اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 352
مشاہدے: 110486
ڈاؤنلوڈ: 2228


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110486 / ڈاؤنلوڈ: 2228
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد 3

مؤلف:
اردو

اسی طرح انھوں نے شہر ارم کو قوم عاد سے متعارف کر ایا ہے ، یہ بات خدا وند عالم کی سورہ ٔفجر کی چھٹی تا نویں آیات سے مطابقت رکھتی ہے:

( اَلَمَ تَرَکَیفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ٭اِرَمَ ذَاتِ الْعِمادِ٭ الَّتِی لَمْ یُخلَق مِثْلُهَا فِیْ البِلادِ٭ وَ ثَمُودَ الَّذِینَ جَابوُاالصَّخْرَ بِا لْوٰادِ )

(اے ہمارے رسول!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟!. شہر ارم میں جو کہ بلند وبالا اور عالی شان محلوں والا تھا ؟ !

ایسا شہر کہ جس کا مثل دوسرے شہروں میںنہیں پیدا ہوا. اور قوم ثمود کے ساتھ جو وادی میں پتھروں کو کاٹ کر اپنے لئے پتھروں سے قصر تعمیر کرتے تھے؟!

اس طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کا شعر قرآن کر یم میں مذکور پیغمبروں اور ہلاک شدہ امتوں کی خبروں سے مطابقت رکھتا ہے۔

وہ جہاں پر اپنے اجداد کی توصیف کر تے ہیں اور انھیں اللہ کے نبیوں کی ردیف میں ، پسندیدہ اخلاق ، جیسے صلہ رحم اور عہد کے وفا کر نے والی صفت سے متصف ہو نے کی بناء پر، قرار دیتے ہیں، وہیں ان کی بات کی سچائی ان کے اجداد کی سیرت کے بارے میں ثابت ہوجاتی ہے، جو کہ گزشتہ فصلوں میں مفصل طور پر بیان کی گئی ہے۔

اور آپ کی یہ بات کہ: وہ لوگ حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہی آج تک آل اللہ اور خدا پرست ہیں اور خدا وند عالم ہمیشہ ان کے ذریعہ(یعنی جن لوگوں کو وہ آل اللہ اور حجت خدا کے عنوان سے متعارف کر تے ہیں) برائی اور ناگوار چیزوں کو دور کر تا ہے، یہ ایک ایسا مطلب ہے جو صحیح اور درست ہے .کیوکہ ان کے خدا پرست ہو نے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہیں کر تے اور ہم ان کی بات کی صداقت کو اس بات سے درک کر تے ہیں کہ پیغمبر کے آباء واجداد میں حضرت اسمٰعیل تک کسی کو ایسا نہیں پایا کہ بُت کو سجدہ کیا ہویا بُت کے لئے قربانی کی ہو،یا بت کے نام پر حج کا تلبیہ کہاہو یا بت کی قسم کھا ئی ہو یا بت کی کسی بیت یا کسی شعر میں مدح وستائش کی ہو،بلکہ ان تمام موارد میں بر عکس دیکھا ہے کہ انھوں نے خدا کا سجدہ کیا ہے اور خدا سے تقرب حاصل کر نے کے لئے قربانی کی ہے اور خداوند عالم کی قسم کھائی اور اُ س کی تعریف وتوصیف کی ہے.اس لحاظ سے حضرت عبد المطلب کی بات کا صادق ہو نا روشن وآشکار ہے۔

۲۴۱

رہی ان کی یہ بات کہ ان کے درمیان ہمیشہ خدا کی کوئی حجت رہی ہے، تو اس کے متعلق یا یہ کہیں کہ پروردگار عالم نے اپنے گھر کے ساکنوں کو مکّہ میں کہ جسے ام القری کہتے ہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے یعنی اس ام القریٰ اور اس کے اطراف میں رہنے والے اور وہ لوگ جو حج ادا کر نے کے لئے اس کے محترم گھر کی طرف آتے ہیں پانچ سو سال سے زیادہ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور کسی ایسے شخص کو جس کے پاس شریعت اسلام وہ لوگ حاصل کر سکیں ان کے درمیان قرار نہیں دیا ہے کہ اس بات کا غلط ہو نا واضح اور آشکا ر ہے؛اور ہم نے اس کتاب کی ربوبیت کی بحث میں تشریح کی ہے کہ پروردگار عالم اس طرح کی چیزوں سے منزہ اور مبرا ہے۔

یا یہ کہیں کہ:

پروردگار عالم نے مسلسل نسلوں کو پانچ سو سال سے زیادہ ام القریٰ اور اس کے اطراف میں ان کے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور اُن کے درمیان ایسے افراد کو قرار دیا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی دینی احکام سیکھنا چاہے تو وہ سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو؛ اس آیۂ شریفہ کے مصداق کے مطابق کہ خدا فرماتا ہے:

( وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوافِینَالَنَهْدِ یَنَّهُمْ سُبُلَنَا )

''اور وہ لوگ جو کہ ہماری راہ میں سعی و تلاش کرتے ہیں،ہم خود ہی انھیں اپنی راہ کی راہنمائی کرتے ہیں ''۔

اس بناء پر خدا وند عالم نے انھیں افراد کے درمیان ایسے لوگوں کو قرار دیا ہے کہ جو اُسی نسل کے سارے افراد پر حجت تمام کرتے ہیں. ایسی صورت میں دین خدا کی طرف ہدایت کر نے والا جناب عبد المطلب اور آپ کے آباء و اجداد کے علاوہ حضرت ابراہیم تک کون ہوسکتا ہے؟ پروردگار عالم کی قسم کہ خدا وند متعال نے ان کے درمیان ذریت حضرت ابراہیم سے حجتیں قرار دیں اور ان پر حجت تمام کی ہے اور ان کے ذریعہ بُرائی اور عذاب کو ان سے دور کیا ہے.اور جناب عبدالمطلب نے سچ کہا ہے کہ:

نحنُ آل الله فی ما قد مضیٰ

لم یزل ذاک علی عهد ابرهم

لم تزل الله فینا حجة

ید فع الله بها عنّا النقم

۲۴۲

جناب عبد المطلب کے شاعرانہ اسلوب میں بالخصوص مذکورہ با لا ابیات میں کہ آپ نے اپنے شکست خوردہ دشمن (ابرھہ اور اس کے سپا ہی) پر فخر ومباہات کے موقع پر کہا ہے اور جن فضائل و مناقب کو شمار کیا ہے گزشتہ اور موجودہ عرب کی شاعرانہ روش سے واضح اور آشکار فرق پا یا جا تا ہے ۔

کیونکہ آپ نے اپنے باپ ہاشم کے وجود ذی جود پر افتخار نہیں کیا ایسا سخی اور جواد باپ جس نے خشک سالی کے زما نے میں مکّہ والوں کو کھانا کھلانے کا بندو بست کیا اور اونٹوں پر تجا رتی اجناس بار کر نے کے بجائے مکّہ والوں کے لئے شام سے غذا لائے اور. پھر انھیں اونٹوں کو جن پر لوگوں کے لئے غذا لا د کر لائے تھے ،نحر کیا اور گرسنہ ( بھوکے) لوگوں کو سیر کیا. یہ ایسا کار نامہ انجام دیا ہے کہ اُن سے پہلے نہ کسی عرب نے ایسا کیا اور نہ ہی حاتم طائی نے اور نہ ہی ان سے پہلے یا بعد میں کسی اورنے انجام دیا اور نہ ہم نے گزشتہ امتوں کی داستان میں کو ئی ایسا کا رنامہ ملاحظہ کیا ہے. اور اپنے باپ کے اقدام کو جو کہ اعتفاد کی رسم کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ کو ئی گھرا نہ مجبوری اور گرسنگی(بھوک) کے زیر اثر موت سے دوچار نہ ہو اپنے لئے فخر شمار نہیں کر تے اور اس وقت عرب کو تجارت کے آداب سکھا نے اور اجناس کو آباد سرزمینوں میں لے جانے کو اپنی فوقیت و بر تری کا معیار نہیں سمجھتے۔

جناب عبد المطلب نے ان تمام فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو اپنے لئے افتخار کا باعث نہیں سمجھا،جب کہ تمام لوگوں کے درمیان مذکورہ بالا فضائل صرف اور صرف ان کے باپ ھا شم سے مخصوص تھے.اس طرح کے امور میں جو کہ خدمت خلق کا پتہ دیتے ہیں خود پر فخر ومباہات نہ کر نا اللہ کے نبیوں اور اس کی حجتوں کے واضح اورنمایا صفا ت میں سے ہے.یعنی یہ لوگ لوگوں کے ساتھ جود و بخشش کر کے اور معاشی امور میں ان کی خد مت کرکے لوگوں پر احسان نہیں جتاتے بلکہ صرف لوگوں کو اس منصب سے جو خدا نے اُن سے مخصوص کیا ہے اور لوگوں کو ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ہے آگاہ کرتے ہیں.یہ کام جناب عبد المطلب نے اپنے اشعار میں انجام دیا ہے جس میں فرماتے ہیںکہ ''ہم قدیم زمانے سے ہی آل اللہ تھے...''۔

۲۴۳

جناب عبد المطلب اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت

انساب الاشراف میں ختمی مرتبت حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولا دت سے متعلق اختصار کے ساتھ یوں ذکر کیا گیا ہے:

جب آمنہ کے بطنِ مبارک میں حضرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور استقرا ر پایا تو خواب میں کوئی ان کے دیدار کو آیا اور اُس نے کہا:

اے آمنہ! تم اس امت کے سید وسردار کی حامل ہو، جب تمہارا بچہ پیدا ہو جا ئے تو کہو:(اُعیذُک بالواحِد مِن شرِّ کُلِّ حاسدِ)۔

یعنی ''تمھیں ہر حاسد کے شر سے خدا وند واحد کی پناہ میں دیتی ہوں'' اور اس کا نام احمد رکھو؛اور ایک روایت کے مطابق محمد رکھو. جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت ہو گئی تو آمنہ نے جناب عبد المطلب کو پیغام بھیجا کہ آپ کے لئے ایک بچہ پیدا ہوا ہے.جناب عبد المطلب شاد و خرم اٹھے اور گھر آئے (اس حال میں کہ ان کی اولا د اُن کے ہمراہ تھی) اور انہوں نے اپنی نگاہیں نو مولود فرزند کی طرف جمائیں، آمنہ نے اپنے خواب کو اُن سے بیان کیا اور یہ کہ اُن کے حمل کی مدت سہل اور آسان رہی ہے اور ولادت آسانی سے ہو گئی ہے، جناب عبد المطلب نے بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر کعبہ میں داخل ہوگئے اور یہ اشعار پڑھے:

اَلْحَمدُ لِلّٰه الَّذِیْ اَعطَانِی

هَٰذا الْغُلاْمَ الطَیِّبَ ا لَاردانِ

اُعیذه با لبیتِ ذی الارکان

من کل ذی بغی و ذی شنآنِ

و حاسدٍ مضطرب العنان

تمام تعر یف اس خدا کی ہے جس نے ہمیں یہ پاک و پاکیزہ اور مبارک و نورانی بچہ عنایت کیا ہے. میں اسے خداوند عالم کے گھر کی پناہ میںدیتا ہوں تاکہ ظالموں،بد خواہوں اور بے لگام حاسدوں کے شر سے محفوظ رہے۔

۲۴۴

تاریخ ابن عساکر اور ابن کثیر میں کچھ ابیات کا اضافہ کیا ہے کہ جو ان کے آخر میں ذکر ہوئے ہیں!

مندرجہ ذیل اشعار جو آخر میں اضافہ کے ساتھ مذکور ہیں :

انت الذی سُمِّیت فی الفرقان

فی کتب ثابتة المبان

احمد مکتوب علی اللسان( ۱ )

''تو وہی ہے جس کا نام فرقان اور محکم غیر تحریف شدہ کتابوں میں اور زبانوں پر'' احمد'' ہے ۔

ان اشعار میں جناب عبد المطلب خبر دیتے ہیں کہ آسمانی کتابوں میں ان کے پو تے کا نام احمد ہے۔

طبقات ابن سعد میں اختصار کے ساتھ اس طرح مذکور ہے:

____________________

(۱) انساب الاشراف، ج۱، ص ۸۰۔۸۱ کلمات میں اختلاف کے ساتھ؛طبقات ابن سعد، ج۱، ص ۱۰۳؛ تاریخ ابن عساکر،ج۱ ص ۶۹؛ ابن کثیر، ج۲، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵؛ اسی طرح دلا ئل بیھقی، ج۱، ص۵۱ بھی ملاحظہ کیجئے.

۲۴۵

حلیمہ:حضرت پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلا نے والی دا یہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کے بارے میں خوفزدہ ہوئیں اسی وجہ سے کہ انھیں پانچ سال کے سن میں مکّہ واپس لے آئیں تا کہ ان کی ماں کے حوالے کر دیں،لیکن لوگوں کی بھیڑ کے درمیان انھیں گُم کر گئیں اور جتنا بھی تلا ش کیا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور آپ نہ ملے۔ لہٰذا حضرت عبد المطلب کی خدمت میں دوڑی ہوئی آئیں اور واقعہ سے انھیں آگاہ کیا.جناب عبد المطلب کی جستجو بھی فرزند کے حصول میں نتیجہ خیز نہ ہوئی نا چا ر وہ کعبہ کی طرف رخ کر کے کہنے لگے۔

لاهُمّ أَدِّ راکبی محمّدا ----أدِّ هْ الیَّ وَاصطنع عندی یدا

انت الذی جعلتَهُ لی عضدا -----لا یبعد الدَّهرُ به فیبعدا

انت الَّذی سمَّیتَهُ مُحمّداً( ۱ )

(خدا یا! ہمارے شہسوار محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو واپس کر دے ،اُسے لو ٹا دے اور اسے میرا ناصر و مدد گار قراردے.تو نے ہی اُس کو میرا بازو قرار دیا ہے، زمانہ کبھی اس کو مجھ سے دور نہ کرے، تو نے ہی اس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھا ہے)۔

یہاں بھی جناب عبد المطلب تصریح کر تے ہیں کہ یہ خدا ہے جس نے اُن کے پو تے کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھا ہے۔

مروج الذھب نامی کتاب میں مذکور ہے:

جناب عبد المطلب اپنے فرزندوں کو صلۂ رحم اور کھانا کھلا نے کی وصیت اور انھیں تشو یق کرتے تھے اورڈرایا کرتے تھے تا کہ ان لوگوں کی طرح جو معاد،بعثت اور حشر و نشر کے معتقد ہیں، عمل کریں۔

انھوں نے سقایت (سقائی) اور رفادت کی ذمہّ داری اپنے فرزند''عبد مناف'' یعنی''جناب ابوطالب'' کودی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق وصیت بھی انھیں سے کی( ۲ )

سیرۂ حلبیہ و نبویہ نامی کتابوں میں مذکور ہے:جاہلیت کے زمانے میں جناب عبد المطلب اُن لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر دی تھی وہ مستجاب الداعوت انسان تھے (یعنی ان کی دعائیں بارگاہ خدا وندی میں مقبول ہوتی تھیں) انھیں ان کی جود وبخشش کی وجہ سے '' فیاض'' کہتے تھے اور چونکہ پر ندوں کے لئے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھا نے کا انتظام کرتے تھے انھیں لوگوں نے ''مطعم طیر السمائ'' (آسمان کے پرندوں کوغذا دینے والے کا) لقب دے رکھا تھا۔

____________________

(۱)طبقات ابن سعد، طبع یورپ، ج۱، ص ۷۰۔ ۷۱ ، خبر میں اور لفظ کے اختلاف کے ساتھ انساب الاشراف۔ ج۱، ص ۸۲؛ اسی طرح سبل الھدی والارشاد ،ج۱، ص۳۹۰ بھی ملاحظہ ہو؛(۲) مروج الذھب، ج۲، ص ۱۰۸۔ ۱۰۹

۲۴۶

روای کہتا ہے! قریش میں صابر اور حکیم شمار ہوتے تھے۔

پھر سبط جو زی کی نقل کے مطابق اختصار سے ذکر کیا ہے:جناب عبد المطلب اپنے بیٹوں کو ظلم و ستم اور طغیانی و سر کشی کے ترک کر نے کاحکم دیتے تھے اورانھیں مکارم اخلاق کی رعایت کی تشو یق اور تحریک کر تے اور انھیں اس پر آمادہ کرتے تھے اور نازیبا حرکتوں اور ناپسندیدہ افعال کے انجام دینے سے روکتے تھے وہ کہتے تھے: کو ئی ظالم اور ستمگر دنیا سے نہیں جا ئے گا مگر یہ کہ اس کے ظلم کا انتقام لوگ اُس سے لے لیں گے اور وہ اُس کی سزا بھگتے گا۔

قضاء الہٰی سے ایک ظالم انسان جو کہ شام کا رہنے والا تھا بغیر اس کے کہ وہ دنیا میں اپنے سیاہ کارناموں اور بُرے افعال کی سزا بھگتے انتقال کر گیا. اس کی داستان جناب عبد المطلب سے نقل کی گئی۔

انھوں نے تھوڑی دیر غور وفکر کیا اور آخر میں کہا: خدا کی قسم اس دنیا کے بعد ایک دو سری دنیا ہے جس میں نیک لوگوں کو ان کے نیک عمل کی جزا اور بد کا روں کو اُن کے بُرے عمل کی سزا دی جائے گی۔

یہ بات اس معنی میں ہے کہ ستمگر و ظالم انسان کا دنیا میں نتیجہ یہ ہے .اور اگر مر گیا اور اُسے کوئی سزا نہ ملی تو پھر اس کی سزاآخرت کے لئے آمادہ اور مہیا ہے۔

ان کی بہت ساری سنتیں ایسی ہیں جن میں اکثر و بیشتر کی تائید قرآن کریم نے کی ہے جیسے نذر کا پورا کرنا،محارم سے نکاح کی ممانعت،چور کا ہاتھ کاٹنا،لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے روکنا،زنا اور شراب کو حرام کر نا اور یہ کہ برہینہ خا نہ خدا کا طواف نہیں کر نا چاہئے۔( ۱)

سیرۂ بنویہ نامی کتاب میں مذکور ہے کہ :جناب ہاشم کے فرزند جناب عبد المطلب، قریش کے حکیموں اور بہت زیادہ صبر کر نے والوں اور مستجاب الدعوة انسان میں شمار ہوتے تھے.اُنہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی تھی۔ وہ سب سے پہلے انسان ہیں جو اکثر شبوں میں کوہ حرا میں عبادت(تحنث) کر تے تھے.وہ جب رمضان کا مہینہ آتا توفقراء کو کھانا کھلاتے اور پہاڑوں کی بلندی پر جا کر اس کے ایک گوشہ میں خلوت اختیار کرتے اس غرض سے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے ذاتِ خدا وندی کی عظمت اور بزرگی کے بارے میں غور و خوض کریں۔( ۲ )

____________________

(۱)سیرۂ حلبیہ، ج۱ ص ۴؛ سیرۂ نبویۂ ، ج۱ ،ص ۲۱.(۲) سیرۂ نبویہ ، ج۱ ، ص۲۰ اسی مضمون سے ملتی جلتی عبارت انساب الاشراف کی پہلی جلد کے صفحہ ۸۴ پر مذکو ر ہے.تاریخ یعقوبی اور انساب الا اشراف بلا ذری میں اختصار کے ساتھ اس طرح ذکر ہوا ہے ( اور ہم نے اس مطلب کو تاریخ یعقوبی سے لیا ہے)۔

۲۴۷

قریش پر مصیبت کے سا لہا سال قحط اور گرانی کے ساتھ گذرگئے یہاں تک کہ کھیتیاں برباد ہوگئیں اور دودھ پستا نوں میں خشک ہوگئے قریشیوں نے عاجزی اور درماندگی کے عالم میں جناب عبد المطلب سے پناہ مانگی اور کہا:خدا وند عالم نے تمہارے وجود کی برکت سے بارہا ہم پر اپنی رحمت کی بارش کی ہے اس وقت بھی خدا سے درخواست کرو تاکہ وہ ہمیں سیراب کرے۔

جناب عبد المطلب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ اُن اےّام میں جب کہ وہ اپنے جد کی آغوش میں تھے (اور اپنے جد کے سہارے راستہ طے کرتے تھے) باہر نکلے اور اس طرح دعا کی۔

''أللّهم سادَّ الخلَّة ِ،وَکَاشِفَ الکُربةِ،اَنت عَالم غَیر مُعَلَّم، مَسؤول غیرُ مُبَخَّل وَ هؤلائِ عبادُک وَ اماؤک بِعذراتِ حرمک یَشکُون اِلیکَ سَنیهِم الَّتی أَقحلتِ الضَرع وَ أَ ذهبتِ الزَّرعَ،فاسمعنَّ الّٰهُمّ وَ أَمطرنَّ غَیثاً مَریعاً مغدقاً )

خدایا !اے ضرو رتوں کو پورا کر نے والے اور کرب و بیچینی کو دور کر نے والے تو بغیر تعلیم کے عالم ہے اور بخل نہ کر نے والا مسئول ہے یہ لوگ تیرے بندے اور کنیزیں ہیں جو تیرے حرم کے ارد گرد رہتے ہیں۔

تجھ سے اس قحط کی شکا یت کرتے ہیں جس سے پستا نوں میں دودھ خشک ہو گیا ہے اور کھتیاں تباہ و برباد ہوگئیں ہیں۔

لہٰذا خدا یا! سُن اور ان پر زور دار موسلا دھار بارش نازل فرما۔

قریش ابھی وہاں سے حر کت بھی نہیں کر پا ئے تھے کہ آسمان سے ایسی موسلا دھا ر بارش ہوئی کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا۔

ایک قریش نے ایسے مو قع پر اس طرح شعر کہا:

بشیبة الحمد اسقیٰ اللهُ بلدتنا وقد فقدنا الکریٰ واجلّوذ المطرُ

''خدا وند عالم نے شیبة الحمد(جناب عبد المطلب) کی بر کت سے ہماری سر زمینوں کو سیراب کیا جب کہ ہم عیش وعشرت کھو چکے تھے اور بارش کا دور دور تک سراغ نہیں تھا''۔

منّاً من اللهِ بالمیمونِ طائره وخیر من بشّرت یوماً به مُضرُ

''خداوند عالم نے مبارک فال انسان کے وجود سے ،ہم پر احسان کیا ہے اور وہ سب سے اچھا انسان ہے کہ ایک دن مضر قبیلہ والے اُس سے شاد و خرم ہوئے ہیں ''۔

۲۴۸

مُبارک الامرِ یُستقیٰ الغمامُ به ما فی الأنام له عدلُ و لاخطرُ ( ۱ )

'' وہ مبارک مرد (جناب عبد المطلب) جس کی وجہ سے بادل نے برسنا شروع کیا؛ لوگوں کے درمیان وہ بے نظیر و بے مثال ہے ''۔

بحار الانوار میں مذکور ہے:

لوگ رسول خدا کے جد جناب عبد المطلب کے لئے کعبہ کے پاس فرش بچھا تے تھے تا کہ اس پر وہ تشریف فر ما ہوں اور اس پر ان کے احترام میں ا ن کے سوا ان کی کوئی اولاد بھی نہیں بیٹھتی تھی،لیکن جب پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آتے تھے تو اُس پر بیٹھتے تھے، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرات جا کر انھیں اس کام سے روکنے کی کوشش کرتے لیکن جناب عبد المطلب اُن سے مخاطب ہو کر کہتے!

میرے بیٹے کو چھوڑ دو اسے نہ روکو۔

پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پشت پر ہا تھ رکھ کر کہتے:میرے اس بیٹے کی خاص شان اور منزلت ہے۔( ۲ )

تاریخ یعقوبی نامی کتاب میں مذکو ر ہے کہ :

جناب عبد المطلب نے کعبہ کی حکومت اور ذمّہ داری اپنے بیٹے زبیر کے حوالے کی اور رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرپرستی اور زمزم کی سقائی جناب ابو طالب کے سپر د کی اور کہا:میں نے تمہارے اختیار میں ایسا عظیم شرف اور بے مثال افتخار قرر دیا ہے جس کے سامنے عرب کے بزرگوں کے سر خم ہو جائیں گے۔

پھر اس وقت جناب ابو طالب سے کہا:

أُوصیک یا عبد منافٍ بعدی

بمُفردٍ بعد أبیه فردِ

''اے عبد مناف! تم کو اپنے بعد ایک یتیم کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جو اپنے باپ کے بعد تنہا رہ گیا ہے''۔

فارقه و هُو ضجیع المهد

فَکُنت کا لأُ مّ له فی الوجد

____________________

(۱) یہاں تک بلا ذری کی انساب الاشراف کے صفحہ ۱۸۲ تا۱۸۵ پر حالات پراگندہ طور پر مذکور ہیں لیکن ہم نے تاریخ یعقوبی کی ج،۲ ص ۱۲ اور ۱۳ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے.(۲)بحار الانوار، ج۱۵، ص ۱۴۴اور ۱۴۶ا ور ۱۵۰.

۲۴۹

''اس کا باپ اس سے اس وقت جدا ہوگیا جب وہ گہوارے میں تھا اور تمہاری حیثیت اس کے لئے ایک دل سوز اور مہربان ماں کی تھی ''۔

تُدنیه من أَحشائها و الکبد --- فَأَنت مِن أَرجیٰ بنیّ عِندی

لدفع ضیمٍ أَو لشدِّ عقد( ۱ )

''کہ اسے دل و جان سے آغوش میں لیتی ہے.میں تم سے مشکلات اور پریشانیوں کے بر طرف کر نے اور رشتہ کو مضبوط بنا نے کے لحاظ سے اپنے تمام فرزندوں سے زیادہ امید رکھتا ہوں''۔

بحار الانوار میں،واقدی کی زبانی اس واقعہ کے نقل کے بعد اختصار کے ساتھ اس طرح روایت ہے:

اوصیک أَرجیٰ اهلنا بالر فدی --- یابن الذی غیبته فی اللحدِ

بالکره منّی ثمّ لا بالعمدی --- وخیرة الله یشاء فی العبدِ

جناب عبد المطلب نے کہا:اے ابو طالب! میں اپنی وصیت کے بعد تمہارے ذمّہ ایک کام سپرد کررہا ہوں.جناب ابو طالب نے پو چھا کس سلسلہ میں؟

کہا: میری تم سے وصیت میرے نور چشم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق ہے کہ تم میرے نزدیک اس کی عظمت اور قدر ومنزلت کو جا نتے ہو،لہٰذا اس کی مکمّل طور پرتعظیم کرو اور جب تک زندہ ہو روز وشب کسی بھی وقت بھی ا س سے الگ نہ ہونا؛ خدا را ،خدا را،حبیب خدا کے بارے میں۔پھر اُس وقت اپنے دیگر بیٹوں سے کہا:محمد کی قدر دانی کرو کہ بہت جلد ہی عظیم اور گراں قدر امرکا اس میں نظارہ کروگے اور بہت جلد اس کے انجام کار کو جس سلسلے میں میں نے اس کی تعریف و توصیف کی ہے وقت آنے پر سمجھ جائو گے ۔جناب عبد المطلب کے فرزندوں نے ایک آواز ہو کر کہا: اے بابا! ہم مطیع اور فرمانبردار ہیں اور اپنی جان و مال اُس پر فدا کر دیں گے۔پھر اس وقت جناب ابو طالب نے جوپہلے سے ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر چچا کے مقابلے سب سے زیادہ ان کی بہ نسبت مہر بان اور دلسوز تھے. کہا: میرا مال اور میری جان محمد پر فدا ہے،میں ان کے دشمنوں سے جنگ کروں گا اور دوستوں کی نصرت کروں گا۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی،ج،۲ ،ص ۱۳.

۲۵۰

واقدی نے کہا ہے:

پھر جناب عبد المطلب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دوبارہ آنکھ کھولی اور قریشیوں کی جانب نظر کی اور بو لے:اے میری قوم! کیا تم پر میرے حق کی رعا یت واجب نہیں ہے؟

سب نے ایک ساتھ کہا:بیشک،تمہارے حق کی رعایت چھوٹے بڑے،سب پر واجب ہے تم ہمارے نیک رہبر اور بہترین رہنما تھے۔

جناب عبد المطلب نے کہا: میںاپنے فرزند محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبد اللہ کے بارے میں تم سے وصیت کر تا ہوں اس کی حیثیت اپنے درمیان ایک محتر م اور معزز شخص کی طرح سمجھنا اس کے ساتھ نیکی کر نا اور اس پر ظلم روا نہ رکھنا اور اس کے سامنے نا پسندیدہ افعال بجا نہ لانا۔

جناب عبد المطلب کے فرزندوں نے ایک ساتھ کہا: ہم نے آپ کی بات سنی اور ہم اس کی اطاعت و پیروی کریں گے۔( ۱ )

ابن سعد کی طبقات میں مذکو ر ہے:

جب جناب عبد المطلب کی موت کا وقت قریب آیا،تو انھوں نے جناب ابو طالب کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت و نگہداری کی وصیت کی۔( ۲ )

جناب عبد المطلب کا اس وقت انتقال ہوا جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آٹھ سال کے تھے اور وہ خود ایک سو بیس سال کے تھے کہ اس سن میں دنیا کو وداع کہہ کر رخصت ہوئے۔

خدا وند عالم نے جناب عبد المطلب کو جسمی اعتبار سے قوی و توانا بنا یا تھا اور صبر وتحمل اور جو د وسخا کے اعتبار سے بڑا حو صلہ دیا تھا اور آپ کا ہاتھ بہت کھلا ہوا تھا انھیں توحید پرست،روز قیامت کی سزا کا معتقد اور جاہلیت کے دور میں خدا پر ست بنایا اور بتوں کی پرستش اور تمام ہلا کت بار چیزوں سے جو لوگوں کی تباہی کا باعث ہوتی ہیں ان سے انھیں دور رکھا تھا.وہ ظلم وستم اور گناہوں کے ارتکاب کو سخت ناپسند کر تے تھے.وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے غار حرا میں عبادت کے لئے خلوت نشینی کی تاکہ خدا کی عظمت و جلالت کے بارے میں تفکر کریں اور اس کی عبادت کریں وہ رمضان کے مہینے میں عبادت میں مشغول ہوتے اور فقرا ء و مسا کین کو اس ماہ میں کھانا کھلا تے تھے. آپ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مکّہ میں خوش ذائقہ پا نی سے

____________________

(۱)بحار الانوار :ج۱۵، ص۱۵۲، ۱۵۳.(۲) طبقات ابن سعد،ج۱ص ۱۱۸.

۲۵۱

لوگوں کو سیراب کیا اور خواب میں زمزم کا کنواں کھو دنے پر مامور ہوئے ور آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور صرف اپنے فرزند حا رث کے ساتھ مذکورہ کنویں کی کھدائی کی۔

اور جب ابرھہ اپنے ہاتھی پر سوار ہو کر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ خانہ کعبہ کو ڈھانے کے ارادہ سے مکّہ کے اطراف میں پہنچا،تو جناب عبد المطلب نے ابرھہ کے لشکر سے مقا بلہ کرنے کے لئے قریش کو آواز دی لیکن ان لو گوں نے سنی اَن سنی کر دی اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر فرار کر گئے؛ لیکن جناب عبد المطلب نے خدا کے گھر کو نہیں چھوڑا اور خدا کو مخاطب کر کے اس طرح شعر پڑھا:

یا ربّ انَّ العبد یمنعُ

رحلهُ فامنع رحالک

خدایا! ہر بندہ اپنے گھر کا دفاع اور بچاؤ کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع اور تحفظ کر۔

اور جب خدا وند متعال نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو ہلاک کر ڈالا تو انھوں نے یہ اشعار کہے:

انَّ للبیت لرباً ما نعاً

من یرده بأَثامٍ یصطلم

(اس گھر کا روکنے والاایک مالک ہے کہ جو بھی اس کی طرف گناہ کا قصد کر ے گا تو وہ اسے نابود کر دے گا)۔

رامه تُبّع فی من جند ت

حمیر و الحی من آل قدم

( تبع انھیں میں سے ایک تھا کہ جس نے لشکر کشی کی،اسی طرح حمیر اور اس کے قبیلہ والے )۔

فانثنیٰ عنه و فی اوداجه

جارح امسک منه بالکظم

(کہ لوٹنے کے بعد اس کی گردن میںکچھ زخم تھے جو سانس لینے سے مانع تھے)۔

۲۵۲

قلت والأشرم تردی خیله

اِنّ ذا الاَّشرم غرّ بالحرم

(اور اس کان کٹے (ابرھہ) سے جو اپنے لشکر کو ہلاکت میں ڈال رہا تھا میں نے کہا:بیشک یہ گوش بریدہ(کان کٹا) حرم کی بہ نسبت نہایت مغرور ہے)۔

نحن آل الله فی ما قد مضی

لمن یزل ذاک علی عهد اِبرهم

( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔

نحنُ دمَّرنا ثموداً عَنوة

ثم عادا قبلها ذات ا لارم

( ہم نے ثمود کی سختی کے ساتھ گو شمالی کی اور انھیں ہلاک کر ڈالا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو )

نعبد الله و فینا سُنّة

صلَة القربیٰ و ایفاء الذمم

( ہم خدا کی عبادت کر تے ہیں اور ہمارے درمیان صلہ رحم اور عہد کا وفا کرنا سنت رہا ہے)۔

۲۵۳

لم تزل للهِ فینا حجّة

یدفع الله بها عنّا النّقم

( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔

یہی سال تھا کہ آپ کے پو تے خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیدا ہوئے تو جناب عبد المطلب نے انہیںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک کپڑے میں لپیٹا اور اُ نہیں اپنے سینے سے لپٹا کر کعبہ میں داخل ہوگئے اور اس طرح شعر پڑھا :

انت الّذی سُمِّیت فی الفرقان

فی کُتب ثابتة المثان

احمد مکتوب علی اللسان

''تو وہی ہے جس کا نام فرقان اور محکم غیر تحریف شدہ کتابوں میں '' احمد ہے ''۔

ان اشعار میں جناب عبد المطلب خبر دے رہے کہ آسمانی کتابوں میں ان کے پو تے کا نام احمد ہے۔

جناب عبد المطلب مستجاب الدعوات تھے، جس وقت قریش پر بارش نہیں ہوتی تھی اُن سے دعا کی درخواست کر تے تھے کہ آپ خدا سے دعا کریں تو خدا آپ کی دعا کے نتیجے میں موسلا دھار بارش نازل کرتا تھا.آخر ی بار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جب آپ کم سن بچہ تھے رحمت باراں طلب کرنے کے لئے باہر گئے ابھی لوگ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔

جناب عبد المطلب نے کچھ ایسی سنتیں قائم کی ہیں کہ اسلام نے ان کی تائید اور تثبیت کی ہے. جیسے:

۱۔ نذر کا پو را کر نا؛ سورۂ انسان، آیت ۷ اور سورۂ حج ،آیت ۲۔

۲۔ محارم سے ازدواج کی ممانعت؛سورۂ نسائ،آیت ۲۳۔

۳۔ چور کا ہاتھ کاٹنا؛ سورۂ مائدہ، آیت ۳۸۔

۴۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی ممانعت؛ سورۂ تکویر، آیت ۸، سورۂ انعام، آیت ۱۵۱، سورۂ اسرائ، آیت ۳.

۵۔ شراب کا حرام کر نا؛ سورۂ مائدہ، آیت ۹۰۔ ۹۱۔

۲۵۴

۶۔ زنا کی حر مت سورۂ فرقان آیت۶۸، سورۂ ممتحنہ آیت ۱۲ ، سورۂ اسرائ، آیت ۳۲۔

۷۔ خا نہ کعبہ کے گرد عریاں اور برہینہ حالت میں طواف کر نے سے روکنا۔

پیغمبر خدا نے ۹ ھ میں جب انھوں نے اپنے چچا زاد بھائی علی کو حاجیوں کے سامنے سورۂ برائت کی ابتدائی آیات کی تلا وت کر نے پر مامور کیا تھا تب یہ بھی حکم دیا تھا کہ یہ موضوع بلند آواز سے لوگوں کو ابلاغ کر یں۔

۸۔صلۂ رحم کی رعایت ، خاندان والوں اور رشتہ داروں سے ارتباط رکھنا؛ سورۂ نسائ، آیت۱۔

۹۔ کھانا کھلانا؛ سورۂ مائدہ آیت ۸۹ اور سورۂ بلد آیت ۱۴ ، سورۂ الحاقہ آیت ۳۴۔

۱۰۔ظلم نہ کرنااور ستمگری کو ترک کرنا؛ سورۂ ابراھیم آیت ۲۲ اور بہت سی دیگر آیات۔

وہ غار حرا میں کنج تنہائی اختیار کرتے تھے اور کئی کئی راتیں خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ( کہ جس کو کہتے ہیں) یہی روش آپ کے پو تے خا تم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنائی تھی.وہ روز جزا (قیامت) پر ایمان واعتقاد رکھتے تھے اور اس بات کی دوسروں کو بھی تبلیغ کر تے تھے۔

بحار الانوار میں اپنی سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے انھوں نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے جد سے انھوں نے حضرت علی ابن ابی طالب سے انھوں نے حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے اپنی وصیت میں فرمایا : اے علی! جناب عبد المطلب نے دور جا ہلیت میں پانچ سنتیں قائم کی ہیں کہ خدا وند عالم نے اسے اسلام میں اجرا کیا اور اس پر عمل کرنے کو ضروری سمجھا ہے ۔

انھوں نے باپ کی بیوی سے ازدواج حرام کیا ہے؛ اور خدا وند رحمن نے یہ آیت نازل فرمائی :

( لَا تَنْکِحُوا مَانَکَحَ آباؤُکُمْ مِنَ النِّسٰائِ )

جن عورتوں سے تمہارے آباء و اجداد نے نکاح کیا ہے اُن سے نکاح نہ کرو۔

جناب عبد المطلب نے ایک خزانہ پایا،تو اس کا خمس نکال کر جدا کر دیا اور راہ خدا میں صدقہ دیا، خدوند عالم نے بھی فرمایا:

( وَاعْلَمُوا اَنّمَا غَنِمْتُمْ مِن شَیٍٔ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمسَه )

جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو یقینا اس میں اللہ اور کے لئے خمس ہے۔

اور جب زمزم کا کنواں کھودا تو اُ سے حاجیوں کے پینے کے لئے مخصوص کر دیا. اور خدا وند عالم نے بھی فرمایا:( اَجَعَلْتُمْ سَقَایةَ الَحَاجَّ ) حجاج کو پانی پلانا ...؟

۲۵۵

آپ نے اونٹ کی دیت سو اونٹ معین کی تو خدا وند عالم نے بھی اسی کو اسلام میں معین کردیا، پہلے خانہ خدا کے گرد طواف کر نے کی کوئی حد معین نہیں تھی جناب عبد المطلب نے سات چکر طواف معین کیا اور خدا وند عالم نے اسی کو اسلام میں باقی رکھا۔

اے علی! جناب عبد المطلب نے ازلام ( پانسوں) کے تیروں کے مطابق تقسیم نہیں کی،کسی بُت کی پوجا نہیں کی اور نہ ہی بُت کے لئے قربانی کیا ہوا گوشت کبھی نہیں کھا یا اور کہتے تھے میں ا پنے باپ ابراہیم کے دین کا پابند ہوں۔( ۱ )

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جناب عبد المطلب کے اونٹ کے سم کے نیچے سے پانی کا ابلنا ( کہ جس کی حکا یت پہلے بیان کی جاچکی ہے ) ایک کرامت تھی خدا نے جس کے ذریعہ ان کو محترم بنا یا ۔

جس طرح ان کے جد اسمٰعیل کو اس سے پہلے ان کے قدم کے نیچے سے آب زمزم کے جاری ہو نے کی وجہ سے مکرم اور محترم بنایا تھا۔

خدا وند عالم نے اسی طرح کی کرامت سے اُن کے پو تے حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرامی قدر بنا یا جب جنگ تبوک میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیر کے پاس سے چشمہ پھوٹ پڑا۔( ۲ )

جو کچھ ا س حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ جناب عبد المطلب نے زمانۂ جا ہلیت میں پا نچ سنتیں قائم کیں اور اسلام نے اس کی تائید اور تثبیت کی،وہ اس سے پہلے ذکر کی گئی باتوں سے منا فات نہیں رکھتا کیو نکہ کسی چیز کا ثابت کر نا دوسری چیزوں کے نہ ہو نے پر دلیل نہیں بن سکتا۔

بحث کا خلاصہ

حضرت ابراہیم نے اسمٰعیل کو وصیت کی کہ ان کی حنیفیہ شریعت کے ستونوں کو بیت ﷲ الحرام کی تعمیر اور منا سک حج کی ادائیگی سے قائم رکھیں.تو اسمٰعیل نے اپنی پوری زندگی اپنے باپ کی وصیت کا پاس و لحاظ رکھا یہاں تک کہ مکّہ میں انتقال کر گئے اور اپنی مادر گرامی (ہاجرہ) اور اپنے بعض فرزندوں کے پاس حجر اسمٰعیل میں سپر د لحد کئے گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) بحار الانوار ، ج ۱۵،ص ۱۲۷ شیخ صدوق کی خصال ج۱، ص ۱۵۰ کی نقل کے مطابق

(۲) بحار الانوار ،ج ۲۱، ص ۲۳۵ ،خرائج کی نقل کے مطابق ص ۱۸۹ ، بابِ غزوۂ تبوک

(۳) ملاحظہ کیجئے : اسلام میں دو مکتب، ج۱ ، ص ۸۲ تا ۸۵ اور معا لم المدرستین، طبع ۴،ج۱ ،ص۶۰ تا ۶۴.

۲۵۶

خدا نے اسحق کے فرزند یعقوب جو کہ اسرائیل سے مشہو ر تھے ان کی اولا د کے لئے بھی مخصوص احکام وضع کئے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کی شریعت میں رائج ہوئے ہیں۔

حضرت عیسیٰ بن مر یم کے بعد رسولوں کی فترت کا زمانہ شروع ہو جا تا ہے .یعنی خدا وند عالم نے اس مدت میں کو ئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا رسول نہیں بھیجا .جز ان نبیوں کے جو بعض لوگوں کے لئے ہدایت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے.انھیں عیسیٰ کی شریعت پر عمل کر نے کی دعوت دی.جیسے خالد بن سنان اور حنظلہ جن کا شمار اوصیاء شریعت عیسیٰ میں ہوتا ہے ۔

رہا سوال ام القریٰ (مکّہ) اور اس کے اطراف وجوانب کا تو حضرت اسمٰعیل کے پوتوں میں کوئی نہ کوئی بزرگ یکے بعد دیگرے حضرت ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کے قیام اور حضرت کی سنتون کو زندہ کر نے کے لئے اُٹھے کہ اب مختصر طور سے ہم ان کا تعارف کراتے ہیں:

۱۔ مضر کے فرزند الیاس

مضر کے فرزند الیاس حضرت اسمٰعیل کے قبیلہ کے اُن افراد پر بہت ناراض ہوئے اور نکتہ چینی کی جنھوں نے اپنے آباء واجداد کی روش اور سنتوں کو بدل ڈالا تھا.انھوں نے ان کی نئے سرے سے تجد ید کی یہاں تک کہ تحر یف سے قبل والی حالت کے مانند ان پر عمل ہونے لگا۔

الیاس وہ پہلے آدمی ہیں جو اپنے ہمراہ قربانی کا اونٹ مکّہ لے گئے ، نیز وہ حضرت ابراہیم کے بعد پہلے آدمی ہیں جنھوں نے رکن کی بنیاد ڈالی۔

۲۔الیاس کے پو تے خز یمہ بن مدرکہ

خزیمہ کہتے تھے: ایک''احمد '' نامی پیغمبر کے خروج کا زمانہ قریب آچکا ہے.وہ لوگوں کو خدا، نیکی، احسان اور مکارم الاخلا ق (اخلاق کی بلندیوں) کی دعوت دے گا. تم سب اس کی پیروی کرنا اور اس کی کبھی تکذیب نہ کرنا کیو نکہ وہ جو کچھ لائے گا حق ہو گا۔

۲۵۷

۳۔ کعب بن لو ٔی

کعب خزیمہ کے پو توں میں سے ہیں وہ حج کے ایام میں خطبہ دیتے اور کہتے تھے : زمین و آسمان اور ستارے لغو اور بیہودہ خلق نہیں کئے گئے ہیں اور روز قیامت تمہارے سامنے ہے .وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو پسندیدہ اخلا ق اور بیت اللہ الحرام کی تعظیم و تکریم پر آما دہ کرتے تھے.اور انھیں آگاہ کرتے تھے کہ خا تم الانبیاء خدا کے گھر سے مبعوث ہو گے اور اس بات کی موسیٰ اور عیسیٰ نے بھی اطلا ع دی ہے اورشعر پڑھتے تھے:

علیٰ غفلةٍ یاتی النبی محمد فیخبرا خباراً صدوقاً خبیرها

اچانک محمد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئیں گے اور وہ سچی خبر دیں گے۔

اور کہتے تھے:اے کاش میں ان کی دعوت اور بعثت کو درک کر تا..

۴۔ جناب قُصیّ

بعد اس کے کہ خزاعہ قبیلہ کے رئیس نے مکّہ میں بُت پر ستی کو رواج دیا.حضرت اسمٰعیلں کی نسل سے قُصیّ ان کے مقابلے کے لئے اُٹھے اور انھیں مکّہ سے باہر نکال دیا.انھوں نے بُت پر ستی سے منع کیا اور ابراہیم کی سنت جو مہمانوں کو کھا نا کھلانے سے متعلق تھی اس کی دوبارہ بنیاد ڈالی.وہ حج کا موسم آنے سے پہلے ہی قریش قبیلہ کے درمیان اٹھے اور ایک خطبہ کے ضمن میں فرمایا:

اے جماعت قریش ! تم لوگ خدا کے ھمسایہ(پڑوسی) اس کے حرم اور گھر والے ہو اور حجاج خدا کے مہمان اور اس کے گھر کے زائر ہیں .اور احترام وتکریم کے سب سے زیادہ لائق اور سزاوار ترین مہمان ہیں.لہٰذا حج کے ایام میں جب تک کہ تمہارے علا قے سے اپنے گھرواپس نہیں چلے جاتے اس وقت تک ان کے لئے غذا اور کھا نے پینے کی چیزیں فر اہم کرو، اگر میرا مال ان تمام امور کے لئے کافی ہوتا تو تن تنہا اور تمہاری شمو لیت کے بغیر اس کام کے لئے اقدام کر تا.لہٰذا تم میں سے ہر ایک اس کام کے لئے اپنے مال کا ایک حصّہ مخصوص کرے۔

۲۵۸

قریش نے حکم کی تعمیل کی اور کافی مقدار میں مال جمع ہو گیا،جب حاجیوں کے آنے کا زمانہ قریب ہوا ، تو مکّہ کے ہر راستے پر ایک اونٹ نحر کیا اور مکّہ کے اندر بھی ایسا کیا اور ایک جگہ کا انتخاب کیا تا کہ وہاں روٹی اور گو شت رکھا جائے اور خوش ذائقہ اور میٹھا پانی اور دوغ (چھاچھ) حاجیوں کے لئے فر اہم کیا، وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مزدلفہ میںآگ جلا ئی تا کہ رات کے وقت حجاج عرفات سے باہر آئیں تو اپنا راستہ پہچان سکیں،انھوں نے خانہ خدا کے لئے کلید بردار اور پردہ دارکا تقرر کیا اور اپنے بیٹے عبد الدار کے گھر کو دار الندوہ (مجلس مشاورت) کا نام دیا،اس طرح سے کہ قریش وہاں کے علا وہ کہیں فیصلہ نہ کر یں.انھوں نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزندوں سے وصیت کی کہ شراب سے پر ہیز کریں۔

۵۔ جناب عبد مناف

قُصیّ کے بعد، ان کے فرزند عبد مناف کہ جن کانام مغیرہ تھا ان کے جا نشین ہوئے اور قریش کو تقوائے الٰہی،صلہ رحم اور پر ہیز گاری کی تعلیم دی۔

۶۔ جناب ھا شم

عبد مناف کے بعد ،ان کے فرزند جناب ہاشم ان کے جانشین ہوئے اور قَصیّ کی سنت و روش کی پیروی میں حجاج کی مہما ن نوازی کے لئے قریش کو آواز دی وہ اپنے خطبہ میں کہتے تھے:

خدا کے مہمانوں اور اس کے گھر کے زائرین کا احترام کرو اس گھر کے ربّ کا واسطہ،اگر میرے پا س اتنا مال ہوتا جو ان کے اخراجا ت کے لئے کا فی ہوتا تو تمہاری مدد سے بے نیاز ہوتا ، میں اپنے پاک وحلال مال سے کہ جس میں قطع رحم نہیں ہوا، کوئی چیز ظلم وستم سے نہیں لی گئی اور جس میں حرام کا گذر نہیں ہے(حجاج کے اخراجا ت کے لئے) ایک مبلغ الگ کر تا ہوں اور جو بھی چاہتا ہے کہ ایسا کرے وہ ایک مبلغ جدا کردے،تمھیں اس گھر کے حق کی قسم تم میں سے جو بھی بیت اللہ کے زائر کا احترام کر نے اور ان کی تقو یت کے لئے کوئی مال پیش کرے وہ اُس مال سے ہو جو پاک اور حلال ہو، جسے ظلم کے ذریعہ اور قطع رحم کر کے نہ لیا گیا ہو اور نہ زور اور زبر دستی سے حاصل کیا گیا ہو، قریش نے بھی اس سلسلے میں کافی احتیاط سے کام لیا اور اموال کو دار الندوہ میں رکھ دیا۔

۲۵۹

جیسا کہ ہم ملاحظہ کر تے ہیں ،جناب ہاشم کا کام خدا کی خوشنودی حاصل کر نے میں انبیاء جیسا ہے انھوں نے نہ تو شہرت حاصل کر نے کے لئے اور نہ ہی اس لئے ان امور میں ہا تھ لگایا کہ دوسرے لوگ ان کی اور ان کی قوم کی تعریف و توصیف کریں ؛جیسا کہ اُس زمانے میں جاہل عرب کی روش تھی۔

ان کا قریش کے تجارتی قافلوں کے لئے پروگرام بنانا بھی خدا کی رضا و خوشنودی کے لئے تھا جبکہ وہ لوگ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ سرزمینوں میں زندگی گذارتے تھے اور امر ار معاش کے لئے دودھ کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے تھے۔

جناب ہاشم اپنے امور میں دیگر انبیاء اور پیغمبروں کی طرح دور اندیش اور اپنی قوم کے دنیاوی معاش اور اخروی معاد کے بارے میں غور وخوض کر نے والے ایک معزز انسان تھے

۷۔ جناب عبد المطلب بن ہا شم

وہ توحید کا اقرار کر نے والے اور دنیا وآخرت میں ہر کام کی جزا یا سزا ملنے پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے ، وہ جاہلیت کے دور میں خد اشناس اور خدا پر ست تھے. انھوں نے زمزم کا کنواں کھودا۔

جناب عبد المطلب ایک مستجاب الدعوات شخص تھے،انھوں نے خدا سے بارش کی دعا کی تو خداوند عالم نے ان کے لئے بارش نازل کی انھوں نے خبر دی کہ خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آسمانی کتابوں میں نام احمد رکھا ہے اور رسول خدا کے آباء و اجداد کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم کے دَور سے خدا کی کوئی نہ کوئی حجت رہی ہے جس کی وجہ سے خدا نے برائیوں کو ان سے دور کیا ہے۔

جناب عبد المطلب نے چند سنتوں کی بنیاد رکھی جس کی اسلام نے تائید اورتثبیت کی ہے ۔

تاریخ یعقوبی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اختصار کے ساتھ ذکر ہوا ہے:

خدا وند عالم قیامت کے دن ہمارے جد جناب عبد المطلب کو پیغمبروں کے جلوہ کے ساتھ امت واحدہ کی صورت میں مبعوث کرے گا.( ۱ )

اس سے پہلے ا ن کی سیرت میں دیکھ چکے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے فرزندوں اور اپنی قوم سے عہد و پیمان لیا کہ جب پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث بہ رسالت ہوں تو وہ لوگ ان کی نصرت کریں.جیسا کہ دیگر انبیاء اپنی قوم کے ساتھ ایسا ہی عہد و پیمان لیتے تھے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ۔ج۲ ، ص ۱۲ تا ۱۴؛ بحار الانوار جلد ۱۵، ص ۱۵۷ کافی کی نقل کے مطابق، ج۱ ،ص ۴۴۶، ۴۴۷. حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ: آپ نے فرمایا : جناب عبد المطلب امت واحدہ کی صورت میں محشور ہو گے اس حال میں کہ پیغمبروں کی جھلک اور باشاہوں کی صورت کے حامل ہوں گئے.

۲۶۰