اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134002 / ڈاؤنلوڈ: 3935
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

یہ دونوں نظریات ، پوری تاریخ بشر میں نسبی یا مطلق طور پر انسانوں پر حاکم رہے ہیں، لیکن اس حاکمیت کی تاریخی سیر کے متعلق تجزیہ و تحلیل ہمارے ہدف کے پیش نظر ضروری نہیں ہے اور اس کتاب کے دائرہ بحث سے خارج ہے ۔لہٰذا پہلے نظریہ کی حاکمیت کے سلسلہ کی آخری کڑی کی تحقیق کریں گے جو تقریباً ۱۴سو سال سے ہیومنزم(۱) یا انسان مداری کے عنوان سے مرسوم ہے ،اور ۶سو سالوں سے خصوصاً آخری صدیوں میں اکثر سیاسی ، فکری اور ادبی مکاتب اس بات سے متفق ہیں کہ ہیومنزم نے مغرب کو اپنے اس نظریہ سے کاملاً متاثر کیا ہے اور بعض مذاہب الٰہی کے پیروکاروں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر جذب کرلیا ہے۔

ہیومنزم کا مفہوم و معنی

اگرچہ اس کلمہ کے تجزیہ و تحلیل اور اس کے معانی میں محققین نے بہت ساری بحثوں اور مختلف نظریوں کو بیان کیا ہے اور اپنے دعوے میں دلیلیں اور مثالیں بھی پیش کی ہیں ،لیکن اس کلمہ کی لغوی تحلیل و تفسیر اور اس کا ابتدائی استعمال ہمارے مقصد کے سلسلہ میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ لہٰذا اس لغوی تجزیہ و ترکیب کے حل و فصل کے بغیر اس مسئلہ کی حقیقت اور اس کے پہلوؤں کی تحقیق کی جائے گی، اس لئے ہم لغت اوراس کے تاریخی مباحث کے ذکرسے صرف نظر کرتے ہیں ، اور اس تحریک کے مفہوم و مطالب کی تاریخی و تحلیلی پہلو سے بحث کرتے ہیں جو آئندہ مباحث کے محور کو ترتیب دیتے ہیں ۔(۲)

____________________

(۱) Humanism

(۲)کلمہ ہیومنزم کے سلسلہ میں لغت بینی اور تاریخی معلومات کے لئے ۔ملاحظہ ہو

. احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ، ص ۸۳،۹۱۔ .لالانڈ آنڈرہ، فرہنگ علمی و انتقادی فلسفہ کلمۂ Humanism کے ذیل میں

. Lewis W, spitz Encyclopedia of Religion

Abbagnano, Nicola Encyclopedia of Philosophy

۴۱

''ہیومنزم '' ہر اس فلسفہ کو کہتے ہیں جو انسان کے لئے مخصوص اہمیت و منزلت کاقائل ہو اور اس کو ہر چیزکے لئے میزان قرار دیتا ہو، تاریخی لحاظ سے انسان محوری یاہیومنزم ایک ادبی ، سماجی ، فکری اور تعلیمی تحریک تھی، جو چند مراحل کے بعد سیاسی ، اجتماعی رنگ میں ڈھل گئی تھی ، اسی بنا پراس تحریک نے تقریباً سبھی فلسفی ، اخلاقی ، ہنری اور ادبی اور سیاسی مکاتب کو اپنے ماتحت کرلیا تھا یا یوں کہا جائے کہ یہ تمام مکاتب (دانستہ یا نادانستہ ) اس میں داخل ہو گئے تھے ، کمیونیزم(۱) سودپرستی(۲) مغربی روح پرستی(۳) شخص پرستی(۴) وجود پرستی(۵) آزاد پرستی(۶) حتی پیرایش گری(۷) لوتھرمارٹن(۸) (مسیحیت کی اصلاح کرنے والے ) کے اعتبار سے سبھی انسان محوری میں شریک ہیں اوران میں ہیومنزم کی روح پائی جاتی ہے۔(۹) یہ تحریک عام طور پر روم اور یونان قدیم سے وابسطہ تھی ۰ ) اور اکثر یہ تحریک غیر دینی اور اونچے طبقات نیز روشن فکر حلقہ کی حامی و طرفدار رہی ہے ،(۱۱) جو ۱۳ویں صدی کے اواخر میں جنوب اٹلی میں ظاہر ہوئی، اور پورے اٹلی میں پھیل گئی،اس کے بعد جرمن ، فرانس ، اسپین اور انگلیڈ میں پھیلتی چلی گئی اور مغرب میں اس کوایک نئے سماج کے روپ میں شمار کیا جانے لگا ۔عقیدہ ٔ انسان مداری، اس معنی میں بنیادی ترین ترقی(۱۲) کا پیش خیمہ ہے اور ترقی پسندمفکرین، انسان کو مرکز ومحور بنا کر عالم فطرت اور تاریخ کے زاویہ سے

____________________

(۱) communism

(۲) pragmatism

(۳) spiritualism

(۴) Personalism

(۵) existentialism

(۶) Liberalism

(۷) protestantism

(۸) Luther,Martin

(۹)لالاند ، آندرہ ،گذشتہ حوالہ۔ (۱۰)پٹراک ( Francesco Petratch ) اٹلی کا مفکر و شاعر ( ۱۳۰۴۔ ۱۳۷۴) سوال کرتا تھا '' تاریخ روم کی تحلیل و تفسیرکے علاوہ تاریخ کیا ہوسکتی ہے ؟ملاحظہ ہو: احمدی ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ۹۲و ۹۳. بیوراکہارٹ ( Burackhardt Jacob )(۱۸۱۸۔۱۸۹۷)کہتا تھا :'' آتن''ہی وہ تنہادنیا کی سند تاریخ ہے جس میں کوئی صفحہ رنج آور نہیں ہے ،ہگل کہتا تھا : یورپ کے مدہوش لوگوں میں یونان کا نام ، وطن دوستی تھا۔ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ترجمہ عباس فجر ؛ ص ۱۷،۲۱،۲۳۔(۱۱)مفکرین کی حکومت سے مراد لائق لوگوں کا حاکم ہونا نہیں ہے بلکہ معاشرہ کے اونچے طبقات کی حکومت ہے ۔(۱۲) Renaissance

۴۲

انسان کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں ۔

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان محوری کا رابطہ روم اور قدیم یونان سے تھا اور انسان کو محور قرار دے کر گفتگو کرنے والوں کا خیال یہ تھاکہ انسان کی قابلیت ، لیاقت روم او ر قدیمیونان کے زمانہ میں قابل توجہ تھی ، چونکہ قرون وسطی میں چشم پوشی کی گئی تھی ، لہٰذا نئے ماحول میں اس کے احیاء کی کوشش کی جانی چاہیئے ،ان لوگوں کا یہ تصور تھا کہ احیاء تعلیم و تعلم کے اہتمام اور مندرجہ ذیل علوم جیسے ریاضی ، منطق ، شعر ، تاریخ ، اخلاق ، سیاست خصوصاً قدیمیونان اور روم کی بلاغت و فصاحت والے علوم کے رواج سے انسان کو کامیاب و کامران بنایا جاسکتا ہے جس سے وہ اپنی آزادی کا احساس کرے ، اسی بنا پر وہ حضرات جو مذکورہ علوم کی تعلیم دیتے تھے یا اس کے ترویج و تعلیم کے مقدمات فراہم کرتے تھے انہیں''ہیومنیسٹ '' کہا جاتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو:ڈیوس ٹونی : ہیومنزم: ص ۱۷۱؛ Abbagnano Nicola lbid

۴۳

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب

ہیومنزم کی پیدائش کے اسباب و علل کے بارے میں بحث و تحقیق مزید وضاحت کی طالب ہے لیکن یہاں فقط دو اہم علتوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے ۔

ایک طرف تو بعض دینی خصوصیات اور کلیسا ئی نظام کی حاکمیت مثلاً مسیحیتکے احکام اور بنیادی عقائد کا کمزور ہونا ،فہم دین او راس کی آگاہی پر ایمان کے مقدم ہونے کی ضرورت ، مسیحیت کی بعض غلط تعلیمات جیسے انسان کو فطرتاً گنہگار سمجھنا ،بہشت کی خرید و فروش ، مسیحیت کاعلم و عقل کے خلاف ہونا ، علمی و عقلی معلومات پر کلیسا کی غیر قابل قبول تعلیمات کو تحمیل کرنا وغیرہ نے اس زمانے کے رائج و نافذ دینی نظام یعنی مسیحیتکی حاکمیت سے رو گردانی کے اسباب فراہم کئینیز روم او رقدیم یونان کو آئیڈیل قرار دیا کہ جس نے انسان اور اس کی عقل کو زیادہ اہمیت دی ہے ۔

۴۴

اور دوسری طرف بہت سے ہیومنیسٹ حضرات نے جو صاحب قدرت مراکز سے مرتبط تھے اور دین کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں سر سخت مانع سمجھ رہے تھے گذشتہ گروہوں کی حکومت کے لئے راہ حل مہیا کرنے میں سیاسی تبدیلی اور تجدد پسندی کی(۱) عقلی تفسیراور اس کے منفی مشکلات کی توجیہ کرنے لگے،'' ڈیوس ٹونی''(۲) کے بقول وہ لوگ ؛سات چیزوں کے ماڈرن پہلوؤں کی توجیہ ، دین اور اس کی عظمت و اہمت پر حملہ اور کلیسائی نظام کو اپنا طریقۂ کار قراردینا(۳) اور عوام کی ذہنیت کو دین اور دینی علماء سے خراب کرنا نیزدین کی سیاست اور اجتماع سے جدائی کی ضرورت پر کمربستہ ہوگئے ۔ مذکورہ دوسبب سے اپنی حفاظت کی تلاش میں کلیسا،اجتماع اور سیاست کے میدان سے دین کے پیچھے ہٹ جانے کا ذریعہ بنا ،اس تحریک میں دین اور خدا کے سلسلہ میں نئی نئی تفسیریں جیسے خدا کوماننالیکن دین اور تعلیمات مسیحیت کا انکار کرنا، دین میں شکوک وبدعتیں(۴) نیز کسی بھی دین اور اس کی عظمت و اہمیت میں تسامح و تساہل(۵) ، دینی قداست اور اقدار کے حوالے سے(۶) مختلف طریقۂ عمل اور نئے انداز میں تعلیمات دینی کی توضیح و تفسیر شروع ہوگئی ۔

ہیومنزم کے اجزا ئے ترکیبی اور نتائج(۷)

ہیومنزم کی روح اورحقیقت ،جو ہیومنزم کے مختلف گروہوں کے درمیان عنصر مشترک کو تشکیل دیتی ہے اورہر چیز کے محور و مرکز کے لئے انسان کو معیار قرار دیتی ہے(۸) اگر اس گفتگو کی منطقی ترکیبات

____________________

(۱) Modernity

(۲) Davis,Toni

(۳)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ص ۱۷۱

(۴) Religious Ploralism

(۵) Tolerance

(۶) Protestantism

(۷)ماڈرن انسان کے متنوع ہونے اور ہر گروہ کے مخصوص نظریات کی بناپر ان میں سے بعض مذکورہ امور ہیومنزم کے ائتلاف میں سے ہے اوربعض دوسرے امور اس کے عملی نتائج و ضروریات میں سے ہیں ۔ قابل ذکر یہ ہے کہ نتائج سے ہماری مراد عملی و عینی نتائج و ضروریات سے اعم ہے ۔

(۸)لالانڈ ، آنڈرہ ،گذشتہ مطلب ، ڈیوس ٹونی ،گذشتہ مطلب ،ص۲۸۔

۴۵

اور ضروریات کو مدنظر رکھا جائے توجو معلومات ہمیں انسان محوری سے ملی ہے ہمارے مطلب سے بہت ہی قریب ہے ،یہاںہم ان میں سے فقط چار کی تحقیق و بررسی کریں گے ۔

عقل پرستی(۱) اور تجربہ گرائی(۲)

ہیومنزم کی بنیادی ترکیبوں میں سے ایک عقل پرستی ، خود کفائی پر اعتقاد، انسانی فکر کااپنی شناخت میں آزاد ہونا ، وجود ، حقیقی سعادت اور اس کی راہ دریافت ہے ۔(۳) معرفت کی شناخت میں ہیومنیسٹ افراد کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسی کوئی چیزنہیں ہے جو فکری توانائی سے کشف کے قابل نہ ہواسی وجہ سے ہر وہ موجود کہ جس کی شناخت کے دو پہلو تھے ، ماوراء طبیعت جیسے خدا ، معاد ، وحی اور اعجاز وغیرہ (جس طرح دینی تعلیمات میں ہے ) اس کو وہ لوگ غیرقابل اثبات سمجھتے تھے ۔ اور اہمیت شناخت میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ حقوقی ضرورتوں کو انسان کی عقل ہی کے ذریعہ معین کرنا چاہیئے۔ ہیومنزم ایک ایسی تحریک تھی جو ایک طریقہ سے اس سنتی آئین کے مد مقابل تھی جو دین و وحی سے ماخوذ تھے اسی بنا پر پہ ہیومنزم ، دین کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھتاہے ۔(۴) انسانی شان و منزلت کے نئے نئے انکشافات سے انسان نے اپنی ذات کو خدا پرست کے بجائے عقل پرست موجود کا عنوان دیا، علم پرستی یا علمی دیوانگی(۵) ایسی ہی فکر کا ماحصل ہے ۔ ہیومنیسٹ حضرات اٹھارہویں صدی میں ہیوم(۶) (۱۷۱۱۔ ۱۷۷۶) کی طرح معتقد تھے کہ کوئی ایسا اہم سوال کہ جس کا حل علوم انسانی میں نہ ہو(۷) وجود نہیںرکھتا ہے ۔ اومنیسٹ حضرات کی قرون وسطی سے دشمنی اور یونان قدیم سے گہرا رابطہ بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے ، وہ لوگ یونان قدیم کو تقویتِ عقل اور قرون وسطی کو جہل و خرافات کی حاکمیت کا دور سمجھتے تھے ۔

____________________

(۱) Scientism

(۳) Empiricism

(۲) Rationalism

(۴) Abbagnano

(۵) lbid

Hume, David (۶ )

(۷)ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ص ۱۶۶۔

۴۶

یہ عقل اور تجربہ پرستی کی عظیم وسعت ، دین و اخلاق کے اہم اطراف میں بھی شامل ہے ۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ سبھی چیز منجملہ قواعد اخلاقی، بشر کی ایجاد ہے اور ہونا بھی چاہئے۔(۱) والٹرلپمن(۲) کتاب ''اخلاقیات پر ایک مقدمہ ''(۳) میں لکھتا ہے کہ ہم تجربہ میں اخلاقی معیار کے محتاج ہیں اس انداز میں زندگی بسر کرنا چاہیئے جو انسان کے لئے ضروری اور لازم ہے۔ ایسانہ ہو کہ اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ سے منطبق کریں بلکہ شرائط سعادت کے اعتبار سے انسان کے ارادہ کواچھی شناخت سے منطبق ہو نا چاہیئے۔(۴)

استقلال

ہیومنیسٹ حضرات معتقد ہیں کہ : انسان دنیا میں آزاد آیا ہے لہٰذا فقط ان چیزوںکے علاوہ جس کووہ خود اپنے لئے انتخاب کرے ہر قید و بند سے آزاد ہونا چاہئے ۔ لیکن قرون وسطی کی بنیادی فطرت نے انسان کو اسیر نیزدینی اور اخلاقی احکام کو اپنے مافوق سے دریافت شدہ عظیم چیزوں کے مجموعہ کے عنوان سے اس پر حاکم کردیا ہے،(۵) ہیومنزم ان چیزوں کو ''خدا کے احکامات اور بندوں کی پابندی '' کے عنوان سے غیر صحیح اور غیر قابل قبول سمجھتے ہیں ۔(۶) چونکہ اس وقت کا طریقہ کار اور نظام ہی یہ تھا کہ قبول کیا جائے اور ان کی تغییر اور تبدیلی کا امکان بھی نہ تھا ۔(۷) لہٰذا یہ چیز یں ان کی نظر میں انسان کی آزادی اور استقلال

____________________

(۱)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

(۲) Walter lippmann

(۳) A Preface to morals

(۴)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ ۔

(۵) Abbagnano, Nicola, lbid

(۶)آربلاسٹر لکھتا ہے : ہیومنزم کے اعتبار سے انسان کی خواہش اور اس کے ارادے کی اصل اہمیت ہے ، بلکہ اس کے ارادے ہی ، اعتبارات کا سر چشمہ ہیںاور دینی اعتبارات جو عالم بالا میں معین ہوتے ہیں وہ انسان کے ارادے کی حد تک پہونچ کر ساقط ہو جاتے ہیں ،(آربلاسٹر، آنتھونی ؛ ظہور و سقوط لبرلیزم ؛ ص ۱۴۰)

(۷)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

۴۷

کے منافی تھیں ۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ انسان کو اپنی آزادی کوطبیعت و سماج میں تجربہ کرنا چاہیئے اور خود اپنی سرنوشت پر حاکم ہونا چاہیئے ،یہ انسان ہے جو اپنے حقوق کو معین کرتا ہے نہ یہ کہ مافوق سے اس کے لئے احکام و تکالیف معین ہوں۔ اس نظریہ کے اعتبار سے انسان حق رکھتا ہے اس لئیاس پرکوئی تکلیف عائد نہیں ہوتی ۔ بعض ہیومنزم مثلاً'' میکس ہرمان ''(۱) جس نے شخص پرستی کو رواج دیا تھا اس نے افراط سے کام لیا وہ معتقد تھا کہ : لوگوں کو اجتماعی قوانین کا جو ایک طرح سے علمی قوانین کی طرح ہیںپابند نہیں بنانا چاہیئے،(۲) وہ لوگ معتقد تھے کہ فقط کلاسیکل ( ترقی پسند) ادبیات نے انسان کی شخصیت کو پوری طرح سے فکری اور اخلاقی آزادی میں پیش کیا ہے۔(۳) اس لئے کہ وہ ہر شخص کو اجازت دیتا ہے کہ جیسا بھی عقیدہ ونظریہ رکھنا چاہتا ہے رکھ سکتا ہے اوردستورات اخلاقی و حقوقی کوایک نسبی امر، قابل تغییر اور ناپایدار بتایا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ سیاسی ، اخلاقی اور حقوقی نظام کو انسان اور اس کی آزادی کے مطابق ہونا چاہئے ۔ وہ نہ صرف دینی احکام کو لازم الاجراء نہیں جانتے تھے بلکہ ہر طرح کا تسلط اور غیر ہیومنزم چیزیں منجملہ قرون وسطی کے بنیادی مراکز (کلیسا ، شہنشاہیت(۴) ، اور قبیلہ والی حکومتیں یا حکام و رعیت ) کو بالکل اسی نقطۂ نگاہ کی بناپر بے اہمیت وبے اعتبار جانتے تھے ۔(۵)

____________________

(۱) Herman,Max

(۲)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ، ص ۳۴۔

(۳)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔

(۴) imperial

(۵) Feudaism

۴۸

تساہل و تسامح

۱۶و ۱۷ ویں صدی کی دینی جنگوں کے نتیجہ میں صلح و آشتی کے ساتھ باہم زندگی گزارنے کے امکان پر مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان گفتگو او رتساہل و تسامح(سستی و چشم پوشی ) کی تاکید ہوئی ہے، اور دینی تعلیمات کی وہ روش جو ہیومنزم کا احترام کرتی تھیں تساہل و تسامح کی روش سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں ، اس نظریہ میں تسامح کا مطلب یہ تھا کہ مذاہب ایک دوسرے سے اپنے اختلافات کو محفوظ رکھتے ہوئے باہم صلح و آتشی سے زندگی گذار سکیں ، لیکن جدید انسان گرائی کے تساہل و تسامح سے اس فکر کا اندازہ ہوتاہے کہ انسان کے دینی اعتقادات اسی کی ذات کا سر چشمہ ہیں اور اس کے علاوہ کوئی خاص چیز نہیں ہے ۔ ان اعتقادات کے اندر ،بنیادی اور اساسی چیز وحدت ہے کہ جس میں عالمی صلح کا امکان موجود ہے، ہیومنیسٹ اس دنیا کے اعتبار سے خدا کی یوں تفسیر کرتا ہے کہ : مسیح کا خدا وہی فلسفی بشر کی عقل ہے جو مذہب کی شکل میں موجود ہے۔(۱) اس زاویہ نگاہ سے مذاہب میں تساہل یعنی ، مسالمت آمیز زندگی گزارنے کے علاوہ فلسفہ اور دین کے درمیان میں بھی تساہل موجود ہے ، جب کہ یہ گذشتہ ایام میں ایک دوسرے کے مخالف تھے ۔ یہ چیز قدیم یونان اور اس کی عقل گرائی کی طرف رجوع کی وجہ نہیں تھی ۔ یہ نظریہ جو ہر دین اور اہم نظام کی حقانیت اور سعادت کے انحصاری دعوے پر مبنی ہے کسی بھی اہم نظام اور معرفت کو حق، تسلیم نہیں کرتا اور ایک طرح سے معرفت اور اہمیت میں مخصوص نسبت کا پیروکار ہے اسی بنا پر ہر دین اور اہم نظام کی حکمرانی فقط کسی فرد یا جامعہ کے ارادہ اور خواہش پر مبنی ہے ۔

سکولریزم(۲)

اگرچہ ہیومنزم کے درمیان خدا اور دین پر اعتقاد رکھنے والے افراد بھی ہیںاور انسان مداری (انسان کی اصالت کا قائل ہونا)کو مومن اور ملحد میں تقسیم کرتے ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہیومنزم کو بے دین اور دشمن دین نہ سمجھیں تو کم از کم خدا کی معرفت نہ رکھنے والے اور منکر دین ضرور ہیں، اور ہیومنزم کی تاریخ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ خدا کی اصالت کے بجائے انسان کو اصل قرار دینا ہی باعث بناکہ ہیومنزم افراد قدم بہ قدم سکولریزم اورالحادنیزبے دینی کی طرف گامزن ہو جائیں۔ خدا اور دینی تعلیمات کی جدید تفسیر کہ جس کو ''لوٹر ''جیسے افراد نے بیان کیاہے کہ خدا کو ماننا نیزخدا او ردین آسمانی کی مداخلت سے انکار

____________________

(۱) ibid

(۲) Secularism

۴۹

منجملہ مسیحی تعلیم سے انکار ، طبیعی دین ( مادّی دین ) اور طبیعی خدا گرائی کی طرف مائل ہونا جسے ''ولٹر''(۲) (۱۷۷۸۔۱۶۹۴ )اور ''ہگل ''(۳) (۱۸۳۱۔۱۷۷۰ )نے بھی بیان کیا ہے،اور '' ہیکسلی ''(۴) جیسے افراد کی طرف سے دین اور خدا کی جانب شکاکیت کی نسبت دینااور'' فیور بیچ ''(۵) (۱۸۳۳۔۱۷۷۵) ''مارکس ''(۶) ( ۱۸۸۳۔۱۸۱۸)نیز ملحد اور مادہ پرستوں نے دین اور خدا کا بالکل انکار کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ ایسے مراحل ہیں جنہیں ہیومنزم طے کرچکا ہے ۔البتہ غور و فکر کی بات یہ ہے کہ ہگل جیسے افراد کے نزدیک اس خدا کا تصورجو ادیان ابراہیمی میں ہے بالکل الگ ہے ۔دین اور خدا کی وہ نئی تفسیرجو جدید تناظر میں بیان ہوئی ہیں وہ ان ادیان کی روح سے سازگار نہیں ہے اور ایک طرح سے اندرونی طورپردینی افکارو اہمیت کی منکر اورانہیںکھوکھلا کرنے والی ہیں۔ بہر حال ہیومنزم کی وہ قسم جو مومن ہے اس کے اعتبار سے بھی خدا اور دین نقطہ اساسی اور اصلی شمار نہیں ہوتے بلکہ یہ انسانوں کی خدمت کے لئے آلہ کے طور پر ہیں،یہ انسان ہے جو اصل اور مرکزیت رکھتا ہے ،ڈیوس ٹونی لکھتا ہے : یہ کلمہ (ہیومنزم ) انگلیڈ میں یکتا پرستی(۷) حتی خدا شناسی سے ناپسندیدگی کے معنی میں استعمال ہوتا تھا اور یہ قطعا مسیحیوں اور اشراقیوں کی موقعیت سے سازگار نہیں تھا، عام طورپر یہ کلمہ الہی تعلیمات سے ایک طرح کی آزادی کا متضمن تھا ۔ ت.ھ. ہیکسلی(۸) ڈاروینزم کا برجستہ مفکر اور چارلز بریڈلیف(۹) قومی سکولریزم کی انجمن کے مؤسس نے روح یعنی اصل ہیومنزم کی مدد کی اور اس کو فروغ بخشا تاکہ اس کے ذریعہ

____________________

(۱) Deism

(۲) Voltaire

(۳) Hegel,Friedrich

(۴) Huxley,Julian

(۵) Feuerbach, von Anseim

(۶) Mark, karl .(۷)یکتا پرستی یا توحید ( Unitarianism )سے مراد مسیحیت کی اصلاح کرنے والے فرقہ کی طرف سے بیان کئے گئے توحید کا عقیدہ ہے جو کاٹولیک کلیسا کی طرف سے عقیدہ ٔ تثلیث کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے اوریہ ایک اعتبار سے مسیحیت کی نئی تفسیر تھی جوظاہراً مقدس متون کی عبارتوں سے ناسازگار اور مسیحی مفکرین کی نظر میں دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف تھی ۔ اورعام طور پر یہ کلمہ الٰہی تعلیمات سے آزادی کا متضمن تھا ۔

(۸) Thomas,Henry,Hexley

(۹)وہ پارلیمنٹ کا ممبر اور National Reformer نشریہ کا مدیر اعلیٰ تھا جس نے قسم کھانے کی جگہ انجیل کی تائید کے سلسلہ میں مجلس عوام سے ۶۰ سال تک مقدمہ لڑا۔

۵۰

سرسخت مسیحیت کے آخری توہمات کو بھی ختم کردے ۔(۱) نیز وہ اس طرح کہتا ہے کہ : ''ا گسٹ کانٹ''(۲) کے مادی اور غیر مادی افکار کے اقسام سے عناد، عوام پسند ہیومنزم کے مفہوم کا یکتا پرستی یا الحاد اور سکولریزم میں تبدیلی کا باعث ہوا ہے جو آج بھی موجود ہے ۔ اور اس کی تحریک کو ۱۹ویں صدی میں تاسیس انجمنوں کے درمیان مشاہدہ کیا جاسکتا ہے(۳) مثال کے طور پر عقل گرا(اصالت عقل کے قائل )مطبوعاتی ، اخلاقی اور قومی سکولریزم کی انجمنیں۔''ڈیوس ٹونی''اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں مسیحی ہیومنزم مومنین کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مسیحیت اور ہیومنزم کا پیوند اختلافات سے چشم پوشی کرکے انجام پایا جس کی وجہ سے مسیحی ہیومنزم کی ناپایدار ترکیب میں فردی ہیومنزم کے نقش قدم موجود تھے ۔ یعنی خداوند متعال جوہر چیز پر قادر ہے اور کالون کی ہر چیز سے باخبرہے اور فردی ارادہ کی آزادی کے درمیان تناقض،ایسے تناقض ہیں جو ''فیلیپ سیڈنی(۴) ، اڈموند اسپنسر(۵) کریسٹو فرمارلو(۶) ، جان ڈان(۷) اور جان ملٹن''(۸) جیسے اصلاح گرہیومنیسٹ کی عبارتوں میں جگہ جگہ ملتاہے ۔(۹) محمد نقیب العطاس بھی لکھتا ہے : ''نظشے '' کا نعرہ ''کہ خدا مرگیا ہے '' جس کی گونج آج بھی مغربی دنیا میں سنی جاسکتی ہے اور آج مسیحیت کی موت کا نوحہ خصوصاً پروٹسٹوں یعنی اصلاح پسندوں کی طرف سے کہ جنہوں نے ظاہراً اس سر نوشت کو قبول کرتے ہوئے مزید آمادگی سے زمانے کے ساتھ ساتھ طریقۂ مسیحیت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔ اس کاعقیدہ ہے کہ اصلاح پسندوںنے ہیومنزم کے مقابلہ میں عقب نشینی کے ذریعہ مسیحیت کودرونی طور پر بدل دیا ہے۔ ۰ ) ''ارنسٹ کیسیرر ''دور حاضر میں اصلاحات (رسانس) پر جاری تفکر کی توصیف میں جو

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ؛ ص ۳۷۔(۲) August,conte

(۳)گذشتہ حوالہ ، ص ۴۱۔(۴) Philip,sidney

(۵) Edmund, spenser

(۶) Chirs topher Marlowe

(۸) John,Don

(۹) John,Milton

(۱۰)العطاس ، محمد نقیب ، اسلام و دینوی گری ، ترجمہ احمد آرام ؛ ص ۳ و ۴۔

۵۱

ہیومنزم سے لیا گیا ہے اور اس سے ممزوج و مخلوط ہے لکھتا ہے :ایسا لگتا ہے کہ تنہا وسیلہ جو انسان کو تعبداور پیش داوری سے آزاد اور اس کے لئے حقیقی سعادت کی راہ ہموار کرتا ہے وہ پوری طرح سے مذہبی اعتقاد اور اقدار سے دست بردار ہونا اور اس کو باطل قرار دینا ہے ، یعنی ہر وہ تاریخی صورت کہ جس سے وہ وابستہ ہے اور ہر وہ ستون کہ جس پر اس نے تکیہ کیا ہے اس کی حاکمیت کی تاریخ اور عملی کارکردگی کے حوالے سے اس کے درمیان بہت گہرا فاصلہ ہے کہ جس کو ہیومنزم کے نظریہ پر اساسی و بنیادی تنقید تصور کیا جاتا ہے اور دور حاضر میں اصلاحات کی عام روش ، دین میں شکوک اور تنقید کا آشکار انداز ہے ۔(۱)

ہیومنزم کے نظریہ پر تنقید و تحقیق

فکرو عمل میں تناقض

فکرو عمل میں تناقض یعنی ایک فکری تحریک کے عنوان سے ہیومنزم کے درمیان اورانسانی معاشرہ پر عملی ہیومنزم میں تناقض نے انسان کی قدر و منزلت کو بلند و بالا کرنے کے بجائے اس کو ایک نئے خطرے سے دوچارکردیا اور انسان پرستی کے مدعی حضرات نے اس کلمہ کو اپنے منافع کی تامین کے لئے غلط استعمال کیاہے۔ شروع ہی میں جب حق زندگی ، آزادی و خوشی اور آسودگی کے تحت ہیومنزم میں انسانی حقوق کے عنوان سے گفتگو ہوتی تھی تو ایک صدی بعد تک امریکہ میں کالوں کو غلام بنانا قانونی سمجھا جاتاتھا ۔(۲) اور معاشرہ میں انسانوں کی ایک کثیر تعداد ماڈرن انسان پرستی کے نام سے قربان ہوتی تھی۔(۳) ''نازیزم''(۴) ''فاشیزم''(۵) اسٹالینزم(۶) امپریالیزم(۷) کی تحریکیں،ہیومنزم کی ہم فکراور ہم خیال تھیں(۸) اسی بنا پر بعض مفکرین نے ضد بشریت ، انسان مخالف تحریک

____________________

(۱)کیسیرر ، ارنسٹ؛ فلسفہ روشنگری؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، ص ۲۱۰۔

(۲)احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ۱۱۱۔ ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص ۳۶۔

(۳)گذشتہ حوالہ ،ص ۲۰(۸)ڈیوس ٹونی،وہی مدرک ،ص ۹،۵۴،۶۴،۸۴۔

(۴) Nazism

(۵) Fascism

(۶) Stalinism

(۷) Imperialism

۵۲

دھوکا دینے والی باتیں ، ذات پات کی برتری کی آواز جیسی تعبیروں کو نازیزم اور فاشیزم کی ایجاد جانا ہے اور ان کو انسان مخالف طبیعت کو پرورش دینے نیز مراکز قدرت کی توجیہ کرنے والا بتایا ہے ۔(۱) اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی جرم ایسا ہو جو انسانیت کے نام سے انجام نہ پایا ہو ۔(۲)

ہیومنزم کے ناگوار نتائج اور پیغامات ایسے تھے کہ بعض مفکرین نے اس کو انسان کے لئے ایک طرح کا زندان و گرفتاری سمجھا اور اس سے نجات پانے کے لئے لائحہ عمل بھی مرتب کیا ہے ۔(۳)

فکری حمایت کا فقدان

ہیومنزم کے دعوے کا اور ان کے اصول کا بے دلیل ہونا، ہیومنزم کا دوسرا نقطہ ضعف ہے ۔ ہیومنیسٹ ا س سے پہلے کہ دلیلوں و براہین سے جس کا دعویٰ کر رہے تھے نتیجہ حاصل کرتے، کلیسا کی سربراہی کے مقابلہ میں ایک طرح کے احساسات و عواطف میں گرفتار ہوگئے ،چونکہ فطرت پرستی سے بے حد مانوس تھے لہٰذا روم و قدیم یونان کے فریفتہ و گرویدہ ہوگئے ۔ ''ٹامس جفرسن''(۴) نے امریکا کی آزادی کی تقریر میں کہاہے کہ :ہم اس حقیقت کو بدیہی مانتے ہیں کہ تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیں ۔(۵)

''ڈیوس ٹونی '' لکھتا ہے کہ : عقلی دور(ترقی پسند زمانہ) کا مذاق اڑانے والی اور نفوذ والی کتاب جس نے محترم معاشرہ کو حتی حقوق بشر کی کتاب سے زیادہ ناراض کیا ہے، وہ مقدس کتاب ہے جو عالم آخرت کے حوادث اور سرزنش سے بھری ہوئی ہے،اس کا طریقہ اور سیاق و سباق تمام مسخروں اور مذاق اڑانے والوں کا مسخرا کرناہے ۔ بعض اومانٹسٹ حضرات نے بھی ہیومنزم کی حاکمیت کی توجیہ کی اوراسے اپنے منافع کی تامین کا موقع و محل سمجھا ۔

____________________

(۱)ملاحظہ ہو گذشتہ حوالہ ص ۲۷۔۳۶، ۴۵۔۴۶،۵۴۔۶۲،۶۴،۸۴۔۹۴،۱۴۷۔۱۷۸ واحدی ، بابک گذشتہ حوالہ ص ۹۱۔۹۳، ۱۱۰،۱۲۲.

(۲)احمدی ، بابک ، گذشتہ حوالہ ص ۱۱۲۔

(۳)ڈیوس ٹونی ، گذشتہ حوالہ ،۱۷۸۔

(۴) Thomas, Jeferson

(۵) گذشتہ حوالہ ، ص ۱۱۰۔

۵۳

ہیومنیسٹ کی طرف سے بیان کئے گئے کلی مفاہیم کے بارے میں ''ڈیوس ٹونی ''یہ جانتے ہوئے کہ اس کو منافع کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے لکھتا ہے کہ : اس میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ خود سے سوال کرے کہ : اس عظیم دنیا میں بلند مفاہیم کے پشت پردہ کون سا شخصی اور محلی فائدہ پوشیدہ ہے؟(۱) مجموعی طور پر ہیومنیسٹ، انسان کی قدر و منزلت اور فکری اصلاح کے لئے کوئی پروگرام یا لائحہ عمل طے نہیں کرتے تھے بلکہ گذشتہ معاشرہ کی سرداری کے لئے بہت ہی آسان راہ حل پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ...''لیونارڈو برونی ''(۲) نے لکھا تھا کہ : تاریخی تحقیق ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ کیسے اپنے بادشاہوں اور حاکموں کے حکم اور عمل کا احترام کریں اور بادشاہوں ، حاکموں کو اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ کیسے اجتماعی مسائل کا لحاظ کریں تاکہ اپنی قدرت کو اچھی طرح سے حفظ کرسکیں،(۳) غرض کہ ہر وہ چیز جو قرون وسطی کی نفی کرے یہ لوگ اس کا استقبال کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی کرتے تھے ۔ کلیسا کی حاکمیت ،خدا و دین کا نظریہ انسان کا فطرةً گناہگار اور بد بخت ہونا ، معنوی ریاضت نیز جسمانی لذتوں سے چشم پوشی اور صاحبان عقل و خرد سے بے اعتنائی یہ ایسے امور تھے جو قرون وسطی میں معاشرہ پر سایہ فکن تھے ۔ اورہیومنیسٹوں نے کلیسا کی قدرت و حاکمیت سے مقابلہ کرنے کے لئے ، خدا محوری اور اعتقادات دینی کو پیش کیااور انسان کی خوش بختی ،جسمانی لذتوںاور صاحبان خرد کو اہمیت دینے نیز حقوق اللہ اور اخلاقی شرط و شروط سے انسان کو آزاد کرنے کے لئے آستین ہمت بلند کی ۔(۴) وہ لوگ علی الاعلان کہتے تھے کہ : قرون وسطی کے زمانے میں کلیسا نے جو حقوق واقدار انسان سے سلب کر لئے تھے، ہم اس کو ضرور پلٹائیں گے ۔(۵)

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ص،۳۶۔(۲) Abagnano,Nicola,ibid (۳) احمد، بابک ، گذشتہ حوالہ؛ ص، ۹۱ و ۹۳ (۴)ویل ڈورانٹ لکھتا ہے کہ ہیومنیسٹوں نے دھیرے دھیرے اٹلی کی عوام کو خوبصورتی سے شہوت کے معنی سمجھائے جس کی وجہ سے ایک سالم انسانی بدن کی کھلی ہوئی تہذیب (خواہ مرد ہو یا عورت خصوصاً برہنہ ) پڑھے لکھے طبقوں میں رائج ہوگی ۔ویل ڈورانٹ ، تاریخ تمدن ، ج ۵ص ۹۷۔۹۸. جان ہرمان بھی لکھتا ہے کہ : قرن وسطی کے اواخر میں بھی بہت سی گندی نظموں کا سلسلہ رائج ہوگیا تھا جو زندگی کی خوشیوں سے بطور کامل استفادہ کی تشویق کرتی تھی ۔ رنڈل جان ہرمان ، سیر تکامل عقل نوین ، ص ۱۲۰۔

Leonardo Bruni(۵)

۵۴

بہرحال انسان محوری ( اصالت انسان ) کے عقیدے نے ہر چیز کے لئے انسان کو میزان و مرکز بنایا اورہر طرح کی بدی اور مطلق حقائق کی نفی، نیز فطرت سے بالاتر موجودات کا انکار منجملہ خدا اور موت کے بعد کی دنیا (آخرت)کے شدت سے منکر تھے۔آخر وہ کس دلیل کی بنا پر اتنا بڑا دعویٰ پیش کرتے ہیں ؟ان کے پاس نہ ہی معرفتِ وجوداور نہ ہی انسانوں کی کاملا آزادی واختیار(۱) پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی خدا کے انکار اور اس کے قوانین اور وحی سے بے نیازی پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی شناخت کی اہمیت کے سلسلہ میں کوئی پروف ہے ۔ اور نہ ہی بشر کے افکار و خیالات ، آرزوؤں ، خواہشوں نیزحقوقی و اخلاقی اہمیتوںپر کوئی ٹھوس ثبوت ہے اور نہ ہی فلسفی اور عقلی مسائل کو بعض انسان پرست فلاسفہ کی نفسیاتی تحلیلوں سے ثابت کیا جا سکتاہے ۔ بلکہ عقلی اور نقلی دلیلیں نیز شواہد و تجربات اس کے خلاف دلالت کرتے ہیں، اگرچہ انسان اسلامی تعلیمات اورادیان ابراہیمی کی نگاہ میں مخصوص منزلت کا حامل ہے اور عالم خلقت اور کم از کم اس مادی دنیا کو انسان کامل کے توسط سے انسانوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اوروہ اس کی تابع ہے ۔ لیکن جیسا کہ متعدد دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کا سارا وجود خدا سے وابستہ اور اس کے تکوینی اور تشریعی تدبیر کے ماتحت ہے اور اسی کا محتاج ہے اور اس کی مدد کے بغیر تکوینی اور تشریعی حیثیت سے انسان کی سعادت غیر ممکن ہے ۔

____________________

(۱)انسان محوری کا نظریہ رکھنے والوں میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان بہت زیادہ اختیارات کا حامل ہے ان کا کہنا ہے کہ انسان جس طریقہ سے چاہے زندگی گذار سکتا ہے ۔ ژان پل ، سارٹر کہتا ہے کہ : اگر ایک مفلوج انسان دوڑمیں ممتاز نہ ہوسکتا ہو تو یہ خود اس کی غلطی ہے ، اسی طرح وہ لوگ اعمال کے انجام دینے(عامل خارجی کو بغیر مد نظر رکھتے ہوئے خواہ حقوقی ، سنتی ، اجتماعی ، سیاسی ، غیر فطری افعال) میں انسان کی ترقی سمجھتے ہیں ۔

۵۵

فطرت اور مادہ پرستی

قریب بہ اتفاق اکثرہیومنزم کے ماننے والوں نے فطرت پسندی کو انسان سے مخصوص کیا ہے

او ر اس کو ایک فطری موجود اور حیوانات کے ہم پلہ بتایا ہے۔ حیوانوں ( چاہے انسان ہو یا انسان کے علاوہ ) کے درجات کو فقط فرضی مانتے ہیں ۔(۱) انسان کے سلسلہ میں اس طرح کے فکری نتائج اور ایک طرف فائدہ کا تصور، مادی لذتوں کا حقیقی ہونا اور دنیائے مغرب کی تباہی اور دوسری طرف سے ہر طرح کی اخلاقی قدرو منزلت ، معنوی حقوق ، معنوی کمالات اور ابدی سعادت کی نفی کی ہے ۔

ہم آئندہ مباحث میں ثابت کریں گے کہ نہ تو انسان حیوانوں کے برابر ہے اور نہ ہی مادی اور فطری اعتبار سے منحصر ہے اور نہ ہی اس کی دنیا صرف اسی مادی دنیا سے مخصوص ہے ،انسان ایک جہت سے غیر مادی پہلو رکھتا ہے اور دوسری جہت سے انسان موت سے نابودنہیں ہوتااور اس کی زندگی مادی زندگی میں محدود نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا آخری کمال خدا سے قریب ہونااور خدا جیسا ہونا ہے جس کی کا مل تجلی گاہ عالم آخرت ہے جیسا کہ وجود شناسی کے مباحث میں ثابت ہو چکا ہے،خدا صرف ایک فرضی موجود اور انسان کی آرزو، خیالات اور فکری محصول نہیں ہے بلکہ اس کا ایک حقیقی و واقعی وجود ہے نیز وہ تمام وجود کا مرکز اور قدر و منزلت کی خواہشوں کی آماجگاہ ہے سارے عالم کا وجود اس سے صادر ہوا ہے اور اسی سے وابستہ ہے اور اس کی تکوینی و تشریعی حکمت و تدبیر کے ما تحت ہے ۔

ہیومنزم اور دینی تفکر

عقل و خرد ، خدائی عطیہ ہے اور روایات کی روشنی میں باطنی حجت ہے جو خداکی ظاہری حجت یعنی انبیاء کے ہمراہ ہے، لہٰذا ہیومنزم کی مخالفت کو، عقل و صاحبان خرد کی مخالفت نہیں سمجھنا چاہیئے،وہ چیزیں جو ہیومنزم کی تنقید کے سلسلہ میں بیان ہوتی ہیں وہ عقل کو اہمیت دینے میں افراط، خدا اور عقل کوبرابر سمجھنا یا عقل کو خدا پر برتری دینا اور عقل پرستی کو خدا پرستی کی جگہ قرار دینا ہے ۔ دین کی نگاہ میں عقل انسان کو خدا کی طرف ہدایت کرتی ہے اور اس کی معرفت و عبادت کی راہ ہموار

____________________

(۱)فولادوند، عزت اللہ ؛ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون '' نگاہ حوزہ ؛ شمارہ ۵۳و ۵۴،ص ۱۰۴۔۱۱۱.

۵۶

کرتی ہے ،امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ''العَقلُ مَا عُبدَ بِه الرَّحمٰن و اکتسِبَ بِه الجنَان ''(۱) عقل وہ ہے جس کے ذریعہ خدا کی عبادت ہوتی ہے اور بہشت حاصل کی جاتی ہے اور ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے کہ فرمایا :''رَبّنَا یعرفُ بالعقلِ و یُتوسل لَیه بالعَقلِ ''(۲) ہمارا خدا عقل کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور عقل ہی کے ذریعہ اس سے رابطہ برقرار ہوتا ہے۔

عقل کا صحیح استعمال ،انسان کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ یوں ہی آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ کی ربوبیت کے زیر سایہ ہے ۔نیز اخلاقی اقدار اور حقوقی اہمیت کے اصول ،عقل اور الٰہی فطرت کی مدد سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن عقل کی رہنمائی اورتوانائی کی یہ مقدار جیسا کہ وہ لوگ خود بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ نہ ہی ہیومنزم کی فرد پرستی کا مستلزم ہے اور نہ ہی انسان کی حقیقی سعادت کے حصول کے لئے کافی ہے، وہ چیزیںجو عقل ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہے وہ کلی اصول اور انسان کی ضرورتوں کی مبہم تأمین اور افراد کے حقوق اور عدالت کی رعایت نیز انسان کی بلند و بالا قدر و منزلت ، آزادی اور آمادگی اور اس کی قابلیت کی سیرابی ہے ۔ لیکن حقیقی سعادت کے لئے بیان کئے گئے میزان و حدود اور اس کے مصادیق و موارد کا پہچاننا ضروری ہے ۔ وہ چیزیں جو عقل بشر کی دسترس سے دور ہیں وہ ہیومنزم نظریے خصوصاً ہیومنزم تجربی ( اومانیز کی ایک قسم ہے ) کے حامی اس سلسلہ میں یقینی معرفت کے عدم حصول کی وجہ سے مختلف ادیان و مکاتب کے ہر فرضی نظریہ کو پیش کرتے ہیں اور معرفت وسماجی پلورالیزم کے نظریہ کو قبول کرتے ہیں ۔(۳) تاریخی اعتبار سے اس طرح کے فلسفہ اور نظریات ،نوع بشر کو آزادی اور سعادت کی دعوت دینے کے بجائے خوفناک حوادث و مصائب کی سوغات پیش کرتے ہیں ۔(۴) اور ان نتائج کو فقط ایک امر اتفاقی اور اچانک وجود میں آنے والا حادثہ نہیں سمجھنا چاہیئے،

____________________

(۱)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ج۱، ص ۱۱۶و ۱۷۰۔

(۲)گذشتہ مدرک ص ۹۳

(۴)ملاحظہ ہو؛ معمای مدرنیتہ ؛ فصل ہفتم۔

(۳)مومٹنگ کہتا ہے کہ : ''ہم کو تجربہ کے ذریعہ حقیقت تک پہونچنا چاہیئے ، لیکن دنیا حتی انسان کے بارے میں یقین حاصل کرنا مشکل ہے اور یہ تمام چیزیں منجملہ اخلاقی اصول خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ہمیں تمام آداب و رسوم کا احترام کرنا چاہیئے اور پلورالیزم معاشرہ کو قبول کرنا چاہیئے ''( فولادوند ، عزت اللہ ؛ گذشتہ مدرک )

۵۷

اگر انسان کو خود اسی کی ذات پر چھوڑ دیا جائے اس طرح سے کہ وہ کسی دوسری جگہ سے رہنمائی اور زندگی ساز ضروری پیغام دریافت نہ کرے توقوت عاطفہ ، غضبیہ اور شہویہ جو فطری طور سے فعال رہتی ہیں اور ہمیشہ تکامل کی طرف گامزن ہیں ساتھ ہی ساتھ اس کی خواہش بھی اس پر حاکم ہوجائے گی اور اس کی عقل سلیم نہ فقط ان امور کے ماتحت ہوجائے گی بلکہ ناپسندیدہ اعمال کی انجام دہی کے لئے عقلی بہانے تراشتی پھرے گی ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ :( إنّ الاِنسَان لیَطغیٰ أن رَاهُ استَغنَی ) (۱) یقینا انسان سر کشی کرتا ہے اس لئے کہ وہ خود کو بے نیاز سمجھتا ہے ۔

بے قید وشرط آزادی

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ ہیومنزم کے ماننے والے معتقد تھے کہ: انسانی اقدار،حمایت اور طرفداری کے لئے بس فلسفی قوانین ہیں، دینی عقاید و اصول اورانتزاعی دلیلیںانسانی اقدار اور اس کی اہمیت کو پیش کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔(۲) انسان کو چاہیئے کہ خود اپنی آزادی کو طبیعت (مادہ) اور معاشرہ میں تجربہ کرے ایک نئی دنیا بنانے اور اس میں خاطر خواہ تبدیلی اور بہتری لانے کی صلاحیت انسان کے اندر پوری پوری موجود ہے۔(۳) ایسی بکھری ہوئی اور بے نظم آزادی جیسا کہ عملاً ظاہر ہے بجائے اس کے کہ انسان کی ترقی کی راہیں اور اس کی حقیقی ضرورتوں کو تامین کریں انسان پر ستم اور اس کی حقیقی قدر و منزلت اور حقوق سے چشم پوشی کا ذریعہ ہو گئی اورمکتب فاشیزم و نازیزم کے وجود کا سبب بنی۔ ''ہارڈی ''کتاب ''بازگشت بہ وحی'' کا مصنف اس کے نتیجہ کو ایک ایسے سانحہ سے تعبیر کرتا ہے کہ جس کا ہدف غیرمتحقق ہے۔ اس سلسلہ میں لکھتا ہے کہ :بے وقفہ کمال کی جانب ترقی اور پھر اچانک اس راہ میں شکست کی طرف متوجہ ہونا ۱۹ ویں صدی میں یہی وہ موقعہ ہے جس کو''سانحہ'' سے

____________________

(۱)سورۂ علق ۶و ۷.

(۲) Encyclopedia Britanica. (۳)Abbagnona, Nicola,ibid

۵۸

تعبیر کیا گیا ہے جو ماڈرن ( ترقی پسند) ہونے کی حیثیت سے مشخص ہے ۔(۱)

حقیقی اور فطری تمایل کی وجہ سے وجود میں آئی ہوئی انسان کی خود پسندی میں تھوڑا سا غور و خوض ہمیں اس نتیجہ تک پہونچاتا ہے کہ اگر انسان کی اخلاقی اور حقوقی آزادی دینی تعلیمات کی روشنی میں مہار نہ ہو، توانسان کی عقل ، ہوس پرستی اور بے لگام حیوانی خواہشات کے زیر اثرآکرہر جرم کو انجام دی سکتی ہے۔(۲) قرآن مجید اوراسلامی روایات بھی اس نکتہ کی طرف تاکید کرتے ہیں کہ وحی سے دور رہ کرانسان خود اور دوسروں کی تباہی کے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ نیز خود کو اور دوسروں کو سعادت ابدی سے محروم کرنے کے علاوہ اپنی دنیاوی زندگی کو بھی تباہ و برباد کرتا ہے(۳) یہی وجہ ہے کہ قرآن انسان کو (ان شرائط کے علاوہ جب وہ خود کو خدائی تربیت و تعلیم کے تحت قرار دیتا ہے ) خسارت والا اور شقی سے تعبیر کرتاہے( إنَّ النسَانَ لَفِی خُسرٍ لاّ الَّذِینَ آمنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالحَاتِ وَ تَوَاصَوا بِالحقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ ) (۴) یقینا انسان خسارے میں ہے مگر وہ افراد جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح انجام دیا اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں '' اور دوسری طرف ہیومنزم کی بے حد و حصر آزادی کہ جس میں فریضہ اور عمومی مصالح کی رعایت اور ذمہ داری کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، اس نظریہ میں ہر انسان کے حقوق ( واجبات کے علاوہ ) کے بارے میں بحث ہوتی ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اپنے حق کو بجالائے نہ کہ اپنی تکلیف اور ذمہ داری کو، اس لئے کہ اگر کوئی تکلیف اور ذمہ داری ہے بھی تو حق کے سلسلہ ادائگی میں اسے آزادی ہے ۔(۵)

____________________

(۱)ڈیوس ٹونی ؛ گذشتہ حوالہ، ص ۴۴و ۴۵۔ (۲)ڈیوس ٹونی کہتا ہے : ایسا لگتا ہے کہ جفرسون اور اس کے مددگار ۱۷۷۶کے بیانیہ میں مندرج عمومی آزادی کو اپنے غلاموں یا ہمسایوں میں بھی رواج دیتے تھے ۔ (۳)اس سلسلہ میں قرآن کے نظریہ کی وضاحت آئندہ مباحث میں ذکر ہوگی (۴) سورۂ عصر ۲و ۳۔ (۵)ہم یہاں اس مسئلہ کو ذکر کرنا نہیں چاہتے کہ انسان کا مکلف ہونا بہت ہی معقول اور فائدہ مند شی ہے یا اسی طرح حق بین اور حق پسند ہونا بھی معقول ہے .لیکن ہم مختصراً بیان کریں گے کہ اجتماعی تکالیف اور دوسروں کے حقوق کے درمیان ملازمت پائے جانے کی وجہ سے الہی اور دینی تکالیف مورد قبول ہونے کے علاوہ اسے مستحکم عقلی حمایت حاصل ہے دنیاوی فائدہ اور افراد معاشرہ کے حقوق کی تامین کے اعتبار سے ہیومنزم حق پرستی پر برتری رکھتا ہے ۔اس لئے کہ اس معتبر نظام میں جب کہ ہر فرد اپنا حق چاہتا ہے اس کے باوجود اگر کوئی دوسروں کے حقوق کی رعایت کے مقابلہ میں احساس مسئولیت کرتا ہے تووہ خود کو خداوند منان کی بارگاہ میں جواب گو سمجھتا ہے ۔

۵۹

اجتماعی صورت میں ہیومنزم کے ماننے والوں کی آزادی یعنی جمہوریت نیز حقوقی، اجتماعی قوانین کے حوالے سے نسبی آزادی کے قائل ہیںجو دینی نظریہ سے مناسبت نہیں رکھتے ۔

ہمارے دینی نظریہ کے مطابق سبھی موجودات کا وجود خدا کی وجہ سے ہے اور تمام انسان مساوی خلق ہوئے ہیںنیز ہر ایک قوانین الہی کے مقابلہ میں ذمہ دار ہے اور حاکمیت کا حق صرف خدا کوہے ۔ پیغمبر، ائمہ اور ان کے نائبین ،ایسے افراد ہیں جن کو ایسی حاکمیت کی اجازت دی گئی ہے ۔ حقوقی اور اخلاقی امورجو اللہ کی طرف سے آئے ہیںاور معین ہوئے ہیں ثابت اور غیر متغیر ہیں۔دین کی نگاہ میں اگرچہ افراد کے حقوق معین و مشخص ہیں جس کو عقل اور انسانی فطرت کلی اعتبار سے درک کرتی ہے لیکن حد و حصر کی تعیین اور ان حقوق کے موارد اور مصادیق کی تشخیص خدا کی طرف سے ہے اور تمام افراد، الہٰی تکلیف کے عنوان سے ان کی رعایت کے پابند ہیں، ہیومنزم کی نظر میں انسانوں کی آزادی کے معنی اعتقادات دینی کو پس پشت ڈالنا اور اس کے احکام سے چشم پوشی کرنا ہے لیکن اسلام اورادیان آسمانی میں انسانوں کے ضروری حقوق کے علاوہ بعض مقدسات اور اعتقادات کے لئے بھی کچھ خاص حقوق ہیں جن کی رعایت لازم ہے مثال کے طور پر انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے کے اعتبار سے جس نے بھی اسلام قبول کیا ہے اسلام کو چھوڑکر کافرو مشرک ہونے یا کسی دوسرے مذہب کے انتخاب کرنے میں بغیر کسی شرط کے وہ آزاد ہے۔ لیکن اسلام کی رو سے وہ مرتد ہے (اپنے خاص شرائط کے ساتھ ) جس کی سزا قتل یا پھانسی ہے جیسا کہ پیغمبر اور معصومین علیھم السلام کو ناسزا (سب ) کہنے کی سزا پھانسی ہے لیکن ہیومنزم کی نگاہ میں ایسی سزا قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک پیغمبر و ائمہ معصومین اور دیگر افراد کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اسی طرح انھوں نے شہر ارم کو قوم عاد سے متعارف کر ایا ہے ، یہ بات خدا وند عالم کی سورہ ٔفجر کی چھٹی تا نویں آیات سے مطابقت رکھتی ہے:

( اَلَمَ تَرَکَیفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ٭اِرَمَ ذَاتِ الْعِمادِ٭ الَّتِی لَمْ یُخلَق مِثْلُهَا فِیْ البِلادِ٭ وَ ثَمُودَ الَّذِینَ جَابوُاالصَّخْرَ بِا لْوٰادِ )

(اے ہمارے رسول!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟!. شہر ارم میں جو کہ بلند وبالا اور عالی شان محلوں والا تھا ؟ !

ایسا شہر کہ جس کا مثل دوسرے شہروں میںنہیں پیدا ہوا. اور قوم ثمود کے ساتھ جو وادی میں پتھروں کو کاٹ کر اپنے لئے پتھروں سے قصر تعمیر کرتے تھے؟!

اس طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کا شعر قرآن کر یم میں مذکور پیغمبروں اور ہلاک شدہ امتوں کی خبروں سے مطابقت رکھتا ہے۔

وہ جہاں پر اپنے اجداد کی توصیف کر تے ہیں اور انھیں اللہ کے نبیوں کی ردیف میں ، پسندیدہ اخلاق ، جیسے صلہ رحم اور عہد کے وفا کر نے والی صفت سے متصف ہو نے کی بناء پر، قرار دیتے ہیں، وہیں ان کی بات کی سچائی ان کے اجداد کی سیرت کے بارے میں ثابت ہوجاتی ہے، جو کہ گزشتہ فصلوں میں مفصل طور پر بیان کی گئی ہے۔

اور آپ کی یہ بات کہ: وہ لوگ حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہی آج تک آل اللہ اور خدا پرست ہیں اور خدا وند عالم ہمیشہ ان کے ذریعہ(یعنی جن لوگوں کو وہ آل اللہ اور حجت خدا کے عنوان سے متعارف کر تے ہیں) برائی اور ناگوار چیزوں کو دور کر تا ہے، یہ ایک ایسا مطلب ہے جو صحیح اور درست ہے .کیوکہ ان کے خدا پرست ہو نے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہیں کر تے اور ہم ان کی بات کی صداقت کو اس بات سے درک کر تے ہیں کہ پیغمبر کے آباء واجداد میں حضرت اسمٰعیل تک کسی کو ایسا نہیں پایا کہ بُت کو سجدہ کیا ہویا بُت کے لئے قربانی کی ہو،یا بت کے نام پر حج کا تلبیہ کہاہو یا بت کی قسم کھا ئی ہو یا بت کی کسی بیت یا کسی شعر میں مدح وستائش کی ہو،بلکہ ان تمام موارد میں بر عکس دیکھا ہے کہ انھوں نے خدا کا سجدہ کیا ہے اور خدا سے تقرب حاصل کر نے کے لئے قربانی کی ہے اور خداوند عالم کی قسم کھائی اور اُ س کی تعریف وتوصیف کی ہے.اس لحاظ سے حضرت عبد المطلب کی بات کا صادق ہو نا روشن وآشکار ہے۔

۲۴۱

رہی ان کی یہ بات کہ ان کے درمیان ہمیشہ خدا کی کوئی حجت رہی ہے، تو اس کے متعلق یا یہ کہیں کہ پروردگار عالم نے اپنے گھر کے ساکنوں کو مکّہ میں کہ جسے ام القری کہتے ہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے یعنی اس ام القریٰ اور اس کے اطراف میں رہنے والے اور وہ لوگ جو حج ادا کر نے کے لئے اس کے محترم گھر کی طرف آتے ہیں پانچ سو سال سے زیادہ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور کسی ایسے شخص کو جس کے پاس شریعت اسلام وہ لوگ حاصل کر سکیں ان کے درمیان قرار نہیں دیا ہے کہ اس بات کا غلط ہو نا واضح اور آشکا ر ہے؛اور ہم نے اس کتاب کی ربوبیت کی بحث میں تشریح کی ہے کہ پروردگار عالم اس طرح کی چیزوں سے منزہ اور مبرا ہے۔

یا یہ کہیں کہ:

پروردگار عالم نے مسلسل نسلوں کو پانچ سو سال سے زیادہ ام القریٰ اور اس کے اطراف میں ان کے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور اُن کے درمیان ایسے افراد کو قرار دیا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی دینی احکام سیکھنا چاہے تو وہ سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو؛ اس آیۂ شریفہ کے مصداق کے مطابق کہ خدا فرماتا ہے:

( وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوافِینَالَنَهْدِ یَنَّهُمْ سُبُلَنَا )

''اور وہ لوگ جو کہ ہماری راہ میں سعی و تلاش کرتے ہیں،ہم خود ہی انھیں اپنی راہ کی راہنمائی کرتے ہیں ''۔

اس بناء پر خدا وند عالم نے انھیں افراد کے درمیان ایسے لوگوں کو قرار دیا ہے کہ جو اُسی نسل کے سارے افراد پر حجت تمام کرتے ہیں. ایسی صورت میں دین خدا کی طرف ہدایت کر نے والا جناب عبد المطلب اور آپ کے آباء و اجداد کے علاوہ حضرت ابراہیم تک کون ہوسکتا ہے؟ پروردگار عالم کی قسم کہ خدا وند متعال نے ان کے درمیان ذریت حضرت ابراہیم سے حجتیں قرار دیں اور ان پر حجت تمام کی ہے اور ان کے ذریعہ بُرائی اور عذاب کو ان سے دور کیا ہے.اور جناب عبدالمطلب نے سچ کہا ہے کہ:

نحنُ آل الله فی ما قد مضیٰ

لم یزل ذاک علی عهد ابرهم

لم تزل الله فینا حجة

ید فع الله بها عنّا النقم

۲۴۲

جناب عبد المطلب کے شاعرانہ اسلوب میں بالخصوص مذکورہ با لا ابیات میں کہ آپ نے اپنے شکست خوردہ دشمن (ابرھہ اور اس کے سپا ہی) پر فخر ومباہات کے موقع پر کہا ہے اور جن فضائل و مناقب کو شمار کیا ہے گزشتہ اور موجودہ عرب کی شاعرانہ روش سے واضح اور آشکار فرق پا یا جا تا ہے ۔

کیونکہ آپ نے اپنے باپ ہاشم کے وجود ذی جود پر افتخار نہیں کیا ایسا سخی اور جواد باپ جس نے خشک سالی کے زما نے میں مکّہ والوں کو کھانا کھلانے کا بندو بست کیا اور اونٹوں پر تجا رتی اجناس بار کر نے کے بجائے مکّہ والوں کے لئے شام سے غذا لائے اور. پھر انھیں اونٹوں کو جن پر لوگوں کے لئے غذا لا د کر لائے تھے ،نحر کیا اور گرسنہ ( بھوکے) لوگوں کو سیر کیا. یہ ایسا کار نامہ انجام دیا ہے کہ اُن سے پہلے نہ کسی عرب نے ایسا کیا اور نہ ہی حاتم طائی نے اور نہ ہی ان سے پہلے یا بعد میں کسی اورنے انجام دیا اور نہ ہم نے گزشتہ امتوں کی داستان میں کو ئی ایسا کا رنامہ ملاحظہ کیا ہے. اور اپنے باپ کے اقدام کو جو کہ اعتفاد کی رسم کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ کو ئی گھرا نہ مجبوری اور گرسنگی(بھوک) کے زیر اثر موت سے دوچار نہ ہو اپنے لئے فخر شمار نہیں کر تے اور اس وقت عرب کو تجارت کے آداب سکھا نے اور اجناس کو آباد سرزمینوں میں لے جانے کو اپنی فوقیت و بر تری کا معیار نہیں سمجھتے۔

جناب عبد المطلب نے ان تمام فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو اپنے لئے افتخار کا باعث نہیں سمجھا،جب کہ تمام لوگوں کے درمیان مذکورہ بالا فضائل صرف اور صرف ان کے باپ ھا شم سے مخصوص تھے.اس طرح کے امور میں جو کہ خدمت خلق کا پتہ دیتے ہیں خود پر فخر ومباہات نہ کر نا اللہ کے نبیوں اور اس کی حجتوں کے واضح اورنمایا صفا ت میں سے ہے.یعنی یہ لوگ لوگوں کے ساتھ جود و بخشش کر کے اور معاشی امور میں ان کی خد مت کرکے لوگوں پر احسان نہیں جتاتے بلکہ صرف لوگوں کو اس منصب سے جو خدا نے اُن سے مخصوص کیا ہے اور لوگوں کو ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ہے آگاہ کرتے ہیں.یہ کام جناب عبد المطلب نے اپنے اشعار میں انجام دیا ہے جس میں فرماتے ہیںکہ ''ہم قدیم زمانے سے ہی آل اللہ تھے...''۔

۲۴۳

جناب عبد المطلب اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت

انساب الاشراف میں ختمی مرتبت حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولا دت سے متعلق اختصار کے ساتھ یوں ذکر کیا گیا ہے:

جب آمنہ کے بطنِ مبارک میں حضرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور استقرا ر پایا تو خواب میں کوئی ان کے دیدار کو آیا اور اُس نے کہا:

اے آمنہ! تم اس امت کے سید وسردار کی حامل ہو، جب تمہارا بچہ پیدا ہو جا ئے تو کہو:(اُعیذُک بالواحِد مِن شرِّ کُلِّ حاسدِ)۔

یعنی ''تمھیں ہر حاسد کے شر سے خدا وند واحد کی پناہ میں دیتی ہوں'' اور اس کا نام احمد رکھو؛اور ایک روایت کے مطابق محمد رکھو. جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت ہو گئی تو آمنہ نے جناب عبد المطلب کو پیغام بھیجا کہ آپ کے لئے ایک بچہ پیدا ہوا ہے.جناب عبد المطلب شاد و خرم اٹھے اور گھر آئے (اس حال میں کہ ان کی اولا د اُن کے ہمراہ تھی) اور انہوں نے اپنی نگاہیں نو مولود فرزند کی طرف جمائیں، آمنہ نے اپنے خواب کو اُن سے بیان کیا اور یہ کہ اُن کے حمل کی مدت سہل اور آسان رہی ہے اور ولادت آسانی سے ہو گئی ہے، جناب عبد المطلب نے بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر کعبہ میں داخل ہوگئے اور یہ اشعار پڑھے:

اَلْحَمدُ لِلّٰه الَّذِیْ اَعطَانِی

هَٰذا الْغُلاْمَ الطَیِّبَ ا لَاردانِ

اُعیذه با لبیتِ ذی الارکان

من کل ذی بغی و ذی شنآنِ

و حاسدٍ مضطرب العنان

تمام تعر یف اس خدا کی ہے جس نے ہمیں یہ پاک و پاکیزہ اور مبارک و نورانی بچہ عنایت کیا ہے. میں اسے خداوند عالم کے گھر کی پناہ میںدیتا ہوں تاکہ ظالموں،بد خواہوں اور بے لگام حاسدوں کے شر سے محفوظ رہے۔

۲۴۴

تاریخ ابن عساکر اور ابن کثیر میں کچھ ابیات کا اضافہ کیا ہے کہ جو ان کے آخر میں ذکر ہوئے ہیں!

مندرجہ ذیل اشعار جو آخر میں اضافہ کے ساتھ مذکور ہیں :

انت الذی سُمِّیت فی الفرقان

فی کتب ثابتة المبان

احمد مکتوب علی اللسان( ۱ )

''تو وہی ہے جس کا نام فرقان اور محکم غیر تحریف شدہ کتابوں میں اور زبانوں پر'' احمد'' ہے ۔

ان اشعار میں جناب عبد المطلب خبر دیتے ہیں کہ آسمانی کتابوں میں ان کے پو تے کا نام احمد ہے۔

طبقات ابن سعد میں اختصار کے ساتھ اس طرح مذکور ہے:

____________________

(۱) انساب الاشراف، ج۱، ص ۸۰۔۸۱ کلمات میں اختلاف کے ساتھ؛طبقات ابن سعد، ج۱، ص ۱۰۳؛ تاریخ ابن عساکر،ج۱ ص ۶۹؛ ابن کثیر، ج۲، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵؛ اسی طرح دلا ئل بیھقی، ج۱، ص۵۱ بھی ملاحظہ کیجئے.

۲۴۵

حلیمہ:حضرت پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلا نے والی دا یہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کے بارے میں خوفزدہ ہوئیں اسی وجہ سے کہ انھیں پانچ سال کے سن میں مکّہ واپس لے آئیں تا کہ ان کی ماں کے حوالے کر دیں،لیکن لوگوں کی بھیڑ کے درمیان انھیں گُم کر گئیں اور جتنا بھی تلا ش کیا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور آپ نہ ملے۔ لہٰذا حضرت عبد المطلب کی خدمت میں دوڑی ہوئی آئیں اور واقعہ سے انھیں آگاہ کیا.جناب عبد المطلب کی جستجو بھی فرزند کے حصول میں نتیجہ خیز نہ ہوئی نا چا ر وہ کعبہ کی طرف رخ کر کے کہنے لگے۔

لاهُمّ أَدِّ راکبی محمّدا ----أدِّ هْ الیَّ وَاصطنع عندی یدا

انت الذی جعلتَهُ لی عضدا -----لا یبعد الدَّهرُ به فیبعدا

انت الَّذی سمَّیتَهُ مُحمّداً( ۱ )

(خدا یا! ہمارے شہسوار محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو واپس کر دے ،اُسے لو ٹا دے اور اسے میرا ناصر و مدد گار قراردے.تو نے ہی اُس کو میرا بازو قرار دیا ہے، زمانہ کبھی اس کو مجھ سے دور نہ کرے، تو نے ہی اس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھا ہے)۔

یہاں بھی جناب عبد المطلب تصریح کر تے ہیں کہ یہ خدا ہے جس نے اُن کے پو تے کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھا ہے۔

مروج الذھب نامی کتاب میں مذکور ہے:

جناب عبد المطلب اپنے فرزندوں کو صلۂ رحم اور کھانا کھلا نے کی وصیت اور انھیں تشو یق کرتے تھے اورڈرایا کرتے تھے تا کہ ان لوگوں کی طرح جو معاد،بعثت اور حشر و نشر کے معتقد ہیں، عمل کریں۔

انھوں نے سقایت (سقائی) اور رفادت کی ذمہّ داری اپنے فرزند''عبد مناف'' یعنی''جناب ابوطالب'' کودی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق وصیت بھی انھیں سے کی( ۲ )

سیرۂ حلبیہ و نبویہ نامی کتابوں میں مذکور ہے:جاہلیت کے زمانے میں جناب عبد المطلب اُن لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر دی تھی وہ مستجاب الداعوت انسان تھے (یعنی ان کی دعائیں بارگاہ خدا وندی میں مقبول ہوتی تھیں) انھیں ان کی جود وبخشش کی وجہ سے '' فیاض'' کہتے تھے اور چونکہ پر ندوں کے لئے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھا نے کا انتظام کرتے تھے انھیں لوگوں نے ''مطعم طیر السمائ'' (آسمان کے پرندوں کوغذا دینے والے کا) لقب دے رکھا تھا۔

____________________

(۱)طبقات ابن سعد، طبع یورپ، ج۱، ص ۷۰۔ ۷۱ ، خبر میں اور لفظ کے اختلاف کے ساتھ انساب الاشراف۔ ج۱، ص ۸۲؛ اسی طرح سبل الھدی والارشاد ،ج۱، ص۳۹۰ بھی ملاحظہ ہو؛(۲) مروج الذھب، ج۲، ص ۱۰۸۔ ۱۰۹

۲۴۶

روای کہتا ہے! قریش میں صابر اور حکیم شمار ہوتے تھے۔

پھر سبط جو زی کی نقل کے مطابق اختصار سے ذکر کیا ہے:جناب عبد المطلب اپنے بیٹوں کو ظلم و ستم اور طغیانی و سر کشی کے ترک کر نے کاحکم دیتے تھے اورانھیں مکارم اخلاق کی رعایت کی تشو یق اور تحریک کر تے اور انھیں اس پر آمادہ کرتے تھے اور نازیبا حرکتوں اور ناپسندیدہ افعال کے انجام دینے سے روکتے تھے وہ کہتے تھے: کو ئی ظالم اور ستمگر دنیا سے نہیں جا ئے گا مگر یہ کہ اس کے ظلم کا انتقام لوگ اُس سے لے لیں گے اور وہ اُس کی سزا بھگتے گا۔

قضاء الہٰی سے ایک ظالم انسان جو کہ شام کا رہنے والا تھا بغیر اس کے کہ وہ دنیا میں اپنے سیاہ کارناموں اور بُرے افعال کی سزا بھگتے انتقال کر گیا. اس کی داستان جناب عبد المطلب سے نقل کی گئی۔

انھوں نے تھوڑی دیر غور وفکر کیا اور آخر میں کہا: خدا کی قسم اس دنیا کے بعد ایک دو سری دنیا ہے جس میں نیک لوگوں کو ان کے نیک عمل کی جزا اور بد کا روں کو اُن کے بُرے عمل کی سزا دی جائے گی۔

یہ بات اس معنی میں ہے کہ ستمگر و ظالم انسان کا دنیا میں نتیجہ یہ ہے .اور اگر مر گیا اور اُسے کوئی سزا نہ ملی تو پھر اس کی سزاآخرت کے لئے آمادہ اور مہیا ہے۔

ان کی بہت ساری سنتیں ایسی ہیں جن میں اکثر و بیشتر کی تائید قرآن کریم نے کی ہے جیسے نذر کا پورا کرنا،محارم سے نکاح کی ممانعت،چور کا ہاتھ کاٹنا،لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے روکنا،زنا اور شراب کو حرام کر نا اور یہ کہ برہینہ خا نہ خدا کا طواف نہیں کر نا چاہئے۔( ۱)

سیرۂ بنویہ نامی کتاب میں مذکور ہے کہ :جناب ہاشم کے فرزند جناب عبد المطلب، قریش کے حکیموں اور بہت زیادہ صبر کر نے والوں اور مستجاب الدعوة انسان میں شمار ہوتے تھے.اُنہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی تھی۔ وہ سب سے پہلے انسان ہیں جو اکثر شبوں میں کوہ حرا میں عبادت(تحنث) کر تے تھے.وہ جب رمضان کا مہینہ آتا توفقراء کو کھانا کھلاتے اور پہاڑوں کی بلندی پر جا کر اس کے ایک گوشہ میں خلوت اختیار کرتے اس غرض سے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے ذاتِ خدا وندی کی عظمت اور بزرگی کے بارے میں غور و خوض کریں۔( ۲ )

____________________

(۱)سیرۂ حلبیہ، ج۱ ص ۴؛ سیرۂ نبویۂ ، ج۱ ،ص ۲۱.(۲) سیرۂ نبویہ ، ج۱ ، ص۲۰ اسی مضمون سے ملتی جلتی عبارت انساب الاشراف کی پہلی جلد کے صفحہ ۸۴ پر مذکو ر ہے.تاریخ یعقوبی اور انساب الا اشراف بلا ذری میں اختصار کے ساتھ اس طرح ذکر ہوا ہے ( اور ہم نے اس مطلب کو تاریخ یعقوبی سے لیا ہے)۔

۲۴۷

قریش پر مصیبت کے سا لہا سال قحط اور گرانی کے ساتھ گذرگئے یہاں تک کہ کھیتیاں برباد ہوگئیں اور دودھ پستا نوں میں خشک ہوگئے قریشیوں نے عاجزی اور درماندگی کے عالم میں جناب عبد المطلب سے پناہ مانگی اور کہا:خدا وند عالم نے تمہارے وجود کی برکت سے بارہا ہم پر اپنی رحمت کی بارش کی ہے اس وقت بھی خدا سے درخواست کرو تاکہ وہ ہمیں سیراب کرے۔

جناب عبد المطلب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ اُن اےّام میں جب کہ وہ اپنے جد کی آغوش میں تھے (اور اپنے جد کے سہارے راستہ طے کرتے تھے) باہر نکلے اور اس طرح دعا کی۔

''أللّهم سادَّ الخلَّة ِ،وَکَاشِفَ الکُربةِ،اَنت عَالم غَیر مُعَلَّم، مَسؤول غیرُ مُبَخَّل وَ هؤلائِ عبادُک وَ اماؤک بِعذراتِ حرمک یَشکُون اِلیکَ سَنیهِم الَّتی أَقحلتِ الضَرع وَ أَ ذهبتِ الزَّرعَ،فاسمعنَّ الّٰهُمّ وَ أَمطرنَّ غَیثاً مَریعاً مغدقاً )

خدایا !اے ضرو رتوں کو پورا کر نے والے اور کرب و بیچینی کو دور کر نے والے تو بغیر تعلیم کے عالم ہے اور بخل نہ کر نے والا مسئول ہے یہ لوگ تیرے بندے اور کنیزیں ہیں جو تیرے حرم کے ارد گرد رہتے ہیں۔

تجھ سے اس قحط کی شکا یت کرتے ہیں جس سے پستا نوں میں دودھ خشک ہو گیا ہے اور کھتیاں تباہ و برباد ہوگئیں ہیں۔

لہٰذا خدا یا! سُن اور ان پر زور دار موسلا دھار بارش نازل فرما۔

قریش ابھی وہاں سے حر کت بھی نہیں کر پا ئے تھے کہ آسمان سے ایسی موسلا دھا ر بارش ہوئی کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا۔

ایک قریش نے ایسے مو قع پر اس طرح شعر کہا:

بشیبة الحمد اسقیٰ اللهُ بلدتنا وقد فقدنا الکریٰ واجلّوذ المطرُ

''خدا وند عالم نے شیبة الحمد(جناب عبد المطلب) کی بر کت سے ہماری سر زمینوں کو سیراب کیا جب کہ ہم عیش وعشرت کھو چکے تھے اور بارش کا دور دور تک سراغ نہیں تھا''۔

منّاً من اللهِ بالمیمونِ طائره وخیر من بشّرت یوماً به مُضرُ

''خداوند عالم نے مبارک فال انسان کے وجود سے ،ہم پر احسان کیا ہے اور وہ سب سے اچھا انسان ہے کہ ایک دن مضر قبیلہ والے اُس سے شاد و خرم ہوئے ہیں ''۔

۲۴۸

مُبارک الامرِ یُستقیٰ الغمامُ به ما فی الأنام له عدلُ و لاخطرُ ( ۱ )

'' وہ مبارک مرد (جناب عبد المطلب) جس کی وجہ سے بادل نے برسنا شروع کیا؛ لوگوں کے درمیان وہ بے نظیر و بے مثال ہے ''۔

بحار الانوار میں مذکور ہے:

لوگ رسول خدا کے جد جناب عبد المطلب کے لئے کعبہ کے پاس فرش بچھا تے تھے تا کہ اس پر وہ تشریف فر ما ہوں اور اس پر ان کے احترام میں ا ن کے سوا ان کی کوئی اولاد بھی نہیں بیٹھتی تھی،لیکن جب پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آتے تھے تو اُس پر بیٹھتے تھے، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرات جا کر انھیں اس کام سے روکنے کی کوشش کرتے لیکن جناب عبد المطلب اُن سے مخاطب ہو کر کہتے!

میرے بیٹے کو چھوڑ دو اسے نہ روکو۔

پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پشت پر ہا تھ رکھ کر کہتے:میرے اس بیٹے کی خاص شان اور منزلت ہے۔( ۲ )

تاریخ یعقوبی نامی کتاب میں مذکو ر ہے کہ :

جناب عبد المطلب نے کعبہ کی حکومت اور ذمّہ داری اپنے بیٹے زبیر کے حوالے کی اور رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرپرستی اور زمزم کی سقائی جناب ابو طالب کے سپر د کی اور کہا:میں نے تمہارے اختیار میں ایسا عظیم شرف اور بے مثال افتخار قرر دیا ہے جس کے سامنے عرب کے بزرگوں کے سر خم ہو جائیں گے۔

پھر اس وقت جناب ابو طالب سے کہا:

أُوصیک یا عبد منافٍ بعدی

بمُفردٍ بعد أبیه فردِ

''اے عبد مناف! تم کو اپنے بعد ایک یتیم کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جو اپنے باپ کے بعد تنہا رہ گیا ہے''۔

فارقه و هُو ضجیع المهد

فَکُنت کا لأُ مّ له فی الوجد

____________________

(۱) یہاں تک بلا ذری کی انساب الاشراف کے صفحہ ۱۸۲ تا۱۸۵ پر حالات پراگندہ طور پر مذکور ہیں لیکن ہم نے تاریخ یعقوبی کی ج،۲ ص ۱۲ اور ۱۳ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے.(۲)بحار الانوار، ج۱۵، ص ۱۴۴اور ۱۴۶ا ور ۱۵۰.

۲۴۹

''اس کا باپ اس سے اس وقت جدا ہوگیا جب وہ گہوارے میں تھا اور تمہاری حیثیت اس کے لئے ایک دل سوز اور مہربان ماں کی تھی ''۔

تُدنیه من أَحشائها و الکبد --- فَأَنت مِن أَرجیٰ بنیّ عِندی

لدفع ضیمٍ أَو لشدِّ عقد( ۱ )

''کہ اسے دل و جان سے آغوش میں لیتی ہے.میں تم سے مشکلات اور پریشانیوں کے بر طرف کر نے اور رشتہ کو مضبوط بنا نے کے لحاظ سے اپنے تمام فرزندوں سے زیادہ امید رکھتا ہوں''۔

بحار الانوار میں،واقدی کی زبانی اس واقعہ کے نقل کے بعد اختصار کے ساتھ اس طرح روایت ہے:

اوصیک أَرجیٰ اهلنا بالر فدی --- یابن الذی غیبته فی اللحدِ

بالکره منّی ثمّ لا بالعمدی --- وخیرة الله یشاء فی العبدِ

جناب عبد المطلب نے کہا:اے ابو طالب! میں اپنی وصیت کے بعد تمہارے ذمّہ ایک کام سپرد کررہا ہوں.جناب ابو طالب نے پو چھا کس سلسلہ میں؟

کہا: میری تم سے وصیت میرے نور چشم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق ہے کہ تم میرے نزدیک اس کی عظمت اور قدر ومنزلت کو جا نتے ہو،لہٰذا اس کی مکمّل طور پرتعظیم کرو اور جب تک زندہ ہو روز وشب کسی بھی وقت بھی ا س سے الگ نہ ہونا؛ خدا را ،خدا را،حبیب خدا کے بارے میں۔پھر اُس وقت اپنے دیگر بیٹوں سے کہا:محمد کی قدر دانی کرو کہ بہت جلد ہی عظیم اور گراں قدر امرکا اس میں نظارہ کروگے اور بہت جلد اس کے انجام کار کو جس سلسلے میں میں نے اس کی تعریف و توصیف کی ہے وقت آنے پر سمجھ جائو گے ۔جناب عبد المطلب کے فرزندوں نے ایک آواز ہو کر کہا: اے بابا! ہم مطیع اور فرمانبردار ہیں اور اپنی جان و مال اُس پر فدا کر دیں گے۔پھر اس وقت جناب ابو طالب نے جوپہلے سے ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر چچا کے مقابلے سب سے زیادہ ان کی بہ نسبت مہر بان اور دلسوز تھے. کہا: میرا مال اور میری جان محمد پر فدا ہے،میں ان کے دشمنوں سے جنگ کروں گا اور دوستوں کی نصرت کروں گا۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی،ج،۲ ،ص ۱۳.

۲۵۰

واقدی نے کہا ہے:

پھر جناب عبد المطلب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دوبارہ آنکھ کھولی اور قریشیوں کی جانب نظر کی اور بو لے:اے میری قوم! کیا تم پر میرے حق کی رعا یت واجب نہیں ہے؟

سب نے ایک ساتھ کہا:بیشک،تمہارے حق کی رعایت چھوٹے بڑے،سب پر واجب ہے تم ہمارے نیک رہبر اور بہترین رہنما تھے۔

جناب عبد المطلب نے کہا: میںاپنے فرزند محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبد اللہ کے بارے میں تم سے وصیت کر تا ہوں اس کی حیثیت اپنے درمیان ایک محتر م اور معزز شخص کی طرح سمجھنا اس کے ساتھ نیکی کر نا اور اس پر ظلم روا نہ رکھنا اور اس کے سامنے نا پسندیدہ افعال بجا نہ لانا۔

جناب عبد المطلب کے فرزندوں نے ایک ساتھ کہا: ہم نے آپ کی بات سنی اور ہم اس کی اطاعت و پیروی کریں گے۔( ۱ )

ابن سعد کی طبقات میں مذکو ر ہے:

جب جناب عبد المطلب کی موت کا وقت قریب آیا،تو انھوں نے جناب ابو طالب کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت و نگہداری کی وصیت کی۔( ۲ )

جناب عبد المطلب کا اس وقت انتقال ہوا جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آٹھ سال کے تھے اور وہ خود ایک سو بیس سال کے تھے کہ اس سن میں دنیا کو وداع کہہ کر رخصت ہوئے۔

خدا وند عالم نے جناب عبد المطلب کو جسمی اعتبار سے قوی و توانا بنا یا تھا اور صبر وتحمل اور جو د وسخا کے اعتبار سے بڑا حو صلہ دیا تھا اور آپ کا ہاتھ بہت کھلا ہوا تھا انھیں توحید پرست،روز قیامت کی سزا کا معتقد اور جاہلیت کے دور میں خدا پر ست بنایا اور بتوں کی پرستش اور تمام ہلا کت بار چیزوں سے جو لوگوں کی تباہی کا باعث ہوتی ہیں ان سے انھیں دور رکھا تھا.وہ ظلم وستم اور گناہوں کے ارتکاب کو سخت ناپسند کر تے تھے.وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے غار حرا میں عبادت کے لئے خلوت نشینی کی تاکہ خدا کی عظمت و جلالت کے بارے میں تفکر کریں اور اس کی عبادت کریں وہ رمضان کے مہینے میں عبادت میں مشغول ہوتے اور فقرا ء و مسا کین کو اس ماہ میں کھانا کھلا تے تھے. آپ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مکّہ میں خوش ذائقہ پا نی سے

____________________

(۱)بحار الانوار :ج۱۵، ص۱۵۲، ۱۵۳.(۲) طبقات ابن سعد،ج۱ص ۱۱۸.

۲۵۱

لوگوں کو سیراب کیا اور خواب میں زمزم کا کنواں کھو دنے پر مامور ہوئے ور آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور صرف اپنے فرزند حا رث کے ساتھ مذکورہ کنویں کی کھدائی کی۔

اور جب ابرھہ اپنے ہاتھی پر سوار ہو کر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ خانہ کعبہ کو ڈھانے کے ارادہ سے مکّہ کے اطراف میں پہنچا،تو جناب عبد المطلب نے ابرھہ کے لشکر سے مقا بلہ کرنے کے لئے قریش کو آواز دی لیکن ان لو گوں نے سنی اَن سنی کر دی اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر فرار کر گئے؛ لیکن جناب عبد المطلب نے خدا کے گھر کو نہیں چھوڑا اور خدا کو مخاطب کر کے اس طرح شعر پڑھا:

یا ربّ انَّ العبد یمنعُ

رحلهُ فامنع رحالک

خدایا! ہر بندہ اپنے گھر کا دفاع اور بچاؤ کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع اور تحفظ کر۔

اور جب خدا وند متعال نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو ہلاک کر ڈالا تو انھوں نے یہ اشعار کہے:

انَّ للبیت لرباً ما نعاً

من یرده بأَثامٍ یصطلم

(اس گھر کا روکنے والاایک مالک ہے کہ جو بھی اس کی طرف گناہ کا قصد کر ے گا تو وہ اسے نابود کر دے گا)۔

رامه تُبّع فی من جند ت

حمیر و الحی من آل قدم

( تبع انھیں میں سے ایک تھا کہ جس نے لشکر کشی کی،اسی طرح حمیر اور اس کے قبیلہ والے )۔

فانثنیٰ عنه و فی اوداجه

جارح امسک منه بالکظم

(کہ لوٹنے کے بعد اس کی گردن میںکچھ زخم تھے جو سانس لینے سے مانع تھے)۔

۲۵۲

قلت والأشرم تردی خیله

اِنّ ذا الاَّشرم غرّ بالحرم

(اور اس کان کٹے (ابرھہ) سے جو اپنے لشکر کو ہلاکت میں ڈال رہا تھا میں نے کہا:بیشک یہ گوش بریدہ(کان کٹا) حرم کی بہ نسبت نہایت مغرور ہے)۔

نحن آل الله فی ما قد مضی

لمن یزل ذاک علی عهد اِبرهم

( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔

نحنُ دمَّرنا ثموداً عَنوة

ثم عادا قبلها ذات ا لارم

( ہم نے ثمود کی سختی کے ساتھ گو شمالی کی اور انھیں ہلاک کر ڈالا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو )

نعبد الله و فینا سُنّة

صلَة القربیٰ و ایفاء الذمم

( ہم خدا کی عبادت کر تے ہیں اور ہمارے درمیان صلہ رحم اور عہد کا وفا کرنا سنت رہا ہے)۔

۲۵۳

لم تزل للهِ فینا حجّة

یدفع الله بها عنّا النّقم

( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔

یہی سال تھا کہ آپ کے پو تے خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیدا ہوئے تو جناب عبد المطلب نے انہیںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک کپڑے میں لپیٹا اور اُ نہیں اپنے سینے سے لپٹا کر کعبہ میں داخل ہوگئے اور اس طرح شعر پڑھا :

انت الّذی سُمِّیت فی الفرقان

فی کُتب ثابتة المثان

احمد مکتوب علی اللسان

''تو وہی ہے جس کا نام فرقان اور محکم غیر تحریف شدہ کتابوں میں '' احمد ہے ''۔

ان اشعار میں جناب عبد المطلب خبر دے رہے کہ آسمانی کتابوں میں ان کے پو تے کا نام احمد ہے۔

جناب عبد المطلب مستجاب الدعوات تھے، جس وقت قریش پر بارش نہیں ہوتی تھی اُن سے دعا کی درخواست کر تے تھے کہ آپ خدا سے دعا کریں تو خدا آپ کی دعا کے نتیجے میں موسلا دھار بارش نازل کرتا تھا.آخر ی بار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جب آپ کم سن بچہ تھے رحمت باراں طلب کرنے کے لئے باہر گئے ابھی لوگ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔

جناب عبد المطلب نے کچھ ایسی سنتیں قائم کی ہیں کہ اسلام نے ان کی تائید اور تثبیت کی ہے. جیسے:

۱۔ نذر کا پو را کر نا؛ سورۂ انسان، آیت ۷ اور سورۂ حج ،آیت ۲۔

۲۔ محارم سے ازدواج کی ممانعت؛سورۂ نسائ،آیت ۲۳۔

۳۔ چور کا ہاتھ کاٹنا؛ سورۂ مائدہ، آیت ۳۸۔

۴۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی ممانعت؛ سورۂ تکویر، آیت ۸، سورۂ انعام، آیت ۱۵۱، سورۂ اسرائ، آیت ۳.

۵۔ شراب کا حرام کر نا؛ سورۂ مائدہ، آیت ۹۰۔ ۹۱۔

۲۵۴

۶۔ زنا کی حر مت سورۂ فرقان آیت۶۸، سورۂ ممتحنہ آیت ۱۲ ، سورۂ اسرائ، آیت ۳۲۔

۷۔ خا نہ کعبہ کے گرد عریاں اور برہینہ حالت میں طواف کر نے سے روکنا۔

پیغمبر خدا نے ۹ ھ میں جب انھوں نے اپنے چچا زاد بھائی علی کو حاجیوں کے سامنے سورۂ برائت کی ابتدائی آیات کی تلا وت کر نے پر مامور کیا تھا تب یہ بھی حکم دیا تھا کہ یہ موضوع بلند آواز سے لوگوں کو ابلاغ کر یں۔

۸۔صلۂ رحم کی رعایت ، خاندان والوں اور رشتہ داروں سے ارتباط رکھنا؛ سورۂ نسائ، آیت۱۔

۹۔ کھانا کھلانا؛ سورۂ مائدہ آیت ۸۹ اور سورۂ بلد آیت ۱۴ ، سورۂ الحاقہ آیت ۳۴۔

۱۰۔ظلم نہ کرنااور ستمگری کو ترک کرنا؛ سورۂ ابراھیم آیت ۲۲ اور بہت سی دیگر آیات۔

وہ غار حرا میں کنج تنہائی اختیار کرتے تھے اور کئی کئی راتیں خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ( کہ جس کو کہتے ہیں) یہی روش آپ کے پو تے خا تم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنائی تھی.وہ روز جزا (قیامت) پر ایمان واعتقاد رکھتے تھے اور اس بات کی دوسروں کو بھی تبلیغ کر تے تھے۔

بحار الانوار میں اپنی سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے انھوں نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے جد سے انھوں نے حضرت علی ابن ابی طالب سے انھوں نے حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے اپنی وصیت میں فرمایا : اے علی! جناب عبد المطلب نے دور جا ہلیت میں پانچ سنتیں قائم کی ہیں کہ خدا وند عالم نے اسے اسلام میں اجرا کیا اور اس پر عمل کرنے کو ضروری سمجھا ہے ۔

انھوں نے باپ کی بیوی سے ازدواج حرام کیا ہے؛ اور خدا وند رحمن نے یہ آیت نازل فرمائی :

( لَا تَنْکِحُوا مَانَکَحَ آباؤُکُمْ مِنَ النِّسٰائِ )

جن عورتوں سے تمہارے آباء و اجداد نے نکاح کیا ہے اُن سے نکاح نہ کرو۔

جناب عبد المطلب نے ایک خزانہ پایا،تو اس کا خمس نکال کر جدا کر دیا اور راہ خدا میں صدقہ دیا، خدوند عالم نے بھی فرمایا:

( وَاعْلَمُوا اَنّمَا غَنِمْتُمْ مِن شَیٍٔ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمسَه )

جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو یقینا اس میں اللہ اور کے لئے خمس ہے۔

اور جب زمزم کا کنواں کھودا تو اُ سے حاجیوں کے پینے کے لئے مخصوص کر دیا. اور خدا وند عالم نے بھی فرمایا:( اَجَعَلْتُمْ سَقَایةَ الَحَاجَّ ) حجاج کو پانی پلانا ...؟

۲۵۵

آپ نے اونٹ کی دیت سو اونٹ معین کی تو خدا وند عالم نے بھی اسی کو اسلام میں معین کردیا، پہلے خانہ خدا کے گرد طواف کر نے کی کوئی حد معین نہیں تھی جناب عبد المطلب نے سات چکر طواف معین کیا اور خدا وند عالم نے اسی کو اسلام میں باقی رکھا۔

اے علی! جناب عبد المطلب نے ازلام ( پانسوں) کے تیروں کے مطابق تقسیم نہیں کی،کسی بُت کی پوجا نہیں کی اور نہ ہی بُت کے لئے قربانی کیا ہوا گوشت کبھی نہیں کھا یا اور کہتے تھے میں ا پنے باپ ابراہیم کے دین کا پابند ہوں۔( ۱ )

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جناب عبد المطلب کے اونٹ کے سم کے نیچے سے پانی کا ابلنا ( کہ جس کی حکا یت پہلے بیان کی جاچکی ہے ) ایک کرامت تھی خدا نے جس کے ذریعہ ان کو محترم بنا یا ۔

جس طرح ان کے جد اسمٰعیل کو اس سے پہلے ان کے قدم کے نیچے سے آب زمزم کے جاری ہو نے کی وجہ سے مکرم اور محترم بنایا تھا۔

خدا وند عالم نے اسی طرح کی کرامت سے اُن کے پو تے حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرامی قدر بنا یا جب جنگ تبوک میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیر کے پاس سے چشمہ پھوٹ پڑا۔( ۲ )

جو کچھ ا س حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ جناب عبد المطلب نے زمانۂ جا ہلیت میں پا نچ سنتیں قائم کیں اور اسلام نے اس کی تائید اور تثبیت کی،وہ اس سے پہلے ذکر کی گئی باتوں سے منا فات نہیں رکھتا کیو نکہ کسی چیز کا ثابت کر نا دوسری چیزوں کے نہ ہو نے پر دلیل نہیں بن سکتا۔

بحث کا خلاصہ

حضرت ابراہیم نے اسمٰعیل کو وصیت کی کہ ان کی حنیفیہ شریعت کے ستونوں کو بیت ﷲ الحرام کی تعمیر اور منا سک حج کی ادائیگی سے قائم رکھیں.تو اسمٰعیل نے اپنی پوری زندگی اپنے باپ کی وصیت کا پاس و لحاظ رکھا یہاں تک کہ مکّہ میں انتقال کر گئے اور اپنی مادر گرامی (ہاجرہ) اور اپنے بعض فرزندوں کے پاس حجر اسمٰعیل میں سپر د لحد کئے گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) بحار الانوار ، ج ۱۵،ص ۱۲۷ شیخ صدوق کی خصال ج۱، ص ۱۵۰ کی نقل کے مطابق

(۲) بحار الانوار ،ج ۲۱، ص ۲۳۵ ،خرائج کی نقل کے مطابق ص ۱۸۹ ، بابِ غزوۂ تبوک

(۳) ملاحظہ کیجئے : اسلام میں دو مکتب، ج۱ ، ص ۸۲ تا ۸۵ اور معا لم المدرستین، طبع ۴،ج۱ ،ص۶۰ تا ۶۴.

۲۵۶

خدا نے اسحق کے فرزند یعقوب جو کہ اسرائیل سے مشہو ر تھے ان کی اولا د کے لئے بھی مخصوص احکام وضع کئے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کی شریعت میں رائج ہوئے ہیں۔

حضرت عیسیٰ بن مر یم کے بعد رسولوں کی فترت کا زمانہ شروع ہو جا تا ہے .یعنی خدا وند عالم نے اس مدت میں کو ئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا رسول نہیں بھیجا .جز ان نبیوں کے جو بعض لوگوں کے لئے ہدایت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے.انھیں عیسیٰ کی شریعت پر عمل کر نے کی دعوت دی.جیسے خالد بن سنان اور حنظلہ جن کا شمار اوصیاء شریعت عیسیٰ میں ہوتا ہے ۔

رہا سوال ام القریٰ (مکّہ) اور اس کے اطراف وجوانب کا تو حضرت اسمٰعیل کے پوتوں میں کوئی نہ کوئی بزرگ یکے بعد دیگرے حضرت ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کے قیام اور حضرت کی سنتون کو زندہ کر نے کے لئے اُٹھے کہ اب مختصر طور سے ہم ان کا تعارف کراتے ہیں:

۱۔ مضر کے فرزند الیاس

مضر کے فرزند الیاس حضرت اسمٰعیل کے قبیلہ کے اُن افراد پر بہت ناراض ہوئے اور نکتہ چینی کی جنھوں نے اپنے آباء واجداد کی روش اور سنتوں کو بدل ڈالا تھا.انھوں نے ان کی نئے سرے سے تجد ید کی یہاں تک کہ تحر یف سے قبل والی حالت کے مانند ان پر عمل ہونے لگا۔

الیاس وہ پہلے آدمی ہیں جو اپنے ہمراہ قربانی کا اونٹ مکّہ لے گئے ، نیز وہ حضرت ابراہیم کے بعد پہلے آدمی ہیں جنھوں نے رکن کی بنیاد ڈالی۔

۲۔الیاس کے پو تے خز یمہ بن مدرکہ

خزیمہ کہتے تھے: ایک''احمد '' نامی پیغمبر کے خروج کا زمانہ قریب آچکا ہے.وہ لوگوں کو خدا، نیکی، احسان اور مکارم الاخلا ق (اخلاق کی بلندیوں) کی دعوت دے گا. تم سب اس کی پیروی کرنا اور اس کی کبھی تکذیب نہ کرنا کیو نکہ وہ جو کچھ لائے گا حق ہو گا۔

۲۵۷

۳۔ کعب بن لو ٔی

کعب خزیمہ کے پو توں میں سے ہیں وہ حج کے ایام میں خطبہ دیتے اور کہتے تھے : زمین و آسمان اور ستارے لغو اور بیہودہ خلق نہیں کئے گئے ہیں اور روز قیامت تمہارے سامنے ہے .وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو پسندیدہ اخلا ق اور بیت اللہ الحرام کی تعظیم و تکریم پر آما دہ کرتے تھے.اور انھیں آگاہ کرتے تھے کہ خا تم الانبیاء خدا کے گھر سے مبعوث ہو گے اور اس بات کی موسیٰ اور عیسیٰ نے بھی اطلا ع دی ہے اورشعر پڑھتے تھے:

علیٰ غفلةٍ یاتی النبی محمد فیخبرا خباراً صدوقاً خبیرها

اچانک محمد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئیں گے اور وہ سچی خبر دیں گے۔

اور کہتے تھے:اے کاش میں ان کی دعوت اور بعثت کو درک کر تا..

۴۔ جناب قُصیّ

بعد اس کے کہ خزاعہ قبیلہ کے رئیس نے مکّہ میں بُت پر ستی کو رواج دیا.حضرت اسمٰعیلں کی نسل سے قُصیّ ان کے مقابلے کے لئے اُٹھے اور انھیں مکّہ سے باہر نکال دیا.انھوں نے بُت پر ستی سے منع کیا اور ابراہیم کی سنت جو مہمانوں کو کھا نا کھلانے سے متعلق تھی اس کی دوبارہ بنیاد ڈالی.وہ حج کا موسم آنے سے پہلے ہی قریش قبیلہ کے درمیان اٹھے اور ایک خطبہ کے ضمن میں فرمایا:

اے جماعت قریش ! تم لوگ خدا کے ھمسایہ(پڑوسی) اس کے حرم اور گھر والے ہو اور حجاج خدا کے مہمان اور اس کے گھر کے زائر ہیں .اور احترام وتکریم کے سب سے زیادہ لائق اور سزاوار ترین مہمان ہیں.لہٰذا حج کے ایام میں جب تک کہ تمہارے علا قے سے اپنے گھرواپس نہیں چلے جاتے اس وقت تک ان کے لئے غذا اور کھا نے پینے کی چیزیں فر اہم کرو، اگر میرا مال ان تمام امور کے لئے کافی ہوتا تو تن تنہا اور تمہاری شمو لیت کے بغیر اس کام کے لئے اقدام کر تا.لہٰذا تم میں سے ہر ایک اس کام کے لئے اپنے مال کا ایک حصّہ مخصوص کرے۔

۲۵۸

قریش نے حکم کی تعمیل کی اور کافی مقدار میں مال جمع ہو گیا،جب حاجیوں کے آنے کا زمانہ قریب ہوا ، تو مکّہ کے ہر راستے پر ایک اونٹ نحر کیا اور مکّہ کے اندر بھی ایسا کیا اور ایک جگہ کا انتخاب کیا تا کہ وہاں روٹی اور گو شت رکھا جائے اور خوش ذائقہ اور میٹھا پانی اور دوغ (چھاچھ) حاجیوں کے لئے فر اہم کیا، وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مزدلفہ میںآگ جلا ئی تا کہ رات کے وقت حجاج عرفات سے باہر آئیں تو اپنا راستہ پہچان سکیں،انھوں نے خانہ خدا کے لئے کلید بردار اور پردہ دارکا تقرر کیا اور اپنے بیٹے عبد الدار کے گھر کو دار الندوہ (مجلس مشاورت) کا نام دیا،اس طرح سے کہ قریش وہاں کے علا وہ کہیں فیصلہ نہ کر یں.انھوں نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزندوں سے وصیت کی کہ شراب سے پر ہیز کریں۔

۵۔ جناب عبد مناف

قُصیّ کے بعد، ان کے فرزند عبد مناف کہ جن کانام مغیرہ تھا ان کے جا نشین ہوئے اور قریش کو تقوائے الٰہی،صلہ رحم اور پر ہیز گاری کی تعلیم دی۔

۶۔ جناب ھا شم

عبد مناف کے بعد ،ان کے فرزند جناب ہاشم ان کے جانشین ہوئے اور قَصیّ کی سنت و روش کی پیروی میں حجاج کی مہما ن نوازی کے لئے قریش کو آواز دی وہ اپنے خطبہ میں کہتے تھے:

خدا کے مہمانوں اور اس کے گھر کے زائرین کا احترام کرو اس گھر کے ربّ کا واسطہ،اگر میرے پا س اتنا مال ہوتا جو ان کے اخراجا ت کے لئے کا فی ہوتا تو تمہاری مدد سے بے نیاز ہوتا ، میں اپنے پاک وحلال مال سے کہ جس میں قطع رحم نہیں ہوا، کوئی چیز ظلم وستم سے نہیں لی گئی اور جس میں حرام کا گذر نہیں ہے(حجاج کے اخراجا ت کے لئے) ایک مبلغ الگ کر تا ہوں اور جو بھی چاہتا ہے کہ ایسا کرے وہ ایک مبلغ جدا کردے،تمھیں اس گھر کے حق کی قسم تم میں سے جو بھی بیت اللہ کے زائر کا احترام کر نے اور ان کی تقو یت کے لئے کوئی مال پیش کرے وہ اُس مال سے ہو جو پاک اور حلال ہو، جسے ظلم کے ذریعہ اور قطع رحم کر کے نہ لیا گیا ہو اور نہ زور اور زبر دستی سے حاصل کیا گیا ہو، قریش نے بھی اس سلسلے میں کافی احتیاط سے کام لیا اور اموال کو دار الندوہ میں رکھ دیا۔

۲۵۹

جیسا کہ ہم ملاحظہ کر تے ہیں ،جناب ہاشم کا کام خدا کی خوشنودی حاصل کر نے میں انبیاء جیسا ہے انھوں نے نہ تو شہرت حاصل کر نے کے لئے اور نہ ہی اس لئے ان امور میں ہا تھ لگایا کہ دوسرے لوگ ان کی اور ان کی قوم کی تعریف و توصیف کریں ؛جیسا کہ اُس زمانے میں جاہل عرب کی روش تھی۔

ان کا قریش کے تجارتی قافلوں کے لئے پروگرام بنانا بھی خدا کی رضا و خوشنودی کے لئے تھا جبکہ وہ لوگ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ سرزمینوں میں زندگی گذارتے تھے اور امر ار معاش کے لئے دودھ کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے تھے۔

جناب ہاشم اپنے امور میں دیگر انبیاء اور پیغمبروں کی طرح دور اندیش اور اپنی قوم کے دنیاوی معاش اور اخروی معاد کے بارے میں غور وخوض کر نے والے ایک معزز انسان تھے

۷۔ جناب عبد المطلب بن ہا شم

وہ توحید کا اقرار کر نے والے اور دنیا وآخرت میں ہر کام کی جزا یا سزا ملنے پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے ، وہ جاہلیت کے دور میں خد اشناس اور خدا پر ست تھے. انھوں نے زمزم کا کنواں کھودا۔

جناب عبد المطلب ایک مستجاب الدعوات شخص تھے،انھوں نے خدا سے بارش کی دعا کی تو خداوند عالم نے ان کے لئے بارش نازل کی انھوں نے خبر دی کہ خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آسمانی کتابوں میں نام احمد رکھا ہے اور رسول خدا کے آباء و اجداد کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم کے دَور سے خدا کی کوئی نہ کوئی حجت رہی ہے جس کی وجہ سے خدا نے برائیوں کو ان سے دور کیا ہے۔

جناب عبد المطلب نے چند سنتوں کی بنیاد رکھی جس کی اسلام نے تائید اورتثبیت کی ہے ۔

تاریخ یعقوبی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اختصار کے ساتھ ذکر ہوا ہے:

خدا وند عالم قیامت کے دن ہمارے جد جناب عبد المطلب کو پیغمبروں کے جلوہ کے ساتھ امت واحدہ کی صورت میں مبعوث کرے گا.( ۱ )

اس سے پہلے ا ن کی سیرت میں دیکھ چکے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے فرزندوں اور اپنی قوم سے عہد و پیمان لیا کہ جب پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث بہ رسالت ہوں تو وہ لوگ ان کی نصرت کریں.جیسا کہ دیگر انبیاء اپنی قوم کے ساتھ ایسا ہی عہد و پیمان لیتے تھے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ۔ج۲ ، ص ۱۲ تا ۱۴؛ بحار الانوار جلد ۱۵، ص ۱۵۷ کافی کی نقل کے مطابق، ج۱ ،ص ۴۴۶، ۴۴۷. حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ: آپ نے فرمایا : جناب عبد المطلب امت واحدہ کی صورت میں محشور ہو گے اس حال میں کہ پیغمبروں کی جھلک اور باشاہوں کی صورت کے حامل ہوں گئے.

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352