اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )11%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134192 / ڈاؤنلوڈ: 3955
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

۱۴ ۔سورہ ٔشعر ا کی ۲۰۸ ویںآیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَااَهْلَکنامِنْ قَرْ یَةٍٍا اِلَّا لَهامُنذِرُونَ )

ہم نے کسی دیا ر والوں کو ہلا ک نہیں کیا مگر یہ کہ ان کے درمیان ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔

۱۵ ۔سورہ ٔ اسرا ء کی ۱۰۱ آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلََقَد ْاتَینامُوسیٰ تِسعَ آیاتٍٍ بَینّات ٍفَسئل بنی اِسرا ئیلَ اِذجائَ هُمْ فَقَال لَهُ فِرْعُونُ اِنّی لَاَظُنُّکَ یَامُوسیٰ مَسْحُورا ) ً)

ہم نے موسیٰ کو نہ گا نہ آشکار ا معجزے عطا کئے بنی اسرا ئیل سے سوال کروجب ان کی طرف موسیٰ آئے اور فرعون نے ان سے کہا : اے مو سیٰ ! میرے خیال میں تم پر جادو کر دیا گیا ہے.

۱۶ ۔ موسیٰسے خطا ب کرتے ہوئے سور ہ ٔ نمل کی ۱۲ ویںاور ۱۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَاَدخِلْ یَدَک فی جَیبِکَ تَخْرُ جْ بَیضائَ مِنْ غَیرِ سوء ٍ فی تِسعِ آیاتٍ الیٰ فِرعَون وَقَومِه انَّهُم کٰانُواْ قَوْماًًفَاسِقینَ٭فَلَمّاجائَ تْهُمْ آیٰا تُنامُبصِرةً قالُواهذاسِحْرُمُبینُ )

اے موسیٰ ! اپنے ہا تھ کو اپنے گر یبان کے اند ر لے جاؤ اور جب باہر لا ؤ گے تو بغیر کسی داغ دھبّے کے سفید ( نورا نی اور نور افشاں) ہو جا ئے گا اس وقت دیگر معجز وں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے فاسق لوگوں کے درمیان بھیجے جا ؤ گے .جب موسیٰ نے ہمارے معجزات دکھلائے تو انھو نے کہا: یہ تو کھلا ہوا سحر ہے۔

۱۷ ۔ سورہ ٔ رعد کی ۳۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ اَرْسَلنَا رُسُلاً مِن قبلکَ وَجَعلنَا لَهُم اَزوَاجاً وَذُریةً وَمَا کَانَ لِرسُولٍ ان یَأتی بِٰایة لّابِاذْنِ اللّٰهِ... )

ہم نے تم سے پہلے کچھ پیغمبروں کو بھیجا جو تمہاری ہی طرح سے بیو ی بچے والے تھے اور کسی بھی پیغمبر کے لئے روا نہیں کہ بغیر خدا وند عا لم کی اجازت اور اس کے اذن کے ،معجزہ پیش کرے.

۲۱

۱۸۔ سورہ ٔ غا فر کی ۷۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلََقَدْاَرسَلنَارُسُلاًمِن قَبلکَ مِنهُمِ مَن قَصَصنَاعَلیکَ وَمِنهُمْ مَن لَمْ نَقْصَص عَلیکَ وَمَاکَانَ لِرسُولٍ اَن یَأ تی بِاٰیةاِلّابِاذنِ اللّٰهِ... )

ہم نے تم سے پہلے پیغمبروں کو بھیجا ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی داستان تم سے بیان کی.

اور کچھ ایسے ہیں جن کا قصہ تم سے بیان نہیں کیا،کسی بھی پیغمبر کے لئے روا نہیں ہے کہ خدا کی اجازت اور اس کے اذن کے بغیر معجزہ دکھا ئے:

۱۹ ۔ سورہ ٔ حج کی ۴۲ ویں سے ۴۵ ویں آ یت تک میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَِنْ یُکَذِّ بُوکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَاد وَثَمُودُ٭ وَقَوْمُ اِبْرَاهِیمَ وَقَوْمُ لُوطٍ ٭ وََصْحَابُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوسَی فََمْلَیْتُ لِلْکَافِرِینَ ثُمَّ َخَذْتُهُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیرٍ٭ فَکََیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ َهْلَکْنَاهَا وَهِیَ ظَالِمَة فَهِیَ خَاوِیَة عَلَی عُرُوشِهَا واَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِیدٍ ٭ )

اور اگر انھو نے تمہاری تکذ یب کی ہے تو ان سے پہلے، نو ح، عا داور ثمو د کی قوم نے بھی ( اپنے رسولوں کی) تکذ یب کی ہے۔ اور ابرا ہیم اور لو ط کی قو موں اورمد ین کے رہنے والوں (قوم شعیب) نے بھی اپنے رسولوں کی تکذ یب کی ہے اور مو سیٰ بھی جھٹلا ئے گئے ہیں.ہم نے کافرو کو مہلت دی پھر اس وقت ان کا مو اخذہ کیا (سزا دی) پھر ہماری سزا کیسی تھی؟.بہت ساری آبا دی (جن کے رہنے وا لے ) ظالم اور ستمگر تھے ہم نے ہلاک کر ڈا لیں جن کی چھتیں اور دیوار گر کرمنہدم اور بنیا د سے ہی ویرا ن اور خالی ہوگئیں اور کنو یں کے پا نی بے مصرف اور عا لی شان قصر بغیر مکین کے رہ گئے ہیں.

۲۰ ۔ سورہ ٔ احزاب کی ۴۵ ویں اور ۴۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( یاَاَیَّهُااَلنبَّی اِنَّااَرَسَلْنَاکَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذیرًا ٭وَدَاعِیاًًاِلیٰ اللّٰهِ بِِذنِه وَسِرَاجاً مُنیرًا )

اے پیغمبر! ہم نے تمہیں گواہی دینے والا، بشا رت دینے والا، ڈرا نے والا اور اپنے اذن سے لوگوں کو ﷲ کی طرف بلانے والااور روشن چرا غ بنا کر بھیجا۔

۲۱ ۔سورہ ٔ سبا کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَااَرَسَلنَاکَ اِلاّ کَافّة ً لِلنََاّسِ بَشِیراًًوّنَذ یراًً... )

ہم نے تمھیں تمام لو گو کے لئے بشا رت دینے وا لا اور ڈا رنے وا لا پیغمبر بنا کر بھیجا۔

۲۲

۲۲۔سورہ ٔ اسراء کی ۸۸ ۔ ۹۵ آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی َنْ یَْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَیَْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیرًا ٭ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِی هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فََبَی َکْثَرُ النَّاسِ ِلاَّ کُفُورًا ٭ وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی تَفْجُرَ لَنَا مِنْ الَرْضِ یَنْبُوعًا ٭ َوْ تَکُونَ لَکَ جَنَّة مِنْ نَخِیلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الَنهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِیرًا ٭ َوْ تُسْقِطَ السَّمَائَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا َوْ تَْتِیَ بِﷲ وَالْمَلَائِکَةِ قاَبِیلًا ٭ َوْ یَکُونَ لَکَ بَیْت مِنْ زُخْرُفٍ َوْ تَرْقَی فِی السَّمَائِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتَّی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتَابًا نَقْرَؤُه قُلْ سُبْحَانَ راَبِی هَلْ کُنتُ ِلاَّ بَشَرًا رَسُولًا ٭ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ َنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَائَهُمُ الْهُدَی ِلاَّ َنْ قَالُوا َبَعَثَ ﷲ بَشَرًا رَسُولًا ٭ قُلْ لَوْ کَانَ فِی الَرْضِ مَلَائِکَة یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِنَ السَّمَائِ مَلَکًا رَسُولًا ٭ )

اے پیغمبر :کہو! اگر جن و انس متفق ہو جائیں تا کہ اس کے مانند قرآن پیش کریں ہرگز ایسا نہیں کر سکتے خواہ ایک دوسرے کے پشت پناہ اور مدد گار بن جائیں. ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال دی ہے، لیکن اکثر لو گوں نے ناشکری کے علا وہ کوئی اور کام نہیں کیا اور کہا: ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ زمین سے پانی کا چشمہ جاری کرو.

یا یہ کہ تمہارا انگو ر اورخر ما کا باغ ہو جس کے درمیا ن پا نی کی نہر یں جا ری ہوں یا جیسا کہ کہتے ہو آسمان سے کو ئی ٹکڑا ہمارے سر پر گرا دو یا خدا اور ملائکہ کو ہمارے سا منے حا ضر کر و. یا یہ کہ سونے کا تمہارے کو ئی گھر ہو یا آسمان پر جاؤ اور ہم تمہارے آسمان کی بلندی پر جا نے کا اُس وقت تک یقین نہیں کر یں گے جب تک کہ ہمارے اوپر کوئی ایسی کتا ب نازل نہ کرو کہ جسے ہم پڑ ھیں. کہو! ہمارا خدا پاک اور منزہ ہے.کیا میں انسا ن کے علا وہ کچھ ہوں جو خدا کی طرف سے رسالت کے لئے مبعوث ہوا ہوں؟! لوگوں کو ایمان و ہدایت سے کسی نے نہیں رو کا جب کہ اُن کے لئے قرآن آیا، لیکن انھوں نے انکا ر کرتے ہوئے کہا:کیا خدا نے کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کیا ہے؟! کہو اگر زمین میں فر شتوں کا رہنا ہوتا اور ان کی سکو نت کی جگہ ہوتی تو یقینا ہم آسمان سے ان کی رسا لت کے لئے کسی فر شتے کو مبعو ث کرتے۔

۲۳

کلمات کی تشریح

۱۔ یصطفی:

( صفو) کے مادہ سے فعل مضا رع ہے جوکہ خا لص نچوڑ اور ہر چیز سے منتخب شدہ کے معنی میں ہے اور (اصطفا ئ) عصا رہ اور خالص شیء پر دستر سی کے معنی میں ہے .اصطفائ، اسلامی اصطلا ح میں یعنی خدا وند عالم نے اپنے بندے کو شکوک و شبہات اور دوسروں میں پا ئی جانے والی گند گی سے پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے یا اسے دوسروں پر انتخاب کیا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خلقت کا نچوڑ، اس کاخلا صہ اور خدا کے بر گز یدہ ہیں اور سارے انبیاء خدا کے برگزیدہ ہیں۔

۲۔ اَوْحَےْنَا:

( وحی ) کے مادہ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے( جسے اردو میں جمع متکلم کہا جا تا ہے) جو لغت میں پو شیدہ طور پر آگاہ کر نے کے معنی میں استعما ل ہوتا ہے لیکن جب اسلامی اصطلا ح میں یہ کہا جائے: خدا وند عا لم نے فلاں چیز کی اپنے بر گز یدہ بندہ پر وحی کی یعنی: اُ سے اس کے دل میں جگہ دیدی اور خواب یا بیداری کی حالت میں اسے الھام کیا، یا اپنے کسی ایک فر شتے کی زبانی اس تک اُسے پہنچایا۔

۲۴

۳۔ بعثت:

پیغمبروں سے متعلق، اس معنی میں ہے کہ خدا وند عالم نے انھیں بھیجا اور مبعوث کیا ہے۔

۴۔ کتاب :

لغت میں مکتوب رسالے اور جز وے کے مجمو عہ کے معنی میں ہے.

لیکن اسلا می اصطلا ح میں ایک ایسی وحی ہے جو کتابت اور کتاب ہونے کے لائق ہے،ایسی کتاب جس میں علوم دین، اعتقا دات اور عمل کا ذکر ہو۔

اس طرح کی کتاب پیغمبروں میں سے صرف پانچ پیغمبر اپنے ہمرا ہ لائے ہیں:

نوح ـ ، ابرا ہیم ، مو سیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم، وہ کتاب جو پیغمبروں کے ہمراہ نازل ہوئی ہو وہ اسم جنس ہے اور اس سے مراد آسمانی کتابیں ہیں.

۵۔ حُکْم: حَکَمَ، ےَحْکُمُ ،حُکْماً :

قضا وت کی، قطعی و یقینی حکم صا در فرمایا. اسی طرح دانش اور تفقہ کے معنی میں بھی ہے اورحکمت کے معنی میں بھی استعما ل ہوا ہے ،آدمی کی حکمت، مو جو دات کی شنا خت اور نیک امور کی انجام دہی ہے ، یہ تمام معا نی مقا م استعمال سے منا سبت رکھتے ہیں۔

۶۔ نبّو ت :

نبوت لغت میں بر جستگی اور ظہو ر کے معنی میں ہے اور خبر دینے اور آگاہ کر نے کے معنی میں ہے راغب کا ''( نبا ئ)''اور''نبوّت '' کے بارے میں مختصر بیان اس طرح سے ہے:

۲۵

۷۔ ( نبأ) :

عظیم فا ئدے کے ساتھ ایک ایسی خبر ہے جس سے علم یا ظن غا لب حا صل ہوتا ہو. خبر کو (نبأ ) اُس وقت تک نہیں کہتے جب تک کہ اُس میں تین چیز نہ پا ئی جا ئے، جس خبر پر نبأ کا اطلا ق ہوتا ہے وہ کذب سے خا لی ہوتی ہے، جیسے توا تر( تسلسل ) یا خدا وند متعال کی خبر یا پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خبر اور فرماتے ہیں '' نبی ''( نبوت ) سے رفعت اور بر جستگی کے معنی میں ہے اور پیغمبر صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برجستگی اور مقام کی رفعت و بلندی کی وجہ سے ( نبی ) کا لقب پا یاہے.( ۱ )

اسلا می اصطلا ح کے اعتبار سے قرآن و حدیث میں ( نبی ) کے موارد استعما ل کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں:

(نبی ) وہ ہے جسے خدا وند عالم نے اپنے بندوں کے درمیا ن منتخب کر کے حکم عطا کیا ہے اور اسے کتاب کی وحی کی ہے اور اسے مبعوث کیا تا کہ جن و انس کو ایسے امور سے آگاہ کرے جن میں ان کی دنیا و آخرت کی صلا ح پا ئی جا تی ہو وہ خدا کی طرف سے کلا م کرتا ہے اور حضرت باری تعالی کا وہ پیغام جو اسے بذریعہ وحی پہونچاہے لو گوں تک پہنچا تا ہے. نبی کی جمع انبیا ء اور نبیین آتی ہے.( ۲ )

(نبی ) قرآن کریم میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، سوائے سورہ ٔ حج کی ۵۲ ویں آیت کے جس میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ مَااَرْسَلنَامِنْ قَبلکَ مِنْ رَسول ٍ وَلَا نبیٍّ لاّٰ اذَا تمنّیٰ اَلْقٰی الشَیطانُ فِی اُمْنِیَّته ) ...)

تم سے پہلے ہم نے کبھی کسی نبی یا رسول کو نہیں بھیجا مگر جب اس نے آرزو کی ( دین کو عملی جامہ پہنا نے کی ) تو شیطان اس کی خو اہش کے درمیان حائل ہوگیا۔

جب امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا:

نبی وہ ہے جو ( دستور الٰہی کو ) خواب میں دیکھتا ہے حضرت ابرا ہیم کے خواب کے مانند اور آواز بھی سنتا ہے لیکن فر شتہ کو نہیں دیکھتا ؛ لیکن رسول وہ ہے جو خوا ب بھی دیکھتا ہے آواز بھی سنتا ہے اور فر شتۂ وحی کو بھی سامنے دیکھتا ہے اور ممکن ہے مقام نبو ت و رسا لت ایک شخص میں جمع ہو۔( ۳ )

____________________

(۱)۔ مفردات راغب، مادۂ نبائ(۲)۔ لفظ نباء کے بارے میں معجم الفاظ قرآن کریم اور معجم الوسیط ملاحظہ ہو۔(۳)ہم نے اصول کافی کی پہلی جلد کے ۱۷۶صفحہ سے نبی اور رسول کے درمیان اس فرق کا استفادہ کیا ہے.

۲۶

۸۔ رسول:

رسول لغت میں پیغا م کے حا مل ایک عقلمند انسان کو کہتے ہیںاور اس حا ل میں اسے مر سل کہتے ہیں اور رسو ل کی جمع رُ سل آ تی ہے ۔لیکن اسلامی اصطا ح میں: رسول ایک ایسا انسان ہے جسے خدا وند عالم خا ص پیغا م دے کر کسی قو م کی طرف مبعوث کر تا ہے ، تا کہ ان کی اسلا می شر یعتوں کی طرف ہدایت و راہنما ئی کر ے. وہ اس فر یضہ کے انجام دینے کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے معجز ہ یا معجز ات بھی ہمراہ رکھتا ہے. جو اس کی رسالت کی صداقت پر گواہ ہو اس طریقہ سے جن لو گوں کی طرف اسے بھیجا ہے ان پر خدا کی حجت تمام ہوتی ہے۔اور اس پیغمبر کی تکذ یب یا مخا لفت ، بد بختی، عذا ب یا دنیا کی ہلاکت و نا بو دی کا سبب بنتی ہے اور آخرت میں انواع و اقسام عذا ب کا با عث ہوتی ہے، اسی وجہ سے پیغمبرکو نذ یراور منذر (ڈرانے والا ) کہا جا تا ہے۔

دوسری طرف رسول پر ایمان رکھنا اس کی اطا عت وفر نبرداری کر نا دنیا کی شاد مانی، خو شحالی اور سعادت، رحمت وبخشش اور آخرت میں خدا کی خوشنو دی و رضا یت اور بہشت کا با عث ہوتا ہے. ایسی صورت میں یہ پیغمبر بشیر و مبشر یعنی بشا رت دینے والا ہے۔جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کی رو شنی میں ہر رسول ( نبی ) ہے اورہر نبی صفی اور بر گز یدہ ہے لیکن ہر (نبی )لاز می طور پر رسو ل اور پیغمبر نہیں ہو گا ۔

۹ ۔ اولو العزم :

عزم لغت میں کسی کام کے کرنے کے لئے محکم اور پختہ ارادے اور اس راہ میں درپیش مشکلات میں صبر و تحمل کا نام ہے. اسلامی اصطلاح میں اولوالعزم پیغمبر یہ ہیں:

٭ حضرت نوح ٭ حضرت ابرا ہیم٭ حضرت موسیٰ٭حضرت عیسیٰ ٭ حضرت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم۔

۱۰۔ بشیر و نذ یر :

عر بی میں کہتے ہیں بشّرہ بشیئٍ : اسے نیک خو شخبری اور مژ دہ دیا ایسی صورت میں بشا رت دینے والے کو بشیر و مبشر کہتے ہیں.

و انذ رہ الشیٔ و با لشیٔ

اسے ہو لنا ک چیز کے ذ ریعہ ڈرایامثا ل کے طور پر کہا جاتاہے میں وارننگ دیتا ہوں تمھیں اس کے انجام سے ڈراتا ہوں لہٰذا اس سے بچو، ایسے شخص کو منذ ر یا نذیر کہتے ہیں ۔اسلا می اصطلا ح میں بشیر و نذ یر جیسے نام قرآن میں ان پیغمبروں کے لئے استعما ل ہوئے ہیں جنھیں خداوند عا لم نے کسی قو م کی طرف بھیجا ہے۔

۲۷

جیسا کہ سورۂ انعام آیت ۴۸، سورہ ٔ کہف،آیت ۶ ۵ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَانُر سِلُ الْمُرْ سَلینَ اِلاَّ مُبَشِّریَن وَمُنْذِ رین )

ہم نے پیغمبروں کو صرف بشارت دینے والا اور ڈرا نے و الا بنا کر بھیجا ہے۔

اور جیسا کہ سورۂ فاطر، آیت ۲۴میں ارشاد ہوتا ہے:

( اِنّااَرْسَلناکَ بِالحَقِّ بَشیراً وَ نَذ یرًا وَاِنْ مِنْ اُ مَّةٍ اِ لاَّ خَلافِیها نَذِ یِرُ )

ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرا نے والا بنا کر بھیجا ہے اور کو ئی امت ایسی نہیں ہے جس کے درمیا ن کو ئی ڈرانے والا نہ رہا ہو۔

۱۱ ۔ بےّنات:

بان الشیئ: چیز آشکا ر و واضح ہو گئی، معین ہو گئی ۔آیا ت بینا ت یعنی ایسی واضح و آشکار آیات جن میں کسی قسم کی پیچید گی اور ابہام نہ ہو اور ان میں افراد بشر کے لئے کوئی مبہم بات نہ پا ئی جاتی ہو۔

۱۲۔ و انز لنا :

خدا وند عالم نے میزا ن اور لوہے کا ایک ساتھ ایک ہی ردیف میں تذ کرہ کیا ہے تا کہ لوگ ان دو نوں ہی سے اپنی زند گی میں استفا دہ کر یں اور میزان کو آسمانی کتا بوں میں نازل فر مایا، یعنی ان میں میزان اور معیار قرار دیا تا کہ اس کے ذ ریعہ انسا نی اجتما ع، انسا نی عا دات ، طور طریقے، عقائد ان کے امور تولے جائیں اور ہر ایک کا نفع و نقصان معین و مشخص ہو۔

۱۳۔ میزان:

لغت میں اس وسیلے کو کہتے ہیں جس سے محسوس ہو نے والی ما دی چیز یں تو لی جا تی ہیں.اور اسلامی اصطلا ح میں: میزان وہی دین ہے جو آسمانی کتا ب میں ہے اور اس کے سہا رے عقائد اوردیگر امور کی سنجش ہوتی ہے اور اسی کے مطابق قیا مت کے دن انسا ن کا حسا ب و کتا ب ہو گا اور اس کے نتیجہ میں اسے سزا یا جزا دی جا ئے گی۔

۲۸

۱۴۔لِیقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ:

قسط ،عدل کے معنی میں ہے. عدل یعنی جو جس چیز کا مستحق ہو اسے وہ چیز دینا اور جس چیز کی ادائیگی اُس پر وا جب ہے وہ چیز اس سے لینا ۔

۱۵۔ بأ س شدید:

یہ پر باس سے مراد جنگ ہے کہ ارشا د ہوتا ہے:

( وَ اَنزَ لنَا الْحَد یدفیهِ بَأس شَدید وَمَنافِعُ لِلنّاسِ )

یعنی خدا وند عا لم نے انسان کی را ہنما ئی کی تا کہ لوہے سے حق کے دفا ع کی خاطر جنگی اسلحے بنائیں. آج بھی انسان لوہے سے جنگی اسلحہ بنا تا ہے اور بنا ئے گا اس کے علاوہ لو ہا انسا ن کے لئے دیگر منفعتوں کا بھی حا مل ہے۔

۱۶ ۔ کسفاً :

کسفةً ، کسی چیز کے ٹکڑ ے کو کہتے ہیں اس کی جمع کِسَف آتی ہے اور ( اوتسقط السماء کما زعمت علینا کسفا) کے معنی یہ ہیں کہ آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہم پر گرجائے

۱۷ ۔ زخر ف:

زخرف سو نے کے معنی میں ہے. بعد میں یہ کلمہ زینت کے معنی میں استعما ل ہوا ہے، یا اس کے بر عکس۔

۱۸۔ جیب:

گریبان لباس اور اس کے ما ننداشیاء کے معنی میں ہے، ایسا شگا ف جو لباس یا پیر ھن میں اس لئے کیا جا تاہے کہ سر اس سے پا ر ہو جا ئے۔

۱۹ ۔ مبصرة :

آشکا ر اور واضح۔

۲۹

۲۰ ۔ اصری :

اصر یعنی ایسا پیمان جس میں تا کید پا ئی جا تی ہو۔

۲۱ ۔ طاغو ت:

طغٰی طغیا ناً:

یعنی سر کشی کی حد سے گذ ر گیا۔ طا غوت ،ہر سر کش اور نا فر مان اور خدا کے علا وہ ہر معبود کے معنی میں ہے، اس کی جمع طو اغیت آتی ہے۔

۲۲ ۔آیت :

آیت لغت میں محسوس چیز کی آشکا ر علا مت و پہچا ن اور معقول چیز میں مقصود پردلیل کے معنی میں ہے ۔

پہلی مثا ل: سورہ ٔ مریم کی دسو یںآیت میں حضرت زکریاکی داستان سے متعلق خدا کا فر مان ہے:

( قالَ راَبِ اْجَعْل لی آیة ًقالَ آ یَتُکَ اَلا ّ تُکَلِّمَ النَاسَ ثَلاثَ لَیال ٍسَو یّاً )

حضرت ز کریا کی مراد کہ کہتے ہیں:(اجعل لی آےة) یہ ہے کہ اس امر کے لئے ہمارے لئے علامت اور نشا نی قرار دے. کہ خدا نے فر مایا تمہاری علا مت یہ ہے کہ تم تین دنو تک مسلسل کسی سے کلام نہیں کروگے۔

دوسری مثا ل: سورہ ٔ یو سف کی ۱۰۵ ویں آیت میں خدا فر ماتا ہے:

( وَ کَاَ یِّن مِنْ آیة فی السمواتِ والارض یَمُرُّ ون علیها وهُمْ عَنْهٰا معرضونَ )

یعنی آسمان و زمین میں کس قدر علا مت و نشا نی پا ئی جا تی ہے جو خدا کی قدرت اور حکمت کی حکایت کرتی ہے یا حضرت باری تعا لی کے دیگر صفات کہ نہا یت سا دگی کے ساتھ ان سے گذ ر جا تے اور ان سے اعرا ض کر تے ہیں۔

دوسری قسم کی مثا ل: وہ آیات اور معجز ات ہیں جنھیں خدا وند عا لم اپنے پیغمبروں کے ہا تھو ظاہر کر تا ہے جیسا کہ سورہ ٔ نحل کی بارھو یں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَأدخل یدکَ فی جَبیکَ تخُرجْ بیضاء مِن غیر سوء فی تِسْعِ آیا ت ٍ الی فِرعَونَ وقومِهِ )

( مراد حضرت مو سیٰ کا ید بیضا والا معجزہ اور ان کے دیگر نہ گا نہ معجزا ت ہیں)

لیکن اصطلاح اسلامی میں آیت کا استعمال دو معنی میں ہوا ہے۔

۳۰

۱۔ وہ معجزات جنھیں خدا وند عالم نے اپنے اولیا ء اور پیغمبروں کے ہا تھوں پر جا ری کیاہے:

جیسے مو سیٰ کلیم اللہ کا عصا اور ناقہء حضرت صا لح ـ، اسے معجزہ کہتے ہیں، اس لئے جن و انس اس کے جیسا پیش کر نے سے عا جز و بے بس ہیں، اسی طرح کسی بچے کا بغیر باپ کے پیدا ہو جا نا بھی معجزہ ہے.

پیغمبروں کے غیر طبعی حا لا ت اور خا رق العادة اقدا مات اسی قسم کی آیتیں ہیں

جیسے حضرت عیسیٰ کی ولا دت ان کی ماںحضرت مریم کے ذریعہ کہ نہ ان کا کو ئی شو ہر تھا اور نہ ہی حضرت عیسیٰ کا کوئی باپ تھا۔

اورجیسا کہ خدا وند عالم کا سورۂ مومنون آیت۵۰سورۂ انبیائ،آیت ۹۱میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَُمَّهُ آیَةً وَآوَیْنَاهُمَإ الَی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ )

ہم نے عیسیٰ کو اور عیسیٰ کی ماں ( مریم) کو آیت و نشا نی قرار دی ہے۔

اور اسی قسم کی آیت، وہ عذاب ہے جو مشر کین پر نازل ہوتا ہے ۔

جیسا کہ خدا وند سبحان سورہ ٔ عنکبوت کی ۱۵ ویں آیت میں ارشا د فر ما تاہے:

( فَأَنجَینٰاه وَ اَصْحابَ السَّفینةِ وَ جَعَلنَاهاآیة ً لِلعَالمینَ )

حضرت نوح کی کشتی پر سوار ہو نے والوں کو نجا ت دینا اور مشرکین کا غرق ہو جانا خود ہی آیت ہے ۔

جیسے اسی قسم کی آیت سورئہ قمر کی ۱۵ ویں آیت ہے۔

۲۔آیت قرآن کریم کی رو سے

راغب مفردات القرآن نا می کتاب میں تحر یر فر ماتے ہیں:

قرآن کا کو ئی جملہ بھی جو کسی حکم پر د لا لت کر تا ہو ایک آیت ہے ، قرآن کا کو ئی سورہ ہو یا سورہ کا ایک حصّہ یا چند حصّے ہوں؛ اوراس کا ہر کلا م یا جملہ جو لفظی اعتبار سے الگ ہو ( آیت) کہلاتا ہے اسی لحا ظ سے ایک سورہ متعدد آیات میں تقسیم ہوتا ہے۔( ۱ )

____________________

(۱)۔ (آیت) کی لفظ مفردات راغب میں ملاحظ ہو.

۳۱

رو ایات میںگز شتہ آیات کی تفسیر

الف ۔ ابو ذر کی حد یث میں مذ کور ہے کہ آپ نے فر مایا:

رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا : انبیاء کی تعداد کیا ہے ؟

فرمایا: ایک لا کھ چو بیس ہزار ۔

میں نے سوال کیا : ان میں کتنے لو گ رسو ل تھے ؟

فرمایا : تین سو تیرہ افرا د پر مشتمل ایک مجمو عہ تھا۔

میں نے سو ال کیا : سب سے پہلے نبی کون تھے ؟

فرمایا : آدم۔

میں نے سوال کیا:آ یا حضرت آ دم نبی مر سل تھے؟

فرما یا : ہاں، خدا نے انھیں اپنے دست قدرت سے خلق فرمایا اور ان میں اپنی رو ح پھو نکی پھر اس وقت رسول خدا نے مجھ سے خطا ب کر کے فر مایا:

اے ابو ذر! ابنیا ء کے درمیان چا ر شخص (آدم ،شیث ، اخنو خ جنھیں ادریس کہا جا تا ہے اور یہ وہ پہلے شخص تھے کہ جنھوں نے قلم سے تحریرلکھی اور نوح ) یہ سب کے سب سر یا نی تھے اور چار افراد (ہود ،صالح، شعیب اور تمہارا یہ نبی '' محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم '' )عرب ہیں۔

بنی اسرا ئیل کے سب سے پہلے نبی جناب مو سیٰ اور آخری نبی حضرت عیسیٰ اور چھ سو دیگر انبیاء ہیں۔

میں نے سوال کیا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! خدا وند عالم نے کتنی کتابیں نازل کی ہیں ؟

۳۲

فرمایا : ایک سو چار کتا بیں خدا وند عا لم نے شیث پر پچا س صحیفے اور ادریس پر تیس صحیفے اور ابرا ہیم پر بیس صحیفے ناز ل کئے ، پھر تو ریت ، انجیل ، زبوراور فرقان کو نازل کیا آخر حد یث تک.( ۱ )

اس حدیث کی عبارت احمد بن حنبل کی مسند میں مند ر جہ ذ یل طر یقہ سے ذ کر ہوئی ہے:

پھر میں نے سوال کیا! اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انبیا کتنے ہیں؟

فرما یا ایک لا کھ چو بیس ہزا ر افراد کہ انھیں میں سے تین سو پندرہ افراد رسول ہیں.( ۲ )

ب۔حضرت ابو الحسن علی بن مو سی الرض سے مر وی ہے کہ آپ نے فر ما یا:

او لو العز م کو او لو العزم اس لئے کہتے ہیں کہ یہ لوگ عز م و کوشش، استقا مت و پا یدا ری کے مالک اور شریعت کے حا مل تھے .حضرت نو ح کے بعد ہر نبی ان کی شریعت اور قوا نین کا پا بند تھا اور حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کے زمانے تک ان کی کتا ب کا پیر و رہا ؛ اور جو بھی نبی ان کے زمانے میں تھا یا ان کے زما نے کے بعد آ یا ابراہیم کی شر یعت وقو انین کا پا بند تھے۔

____________________

(۱) بحار الانوار ،علّامہ مجلسی ،ج۱۱ ،ص ۳۲، معانی الاخبار کے صفحہ ۹۵ سے نقل کے مطابق؛ خصال ج ۲، ص ۱۰۴.مسند احمد ج ۵، ص ۲۶۵۔ ۲۶۶ ؛نھاےة اللغة، لغت حجت ،بحار، ج ۱۱ ،ص ۳۳ خصال کی نقل کے مطابق ، ج۱، ص ۱۴۴. مختصر الحدیث امام باقر سے شاید حدیث میں مذکور سریانی سے مراد لوگوں کی قدیم زبان ہو.(۲)مسند احمد،ج۵،ص۲۶۵، ۲۶۶.

۳۳

اور حضرت موسیٰ کے ظہو ر تک انھیں کا پیرو رہا ؛اور جو نبی حضرت مو سیٰ کے زمانے میں تھا یا بعد میں آیا ہے مو سیٰ کی شریعت اور قوا نین کا پا بند اور ان کی کتاب توریت کاحضرت عیسیٰ کے زمانے تک پیرو تھا اور جو نبی حضرت عیسیٰ کے زمانے میں یا ان کے بعد ہوا وہ ان کی شریعت و قوا نین اور ان کی کتاب انجیل کا ہمارے نبی حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے تک پیرو تھا. یہ پا نچ افراد او لو العز م اور تمام انبیا ء اور رسو لوں سے افضل ہیں اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت قیامت تک کے لئے ثا بت ہے جو کبھی نسخ نہیں ہو گی اور آنحضرت کے بعد قیامت تک کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا آخر حدیث تک( ۱ )

سیو طی کی تفسیر میں ابن عبا س سے منقو ل ہے:

او لو العز م سے مراد ہیں :٭ خا تم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٭ نوح ٭ ابرا ہیم ،

٭ موسیٰ ٭ عیسی ،(۲)

اصول کافی میں اپنی سند کے ساتھ امام صادق سے روایت کرتے ہیں:

انبیا ء اور پیغمبر وں کے سردار پا نچ افراد ہیں جو اولو العزم پیغمبر تھے ، شر یعتو کا اہم محور ہیں؛ خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نوح ،ابرا ہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ۔( ۳ )

ج ۔تا ریخ یعقو بی میں امام جعفر صادق سے رو ایت کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

امام جعفر صادق نے فرمایا:

خدا وند عالم نے کسی پیغمبر کو نبوت نہیں دی مگر اس چیز کے ہمرا ہ جس کے ذریعہ وہ اپنے تمام اہل زمانہ پر فو قیت رکھتا ہو۔

مثا ل کے طور پر حضرت مو سیٰ فر زند عمرا ن کو ایسی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا جس پر سحر وجا دو غا لب تھا اس لئے آپ کو ایسی چیز عطا کی جس کے ذریعہ ان کے سحر کا مقا بلہ کیا اور کا میاب ہوئے اور ان کے سحر کو باطل کیا اور وہ :عصا، ید بیضائ، ٹڈیو کا حملہ ، جوئیں ، مینڈ ھکو کی کثرت، خون، دریا کا شگا فتہ ہو نا، چٹا ن کا اس طرح سے پھٹ جا نا کہ اس سے پا نی نکل آیااور ان کے چہرے کو بدنما بنا دینا اور مسخ کردینا، یہ سب حضرت کے معجزات تھے۔

____________________

( ۱) بحار الانوار، علّامہ مجلسی،ج۱۱،ص ۳۴، ۳۵؛ عیون اخبارالرضا سے نقل کے مطابق ص ۲۳۴،۲۳۵ پر(۲)تفسیر سیوطی،ج۶،ص ۴۵. (۳)اصول کافی،ج۱ص ۱۷۵،باب طبقات الانبیاء والرسل،کتاب خصال،ج۱،ص ۱۴۴ کی نقل کے اعتبار سے.

۳۴

داؤد ـ کو اس وقت لوگوں کے درمیان مبعوث کیا جس زمانے میں صنعت و ہنر اور لہو و لعب کا غلبہ تھا اس لئے حضرت داؤد کے ہا تھ میں لوہے کو نر م بنا دیااور انھیں خوش الحانی (اچھی آواز ) دی وہ بھی اس درجہ خوش الحانی کہ پرندے آپ کی خوبصورت آواز کی وجہ سے آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتے تھے۔

سلیمان ـکو ایسے زمانے میں مبعو ث کیا جب لو گوں کے درمیا ن مکان بنا نے کا شوق اور طلسم وجادو کا دور دورہ تھا اسی سبب سے اس نے ہوا کو ان کا تا بع بنا دیا اور جنا ت کا ان کا مطیع و فرمانبرداربنا دیا ۔

عیسیٰ کو بھی ایسے دور میں مبعوث کیا جس زمانے میں ڈ اکٹری لوگوں کو اپنے آپ میں مشغول کئے ہوئے تھی، لھذا ان کو مر دوں کو زند ہ کر نے اور کو ڑ ھیو اور مبر وص کو شفا دینے کے اسلحے سے آراستہ کیا۔

محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس دور میں مبعوث فرمایا جب لو گو میں سب سے زیا دہ اچھی گفتگو کر نے، کہا نت، پیشینگو ئی کر نے،مسجع اور موزون کلام اور فصیح و بلیغ خطبہ دینے کا رواج تھا، لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرآن مبین اور قوت خطابت کے ساتھ مبعو ث کیا ۔(۱)

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی،ج ۲ ، ص ۳۴

۳۵

پروردگا ر عا لم نے آدمیو اور فر شتوں کے درمیان حضرت آدم ، حضرت نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران جیسے پیغمبروں کو عالمین پر اور حضرت مریم کو جہان کی خو اتین پر منتخب فر مایا۔

خدا وند عالم نے حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت لوط، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت موسی، حضرت ہارون، حضرت یسع، حضرت داؤد ، حضرت سلیما ن ، حضرت ایوب، حضرت الیاس ، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ، کو کتاب، حکم اور نبوت عطا کی اور ان کے درمیان حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم کو کتاب اور مخصوص شریعت عنا یت فر مائی ہے ؛ یہ لوگ اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں خداوندعالم نے ان کی کتابوں میں ضابطہ حیات اور ایک میزان قرار دیا تا کہ اس کے ذریعہ افراد معاشرہ کے حق و باطل عقائد اور اعمال پہچانے جائیں۔

اور ان میں سے بعض جیسے حضرت مو سیٰ کلیم اللہاور محمد حبیب اللہ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان لوگوں کے برخلاف جو راہ انسا نیت سے منحرف ہو چکے ہیں شدید جنگوں میں استفادہ کے لئے اسلحے قرار دئے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو جنگ اور شمشیر کے علا وہ راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں، ایسے ہی بعض پیغمبروں کو مبعو ث کیا اور انھیں مبشر ( بشارت دینے والا) اور منذ ر ( ڈ ارنے والا ) بنا یا۔ خو اہ صا حبان شریعت پیغمبرہوں جیسے حضرت نوح اور حضرت موسیٰ یا وہ لوگ ہوں جو مستقل شر یعت کے ما لک نہیں ہیں جیسے حضرت شعیب اور حضرت لوط۔

خدا وند عا لم نے کسی قوم کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا نہیں کیا جب تک کہ رحمت کی نوید دینے وا لے اور عذا ب سے ڈرانے والے کسی پیغمبر کو اپنی طرف سے معجزہ اور نشانیوں کے ہمرا ہ نہیں بھیجا.

۳۶

خدا وند عالم اس سلسلہ میں فر ما تا ہے:

۱۔سورۂ اسراء کی ۱۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ ماَ کُنَّا مُعَذِّبینَ حتیّّٰ نَبعَثَ رسولاً )

ہم جب تک کو ئی رسول نہیں بھیجتے اس وقت تک عذا ب نہیں کرتے۔

۲۔ سورہ ٔ یو نس کی ۴۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ لِکُلِّ اُمَّةٍ رَسُول فَاِذاجَائَ رَسُولُهمُ قُضِیَ بَینَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لایُظْلَمُونَ )

ہر امت کے لئے ایک رسول ہے لہٰذا جب ان کے درمیا ن ان کا رسول آجائے تو عدل و انصاف کے ساتھ قضا وت کی جائے اور اُن پر ستم نہ کیا جائے گا۔

جو امت پیغمبر کی نا فرمانی کر ے وہ دنیا و آخرت میں عذا ب کی سزاوار ہو گی۔جیسا کہ خدا وندعالم نے فرعون اور اس سے پہلے والوں کی حا لت کے بارے میں سورہ ٔالحا قہ کی دسویں آیت میں خبر دیتے ہوئے فر مایا ہے:

( فَعَصَواْ رَسُولَ رَبّهِم فَأَخَذَهُمْ اَخْذَ ةًًرابِیَة )

انھوں نے اپنے اللہ کے رسول کی نا فر مانی کی ،تو خدا وند عا لم نے ان کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا ۔

پیغمبر کی نا فرما نی خدا کی نا فر مانی ہے .جیسا کہ خدا نے سورہ ٔ جن کی ۲۳ ویں آیت میں فرمایا ہے:

( وَ مَنْ یَعص اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَاِ نَّ لَهُ نارَجَهَنّمَ خَالِدینَ فِیهااَبداً )

جو خدا اور اس کے رسول کی نا فر مانی کرے اس کے لئے آتش جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ معذب ہوتا رہے گا۔

خدا وند عا لم رسو لوں کو انبیاء میں سے منتخب کرتا ہے اسی لئے رسولوں کی تعداد جیسا کہ پیغمبر اسلام صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ابو ذر کی گزشتہ روایت میں ہے، انبیا ء کی تعداد سے کم ہے لیکن خدا وند عا لم جسے لوگو کی ہدایت کے لئے مبعو ث کر تا ہے اسے معجزہ دیتا ہے تا کہ وہ اس کے مد عا کی تا ئید کر ے کہ وہ خدا کی طرف سے مبعوث ہوا ہے ۔

۳۷

معجزہ اور آیت کی حقیقت

خدا وند سبحا ن نے ابنیا ء کو نظا م ہستی پر حکو مت و ولایت عطا کی ہے تا کہ جب خدا کی مر ضی ہو کہ اُس کا نبی نظا م کے کسی بھی جز کو جسے اس نے ہستی کے لئے مقرر کیا ہے تبد یل کر دے، تو وہ اس کے اذن اور اجازت سے انجا م دے سکے ۔

اس لحا ظ سے انبیا ء کے ذریعہ نظا م طبعیت کے ایک حصّہ کے خلا ف معجزہ پیش کر نا پر وردگار عالم کی تکو نیی سنت ہے. اور ایسے سماج میں یہ معجزہ پیش کیاجاتا ہے کہ جہاں پیغمبران الٰہی رسا لت کے لئے مبعوث ہوئے ۔

بنا بر این امتوں نے انبیا ء سے معجزہ دکھانے کی در خواست کی تا کہ ان کے دعویٰ کی صدا قت پر دلیل ہو.خدا وند عا لم نے اس مو ضو ع کو قوم صا لح کی سر گذشت میں سورہ ٔ شعراء میں عنوان کر تے ہوئے فر ماتا ہے( :( مَا أنْتَ لَّابَشَر مِثلُنافأتِ بِآ یة ٍانْ کُنتَ مِن الصّادِ قینَ٭قالَ هذهِ ناقَة لَهاشِرْب وَلُکم شِربُ یومٍ معلومٍ ٭و لا تَمَسّوها بسوئٍ فَیَأ خذَکُم عذابُ یومٍ عظیمٍ ) (حضرت صا لح کی قوم نے ان سے کہا ) تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو. اگر سچے ہو تومعجز ہ پیش کرو۔ تو کہا !یہ اونٹنی ہے کچھ پانی اس سے مخصوص ہے اور پانی کا کچھ حصہ تم لوگوں سے مخصوص ہے اور دیکھو اس کی طرف دست خیانت درازنہ کرنا ورنہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے.( ۱ ) عا م طور پر ہوایہی کہ جب کسی پیغمبر نے آیت اور معجزہ دکھا یا توامتیں ضد اور ہٹ دھر می اوران کے

____________________

(۱) سورہ ٔ شعرا،آیت ۱۵۴۔۱۵۶.

۳۸

ساتھ عناد اور دشمنی پر تل گئیں.اور نہ ہی رب پر ایمان لائیں اور نہ ہی اُس پیغمبر پر جواس کی طرف سے ان کی طرف مبعوث ہوا تھا خدا وند عا لم اس موردمیں گزشتہ آیات کے بعد، قوم ثمود کے بارے میں اس طرح خبر دیتا ہے:

( فَعقروها فَأَ صْبَحُوا نَادِمین )

انھوں نے اس اونٹنی کو مار ڈا لا پھر اس کے بعد اپنے کر توت پر شر مندہ ہوئے۔( ۱ )

اگر کسی قوم کی خو اہش کے مطا بق اس کے پیغمبر سے معجزہ صا در ہوا لیکن اس قوم نے اُس کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی اُس پر ایمان لائی توسر زنش و ملامت اورعذاب کی مستحق ہو گئی اور ان کے خدا نے ان پر عذاب نا زل کر دیا جیسا کہ خدا نے اسی سورہ کے اختتام پر قوم ثمود کی نا فر مانی کی خبر دی ہے:

( َأَخَذَهمُ العَذا ب انَّ فی ذ لِکَ لَأ یةوَ مَاکانَ اَکْثَرُهُم مُؤمِنین )

اُس وقت عذاب موعود میں مبتلا ہوگئے یقینا اس قوم کی ہلا کت میں دوسروں کے لئے عبرت کی نشانی ہے ( لیکن) اس کے باوجود بھی اکثر لوگ خدا پر ایمان نہیں لائے۔( ۲ )

انبیاء کا معجزہ پیش کر نا حکمت الٰہی کے مطا بق ہے اور حکمت کا مقتضی ایک ایسی حد اور اندازہ کے مطا بق معجزہ پیش کر نا ہے کہ جو شخص اپنے رب اور اس کے پیغمبر پر ایمان لا نا چا ہتا ہے تو اسے پتہ چل جائے کہ پیغمبر اپنے ادّعا میں سچّا ہے نہ اُس حد اور مقدار میں کہ سر کش اور با غی قومیں تعیین کر تی اور چا ہتی ہیں. یا کسی محال امر کی امید رکھتے ہیں جیسا کہ دو مقام پر قریش نے خا تم الا نبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تقا ضا کیا تھا اور وہ اس امرکے بعد تھا کہ خدا نے قریش سے جو کہ عرب میں فصیح و بلیغ کلام میں ممتاز اور معروف تھے آیت طلب کی اور انھیں مخاطب کر تے ہوئے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

( وَِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَکُمْ مِنْ دُونِ ﷲ ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ٭ فَِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ ٭ )

جو کچھ ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیاہے اگر تمھیں اس میں شک و تردید ہے، تو اس کے ما نند ایک سورہ ہی پیش کر دو اور خدا کے علا وہ اپنے نا صروں سے مدد بھی لے لو اگر سچے ہو۔لیکن اگر نہیں کر سکتے اور ہر گز اس پر قادر نہیں ہو تو پھر خدا کی اس آگ سے ڈرو جس کا ایند ھن انسان اور پتھر ہیں اور کافروں کے لئے مہّیا کی گئی ہے.( ۳ )

____________________

(۱)سور ۂ شعرأ،آیت،۱۵۷.(۲) سورۂ شعرأ، آیت، ۱۵۸.(۳) سورۂ بقرہ : آیت ۲۳ اور ۲۴.

۳۹

اس طرح سے پروردگا ر نے ان پر حجت تمام کی اور فرما یا ہے :

جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اس میں اگر تمھیں شک و شبہہ ہے تو اس کے مانند ایک سورہ ہی پیش کرو اور سب کو اپنا مدد گار بھی بنالو اور خبر دی ہے کہ اگر جن وانس ایک دوسرے کے مدد گار ہو جائیں تو بھی اس کے مانند نہیں لا سکتے اور تاکیداً نفی ابدفرما ئی اور کہا(لن)یعنی ہر گز اس کے مانند نہیں لا سکتے. حتیٰ کہ ہمارے زمانے میں بھی اسلام دشمن عناصر اپنی تمام تر کثرت اور عظیم و گو نا گوںقدرت کے باوجود قادر نہیں ہیں کہ قرآن کے مانند ایک سورہ پیش کر سکیں۔

اُن لوگوں نے اس سر توڑ مبارزہ جوئی کے بعد( ایک ایسے امر کے پیش کر نے میں جسے جن و انس مل کر پیش نہیں کر سکتے اور اس کے مانند پیش کرنے میں قریش کی ناتوانی کے باعث ) رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مطا لبہ کیا کہ مکّہ کی آب و ہوا تبد یل کر دیں اور سونے کا گھر پیش کریں یا خدا اور فرشتوں کو ان کے سامنے حا ضر کر دیں یا آسمان کی طرف پر واز کر یں پھر بھی ان تمام چیزوں کے با وجود ایمان نہیں لائیں گے مگر جب ان کے لئے آسمان سے کو ئی کتاب نازل ہو جس کی وہ تلا وت کریں!معلوم ہے کہ جو انھوں نے درخواست کی تھی وہ ایک محال امر تھا وہ یہ کہ خدا اور فر شتوں کو ان کے سا منے حا ضر کر دیں ( کہ خدا وند عالم ان ستمگروں کی بات سے بلند و بر ترہے)اور ان کے درمیان انبیاء کے بھیجنے میں اللہ کی سنت کے خلا ف مطالب مو جود ہیں اس معنی میںکہ انھوں نے مطا لبہ کیا تھا کہ ان کے سامنے آسمان کی طرف پرواز کر یں اور ان کے لئے ایک کتاب لے آئیں ایسی چیز جو خدا کے پیغام لانے والے فر شتوں سے مخصوص ہے نہ کہ انسان سے دوسرے یہ کہ وہ لوگ سرے سے قبو ل ہی نہیں کرتے تھے کہ خدا کسی انسان کو رسالت کے لئے مبعوث کرے گا جب کہ حکمت اس کا اقتضا ء کر تی ہے کہ انبیا ء انسا نوں کی جنس سے ہوں، تا کہ ان کے اعمال ورفتار میں ان کی اقتداء ہو اور اپنی قوم کے لئے نمو نہ ہوں، ان کی دوسری درخواستیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں جیسے کہ انھوں نے مطا لبہ کیا تھا کہ ان پر عذاب نازل ہو۔

اسی وجہ سے خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو اس طرح جواب دے:

( سُبْحَانَ رَ بِیّ هَلْ کُنتُ اِلاَّبَشَرا ًرَسُولاًً )

میرا ربّ پاک اور منز ہ ہے کیا میں خدا کی طرف سے مبعوث ایک انسان کے علاو ہ کچھ اور ہوں؟( ۱ )

____________________

(۱)سورۂ اسراء : آیت،۹۳.

۴۰

خلا صہ کلا م یہ ہے کہ خدا کی حکمت کا تقا ضا تھا کہ اس کا فرستادہ اپنے ربّ کی طرف سے کو ئی معجزہ پیش کرے جو اس کے ادّعا کی صداقت پر دلیل ہو اور اس طرح سے لوگوں پر حجت تمام ہو. اس صورت میں جو ما ئل ہو وہ ایمان لے آئے اور جو سر کشی و عناد کر نا چا ہے وہ کرے جیسا کہ تمام معجزا ت پیش کر نے کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہا رون کی قوم کا حال تھا.یعنی جادو گر وںنے ایمان قبول کیا لیکن فر عو نیوں اور اس کے گردو پیش والوں نے کفر و عناد کا راستہ اختیار کیا کہ خداوند عالم نے بھی انھیں غرق کر کے ذلت و خواری کی طرف کھینچ دیا۔

جو کچھ انبیا ء اللہ کی جانب سے پیش کرتے ہیں اسلامی اصطلا ح میں اسے معجزہ کہتے ہیں جو کہ خود ہی ان کی صداقت پر ایک دلیل ہے۔

لہٰذا جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کے مطا بق ہر پیغمبراور رسول نبی ہو گا، لیکن ہر نبی پیغمبر نہیں ہو گا جیسے یسع کہ وہ نبی اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر ایسی شریعت لے کر آئے جو بعض ان موارد اور اعمال کی جنھیں گزشتہ شریعتوں نے پیش کیا تھا ،ناسخ قرار پائی جیسے حضرت موسیٰ کی شریعت سابق شریعتوں کی بہ نسبت اور بعض کی شریعت گزشتہ شریعت کو مکمّل کر نے والی یا تجدید کر نے والی تھی جیسے حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کی شریعت کی بہ نسبت ،کہ خدا فرماتا ہے:

( ثُمَّ اَوْحَیْناَاالَیکَ اَن اتّبع مِلّةابرا هیم حنَیفاً... )

پھر اُس وقت ہم نے تمھیں وحی کی کہ ابراہیم کے پاک وپاکیزہ آئین کا اتباع کرو.( ۱ )

اور سورۂ مائدہ کی تیسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( اَلْیَو م اَکْمَلْتُ لَکُمْ دینکُم وَاَتمَمْتُ عَلیَکُم نِعمتی وَرضیتُ لَکُمُ الاِسلامَ دِیْناً )

آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو کا مل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا ۔

ان چند اصطلا حوں سے آشنا ئی کے بعد کہ جن پر قرآن کریم ، حدیث اور سیرت کی کتابوں میں انبیاء کی خبروں کا سمجھنا موقوف ہے.اب ہم انشا ء اللہ ان کے اخبار کی تحقیق کر یں گے اور اپنی بات کا آغا ز حضرت آدم ابو لبشر سے کریں گے۔

____________________

(۱) سورۂ نحل:آیت ۱۲۳.

۴۱

( ۲ )

حضرت آدم ـ

* حضرت آدم ـ کی خلقت سے متعلق چند آیات.

* کلمات کی تشریح

* آیات کی تفسیر

آدم ـ کی خلقت

۱۔ خدا وند سبحا ن سورئہ طہٰ ٰکی ۱۱۵ اور ۱۲۲ آیات میں فرماتا ہے.

( وَلَقَدْعَهِدْنَا اِلٰی آدمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ واَلَمْ نَجدلَهُ عزماً٭...٭ ثم أجْتَباه رَبُّهُ فَتابَ عَلَیْهِ وَهَدیٰ )

اور ہم نے آدم سے عہد وپیمان لیا (کہ شیطا ن کے دھو کے میں نہ آئیں)اور اس عہد میں اُن کو ثابت قدم اور پا ئدار نہیں پا یا ٭ ٭ پھر خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی اور ان کی ہدایت فر مائی اور انھیں مقام نبوت کے لئے انتخاب کیا.

۲۔سورۂ بقرہ کی ۲۷ اور ۳۰ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ ِنِّی جَاعِل فِی الَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا َتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یُفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُساَبِحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ ِنِّی َعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ٭ وَعَلَّمَ آدَمَ الَسْمَائَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ َنْبِئُونِی بَِسْمَائِ هَؤُلاَء ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ٭ قَالُوا سُبْحَانَکَ لاَعِلْمَ لَنَا ِلاَّ مَا عاَلَمْتَنَا ِنَّکَ َنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ٭ قَالَ یَاآدَمُ َنْبِئْهُمْ بَِسْمَائِهِمْ فَلَمَّا َنْبََهُمْ بَِسْمَائِهِمْ قَالَ اَلَمْ َقُلْ لَکُمْ ِنِّی َعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وََعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ ٭ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا ِلاَّ ِبْلِیسَ َبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ ٭ وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ َنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ ٭ فََزَلَّهُمَا الشَّیْطَانُ عَنْهَا فََخْرَجَهُمَا مِمَّا کَانَا فِیهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ وَلَکُمْ فِی الَرْضِ مُسْتَقَرّ وَمَتَاع الَی حِینٍ ٭ فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ راَبِهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ )

۴۲

٭ جب تمہارے رب نے فر شتوں سے کہا:میں روئے زمین پرایک جا نشین بنا ؤں گا ان لوگوں نے کہا آیا ایسے کو بنا ئے گا جو اس میں خو نر یزی اور فساد بر پا کر تے ہیں؟ جب کہ ہم تیری تسبیح اور حمد کر تے ہیں اور تیری پا کیز گی بیان کرتے ہیں فرمایا ! جومیں جا نتا ہو تم نہیں جا نتے اور آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی اس کے بعد انھیں فر شتوں کے سا منے پیش کیا اور ان سے سوال کیا اگر سچّے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو ۔٭ بو لے خدا وند! تو منزہ ہے ہم تو وہی جا نتے ہیں جو تو نے ہمیں سکھا یا ہے تو دانا اور حکیم ہے۔ ٭

فرمایا : اے آدم ! تم ان کے اسماء کی انھیں خبر دو جب آدم نے انھیں آگاہ کیا تو فرمایا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ہم زمین و آسما ن کے غیب کے بارے میں یا جو کچھ ظا ہر اور مخفی رکھتے ہواس سے باخبرہیں٭

جب ہم نے فر شتوں سے کہا آدم کا سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا جز ابلیس کے اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔ ٭ اور ہم نے کہا اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں سکو نت اختیار کرو اور وہ پر جہ سے چا ہو کھا ؤ جو تمھیں پسند آئے ،لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جا ؤ گے ٭ شیطا ن نے انھیں فریب دینے کی کوشش کی اور انھیں جنّت سے باہر کر دیا اور میں نے کہا تم سب کے سب نیچے اترو تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہوگا اور تمہارے لئے زمین میں ایک مدت تک کے لئے ٹھہر سکتے ہو اور اس سے بہرہ مند ہوسکتے ہو ٭ پھر آدم نے اپنے خدا سے چند کلمات یا د کئے اور خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی کہ وہ تو بہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے ۔٭

۳۔ سورۂ آل عمران کی ۳۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( انَّ اللّٰهَ اِصطَفَیٰ آدَمَ وَ نُوحاً وَآلَ ااِبْرَاهیمَ وَآل عِمرَانَ عَلی العَا لمین )

خدا وند عالم نے آدم ،نوح ،خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو سارے جہان پر انتخا ب کیا۔

سورۂ انعام کی ۸۹ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( اُولئک الَّذِینَ آتَینَاهُمُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالَنُّبوَّة... )

وہ لوگ ( انبیائ)وہی ہیں جنھیں ہم نے آسمانی کتاب، فر ما نروائی اور نبوت عطا کی ہے...

۴۳

کلمات کی تشریح

۱۔اجتباہ :

اسے چنااور انتخاب کیا. مفردات راغب میں مذ کور ہے کہ: اجتباہ اللہ العبد یعنی یہ کہ خدا نے بندہ کو الٰہی فیض سے مخصوص کیاوہ بھی اس طرح سے کہ انواع واقسام کی نعمتیں اُس کے اختیار میںدے دیتا ہے بغیر اس کے کہ بندہ نے اس سلسلے میں کوئی کوشش کی ہو. یہ فیض انبیاء اور ان کے ہم مرتبہ صدیقین اور شہداء سے مخصوص ہے۔

۲۔ تابَ :

اُس نے تو بہ کی بندہ کی توبہ اس کی ند امت اور پشیمانی کا پتہ دیتی ہے اس گناہ سے جو انجام دیا ہے لہٰذا اس گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا اور جہاں تک ممکن ہو اس کی تلافی اور تدارک کرنا بندہ کی توبہ ہے۔

لیکن ربّ کی تو بہ کے معنی اپنے بندے کی تو بہ قبول کرنا ، اس کی خطاؤں سے در گذر کر نا ، اس کے ساتھ لطف واحسان کر نا اوراس کی بخشش کر نا ہے۔

۳۔خلیفة :

فرشتوں کی آفر نیش سے متعلق ذکر شدہ بحثوں کے ذیل میں ہم کہیں گے:

خلیفہ کی لفظ قرآن میں مفرد اور جمع دونوں صورتوں میں ذکر ہوئی ہے اور مفرد، جمع کی ضمیر کے ساتھ بھی استعمال ہوئی ہے لیکن جہاں پر مفرد ذکر ہوئی ہے اس سے مراد زمین پر اصفیاء اللہ میں سے برگزیدہ شخص ہے اور جہاں جمع یا جمع کی ضمیر کے ساتھ استعما ل ہوئی ہے وہاں اپنے سے پہلے والی قوموں کی جگہ پر زمین میں لوگوں کی جانشینی مراد ہے۔

پہلی وجہ سے متعلق:

۱۔ خدا کا فرشتوں سے خطاب :( اِنّیِ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً )

میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنا ؤں گا.

۴۴

۲۔خدا کا داؤد سے خطاب:

( یَادَائُ وْدُ اِنَّاجَعَلنَاکَ خَلیفَةً فِی الْاَرْضِ )

اے داؤد!ہم نے تمھیں زمین پرمقام خلا فت عطاکیا.اگرپہلے مورد میں مراد یہ ہو کہ خدا نوع انسان کو زمین پراپنا خلیفہ اورجانشین بنا ئے گا ۔

پھر داؤد کے لئے مقام خلا فت سے مخصوص ہو نے کا شرف باقی نہیں رہ جا تا کیونکہ وہ بھی لوگوں میں سے ایک ہیں کہ خدا نے ان سب کو تا قیام قیا مت زمین پر اپنا خلیفہ اور جا نشین بنا یا ہے.اس بنا ء پر مجبورا ً کہنا چا ہئے: اپنے فرشتوں سے خدا کے خطاب( اِنّی جَاعِل فی الاَرضِ خَلیفہ )کا مطلب تنہا حضرت آدم ہیں یا حضرت آدم اور ان کی بر گزیدہ اولا د جو لوگوں کے امام اور راہ راست کے پیشوا اور راہنما ہیں۔

دوسری وجہ سے متعلق:

۱۔جہاں سورہ ٔ اعراف کی ۶۹ ویں آیت میںحضرت ہود کی اپنی قوم سے گفتگو کی حکایت کرتے ہوئے بیان فرما تا ہے.

( ... وَاذْکُرُ وا اإِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفائَ مِنْ بَعدِ قُومِ نُوح ٍ )

یا د رکھو خدا نے تمھیں قوم نوح کے جانشینوں میں قرار دیا ہے...

۲۔ اس کے بعد، صا لح کی گفتگو اپنی قوم سے متعلق اسی سورۂ کی ۷۴ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَاِذکُرُوا اِذجَعَلَکُم خُلَفائَ مِن بَعدِ عاد ٍ )

یاد رکھو کہ تمھیں قوم عاد کے بعد جا نشین بنا یا.

کیسے ممکن ہے خدا کے دشمن جیسے عاد و ثمود کی اقوام اور ان سے پہلے نوح کی قوم نافرمانی اور خدا سے دشمنی کے سبب، خدا نے انھیں ہلاک کیا اور انکو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے، روئے زمین پر خدا کے خلفا ء اور جانشین ہوں ؟

اس لحا ظ سے جناب ہود علیہ اسلام کی اپنے قوم سے گفتگو کا مطلب جو انھوں نے کی ہے :

( جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ نُوح ٍ ) یہ ہے کہ خدا نے روئے زمین پر تم کو قوم نوح کا جانشین قرار دیا ہے اور حضرت صا لح کی اپنی قوم سے گفتگو کہ جو انھوں نے کی ہے:

۴۵

( جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ عاد ٍ ) یہ ہے کہ قوم عاد کے بعد تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دیا ہے۔

تیسری وجہ جو جمع کی ضمیر کے ساتھ ذکر ہوئی ہے وہ بھی اسی طرح سے ہے مثلاً سورہ ٔ اعراف کی ۱۲۹ ویں آیت میں حضرت یو نس کے اپنی قوم سے خطاب میں اسی طرح ذکر ہوا ہے:

( عََسَیٰ رَبَّکُمْ اَنْ یُهْلِکَ عَدُ وَّکُم وَیَسَتخِلَفکُمْ فِی الْاَرْضِ... )

امید ہے کہ خدا وند عالم تمہارے دشمنوں کو زمین سے نابود کر دے اور تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دے... مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم انھیں ان کے دشمنوں کی جگہ روئے زمین پر جانشین قرار دے گا۔

۴۔ا لاسماء :

عربی لغت میں اسم کے دو معنی ہیں:

۱۔ ایسا لفظ جو مسمیٰ پر دلالت کرتا ہے اور اسے دیگر تمام لوگوں سے ممتاز کر تا ہے مانند مکّہ جو کہ ایک شہر کا نام ہے جس میںکعبہ مشرفہ اور بیت ﷲ الحرام پایا جاتا ہے اور اشخاص کے نام جیسے یوسف، فیصل، عباس وغیرہ۔

۲۔ ایسا لفظ جو مسّمیٰ کی حقیقت یا اس کی صفت پر دلالت کرتا ہے جیسے اس آیہ شریفہ میں لفظ (اسم) (ساَبِحِ اسْمَ راَبِکَ الْاَ عْلٰی) (اے ہمارے رسول! ) اپنے خدا کے نام کی تسبیح کرو جو کہ تمام مو جودات سے بلند و با لا ہے (سورۂ اعلی آیت۱) کہ یہاں پر مراد اسم خدا کی تسبیح کرنا نہیں ہے بلکہ مراد ربّ کی صفت ہے یعنی اپنے بلند رتبہ ربّ کی ربو بیت کو پاک و منزہ قراردو ان چیزوںسے جو اس کی کبر یا ئی کے لئے زیبا نہیں ہیں۔اور اسی طرح سے یہ آیہ شریفہ ہے کہ فرماتا ہے ( وَعَلّمَ آدَمَ ا لْاَ سْمَاْئَ کُلَّھَا) (آدم کو تما م اسماء کی تعلیم دی ) اس سے یہاں پر یہ مراد نہیں ہے کہ خدا وند عالم نے اپنے خلیفہ آدم کو مراکز کے اسماء جیسے بغداد، تہرا ن اور لندن یا آدمی کے بد ن کے اعضا ء جیسے آنکھ، سر اور گردن ْیاپھلوں کے نام جیسے انجیر، زیتون اور انار، یا پتھروں جیسے یاقوت، دُر، زبرجد، یا معادن جیسے سونا، چاندی، پیتل، لوہا، وغیرہ وغیرہ کہ آدمی نے ان چیزوں کے مختلف عنوان سے نام رکھے ہیں،تعلیم دی ہو بلکہ مقصود یہ ہے کہ خدا نے اپنے خلیفہ کو اشیاء کے صفات اور ان کے حقائق سے آگاہ کیا ہے ہم نے خدا کی مرضی سے دوسری جلد میں '' (اسمائے حسنیٰ الٰہی'' ) کی بحث میںاسی سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

۴۶

۵۔نسبّح بحمدک:

سَبحّ یعنی منزہ خیال کیا اور سبحان اللہ یعنی خدا پاک اور منزہ ہے.

۶۔نقدّس:

قدّس اللّٰہ تقد یسا ً، یعنی خدا کی شا ئستہ ترین انداز سے تقدیس کی.اور اس کی حمد و ثنا کی اور اسے عظیم اور با عظمت جانا اور اسے تمام ان چیزوں سے جو اس کی ذات اور مقام کے لئے مناسب اور شائستہ نہیں ہے اور مسند الوہیت کے لئے زیبا نہیں ہے، پاک و منزہ جانا۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ اسلام کی توبہ قبول کی اور اُن کا انتخاب کیا اور اپنی وحی کے لئے چنا ٹھیک اسی طرح جس طرح دیگر پیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت کے لئے چنا ہے۔

ابن سعد کی طبقات اور احمد ابن حنبل کی مسند میں اسی طرح ذکر کیا گیاہے اور ہم یہاںپر صرف ابن سعد کی طبقات سے عبارت نقل کرتے ہیں:

لوگوں نے حضرت آدم کے سلسلہ میںحضرت رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ آیا حضرت آدم نبی تھے یا فرشتہ؟

تو رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا:

وہ نبی مکلَّم تھے یعنی ایسے شخص تھے جن سے خدا نے وحی کے ذریعہ گفتگو کی ہے۔

حضرت ابوذر سے مروی ہے کہ آپ نے کہا میں نے رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا۔سب سے پہلے نبی کو ن تھے ؟

۴۷

فرمایا:آدم ۔

میں نے سوال کیا : کیا آدم نبی تھے؟

جواب دیا : ہاں ،نبی مکلّم تھے۔

میں نے پو چھا رسولوں کی تعداد کتنے افراد پر مشتمل تھی؟

جواب دیا: ان کی مجمو عی تعداد تین سو پندرہ (۳۱۵)افراد پر مشتمل( ۱ ) ہے۔

منجملہ وہ امور جو ان کی شریعت میں ذکر ہوئے ہیں، حج ،خانہ کعبہ کے ارد گرد طواف اور جمعہ کی نماز تھی۔

ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے:

رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما یا: جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور خدا کے نز دیک ان میں

____________________

(۱) طبقات ابن سعد ،طبع بیروت، سال : ۱۳۷۶، ج۱، ص ۳۲و ۳۴، طبع یورپ ، ص ۱۰ و۱۲ اور مسند احمد، ج ۵، ص ۱۷۸، ۱۷۹، ۲۶۵، ۲۶۶ اور تاریخ طبری طبع یورپ، ج۱، ص ۱۵۲ اور دوسری حدیثیں دوسرے مصادر میں مختلف الفاظ کے ساتھ

۴۸

سب سے عظیم دن ہے، کیو نکہ، خدا نے اُس دن حضرت آدم ـکو پیدا کیا اور اسی دن آدم کو زمین پر بھیجا اور اسی دن آدم ـ کو دنیا سے اٹھا یا ۔( ۱ )

حضرت آدم ایسے پیغمبر تھے کہ خدا وند سبحا ن نے انھیں کتاب اور حکمت عطا کی تھی تاکہ اپنے زمانے کے لوگوں کو کہ ان کے زمانے میں ان کی بیوی اور بچے تھے ہدایت کریں۔ وہ اولوالعزم پیغمبروں میں نہیں تھے یعنی بشیر(بشارت دینے وا لے) اور نذ یر(ڈرانے والے) نہیں تھے۔

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ حضرت آدم کو عراق کی سر زمین پر جہاں انھوں نے وفات پا ئی ہے دفن کیا گیا ہے۔

حضرت آدم نے اپنی حیات میں اپنے فرزند(شیث) سے وصیت کی اور انھیں اپنی شریعت کی حفا ظت اور اس کی تبلیغ کی تاکید کی.خدا کی توفیق سے انشاء اللہ آیندہ فصل میںاس موضوع کے حالات کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)طبقات ابن سعد ،طبع بیروت ، ج۱،ص ۳۰ ، طبع یورپ ، ج۱ ، ص ۸.

۴۹

( ۳ )

حضرت آدم ـکے بعد اوصیاء سیرت کی کتابوں میں :

* مقدمہ

* شیث ہبة اللہ

* شیث کے فرزند انوش

* انوش کے فرزند قینان

* قینان کے فرزند مہلائیل

* مہلائیل کے فرزند یرد

* یرد کے فرزنداخنوخ(ادریس)

* اخنوخ (ادریس) کے فرزند متوشلح

* متوشلح کے فرزند لمک

مقدمہ

ابن سعد کی طبقات اور تاریخ طبری اور دیگر مآخذ میں اختصار کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے فر مایا:

حوا سے آدم علیہ اسلام کے بیٹے ہبة اللہ پیدا ہوئے جنھیں عبری زبان میں(شیث)کہا جا تا ہے اور حضرت آدم نے انھیں اپنا وصی قرار دیا .شیث انوش نامی فرزند کے باپ ہوئے اور جب شیث بیمار ہوئے تو انوش کو اپنا وصی اور جا نشین بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے۔

انوش کے فرزند قینان اپنے باپ کے وصی ہوئے۔

قینان کے فرزند مہلائیل اپنے باپ کے وصی ہوئے۔

مہلائیل کے فرزند''یردیا الیارد'' ان کے وصی ہوئے۔

۵۰

اخنوخ کہ وہی ادریس پیغمبر ہیں یرد کے فرزند اور ان کے وصی ہیں۔( ۱ )

متوشلح کے فرزند لمک ان کے وصی ہوئے۔

یہ سارے مطا لب ابن سعد اور طبری کی اس روایت کا خلا صہ ہیں جو ابن عباس سے حضرت آدم کے اوصیاء کے اخبار سے متعلق مروی ہے۔

ان کے اخبار کا فی بسط وتفصیل سے تاریخ یعقوبی متو فی۲۸۴ھ اور مسعودی متوفی ٰ ۲۴۶ھ اور سبط ابن جوزی متوفی ٰ ۶۵۴ ھ میں مذکور ہیں انشاء اللہ اس کی تفصیل بیان کی جائے گی ۔

____________________

( ۱)۔ مذکورہ اخبار کا پتہ لگا نے کے لئے ملاحظہ فرمائیں ابن سعد کی طبقات،طبع یورپ،ج۱،ص ۱۴۔۱۷؛تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱، ص ۱۵۳، ۱۶۵، ۱۶۶؛ شیث سے جناب آدم کی وصیت کی خبر : تاریخ ابن اثیر میں، ج، ۱،ص ۱۹۔۲۰ اور ج۱، ص ۴۰۔ ۴۸ اور تاریخ ابن کیثر، ج۱، ص ۹۸؛ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۱ ، اُس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اخنوخ وہی ادریس پیغمبر ہیں.

۵۱

شیث ہبة اللہ سیرت کی کتابوں میں

* شیث ـ کی ولادت

* حضرت شیث ـسے حضرت آدم ـ کی وصیت

* ان کا حکم اور خانہ خدا کا حج

* ان کا اپنے فرزند انوش ـسے وصیت کرنا

حضرت شیث ـکی ولا دت

مسعودی نے مروج الذ ھب میں تحریر فر مایا ہے:

جب جناب حو ّ ا کے بطن میں شیث قرار پا ئے تو ان کی پیشا نی سے نورچمکنے لگا. اور جب شیث پیدا ہوگئے تو وہ نورشیث میں منتقل ہو گیا اور جب شیث بالغ ہوئے اور ایک کا مل اور پختہ جوان ہوگئے تو حضرت آدم نے انھیں اپنا جا نشین قرار دیا اور اپنی وصیت ان کے درمیان رکھی اور انھیں آگاہ کیا کہ وہ آدم کے بعد خدا کی حجت اور روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں.انھیں چاہئے کہ اپنے جا نشینوں تک حق کو پہنچا ئیں اور وہ دوسرے وہ شخص ہیں کہ خاتم ا لا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور جن میںمنتقل ہوا ہے ۔( ۱ )

حضرت آدم ـ کی وصیت حضرت شیث سے

اخبار الزمان میں مذکور ہے:

جب خدا وند عالم نے حضرت آدم کی موت کا ارادہ کیا تو انھیں حکم دیا کہ اپنی وصیت اپنے فرزندشیث کے حوالے کر دیں اور تمام وہ علوم و دانش جو انھیں تعلیم دیئے گئے تھے انھیں تعلیم دے دیں، تو آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

تا ریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

جب حضرت آدم کی موت کا وقت قر یب آیا تو حضرت شیث اپنے فرزند اور پوتوں کے ہمراہ ان کی خدمت میں پہو نچے حضرت آدم نے اُن پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا وند عالم سے بر کت کی درخواست

____________________

(۱)مسعودی کی مروج الذھب کی ج۱،ص ۴۷،۴۸ میں شیث کے حالا ت زندگی کا خلاصہ.(۲)مسعودی کی اخبار الزمان کا خلا صہ،طبع دار الاندلس بیروت ۱۹۷۸ ئ، سبط ابن جوزی نے بھی بعض اخبار وصیت کوشیث کے حالات زندگی کے ضمن میں مرآة الزمان نامی کتاب،طبع دار الشروق بیروت ۱۴۰۵ ھ ص ۲۲۳ پر ذکر کیا ہے.

۵۲

کی ، پھر اُس کے بعد اپنی وصیت شیث کے حوالے کی اور انھیں حکم دیا کہ ان کے جسد کی حفا ظت کریںاور ان کے مر نے کے بعد غار گنج میں رکھد یںاور پھر اس کے بعد اپنی رحلت کے وقت اپنے فرزند او رپو توں کو یکے بعد دیگرے وصیت کریں اور موت کے وقت ہر شخص دوسرے کو اپنا وصی و جا نشین بنائے؛ اور جب اپنی سرزمین سے نیچے آجائیں تو ان کے جسد کو لے کر زمین کے وسط(درمیان) میں رکھ دیں. پھر شیث کو حکم دیا کہ ان کے بعد ان کے فرزندوں میں ان کا قائم مقام رہتے ہوئے، انھیں تقوای الٰہی اور اس کی عبادت وپرستش کا حکم دیں اور انھیں قابیلیوں کے ساتھ مخلوط ہو نے سے روکیں، پھر اس کے بعد حضرت آدم نے ان تمام پر درود بھیجا اور آپ کی آنکھ بند ہوگئی اور جمعہ کے دن دنیا سے رحلت کر گئے۔( ۱ )

ان کا فیصلہ اور خا نۂ خدا کا حج

الف۔ تا ریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

شیثاپنے باپ حضرت آدم کی موت کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور لوگوں کو تقوائے الٰہی اور نیک کاموں کا حکم دیا۔( ۲ )

اخبار الزمان میں ذ کر ہے کہ: خدا وند عالم نے حکم دیاکہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں اور حج وعمرہ بجالائیں شیث سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے عمرہ کیا ہے۔( ۳ )

ب۔مرآة الزمان کتاب میں مذکور ہے :

جب حضرت آدم دنیا سے رخصت ہوگئے، شیث مکّہ تشر یف لائے اور حج و عمرہ انجام دیااور خانہ کعبہ کی فرسودگی اور پرانے ہو نے کے بعد اس کی نئے سر ے سے تعمیر کی اور اسے پتھر اور مٹی سے تعمیر کر کے زمین کی آبادی و عمران کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے باپ کے مانند مفسدوں پر حدود الٰہی کا اجراء کیا ۔( ۴ )

ج۔ مروج الذھب نامی کتاب میں مذکور ہے :

جب حضرت آدم نے شیث سے وصیت کی تو شیث نے اس کے مضمون کو ذہن میں رکھ لیااور لوگوں کے درمیان حکو مت اور فرمانر وائی کر نے لگے اور باپ کے قوا نین کا اجراء کیا پھر اس کے بعد ان کی بیوی

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی، طبع بیروت، ج۱،ص۷.(۲)تاریخ یعقوبی،ج۱، ص۸.(۳)اخبار الزمان ،ص۷۶.(۴)مرآة الزمان، ص ۲۲۳.

۵۳

حاملہ ہوئیں اور انوش کو جنم دیا یہی وقت تھا کہ شیث کی پیشانی میں موجود درخشاں نور انوش میں منتقل ہوگیا. یہ انتقال ان کی ولادت کے وقت عمل میں آیا. جب انوش بالغ ہوئے اور کمال کی منزل کو پہونچے تو شیث نے حضرت آدم کی امانت ان کے حوالے کی اور انھیں اس وصیت کی کرامت، عظمت، شرافت اور مرتبہ سے آگا ہ کیا اور انھیں وصیت کی کہ( وہ بھی) اپنے فرزند کو اس شرف وکرامت کی حقیقت سے آگا ہ کریں اور وہ اپنے فر زندوں کو بھی اس امر سے آگاہ کریں اور اس وصیت کے امر کو جب تک نسلوں کا سلسلہ قائم ہے یکے بعد دیگرے آپس میں منتقل کرتے رہیں۔( ۱ )

وصیت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور ایک صدی سے دوسری صدی تک منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ خداوند عالم نے نور تاباں کو جناب عبد المطلب اور اُن سے اُن کے فرزند عبد اللہ رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد تک پہنچا یا اور ہم انشاء اللہ ان میں سے بعض اخبار کو اجداد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخبار کے ضمن میں ذکر کریں گے۔

شیث کی اپنے فرزند انوش سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

جب شیث کی موت کا زمانہ آیا تو ان کے فرزندوں اور پوتوں نے کہ جن میں انوش، قینان، مہلائیل، یرد،اخنوخ اور ان کی عورتیں اور بچے شامل تھے، ان کے بستر کے پاس سب جمع ہوگئے شیث نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت طلب کی اور تمام چیزوں سے پہلے اس بات کی وصیت کی کہ قا بیل ملعون کی اولاد کے قریب نہ جائیں اور ان سے رفت وآمد نہ رکھیں، پھر اس وقت اپنے بیٹے انوش سے وصیت کی اور انھیں حکم دیا کہ حضرت آدم کے جسدکو اسی طرح محفوظ رکھیں.اور یہ کہ تقوائے الٰہی اختیار کریں اور اپنی قوم کوبھی تقوائے الٰہی اور نیکی کا حکم دیں؛ پھر اس کے بعد آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۲ )

____________________

(۱) مروج الذھب، مسعودی،۱۔۴۸.(۲) تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص ۸۔۹.

۵۴

حضرت شیث ـ کے فرزند انوش ـ

* انوش ـکی ولادت اور ان سے شیث ـکی وصیتاور خا تم ا لا نبیاء صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کا ان میں منتقل ہو نا

* انوش ـ سب سے پہلے شخص جنھوں نے درخت لگا یا اور زراعت کی.

* انوش ـ کی اپنے فرزند قینان سے وصیت اور حضرت آدم ـ کے صحیفوں کی انھیں تعلیم

* انوش ـ کی وفات

۵۵

انوش کی ولادت اور ان سے شیث کی وصیت اورخا تم ا لا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا ان میں منتقل ہو نا ۔

مرآة الزمان میں مذ کور ہے:

انوش حضرت آدم کی حیات ہی میں پیدا ہو چکے تھے. جب حضرت شیث نے اپنی موت کو قر یب پا یا تو اپنے فر زند انوش کو اپنا وصی قرار دیااور انھیں اس نور سے جو ولادت کے وقت اُن میں منتقل ہوا تھا (یعنی حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور کہ ان کی نسل سے دنیا میں آئیں گے) آگاہ کیااور انھیں حکم دیا کہ اپنی اولاد کو اس افتخار و شرف سے کہ ایک بزرگ سے دوسرے بزرگ اور ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو گا آگاہ کریں۔

انوش نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے فرا مین کی انجام دہی میں س بہترین طریقہ اپنایا اور رعا یا کے امور کی تد بیر اور قوانین الٰہی کے اجراء کے لئے اپنے باپ کے زمانے کی طرح قیام کیا وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے خرمے کا درخت لگا یا اور زمین میں دانہ ڈ الا۔(۱ )

سب سے پہلا شخص جس نے درخت لگا یا اورکھیتی کی

مر وج الذ ھب میں مذکور ہے :

انوش نے زمین کو آباد کرنے اور اُسے قا بل زارعت بنا نے کے لئے اقدام کیا.اس کے بعدان کے فرزند قینان پیدا ہوئے، تا بندہ نور قینان کی پیشانی پر درخشندہ ہوا.انوش نے اس نور کے بارے میں قینان سے عہد وپیمان لیا( ۲ ) ( یعنی ان سے عہد و پیمان لیا کہ پیغمبر ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے حاملین کو جو کہ انھیں کے فرزند وںمیں سے ہو گے اس نور کے وجود اور اس کی بر کت سے آگاہ کریں گے۔

____________________

(۱)مرآة الزمان، ص ۲۲۳.(۲) مروج الذھب، مسعودی،ج۱،ص۴۹.

۵۶

انوش کی اپنے فرزند قینان کو وصیت اور انھیں حضرت آدم ـکے صحیفوں کی تعلیم دینا

اخبار الزمان میں مذکور ہے:

انوش حضرت شیث کے فرزند تھے جو کہ ان کے سب سے پہلے فرزند شمار کئے جاتے ہیں اور اپنے باپ کے وصی تھے.انوش نے بھی اپنی رحلت کے وقت اپنے بیٹے قینان کو اپنا وصی بنایا اور (حضرت آدم کے) صحیفوں کی تعلیم دی۔( ۱ )

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

شیث کے فرزند انوش نے اپنے باپ اور دادا کی وصیت کی حفا ظت اور نگہد اشت کی اور انھوں نے باحسن الوجوہ خدا کی بند گی اور عبادت کی اور اپنی قوم کو بھی حکم دیا کہ خدا کی احسن طریقہ سے عبادت وپرستش کریں۔( ۲ )

انوش کی وفات

تاریخ طبری میں مذ کور ہے :

انوش اپنے با پ کے بعد ملکی نظام کو چلانے اور رعا یا کے نظم و تد بیر میں مشغول ہوگئے.( ۳ )

جب رحلت کا وقت قریب آیا تو اپنے فر زندوں اور فرزندوں کے فرزندوں ( پو توں ) مہلائیل، یرد، اخنوخ (ادریس)متوشلح اور ان کی عورتوں اور ان کے فرزندوں کو بلا یا.اور جب سب حا ضر ہوگئے توسب پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت کی درخواست کی؛اور اس بات سے منع فر مایا کہ ان کے فرزندوں میں سے کو ئی بھی قا بیل ملعون کی اولاد سے معا شرت اور رفت وآمد کرے، پھر اس وقت قینان کو اپنا وصی نامزد کیا اور انھیں حضر ت آدمکے جسد کی حفا ظت کی وصیت کی اور سب کو حکم دیا کہ ان کی خد مت میں خدا کی نما ز پڑھیں اور اس کی بکثرت تقدیس کریں .پھر اس وقت آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۴ )

____________________

(۱) اخبار الزمان ص۲۲۳۔ ۲۲۴ .(۲)تاریخ یعقوبی ، طبع بیروت، ج ۱ ،ص۸.(۳) تاریخ طبری ، طبع یورپ،ج ۱ ،ص ۱۶۵

(۴) تاریخ یعقوبی ،ج ۱ ، ص۸۔۹.

۵۷

انوش کے فرزند قینان

* قینان کا عرصہ وجود پر قدم رکھنا اور ان کی پیشا نی میں خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا درخشاں ہو نا

* انوش نے قینان کو حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم دیتے ہوئے حکم دیا کہ نما ز قا ئم کریں اور تمام احکام کا اجراء کریں

* قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

حضرت قینان کا عرصہ وجود پر قدم رکھنا اور ان کی پیشانی میں حضرت خاتم الا نبیا ء کے نو ر کا درخشاں ہو نا.

الف۔ مروج الذھب میں ذ کر کیا گیا ہے:

انوش کے فرزند قینان پیدا ہوئے جب کہ وہ نورِمعہود ( خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور )ان کی پیشا نی میں ضوبارتھاانوش نے قینان کے پیدا ہو جا نے کے بعد ان کی جا نشینی اور وصا یت کے بارے میںدوسروں سے عہد وپیمان لیا.( ۱ )

ب ۔مرآة الزمان نا می کتاب میں مذ کور ہے:

جب حضرت انوش کی موت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے فر زندقینان سے وصیت کی اور وہ معہود نور قینان میں منتقل ہو گیا۔

انوش نے قینان کو اس راز کی حقیقت سے جو انھیں سپرد کیا گیا تھا آگاہ کیا پھر انوش کے انتقال کے بعد قینان نے باپ کی روش اپنا ئی۔( ۲ )

مؤ لف فرماتے ہیں: سرسے مراد، وہی حضرت خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ہے کہ جو پے در پے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہااورہم ا نشاء اللہ اس عہد کے معنی کی خدا کی مر ضی سے انھیں مطا لب کے ذیل میں تحقیق کریں گے.

____________________

(۱) مروج الذ ھب، ج ۱، ص ۴۹.(۲)مرآة الز مان، ص ۲۲۴.

۵۸

انوش نے صحیفوں کی قینان کو تعلیم دی اور انھیں نماز قائم کر نے اور دیگر احکام کا حکم دیا

اخبار الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:

انوش نے اپنے فرزند قینان کو اپنا وصی مقر ر کیا وہ اس سے پہلے حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم انھیں

دے چکے تھے اور زمین کے ٹکروں اور اس بات کو کہ کون کو ن سی چیز ان کے اندر ہے ان کے لئے بیان کیا۔

انھوں نے قینان کو حکم دیا کہ نما ز قا ئم کریں زکاة دیں، حج بجا لائیں اور قا بیل کی اولاد سے جنگ کریں قینان نے حکم کی تعمیل کی اور باپ کے دستورات کا اجراء کیا۔( ۱ )

قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے :

قینان ایک خلیق ،ملنسا ر اہل تقویٰ اور پر ہیز گار انسا ن تھے اپنے باپ کے بعد وظا ئف کے انجام دینے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی قوم کو خدا کی اطا عت و فرما نبرداری اور اس کی بنحو احسن عبادت کر نے اور حضرت آدم اور حضرت شیث کی وصیتوں کی پیروی کا حکم دیا.اور جب قینان کی موت کا وقت قریب آیا تو ان کے فر زند اور فر زندوں کے فرزند '' پو تے ''یعنی مہلائیل، یرد ، متوشلح،لمک ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کے پا س جمع ہوگئے. قینان نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے بر کت کی دعا کی پھر اس وقت مہلائیل سے وصیت کی اور انھیں حضرت آدم کے جسد کی حفا ظت اور نگہداشت کا حکم دیا۔( ۲ )

____________________

(۱)اخبار الزمان،ص۷۷.(۲ )تاریخ یعقوبی ۔ج۱،ص ۹.

۵۹

قینان کے فرزند مہلائیل

* مہلائیل اپنی قوم کو خدا کی اطا عت و فر مانبرداری کا حکم دیتے ہیں.

* مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے درخت کاٹا، شہروںاور مسا جد کی بنا ڈالی اور معدنیات کے نکالنے میں مشغو ل ہوئے.

* مہلائیل اپنے فر زند یر د کو وصیت کرتے ہیں اور حضرت آدم کے صحیفوں کی انھیںتعلیم دیتے ہیں.

* مہلائیل اپنی قوم کو اپنے فرزند یرد کے اندر حضرت خاتم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کے منتقل ہونے کی خبر دیتے ہیں.

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352