اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134217 / ڈاؤنلوڈ: 3955
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اسی طرح انھوں نے شہر ارم کو قوم عاد سے متعارف کر ایا ہے ، یہ بات خدا وند عالم کی سورہ ٔفجر کی چھٹی تا نویں آیات سے مطابقت رکھتی ہے:

( اَلَمَ تَرَکَیفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ٭اِرَمَ ذَاتِ الْعِمادِ٭ الَّتِی لَمْ یُخلَق مِثْلُهَا فِیْ البِلادِ٭ وَ ثَمُودَ الَّذِینَ جَابوُاالصَّخْرَ بِا لْوٰادِ )

(اے ہمارے رسول!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟!. شہر ارم میں جو کہ بلند وبالا اور عالی شان محلوں والا تھا ؟ !

ایسا شہر کہ جس کا مثل دوسرے شہروں میںنہیں پیدا ہوا. اور قوم ثمود کے ساتھ جو وادی میں پتھروں کو کاٹ کر اپنے لئے پتھروں سے قصر تعمیر کرتے تھے؟!

اس طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کا شعر قرآن کر یم میں مذکور پیغمبروں اور ہلاک شدہ امتوں کی خبروں سے مطابقت رکھتا ہے۔

وہ جہاں پر اپنے اجداد کی توصیف کر تے ہیں اور انھیں اللہ کے نبیوں کی ردیف میں ، پسندیدہ اخلاق ، جیسے صلہ رحم اور عہد کے وفا کر نے والی صفت سے متصف ہو نے کی بناء پر، قرار دیتے ہیں، وہیں ان کی بات کی سچائی ان کے اجداد کی سیرت کے بارے میں ثابت ہوجاتی ہے، جو کہ گزشتہ فصلوں میں مفصل طور پر بیان کی گئی ہے۔

اور آپ کی یہ بات کہ: وہ لوگ حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہی آج تک آل اللہ اور خدا پرست ہیں اور خدا وند عالم ہمیشہ ان کے ذریعہ(یعنی جن لوگوں کو وہ آل اللہ اور حجت خدا کے عنوان سے متعارف کر تے ہیں) برائی اور ناگوار چیزوں کو دور کر تا ہے، یہ ایک ایسا مطلب ہے جو صحیح اور درست ہے .کیوکہ ان کے خدا پرست ہو نے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہیں کر تے اور ہم ان کی بات کی صداقت کو اس بات سے درک کر تے ہیں کہ پیغمبر کے آباء واجداد میں حضرت اسمٰعیل تک کسی کو ایسا نہیں پایا کہ بُت کو سجدہ کیا ہویا بُت کے لئے قربانی کی ہو،یا بت کے نام پر حج کا تلبیہ کہاہو یا بت کی قسم کھا ئی ہو یا بت کی کسی بیت یا کسی شعر میں مدح وستائش کی ہو،بلکہ ان تمام موارد میں بر عکس دیکھا ہے کہ انھوں نے خدا کا سجدہ کیا ہے اور خدا سے تقرب حاصل کر نے کے لئے قربانی کی ہے اور خداوند عالم کی قسم کھائی اور اُ س کی تعریف وتوصیف کی ہے.اس لحاظ سے حضرت عبد المطلب کی بات کا صادق ہو نا روشن وآشکار ہے۔

۲۴۱

رہی ان کی یہ بات کہ ان کے درمیان ہمیشہ خدا کی کوئی حجت رہی ہے، تو اس کے متعلق یا یہ کہیں کہ پروردگار عالم نے اپنے گھر کے ساکنوں کو مکّہ میں کہ جسے ام القری کہتے ہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے یعنی اس ام القریٰ اور اس کے اطراف میں رہنے والے اور وہ لوگ جو حج ادا کر نے کے لئے اس کے محترم گھر کی طرف آتے ہیں پانچ سو سال سے زیادہ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور کسی ایسے شخص کو جس کے پاس شریعت اسلام وہ لوگ حاصل کر سکیں ان کے درمیان قرار نہیں دیا ہے کہ اس بات کا غلط ہو نا واضح اور آشکا ر ہے؛اور ہم نے اس کتاب کی ربوبیت کی بحث میں تشریح کی ہے کہ پروردگار عالم اس طرح کی چیزوں سے منزہ اور مبرا ہے۔

یا یہ کہیں کہ:

پروردگار عالم نے مسلسل نسلوں کو پانچ سو سال سے زیادہ ام القریٰ اور اس کے اطراف میں ان کے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور اُن کے درمیان ایسے افراد کو قرار دیا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی دینی احکام سیکھنا چاہے تو وہ سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو؛ اس آیۂ شریفہ کے مصداق کے مطابق کہ خدا فرماتا ہے:

( وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوافِینَالَنَهْدِ یَنَّهُمْ سُبُلَنَا )

''اور وہ لوگ جو کہ ہماری راہ میں سعی و تلاش کرتے ہیں،ہم خود ہی انھیں اپنی راہ کی راہنمائی کرتے ہیں ''۔

اس بناء پر خدا وند عالم نے انھیں افراد کے درمیان ایسے لوگوں کو قرار دیا ہے کہ جو اُسی نسل کے سارے افراد پر حجت تمام کرتے ہیں. ایسی صورت میں دین خدا کی طرف ہدایت کر نے والا جناب عبد المطلب اور آپ کے آباء و اجداد کے علاوہ حضرت ابراہیم تک کون ہوسکتا ہے؟ پروردگار عالم کی قسم کہ خدا وند متعال نے ان کے درمیان ذریت حضرت ابراہیم سے حجتیں قرار دیں اور ان پر حجت تمام کی ہے اور ان کے ذریعہ بُرائی اور عذاب کو ان سے دور کیا ہے.اور جناب عبدالمطلب نے سچ کہا ہے کہ:

نحنُ آل الله فی ما قد مضیٰ

لم یزل ذاک علی عهد ابرهم

لم تزل الله فینا حجة

ید فع الله بها عنّا النقم

۲۴۲

جناب عبد المطلب کے شاعرانہ اسلوب میں بالخصوص مذکورہ با لا ابیات میں کہ آپ نے اپنے شکست خوردہ دشمن (ابرھہ اور اس کے سپا ہی) پر فخر ومباہات کے موقع پر کہا ہے اور جن فضائل و مناقب کو شمار کیا ہے گزشتہ اور موجودہ عرب کی شاعرانہ روش سے واضح اور آشکار فرق پا یا جا تا ہے ۔

کیونکہ آپ نے اپنے باپ ہاشم کے وجود ذی جود پر افتخار نہیں کیا ایسا سخی اور جواد باپ جس نے خشک سالی کے زما نے میں مکّہ والوں کو کھانا کھلانے کا بندو بست کیا اور اونٹوں پر تجا رتی اجناس بار کر نے کے بجائے مکّہ والوں کے لئے شام سے غذا لائے اور. پھر انھیں اونٹوں کو جن پر لوگوں کے لئے غذا لا د کر لائے تھے ،نحر کیا اور گرسنہ ( بھوکے) لوگوں کو سیر کیا. یہ ایسا کار نامہ انجام دیا ہے کہ اُن سے پہلے نہ کسی عرب نے ایسا کیا اور نہ ہی حاتم طائی نے اور نہ ہی ان سے پہلے یا بعد میں کسی اورنے انجام دیا اور نہ ہم نے گزشتہ امتوں کی داستان میں کو ئی ایسا کا رنامہ ملاحظہ کیا ہے. اور اپنے باپ کے اقدام کو جو کہ اعتفاد کی رسم کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ کو ئی گھرا نہ مجبوری اور گرسنگی(بھوک) کے زیر اثر موت سے دوچار نہ ہو اپنے لئے فخر شمار نہیں کر تے اور اس وقت عرب کو تجارت کے آداب سکھا نے اور اجناس کو آباد سرزمینوں میں لے جانے کو اپنی فوقیت و بر تری کا معیار نہیں سمجھتے۔

جناب عبد المطلب نے ان تمام فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو اپنے لئے افتخار کا باعث نہیں سمجھا،جب کہ تمام لوگوں کے درمیان مذکورہ بالا فضائل صرف اور صرف ان کے باپ ھا شم سے مخصوص تھے.اس طرح کے امور میں جو کہ خدمت خلق کا پتہ دیتے ہیں خود پر فخر ومباہات نہ کر نا اللہ کے نبیوں اور اس کی حجتوں کے واضح اورنمایا صفا ت میں سے ہے.یعنی یہ لوگ لوگوں کے ساتھ جود و بخشش کر کے اور معاشی امور میں ان کی خد مت کرکے لوگوں پر احسان نہیں جتاتے بلکہ صرف لوگوں کو اس منصب سے جو خدا نے اُن سے مخصوص کیا ہے اور لوگوں کو ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ہے آگاہ کرتے ہیں.یہ کام جناب عبد المطلب نے اپنے اشعار میں انجام دیا ہے جس میں فرماتے ہیںکہ ''ہم قدیم زمانے سے ہی آل اللہ تھے...''۔

۲۴۳

جناب عبد المطلب اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت

انساب الاشراف میں ختمی مرتبت حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولا دت سے متعلق اختصار کے ساتھ یوں ذکر کیا گیا ہے:

جب آمنہ کے بطنِ مبارک میں حضرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور استقرا ر پایا تو خواب میں کوئی ان کے دیدار کو آیا اور اُس نے کہا:

اے آمنہ! تم اس امت کے سید وسردار کی حامل ہو، جب تمہارا بچہ پیدا ہو جا ئے تو کہو:(اُعیذُک بالواحِد مِن شرِّ کُلِّ حاسدِ)۔

یعنی ''تمھیں ہر حاسد کے شر سے خدا وند واحد کی پناہ میں دیتی ہوں'' اور اس کا نام احمد رکھو؛اور ایک روایت کے مطابق محمد رکھو. جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت ہو گئی تو آمنہ نے جناب عبد المطلب کو پیغام بھیجا کہ آپ کے لئے ایک بچہ پیدا ہوا ہے.جناب عبد المطلب شاد و خرم اٹھے اور گھر آئے (اس حال میں کہ ان کی اولا د اُن کے ہمراہ تھی) اور انہوں نے اپنی نگاہیں نو مولود فرزند کی طرف جمائیں، آمنہ نے اپنے خواب کو اُن سے بیان کیا اور یہ کہ اُن کے حمل کی مدت سہل اور آسان رہی ہے اور ولادت آسانی سے ہو گئی ہے، جناب عبد المطلب نے بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر کعبہ میں داخل ہوگئے اور یہ اشعار پڑھے:

اَلْحَمدُ لِلّٰه الَّذِیْ اَعطَانِی

هَٰذا الْغُلاْمَ الطَیِّبَ ا لَاردانِ

اُعیذه با لبیتِ ذی الارکان

من کل ذی بغی و ذی شنآنِ

و حاسدٍ مضطرب العنان

تمام تعر یف اس خدا کی ہے جس نے ہمیں یہ پاک و پاکیزہ اور مبارک و نورانی بچہ عنایت کیا ہے. میں اسے خداوند عالم کے گھر کی پناہ میںدیتا ہوں تاکہ ظالموں،بد خواہوں اور بے لگام حاسدوں کے شر سے محفوظ رہے۔

۲۴۴

تاریخ ابن عساکر اور ابن کثیر میں کچھ ابیات کا اضافہ کیا ہے کہ جو ان کے آخر میں ذکر ہوئے ہیں!

مندرجہ ذیل اشعار جو آخر میں اضافہ کے ساتھ مذکور ہیں :

انت الذی سُمِّیت فی الفرقان

فی کتب ثابتة المبان

احمد مکتوب علی اللسان( ۱ )

''تو وہی ہے جس کا نام فرقان اور محکم غیر تحریف شدہ کتابوں میں اور زبانوں پر'' احمد'' ہے ۔

ان اشعار میں جناب عبد المطلب خبر دیتے ہیں کہ آسمانی کتابوں میں ان کے پو تے کا نام احمد ہے۔

طبقات ابن سعد میں اختصار کے ساتھ اس طرح مذکور ہے:

____________________

(۱) انساب الاشراف، ج۱، ص ۸۰۔۸۱ کلمات میں اختلاف کے ساتھ؛طبقات ابن سعد، ج۱، ص ۱۰۳؛ تاریخ ابن عساکر،ج۱ ص ۶۹؛ ابن کثیر، ج۲، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵؛ اسی طرح دلا ئل بیھقی، ج۱، ص۵۱ بھی ملاحظہ کیجئے.

۲۴۵

حلیمہ:حضرت پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلا نے والی دا یہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کے بارے میں خوفزدہ ہوئیں اسی وجہ سے کہ انھیں پانچ سال کے سن میں مکّہ واپس لے آئیں تا کہ ان کی ماں کے حوالے کر دیں،لیکن لوگوں کی بھیڑ کے درمیان انھیں گُم کر گئیں اور جتنا بھی تلا ش کیا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور آپ نہ ملے۔ لہٰذا حضرت عبد المطلب کی خدمت میں دوڑی ہوئی آئیں اور واقعہ سے انھیں آگاہ کیا.جناب عبد المطلب کی جستجو بھی فرزند کے حصول میں نتیجہ خیز نہ ہوئی نا چا ر وہ کعبہ کی طرف رخ کر کے کہنے لگے۔

لاهُمّ أَدِّ راکبی محمّدا ----أدِّ هْ الیَّ وَاصطنع عندی یدا

انت الذی جعلتَهُ لی عضدا -----لا یبعد الدَّهرُ به فیبعدا

انت الَّذی سمَّیتَهُ مُحمّداً( ۱ )

(خدا یا! ہمارے شہسوار محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو واپس کر دے ،اُسے لو ٹا دے اور اسے میرا ناصر و مدد گار قراردے.تو نے ہی اُس کو میرا بازو قرار دیا ہے، زمانہ کبھی اس کو مجھ سے دور نہ کرے، تو نے ہی اس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھا ہے)۔

یہاں بھی جناب عبد المطلب تصریح کر تے ہیں کہ یہ خدا ہے جس نے اُن کے پو تے کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھا ہے۔

مروج الذھب نامی کتاب میں مذکور ہے:

جناب عبد المطلب اپنے فرزندوں کو صلۂ رحم اور کھانا کھلا نے کی وصیت اور انھیں تشو یق کرتے تھے اورڈرایا کرتے تھے تا کہ ان لوگوں کی طرح جو معاد،بعثت اور حشر و نشر کے معتقد ہیں، عمل کریں۔

انھوں نے سقایت (سقائی) اور رفادت کی ذمہّ داری اپنے فرزند''عبد مناف'' یعنی''جناب ابوطالب'' کودی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق وصیت بھی انھیں سے کی( ۲ )

سیرۂ حلبیہ و نبویہ نامی کتابوں میں مذکور ہے:جاہلیت کے زمانے میں جناب عبد المطلب اُن لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر دی تھی وہ مستجاب الداعوت انسان تھے (یعنی ان کی دعائیں بارگاہ خدا وندی میں مقبول ہوتی تھیں) انھیں ان کی جود وبخشش کی وجہ سے '' فیاض'' کہتے تھے اور چونکہ پر ندوں کے لئے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھا نے کا انتظام کرتے تھے انھیں لوگوں نے ''مطعم طیر السمائ'' (آسمان کے پرندوں کوغذا دینے والے کا) لقب دے رکھا تھا۔

____________________

(۱)طبقات ابن سعد، طبع یورپ، ج۱، ص ۷۰۔ ۷۱ ، خبر میں اور لفظ کے اختلاف کے ساتھ انساب الاشراف۔ ج۱، ص ۸۲؛ اسی طرح سبل الھدی والارشاد ،ج۱، ص۳۹۰ بھی ملاحظہ ہو؛(۲) مروج الذھب، ج۲، ص ۱۰۸۔ ۱۰۹

۲۴۶

روای کہتا ہے! قریش میں صابر اور حکیم شمار ہوتے تھے۔

پھر سبط جو زی کی نقل کے مطابق اختصار سے ذکر کیا ہے:جناب عبد المطلب اپنے بیٹوں کو ظلم و ستم اور طغیانی و سر کشی کے ترک کر نے کاحکم دیتے تھے اورانھیں مکارم اخلاق کی رعایت کی تشو یق اور تحریک کر تے اور انھیں اس پر آمادہ کرتے تھے اور نازیبا حرکتوں اور ناپسندیدہ افعال کے انجام دینے سے روکتے تھے وہ کہتے تھے: کو ئی ظالم اور ستمگر دنیا سے نہیں جا ئے گا مگر یہ کہ اس کے ظلم کا انتقام لوگ اُس سے لے لیں گے اور وہ اُس کی سزا بھگتے گا۔

قضاء الہٰی سے ایک ظالم انسان جو کہ شام کا رہنے والا تھا بغیر اس کے کہ وہ دنیا میں اپنے سیاہ کارناموں اور بُرے افعال کی سزا بھگتے انتقال کر گیا. اس کی داستان جناب عبد المطلب سے نقل کی گئی۔

انھوں نے تھوڑی دیر غور وفکر کیا اور آخر میں کہا: خدا کی قسم اس دنیا کے بعد ایک دو سری دنیا ہے جس میں نیک لوگوں کو ان کے نیک عمل کی جزا اور بد کا روں کو اُن کے بُرے عمل کی سزا دی جائے گی۔

یہ بات اس معنی میں ہے کہ ستمگر و ظالم انسان کا دنیا میں نتیجہ یہ ہے .اور اگر مر گیا اور اُسے کوئی سزا نہ ملی تو پھر اس کی سزاآخرت کے لئے آمادہ اور مہیا ہے۔

ان کی بہت ساری سنتیں ایسی ہیں جن میں اکثر و بیشتر کی تائید قرآن کریم نے کی ہے جیسے نذر کا پورا کرنا،محارم سے نکاح کی ممانعت،چور کا ہاتھ کاٹنا،لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے روکنا،زنا اور شراب کو حرام کر نا اور یہ کہ برہینہ خا نہ خدا کا طواف نہیں کر نا چاہئے۔( ۱)

سیرۂ بنویہ نامی کتاب میں مذکور ہے کہ :جناب ہاشم کے فرزند جناب عبد المطلب، قریش کے حکیموں اور بہت زیادہ صبر کر نے والوں اور مستجاب الدعوة انسان میں شمار ہوتے تھے.اُنہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی تھی۔ وہ سب سے پہلے انسان ہیں جو اکثر شبوں میں کوہ حرا میں عبادت(تحنث) کر تے تھے.وہ جب رمضان کا مہینہ آتا توفقراء کو کھانا کھلاتے اور پہاڑوں کی بلندی پر جا کر اس کے ایک گوشہ میں خلوت اختیار کرتے اس غرض سے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے ذاتِ خدا وندی کی عظمت اور بزرگی کے بارے میں غور و خوض کریں۔( ۲ )

____________________

(۱)سیرۂ حلبیہ، ج۱ ص ۴؛ سیرۂ نبویۂ ، ج۱ ،ص ۲۱.(۲) سیرۂ نبویہ ، ج۱ ، ص۲۰ اسی مضمون سے ملتی جلتی عبارت انساب الاشراف کی پہلی جلد کے صفحہ ۸۴ پر مذکو ر ہے.تاریخ یعقوبی اور انساب الا اشراف بلا ذری میں اختصار کے ساتھ اس طرح ذکر ہوا ہے ( اور ہم نے اس مطلب کو تاریخ یعقوبی سے لیا ہے)۔

۲۴۷

قریش پر مصیبت کے سا لہا سال قحط اور گرانی کے ساتھ گذرگئے یہاں تک کہ کھیتیاں برباد ہوگئیں اور دودھ پستا نوں میں خشک ہوگئے قریشیوں نے عاجزی اور درماندگی کے عالم میں جناب عبد المطلب سے پناہ مانگی اور کہا:خدا وند عالم نے تمہارے وجود کی برکت سے بارہا ہم پر اپنی رحمت کی بارش کی ہے اس وقت بھی خدا سے درخواست کرو تاکہ وہ ہمیں سیراب کرے۔

جناب عبد المطلب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ اُن اےّام میں جب کہ وہ اپنے جد کی آغوش میں تھے (اور اپنے جد کے سہارے راستہ طے کرتے تھے) باہر نکلے اور اس طرح دعا کی۔

''أللّهم سادَّ الخلَّة ِ،وَکَاشِفَ الکُربةِ،اَنت عَالم غَیر مُعَلَّم، مَسؤول غیرُ مُبَخَّل وَ هؤلائِ عبادُک وَ اماؤک بِعذراتِ حرمک یَشکُون اِلیکَ سَنیهِم الَّتی أَقحلتِ الضَرع وَ أَ ذهبتِ الزَّرعَ،فاسمعنَّ الّٰهُمّ وَ أَمطرنَّ غَیثاً مَریعاً مغدقاً )

خدایا !اے ضرو رتوں کو پورا کر نے والے اور کرب و بیچینی کو دور کر نے والے تو بغیر تعلیم کے عالم ہے اور بخل نہ کر نے والا مسئول ہے یہ لوگ تیرے بندے اور کنیزیں ہیں جو تیرے حرم کے ارد گرد رہتے ہیں۔

تجھ سے اس قحط کی شکا یت کرتے ہیں جس سے پستا نوں میں دودھ خشک ہو گیا ہے اور کھتیاں تباہ و برباد ہوگئیں ہیں۔

لہٰذا خدا یا! سُن اور ان پر زور دار موسلا دھار بارش نازل فرما۔

قریش ابھی وہاں سے حر کت بھی نہیں کر پا ئے تھے کہ آسمان سے ایسی موسلا دھا ر بارش ہوئی کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا۔

ایک قریش نے ایسے مو قع پر اس طرح شعر کہا:

بشیبة الحمد اسقیٰ اللهُ بلدتنا وقد فقدنا الکریٰ واجلّوذ المطرُ

''خدا وند عالم نے شیبة الحمد(جناب عبد المطلب) کی بر کت سے ہماری سر زمینوں کو سیراب کیا جب کہ ہم عیش وعشرت کھو چکے تھے اور بارش کا دور دور تک سراغ نہیں تھا''۔

منّاً من اللهِ بالمیمونِ طائره وخیر من بشّرت یوماً به مُضرُ

''خداوند عالم نے مبارک فال انسان کے وجود سے ،ہم پر احسان کیا ہے اور وہ سب سے اچھا انسان ہے کہ ایک دن مضر قبیلہ والے اُس سے شاد و خرم ہوئے ہیں ''۔

۲۴۸

مُبارک الامرِ یُستقیٰ الغمامُ به ما فی الأنام له عدلُ و لاخطرُ ( ۱ )

'' وہ مبارک مرد (جناب عبد المطلب) جس کی وجہ سے بادل نے برسنا شروع کیا؛ لوگوں کے درمیان وہ بے نظیر و بے مثال ہے ''۔

بحار الانوار میں مذکور ہے:

لوگ رسول خدا کے جد جناب عبد المطلب کے لئے کعبہ کے پاس فرش بچھا تے تھے تا کہ اس پر وہ تشریف فر ما ہوں اور اس پر ان کے احترام میں ا ن کے سوا ان کی کوئی اولاد بھی نہیں بیٹھتی تھی،لیکن جب پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آتے تھے تو اُس پر بیٹھتے تھے، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرات جا کر انھیں اس کام سے روکنے کی کوشش کرتے لیکن جناب عبد المطلب اُن سے مخاطب ہو کر کہتے!

میرے بیٹے کو چھوڑ دو اسے نہ روکو۔

پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پشت پر ہا تھ رکھ کر کہتے:میرے اس بیٹے کی خاص شان اور منزلت ہے۔( ۲ )

تاریخ یعقوبی نامی کتاب میں مذکو ر ہے کہ :

جناب عبد المطلب نے کعبہ کی حکومت اور ذمّہ داری اپنے بیٹے زبیر کے حوالے کی اور رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرپرستی اور زمزم کی سقائی جناب ابو طالب کے سپر د کی اور کہا:میں نے تمہارے اختیار میں ایسا عظیم شرف اور بے مثال افتخار قرر دیا ہے جس کے سامنے عرب کے بزرگوں کے سر خم ہو جائیں گے۔

پھر اس وقت جناب ابو طالب سے کہا:

أُوصیک یا عبد منافٍ بعدی

بمُفردٍ بعد أبیه فردِ

''اے عبد مناف! تم کو اپنے بعد ایک یتیم کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جو اپنے باپ کے بعد تنہا رہ گیا ہے''۔

فارقه و هُو ضجیع المهد

فَکُنت کا لأُ مّ له فی الوجد

____________________

(۱) یہاں تک بلا ذری کی انساب الاشراف کے صفحہ ۱۸۲ تا۱۸۵ پر حالات پراگندہ طور پر مذکور ہیں لیکن ہم نے تاریخ یعقوبی کی ج،۲ ص ۱۲ اور ۱۳ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے.(۲)بحار الانوار، ج۱۵، ص ۱۴۴اور ۱۴۶ا ور ۱۵۰.

۲۴۹

''اس کا باپ اس سے اس وقت جدا ہوگیا جب وہ گہوارے میں تھا اور تمہاری حیثیت اس کے لئے ایک دل سوز اور مہربان ماں کی تھی ''۔

تُدنیه من أَحشائها و الکبد --- فَأَنت مِن أَرجیٰ بنیّ عِندی

لدفع ضیمٍ أَو لشدِّ عقد( ۱ )

''کہ اسے دل و جان سے آغوش میں لیتی ہے.میں تم سے مشکلات اور پریشانیوں کے بر طرف کر نے اور رشتہ کو مضبوط بنا نے کے لحاظ سے اپنے تمام فرزندوں سے زیادہ امید رکھتا ہوں''۔

بحار الانوار میں،واقدی کی زبانی اس واقعہ کے نقل کے بعد اختصار کے ساتھ اس طرح روایت ہے:

اوصیک أَرجیٰ اهلنا بالر فدی --- یابن الذی غیبته فی اللحدِ

بالکره منّی ثمّ لا بالعمدی --- وخیرة الله یشاء فی العبدِ

جناب عبد المطلب نے کہا:اے ابو طالب! میں اپنی وصیت کے بعد تمہارے ذمّہ ایک کام سپرد کررہا ہوں.جناب ابو طالب نے پو چھا کس سلسلہ میں؟

کہا: میری تم سے وصیت میرے نور چشم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق ہے کہ تم میرے نزدیک اس کی عظمت اور قدر ومنزلت کو جا نتے ہو،لہٰذا اس کی مکمّل طور پرتعظیم کرو اور جب تک زندہ ہو روز وشب کسی بھی وقت بھی ا س سے الگ نہ ہونا؛ خدا را ،خدا را،حبیب خدا کے بارے میں۔پھر اُس وقت اپنے دیگر بیٹوں سے کہا:محمد کی قدر دانی کرو کہ بہت جلد ہی عظیم اور گراں قدر امرکا اس میں نظارہ کروگے اور بہت جلد اس کے انجام کار کو جس سلسلے میں میں نے اس کی تعریف و توصیف کی ہے وقت آنے پر سمجھ جائو گے ۔جناب عبد المطلب کے فرزندوں نے ایک آواز ہو کر کہا: اے بابا! ہم مطیع اور فرمانبردار ہیں اور اپنی جان و مال اُس پر فدا کر دیں گے۔پھر اس وقت جناب ابو طالب نے جوپہلے سے ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر چچا کے مقابلے سب سے زیادہ ان کی بہ نسبت مہر بان اور دلسوز تھے. کہا: میرا مال اور میری جان محمد پر فدا ہے،میں ان کے دشمنوں سے جنگ کروں گا اور دوستوں کی نصرت کروں گا۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی،ج،۲ ،ص ۱۳.

۲۵۰

واقدی نے کہا ہے:

پھر جناب عبد المطلب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دوبارہ آنکھ کھولی اور قریشیوں کی جانب نظر کی اور بو لے:اے میری قوم! کیا تم پر میرے حق کی رعا یت واجب نہیں ہے؟

سب نے ایک ساتھ کہا:بیشک،تمہارے حق کی رعایت چھوٹے بڑے،سب پر واجب ہے تم ہمارے نیک رہبر اور بہترین رہنما تھے۔

جناب عبد المطلب نے کہا: میںاپنے فرزند محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبد اللہ کے بارے میں تم سے وصیت کر تا ہوں اس کی حیثیت اپنے درمیان ایک محتر م اور معزز شخص کی طرح سمجھنا اس کے ساتھ نیکی کر نا اور اس پر ظلم روا نہ رکھنا اور اس کے سامنے نا پسندیدہ افعال بجا نہ لانا۔

جناب عبد المطلب کے فرزندوں نے ایک ساتھ کہا: ہم نے آپ کی بات سنی اور ہم اس کی اطاعت و پیروی کریں گے۔( ۱ )

ابن سعد کی طبقات میں مذکو ر ہے:

جب جناب عبد المطلب کی موت کا وقت قریب آیا،تو انھوں نے جناب ابو طالب کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت و نگہداری کی وصیت کی۔( ۲ )

جناب عبد المطلب کا اس وقت انتقال ہوا جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آٹھ سال کے تھے اور وہ خود ایک سو بیس سال کے تھے کہ اس سن میں دنیا کو وداع کہہ کر رخصت ہوئے۔

خدا وند عالم نے جناب عبد المطلب کو جسمی اعتبار سے قوی و توانا بنا یا تھا اور صبر وتحمل اور جو د وسخا کے اعتبار سے بڑا حو صلہ دیا تھا اور آپ کا ہاتھ بہت کھلا ہوا تھا انھیں توحید پرست،روز قیامت کی سزا کا معتقد اور جاہلیت کے دور میں خدا پر ست بنایا اور بتوں کی پرستش اور تمام ہلا کت بار چیزوں سے جو لوگوں کی تباہی کا باعث ہوتی ہیں ان سے انھیں دور رکھا تھا.وہ ظلم وستم اور گناہوں کے ارتکاب کو سخت ناپسند کر تے تھے.وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے غار حرا میں عبادت کے لئے خلوت نشینی کی تاکہ خدا کی عظمت و جلالت کے بارے میں تفکر کریں اور اس کی عبادت کریں وہ رمضان کے مہینے میں عبادت میں مشغول ہوتے اور فقرا ء و مسا کین کو اس ماہ میں کھانا کھلا تے تھے. آپ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مکّہ میں خوش ذائقہ پا نی سے

____________________

(۱)بحار الانوار :ج۱۵، ص۱۵۲، ۱۵۳.(۲) طبقات ابن سعد،ج۱ص ۱۱۸.

۲۵۱

لوگوں کو سیراب کیا اور خواب میں زمزم کا کنواں کھو دنے پر مامور ہوئے ور آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور صرف اپنے فرزند حا رث کے ساتھ مذکورہ کنویں کی کھدائی کی۔

اور جب ابرھہ اپنے ہاتھی پر سوار ہو کر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ خانہ کعبہ کو ڈھانے کے ارادہ سے مکّہ کے اطراف میں پہنچا،تو جناب عبد المطلب نے ابرھہ کے لشکر سے مقا بلہ کرنے کے لئے قریش کو آواز دی لیکن ان لو گوں نے سنی اَن سنی کر دی اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر فرار کر گئے؛ لیکن جناب عبد المطلب نے خدا کے گھر کو نہیں چھوڑا اور خدا کو مخاطب کر کے اس طرح شعر پڑھا:

یا ربّ انَّ العبد یمنعُ

رحلهُ فامنع رحالک

خدایا! ہر بندہ اپنے گھر کا دفاع اور بچاؤ کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع اور تحفظ کر۔

اور جب خدا وند متعال نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو ہلاک کر ڈالا تو انھوں نے یہ اشعار کہے:

انَّ للبیت لرباً ما نعاً

من یرده بأَثامٍ یصطلم

(اس گھر کا روکنے والاایک مالک ہے کہ جو بھی اس کی طرف گناہ کا قصد کر ے گا تو وہ اسے نابود کر دے گا)۔

رامه تُبّع فی من جند ت

حمیر و الحی من آل قدم

( تبع انھیں میں سے ایک تھا کہ جس نے لشکر کشی کی،اسی طرح حمیر اور اس کے قبیلہ والے )۔

فانثنیٰ عنه و فی اوداجه

جارح امسک منه بالکظم

(کہ لوٹنے کے بعد اس کی گردن میںکچھ زخم تھے جو سانس لینے سے مانع تھے)۔

۲۵۲

قلت والأشرم تردی خیله

اِنّ ذا الاَّشرم غرّ بالحرم

(اور اس کان کٹے (ابرھہ) سے جو اپنے لشکر کو ہلاکت میں ڈال رہا تھا میں نے کہا:بیشک یہ گوش بریدہ(کان کٹا) حرم کی بہ نسبت نہایت مغرور ہے)۔

نحن آل الله فی ما قد مضی

لمن یزل ذاک علی عهد اِبرهم

( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔

نحنُ دمَّرنا ثموداً عَنوة

ثم عادا قبلها ذات ا لارم

( ہم نے ثمود کی سختی کے ساتھ گو شمالی کی اور انھیں ہلاک کر ڈالا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو )

نعبد الله و فینا سُنّة

صلَة القربیٰ و ایفاء الذمم

( ہم خدا کی عبادت کر تے ہیں اور ہمارے درمیان صلہ رحم اور عہد کا وفا کرنا سنت رہا ہے)۔

۲۵۳

لم تزل للهِ فینا حجّة

یدفع الله بها عنّا النّقم

( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔

یہی سال تھا کہ آپ کے پو تے خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیدا ہوئے تو جناب عبد المطلب نے انہیںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک کپڑے میں لپیٹا اور اُ نہیں اپنے سینے سے لپٹا کر کعبہ میں داخل ہوگئے اور اس طرح شعر پڑھا :

انت الّذی سُمِّیت فی الفرقان

فی کُتب ثابتة المثان

احمد مکتوب علی اللسان

''تو وہی ہے جس کا نام فرقان اور محکم غیر تحریف شدہ کتابوں میں '' احمد ہے ''۔

ان اشعار میں جناب عبد المطلب خبر دے رہے کہ آسمانی کتابوں میں ان کے پو تے کا نام احمد ہے۔

جناب عبد المطلب مستجاب الدعوات تھے، جس وقت قریش پر بارش نہیں ہوتی تھی اُن سے دعا کی درخواست کر تے تھے کہ آپ خدا سے دعا کریں تو خدا آپ کی دعا کے نتیجے میں موسلا دھار بارش نازل کرتا تھا.آخر ی بار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جب آپ کم سن بچہ تھے رحمت باراں طلب کرنے کے لئے باہر گئے ابھی لوگ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔

جناب عبد المطلب نے کچھ ایسی سنتیں قائم کی ہیں کہ اسلام نے ان کی تائید اور تثبیت کی ہے. جیسے:

۱۔ نذر کا پو را کر نا؛ سورۂ انسان، آیت ۷ اور سورۂ حج ،آیت ۲۔

۲۔ محارم سے ازدواج کی ممانعت؛سورۂ نسائ،آیت ۲۳۔

۳۔ چور کا ہاتھ کاٹنا؛ سورۂ مائدہ، آیت ۳۸۔

۴۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی ممانعت؛ سورۂ تکویر، آیت ۸، سورۂ انعام، آیت ۱۵۱، سورۂ اسرائ، آیت ۳.

۵۔ شراب کا حرام کر نا؛ سورۂ مائدہ، آیت ۹۰۔ ۹۱۔

۲۵۴

۶۔ زنا کی حر مت سورۂ فرقان آیت۶۸، سورۂ ممتحنہ آیت ۱۲ ، سورۂ اسرائ، آیت ۳۲۔

۷۔ خا نہ کعبہ کے گرد عریاں اور برہینہ حالت میں طواف کر نے سے روکنا۔

پیغمبر خدا نے ۹ ھ میں جب انھوں نے اپنے چچا زاد بھائی علی کو حاجیوں کے سامنے سورۂ برائت کی ابتدائی آیات کی تلا وت کر نے پر مامور کیا تھا تب یہ بھی حکم دیا تھا کہ یہ موضوع بلند آواز سے لوگوں کو ابلاغ کر یں۔

۸۔صلۂ رحم کی رعایت ، خاندان والوں اور رشتہ داروں سے ارتباط رکھنا؛ سورۂ نسائ، آیت۱۔

۹۔ کھانا کھلانا؛ سورۂ مائدہ آیت ۸۹ اور سورۂ بلد آیت ۱۴ ، سورۂ الحاقہ آیت ۳۴۔

۱۰۔ظلم نہ کرنااور ستمگری کو ترک کرنا؛ سورۂ ابراھیم آیت ۲۲ اور بہت سی دیگر آیات۔

وہ غار حرا میں کنج تنہائی اختیار کرتے تھے اور کئی کئی راتیں خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ( کہ جس کو کہتے ہیں) یہی روش آپ کے پو تے خا تم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنائی تھی.وہ روز جزا (قیامت) پر ایمان واعتقاد رکھتے تھے اور اس بات کی دوسروں کو بھی تبلیغ کر تے تھے۔

بحار الانوار میں اپنی سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے انھوں نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے جد سے انھوں نے حضرت علی ابن ابی طالب سے انھوں نے حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے اپنی وصیت میں فرمایا : اے علی! جناب عبد المطلب نے دور جا ہلیت میں پانچ سنتیں قائم کی ہیں کہ خدا وند عالم نے اسے اسلام میں اجرا کیا اور اس پر عمل کرنے کو ضروری سمجھا ہے ۔

انھوں نے باپ کی بیوی سے ازدواج حرام کیا ہے؛ اور خدا وند رحمن نے یہ آیت نازل فرمائی :

( لَا تَنْکِحُوا مَانَکَحَ آباؤُکُمْ مِنَ النِّسٰائِ )

جن عورتوں سے تمہارے آباء و اجداد نے نکاح کیا ہے اُن سے نکاح نہ کرو۔

جناب عبد المطلب نے ایک خزانہ پایا،تو اس کا خمس نکال کر جدا کر دیا اور راہ خدا میں صدقہ دیا، خدوند عالم نے بھی فرمایا:

( وَاعْلَمُوا اَنّمَا غَنِمْتُمْ مِن شَیٍٔ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمسَه )

جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو یقینا اس میں اللہ اور کے لئے خمس ہے۔

اور جب زمزم کا کنواں کھودا تو اُ سے حاجیوں کے پینے کے لئے مخصوص کر دیا. اور خدا وند عالم نے بھی فرمایا:( اَجَعَلْتُمْ سَقَایةَ الَحَاجَّ ) حجاج کو پانی پلانا ...؟

۲۵۵

آپ نے اونٹ کی دیت سو اونٹ معین کی تو خدا وند عالم نے بھی اسی کو اسلام میں معین کردیا، پہلے خانہ خدا کے گرد طواف کر نے کی کوئی حد معین نہیں تھی جناب عبد المطلب نے سات چکر طواف معین کیا اور خدا وند عالم نے اسی کو اسلام میں باقی رکھا۔

اے علی! جناب عبد المطلب نے ازلام ( پانسوں) کے تیروں کے مطابق تقسیم نہیں کی،کسی بُت کی پوجا نہیں کی اور نہ ہی بُت کے لئے قربانی کیا ہوا گوشت کبھی نہیں کھا یا اور کہتے تھے میں ا پنے باپ ابراہیم کے دین کا پابند ہوں۔( ۱ )

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جناب عبد المطلب کے اونٹ کے سم کے نیچے سے پانی کا ابلنا ( کہ جس کی حکا یت پہلے بیان کی جاچکی ہے ) ایک کرامت تھی خدا نے جس کے ذریعہ ان کو محترم بنا یا ۔

جس طرح ان کے جد اسمٰعیل کو اس سے پہلے ان کے قدم کے نیچے سے آب زمزم کے جاری ہو نے کی وجہ سے مکرم اور محترم بنایا تھا۔

خدا وند عالم نے اسی طرح کی کرامت سے اُن کے پو تے حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرامی قدر بنا یا جب جنگ تبوک میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیر کے پاس سے چشمہ پھوٹ پڑا۔( ۲ )

جو کچھ ا س حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ جناب عبد المطلب نے زمانۂ جا ہلیت میں پا نچ سنتیں قائم کیں اور اسلام نے اس کی تائید اور تثبیت کی،وہ اس سے پہلے ذکر کی گئی باتوں سے منا فات نہیں رکھتا کیو نکہ کسی چیز کا ثابت کر نا دوسری چیزوں کے نہ ہو نے پر دلیل نہیں بن سکتا۔

بحث کا خلاصہ

حضرت ابراہیم نے اسمٰعیل کو وصیت کی کہ ان کی حنیفیہ شریعت کے ستونوں کو بیت ﷲ الحرام کی تعمیر اور منا سک حج کی ادائیگی سے قائم رکھیں.تو اسمٰعیل نے اپنی پوری زندگی اپنے باپ کی وصیت کا پاس و لحاظ رکھا یہاں تک کہ مکّہ میں انتقال کر گئے اور اپنی مادر گرامی (ہاجرہ) اور اپنے بعض فرزندوں کے پاس حجر اسمٰعیل میں سپر د لحد کئے گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) بحار الانوار ، ج ۱۵،ص ۱۲۷ شیخ صدوق کی خصال ج۱، ص ۱۵۰ کی نقل کے مطابق

(۲) بحار الانوار ،ج ۲۱، ص ۲۳۵ ،خرائج کی نقل کے مطابق ص ۱۸۹ ، بابِ غزوۂ تبوک

(۳) ملاحظہ کیجئے : اسلام میں دو مکتب، ج۱ ، ص ۸۲ تا ۸۵ اور معا لم المدرستین، طبع ۴،ج۱ ،ص۶۰ تا ۶۴.

۲۵۶

خدا نے اسحق کے فرزند یعقوب جو کہ اسرائیل سے مشہو ر تھے ان کی اولا د کے لئے بھی مخصوص احکام وضع کئے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کی شریعت میں رائج ہوئے ہیں۔

حضرت عیسیٰ بن مر یم کے بعد رسولوں کی فترت کا زمانہ شروع ہو جا تا ہے .یعنی خدا وند عالم نے اس مدت میں کو ئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا رسول نہیں بھیجا .جز ان نبیوں کے جو بعض لوگوں کے لئے ہدایت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے.انھیں عیسیٰ کی شریعت پر عمل کر نے کی دعوت دی.جیسے خالد بن سنان اور حنظلہ جن کا شمار اوصیاء شریعت عیسیٰ میں ہوتا ہے ۔

رہا سوال ام القریٰ (مکّہ) اور اس کے اطراف وجوانب کا تو حضرت اسمٰعیل کے پوتوں میں کوئی نہ کوئی بزرگ یکے بعد دیگرے حضرت ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کے قیام اور حضرت کی سنتون کو زندہ کر نے کے لئے اُٹھے کہ اب مختصر طور سے ہم ان کا تعارف کراتے ہیں:

۱۔ مضر کے فرزند الیاس

مضر کے فرزند الیاس حضرت اسمٰعیل کے قبیلہ کے اُن افراد پر بہت ناراض ہوئے اور نکتہ چینی کی جنھوں نے اپنے آباء واجداد کی روش اور سنتوں کو بدل ڈالا تھا.انھوں نے ان کی نئے سرے سے تجد ید کی یہاں تک کہ تحر یف سے قبل والی حالت کے مانند ان پر عمل ہونے لگا۔

الیاس وہ پہلے آدمی ہیں جو اپنے ہمراہ قربانی کا اونٹ مکّہ لے گئے ، نیز وہ حضرت ابراہیم کے بعد پہلے آدمی ہیں جنھوں نے رکن کی بنیاد ڈالی۔

۲۔الیاس کے پو تے خز یمہ بن مدرکہ

خزیمہ کہتے تھے: ایک''احمد '' نامی پیغمبر کے خروج کا زمانہ قریب آچکا ہے.وہ لوگوں کو خدا، نیکی، احسان اور مکارم الاخلا ق (اخلاق کی بلندیوں) کی دعوت دے گا. تم سب اس کی پیروی کرنا اور اس کی کبھی تکذیب نہ کرنا کیو نکہ وہ جو کچھ لائے گا حق ہو گا۔

۲۵۷

۳۔ کعب بن لو ٔی

کعب خزیمہ کے پو توں میں سے ہیں وہ حج کے ایام میں خطبہ دیتے اور کہتے تھے : زمین و آسمان اور ستارے لغو اور بیہودہ خلق نہیں کئے گئے ہیں اور روز قیامت تمہارے سامنے ہے .وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو پسندیدہ اخلا ق اور بیت اللہ الحرام کی تعظیم و تکریم پر آما دہ کرتے تھے.اور انھیں آگاہ کرتے تھے کہ خا تم الانبیاء خدا کے گھر سے مبعوث ہو گے اور اس بات کی موسیٰ اور عیسیٰ نے بھی اطلا ع دی ہے اورشعر پڑھتے تھے:

علیٰ غفلةٍ یاتی النبی محمد فیخبرا خباراً صدوقاً خبیرها

اچانک محمد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئیں گے اور وہ سچی خبر دیں گے۔

اور کہتے تھے:اے کاش میں ان کی دعوت اور بعثت کو درک کر تا..

۴۔ جناب قُصیّ

بعد اس کے کہ خزاعہ قبیلہ کے رئیس نے مکّہ میں بُت پر ستی کو رواج دیا.حضرت اسمٰعیلں کی نسل سے قُصیّ ان کے مقابلے کے لئے اُٹھے اور انھیں مکّہ سے باہر نکال دیا.انھوں نے بُت پر ستی سے منع کیا اور ابراہیم کی سنت جو مہمانوں کو کھا نا کھلانے سے متعلق تھی اس کی دوبارہ بنیاد ڈالی.وہ حج کا موسم آنے سے پہلے ہی قریش قبیلہ کے درمیان اٹھے اور ایک خطبہ کے ضمن میں فرمایا:

اے جماعت قریش ! تم لوگ خدا کے ھمسایہ(پڑوسی) اس کے حرم اور گھر والے ہو اور حجاج خدا کے مہمان اور اس کے گھر کے زائر ہیں .اور احترام وتکریم کے سب سے زیادہ لائق اور سزاوار ترین مہمان ہیں.لہٰذا حج کے ایام میں جب تک کہ تمہارے علا قے سے اپنے گھرواپس نہیں چلے جاتے اس وقت تک ان کے لئے غذا اور کھا نے پینے کی چیزیں فر اہم کرو، اگر میرا مال ان تمام امور کے لئے کافی ہوتا تو تن تنہا اور تمہاری شمو لیت کے بغیر اس کام کے لئے اقدام کر تا.لہٰذا تم میں سے ہر ایک اس کام کے لئے اپنے مال کا ایک حصّہ مخصوص کرے۔

۲۵۸

قریش نے حکم کی تعمیل کی اور کافی مقدار میں مال جمع ہو گیا،جب حاجیوں کے آنے کا زمانہ قریب ہوا ، تو مکّہ کے ہر راستے پر ایک اونٹ نحر کیا اور مکّہ کے اندر بھی ایسا کیا اور ایک جگہ کا انتخاب کیا تا کہ وہاں روٹی اور گو شت رکھا جائے اور خوش ذائقہ اور میٹھا پانی اور دوغ (چھاچھ) حاجیوں کے لئے فر اہم کیا، وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مزدلفہ میںآگ جلا ئی تا کہ رات کے وقت حجاج عرفات سے باہر آئیں تو اپنا راستہ پہچان سکیں،انھوں نے خانہ خدا کے لئے کلید بردار اور پردہ دارکا تقرر کیا اور اپنے بیٹے عبد الدار کے گھر کو دار الندوہ (مجلس مشاورت) کا نام دیا،اس طرح سے کہ قریش وہاں کے علا وہ کہیں فیصلہ نہ کر یں.انھوں نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزندوں سے وصیت کی کہ شراب سے پر ہیز کریں۔

۵۔ جناب عبد مناف

قُصیّ کے بعد، ان کے فرزند عبد مناف کہ جن کانام مغیرہ تھا ان کے جا نشین ہوئے اور قریش کو تقوائے الٰہی،صلہ رحم اور پر ہیز گاری کی تعلیم دی۔

۶۔ جناب ھا شم

عبد مناف کے بعد ،ان کے فرزند جناب ہاشم ان کے جانشین ہوئے اور قَصیّ کی سنت و روش کی پیروی میں حجاج کی مہما ن نوازی کے لئے قریش کو آواز دی وہ اپنے خطبہ میں کہتے تھے:

خدا کے مہمانوں اور اس کے گھر کے زائرین کا احترام کرو اس گھر کے ربّ کا واسطہ،اگر میرے پا س اتنا مال ہوتا جو ان کے اخراجا ت کے لئے کا فی ہوتا تو تمہاری مدد سے بے نیاز ہوتا ، میں اپنے پاک وحلال مال سے کہ جس میں قطع رحم نہیں ہوا، کوئی چیز ظلم وستم سے نہیں لی گئی اور جس میں حرام کا گذر نہیں ہے(حجاج کے اخراجا ت کے لئے) ایک مبلغ الگ کر تا ہوں اور جو بھی چاہتا ہے کہ ایسا کرے وہ ایک مبلغ جدا کردے،تمھیں اس گھر کے حق کی قسم تم میں سے جو بھی بیت اللہ کے زائر کا احترام کر نے اور ان کی تقو یت کے لئے کوئی مال پیش کرے وہ اُس مال سے ہو جو پاک اور حلال ہو، جسے ظلم کے ذریعہ اور قطع رحم کر کے نہ لیا گیا ہو اور نہ زور اور زبر دستی سے حاصل کیا گیا ہو، قریش نے بھی اس سلسلے میں کافی احتیاط سے کام لیا اور اموال کو دار الندوہ میں رکھ دیا۔

۲۵۹

جیسا کہ ہم ملاحظہ کر تے ہیں ،جناب ہاشم کا کام خدا کی خوشنودی حاصل کر نے میں انبیاء جیسا ہے انھوں نے نہ تو شہرت حاصل کر نے کے لئے اور نہ ہی اس لئے ان امور میں ہا تھ لگایا کہ دوسرے لوگ ان کی اور ان کی قوم کی تعریف و توصیف کریں ؛جیسا کہ اُس زمانے میں جاہل عرب کی روش تھی۔

ان کا قریش کے تجارتی قافلوں کے لئے پروگرام بنانا بھی خدا کی رضا و خوشنودی کے لئے تھا جبکہ وہ لوگ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ سرزمینوں میں زندگی گذارتے تھے اور امر ار معاش کے لئے دودھ کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے تھے۔

جناب ہاشم اپنے امور میں دیگر انبیاء اور پیغمبروں کی طرح دور اندیش اور اپنی قوم کے دنیاوی معاش اور اخروی معاد کے بارے میں غور وخوض کر نے والے ایک معزز انسان تھے

۷۔ جناب عبد المطلب بن ہا شم

وہ توحید کا اقرار کر نے والے اور دنیا وآخرت میں ہر کام کی جزا یا سزا ملنے پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے ، وہ جاہلیت کے دور میں خد اشناس اور خدا پر ست تھے. انھوں نے زمزم کا کنواں کھودا۔

جناب عبد المطلب ایک مستجاب الدعوات شخص تھے،انھوں نے خدا سے بارش کی دعا کی تو خداوند عالم نے ان کے لئے بارش نازل کی انھوں نے خبر دی کہ خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آسمانی کتابوں میں نام احمد رکھا ہے اور رسول خدا کے آباء و اجداد کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم کے دَور سے خدا کی کوئی نہ کوئی حجت رہی ہے جس کی وجہ سے خدا نے برائیوں کو ان سے دور کیا ہے۔

جناب عبد المطلب نے چند سنتوں کی بنیاد رکھی جس کی اسلام نے تائید اورتثبیت کی ہے ۔

تاریخ یعقوبی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اختصار کے ساتھ ذکر ہوا ہے:

خدا وند عالم قیامت کے دن ہمارے جد جناب عبد المطلب کو پیغمبروں کے جلوہ کے ساتھ امت واحدہ کی صورت میں مبعوث کرے گا.( ۱ )

اس سے پہلے ا ن کی سیرت میں دیکھ چکے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے فرزندوں اور اپنی قوم سے عہد و پیمان لیا کہ جب پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث بہ رسالت ہوں تو وہ لوگ ان کی نصرت کریں.جیسا کہ دیگر انبیاء اپنی قوم کے ساتھ ایسا ہی عہد و پیمان لیتے تھے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ۔ج۲ ، ص ۱۲ تا ۱۴؛ بحار الانوار جلد ۱۵، ص ۱۵۷ کافی کی نقل کے مطابق، ج۱ ،ص ۴۴۶، ۴۴۷. حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ: آپ نے فرمایا : جناب عبد المطلب امت واحدہ کی صورت میں محشور ہو گے اس حال میں کہ پیغمبروں کی جھلک اور باشاہوں کی صورت کے حامل ہوں گئے.

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

کسریٰ نے دوسرے افراد سے سوال کیا : کیا یہ سچ کہہ رہا ہے ؟

انھوں نے جواب میں کہا: ہاں :

اس کے بعد عاصم نے مٹی کو اپنے کندھوں پر رکھ کر کسریٰ کے محل کو ترک کیا اور فورا ًاپنے گھوڑے کے پاس پہنچ کر مٹی کو گھوڑے پر رکھ کر دیگر افراد سے پہلے تیز ی کے ساتھ اپنے آپ کو سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا دیا ۔اور دشمن پر کامیابی پانے کی نوید دیتے ہوئے کہا: خدا کی قسم ،بیشک خدائے تعالیٰ نے ان کے ملک کی کنجی ہمیں عنایت کردی ۔جب عاصم کے اس عمل اور بات کی اطلاع ایرانی فوج کے سپہ سالاررستم کو ملی تو رستم نے اسے بدشگونی سے تعبیر کیا ۔

یہاں پر یعقوبی نے سیف کی بات کو حق سمجھ کر اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔

لیکن اس سلسلے میں بلاذری لکھتا ہے :

عمر نے ایک خط کے ذریعہ سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند افراد کو کسریٰ کی خدمت میں مدائن بھیجے تاکہ وہ اسے اسلام کی دعوت دیں ،سعد نے خلیفہ عمر کے حکم پر عمل کرتے ہوئے عمروابن معدی کرب اور اشعث بن قیس کندی کہ دونوں قحطانی یمانی تھے کو ایک گروہ کے ہمراہ مدائن بھیجا ۔ جب یہ لوگ ایرانی سپاہیوں کے کیمپ کے نزدیک سے گزررہے تھے تو ایرانی محافظوں نے انھیں اپنے کمانڈر انچیف رستم کی خدمت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی ۔رستم نے ان سے پوچھا : کہاں جا رہے تھے اور تمھارا ارادہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : کسریٰ کی خدمت میں مدائن جا رہے تھے

بلازری لکھتا ہے :

ان کے اور رستم کے درمیان کافی گفتگو ہوئی ۔اس حد تک کہ انھوں نے کہا :

پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں نوید دی ہے کہ تمھاری سرزمین کو ہم اپنے قبضے میں لے لیں گے رستم نے جب ان سے یہ بات سنی تو حکم دیا کہ مٹی سے بھری ایک زنبیل لائی جائے ۔اس کے بعد ان سے مخاطب ہو کر کہا:یہ ہمارے وطن کی مٹی ہے تم لوگ اسے لے جائو ۔رستم کی یہ بات سننے کے بعد عمرو بن معدی کرب فورا ًاٹھا اپنی رد ا پھیلا دی اور مٹی کو اس میں سمیٹ کر اپنے کندھوں پر لئے ہوئے وہاں سے چلا ۔اس کے ساتھیوں نے اس سے سوال کیا کہ کس چیز نے تمھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ اس نے جواب میں کہا : رستم نے جوعمل انجام دیا ہے اس سے میرے دل نے گواہی دی کہ ہم ان کی سر زمین پر قبضہ کر لیں گے اور اس کا م میں کامیاب ہوں گے ۔

۳۰۱

سند کی تحقیق :

اس داستان کی سند میں دو راویوں کے نام اس طرح آئے ہیں '' عن بنت کیسان الضبیة عن بعض سبا یا القاد سیہ ممن حسن اسلامہ ''(۱) یعنی کیسان ضبیی کی بیٹی سے اس نے جنگ قادسیہ کے ایک ایرانی اسیر سے روایت کی ہے ۔جس نے اسلام قبول کیا ۔

اب ہم سیف سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیسان کی بیٹی کا کیا نام تھا؟ خود کیسان کون تھا؟ ایک ایرانی اسیر کا اس کے خیال میں کیا نام ہے ؟ تاکہ ہم راویوں کی کتاب میں ان کو ڈھونڈ نکالتے !!

تحقیق کا نتیجہ اور داستان کا ماحصل:

سعد وقاص ،عمرو ابن معدی کرب اور اشعث بن قیس قندی کہ دونوں قحطانی یمانی

تھے و چند افراد کے ہمراہ ایلچی کے طور پر کسریٰ کے پاس بھیجا ہے کہ ان لوگوں کی راستے میں ایرانی فوج کے کمانڈرانچیف رستم فرخ زاد سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ،ان کے اور رستم کے درمیان گفتگو ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں عمرو ایران کی سرزمین کی مٹی بھری ایک زنبیل لے کر واپس ہوتا ہے ۔سیف بن عمرتمیمی خاندانی تعصب کی بنا پر یہ پسند نہیں کرتا کہ اس قسم کی مسئولیت خاندان قحطانی یمانی کا کوئی فرد انجام دے جس سے سیف عداوت و دشمنی رکھتا ہے ۔اس لئے اس کے بارے میں تدبیر کی فکر میں لگتاہے اورحسب سابق حقائق میں تحریف کرتا ہے ۔اس طرح قبیلہ مضرکے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو ان دو افراد کی جگہ پر رکھ کر اس گروہ کے ساتھ دربار کسریٰ میں بھیجتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے

____________________

الف )۔ تاریخ طبری طبع یورپ (٢٢٣٨١ ٢٢٤٥)

۳۰۲

کہ اس کے اور کسریٰ کے درمیان گفتگو ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں کسریٰ کے ہاں سے مٹی اٹھا کر لانا عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے دشمن پر فتحیابی کا فال نیک ثابت ہو تاہے ۔

سیف خاندانی تعصب کی بناء پر ایک تاریخی حقیقت میں تحریف کرکے عمرو بن معدی کرب جیسے یمانی و قحطانی فرد کی ماموریت ،جرأت اور شجاعت کو قلم زد کردیتا ہے اور اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو رکھ دیتا ہے ۔ایرانی فوج کے کمانڈر انچیف رستم فرخ زاد کے پاس منعقد ہونے والی مجلس و گفتگو کو کسریٰ کے دربار میں لے جاکر رستم کے حکم کو کسریٰ کے حکم میں تبدیل کردیتا ہے اور اس طرح کے افسانے جعل کرکے محققین کو حیرت اور تشویش سے دو چار کرتا ہے

عاصم کی تقریر

طبری نے قادسیہ کی جنگ کے آغاز میں سیف سے یوں نقل کیا ہے:

اسلامی فوج کے کمانڈرانچیف سعد وقاص نے اپنی فوج میں ایک گروہ کو حکم دیا کہ نہر ین کے آبادی والے علاقوں پر حملہ کریں ۔اس گروہ کے افراد نے حکم کی تعمیل کی اور اچانک حملہ کرکے اپنے کیمپ سے بہت دور جا پہنچے ۔اس حالت میں ایک ایرانی فوج کے سوار دستہ سے دو چار ہوئے اور یہ محسوس کیا کہ اب نابودی یقینی ہے ۔جوں ہی یہ خبر سعد وقاص کو ملی تواس نے فوراً عاصم بن عمرو تمیمی کو ان کی مدد کے لئے روانہ کیا ۔ایرانیوں نے جوں ہی عاصم کو دیکھا تو ڈر کے مارے سب فرار کر گئے !! جب عاصم اسلامی سپاہ کے پاس پہنچا تو اس نے حسب ذیل تقریر کی :

'' خدائے تعالیٰ نے یہ سرزمین اور اس کے رہنے والے تمھیں عطا کئے ہیں ، تین سال سے تم اس پر قابض ہو اور ان کی طرف سے کسی قسم کا صدمہ پہنچے بغیر ان پر حکمرانی اور برتری کے مالک ہو''

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا شیوہ بنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے اور اچھی طرح تلوار چلائوگے اور خوب نیزہ اندازی کروگے تو خدا ئے تعالیٰ تمھارے ساتھ ہے ،اس صورت میں ان کا مال و منال ، عورتیں ، اولاد اور ان کی سر زمین سب تمھارے قبضہ میں ہوگی ۔

۳۰۳

لیکن اگر خدا نخواستہ کسی قسم کی کوتاہی اور سستی دکھائو گے تو دشمن تم پر غالب آجائے گا اور اس ڈر سے کہ کہیں تم لوگ دو بارہ منظم ہوکر ان پر حملہ کرکے ان کو نیست و نابود نہ کر دو ،انتہائی کوشش کرکے تم میں سے ایک آدمی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے ۔

اس بنا پر خدا کو مد نظر رکھو ،اپنے گزشتہ افتخارات کو یاد رکھو اور خدا کی عنایتوں کو ہر گز نہ بھولو ۔ اپنی نابودی اور شکست کے لئے دشمن کو کسی صورت میں بھی فرصت نہ دو ۔کیا تم اس خشک و بنجر سرزمین کو نہیں دیکھ رہے ہو ۔نہ یہاں پر کوئی آبادی ہے اور نہ پناہگاہ کہ شکست کھانے کی صورت میں تمھارا تحفظ کر سکے ؟ لہٰذا ابھی سے اپنی کوشش کو آخرت اور دوسری دنیا کے لئے جاری رکھو ۔

ایک اور تقریر

طبری سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

سعد وقاص نے دشمن سے نبرد آزمائی کے لئے چند عقلمند اور شجاع افراد کا انتخاب کیا جن میں عاصم بن عمرو بھی شامل تھا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا:

''اے عرب جماعت !تم لوگ قوم کی معروف اور اہم شخصیتیں ہو جو ایران کی معروف اور اہم شخصیتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے منتخب کئے گئے ہو ،تم لوگ بہشت کے عاشق ہو جب کہ وہ دنیا کی ہو او ہوس اور زیبائیوں کی تمناّ رکھتے ہیں ۔ اس مقصد کے پیش نظر ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے دنیوی مقاصد میں تمھارے اخروی مقاصد کے مقابلے میں بیشتر تعلق خاطر رکھتے ہوں !تو اس صورت میں ان کی دنیا تمھاری آخرت سے زیادہ زیبا و آباد ہوگی ۔''

لہٰذا آج ایسا کام نہ کرناجو کل عربوں کے لئے ننگ و شرمندگی کا سبب بنے !

جب جنگ شروع ہوئی تو عاصم بن عمرو تمیمی حسب ذیل رجز خوانی کرتے ہوئے میدان جنگ کی طرف حملہ آور ہوا ۔

سونے کی مانند زرد گردن والا میرا سفید فام محبوب اس چاندی کے جیسا ہے جس کا غلاف سونے کا ہو ۔وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ایک ایسامرد ہوں جس کا تنہا عیب دشنامی ہے ۔اے میرے دشمن !یہ جان لو کہ ملامت سننا مجھے تم پر حملہ کے لئے بھڑکاتاہے ۔''

۳۰۴

اس کے بعد ایک ایرانی مرد پر حملہ آور ہوا، وہ مرد بھاگ گیا ،عاصم نے اس کا پیچھا کیا ، حتی وہ مرد اپنے سپاہیوں میں گھس گیا اور عاصم کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔عاصم اس کا تعاقب کرتے ہوئے دشمن کے سپاہیوں کے ہجوم میں داخل ہوا اور اس کا پیچھا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اس کی ایک ایسے سوارسے مڈبھیڑ ہو ئی جو ایک خچر کی لگام پکڑکر اسے اپنے پیچھے کھینچ رہا تھا سوار نے جب عاصم کو دیکھا تو خچر کی لگام چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو سپاہیوں کے اندر چھپا دیا انھوں نے بھی اسے پناہ دے دی عاصم خچر کو بار کے سمیت اپنی سپاہ کی طرف لے چلا اس خچر پر لدا ہو ابار ، ایرانی کمانڈرانچیف کے لئے انواع و اقسام کے کھانے ، جیسے حلوا ،شہد اور شربت وغیرہ تھے معلوم ہوا کہ وہ آدمی کمانڈر انچیف کا خانساماں تھا ۔

عاصم نے کھانوں کو سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا اور خود اپنی جگہ لوٹا ۔ سعد وقاص نے انھیں دیکھ کر حکم دیا کہ تمام مٹھائیوں کو عاصم کے افراد میں تقسیم کر دیا جائے اور انھیں پیغام بھیجا کہ یہ تمھارے سردار نے تمھارے لئے بھیجا ہے،تمھیں مبارک ہو!

۳۰۵

ارماث کادن

سیف کی روایت کے مطابق : عاصم کی تقریر کے بعد قادسیہ کی جنگ شروع ہو گئی یہ جنگ تین دن تک جاری رہی اور ہر دن کے لئے ایک خاص نام رکھا گیا ،اس کے پہلے دن کا نام '' ارماث'' تھا۔(۱)

طبری نے سیف سے روایت کرکے ارماث کے دن کے بارے میں یوں لکھا ہے :

اس دن ایرانی پوری طاقت کے ساتھ اسلامی فوج پر حملے کر رہے تھے اور جنگ کے شعلے قبیلہ اسد کے مرکز میں بھڑک اٹھے تھے ،خاص کر ایران کے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کی سوار فوج کا شیرازہ بالکل بکھر چکا تھا ۔سعد وقاص نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے عاصم بن عمرو کو پیغام بھیجا کہ : کیا تم تمیمی خاندان کے افراد اتنے تیز رفتار گھوڑوں اور تجربہ کار اور کارآمد اونٹوں کے باوجود دشمن کے جنگی ہاتھیوں کا کوئی علاج نہیں کر سکتے ؟ قبیلہ تمیم کے لوگوں نے اور ان کے آگے آگے اس قبیلہ کے جنگجو پہلوان اور شجاع عاصم بن عمرو نے سعد کے پیغام کا مثبت جواب دیتے ہوئے کہا: جی ہاں !خد اکی قسم ہم یہ کان انجام دے سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کا م کے لئے کھڑے ہوگئے

عاصم نے قبیلہ تمیم میں سے تجربہ کار اور ماہر تیر انداز وں اور نیزہ بازوں کے ایک گروہ کا انتخاب کیا اور جنگی ہاتھیوں سے جنگ کرنے کی حکمت عملی کے بارے میں یوں تشریح کی :

تیر اندا ز قبیلہ تمیم کے نیزہ بازوں کی مدد کریں ،ہاتھی بان اور ہاتھیوں پر تیروں کی بوچھار کریں گے اور نیزہ باز جنگی ہاتھیوں پرپیچھے سے حملہ کریں گے اور ہاتھیوں کی پیٹیاں کاٹ کر ان کی پیٹھ پر موجود کجاوے الٹ کر گرا دیں ،عاصم نے خود دونوں فوجی دستوں کی قیادت سنبھالی ۔

____________________

الف )۔ قعقاع کی داستان میں ان تین دنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

۳۰۶

قبیلہ اسد کے مرکز میں جنگ کے شعلے بدستور بھڑک رہے تھے ۔میمنہ اور میسرہ کی کوئی تمییز نہیں کر سکتا تھا ۔عاصم کے جنگجو ئوں نے دشمن کے ہاتھیوں کی طرف ایک شدید حملہ کیا ۔اس طرح ایک خونین جنگ چھڑ گئی عاصم کے افراد ہاتھیوں کی دموں او ر محمل کے غلاف کی جھالروں سے آویزاں ہو کر ان پر حملے کر رہے تھے اور بڑی تیزی سے ان کی پیٹیاں کاٹ رہے تھے اور دوسری طرف سے تیر انداز اور نیزہ باز بھی ہاتھی بانوں پر جان لیوا حملے کر رہے تھے اس دن (ارماث کے دن) دشمن کے ہاتھیوں میں سے نہ کوئی ہاتھی زندہ بچا او ر نہ ہاتھی سوار اور کوئی محمل بھی باقی نہ بچی ۔خاندان تمیم کے تجربہ کار تیر اندازوں کی تیر اندازی سے دشمن کے تمام ہاتھی اور ہاتھی سوار بھی نابود ہوئے اور اس طرح جنگی ہاتھیوں کے اس محاذ پر دشمن کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی وقت دشمن کے جنگی ہاتھی غیر مسلح ہوئے اور خاندان اسد میں جنگ کے شعلے بھی قدر ے بجھ گئے ۔سوار فوجی اس گرماگرم میدان جنگ سے واپس آرہے تھے ۔اس دن عاصم لشکر اسلام کا پشت پناہ تھا۔

قادسیہ کی جنگ کے اس پہلے دن کا نام ''ارماث'' رکھا گیا ہے ۔اسی داستان کے ضمن میں سیف کہتا ہے :

جب سعد وقاص کی بیوی سلمیٰ جو پہلے مثنی کی بیوی تھی نے ایرانی فوج کے حملے اور ان کی شان وشوکت کا قبیلہ اسد کے مرکز میں مشاہدہ کیا تو فریاد بلند کرکے کہنے لگی:کہاں ہو اے مثنی ! ان سواروں میں مثنی موجود نہیں ہے ،اس لئے اس طرح تہس نہس ہورہے ہیں ،اگر ان میں مثنی ہوتا تو دشمن کو نیست ونابود کرکے رکھ دیتا!

سعد ،بیمار اور صاحب فراش تھا،اپنی بیوی کی ان باتوں سے مشتعل ہوا اور سلمیٰ کو ایک زور دار تھپڑ مار کے تند آواز میں بولا : مثنی کہاں اور یہ دلیر چابک کہاں !جو بہادری کے ساتھ میدان جنگ کو ادارہ کر رہے ہیں ۔سعد کا مقصود خاندان اسد ،عاصم بن عمرو اور خاندان تمیم کے افراد تھے ۔

۳۰۷

یہ وہ مطالب تھے جنھیں طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرکے روز '' ارماث'' اور اس دن کے واقعات کے تحت درج کیا ہے ۔

حموی لفظ ''ارماث'' کی تشریح میں قمطراز ہے :

گویا ''ارماث'' لفظ ''رمث'' کی جمع ہے ۔یہ ایک بیابانی سبزی کا نام ہے ۔

بہر حال ''ارماث'' جنگ قادسیہ کے دنوں میں سے پہلا دن ہے۔ عاصم بن عمرو اس کے بارے میں اس طرح شعر کہتا ہے :

'' ہم نے ''ارماث '' کے دن اپنے گروہ کی حمایت کی اور ایک گروہ نے اپنی نیک کارکردگی کی بناء پر دوسرے گروہ پر سبقت حاصل کی ''

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنھیں سیف نے ''ارماث'' کے دن کی جنگ اور عاصم کی شجاعت کے بارے میں ذکر کیاہے ۔دوسرے دن کو روز ''اغواث'' کا نام رکھا گیا ہے ۔

روز ''اغواث''

روز ''اغواث''کے بارے میں طبری نے قادسیہ کی جنگ کے دوسرے دن کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

اس دن خلیفہ عمر بن خطاب کی طرف سے ایک قاصد ،چار تلوار یں اور چار گھوڑے لے کر جنگ قادسیہ کے کمانڈرانچیف سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا کہ وہ انھیں بہترین جنگجوئوں اور مجاہدوں میں تحفے کے طور پر تقسیم کرے ۔سعد نے ان میں سے تین تلوار یں قبیلہ اسد کے دلاوروں میں تقسیم کیں اور چوتھی تلوار عاصم بن عمرو تمیمی کو تحفے کے طور پر دی اور تین گھوڑے خاندان تمیم کے پہلوانوں میں تقسیم کئے اور چوتھا گھوڑا بنی اسد کے ایک سپاہی کو دیا ۔اس طرح عمر کے تحفے صرف اسد اور تمیم کے دو قبیلوں میں تقسیم کئے گئے ۔

۳۰۸

روز'' عماس''

جنگ قادسیہ کا تیسرا دن ''عماس'' ہے۔

طبری '' عماس'' کے دن کے جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے یوں بیان کرتا ہے :

قعقاع نے روز '' عماس'' کی شام کو اپنے سپاہیوں کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے بچاکر مخفی طور سے اسی جگہ لے جاکر جمع کیا ،جہاں پر روز ''اغواث''کی صبح کو اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے میدان جنگ میں آنے کا حکم دیا تھا ۔فرق صرف یہ تھا کہ اب کی بار حکم دیا کہ پو پھٹتے ہی سو ،سو افراد کی ٹولیوں میں سپاہی میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ اسلام کے سپاہی مدد پہنچنے کے خیال سے ہمت پیدا کر سکیں او ر دشمن پر فتح پانے کی امید بڑھ جائے ،قعقاع کے بھائی عاصم نے بھی اپنے سواروں کے ہمراہ یہی کام انجام دیا اور ان دو تمیمی بھائیوں کی جنگی چال کے سبب اسلام کے سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔

سیف کہتا ہے : ''عماس'' کے دن دشمن کے جنگی ہاتھیوں نے ایک بار پھر اسلامی فوج کی منظم صفوں میں بھگدڑ مچا کر '' ارماث'' کے دن کی طرح اسلامی فوج کے شیرازہ کو بکھیر کر رکھ دیا ۔سعد نے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کا مشاہدہ کیا ،تو خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو بھائیوں قعقاع و عاصم ابن عمرو کو پیغام بھیجا اور ان سے کہا کہ سر گروہ اور پیش قدم سفید ہاتھی کا کام تمام کرکے اسلام کے سپاہیوں کو ان کے شر سے نجات دلائیں ۔کیوں کہ باقی ہاتھی اس سفید ہاتھی کی پیروی میں آگے بڑھ رہے تھے ۔

قعقاع اور عاصم نے دشمن کے جنگی ہاتھیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا انھوں نے دو محکم اور نرم نیزے اٹھالئے اور پیدل اور سوار فوجوں کے بیچوں بیچ سفید ہاتھی کی طرف دوڑ ے اور اپنے سپاہیوں کو بھی حکم دیا کہ چاروں طرف سے اس ہاتھی پر حملہ کرکے اسے پریشان کریں جب وہ اس ہاتھی کے بالکل نزدیک پہنچے تو اچانک حملہ کیا اور دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ اپنے نیزے سفید ہاتھی کی آنکھوں میں بھونک دئے ۔ہاتھی نے درد کے مارے تڑپتے ہوئے اپنے سوار کو زمین پر گرا دیا اور زور سے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے اپنی سونڈ اوپر اٹھا ئی اور ایک طرف گر گیا ۔قعقاع نے تلوار کی ایک ضرب سے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی ۔

۳۰۹

سیف نے عاصم بن عمرو کے لئے '' لیلة الھریر '' سے پہلے اور اس کے بعد کے واقعات میں بھی شجاعتوں ،دلاوریوں کی داستانیں گڑھی ہیں اور ان کے آخر میں کہتا ہے :

جب دشمن کے سپاہیوں نے بری طرح شکست کھائی اور مسلمان فتحیاب ہوئے تو ایرانی فوجی بھاگ کھڑے ہوئے ۔بعض ایرانی سردار وں اور جنگجوئوں نے فرار کی ذلت کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی جگہ پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ان کے ہی برابر کے چند مشہور اور نامور عرب سپاہی ان کے مقابلے میں آئے اور دوبارہ دست بدست جنگ شروع ہوئی ۔ان مسلمان دلاوروں میں دو تمیمی بھائی قعقاع اور عاصم بھی تھے ۔عاصم نے اس دست بدست جنگ میں اپنے ہم پلہ ایک نامور ایرانی پہلوان زاد بھش ،جو ایک نامور اوربہادر ایرانی جنگجو تھا ،کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٦ اور اسی طرح قعقاع نے بھی اپنے ہم پلہ پہلوان کو قتل کر ڈالا۔

تاریخ اسلام کی کتابوں میں اس داستان کی اشاعت :

جو کچھ یہاں تک بیان ہو ا یہ سیف کی وہ باتیں تھیں جو اس نے ناقابل شکست پہلوان ، شہسوار،دلیر عرب، شجاع، قعقاع بن عمرو تمیمی نامی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی نامور سیاستداں اور جنگی میدانوں کے بہادر اس کے بھائی اور صحابی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمر تمیمی کے بارے میں بیان کی ہیں ۔سیف بن عمر تمیمی کے ان دو افسانوی بھائیوں جو سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں کی داستانوں کو امام المؤرخین طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی معتبر اور گراں قدر کتاب میں درج کیا ہے ، اور اس کے بعد دوسرے مورخین ،جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی ان روایتوں کی سند کا اشارہ کئے بغیر طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ اس طرح ابن کثیر نے اس داستان کو طبری سے نقل کرتے ہوئے گیارہ جگہوں پر سیف کا نام لیا ہے ۔

۳۱۰

سند کی تحقیق :

ان داستانوں کی سند میں جند راوی مثل نضربن سری تین روایتوں میں ،ابن رخیل اور حمید بن ابی شجار ایک ایک روایت میں ذکر ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد اور زیادہ کا نام بھی راویوں کے طور پر لیا گیا ہے ۔ان سب راویوں کے بارے میں ہم نے مکرر لکھا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے اور سیف کے جعلی راوی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ

یہاں تک ہم نے عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں '' گائے کادن '' اور قاسیہ کی جنگ کے تین دنوں کے بارے میں پڑتال کی اور حسب ذیل نتیجہ واضح ہوا :

سیف منفرد شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ علاقۂ میسان کے کچھار میں گائے نے عاصم بن عمرو سے گفتگو کی اور حجاج بن یوسف ثقفی کی تحقیق کو اس کی تائید کے طور بیان کرتا ہے حجاج بن یوسف ثقفی برسوں بعد اس داستان کے بارے میں تحقیق کرتا ہے،عینی شاہد اس کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ داستان بالکل صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں ہے اگرچہ آپ اسے با ور نہ کریں گے ،کیوں کہ اگر ہم بھی آپ کی جگہ پر ہوتے اور ایسی داستان سنتے تو ہم بھی یقین نہ کرتے ۔اس وقت حجاج اس مرد خدا (عاصم) اور کامل روحانی شخص جس کی تلاش اسے پہلے ہی سے تھی کے بارے میں سر ہلاتے ہوئے تصدیق کرتا ہے اور خاص کر تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام افراد جنھوں نے جنگ قادسیہ میں شرکت کی ہے ،وقت کے پارسااور نیک افراد تھے ۔یہ سب تاکید پر تاکید گفتگو ،تائید و تردید اس لئے ہے کہ سیف بن عمر جس نے تن تنہا اس افسانہ کو جعل کرکے نقل کیا ہے ،دوسروں کو قبول کرائے کہ یہ واقعہ افسانہ نہیں ہے اور کسی کے ذہن کی تخلیق نہیں ہے اور اس قصہ میں کسی قسم کی بد نیتی اورخود غرضی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت تھی جو واقع ہوئی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس قسم کے افسانوں کو طبری کی کتاب تاریخ میں پڑھیں اور یقین کریں کہ طبری کے تمام مطالب حقیقت پر مبنی ہیں ۔نتیجہ کے طور پر اسلام کے حقائق آیات الٰہی اور پیغمبروںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معجزات کا آسانی کے ساتھ انکار کرنا ممکن ہو جائے گا اور ایسے موقع پر سیف اور سیف جیسے دیگر لوگ خوشیوں سے پھولے نہیں سمائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ سیف کے ہم مسلک اور ہم عقیدہ لوگ طبری کو شاباش اور آفرین کہتے ہیں اور اسے پیار کرتے ہیں ۔اور ہم بھی کہتے ہیں : '' شاباش '' ہو تم پر طبری !!

۳۱۱

بہر حال سیف نے میسان کے کچھار میں چھپا کے رکھی گئی گائے کی عاصم سے باتیں کرنے کا افسانہ گڑھا ہے ،جب کہ دوسرے مورخوں نے کہا ہے کہ : جب سعد کی سپاہ کو مویشیوں کے لئے چارہ اور اپنے لئے کھانے کی ضرورت ہوئی تھی تو سعد وقاص حکم دیتا تھا کہ دریا ئے فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار کر کے اپنی ضرورت توں کی چیزیں حاصل کریں ۔ان دنوں سپاہ کے حالا ت کے پیش نظر یہی موضوع بالکل مناسب اور ہماہنگ نظر آتا ہے ۔

اسی طرح سیف کہتا ہے کہ کسریٰ نے اس کی خدمت میں آئے ہوئے شریف اور محترم قاصدوں کے ذریعہ سر زمین ایران کی مٹی بھیجنے کاحکم دیا عاصم بن عمرو تمیمی مضری ،کسریٰ کے اس عمل کو نیک شگون جانتا ہے اور مٹی کو اٹھا کر سعدوقاص کے پاس پہنچتا ہے اور دشمن پر فتح و کامرانی کی نوید دیتا ہے ۔جب کہ دوسروں نے لکھاہے کہ ایرانیوں کے سپہ سالار رستم نے ایسا کیا تھا اور جو شخص مٹی کو سعد کے پاس لے گیا وہ عمر بن معدی کرب قحطانی یمانی تھا۔

اس کے علاوہ سیف وہ منفرد شخص ہے جو عاصم کی جنگوں ،تقریروں ،رجز خوانیوں ، جنگ قادسیہ میں '' ارماث'' ،''اغواث'' اور'' عماس'' کے دن اس کی شجاعتوں اور دلاوریوں کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے ،جب کہ دینوری اوربلاذری نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں مکمل اور مفصل تشریح کی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی ''ارماث'' ،''اغواث'' اور ''عماس'' کا نام تک نہیں لیا ہے اور سیف کے یہ تمام افسانے بھی ان کے ہاں نہیں ملتے ۔ہم نے یہاں پر بحث کے طولانی ہونے کے اندیشہ سے جنگ قادسیہ کے بارے میں بلاذری اور دینوری کی تفصیلات بیان کرنے سے پرہیز کیا ہے اور قارئین کرام سے اس کے مطالعہ کی درخواست کرتے ہیں ۔

۳۱۲

قادسیہ کے بارے میں سیف کی روایتوں کے نتائج :

١۔ میسان کے کچھار میں گائے کا اس کے ساتھ فصیح عربی زبان میں بات کرنے کا افسانہ کے ذریعہ صحابی بزرگوار اور خاندان تمیم کے نامور پہلوان عاصم بن عمرو کے لئے کرامت جعل کرنا ۔

٢۔ دربارکسریٰ میں بھیجے گئے گروہ میں عاصم بن عمرو کی موجودگی اور اس کا اچانک اور ناگہانی طور پر مٹی کو اٹھا کر سعد وقاص کے پاس لے جانا اوراس فعل کو نیک شگون سے تعبیر کرنا۔

٣۔عمروتمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کو ایسی بلندی ،اہمیت اور مقام و منزلت کا حامل دکھانا کہ تمام کامیابیوں کی کلیدانہی کے پاس ہے ۔کیا یہ عاصم ہی نہیں تھا جس کے حکم سے خاندان تمیم کے تیر اندازوں اور نیزہ برداروں نے دشمن کے ہاتھیوں اور ان کے سواروں کو نابود کرکے رکھ دیا اور ہاتھیوں کی پیٹھ پر جو کچھ تھا ''ارماث'' کے دن انھوں نے اسے نیچے گرا دیا؟!

٤۔یہ کہنا کہ: مثنی کہاں اور عاصم جیسا شیر دل پہلوان کہاں !! تاکہ مثنی کی سابقہ بیوی سلمیٰ پھر کبھی زبان درازی نہ کرے اور ایسے لشکر شکن پہلوان جوجنگ کرتا ہے اور دوسرے مجاہدوں کی مدد بھی کرتا ہے کوحقیر نہ سمجھے ۔

٥۔سب سے آگے آنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کرنے کے بعد ہاتھی سوار فوجی دستے کو درہم برہم کرکے ایرانیوں کو بھگا کر دو افسانوی پہلوانوں قعقاع اور عاصم کے لئے فخر و مباہات میں اضافہ کرنا۔

قبیلہ نزار اور خاندان تمیم کے لئے سیف نے یہ اوراس قسم کے دسیوں افتخارات جعل کئے ہیں تاکہ طبری ،ابن عساکر ،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے مورخین انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کریں اور صدیاں گزر جانے کے بعد دین کو سطحی اور ظاہری نگاہ سے دیکھنے والے انھیں آنکھوں سے لگا ئیں اورمضر ،نزار اور خاص کر خاندان تمیم کو شاباشی دیں !اور اس کے مقابلے میں ان کے دشمنوں ، یعنی قحطانی یمانی قبیلوں جن کے بارے میں سیف نے بے حد رسوائیاں اور جھوٹ کے پوٹ گڑھے ہیں سے لوگوں کے دلوں میں غصہ و نفرت پیدا ہو جائے اوروہ رہتی دنیا تک انھیں لعنت و ملامت کرتے رہیں ۔

۳۱۳

عاصم ''جراثیم'' کے دن !

قتلوا عامتهم ونجا منهم عورانا

اسلام کے سپاہیوں نے دشمن کے سپاہیوں کایک جا قتل عام کیا ۔ان میں صرف وہ لوگ بچ رہے جو اپنی آنکھ کھو چکے تھے ۔

( سیف بن عمر)

سیف نے ''جراثیم کے دن''کی داستان ،مختلف روایتوں میں نقل کی ہے ۔یہاں پر ہم پہلے روایتوں کو بیان کریں گے اور اس کے بعد ان کے متن و سند پر تحقیق کریں گے :

١۔ جریر طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

سعد وقاص سپہ سالار اعظم قادسیہ کی جنگ میں فتح پانے کے بعد ایک مدت تک دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران و پریشان سوچتا رہا کہ اس وسیع دریا کو کیسے عبور کیا جائے ؟! کیوں کہ اس سال دریائے دجلہ تلاطم اور طغیانی کی حالت میں موجیں مار رہا تھا ۔

سعد وقاص نے اتفاقاً خواب دیکھا تھا کہ مسلمانوں کے سپاہی دریائے دجلہ کو عبور کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ چکے ہیں ۔لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے اس نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور خدا کی بارگاہ میں حمد و ثنا کے بعد یوں بولا:

تمھارے دشمن نے تمھارے خوف سے اس عظیم اور وسیع دریا کی پناہ لی ہے اور ان تک تمھاری رسائی ممکن نہیں ہے ،جب کہ وہ اپنی کشتیوں کے ذریعہ تم لوگوں تک رسائی رکھتے ہیں اور جب چاہیں ان کشتیوں کے ذریعہ تم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اس نے کہا:

۳۱۴

یہ جان لو کہ میں نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ دریا کو عبور کرکے ان پر حملہ کروں گا ۔سپاہیوں نے ایک آواز میں جواب دیا : خدائے تعالیٰ آپ کا اور ہمارا راہنما ہے ،جو چاہیں حکم دیں !اور سپاہیوں نے اپنے آپ کو دجلہ پار کرنے کے لئے آمادہ کیا ۔سعد نے کہا: تم لوگوں میں سے کون آگے بڑھنے کے لئے تیار ہے جو دریا پار کرکے ساحل پر قبصہ کرلے وہاں پر پائوں جمائے اور باقی سپاہی امن و سکون کے ساتھ اس سے ملحق ہوجائیں اور دشمن کے سپاہی دجلہ میں ان کی پیش قدمی کو روک نہ سکیں ؟ عربوں کا نامور پہلوان عاصم بن عمر و پہلا شخص تھا جس نے آگے بڑھ کر سعد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ۔عاصم کے بعد چھہ سوشجاع جنگجو بھی عاصم سے تعاون کرنے کے لئے آگے بڑھے سعد و قاص نے عاصم کو ان چھہ سوافراد کے گروہ کا کمانڈر معین کیا ۔

عاصم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے پر پہنچ گیا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا : تم لوگوں میں سے کون حاضر ہے جو میرے ساتھ دشمن پرحملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ہم دریا کے دوسرے ساحل کو دشمنوں کے قبضہ سے آزاد کردیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے تاکہ باقی سپاہی بھی ہم سے ملحق ہو جائیں ؟ ان لوگوں میں سے ساٹھ آدمی آگے بڑھے ،عاصم نے انھیں تیس تیس نفر کی دو ٹولیوں میں تقسیم کیا اور گھوڑوں پر سوار کیا تاکہ پانی میں دوسرے ساحل تک پہنچنے میں آسانی ہو جائے ۔اس کے بعد ان ساٹھ افراد کے ساتھ خود بھی دریائے دجلہ میں اتر گیا۔

جب ایرانیوں نے مسلمانوں کے اس فوجی دستے کو دریا عبور کرکے آگے بڑھتے دیکھا ،تو انھوں نے اپنی فوج میں سے ان کی تعداد کے برابر فوجی سواروں کو مقابلہ کے لئے آمادہ کرکے آگے بھیج دیا ۔ایران کے سپاہیوں کا ساٹھ نفری گروہ عاصم کے ساٹھ نفری گروہ جوبڑی تیزی کے ساتھ ساحل کے نزدیک پہنچ رہے تھے کے مقابلے کے لئے آمنے سامنے پہنچا ۔اس موقع پر عاصم نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں کہا : نیزے !نیزے ! اپنے نیزوں کو ایرانیوں کی طرف بڑھائو اور ان کی آنکھوں کو نشانہ بنائو !اور آگے بڑھو !عاصم کے سواروں نے دشمنوں کی آنکھوں کو نشانہ بنا یا اور آگے بڑھے ۔ایرانیوں نے جب یہ دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے ۔لیکن تب تک مسلمان ان کے قریب پہنچ چکے تھے اور تلواروں سے ان سب کا کام تمام کرکے رکھ دیا ۔جو بھی ان میں بچا وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا ۔اس فتح کے بعد عاصم کے دیگر افرادبھی کسی مزاحمت اور مشکل کے بغیر اپنے ساتھیوں سے جا ملے ۔

۳۱۵

سعد وقاص جب عاصم بن عمرو کے ہاتھوں ساحل پر قبضہ کرنے سے مطمئن ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو آگے بڑھنے اور دریائے دجلہ عبور کرنے کا حکم دیا اور کہا: اس دعا کو پڑھنے کے بعد دریائے دجلہ میں کود پڑو:

'' ہم خدا سے مدد چاہتے ہیں اورا سی پر توکل کرتے ہیں ۔ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہ بہتر ین پشت پناہ ہے ۔ خدائے تعالیٰ کے علاوہ کوئی مدد گار اور طاقتور نہیں ہے ''

اس دعا کے پڑھنے کے بعد سعد کے اکثر سپاہی دریا میں کود پڑے اور دریاکی پر تلاطم امواج پر سوار ہو گئے ۔دریا ئے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے سپاہی آپس میں معمول کے مطابق گفتگو کر رہے تھے ایک دوسرے کے دوش بدوش ایسے محو گفتگو تھے جیسے وہ ہموار زمین پر ٹہل رہے ہوں ۔

ایرانیوں کو جب ایسے خلاف توقع اورحیرت انگیز حالات کا سامنا ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح مسلمان ١٦ھ کو صفر کے مہینہ میں مدائن میں داخل ہو گئے ۔

٢۔ ایک اور حدیث میں ابو عثمان نہدی نامی ایک مرد سے سیف ایسی ہی داستان نقل کرتا ہے ،یہاں تک کہ راوی کہتا ہے:

دریائے دجلہ سپاہیوں ،منجملہ پیدل ،سواروں اور چوپایوں سے اس قدر بھر چکا تھا کہ ساحل سے دیکھنے والے کو پانی نظر نہیں آتا تھا ،کیوں کہ اسلام کے سپاہیوں نے حد نظر تک پورے دریا کو ڈھانپ رکھا تھا۔

دجلہ کو عبور کرنے کے بعد سواروں نے ساحل پر قدم رکھا۔گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور اپنی یال و گردن کو زور سے ہلا رہے تھے اور اس طرح ان کی یال و گردن سے پانی کے قطرات دوردور تک جا گرتے تھے ۔جب دشمن نے یہ عجیب حالت دیکھی تو فرار کر گئے ۔

۳۱۶

٣۔ایک اورروایت میں کہتاہے :

سعد وقاص اپنی فوج کو دریا میں کود نے کا حکم دینے سے پہلے دریائے دجلہ کے کناے پر کھڑا ہوکر عاصم اور اس کے سپاہیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا جو دریا میں دشمنوں کے ساتھ لڑرہے تھے ،اسی اثناء میں وہ اچانک بول اٹھا : خدا کی قسم !اگر '' خرسائ'' فوجی دستہ قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کو سیف نے خرساء دستہ نام دے رکھا تھا ان کی جگہ پر ہوتا اور دشمن سے نبرد آزما ہوتا تو ایسی ہی بہتر اور نتیجہ بخش صورت میں لڑتا ۔اس طرح اس نے فوجی دستہ ''اھوال'' عاصم کی کمانڈ میں افراد کو سیف نے اھوال نام رکھا تھا جو پانی اور ساحل پر لڑرہے تھے ،کی خرسا فوجی دستے سے تشبیہ دی ہے یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

جب عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ '' اھوال '' کے تمام افراد نے ساحل پر اتر کر اس پر قبضہ کر لیا توسعد وقاص اپنے دیگر سپاہیوں کے ساتھ دریائے دجلہ میں اترا ۔سلمان فارسی سعد وقاص کے شانہ بہ شانہ دریا میں چل رہے تھے یہ عظیم اور وسیع دریا اسلام کے سوار سپاہیوں سے بھر چکا تھا ۔اس حالت میں سعد وقاص نے یہ دعا پڑھی :

'' خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ ہمارے لئے بہترین پناہ گاہ ہے خدا کی قسم !پرور دگار اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے ،اس کے دین کو واضح کرتا ہے اور اس کے دشمن کو نابود کرتا ہے ، اس شرط پر کہ فوج گمراہی اور گناہ سے پاک ہو اوربرائیاں خوبیوں پر غلبہ نہ پائیں ''

سلمان نے سعد سے مخاطب ہو کر کہا :اسلام ایک جدید دین ہے ،خدا نے دریائوں کو مسلمانوں کا مطیع بنادیا ہے جس طر ح زمینوں کوان کے لئے مسخر کیا ہے ۔ا س کی قسم ،جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے !اس عظیم دریا سے سب لوگ جوق در جوق صحیح و سالم عبور کریں گے ،جیسے انھوں نے گروہ گروہ دریا میں قدم رکھا تھا ان میں سے ایک فرد بھی غرق نہیں ہوگا۔

دریائے دجلہ اسلام کے سپاہیوں سے سیاہ نظر آرہا تھا اور ساحل سے پانی دکھائی نہیں دیتا تھا اکثر افراد پانی میں اسی طرح آپس میں گفتگو کر رہے تھے جیسے خشکی پرٹہلتے ہوئے باتیں کرتے ہوں ۔سلمان کی پیشنگوئی کے مطابق سب سپاہی دریا سے صحیح و سالم باہر آگئے ۔نہ کوئی غرق ہوا اور نہ ان کے اموال میں سے کوئی چیز کم ہوئی ۔

۳۱۷

٤۔ایک دوسری روایت میں ایک اور راوی سے نقل کرکے کہتا ہے :

...سب خیریت سے ساحل تک پہنچ گئے ۔لیکن قبیلہ بارق کا غرقدہ نامی ایک مرد اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گرگیا ۔گویا کہ میں اس وقت بھی اس گھوڑے کو دیکھ رہا ہوں جو زین کے بغیر ہے اور خود کو ہلارہا ہے اور اپنی یال و گردن سے پانی کے چھینٹے ہوا میں اڑا رہا ہے ۔غرقدہ ،جو پانی میں ڈبکیاں لگا رہا تھا ،اسی اثنا میں قعقاع نے اپنے گھوڑے کا رخ ڈوبتے ہوئے غرقدہ کی طرف موڑلیااور اپنے ہاتھ کو بڑھا کر غرقدہ کا ہاتھ پکڑلیا اور اسے ساحل تک کھینچ لایا ۔قبیلہ بارق کا یہ شخص،غرقدہ ایک نامور پہلوان تھا ،وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہو کر بولا :''اے قعقاع بہنیں تم جیسے شخص کو پھر کبھی جنم نہیں دیں گی !وجہ یہ تھی کہ قعقاع کی ماں اس مرد کے قبیلہ ،یعنی قبیلہ بارق سے تھی۔

٥۔ایک اور روایت میں ایک دوسرے راوی سے اس طرح نقل کرتا ہے :

اس لشکر کے مال و اثاثہ سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوئی ۔صرف مالک بن عامر نامی ایک سپاہی

جو قریش کے ہم معاہدہ قبیلہ عنز سے تھا کا برتن بندھن فرسودہ ہو کر ٹوٹنے کی وجہ سے پانی میں گرگیا تھا اور پانی اسے بہالے گیا تھا ۔عامر بن مالک نام کا ایک شخص مالک کے شانہ بہ شانہ پانی میں چل رہاتھا ، اس نے مالک سے مذاق کرتے ہوئے کہا:تقدیر تمھارا برتن بہا لے گئی !مالک نے جواب میں کہا: میں سیدھے راستے پر ہوں اور خدائے تعالیٰ اتنے بڑے لشکر میں سے میرے برتن کو ہر گز مجھ سے نہیں چھینے گا !جب سب لوگ دریا سے عبور کرگئے، تو ایک شخص جو دریا کے نچلے حصے میں محا فظت کر رہا تھا ۔اس نے ایک برتن کو دیکھا جسے دریا کی لہریں ساحل کی طرف پھینک چکی تھیں ۔وہ شخص اپنے نیزے سے اس برتن کو پانی سے نکال کر کیمپ میں لے آیا۔مالک نے اپنے برتن کو حاصل کرتے ہوئے عامر سے مخاطب ہوکر کہا :کیا میں نے سچ نہیں کہا تھا؟

۳۱۸

٦۔ سیف ایک اور راوی سے نقل کرتے ہوئے ایک دوسری روایت میں یوں کہتاہے:

جب سعد وقاص نے لوگوں کوحکم دیاکہ دریا ئے دجلہ کوعبور کریں ،سب پانی میں اتر گئے اور دو دوآدمی شانہ بہ شانہ آگے بڑھتے رہے ۔دریائے دجلہ میں پانی کی سطح کافی حدتک اوپر آچکی تھی۔سلمان فارسی ،سعدوقاص کے شانہ بہ شانہ چل رہے تھے ۔اسی اثناء میں سعد نے کہا :یہ ''خدائے تعالیٰ کی قدرت ہے !!''دریائے دجلہ کی پرتلاطم لہریں انہیں اپنے ساتھ اوپرنیچے لے جارہی تھیں ۔ مسلمان آگے بڑھ رہے تھے ۔اگر اس دوران کوئی گھوڑاتھک جاتا تودریاکی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑااوپر اٹھ کر تھکے ہوئے گھوڑے کے چارپائوں کے بالکل نیچے آجاتاتھااوروہ گھوڑااس پر رک کر تھکاوٹ دور کرتاتھا،جیسے کہ گھوڑاکسی خشک زمین پرکھڑاہو!!مدائن کی طرف اس پیش قدمی میں اس سے بڑھ کرکوئی حیرت انگیز واقعہ پیش نہیں آیا۔اس دن کو ''یوم المائ''یعنی پانی کادن یا''یوم الجراثیم '' یعنی زمین کے ٹکڑے کادن کہتے ہیں ۔

٧۔ پھر ایک حدیث میں ایک راوی سے نقل کرکے لکھتاہے:

بعض لوگوں نے روایت کی ہے کہ جس دن اسلام کے سپاہی دریائے دجلہ سے عبور کرنے کے لئے اس میں کود پڑے اس دن کو زمین کے ٹکڑے کادن نام رکھاگیا ہے ۔کیونکہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتاتھا توفوراًدریا کی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑا اوپر اٹھ کر اس کے پائوں کے نیچے قرارپاجاتاتھا اور وہ اس پر ٹھہر کراپنی تھکاوٹ دور کرتاتھا۔

٨ ۔ ایک اور حدیث میں ایک اور راوی سے نقل کرتاہے:

ہم دریائے دجلہ میں کود پڑے جب کہ اس کی مو جوں میں تلاطم اور لہریں بہت اونچی اٹھ رہی تھیں ۔جب ہم اس کے عمیق ترین نقطہ پر پہنچ گئے تھے تو پانی گھوڑے کی پیٹی تک بھی نہیں پہنچتا تھا

٩۔سر انجام ایک دوسری حدیث میں ایک اور راوی سے روایت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ راوی کہتا ہے :

جس وقت ہم مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے ،ایرانیوں نے ہمیں دریائے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے دیکھا تو وہ ہمیں بھوتوں سے تشبیہ دے رہے تھے اور فارسی میں آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے : بھوت آگئے ہیں !بعض کہتے تھے : خدا کی قسم ہم انسانوں سے نہیں بلکہ جنوں سے جنگ کر رہے ہیں ۔

اس لئے سب ایرانی فرار کر گئے َ

۳۱۹

تاریخ کی کتابوں میں سیف کی روایتوں کی اشاعت:

مذکورہ تمام نو روایتوں کو طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور جو تاریخ لکھنے والے طبری کے بعد آئے ہیں ،ان سبوں نے روایات کی سند کا کوئی اشارہ کئے بغیر انھیں طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ابو نعیم نے بھی احادیث میں سے بعض کو بلا واسطہ سیف سے لے کر ''دلائل النبوة'' نامی اپنی کتاب میں درج کیاہے۔

لیکن دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے سلسلے میں دوسرے کیا لکھتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائیے :

حموی ،کوفہ کے بارے میں کی گئی اپنی تشریح کے ضمن میں ایرانی فوج کے سپہ سالار رستم فرخ زاد اور قادسیہ کی جنگ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

ایرانی کسان ،اسلامی فوج کو ایرانی سپاہیوں کی کمزوریوں کے بارے میں راہنمائی کرکے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہمدردی اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے اس کے علاوہ ان کو تحفے تحائف دے کر اور ان کے لئے روز انہ بازار قائم کرکے اپنے آپ کو بیشتر اسلام اور اس کی سپاہ کے نزدیک لاتے تھے ،سعد بن وقاص نے بزرگ مہر (ایرانی کمانڈر) کو پکڑنے کے لئے مدائن کی طرف عزیمت کی. یہاں تک کہ وہ لکھتا ہے :

اس نے دریائے دجلہ پر کوئی پل نہیں پایا کہ اپنی فوج کو دریا کے اس پار لے جائے بالآخر مدائن کے جنوب میں صیادین کی جگہ اس کی راہنمائی کی گئی جہاں پر ایک گزرگاہ تھی ۔اس جگہ پر دریا کی گہرائی کم ہونے کی وجہ سے سوار و پیادہ فوج کے لئے آسانی کے ساتھ دریا کو عبور کرنا ممکن تھا ۔سعد وقاص نے وہاں پر اپنی فوج کے ہمراہ دریا کو عبور کیا۔

خطیب ،ہاشم کی تشریح کے ضمن میں اپنی تاریخ میں لکھتا ہے:

جب قادسیہ کی جنگ میں خدائے تعالیٰ نے ایرانیوں کوشکست دیدی تووہ مدائن کی طرف پیچھے ہٹے ،سعد نے اسلامی فوج کے ہمراہ ان کا تعاقب کیا۔دریائے دجلہ کوعبور کرنے کے لئے مدائن کے ایک باشندہ نے ''قطر بل ''نام کی ایک جگہ کی راہنمائی کی جہاں پر دریا کی گہرائی کم تھی ۔سعد نے بھی اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اسی جگہ سے دریاکوعبور کرکے مدائن پرحملہ کیا ۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352