اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 352
مشاہدے: 112477
ڈاؤنلوڈ: 2344


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 112477 / ڈاؤنلوڈ: 2344
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد 3

مؤلف:
اردو

قُصیّ کی وفات

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

قُصیّ انتقال کر گئے اور '' حجون '' میں سپرد لحد ہوئے ان کے بعد ان کے فرزند''عبد مناف '' نے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور ریاست حاصل کی اور ان کی قدر ومنز لت بڑھ گئی اوران کے شرف ومرتبہ میں اضا فہ ہوگیا۔( ۱)

عبد مناف بن قُصیّ

سیرۂ حلبیہ اور نبویۂ میں مذکور ہے:

عبد مناف کا نام مغیرہ تھا اور پتھر پر لکھی ایک تحریر ہاتھ لگی جس میں تحریر تھاقُصیّ کے فرزند مغیرہ نے تقوای الٰہی اختیار کر نے اور صلہ رحم کر نے کی وصیت کی ہے۔( ۲ )

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

(قُصیّ کے بعد) ''عبد مناف بن قُصیّ'' کو ریا ست ملی انھوں نے بھی اپنی حیثیت اور قدر و منزلت بڑھا لی اور اپنے شرف ومرتبہ میں اضافہ کیا۔

جناب ہاشم بن عبد مناف

عبد مناف کے فرزند ھا شم کانام '' عمر والعلیٰ '' تھا۔

۱۔ طبقات ابن سعد اور تاریخ یعقوبی میں خلا صہ کے طور پر مذ کور ہے:

اپنے باپ کے بعد جناب ہاشم نے مرتبت و منزلت حاصل کی اور ان کا نام اور چرچہ شہرہ آفاق ہو گیا اور قریش نے موافقت کی کہ سقایت (سیراب کرنا) ،ریاست اور رفادت (حاجیوں کی مدد کرنا) جناب ہاشم بن عبد مناف کے اختیا ر میں ہو گی۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ، ج۱، ص ۲۴۱ جوہم نے جرھم، خزاعہ اور قُصیّ کے بارے میں مفصل گفتگو کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہو جائے کہ جنھوں نے ابرا ہیم کے دین حنیف کو بد لا ہے وہ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل کی اولا د کے علا وہ تھے.

(۲) سیرۂ حلبیہ،ج۱،ص ۷ اور سیرۂ بنویہ، ج۱، ص ،۱۷؛ سبل الھدی، ۱، ۲۷۴.

۲۲۱

جناب ہاشم مراسم حج کی انجام دہی کے موقع پر قریش کے درمیان کھڑے ہو کر فرماتے تھے :

اے قریش واالو! تم لوگ خدا کے پڑوسی او راس کے اہل خانہ ہو.اس موسم میں خدا کے زوّار تمہارے پاس آئیں گے تا کہ اُس کے گھر کی حرمت کی تعظیم کریں.وہ لوگ خدا کے مہمانوں میں سے ہیں لہٰذااحترام کے زیادہ حق دار ہیں۔

خدا نے تمھیں اس کام کے لئے منتخب کیا ہے اور تمھیں اسی وجہ سے بزرگ بنایا ہے خدا نے تمہاری ہمسایگی کی رعایت و نگہداشت ہر ہمسایہ سے کہیں بہترکی اور ہر پڑوسی سے بہتر اپنے پڑوسی کو محفوظ رکھا ہے اب تم لو گ اس کے مہمانوں اور زائرین کا اکرام کرو.کہ وہ لوگ الجھے ہوئے بالوں ، غبار آلود صورتوں میں ہر شہر وعلاقہ سے اونٹ پر سوار ہو کر جو کہ لا غر ہو نے کے لحاظ سے تیر کی لکڑیوں کے مانند ہے راستہ سے پہنچنے ہی والے ہیں اس حال میں کہ وہ تھکے ماندے ہیں، بدبو دار، کثیف، گرد میں اٹے اور نادار لوگ ہیں لہٰذا ان کی مہمانی کے لئے اٹھ کھڑے ہو اور ان کی بے نوائی اور احتیاج کو دور کرو۔

جناب ہاشم نے کا فی مال اکٹھا کیا اور حکم دیا کہ کھال سے حوض تیار کریں اور زمزم کے پاس رکھ دیں پھر پانی سے ان کنوؤں کو پُر کر تے تھے جو مکّہ میں پائے جا تے تھے اور حاجیوں کو ان سے پلاتے تھے اور مکّہ منی، مشعر اور عرفات میں لوگوں کو غذا دیتے تھے،روٹی گوشت،گھی اورآٹا ان کے لئے فراہم کر تے تھے اور ان کے لئے منیٰ تک پانی اٹھا کر لیجاتے تا کہ وہ پئیں؛یہاں تک کہ حاجی لوگ منیٰ سے پرا گندہ ہو کر اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے جاتے تھے۔( ۱)

۲۔ کتاب سیرۂ حلبیہ و نبویۂ میں مذکور ہے:

جب ذ ی ا لحجہ کا چاند نمودار ہوتا تھا تو جناب ہا شم صبح کے وقت اُٹھتے اور در کی طرف سے دیوار کعبہ سے ٹیک لگاتے اور اپنے خطبہ میں کہتے:

اے قریش کی جماعت! تم لوگ عرب کے سردار ہو اور سب سے زیادہ نیک نام ہو اور سب سے زیادہ عقلمند اور تمام قبیلوں سے زیادہ شریف اور عربوں میں عرب سے رحم کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہو۔

اے قریش کی جماعت! تم لوگ خدا وند متعال کے گھر کے پڑوسی ہو،خدا وند عالم نے تمھیں اپنی ولایت سے نوازا ہے اور تمہارے بعد اپنی ہمسا ئگی کو اسمٰعیل کے فرزندوں میں تم سے مخصوص کیا ہے۔

____________________

(۱) طبقات ابن سعد،ج۱، ص ۴۶ ؛ تاریخ یعقوبی،ج۱،ص ۲۴۲،طبع بیروت ۱۳۷۹ھ ہم نے ان دونوں کی باتوں کو جمع کیا ہے.

۲۲۲

اب خدا کے زائر جواُس کے گھر کو عظیم سمجھتے ہیں تمہارے نز دیک آرہے ہیں وہ اس کے مہمان ہیں اور خدا کے مہمانوں کی قدر دانی کے لئے سب سے زیادہ لائق تم ہو۔

لہٰذا اس کے زائروں اور مہمانوں کی قدردانی کرو ،کہ وہ لوگ الجھے ہوئے غبار آلود بالوں کے ساتھ ہر شہر اور ہر علا قے سے ایسے اونٹوں پر سوارہو کر جو کہ تیر کی لکڑیوں کے مانند لا غر اور دبلے پتلے ہیں، پہنچنے ہی والے ہیں؛ لہٰذا اس کے گھرکے زائرین اور مہمانوں کی قدر دانی اور ضیا فت کرو.اس کعبہ کے ربّ کی قسم اگر ہمارے پاس اتنا مال ہوتا کہ ان تمام امور کے لئے کفایت کر تا تو تم سے مدد نہیں مانگتے.اب میں اپنے پاک وحلال مال سے کہ جس میں قطع رحم کا شائبہ تک نہیں اور نہ ہی کوئی مال ظلم وستم سے حاصل کیا گیا ہے اور نہ اُس میں کسی حرام کی آمیزش ہے (کچھ ان امور میں مصرف کے لئے) کنارے رکھتا ہوں (جدا کر تا ہوں) اور تم میں سے جو ایسا کرنا چا ہتاہے ایسا کرے۔

تم میںسے اس گھر کی حر مت کے ذریعہ چا ہتا ہوں کہ تم سے کو ئی مرد بیت اللہ کے زائروں کا اکرام کرنے اور انھیں تقویت پہنچا نے کے لئے حلال اور پاک مال کے سوا جدا نہ کرے؛ اُس میں ایک دنیار بھی ظلم وستم کے ذریعہ نہ لیا گیا ہو اورکسی سے قطع رحم نہ ہوا ہو اور زور زبردستی سے نہ لیا گیا ہو۔

ان لوگوں نے بھی تعمیل حکم کر تے ہوئے دقت سے کام لیتے ہوئے اپنے مال میں سے حلال مال کوالگ کر کے دار الندوہ میں رکھ دیتے تھے۔( ۱ )

۳۔ انساب ا لاشراف اور ابن ہشام کی سیرہ اور المحبّر میں مذکو ر ہے(اور ہم انساب الاشراف کی بات نقل کرتے ہیں):

ایک سال قریش کو قحط(خشک سالی) کا سامنا ہوا اور ان کے اموال تباہ ہوگئے اور بے چارگی و تنگد ستی سب پر چھا گئی.یہ خبر جناب ہاشم کو جو کہ شام کے غزہ نامی ( ۲). علا قے میں تجا رت کے لئے گئے ہوئے تھے پہنچی تو جناب ہاشم نے حکم دیا کہ روغنی روٹی (کیک) اور سادہ روٹی فراہم کریں ان کے دستور کے اجراء کے ساتھ ہی اس سے کہیں زیادہ چیزیں فراہم ہوگئیں.پھر انھیں تھیلوں میں رکھ کر اونٹوں پر لا د کر مکّہ کی طرف روانہ ہوگئے.جب مکّہ پہونچے تو حکم دیا کہ انھیں توڑ توڑ کر سالن میں بھگو دیں اور جو اونٹ اپنے ہمراہ لائے تھے انھیں نحر کر ڈالا اور مکّہ کے رہنے والوں کو سیر کر کے انھیں گرسنگی اور بھوک سے نجات دی۔

____________________

(۱)سیرئہ حلبیہ ج۱ ،ص۶ ، سیرئہ نبویہ ج ۱ ،ص۱۹.(۲) غرہ مصر کی سمت شام کی انتہا میں ایک شہر ہے؛ معجم البلدان.

۲۲۳

عبد اللہ ابن زبعریٰ نے اس قحط کے بارے میں جس نے مکّہ والوں کو زحمت و مشقت میں مبتلا کر رکھا تھا اس طرح یاد کیا ہے۔( ۱ )

عمر و العلیٰ هشم الثّر ید لقومه

و رجال مکّه مسنتون عجاف

وهو الّذی سنّ الرحیل لقومه

رحل الشتاء ورحلة الاصیاف

'' عمرو عُلیٰ'' نے اپنی قوم کے لئے سالن دار گوشت تیا ر کیا.جبکہ مکّہ والے قحط سے دوچار تھے ۔

اُس نے اپنی قوم کے لئے کاروانی تجا رت کی سنت قائم کی۔جاڑے کے کاروان اور گرمی کے کاروان کے عنوان سے ۔

اسی سال، تمام مکّہ والوں کو قحط نے اپنی گرفت میں لے لیا اور جناب ہاشم نے جو کچھ کیا اس سے تھوڑی ہی مدّت تک ان کی فریاد رسی ہوئی.لیکن اس تاریخ کے بعد مکّہ والوں کے درمیان کچھ ایسے بھی افراد تھے جو گر سنگی کے سامنے کوئی چارہ کار نہیں رکھتے تھے سوائے یہ کہ(اعتفاد) کریں اور ''اعتفاد'' یہ تھا کہ گھر اور خاندان کے تمام افراد صحرا کی طرف چلے جاتے تھے اور وہاں جا کرکسی سایہ میں موت کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے تاکہ یکے بعد دیگرے بھوک سے مر جائے اور خاندان کی کوئی فرد باقی نہ بچے۔

جناب ہاشم ابن عبد مناف نے اس نا موافق امر کے بارے میں چا رہ جوئی کی کہ اس کے بعد مکّہ میں پھر کو ئی پیدا نہیں ہوا کہ جو (اعتفاد) پر مجبور ہو. داستان اس طرح ہے:

''اعتفاد'' سے متعلق جناب ہاشم کی چارہ جوئی اور راہ حل

قرطبی نے ابن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا خلا صہ یہ ہے:

قریش کی ایسی عادت تھی کہ اُ ن میں سے جب کو ئی بھوک سے دوچار ہوتا اور کوئی راہ چارہ نہ ہوتی تو خود اور اپنے اہل وعیال کو مشہور ومعروف جگہ پر لے جاتا اور خیمہ لگا کر وہاں قیام کر تا تا کہ سب مر جائیں۔

یہ حالت''عمر وبن عبد مناف'' کے زمانے تک جو کہ اپنے زمانے کے سید وسردار تھے باقی رہی، عمروکا''اسد'' نامی ایک فرزند تھا اور وہ بنی مخزوم قبیلہ کے ایک لڑ کے کا دوست تھا کہ اس کے ساتھ کھیلتا کودتا تھا اور اسے بہت دوست رکھتا تھا۔

____________________

(۱)انساب الاشراف۔ ج ۱ ،ص ۵۸؛ اورسیرۂ ابن ہشام، ج۱، ص ۱۴۷؛ اور المحبر، تالیف ابن حبیب، ص ۱۴۶.

۲۲۴

ایک دن اسد کے دوست نے اسد سے کہا:ہم لوگ کل ''اعتفاد'' کریں گے،اس دردناک بات کا مطلب یہ تھا کہ: ہم لوگ ایک ساتھ صحرا کی طرف جائیں گے اور ایک خیمہ کے نیچے جمع ہوجائیں گے تاکہ یکے بعد دیگرے بھوک کی شدت سے ہر ایک مرتا رہے یہاں تک کہ سب کے سب مر جائیں ۔

اسد یہ بات سن کر اپنی ماں کے پاس روتا ہوا آیااور جوکچھ اس کے دوست نے کہا تھا اُس نے اپنی ماں سے کہہ سنا یا ، اسد کی ماں نے بھی ان کے لئے تھوڑآٹا اور چربی بھیجی انھوں نے چند دن اس پر گذارے پھر چند روز بعد اسد کا دوست اس کے پا س آیااور کہا:ہم لوگ کل اعتفاد کریں گے۔

اسد اس بار بھی روتا ہوا باپ کی خد مت میں پہونچا اور اپنے دوست کا واقعہ اُن سے بیان کیا یہ بات عمروابن عبد مناف پر گراں گذری لہٰذا انھوں نے قریش کے ان افراد کو جو ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے آوازدی اور ان کے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور کہا:

تم لوگوں نے ایسا کام کیاہے جس سے اپنی تعداد کم کردی ہے جب کہ قبائل عرب کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور وہ کام تمہاری ذلت وخواری اور دوسرے عرب کی عزت کا باعث ہو رہا ہے۔

تم لوگ آدم کی اولا د میں سب سے زیادہ محترم اور حرم الٰہی کے ساکن اور رہنے والے ہو اور لوگ تمہارے تابع فرمان ہیں اور تمہاری باتیں سنتے ہیں. اور قریب ہے کہ یہ اعتفادد تمھیں ہلاک کر ڈالے اور نابود کر دے؛ قریش نے کہا:ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں؛(یعنی جو آپ کا حکم ہو گا ہم ماننے کو تیار ہیں) جناب ہاشم نے کہا: سب سے پہلے اس مرد (اسد کے دوست کے باپ ) کو کچھ دواور انھیں اعتفاد سے بچاؤ انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور ایسا ہی کیا۔( ۱ )

پھر جناب ہاشم نے قریش کے مختلف قبیلوں کو دوتجارتی سفر کے لئے تیّار کیا؛جاڑے میں یمن کی جانب اور گرمی میں شام کی جانب اور یہ طے کیا کہ دولت مند جو فا ئدہ حاصل کرے اسے فقیرپر تقسیم کرے؛ یہاں تک کہ وہ فقرا ء مالداروں کے ہم پلہ ہوگئے۔

یہ صورت حال اسی طرح با قی رہی یہاں تک اسلام کا ظہور ہو گا۔

اس طرح سے عرب میں کوئی قبیلہ ثروت وعزت کے لحاظ سے قریش کا ہم پلہ اور ہم شان نہ ہو سکا کہ ایک شاعر قریش نے کہا:

____________________

(۱) لسان العرب میں(عفد) کی لفظ کے بارے میں اور تفسیر قرطبی ج۲۰ ، ص ۲۰۴ ملاحظہ ہو.

۲۲۵

والخا لطون فقیر هم بغنّهِمْ حتّیٰ یصیر فقیر هم کا لکافی

'' فقیر اور دولت مند آپس میں اس طرح مخلوط ہوگئے کہ ان کے فقر اء مالداروں کے مانند بے نیاز ہو گئے''۔

یہ صورت حال حضرت محمد صلّیٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کے خدا کی طرف سے مبعوث بہ رسالت ہونے تک باقی رہی۔

بلا ذری نے اپنی کتاب انساب الاشراف میں قریش کے ان دونوں تجارتی قافلوں کے جناب ہاشم کے ذریعہ متحرک ہو نے کے بارے میں اس طرح ذکر کیا ہے:

جناب ہاشم بن عبد مناف قریش کے تجارتی سفر کے موجد اور اس کے بانی ہیں اور اس کی داستان اس طرح ہے:

جناب ہاشم نے ابتدا میں قریش کے تجارتی قا فلہ کے روانہ ہو نے کے لئے شام کے بادشاہوں سے امنیت اور حفاظت کی ضمانت لی کہ قریش کے تجّار سالم، محفوظ اور مطمئن رہیں۔

پھر ان کے بھائی '' عبد شمس'' نے حبشہ کے حا کم سے اپنے اُن تاجروں کی حفاظت کی ضمانت جو وہاں جنس لے کر جاتے تھے ، دریافت کی اور '' مطّلب ابن عبد مناف '' نے یمن کے بادشاہ سے اور '' نوفل بن عبد مناف '' نے عراق کے حاکم سے امنیت اور حفاظت کا عہد وپیمان لیا۔

اس طرح سے دوتجارتی سفر میں جاڑے کے موسم میں یمن،حبشہ اور عراق کی طرف اورگرمی کے موسم میں شام کی طرف روانہ ہوتے تھے۔( ۱ )

خداوند عالم اس سے متعلق سورۂ قریش میں اس طرح فرماتا ہے:

(بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

( لِإِیلاَفِ قُرَیْشٍ ٭ ِیلاَفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ ٭ فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَیْتِ ٭ الَّذِی َطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ ٭ )

قریش کے انس والفت کی خاطر۔ ان کی الفت جاڑے اور گرمی کے سفر میں. لہٰذا(اس دوستی کے

____________________

( ۱) انساب الاشراف، بلاذری ، ج۱، ص ۵۹.

۲۲۶

شکرانہ کے طور پر) اس گھر کے ربّ کی عبادت کریں. وہ جس نے اُنھیں شدید بھوک میں سیر کیا اور انھیں زبر دست خوف سے مامون و محفوظ رکھا ہے۔

عرب عربی معاشرہ اور سماج میں افتخار اور نیک نامی حاصل کرنے کی خاطر مہمانوں کی دیکھ ریکھ،ان کے اکرام اور اطعام(کھانا کھلانے) میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے،خواہ جو مال وہ اس راہ میں خرچ کرتے وہ چاپلوسی، لوٹ کھسوٹ،غصب،ربا،جوے اور اس طرح کی چیزوں سے کیوں نہ حاصل ہوا ہو۔لیکن جناب ہاشم نے اس مال سے اپنی رضا یت کا اظہار نہیں کیا۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی خواہش تھی کہ انفاق خدا وند سبحان کی خوشنودگی اور رضا کے لئے ہو نا چاہئے اسی لئے وہ خشک سالی اور گرانی کی وجہ سے بھوکوں کو سیر کرتے اور تجارتی قافلوں کو غذا ڈھونے والے قافلوں سے بدل دیتے تھے،مکّہ میں وہی اونٹ جو ان کے تجارتی سامان اور اجناس ڈھوتے تھے انھیں اونٹوں کو نحر کر کے اُن سے مکّہ والوں کے لئے غذا کا بندوبست کرتے تھے۔

اس سے اہم یہ بات ہے کہ انھوں نے اعتفاد کے مسئلہ کو اپنی قوم کے درمیان سے ہمیشہ کے لئے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

اور اس سے بھی اہم یہ بات ہے کہ انھوں نے قریش کے لئے تجارتی قافلے تشکیل دئیے اور آباد اور مملو( جہاں آبادی زیادہ ہو ) جگہوں کی طرف روانہ کیا.اور چونکہ تجارتی قافلوں کے لئے جزیرة العرب میں حرمت والے مہینوں کے علاوہ روانہ ہونا عرب کے مختلف قبائل کی غارت گری اور لوٹ مار کی وجہ سے ناممکن تھا. (کیو نکہ ان کی عادت ہو چکی تھی کہ ہر مسافر اور مال پر حملہ کریں اور غارت گری اور لوٹ مچائیں). اس لئے جناب ہاشم اور ان کے بھائیوں نے شام، ایران،حبشہ اور ان عربی قبیلوں کے سرداروں سے عہد وپیمان لیا جن کی سرزمین سے قافلے گذرتے تھے۔

اس طرح سے وہ گرمی میں شام اور ایران کی طرف اور جاڑے میں یمن اور افریقا کی جانب تجارتی سفر کر تے ایسی چیز کی اختراع وایجاد عرب اور غیر عرب کی تاریخ میں کبھی نہیں پائی گئی. حتیٰ کہ حاتم جیسے جوانمرد،سخی وجواد انسان نے بھی ایسے کاموں کا اقدام نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اورنے ایسا کیا کہ جس کی سخاوت اس سے کم یا زیادہ رہی ہو۔

جناب ہاشم بن عبد مناف اپنی قوم کے اقتصادی ، معاشی اور اُخروی معاملہ میں اپنے ان کارناموں کی وجہ سے اپنی قوم کے پیشر وشمار ہوتے ہیں۔

ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ خدا وند عالم پیغمبروں کو لوگوں کے معاش اور معاد سے متعلق امور کی ہدایت کے لئے مبعوث کرتا ہے۔انھوں نے اپنے دور اور اپنے بعد والے دور میں مکّہ والوں کو عرب کے لوگوں میں سب سے زیادہ مال دار بنا دیا۔

۲۲۷

جناب عبد المطلب بن جناب ہاشم

۱۔سیرۂ ابن ہشام اور تاریخ طبری جیسی کتابوں میں بطور خلاصہ یوں نقل کیا گیا ہے:

''جناب عبد المطلب'' کی ماں نے سر میں سفید بال کی وجہ سے ان کا''شیبہ '' نام رکھا تھا۔( ۱ )

لیکن جس وقت ان کے چچا (مطلب)مدینہ گئے اور انھیں ان کی ماں سے لے کر مکّہ واپس آئے، چونکہ آپ کو اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھایا تھا تو قریش نے انھیں دیکھ کریہ خیال کیا کہ وہ بچہ جناب عبد المطلب کا غلام ہے ۔

اس وجہ سے ان کا نام '' عبد المطلب'' رکھااور یہی نام ان کے اصلّیٰ نام کی جگہ مشہو ر ہو گیا۔

یہیں سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم اسلام صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض آباء واجداد کی نام گذاری اسی طرح سے ہوئی ہے۔

جیسے''جناب ہاشم'' چور کر نے والے کے معنی میں ہے کہ یہ نام انھیں مکّہ میں قحط سالی کے زمانے میں اپنی قوم کے بے نوا افراد کے لئے سالن دار گوشت میں روٹی چور چور کرنے کی وجہ سے دیا گیا ہے اور ان کا اصلی نام '' عمروالعلیٰ '' تھا جو فراموشی کی نذر ہو گیا۔( ۲ )

یا ''عبد مناف'' کانام در اصل مغیرہ تھا کہ قریش نے انھیں عبد مناف کہاہے( ۳ ) یا قُصیّ کو مجمّع کہتے تھے کیو نکہ انھوں نے قریش کو مکّہ میں جمع کیا تھا۔( ۴ )

____________________

(۱)عبد المطلب کی سوانح حیات جاننے کے لئے ابن ہشام کی سیرہ کی پہلی جلد،ص ۱۴۵. اور تاریخ طبری، ج۲، ص۳۳۵۔ ۳۳۶، طبع بیروت، دارالفکر، ملاحظہ ہو. اور ایک شاعر نے شعر کے جناب عبد المطلب کو شیبة الحمد کہا ہے،جیسا کہ ص ۲۹۶ پر ملاحظہ کریں گے.

(۲) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حا لات زندگی میں ملاحظہ ہو۔(۳) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حا لات زندگی میں ملاحظہ ہو.

(۴) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حالات زندگی میں ملاحظہ ہو.

۲۲۸

ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے:

قریش میں جناب عبد المطلب چہرہ کے اعتبار سے حسین ترین،جسم کے لحاظ سے بہترین ، نہایت خوبصورت ڈیل ڈول کے مالک،حلم و بر دباری کے اعتبار سے سب سے زیادہ صابر اور جود وبخشش کے اعتبار سے سب سے زیادہ کریم اور جواد انسان تھے۔

وہ لوگوں میں ایسے امور سے بہت دور تھے جو لوگوں میں بد نامی اور فساد کا باعث ہوتے ہیں وہ نہایت خدا پرست انسان تھے۔

ظلم اور ناپسندیدہ افعال کو ناپسند کرتے تھے. کوئی بادشاہ ایسا نہیں تھا جو انھیں دیکھے اور ان کا احترام نہ کرے اور ان کی خواہشوں کو پو را نہ کرے اور جب تک وہ زندہ رہے قریش کے آقا و مولا رہے۔( ۱ )

۳۔مروج الذھب میں مذکور ہے:

جناب عبد المطلب بن ہا شم ایک خدا شناس اور توحید کا اقرار کرنے والے اور وعدئہ روز جزا ( قیامت) کے معترف انسان تھے اور انھوں نے سماج کے غلط رسم ورواج کو ترک کردیا تھا، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے مکّہ میںلوگوں کو خوش ذائقہ پا نی پلا یا۔( ۲ )

چاہ زمزم کی کھدائی

تاریخ طبری اور سیرۂ ابن ہشام میں (کہ ہم اس بات کو انھیں مصادر سے ذکر کررہے ہیں) ابن اسحق سے روایت کی ہے کہ اس نے حضرت امام علی سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:

جناب عبد المطلب نے کہا: میں حجرِاسماعیل میں سویا ہوا تھا کہ اس عالم میں کوئی شخص میرے پا س آتا ہے اور کہتا ہے:طیبہ( ۳ ) کی کھدائی کرو۔

میں نے سوال کیا طیبة کیا ہے؟

پھر یہ موضوع میرے ذہن سے نکل گیا،دوسرے دن اسی جگہ میں سویا ہوا تھا کہ وہی شخص آکر کہتا ہے:کنواں کھودو۔

____________________

( ۱) طبقات ابن سعد،ج۱ ص ۵۰۔۵۱؛ طبع یورپ.(۲) مروج الذھب ،مسعودی،ج۲،ص ۱۰۳، ۱۰۴.

(۳) طاب طےّبة: پاکیزہ ہوگیا، اچھا ہوا ، لذیذ ہوگیا.

۲۲۹

میں نے پوچھا کون سا کنواں؟

پھرموضوع میرے ذہن سے نکل گیا.جب تیسرے دن پھر اسی جگہ پر سویا ہوا تھا کہ پھر وہی شخص آتا ہے اور کہتا ہے:مضنونہ( ۱ ) کی کھدائی کرو!

میں نے سوال کیا مضنونہ کیا ہے؟

اور وہ چلا گیا اور جب میں چوتھے دن بھی اسی جگہ سویا ہوا تھا کہ وہی شخص آیا اور بولا:زمزم کی کھدائی کرو.میں نے پو چھا زمز م کیا ہے؟

اُس نے کہا: ایسا کنواں جس کا پانی کبھی تمام نہیں ہو گا اور انتہا کو نہیں پہو نچے گا اور کبھی سوکھے گا نہیں اور تم اس پانی سے حاجیوں کو سیراب کرو گے۔

اُس کی جگہ خون اور سر گین کے درمیان ہے( ۲ ) جہاں سرخ چونچ والا کوّا زمین پر چونٹیوں کے آشیانوں کے نزدیک چو نچ مارے گا۔ابن اسحق سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرما تے ہیں:

جب کوّے کی ماموریت جناب عبد المطلب پر واضح ہوئی اور کنویں کی جگہ کی جانب را ہنمائی ہوئی اوراطمینان ہوگیا کہ بات صحیح ہے .دوسری صبح کدال اٹھا ئی اور اپنے بیٹے حا رث کو کہ اس وقت تک ان کے علاوہ ان کا کوئی اور بیٹاپیدا نہیں ہوا تھا، اپنے ہمراہ لے گئے اور کھدائی شروع کر دی.جب کنویں کاحلقہ(دائرہ) نمایاں ہو گیا تو جناب عبد المطلب نے تکبیر کہی اور قریش کو معلوم ہوگیاکہ وہ اپنی مراد کو پہنچ گئے ہیں۔

لہٰذا اُن کے پاس جا کر بو لے: اے جناب عبد المطلب! یہ کنواں ہمارے باپ اسمٰعیل کا ہے اور ہمارا بھی اس میں ایک حق ہے ہمیں بھی اس میں اپناشریک قرار دو۔جناب عبد المطلب نے کہا:میں ایسا کام نہیں کر سکتا،یہ کنواں صرف ہم سے مخصوص ہے اور تم لوگوں کے درمیان صرف ہمیں دیا گیا ہے۔

____________________

(۱) الضنّ الضنّة: اس چیز کو کہتے ہیں جس کے بارے میں بخل کیا جا تا ہو اور اُسے کسی کو نہ دیتے ہوں ،زمزم کو مضنونہ کہتے ہیں اس لئے کہ اُس سے مومن افراد کے علا وہ کسی کو پلانے سے بخل کر تے ہیں اور منا فق اس سے سیر اب نہیں ہوتا ، مضنو نہ گرانبہا اور قیمتی شیٔ کو کہتے ہیں.(۲)خون اور سرگین ( گوبر) کے درمیان ایک مقام تھا جہاں وہ لوگ اپنے خدا کے لئے قربانی ذبح کرتے تھے اور اسی سے قریب چیونٹیوں کا آشیانہ بھی تھاصبح کے وقت جناب عبد المطلب خانہ خدا کی طرف گئے اسی وقت سرخ چونچ والا کوّا زمین پر بیٹھا اور جہاں بیٹھا تھا اُ سی جگہ چونچ ماری اس طرح سے جناب عبد المطلب چاہ زمزم کی جگہ سے آشنا ہوئے.

۲۳۰

ان لوگوں نے کہا:

اُسے ہم سب میں تقسیم کرو ورنہ ہم تمھیں اُس وقت تک نہیں چھو ڑیں گے جب تک کہ تم سے ہم لوگ جنگ وجدال نہ کریں۔

جناب عبد المطلب نے کہا:اگر ایسا ہے تو ہمارے اور اپنے درمیان اپنی مرضی کے مطابق کوئی حَکَم انتخاب کرو تا کہ وہ ہمارے درمیان قضاوت کرے۔

انھوںنے کہا:بنی سعد ِ ھذیم کی کاہنہ( ۱ )

آپ نے کہا: بہتر ہے۔

یہ کاھنہ شام کی بلندیوں کی طرف سکونت پذیر تھی۔

پھر اُس کے انتخاب کے بعد جناب عبد المطلب عبد مناف کی اولاد میں سے اپنے چند اہل خاندان کے ساتھ اور قریش کے دیگر قبائل سے چند افراد کے ساتھ سوار ہوئے اور روانہ ہوگئے۔

راوی کہتا ہے: ان کاگذر بے آب و گیاہ اور شورہ زار زمینوں سے تھا.ابھی حجاز اور شام کے درمیان کاکچھ حصہ ہی طے کیا تھا کہ جو پانی جناب عبد المطلب اور ان کے ساتھی لئے ہوئے تھے تمام ہو گیا اور سخت پیا س کا غلبہ ہوا یہاں تک کہ موت کا یقین ہو گیا۔ان لوگوں نے قریش کے قبیلوں سے پانی طلب کیا تا کہ پیاس بجھائیں لیکن انھوں نے پا نی دینے سے انکار کر دیا اور کہا:ہم بیابان میں پھنسے ہوئے ہیں اور جو مصیبت تم پر پڑی ہے اسی مصیبت کا خطرہ ہم لوگ اپنی جان کے لئے بھی محسوس کر رہے ہیں۔

جب جناب عبد المطلب نے اپنے قریشی ساتھیوں کی خسّت و پست ذہنی دیکھی، تو اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان کے لئے خوفزدہ ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا:تم لوگ کیا بہتر سمجھتے ہو؟

انھوں نے جواب دیا:ہم لوگ آپ کی رائے کے تابع ہیں جوآپ کا حکم ہو گا ہم انجام دیں گے۔ جناب عبد المطلب نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ ہم میں ابھی ہر ایک قوی اور بحال ہے اپنے لئے ایک گڑھا کھودے اور ہم میں سے جب کوئی مر جائے تو دوسرے لوگ اسے گڑھے میں ڈال کراس کے اوپر مٹی

____________________

(۱) اُس کا ھنہ کا نام تاریخ طبری میں اسی طرح ہے ،لیکن باقی دیگر منابع ومآخذ میں اس کانام '' سعد بن ھذیم'' لکھا گیا ہے، یہ نام غلط اور تحریف شدہ ہے کیو نکہ ھذیم کا ھنہ کا باپ نہیں تھا بلکہ اس کے باپ کے بعد اس کی سر پر ستی اس کے ذمّہ تھی لہٰذا کا ھنہ ھذیم کے نام کے ساتھ پہچانی جاتی ہے.

۲۳۱

ڈال دیں یہاں تک کہ صرف ایک آدمی بچے گا ایسی صورت میںایک آدمی کا ضایع ہو نا سب کے ضایع ہونے سے بہتر ہے۔

جناب عبد المطلب کے ساتھیوں نے کہا آپ کا فرمان اور دستور بہتر اور بجا ہے.پھر ان میں سے ہر ایک نے اپنے لئے ایک گڑھا کھو دا اور اس کے کنارے بیٹھ گیا،سبھی پیاس سے مر نے کاانتظار کرنے لگے. پھر کچھ وقفہ کے بعد جناب عبد المطلب نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کر کے کہا:خدا کی قسم ہم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے کہ عاجزی اور ناتوانی کے باعث اپنے ہا تھوں سے خود کو ہلاک کر ڈالیں۔

خدا سے بعید نہیں ہے کہ اس سرزمین میں کسی جگہ ہمارے لئے پانی کا انتظام کر دے.اٹھو اور حرکت کرو۔

ساتھیوں نے حکم کی تعمیل کی اور روانہ ہوگئے،یہاں تک کہ سبھی ، قبیلہ قریش کے افراد سے آگے ہوگئے اور قریشیوں نے ان کا نظارہ کرنا شروع کیا کہ دیکھیں کیا کرتے ہیں ۔

جناب عبد المطلب اپنے اونٹ کے قر یب گئے اور سوار ہوگئے جیسے ہی اپنی سواری کو حرکت دی اس اونٹ کے قدم کے نیچے خو شگوار پانی کا چشمہ جاری ہو گیا۔

جناب عبد المطلب نے تکبیر کہی اور ان کے ساتھیوں نے بھی تکبیر کہی پھر اتر کر خود اور ان کے ساتھیوں نے اُس پا نی سے اپنے آپ کوسیراب کیا اور اپنی مشکوں کو بھی پا نی سے بھر لیا ۔

جناب عبد المطلب نے اس کے بعد قریش کے افراد کو آواز دی اور کہا :پانی کے نزدیک آؤ کہ خدا وند عالم نے ہمیں سیراب کیا ہے۔

وہ لوگ آگئے اور پانی نوش کیا اور اپنے برتنوں کوبھی پانی سے بھر لیا اور اس وقت کہا: اے عبدالمطلب! خدا وند عالم نے تمہارے فا ئدہ کی خا طر ہمارے بر خلاف حکم کیا ہے ،خدا کی قسم ہم زمزم کے معاملہ میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے جس ذات نے تمھیں اس چٹیل میدان میں پا نی دیا ہے،اسی نے تمھیں زمزم بھی عنا یت کیا ہے.سرفراز اور کا میاب اس کی طرف لوٹ جاؤ۔

جناب عبد المطلب اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس ہوگئے اور اُس کاہن عورت کے پا س نہیں گئے اور اُسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔

۲۳۲

ابن اسحق کہتا ہے: یہ ایک ایسی چیز ہے جو حضرت علی ابن ابی طالب (رضی ﷲ عنہ) کی گفتگو سے ہم تک زمزم کے بارے میں پہونچی ہے۔( ۱ )

یعقوبی نے تحریر فرمایا ہے:

جب حبشہ کا بادشاہ ابرھہ کعبہ کوڈھا نے کی غرض سے اپنے ہا تھی سواروں کے ساتھ مکّہ آیا،قریش پہاڑوں کی چوٹیوں پر فرار ہوگئے جناب عبد المطلب نے ان سے کہا: کاش ہم لوگ اکٹھا اور ایک قوت ہوتے اور اس فوج کو خا نہ خدا سے بھگادیتے۔

انھوں نے کہا : اس کے مقابل ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔

اس لئے جناب عبد المطلب حرم میں باقی رہے اور کہا:میں خدا کے گھر سے باہر نہیں جا ؤں گا اور خدا کے علاوہ کسی سے پناہ نہیں ما نگوں گا۔

ابرھہ کے سپا ہیوں نے جناب عبد المطلب کے اونٹوں کو پکڑ لیا.جناب عبد المطلب ابرھہ کے پاس گئے جب انھوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی،تو ان لوگوں نے ابرھہ سے کہا عرب کے سید وسردار،قریش کے بزرگ، لوگوں میں معزز انسان تمہارے پاس آئے ہوئے ہیں۔

آپ اُس کے پاس گئے،ابرھہ نے ان کا احترام واکرام کیا اور جمال و کمال اور ان میں پا ئی جا نے والی شرافت کی بناء پر انھوں نے اُس کے دل میں جگہ بنا لی،اس نے اپنے متر جم سے کہا:

جناب عبد المطلب سے کہو: تم جو چاہتے ہو درخواست کرو۔

جناب عبد المطلب نے کہا:اپنے ان اونٹوں کو تم سے مانگتا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے پکڑ لیا ہے۔

ابرھہ نے کہا:

تم کو دیکھنے کے بعد میں نے ،تمھیں ایک جلیل القدر،عظیم المرتبت انسان خیال کیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ میں تمہاری عظمت وشرافت ، شان وشوکت کو در ہم بر ہم کر نے آیا ہوں اور تم مجھ سے میرے واپس جا نے کا مطالبہ نہیں کرتے کہ واپس چلا جائوں اور کعبہ کو اس کے حال پر چھوڑدوں، ایسے میں تم مجھ سے اپنے اونٹوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہو؟!

جناب عبد المطلب نے جواب دیا:

میں ان اونٹوں کا ما لک ہوں اور اس گھر کا جس کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ منہدم کر دو گے اس

____________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام، ج۱ ، ص ۱۵۴ ۔۱۵۵. طبع مبطع حجازی، قاھرہ، ۱۳۵۶ ھ.

۲۳۳

کا بھی ایک مالک ہے کہ تم کو اس کام سے روک دے گا .ابرھہ نے جناب عبد المطلب کے اونٹوںکو واپس کردیا اور ان کی باتوں سے اس کے دل میں خوف پیدا ہو گیا۔

جب جناب عبد المطلب ابرھہ کے پاس سے واپس آئے اپنے فرزندوں اور ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور کعبہ کے دروازہ تک گئے اور اُس سے لپٹ کر بو لے:

لهم!ان تعف فا نهم عیالک ( ۱ )

یا ربّ انَّ العبد یمنعُ رحلهُ فامنع رحالک

لایغلبنّ صلیبهم و محا لهم ابداً محالک

''ابرھہ نے ہمیں نابود کر نے کا ارادہ کیا ہے.خدایا اگر تو نے انھیں معاف کر دیا تو وہ تیرے عیال ہیں....

خدایا! ہر بندہ اپنے گھر کا دفاع اور بچاؤ کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع اور تحفظ کر. کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی صلیب اور اُن کی طاقت از روی ظلم وبیداد تیری طاقت پر غا لب آجا ئے''۔

کہ خدا وند عالم نے ابا بیلوں کا لشکر اُس سے جنگ کر نے کے لئے بھیج دیا۔( ۲ )

بحار الانوار میں خلاصہ کے ساتھ اس طرح مذکور ہے:

جناب عبد المطلب نے اپنے بیٹے جناب عبد اللہ کو بھیجا تا کہ ابرھہ کے سپا ھیوں کی خبر لائے،پھر اس وقت خود خا نہ خدا کی طرف گئے اور سات بار اس کا طواف کیا، پھر صفا و مروہ کی جانب رخ کیا اور وہاں کی بھی سات بار سعی کی۔

جناب عبد اللہ ابو قبیس نامی پہا ڑ پر چڑھ گئے اور دیکھا کہ پرندوں( ابابیل) نے ابر ھہ کے لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے. لہٰذا واپس آئے اور اس کی خوشخبری اپنے باپ کو دی۔

جناب عبد المطلب بیٹے کی خبر سن کر باہر آئے اور کہہ رہے تھے:اے مکّہ والو!دشمن کے پڑاؤکی طرف غنائم حا صل کر نے جاؤ۔

____________________

(۱) ہم نے یعقوبی کی باتوں کا خلا صہ اس کی تاریخی کتاب کی ج۱، ص ۲۵۰۔ ۲۵۴ سے ذکر کیا ہے، یہ خبر دوسرے لفظوں میںسیرۂ ابن ہشام کی پہلی جلد کے ۵۴اور ۱۶۸ صفحہ اور طبقات ابن سعد، طبع یورپ، ج۱، ص ۲۸ ۔۵۶ پر بھی مذکو ر ہے.

(۲)مروج الذھب مسعودی، ج۲، ص ۱۰۵؛ سیرۂ ابن ہشام، ج۱، ص ۵۱.

۲۳۴

لوگ دشمن کی پڑاؤ کی طرف روانہ ہوئے اور دیکھا کہ ابرھہ کے سپا ہی ٹوٹے پھوٹے تختوں کے مانند درہم برہم ہو کر ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں.سارے پرندوں کی چونچ اور چنگل میںتین سنگر یزے تھے کہ ہر ایک سے اس لشکر کے ایک ایک سپا ہی کی حالت تباہ کر رہے تھے جب سب کو تباہ کر ڈالا تو واپس چلے گئے.ایسی چیز کسی نے نہ اس سے پہلے دیکھی تھی اور نہ بعد میں۔

جب سارے سپا ہی ہلاک ہوگئے،جناب عبد المطلب کعبہ کی طرف واپس آئے اور کعبہ کا پر دہ پکڑ کر کہا:

یا حابس الفیل بذی المغمس

حبسته کأ نَّه مکوّس

فی مجلس تزهق فیه الأ نفس

''اے وہ ذات جس نے ہا تھی کے لشکر کو ذی مغمس( ۱ ) نامی جگہ پر روک دیا.

اسے اس طرح روک دیا کہ گویا سر نگو ہو گیا تھا، وہ ایسے مخمصہ میں گرفتار ہوگیا جس میں جان نکل جا تی ہے''۔

پھر واپس آئے اور حبشہ کے سپاہیوں سے قریش کے فرار کر نے اور ان کی بے تابی کے بارے میں کہا:

طارت قریش اذرأت خمیساً

فظلت فرداً لا أریٰ أنیساً

و لا أحسّ منهم حسیساً

ا لّا اَخاً لی ما جداً نفیساً

مسوّداً فی اهله رئیسا( ۲ )

'' جب قریش کی ابرھہ کے لشکر پر نظر پڑی تو داہنے بائیں سے فرار ہوگئے اور میں تن تنہا بے ناصر و مددگار رہ گیا حتی کہ ان کی دھیمی آواز بھی میں نے نہیں سنی، سوائے ایک بھائی کے جو میرا تھا، وہ عظیم اور نیک انسان تھا.وہ اپنے اہل (اور قوم) کے درمیان سید و سردار،صاحب فضل و شرف اور عظیم المرتبت انسان ہے''۔

مسعودی کی مروج الذھب میں مذکور ہے:

جس وقت خدا وند سبحان نے ابرھہ اور اُس کے لشکر کو مکّہ میں داخل ہو نے سے روک دیا(اور انھیں نیست ونابود کر دیا)اس وقت جناب عبد المطلب نے اس طرح شعر ارشاد فر مایا:

____________________

(۱) ذی مغمس مکّہ سے نزدیک طا ئف کے راستہ پر ایک مقام ہے،معجم البلدان.(۲)بحار الانوار، ج۱۵، ص ۱۳۲، مجالس شیخ مفید کی نقل اور شیخ طوسی کے فرزند کی امالی کی نقل کے مطابق ص ۴۹ اور .۵.

۲۳۵

انَّ للبیت لرباً ما نعاً

من یرده بأَثامٍ یصطلم

(گھر کا روکنے والاایک مالک ہے کہ جو بھی اس کی طرف برا قصد کر ے گا تو وہ اسے نابود کر دے گا)

رامه تُبّع فی من جند ت

حمیر و الحی من آل قدم .( ۱ )

( تبع انھیں میں سے ایک تھا کہ جس نے لشکر کشی کی،اسی طرح حمیر اور اس کے قبیلہ والے )

فانثنیٰ عنه و فی او داجه

جارح امسک منه بالکظم

(کہ لوٹنے کے بعد اس کی گردن میںکچھ زخم تھے جو سانس لینے سے مانع تھے)۔

قلت و الأشرم تردی خیله

اِنّ ذا الاشرم غرّ بالحرم

(اور اس کان کٹے (ابرھہ) سے جو اپنے لشکر کو ہلاکت میں ڈال رہا تھا میں نے کہا:بیشک یہ گوش بریدہ(کان کٹا) حرم کی بہ نسبت نہایت مغرور ہے)۔

نحن آل الله فی ما قد مضی

لم یزل ذاک علی عهد اِبرهم

( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔

نحنُ دمَّرنا ثموداً عَنوة

ثم عادا قبلها ذات ا لارم

( ہم نے ثمود کی سختی کے ساتھ گو شمالی کی اور انھیں ہلاک کر ڈالا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو )

___________________

(۱)ایک دوسرے نسخہ میں٫٫ من آل قرم،، ذکر ہوا ہے.

۲۳۶

نعبد الله وفینا سُنّة

صلَة القربیٰ وایفاء الذمم

( ہم خدا کی عبادت کر تے ہیں اور ہمارے درمیان صلہ رحم اور عہد کا وفا کرنا سنت رہا ہے)۔

لم تزل للهِ فینا حجّة

یدفع الله بها عنّا النّقم

( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔

اشعار کی تشریح

۱۔آثام:

گناہ اور اسی طرح گناہوں کی سزا کو بھی کہتے ہیں۔

۲۔یصطلم:

اصطلمہ وصلمہ الدّھرا والموتُ اوالعدُوّ: انھیں بے چارہ کردے،انھیں نابود کرے۔

۳۔تُبّع:

یمن کے بادشاہوں کو کہا جا تا ہے، جس طرح روم کے بادشاہوںکو قیصر اور ایران کے بادشاہوں کو کسریٰ کہا جا تا ہے اور وہ تُبّع حَمِیْرَ کہ جس نے خانۂ کعبہ کے ساتھ برا قصد کیا تھا انھیں میں سے ایک تھا۔

۴۔جارح:

زخم۔

۵۔کظم:

سانس کی نالی۔

۶۔اشرم:

کان یا ناک کٹا ہوا(یعنی وہ شخص جس کا کان یا ناک شگا فتہ ہو) اور حضرت عبد المطلب کے کلام سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابرھہ ایسا ہی تھا۔

۲۳۷

۷۔تردیٰ:

ہلاکت میں ڈال دے۔

۸۔غُرَّ :

غرَّ غرّا وغروراً: اسے دھو کہ دیا، اسے مجبور کیا کہ وہ ایک باطل چیز کی خواہش کرے،ایسا شخص مغرور اور فریب خوردہ ہے۔

۹۔ااِبْرَھَم:

ابراہیم ہے کہ ضرورت شعری کی بناء پر مخفف ہو گیا ہے۔

۱۰۔عنوة:

اخذ الشیٔ عنوةً: یعنی کوئی چیز زبر دستی اور مجبور کر کے لینا۔

۱۱۔ایفاء الذمم:

عہد کا وفا کر نا یعنی ہم ذریت حضرت ابراہیم کے د رمیان صلۂ رحم اور وفاء عہد کا رواج عام رہا ہے۔

یا ہمارے درمیان آل اللہ یعنی انبیاء جیسے ہود،صالح اور ابراہیم تھے اور یہ کہنا بجا ہے کہ جناب عبد المطلب نے لفظ'' فینا'' سے دونوں گروہ کو نظر میں رکھا ہے ۔

کیونکہ حضرت ابراہیم کی ذریت میں آل ﷲ اور اس کی حجتیں رہی ہیں، جیسا کہ حضرت ابراہیم سے پہلے انبیاء تھے جیسے ہود ا ور صالح ۔

جناب عبد المطلب ان اشعار میںیہ فرماتے ہیں کہ اس گھر کا ایک مالک ہے جو ہر اس شخص کو روکے گا جو گناہ کے ارادے سے اس کی طرف قدم بڑھائے گا اور اسے مسمار کر نا چاہے گا .اسی طرح ان اشعار میں تبع حمیری کا تذکرہ کر تے ہیں کہ جس نے خا نہ خدا پر دست دارزی کی، پھر بات کو ابرھہ تک لے جا تے ہوئے فرماتے ہیں:

جب اُس کان کٹے یا ناک کٹے شخص نے خا نہ خدا پر حملہ کا ارادہ کیا تو میں نے کہا: یہ کان کٹا حرم کے ساتھ تجاوز کر نے میں بہت زیادہ مغرور اور فریب خوردہ ہے۔

جناب عبد المطلب اس مطلب کے ذکر کے بعد خبر دیتے ہیں کہ خود ان کا اور ان کے آباء و اجداد کا سلسلہ حضرت اسمٰعیل کی ذریت سے ہے اور حضرت ابراہیم کے زمانے ہی سے وہ آل اللہ ہیں ،جس طرح ہود اور صالح جیسے لوگ آل اللہ تھے؛ یہ ہوداور صالح ایسے آل اللہ ہیں جنھوں نے قوم عاد(ارم شہر والوں) اور اس کے بعد قوم ثمود کو اکھاڑ پھینکا ہے۔

۲۳۸

خدا وند عالم نے ابرھہ کی داستان اپنی کتاب قرآن کریم میں اس طرح بیان کی ہے:

بِسْم اللّٰه الرَحمنِ الرَحِیمْ

( ااَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعلَ رَبُّکَ بأِصْحَابِ الفِیلِ٭ ااَلَمْ یَجْعَل کَیْدَهُم فِیْ تَضْلِیل٭ وَاَرْسَلَ عَلَیهِمْ طَیراً اَبَابِیل٭ تَر مِیْهِم بِحِجارةٍ مِنْ سِجِّیلٍ٭ فَجَعَلَهُم کَعَصفٍ مَأ کُولٍ )

بخشنے والے اور مہربان خدا کے نام

(اے ہمارے رسول!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا کیا؟!

کیا ان کے مکر وحیلہ کو بیکار نہیں کیا؟! اور ان کے ہلاک کرنے کے لئے ابابیل پرندوں کو بھیجا. انھیں کھرنجوں کی کنکریاں مار رہے تھے. پھر انھیں چبائے ہوئے بھوسے کے مانند بنا دیا۔

۲۳۹

اسی طرح خدا وند عالم نے جناب عبد المطلب کی تعبیر میں قوم ثمود اوراُن کے صالح آل اللہ سے مقابلے کے متعلق اس طرح خبر دی ہے:

( وَاِلیٰ ثَمُودَ اَخَاهُمْ صَالِحاًقَالَ یَاقَومِ اعبُدُوا اللّٰهَ مَالَکُمْ من اِلهٍ غَیرُه...٭قَالُوا یَاْ صَالِحُ قَدْ کُنتَ فِینَا مَرجوّاً قَبلَ هَٰذا اَتَنهاٰنَا أن نَعبُدَ مَا یَعبُد ابَأؤنَا وَاِنَّناَ لَفِی شَکٍ مِمَّاتَدْ عُونَااِلیهِ مُرِیبٍ٭قَالَ یَا قَومِ اَرَایتُم اِنْ کُنْتُ عَلیٰ بیِّنةٍ مِنْ ربِّیِ وَآتَانِی مِنْهُ رَحْمَةً...٭فَلَمَّاجَاء اَمْرُنَا نَجَّینَا صَالِحاً وَالَّذِینَ آمَنوا معهُ...٭وَ أَخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیحَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دِیٰارِهِمْ جَاثِمینَ٭ ...اَلاَّ بُعداً لِثمُود ) ( ۱ )

ہم نے صالح پیغمبر کو قوم ثمود کی طرف بھیجا.صالح نے کہا:اے میری قوم!اُس خدا کی عبادت کرو جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے...(قوم نے) کہا:اے صالح! تم اس سے پہلے ہمارے درمیان امید کا مرکز تھے.کیا تم ہمیں اس کی پرستش سے روکتے ہو جس کی ہمارے آباء واجداد نے عبادت کی ہے؟ہم اس چیز سے جس کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو سخت بد گمان ہیں.صالح نے کہا:اے میری قوم!اگر ہم اپنے دعویٰ پر خدا کی طرف سے ایک دلیل اور معجزہ رکھتے ہیں اوراُس سے مجھے ایک رحمت ملی ہو تو اس وقت تمہاری کیا رائے ہو گی؟ جب ہمارے قہر کا حکم پہنچا تو ،صالح اور وہ لوگ جو ایمان لائے تھے ان کو ہم نے نجات دی....اور ظالموں کو آسمانی صیحہ ( چنگھاڑ ) نے اپنی گرفت میں لے لیا اور صبح کے وقت اپنے دیار میں(ہمیشہ کے لئے) بے حس وحر کت پڑے رہ گئے.... آگاہ رہو کہ ثمود رحمت خداوندی سے دور ہیں۔

اسی طرح ان کے اخبار اور حکا یات قرآن کریم میں دوسری جگہ ۲۷ مقام پر ذکر ہوئی ہیں(۲ )

پھر اس کے بعد جناب عبد المطلب اپنی گفتگو میں خبر دیتے ہیں:

ثمَّ عاداً قبلھا ذات الارم۔ قوم عاد کہ انھیں خدا وند عالم نے ہلاک کر ڈالا جو کہ قوم ثمود سے پہلے زندگی گذار رہے تھے آپ کی یہ گفتگو سورۂ اعراف کی ۶۵ ویں تا ۷۴ ویں اور سو رہ ہود کی ۵۰ویں تا۶۸ ویں آیات سے یا دیگر سوروں میں جو بیان ہوا ہے اس سے مطابقت رکھتی ہے۔( ۳ )

____________________

(۱) سورۂ ہود، آیت، ۶۱ تا ۶۳، ۶۶ اور ۶۸.(۲) لفظ ثمو د کے لئے الفاظ قرآن کر یم سے متعلق المعجم المفہرس ملاحظہ ہو.

(۳)لفظ عاد کے لئے الفاظ قرآن کریم سے متعلق المعجم المفہرس ملا حظہ ہو.

۲۴۰