برتری واضح اور آشکا ر ہے.یہ وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اسمٰعیل کی اولا د پر نکتہ چینی کی اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے آباء واجدا کی سنتوں میں تبدیلی کردی تھی .انہوں نے بہت سے نیک افعال انجام دئیے لوگ آپ سے اس درجہ شاد ومسرور تھے کہ اسمٰعیل کے فرزندوں میں''ادد'' کے بعد کسی کے لئے ایسی شادمانی اور مسرت کا اظہار نہیں کیا تھا۔

اُنھوںنے حضرت اسمٰعیل کی اولا د کو اپنے آباء واجداد کی سنت کی مراعات کرنے کی طرف لوٹا یا اس طرح سے کہ تمام سنتیں اپنی پہلی حالت پر واپس آگئیں. وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے موٹے تازے اونٹوں کو خا نہ خدا کی قربانی کے لئے مخصوص کیا اور وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے حضرت ابراہیم کی وفات کے بعد رکن کی بنیاد رکھی؛اسی وجہ سے عرب(الیاس) کو بزرگ اور محترم سمجھتے ہیں...( ۳ )

____________________

(۱)سبل الھُدیٰ والرشاد محمد بن یو سف شامی کی تالیف جو ۹۴۲ھ ق میں وفات کر گئے ہیں،طبع دار الکتب،بیروت، ۱۴۱۴ ھ ق، ص ۲۹۱ اور فتح الباری، ج۷، ص۱۴۶ بھی ملاحظہ ہو.(۲)طبقات ابن سعد،طبع یورپ، ج۱، ص.۳؛اور تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۲۲۶؛ اور کنزالعمّال، ج۱۲، ص۵۹ ،باب الفضائل،چوتھا حصّہ،مضر قبیلہ کے فضائل کے بارے میں حدیث نمبر ۳۳۹۷۸.(۳)تاریخ یعقوبی،ج۱،ص ۲۲۷.

۲۱۲

ان تمام مطالب کے نقل کے بعد''سبل الھدایٰ'' نامی کتاب میں تحریر فرما تے ہیں:

عرب جس طرح سے لقمان کی عظمت اور بزرگی کے قائل تھے اسی طرح انھیں بھی محترم اور معزز شمار کرتے تھے۔( ۱ )

صاحبان شریعت پیغمبروں کے تمام اوصیاء ان صفات اور خصوصیات کے حامل تھے.اس لحاظ سے ''الیاس'' بھی حضرت ابراہیم کے بعد ان کی حنیفیہ شریعت کے ان کے بعد محافط ونگہبان اوصیاء میں سے شمار کئے جاتے ہیں۔

کنانة بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر

''کنانة'' ایک عالی قدر،بلند مقام،نیک صفت اور با عظمت انسان تھے اور عرب ان کے علم وفضل اور ان کی فو قیت اور برتری کی بناء پر ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔

وہ کہا کرتے تھے:مکّہ سے احمد نامی ایک پیغمبر کے ظہور کا وقت آچکا ہے جو لوگوں کو خدا ، نیکی ،جوود بخشش اور مکارم اخلاق کی دعوت دے گا.اس کی پیروی کرو تاکہ تمہاری عظمت وبزرگی میں اضافہ ہو اور اس کے ساتھ عداوت و دشمنی نہ کرنا اور جو کچھ بھی وہ پیش کرے اس کی تکذیب نہ کر نا .کیونکہ جوچیز بھی وہ پیش کرے گا وہ حق ہو گی۔( ۲ )

''کنانہ'' کی بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے اپنے پہلے والے وصی سے علم دریافت کیا ہے۔

کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانة

انساب الاشراف اور تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے(اور ہم انساب الاشراف کی باتوں کو نقل کررہے ہیں ) :

''کعب '' عرب کے نزدیک بڑی قدر وقیمت اور عظیم منزلت و مرتبہ کے حامل تھے اور ان کے روز وفات کو ان کے احترام میں تاریخ کا مبداء قرار دیا تھا. یہاں تک کہ ''عام الفیل'' آگیاا ور اسے تاریخ مبداء قرار دیا اس کے بعد ''جناب عبد المطلب'' کی موت کو تاریخ کا مبداء قرار دیا۔

____________________

(۱)سُبُل الھُدیٰ،ج۱،ص۲۸۹.

(۲) سیرہ ٔحلبیہ،ج۱،ص ۱۶؛ اور سبل الھدیٰ،ج۱،ص ۲۸۶،میں یہاں تک ہے...تا کہ تمہاری عظمت اور بزرگی میںاضافہ ہو.

۲۱۳

کعب حج کے موسم میں لوگوں کے لئے خطبہ پڑھتے اور کہتے تھے:''اے لوگو''! سنو اور سمجھو اور جان لو کہ رات پُر سکون اور خاموش ہے اور دن روشن اور آسما ن کا شامیانہ لگا ہوا ہے اور زمین ہموار و برابر ہے اور ستارے ایسی نشا نیاں ہیں جو بے کا راور لغو پیدا نہیں کئے گئے ہیں کہ تم لوگ اُن سے روگرداں ہو جاؤ. گزشتہ لوگ آیندہ کے مانند ہیں؛اور گھر تمہارے سامنے ہے اور یقین تمہارے گمان کے علا وہ چیز ہے.اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال کرو اور صلہ رحم قائم کرو اور ازداجی رشتوں کو باقی رکھو اور اپنے عہد وپیمان کا پاس ولحاظ کرو اور اپنے اموال کو(تجارت اور معا ملات کے ذریعہ) بار آور اور نفع بخش بناؤ جو کہ تمہاری جوانمردی اور جود و بخشش کی علا مت ہے اور جہاں تم پر انفاق لا زم ہو اُس سے صرف نظر نہ کرو اور اس حرم (خدا کے گھر)کی تعظیم کرو اور اس سے متمسک ہو جاؤ کیونکہ یہ ایک پیغمبرکی مخصوص جگہ ہے اور یہیں سے خاتم الانبیاء اُس دین کے ساتھ جو موسیٰ اور عیسیٰ لائے تھے مبعوث ہو گے پھر اس وقت اس طرح فرماتے تھے:

فترت کے بعد وہ محافظ ونگہبان نبی عالمانہ خبروں کے ساتھ آئے گا .اور یعقوبی کی عبارت میں اس طرح ہے:

اچانک وہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی آجا ئے گا اور سچی اور عالمانہ خبریں دے گا:

پھر کعب کہتے تھے: اے کاش ان کی دعوت اور بعثت کو ہم درک کرتے۔( ۱ )

سبل الھدیٰ والرشاد نامی کتاب میں بطور خلا صہ اس طرح مذکور ہے:

جمعہ کے دن کو ''عروبة'' کا دن کہتے تھے اور کعب وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس کا نام جمعہ رکھا ہے۔( ۲ )

پھر اس کے بعد لفظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ انھیں مذکورہ مطا لب کو اُس نے ذکر کیا ہے۔

جو کچھ ''کعب '' کی تعریف میں مورخین نے ذکر کیا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کے بعد'' اوصیائ'' میں سے ایک وصی تھے کعب اور الیاس حضرت ابراہیم کی دعا کے قبول ہو نے کے دو نمایاں مصداق تھے؛ جب انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں اپنی ذریت کے حق میںدعا کی اور کہا : میری اولاد میں اپنے سامنے سراپا تسلیم ہو نے والی امت قرار دے۔

____________________

(۱)انساب الاشراف، بلاذری، طبع مصر، ۱۹۵۹۔ ج۱، ص۱۶ اور ۴۱؛ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۲۳۶، طبع بیروت، ۱۳۷۹ ھ؛سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص ۹، ۱۵، ۱۶؛ سیرۂ نبوےة، حلیبہ کے حا شہ پر، ج۱، ص۹.(۲)سبیل الھدیٰ والر شادج۱ ،ص۲۷۸.

۲۱۴

مکّہ میں بت پرستی کا رواج اور اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کا موقف

گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ ''جر ھم'' قبیلہ نے ''ہاجرہ'' سے ان کے پاس سکونت کرنے کی اجازت مانگی تا کہ آب زمزم سے بہرہ مند ہوں تو ہا جرہ نے بھی انھیں اجازت دے دی۔

پھر سالوں گزرنے کے بعد ان کے فرزند (اسمٰعیل ) ایک مکمّل جوان ہوگئے، تو ''مضاض جرھمی'' کی بیٹی سے شادی کر لی اور اس سے صاحب اولا د ہوئے۔

پھر حضرت اسمٰعیل کی وفات کے بعد ، ان کے فرزند'' ثابت ''مضاض جرھمی کے نواسے نے امور کی باگ ڈور اپنے ہا تھوںمیں لے لی. ان کی وفات کے بعد ،جر ھم مکّہ کے امور پر قابض ہوگئے اور طغیانی اور سر کشی کی اور حق سے منحرف ہوگئے. ''خزاعہ قبیلہ ''نے اُن سے جنگ کی اور ان پر فاتح ہوگئے( ۱ ) اور مکّہ کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی.بیت ﷲ الحرام کی تو لیت کے ذمّہ دار ہوئے اور رفتہ رفتہ اسمٰعیل کی اولا د بھی کوچ کر گئی اور مختلف شہروں میں پھیل گئی جز معدودے چند افراد کے کہ جنھوں نے خانہ خدا کا جوار ترک نہیں کیا۔( ۲ )

خزاعہ قبیلہ کے سردار سالہا سال تک یکے بعد دیگرے مکّہ کی حکو مت اور بیت اللہ الحرام کی تولیت کے ما لک ہوتے رہے یہاں تک کہ ''عمر وبن لحّی'' کہ جو بڑا مالدار اور کثیر تعداد میں اونٹوں کا مالک تھا اور لوگ اس کے گھر پر کھانا کھا تے تھے جب تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوا ،تو اس کا کا فی اثر و رسوخ تھا اس طرح سے کہ اس کی رفتار وگفتار لوگوں کے لئے قوانین شرعیہ کے مانند لا زم الاجراء مانی جاتی تھی۔( ۳ )

شام کے شہروں میں ایک سفر میں عمر وبن لحی نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ بت کی پو جا کر تے ہیں اور جب اُس نے ان کے بارے میں اُن سے سوال کیا تو اسے جواب دیا:

____________________

(۱)تاریخ ابن کثیر، طبع اوّل، ج۲، ص ، ۱۸۴و۱۸۵ کو ملاحظہ کریں. (۲)تاریخ یعقوبی ج ۱، ص ۲۲۲۔ ۲۳۸.

(۳)تاریخ ابن کثیر، ج۲، ص۱۸۷.

۲۱۵

یہ وہ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں، ان سے بارش کی درخواست کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں بارش سے نوازتے ہیں اور ان سے نصرت طلب کر تے ہیں وہ ہماری مدد کرتے ہیں۔

عمرو نے اُن سے کہا:

ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی بت ہمیں بھی دو تاکہ اسے اپنے ساتھ سرزمین عرب تک لے جائیں اور وہاں کے لوگ اس کی عبادت کریں؟

انھوں نے ا سے '' ہبل'' نامی بت دے دیا، عمرو اس بت کو لے کر مکّہ آیا اور حکم دیا کہ لوگ اس کو عظیم سمجھتے ہوئے اس کی عبادت کریں اس نے حد یہ کی کہ ان بتوں کو حج کے تلبیہ میں داخل کر دیا اور اس طرح سے کہہ رہا تھا:

(لبیک اللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ لاشریک لک،الّا شریک هو لک تملکه و ما ملک )

یعنی لبیک خدایا لبیک، تیرا کوئی شریک نہیں ہے جز اُس شریک کے کہ جو تیری ہی طرف سے ہے، وہ اور جو کچھ اس کے پاس ہے تیری بدولت ہے۔

خدا کے شریک سے اس کی مراد بت تھے۔اس سے خدا کی پناہ۔اسی طرح اُس نے حضرت ابراہیم کے حنفیہ آئین کو بدل ڈالا اور خود اس نے دیگر قوانین بنائے۔

''بحیرہ'' اور'' سائبہ'' کے قوانین اسی کے ساختہ اور پرداختہ افعال میں سے ہیں(اسی کے کارناموں میں شمار ہوتے ہیں) بحیرہ وہ اوٹنی ہے کہ جو کچھ حالات کے تحت اس کا دودھ بتوں اور جعلی خداؤں کی خدمت میں پیش کرتے تھے.سائبہ بھی ایک اونٹ ہی تھا کہ اُسے بتوں سے مخصوص کر دیا تھا ا س سے بوجھ ڈھونے اور بار اٹھانے کا کام نہیں لیا جا تا تھا اور اسے کسی کام میں استعمال نہیں کر تے تھے.( ۱ )

اس طرح سے توحید کی سرزمین پر بت پرستی عام ہوگئی. البتہ ان ناپسندیدہ انحرافات کا صرف ھبل پر انحصار نہیں ہے بلکہ ان بتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور انھیں کعبہ کی دیوار پر بھی آویزاں کردیا گیا۔ان بتوںکی عبادت اور پر ستش مکّہ سے جزیرة العرب کی دیگر آباد سرزمینوں اور مختلف قبائل تک منتقل ہوگئی. وہاں کے لوگوں کے درمیان سے توحید کی علا متیں غائب ہو کرفراموشی کاشکار ہوگئیں اور حضرت ابراہیم کی حنفیہ شریعت میں تحریف واقع ہوگئی۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد کی سیرت کی تحقیق کے بعد بُت پرستی کے مقابلے میں ان کے موقف اور عکس العمل کو بیان کرہے ہیں۔

____________________

(۱)تاریخ ابن کثیر،ج۲، ص۱۸۷ ۔۱۸۹؛ اور اس کا خلا صہ بلا ذری کی انساب الاشراف کی پہلی جلد کے ۲۴ صفحہ پر ملا حظہ ہو.

۲۱۶

قُصیّ بن کلاب بن مرّہ بن کعب

قُصیّ کے جوان اور قوی ہو نے تک مکّہ کی حکومت اور خانہ خدا کا معاملہ خزاعہ قبیلہ کے ہاتھ میں رہا۔ انھوں نے اپنے پر اگندہ اور بکھرے ہوئے خاندان کو جمع کیا اور اپنے مادری بھائی''درّاج بن ربیعہ عذری'' سے نصرت طلب کی.درّاج قضاعہ کے ایسے گروہ کے ساتھ جسے وہ جمع کر سکتا تھا ان کی مدد کو آیا.پھر وہ سب خزاعہ سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں طرف سے کثیر تعداد میں لوگ ما رے گئے،نتیجہ کے طور پر''عمرو بن عوف کنانی'' کے فیصلے پر آمادہ ہوئے.

عمروبن عوف فیصلہ کے لئے بیٹھا اور اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ قُصیّ مکّہ کی حکومت اور خا نہ خدا کی تو لیت کے لئے خزاعہ کے مقابل زیادہ سزاوار ہیں.

قُصیّ نے خزاعہ قبیلہ کو مکّہ سے نکال باہر کیا اور مکّہ کی حکو مت اور خانہ خدا کی خدمت کی ذمّہ داری اپنے ہاتھوںمیں لے لی .اور قریش کے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے قبا ئل کو جو کہ پہاڑوں اور درّوں میں زندگی گزار رہے تھے جمع کیا اور مکّہ کے درّوں اور اس کی دیگر زمینوں کو ان کے درمیان تقسیم کردیا ، اسی لئے اُنھیں '' مجمّع '' ( جمع کر نے والا) کہتے ہیں شاعر نے اس سلسلے میں کیا خوب کہا ہے:

اَبُوْ کُمْ قُصیّ کَاْنَ یُُدْعَیٰ مُجَمِّعا

بِه جَمَعَ اللّٰهُ الْقَبَائِلَ مِنْ فَهِرْ

تمہارے باپ قُصیّ ہیں جنھیں لوگ مجمّع(جمع کرنے والا) کہتے تھے۔

خدا وند عالم نے ان کے ذریعہ فھر کے قبیلوں کو ایک مرکز پر جمع کر دیا۔

قُصیّ نے قریش کے قبیلوں کے لئے''دار الندوة'' جیسی ایک جگہ تعمیر کی تاکہ وہاں اکٹھا ہو کراپنے سے مربوط امور میں ایک دوسرے سے مشورہ کریں .اُنہوں نے اسی طرح خانہ کعبہ کو اس کی بنیاد سے ایسا تعمیر کیا کہ ویسی تعمیر ان سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی۔ (۱ ) قُصیّ بتوں کی پرستش سے شدت کے ساتھ روکتے تھے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی۔ ج۱، ص۲۳۸ ۔۲۴۰.

۲۱۷

قُصیّ اور بیت اللہ الحرام اور حاجیوں سے متعلق ان کا اہتمام

۱۔ ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے :

قُصیّ نے سقایت(سیراب کرنے) اور رفادت (حجاج کی مدد کرنے) کی ذمّہ داری قریش کو دی اور کہا: اے جماعت قریش ! تم لوگ خدا کے پڑوسی،اس کے گھر اور حرم کے ذمہ دار ہو اور حجاج خدا کے مہمان اور اُس کے گھر کے زائر ہیں اور وہ لوگ تعظیم و تکریم کے زیادہ حق دار مہمان ہیں۔لہٰذا حج کے ایام میں ان کے لئے کھانے اور پینے کی چیزیں فراہم کرو جب تک کہ وہ تمہارے علا قے سے اپنے گھروں کو نہ لوٹ جائیں۔

قریش نے بھی حکم کی تعمیل کی اور سا لانہ ایک مبلغ حجاج پر صر ف کر نے کے لئے الگ کر دیتے تھے اور اُسے قُصیّ کو دے دیتے تھے.قُصیّ ان مبلغوں سے مکّہ اور منی کے اےّام میں لو گوں کے کھا نے پینے کا بندوبست کرتے اور کھال سے حوض بنا تے اور اس کو پا نی سے بھرتے اور مکّہ،منی اورعرفات میں لو گوں کو پا نی پلا تے تھے،قُصیّ کی یہ یاد گار اسی طرح ان کی قوم (قریش) کے درمیان زمانۂ جاہلیت میں جاری رہی یہاں تک کہ اسلام کا ظہو ر ہوا اور یہ سنت آج تک اسی طرح اسلام میں باقی اور جا ری ہے۔( ۱ )

۲۔ تا ریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

قُصیّ نے قریش قبیلے کے افراد کو خانہ خدا کے ارد گرد جمع کر دیا اور جب حج کا زمانہ آیا تو قریش سے کہا:

حج کا زمانہ آگیا ہے اور میں کوئی بھی احترام واکرام عرب کے نزدیک کھا نا کھلا نے سے بہتر نہیں جانتا ہوں لہٰذا تم میں سے ہر ایک اس کے لئے ایک مبلغ عطا کرے۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور کا فی مبلغ اکٹھا ہو گیا

جب حاجیوں کا سب سے پہلا گروہ پہونچا،تو آپ نے مکّہ کے ہر چوراہے پر ایک اونٹ ذبح کیا اور مکّہ میں بھی ایک اونٹ ذبح کیا اور ایک جگہ بنائی جس میں غذا،روٹی اور گوشت رکھااور پیاسوں کو دودھ اور پانی سے سیراب کیا اور خا نہ کعبہ کی طرف گئے تو اس کے لئے کنجی اور آستانہ کا انتظام کیا۔( ۲ )

انساب الاشراف میں مذکور ہے:

____________________

(۱)طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج۱،ص۴۱،۴۲.(۲) تاریخ یعقوبی،ج۱،ص ۲۳۹۔۲۴۱،طبع بیروت،۱۳۷۹ھ.

قُصیّ نے کہا : اگر میری دولت ان تمام چیزوں کیلئے کا فی ہوتی تو تمہاری مدد کے بغیر انھیں انجام دیتا (۱)

۲۱۸

۳۔ سیرۂ حلبیہ میں خلا صہ کے طور پر اس طرح مذکور ہے:

جب حج کا وقت نزدیک آیا تو قُصیّ نے قریش سے کہا:

حج کا موقع آچکا ہے اور جو کچھ تم نے انجام دیا ہے عرب نے سنا ہے اور وہ لوگ تمہارے احترام کے قائل ہیں.اور میں کھانا کھلانے سے بہتر عرب کے نزدیک کوئی اور احترام واکرام نہیں جانتا.لہٰذا تم میں سے ہر شخص اس کام کے لئے ایک مبلغ عنایت کرے۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور کافی مبلغ اکٹھا ہو گیا، جب حا جیوں کا سب سے پہلا گروہ پہونچا تو انھوں نے مکّہ کے ہر راستہ پر ایک اونٹ ذبح کیا اور مکّہ کے اندر بھی ایک اونٹ ذبح کیا اور گوشت کا سالن تیار کیا اور میوے کے پانی سے ملا ہوا میٹھا پا نی اور دودھ حجاج کو پلا یا ۔

قُصیّ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے''مزدلفہ '' میں آگ روشن کی تا کہ شب میں لوگ عرفہ سے نکلتے وقت اندھیرے کا احساس نہ کر سکیں۔

اُنھوںنے مکّہ کی تمام قابل اہمیت اور لا ئق افتخار چیزوں کو اپنے ہاتھ میںلے لیااور سقایت (سیرابی) حجاج کی مدد، کعبہ کی کلید برداری، مشاورتی اجلاس کی جگہ دار الندوہ، علمبرداری اور امارت و حکومت اپنے اختیار میں رکھی۔

''عبد الدار'' قُصیّ کی اولاد میں سب سے بڑے تھے اور ''عبد مناف'' اُن سب میں شریف ترین، اُنھوں نے شرافت کو اپنے باپ (قُصیّ) کے زمانے ہی میں اپنے سے مخصوص کر لیا تھا اور ان کی شرافت کا شہرہ ،آفاق میں گونج رہا تھاان کے بھائی ''مطلّب'' کا مرتبہ بھی علو مقام اور بلندی رتبہ کے لحاظ سے ان کے بعد ہی تھا اور لوگ ان دونوں بھائیوں کو بدران ( دو چاند )کہتے تھے.قریش نے عبد مناف کو ان کی جود و بخشش کی وجہ سے فیّاض کا لقب دیاتھا۔

قُصیّ نے اپنے بیٹے عبد الدار سے کہا:

میرے بیٹے: خدا کی قسم تمھیںتمہا رے بھا ئیوں عبد مناف اور جناب عبد المطلب کے ہم پلّہ دوںگا، اگر چہ وہ لوگ مر تبہ کی بلند ی اور رفعت کے لحاظ سے تم پر فو قیت رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) انساب الا شراف۔۱،ص ۵۲.نکلنے کی راہ دیکھ سکیں.

۲۱۹

قرار کوئی مرد بھی کعبہ کے اندار داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم اس کا دروازہ کھو لو. تم کعبہ کے پردہ دار ہو گے قریشیوں کا کوئی پرچم جنگ کے لئے اس وقت تک سمیٹا نہیں جا ئے گا جب تک کہ تم اجازت نہیں دوگے تم قریش کے علمبردار ہو۔

مکّہ میں کو ئی آدمی بھی تمہاری اجازت کے بغیر سیراب نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم پلاؤ کیو نکہ سقایت کامنصب تم سے مخصوص ہے۔

کوئی بھی حج کے ایام میں کچھ نہیں کھا ئے گا مگر یہ کہ تم اسے کھلاؤ ، تم حاجیوں کے میزبان ہو. قریش کا کوئی کام قطعی اور یقینی مرحلہ تک نہیں پہونچے گا مگر یہ کہ تمہارے گھر میں ، تم دار الندوہ کے ذمّہ دار ہو۔ تمہارے سوا کوئی اس قوم کی رہبری نہیں کر ے گا تم اس قوم کے رہبر ہو.اور یہ سارے فخرو مباہات قُصیّ کے عطا کردہ ہیں۔

جب قُصیّ کی موت کا زمانہ قریب آیا تو انھوں نے اپنے فرزندوں سے کہا:شراب سے پرہیز کرو۔( ۱ )

گزشتہ مباحث میں ہم نے حضرت ابراہیم کی سنت میں دو واضح اور آشکار خصوصیتوں کا درج ذیل عنوان کے ساتھ تحقیقی جا ئزہ لیا ہے:

۱۔ بیت اللہ الحرام کی تعمیر اور انجام حج کے لئے لوگوں کو دعوت دینا اور اس کے شعائر کا قائم کرنا۔

۲۔ مہمانوں کو کھانا کھلا نے اور ان کی تعظیم وتکریم کی جانب ان کی تو جہ۔

ان دوخصلتوں کو ہم حضرت ابراہیم کی ذریت قُصیّ اور ان لوگوں میں جن کی خبریں اس کے بعد آئیںگی واضح انداز میں ملا حظہ کرتے ہیں کہ ان دو خصلتوں کے وہ لوگ مالک تھے۔

انبیاء اور مرسلین کے اوصیاء (اُس پیغمبر کی سنتوں کا احیاء کرنے میں جس کی شریعت کی حفاظت اور تبلیغ کے ذمہ دار ہوتے ہیں )ایسے ہی ہوتے ہیں ۔

لیکن یہ بات کہ قُصیّ نے اپنے دو فرزندوں کا نام(عبد مناف) اور(عبد العزی) رکھا ایک ایسا مطلب ہے کہ انشاء اللہ جناب عبد المطلب کی جہاں سیرت اور روش کے بارے میںگفتگو کریں گے وہاں اس کے بارے میں بھی بیان کر یں گے۔

____________________

(۱)سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص۱۳. کہ اُن میں سے بعض کا ذکر اُس کے حا شیہ سیرۂ نبویہ زینی دحلان کی تا لیف میں ہوا ہے.

۲۲۰

قُصیّ کی وفات

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

قُصیّ انتقال کر گئے اور '' حجون '' میں سپرد لحد ہوئے ان کے بعد ان کے فرزند''عبد مناف '' نے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور ریاست حاصل کی اور ان کی قدر ومنز لت بڑھ گئی اوران کے شرف ومرتبہ میں اضا فہ ہوگیا۔( ۱)

عبد مناف بن قُصیّ

سیرۂ حلبیہ اور نبویۂ میں مذکور ہے:

عبد مناف کا نام مغیرہ تھا اور پتھر پر لکھی ایک تحریر ہاتھ لگی جس میں تحریر تھاقُصیّ کے فرزند مغیرہ نے تقوای الٰہی اختیار کر نے اور صلہ رحم کر نے کی وصیت کی ہے۔( ۲ )

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

(قُصیّ کے بعد) ''عبد مناف بن قُصیّ'' کو ریا ست ملی انھوں نے بھی اپنی حیثیت اور قدر و منزلت بڑھا لی اور اپنے شرف ومرتبہ میں اضافہ کیا۔

جناب ہاشم بن عبد مناف

عبد مناف کے فرزند ھا شم کانام '' عمر والعلیٰ '' تھا۔

۱۔ طبقات ابن سعد اور تاریخ یعقوبی میں خلا صہ کے طور پر مذ کور ہے:

اپنے باپ کے بعد جناب ہاشم نے مرتبت و منزلت حاصل کی اور ان کا نام اور چرچہ شہرہ آفاق ہو گیا اور قریش نے موافقت کی کہ سقایت (سیراب کرنا) ،ریاست اور رفادت (حاجیوں کی مدد کرنا) جناب ہاشم بن عبد مناف کے اختیا ر میں ہو گی۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ، ج۱، ص ۲۴۱ جوہم نے جرھم، خزاعہ اور قُصیّ کے بارے میں مفصل گفتگو کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہو جائے کہ جنھوں نے ابرا ہیم کے دین حنیف کو بد لا ہے وہ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل کی اولا د کے علا وہ تھے.

(۲) سیرۂ حلبیہ،ج۱،ص ۷ اور سیرۂ بنویہ، ج۱، ص ،۱۷؛ سبل الھدی، ۱، ۲۷۴.

۲۲۱

جناب ہاشم مراسم حج کی انجام دہی کے موقع پر قریش کے درمیان کھڑے ہو کر فرماتے تھے :

اے قریش واالو! تم لوگ خدا کے پڑوسی او راس کے اہل خانہ ہو.اس موسم میں خدا کے زوّار تمہارے پاس آئیں گے تا کہ اُس کے گھر کی حرمت کی تعظیم کریں.وہ لوگ خدا کے مہمانوں میں سے ہیں لہٰذااحترام کے زیادہ حق دار ہیں۔

خدا نے تمھیں اس کام کے لئے منتخب کیا ہے اور تمھیں اسی وجہ سے بزرگ بنایا ہے خدا نے تمہاری ہمسایگی کی رعایت و نگہداشت ہر ہمسایہ سے کہیں بہترکی اور ہر پڑوسی سے بہتر اپنے پڑوسی کو محفوظ رکھا ہے اب تم لو گ اس کے مہمانوں اور زائرین کا اکرام کرو.کہ وہ لوگ الجھے ہوئے بالوں ، غبار آلود صورتوں میں ہر شہر وعلاقہ سے اونٹ پر سوار ہو کر جو کہ لا غر ہو نے کے لحاظ سے تیر کی لکڑیوں کے مانند ہے راستہ سے پہنچنے ہی والے ہیں اس حال میں کہ وہ تھکے ماندے ہیں، بدبو دار، کثیف، گرد میں اٹے اور نادار لوگ ہیں لہٰذا ان کی مہمانی کے لئے اٹھ کھڑے ہو اور ان کی بے نوائی اور احتیاج کو دور کرو۔

جناب ہاشم نے کا فی مال اکٹھا کیا اور حکم دیا کہ کھال سے حوض تیار کریں اور زمزم کے پاس رکھ دیں پھر پانی سے ان کنوؤں کو پُر کر تے تھے جو مکّہ میں پائے جا تے تھے اور حاجیوں کو ان سے پلاتے تھے اور مکّہ منی، مشعر اور عرفات میں لوگوں کو غذا دیتے تھے،روٹی گوشت،گھی اورآٹا ان کے لئے فراہم کر تے تھے اور ان کے لئے منیٰ تک پانی اٹھا کر لیجاتے تا کہ وہ پئیں؛یہاں تک کہ حاجی لوگ منیٰ سے پرا گندہ ہو کر اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے جاتے تھے۔( ۱)

۲۔ کتاب سیرۂ حلبیہ و نبویۂ میں مذکور ہے:

جب ذ ی ا لحجہ کا چاند نمودار ہوتا تھا تو جناب ہا شم صبح کے وقت اُٹھتے اور در کی طرف سے دیوار کعبہ سے ٹیک لگاتے اور اپنے خطبہ میں کہتے:

اے قریش کی جماعت! تم لوگ عرب کے سردار ہو اور سب سے زیادہ نیک نام ہو اور سب سے زیادہ عقلمند اور تمام قبیلوں سے زیادہ شریف اور عربوں میں عرب سے رحم کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہو۔

اے قریش کی جماعت! تم لوگ خدا وند متعال کے گھر کے پڑوسی ہو،خدا وند عالم نے تمھیں اپنی ولایت سے نوازا ہے اور تمہارے بعد اپنی ہمسا ئگی کو اسمٰعیل کے فرزندوں میں تم سے مخصوص کیا ہے۔

____________________

(۱) طبقات ابن سعد،ج۱، ص ۴۶ ؛ تاریخ یعقوبی،ج۱،ص ۲۴۲،طبع بیروت ۱۳۷۹ھ ہم نے ان دونوں کی باتوں کو جمع کیا ہے.

۲۲۲

اب خدا کے زائر جواُس کے گھر کو عظیم سمجھتے ہیں تمہارے نز دیک آرہے ہیں وہ اس کے مہمان ہیں اور خدا کے مہمانوں کی قدر دانی کے لئے سب سے زیادہ لائق تم ہو۔

لہٰذا اس کے زائروں اور مہمانوں کی قدردانی کرو ،کہ وہ لوگ الجھے ہوئے غبار آلود بالوں کے ساتھ ہر شہر اور ہر علا قے سے ایسے اونٹوں پر سوارہو کر جو کہ تیر کی لکڑیوں کے مانند لا غر اور دبلے پتلے ہیں، پہنچنے ہی والے ہیں؛ لہٰذا اس کے گھرکے زائرین اور مہمانوں کی قدر دانی اور ضیا فت کرو.اس کعبہ کے ربّ کی قسم اگر ہمارے پاس اتنا مال ہوتا کہ ان تمام امور کے لئے کفایت کر تا تو تم سے مدد نہیں مانگتے.اب میں اپنے پاک وحلال مال سے کہ جس میں قطع رحم کا شائبہ تک نہیں اور نہ ہی کوئی مال ظلم وستم سے حاصل کیا گیا ہے اور نہ اُس میں کسی حرام کی آمیزش ہے (کچھ ان امور میں مصرف کے لئے) کنارے رکھتا ہوں (جدا کر تا ہوں) اور تم میں سے جو ایسا کرنا چا ہتاہے ایسا کرے۔

تم میںسے اس گھر کی حر مت کے ذریعہ چا ہتا ہوں کہ تم سے کو ئی مرد بیت اللہ کے زائروں کا اکرام کرنے اور انھیں تقویت پہنچا نے کے لئے حلال اور پاک مال کے سوا جدا نہ کرے؛ اُس میں ایک دنیار بھی ظلم وستم کے ذریعہ نہ لیا گیا ہو اورکسی سے قطع رحم نہ ہوا ہو اور زور زبردستی سے نہ لیا گیا ہو۔

ان لوگوں نے بھی تعمیل حکم کر تے ہوئے دقت سے کام لیتے ہوئے اپنے مال میں سے حلال مال کوالگ کر کے دار الندوہ میں رکھ دیتے تھے۔( ۱ )

۳۔ انساب ا لاشراف اور ابن ہشام کی سیرہ اور المحبّر میں مذکو ر ہے(اور ہم انساب الاشراف کی بات نقل کرتے ہیں):

ایک سال قریش کو قحط(خشک سالی) کا سامنا ہوا اور ان کے اموال تباہ ہوگئے اور بے چارگی و تنگد ستی سب پر چھا گئی.یہ خبر جناب ہاشم کو جو کہ شام کے غزہ نامی ( ۲). علا قے میں تجا رت کے لئے گئے ہوئے تھے پہنچی تو جناب ہاشم نے حکم دیا کہ روغنی روٹی (کیک) اور سادہ روٹی فراہم کریں ان کے دستور کے اجراء کے ساتھ ہی اس سے کہیں زیادہ چیزیں فراہم ہوگئیں.پھر انھیں تھیلوں میں رکھ کر اونٹوں پر لا د کر مکّہ کی طرف روانہ ہوگئے.جب مکّہ پہونچے تو حکم دیا کہ انھیں توڑ توڑ کر سالن میں بھگو دیں اور جو اونٹ اپنے ہمراہ لائے تھے انھیں نحر کر ڈالا اور مکّہ کے رہنے والوں کو سیر کر کے انھیں گرسنگی اور بھوک سے نجات دی۔

____________________

(۱)سیرئہ حلبیہ ج۱ ،ص۶ ، سیرئہ نبویہ ج ۱ ،ص۱۹.(۲) غرہ مصر کی سمت شام کی انتہا میں ایک شہر ہے؛ معجم البلدان.

۲۲۳

عبد اللہ ابن زبعریٰ نے اس قحط کے بارے میں جس نے مکّہ والوں کو زحمت و مشقت میں مبتلا کر رکھا تھا اس طرح یاد کیا ہے۔( ۱ )

عمر و العلیٰ هشم الثّر ید لقومه

و رجال مکّه مسنتون عجاف

وهو الّذی سنّ الرحیل لقومه

رحل الشتاء ورحلة الاصیاف

'' عمرو عُلیٰ'' نے اپنی قوم کے لئے سالن دار گوشت تیا ر کیا.جبکہ مکّہ والے قحط سے دوچار تھے ۔

اُس نے اپنی قوم کے لئے کاروانی تجا رت کی سنت قائم کی۔جاڑے کے کاروان اور گرمی کے کاروان کے عنوان سے ۔

اسی سال، تمام مکّہ والوں کو قحط نے اپنی گرفت میں لے لیا اور جناب ہاشم نے جو کچھ کیا اس سے تھوڑی ہی مدّت تک ان کی فریاد رسی ہوئی.لیکن اس تاریخ کے بعد مکّہ والوں کے درمیان کچھ ایسے بھی افراد تھے جو گر سنگی کے سامنے کوئی چارہ کار نہیں رکھتے تھے سوائے یہ کہ(اعتفاد) کریں اور ''اعتفاد'' یہ تھا کہ گھر اور خاندان کے تمام افراد صحرا کی طرف چلے جاتے تھے اور وہاں جا کرکسی سایہ میں موت کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے تاکہ یکے بعد دیگرے بھوک سے مر جائے اور خاندان کی کوئی فرد باقی نہ بچے۔

جناب ہاشم ابن عبد مناف نے اس نا موافق امر کے بارے میں چا رہ جوئی کی کہ اس کے بعد مکّہ میں پھر کو ئی پیدا نہیں ہوا کہ جو (اعتفاد) پر مجبور ہو. داستان اس طرح ہے:

''اعتفاد'' سے متعلق جناب ہاشم کی چارہ جوئی اور راہ حل

قرطبی نے ابن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا خلا صہ یہ ہے:

قریش کی ایسی عادت تھی کہ اُ ن میں سے جب کو ئی بھوک سے دوچار ہوتا اور کوئی راہ چارہ نہ ہوتی تو خود اور اپنے اہل وعیال کو مشہور ومعروف جگہ پر لے جاتا اور خیمہ لگا کر وہاں قیام کر تا تا کہ سب مر جائیں۔

یہ حالت''عمر وبن عبد مناف'' کے زمانے تک جو کہ اپنے زمانے کے سید وسردار تھے باقی رہی، عمروکا''اسد'' نامی ایک فرزند تھا اور وہ بنی مخزوم قبیلہ کے ایک لڑ کے کا دوست تھا کہ اس کے ساتھ کھیلتا کودتا تھا اور اسے بہت دوست رکھتا تھا۔

____________________

(۱)انساب الاشراف۔ ج ۱ ،ص ۵۸؛ اورسیرۂ ابن ہشام، ج۱، ص ۱۴۷؛ اور المحبر، تالیف ابن حبیب، ص ۱۴۶.

۲۲۴

ایک دن اسد کے دوست نے اسد سے کہا:ہم لوگ کل ''اعتفاد'' کریں گے،اس دردناک بات کا مطلب یہ تھا کہ: ہم لوگ ایک ساتھ صحرا کی طرف جائیں گے اور ایک خیمہ کے نیچے جمع ہوجائیں گے تاکہ یکے بعد دیگرے بھوک کی شدت سے ہر ایک مرتا رہے یہاں تک کہ سب کے سب مر جائیں ۔

اسد یہ بات سن کر اپنی ماں کے پاس روتا ہوا آیااور جوکچھ اس کے دوست نے کہا تھا اُس نے اپنی ماں سے کہہ سنا یا ، اسد کی ماں نے بھی ان کے لئے تھوڑآٹا اور چربی بھیجی انھوں نے چند دن اس پر گذارے پھر چند روز بعد اسد کا دوست اس کے پا س آیااور کہا:ہم لوگ کل اعتفاد کریں گے۔

اسد اس بار بھی روتا ہوا باپ کی خد مت میں پہونچا اور اپنے دوست کا واقعہ اُن سے بیان کیا یہ بات عمروابن عبد مناف پر گراں گذری لہٰذا انھوں نے قریش کے ان افراد کو جو ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے آوازدی اور ان کے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور کہا:

تم لوگوں نے ایسا کام کیاہے جس سے اپنی تعداد کم کردی ہے جب کہ قبائل عرب کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور وہ کام تمہاری ذلت وخواری اور دوسرے عرب کی عزت کا باعث ہو رہا ہے۔

تم لوگ آدم کی اولا د میں سب سے زیادہ محترم اور حرم الٰہی کے ساکن اور رہنے والے ہو اور لوگ تمہارے تابع فرمان ہیں اور تمہاری باتیں سنتے ہیں. اور قریب ہے کہ یہ اعتفادد تمھیں ہلاک کر ڈالے اور نابود کر دے؛ قریش نے کہا:ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں؛(یعنی جو آپ کا حکم ہو گا ہم ماننے کو تیار ہیں) جناب ہاشم نے کہا: سب سے پہلے اس مرد (اسد کے دوست کے باپ ) کو کچھ دواور انھیں اعتفاد سے بچاؤ انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور ایسا ہی کیا۔( ۱ )

پھر جناب ہاشم نے قریش کے مختلف قبیلوں کو دوتجارتی سفر کے لئے تیّار کیا؛جاڑے میں یمن کی جانب اور گرمی میں شام کی جانب اور یہ طے کیا کہ دولت مند جو فا ئدہ حاصل کرے اسے فقیرپر تقسیم کرے؛ یہاں تک کہ وہ فقرا ء مالداروں کے ہم پلہ ہوگئے۔

یہ صورت حال اسی طرح با قی رہی یہاں تک اسلام کا ظہور ہو گا۔

اس طرح سے عرب میں کوئی قبیلہ ثروت وعزت کے لحاظ سے قریش کا ہم پلہ اور ہم شان نہ ہو سکا کہ ایک شاعر قریش نے کہا:

____________________

(۱) لسان العرب میں(عفد) کی لفظ کے بارے میں اور تفسیر قرطبی ج۲۰ ، ص ۲۰۴ ملاحظہ ہو.

۲۲۵

والخا لطون فقیر هم بغنّهِمْ حتّیٰ یصیر فقیر هم کا لکافی

'' فقیر اور دولت مند آپس میں اس طرح مخلوط ہوگئے کہ ان کے فقر اء مالداروں کے مانند بے نیاز ہو گئے''۔

یہ صورت حال حضرت محمد صلّیٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کے خدا کی طرف سے مبعوث بہ رسالت ہونے تک باقی رہی۔

بلا ذری نے اپنی کتاب انساب الاشراف میں قریش کے ان دونوں تجارتی قافلوں کے جناب ہاشم کے ذریعہ متحرک ہو نے کے بارے میں اس طرح ذکر کیا ہے:

جناب ہاشم بن عبد مناف قریش کے تجارتی سفر کے موجد اور اس کے بانی ہیں اور اس کی داستان اس طرح ہے:

جناب ہاشم نے ابتدا میں قریش کے تجارتی قا فلہ کے روانہ ہو نے کے لئے شام کے بادشاہوں سے امنیت اور حفاظت کی ضمانت لی کہ قریش کے تجّار سالم، محفوظ اور مطمئن رہیں۔

پھر ان کے بھائی '' عبد شمس'' نے حبشہ کے حا کم سے اپنے اُن تاجروں کی حفاظت کی ضمانت جو وہاں جنس لے کر جاتے تھے ، دریافت کی اور '' مطّلب ابن عبد مناف '' نے یمن کے بادشاہ سے اور '' نوفل بن عبد مناف '' نے عراق کے حاکم سے امنیت اور حفاظت کا عہد وپیمان لیا۔

اس طرح سے دوتجارتی سفر میں جاڑے کے موسم میں یمن،حبشہ اور عراق کی طرف اورگرمی کے موسم میں شام کی طرف روانہ ہوتے تھے۔( ۱ )

خداوند عالم اس سے متعلق سورۂ قریش میں اس طرح فرماتا ہے:

(بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

( لِإِیلاَفِ قُرَیْشٍ ٭ ِیلاَفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ ٭ فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَیْتِ ٭ الَّذِی َطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ ٭ )

قریش کے انس والفت کی خاطر۔ ان کی الفت جاڑے اور گرمی کے سفر میں. لہٰذا(اس دوستی کے

____________________

( ۱) انساب الاشراف، بلاذری ، ج۱، ص ۵۹.

۲۲۶

شکرانہ کے طور پر) اس گھر کے ربّ کی عبادت کریں. وہ جس نے اُنھیں شدید بھوک میں سیر کیا اور انھیں زبر دست خوف سے مامون و محفوظ رکھا ہے۔

عرب عربی معاشرہ اور سماج میں افتخار اور نیک نامی حاصل کرنے کی خاطر مہمانوں کی دیکھ ریکھ،ان کے اکرام اور اطعام(کھانا کھلانے) میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے،خواہ جو مال وہ اس راہ میں خرچ کرتے وہ چاپلوسی، لوٹ کھسوٹ،غصب،ربا،جوے اور اس طرح کی چیزوں سے کیوں نہ حاصل ہوا ہو۔لیکن جناب ہاشم نے اس مال سے اپنی رضا یت کا اظہار نہیں کیا۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی خواہش تھی کہ انفاق خدا وند سبحان کی خوشنودگی اور رضا کے لئے ہو نا چاہئے اسی لئے وہ خشک سالی اور گرانی کی وجہ سے بھوکوں کو سیر کرتے اور تجارتی قافلوں کو غذا ڈھونے والے قافلوں سے بدل دیتے تھے،مکّہ میں وہی اونٹ جو ان کے تجارتی سامان اور اجناس ڈھوتے تھے انھیں اونٹوں کو نحر کر کے اُن سے مکّہ والوں کے لئے غذا کا بندوبست کرتے تھے۔

اس سے اہم یہ بات ہے کہ انھوں نے اعتفاد کے مسئلہ کو اپنی قوم کے درمیان سے ہمیشہ کے لئے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

اور اس سے بھی اہم یہ بات ہے کہ انھوں نے قریش کے لئے تجارتی قافلے تشکیل دئیے اور آباد اور مملو( جہاں آبادی زیادہ ہو ) جگہوں کی طرف روانہ کیا.اور چونکہ تجارتی قافلوں کے لئے جزیرة العرب میں حرمت والے مہینوں کے علاوہ روانہ ہونا عرب کے مختلف قبائل کی غارت گری اور لوٹ مار کی وجہ سے ناممکن تھا. (کیو نکہ ان کی عادت ہو چکی تھی کہ ہر مسافر اور مال پر حملہ کریں اور غارت گری اور لوٹ مچائیں). اس لئے جناب ہاشم اور ان کے بھائیوں نے شام، ایران،حبشہ اور ان عربی قبیلوں کے سرداروں سے عہد وپیمان لیا جن کی سرزمین سے قافلے گذرتے تھے۔

اس طرح سے وہ گرمی میں شام اور ایران کی طرف اور جاڑے میں یمن اور افریقا کی جانب تجارتی سفر کر تے ایسی چیز کی اختراع وایجاد عرب اور غیر عرب کی تاریخ میں کبھی نہیں پائی گئی. حتیٰ کہ حاتم جیسے جوانمرد،سخی وجواد انسان نے بھی ایسے کاموں کا اقدام نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اورنے ایسا کیا کہ جس کی سخاوت اس سے کم یا زیادہ رہی ہو۔

جناب ہاشم بن عبد مناف اپنی قوم کے اقتصادی ، معاشی اور اُخروی معاملہ میں اپنے ان کارناموں کی وجہ سے اپنی قوم کے پیشر وشمار ہوتے ہیں۔

ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ خدا وند عالم پیغمبروں کو لوگوں کے معاش اور معاد سے متعلق امور کی ہدایت کے لئے مبعوث کرتا ہے۔انھوں نے اپنے دور اور اپنے بعد والے دور میں مکّہ والوں کو عرب کے لوگوں میں سب سے زیادہ مال دار بنا دیا۔

۲۲۷

جناب عبد المطلب بن جناب ہاشم

۱۔سیرۂ ابن ہشام اور تاریخ طبری جیسی کتابوں میں بطور خلاصہ یوں نقل کیا گیا ہے:

''جناب عبد المطلب'' کی ماں نے سر میں سفید بال کی وجہ سے ان کا''شیبہ '' نام رکھا تھا۔( ۱ )

لیکن جس وقت ان کے چچا (مطلب)مدینہ گئے اور انھیں ان کی ماں سے لے کر مکّہ واپس آئے، چونکہ آپ کو اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھایا تھا تو قریش نے انھیں دیکھ کریہ خیال کیا کہ وہ بچہ جناب عبد المطلب کا غلام ہے ۔

اس وجہ سے ان کا نام '' عبد المطلب'' رکھااور یہی نام ان کے اصلّیٰ نام کی جگہ مشہو ر ہو گیا۔

یہیں سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم اسلام صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض آباء واجداد کی نام گذاری اسی طرح سے ہوئی ہے۔

جیسے''جناب ہاشم'' چور کر نے والے کے معنی میں ہے کہ یہ نام انھیں مکّہ میں قحط سالی کے زمانے میں اپنی قوم کے بے نوا افراد کے لئے سالن دار گوشت میں روٹی چور چور کرنے کی وجہ سے دیا گیا ہے اور ان کا اصلی نام '' عمروالعلیٰ '' تھا جو فراموشی کی نذر ہو گیا۔( ۲ )

یا ''عبد مناف'' کانام در اصل مغیرہ تھا کہ قریش نے انھیں عبد مناف کہاہے( ۳ ) یا قُصیّ کو مجمّع کہتے تھے کیو نکہ انھوں نے قریش کو مکّہ میں جمع کیا تھا۔( ۴ )

____________________

(۱)عبد المطلب کی سوانح حیات جاننے کے لئے ابن ہشام کی سیرہ کی پہلی جلد،ص ۱۴۵. اور تاریخ طبری، ج۲، ص۳۳۵۔ ۳۳۶، طبع بیروت، دارالفکر، ملاحظہ ہو. اور ایک شاعر نے شعر کے جناب عبد المطلب کو شیبة الحمد کہا ہے،جیسا کہ ص ۲۹۶ پر ملاحظہ کریں گے.

(۲) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حا لات زندگی میں ملاحظہ ہو۔(۳) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حا لات زندگی میں ملاحظہ ہو.

(۴) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حالات زندگی میں ملاحظہ ہو.

۲۲۸

ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے:

قریش میں جناب عبد المطلب چہرہ کے اعتبار سے حسین ترین،جسم کے لحاظ سے بہترین ، نہایت خوبصورت ڈیل ڈول کے مالک،حلم و بر دباری کے اعتبار سے سب سے زیادہ صابر اور جود وبخشش کے اعتبار سے سب سے زیادہ کریم اور جواد انسان تھے۔

وہ لوگوں میں ایسے امور سے بہت دور تھے جو لوگوں میں بد نامی اور فساد کا باعث ہوتے ہیں وہ نہایت خدا پرست انسان تھے۔

ظلم اور ناپسندیدہ افعال کو ناپسند کرتے تھے. کوئی بادشاہ ایسا نہیں تھا جو انھیں دیکھے اور ان کا احترام نہ کرے اور ان کی خواہشوں کو پو را نہ کرے اور جب تک وہ زندہ رہے قریش کے آقا و مولا رہے۔( ۱ )

۳۔مروج الذھب میں مذکور ہے:

جناب عبد المطلب بن ہا شم ایک خدا شناس اور توحید کا اقرار کرنے والے اور وعدئہ روز جزا ( قیامت) کے معترف انسان تھے اور انھوں نے سماج کے غلط رسم ورواج کو ترک کردیا تھا، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے مکّہ میںلوگوں کو خوش ذائقہ پا نی پلا یا۔( ۲ )

چاہ زمزم کی کھدائی

تاریخ طبری اور سیرۂ ابن ہشام میں (کہ ہم اس بات کو انھیں مصادر سے ذکر کررہے ہیں) ابن اسحق سے روایت کی ہے کہ اس نے حضرت امام علی سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:

جناب عبد المطلب نے کہا: میں حجرِاسماعیل میں سویا ہوا تھا کہ اس عالم میں کوئی شخص میرے پا س آتا ہے اور کہتا ہے:طیبہ( ۳ ) کی کھدائی کرو۔

میں نے سوال کیا طیبة کیا ہے؟

پھر یہ موضوع میرے ذہن سے نکل گیا،دوسرے دن اسی جگہ میں سویا ہوا تھا کہ وہی شخص آکر کہتا ہے:کنواں کھودو۔

____________________

( ۱) طبقات ابن سعد،ج۱ ص ۵۰۔۵۱؛ طبع یورپ.(۲) مروج الذھب ،مسعودی،ج۲،ص ۱۰۳، ۱۰۴.

(۳) طاب طےّبة: پاکیزہ ہوگیا، اچھا ہوا ، لذیذ ہوگیا.

۲۲۹

میں نے پوچھا کون سا کنواں؟

پھرموضوع میرے ذہن سے نکل گیا.جب تیسرے دن پھر اسی جگہ پر سویا ہوا تھا کہ پھر وہی شخص آتا ہے اور کہتا ہے:مضنونہ( ۱ ) کی کھدائی کرو!

میں نے سوال کیا مضنونہ کیا ہے؟

اور وہ چلا گیا اور جب میں چوتھے دن بھی اسی جگہ سویا ہوا تھا کہ وہی شخص آیا اور بولا:زمزم کی کھدائی کرو.میں نے پو چھا زمز م کیا ہے؟

اُس نے کہا: ایسا کنواں جس کا پانی کبھی تمام نہیں ہو گا اور انتہا کو نہیں پہو نچے گا اور کبھی سوکھے گا نہیں اور تم اس پانی سے حاجیوں کو سیراب کرو گے۔

اُس کی جگہ خون اور سر گین کے درمیان ہے( ۲ ) جہاں سرخ چونچ والا کوّا زمین پر چونٹیوں کے آشیانوں کے نزدیک چو نچ مارے گا۔ابن اسحق سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرما تے ہیں:

جب کوّے کی ماموریت جناب عبد المطلب پر واضح ہوئی اور کنویں کی جگہ کی جانب را ہنمائی ہوئی اوراطمینان ہوگیا کہ بات صحیح ہے .دوسری صبح کدال اٹھا ئی اور اپنے بیٹے حا رث کو کہ اس وقت تک ان کے علاوہ ان کا کوئی اور بیٹاپیدا نہیں ہوا تھا، اپنے ہمراہ لے گئے اور کھدائی شروع کر دی.جب کنویں کاحلقہ(دائرہ) نمایاں ہو گیا تو جناب عبد المطلب نے تکبیر کہی اور قریش کو معلوم ہوگیاکہ وہ اپنی مراد کو پہنچ گئے ہیں۔

لہٰذا اُن کے پاس جا کر بو لے: اے جناب عبد المطلب! یہ کنواں ہمارے باپ اسمٰعیل کا ہے اور ہمارا بھی اس میں ایک حق ہے ہمیں بھی اس میں اپناشریک قرار دو۔جناب عبد المطلب نے کہا:میں ایسا کام نہیں کر سکتا،یہ کنواں صرف ہم سے مخصوص ہے اور تم لوگوں کے درمیان صرف ہمیں دیا گیا ہے۔

____________________

(۱) الضنّ الضنّة: اس چیز کو کہتے ہیں جس کے بارے میں بخل کیا جا تا ہو اور اُسے کسی کو نہ دیتے ہوں ،زمزم کو مضنونہ کہتے ہیں اس لئے کہ اُس سے مومن افراد کے علا وہ کسی کو پلانے سے بخل کر تے ہیں اور منا فق اس سے سیر اب نہیں ہوتا ، مضنو نہ گرانبہا اور قیمتی شیٔ کو کہتے ہیں.(۲)خون اور سرگین ( گوبر) کے درمیان ایک مقام تھا جہاں وہ لوگ اپنے خدا کے لئے قربانی ذبح کرتے تھے اور اسی سے قریب چیونٹیوں کا آشیانہ بھی تھاصبح کے وقت جناب عبد المطلب خانہ خدا کی طرف گئے اسی وقت سرخ چونچ والا کوّا زمین پر بیٹھا اور جہاں بیٹھا تھا اُ سی جگہ چونچ ماری اس طرح سے جناب عبد المطلب چاہ زمزم کی جگہ سے آشنا ہوئے.

۲۳۰

ان لوگوں نے کہا:

اُسے ہم سب میں تقسیم کرو ورنہ ہم تمھیں اُس وقت تک نہیں چھو ڑیں گے جب تک کہ تم سے ہم لوگ جنگ وجدال نہ کریں۔

جناب عبد المطلب نے کہا:اگر ایسا ہے تو ہمارے اور اپنے درمیان اپنی مرضی کے مطابق کوئی حَکَم انتخاب کرو تا کہ وہ ہمارے درمیان قضاوت کرے۔

انھوںنے کہا:بنی سعد ِ ھذیم کی کاہنہ( ۱ )

آپ نے کہا: بہتر ہے۔

یہ کاھنہ شام کی بلندیوں کی طرف سکونت پذیر تھی۔

پھر اُس کے انتخاب کے بعد جناب عبد المطلب عبد مناف کی اولاد میں سے اپنے چند اہل خاندان کے ساتھ اور قریش کے دیگر قبائل سے چند افراد کے ساتھ سوار ہوئے اور روانہ ہوگئے۔

راوی کہتا ہے: ان کاگذر بے آب و گیاہ اور شورہ زار زمینوں سے تھا.ابھی حجاز اور شام کے درمیان کاکچھ حصہ ہی طے کیا تھا کہ جو پانی جناب عبد المطلب اور ان کے ساتھی لئے ہوئے تھے تمام ہو گیا اور سخت پیا س کا غلبہ ہوا یہاں تک کہ موت کا یقین ہو گیا۔ان لوگوں نے قریش کے قبیلوں سے پانی طلب کیا تا کہ پیاس بجھائیں لیکن انھوں نے پا نی دینے سے انکار کر دیا اور کہا:ہم بیابان میں پھنسے ہوئے ہیں اور جو مصیبت تم پر پڑی ہے اسی مصیبت کا خطرہ ہم لوگ اپنی جان کے لئے بھی محسوس کر رہے ہیں۔

جب جناب عبد المطلب نے اپنے قریشی ساتھیوں کی خسّت و پست ذہنی دیکھی، تو اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان کے لئے خوفزدہ ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا:تم لوگ کیا بہتر سمجھتے ہو؟

انھوں نے جواب دیا:ہم لوگ آپ کی رائے کے تابع ہیں جوآپ کا حکم ہو گا ہم انجام دیں گے۔ جناب عبد المطلب نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ ہم میں ابھی ہر ایک قوی اور بحال ہے اپنے لئے ایک گڑھا کھودے اور ہم میں سے جب کوئی مر جائے تو دوسرے لوگ اسے گڑھے میں ڈال کراس کے اوپر مٹی

____________________

(۱) اُس کا ھنہ کا نام تاریخ طبری میں اسی طرح ہے ،لیکن باقی دیگر منابع ومآخذ میں اس کانام '' سعد بن ھذیم'' لکھا گیا ہے، یہ نام غلط اور تحریف شدہ ہے کیو نکہ ھذیم کا ھنہ کا باپ نہیں تھا بلکہ اس کے باپ کے بعد اس کی سر پر ستی اس کے ذمّہ تھی لہٰذا کا ھنہ ھذیم کے نام کے ساتھ پہچانی جاتی ہے.

۲۳۱

ڈال دیں یہاں تک کہ صرف ایک آدمی بچے گا ایسی صورت میںایک آدمی کا ضایع ہو نا سب کے ضایع ہونے سے بہتر ہے۔

جناب عبد المطلب کے ساتھیوں نے کہا آپ کا فرمان اور دستور بہتر اور بجا ہے.پھر ان میں سے ہر ایک نے اپنے لئے ایک گڑھا کھو دا اور اس کے کنارے بیٹھ گیا،سبھی پیاس سے مر نے کاانتظار کرنے لگے. پھر کچھ وقفہ کے بعد جناب عبد المطلب نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کر کے کہا:خدا کی قسم ہم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے کہ عاجزی اور ناتوانی کے باعث اپنے ہا تھوں سے خود کو ہلاک کر ڈالیں۔

خدا سے بعید نہیں ہے کہ اس سرزمین میں کسی جگہ ہمارے لئے پانی کا انتظام کر دے.اٹھو اور حرکت کرو۔

ساتھیوں نے حکم کی تعمیل کی اور روانہ ہوگئے،یہاں تک کہ سبھی ، قبیلہ قریش کے افراد سے آگے ہوگئے اور قریشیوں نے ان کا نظارہ کرنا شروع کیا کہ دیکھیں کیا کرتے ہیں ۔

جناب عبد المطلب اپنے اونٹ کے قر یب گئے اور سوار ہوگئے جیسے ہی اپنی سواری کو حرکت دی اس اونٹ کے قدم کے نیچے خو شگوار پانی کا چشمہ جاری ہو گیا۔

جناب عبد المطلب نے تکبیر کہی اور ان کے ساتھیوں نے بھی تکبیر کہی پھر اتر کر خود اور ان کے ساتھیوں نے اُس پا نی سے اپنے آپ کوسیراب کیا اور اپنی مشکوں کو بھی پا نی سے بھر لیا ۔

جناب عبد المطلب نے اس کے بعد قریش کے افراد کو آواز دی اور کہا :پانی کے نزدیک آؤ کہ خدا وند عالم نے ہمیں سیراب کیا ہے۔

وہ لوگ آگئے اور پانی نوش کیا اور اپنے برتنوں کوبھی پانی سے بھر لیا اور اس وقت کہا: اے عبدالمطلب! خدا وند عالم نے تمہارے فا ئدہ کی خا طر ہمارے بر خلاف حکم کیا ہے ،خدا کی قسم ہم زمزم کے معاملہ میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے جس ذات نے تمھیں اس چٹیل میدان میں پا نی دیا ہے،اسی نے تمھیں زمزم بھی عنا یت کیا ہے.سرفراز اور کا میاب اس کی طرف لوٹ جاؤ۔

جناب عبد المطلب اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس ہوگئے اور اُس کاہن عورت کے پا س نہیں گئے اور اُسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔

۲۳۲

ابن اسحق کہتا ہے: یہ ایک ایسی چیز ہے جو حضرت علی ابن ابی طالب (رضی ﷲ عنہ) کی گفتگو سے ہم تک زمزم کے بارے میں پہونچی ہے۔( ۱ )

یعقوبی نے تحریر فرمایا ہے:

جب حبشہ کا بادشاہ ابرھہ کعبہ کوڈھا نے کی غرض سے اپنے ہا تھی سواروں کے ساتھ مکّہ آیا،قریش پہاڑوں کی چوٹیوں پر فرار ہوگئے جناب عبد المطلب نے ان سے کہا: کاش ہم لوگ اکٹھا اور ایک قوت ہوتے اور اس فوج کو خا نہ خدا سے بھگادیتے۔

انھوں نے کہا : اس کے مقابل ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔

اس لئے جناب عبد المطلب حرم میں باقی رہے اور کہا:میں خدا کے گھر سے باہر نہیں جا ؤں گا اور خدا کے علاوہ کسی سے پناہ نہیں ما نگوں گا۔

ابرھہ کے سپا ہیوں نے جناب عبد المطلب کے اونٹوں کو پکڑ لیا.جناب عبد المطلب ابرھہ کے پاس گئے جب انھوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی،تو ان لوگوں نے ابرھہ سے کہا عرب کے سید وسردار،قریش کے بزرگ، لوگوں میں معزز انسان تمہارے پاس آئے ہوئے ہیں۔

آپ اُس کے پاس گئے،ابرھہ نے ان کا احترام واکرام کیا اور جمال و کمال اور ان میں پا ئی جا نے والی شرافت کی بناء پر انھوں نے اُس کے دل میں جگہ بنا لی،اس نے اپنے متر جم سے کہا:

جناب عبد المطلب سے کہو: تم جو چاہتے ہو درخواست کرو۔

جناب عبد المطلب نے کہا:اپنے ان اونٹوں کو تم سے مانگتا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے پکڑ لیا ہے۔

ابرھہ نے کہا:

تم کو دیکھنے کے بعد میں نے ،تمھیں ایک جلیل القدر،عظیم المرتبت انسان خیال کیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ میں تمہاری عظمت وشرافت ، شان وشوکت کو در ہم بر ہم کر نے آیا ہوں اور تم مجھ سے میرے واپس جا نے کا مطالبہ نہیں کرتے کہ واپس چلا جائوں اور کعبہ کو اس کے حال پر چھوڑدوں، ایسے میں تم مجھ سے اپنے اونٹوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہو؟!

جناب عبد المطلب نے جواب دیا:

میں ان اونٹوں کا ما لک ہوں اور اس گھر کا جس کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ منہدم کر دو گے اس

____________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام، ج۱ ، ص ۱۵۴ ۔۱۵۵. طبع مبطع حجازی، قاھرہ، ۱۳۵۶ ھ.

۲۳۳

کا بھی ایک مالک ہے کہ تم کو اس کام سے روک دے گا .ابرھہ نے جناب عبد المطلب کے اونٹوںکو واپس کردیا اور ان کی باتوں سے اس کے دل میں خوف پیدا ہو گیا۔

جب جناب عبد المطلب ابرھہ کے پاس سے واپس آئے اپنے فرزندوں اور ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور کعبہ کے دروازہ تک گئے اور اُس سے لپٹ کر بو لے:

لهم!ان تعف فا نهم عیالک ( ۱ )

یا ربّ انَّ العبد یمنعُ رحلهُ فامنع رحالک

لایغلبنّ صلیبهم و محا لهم ابداً محالک

''ابرھہ نے ہمیں نابود کر نے کا ارادہ کیا ہے.خدایا اگر تو نے انھیں معاف کر دیا تو وہ تیرے عیال ہیں....

خدایا! ہر بندہ اپنے گھر کا دفاع اور بچاؤ کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع اور تحفظ کر. کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی صلیب اور اُن کی طاقت از روی ظلم وبیداد تیری طاقت پر غا لب آجا ئے''۔

کہ خدا وند عالم نے ابا بیلوں کا لشکر اُس سے جنگ کر نے کے لئے بھیج دیا۔( ۲ )

بحار الانوار میں خلاصہ کے ساتھ اس طرح مذکور ہے:

جناب عبد المطلب نے اپنے بیٹے جناب عبد اللہ کو بھیجا تا کہ ابرھہ کے سپا ھیوں کی خبر لائے،پھر اس وقت خود خا نہ خدا کی طرف گئے اور سات بار اس کا طواف کیا، پھر صفا و مروہ کی جانب رخ کیا اور وہاں کی بھی سات بار سعی کی۔

جناب عبد اللہ ابو قبیس نامی پہا ڑ پر چڑھ گئے اور دیکھا کہ پرندوں( ابابیل) نے ابر ھہ کے لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے. لہٰذا واپس آئے اور اس کی خوشخبری اپنے باپ کو دی۔

جناب عبد المطلب بیٹے کی خبر سن کر باہر آئے اور کہہ رہے تھے:اے مکّہ والو!دشمن کے پڑاؤکی طرف غنائم حا صل کر نے جاؤ۔

____________________

(۱) ہم نے یعقوبی کی باتوں کا خلا صہ اس کی تاریخی کتاب کی ج۱، ص ۲۵۰۔ ۲۵۴ سے ذکر کیا ہے، یہ خبر دوسرے لفظوں میںسیرۂ ابن ہشام کی پہلی جلد کے ۵۴اور ۱۶۸ صفحہ اور طبقات ابن سعد، طبع یورپ، ج۱، ص ۲۸ ۔۵۶ پر بھی مذکو ر ہے.

(۲)مروج الذھب مسعودی، ج۲، ص ۱۰۵؛ سیرۂ ابن ہشام، ج۱، ص ۵۱.

۲۳۴

لوگ دشمن کی پڑاؤ کی طرف روانہ ہوئے اور دیکھا کہ ابرھہ کے سپا ہی ٹوٹے پھوٹے تختوں کے مانند درہم برہم ہو کر ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں.سارے پرندوں کی چونچ اور چنگل میںتین سنگر یزے تھے کہ ہر ایک سے اس لشکر کے ایک ایک سپا ہی کی حالت تباہ کر رہے تھے جب سب کو تباہ کر ڈالا تو واپس چلے گئے.ایسی چیز کسی نے نہ اس سے پہلے دیکھی تھی اور نہ بعد میں۔

جب سارے سپا ہی ہلاک ہوگئے،جناب عبد المطلب کعبہ کی طرف واپس آئے اور کعبہ کا پر دہ پکڑ کر کہا:

یا حابس الفیل بذی المغمس

حبسته کأ نَّه مکوّس

فی مجلس تزهق فیه الأ نفس

''اے وہ ذات جس نے ہا تھی کے لشکر کو ذی مغمس( ۱ ) نامی جگہ پر روک دیا.

اسے اس طرح روک دیا کہ گویا سر نگو ہو گیا تھا، وہ ایسے مخمصہ میں گرفتار ہوگیا جس میں جان نکل جا تی ہے''۔

پھر واپس آئے اور حبشہ کے سپاہیوں سے قریش کے فرار کر نے اور ان کی بے تابی کے بارے میں کہا:

طارت قریش اذرأت خمیساً

فظلت فرداً لا أریٰ أنیساً

و لا أحسّ منهم حسیساً

ا لّا اَخاً لی ما جداً نفیساً

مسوّداً فی اهله رئیسا( ۲ )

'' جب قریش کی ابرھہ کے لشکر پر نظر پڑی تو داہنے بائیں سے فرار ہوگئے اور میں تن تنہا بے ناصر و مددگار رہ گیا حتی کہ ان کی دھیمی آواز بھی میں نے نہیں سنی، سوائے ایک بھائی کے جو میرا تھا، وہ عظیم اور نیک انسان تھا.وہ اپنے اہل (اور قوم) کے درمیان سید و سردار،صاحب فضل و شرف اور عظیم المرتبت انسان ہے''۔

مسعودی کی مروج الذھب میں مذکور ہے:

جس وقت خدا وند سبحان نے ابرھہ اور اُس کے لشکر کو مکّہ میں داخل ہو نے سے روک دیا(اور انھیں نیست ونابود کر دیا)اس وقت جناب عبد المطلب نے اس طرح شعر ارشاد فر مایا:

____________________

(۱) ذی مغمس مکّہ سے نزدیک طا ئف کے راستہ پر ایک مقام ہے،معجم البلدان.(۲)بحار الانوار، ج۱۵، ص ۱۳۲، مجالس شیخ مفید کی نقل اور شیخ طوسی کے فرزند کی امالی کی نقل کے مطابق ص ۴۹ اور .۵.

۲۳۵

انَّ للبیت لرباً ما نعاً

من یرده بأَثامٍ یصطلم

(گھر کا روکنے والاایک مالک ہے کہ جو بھی اس کی طرف برا قصد کر ے گا تو وہ اسے نابود کر دے گا)

رامه تُبّع فی من جند ت

حمیر و الحی من آل قدم .( ۱ )

( تبع انھیں میں سے ایک تھا کہ جس نے لشکر کشی کی،اسی طرح حمیر اور اس کے قبیلہ والے )

فانثنیٰ عنه و فی او داجه

جارح امسک منه بالکظم

(کہ لوٹنے کے بعد اس کی گردن میںکچھ زخم تھے جو سانس لینے سے مانع تھے)۔

قلت و الأشرم تردی خیله

اِنّ ذا الاشرم غرّ بالحرم

(اور اس کان کٹے (ابرھہ) سے جو اپنے لشکر کو ہلاکت میں ڈال رہا تھا میں نے کہا:بیشک یہ گوش بریدہ(کان کٹا) حرم کی بہ نسبت نہایت مغرور ہے)۔

نحن آل الله فی ما قد مضی

لم یزل ذاک علی عهد اِبرهم

( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔

نحنُ دمَّرنا ثموداً عَنوة

ثم عادا قبلها ذات ا لارم

( ہم نے ثمود کی سختی کے ساتھ گو شمالی کی اور انھیں ہلاک کر ڈالا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو )

___________________

(۱)ایک دوسرے نسخہ میں٫٫ من آل قرم،، ذکر ہوا ہے.

۲۳۶

نعبد الله وفینا سُنّة

صلَة القربیٰ وایفاء الذمم

( ہم خدا کی عبادت کر تے ہیں اور ہمارے درمیان صلہ رحم اور عہد کا وفا کرنا سنت رہا ہے)۔

لم تزل للهِ فینا حجّة

یدفع الله بها عنّا النّقم

( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔

اشعار کی تشریح

۱۔آثام:

گناہ اور اسی طرح گناہوں کی سزا کو بھی کہتے ہیں۔

۲۔یصطلم:

اصطلمہ وصلمہ الدّھرا والموتُ اوالعدُوّ: انھیں بے چارہ کردے،انھیں نابود کرے۔

۳۔تُبّع:

یمن کے بادشاہوں کو کہا جا تا ہے، جس طرح روم کے بادشاہوںکو قیصر اور ایران کے بادشاہوں کو کسریٰ کہا جا تا ہے اور وہ تُبّع حَمِیْرَ کہ جس نے خانۂ کعبہ کے ساتھ برا قصد کیا تھا انھیں میں سے ایک تھا۔

۴۔جارح:

زخم۔

۵۔کظم:

سانس کی نالی۔

۶۔اشرم:

کان یا ناک کٹا ہوا(یعنی وہ شخص جس کا کان یا ناک شگا فتہ ہو) اور حضرت عبد المطلب کے کلام سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابرھہ ایسا ہی تھا۔

۲۳۷

۷۔تردیٰ:

ہلاکت میں ڈال دے۔

۸۔غُرَّ :

غرَّ غرّا وغروراً: اسے دھو کہ دیا، اسے مجبور کیا کہ وہ ایک باطل چیز کی خواہش کرے،ایسا شخص مغرور اور فریب خوردہ ہے۔

۹۔ااِبْرَھَم:

ابراہیم ہے کہ ضرورت شعری کی بناء پر مخفف ہو گیا ہے۔

۱۰۔عنوة:

اخذ الشیٔ عنوةً: یعنی کوئی چیز زبر دستی اور مجبور کر کے لینا۔

۱۱۔ایفاء الذمم:

عہد کا وفا کر نا یعنی ہم ذریت حضرت ابراہیم کے د رمیان صلۂ رحم اور وفاء عہد کا رواج عام رہا ہے۔

یا ہمارے درمیان آل اللہ یعنی انبیاء جیسے ہود،صالح اور ابراہیم تھے اور یہ کہنا بجا ہے کہ جناب عبد المطلب نے لفظ'' فینا'' سے دونوں گروہ کو نظر میں رکھا ہے ۔

کیونکہ حضرت ابراہیم کی ذریت میں آل ﷲ اور اس کی حجتیں رہی ہیں، جیسا کہ حضرت ابراہیم سے پہلے انبیاء تھے جیسے ہود ا ور صالح ۔

جناب عبد المطلب ان اشعار میںیہ فرماتے ہیں کہ اس گھر کا ایک مالک ہے جو ہر اس شخص کو روکے گا جو گناہ کے ارادے سے اس کی طرف قدم بڑھائے گا اور اسے مسمار کر نا چاہے گا .اسی طرح ان اشعار میں تبع حمیری کا تذکرہ کر تے ہیں کہ جس نے خا نہ خدا پر دست دارزی کی، پھر بات کو ابرھہ تک لے جا تے ہوئے فرماتے ہیں:

جب اُس کان کٹے یا ناک کٹے شخص نے خا نہ خدا پر حملہ کا ارادہ کیا تو میں نے کہا: یہ کان کٹا حرم کے ساتھ تجاوز کر نے میں بہت زیادہ مغرور اور فریب خوردہ ہے۔

جناب عبد المطلب اس مطلب کے ذکر کے بعد خبر دیتے ہیں کہ خود ان کا اور ان کے آباء و اجداد کا سلسلہ حضرت اسمٰعیل کی ذریت سے ہے اور حضرت ابراہیم کے زمانے ہی سے وہ آل اللہ ہیں ،جس طرح ہود اور صالح جیسے لوگ آل اللہ تھے؛ یہ ہوداور صالح ایسے آل اللہ ہیں جنھوں نے قوم عاد(ارم شہر والوں) اور اس کے بعد قوم ثمود کو اکھاڑ پھینکا ہے۔

۲۳۸

خدا وند عالم نے ابرھہ کی داستان اپنی کتاب قرآن کریم میں اس طرح بیان کی ہے:

بِسْم اللّٰه الرَحمنِ الرَحِیمْ

( ااَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعلَ رَبُّکَ بأِصْحَابِ الفِیلِ٭ ااَلَمْ یَجْعَل کَیْدَهُم فِیْ تَضْلِیل٭ وَاَرْسَلَ عَلَیهِمْ طَیراً اَبَابِیل٭ تَر مِیْهِم بِحِجارةٍ مِنْ سِجِّیلٍ٭ فَجَعَلَهُم کَعَصفٍ مَأ کُولٍ )

بخشنے والے اور مہربان خدا کے نام

(اے ہمارے رسول!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا کیا؟!

کیا ان کے مکر وحیلہ کو بیکار نہیں کیا؟! اور ان کے ہلاک کرنے کے لئے ابابیل پرندوں کو بھیجا. انھیں کھرنجوں کی کنکریاں مار رہے تھے. پھر انھیں چبائے ہوئے بھوسے کے مانند بنا دیا۔

۲۳۹

اسی طرح خدا وند عالم نے جناب عبد المطلب کی تعبیر میں قوم ثمود اوراُن کے صالح آل اللہ سے مقابلے کے متعلق اس طرح خبر دی ہے:

( وَاِلیٰ ثَمُودَ اَخَاهُمْ صَالِحاًقَالَ یَاقَومِ اعبُدُوا اللّٰهَ مَالَکُمْ من اِلهٍ غَیرُه...٭قَالُوا یَاْ صَالِحُ قَدْ کُنتَ فِینَا مَرجوّاً قَبلَ هَٰذا اَتَنهاٰنَا أن نَعبُدَ مَا یَعبُد ابَأؤنَا وَاِنَّناَ لَفِی شَکٍ مِمَّاتَدْ عُونَااِلیهِ مُرِیبٍ٭قَالَ یَا قَومِ اَرَایتُم اِنْ کُنْتُ عَلیٰ بیِّنةٍ مِنْ ربِّیِ وَآتَانِی مِنْهُ رَحْمَةً...٭فَلَمَّاجَاء اَمْرُنَا نَجَّینَا صَالِحاً وَالَّذِینَ آمَنوا معهُ...٭وَ أَخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیحَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دِیٰارِهِمْ جَاثِمینَ٭ ...اَلاَّ بُعداً لِثمُود ) ( ۱ )

ہم نے صالح پیغمبر کو قوم ثمود کی طرف بھیجا.صالح نے کہا:اے میری قوم!اُس خدا کی عبادت کرو جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے...(قوم نے) کہا:اے صالح! تم اس سے پہلے ہمارے درمیان امید کا مرکز تھے.کیا تم ہمیں اس کی پرستش سے روکتے ہو جس کی ہمارے آباء واجداد نے عبادت کی ہے؟ہم اس چیز سے جس کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو سخت بد گمان ہیں.صالح نے کہا:اے میری قوم!اگر ہم اپنے دعویٰ پر خدا کی طرف سے ایک دلیل اور معجزہ رکھتے ہیں اوراُس سے مجھے ایک رحمت ملی ہو تو اس وقت تمہاری کیا رائے ہو گی؟ جب ہمارے قہر کا حکم پہنچا تو ،صالح اور وہ لوگ جو ایمان لائے تھے ان کو ہم نے نجات دی....اور ظالموں کو آسمانی صیحہ ( چنگھاڑ ) نے اپنی گرفت میں لے لیا اور صبح کے وقت اپنے دیار میں(ہمیشہ کے لئے) بے حس وحر کت پڑے رہ گئے.... آگاہ رہو کہ ثمود رحمت خداوندی سے دور ہیں۔

اسی طرح ان کے اخبار اور حکا یات قرآن کریم میں دوسری جگہ ۲۷ مقام پر ذکر ہوئی ہیں(۲ )

پھر اس کے بعد جناب عبد المطلب اپنی گفتگو میں خبر دیتے ہیں:

ثمَّ عاداً قبلھا ذات الارم۔ قوم عاد کہ انھیں خدا وند عالم نے ہلاک کر ڈالا جو کہ قوم ثمود سے پہلے زندگی گذار رہے تھے آپ کی یہ گفتگو سورۂ اعراف کی ۶۵ ویں تا ۷۴ ویں اور سو رہ ہود کی ۵۰ویں تا۶۸ ویں آیات سے یا دیگر سوروں میں جو بیان ہوا ہے اس سے مطابقت رکھتی ہے۔( ۳ )

____________________

(۱) سورۂ ہود، آیت، ۶۱ تا ۶۳، ۶۶ اور ۶۸.(۲) لفظ ثمو د کے لئے الفاظ قرآن کر یم سے متعلق المعجم المفہرس ملاحظہ ہو.

(۳)لفظ عاد کے لئے الفاظ قرآن کریم سے متعلق المعجم المفہرس ملا حظہ ہو.

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352