اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )11%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134224 / ڈاؤنلوڈ: 3955
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

خلا صہ کلا م یہ ہے کہ خدا کی حکمت کا تقا ضا تھا کہ اس کا فرستادہ اپنے ربّ کی طرف سے کو ئی معجزہ پیش کرے جو اس کے ادّعا کی صداقت پر دلیل ہو اور اس طرح سے لوگوں پر حجت تمام ہو. اس صورت میں جو ما ئل ہو وہ ایمان لے آئے اور جو سر کشی و عناد کر نا چا ہے وہ کرے جیسا کہ تمام معجزا ت پیش کر نے کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہا رون کی قوم کا حال تھا.یعنی جادو گر وںنے ایمان قبول کیا لیکن فر عو نیوں اور اس کے گردو پیش والوں نے کفر و عناد کا راستہ اختیار کیا کہ خداوند عالم نے بھی انھیں غرق کر کے ذلت و خواری کی طرف کھینچ دیا۔

جو کچھ انبیا ء اللہ کی جانب سے پیش کرتے ہیں اسلامی اصطلا ح میں اسے معجزہ کہتے ہیں جو کہ خود ہی ان کی صداقت پر ایک دلیل ہے۔

لہٰذا جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کے مطا بق ہر پیغمبراور رسول نبی ہو گا، لیکن ہر نبی پیغمبر نہیں ہو گا جیسے یسع کہ وہ نبی اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر ایسی شریعت لے کر آئے جو بعض ان موارد اور اعمال کی جنھیں گزشتہ شریعتوں نے پیش کیا تھا ،ناسخ قرار پائی جیسے حضرت موسیٰ کی شریعت سابق شریعتوں کی بہ نسبت اور بعض کی شریعت گزشتہ شریعت کو مکمّل کر نے والی یا تجدید کر نے والی تھی جیسے حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کی شریعت کی بہ نسبت ،کہ خدا فرماتا ہے:

( ثُمَّ اَوْحَیْناَاالَیکَ اَن اتّبع مِلّةابرا هیم حنَیفاً... )

پھر اُس وقت ہم نے تمھیں وحی کی کہ ابراہیم کے پاک وپاکیزہ آئین کا اتباع کرو.( ۱ )

اور سورۂ مائدہ کی تیسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( اَلْیَو م اَکْمَلْتُ لَکُمْ دینکُم وَاَتمَمْتُ عَلیَکُم نِعمتی وَرضیتُ لَکُمُ الاِسلامَ دِیْناً )

آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو کا مل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا ۔

ان چند اصطلا حوں سے آشنا ئی کے بعد کہ جن پر قرآن کریم ، حدیث اور سیرت کی کتابوں میں انبیاء کی خبروں کا سمجھنا موقوف ہے.اب ہم انشا ء اللہ ان کے اخبار کی تحقیق کر یں گے اور اپنی بات کا آغا ز حضرت آدم ابو لبشر سے کریں گے۔

____________________

(۱) سورۂ نحل:آیت ۱۲۳.

۴۱

( ۲ )

حضرت آدم ـ

* حضرت آدم ـ کی خلقت سے متعلق چند آیات.

* کلمات کی تشریح

* آیات کی تفسیر

آدم ـ کی خلقت

۱۔ خدا وند سبحا ن سورئہ طہٰ ٰکی ۱۱۵ اور ۱۲۲ آیات میں فرماتا ہے.

( وَلَقَدْعَهِدْنَا اِلٰی آدمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ واَلَمْ نَجدلَهُ عزماً٭...٭ ثم أجْتَباه رَبُّهُ فَتابَ عَلَیْهِ وَهَدیٰ )

اور ہم نے آدم سے عہد وپیمان لیا (کہ شیطا ن کے دھو کے میں نہ آئیں)اور اس عہد میں اُن کو ثابت قدم اور پا ئدار نہیں پا یا ٭ ٭ پھر خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی اور ان کی ہدایت فر مائی اور انھیں مقام نبوت کے لئے انتخاب کیا.

۲۔سورۂ بقرہ کی ۲۷ اور ۳۰ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ ِنِّی جَاعِل فِی الَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا َتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یُفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُساَبِحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ ِنِّی َعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ٭ وَعَلَّمَ آدَمَ الَسْمَائَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ َنْبِئُونِی بَِسْمَائِ هَؤُلاَء ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ٭ قَالُوا سُبْحَانَکَ لاَعِلْمَ لَنَا ِلاَّ مَا عاَلَمْتَنَا ِنَّکَ َنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ٭ قَالَ یَاآدَمُ َنْبِئْهُمْ بَِسْمَائِهِمْ فَلَمَّا َنْبََهُمْ بَِسْمَائِهِمْ قَالَ اَلَمْ َقُلْ لَکُمْ ِنِّی َعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وََعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ ٭ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا ِلاَّ ِبْلِیسَ َبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ ٭ وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ َنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ ٭ فََزَلَّهُمَا الشَّیْطَانُ عَنْهَا فََخْرَجَهُمَا مِمَّا کَانَا فِیهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ وَلَکُمْ فِی الَرْضِ مُسْتَقَرّ وَمَتَاع الَی حِینٍ ٭ فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ راَبِهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ )

۴۲

٭ جب تمہارے رب نے فر شتوں سے کہا:میں روئے زمین پرایک جا نشین بنا ؤں گا ان لوگوں نے کہا آیا ایسے کو بنا ئے گا جو اس میں خو نر یزی اور فساد بر پا کر تے ہیں؟ جب کہ ہم تیری تسبیح اور حمد کر تے ہیں اور تیری پا کیز گی بیان کرتے ہیں فرمایا ! جومیں جا نتا ہو تم نہیں جا نتے اور آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی اس کے بعد انھیں فر شتوں کے سا منے پیش کیا اور ان سے سوال کیا اگر سچّے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو ۔٭ بو لے خدا وند! تو منزہ ہے ہم تو وہی جا نتے ہیں جو تو نے ہمیں سکھا یا ہے تو دانا اور حکیم ہے۔ ٭

فرمایا : اے آدم ! تم ان کے اسماء کی انھیں خبر دو جب آدم نے انھیں آگاہ کیا تو فرمایا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ہم زمین و آسما ن کے غیب کے بارے میں یا جو کچھ ظا ہر اور مخفی رکھتے ہواس سے باخبرہیں٭

جب ہم نے فر شتوں سے کہا آدم کا سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا جز ابلیس کے اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔ ٭ اور ہم نے کہا اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں سکو نت اختیار کرو اور وہ پر جہ سے چا ہو کھا ؤ جو تمھیں پسند آئے ،لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جا ؤ گے ٭ شیطا ن نے انھیں فریب دینے کی کوشش کی اور انھیں جنّت سے باہر کر دیا اور میں نے کہا تم سب کے سب نیچے اترو تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہوگا اور تمہارے لئے زمین میں ایک مدت تک کے لئے ٹھہر سکتے ہو اور اس سے بہرہ مند ہوسکتے ہو ٭ پھر آدم نے اپنے خدا سے چند کلمات یا د کئے اور خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی کہ وہ تو بہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے ۔٭

۳۔ سورۂ آل عمران کی ۳۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( انَّ اللّٰهَ اِصطَفَیٰ آدَمَ وَ نُوحاً وَآلَ ااِبْرَاهیمَ وَآل عِمرَانَ عَلی العَا لمین )

خدا وند عالم نے آدم ،نوح ،خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو سارے جہان پر انتخا ب کیا۔

سورۂ انعام کی ۸۹ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( اُولئک الَّذِینَ آتَینَاهُمُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالَنُّبوَّة... )

وہ لوگ ( انبیائ)وہی ہیں جنھیں ہم نے آسمانی کتاب، فر ما نروائی اور نبوت عطا کی ہے...

۴۳

کلمات کی تشریح

۱۔اجتباہ :

اسے چنااور انتخاب کیا. مفردات راغب میں مذ کور ہے کہ: اجتباہ اللہ العبد یعنی یہ کہ خدا نے بندہ کو الٰہی فیض سے مخصوص کیاوہ بھی اس طرح سے کہ انواع واقسام کی نعمتیں اُس کے اختیار میںدے دیتا ہے بغیر اس کے کہ بندہ نے اس سلسلے میں کوئی کوشش کی ہو. یہ فیض انبیاء اور ان کے ہم مرتبہ صدیقین اور شہداء سے مخصوص ہے۔

۲۔ تابَ :

اُس نے تو بہ کی بندہ کی توبہ اس کی ند امت اور پشیمانی کا پتہ دیتی ہے اس گناہ سے جو انجام دیا ہے لہٰذا اس گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا اور جہاں تک ممکن ہو اس کی تلافی اور تدارک کرنا بندہ کی توبہ ہے۔

لیکن ربّ کی تو بہ کے معنی اپنے بندے کی تو بہ قبول کرنا ، اس کی خطاؤں سے در گذر کر نا ، اس کے ساتھ لطف واحسان کر نا اوراس کی بخشش کر نا ہے۔

۳۔خلیفة :

فرشتوں کی آفر نیش سے متعلق ذکر شدہ بحثوں کے ذیل میں ہم کہیں گے:

خلیفہ کی لفظ قرآن میں مفرد اور جمع دونوں صورتوں میں ذکر ہوئی ہے اور مفرد، جمع کی ضمیر کے ساتھ بھی استعمال ہوئی ہے لیکن جہاں پر مفرد ذکر ہوئی ہے اس سے مراد زمین پر اصفیاء اللہ میں سے برگزیدہ شخص ہے اور جہاں جمع یا جمع کی ضمیر کے ساتھ استعما ل ہوئی ہے وہاں اپنے سے پہلے والی قوموں کی جگہ پر زمین میں لوگوں کی جانشینی مراد ہے۔

پہلی وجہ سے متعلق:

۱۔ خدا کا فرشتوں سے خطاب :( اِنّیِ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً )

میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنا ؤں گا.

۴۴

۲۔خدا کا داؤد سے خطاب:

( یَادَائُ وْدُ اِنَّاجَعَلنَاکَ خَلیفَةً فِی الْاَرْضِ )

اے داؤد!ہم نے تمھیں زمین پرمقام خلا فت عطاکیا.اگرپہلے مورد میں مراد یہ ہو کہ خدا نوع انسان کو زمین پراپنا خلیفہ اورجانشین بنا ئے گا ۔

پھر داؤد کے لئے مقام خلا فت سے مخصوص ہو نے کا شرف باقی نہیں رہ جا تا کیونکہ وہ بھی لوگوں میں سے ایک ہیں کہ خدا نے ان سب کو تا قیام قیا مت زمین پر اپنا خلیفہ اور جا نشین بنا یا ہے.اس بنا ء پر مجبورا ً کہنا چا ہئے: اپنے فرشتوں سے خدا کے خطاب( اِنّی جَاعِل فی الاَرضِ خَلیفہ )کا مطلب تنہا حضرت آدم ہیں یا حضرت آدم اور ان کی بر گزیدہ اولا د جو لوگوں کے امام اور راہ راست کے پیشوا اور راہنما ہیں۔

دوسری وجہ سے متعلق:

۱۔جہاں سورہ ٔ اعراف کی ۶۹ ویں آیت میںحضرت ہود کی اپنی قوم سے گفتگو کی حکایت کرتے ہوئے بیان فرما تا ہے.

( ... وَاذْکُرُ وا اإِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفائَ مِنْ بَعدِ قُومِ نُوح ٍ )

یا د رکھو خدا نے تمھیں قوم نوح کے جانشینوں میں قرار دیا ہے...

۲۔ اس کے بعد، صا لح کی گفتگو اپنی قوم سے متعلق اسی سورۂ کی ۷۴ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَاِذکُرُوا اِذجَعَلَکُم خُلَفائَ مِن بَعدِ عاد ٍ )

یاد رکھو کہ تمھیں قوم عاد کے بعد جا نشین بنا یا.

کیسے ممکن ہے خدا کے دشمن جیسے عاد و ثمود کی اقوام اور ان سے پہلے نوح کی قوم نافرمانی اور خدا سے دشمنی کے سبب، خدا نے انھیں ہلاک کیا اور انکو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے، روئے زمین پر خدا کے خلفا ء اور جانشین ہوں ؟

اس لحا ظ سے جناب ہود علیہ اسلام کی اپنے قوم سے گفتگو کا مطلب جو انھوں نے کی ہے :

( جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ نُوح ٍ ) یہ ہے کہ خدا نے روئے زمین پر تم کو قوم نوح کا جانشین قرار دیا ہے اور حضرت صا لح کی اپنی قوم سے گفتگو کہ جو انھوں نے کی ہے:

۴۵

( جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ عاد ٍ ) یہ ہے کہ قوم عاد کے بعد تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دیا ہے۔

تیسری وجہ جو جمع کی ضمیر کے ساتھ ذکر ہوئی ہے وہ بھی اسی طرح سے ہے مثلاً سورہ ٔ اعراف کی ۱۲۹ ویں آیت میں حضرت یو نس کے اپنی قوم سے خطاب میں اسی طرح ذکر ہوا ہے:

( عََسَیٰ رَبَّکُمْ اَنْ یُهْلِکَ عَدُ وَّکُم وَیَسَتخِلَفکُمْ فِی الْاَرْضِ... )

امید ہے کہ خدا وند عالم تمہارے دشمنوں کو زمین سے نابود کر دے اور تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دے... مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم انھیں ان کے دشمنوں کی جگہ روئے زمین پر جانشین قرار دے گا۔

۴۔ا لاسماء :

عربی لغت میں اسم کے دو معنی ہیں:

۱۔ ایسا لفظ جو مسمیٰ پر دلالت کرتا ہے اور اسے دیگر تمام لوگوں سے ممتاز کر تا ہے مانند مکّہ جو کہ ایک شہر کا نام ہے جس میںکعبہ مشرفہ اور بیت ﷲ الحرام پایا جاتا ہے اور اشخاص کے نام جیسے یوسف، فیصل، عباس وغیرہ۔

۲۔ ایسا لفظ جو مسّمیٰ کی حقیقت یا اس کی صفت پر دلالت کرتا ہے جیسے اس آیہ شریفہ میں لفظ (اسم) (ساَبِحِ اسْمَ راَبِکَ الْاَ عْلٰی) (اے ہمارے رسول! ) اپنے خدا کے نام کی تسبیح کرو جو کہ تمام مو جودات سے بلند و با لا ہے (سورۂ اعلی آیت۱) کہ یہاں پر مراد اسم خدا کی تسبیح کرنا نہیں ہے بلکہ مراد ربّ کی صفت ہے یعنی اپنے بلند رتبہ ربّ کی ربو بیت کو پاک و منزہ قراردو ان چیزوںسے جو اس کی کبر یا ئی کے لئے زیبا نہیں ہیں۔اور اسی طرح سے یہ آیہ شریفہ ہے کہ فرماتا ہے ( وَعَلّمَ آدَمَ ا لْاَ سْمَاْئَ کُلَّھَا) (آدم کو تما م اسماء کی تعلیم دی ) اس سے یہاں پر یہ مراد نہیں ہے کہ خدا وند عالم نے اپنے خلیفہ آدم کو مراکز کے اسماء جیسے بغداد، تہرا ن اور لندن یا آدمی کے بد ن کے اعضا ء جیسے آنکھ، سر اور گردن ْیاپھلوں کے نام جیسے انجیر، زیتون اور انار، یا پتھروں جیسے یاقوت، دُر، زبرجد، یا معادن جیسے سونا، چاندی، پیتل، لوہا، وغیرہ وغیرہ کہ آدمی نے ان چیزوں کے مختلف عنوان سے نام رکھے ہیں،تعلیم دی ہو بلکہ مقصود یہ ہے کہ خدا نے اپنے خلیفہ کو اشیاء کے صفات اور ان کے حقائق سے آگاہ کیا ہے ہم نے خدا کی مرضی سے دوسری جلد میں '' (اسمائے حسنیٰ الٰہی'' ) کی بحث میںاسی سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

۴۶

۵۔نسبّح بحمدک:

سَبحّ یعنی منزہ خیال کیا اور سبحان اللہ یعنی خدا پاک اور منزہ ہے.

۶۔نقدّس:

قدّس اللّٰہ تقد یسا ً، یعنی خدا کی شا ئستہ ترین انداز سے تقدیس کی.اور اس کی حمد و ثنا کی اور اسے عظیم اور با عظمت جانا اور اسے تمام ان چیزوں سے جو اس کی ذات اور مقام کے لئے مناسب اور شائستہ نہیں ہے اور مسند الوہیت کے لئے زیبا نہیں ہے، پاک و منزہ جانا۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ اسلام کی توبہ قبول کی اور اُن کا انتخاب کیا اور اپنی وحی کے لئے چنا ٹھیک اسی طرح جس طرح دیگر پیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت کے لئے چنا ہے۔

ابن سعد کی طبقات اور احمد ابن حنبل کی مسند میں اسی طرح ذکر کیا گیاہے اور ہم یہاںپر صرف ابن سعد کی طبقات سے عبارت نقل کرتے ہیں:

لوگوں نے حضرت آدم کے سلسلہ میںحضرت رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ آیا حضرت آدم نبی تھے یا فرشتہ؟

تو رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا:

وہ نبی مکلَّم تھے یعنی ایسے شخص تھے جن سے خدا نے وحی کے ذریعہ گفتگو کی ہے۔

حضرت ابوذر سے مروی ہے کہ آپ نے کہا میں نے رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا۔سب سے پہلے نبی کو ن تھے ؟

۴۷

فرمایا:آدم ۔

میں نے سوال کیا : کیا آدم نبی تھے؟

جواب دیا : ہاں ،نبی مکلّم تھے۔

میں نے پو چھا رسولوں کی تعداد کتنے افراد پر مشتمل تھی؟

جواب دیا: ان کی مجمو عی تعداد تین سو پندرہ (۳۱۵)افراد پر مشتمل( ۱ ) ہے۔

منجملہ وہ امور جو ان کی شریعت میں ذکر ہوئے ہیں، حج ،خانہ کعبہ کے ارد گرد طواف اور جمعہ کی نماز تھی۔

ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے:

رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما یا: جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور خدا کے نز دیک ان میں

____________________

(۱) طبقات ابن سعد ،طبع بیروت، سال : ۱۳۷۶، ج۱، ص ۳۲و ۳۴، طبع یورپ ، ص ۱۰ و۱۲ اور مسند احمد، ج ۵، ص ۱۷۸، ۱۷۹، ۲۶۵، ۲۶۶ اور تاریخ طبری طبع یورپ، ج۱، ص ۱۵۲ اور دوسری حدیثیں دوسرے مصادر میں مختلف الفاظ کے ساتھ

۴۸

سب سے عظیم دن ہے، کیو نکہ، خدا نے اُس دن حضرت آدم ـکو پیدا کیا اور اسی دن آدم کو زمین پر بھیجا اور اسی دن آدم ـ کو دنیا سے اٹھا یا ۔( ۱ )

حضرت آدم ایسے پیغمبر تھے کہ خدا وند سبحا ن نے انھیں کتاب اور حکمت عطا کی تھی تاکہ اپنے زمانے کے لوگوں کو کہ ان کے زمانے میں ان کی بیوی اور بچے تھے ہدایت کریں۔ وہ اولوالعزم پیغمبروں میں نہیں تھے یعنی بشیر(بشارت دینے وا لے) اور نذ یر(ڈرانے والے) نہیں تھے۔

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ حضرت آدم کو عراق کی سر زمین پر جہاں انھوں نے وفات پا ئی ہے دفن کیا گیا ہے۔

حضرت آدم نے اپنی حیات میں اپنے فرزند(شیث) سے وصیت کی اور انھیں اپنی شریعت کی حفا ظت اور اس کی تبلیغ کی تاکید کی.خدا کی توفیق سے انشاء اللہ آیندہ فصل میںاس موضوع کے حالات کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)طبقات ابن سعد ،طبع بیروت ، ج۱،ص ۳۰ ، طبع یورپ ، ج۱ ، ص ۸.

۴۹

( ۳ )

حضرت آدم ـکے بعد اوصیاء سیرت کی کتابوں میں :

* مقدمہ

* شیث ہبة اللہ

* شیث کے فرزند انوش

* انوش کے فرزند قینان

* قینان کے فرزند مہلائیل

* مہلائیل کے فرزند یرد

* یرد کے فرزنداخنوخ(ادریس)

* اخنوخ (ادریس) کے فرزند متوشلح

* متوشلح کے فرزند لمک

مقدمہ

ابن سعد کی طبقات اور تاریخ طبری اور دیگر مآخذ میں اختصار کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے فر مایا:

حوا سے آدم علیہ اسلام کے بیٹے ہبة اللہ پیدا ہوئے جنھیں عبری زبان میں(شیث)کہا جا تا ہے اور حضرت آدم نے انھیں اپنا وصی قرار دیا .شیث انوش نامی فرزند کے باپ ہوئے اور جب شیث بیمار ہوئے تو انوش کو اپنا وصی اور جا نشین بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے۔

انوش کے فرزند قینان اپنے باپ کے وصی ہوئے۔

قینان کے فرزند مہلائیل اپنے باپ کے وصی ہوئے۔

مہلائیل کے فرزند''یردیا الیارد'' ان کے وصی ہوئے۔

۵۰

اخنوخ کہ وہی ادریس پیغمبر ہیں یرد کے فرزند اور ان کے وصی ہیں۔( ۱ )

متوشلح کے فرزند لمک ان کے وصی ہوئے۔

یہ سارے مطا لب ابن سعد اور طبری کی اس روایت کا خلا صہ ہیں جو ابن عباس سے حضرت آدم کے اوصیاء کے اخبار سے متعلق مروی ہے۔

ان کے اخبار کا فی بسط وتفصیل سے تاریخ یعقوبی متو فی۲۸۴ھ اور مسعودی متوفی ٰ ۲۴۶ھ اور سبط ابن جوزی متوفی ٰ ۶۵۴ ھ میں مذکور ہیں انشاء اللہ اس کی تفصیل بیان کی جائے گی ۔

____________________

( ۱)۔ مذکورہ اخبار کا پتہ لگا نے کے لئے ملاحظہ فرمائیں ابن سعد کی طبقات،طبع یورپ،ج۱،ص ۱۴۔۱۷؛تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱، ص ۱۵۳، ۱۶۵، ۱۶۶؛ شیث سے جناب آدم کی وصیت کی خبر : تاریخ ابن اثیر میں، ج، ۱،ص ۱۹۔۲۰ اور ج۱، ص ۴۰۔ ۴۸ اور تاریخ ابن کیثر، ج۱، ص ۹۸؛ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۱ ، اُس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اخنوخ وہی ادریس پیغمبر ہیں.

۵۱

شیث ہبة اللہ سیرت کی کتابوں میں

* شیث ـ کی ولادت

* حضرت شیث ـسے حضرت آدم ـ کی وصیت

* ان کا حکم اور خانہ خدا کا حج

* ان کا اپنے فرزند انوش ـسے وصیت کرنا

حضرت شیث ـکی ولا دت

مسعودی نے مروج الذ ھب میں تحریر فر مایا ہے:

جب جناب حو ّ ا کے بطن میں شیث قرار پا ئے تو ان کی پیشا نی سے نورچمکنے لگا. اور جب شیث پیدا ہوگئے تو وہ نورشیث میں منتقل ہو گیا اور جب شیث بالغ ہوئے اور ایک کا مل اور پختہ جوان ہوگئے تو حضرت آدم نے انھیں اپنا جا نشین قرار دیا اور اپنی وصیت ان کے درمیان رکھی اور انھیں آگاہ کیا کہ وہ آدم کے بعد خدا کی حجت اور روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں.انھیں چاہئے کہ اپنے جا نشینوں تک حق کو پہنچا ئیں اور وہ دوسرے وہ شخص ہیں کہ خاتم ا لا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور جن میںمنتقل ہوا ہے ۔( ۱ )

حضرت آدم ـ کی وصیت حضرت شیث سے

اخبار الزمان میں مذکور ہے:

جب خدا وند عالم نے حضرت آدم کی موت کا ارادہ کیا تو انھیں حکم دیا کہ اپنی وصیت اپنے فرزندشیث کے حوالے کر دیں اور تمام وہ علوم و دانش جو انھیں تعلیم دیئے گئے تھے انھیں تعلیم دے دیں، تو آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

تا ریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

جب حضرت آدم کی موت کا وقت قر یب آیا تو حضرت شیث اپنے فرزند اور پوتوں کے ہمراہ ان کی خدمت میں پہو نچے حضرت آدم نے اُن پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا وند عالم سے بر کت کی درخواست

____________________

(۱)مسعودی کی مروج الذھب کی ج۱،ص ۴۷،۴۸ میں شیث کے حالا ت زندگی کا خلاصہ.(۲)مسعودی کی اخبار الزمان کا خلا صہ،طبع دار الاندلس بیروت ۱۹۷۸ ئ، سبط ابن جوزی نے بھی بعض اخبار وصیت کوشیث کے حالات زندگی کے ضمن میں مرآة الزمان نامی کتاب،طبع دار الشروق بیروت ۱۴۰۵ ھ ص ۲۲۳ پر ذکر کیا ہے.

۵۲

کی ، پھر اُس کے بعد اپنی وصیت شیث کے حوالے کی اور انھیں حکم دیا کہ ان کے جسد کی حفا ظت کریںاور ان کے مر نے کے بعد غار گنج میں رکھد یںاور پھر اس کے بعد اپنی رحلت کے وقت اپنے فرزند او رپو توں کو یکے بعد دیگرے وصیت کریں اور موت کے وقت ہر شخص دوسرے کو اپنا وصی و جا نشین بنائے؛ اور جب اپنی سرزمین سے نیچے آجائیں تو ان کے جسد کو لے کر زمین کے وسط(درمیان) میں رکھ دیں. پھر شیث کو حکم دیا کہ ان کے بعد ان کے فرزندوں میں ان کا قائم مقام رہتے ہوئے، انھیں تقوای الٰہی اور اس کی عبادت وپرستش کا حکم دیں اور انھیں قابیلیوں کے ساتھ مخلوط ہو نے سے روکیں، پھر اس کے بعد حضرت آدم نے ان تمام پر درود بھیجا اور آپ کی آنکھ بند ہوگئی اور جمعہ کے دن دنیا سے رحلت کر گئے۔( ۱ )

ان کا فیصلہ اور خا نۂ خدا کا حج

الف۔ تا ریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

شیثاپنے باپ حضرت آدم کی موت کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور لوگوں کو تقوائے الٰہی اور نیک کاموں کا حکم دیا۔( ۲ )

اخبار الزمان میں ذ کر ہے کہ: خدا وند عالم نے حکم دیاکہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں اور حج وعمرہ بجالائیں شیث سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے عمرہ کیا ہے۔( ۳ )

ب۔مرآة الزمان کتاب میں مذکور ہے :

جب حضرت آدم دنیا سے رخصت ہوگئے، شیث مکّہ تشر یف لائے اور حج و عمرہ انجام دیااور خانہ کعبہ کی فرسودگی اور پرانے ہو نے کے بعد اس کی نئے سر ے سے تعمیر کی اور اسے پتھر اور مٹی سے تعمیر کر کے زمین کی آبادی و عمران کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے باپ کے مانند مفسدوں پر حدود الٰہی کا اجراء کیا ۔( ۴ )

ج۔ مروج الذھب نامی کتاب میں مذکور ہے :

جب حضرت آدم نے شیث سے وصیت کی تو شیث نے اس کے مضمون کو ذہن میں رکھ لیااور لوگوں کے درمیان حکو مت اور فرمانر وائی کر نے لگے اور باپ کے قوا نین کا اجراء کیا پھر اس کے بعد ان کی بیوی

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی، طبع بیروت، ج۱،ص۷.(۲)تاریخ یعقوبی،ج۱، ص۸.(۳)اخبار الزمان ،ص۷۶.(۴)مرآة الزمان، ص ۲۲۳.

۵۳

حاملہ ہوئیں اور انوش کو جنم دیا یہی وقت تھا کہ شیث کی پیشانی میں موجود درخشاں نور انوش میں منتقل ہوگیا. یہ انتقال ان کی ولادت کے وقت عمل میں آیا. جب انوش بالغ ہوئے اور کمال کی منزل کو پہونچے تو شیث نے حضرت آدم کی امانت ان کے حوالے کی اور انھیں اس وصیت کی کرامت، عظمت، شرافت اور مرتبہ سے آگا ہ کیا اور انھیں وصیت کی کہ( وہ بھی) اپنے فرزند کو اس شرف وکرامت کی حقیقت سے آگا ہ کریں اور وہ اپنے فر زندوں کو بھی اس امر سے آگاہ کریں اور اس وصیت کے امر کو جب تک نسلوں کا سلسلہ قائم ہے یکے بعد دیگرے آپس میں منتقل کرتے رہیں۔( ۱ )

وصیت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور ایک صدی سے دوسری صدی تک منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ خداوند عالم نے نور تاباں کو جناب عبد المطلب اور اُن سے اُن کے فرزند عبد اللہ رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد تک پہنچا یا اور ہم انشاء اللہ ان میں سے بعض اخبار کو اجداد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخبار کے ضمن میں ذکر کریں گے۔

شیث کی اپنے فرزند انوش سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

جب شیث کی موت کا زمانہ آیا تو ان کے فرزندوں اور پوتوں نے کہ جن میں انوش، قینان، مہلائیل، یرد،اخنوخ اور ان کی عورتیں اور بچے شامل تھے، ان کے بستر کے پاس سب جمع ہوگئے شیث نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت طلب کی اور تمام چیزوں سے پہلے اس بات کی وصیت کی کہ قا بیل ملعون کی اولاد کے قریب نہ جائیں اور ان سے رفت وآمد نہ رکھیں، پھر اس وقت اپنے بیٹے انوش سے وصیت کی اور انھیں حکم دیا کہ حضرت آدم کے جسدکو اسی طرح محفوظ رکھیں.اور یہ کہ تقوائے الٰہی اختیار کریں اور اپنی قوم کوبھی تقوائے الٰہی اور نیکی کا حکم دیں؛ پھر اس کے بعد آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۲ )

____________________

(۱) مروج الذھب، مسعودی،۱۔۴۸.(۲) تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص ۸۔۹.

۵۴

حضرت شیث ـ کے فرزند انوش ـ

* انوش ـکی ولادت اور ان سے شیث ـکی وصیتاور خا تم ا لا نبیاء صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کا ان میں منتقل ہو نا

* انوش ـ سب سے پہلے شخص جنھوں نے درخت لگا یا اور زراعت کی.

* انوش ـ کی اپنے فرزند قینان سے وصیت اور حضرت آدم ـ کے صحیفوں کی انھیں تعلیم

* انوش ـ کی وفات

۵۵

انوش کی ولادت اور ان سے شیث کی وصیت اورخا تم ا لا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا ان میں منتقل ہو نا ۔

مرآة الزمان میں مذ کور ہے:

انوش حضرت آدم کی حیات ہی میں پیدا ہو چکے تھے. جب حضرت شیث نے اپنی موت کو قر یب پا یا تو اپنے فر زند انوش کو اپنا وصی قرار دیااور انھیں اس نور سے جو ولادت کے وقت اُن میں منتقل ہوا تھا (یعنی حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور کہ ان کی نسل سے دنیا میں آئیں گے) آگاہ کیااور انھیں حکم دیا کہ اپنی اولاد کو اس افتخار و شرف سے کہ ایک بزرگ سے دوسرے بزرگ اور ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو گا آگاہ کریں۔

انوش نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے فرا مین کی انجام دہی میں س بہترین طریقہ اپنایا اور رعا یا کے امور کی تد بیر اور قوانین الٰہی کے اجراء کے لئے اپنے باپ کے زمانے کی طرح قیام کیا وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے خرمے کا درخت لگا یا اور زمین میں دانہ ڈ الا۔(۱ )

سب سے پہلا شخص جس نے درخت لگا یا اورکھیتی کی

مر وج الذ ھب میں مذکور ہے :

انوش نے زمین کو آباد کرنے اور اُسے قا بل زارعت بنا نے کے لئے اقدام کیا.اس کے بعدان کے فرزند قینان پیدا ہوئے، تا بندہ نور قینان کی پیشانی پر درخشندہ ہوا.انوش نے اس نور کے بارے میں قینان سے عہد وپیمان لیا( ۲ ) ( یعنی ان سے عہد و پیمان لیا کہ پیغمبر ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے حاملین کو جو کہ انھیں کے فرزند وںمیں سے ہو گے اس نور کے وجود اور اس کی بر کت سے آگاہ کریں گے۔

____________________

(۱)مرآة الزمان، ص ۲۲۳.(۲) مروج الذھب، مسعودی،ج۱،ص۴۹.

۵۶

انوش کی اپنے فرزند قینان کو وصیت اور انھیں حضرت آدم ـکے صحیفوں کی تعلیم دینا

اخبار الزمان میں مذکور ہے:

انوش حضرت شیث کے فرزند تھے جو کہ ان کے سب سے پہلے فرزند شمار کئے جاتے ہیں اور اپنے باپ کے وصی تھے.انوش نے بھی اپنی رحلت کے وقت اپنے بیٹے قینان کو اپنا وصی بنایا اور (حضرت آدم کے) صحیفوں کی تعلیم دی۔( ۱ )

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

شیث کے فرزند انوش نے اپنے باپ اور دادا کی وصیت کی حفا ظت اور نگہد اشت کی اور انھوں نے باحسن الوجوہ خدا کی بند گی اور عبادت کی اور اپنی قوم کو بھی حکم دیا کہ خدا کی احسن طریقہ سے عبادت وپرستش کریں۔( ۲ )

انوش کی وفات

تاریخ طبری میں مذ کور ہے :

انوش اپنے با پ کے بعد ملکی نظام کو چلانے اور رعا یا کے نظم و تد بیر میں مشغول ہوگئے.( ۳ )

جب رحلت کا وقت قریب آیا تو اپنے فر زندوں اور فرزندوں کے فرزندوں ( پو توں ) مہلائیل، یرد، اخنوخ (ادریس)متوشلح اور ان کی عورتوں اور ان کے فرزندوں کو بلا یا.اور جب سب حا ضر ہوگئے توسب پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت کی درخواست کی؛اور اس بات سے منع فر مایا کہ ان کے فرزندوں میں سے کو ئی بھی قا بیل ملعون کی اولاد سے معا شرت اور رفت وآمد کرے، پھر اس وقت قینان کو اپنا وصی نامزد کیا اور انھیں حضر ت آدمکے جسد کی حفا ظت کی وصیت کی اور سب کو حکم دیا کہ ان کی خد مت میں خدا کی نما ز پڑھیں اور اس کی بکثرت تقدیس کریں .پھر اس وقت آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۴ )

____________________

(۱) اخبار الزمان ص۲۲۳۔ ۲۲۴ .(۲)تاریخ یعقوبی ، طبع بیروت، ج ۱ ،ص۸.(۳) تاریخ طبری ، طبع یورپ،ج ۱ ،ص ۱۶۵

(۴) تاریخ یعقوبی ،ج ۱ ، ص۸۔۹.

۵۷

انوش کے فرزند قینان

* قینان کا عرصہ وجود پر قدم رکھنا اور ان کی پیشا نی میں خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا درخشاں ہو نا

* انوش نے قینان کو حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم دیتے ہوئے حکم دیا کہ نما ز قا ئم کریں اور تمام احکام کا اجراء کریں

* قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

حضرت قینان کا عرصہ وجود پر قدم رکھنا اور ان کی پیشانی میں حضرت خاتم الا نبیا ء کے نو ر کا درخشاں ہو نا.

الف۔ مروج الذھب میں ذ کر کیا گیا ہے:

انوش کے فرزند قینان پیدا ہوئے جب کہ وہ نورِمعہود ( خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور )ان کی پیشا نی میں ضوبارتھاانوش نے قینان کے پیدا ہو جا نے کے بعد ان کی جا نشینی اور وصا یت کے بارے میںدوسروں سے عہد وپیمان لیا.( ۱ )

ب ۔مرآة الزمان نا می کتاب میں مذ کور ہے:

جب حضرت انوش کی موت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے فر زندقینان سے وصیت کی اور وہ معہود نور قینان میں منتقل ہو گیا۔

انوش نے قینان کو اس راز کی حقیقت سے جو انھیں سپرد کیا گیا تھا آگاہ کیا پھر انوش کے انتقال کے بعد قینان نے باپ کی روش اپنا ئی۔( ۲ )

مؤ لف فرماتے ہیں: سرسے مراد، وہی حضرت خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ہے کہ جو پے در پے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہااورہم ا نشاء اللہ اس عہد کے معنی کی خدا کی مر ضی سے انھیں مطا لب کے ذیل میں تحقیق کریں گے.

____________________

(۱) مروج الذ ھب، ج ۱، ص ۴۹.(۲)مرآة الز مان، ص ۲۲۴.

۵۸

انوش نے صحیفوں کی قینان کو تعلیم دی اور انھیں نماز قائم کر نے اور دیگر احکام کا حکم دیا

اخبار الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:

انوش نے اپنے فرزند قینان کو اپنا وصی مقر ر کیا وہ اس سے پہلے حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم انھیں

دے چکے تھے اور زمین کے ٹکروں اور اس بات کو کہ کون کو ن سی چیز ان کے اندر ہے ان کے لئے بیان کیا۔

انھوں نے قینان کو حکم دیا کہ نما ز قا ئم کریں زکاة دیں، حج بجا لائیں اور قا بیل کی اولاد سے جنگ کریں قینان نے حکم کی تعمیل کی اور باپ کے دستورات کا اجراء کیا۔( ۱ )

قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے :

قینان ایک خلیق ،ملنسا ر اہل تقویٰ اور پر ہیز گار انسا ن تھے اپنے باپ کے بعد وظا ئف کے انجام دینے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی قوم کو خدا کی اطا عت و فرما نبرداری اور اس کی بنحو احسن عبادت کر نے اور حضرت آدم اور حضرت شیث کی وصیتوں کی پیروی کا حکم دیا.اور جب قینان کی موت کا وقت قریب آیا تو ان کے فر زند اور فر زندوں کے فرزند '' پو تے ''یعنی مہلائیل، یرد ، متوشلح،لمک ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کے پا س جمع ہوگئے. قینان نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے بر کت کی دعا کی پھر اس وقت مہلائیل سے وصیت کی اور انھیں حضرت آدم کے جسد کی حفا ظت اور نگہداشت کا حکم دیا۔( ۲ )

____________________

(۱)اخبار الزمان،ص۷۷.(۲ )تاریخ یعقوبی ۔ج۱،ص ۹.

۵۹

قینان کے فرزند مہلائیل

* مہلائیل اپنی قوم کو خدا کی اطا عت و فر مانبرداری کا حکم دیتے ہیں.

* مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے درخت کاٹا، شہروںاور مسا جد کی بنا ڈالی اور معدنیات کے نکالنے میں مشغو ل ہوئے.

* مہلائیل اپنے فر زند یر د کو وصیت کرتے ہیں اور حضرت آدم کے صحیفوں کی انھیںتعلیم دیتے ہیں.

* مہلائیل اپنی قوم کو اپنے فرزند یرد کے اندر حضرت خاتم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کے منتقل ہونے کی خبر دیتے ہیں.

۶۰

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

قینان کے بعد ان کے وصی مہلائیل اپنی قوم کے درمیان آئے اور انھیں خدا وند عالم کی اطاعت اور اپنے باپ کی وصیت کا اتباع کر نے کا حکم دیا۔

جب مہلائیل کی موت کا زمانہ قر یب آیا ، تو انھوں نے اپنے فر زند ( یرد) کو اپنا وصی اعلان کیا اورحضرت آدم کے جسد کی حفاظت کی وصیت کی پھر وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۱ )

مرآة الزمان میں مذ کور ہے:

قینان نے موت کے وقت اپنے فرزندمہلائیل کو اپناوصی قرار دیا اور انھیںاُس نور کے بارے میںجو ان تک منتقل ہوا ہے آگاہ کیا. مہلائیل نے بھی باپ کی سیرت کو لوگوں کے ساتھ قا ئم رکھا۔( ۲ )

مہلائیل وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے گھر بنا یا، مسجدیں قائم کیں اور معدن ( کان) کا استخراج کیا:

تاریخ طبری میں مذ کور ہے کہ :

حضرت مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے درخت کاٹ کر(اس کی لکڑی سے فا ئدہ اٹھا یا اور) گھر بنایا اور معدن کے استخراج میں مشغول ہوئے. اور اپنے زمانے کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ عبادت کے لئے کسی مخصوص جگہ کا انتظام کر یں ،وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے روئے زمین پر شہروں کی بنیاد ڈالی؛ انھوں نے دو شہروں کی بنیا د ڈالی ہے ایک کوفہ کے اطراف میں با بل اور دوسرا شوش نامی شہر ہے۔( ۳ )

تاریخ کامل ابن اثیر میں مذکور ہے کہ :

مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے لوہے کا استخراج کیا اور اس سے صنعت کے آلا ت بنائے انھوں نے لو گوں کوزراعت اور کسانی کی تشو یق دلائی اور حکم دیا کہ درندہ جا نوروں کو مار کر اور ان کی کھال سے جسم چھپائیں. گا ئے، بھیڑ اور دیگر جنگلی حیوا نات کا سر کاٹ کر ان کے گو شت سے استفادہ کریں یعنی کھا ئیں۔( ۴ )

____________________

( ۱)تاریخ یعقوبی ،ج۱،ص۱۰.(۲)مرآة الزمان،ص ۲۲۴ (۳)تاریخ طبری۔ج۱،ص ۱۶۸.(۴)الکا مل فی التاریخ،۱،ص ۲۲.

۶۱

مہلائیل ـ کی اپنے فرزند یرد سے وصیت

اخبار الز مان میں مذکور ہے کہ :مہلائیل نے اپنے فرزند یو ارد( یرد ) کو اپنا جانشین بنایا اور حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم دی اور زمین کے حصّوں اور اس بات کی کہ دنیا میں کیا ہو گا انھیں تعلیم دی؛ اور کتاب سر ملکوت کہ جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور جسے اوصیاء مہر شدہ اور لفافہ بند میراث پا تے تھے ان کے حوا لے کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)اخبار الزمان،ص۷۷.

۶۲

مہلائیل کے فرزند یوارد

* یوارد کا پیدا ہونا اور حضرت خا تم الا نبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کاان میں منتقل ہونا.

* ان کے باپ مہلائیل کی ان سے وصیت.

* یوارد کی اپنے فرزند اخنوخ ( ادریس پیغمبر )سے وصیت.

۶۳

یرد کا عرصۂ وجود پر قدم رکھنا اور ان میں نور کا منتقل ہو نا

مروج الذھب میں مذکور ہے:

یوارد،( ۱ ) مہلائیل کے فرزنددنیا میں تشریف لائے اور وہ نور جو ( ایک وصی سے دوسرے وصی تک)بعنوان ارث پہنچتا رہا ان تک منتقل ہوا ، عہد و پیمان ہوا اور حق اپنی جگہ ثابت اور بر قرار ہو گیا۔( ۲ )

مہلائیل کی اپنے فرزند یرد سے وصیت

کتاب مرآة الزمان میں مذکور ہے:

مہلائیل نے اپنے فر زند یر دسے وصیت کی اور انھیںسرِّمکنون(پو شیدہ راز ) اور حضرت خاتم محمدمصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے انتقال کے بارے میں خبر دی. یرد نے صالحین اور نیک افراد کی سیرت اپنائی۔

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

مہلائیل کے بعد یرد ان کے جا نشین ہوئے.وہ ایک با ایمان اور خدا وند عزّوجل کے کامل عبادت گذار انسان تھے اورشب وروز میں بہت زیادہ نما زیں پڑھتے تھے۔

یرد کا زمانہ تھا کہ شیث کے فرزندو نے کئے ہوئے عہدوپیمان کو توڑڈ الا (اور شیث او ر دیگر افراد کی وصیت کے بر خلا ف، کوہ رحمت سے ) نیچے آکر قابیلیوں کی سرزمین پر ق دم رکھ د یا اور ان کے ساتھ گنا ہوں میں شر یک ہوگئے۔( ۳ )

یرد کی اپنے فرزند ادریس سے وصیت

جب یرد کی موت کا زمانہ قر یب آیاتوان کی اولاد اور اولاد کی اولاد یعنی اخنوخ،متوشلح، نوح اور لمک ان کے پاس جمع ہوگئے یرد نے ان پر درو د بھیجا اور ان کے لئے خدا سے بر کت کی دعا کی اس گھڑی اپنے فرزند اخنوخ ( ادریس ) کو حکم دیا کہ ہمیشہ غا ر گنج میں(کہ جس میں حضرت آدم کا جسد ہے ) نماز پڑھیں، پھر آنکھ بند ہوئی او ر دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۴ )

____________________

( ۱)عربی توریت کے نسخوں میں یرد کو '' یوارد '' لکھا گیا ہے اور مرآة الزمان کے ص ۲۲۴ میں ''یرد'' کو توریت میں موجود یوارد کی تقریب کے عنوان سے استعمال کیا گیا ہے.تاریخ یعقوبی کی پہلی جلد کے دسویں(۱۰) صفحہ میں یوارد کو مخفف کر کے یرد لکھا گیا ہے.مروج الذھب،ج۱، ص ۵۰ پر ''لور '' کو تحریف کر کے استعمال کیا گیا ہے لیکن اخبار الزمان ص ۷۷ اور تاریخ ابن اثیر،ج۱،ص ۲۲ اور طبری ،ج ۱،ص ۱۶۸ پر یوارد ہی مرقوم ہے.(۲)مروج الذھب ،مسعودی ،ج۱،ص۵۰.(۳)تاریخ یعقوبی،ج ۱، ص ۱۱ ، اخبار الزمان ،ص۷۷.(۴) تاریخ یعقوبی،ج۱ ، ص ۱۱.

۶۴

خدا کے پیغمبر ادریس (اخنوخ)

* قرآن کریم میں ادریس کا نام.

* ا دریس سیرت کی کتا بوں میں

* آسمانی صحیفوں کا ادریس پر نازل ہو نا.

* خدا وند عالم نے ادریس کو مہینوں اور ستاروں کے اسماء تعلیم دئیے.

* ادریس وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سوئی اور دھاگہ کا استعمال کیا اور کپڑا سلا.

* حضرت ادریس کے عہد میں شیث اور قابیل کے فرزندوں کے درمیان اختلاط

* ادریس کی ا پنے بیٹے متوشلح سے وصیت.

۶۵

۱۔قرآن کریم میں ادریس کا نام

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِدْریسَ اِنَّه کَانَ صِدِّیقاًًناَبِیاً٭وَرَفَعْناَهُ مَکَاناًًعلیا ً )

اس کتاب میں ادریس کو یاد کروکہ وہ صدیق پیغمبر تھے.اور ہم نے ان کو بلند مقا م عطا کیا ہے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

الف۔ صدّیق:

اللہ اور اس کے پیغمبر وںکے تمام اوامر کی تصدیق کر نے والا.جیسا کہ سورہ ٔحدید میں فر ماتا ہے۔

( وَالَّذِینَ آمَنُوا بِا للّٰهِ وَرُسُله اُولئکَ هُمْ الصِّدِّ یقون... ) ( ۲ )

جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ہیںوہ لوگ صدیق ہیں۔

ایسی چیز کا امکان نہیں ہے مگر جب امر الٰہی کے قبول کرنے اور خواہشات نفسانی کے ترک کرنے میں انسان کا قول و فعل ایک ہو. اس لحا ظ سے صد یقین کا مر تبہ انبیا ء کے بعد ہے اور ہر نبی صدیق ہے لیکن بعض صد یقین انبیاء میں سے نہیں ہیں۔

ب۔ علیّاً :

علےّاً یہاں پر بلند و بالا مکان کے معنی میں ہے اور تو ریت میں مذ کورہے کہ اخنوخ خدا کے ہمراہ گئے لیکن دکھا ٰئی نہیں دئیے کیونکہ خدا نے ان کو اٹھا لیا تھا ۔

۲ ۔ ادریس سیرت کی کتابوں میں

ادریس کا عرصۂ وجود پر قدم رکھنا اور خا تم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ان میں منتقل ہو نا.

____________________

(۱) سورۂ مریم: آیت: ۵۶،۵۷.۲۔(۲) سورۂ حدید: آیت: ۱۹.

۶۶

تاریخ طبری میں مذ کو ر ہے۔

حضرت ادریس کے والد یرد اور ان کی ماں برکنا تھیں وہ اُس وقت پیدا ہوئے جب حضرت آدم کی عمر کے ۶۲۲ سال گذ ر چکے تھے. وہ اس اعتبار سے ادریس کہلا ئے کہ انھوں نے آدم اور شیث کے صحیفوں کا کافی مطالعہ کیا کرتے تھے ۔

حضرت آدم کے بعد سب سے پہلے پیغمبر حضرت ادریس ہیں. وہ نور محمدی کے حامل تھے اور یہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے لباس سل کر زیب تن کیا تھا ۔

حدیث میں مذ کور ہے کہ انبیاء حضرات کا رزق یا کاشت کاری کے ذریعہ حاصل ہوتا تھا یا جانوروں کی رکھوا لی کے ذ ریعہ سوائے ادریس پیغمبر کے کہ وہ خیاط یعنی درزی تھے۔

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: کوفہ میں مسجد سہلہ حضرت ادریس کا گھر تھا جہاں آپ سلائی کرتے اور نماز پڑھتے تھے۔

جب ادریس ۶۵ سال کے ہوئے تو (ادانہ) نامی ایک عورت سے شادی کی اور اس سے متوشلح اور دیگر بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں پھر اس وقت شیث کی اولاد سے خدا کی عبادت کی درخواست کی اور یہ خواہش کی کہ شیطان کی پیروی نہ کریں. اور قابیلیوں سے برے اعمال ، زشت افعال اور گمراہی میں اختلاط نہ کریں، لیکن انھوں نے ان کی بات نہیں مانی اور ان میں سے بعض گروہ قابیلیوں سے مخلو ط ہوگئے ، محر مات اور گنا ہوں کا ارتکاب انکے درمیان حد سے زیادہ ہو گیا .جس قدر حضرت ادریس انھیں خیر کی طرف راہنمائی کرتے اور گنا ہوں سے روکتے وہ اتنا ہی سرپیچی کرتے اور برے کاموں سے دست بر دار نہیں ہوتے تھے. لہٰذا انھوں نے راہ خدا میں ان سے جنگ کی،کچھ کو قتل کیا اور قابیلیوں کی اولا د کے کچھ گروہ کو اسیر کر کے غلام بنالیا یہ تمام واقعات حضرت آدم کی زندگی میں رو نما ہو چکے تھے.

جب حضرت ادریس ۳۰۸ سال کے سن کو پہنچے تو حضرت آدم دنیا سے رحلت کر گئے.

ادریس نے ۳۶۵ سال کی عمر میں فر مان خدا وندی کے مطا بق اپنے فرزند متوشلح کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کیا اور ان کو اور ان کے اہل وعیال کو یاد دہا نی کرائی کہ خدا وندعالم قا بیل کی اولاد اور جو ان کے ساتھ معا شرت رکھے گا اور ان کی طرف ما ئل ہو گا ان کو عذاب کرے گا ،لہٰذا اس اعتبار سے انھیں ان کی معاشرت اور اختلاط سے منع کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)تاریخ طبری،ج۱،ص۱۱۵، ۱۱۷

۶۷

اسی ہنگام میں ان کے وصی ( متوشلح) کا سن جو کہ نور محمدی کے حا مل تھے، ۳۰۰ سال ہو چکا تھااور ان کے آبا ء و اجداد یرد سے لے کر شیث تک سب کے سب زندہ و حیات تھے۔( ۱ )

حضرت ادریس پر آسمانی صحیفوں کا نزول اور ان کا سلا ئی کر نا

مروج الذ ھب میں مذ کور ہے:

یرد کے بعد آپ کے فر زند اخنوخ کہ وہی ادریس پیغمبر ہیں باپ کے جانشین ہوئے. صابئین( ۲ ) کا خیال یہ ہے کہ ادریس وہی ھرمس ہیں اور وہی ہیں جن کے بارے میں خدا وند عزو جل نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے کہ انھیں بلند جگہ تک لے گیا ، ادریس وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خیا طی کی اور سلنے کے لئے سوئی کا استعمال کیا. ادریس پیغمبر پر ۳۰ صحیفے نازل ہوئے اور ان سے قبل حضرت آدم پر ۲۱ صحیفے اور شیث پر ۲۹ صحیفے نازل ہوئے ہیں کہ اس میں تسبیح وتہلیل کا تذ کرہ ہے۔( ۳)

خدا وند عالم نے حضرت ادریس کو بر جو اور ستاروں کے اسماء کی تعلیم دی

ادریس پیغمبر حضرت آدم کے زمانے میں پیدا ہوئے وہ پہلے آدمی ہیں جنھوںنے قا بیل کی اولاد اور پو توںکو اسیر کیااور ان میں سے بعض کو غلام بنا یا .آپ علم نجو م، آسمان کی کیفیت،بارہ برجوں اور کواکب و سےّارات کے بارے میں کا فی اطلا ع رکھتے تھے.خداوند عالم نے انھیں ان تمام چیزوں کی شناخت کے بارے میں الہا م فر مایا تھا ۔( ۴ )

ادریس کے زمانے میں شیث اور قابیل کے پوتوںکے درمیان اختلاط

تاریخ یعقوبی میں مذ کو ر ہے:

یردکے بعد ان کے فرزند اخنوخ اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور خدا وند سبحا ن کی عبا دت میں مشغول ہوگئے اخنو خ کے زمانے میں حضرت شیث کی اولاد اور اولاد کی اولاد ان کی عورتیں اور ان کے بچے( کوہ رحمت سے ) نیچے آ گئے اور قابیلیوں کے پاس چلے گئے اور ان سے خلط ملط ہوگئے. شیث کے پوتوں کا یہ کارنامہ حضرت اخنوخ کو گراںگذر ا،لہذا اپنے فرزند متوشلح اور پوتے لمک اور نوح کو بلا یا اور ان سے کہا:

____________________

(۱)تاریخ طبری ج۱ ، صفحہ ۱۱۷ اور ۱۱۸ ملاحظہ ہو.(۲)فرھنگ فارسی معین،ج۵،ص ۹۶۳ ملاحظہ ہو.(۳)مروج الذھب، مسعودی، ج۱،ص۵۰ (۴)۔مرآة الزمان ۔ص ۲۲۹.

۶۸

''میں جا نتا ہوں کہ خدا وند عالم اس امت کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان پر رحم نہیں کرے گا ''.

اخنوخ وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے قلم ہا تھ میں لیا اور تحریر لکھی. انھوں نے اپنے فرزندوں کو وصیت کی کہ خدا کی خا لصا نہ انداز میں عبادت کریں اور صدق ویقین کا استعمال کریں۔

پھر اُس وقت خدا نے حضرت ادریس کو زمین سے آسمان پر اٹھا لیا( ۱ ) .

جو کچھ ذ کر ہوا اس کی بناء پر حضرت ادریس صدیق اور نبی تھے ، خدا نے انھیں کتاب و حکمت عنایت کی تھی اور انھوں نے اپنے زمانے کے لو گوں کو اللہ کی شریعت کی طرف راہنمائی کی تھی پھر خدا نے انھیں بلند مقام عطا کیا ان تمام چیزوں اور خوبیوں کے باوجود وہ اپنی قوم کی پیغمبری کے لئے خدا کی طرف سے مبعوث نہیں ہوئے اور خدا کی طرف سے کسی آیت اور معجزہ کے ذریعہ ان کے ڈرانے والے اور منذ ر نہیں تھے.

طبقات ابن سعد میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

حضرت آدم کے بعد سب سے پہلے نبی حضرت ادریس تھے کہ وہی اخنوخ یرد کے فرزند ہیں...اخنوخ کے فرزند کا نام متوشلح تھا جو کہ اپنے باپ کے وصی تھے، ان کے علاوہ دیگر اولاد بھی تھی متوشلح کے فرزند لمک ہیں جو اپنے باپ کے وصی تھے اور ان کے علاوہ بھی دیگر اولاد تھی لمک کے فرزند حضرت نوح تھے( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی ،ج۱،ص۱۱،طبع بیروت دار صادر؛تاریخ طبری۔ج۱،ص ۱۷۳، ۳۵۰ طبع یورپ؛

طبقات ابن سعد،طبع بیروت، ج۱ ،ص ۳۹ ، طبع یورپ، ج۱ ،ص ۱۶ادریس پیغمبر کے اخبار کے بیان میں؛

اخبار الزمان،ص،۷۷ ؛مروج الذھب،ج۱،ص۵۰، مرآة الزمان،ص ۲۲۹ ؛

ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی خبر تاریخ یعقوبی اور مرآة الزمان میں آئی ہے.

(۲)طبقات ابن سعد،طبع بیروت، ج۱ ،ص ۳۹ ، طبع یورپ، ج۱ ،ص ۱۶ادریس پیغمبر کے اخبار کے بیان میں.یوارد کی وصیت اپنے فرزند اخنوخ سےکتاب اخبار الزمان میں مذ کور ہے:

یوارد نے اخنوخ کو وصیت کی اور ان تمام علوم کی انھیں تعلیم دی جو خود جا نتے تھے اور مصحف سّر انکے سپرد کیا.

۶۹

اخنوخ یا ادریس پیغمبر کے فرزند متوشلح

* ادریس نے اپنے فرزند متوشلحکو وصیت کی اور انھیں حضرت خا تم الا نبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم

کے نور سے جو ان میں منتقل ہوا تھا آپ نے آگاہ کیا.

* شہروں کا ان کے ذریعہ آباد ہو نا.

* سب سے پہلے انسان جو سواری پر سوار ہوئے.

۷۰

حضرت ادریس کا اپنے فرزند سے وصیت کرنااور خا تم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کانور

اخبار الز مان نامی کتاب میں مذ کور ہے:

ادریس نے اپنے فرزند متوشلح کو وصیت کی کیو نکہ خدا وند سبحان نے انھیں وحی کی تھی کہ اپنے فرزند متوشلح کو وصیت کرو کہ میں بہت جلد ہی ان کی صلب سے ایک پیغمبر مبعو ث کروں گا جس کے افعال میری رضا یت اور تا ئید کے حا مل ہیں۔( ۱ )

مرآة الزّمان نامی کتاب میں مذ کورہے:

ادریس نے اپنے فرزند متوشلح سے وصیت کی اور چو نکہ ان کے ساتھ عہد وپیمان کیا لہٰذا وہ نور جو ان کی طرف منتقل ہوا تھا ( حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ) اُس سے آگاہ کیا.متوشلح وہ پہلے آدمی ہیں جو اونٹ پر سوار ہوئے ۔( ۲ )

مروج الذھب نامی کتاب میں مذ کور ہے:

متوشلح اخنوخ کے فرزند اپنے باپ کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور شہروں کے بسانے میں مشغول ہوگئے اور ان کی پیشانی میں ایک تابندہ نور درخشاں تھا( ۳ ) اور وہ حضرت ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور تھا۔( ۴ )

تاریخ طبری میں مذکور ہے:

اخنوخ نے اس(متوشلح) کو فر مان خدا وندی کے مطا بق اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کیا اور دنیا سے رحلت کر نے سے قبل ان سے اور ان کے اہل وعیال سے لازم وصیت فر مائی اور انھیں آگا ہ کیا کہ خداوندعالم بہت جلد ہی قابیلیوں اور جو ان کے ساتھ ہیںیا ان کے دوستدار ہیں ان پر عذا ب نازل کرے گا. اور

____________________

(۱) اخبار الزمان، ص، ۷۹.(۲) مرآة الزمان ص ۲۲۹، میں انھیں '' متوشلح '' یا '' متو شلخ '' کہا گیا ہے.(۳) اخبار الزمان،ص ۷۹ ؛مرآة الزمان،ص ۲۲۹ میں کہا گیا ہے کہ وہ '' متوشلح '' ہیں یا '' متو شلخ '' مروج الذھب،ج۱،ص ۵۰؛ اور تاریخ طبری،ج۱ ،ص ۱۷۳.(۴) مروج الذھب، ج۱، ص ۵۰.

۷۱

انھیں ان کے ساتھ خلط ملط ہو نے سے منع کیا۔( ۱ )

سب سے پہلے سوار

تاریخ طبری میںمذکور ہے:

وہ (متوشلح) سب سے پہلے آدمی ہیں جو مر کب پر سوار ہوئے وہ جہا د میں اپنے باپ کے پیرو تھے اور اپنے ایام حیا ت میں خدا وند رحمان کی اطا عت وعبادت میں اپنے آباء و اجداد کی راہ اختیا ر کئے تھے ۔( ۲ )

____________________

(۱) تاریخ طبری،ج۱،ص ۱۷۳.( ۲) تاریخ طبری،ج۱،ص۱۷۳.

۷۲

متوشلح کے فرزند لمک

* لمک سے متوشلح کی وصیت

* شیث اور قا بیل کے فرزندوں کا ازدواج اور ان کی

نسلوں کا اختلا ط اور سر کش وبا غی اور تباہ نسل کا دنیا میں آنا.

* حضرت شیث کی نسل سے ۸ افراد کا تنہا رہ جانا.

* لمک کی نوح سے وصیت.

متوشلح کی اپنے فرزند لمک سے وصیت

تاریخ طبری اور اخبار الزمان میں مذ کور ہے:

جب متوشلح کی موت کا وقت قر یب آ یا ، تو اپنے بیٹے لمک (جا مع کے معنی میں ہے) کوجو نوح کے والد تھے وصیت کی اور ان سے عہد لیا اور حضرت ادریس پیغمبر کی مہر کردہ کتابیں اور صحیفے ان کے حو الے کئے اس طرح سے وصیت ان تک منتقل ہوئی۔( ۱ )

شیث اور قا بیل کے پو توں کاباہمی ازدواج اور اس شادی کے نتیجے میں ظا لم و جا بر، سرکش و باغی نسل کا دنیا میں آنا

مروج الذھب میں مذکور ہے :

لمک کے زمانے میں بہت سے واقعات اور نسلوں کے اختلا ط ظا ہر ہوئے ،( ۲) یعنی حضرت شیث اور قا بیل ملعو ن کی نسل کا اختلاط۔

تاریخ یعقوبی میں اختصا ر کے ساتھ مذ کورہے:

لمک اپنے باپ کے بعد خدا کی اطا عت اور عبادت میں مشغول ہوگئے.ان کے زمانے میں سرکشوں اور ستمگروں کی تعداد میں اضا فہ ہو گیا کیو نکہ شیث کے فرزندوں نے قا بیل کی لڑ کیوں سے ازدواج کر لیا تھا اور سرکش و ظالم لوگ ان سے پیدا ہوئے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان،ص،۸۰؛ اور تاریخ طبری،ج۱،ص ۱۷۸، طبع یورپ.(۲) مروج الذھب،مسعودی،ج۱،ص ۵۰.

۷۳

شیث کی اولاد میں سے صرف ۸ افراد کا باقی رہنا اور لمک کی نوح سے وصیت

جب لمک کی موت کا زمانہ قریب آیا تو نوح ، حام، سام،یافث اور ان کی عو رتوں کو بلا یا یہ لوگ آٹھ

آدمی تھے جو شیث کی اولاد میں بازماند گان میں شمار ہوتے تھے اور شیث کی اولاد میں ان ۸ افراد کے علاوہ کوئی(سچے دین پر) باقی نہیں رہ گیا تھا۔اور باقی لوگ کوہ مقدس سے نیچے اتر آئے اور قابیل کی اولا دکے پاس چلے گئے اور ان سے آمیز ش و اختلاط پیدا کر لیا تھا. لمک نے ان آٹھ افراد پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت طلب کی اور ان سے کہا:

اُس خدا وند متعال سے سوال کرتا ہوں جس نے آدم کو پیدا کیا کہ وہ ہمارے باپ آدم کی بر کت کو تم پر باقی رکھے اور سلطنت و قدرت تمہاری اولاد میں قرار دے..

اے نوح! میںمر جا ئوں گا اور اہل عذا ب میں سے تمہارے علاوہ کو ئی نجات نہیں پا ئے گا جب میں مر جا ؤں تو میرا جنا زہ غار گنج میں جہ حضرت آدم کا جنازہ ہے رکھ دینا اور جب خدا کی مرضی ہو کہ کشتی پر سوار ہو تو ہمارے باپ آدم کے جسد کو اٹھا کر اپنے ساتھ اسے لے کر پائینتی کی طرف جا ؤ اور کشتی کے اوپر ی کمرہ میں رکھدو اور تم اور تمہاری اولادکشتی کے مشرقی سمت میں اور تمہاری بیوی اور بہوویں مغر بی سمت میں جگہ لیں.جسد آدم کو تمہارے درمیان میں ہو نا چا ہئے ، نہ تم ان عورتوں تک دستر سی رکھو اور نہ وہ عورتیں تم تک رسائی رکھیں نہ ان کے ساتھ کھا ؤ اور نہ ہی پیو اور ان سے نزدیک نہ ہو یہاں تک کہ کشتی سے باہر آجاؤ... جب طوفان تھمے اور کشتی سے نیچے اترجاؤ تو حضرت آدم کے جسد پر نماز پڑ ھو۔اس کے بعد اپنے فرزندارشد سام سے وصیت کرو کہ جسد حضرت آدم کو اپنے ہمراہ لے جائے اور زمین کے بیچ میں رکھ دے اور کسی ایک فرزند کو مقرر کرو کہ اس کے پاس رہے۔

یہاں تک فرمایا کہ :

خدا وند عالم فرشتوں میں سے ایک فرشتے کو اس ( سام )کا راہنما قرار دے گا تا کہ اس کا مونس وغمخوار رہے اور زمین کے درمیان میں اس کی راہنما ئی کرے۔( ۱ )

٭٭٭

ہم حضرت نوح سے پہلے کے اوصیاء وانبیاء کے حالات کو قرآن کریم اوراسلامی منابع کی رو سے اتنی ہی مقدار میں نقل کرنے پر اکتفاء کر تے ہیں، اب خدا کی تائید و مرضی سے ان کی سوانح توریت سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی،ج،۱،ص۱۲،۱۳،طبع بیروت ۱۳۷۹ ھ.

۷۴

( ۴ )

پیغمبروں کے اوصیاء کی تاریخ توریت کی روشنی میں

توریت کی نقل کے مطابق حضرت نوح کے زمانے تک اوصیاء کی کچھ سر گذ شت

سفر تکوین اصحا ح پنجم میں مذکور ہے:

یہ کتاب میلاد آدم ہے جس دن خدا وند عالم نے آدم کو اپنے ہاتھ (دست قدرت) سے خلق فر مایا انھیں نر ینہ اور مادینہ پیدا کیا اور انھیں بر کت دی اور اسی روز تخلیق ان کا نام آدم رکھاحضرت آدم ایک سو تیس سال کے تھے کہ ان کی شکل وصورت کا ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام (شیث) رکھاآدم نے شیث کے پیدا ہونے کے بعد دنیا میں آٹھ سو سال زند گی گذاری اور اس مدت میں لڑکوں اور لڑکیوں کے باپ ہوئے (کثیر اولا دہوئی) حضرت آدم کی پوری مدت عمر نو سو تیس سال تھی اور آپ نے اسی عمر میں رحلت کی ہے.

شیث ایک سو پانچ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (انوش ) پیدا ہوئے شیث انوش کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سات سال زندہ رہے. اور اتنی مدت میں لڑ کوں اور لڑ کیوں کے مالک ہوئے شیث کی پوری مدت عمر ۹۱۲ سال تھی تب انتقال ہوا۔

انوش بھی نوّے سال کے تھے کہ ان کے فرزند (قینان) پیدا ہوئے انوش قینان کی پیدائش کے بعد آٹھ سوپندرہ سال زندہ رہے اور صاحب اولاد ہوئے پھر نو سو پانچ سال کی عمر میں رحلت کر گئے.قینان ستّر سال کے تھے کہ ان کے بیٹے ''مَہلَلْئِیْل'' ( مہلائیل) پیدا ہوئے، قینان مہلائیل کی پیدائش کے بعد آٹھ سو چالیس سال زندہ رہے اور ان بہت سے بیٹے اور بیٹیاں تھیں اور نو سو دس (۹۱۰ ) سال کی عمر میں وفات پائی۔

(مہلائیل) ۶۵ سال کے تھے کے ان کے فرزند (یارد) پیدا ہوئے مہلا ئیل یارد کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو تیس سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں وا لے ہوئے پھر انتقال کر گئے مہلا ئیل کی مدت عمر پورے ۸۹۵ سال ہے.

یارد ۱۶۲ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (اخنوخ ) پیدا ہوئے اخنوخ کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں والے ہوئے یارد کی پوری عمر ۹سو ۶۲ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے.

۷۵

اَخنوخ ۶۵ سال کے تھے کہ ان کے فرزند(مَتُو شَلَح)پیدا ہوئے. اخنوخ متوشلح کے پیدا ہونے سے خدا کے پاس جانے تک ۳۰۰ سال مزید زندہ رہے اور اس مدت میں صاحب اولاد ہوئے لہٰذا اخنوخ کی پو ری مدت حیات ۳۶۵ سال ہے اخنوخ خداکے جوار میں چلے گئے اس کے بعد کبھی دکھائی نہیں دئیے کیو نکہ خداوند عالم نے انھیں اٹھا لیا تھا۔

متوشلح ۱۸۷ سال کے تھے کہ ان کے بہت سے لڑ کے اور لڑ کیاں ہوئیں متوشلح کی پوری مدت حیات ۹۶۹ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے۔

(لا مک) ۱۸۲ سال کے سن میں صاحب فرزند ہوئے ان کا نام نوح رکھا اور کہا یہ بچہ ، ہمارے کاروبار اور اس زمین کے حا صل سے جس پر خدا نے لعنت کی ہے ہمیں بہرہ مند کرے گا۔

لا مک نوح کی پیدا ئش کے بعد ۵۹۵ سال زندہ رہے لڑکے اور لڑ کیاں پیدا ہوئیں لا مک کی پوری مدت حیا ت ۷۷۷ سال ہے پھر انتقا ل کر گئے،نوح پانچ سو سال کے تھے کہ ان کے بیٹے سام، حام اور یافث پیدا ہوئے۔

٭٭٭

اسی طرح توریت نے آدم اور نوح کے درمیان اوصیاء کے حالات نقل کرنے میںہر ایک کی مدت عمر کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے مگرا خنوخ کی خبر میں اس جملے (اور اخنوخ خدا کے پاس گئے کیو نکہ خدا وندعالم نے انھیں اُٹھا لیا تھا) کا بھی اضا فہ ہے. قرآن کریم نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر مایا ہے :

( و َ رَفَعْنٰاه مَکَا ناً علیّاً )

ہم نے اسے بلند جگہ پر اٹھا لیا۔

۷۶

اس بحث کا نتیجہ

خداوند عالم نے حضرت آدم کوبخش دیا اور انھیں لوگوںکی ہدایت اور اولین انسانوں کوجن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی ان کے زمانے کے انسا نوں کو جن اسلامی احکام کی ضرورت تھی اس کی تبلیغ کے لئے انتخاب کیا. پھر اس وقت انھیں اپنے پاس بلالیا اور ان کے بعد اوصیا ء شریعت کی حفا ظت اور پاسداری اور لوگوں کی ہدایت کے لئے اس کی تبلیغ کو اٹھ کھڑے ہوئے .انسان حضرت ادریس کے زمانے تک دھیرے دھیرے تہذ یب وتمدن سے نزدیک ہوتا گیا اور تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ زندگی کی راہ میں اسلامی احکام کی شرح وبیان کی نئے سرے سے ضرورت محسوس ہوئی یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے ادریس پیغمبر کو ان چیزوں کے لئے جن کی ان کے ہم عصر لوگوں کوضرورت تھی '' یعنی اسلامی احکام' ' کی وحی کی تو آپ نے بھی احسن طریقہ سے اپنی رسا لت انجام دی، خدا نے جس چیز کی انھیں وحی کی تھی لوگوں کی ہدایت کی خاطرانھیں تبلیغ کی ؛ اس کے بعد حکمت خدا وندی یہ رہی کہ انھیں بلند جگہ پرلے جا ئے ، خدا جانتا ہے کہ انھیں کیسے اور کہاں بلندی پر لے گیا ، اس بحث میں اس کی تحقیق کی گنجا ئش نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اسلا می مصا در میں انبیاء واوصیاء کی خبروں سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے وصی سے حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے بارے میں جو کہ اس کو منتقل ہوتا تھا، عہد وپیمان لیا اور اس نے بھی اپنے بعد کے وصی کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اسے متعہد و پا بند بنایا۔اس عہد و پیمان پر تاکید قرآن مجید میں نما یاں اور روشن ہے:( وَإِذْ َخَذَ ﷲ مِیثَاقَ النّاَبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُول مُصَدِّق لِمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ََقْرَرْتُمْ وََخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ ِصْرِی قَالُوا َقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وََنَا مَعَکُمْ مِنْ الشَّاهِدِین َ٭ فَمَنْ تَوَلَّی بَعْدَ ذَلِکَ فَُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ )

جب خدا وند عالم نے پیغمبروں سے پیمان لیا ،کہ چونکہ تمھیں کتاب وحکمت دی ، پھر جس وقت تمہارے پاس وہ پیغمبر جائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والاہے تو تمھیں چا ہئے اُس پر ایمان لا کر اُس کی نصرت کرو( خدا وند عالم نے پیغمبروں سے فرمایا) آیا اقرار کر تے ہو اور اپنی امتوں سے اس کے مطابق پیمان لیا ہے؟

سب نے کہا ،ہاں : اقرار کرتے ہیں فر مایا اس پر گواہ رہنا کہ میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوںلہٰذا جو کوئی اس کے بعد( آخری رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کے بعد )حق سے رو گردانی کرے یقینا وہ فاسقوں میں ہو گا۔( ۱ )

طبری نے پہلی آیت کی تفسیر میں حضرت امام علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فر مایا:

____________________

(۱)آل عمران،۸۱ اور ۸۲

۷۷

خداوند عالم نے حضرت آدم اور ان کے بعد کے پیغمبر وں کو پیغمبری کے لئے مبعوث نہیں کیامگر یہ کہ ان سے حضرت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلہ میں عہد وپیمان لیا پھر اس کے بعد اس آیت کی تلا وت فر ما ئی:

( وَاإِذْ اَخَذَاللّٰهُ مِیثَاقَ النَبْیِین... )

دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت سے نقل کیا ہے کہ آیہ کر یمہ اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ خدا وند فرما تا ہے : اس مطلب پر اپنی امتوں پر گواہ رہنا کہ میں تم پر بھی گواہ ہوں اور اُ ن پر بھی۔

لہٰذا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو بھی اس عہد و پیمان کے بعد ان تمام امتوں میں سے تم سے رو گردانی کرے وہ فاسقوں میں سے ہو گا۔( ۱ )

مذکورہ آیت کی تفسیر میں قرطبی فر ماتے ہیں:

یہاں پر حضرت علی اور ابن عباس کے بقول ''رسول'' سے مراد حضر ت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

مؤلف فر ماتے ہیں:

یہ دو نوں مذ کورہ آیتیں اُن چند آیات کے مجمو عہ کے ضمن میں ذ کر ہوئی ہیں جو خود ہی ایسی بات پر گواہ ہیں کہ حضرت علی سے روایت کی گئی ہے، کہ جس کے آغا ز ہی میں خدا وند عالم نے اس طرح فر مایا:

( لَمْ تَرَ الَی الَّذِینَ ُوتُوا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ الَی کِتَابِ ﷲ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیق مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ )

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کتاب سے تھوڑا بہرہ مند ہوئے ہیں جب انھیں کتاب خدا وندی کی دعوت دی گئی تا کہ وہ لوگ اپنے درمیان قضا وت کر یں ، تو ان میں سے بعض گروہ نے پچھلے پاؤں لوٹ کر رو گردانی کی اور وہ لوگ اعرا ض( رو گردانی ) کر نے والوں میں ہیں؟( ۲ ) ( قُلْ اِنْ تُخَفُوا مَا فِی صَدُ وْرِکُم اَوتُبدُوهُ یَعْلَمهُ اللّٰهُ... )

(اے پیغمبر ) کہدو: اگر جو کچھ تم لوگ دل میں رکھتے ہو خواہ چھپا ؤ یا آشکا ر کرو خدا سب جانتا ہے۔( ۳ )

( قُلْ ِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ ﷲ فَاتّاَبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ ﷲ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَﷲ غَفُور رَحِیم )

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۳، ص ۲۳۶ اور ۲۳۸؛ زاد المسیر فی علم التفسیر، تالیف، ابن جوزی، ج۱، ص ۴۱۶؛تفسیرابن کثیر، ج۱، ص۳۷۸، الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ؛ اور تفسیر قرطبی، ج۴، ص ۱۲۵. (۲)سورۂ آل عمران، آیت:۲۳.(۳)سورۂ آل عمران، آیت:۲۹.

۷۸

(اے پیغمبر ) کہو: اگر خدا کو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تا کہ خدا تمھیں دوست رکھے اور تمہا رے گنا ہوںکو بخش دے۔( ۱ )

( قُلْ َطِیعُوا ﷲ وَالرَّسُولَ فَِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ ﷲ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِینَ )

(اے پیغمبر ) کہو: خدا اور پیغمبر کی اطا عت کرو اگر ان دو سے رو گردانی کرو گے ، تو بیشک خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا ۔( ۲ )

چونتیسویں آیت ا ور اس کے بعد اسی سورہ میں بیان کر تا ہے کہ خدا نے آدم اور نوح کومنتخب کیا اور یہ کہ اس نے کس طرح عیسیٰ کو پیدا کیا اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا اور یہ کہ حواری ان پر ایمان لائے۔

پھر اس کے بعد فر ماتا ہے:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ َبْنَائَنَا وََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَا وََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲ عَلَی الْکَاذِبِینَ )

پھر جو بھی (حضرت عیسیٰ کے بارے میں ) علم آجانے کے بعد تم سے کٹ حجتی کرے، تو اس سے کہو: آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں، پھر مبا ہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیتے ہیں۔( ۳ )

پھر چند آیات کے بعد فرماتا ہے:

( یَااَهلَ الَکِتاب لِمَ تَلبِسُونَ الَحَقَّ بِِالبَاطِل وَ تَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ اَنْتُم تَعْلَمُون )

اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کے لباس میں ظاہر کرتے ہو ،جب کہ خود بھی جانتے ہو کہ حق چھپا رہے ہو؟( ۴ )

دوسری جگہ فر ماتا ہے:

( وَاِذَ اَخَذَ اللّٰهُ مِیثَاقَ النَّبیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ... )

جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا ، چو نکہ ہم نے تمھیں کتاب وحکمت بخشی ہے...( ۵ )

اس طرح سیاق آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند اعالم کی فرمایش سے مراد سورہ ٔآل عمران کی ۸۱ ویں

____________________

(۱)سورۂ آل عمران، آیت: ۳۱.(۲) سورۂ آل عمران، آیت: ۳۲.(۳) سورۂ آل عمران، آیت:۶۱(۴) سورۂ آل عمران، آیت:۷۱ (۵)سورۂ آل عمران، آیت:۸۱

۷۹

آیت میںکہ ا س میں فر ماتا ہے: (تمہا ری ہدایت کے لئے اے اہل کتاب! خدا کی طرف سے ایک رسول آیا جس نے تمہاری کتاب اور شریعت کی صداقت کی گو اہی دی، تا کہ ایمان لاؤ.اور اس کی نصرت کرو...)یہ چیز ہے کہ امتوں سے عہد لیا گیا ہے کہ حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر ایمان لائیں، جس طرح سے اس کی تفسیر ہم نے حضرت امیر المو منین علی سے نقل کی ہے. ان تمام چیزوں کے علا وہ اُن آیات کی طرف آپ کی تو جہ مبذول کریں گے جسے ہم نے کتاب کے آخر میں ''آخرین شریعت'' کے عنوان کے تحت ذ کر کیا ہے جیسے اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَعرِ فُونَهُ کَمَایَعِرفُونَ اَبْنَائِ هم )

اہل کتاب، خاتم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس طرح پہچا نتے ہیں جیسے کہ وہ اپنی اولا دکو پہچا نتے ہیں۔

ان تمام آیات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا وند متعال نے گزشتہ انبیاء سے عہد وپیمان لیا ہے کہ اپنی امتوں کو حضرت ختمی مرتبت کی رسا لت کے وجوب پر ایمان لا نے سے آگا ہ کریں( ۱ ) اور یہ بھی کہ ہرایک نبی نے اپنے وصی سے اس سلسلہ میں عہد وپیمان لیا ہے .جیساکہ اسلامی منا بع و مصادر سے حضرت نوح کے زمانے تک اس کی شرح وتفصیل گذر چکی ہے۔

یہ سب حضرت آدم سے حضرت نوح کے زمانے تک انبیا ء اور ان کے اوصیاء کی کچھ خبریں تھیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں شیث کے پو توں نے قا بیل کے پو توں سے آمیز ش اور اختلاط پیدا کیا اور نتیجہ کے طور پر ایک فاسد،سر کش، گمراہ ، بت پرست اور طاغی نسل کو جنم دیا۔

انشاء اللہ ان کے حالات کوحضرت نوح کے حالات کے ضمن میں بیان کریں گے۔

____________________

(۱)لباب التاویل فی معانی التنزیل معروف بہ تفسیر خازن ، متوفیّٰ ۷۴۱ھ، ج۱، ص۲۵۲.اورتفسیر البحر المحیط، ابوحیان،متوفیّٰ ۷۴۵ھ، ج۲، ص۵۰۸، ۵۰۹.اورتفسیر در منثور، سیوطی، متوفیّٰ ۹۱۱ھ، ج۲، ص۴۷، ۴۸.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352