اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134221 / ڈاؤنلوڈ: 3955
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دوسری فصل

جزیرة العرب سے باہراسلام کی توسیع

۱۔جنگ موتہ( ۱ )

رسول(ص) نے یہ عزم کر لیا تھا کہ جزیرة العرب کے شمال میں امن و امان کی فضا قائم کریں گے، اور اس علاقہ کے باشندوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور اس طرح شام تک جائیں گے ۔ آپ(ص) نے حارث بن عمیر ازدی کو حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس بھیجا، شرحبیل بن عمرو غسانی نے ان کا راستہ روکا اور قتل کر دیا۔

اسی اثنا میں رسول(ص) نے مسلمانوں کا ایک اور دستہ اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا، ملکِ شام کے علاقہ ذات الصلاح کے لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انہیں قتل کر ڈالا، ان کے قتل کی خبر رسول(ص) کو ملی،اس سانحہ کو سن کر رسول(ص) کو بہت افسوس ہوا، پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے انتقام کے لئے نکلیں آپ (ص) کے فرمان پرتین ہزار سپاہیوں کا لشکر تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے فرمایا: اس کے سپہ سالار علی الترتیب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور بعد میں عبد اللہ بن رواحہ ہونگے پھر آپ(ص) نے ان کے درمیان خطبہ دیا:

''اغزوا بسم اللّه...ادعوهم الیٰ الدّخول فی الاسلام...فان فعلوا فاقبلوا منهم و اکقفوا عنهم...و الا فقاتلوا عدو الله و عدوکم بالشام و ستجدون فیها رجالا فی الصوامع معتزلین الناس، فلا تعرضوا لهم، و ستجدون آخرین للشیطان فی رؤوسهم مفاحص

____________________

۱۔ جنگ موتہ ماہ جمادی الاول ۸ھ میں ہوئی۔

۱۸۱

فاقلعوها بالسیوف ولا تقتلن امراة ولا صغیراً ولامر ضعاً ولا کبیراً فانیا لا تغرفن نخلا ولا تقطعن شجراً ولا تهدموا بیتاً'' ( ۱ )

پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا...اگر انہوں نے قبول کر لیا تو ان پر حملہ نہ کرنا انہیں مسلمان سمجھنا اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو تم اپنے اور خدا کے دشمن سے شام میں جنگ کرنا اور دیکھو تمہیں کلیسائوں میں کچھ لوگ گوشہ نشین ملیں گے ان سے کچھ نہ کہنا۔

اور کچھ لوگ ایسے ملیں گے جو شیطان کے چیلے ہونگے ان کے سرمنڈھے ہونگے انہیں تلواروں سے صحیح کرنا اور دیکھو عورتوں، دودھ پیتے بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، کھجور کو برباد نہ کرنا اور کسی درخت کو نہ کاٹنا اور کسی گھر کو منہدم نہ کرنا۔

اس لشکر کو وداع کرنے کے لئے رسول(ص) بھی ان کے ساتھ چلے اور ثنیة الوداع تک ان کے ساتھ گئے مسلمانوں کا یہ لشکر جب ''مشارق'' کے مقام پر پہنچا تو وہاں کثیر تعدادمیں روم کی فوج دیکھی، جس میں دو لاکھ جنگجو شامل تھے۔ مسلمان موتہ کی طرف پیچھے ہٹے اور وہاں دشمن سے مقابلہ کیلئے، تیار ہوئے مختلف اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر پسپا ہو گیا اور نتیجہ میں تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اس دور افتادہ علاقہ میں جنگ کر رہے تھے جہاں امداد کا پہنچنا مشکل تھا۔ پھر یہ روم والوںپر حملہ آور ہوئے تھے اوروہ اپنی کثیر تعداد کے ساتھ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے ،دونوں لشکروں کی جنگی معلومات میں بہت زیادہ فرق تھا، روم کی فوج ایک منظم و مستحکم فوج تھی جو جنگی مشق کرتی رہتی تھی، دوسری طرف مسلمانوں کی تعداداوران کے جنگی معلومات بہت کم تھی،یہ جمعیت نئی نئی وجود میں آئی تھی۔( ۲ )

جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر سن کر رسول(ص) بہت غم زدہ ہوئے اور آپ(ص) پرشدید رقت طاری ہوئی

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۷۵۸ ، سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۴۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۸۱۔

۱۸۲

تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اسی طرح زید بن حارثہ کے مارے جانے کا بھی بہت صدمہ ہوا۔( ۱ )

۲۔ فتح مکہ

جنگ موتہ کے بعد علاقہ کی طاقتوں کے مختلف قسم کے رد عمل ظاہر ہوئے، مسلمانوں کے پسپا ہونے اور شام میں داخل نہ ہونے سے روم کو بہت خوشی تھی۔

قریش بھی بہت خوش تھے، مسلمانوں کے خلاف ان کی جرأت بڑھ گئی تھی چنانچہ وہ معاہدہ ٔامان کو ختم کرکے صلح حدیبیہ کو توڑ نے کی کوشش کرنے لگے انہوںنے قبیلۂ بنی بکر کو قبیلۂ بنی خزاعہ کے خلاف اکسایا جبکہ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلۂ بنی بکر قریش کا حلیف بن گیا تھا اور خزاعہ رسول(ص) کا حلیف بن گیا تھااور اسلحہ وغیرہ سے اس کی مدد کی جس کے نتیجہ میں قبیلۂ بکر نے قبیلۂ خزاعہ پر ظلم کیا اور اس کے بہت سے لوگوںکو قتل کر دیا حالانکہ وہ اپنے شہروں میں امن کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض تو ان میں سے اس وقت عبادت میں مشغول تھے انہوںنے رسول(ص) سے فریاد کی اور مدد طلب کی۔ عمرو بن سالم نے رسول(ص) کے سامنے کھڑے ہو کر جب آپ(ص) مسجد میں تشریف فرما تھے نقض عہد کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، جس سے رسول(ص) بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:''نُصِرتَ یا عمرو بن سالم'' اے سالم کے بیٹے عمرو تمہاری مدد کی جائیگی۔

قریش کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں اپنی غلط حرکت کا احساس ہو گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے انہیں خوف لاحق ہوا اس صورت حال کے بارے میں انہوں نے آپس میں مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ ابو سفیان کو مدینہ بھیجا جائے تاکہ وہ صلح کی تجدید کرے اور رسول(ص) سے مدتِ صلح بڑھانے کی درخواست کرے۔

لیکن رسول(ص) نے ابو سفیان کی باتوں پر توجہ نہ کی بلکہ اس سے یہ فرمایا: اے ابو سفیان کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں رسول(ص) نے فرمایا: ہم اپنی صلح اور اس کی مدت پر قائم ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۵۴، مغازی ج۲ ص ۷۶۶، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۶۸۔

۱۸۳

اس سے ابوسفیان کا دل مطمئن نہ ہوا اور اس کو سکون حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے رسول(ص) سے عہد لینے اور امان طلب کرنے کی کوشش کی لہذا وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے لگا کہ جو نبی (ص) سے یہ کام کرا دے مگرہر ایک نے واسطہ بننے سے انکار کر دیااور اس کی باتوں کی طرف اعتنا نہ کی۔ جب اسے کوئی چارہ کا ر نظر نہ آیا تو وہ ناکام مکہ واپس لوٹ گیا مشرک طاقتوں کے معاملات پیچیدہ ہو گئے تھے۔ حالات بدل گئے تھے اب رسول(ص) بڑھتی ہوئی طاقت اور راسخ ایمان کے سبب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونا چاہتے تھے مشرکین مکہ کی پیمان شکنی نے اس کا جواز پیدا کر دیااور قریش اپنی جان و مال کے لئے امان طلب کرنا چاہتے تھے۔ مکہ پر اقتدار و تسلط کا مطلب یہ تھا کہ پورا جزیرةالعرب اسلام کے زیر تسلط آ جائے۔

رسول(ص) نے یہ اعلان کر دیا کہ سب لوگ دشمن سے جنگ کے لئے تیار ہوجا ئیں چنانچہ مسلمانوں کے گروہ آپ(ص) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر خدمت ہو نے لگے دس ہزار کا لشکر فراہم ہو گیا رسول(ص) نے چند مخصوص افراد ہی سے اپنا مقصد بیان کیا تھا آپ(ص) خدا سے یہ دعا کر رہے تھے۔

''اللهم خذ العیون و الاخبار من قریش حتی نباغتها فی بلادها'' ( ۱ )

اے اللہ قریش کی آنکھوں اور ان کے سراغ رساں لوگوں کو ناکام کر دے یہاں تک کہ ہم ان کے شہر میں ان کے سروں پر پہنچ جائیں۔

ظاہر ہے کہ رسول(ص) کم مدت میں بغیر کسی خونریزی کے پائیدار کا میابی چاہتے تھے اسی لئے آپ(ص) نے خفیہ طریقہ اختیار کیا تھا لیکن اس کی خبر ایسے شخص کو مل گئی جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے اس سلسلہ میں قریش کو ایک خط لکھ دیا اور ایک عورت کے بدست روانہ کر دیا وحی کے ذریعہ رسول(ص) کو اس کی خبر ہو گئی آپ(ص) نے حضرت علی اور زبیر کو حکم دیا کہ اس عورت تک پہنچو اور اس سے خط واپس لو حضرت علی بن ابی طالب نے رسول(ص) پرراسخ ایمان کے سبب اس عورت سے خط واپس لے لیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۳۹۷، مغازی ج۲ ص ۷۹۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۹۸۔

۱۸۴

رسول(ص) نے وہ خط لیتے ہی مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا تاکہ ایک طرف ان کی ہمت بڑھا ئیں اور دوسری طرف انہیں خیانت سے ڈرائیں اور ان پر یہ بات ظاہر کر دیں کہ خدا کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو کچلنے کی کتنی اہمیت ہے ۔ مسلمان اس خط کے بھیجنے والے حاطب بن ابی بلتعہ کا دفاع کرنے لگے کیونکہ اس نے خدا کی قسم کھا کے یہ کہا تھا کہ خط بھیجنے سے اس کا مقصد خیانت نہیں تھا ، لیکن اس کی اس حرکت پر عمر بن خطاب کو بہت زیادہ غصہ آیا اور رسول(ص) سے عرض کی : اگر اجازت ہو تو میں اسے ابھی قتل کردوں رسول(ص) نے فرمایا:

''وما یدریک یا عمر لعل الله اطلع علیٰ اهل بدر و قال لهم اعملوا ما شئتم خلفه غفرت لکم'' ( ۱ )

اے عمر تمہیں کیا خبر؟ ہو سکتا ہے خدا نے بدر والوں پر نظر کی ہو اور ان سے یہ فرمایا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔

فوج اسلام کی مکہ کی طرف روانگی

دس رمضان المبارک کو فوج اسلام مکہ کی طرف روانہ ہوئی جب''کدید'' کے مقام پر پہنچی تو رسول(ص) نے پانی طلب کیا اور مسلمانوں کے سامنے آپ(ص) نے پانی پیا، مسلمانوں کو بھی آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا لیکن ان میں سے بعض لوگوں نے رسول(ص) کی نافرمانی کرتے ہوئے روزہ نہ توڑا، ان کی اس نافرمانی پر رسول(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا:''اولٰئک العصاة'' یہ نافرمان ہیں پھرانہیں روزہ توڑنے کا حکم دیا۔( ۲ ) جب رسول(ص) ظہران کے نزدیک پہنچے تو آپ(ص) نے مسلمانوں کو صحراء میں منتشر ہونے اور ہر ایک کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا، اس طرح ڈرائونی رات روشن ہو گئی اور قریش کی ہر طاقت کو مسلمانوں کا عظیم لشکر نظر آیا جس کے سامنے قریش کی ساری طاقتیں سر نگوں ہو گئیں، اس کو دیکھ کر عباس بن عبد المطلب پریشان ہوئے

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۳۶۳، مغازی ج۲ ص ۷۹۸، لیکن محدثین نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو سیرة المصطفیٰ ، ص ۵۹۲۔

۲۔ وسائل الشیعة ج۷ ص ۱۲۴، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۹۰، مغازی ج۲ ص ۸۰۲، صحیح مسلم ج۳ ص ۱۴۱ و ۱۴۲، کتاب الصیام باب جواز الصوم و الفطر فی شہر رمضان للمسافر فی غیر معصیة، دار الفکر، بیروت۔

۱۸۵

یہ آخری مہاجر تھے جو رسول(ص) سے جحفہ میں ملحق ہوئے -لہذا وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنے لگے جس سے وہ قریش تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ مکہ میں لشکر اسلام کے داخل ہونے سے پہلے فرمانبردار ہو کر آجائیں۔

اچانک عباس نے ابو سفیان کی آواز سنی جو مکہ کی بلندیوں سے اس عظیم لشکر کو دیکھ کر تعجب سے بدیل بن ورقاء سے بات کر رہا تھا اور جب عباس نے ابو سفیان سے یہ بتایا کہ رسول(ص) اپنے لشکر سے مکہ فتح کرنے کے لئے آئے ہیں تو وہ خوف سے کانپنے لگا ۔ اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ عباس کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت حاضر ہو کران سے امان حاصل کر لے ۔

یہ صاحب خلق عظیم اور عفو و بخشش کے بحر بیکراںسے نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے چچا کے ساتھ آنے والے ابو سفیان کے لئے باریابی کی اجازت دینے میں بخل کریں چنانچہ فرمایا: آپ جائیے ہم نے اسے امان دی، کل صبح اسے ہمارے پاس لائیے گا۔

ابو سفیان کا سپر انداختہ ہونا

جب ابو سفیان رسول(ص) کے سامنے آیا تو اس سے آپ(ص) نے یہ فرمایا:''ویحک یا ابا سفیان الم یان لک ان تعلم ان لاالٰه الا اللّه'' اے ابوسفیان وائے ہو تیرے اوپر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا بیشک تو یہ جان لے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا:میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم میرا یہ گمان تھا کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے بے نیاز کر دیتا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو سفیان! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم اس سلسلہ میں ابھی تک میرے دل میں کچھ شک ہے ۔( ۱ )

عباس نے اس موقعہ پر ابو سفیان پر اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں زور دیتے ہوئے کہا : وائے ہو تیرے

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۰، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۵۴۔

۱۸۶

اوپر، قبل اس کے کہ تجھے قتل کر دیا جائے یہ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول (ص) ہیں۔ پس ابو سفیان نے قتل کے خوف سے خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔

ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد مشرکین کے دوسرے سردار بھی اسی طرح اسلام لے آئے لیکن رسول(ص) نے اس غرض سے کہ قریش خونریزی کے بغیر اسلام قبول کر لیں، ان پر نفسیاتی دبائو ڈالا۔ عباس سے فرمایا: اے عباس ا سے کسی تنگ وادی میں لے جائو، جہاں سے یہ فوجوں کو دیکھے۔

رسول(ص) نے اطمینان کی فضا پیدا کرنے اور اسلام و رسول اعظم کی مہربانی و رحم دلی پر اعتماد قائم کرنے نیز ابو سفیان کی عزت نفس کو باقی رکھنے کی غرض سے فرمایا:

جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کے لئے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گا وہ امان میں ہے ، جو مسجد میں داخل ہو جائیگا وہ امان میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے گا وہ امان میں ہے ۔

اس تنگ وادی کے سامنے سے خدائی فوجیں گذرنے لگیں جو دستہ گذرتا تھا عباس اس کا تعارف کراتے تھے کہ یہ فلاں کا دستہ ہے وہ فلاںکا دستہ ہے اس سے ابو سفیان پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس نے عباس سے کہا: اے ابو الفضل خدا کی قسم تمہارا بھتیجہ بہت بڑا بادشاہ بن گیا، عباس نے جواب دیا: یہ بادشاہت نہیں ہے یہ نبوت ہے ۔ ان کے جواب میںابوسفیان نے تردد کیا ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو ڈرانے اور رسول(ص) کی طرف سے ملنے والی امان کا اعلان کرنے کے لئے ابو سفیان مکہ چلا گیا۔( ۱ )

مکہ میں داخلہ

رسول(ص) نے اپنی فوج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے متعلق کچھ احکام صادر فرمائے اورہر دستہ کے لئے راستہ معین کر دیا نیزیہ تاکید فرمائی کہ جنگ سے پرہیز کریں ہاں اگر کوئی بر سر پیکار ہو جائے تو اس کاجواب

____________________

۱۔ مغازی از واقدی ج۲ ص ۸۱۶، سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۷۔

۱۸۷

دیا جائے، چند مشرکین کا خون ہر حال میں مباح قرار دیا، خواہ وہ کعبہ کے پردہ ہی سے لٹکے ہوئے ہوں کیونکہ وہ اسلام اور رسول(ص) کے سخت ترین دشمن تھے۔

جب مکہ کے درو دیوار پرآپ (ص) کی نظر پڑی تو آنکھوں میں اشک بھر آئے، اسلامی فوجیں چاروں طرف سے فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئیں فتح و نصرت نے اس کی شان دوبالا کر دی تھی اور رسول(ص) کو خدانے جو نعمت و عزت عطا کی تھی اس کے شکریہ کی خاطر رسول(ص) سر جھکائے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے کیونکہ اعلائے کلمةاللہ کے لئے آپ (ص) کی بے پناہ جانفشانیوں کے بعد ام القریٰ نے آپ(ص) کی رسالت و حکومت کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔

اہلِ مکہ کے شدید اصرار کے باوجود نبی (ص) نے کسی کے گھر میں مہمان ہونا قبول نہیں کیا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ(ص) نے غسل کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ تکبیر کہی تو سارے مسلمانوں نے تکبیر کہی، دشت و جبل میں نعرۂ تکبیر کی آواز گونجنے لگی-جہاں اسلام اور اس کی فتح سے خوف زدہ ہو کر شرک کے سرغنہ جا چھپے تھے-خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے آپ(ص) نے اس میں موجود ہر بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:( قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) کہو ،حق آیا باطل گیا باطل کو تو جانا ہی تھا اس سے ہر بت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔

رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: تم بیٹھ جائو تاکہ میں تمہارے دوش پر سوار ہو کر بتوںکو توڑ دوں لیکن حضرت علی اپنے دوش پر نبی (ص) کا بار نہ اٹھا سکے تو حضرت علی بن ابی طالب دوش رسول(ص) پر سوار ہوئے اور بتوں کو توڑ ڈالا ۔ پھر رسول(ص) نے خانۂ کعبہ کی کلید طلب کی، دروازے کھولے، اندر داخل ہوئے اور اس میں موجود ہر قسم کی تصویر کو مٹا دیا۔ اس کے بعد خانۂ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر فتحِ عظیم کے بارے میں ایک جمِّ غفیر کے سامنے خطبہ دیا ، فرمایا:

۱۸۸

''لا الٰه الا اللّٰه وحده لا شریک له، صدق وعده، و نصر عبده، و هزم الاحزاب وحده، الا کل ماثره اودم او مال یدعی فهو تحت قدمی هاتین الا سدانة البیت و سقایة الحاج...'' ۔

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی، اسی نے سارے لشکروں کو شکست دی، ہر وہ فضیلت یا خون یا مال کہ جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے قدموں کے نیچے ہے ، سوائے خانۂ کعبہ کی کلید برداروی اور حاجیوں کو سیراب کرنے کی فضیلت...۔

پھر فرمایا:'' یا معاشر قریش ان اللّٰه قد اذهب عنکم نخوة الجاهلیة وتعظمها بالآباء النّاس من آدم و آدم من تراب...'' ( ۱ )

اے گروہ قریش! خدا نے تمہارے درمیان سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کر دیا ہے وہ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرتے تھے یا د رکھو سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔

( یا ایها النّاس انا خلقناکم من ذکرٍ و انثیٰ و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم ان اللّٰه علیم خبیر )

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیاہے اور پھر تمہارے گروہ اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک خدا کی نظر میں تم میں سے وہی محترم ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔( ۲ )

پھر فرمایا: اے گروہِ قریش تم کیا سوچتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟

انہوں نے کہا: آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا:''اذهبوا انتم طلقائ'' ( ۳ ) جائو تم آزاد ہو۔

____________________

۱۔ مسند احمدج۱ ص ۱۵۱، فرائد السمطین ج۱ ص ۴۹، کنز العمال ج۱۳ ص۱۷۱، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۸۶۔

۲۔حجرات:۱۳۔

۳۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۰۶، سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۱۲۔

۱۸۹

اس کے بعد بلال نے خانۂ کعبہ کی چھت پر جاکر اذان ظہر دی سارے مسلمانوں نے اس فتح کے بعد مسجد الحرام میں رسول(ص) کی امامت میں نماز پڑھی ، مشرکین حیرت سے کھڑے منہ تک رہے تھے، سرتاپا خوف و استعجاب میں ڈوبے ہوئے تھے، اہل مکہ کے ساتھ رسول(ص) کا یہ سلوک دیکھ کر انصار کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں رسول(ص) دوبارہ مکہ آباد نہ کریں ، ان کے ذہنوںمیں اور بہت سے خیالات گردش کر رہے تھے، رسول(ص) بارگاہ معبود میں دست بدعا تھے، انصار کے دل کی کیفیت سے بھی آگاہ تھے، انہیں مخاطب کر تے ہوئے فرمایا:''معاذ اللّٰه المحیا محیاکم و الممات مماتکم'' ایسا نہیں ہوگا میری موت و حیات تمہاری موت و حیات کے ساتھ ہے ، اسلام کا مرکز مدینہ ہی رہے گا۔

اس کے بعد مکہ والے رسول(ص) سے بیعت کے لئے بڑھے، پہلے مردوںنے بیعت کی ۔ بعض مسلمانوں نے ان لوگوں کی بھی رسول(ص) سے سفارش کی جن کا خون مباح کر دیا گیا تھا، رسول(ص) نے انہیںمعاف کر دیا۔

پھر عورتیں بیعت کے لئے آئیں -ان کی بیعت کے لئے آپ(ص) نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پانی سے لبریز ظرف میں پہلے آپ(ص) ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے پھر عورت اس میں ہاتھ ڈالتی تھی- ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی بھی چیز کو خدا کا شریک نہیں قراردیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں پیروں کے ذریعہ گناہ نہیں کریںگی اور بہتان نہیں باندھیں گی اور امر بالمعروف میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔( ۱ )

رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کے حلیف خزاعہ نے مشرکین کے ایک آدمی پر زیادتی کی اور اسے قتل کر دیا، آپ(ص) کھڑے ہوئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''یا ایّها النّاس ان الله حرم مکة یوم خلق السمٰوات و الارض فهی حرام الیٰ یوم القیامة لا یحل لامریٔ یؤمن باللّٰه و الیوم الآخر ان یسفک دماً او یعضد فیها شجراً'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۱۳ ، سورۂ ممتحنہ :۱۲۔

۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث ۳۱۰۹، کنز العمال ح ۳۴۶۸۲، در منثور ج۱ ص ۱۲۲۔

۱۹۰

اے لوگو! بیشک خدا نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اسی روز مکہ کو حرم قراردیدیا تھا اور وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اور جو شخص خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس میں خونریزی کرے یا اس میں کوئی درخت کاٹے۔

پھر فرمایا:''من قال لکم ان رسول اللّه قد قاتل فیها فقولوا ان اللّه قد احلها لرسوله و لم یحللها لکم یا معاشرخزاعه''

اور اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ(ص) نے اس شہر میں جنگ کی ہے تو اس سے کہو کہ خدا نے اپنے رسول کے لئے جنگ حلال کی تھی اور تمہارے لئے جنگ حلال نہیں کی ہے اے بنی خزاعہ!

رسول(ص) نے اہل مکہ اور اس کے باشندوںکے بارے میں جس محبت و مہربانی ،عفو و در گذر اور مکہ کی سر زمین کی تقدیس اور اس کی حرمت کے متعلق جو اقدام کئے تھے وہ قریش کو بہت پسند آئے، لہذا ان کے دل آپ(ص) کی طرف جھکے اورانہوں نے بطیب الخاطر اسلام قبول کرلیا۔

جب پورا علاقہ مسلمان ہو گیا تو رسول(ص) نے مکہ اور اس کے مضافات میں بعض دستے روانہ کئے تاکہ وہ باقی ماندہ بتوں کو توڑ ڈالیں اور مشرکین کے معبدوں کو منہدم کر دیں لیکن خالد بن ولید نے اپنے چچا کے قصاص میں بنی جذیمہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا حالانکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔( ۱ ) جب رسول (ص) کو اس سانحہ کی خبر ملی تو آپ(ص) بہت غضبناک ہوئے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ ان مقتولوں کی دیت ادا کریں پھرآپ(ص) قبلہ رو کھڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور عرض کی:''اللّهم انّی ابرء الیک مما صنع خالد بن الولید'' اے اللہ جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے بری ہوں، اس سے بنی جذیمہ کے دلوںکو اطمینان ہو گیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۲۰، خصال ص ۵۶۲، امالی طوسی ص ۳۱۸۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۴۸۔

۱۹۱

۳۔ جنگ حنین او ر طائف کا محاصرہ( ۱ )

فاتح کی حیثیت سے رسول(ص) کو مکہ میں پندرہ روز گزر گئے شرک کی مدتِ دراز کے بعد توحید کا یہ عہدِ جدید تھا مسلمان مسرت میں جھوم رہے تھے، ام القریٰ میں امن و امان کی حکمرانی تھی اچانک رسول(ص) کو یہ خبر ملی کہ ہوازن و ثقیف دونوں قبیلوںنے اسلام سے جنگ کرنے کی تیاری کر لی ہے ان کا خیال ہے اس کام کو انجام دیدیں گے جسے شرک و نفاق کی ساری طاقتیں متحد ہو کر انجام نہ دے سکیں یعنی یہ دونوں قبیلے-معاذ اللہ- اسلام کو نابود کر دیں گے؟! رسول(ص) نے ان سے نمٹنے کا عزم کیا لیکن آپ(ص) نے اپنی عادت کے مطابق پہلے مکہ میں امور کی دیکھ بھال کا انتظام کیا نماز پڑھانے اور امور کا نظم و نسق عتاب بن اسید کے سپرد کیا لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور انہیں احکام اسلام سکھانے کے لئے معاذ بن جبل کو معین کیا اس کے بعد بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے، اتنی بڑی فوج مسلمانوں نے نہیں دیکھی تھی اس سے انہیں غرور ہو گیا یہاں تک ابو بکر کی زبان پر یہ جملہ آگیا : اگر بنی شیبان بھی ہم سے مقابلہ کریں گے تو آج ہم اپنی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہونگے۔( ۲ )

ہوازن و ثقیف میں اتحاد تھاوہ جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اہل و عیال کو بھی اپنے ہمراہ لائے تھے اور لشکر اسلام کو کچلنے کے لئے گھات میں بیٹھ گئے تھے۔لشکر اسلام کے مہراول دستے جب کمین گاہ کے اطراف میں پہنچے توانہوں نے انہیں فرار کرنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ دشمن کے اسلحہ سے ڈر کر باقی مسلمان بھی ثابت قدم نہ رہ سکے، بنی ہاشم میں سے صرف نو افراد رسول(ص) کے ساتھ باقی بچے تھے دسویں ایمن-ام ایمن کے بیٹے- تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر منافقین مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ ابو سفیان طعن و تشنیع کرتا ہوا نکلا اور کہنے لگا۔ یہ لوگ جب تک سمندر کے کنارے تک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک دم نہیں لیں گے ۔ کسی نے کہا: کیا آج سحر باطل نہیں ہو گیا؟ کسی نے اس پریشان حالی میں رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ جنگ حنین ماہ شوال ۸ھ میں ہوئی ۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۵۰، مغازی ج۲ ص ۸۸۹۔

۳۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۴۳، مغازی ج۳ ص ۹۹۔

۱۹۲

رسول(ص) نے اپنے چچا عباس سے فرمایا کہ بلندی پر جاکر شکست خوردہ اور بھاگے ہوئے انصار و مہاجرین کو اس طرح آواز دیں:'' یا اصحاب سورة البقره، یا اهل بیعة الشجرة الی این تفرون؟ هذا رسول اللّه!''

اے سورۂ بقرہ والو! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ یہ اللہ کے رسول(ص) ہیں ۔

اس سے وہ لوگ غفلت کے بعد ہوش میں آگئے، پراگندگی کے بعد میدان کار زار پھر گرم کیا، اسلام اور رسول(ص) کا دفاع کرنے کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کی طرف لوٹ آئے جب رسول(ص) نے ان کی جنگ دیکھی تو فرمایا:''الآن حمی الوطیس انا النبی لا کذب انا ابن المطلب'' ہاں اب جنگ اپنے شباب پر آئی ہے ، میں خدا کا نبی (ص) ہوں جھوٹ نہیں ہے ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ پس خدا نے مسلمانوں کے دلوں کو سکون بخشااور اپنی مدد سے ان کی تائید کی جس کے نتیجے میں کفر کے گروہ شکست کھا کر بھاگ گئے ، لشکر اسلام نے ان میں سے چھہ ہزار کو اسیر کیااور بہت سا مال غنیمت پایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے فرمایا: مال غنیمت کی حفاظت اور اسیروں کی نگہبانی کی جائے۔ دشمن فرار کرکے اوطاس، نخلہ اور طائف تک پہنچ گیا۔

یہ رسول(ص) کے اخلاق کی بلندی ، رحم دلی اور عفو ہی تھا کہ آپ(ص) نے ام سلیم سے فرمایا:''یا ام سلیم قد کفی اللّه، عافیة اللّه اوسع'' خدا کافی ہے اور اس کی عافیت بہت زیادہ وسیع ہے ۔

دوسری جگہ رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کو یہ خبر ملی کہ بعض مسلمان مشرکین کی ذریت کو تہ تیغ کر رہے ہیں فرمایا:''ما بال اقوام ذهب بهم القتل حتی بلغ الذریة الا لا نقتل الذریة'' ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اب وہ بچوں تک کو قتل کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بچوںکو قتل نہیں کرتے ہیں۔ اسید بن حضیر نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! کیایہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ فرمایا:

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی کچھ آیتیں نازل ہوئی تھیں جو کہ خدا کی تائید و نصرت کی وضاحت کر رہی ہیں۔

۱۹۳

''اولیس خیارکم اولاد المشرکین ، کل نسمة تولد علیٰ الفطرة حتی یعرب عنها لسانها و ابواها یهودانها او ینصرانها'' ( ۱ ) کیا تمہارے بہترین افراد مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ ہر انسان فطرت-اسلام- پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے فوجی دستے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے طائف تک پہنچ گئے اور تقریبا پچیس دین تک ان کا محاصرہ کئے رہے ، وہ بھی دیواروں کے پیچھے سے مسلمانوں پر تیر بارانی کرتے تھے اس کے بعد رسول(ص) بہت سی وجوہ کی بنا پر طائف سے لوٹ آئے۔

جب جعرانہ -جہاں اسیروں اور مال غنیمت کو جمع کیا گیا تھا-پہنچے تو قبیلۂ ہوازن کے بعض لوگوں نے خدمت رسول(ص) میں معافی کے لئے التماس کی، کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص)! ان اسیروں میں بعض آپ(ص) کی پھوپھیاں اور بعض خالائیں ہیں جنہوں نے آپ(ص) کو گود کھلایا ہے -ایک روایت کے مطابق رسول(ص) کو رضاعت کے لئے قبیلہ بنی سعد کے سپرد کیا گیا تھا جو کہ ہوازن کی شاخ تھی-اگر ہم حارث بن ابی شمر یا نعمان بن المنذر سے انتا اصرار کرتے تو ہمیں ان کے عفو و مہربانی کی امید ہوتی۔ آپ(ص) سے توان سے زیادہ امید ہے ۔ اس گفتگو کے بعد رسول(ص) نے ان سے یہ فرمایا: ایک چیز اختیار کریں ۔ یا مال واپس لے لیں یا قیدیوں کو چھڑا لیں۔ انہوں نے قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا:''اما ما کان لی ولبن عبد المطلب فهو لکم '' جو میرا اور بنی عبد المطلب کا حصہ ہے وہ تمہارا ہے جب مسلمانوںنے رسول (ص) کا عفو و کرم دیکھا تو انہوںنے بھی اپنا اپنا حصہ رسول(ص) کے سپرد کر دیا۔( ۲ )

رسول(ص) نے اپنی حکمت بالغہ اور درایت سے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز جنگ کی آگ کو خاموش کرنے کی خاطر سب کو معاف کر دیا یہاں تک کہ اس جنگ کو بھڑکانے والا مالک بن حارث بھی اگر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آجائے تو اسے بخش دیا جائیگا۔ چنانچہ ارشاد ہے :

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۰۹۔

۲۔سید المرسلین ج۲ ص ۵۳، مغازی ج۳ ص ۹۴۹-۹۵۳۔

۱۹۴

''اخبروا مالکاً انّه ان اتانی مسلماً رددت علیه اهله و ماله واعطیته مائة من الابل و سرعان ما اسلم مالک'' ( ۱ )

مالک کو خبر کرو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیگا تو اس کے اہل و عیال اور مال و دولت اسے واپس مل جائیں گے اور مزیداسے سو اونٹ دئیے جائینگے۔ اس کے نتیجہ میں مالک نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔

مال غنیمت کی تقسیم

مسلمان رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور مال غنیمت تقسیم کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے ،انہوں نے اس سلسلہ میں اتنی شدت اختیار کی کہ آپ(ص) کی ردا تک اچک لے گئے آپ(ص) نے فرمایا:

''ردوا علی ردائی فو اللّٰه لو کان لکم بعدد شجر تهامة نعماً لقسمته علیکم، ثم ما الفیتمونی بخیلاً ولا جباناً ولا کذاباً'' ۔

میری ردا واپس کر دو، خدا کی قسم اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی تمہارا مال ہوتا تو بھی میں اسے تقسیم کر دیتا پھر تم مجھ پر بخل، بزدلی اور جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکتے تھے۔

اس کے بعد آپ(ص) اٹھے، اپنے اونٹ کے کوہان کے کچھ بال لئے اور اپنی انگلیوں میں لیکر بلند کیا اورفرمایا:

''ایها النّاس و اللّه مالی فی فیئکم ولا هذه الوبرة الا الخمس ، و الخمس مردود علیکم'' ۔

اے لوگو! اس مال غنیمت میں میرا حصہ اس اونٹ کے بال کے برابر بھی نہیں ہے سوائے خمس کے اور وہ پانچواں حصہ بھی تمہیں دے دیا گیا ہے ۔ پھر آپ نے یہ حکم دیا کہ جو چیز بھی غنیمت میں ہاتھ آئی ہے اسے واپس لوٹایا جائے تاکہ انصاف کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص ۹۵۴ و ص ۹۵۵۔

۱۹۵

رسول(ص) نے مولفة القلوب ، ابو سفیان، معاویہ بن ابو سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، سہیل بن عمرو،حویطب بن عبد العزی اور صفوان بن امیہ وغیرہ سے شروع کیا، یہ کفر و شرک کے وہ سرغنہ تھے جو آپ (ص) کے سخت ترین دشمن اور کل تک آپ(ص) سے جنگ کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنا حق خمس بھی انہیں میں تقسیم کر دیا رسول(ص) کے اس عمل سے بعض مسلمانوں کے دل میں غصہ وحمیت بھڑک اٹھی کیونکہ وہ رسول(ص) کے مقاصد اور اسلام کی مصلحتوں سے واقف نہیں تھے ، یہ غصہ میں اتنے آپے سے باہر ہوئے کہ ان میں سے ایک نے تو یہ تک کہہ دیا کہ میں آپ(ص) کو عادل نہیں پاتا ہوں۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا: ''ویحک اذا لم یکن العد ل عندی فعند من یکون'' وائے ہو تمہارے اوپر اگر میں عدل نہیں کرونگا تو کون عدل کرے گا؟ عمر بن خطاب چاہتے تھے کہ اسے قتل کر دیں لیکن رسول(ص) نے انہیں اجازت نہیں دی فرمایا:''دعوه فانه سیکون له شیعة یتعمقون فی الدین حتی یخرجوا منه کما یخرج السهم من رمیته'' ۔( ۱ )

جانے دو عنقریب اس کے پیرو ہونگے جو دین کے بارے میں بہت بحث کیا کریں گے او ردین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے ۔

انصار کا اعتراض

سعد بن عبادہ نے یہ مناسب سمجھا کہ رسول(ص) کو انصار کی یہ بات ''کہ رسول(ص) اپنی قوم سے مل گئے اور اپنے اصحاب کو بھول گئے'' بتا دی جائے جو ان کے درمیان گشت کر رہی ہے ۔ سعد نے انصار کو جمع کیا رسول(ص) کریم تشریف لائے تاکہ ان سے گفتگو کریں، پس آپ(ص) نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

''یا معشر الانصار ما مقالة بلغتنی عنکم وجِدَةً وجد تموها ف انفسکم؟ ! الم آتکم ضُلّالاً فهداکم اللّه و عالة فاغناکم اللّه و اعدائً فالّف اللّه بین قلوبکم؟ قالوا: بلیٰ اللّه و

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۶، مغازی ج۳ ص ۹۴۸۔

۱۹۶

رسوله أمّنُّ و افضل ، ثم قال: الا تجیبون یا معشر الانصار؟ قالواو ماذا نجیبک یا رسول اللّه؟ قال: اما و اللّه لو شئتم قلتم فصدقتم: اتیتنا مکذباً فصدقناک و مخذولاً فنصرناک و طریداً فآویناک و عائلاً فآسیناک وجدتم ف انفسکم یا معشر الانصار ان یذهب النّاس بالشاة و البعیر و ترجعوا برسول اللّه الیٰ رحالکم؟ و الذی نفس محمد بیده لولا الهجرة لکنت امر ئاً من الانصار ولو سلک النّاس شعباً و سلکت الانصار شعباً لسلکت شعب الانصار''

اے گروہ انصار! مجھ تک تمہاری وہ بات پہنچی ہے جو تم اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو ۔ کیا تم پہلے گمراہ نہیں تھے ، خدا نے تمہیں-ہمارے ذریعہ-ہدایت دی، تم نادار و مفلس تھے خدا نے تمہیں ہماری بدولت مالا مال کیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ انصار نے کہا: خدا و رسول(ص) کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ پھر فرمایا: اے گروہ انصار کیا تم مجھے جواب نہیں دوگے؟ انہوںنے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ(ص) کو کس طرح جواب دیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم اس طرح کہتے تو سچ ہوتا کہ لوگوں نے آپ(ص) کو جھٹلایا اور ہم نے اپ(ص) کی تصدیق کی ، لوگوں نے آپ(ص) کو چھوڑ دیا تو ہم نے آپ(ص) کی مدد کی لوگوںنے آپ(ص) کو وطن سے نکال دیا تو ہم نے آپ(ص) کو پناہ دی، آپ مفلس تھے ہم نے آپ(ص) کی مال سے مدد کی اے گروہِ انصار! تم اپنے دلوں میں دنیا کی جس چیز کی محبت محسوس کرتے ہو اس کے ذریعہ میں نے کچھ لوگوں کی تالیف قلب کی ہے تاکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے اے گروہ انصار کیاتمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ اونٹ اور بکریوں کے ساتھ اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول(ص) کے ساتھ اپنے گھر جائو؟ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(ص) کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی میں سے ہوتا اگر لوگ کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے اور انصار بھی کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے تو میں انصار کے قبیلہ کو اختیار کرتا۔

ان جملوںنے ان کے دلوں میں جذبات و شعور کو بیدار کر دیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کے بارے میں ان کا خیال صحیح نہیں تھا یہ سوچ کر وہ رونے لگے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص) ہم اسی تقسیم پر راضی ہیں۔

۱۹۷

ماہِ ذی الحجہ میں رسول(ص) اپنے ساتھیوں کے ساتھ جعرانہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، عمرہ بجالائے احرام کھولا، عتاب بن اسید اور ان کے ساتھ معاذ بن جبل کو مکہ میں اپنا نمائندہ مقرر کیا جو مہاجرین و انصارآپ کے ساتھ تھے ان کے ہمراہ آپ(ص)مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔( ۱ )

۴۔ جنگ تبوک( ۲ )

اسلامی حکومت ایک مستقل نظام کی صورت میں سامنے آئی اس کے سامنے بہت سے چیلنج تھے اس کی سرحدوں اور زمینوں کی حفاظت کرنا مسلمانوںکا فریضہ تھا تاکہ زمین کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔

رسول(ص) نے مملکتِ اسلامیہ کے تمام مسلمانوںسے یہ فرمایا کہ روم سے جنگ کے لئے تیاری کرو، کیونکہ روم کے بارے میں مسلسل یہ خبریں مل رہی تھیں کہ وہ جزیرہ نمائے عرب پر حملہ کرکے دین اسلام اور اس کی حکومت کونیست و نابود کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ اتفاق سے اس سال بارش نہیں ہوئی، جس کے نتیجہ میںپیداوار کم ہوئی اور شدید گرمی پڑ ی، اس صورت میں دشمن کی اس فوج سے مقابلہ کے لئے نکلنا بہت دشوار تھا جو تجربہ کار قوی اور کثیر تھی چنانچہ جن لوگوں میں روحانیت کم تھی اور جن کے نفس کمزور تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک بار پھر نفاق کھل کرسامنے آ گیا تاکہ ارادوںمیں ضعف آجائے اور اسلام کو چھوڑ دیا جائے۔

بعض تو اس لئے لشکر اسلام میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ دنیا کو بہت دوست رکھتے تھے، بعض شدید گرمی کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئے کچھ اپنے ضعف اور رسول(ص) کے کم وسائل کی وجہ سے آپ(ص) کے ساتھ نہیں گئے، حالانکہ راہ خدا میں جہاد کے لئے سچے مومنین نے اپنا مال بھی خرچ کیا تھا۔

رسول (ص) کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ منافقین ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور لوگوں کو جنگ میں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۸، مغازی ج۳ ص ۹۵۷۔

۲۔ جنگ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں ہوئی ۔

۱۹۸

شریک ہونے سے روکتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں، رسول(ص) نے دور اندیشی اورسختی کے ساتھ اس معاملہ کو بھی حل کیا۔ ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجا جس نے انہیں اسی گھر میں جلا دیا تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو جائے۔

خدا نے کچھ آیتیں نازل کی ہیں جو منافقین کی گھناونی سازشوںکو آشکار کرتی ہیں اور جنگ سے جی چرانے والوں کو جھنجھوڑتی ہیں اور کمزور لوگوں کو معذور قرار دیتی ہیں مسلمانوں کی فوج میں کم سے کم تیس ہزار سپاہی تھے-روانگی سے قبل رسول(ص) نے مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ علی تجربہ کار بہترین تدبیر کرنے والے اور پختہ یقین کے حامل ہیں۔ رسول(ص) کو یہ خوف تھا کہ منافقین مدینہ میں تخریب کاریاں کریں گے اس لئے فرمایا: ''یا علی ان المدینة لا تصلح الا بی او بک''۔( ۱ ) اے علی ! مدینہ کی اصلاح میرے یا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی۔

نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت

جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیںسو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔

فرمایا:''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی'' ( ۲ )

____________________

۱۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۱۱۵، انساب الاشراف ج۱ ص ۹۴ و ۹۵، کنز العمال ج۱۱ باب فضائل علی۔

۲۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔

۱۹۹

وہ جھوٹے ہیں ،میں نے تمہیںاپنا جانشین بنایا ہے تاکہ تم اپنے اور میرے اہل خانہ میں میرے جانشین رہو، اے علی ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کی فوج دشوار و طویل راستہ طے کرتی چلی جا رہی تھی اس جنگ میں رسول(ص) نے گذشتہ جنگوں کے بر خلاف مقصد و ہدف کی وضاحت فرمادی تھی ، جو لوگ مدینہ سے آپ(ص) کے ساتھ چلے تھے ان کی ایک جماعت نے راستہ کے بارے میں آپ(ص) سے اختلاف کیا تو آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:''دعوه فان یکن به خیر سیلحقه اللّه بکم و ان یکن غیر ذالک فقد اراحکم اللّٰه منه''

انہیں جانے دو اگر ان کا ارادہ نیک ہے تو خدا انہیں تم سے ملحق کر دے گا اور اگر کوئی دوسرا ارادہ ہے توخدا نے تمہیں ان سے نجات دیدی۔

رسول(ص) تیزی سے منزل مقصود کی طرف بڑھ رہے تھے جب آپ(ص) حضرت صالح کی قوم کے ٹیلوں کے پاس سے گذرے تو اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''لا تدخلوا بیوت الذین ظلموا اِلّا و انتم باکون خوفاً ان یصیبکم ما اصابهم' ' ظلم کرنے والوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر روتے ہوئے اور اس خوف کے ساتھ(داخل ہونا)کہ جو افتاد ان پر پڑی تھی وہ تم پرنہ پڑے'' اور انہیں اس علاقہ کا پانی استعمال کرنے سے منع کیا اور انہیں سخت موسم سے آگاہ کیا نیزاس جنگ میں کھانے پانی اور دیگر اشیاء کی قلت سے متنبہ کیا، اسی لئے اس لشکر کو ''جیش العسرة'' کہتے ہیں۔

مسلمانوں کو روم کی فوج نہیں ملی کیونکہ وہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس موقعہ پر رسول(ص) نے اصحاب سے یہ مشورہ کیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے یا مدینہ واپس چلا جائے اصحاب نے عرض کی: اگر آپ کو چلنے کا حکم دیاگیا ہے تو چلئے رسول(ص) نے فرمایا:''لو امرت به ما استشرتکم فیه'' اگر مجھے حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا( ۱ ) پھر آپ(ص) نے مدینہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

____________________

۱۔المغازی ج۳ ص۱۰۱۹ ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

متوشلح کی اپنے بیٹے لمک سے وصیت

اخبار الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:

جب متوشلح کی موت کا زمانہ قر یب آیا ، تو انھوں نے اپنے بیٹے لمک سے وصیت کی ،لمک جامع(جمع کر نے والے) کے معنی میں ہے اور وہ نوح پیغمبر کے والد ہیں۔

متوشلح نے ان سے وصیت کی ا ور صحیفے اور مہر لگی کتابیں کہ جو ادریس پیغمبر کی تھیں ان کے حوالے کیں اور وصیت ان تک منتقل ہو گئی۔

لمک کی اپنے بیٹے نوح سے وصیت

اور جب لمک کی موت کا وقت قریب آیا تو نوح ، سام ، حام اور یافث اور ان کی عورتوں کو بلایا ، شیث کی اولاد میں صرف ان آٹھ افراد کے علا وہ کوئی باقی نہیں رہا تھا کیو نکہ باقی پہاڑ سے نیچے آکر قابیل کی اولاد سے مخلوط ہوگئے تھے اور ان سے راہ و رسم برقرار کر لی تھی ۔

لمک نے ان آٹھ افراد پر درود بھیجا اور ان کے لئے برکت کی دعا کی اور کہا:

اس خدا سے دعا کر تا ہوں جس نے آدم کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا کہ ہمارے باپ آدم کی برکت تم پر نازل کر ے اور حکو مت وسلطنت تمہارے فرزندوں میں قرار دے میں مر جا ؤں گا اور اے نوح ! تمہارے سوا ان میں سے کوئی دوسرا جو عذاب خدا وندی کا مستحق ہے نجات نہیں پا ئے گا. اور جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر غار گنج (جہاں حضرت آدم کا جسد رکھا ہوا ہے) میں رکھ دینا اور جب خدا کا ارادہ ہو کہ کشتی میں سوار ہو تو مجھے اور جسد آدم کو اٹھا کر پہاڑ کے نیچے لے آؤ اور ہمیں اپنے ساتھ ساتھ رکھو اُس وقت تک کہ جب تک کشتی سے باہر نہ آجاؤ۔

اور جب طوفان تھم جائے اور کشتی سے باہر آجاؤ اور زمین پر قدم رکھو تو حضرت آدم کے جسد کے پاس نماز پڑھو اور اپنے بڑے بیٹے سام کو تا کید کرو کہ آدم کے جسد کو اٹھا کر اپنے کسی فرزند کے ساتھ اُسے زمین کے وسط میں سپرد خاک کر دے اور خدا وند عالم فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اُس کے ہمراہ بھیجے گا تا کہ اُس کا ہمدم ہو اور وسط زمین کی راہنمائی کر ے۔

۲۸۱

خدا وند عالم نے نوح پر ،ان کے جد ادریس پیغمبر کے زمانے میں اور ادریس کو آسمان پر اٹھا ئے جانے سے پہلے وحی نازل کی اور انھیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو طغیا نی و سر کشی کے انجام سے ڈرائیں اور انھیں ان گناہوں کے ارتکاب سے منع کریں جن کے وہ مر تکب ہوتے تھے اور انھیں عذاب سے ڈرائیں. نوح نے خدا کے حکم کی تعمیل کی اور عبادت خدا اور قوم کو خدا کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہوگئے۔

نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت

جب حضر ت نوح کشتی سے باہر آئے توتین سو ساٹھ سال تک زندہ رہے اور جب موت کا وقت قر یب آیا تو ان کے بیٹے سام ،حام ، یافث اور ان کی اولا د ان کے ارد گرد جمع ہو گئی۔

نوح نے ان سے وصیت کی اور خدا وند سبحان کی عبادت کا حکم دیا اور سام کوحکم دیا کہ جب وہ انتقال کر جائیں تو کشتی کے اندر جائے اور کسی کو اطلاع د یئے بغیر حضرت آدم کے جسد کو زمین کے وسط میں اور مقدس جگہ پر سپرد لحدکر دے. پھر کہا. اے سام! جب تم ملکیزدق کے ہمراہ اس کام کوا نجام دینے کے لئے روانہ ہو جاؤ گے تو خدا وند سبحان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کو تمہارے ساتھ کرے گا تا کہ تمہارا راہنما ہو اور وسط زمین کے بارے میں تمھیں اطلاع دے. اس ماموریت میں کسی کو اپنے کام سے باخبر نہ کر نا یہ حضرت آدم کی وصیت کا جز ہے جو انھوں نے اپنے فرزندوں سے کی تھی اور ہر ایک نے دوسرے کو اس کے انجام دینے کی وصیت کی یہاں تک کہ یہ وصیت تم تک پہونچی ؛ پھر جب اس جگہ پہنچ جاؤ جہاں فرشتہ نے راہنمائی کی ہے،تو جسد آدم کو اسی جگہ خاک میں دفن کر دو،پھر اس گھڑی حکم دو کہ ملکیزدق وہاں سے جدا نہ ہو اور خدا کی عبادت کے سوا کوئی کام نہ کرے۔

خدا وند سبحان نے ریاست اور وہ تمام کتابیں جو پیغمبروں پر نازل ہوئی تھیں سام کے حوالے کیں اور اسے دیگر فرزندوں اور بھائیوں سے الگ نوح کی جانشینی سے مخصوص کر دیا۔

۲۸۲

سام کی اپنے بیٹے ارفخشد سے وصیت

سام باپ کی وفات کے بعد خدا کی عبادت اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں مشغول ہوگئے۔ انھوں نے کشتی کا دروازہ کھو لا اور حضرت آدم کے جسد کو اپنے بیٹے ملکیزدق کے ہمراہ لے کر خفیہ طور پر بھائیوں اور خاندان کو اطلاع دئیے بغیر جسد کو نیچے لائے .فرشتہ نے ان کی راہنمائی کی ذمّہ داری لی اور اس جگہ تک جہاں حکم تھا کہ حضرت آدم کے جسد کو وہاں دفن کریں ان کے ساتھ ساتھ رہا؛اور جسد آدم کو وہیں پر سپرد لحد کر دیا۔

اور جب سام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بیٹے ارفخشد کو وصیت فرمائی، جو کہ اپنے والد کے بعد زمین میں ان کے جانشین تھے۔

ارفخشد کی اپنے بیٹے شالح سے وصیت

جب ارفخشد کی موت کا وقت قریب آیا ،بیٹے اور خاندان والے ان کے پا س جمع ہوگئے،انھوں نے خدا وندعالم کی عبادت اور گناہوں سے دوری اختیار کر نے کی تاکید کی ۔

پھر اس وقت اپنے بیٹے شالح سے کہا : میری وصیت قبول کرو اور میرے بعد خا ندان کے درمیان میرے جانشین رہو اور خدا وند رحمان کی اطاعت و عبادت کے لئے قیام کرو ، یہ کہہ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔

شالح کی اپنے بیٹے عابر سے وصیت

شالح کی موت کا وقت جب نزدیک آیا،تو اپنے بیٹے عابر سے وصیت کی اور انھیں حکم دیا کہ قابیل ملعون کی اولاد سے کنارہ کشی اختیار کر یں.یہ کہہ کہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

گزشتہ فصلوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے کس طرح اپنے دو بیٹے اسمٰعیل و اسحق کو حنفیہ شریعت کی حفاظت کے لئے وصیت فر ما ئی ہے۔ کتاب کی اس جلد میںجو کچھ ہم نے یہاں تک ذکر کیا ہے، جا نشینی اور وصایت سے متعلق اخبار کے سلسلوںکا ایک حصّہ تھا۔

پہلی جلد میں ہم نے پڑھا کہ خدا وند عالم نے موسیٰ کلیم اللہ کو کس طرح حکم دیا کہ یسع بن نون کو اپنی شریعت اور امت پر اپنا وصی بنا ئیں۔

۲۸۳

اور حضرت داؤد نے اپنے فرزند سلیمان کو اسی امر سے متعلق وصیت فرمائی اور حضرت عیسی نے اپنے حواری شمعون یا سمعان کو اسی امر کی وصیت کی اور یہ وصیت کا سلسلہ حضرت آدم کے زمانے سے حضرت عیسیٰ کے دور تک یوں ہی جاری و ساری رہا۔

واضح ہے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دیگر پیغمبروں کی بہ نسبت کو ئی الگ روش نہیں رکھتے تھے اور ان کی سیرت بھی اُن سے جدا اور متفاوت نہیں تھی.لہٰذا آنحضرت نے خدا کے حکم سے اپنے بعد کے لئے اپنے اہلبیت اور عترت سے بارہ وصی معین کئے کہ اُن میںسب سے پہلے ان کے چچا زاد بھائی امیر المومنین ہیں .اور ان میں آخری امام حسن عسکری کے فرزند حضرت مہدی (عج)ہیں۔

اس وصایت سے متعلق مفصل و مشروح اخبار ہمارے ماھر فن بزرگوں کی پانچ کتا ب''اثبات الوصیہ'' میں ذکر ہوئے ہیں کہ ہمارے شیخ اور استاد ''الذریعہ'' کے مؤلف نے ان کا تعارف کر ایا ہے۔اور ہم نے ان کی وصیت سے متعلق بعض روایات واخبار کو ۲۵ صفحہ سے زیادہ میں معالم المدرستین نامی کتاب کی پہلی جلد میں(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وارد نصوص کے ذیل میںاپنے بعد ولی امر کی تعیین سے متعلق) ذکر کیا ہے کہ یہاں پر اختصار کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ اسلام کی دعوت کے آغاز میں اور آیت( وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الَّاقْرَبین ) کے نازل ہو نے کے بعد پیغمبر اکرم نے جناب عبد المطلب کے فرزندوں کو بلا یا اور انھیں اسلام قبول کر نے کی دعوت دی۔

پھر اُس مہمانی کے اختتام پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب کی گردن پر رکھا اور فرمایا: یہ، تمہارے درمیان میرا بھائی میرا وصی اور جا نشین ہے۔

اس کی اطا عت و فرمانبرداری کرو۔( ۱ )

۲۔ پیغمبر کے دو صحابی سلمان فارسی اور ابو سعید خدری نے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

میرا وصی اور میرے راز کا محافظ اور سب سے اچھا شخص جسے میں اپنے بعد اپنا جا نشین بنائوں گا اور وہ شخص جو میرے امور کو انجام دے گا اور میرے قرضوں کو ادا کر ے گا وہ علی بن ابی طالب ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۳ ، ص۱۱۷۱؛ اور تاریخ ابن اثیر، ج۲ ،ص ۲۲۲؛ تاریخ ابن عساکر میں امیر المومنین کے حال کی تشریح اور شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید، ج۳ ،ص ۲۶۳ کہ جس میں ا ختصار کے ساتھ نقل کیا گیا ہے.۲۔ سلمان فارسی کی روایت معجم الکبیر میں ،ج۶، ص ۲۲۱ اور مجمع الزوائد، ج۹ ،ص ۱۱۳ .ابو سعید کی روایت علی بن ابی طالب کے فضائل سے متعلق کنزالعمال ،ج۲ ،ص ۱۱۹ کی کتاب فضائل سے.اور طبرانی نے ج ،۲ ،ص ۲۷۱ پر ذکر کیا ہے ؛ ابو سعید بن مالک خراجی متوفّٰی ۵۴ھ کی سوانح حیات استیعاب اور اسد الغابہ اور اصابہ نامی کتاب میں ذکر ہوئی ہے،بعد کے صفحات میں ان تین کتابوں سے متعلق''سہ گانہ کتابوں'' کے عنوان سے نام ذکر کر یں گے.

۲۸۴

۳۔ انس بن مالک سے( اختصار کے ساتھ ) روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُ س سے فرمایا:سب سے پہلا شخص جو اس در سے داخل ہو گا امام المتقین،سید المسلمین،یعسوب الدین اور خاتم الوصیین ہے...اور اسی وقت علی اُس در سے داخل ہوئے۔( ۱ )

۴۔بریدہ صحابی نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا ہے کہ : ہر پیغمبر کا ایک وصی اور وارث رہا ہے اورعلی میرے وصی اور وارث ہیں.... ..( ۲ )

۵۔ صحیح بخا ری،مسلم اور دیگر منابع و مصادر میں مذکور ہے( ۳ ) (اور ہم بخا ری کی بات کو نقل کرتے ہیں):

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی سے فرما یا:

(یَا عَلی اَنتَ مِنّیِ بِمنزِلة هَارُونَ مِنْ مُوسَیٰ اِلَّا اَنَّه لَا ناَبِیَّ بَعدِی )

اے علی تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے،اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں آئے گا۔

۶۔ سنن ترمذی اور مسنداحمد بن حنبل میں مذکور ہے:(اور ہم ترمذی کی بات کو نقل کرتے ہیں)۔( ۴ )

(اِنِّی تَارِِک فِیْکُم مٰا اِنْ تَمَسَّکتُم بهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعدِی ،أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الاّٰخَرِ: کِتاَبَ

____________________

(۱)حضرت امیر امو منین کی سوانح حیات ابن عساکر اور حلےة ا لاولیاء کی پہلی جلد کے صفحہ ۶۳ پر اور زبیدی کی تالیف موسوعۂ اطرف الحدیث عن امجاد سادة المتقین میں ذکر ہوئی ہے، انس بن مالک اور ابو ثمامہ خزرجی کے سال وفات کے بارے میں اختلاف ہے ۹۰ سے ۹۳ ہجری تک ذکر کیا گیا ہے.(۲)ریاض النضرہ میں امام کی سوانح حیات ج۲ ،ص۲۳۴اور تاریخ ابن عساکر۔بریدہ،ابو عبد اللہ بن حدید بن عبد اللہ الاسلمی جنگ احد کے بعد مد ینہ آئے اور دوسری جنگوں میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم رکاب ہوکر شرکت کی. ان کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے کے لئے سہ گانہ کتابوں کی طرف رجو ع کریں. (۳) صحیح بخاری، ج،۲ ص۲۰۰ باب مناقب علی بن ابی طالب؛ صحیح مسلم،ج۷،ص ۱۲۰ باب فضائل علی بن ابی طالب؛ترمذی، ج ۱۳، ص ۱۷۱،باب منا قب علی ؛ طیالسی،ج۱،ص ۲۸ ۔۲۹، حدیث ۲۰۵، ۲۰۹، ۲۱۳؛ ابن ماجہ؛باب فضائل علی بن ابی طالب ، حدیث ۱۱۵؛ مسند احمد،ج۱، ص ۱۷۰ ،۱۷۳ تا ۱۷۵، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۵ اور ۳۳۰ اور ج ۳،ص ۳۲ اور ۳۳۸ اور ج۶،ص ۳۶۹ اور ۴۳۸؛ اور مستدرک حاکم ،ج۲،ص ۳۳۷؛ طبقات ابن سعد،ج ۳،ص ۱ ،۱۴ اور ۱۵؛ مجمع الزوائد، ج۹ ،ص ۱۰۹ تا ص ۱۱۱ اور بہت سے دیگر منابع و مآخذ.

(۴)سنن ترمذی ،۱۳، ص ۲۰۱؛ اسد الغا بہ، ج۲ ص ۱۲. حضرت امام حسن کی سونح حیات کے ذیل میں. الدرّ المنثور سورۂ شوریٰ کی آیہ مودت کی تفسیر کے ضمن میں ؛مستدرک الصحیحین اور ان کی تلخیص ج۳، ص ۱۰۹. خصائص نسائی ص۳۰ ؛مسنداحمد،۳،ص ۱۷ صدر روایت میں ''انی اوشکُ ان ادعی فاجیب'' ذکر ہے کہ جس کی صفحہ ۱۴، ۲۶، ۵۹ پر بسط و تفصیل کے ساتھ شرح کی گئی ہے طبقات ابن سعد ج۲، ق۲، ص۲؛ کنز العمال،ج۱ ص ۴۷ اور ۴۸ اور اس کے صفحہ ۹۷ پر اختصار کے ساتھ مذکور ہے۔

۲۸۵

اللّٰهِ حَبل مَمدُوْد مِنَ السَّمٰائِ اِلیٰ الَٔارضِ،وَ عِترتِی أَهلَ بَیْتیِ،وَلَنْ یَتَفَرَّقاَ حَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوضَ،فَانْظُرُوْا کَیْفَ تَخْلَفُو نَنِی فِیهِمَا )میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان سے متمسک رہے،تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور ان میں سے ایک دوسرے سے عظیم اور گرانقدر ہے ایک خدا کی کتاب جو آسمان سے زمین کی طرف کھینچی ہوئی رسی ہے اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہلبیت.یہ دو ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں.غور کرو کہ ان دو کے بارے میں میری وصیت کا کیسے پاس و لحاظ رکھو گے۔

اور یہ بھی ارشاد فرما یا:

(لَا یَزالُ هَٰذَا اَلدِّیْنُ قَائِماً حَتّیٰ تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ یَکُونَ عَلَیْکُمْ اِثْنَاعَشَرَ )

یہ دین قیامت کے دن تک،یا اُس وقت تک جب تک کہ تم پر بارہ آدمی امامت کریں گے ہمیشہ برقرار رہے گا۔

ایک دوسری روایت میں مذکور ہے:

(لاٰ یَزٰالُ اَمَرُ الَنََّاسِ مَاضِیاً اِلیٰ اِثْنٰی عَشَرَ )

لوگوں کا کام ہمیشہ بارہ آدمیوں پر ثابت واستوار رہے گا ۔

اس کے بعد دوسری روایت میں فرما یا:

ثُمّ یَکُون المَرج وَالهَرج

(ائمہ معصومین علیھم السلام اور حضرت صاحب الزمان( عج )کا دور گزرنے کے بعد ) پھر دنیا تباہی و بربادی اورہرج ومرج کا شکار ہو جائے گی اور آخری زمانے کا فتنہ ظاہر ہو گا۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے:

فَاذَا هَلکُوا مَاجت الَٔا رضُ بَأهِلهَا

اور جب تمام ائمہ آکر کے گزر جائیں گے تو زمین اور اس کے باشند ے اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جائیں گے۔

ایک دوسری روایت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا ہے کہ ان کی تعداد بنی اسرائیل کے نقباء کے برابر بارہ افراد پر مشتمل ہے ۔یہ روایات اہلبیت پیغمبر کے بارہ ائمہ کے علاوہ کسی اورپر صادق نہیں آتی ہیں ؛ ایسے امام جن کے آخری فرد کی عمر خدا نے طولا نی کر دی ہے اور اُن کے بعد دنیا نابود ہوجائے گی۔

چونکہ مکتب خلفاء کے علماء ائمہ اہلبیت علیھم السلام کے معتقد نہیں ہیں لہٰذا ان روایات کی تفسیر میں حیران و سرگرداں ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اس کے معنی اور تاویل کرنے سے عاجز و بے بس ہیں۔

۲۸۶

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدان کے بارہ اوصیائ

ہم یہاں پر ان بارہ افراد کے اسماء بیان کررہے ہیں جن کے ناموں کی تصریح پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری روایات میں فرمائی ہے۔

پہلے وصی حضرت علی بن ابی طالب امیر المو منین ، وصی رسول ربّ رلعالمین۔

دوسرے وصی حضرت حسن بن علی سبط اکبر.

تیسرے وصی حضرت حسین بن علی سبط اصغر ، شہید کربلا.

چوتھے وصی حضرت علی بن الحسین سجاد ، زین العابدین

پانچویں وصی حضرت محمد بن علی باقر.

چھٹے وصی حضرت جعفر بن محمدں صادق.

ساتویں وصی حضرت موسی بن جعفر کاظم.

آٹھویں وصی حضرت علی بن موسیٰ رضا.

نویں وصی حضرت محمد بن علی جواد ، تقی.

دسویں وصی حضرت علی بن محمد ہادی، نقی.

گیارھویں وصی حضرتحسن بن علی عسکری.

بارھویں وصی حضرت محمد بن الحسن مھدی،حجت اور منتظر.

اس طرح سے حضرت آدم سے خا تم ا لانبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک وصی کی تعیین کا سلسلہ چلا ہے۔

۲۸۷

دوسرے:

یہ کہ ہم نے اس کتاب میں دیکھا کہ اللہ کی حجتوں کے درمیان ''انوش'' نے زمین پر کھجور کا درخت لگا یا ، زراعت کی اور زمین میں بیج بویا اور زمین کی آباد کاری میں مشغول ہوئے اور اپنے فرزند قینان کو نما ز قائم کرنے،زکاة ادا کر نے،خانہ خدا کا حج کر نے اور قابیلیوں سے جہاد کر نے کا حکم دیا اور خود بھی باپ کے حکم کی تعمیل کی اور اس کو کمال کے تمام مراحل تک کامیابی سے ہمکنارکیا ۔

اور''یرد'' کو دیکھتے ہیں کہ استخراج معادن اور شہر کی تعمیر میں مشغول ہوئے ہیں،مسجدیں بنانے مضر درندوں کے قتل کر نے اور گائے بھیڑ کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔

ادریس وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے سوئی سے خیاطی(سلائی) کی ہے اور وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے قابیل کی اولاد کو قید کیا اور انھیں اپناغلام بنا یا ، وہ علم نجوم میں ماہر تھے.اور بارہ برجوں اور آسمانی سےّاروں میں سے ہر ایک کا مخصوص نام رکھا ہے۔

متوشلح بھی شہروں کی تعمیر کی جانب متوجہ ہوئے ہیں وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اونٹ کی سواری کی ہے۔

یہیں سے ہم درک کرتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی طرف سے اسلام کی تبلیغ پر مامور تھے وہ اپنے زمانے میں بشری تمدن کے بھی راہنما تھے ، لوگوں کی ہدایت کے بارے میں عیسائیوں کے دعوے کے برخلاف صرف ان کی عبادت کی کیفیت اور طریقوں پر اکتفا نہیں کیا ہے ۔

تیسرے :

عصر فترت میں پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کو دیکھتے ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند اسمٰعیل کی دعا کے مصداق تھے جیسا کہ ان دونوں حضرات نے سورۂ بقرہ کی ۱۲۸آیت کی نقل کے مطابق بارگاہِ خدا وندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا یا :

( رَبََّنَا وَاجْعَلْنَامُسْلِمَینِ لَکَ وَ مِن ذُرِّیَّتِنَا اُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ... )

خدا یا! ہمیں اپنا مسلم مطلق قرار دے اور ہمارے فرزندوں کو بھی ایسی امت قرار دے جو تیرے سامنے خاضع اور سراپا تسلیم ہوں۔

۲۸۸

انھیں میں سے ''خزیمہ بن مدرکہ'' بھی تھے کہ فرما تے تھے:

مکّہ سے احمد نامی پیغمبر کے خروج کا زمانہ قریب ہے اس کی خصو صیت یہ ہو گی کہ لوگوں کو خدا کی عبادت اور پرستش کی دعوت دے گا لہٰذا اس کی پیروی کرنا اور اس کی تکذیب نہ کر نا کہ وہ جو کچھ پیش کریگا وہ حق ہے۔

''کعب بن لؤی'' بھی کہتے تھے آسمان وزمین بیکار خلق نہیں کئے گئے ہیں اور دار آخرت تمہارے سامنے ہے، وہ لوگوں کو مکارم اخلا ق کی دعوت دیتے تھے اور کہتے تھے؛ اللہ کے پر امن حرم سے خاتم الانبیائ، اس امر کے لئے جس کی موسیٰ اور عیسیٰ نے خبر دی ہے مبعوث ہوں گے۔

اور اس طرح فرما تے تھے''اچانک خدا کے پیغمبر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہنچ جائیں گے جب کہ تم غافل ہوگے ...'' پھر کہتے تھے : اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا اور پیغمبر کی دعوت و بعثت کو درک کرتا۔

اور جب''عمر وبن لحیّ'' ''ہبل'' نامی بُت کو مکّہ لایا اور بُت پر ستی عام ہو گئی تو،یہ ''قُصیّ'' تھے کہ بُت پرستی کو مردود سمجھتے ہوئے لوگوں کو خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے. انھوں نے حج کے شعائر کو جو کہ ابراہیم کے دین حنیف کے بنیادی جز میں شامل تھے قائم رکھا اور مکّہ والوں کی مدد سے حجاج کو کھانا کھلانے اور ان کی مہمان نوازی کے لئے قدم اٹھا یا۔

ان کے بعد یہی ذمّہ داری ان کے فرزند ''عبد مناف'' نے سنبھالی اور انہوں نے قریش کو تقوائے الٰہی اور صلہ رحم کی رعایت کا حکم صادر کیا۔

ان کے فرزند ''جناب ہاشم'' بھی حجاج کو کھانا کھلانے اور مہمان نوازی کے لئے اٹھے، انھیں نے مکّہ میں اپنے مدد گاروں سے کہا: تمھیں اس گھر کی حر مت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم لوگ اس امر کے لئے صرف اور صرف حلال مال مخصوص کرو اور خبردار وہ مال جوغصبی ہو، زور زبردستی سے چھینا گیا ہو اور قطع رحم کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہوا یسے مال کو اس محترم کام کے لئے ہرگز مخصوص نہ کرنا۔

۲۸۹

یہ جناب ہاشم ہی تھے کہ جنھوں نے جاڑے اور گرمی میں دو تجارتی سفر کی،شام اور ایران، یمن اور حبشہ کی جانب بنیاد ڈالی۔

ان کے فرزند'' جناب عبد المطلب'' نے بھی اپنے آباء و اجداد کی را ہ و روش اپنائی.ان کے بارے میں اس طرح کہا گیاہے:

وہ قلبی اعتبار سے توحید اور روز قیامت پر اعتقاد رکھتے تھے،خدا وند عالم نے زمزم نامی کنویں کی کھدائی ان کے ہاتھوں کرائی .اور جب ابرھہ اپنے لشکر کے ساتھ کعبہ کو منہدم کر نے کے لئے مکّہ آیا تو اُس سے جناب عبد المطلب نے کہا: اس گھر کا ایک مالک ہے جو تجھے روک دے گا پھر اُس وقت خدا سے رازو نیاز کرتے ہوئے اس طرح شعر پڑھا:

یا ربِّ فان المرئَ یمنع

رحله فامنع رحالک

''خدایا! ہر شخص اپنے گھر کا دفاع کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع کر''۔

ابرھہ اور اس کے سپا ھیوں کے مکّہ پر حملہ کر نے کے بعد قریش فرار کر گئے اور جناب عبد المطلب اور ان کا گھرانہ تنہا وہاں رہ گیا۔

اور جب خدا نے ابرھہ کے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تو اس طرح شعر پڑھا:

طارت قریش اذ رات خمیساً

فظلت فرداً لَا اری انیسا

''جب قریش کی نظر ابرھہ کے لشکر پر پڑی تو داہنے بائیں سے فرار کر گئے اور میں تن تنہا بے یارو مددگار باقی رہ گیا''

''ہم قدیم ا لایام ہی سے آل اللہ تھے اور حضرت ابراہیم کے دور سے اب تک ایسا ہی ہے۔

ہم نے قوم ثمود کو درمیان سے اکھاڑ پھینکا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو۔

ہم خدا کے عبادت گزار ہیں، صلۂ رحم اور عہد وپیمان کا پاس ولحاظ رکھنا ہماری سنت ہے۔

ہمیشہ خدا کی ہمارے درمیان ایک حجت (راہنما) رہی ہے کہ خدا وند عالم اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے'' ۔

شیبة الحمد (جناب عبد المطلب) ان اشعار میں فر ماتے ہیں:

۲۹۰

جب قریش نے ابرھہ کے لشکر کو دیکھا تو پرندوں کی طرح ہر جانب سے فرار کر گئے اور میں تن تنہا بے مونس و یاور حرم میں باقی رہ گیا. عبدا لمطلب کی یہ بات اس ایمان اور اطمینان کی عکاسی کر رہی ہے جو ایمان وہ خدا پر رکھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ خدا ابرھہ کو حرم میں داخل نہیں ہونے دے گا اور اسے تباہ و برباد کردے گا. وہ اور ان کا گھر انہ حضرت ابراہیم کے زمانے سے آل اللہ ہیں اور اس بات کا مخلوق میں خدا کی حجت کے سوا کوئی مصداق نہیں ہوسکتا. کیو نکہ خدا کی یہی حجتیں تھیں کہ ثمود اور عاد قبیلہ کو ارم اور اس کے ستونوں کے ساتھ ویران کر دیا اور چونکہ ہود اور صالح جناب عبد المطلب کے اجداد کے سلسلے میں نہیں ہیں اور ان دو پیغمبروں کی قومیں قریش سے نہیں تھیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کی یہ بات کہ '' ہم نے قوم ثمود اور عاد کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکا '' اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کی حجتوں نے کہ اُن میں سے ایک جناب عبد المطلب بھی تھے ثمود اور عاد کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکا، پھر خدا نے اس وقت ان کی دعا سے ابرھہ کو نابود کر دیا. اور اُن کا یہ کہنا کہ ''ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی حجتیں رہی ہیں کہ خدا ان کے ذریعہ ہم سے بلاؤں کو دور کرتا ہے'' یہ اس بات کی تاکید ہے کہ اپنے زمانہ میں وہ خود ہی خدا کی ایک حجت تھے،جیسا کہ حضرت ہوداور حضرت صالح اور حضرت ابراہیم اپنے زمانے میں خدا کی حجت تھے۔

جب پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے،تو جناب عبد المطلب نے اپنے شعر میں کہا کہ ان کے پوتے کا نام آسمانی کتابوں میں''احمد'' ہے جیسا کہ خدا نے عیسیٰ بن مریم کی زبان سے فرما یا:

( وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَاتِی مِنْ بَعدِی اِسْمُهُ اَحْمَدُ )

میں اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی تمھیں بشارت دے رہا ہوں جس کا نام احمد ہو گا۔

اور جب پیغمبر کی دایہ حلیمہ سعدیہ نے جناب عبد المطلب کوان کے مکّہ کے پہاڑوں میں گم ہو جانے کی خبر دی، توجناب عبد المطلب نے اپنے ربّ سے خطاب کر کے کہا:

''خدایا! محمد کو کہ تو نے خود ہی اس کا نام محمد رکھا ہے ہمیں لو ٹا دے''۔

۲۹۱

یہ تمام باتیں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ عبدا لمطلب ان لو گو میں سے تھے جو اپنے سے قبل کی آسمانی کتابوںکے بارے میں آگاہی رکھتے تھے ؛ اور یہ مکّہ جیسے جہالت سرشت شہر اور قریش کی طرح جاہل لوگوں میں ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ اس بات کو قبول کر یں کہ وہ کتابیں اُن کے اختیار میں تھیں اور جناب عبد المطلب سلسلۂ اوصیاء ابراہیم اور اسمٰعیل کی ایک کڑی ہیں۔

اوریہ بھی کہ جناب عبد المطلب صلۂ رحم کی رعایت ، محتاجوں کو کھانا کھلانے ، ظلم وستم نہ کرنے اور سر کشی و طغیانی نہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور کہتے تھے:

کوئی ستمگر دنیا سے نہیں جا تا مگر یہ کہ وہ اپنے ظلم وستم کی سزا بھگت لے اور کہتے تھے: خدا کی قسم اس دنیا کے بعد پاداش اعمال کی ایک جگہ ہے. جہاں اچھے یا بُرے کاموں کی جزا یا سزا ملے گی۔

جناب عبد المطلب نے نذر پوری کرنے، چور کاہاتھ کاٹنے،محارم سے شادی کر نے کی ممانعت اور لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے روکنے کی سنت قائم کی ۔

اور شراب پینے،زنا کر نے اور برہنہ خانہ خدا کے ارد گر د طواف کر نے سے روکا ہے۔( ۱ )

یہ سب کچھ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں مذکورہے ۔

خدا وند عالم نے مکّہ والوں کے لئے جناب عبد المطلب کی طلب باراں سے متعلق دعا مستجاب کی ہے. وہ ہر سال ماہ رمضان میں غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے؛ جناب عبدالمطلب نے تمام قریش (بالخصوص جناب ابو طالب) کو پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رعایت کی تاکید فرمائی ۔

____________________

(۱) دور جاہلیت میں بعض افراد، اپنے لباس میں اس بہا نے سے طواف نہیں کرتے تھے کہ انھوں نے اس لباس میں گناہ کیا ہے لہٰذا طواف کے موقع پر یا مکّہ والوں سے عارےةً لباس مانگتے تھے یا عریاں کعبہ کا طواف کر تے تھے.

۲۹۲

آیات کی تفسیر میں عبرت کے مقامات

خداوندعالم نے بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام عالم پر ان کو فو قیت و بر تری عطا کی اُس وقت جب فرعون اور فرعون کے ماننے والوں نے ان کے لڑکوں کے سر کاٹ کر اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ کر بدترین عذاب سے انھیں دو چار کیا تو اس نے انھیں نجات دی اور سارے عالم پر انھیں بر تری عطا کی اور دنیا میں عظیم فوقیت اور رفعت کا مالک بنا یا۔

اسی طرح اُن کے لئے دریا کو شگافتہ کیا اور اس کے درمیان خشکی کا راستہ پیدا کیا تا کہ وہ عبور کر سکیں اور اس نے انھیں عبور کرایا. فر عون اور اس کے سپا ہیوں نے ان کا پیچھا کیا اور اسی خشکی کے راستہ پر قدم رکھا جس سے بنی اسرائیل آگے گئے تھے اور بنی اسرائیل کی آخری فرد کے باہر آتے ہی دریا آپس میں مل گیا اور خدا نے فرعون اور اُس کے سپا ہیوں کو بنی اسرائیل کی نگاہوں کے سامنے غرق کر دیا. پھر فرعون کی لاش کو پانی کی سطح پر لے آیاکہ آج تک مصر کے میوزیم میں سالم موجود ہے اور دنیا والوں کے لئے عبرت کا سامان ہے۔

بنی اسرائیل اُسی طرح آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک قوم کو دیکھا کہ وہ بتوں کی پو جا کررہی ہے،تو پھر انھوں نے موسیٰ سے کہا:''ہمارے لئے بھی ان کی طرح کو ئی خدا قرار دو''موسیٰ نے اُن سے کہا:ان کی روش لغو اور باطل ہے۔

آیا اس خدا کے علاوہ کہ جس کانام جلیل ہے اور اُس نے تم کو سارے عالم پر برتری و فو قیت عطا کی ہے کوئی دوسرا خدا تلاش کروں؟!

اس کے بعد خدا نے بنی اسرائیل سے فرمایا:( اسکنوا الارض )

اس سر زمین کو اپنے تصرف میں قرار دو یہ اس حال میں خطاب تھا جب کہ ان کی ایک عمر فرعون کی غلامی میں گذرچکی تھی حتیٰ کہ اپنے مالک و مختار بھی نہیں تھے چہ جائیکہ وہ کسی زمین کے تمام خصوصیات و امتیازات کے ساتھ مالک ہوں۔

اور خدا وند عالم نے بادل کو ان کے سر پر سایہ فگن قرار دیا اور آسمانی غذائیں(من وسلویٰ) انھیں کھلائیں کہ سلویٰ سب سے عمدہ گو شت کو شامل ہے اور منّ اصلی اور خالص شکر کو شامل ہے.ایسی حالت میں انھوں نے موسیٰ سے کہا! اے موسیٰ ! ہم ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کر سکتے.اپنے ربّ سے کہو کہ ہمیں زمین کی پیدا شدہ چیزیں، دانے، لہسن، پیاز، مسور کی دال وغیرہ سے نوازے کہ موسیٰ نے ان سے کہا: کسی ایک شہر میں داخل ہو جاؤ وہاں تمہاری آرزوئیں پوری ہو جائیں گی۔

۲۹۳

اسی طرح خداوند عالم نے انھیں سارے عالم پر برتری دی ،جب موسیٰ نے انھیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کیا اور خدا کے حکم سے اپنا عصا پتھر پر مارا تو پانی کے بارہ چشمے اُس سے پھوٹ پڑے اور ہر قبیلہ نے اپنی اپنی پینے کی جگہ مخصوص و معین کر لی اور ہر ایک نے اپنی اپنی پیاس بجھائی۔

خداوند جل جلالہ نے موسیٰ سے ۳۰شب کا وعدہ کیا کہ طور سینا پر جائیں تاکہ توریت جو کہ بنی اسرائیل کے لئے قوانین اور شریعت پر مشتمل ہے ،انھیں عطا کرے.خدا نے اس وعدہ کو دس دن مزید بڑھا دیا اور اس کو چالیس دن میں کامل کر دیا لیکن اس مدت میں سامر ی نے (۱ )حضرت موسیٰ کے طور سینا پر مناجات کے لئے جانے کے بعد قوم بنی اسرائیل کو گمراہ کر دیا.اُس نے ان کے سونے کے زیورات سے ایک گو سالہ بنایا اور جو خاک وہ اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا وہ حضرت جبرئیل کے قدموں کی خاک تھی اسے گو سالہ کے منھ میں ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں ہوا پھونکنے سے گوسالہ کی آواز نکلتی تھی. سامری نے اُن سے کہا؛ یہ تمہارا اور موسیٰ ـکاخدا ہے!! تو ہارون نے ان سے کہا! تم لوگ اس کے ذریعہ امتحان اور آزمائش

____________________

(۱) سامری شمرونی کا معرّب ہے جس طرح کلمہ عیسیٰ کہ یشوع جو کہ عبری زبان کا لفظ ہے، اس سے معرّب ہوا ہے. شمرونی شمرون کی طرف منسوب ہے( جو کہ اسباط بنی اسرائیل میں سے یساکا ر کا چوتھا بیٹا ہے). اس کے لئے قاموس کتاب مقدس میں لفظ شمرون ملاحظہ ہو.

۲۹۴

میں مبتلا ہوگئے ہو.تمہا را ربّ خدا وند رحمن ہے. انھوں نے جواب دیا : جب تک کہ موسیٰ ہمارے پاس نہیں آجاتے ہم اس گوسالہ کی پو جا نہیں چھوڑیں گے۔

خدا وندعالم نے بنی اسرا ئیل کی اس کارستانی کی موسیٰ کوخبر دی،پھر موسیٰ انتہائی افسوس اور غم و غصّہ کے ساتھ ان کے پاس واپس آئے اور اپنے بھائی ہارون کو زجروتو بیخ کی، ہارون نے کہا: اے بھائی! اپنا ہاتھ میرے سراور داڑھی سے ہٹالو. اس قوم نے مجھے چھوڑ دیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کرڈالیں۔

پھر جب بنی اسرائیل اپنی خطا پر نادم و پشمان ہوئے تو خداوند سبحان نے ان کی توبہ قبول کی اس شرط کے ساتھ کہ جو لوگ گوسالہ پرستی میں مشغول ہوگئے تھے وہ خود کو خداپرستوں کے حوالے کر دیں تا کہ انھیں قتل کیا جائے جب ان لوگوں نے اس فرمان کو قبول کیا اور امر خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے، تو خدا وند منّان نے انھیں معاف کر دیا.لیکن تعجب ہے کہ اُس کے بعدبھی موسیٰ سے خواہش کی کہ انھیں بھی اپنے ہمراہ ربُّ العزت کی وعدہ گاہ تک لے جائیں اور وہ خود ان کو خدا سے کلام کرتے ہوئے دیکھیں۔

اس وجہ سے موسیٰ نے اُن میں سے ستر افراد کو چُنا.جب وہ لوگ میقات (وعدہ گاہ) پر پہونچے تو کہنے لگے کہ : ہم خدا کو آشکار طور پر دیکھنا چاہتے ہیں! لہٰذا (جیسا وہ خیال کر تے تھے) اسی اثناء میں ایک بجلی نے انھیں اپنے لپیٹ میں لے لیا(اور اسی جگہ مرگئے) کہ خدا وند عالم نے دوبارہ انھیںموسیٰ کی درخواست پر حیات دی.پھر اس طرح سے یہ لو گ توریت پر(جسے خدا وند سبحان نے چراغ ہدایت قرار دیا تھا تاکہ ان کے انبیاء اس کے مطابق حکم کریں) ایمان لائے ۔

موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ یاد دلانے کے بعد کہ خدا وند عالم نے ان پر کیا کیا نعمتیں نازل کیں ہیں اوران کے ذریعہ سے انھیں عالمین پر فضیلت دی ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے میری قوم!مقدس سرزمین (سر زمین شام) کہ خدا وند عالم نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے داخل ہو جاؤ۔

انھوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ایک ستمگراور سرکش قوم رہتی ہے،ہم وہاں اُس وقت تک قدم نہیں رکھ سکتے جب تک کہ وہ وہاں سے باہر نکل نہ جائیں اور جیسے ہی وہ باہر جائیں گے ہم وہاں داخل ہو جائیں گے۔

۲۹۵

اُس وقت ان کی قوم کے دو دانشوروںنے اُن سے خطاب کر تے ہوئے کہا: دروازہ سے اُن کے سامنے وارد ہو ، کہ تمہارے داخل ہو جانے ہی سے تمہاری کامیابی ہو جائے گی اور اگر مومن ہو تو خدا پر توکل اور بھروسہ کرو۔

قوم نے کہا: اے موسیٰ ! جب تک کہ وہ وہاں ہیں ہم ہر گز وہاں داخل نہیں ہو گے. لہٰذا تم خود اور تمہارا خدا چلے جاؤ.اور اُن سے جنگ کرو ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں!!

اس کا جواب دیتے ہوئے خدا وند سبحان نے فر مایا:

( فَاِ نَّهَا مُحَرَّ مَة عَلَیْهِمْ اَرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیْهُونَ فِیْ الْاَرْضِ فَلَا تٔاسَ عَلٰی الْقَوِمِ الْفَاسِقِینَ )

چالیس سال تک ان کا اس سر زمین پر تصرف کر نا حرام ہے،وہ لوگ اتنی مدت تک سینا کے جنگلوں میں اسی طرح حیران و سرگرداں رہیں گے اور تم اے موسیٰ ! ستمگروں کے لئے اپنا دل نہ جلاؤ.اور ان کی خاطر رنجیدہ نہ ہو۔

یہ سب حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کی بعض داستان ہے. لیکن جو کچھ اس قوم سے موسیٰ کے بعد سرزد ہوا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ:

اُن میں سے بعض نے دریائے سرخ کے کنارے سکونت اختیار کر لی .اور مچھلی کا شکار کر نے لگے (قضاء الٰہی سے دریا کی مچھلیاں شنبہ کو بہت زیادہ ساحل کے کنارے آتی تھیں اور خدا نے انھیں شنبہ کو شکار کرنے سے ان کے سرکش نفس کی ریاضت و تزکیہ کے لئے منع کر دیا تھا). ان لوگوں نے اس ممانعت کی مخالفت کی اور سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے لگے ،نتیجہ کے طور پر خدا نے انھیں بندر کی شکل میں مسخ کر کے ہلاک کر ڈالا۔

خداوند منّان نے حضرت موسیٰ کے اوصیاء کے درمیان حضرت داؤد کو قرار دیا اور ان کو زبور عطاکی ، جب داؤد زبور کی تلا وت کر تے اور تسبیح خدا وندی کی آواز بلند کر تے تو اُن کی خو ش الحانی پہاڑوں میں اس طرح گونجتی کہ پر ندے تسبیح میں ان کے ہم آواز ہو جاتے.خدا وند عالم نے ان کے ہاتھ میں لوہا نرم بنا دیا تھا تا کہ اُس سے زرہ بنائیں پھران کے بعد حضرت سلیمان کو قرار دیا اور ہوا کو اُن کے اختیار میں دے دیا تا کہ اُن کے حکم کے مطابق وہ جہاں چاہیں حر کت کرے.اسی طرح جنّاتوں کو جو دریا میں غوّاصی پر مامور تھے تاکہ ان کے لئے اندر سے گوھرنکال لائیں اور عبادت خانے،مجسمے،محرابیں اور حوض کے برابر پیا لے اور بڑی بڑی ثابت دیگیں یعنی جو قابل نقل و انتقال نہ ہوتی تھیں حضرت سلیمان کے لئے بناتے تھے۔

۲۹۶

خدا وند منان نے انھیںحیوانوں کی زبان سکھائی اس طرح سے کہ چیونٹی کی گفتگو درک کرلی اور ھدھد نے تخت بلقیس کے بارے میں انھیں باخبر کیا اور ان کے ملازموں میںاُس شخص نے جسے کتاب کا تھوڑا سا علم تھا یمن سے چشم زدن میں تخت بلقیس شام میں حاضر کر دیا۔

ملا ئکہ ان کے خد مت گزار تھے اور جنوں میں جو حضرت سلیمان کے حکم کی نافرمانی کر تا تو اسے عذاب کے تازیانہ سے تنبیہ کر تے تھے ۔

جنّات حضرت سلیمان کے مرنے کے بعد اسی طرح اپنی فعّالیت اور ماموریت پر لگے ہوئے تھے یہاں تک کہ دیمک نے اُن کے عصا کو کھوکھلاکر دیا اور سلیمان زمین پر گر پڑے۔

یہ تمام موارد(مقامات) بنی اسرائیل اور ان کے پیغمبروں کے درمیان استثنائی صورت کے حامل تھے، منجملہ ان استثنائی حالا ت کے حضرت موسیٰ کے زمانے میں ایک واقعہ یہ تھا کہ ایک مقتول کے قاتل کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہو گیا تو خدا نے انھیں حکم دیا کہ ایک گائے کا سر کاٹیں اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑااس مقتول کے جسم پر ماریں، جب انھوں نے ایسا کیا تواس کے زیر اثر خدا نے اس مقتول کو زندہ کردیا اور حقیقت امر آشکار ہو گئی۔

منجملہ ان داستانوں کے ''عزیر'' اور ''ارمیا''کی بھی داستان ہے کہ ایک ایسے ویران گاؤں سے ان کا گذر ہوا جس کی دیواریں اور چھتیں گر چکی تھیں اوروہاں کے رہنے والے سب مر چکے تھے اور درندے ان کے جسموں کو کھا چکے تھے، توحیرت سے کہا:خداوند عالم ان مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ ! خدا نے انھیں ایک سو سال مردہ رکھا پھر دوبارہ زندہ کیا صبح کے وقت ان کی روح قبض کر لی اور شام کے وقت ان کی زندگی واپس کر دی( یعنی جسم میں جان ڈال دی) ایک فرشتہ نے اُن سے پو چھا کتنی دیر تک سوتے رہے؟

عزیرنے آسمان اور سورج کی طرف نظر کی تو وہ ڈوبنے ہی کے قریب تھا اور کہا:(میر ے خیال میں) ایک دن یا اس کا ایک حصّہ سویا رہا۔

فرشتہ نے کہا:بلکہ تمہارے سونے کی مدت ایک سو سال ہے! اپنی غذا(انجیر،انگور) اپنی پینے کی چیز (انگور کے رس) کی طرف نظر ڈالو اوردیکھو ،کہ اتنے سالوں کے بعد بھی ان میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اب اپنے گدھے کی طرف دیکھو کہ اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر تتر بتر اور نابود ہوگئیں ہیں!

۲۹۷

پھر اس وقت خداوند عالم نے پراگندہ جسموں کو ایک دوسرے سے متصل کیا اور ان پر گوشت چڑھا یا اور انھیں زندہ کر دیا تو عزیرکو معلوم ہو گیا کہ کس طرح خدا مردہ کو زندہ کر ے گا اور جب ا نھوں نے ایسا دیکھا تو کہا :مکمّل طور پر مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا ہر چیز پر قادر و تواناہے۔

حضرت موسیٰ کے بعد استثنائی داستانوں میں حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا جیسے پیغمبروں کی بھی داستان ہے۔

حضرت زکریا خدا کو پکار کر کہتے ہیں: خدا یا! میری ہڈیاں بو سیدہ ہوگئیں(کمزور ہوگئیں) ہیں اور میرے سر کے بال سفید ہوگئے ہیں اور میری بیوی بانجھ ہے، اپنے بعد اپنے وارثوں سے خائف اور ہرا ساں ہوں تو خود ہی مجھے ایک جانشین عطاکر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔

توخدا وند عالم نے انھیں یحییٰ کی خوشخبری دی ایسے نام کے ساتھ کہ اُس سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا تھا اور خدا نے ان کے بچپنے ہی میں انھیں کتاب اور قضاوت عطا کی ۔

سب سے زیادہ مشہور ان کی استثنائی داستان خدا کے پیغمبر حضرت عیسیٰ کی ان کی ماں مریم کے ذریعہ بن باپ کے ولادت کی خبر ہے.اور اپنی قوم سے گہوارہ میں ان کا کلام کر نا اور یہ کہناکہ خدا نے انھیں کتاب و حکمت عطا کی ہے. اور ان کا مٹی سے ایک پرندہ کا پیدا کر نا اور کوڑھی، کور مادر زاد کو شفا دینا ،مردوں کو زندہ کر نا اور حضرت عیسیٰ کی شکل وصورت میں ان کی مخبری کرنے والے بدخواہ کو تبدیل کر نا تا کہ عیسیٰ کی جگہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جا ئے.خدا نے حضرت عیسیٰ کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندی پر بلا لیا اور اب تک اسی طرح انھیں زندہ رکھا ہے تا کہ انھیں آخری زمانے میں زمین میں حضرت بقےة اللہ الاعظم مہدی صاحب الزمان کے پاس لوٹا دے۔

اسی طرح بنی اسرائیل کے انبیاء کے لئے بھی استثنائی حالات کا سراغ رکھتے ہیں کہ اُن سے پہلے کسی ایک پیغمبر میں بھی نہیں دیکھا ہے، جیسے وہ سب کچھ جو حضرت سلیمان کو دیا گیا، جنّاتوں کا ان کے لئے کام کرنا، یا بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ کا پیدا ہو نا اور خدا کی اجازت سے ان کا مٹی سے پرندہ خلق کر نا۔

۲۹۸

اور ہم کسی قوم کو بنی اسرائیل سے زیادہ سنگدل قوم نہیں جانتے.وہ نہایت بدطینت لو گ تھے جنھوں نے اپنے پیغمبر سے نہ گانہ معجزات اور آیات دیکھے اور اس کا مشاہدہ کیا کہ اُس نے انھیں دریا کے بارہ خشکی راستوں سے گذارا اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا. خدا وند منّا ن نے انھیں پو ری تاریخ انسانیت میں بے مثال معجزے کے ذریعہ نجا ت دی لیکن جیسے ہی اُن کی نظر بتوں پر پڑی تو اپنے پیغمبر سے کہتے ہیں: اے موسیٰ! ہمارے لئے ان کے بُتوں کے مانند بُت سے ایک خدا بناؤ!!

یا جب ان کے پیغمبر ان کے عمل کے لئے شریعت لا نے گئے تو گوسالہ پر ستی میں مشغول ہوگئے!!

یہ سب ان کے ناپسندیدہ اور بُرے صفات کے نمونے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایسا طرز تفکراور ایسی روش دکھائی دیتی ہے جو ان سے مخصوص تھی اور گزشتہ یا ان کے بعد کی امتوں میں نہیں پائی گئی ہیں۔

ان کے دشمن بھی ایسے ہی تھے؛ جیسے فرعون اور اس کے درباری اور وہ اقوام اور امتیں جو اُس زمانے میں سر زمین شام کی ساکن کہلاتی تھیں اور وہ اُن سے جنگ پر ما مور ہوئی تھیں۔

ان تمام استثنائی حالا ت اور مواقع کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ دیگر امتوں کی بہ نسبت استثنائی اور خصوصی احکام کی احتیاج رکھیں. انھیں موارد(مقامات) میں کعبہ سے بیت المقدس کی طرف قبلہ کا تبدیل ہو ناہے اور ان تمام چیزوں کی تحریم جنھیں اسرائیل( یعقوب پیغمبر ) نے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں اور چونکہ بعض خصوصی حالات ان امتوں کے نابود ہو جانے کی وجہ سے کہ جن سے ان کی سرزمین میں انھوں نے جنگ کی تھی.حضرت عیسیٰ بن مریم کے زمانے میں ختم ہوچکے تھے. لہٰذا،خداوند عالم نے اُن کے کچھ محرمات جواُن پر حرام کر دیئے تھے حلال کر دیئے۔

اور چو نکہ حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ان تمام استثنائی مواقع اور خاص حالات کا خاتمہ ہو چکا تھا،لہٰذا استثنائی احکام اور ان سے مخصوص قوانین بھی درمیان سے اٹھا لئے گئے ؛ چنانچہ خدا وند متعال سورۂ اعراف کی ۱۵۷ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( اَلَّذِٔٔیْنَ یَتّاَبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ الناَبِیَّ ا لأُ مِّیََّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَه مَکتُوْباً عِندَهُمْ فِیْ التَّورَاةِ وَ اْلاِنْجِیْلِ یَأ مُرُهُمْ بِِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَا هُم عَنِ المُنْکرِ وَیُحِلُّ لَهُمْ الطَّیِّباتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیهِمُ الخَبائثَ وَ یضعُ عَنهُم اِصْرَهُمْ وَ الأَغَلْالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیهِمْ... )

۲۹۹

جو لوگ اس امی نبی رسول کی جس کا نام و نشان اپنے پاس موجود توریت اور انجیل میں تحریر پاتے ہیں پیروی کریں ایسا پیغمبر جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور بُرائی سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال کر تا ہے اور نجاستوں کو اُن پر حرام کر تا ہے، قید وبند کی تکلیف گراں سے انھیں آزاد کر دیتا ہے۔

اسی وجہ سے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی شریعت منسوخ ہو گئی اور حکم ہوا کہ ابراہیم کے دین حنیف کی پیروی کر یں کہ اب اس کے مبلغ اور بیان کر نے والے حضرت خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کے قوانین اور شریعتیں حضرت آدم سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ایک دین واحد اور انسان کی فطرت کے مطابق ہیں اور چو نکہ اللہ کی تخلیق میں کو ئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے لہٰذا خدا کی شریعت اور اس کے قوانین بھی تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔

اللہ کی شریعت ہر زمانے کے پیغمبر کے ہم عصر لو گوں کی ضرورت کے مطابق اس پیغمبر پر نازل ہوئی ہے اسی لحاظ سے اُس شریعت میں سے ایک خاندان کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم پر نازل ہوئی ۔

حضرت ادریس کے زمانے میں ایک شہر کے رہنے والوں کی نیاز کے بقدر اور نوح کے زمانے میں چند شہروں اور علاقوںکی نیاز وضرورت کے بقدر اس شریعت کا دائرہ وسیع ہو گیا. حضرت نوح کے زمانے کی شریعت کی اتنی مقدار ہمارے زمانے کو بھی شامل ہے۔

چنانچہ خدا وند عالم فرما تا ہے:

( شَرعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحاً )

'' تمہارے لئے دین میں وہ راستہ قرار دیا ہے جس کی نوح کو وصیت کی تھی '' ابراہیم کا دین حنیف نوح کی شریعت سے اختلاف نہیں رکھتا جیسا کہ خدا وند سبحان فرما تا ہے:

( وَانَّ مِنْ شِیعَتهِ لِابِرَاهیمَ )

اس معنی میں کہ ابراہیم حضرت نوح کے اتباع کر نے والوںمیں تھے۔

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352