اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 352
مشاہدے: 111831
ڈاؤنلوڈ: 2312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111831 / ڈاؤنلوڈ: 2312
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد 3

مؤلف:
اردو

متوشلح کی اپنے بیٹے لمک سے وصیت

اخبار الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:

جب متوشلح کی موت کا زمانہ قر یب آیا ، تو انھوں نے اپنے بیٹے لمک سے وصیت کی ،لمک جامع(جمع کر نے والے) کے معنی میں ہے اور وہ نوح پیغمبر کے والد ہیں۔

متوشلح نے ان سے وصیت کی ا ور صحیفے اور مہر لگی کتابیں کہ جو ادریس پیغمبر کی تھیں ان کے حوالے کیں اور وصیت ان تک منتقل ہو گئی۔

لمک کی اپنے بیٹے نوح سے وصیت

اور جب لمک کی موت کا وقت قریب آیا تو نوح ، سام ، حام اور یافث اور ان کی عورتوں کو بلایا ، شیث کی اولاد میں صرف ان آٹھ افراد کے علا وہ کوئی باقی نہیں رہا تھا کیو نکہ باقی پہاڑ سے نیچے آکر قابیل کی اولاد سے مخلوط ہوگئے تھے اور ان سے راہ و رسم برقرار کر لی تھی ۔

لمک نے ان آٹھ افراد پر درود بھیجا اور ان کے لئے برکت کی دعا کی اور کہا:

اس خدا سے دعا کر تا ہوں جس نے آدم کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا کہ ہمارے باپ آدم کی برکت تم پر نازل کر ے اور حکو مت وسلطنت تمہارے فرزندوں میں قرار دے میں مر جا ؤں گا اور اے نوح ! تمہارے سوا ان میں سے کوئی دوسرا جو عذاب خدا وندی کا مستحق ہے نجات نہیں پا ئے گا. اور جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر غار گنج (جہاں حضرت آدم کا جسد رکھا ہوا ہے) میں رکھ دینا اور جب خدا کا ارادہ ہو کہ کشتی میں سوار ہو تو مجھے اور جسد آدم کو اٹھا کر پہاڑ کے نیچے لے آؤ اور ہمیں اپنے ساتھ ساتھ رکھو اُس وقت تک کہ جب تک کشتی سے باہر نہ آجاؤ۔

اور جب طوفان تھم جائے اور کشتی سے باہر آجاؤ اور زمین پر قدم رکھو تو حضرت آدم کے جسد کے پاس نماز پڑھو اور اپنے بڑے بیٹے سام کو تا کید کرو کہ آدم کے جسد کو اٹھا کر اپنے کسی فرزند کے ساتھ اُسے زمین کے وسط میں سپرد خاک کر دے اور خدا وند عالم فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اُس کے ہمراہ بھیجے گا تا کہ اُس کا ہمدم ہو اور وسط زمین کی راہنمائی کر ے۔

۲۸۱

خدا وند عالم نے نوح پر ،ان کے جد ادریس پیغمبر کے زمانے میں اور ادریس کو آسمان پر اٹھا ئے جانے سے پہلے وحی نازل کی اور انھیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو طغیا نی و سر کشی کے انجام سے ڈرائیں اور انھیں ان گناہوں کے ارتکاب سے منع کریں جن کے وہ مر تکب ہوتے تھے اور انھیں عذاب سے ڈرائیں. نوح نے خدا کے حکم کی تعمیل کی اور عبادت خدا اور قوم کو خدا کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہوگئے۔

نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت

جب حضر ت نوح کشتی سے باہر آئے توتین سو ساٹھ سال تک زندہ رہے اور جب موت کا وقت قر یب آیا تو ان کے بیٹے سام ،حام ، یافث اور ان کی اولا د ان کے ارد گرد جمع ہو گئی۔

نوح نے ان سے وصیت کی اور خدا وند سبحان کی عبادت کا حکم دیا اور سام کوحکم دیا کہ جب وہ انتقال کر جائیں تو کشتی کے اندر جائے اور کسی کو اطلاع د یئے بغیر حضرت آدم کے جسد کو زمین کے وسط میں اور مقدس جگہ پر سپرد لحدکر دے. پھر کہا. اے سام! جب تم ملکیزدق کے ہمراہ اس کام کوا نجام دینے کے لئے روانہ ہو جاؤ گے تو خدا وند سبحان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کو تمہارے ساتھ کرے گا تا کہ تمہارا راہنما ہو اور وسط زمین کے بارے میں تمھیں اطلاع دے. اس ماموریت میں کسی کو اپنے کام سے باخبر نہ کر نا یہ حضرت آدم کی وصیت کا جز ہے جو انھوں نے اپنے فرزندوں سے کی تھی اور ہر ایک نے دوسرے کو اس کے انجام دینے کی وصیت کی یہاں تک کہ یہ وصیت تم تک پہونچی ؛ پھر جب اس جگہ پہنچ جاؤ جہاں فرشتہ نے راہنمائی کی ہے،تو جسد آدم کو اسی جگہ خاک میں دفن کر دو،پھر اس گھڑی حکم دو کہ ملکیزدق وہاں سے جدا نہ ہو اور خدا کی عبادت کے سوا کوئی کام نہ کرے۔

خدا وند سبحان نے ریاست اور وہ تمام کتابیں جو پیغمبروں پر نازل ہوئی تھیں سام کے حوالے کیں اور اسے دیگر فرزندوں اور بھائیوں سے الگ نوح کی جانشینی سے مخصوص کر دیا۔

۲۸۲

سام کی اپنے بیٹے ارفخشد سے وصیت

سام باپ کی وفات کے بعد خدا کی عبادت اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں مشغول ہوگئے۔ انھوں نے کشتی کا دروازہ کھو لا اور حضرت آدم کے جسد کو اپنے بیٹے ملکیزدق کے ہمراہ لے کر خفیہ طور پر بھائیوں اور خاندان کو اطلاع دئیے بغیر جسد کو نیچے لائے .فرشتہ نے ان کی راہنمائی کی ذمّہ داری لی اور اس جگہ تک جہاں حکم تھا کہ حضرت آدم کے جسد کو وہاں دفن کریں ان کے ساتھ ساتھ رہا؛اور جسد آدم کو وہیں پر سپرد لحد کر دیا۔

اور جب سام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بیٹے ارفخشد کو وصیت فرمائی، جو کہ اپنے والد کے بعد زمین میں ان کے جانشین تھے۔

ارفخشد کی اپنے بیٹے شالح سے وصیت

جب ارفخشد کی موت کا وقت قریب آیا ،بیٹے اور خاندان والے ان کے پا س جمع ہوگئے،انھوں نے خدا وندعالم کی عبادت اور گناہوں سے دوری اختیار کر نے کی تاکید کی ۔

پھر اس وقت اپنے بیٹے شالح سے کہا : میری وصیت قبول کرو اور میرے بعد خا ندان کے درمیان میرے جانشین رہو اور خدا وند رحمان کی اطاعت و عبادت کے لئے قیام کرو ، یہ کہہ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔

شالح کی اپنے بیٹے عابر سے وصیت

شالح کی موت کا وقت جب نزدیک آیا،تو اپنے بیٹے عابر سے وصیت کی اور انھیں حکم دیا کہ قابیل ملعون کی اولاد سے کنارہ کشی اختیار کر یں.یہ کہہ کہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

گزشتہ فصلوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے کس طرح اپنے دو بیٹے اسمٰعیل و اسحق کو حنفیہ شریعت کی حفاظت کے لئے وصیت فر ما ئی ہے۔ کتاب کی اس جلد میںجو کچھ ہم نے یہاں تک ذکر کیا ہے، جا نشینی اور وصایت سے متعلق اخبار کے سلسلوںکا ایک حصّہ تھا۔

پہلی جلد میں ہم نے پڑھا کہ خدا وند عالم نے موسیٰ کلیم اللہ کو کس طرح حکم دیا کہ یسع بن نون کو اپنی شریعت اور امت پر اپنا وصی بنا ئیں۔

۲۸۳

اور حضرت داؤد نے اپنے فرزند سلیمان کو اسی امر سے متعلق وصیت فرمائی اور حضرت عیسی نے اپنے حواری شمعون یا سمعان کو اسی امر کی وصیت کی اور یہ وصیت کا سلسلہ حضرت آدم کے زمانے سے حضرت عیسیٰ کے دور تک یوں ہی جاری و ساری رہا۔

واضح ہے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دیگر پیغمبروں کی بہ نسبت کو ئی الگ روش نہیں رکھتے تھے اور ان کی سیرت بھی اُن سے جدا اور متفاوت نہیں تھی.لہٰذا آنحضرت نے خدا کے حکم سے اپنے بعد کے لئے اپنے اہلبیت اور عترت سے بارہ وصی معین کئے کہ اُن میںسب سے پہلے ان کے چچا زاد بھائی امیر المومنین ہیں .اور ان میں آخری امام حسن عسکری کے فرزند حضرت مہدی (عج)ہیں۔

اس وصایت سے متعلق مفصل و مشروح اخبار ہمارے ماھر فن بزرگوں کی پانچ کتا ب''اثبات الوصیہ'' میں ذکر ہوئے ہیں کہ ہمارے شیخ اور استاد ''الذریعہ'' کے مؤلف نے ان کا تعارف کر ایا ہے۔اور ہم نے ان کی وصیت سے متعلق بعض روایات واخبار کو ۲۵ صفحہ سے زیادہ میں معالم المدرستین نامی کتاب کی پہلی جلد میں(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وارد نصوص کے ذیل میںاپنے بعد ولی امر کی تعیین سے متعلق) ذکر کیا ہے کہ یہاں پر اختصار کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ اسلام کی دعوت کے آغاز میں اور آیت( وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الَّاقْرَبین ) کے نازل ہو نے کے بعد پیغمبر اکرم نے جناب عبد المطلب کے فرزندوں کو بلا یا اور انھیں اسلام قبول کر نے کی دعوت دی۔

پھر اُس مہمانی کے اختتام پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب کی گردن پر رکھا اور فرمایا: یہ، تمہارے درمیان میرا بھائی میرا وصی اور جا نشین ہے۔

اس کی اطا عت و فرمانبرداری کرو۔( ۱ )

۲۔ پیغمبر کے دو صحابی سلمان فارسی اور ابو سعید خدری نے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

میرا وصی اور میرے راز کا محافظ اور سب سے اچھا شخص جسے میں اپنے بعد اپنا جا نشین بنائوں گا اور وہ شخص جو میرے امور کو انجام دے گا اور میرے قرضوں کو ادا کر ے گا وہ علی بن ابی طالب ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۳ ، ص۱۱۷۱؛ اور تاریخ ابن اثیر، ج۲ ،ص ۲۲۲؛ تاریخ ابن عساکر میں امیر المومنین کے حال کی تشریح اور شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید، ج۳ ،ص ۲۶۳ کہ جس میں ا ختصار کے ساتھ نقل کیا گیا ہے.۲۔ سلمان فارسی کی روایت معجم الکبیر میں ،ج۶، ص ۲۲۱ اور مجمع الزوائد، ج۹ ،ص ۱۱۳ .ابو سعید کی روایت علی بن ابی طالب کے فضائل سے متعلق کنزالعمال ،ج۲ ،ص ۱۱۹ کی کتاب فضائل سے.اور طبرانی نے ج ،۲ ،ص ۲۷۱ پر ذکر کیا ہے ؛ ابو سعید بن مالک خراجی متوفّٰی ۵۴ھ کی سوانح حیات استیعاب اور اسد الغابہ اور اصابہ نامی کتاب میں ذکر ہوئی ہے،بعد کے صفحات میں ان تین کتابوں سے متعلق''سہ گانہ کتابوں'' کے عنوان سے نام ذکر کر یں گے.

۲۸۴

۳۔ انس بن مالک سے( اختصار کے ساتھ ) روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُ س سے فرمایا:سب سے پہلا شخص جو اس در سے داخل ہو گا امام المتقین،سید المسلمین،یعسوب الدین اور خاتم الوصیین ہے...اور اسی وقت علی اُس در سے داخل ہوئے۔( ۱ )

۴۔بریدہ صحابی نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا ہے کہ : ہر پیغمبر کا ایک وصی اور وارث رہا ہے اورعلی میرے وصی اور وارث ہیں.... ..( ۲ )

۵۔ صحیح بخا ری،مسلم اور دیگر منابع و مصادر میں مذکور ہے( ۳ ) (اور ہم بخا ری کی بات کو نقل کرتے ہیں):

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی سے فرما یا:

(یَا عَلی اَنتَ مِنّیِ بِمنزِلة هَارُونَ مِنْ مُوسَیٰ اِلَّا اَنَّه لَا ناَبِیَّ بَعدِی )

اے علی تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے،اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں آئے گا۔

۶۔ سنن ترمذی اور مسنداحمد بن حنبل میں مذکور ہے:(اور ہم ترمذی کی بات کو نقل کرتے ہیں)۔( ۴ )

(اِنِّی تَارِِک فِیْکُم مٰا اِنْ تَمَسَّکتُم بهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعدِی ،أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الاّٰخَرِ: کِتاَبَ

____________________

(۱)حضرت امیر امو منین کی سوانح حیات ابن عساکر اور حلےة ا لاولیاء کی پہلی جلد کے صفحہ ۶۳ پر اور زبیدی کی تالیف موسوعۂ اطرف الحدیث عن امجاد سادة المتقین میں ذکر ہوئی ہے، انس بن مالک اور ابو ثمامہ خزرجی کے سال وفات کے بارے میں اختلاف ہے ۹۰ سے ۹۳ ہجری تک ذکر کیا گیا ہے.(۲)ریاض النضرہ میں امام کی سوانح حیات ج۲ ،ص۲۳۴اور تاریخ ابن عساکر۔بریدہ،ابو عبد اللہ بن حدید بن عبد اللہ الاسلمی جنگ احد کے بعد مد ینہ آئے اور دوسری جنگوں میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم رکاب ہوکر شرکت کی. ان کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے کے لئے سہ گانہ کتابوں کی طرف رجو ع کریں. (۳) صحیح بخاری، ج،۲ ص۲۰۰ باب مناقب علی بن ابی طالب؛ صحیح مسلم،ج۷،ص ۱۲۰ باب فضائل علی بن ابی طالب؛ترمذی، ج ۱۳، ص ۱۷۱،باب منا قب علی ؛ طیالسی،ج۱،ص ۲۸ ۔۲۹، حدیث ۲۰۵، ۲۰۹، ۲۱۳؛ ابن ماجہ؛باب فضائل علی بن ابی طالب ، حدیث ۱۱۵؛ مسند احمد،ج۱، ص ۱۷۰ ،۱۷۳ تا ۱۷۵، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۵ اور ۳۳۰ اور ج ۳،ص ۳۲ اور ۳۳۸ اور ج۶،ص ۳۶۹ اور ۴۳۸؛ اور مستدرک حاکم ،ج۲،ص ۳۳۷؛ طبقات ابن سعد،ج ۳،ص ۱ ،۱۴ اور ۱۵؛ مجمع الزوائد، ج۹ ،ص ۱۰۹ تا ص ۱۱۱ اور بہت سے دیگر منابع و مآخذ.

(۴)سنن ترمذی ،۱۳، ص ۲۰۱؛ اسد الغا بہ، ج۲ ص ۱۲. حضرت امام حسن کی سونح حیات کے ذیل میں. الدرّ المنثور سورۂ شوریٰ کی آیہ مودت کی تفسیر کے ضمن میں ؛مستدرک الصحیحین اور ان کی تلخیص ج۳، ص ۱۰۹. خصائص نسائی ص۳۰ ؛مسنداحمد،۳،ص ۱۷ صدر روایت میں ''انی اوشکُ ان ادعی فاجیب'' ذکر ہے کہ جس کی صفحہ ۱۴، ۲۶، ۵۹ پر بسط و تفصیل کے ساتھ شرح کی گئی ہے طبقات ابن سعد ج۲، ق۲، ص۲؛ کنز العمال،ج۱ ص ۴۷ اور ۴۸ اور اس کے صفحہ ۹۷ پر اختصار کے ساتھ مذکور ہے۔

۲۸۵

اللّٰهِ حَبل مَمدُوْد مِنَ السَّمٰائِ اِلیٰ الَٔارضِ،وَ عِترتِی أَهلَ بَیْتیِ،وَلَنْ یَتَفَرَّقاَ حَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوضَ،فَانْظُرُوْا کَیْفَ تَخْلَفُو نَنِی فِیهِمَا )میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان سے متمسک رہے،تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور ان میں سے ایک دوسرے سے عظیم اور گرانقدر ہے ایک خدا کی کتاب جو آسمان سے زمین کی طرف کھینچی ہوئی رسی ہے اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہلبیت.یہ دو ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں.غور کرو کہ ان دو کے بارے میں میری وصیت کا کیسے پاس و لحاظ رکھو گے۔

اور یہ بھی ارشاد فرما یا:

(لَا یَزالُ هَٰذَا اَلدِّیْنُ قَائِماً حَتّیٰ تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ یَکُونَ عَلَیْکُمْ اِثْنَاعَشَرَ )

یہ دین قیامت کے دن تک،یا اُس وقت تک جب تک کہ تم پر بارہ آدمی امامت کریں گے ہمیشہ برقرار رہے گا۔

ایک دوسری روایت میں مذکور ہے:

(لاٰ یَزٰالُ اَمَرُ الَنََّاسِ مَاضِیاً اِلیٰ اِثْنٰی عَشَرَ )

لوگوں کا کام ہمیشہ بارہ آدمیوں پر ثابت واستوار رہے گا ۔

اس کے بعد دوسری روایت میں فرما یا:

ثُمّ یَکُون المَرج وَالهَرج

(ائمہ معصومین علیھم السلام اور حضرت صاحب الزمان( عج )کا دور گزرنے کے بعد ) پھر دنیا تباہی و بربادی اورہرج ومرج کا شکار ہو جائے گی اور آخری زمانے کا فتنہ ظاہر ہو گا۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے:

فَاذَا هَلکُوا مَاجت الَٔا رضُ بَأهِلهَا

اور جب تمام ائمہ آکر کے گزر جائیں گے تو زمین اور اس کے باشند ے اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جائیں گے۔

ایک دوسری روایت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا ہے کہ ان کی تعداد بنی اسرائیل کے نقباء کے برابر بارہ افراد پر مشتمل ہے ۔یہ روایات اہلبیت پیغمبر کے بارہ ائمہ کے علاوہ کسی اورپر صادق نہیں آتی ہیں ؛ ایسے امام جن کے آخری فرد کی عمر خدا نے طولا نی کر دی ہے اور اُن کے بعد دنیا نابود ہوجائے گی۔

چونکہ مکتب خلفاء کے علماء ائمہ اہلبیت علیھم السلام کے معتقد نہیں ہیں لہٰذا ان روایات کی تفسیر میں حیران و سرگرداں ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اس کے معنی اور تاویل کرنے سے عاجز و بے بس ہیں۔

۲۸۶

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدان کے بارہ اوصیائ

ہم یہاں پر ان بارہ افراد کے اسماء بیان کررہے ہیں جن کے ناموں کی تصریح پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری روایات میں فرمائی ہے۔

پہلے وصی حضرت علی بن ابی طالب امیر المو منین ، وصی رسول ربّ رلعالمین۔

دوسرے وصی حضرت حسن بن علی سبط اکبر.

تیسرے وصی حضرت حسین بن علی سبط اصغر ، شہید کربلا.

چوتھے وصی حضرت علی بن الحسین سجاد ، زین العابدین

پانچویں وصی حضرت محمد بن علی باقر.

چھٹے وصی حضرت جعفر بن محمدں صادق.

ساتویں وصی حضرت موسی بن جعفر کاظم.

آٹھویں وصی حضرت علی بن موسیٰ رضا.

نویں وصی حضرت محمد بن علی جواد ، تقی.

دسویں وصی حضرت علی بن محمد ہادی، نقی.

گیارھویں وصی حضرتحسن بن علی عسکری.

بارھویں وصی حضرت محمد بن الحسن مھدی،حجت اور منتظر.

اس طرح سے حضرت آدم سے خا تم ا لانبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک وصی کی تعیین کا سلسلہ چلا ہے۔

۲۸۷

دوسرے:

یہ کہ ہم نے اس کتاب میں دیکھا کہ اللہ کی حجتوں کے درمیان ''انوش'' نے زمین پر کھجور کا درخت لگا یا ، زراعت کی اور زمین میں بیج بویا اور زمین کی آباد کاری میں مشغول ہوئے اور اپنے فرزند قینان کو نما ز قائم کرنے،زکاة ادا کر نے،خانہ خدا کا حج کر نے اور قابیلیوں سے جہاد کر نے کا حکم دیا اور خود بھی باپ کے حکم کی تعمیل کی اور اس کو کمال کے تمام مراحل تک کامیابی سے ہمکنارکیا ۔

اور''یرد'' کو دیکھتے ہیں کہ استخراج معادن اور شہر کی تعمیر میں مشغول ہوئے ہیں،مسجدیں بنانے مضر درندوں کے قتل کر نے اور گائے بھیڑ کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔

ادریس وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے سوئی سے خیاطی(سلائی) کی ہے اور وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے قابیل کی اولاد کو قید کیا اور انھیں اپناغلام بنا یا ، وہ علم نجوم میں ماہر تھے.اور بارہ برجوں اور آسمانی سےّاروں میں سے ہر ایک کا مخصوص نام رکھا ہے۔

متوشلح بھی شہروں کی تعمیر کی جانب متوجہ ہوئے ہیں وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اونٹ کی سواری کی ہے۔

یہیں سے ہم درک کرتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی طرف سے اسلام کی تبلیغ پر مامور تھے وہ اپنے زمانے میں بشری تمدن کے بھی راہنما تھے ، لوگوں کی ہدایت کے بارے میں عیسائیوں کے دعوے کے برخلاف صرف ان کی عبادت کی کیفیت اور طریقوں پر اکتفا نہیں کیا ہے ۔

تیسرے :

عصر فترت میں پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کو دیکھتے ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند اسمٰعیل کی دعا کے مصداق تھے جیسا کہ ان دونوں حضرات نے سورۂ بقرہ کی ۱۲۸آیت کی نقل کے مطابق بارگاہِ خدا وندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا یا :

( رَبََّنَا وَاجْعَلْنَامُسْلِمَینِ لَکَ وَ مِن ذُرِّیَّتِنَا اُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ... )

خدا یا! ہمیں اپنا مسلم مطلق قرار دے اور ہمارے فرزندوں کو بھی ایسی امت قرار دے جو تیرے سامنے خاضع اور سراپا تسلیم ہوں۔

۲۸۸

انھیں میں سے ''خزیمہ بن مدرکہ'' بھی تھے کہ فرما تے تھے:

مکّہ سے احمد نامی پیغمبر کے خروج کا زمانہ قریب ہے اس کی خصو صیت یہ ہو گی کہ لوگوں کو خدا کی عبادت اور پرستش کی دعوت دے گا لہٰذا اس کی پیروی کرنا اور اس کی تکذیب نہ کر نا کہ وہ جو کچھ پیش کریگا وہ حق ہے۔

''کعب بن لؤی'' بھی کہتے تھے آسمان وزمین بیکار خلق نہیں کئے گئے ہیں اور دار آخرت تمہارے سامنے ہے، وہ لوگوں کو مکارم اخلا ق کی دعوت دیتے تھے اور کہتے تھے؛ اللہ کے پر امن حرم سے خاتم الانبیائ، اس امر کے لئے جس کی موسیٰ اور عیسیٰ نے خبر دی ہے مبعوث ہوں گے۔

اور اس طرح فرما تے تھے''اچانک خدا کے پیغمبر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہنچ جائیں گے جب کہ تم غافل ہوگے ...'' پھر کہتے تھے : اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا اور پیغمبر کی دعوت و بعثت کو درک کرتا۔

اور جب''عمر وبن لحیّ'' ''ہبل'' نامی بُت کو مکّہ لایا اور بُت پر ستی عام ہو گئی تو،یہ ''قُصیّ'' تھے کہ بُت پرستی کو مردود سمجھتے ہوئے لوگوں کو خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے. انھوں نے حج کے شعائر کو جو کہ ابراہیم کے دین حنیف کے بنیادی جز میں شامل تھے قائم رکھا اور مکّہ والوں کی مدد سے حجاج کو کھانا کھلانے اور ان کی مہمان نوازی کے لئے قدم اٹھا یا۔

ان کے بعد یہی ذمّہ داری ان کے فرزند ''عبد مناف'' نے سنبھالی اور انہوں نے قریش کو تقوائے الٰہی اور صلہ رحم کی رعایت کا حکم صادر کیا۔

ان کے فرزند ''جناب ہاشم'' بھی حجاج کو کھانا کھلانے اور مہمان نوازی کے لئے اٹھے، انھیں نے مکّہ میں اپنے مدد گاروں سے کہا: تمھیں اس گھر کی حر مت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم لوگ اس امر کے لئے صرف اور صرف حلال مال مخصوص کرو اور خبردار وہ مال جوغصبی ہو، زور زبردستی سے چھینا گیا ہو اور قطع رحم کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہوا یسے مال کو اس محترم کام کے لئے ہرگز مخصوص نہ کرنا۔

۲۸۹

یہ جناب ہاشم ہی تھے کہ جنھوں نے جاڑے اور گرمی میں دو تجارتی سفر کی،شام اور ایران، یمن اور حبشہ کی جانب بنیاد ڈالی۔

ان کے فرزند'' جناب عبد المطلب'' نے بھی اپنے آباء و اجداد کی را ہ و روش اپنائی.ان کے بارے میں اس طرح کہا گیاہے:

وہ قلبی اعتبار سے توحید اور روز قیامت پر اعتقاد رکھتے تھے،خدا وند عالم نے زمزم نامی کنویں کی کھدائی ان کے ہاتھوں کرائی .اور جب ابرھہ اپنے لشکر کے ساتھ کعبہ کو منہدم کر نے کے لئے مکّہ آیا تو اُس سے جناب عبد المطلب نے کہا: اس گھر کا ایک مالک ہے جو تجھے روک دے گا پھر اُس وقت خدا سے رازو نیاز کرتے ہوئے اس طرح شعر پڑھا:

یا ربِّ فان المرئَ یمنع

رحله فامنع رحالک

''خدایا! ہر شخص اپنے گھر کا دفاع کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع کر''۔

ابرھہ اور اس کے سپا ھیوں کے مکّہ پر حملہ کر نے کے بعد قریش فرار کر گئے اور جناب عبد المطلب اور ان کا گھرانہ تنہا وہاں رہ گیا۔

اور جب خدا نے ابرھہ کے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تو اس طرح شعر پڑھا:

طارت قریش اذ رات خمیساً

فظلت فرداً لَا اری انیسا

''جب قریش کی نظر ابرھہ کے لشکر پر پڑی تو داہنے بائیں سے فرار کر گئے اور میں تن تنہا بے یارو مددگار باقی رہ گیا''

''ہم قدیم ا لایام ہی سے آل اللہ تھے اور حضرت ابراہیم کے دور سے اب تک ایسا ہی ہے۔

ہم نے قوم ثمود کو درمیان سے اکھاڑ پھینکا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو۔

ہم خدا کے عبادت گزار ہیں، صلۂ رحم اور عہد وپیمان کا پاس ولحاظ رکھنا ہماری سنت ہے۔

ہمیشہ خدا کی ہمارے درمیان ایک حجت (راہنما) رہی ہے کہ خدا وند عالم اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے'' ۔

شیبة الحمد (جناب عبد المطلب) ان اشعار میں فر ماتے ہیں:

۲۹۰

جب قریش نے ابرھہ کے لشکر کو دیکھا تو پرندوں کی طرح ہر جانب سے فرار کر گئے اور میں تن تنہا بے مونس و یاور حرم میں باقی رہ گیا. عبدا لمطلب کی یہ بات اس ایمان اور اطمینان کی عکاسی کر رہی ہے جو ایمان وہ خدا پر رکھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ خدا ابرھہ کو حرم میں داخل نہیں ہونے دے گا اور اسے تباہ و برباد کردے گا. وہ اور ان کا گھر انہ حضرت ابراہیم کے زمانے سے آل اللہ ہیں اور اس بات کا مخلوق میں خدا کی حجت کے سوا کوئی مصداق نہیں ہوسکتا. کیو نکہ خدا کی یہی حجتیں تھیں کہ ثمود اور عاد قبیلہ کو ارم اور اس کے ستونوں کے ساتھ ویران کر دیا اور چونکہ ہود اور صالح جناب عبد المطلب کے اجداد کے سلسلے میں نہیں ہیں اور ان دو پیغمبروں کی قومیں قریش سے نہیں تھیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کی یہ بات کہ '' ہم نے قوم ثمود اور عاد کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکا '' اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کی حجتوں نے کہ اُن میں سے ایک جناب عبد المطلب بھی تھے ثمود اور عاد کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکا، پھر خدا نے اس وقت ان کی دعا سے ابرھہ کو نابود کر دیا. اور اُن کا یہ کہنا کہ ''ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی حجتیں رہی ہیں کہ خدا ان کے ذریعہ ہم سے بلاؤں کو دور کرتا ہے'' یہ اس بات کی تاکید ہے کہ اپنے زمانہ میں وہ خود ہی خدا کی ایک حجت تھے،جیسا کہ حضرت ہوداور حضرت صالح اور حضرت ابراہیم اپنے زمانے میں خدا کی حجت تھے۔

جب پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے،تو جناب عبد المطلب نے اپنے شعر میں کہا کہ ان کے پوتے کا نام آسمانی کتابوں میں''احمد'' ہے جیسا کہ خدا نے عیسیٰ بن مریم کی زبان سے فرما یا:

( وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَاتِی مِنْ بَعدِی اِسْمُهُ اَحْمَدُ )

میں اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی تمھیں بشارت دے رہا ہوں جس کا نام احمد ہو گا۔

اور جب پیغمبر کی دایہ حلیمہ سعدیہ نے جناب عبد المطلب کوان کے مکّہ کے پہاڑوں میں گم ہو جانے کی خبر دی، توجناب عبد المطلب نے اپنے ربّ سے خطاب کر کے کہا:

''خدایا! محمد کو کہ تو نے خود ہی اس کا نام محمد رکھا ہے ہمیں لو ٹا دے''۔

۲۹۱

یہ تمام باتیں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ عبدا لمطلب ان لو گو میں سے تھے جو اپنے سے قبل کی آسمانی کتابوںکے بارے میں آگاہی رکھتے تھے ؛ اور یہ مکّہ جیسے جہالت سرشت شہر اور قریش کی طرح جاہل لوگوں میں ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ اس بات کو قبول کر یں کہ وہ کتابیں اُن کے اختیار میں تھیں اور جناب عبد المطلب سلسلۂ اوصیاء ابراہیم اور اسمٰعیل کی ایک کڑی ہیں۔

اوریہ بھی کہ جناب عبد المطلب صلۂ رحم کی رعایت ، محتاجوں کو کھانا کھلانے ، ظلم وستم نہ کرنے اور سر کشی و طغیانی نہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور کہتے تھے:

کوئی ستمگر دنیا سے نہیں جا تا مگر یہ کہ وہ اپنے ظلم وستم کی سزا بھگت لے اور کہتے تھے: خدا کی قسم اس دنیا کے بعد پاداش اعمال کی ایک جگہ ہے. جہاں اچھے یا بُرے کاموں کی جزا یا سزا ملے گی۔

جناب عبد المطلب نے نذر پوری کرنے، چور کاہاتھ کاٹنے،محارم سے شادی کر نے کی ممانعت اور لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے روکنے کی سنت قائم کی ۔

اور شراب پینے،زنا کر نے اور برہنہ خانہ خدا کے ارد گر د طواف کر نے سے روکا ہے۔( ۱ )

یہ سب کچھ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں مذکورہے ۔

خدا وند عالم نے مکّہ والوں کے لئے جناب عبد المطلب کی طلب باراں سے متعلق دعا مستجاب کی ہے. وہ ہر سال ماہ رمضان میں غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے؛ جناب عبدالمطلب نے تمام قریش (بالخصوص جناب ابو طالب) کو پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رعایت کی تاکید فرمائی ۔

____________________

(۱) دور جاہلیت میں بعض افراد، اپنے لباس میں اس بہا نے سے طواف نہیں کرتے تھے کہ انھوں نے اس لباس میں گناہ کیا ہے لہٰذا طواف کے موقع پر یا مکّہ والوں سے عارےةً لباس مانگتے تھے یا عریاں کعبہ کا طواف کر تے تھے.

۲۹۲

آیات کی تفسیر میں عبرت کے مقامات

خداوندعالم نے بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام عالم پر ان کو فو قیت و بر تری عطا کی اُس وقت جب فرعون اور فرعون کے ماننے والوں نے ان کے لڑکوں کے سر کاٹ کر اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ کر بدترین عذاب سے انھیں دو چار کیا تو اس نے انھیں نجات دی اور سارے عالم پر انھیں بر تری عطا کی اور دنیا میں عظیم فوقیت اور رفعت کا مالک بنا یا۔

اسی طرح اُن کے لئے دریا کو شگافتہ کیا اور اس کے درمیان خشکی کا راستہ پیدا کیا تا کہ وہ عبور کر سکیں اور اس نے انھیں عبور کرایا. فر عون اور اس کے سپا ہیوں نے ان کا پیچھا کیا اور اسی خشکی کے راستہ پر قدم رکھا جس سے بنی اسرائیل آگے گئے تھے اور بنی اسرائیل کی آخری فرد کے باہر آتے ہی دریا آپس میں مل گیا اور خدا نے فرعون اور اُس کے سپا ہیوں کو بنی اسرائیل کی نگاہوں کے سامنے غرق کر دیا. پھر فرعون کی لاش کو پانی کی سطح پر لے آیاکہ آج تک مصر کے میوزیم میں سالم موجود ہے اور دنیا والوں کے لئے عبرت کا سامان ہے۔

بنی اسرائیل اُسی طرح آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک قوم کو دیکھا کہ وہ بتوں کی پو جا کررہی ہے،تو پھر انھوں نے موسیٰ سے کہا:''ہمارے لئے بھی ان کی طرح کو ئی خدا قرار دو''موسیٰ نے اُن سے کہا:ان کی روش لغو اور باطل ہے۔

آیا اس خدا کے علاوہ کہ جس کانام جلیل ہے اور اُس نے تم کو سارے عالم پر برتری و فو قیت عطا کی ہے کوئی دوسرا خدا تلاش کروں؟!

اس کے بعد خدا نے بنی اسرائیل سے فرمایا:( اسکنوا الارض )

اس سر زمین کو اپنے تصرف میں قرار دو یہ اس حال میں خطاب تھا جب کہ ان کی ایک عمر فرعون کی غلامی میں گذرچکی تھی حتیٰ کہ اپنے مالک و مختار بھی نہیں تھے چہ جائیکہ وہ کسی زمین کے تمام خصوصیات و امتیازات کے ساتھ مالک ہوں۔

اور خدا وند عالم نے بادل کو ان کے سر پر سایہ فگن قرار دیا اور آسمانی غذائیں(من وسلویٰ) انھیں کھلائیں کہ سلویٰ سب سے عمدہ گو شت کو شامل ہے اور منّ اصلی اور خالص شکر کو شامل ہے.ایسی حالت میں انھوں نے موسیٰ سے کہا! اے موسیٰ ! ہم ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کر سکتے.اپنے ربّ سے کہو کہ ہمیں زمین کی پیدا شدہ چیزیں، دانے، لہسن، پیاز، مسور کی دال وغیرہ سے نوازے کہ موسیٰ نے ان سے کہا: کسی ایک شہر میں داخل ہو جاؤ وہاں تمہاری آرزوئیں پوری ہو جائیں گی۔

۲۹۳

اسی طرح خداوند عالم نے انھیں سارے عالم پر برتری دی ،جب موسیٰ نے انھیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کیا اور خدا کے حکم سے اپنا عصا پتھر پر مارا تو پانی کے بارہ چشمے اُس سے پھوٹ پڑے اور ہر قبیلہ نے اپنی اپنی پینے کی جگہ مخصوص و معین کر لی اور ہر ایک نے اپنی اپنی پیاس بجھائی۔

خداوند جل جلالہ نے موسیٰ سے ۳۰شب کا وعدہ کیا کہ طور سینا پر جائیں تاکہ توریت جو کہ بنی اسرائیل کے لئے قوانین اور شریعت پر مشتمل ہے ،انھیں عطا کرے.خدا نے اس وعدہ کو دس دن مزید بڑھا دیا اور اس کو چالیس دن میں کامل کر دیا لیکن اس مدت میں سامر ی نے (۱ )حضرت موسیٰ کے طور سینا پر مناجات کے لئے جانے کے بعد قوم بنی اسرائیل کو گمراہ کر دیا.اُس نے ان کے سونے کے زیورات سے ایک گو سالہ بنایا اور جو خاک وہ اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا وہ حضرت جبرئیل کے قدموں کی خاک تھی اسے گو سالہ کے منھ میں ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں ہوا پھونکنے سے گوسالہ کی آواز نکلتی تھی. سامری نے اُن سے کہا؛ یہ تمہارا اور موسیٰ ـکاخدا ہے!! تو ہارون نے ان سے کہا! تم لوگ اس کے ذریعہ امتحان اور آزمائش

____________________

(۱) سامری شمرونی کا معرّب ہے جس طرح کلمہ عیسیٰ کہ یشوع جو کہ عبری زبان کا لفظ ہے، اس سے معرّب ہوا ہے. شمرونی شمرون کی طرف منسوب ہے( جو کہ اسباط بنی اسرائیل میں سے یساکا ر کا چوتھا بیٹا ہے). اس کے لئے قاموس کتاب مقدس میں لفظ شمرون ملاحظہ ہو.

۲۹۴

میں مبتلا ہوگئے ہو.تمہا را ربّ خدا وند رحمن ہے. انھوں نے جواب دیا : جب تک کہ موسیٰ ہمارے پاس نہیں آجاتے ہم اس گوسالہ کی پو جا نہیں چھوڑیں گے۔

خدا وندعالم نے بنی اسرا ئیل کی اس کارستانی کی موسیٰ کوخبر دی،پھر موسیٰ انتہائی افسوس اور غم و غصّہ کے ساتھ ان کے پاس واپس آئے اور اپنے بھائی ہارون کو زجروتو بیخ کی، ہارون نے کہا: اے بھائی! اپنا ہاتھ میرے سراور داڑھی سے ہٹالو. اس قوم نے مجھے چھوڑ دیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کرڈالیں۔

پھر جب بنی اسرائیل اپنی خطا پر نادم و پشمان ہوئے تو خداوند سبحان نے ان کی توبہ قبول کی اس شرط کے ساتھ کہ جو لوگ گوسالہ پرستی میں مشغول ہوگئے تھے وہ خود کو خداپرستوں کے حوالے کر دیں تا کہ انھیں قتل کیا جائے جب ان لوگوں نے اس فرمان کو قبول کیا اور امر خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے، تو خدا وند منّان نے انھیں معاف کر دیا.لیکن تعجب ہے کہ اُس کے بعدبھی موسیٰ سے خواہش کی کہ انھیں بھی اپنے ہمراہ ربُّ العزت کی وعدہ گاہ تک لے جائیں اور وہ خود ان کو خدا سے کلام کرتے ہوئے دیکھیں۔

اس وجہ سے موسیٰ نے اُن میں سے ستر افراد کو چُنا.جب وہ لوگ میقات (وعدہ گاہ) پر پہونچے تو کہنے لگے کہ : ہم خدا کو آشکار طور پر دیکھنا چاہتے ہیں! لہٰذا (جیسا وہ خیال کر تے تھے) اسی اثناء میں ایک بجلی نے انھیں اپنے لپیٹ میں لے لیا(اور اسی جگہ مرگئے) کہ خدا وند عالم نے دوبارہ انھیںموسیٰ کی درخواست پر حیات دی.پھر اس طرح سے یہ لو گ توریت پر(جسے خدا وند سبحان نے چراغ ہدایت قرار دیا تھا تاکہ ان کے انبیاء اس کے مطابق حکم کریں) ایمان لائے ۔

موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ یاد دلانے کے بعد کہ خدا وند عالم نے ان پر کیا کیا نعمتیں نازل کیں ہیں اوران کے ذریعہ سے انھیں عالمین پر فضیلت دی ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے میری قوم!مقدس سرزمین (سر زمین شام) کہ خدا وند عالم نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے داخل ہو جاؤ۔

انھوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ایک ستمگراور سرکش قوم رہتی ہے،ہم وہاں اُس وقت تک قدم نہیں رکھ سکتے جب تک کہ وہ وہاں سے باہر نکل نہ جائیں اور جیسے ہی وہ باہر جائیں گے ہم وہاں داخل ہو جائیں گے۔

۲۹۵

اُس وقت ان کی قوم کے دو دانشوروںنے اُن سے خطاب کر تے ہوئے کہا: دروازہ سے اُن کے سامنے وارد ہو ، کہ تمہارے داخل ہو جانے ہی سے تمہاری کامیابی ہو جائے گی اور اگر مومن ہو تو خدا پر توکل اور بھروسہ کرو۔

قوم نے کہا: اے موسیٰ ! جب تک کہ وہ وہاں ہیں ہم ہر گز وہاں داخل نہیں ہو گے. لہٰذا تم خود اور تمہارا خدا چلے جاؤ.اور اُن سے جنگ کرو ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں!!

اس کا جواب دیتے ہوئے خدا وند سبحان نے فر مایا:

( فَاِ نَّهَا مُحَرَّ مَة عَلَیْهِمْ اَرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیْهُونَ فِیْ الْاَرْضِ فَلَا تٔاسَ عَلٰی الْقَوِمِ الْفَاسِقِینَ )

چالیس سال تک ان کا اس سر زمین پر تصرف کر نا حرام ہے،وہ لوگ اتنی مدت تک سینا کے جنگلوں میں اسی طرح حیران و سرگرداں رہیں گے اور تم اے موسیٰ ! ستمگروں کے لئے اپنا دل نہ جلاؤ.اور ان کی خاطر رنجیدہ نہ ہو۔

یہ سب حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کی بعض داستان ہے. لیکن جو کچھ اس قوم سے موسیٰ کے بعد سرزد ہوا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ:

اُن میں سے بعض نے دریائے سرخ کے کنارے سکونت اختیار کر لی .اور مچھلی کا شکار کر نے لگے (قضاء الٰہی سے دریا کی مچھلیاں شنبہ کو بہت زیادہ ساحل کے کنارے آتی تھیں اور خدا نے انھیں شنبہ کو شکار کرنے سے ان کے سرکش نفس کی ریاضت و تزکیہ کے لئے منع کر دیا تھا). ان لوگوں نے اس ممانعت کی مخالفت کی اور سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے لگے ،نتیجہ کے طور پر خدا نے انھیں بندر کی شکل میں مسخ کر کے ہلاک کر ڈالا۔

خداوند منّان نے حضرت موسیٰ کے اوصیاء کے درمیان حضرت داؤد کو قرار دیا اور ان کو زبور عطاکی ، جب داؤد زبور کی تلا وت کر تے اور تسبیح خدا وندی کی آواز بلند کر تے تو اُن کی خو ش الحانی پہاڑوں میں اس طرح گونجتی کہ پر ندے تسبیح میں ان کے ہم آواز ہو جاتے.خدا وند عالم نے ان کے ہاتھ میں لوہا نرم بنا دیا تھا تا کہ اُس سے زرہ بنائیں پھران کے بعد حضرت سلیمان کو قرار دیا اور ہوا کو اُن کے اختیار میں دے دیا تا کہ اُن کے حکم کے مطابق وہ جہاں چاہیں حر کت کرے.اسی طرح جنّاتوں کو جو دریا میں غوّاصی پر مامور تھے تاکہ ان کے لئے اندر سے گوھرنکال لائیں اور عبادت خانے،مجسمے،محرابیں اور حوض کے برابر پیا لے اور بڑی بڑی ثابت دیگیں یعنی جو قابل نقل و انتقال نہ ہوتی تھیں حضرت سلیمان کے لئے بناتے تھے۔

۲۹۶

خدا وند منان نے انھیںحیوانوں کی زبان سکھائی اس طرح سے کہ چیونٹی کی گفتگو درک کرلی اور ھدھد نے تخت بلقیس کے بارے میں انھیں باخبر کیا اور ان کے ملازموں میںاُس شخص نے جسے کتاب کا تھوڑا سا علم تھا یمن سے چشم زدن میں تخت بلقیس شام میں حاضر کر دیا۔

ملا ئکہ ان کے خد مت گزار تھے اور جنوں میں جو حضرت سلیمان کے حکم کی نافرمانی کر تا تو اسے عذاب کے تازیانہ سے تنبیہ کر تے تھے ۔

جنّات حضرت سلیمان کے مرنے کے بعد اسی طرح اپنی فعّالیت اور ماموریت پر لگے ہوئے تھے یہاں تک کہ دیمک نے اُن کے عصا کو کھوکھلاکر دیا اور سلیمان زمین پر گر پڑے۔

یہ تمام موارد(مقامات) بنی اسرائیل اور ان کے پیغمبروں کے درمیان استثنائی صورت کے حامل تھے، منجملہ ان استثنائی حالا ت کے حضرت موسیٰ کے زمانے میں ایک واقعہ یہ تھا کہ ایک مقتول کے قاتل کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہو گیا تو خدا نے انھیں حکم دیا کہ ایک گائے کا سر کاٹیں اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑااس مقتول کے جسم پر ماریں، جب انھوں نے ایسا کیا تواس کے زیر اثر خدا نے اس مقتول کو زندہ کردیا اور حقیقت امر آشکار ہو گئی۔

منجملہ ان داستانوں کے ''عزیر'' اور ''ارمیا''کی بھی داستان ہے کہ ایک ایسے ویران گاؤں سے ان کا گذر ہوا جس کی دیواریں اور چھتیں گر چکی تھیں اوروہاں کے رہنے والے سب مر چکے تھے اور درندے ان کے جسموں کو کھا چکے تھے، توحیرت سے کہا:خداوند عالم ان مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ ! خدا نے انھیں ایک سو سال مردہ رکھا پھر دوبارہ زندہ کیا صبح کے وقت ان کی روح قبض کر لی اور شام کے وقت ان کی زندگی واپس کر دی( یعنی جسم میں جان ڈال دی) ایک فرشتہ نے اُن سے پو چھا کتنی دیر تک سوتے رہے؟

عزیرنے آسمان اور سورج کی طرف نظر کی تو وہ ڈوبنے ہی کے قریب تھا اور کہا:(میر ے خیال میں) ایک دن یا اس کا ایک حصّہ سویا رہا۔

فرشتہ نے کہا:بلکہ تمہارے سونے کی مدت ایک سو سال ہے! اپنی غذا(انجیر،انگور) اپنی پینے کی چیز (انگور کے رس) کی طرف نظر ڈالو اوردیکھو ،کہ اتنے سالوں کے بعد بھی ان میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اب اپنے گدھے کی طرف دیکھو کہ اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر تتر بتر اور نابود ہوگئیں ہیں!

۲۹۷

پھر اس وقت خداوند عالم نے پراگندہ جسموں کو ایک دوسرے سے متصل کیا اور ان پر گوشت چڑھا یا اور انھیں زندہ کر دیا تو عزیرکو معلوم ہو گیا کہ کس طرح خدا مردہ کو زندہ کر ے گا اور جب ا نھوں نے ایسا دیکھا تو کہا :مکمّل طور پر مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا ہر چیز پر قادر و تواناہے۔

حضرت موسیٰ کے بعد استثنائی داستانوں میں حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا جیسے پیغمبروں کی بھی داستان ہے۔

حضرت زکریا خدا کو پکار کر کہتے ہیں: خدا یا! میری ہڈیاں بو سیدہ ہوگئیں(کمزور ہوگئیں) ہیں اور میرے سر کے بال سفید ہوگئے ہیں اور میری بیوی بانجھ ہے، اپنے بعد اپنے وارثوں سے خائف اور ہرا ساں ہوں تو خود ہی مجھے ایک جانشین عطاکر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔

توخدا وند عالم نے انھیں یحییٰ کی خوشخبری دی ایسے نام کے ساتھ کہ اُس سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا تھا اور خدا نے ان کے بچپنے ہی میں انھیں کتاب اور قضاوت عطا کی ۔

سب سے زیادہ مشہور ان کی استثنائی داستان خدا کے پیغمبر حضرت عیسیٰ کی ان کی ماں مریم کے ذریعہ بن باپ کے ولادت کی خبر ہے.اور اپنی قوم سے گہوارہ میں ان کا کلام کر نا اور یہ کہناکہ خدا نے انھیں کتاب و حکمت عطا کی ہے. اور ان کا مٹی سے ایک پرندہ کا پیدا کر نا اور کوڑھی، کور مادر زاد کو شفا دینا ،مردوں کو زندہ کر نا اور حضرت عیسیٰ کی شکل وصورت میں ان کی مخبری کرنے والے بدخواہ کو تبدیل کر نا تا کہ عیسیٰ کی جگہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جا ئے.خدا نے حضرت عیسیٰ کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندی پر بلا لیا اور اب تک اسی طرح انھیں زندہ رکھا ہے تا کہ انھیں آخری زمانے میں زمین میں حضرت بقےة اللہ الاعظم مہدی صاحب الزمان کے پاس لوٹا دے۔

اسی طرح بنی اسرائیل کے انبیاء کے لئے بھی استثنائی حالات کا سراغ رکھتے ہیں کہ اُن سے پہلے کسی ایک پیغمبر میں بھی نہیں دیکھا ہے، جیسے وہ سب کچھ جو حضرت سلیمان کو دیا گیا، جنّاتوں کا ان کے لئے کام کرنا، یا بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ کا پیدا ہو نا اور خدا کی اجازت سے ان کا مٹی سے پرندہ خلق کر نا۔

۲۹۸

اور ہم کسی قوم کو بنی اسرائیل سے زیادہ سنگدل قوم نہیں جانتے.وہ نہایت بدطینت لو گ تھے جنھوں نے اپنے پیغمبر سے نہ گانہ معجزات اور آیات دیکھے اور اس کا مشاہدہ کیا کہ اُس نے انھیں دریا کے بارہ خشکی راستوں سے گذارا اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا. خدا وند منّا ن نے انھیں پو ری تاریخ انسانیت میں بے مثال معجزے کے ذریعہ نجا ت دی لیکن جیسے ہی اُن کی نظر بتوں پر پڑی تو اپنے پیغمبر سے کہتے ہیں: اے موسیٰ! ہمارے لئے ان کے بُتوں کے مانند بُت سے ایک خدا بناؤ!!

یا جب ان کے پیغمبر ان کے عمل کے لئے شریعت لا نے گئے تو گوسالہ پر ستی میں مشغول ہوگئے!!

یہ سب ان کے ناپسندیدہ اور بُرے صفات کے نمونے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایسا طرز تفکراور ایسی روش دکھائی دیتی ہے جو ان سے مخصوص تھی اور گزشتہ یا ان کے بعد کی امتوں میں نہیں پائی گئی ہیں۔

ان کے دشمن بھی ایسے ہی تھے؛ جیسے فرعون اور اس کے درباری اور وہ اقوام اور امتیں جو اُس زمانے میں سر زمین شام کی ساکن کہلاتی تھیں اور وہ اُن سے جنگ پر ما مور ہوئی تھیں۔

ان تمام استثنائی حالا ت اور مواقع کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ دیگر امتوں کی بہ نسبت استثنائی اور خصوصی احکام کی احتیاج رکھیں. انھیں موارد(مقامات) میں کعبہ سے بیت المقدس کی طرف قبلہ کا تبدیل ہو ناہے اور ان تمام چیزوں کی تحریم جنھیں اسرائیل( یعقوب پیغمبر ) نے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں اور چونکہ بعض خصوصی حالات ان امتوں کے نابود ہو جانے کی وجہ سے کہ جن سے ان کی سرزمین میں انھوں نے جنگ کی تھی.حضرت عیسیٰ بن مریم کے زمانے میں ختم ہوچکے تھے. لہٰذا،خداوند عالم نے اُن کے کچھ محرمات جواُن پر حرام کر دیئے تھے حلال کر دیئے۔

اور چو نکہ حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ان تمام استثنائی مواقع اور خاص حالات کا خاتمہ ہو چکا تھا،لہٰذا استثنائی احکام اور ان سے مخصوص قوانین بھی درمیان سے اٹھا لئے گئے ؛ چنانچہ خدا وند متعال سورۂ اعراف کی ۱۵۷ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( اَلَّذِٔٔیْنَ یَتّاَبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ الناَبِیَّ ا لأُ مِّیََّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَه مَکتُوْباً عِندَهُمْ فِیْ التَّورَاةِ وَ اْلاِنْجِیْلِ یَأ مُرُهُمْ بِِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَا هُم عَنِ المُنْکرِ وَیُحِلُّ لَهُمْ الطَّیِّباتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیهِمُ الخَبائثَ وَ یضعُ عَنهُم اِصْرَهُمْ وَ الأَغَلْالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیهِمْ... )

۲۹۹

جو لوگ اس امی نبی رسول کی جس کا نام و نشان اپنے پاس موجود توریت اور انجیل میں تحریر پاتے ہیں پیروی کریں ایسا پیغمبر جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور بُرائی سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال کر تا ہے اور نجاستوں کو اُن پر حرام کر تا ہے، قید وبند کی تکلیف گراں سے انھیں آزاد کر دیتا ہے۔

اسی وجہ سے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی شریعت منسوخ ہو گئی اور حکم ہوا کہ ابراہیم کے دین حنیف کی پیروی کر یں کہ اب اس کے مبلغ اور بیان کر نے والے حضرت خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کے قوانین اور شریعتیں حضرت آدم سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ایک دین واحد اور انسان کی فطرت کے مطابق ہیں اور چو نکہ اللہ کی تخلیق میں کو ئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے لہٰذا خدا کی شریعت اور اس کے قوانین بھی تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔

اللہ کی شریعت ہر زمانے کے پیغمبر کے ہم عصر لو گوں کی ضرورت کے مطابق اس پیغمبر پر نازل ہوئی ہے اسی لحاظ سے اُس شریعت میں سے ایک خاندان کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم پر نازل ہوئی ۔

حضرت ادریس کے زمانے میں ایک شہر کے رہنے والوں کی نیاز کے بقدر اور نوح کے زمانے میں چند شہروں اور علاقوںکی نیاز وضرورت کے بقدر اس شریعت کا دائرہ وسیع ہو گیا. حضرت نوح کے زمانے کی شریعت کی اتنی مقدار ہمارے زمانے کو بھی شامل ہے۔

چنانچہ خدا وند عالم فرما تا ہے:

( شَرعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحاً )

'' تمہارے لئے دین میں وہ راستہ قرار دیا ہے جس کی نوح کو وصیت کی تھی '' ابراہیم کا دین حنیف نوح کی شریعت سے اختلاف نہیں رکھتا جیسا کہ خدا وند سبحان فرما تا ہے:

( وَانَّ مِنْ شِیعَتهِ لِابِرَاهیمَ )

اس معنی میں کہ ابراہیم حضرت نوح کے اتباع کر نے والوںمیں تھے۔

۳۰۰