اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134058 / ڈاؤنلوڈ: 3942
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اس کے بعد اس نے مامون کو اپنی داستان سنائی۔مامون نے ہنستے ہوئے حکم دیا ''مانی '' کی تصویر لاکر اس کے سامنے رکھی جائے ۔طفیلی نے مانی پر لعنت بھیجی اور اس سے نفرت وبیزاری کااظہار کیا اورکہا: تصویرکو میرے حوالہ کردو تا کہ اس پر نجاست کروں ،خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ مانی کون ہے ؟ یہودی ہے یا مسلمان ؟! ٨

مذکورہ بیانات سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ زندیقیوں سے مراد وہی مانی کے پیرو ہیں ، اگر چہ یہ نام بہت نادر موارد میں اس کے علاوہ بھی استعمال ہوا ہے ۔

یہ واضح ہونے کے بعد کہ زندیقی ،حقیقت میں مانی کے پیرو تھے اور وہی ان کی بنیاد ہے،اب اس کی باری آتی ہے کہ ہم دیکھیں کہ خود''مانی''کون ہے اور اس کادین ،کیسا ہے ؟!!

۴۱

مانی اور اس کادین

مانی کون ہے؟

استخرج مانی من ادیان آراء فلسفیة مختلفة دیناً واحداً عجیباً

''مانی نے مختلف ادیان اور فلسفوں سے ایک نیااور عجیب دین ایجاد کیا''۔

) مؤلف (

''مانی ''ابن ''بتک'' ٢١٦ع میں بابل کے شہروں میں سے ''رہایکی ''نام کے ایک شہر میں پیدا ہواہے۔

مانی ،جس کے پیر ٹیڑھے تھے ،نقاشی میں انتہائی ماہر اور بہترین خطاط تھا۔اس نے خود ایک خط اور بعض مخصوص لغات اور اصطلاحات ایجاد کئے تھے ،پھر اس نے اپنی تمام تالیف بجز ''سابرقان '' جو اس نے فارسی میں لکھی ہے کو اپنے ایجاد کردہ خط میں سریانی زبان میں لکھا ہے ۔

مانی کا باپ،''بتک''پہلے بت پرست تھا،بعد میں دین ''دیصان '' ٩ قبول کیا مانی اسی دین میں پرورش پائی دین ''دیصان '' نے اس کے افکار پر گہرا اثر ڈالا۔

مانی نے چوبیس ٢٤ سال کی عمر میں پیغمبری کا دعویٰ کیا ١٠ اور مختلف ادیان ،جیسے : زردشتی،ماندائید صابئہ ملسان،ہلینیسم (جو کہ اسکندر کے بعد یونان کا فلسفہ اشراق ہے)بودھ مذہب اور گنوسیزم سے کچھ چیزیں لے کر ایک سانچے میں ڈال کر ایک ایسا عجیب معجون تیار کیا جس میں سے ہر ایک اپنی دلخواہ چیز حاصل کرسکتاتھا،جیسے:پرہیزگاری ،دنیاسے کنارہ کشی،گناہوں کااعتراف،نماز وروزہ جیسی عبادات اوراوراد واذکار وغیرہ....

۴۲

اس کے علاوہ ہر موضوع ،جیسے :علم ہیئت ،جغرافیہ،علوم طبیعت ،فزیکس،کمسٹری،حیوانات نباتات اور انسانوں کی شناخت ،فرشتوں ،جنات اور دیگر موجودات کی پیدائش ،دنیا کی عمر اور اس کی انتہا کے وقت کے بارے میں ہر مشکل سوال کا توہماتی طریقے سے،عقل ومنطق اور علمی معیار کے خلاف جواب موجود تھا۔

گنوسیزم جو دین مانی کی بنیادی اجزاء کو تشکیل دیتاہے خود ایک خاص دین تھا ،جو ایران اور قدیم یونان کے درمیانی علاقوں کے باشندوں کے اعتقادات اور دین ہلینیسم کی آمیزش سے وجود میں آیا تھا اور بطور خلاصہ عبارت ہے:

دنیا پر حاکم دو بنیادی اصلوں یعنی خیروشر پر ایمان ۔دنیا کے امور پر الٰہی قدرت رکھنے والے سات سیارات پر ایمان۔اور یہ کہ انسان کی روح اشیاء کے حقائق کو پانے ،ترک دنیا اور ازدواج و آمیزش سے پرہیز کرکے بالاخر شرو نجاست کی دنیا سے نجات پاکر خیر وبلندی کی دنیا کی طرف عروج کرسکتی ہے ۔

۴۳

گنوس بذات خود چند فرقوں میں تقسیم ہوتاہے ،جیسے :گنوس یہودیت اور گنوس مسیحیت ۔ مذہب دیصانیہ ومانی کا پہلا اور اس کے باپ بتک کا دوسرا دین تھا دیصان کے بیٹے کے پیرو اور مرقیونیہ ،مرقیون کے پیرو بھی گنوس مسیحیت کے فرقے ہیں ۔گنوس مسیحیت کے ہر فرقہ کی اپنی ایک مخصوص انجیل ہے ۔اور وہ تمام انجیلوں کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی تردید کرتے ہیں( ۱ )

روسی مستشرق ''بارتولد''کااعتقاد ہے کہ :''بردسان''(١٥٥۔٢٢٢ع)پہلا سریانی مؤلف تھا،اور اوسا کے مقام زندگی بسر کرتاتھا۔اس نے گنستیزم نام کے بت پرستی کے فلسفہ اور نصرانیت کے در میان ایک قسم کا رابطہ اور ہماہنگی پیدا کی ۔اس سلسلہ میں جن عقائد و نظریات کو ''بردسان '' نے پیش کیاہے ،انہوں نے مانی کی مانویت کو بہت متاثر کیاہے ۔

ترکیہ کامؤلف ،محمد فؤاد کوبریلی بھی اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب کے حاشیہ پر لکھتاہے :

''گنوس معرفت ِاسرار کی بلندترین حد ہے''(۲)

مانی کا دین

مانی کا مکتب دنیا کی اساس کو دو اصولوں ''نور وظلمت ''اور تین ادوار ماضی ،حال اور مستقبل پر مبنی جانتاہے ۔

ماضی کے دور میں ،نور وظلمت ایک دوسرے سے جدا لیکن ایک دوسرے کے پہلو بپہلو واقع تھے ۔نور اوپر اور ظلمت نیچے اور ہر ایک کا دامن تین اطراف میں پھیلا ہواتھا۔

نور کی دنیا:نظم وضبط ،خوشبختی اور آرام وسکون جیسی تمام نیکیوں کی سرزمین اور ظلمت کی دنیا :تمام برائیوں ،ناپاکیوں ،تشویش وپریشانیوں ،جنگ ومصیبتوں اور بیماریوں کا مرکز ہے ۔

نور کی دنیا پر ''اھورامزدا''کی حکمرانی اور ظلمت وتاریکی کی دنیا پر فرشتہ یا شیطان نام تاریکی کاخدا یا ''اہریمن''حکومت کرتے تھے ۔

ظلمت کی دنیا پانچ طبقوں :کالے بادلوں ،آگ کے خوف ناک شعلوں ،طوفانوں اور

____________________

۱)۔''مانی ودین او''(٣٤۔٣٦)

۲)۔تاریخ الحضارة الاسلامیة ،تالیف ف۔بارتولد طبع مصر سال ١٩٤٢ ع ص١١۔١٢

۴۴

خطرناک بگولوں ،کیچڑ اور بالکل اندھیرے پن پر مشتمل تھی ،ہر طبقہ کی سر پرستی دیو ،شیر ،عقاب و...کی صورت میں ایک شیطان(۱) کے ہاتھ میں تھی ۔

ظلمت کی دنیا کے پانچ طبقوں کو تشکیل دینے والے پانچ عناصر سونا،تانباو... اور پانچ مزے نمکی وتلخی و... تھے۔اور ہر طبقہ ناپاکیوں ،شیطنتوں ،دیؤوں اوردو پا وچار پا وحشی حیوانوں سے بھرا ہواتھا۔

نور کی دنیا کے پانچ طبقے تھے اور ہر طبقہ میں خدا کے اعضاء میں سے ایک عضو ،جیسے:ہوش ،

تفکرو...جو خداکے مظاہر میں قرار پائے تھے ۔نور کی دنیا کا خداوند ایک بادشاہ کے مانند شاہی محل میں جلوہ افروز اور ظلمت کی دنیا کاخدا سور کی شکل میں ناپاکیوں اور کثافتوں کونگلنے میں مشغول تھا۔

ظلمت کی دنیا میں جھگڑے ،دشمنیاں ،جنگ وگریز ، شیاطین کے ایک دوسرے پر مسلسل حملے ،چیر پھاڑ،مار دھاڑ،شور وشر،حیوانیت،شہوت رانی،اوراس قسم کی دوسری نا پاکیاں اور برائیاں نظر آتی ہیں ۔

نور کادرخت :نور کی دنیا ہمیشہ اپنے آپ کو ظلمت کے درخت سے بچا کے رکھتی تھی تاکہ وہ مشتعل ہوکر اس پر حملہ ور نہ ہوجائے ۔بالاخر ظلمت کی دنیا کی تاریکیوں کی وجہ سے جنگ وجدل کا ماحول اس قدر شدید ہوگیا کہ وہ نور کی دنیا کو تہس نہس کرنے پر تل گئے۔اس جنگ وگریز کے ذریعہ عالم بالا یعنی عالم نور تک پہنچ گئے۔عالم بالا کی نورانیت وصفائی وہ دم بخود ہوگئے لہٰذا اس کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے دیووں اور شیاطین کے لشکرکے ذریعہ عالم نور پر حملہ آور ہوگئے تاکہ اسے فتح کرکے عالم ظلمت میں ضم کرلیں ۔

عالم نور کے فرماں رواکے پاس کسی قسم کاجنگی سازو سامان نہیں تھاکہ شیطانوں کامقابلہ

____________________

۱)۔ در اصل عربی میں ''اراکنہ ''ذکر ہواہے ۔

۴۵

کرسکے اور دوسری طرف وہ اپنے طرفدار خداؤں میں سے کسی کو شیاطین سے لڑنے کے لئے بھیجنا بھی نہیں چاہتاتھا۔مجبور ہوکر عالم ظلمت اور ناپاکیوں سے پیکار کے لئے بذات خود آمادہ ہوا۔اس فیصلہ کے نتیجہ میں اس نے پہلی بار کائنات میں ''نہ نہ '' یاحیات وزندگی مطلق کی ماں کے نام سے اپنی تخلیق کو وجود بخشا اور اس نے بھی اپنے طور پر عالم بالا کے پاک ترین جزو یعنی ازلی انسان کی تخلیق کی

انسان ازلی اپنے فرزندوں :عناصر پنجگانہ ،ہوا،پانی اور روشنی و...کے ہمراہ جن میں سب سے آگے بادشاہ نخشب تھا نیچے اترا اور ناپاکیوں کی دنیامیں ظلمت اور وحشت کے ساتھ نبرد آزما ہوا۔لیکن آخر کار انسان ِازلی نے شکست کھائی اور اس کے بیٹے شیاطین کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور شیاطین نے انھیں نگل لیا۔نور کے ٹکڑوں کو دیو اور شیاطین کے ذریعہ نگل لینے اور ان کے شکم کی تاریکی و ظلمت میں قرار پانے سے نور و ظلمت کی آمیزش وجود میں آئی کہ یہی زمانہ ٔ حال کا دور ہے اس دور کو آزادی کا دور کہا جاتا ہے ،یعنی ظلمت و تاریکی سے نور کی آزادی کا دور عالم نور کے فرماں روانے اپنے اس عمل سے عالم تخلیق میں اپنی پہلی قربانی پیش کی ،اس کی اور اس کے فرزند وں کی یہ قربانی ظلمت کے زندان سے نور کی آزادی کے لئے تھی۔

عالم نور و ظلمت کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا ،نور کی یہ کوشش ہے کہ اپنے ٹکڑوں کو ظلمت کے شکم سے آزادی دلائے اور عالم ظلمت یہ چاہتا ہے کہ نور کے ٹکڑے بدستور اس کی ناپاکیوں کے زندان میں باقی رہیں ۔دوسری طرف نور کے خدا نے فرشتوں اور چھوٹے خدا ئوں کو پیدا کرکے ازلی انسان کی مدد کے لئے بھیجا ۔ازلی انسان نے ان فرشتوں اور چھوٹے خدائوں کی مدد سے خود کو ظلمت و تاریکی کے چنگل سے آزاد کیا ،لیکن اس کے بیٹے تاریکی کے شیاطین کے شکم میں بدستور پھنسے رہے ۔

۴۶

عالم نور نے اپنے نور کے ٹکڑوں کو آزادی دلانے کے لئے اس دنیا کو پیدا کیا ۔اور عالم ظلمت نے بھی نور کے ٹکڑون کو بدستور زندانی بنا کر رکھنے کے لئے ناپاک اوربرے کام انجام دینے شروع کئے اور پہلی بار شیاطین کے سردار وں جنھوں نے ازلی انسان کے بیٹوں کو کھا لیا تھا میں سے دو کو آپس میں ملا دیا اس آمیزش کے نتیجہ میں ابوالبشر آدم پیدا ہوا کہ نور کا ایک بڑا حصہ اس کے اندر قیدی بنا تھا ۔اس کے بعد ان دو شیاطین نے پھر سے آپس میں آمیزش کی اور اس بار حواء (تمام انسانو کی ماں ) اپنے اندر تھوڑے سے نور کے ساتھ پیدا ہوئیں ۔

پھر عالم نور کے خدا نے عیسیٰ کو اپنے ایک چھوٹے خدا کے ہمراہ آدم کی مدد کے لئے بھیجا اور اسے رہبانیت سکھائی تاکہ اپنی ہم جنس مادہ یعنی حوا ء سے پرہیز کرے ۔نر دیو (شیطان) نے جب یہ دیکھا تو اس نے اپنی بیٹی حوا سے آمیزش کی ۔اس سے قابیل پیدا ہو ا قابیل نے اپنی والدہ حواء سے ہمبستری کی تو ہابیل پیدا ہوا ،پھر ایک بار اس سے آمیزش کی اس طرح دو بیٹیوں کو جنم دیا ۔اس تمام زادو ولد کے نتیجہ میں عالم نور کے خدا کے ٹکڑوں کے زندان کے اوپر ایک اور زندان بنتا گیا ۔اس طرح آج تک اور جب تک یہ زادو ولدکا سلسلہ جاری ہے ،نور کا حصہ تاریکی کے پیچیدہ زندانوں میں گرفتار ہوتا رہے گا۔

مانی نے تصورات اور توہمات کے ایک طولانی سلسلہ کے ذریعہ انسان ،نباتات ،حیوانات اور ،جمادات کی تخلیق کی کیفیت کے بارے میں اس طرح تصویر کشی کی ہے ۔ملاحظہ ہو:

خدا نے مومنین کی ارواح کو سورج اور نور کی طرف لے جانے کے لئے چاند کو ایک کشتی بنایا ہے تاکہ ان ارواح کو اوپر اور ان کی اصل جگہ کی طرف لے جائے ،مہینہ کے ابتدائی پندرہ دنوں کے دوران یہ کشتی پہلے ہلال کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے اور مومنین کی ارواح کو جمع کرتے ہوئے بڑھتے بڑھتے کمال تک پہنچتی ہے ،کیوں کہ اس کشتی کے سورج کی طرف جانے کے راستے میں مسلسل ارواح سوار ہوتی رہتی ہیں ۔نصف ماہ یعنی چودہویں کے چاند کے بعد ارواح مقدس کو حمل کرنے والی یہ کشتی رفتہ رفتہ چھوٹی ہوتی جاتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ سورج کے ساحل پر نورانی بار مسلسل اتر کر عالم نور میں قدم رکھتا ہے اور کشتی رفتہ رفتہ خالی ہوتی جاتی ہے اور ایک کشتی پھر ہلال کی صورت میں دنیا کے ساحل کی طرف لوٹتی ہے ۔ہلال اور چودھویں کے چاند کے اسرار کا یہی مطلب ہے !!

۴۷

مانی و خود''فارقلیط''ہے کی ماموریت ،نسل انسان کی نجات اور انسان اور سائر موجودات عالم میں تناسل کے ذریعہ ظلمت کے شکم سے اجزائے نور کی آزادی کے لئے وجود میں آئی ہے ،یہ مأموریت عیسیٰ کی اس ماموریت کے مانند ہے جس میں وہ عالم ازلی میں آدم کی نجات کے لئے بھیجے گئے تھے ،تاکہ وہ آدم کو تولید مثل اور حوا سے آمیزش انجام دینے سے روکیں ۔مانی اس امر پر مامور ہے کہ نور و ظلمت کے درمیان آمیزش کو ختم کردے ۔اس آمیزش کا دور بارہ ہزار سال ہے ۔اس مدت میں سے ٢٧١ھ تک گیارہ ہزار اور سات سو سال گزر ے ہیں ١١ ،اب صرف تین سو سال باقی بچے ہیں کہ ٥٣١ھ میں تعلیمات مانی پر عمل در آمد ہونے کے بعد عالم وجود اور نور و ظلمت کی آمیزش کا خاتمہ ہو جائے گا ۔اس تاریخ کے بعد زوال کا دور اور مستقبل کا زمانہ ہے ،یہ وہ دور ہے جس میں ہر چیز اپنی اصل کی طرف پلٹے گی ۔

عالم بالا یعنی عالم نور میں خیر و خوبی سے بھری بہشتیں ہیں اور مومنین کی ارواح ،فرشتے اور چھوٹے چھوٹے خدا ،سب کے سب نعمتوں سے مالا مال ہیں اور نچلی دنیا ،یعنی عالم ظلمت و تاریکی میں بدی ،ناپاکی بیماریاں دیو ،شیاطین اور بد کردار افراد کی ارواح ہمیشہ دردناک عذاب و مصیبت میں مبتلا رہیں گی ۔١٢

دین مانی میں تکوین کے بارے میں پائے جانے والے اسرار کایہ ایک خلاصہ تھا ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کے بارے میں مانی کا نظریہ کیا تھا۔

۴۸

انبیاء کے بارے میں مانی کا نظریہ

مانی ،موسیٰ اور ان کی تورات پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ،گوتم بدھ اور زردشت مشرق میں عیسیٰ جو ماہ سے نہیں ہوئے تھے غرب میں پیغمبری پر مبعوث ہوئے ہیں ۔ خود مانی وہی

'' فارقلیط '' ہے ،جس کے ظہور کے بارے میں عیسیٰ نے انسانی معاشرے کو بشارت دی ہے ،اس نے خود عالم وجود کے مرکز بابل میں ظہور کیا ہے اور مأمور ہے کہ ان پیغمبروں کے مقصد اور دین کو آپس میں جمع کر کے تکمیل تک پہنچائے اور اسے دنیا کی تمام زبانوں میں منتقل کرے ۔١٣

پس چوں کہ وہ خود کو عالم بشریت کی راہنمائی کے لئے مبعوث اور اپنے دین کو تمام ادیان کا جانشین جانتا تھا ،لہٰذا خود اس نے اور اس کے جانشینوں نے اس کے افکار و نظریات کو تمام زبانوں میں ترجمہ کرکے تمام عالم بشریت تک پہنچانے کی کوشش کی تاکہ لوگ ان کو سن کر اس کے دین کی طرف مائل ہو جائیں ۔

اسی لئے اس کے پیرو جس ملت میں تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے ،اسی قوم اور مذہب کی اصطلاحا ت سے استفادہ کرتے تھے اور اسی زبان و اصطلاحات میں ان سے مخاطب ہوتے تھے ۔مثلا اگر ایک یہودی کو زندیقی مذہب کی طرف دعوت دینا چاہتے تو دین یہود کی اصطلاحات کو اپنے مطالب سے منسلک کرتے تھے تاکہ اس یہودی کے لئے ان کے مطالب سمجھنے میں آسانی ہو اور زندیقی مذہب اس کے لئے قابل قبول ہو جائے جیسے مہینوں اور فرشتوں وغیرہ کے نام ان کی ہی اصطلاحوں میں بیان کرتے تھے ۔

۴۹

اس لئے جو کتابیں ایرانیوں کے لئے ترجمہ کی گئی ہیں ،ان میں اصطلاحات ،مہینوں کے نام اور پہلوانوں کے نام دین زردشت کے مطابق استعمال کئے گئے ہیں اور ایرانی افسانے بیان کئے گئے ہیں اسی طرح مسیحیوں کے لئے مسیحی اصطلاحات سے پُر،یونانیوں کے لئے ان کے خدائوں کے نام اور اصطلاحات سے سرشار اور چینیوں کے لئے ان کی اصطلاحات اور بودھ مذہب کی تعلیمات میں بات کرتے تھے۔

اسی طرح جب کسی دین سے کسی خدا یا فرشتے کو شامل کیا جاتا تھا،تو اسے اس کے تمام ملازموں اور غلاموں کے ساتھ اس دین میں داخل کیا جاتا تھا۔اس طرح ان اواخر تک چھوٹے بڑے خدائوں اور مذہب مانی میں شیاطین کو دور کرنے کے لئے پڑھے جانے والے اوراد واذکار ،طلسمات اور منتر جنتر کی تعداد بے شمار حد تک بڑھ گئی تھی ۔

یہی امر اور اس کے علاوہ انسانی فطرت سے واضح تضاد، جیسے: لوگوں کو بچے پیدا کرنے سے منع کرنا اور دنیا کو نابودی کی طرف کھینچنا،اس بات کا سبب بنے کہ یہ مذہب اپنی پیدائش اور رظاہر کے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد نابود ہوگیا۔

۵۰

مانی کی شریعت

مانی کی شریعت میں نماز ،روزہ اور گانا یعنی خوش الحانی سے اذکار وغیرہ کاپڑھنا ،پائے جاتے ہیں ۔اور وہ سال میں ایک بار عید مناتے ہیں ۔

ان کی عبادت گاہ پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔اس دین میں داخل ہونے کاطریقہ یہ ہے کہ انسان پہلے ازدواج ،شہوت ،گوشت اور شراب سے پرہیز کرکے اپنا امتحان لیتاہے۔اگر اس آزمائش میں کامیاب ہوا تو اس دین کوقبول کرنے کے مرحلہ میں داخل ہوتاہے ۔کوئی شخص حقیقت میں مانی کے دین کوپسند کرتا ہو ،لیکن نفسانی خواہشات پر قابو نا پاسکے ،تو وہ عبادت ورریاضت کواپنے اوپر لازم قرار دینے کے علاوہ دین اور صدیقین کے گروہ کے تحفظ کو اپنے اوپر واجب قرار دیتاہے ۔ایسے افراد کو ''سماعین ''کہاجاتاہے ۔مانی کے اکثر پیرو اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ اس نے ان پر ایک خاص قسم کی نماز اور روزہ واجب کیا ہے ۔''سماعین ''سے بالاتر رتبہ ''صدیقین ''کاہے۔ان کے لئے ایک خاص قسم کی عبادت معین کی گئی ہے اور ان پر صرف سبزی پر مشتمل ایک دن کے کھانے کے علاوہ کھانا حرام قرار دیاگیاہے ۔وہ ایک لباس ایک سال تک استعمال کرتے ہیں ۔ان کے لئے واجب قرار دیا گیاہے کہ ہمیشہ سفر میں رہیں اور وعظ و تبلیغ کرتے رہیں ۔

''صدیقین ''سے بالاتر ''قسیسان''کا گروہ ہے ، ان کی تعداد ٣٦٠ افراد پر مشتمل ہے ۔ان میں بالاتر مقام کے حامل ''اسقف ''ہیں جن کی تعداد ٧٢ افراد تک پہنچتی ہے ،ان کے بعد ''معلم '' درجہ ہے اور اس سے اوپر مانی کاخلیفہ ہے اور ان سب کے بالاتر خود ''مانی''قرار پایاہے ۔ ١٥

۵۱

مانی کاخاتمہ

مانی نے چالیس(۱) سال تک دنیا کے مختلف ممالک ،جیسے ہندوستان ،چین ،اور خراسان کادورہ کیا اوراپنے مذہب کی تبلیغ کی ۔وہ ہر جگہ پر اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کوجانشین مقرر کرتاتھا۔

٣١ سال تک ایران کے فرماں رواؤں اور بادشاہوں نے مانی کی حمایت وتائید کی اور یہی سبب بنا کہ اس کا دین اس زمانے میں تمام دنیا میں پھیلا۔آخر کار ایران کے باد شاہ ہرمز کے بیٹے بہرام نے مانی اور اس کے دین کی مخالفت کی اور مانی کو اپنی سلطنت میں تین سال روپوشی کے بعد گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ چلایا۔

بہرام نے اس مقدمہ کے دوران اس سے کہا:تم نہ جنگ کرتے ہو اور نہ شکار کے لئے جاتے ہو اور نہ کسی بیمار کو شفا بخشتے ہو ،آخر تم کس کام کے ہو؟ مانی نے جواب میں کہا:میں نے تیرے بہت سے خدمت گاروں کو شیاطین،سحر وجادو کے شر سے نجات دلائی ہے اور بہت سے بیماروں کو شفا بخشی ہے اور بہت سے لوگوں کو موت کے چنگل سے نجات دلائی ہے !

کہتے ہیں ،بہرام نے اس سے کہا:تم ،لوگوں کو عالم وجود کی نابودی کی دعوت دیتے ہو لہٰذا یہی بہتر ہے کہ حکم دیدوں کہ اس سے پہلے کہ دنیا نابود ہو تم اپنی آرزو کو پہنچ جاؤاور تمھیں نابود کر دیاجائے۔

____________________

۱)۔ابن ندیم نے کتاب ''الفہرست ''کے صفحہ ٤٥٨میں مانی کی مدت عمل چالیس سال بتائی ہے ،جب کہ مانی نے ٢٤٠ ء میں پیغمبری کادعویٰ کیا اور ٢٧٧ء میں ہلاک ہوا ،اس حساب سے اس کی پیغمبری کے ادعا کازمانہ ٣٨ سال تھا۔

۵۲

اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں اور گردن(۱) زنجیر سے جکڑ کر زندان میں ڈال دیاجائے ۔مانی نے اس حالت میں زندان میں ٢٦ روز تک برداشت کیا اور اس کے

بعد مزید تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا۔مانی کی وفات کی تاریخ ٢٧٧ء لکھی گئی ہے ۔اور کہاجاتاہے کہ وفات کے وقت اس کی عمر ٦٠ سال تھی۔

مانی کے مرنے کے بعد بہرام کے حکم سے اس کا سر تن سے جدا کیا گیا اور اس کی لاش کو شہر کے دروازے پر لٹکا دیاگیا ۔١٦

دین مانی کا پھیلاؤ

مانی کا مذہب چوتھی صدی عیسوی کے بعد دنیا کے مختلف مسیحی نشین علاقوں ،جیسے اسپین،جنوبی فرانس،اٹلی،بلغارستان اور ارمنستان میں پھیلا ۔چودھویں صدی عیسوی تک ان علاقوں میں اس مذہب کے پیرو دکھائی دیتے تھے۔ ۱۷

یہ مذہب ایران کے مشرقی علاقوں ،ہندوستان ،طخارستان اور بلخ میں پھیلا اور آٹھویں صدی میں مانی کا ایک خلیفہ طخارستان کاحاکم بنا۔

ساتویں صدی عیسوی میں مانی کا مذہب چین میں پھیلا اور تبلیغات کی آزادی اس کے ہاتھ آگئی۔آٹھویں صدی کے اواخر میں مشرقی چین کے بادشاہ نے مانی مذہب اختیار کیا۔لیکن نویں صدی میں اس کا مخالف ہوگیا۔پھر چودھویں صدی عیسوی تک یہ مذہب وہاں پایاجاتارہا۔

مسعودی نے مروج الذہب میں لکھاہے :

''طاقتور ترین اور منظم ترین حکومت جو ٣٣٢ ھ سے ٩٤٣ھ تک ترکیہ میں اقتدار پر تھی وہ حکومت ''کوشان''تھی اور اس کامذہب مانی تھا۔

____________________

۱)۔لکھا گیاہے کہ جو زنجیر مانی کے ہاتھ پاؤں اور گردن میں ڈالی گئی تھی ،اس کاوزن ،آج کے زمانہ کے مطابق ٢٥ کلوگرام تھا۔

۵۳

اسلامی ممالک میں دین مانی :

اسلامی ملک میں خلفاء میں سب سے پہلے جس نے مانی مذہب کی طرف میلان دکھایاوہ ولید دوم ( ١٢٥ ھ۔ ١٢٦ ھ)تھا ١٨ مروان بن محمد ،معروف بہ جعدی (وفات ١٣٢ھ)مانوی مذہب کاپیرو تھا۔اس کا لقب جعدی اس لئے پڑا کہ اس نے اپنے استاد جعد بن درہم سے تربیت وہدایت پائی تھی۔

جب عباسی خلفاء نے زندیقیوں کو قتل عام کرنے کافیصلہ کیا اور ان کی تلاش وجستجو شروع کی ، تومانوی عراق اور مغربی ایران سے بھاگ کر ایران کے مشرق وشمال اور ترکستان کی طرف ہجرت کرگئے ۔

ابن ندیم لکھتاہے :میں معز الدولہ کی حکومت کے زمانے میں تین سو مانویوں کوجانتاتھا کتاب ''الفہرست ''کی تالیف کے وقت ان میں سے صرف پانچ آدمی باقی بچے تھے ۔اس زمانے میں مانویوں نے سغد،بجنک،اور سمرقند کی طرف ہجرت کی۔ ١٩

اب جب کہ زندقہ وزندیقیوں کی تاریخ کا ایک حصہ ہم نے اہل نظر اور محققین کی خدمت میں پیش کیا،تو مناسب ہے سیف کے زمانے میں ان کی کارکردگی اور فعالیت کا بھی کچھ ذکر کریں تاکہ مانی ومانویوں کے مسئلہ پر ہر جہت سے بحث وتحقیق ہوجائے۔

۵۴

مانویوں کی سرگرمی کازمانہ:

مسعودی نے اپنی کتاب ''مروج الذہب''میں اخبار القاہر اور مھدی عباسی کے سلسلے میں یوں ذکر کیاہے :

جب مانی ،ابن دیصان اور مرقیون کی کتابیں عبد اللہ ابن مقفع اور دیگر لوگوں کے ذریعہ فارسی اور پہلوی زبان سے عربی میں ترجمہ ہوئیں اور اسی طرح اسی زمانے میں ابن ابی العوجائ،حماد عجرد،یحییٰ بن زیاد اور مطیع بن ایاس کے ہاتھوں مذہب مانی ،دیصانیہ اور مرقونیہ کی تائید میں کتابیں تالیف کی گئیں تو ان سرگرمیوں کے نتیجہ میں اس کی حکومت کے زمانے میں مانی کے طرفداروں میں اضافہ ہوا اور ان کے عقائد ونظریات کھل کر سامنے آگئے ۔اس لئے اس نے بھی ان لوگوں کو اور دیگر دین مخالف عناصر کو قتل کرنے میں انتہائی سنجیدہ کوشش کی۔ ٠ ٢

اگلی فصلوں میں ہم ان میں سے چند افراد کاذکر کریں گے۔

مانویوں کے چند نمونے

لعلّی اصادف فی باقی ایامی

زماناًاصیب دلیلا علی هدیٰ

شائد ہم مستقبل میں حقیقت اور ہدایت کا راستہ پاجائیں گے ۔

) عبداللہ ابن المقفع (

١۔ عبداللہ بن مقفع

٢۔ابن ابی العوجا

٣۔ مطیع بن ایاس

٤۔ سیف بن عمر

چوں کہ علم رجال کے علماء نے سیف پر زندیقی ہونے کا الزام لگایا ہے ،لہٰذا ہم اس فصل میں بعض ایسے افراد کا جائزہ لیں گے جن پر اسلام میں زندیقی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے تاکہ سیف کے ساتھ ان کی ہماہنگ سرگرمی کا پتا چلے ۔

۵۵

١۔عبداللہ بن مقفع

عبداللہ بن مقفع (١٠٦ ھ ١٤٢ ھ)٢١عبداللہ بن مقفع عباسی خلیفہ منصور کا ہم عصر تھا اس نے ارسطاطالیس وغیرہ کی کتابیں ،جو منطق میں تھیں منصور کے لئے عربی میں ترجمہ کیں ۔ عبداللہ اسلام میں پہلا شخص تھا جس نے ارسطو کی کتابوں کے ترجمہ کا کام شروع کیا ۔اس کے علاوہ اس نے کتاب ''کلیلہ ودمنہ '' اور دوسری کتابوں کا فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا ہے اس نے ''الادب الصغیر '' و ''الادب الکبیر '' اور والیتیمہ '' جیسے فصیح و بلیغ رسالہ بھی تحریر کئے ہیں ۔

عبداللہ پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا ،عباسی خلیفہ مھدی کہتا تھا :

''میں نے زندیقیوں کی کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جو عبداللہ مقفع کی خبر نہ دیتی ہو ''

عبداللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں لیکن ہم نے جو کچھ کتاب '' کلیلہ و دمنہ '' میں برزویۂ طبیب کے باب میں مشاہدہ کیا اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہ پائی جو عبداللہ کے زندیقی ہونے پردلالت کرتی ہو محققین کا یہ نظریہ ہے کہ اس کتاب (کلیلہ ودمنہ ) کے برزویہ طبیب کے باب کا خود ابن مقفع کے ہوتھوں برزویہ طبیب کی زبانی لکھا گیا ہے ۔برزویہ طبیب کے باب میں اس طرح آیا ہے:

''میں نے دیکھا کہ لوگوں کے نظریات مختلف ہیں ،اور ان کی خواہشات متناقض ہیں ، ایک طائفہ دوسرے پر حملہ کرتا ہے اور اسے دشمن جانتا ہے عیب نکالتا ہے اس کی بات کی مخالفت کرتا ہے ۔ اور دوسرا طائفہ بھی اس کے ساتھ یہی برتائو کرتا ہے ۔جب میں نے ایسا دیکھا تو سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہمسفر نہیں ہو سکتا ....''

۵۶

پھر کہتا ہے '' پھر میں ادیان کی طرف پلٹ گیا ،اور عدل و انصاف کو ان میں تلاش کرنے لگا ،جس کسی کے پیچھے دوڑا اسے اپنے سوال کے جواب میں بے بس پایا ،یا ان کے جواب کو عقل و شعور کے مطابق نہیں پایا تاکہ میری عقل ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہوتی ۔سوچنے لگا کہ اپنے اسلاف کے دین پر باقی رہوں ،دل نے تائید نہ کی اور اس بات کی اجازت نہ دی کہ اپنی عمر کو ادیان کی جستجو میں صرف کروں ۔دوسری طرف میں نے دیکھا کہ موت نزدیک ہے انتہائی فکر و پریشانی میں پڑا ،چوں کہ تردید اور تذبذب کی وجہ سے خوف و ہراس سے دو چار تھا ،سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ کراہت سے اجتناب کروں اور اسی چیز پر اکتفا کروں جس کی دل گواہی دے کہ یہ تمام ادیان کے مطابق ہے ،لہٰذا کسی کو مارنے اور ضرب لگانے سے ہاتھ کھینچ لیا ...''

اس کے بعد کہتا ہے : میں نے قبول کیا کہ کسی پر ظلم نہ کروں گا ،بعثت انبیاء ،قیامت اور ثواب و عذاب کا انکار نہ کروں گا اور بد کرداروں سے دوری اختیار کروں گا...''

اس کے بعد کہتا ہے :اس حالت میں میرے دل نے آرام و سکون کا احساس کیا اور حتی المقدور اپنے حال ومال میں اصلاح کی کوشش کی ،اس امید سے کہ شائد اپنی عمر کے باقی دنوں میں ایک فرصت ملے اور راہ کی راہنمائی ،قوت نفس اور کام میں ثبات حاصل ہو جائے میں اسی حالت پر باقی رہا اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا۔

مذکورہ نمونہ سے ابن مقفع کا طرز تفکر ہمارے اوپر واضح ہوجاتا ہے دین میں شک ،بظاہر دین زردشت سے اسلام کی طرف مائل ہونے کے باوجود ادیان میں سے کسی ایک کو قبول کرنے میں تردید، اس کے بعد ادیان میں سے اس حصہ کو قبول کرنا جو تمام ادیان میں مشترک اور مورد تصدیق ہو،جیسے آدم کشی سے پرہیز کسی کواذیت و آزار دینے سے اجتناب اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ کرنا اور یہ بذات خود ان چیزوں کے صحیح ہونے کا ثبوت ہے جو زندیقیوں کی کتابوں کی نقل کے مطابق اس کی طرف نسبت دی گئی ہے ،اور شائد سر انجام یہی تذبذب اور پریشانی اس کے لئے زندیقیوں کا دین قبول کرنے کا سبب بنی ہو ،تاکہ فلسفہ تکوین سے اپنے ہر سوال کا جواب حاصل کر سکے ، چاہے دنیا سے رو گردانی اور امور کے بارے میں جانکاری بصورت توہمات ہی کیوں نہ حاصل ہو ۔

یہ سب چیزیں عبداللہ کی فطرت و مزاج سے پوری طرح مربوط ہیں کہ وہ کہتا ہے :

'' شائد زندگی کے باقی دنوں میں کوئی اسی فرصت ہاتھ آئے اور مجھے ایک رہبر ملے''

۵۷

٢۔ابن ابی العوجا

عبد الکریم ابن ابی العوجا ،معن بن زائد ہ شیبانی(۱) کاماموں تھا یہ بصرہ کا ضعیف الاعتقاد ترین فرد اور زندیقی تھا ٢٢ حدیث ،تاریخ اور دینی مناظروں کی بہت ساری کتابوں میں اس کا ذکر آیا ہے من جملہ مجلسی کی بحار الانوار میں اس کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے :٢٣

''ابن ابی العوجا ء حسن بصری کے شاگردوں میں سے تھا۔اس نے توحید اور اسلام کی یگانہ بت پرستی سے منہ موڑ لیا تھااعمال حج کا منکر اور اسے بے اعتقادی کی نگاہ سے دیکھنے کے باوجود مکہ گیا ۔چوں کہ وہ بد فطرت اور گستاخ تھا اس لئے علماء میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ ہم نشینی اور گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا تھا ایک دن اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت ابو عبداللہ جعفر ابن محمد الصادق کی خدمت میں پہنچا اور بات کرنے کی اجازت چاہی ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ امان میں ہو حضرت نے اسے اجازت دے دی ۔ابن ابی العوجا ء نے مراسم حج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کب تک اس خرمن کو اپنے پیروں سے کوٹتے رہیں گے ، اس پتھر سے پناہ حاصل کرتے رہیں گے ،اس بلند و محکم گھر کی پوجا کرتے رہیں گے اور رم خوردہ اونٹ کی طرح اس کے گرد گھومتے رہیں گے ؟ جب کہ کسی صاحب نظر عقلمند نے یہ عمل مقرر نہیں

____________________

۱)۔کتاب جمھرة انساب العرب ص٣١٦میں آیا ہے کہ وہ بنی عمرو بن ثعلبہ بن عامر بکری کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔

۵۸

کیا ہے ،چوں کہ آپ کے باپ اس کام کے بانی تھے اور آپ اس کے اسرار سے واقف ہین لہٰذا جواب دیں ''

حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق ں نے جواب میں فرمایا: ''بیشک جسے خدا اس کی اپنی گمراہی پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کی عقل کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں وہ حق کو نا پسنداور بری نظر سے دیکھتا ہے ۔شیطان اس پر غالب آکر اسے ہلاکت و نابودی کے گڑھے میں ایسے پھینک دیتا ہے کہ اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا یہ وہ گھر ہے جس سے خدا ئے تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے تاکہ مناسک حج انجام دینے سے ان کی اطاعت و فرمانبرداری معلوم ہو جائے اسی لئے انھیں حکم دیا گیا ہے کہ اسکی تکریم و تعظیم کریں اور اس کے دیدار کے لئے آئیں ۔خدا نے اس جگہ کو پیغمبروں کا مرکز اور نماز گزاروں کا قبلہ قرار دیا ہے اور یہ کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک حصہ ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو اس کی بخشش و عنایتوں پر منتہی ہوتا ہے اور بیشک خدائے تعالیٰ اس کا سزاوار ہے کہ اس کے فرمان کی اطاعت کی جائے''

ابن ابی العوجاء نے کہا: آپ نے اپنی بات میں خدا کانام لے کر غائب کا حوالہ دیا !

حضرت ں نے جواب میں فرمایا:'' افسوس ہو تم پر !جو ہمیشہ اپنی مخلوق کے ہمراہ حاضر اور شاہد اور اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہو وہ کیسے غائب ہو سکتا ہے ؟!وہ اپنے بندوں کی باتوں کو سنتا ہے ان کی حالت کو محسوس کرتاہے اور ان کے اندرونی اسرار کو جانتاہے ''

ابن ابی العوجاء نے کہا:'' اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے ؟ پس جب وہ آسمان پر ہے تو زمین پر کیسے موجود ہو سکتا ہے ؟ اور جب زمین پر ہو تو آسمان پر کیسے ہوسکتاہے؟!

۵۹

حضرت نے فرمایا: '' تم نے اپنے بیان کردہ و صف سے ایک مخلوق کی بات کی ہے کہ جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل ہو جاتا ہے تو اس کی پہلی جگہ خالی ہو جاتی ہے اور دوسری جگہ اس سے پُر ہو جاتی ہے ۔اس وقت وہ نہیں جانتا کہ جس جگہ سے وہ اٹھا تھاوہاں پر اس کے اٹھنے کے بعد کیا گزرا۔لیکن ،عادل اور جزا دینے والے خدا سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور وہ کسی فضا یا جگہ کو پُر نہیں کرتا اور مکان کے لحاظ سے نزدیکی اور دوری اس کے لئے مصداق ومعنی ٰ نہیں رکھتی ''

اس کے علاوہ بیان کیا گیا ہے کہ ابن ابی العوجا نے ،آتش جہنم میں گرفتار لوگوں کے بارے میں خدا کے اس فرمان:''اگر ان کی کھال جل جائے تو ہم ان پر دوسری کھال چڑھادیں گے تاکہ وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں ۔''کے بارے میں سوال کیاکہ : ''دوسری کھال کا کیا قصور ہے؟''(۱)

حضرت نے فرمایا:''افسوس ہوتم پر !دوسری کھال وہی پہلی کھال ہے،جب کہ وہ پہلی کھال نہیں بھی ہے۔''

ابن ابی العوجا نے کہا:''ایک دنیوی مثال سے سمجھا ئیے تاکہ مطلب سمجھنا آسان ہوجائے ''

حضرت نے فرمایا:''کوئی حرج نہیں ،جب کوئی شخص کسی کچی اینٹ کو توڑ کر اس کی مٹی کو دوبارہ قالب میں ڈال کر پھر اس سے اینٹ بناتاہے ،تو یہ دوسری اینٹ وہی پہلی اینٹ ہے جب کہ پہلی اینٹ بھی نہیں ہے ۔'' ٢٤

یہ بھی ذکر کیا گیاہے کہ دوسرے سال ابن ابی العوجاء نے مسجد الحرام میں حضرت

____________________

۱)۔وَکُلَّمٰا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنٰاهُمْ جُلُوداً غَیْرَهٰا لِیَذُوقُوا الْعَذٰابَ (نسائ٥٦)

۶۰

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

قینان کے بعد ان کے وصی مہلائیل اپنی قوم کے درمیان آئے اور انھیں خدا وند عالم کی اطاعت اور اپنے باپ کی وصیت کا اتباع کر نے کا حکم دیا۔

جب مہلائیل کی موت کا زمانہ قر یب آیا ، تو انھوں نے اپنے فر زند ( یرد) کو اپنا وصی اعلان کیا اورحضرت آدم کے جسد کی حفاظت کی وصیت کی پھر وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۱ )

مرآة الزمان میں مذ کور ہے:

قینان نے موت کے وقت اپنے فرزندمہلائیل کو اپناوصی قرار دیا اور انھیںاُس نور کے بارے میںجو ان تک منتقل ہوا ہے آگاہ کیا. مہلائیل نے بھی باپ کی سیرت کو لوگوں کے ساتھ قا ئم رکھا۔( ۲ )

مہلائیل وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے گھر بنا یا، مسجدیں قائم کیں اور معدن ( کان) کا استخراج کیا:

تاریخ طبری میں مذ کور ہے کہ :

حضرت مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے درخت کاٹ کر(اس کی لکڑی سے فا ئدہ اٹھا یا اور) گھر بنایا اور معدن کے استخراج میں مشغول ہوئے. اور اپنے زمانے کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ عبادت کے لئے کسی مخصوص جگہ کا انتظام کر یں ،وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے روئے زمین پر شہروں کی بنیاد ڈالی؛ انھوں نے دو شہروں کی بنیا د ڈالی ہے ایک کوفہ کے اطراف میں با بل اور دوسرا شوش نامی شہر ہے۔( ۳ )

تاریخ کامل ابن اثیر میں مذکور ہے کہ :

مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے لوہے کا استخراج کیا اور اس سے صنعت کے آلا ت بنائے انھوں نے لو گوں کوزراعت اور کسانی کی تشو یق دلائی اور حکم دیا کہ درندہ جا نوروں کو مار کر اور ان کی کھال سے جسم چھپائیں. گا ئے، بھیڑ اور دیگر جنگلی حیوا نات کا سر کاٹ کر ان کے گو شت سے استفادہ کریں یعنی کھا ئیں۔( ۴ )

____________________

( ۱)تاریخ یعقوبی ،ج۱،ص۱۰.(۲)مرآة الزمان،ص ۲۲۴ (۳)تاریخ طبری۔ج۱،ص ۱۶۸.(۴)الکا مل فی التاریخ،۱،ص ۲۲.

۶۱

مہلائیل ـ کی اپنے فرزند یرد سے وصیت

اخبار الز مان میں مذکور ہے کہ :مہلائیل نے اپنے فرزند یو ارد( یرد ) کو اپنا جانشین بنایا اور حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم دی اور زمین کے حصّوں اور اس بات کی کہ دنیا میں کیا ہو گا انھیں تعلیم دی؛ اور کتاب سر ملکوت کہ جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور جسے اوصیاء مہر شدہ اور لفافہ بند میراث پا تے تھے ان کے حوا لے کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)اخبار الزمان،ص۷۷.

۶۲

مہلائیل کے فرزند یوارد

* یوارد کا پیدا ہونا اور حضرت خا تم الا نبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کاان میں منتقل ہونا.

* ان کے باپ مہلائیل کی ان سے وصیت.

* یوارد کی اپنے فرزند اخنوخ ( ادریس پیغمبر )سے وصیت.

۶۳

یرد کا عرصۂ وجود پر قدم رکھنا اور ان میں نور کا منتقل ہو نا

مروج الذھب میں مذکور ہے:

یوارد،( ۱ ) مہلائیل کے فرزنددنیا میں تشریف لائے اور وہ نور جو ( ایک وصی سے دوسرے وصی تک)بعنوان ارث پہنچتا رہا ان تک منتقل ہوا ، عہد و پیمان ہوا اور حق اپنی جگہ ثابت اور بر قرار ہو گیا۔( ۲ )

مہلائیل کی اپنے فرزند یرد سے وصیت

کتاب مرآة الزمان میں مذکور ہے:

مہلائیل نے اپنے فر زند یر دسے وصیت کی اور انھیںسرِّمکنون(پو شیدہ راز ) اور حضرت خاتم محمدمصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے انتقال کے بارے میں خبر دی. یرد نے صالحین اور نیک افراد کی سیرت اپنائی۔

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

مہلائیل کے بعد یرد ان کے جا نشین ہوئے.وہ ایک با ایمان اور خدا وند عزّوجل کے کامل عبادت گذار انسان تھے اورشب وروز میں بہت زیادہ نما زیں پڑھتے تھے۔

یرد کا زمانہ تھا کہ شیث کے فرزندو نے کئے ہوئے عہدوپیمان کو توڑڈ الا (اور شیث او ر دیگر افراد کی وصیت کے بر خلا ف، کوہ رحمت سے ) نیچے آکر قابیلیوں کی سرزمین پر ق دم رکھ د یا اور ان کے ساتھ گنا ہوں میں شر یک ہوگئے۔( ۳ )

یرد کی اپنے فرزند ادریس سے وصیت

جب یرد کی موت کا زمانہ قر یب آیاتوان کی اولاد اور اولاد کی اولاد یعنی اخنوخ،متوشلح، نوح اور لمک ان کے پاس جمع ہوگئے یرد نے ان پر درو د بھیجا اور ان کے لئے خدا سے بر کت کی دعا کی اس گھڑی اپنے فرزند اخنوخ ( ادریس ) کو حکم دیا کہ ہمیشہ غا ر گنج میں(کہ جس میں حضرت آدم کا جسد ہے ) نماز پڑھیں، پھر آنکھ بند ہوئی او ر دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۴ )

____________________

( ۱)عربی توریت کے نسخوں میں یرد کو '' یوارد '' لکھا گیا ہے اور مرآة الزمان کے ص ۲۲۴ میں ''یرد'' کو توریت میں موجود یوارد کی تقریب کے عنوان سے استعمال کیا گیا ہے.تاریخ یعقوبی کی پہلی جلد کے دسویں(۱۰) صفحہ میں یوارد کو مخفف کر کے یرد لکھا گیا ہے.مروج الذھب،ج۱، ص ۵۰ پر ''لور '' کو تحریف کر کے استعمال کیا گیا ہے لیکن اخبار الزمان ص ۷۷ اور تاریخ ابن اثیر،ج۱،ص ۲۲ اور طبری ،ج ۱،ص ۱۶۸ پر یوارد ہی مرقوم ہے.(۲)مروج الذھب ،مسعودی ،ج۱،ص۵۰.(۳)تاریخ یعقوبی،ج ۱، ص ۱۱ ، اخبار الزمان ،ص۷۷.(۴) تاریخ یعقوبی،ج۱ ، ص ۱۱.

۶۴

خدا کے پیغمبر ادریس (اخنوخ)

* قرآن کریم میں ادریس کا نام.

* ا دریس سیرت کی کتا بوں میں

* آسمانی صحیفوں کا ادریس پر نازل ہو نا.

* خدا وند عالم نے ادریس کو مہینوں اور ستاروں کے اسماء تعلیم دئیے.

* ادریس وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سوئی اور دھاگہ کا استعمال کیا اور کپڑا سلا.

* حضرت ادریس کے عہد میں شیث اور قابیل کے فرزندوں کے درمیان اختلاط

* ادریس کی ا پنے بیٹے متوشلح سے وصیت.

۶۵

۱۔قرآن کریم میں ادریس کا نام

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِدْریسَ اِنَّه کَانَ صِدِّیقاًًناَبِیاً٭وَرَفَعْناَهُ مَکَاناًًعلیا ً )

اس کتاب میں ادریس کو یاد کروکہ وہ صدیق پیغمبر تھے.اور ہم نے ان کو بلند مقا م عطا کیا ہے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

الف۔ صدّیق:

اللہ اور اس کے پیغمبر وںکے تمام اوامر کی تصدیق کر نے والا.جیسا کہ سورہ ٔحدید میں فر ماتا ہے۔

( وَالَّذِینَ آمَنُوا بِا للّٰهِ وَرُسُله اُولئکَ هُمْ الصِّدِّ یقون... ) ( ۲ )

جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ہیںوہ لوگ صدیق ہیں۔

ایسی چیز کا امکان نہیں ہے مگر جب امر الٰہی کے قبول کرنے اور خواہشات نفسانی کے ترک کرنے میں انسان کا قول و فعل ایک ہو. اس لحا ظ سے صد یقین کا مر تبہ انبیا ء کے بعد ہے اور ہر نبی صدیق ہے لیکن بعض صد یقین انبیاء میں سے نہیں ہیں۔

ب۔ علیّاً :

علےّاً یہاں پر بلند و بالا مکان کے معنی میں ہے اور تو ریت میں مذ کورہے کہ اخنوخ خدا کے ہمراہ گئے لیکن دکھا ٰئی نہیں دئیے کیونکہ خدا نے ان کو اٹھا لیا تھا ۔

۲ ۔ ادریس سیرت کی کتابوں میں

ادریس کا عرصۂ وجود پر قدم رکھنا اور خا تم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ان میں منتقل ہو نا.

____________________

(۱) سورۂ مریم: آیت: ۵۶،۵۷.۲۔(۲) سورۂ حدید: آیت: ۱۹.

۶۶

تاریخ طبری میں مذ کو ر ہے۔

حضرت ادریس کے والد یرد اور ان کی ماں برکنا تھیں وہ اُس وقت پیدا ہوئے جب حضرت آدم کی عمر کے ۶۲۲ سال گذ ر چکے تھے. وہ اس اعتبار سے ادریس کہلا ئے کہ انھوں نے آدم اور شیث کے صحیفوں کا کافی مطالعہ کیا کرتے تھے ۔

حضرت آدم کے بعد سب سے پہلے پیغمبر حضرت ادریس ہیں. وہ نور محمدی کے حامل تھے اور یہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے لباس سل کر زیب تن کیا تھا ۔

حدیث میں مذ کور ہے کہ انبیاء حضرات کا رزق یا کاشت کاری کے ذریعہ حاصل ہوتا تھا یا جانوروں کی رکھوا لی کے ذ ریعہ سوائے ادریس پیغمبر کے کہ وہ خیاط یعنی درزی تھے۔

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: کوفہ میں مسجد سہلہ حضرت ادریس کا گھر تھا جہاں آپ سلائی کرتے اور نماز پڑھتے تھے۔

جب ادریس ۶۵ سال کے ہوئے تو (ادانہ) نامی ایک عورت سے شادی کی اور اس سے متوشلح اور دیگر بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں پھر اس وقت شیث کی اولاد سے خدا کی عبادت کی درخواست کی اور یہ خواہش کی کہ شیطان کی پیروی نہ کریں. اور قابیلیوں سے برے اعمال ، زشت افعال اور گمراہی میں اختلاط نہ کریں، لیکن انھوں نے ان کی بات نہیں مانی اور ان میں سے بعض گروہ قابیلیوں سے مخلو ط ہوگئے ، محر مات اور گنا ہوں کا ارتکاب انکے درمیان حد سے زیادہ ہو گیا .جس قدر حضرت ادریس انھیں خیر کی طرف راہنمائی کرتے اور گنا ہوں سے روکتے وہ اتنا ہی سرپیچی کرتے اور برے کاموں سے دست بر دار نہیں ہوتے تھے. لہٰذا انھوں نے راہ خدا میں ان سے جنگ کی،کچھ کو قتل کیا اور قابیلیوں کی اولا د کے کچھ گروہ کو اسیر کر کے غلام بنالیا یہ تمام واقعات حضرت آدم کی زندگی میں رو نما ہو چکے تھے.

جب حضرت ادریس ۳۰۸ سال کے سن کو پہنچے تو حضرت آدم دنیا سے رحلت کر گئے.

ادریس نے ۳۶۵ سال کی عمر میں فر مان خدا وندی کے مطا بق اپنے فرزند متوشلح کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کیا اور ان کو اور ان کے اہل وعیال کو یاد دہا نی کرائی کہ خدا وندعالم قا بیل کی اولاد اور جو ان کے ساتھ معا شرت رکھے گا اور ان کی طرف ما ئل ہو گا ان کو عذاب کرے گا ،لہٰذا اس اعتبار سے انھیں ان کی معاشرت اور اختلاط سے منع کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)تاریخ طبری،ج۱،ص۱۱۵، ۱۱۷

۶۷

اسی ہنگام میں ان کے وصی ( متوشلح) کا سن جو کہ نور محمدی کے حا مل تھے، ۳۰۰ سال ہو چکا تھااور ان کے آبا ء و اجداد یرد سے لے کر شیث تک سب کے سب زندہ و حیات تھے۔( ۱ )

حضرت ادریس پر آسمانی صحیفوں کا نزول اور ان کا سلا ئی کر نا

مروج الذ ھب میں مذ کور ہے:

یرد کے بعد آپ کے فر زند اخنوخ کہ وہی ادریس پیغمبر ہیں باپ کے جانشین ہوئے. صابئین( ۲ ) کا خیال یہ ہے کہ ادریس وہی ھرمس ہیں اور وہی ہیں جن کے بارے میں خدا وند عزو جل نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے کہ انھیں بلند جگہ تک لے گیا ، ادریس وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خیا طی کی اور سلنے کے لئے سوئی کا استعمال کیا. ادریس پیغمبر پر ۳۰ صحیفے نازل ہوئے اور ان سے قبل حضرت آدم پر ۲۱ صحیفے اور شیث پر ۲۹ صحیفے نازل ہوئے ہیں کہ اس میں تسبیح وتہلیل کا تذ کرہ ہے۔( ۳)

خدا وند عالم نے حضرت ادریس کو بر جو اور ستاروں کے اسماء کی تعلیم دی

ادریس پیغمبر حضرت آدم کے زمانے میں پیدا ہوئے وہ پہلے آدمی ہیں جنھوںنے قا بیل کی اولاد اور پو توںکو اسیر کیااور ان میں سے بعض کو غلام بنا یا .آپ علم نجو م، آسمان کی کیفیت،بارہ برجوں اور کواکب و سےّارات کے بارے میں کا فی اطلا ع رکھتے تھے.خداوند عالم نے انھیں ان تمام چیزوں کی شناخت کے بارے میں الہا م فر مایا تھا ۔( ۴ )

ادریس کے زمانے میں شیث اور قابیل کے پوتوںکے درمیان اختلاط

تاریخ یعقوبی میں مذ کو ر ہے:

یردکے بعد ان کے فرزند اخنوخ اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور خدا وند سبحا ن کی عبا دت میں مشغول ہوگئے اخنو خ کے زمانے میں حضرت شیث کی اولاد اور اولاد کی اولاد ان کی عورتیں اور ان کے بچے( کوہ رحمت سے ) نیچے آ گئے اور قابیلیوں کے پاس چلے گئے اور ان سے خلط ملط ہوگئے. شیث کے پوتوں کا یہ کارنامہ حضرت اخنوخ کو گراںگذر ا،لہذا اپنے فرزند متوشلح اور پوتے لمک اور نوح کو بلا یا اور ان سے کہا:

____________________

(۱)تاریخ طبری ج۱ ، صفحہ ۱۱۷ اور ۱۱۸ ملاحظہ ہو.(۲)فرھنگ فارسی معین،ج۵،ص ۹۶۳ ملاحظہ ہو.(۳)مروج الذھب، مسعودی، ج۱،ص۵۰ (۴)۔مرآة الزمان ۔ص ۲۲۹.

۶۸

''میں جا نتا ہوں کہ خدا وند عالم اس امت کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان پر رحم نہیں کرے گا ''.

اخنوخ وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے قلم ہا تھ میں لیا اور تحریر لکھی. انھوں نے اپنے فرزندوں کو وصیت کی کہ خدا کی خا لصا نہ انداز میں عبادت کریں اور صدق ویقین کا استعمال کریں۔

پھر اُس وقت خدا نے حضرت ادریس کو زمین سے آسمان پر اٹھا لیا( ۱ ) .

جو کچھ ذ کر ہوا اس کی بناء پر حضرت ادریس صدیق اور نبی تھے ، خدا نے انھیں کتاب و حکمت عنایت کی تھی اور انھوں نے اپنے زمانے کے لو گوں کو اللہ کی شریعت کی طرف راہنمائی کی تھی پھر خدا نے انھیں بلند مقام عطا کیا ان تمام چیزوں اور خوبیوں کے باوجود وہ اپنی قوم کی پیغمبری کے لئے خدا کی طرف سے مبعوث نہیں ہوئے اور خدا کی طرف سے کسی آیت اور معجزہ کے ذریعہ ان کے ڈرانے والے اور منذ ر نہیں تھے.

طبقات ابن سعد میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

حضرت آدم کے بعد سب سے پہلے نبی حضرت ادریس تھے کہ وہی اخنوخ یرد کے فرزند ہیں...اخنوخ کے فرزند کا نام متوشلح تھا جو کہ اپنے باپ کے وصی تھے، ان کے علاوہ دیگر اولاد بھی تھی متوشلح کے فرزند لمک ہیں جو اپنے باپ کے وصی تھے اور ان کے علاوہ بھی دیگر اولاد تھی لمک کے فرزند حضرت نوح تھے( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی ،ج۱،ص۱۱،طبع بیروت دار صادر؛تاریخ طبری۔ج۱،ص ۱۷۳، ۳۵۰ طبع یورپ؛

طبقات ابن سعد،طبع بیروت، ج۱ ،ص ۳۹ ، طبع یورپ، ج۱ ،ص ۱۶ادریس پیغمبر کے اخبار کے بیان میں؛

اخبار الزمان،ص،۷۷ ؛مروج الذھب،ج۱،ص۵۰، مرآة الزمان،ص ۲۲۹ ؛

ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی خبر تاریخ یعقوبی اور مرآة الزمان میں آئی ہے.

(۲)طبقات ابن سعد،طبع بیروت، ج۱ ،ص ۳۹ ، طبع یورپ، ج۱ ،ص ۱۶ادریس پیغمبر کے اخبار کے بیان میں.یوارد کی وصیت اپنے فرزند اخنوخ سےکتاب اخبار الزمان میں مذ کور ہے:

یوارد نے اخنوخ کو وصیت کی اور ان تمام علوم کی انھیں تعلیم دی جو خود جا نتے تھے اور مصحف سّر انکے سپرد کیا.

۶۹

اخنوخ یا ادریس پیغمبر کے فرزند متوشلح

* ادریس نے اپنے فرزند متوشلحکو وصیت کی اور انھیں حضرت خا تم الا نبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم

کے نور سے جو ان میں منتقل ہوا تھا آپ نے آگاہ کیا.

* شہروں کا ان کے ذریعہ آباد ہو نا.

* سب سے پہلے انسان جو سواری پر سوار ہوئے.

۷۰

حضرت ادریس کا اپنے فرزند سے وصیت کرنااور خا تم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کانور

اخبار الز مان نامی کتاب میں مذ کور ہے:

ادریس نے اپنے فرزند متوشلح کو وصیت کی کیو نکہ خدا وند سبحان نے انھیں وحی کی تھی کہ اپنے فرزند متوشلح کو وصیت کرو کہ میں بہت جلد ہی ان کی صلب سے ایک پیغمبر مبعو ث کروں گا جس کے افعال میری رضا یت اور تا ئید کے حا مل ہیں۔( ۱ )

مرآة الزّمان نامی کتاب میں مذ کورہے:

ادریس نے اپنے فرزند متوشلح سے وصیت کی اور چو نکہ ان کے ساتھ عہد وپیمان کیا لہٰذا وہ نور جو ان کی طرف منتقل ہوا تھا ( حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ) اُس سے آگاہ کیا.متوشلح وہ پہلے آدمی ہیں جو اونٹ پر سوار ہوئے ۔( ۲ )

مروج الذھب نامی کتاب میں مذ کور ہے:

متوشلح اخنوخ کے فرزند اپنے باپ کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور شہروں کے بسانے میں مشغول ہوگئے اور ان کی پیشانی میں ایک تابندہ نور درخشاں تھا( ۳ ) اور وہ حضرت ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور تھا۔( ۴ )

تاریخ طبری میں مذکور ہے:

اخنوخ نے اس(متوشلح) کو فر مان خدا وندی کے مطا بق اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کیا اور دنیا سے رحلت کر نے سے قبل ان سے اور ان کے اہل وعیال سے لازم وصیت فر مائی اور انھیں آگا ہ کیا کہ خداوندعالم بہت جلد ہی قابیلیوں اور جو ان کے ساتھ ہیںیا ان کے دوستدار ہیں ان پر عذا ب نازل کرے گا. اور

____________________

(۱) اخبار الزمان، ص، ۷۹.(۲) مرآة الزمان ص ۲۲۹، میں انھیں '' متوشلح '' یا '' متو شلخ '' کہا گیا ہے.(۳) اخبار الزمان،ص ۷۹ ؛مرآة الزمان،ص ۲۲۹ میں کہا گیا ہے کہ وہ '' متوشلح '' ہیں یا '' متو شلخ '' مروج الذھب،ج۱،ص ۵۰؛ اور تاریخ طبری،ج۱ ،ص ۱۷۳.(۴) مروج الذھب، ج۱، ص ۵۰.

۷۱

انھیں ان کے ساتھ خلط ملط ہو نے سے منع کیا۔( ۱ )

سب سے پہلے سوار

تاریخ طبری میںمذکور ہے:

وہ (متوشلح) سب سے پہلے آدمی ہیں جو مر کب پر سوار ہوئے وہ جہا د میں اپنے باپ کے پیرو تھے اور اپنے ایام حیا ت میں خدا وند رحمان کی اطا عت وعبادت میں اپنے آباء و اجداد کی راہ اختیا ر کئے تھے ۔( ۲ )

____________________

(۱) تاریخ طبری،ج۱،ص ۱۷۳.( ۲) تاریخ طبری،ج۱،ص۱۷۳.

۷۲

متوشلح کے فرزند لمک

* لمک سے متوشلح کی وصیت

* شیث اور قا بیل کے فرزندوں کا ازدواج اور ان کی

نسلوں کا اختلا ط اور سر کش وبا غی اور تباہ نسل کا دنیا میں آنا.

* حضرت شیث کی نسل سے ۸ افراد کا تنہا رہ جانا.

* لمک کی نوح سے وصیت.

متوشلح کی اپنے فرزند لمک سے وصیت

تاریخ طبری اور اخبار الزمان میں مذ کور ہے:

جب متوشلح کی موت کا وقت قر یب آ یا ، تو اپنے بیٹے لمک (جا مع کے معنی میں ہے) کوجو نوح کے والد تھے وصیت کی اور ان سے عہد لیا اور حضرت ادریس پیغمبر کی مہر کردہ کتابیں اور صحیفے ان کے حو الے کئے اس طرح سے وصیت ان تک منتقل ہوئی۔( ۱ )

شیث اور قا بیل کے پو توں کاباہمی ازدواج اور اس شادی کے نتیجے میں ظا لم و جا بر، سرکش و باغی نسل کا دنیا میں آنا

مروج الذھب میں مذکور ہے :

لمک کے زمانے میں بہت سے واقعات اور نسلوں کے اختلا ط ظا ہر ہوئے ،( ۲) یعنی حضرت شیث اور قا بیل ملعو ن کی نسل کا اختلاط۔

تاریخ یعقوبی میں اختصا ر کے ساتھ مذ کورہے:

لمک اپنے باپ کے بعد خدا کی اطا عت اور عبادت میں مشغول ہوگئے.ان کے زمانے میں سرکشوں اور ستمگروں کی تعداد میں اضا فہ ہو گیا کیو نکہ شیث کے فرزندوں نے قا بیل کی لڑ کیوں سے ازدواج کر لیا تھا اور سرکش و ظالم لوگ ان سے پیدا ہوئے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان،ص،۸۰؛ اور تاریخ طبری،ج۱،ص ۱۷۸، طبع یورپ.(۲) مروج الذھب،مسعودی،ج۱،ص ۵۰.

۷۳

شیث کی اولاد میں سے صرف ۸ افراد کا باقی رہنا اور لمک کی نوح سے وصیت

جب لمک کی موت کا زمانہ قریب آیا تو نوح ، حام، سام،یافث اور ان کی عو رتوں کو بلا یا یہ لوگ آٹھ

آدمی تھے جو شیث کی اولاد میں بازماند گان میں شمار ہوتے تھے اور شیث کی اولاد میں ان ۸ افراد کے علاوہ کوئی(سچے دین پر) باقی نہیں رہ گیا تھا۔اور باقی لوگ کوہ مقدس سے نیچے اتر آئے اور قابیل کی اولا دکے پاس چلے گئے اور ان سے آمیز ش و اختلاط پیدا کر لیا تھا. لمک نے ان آٹھ افراد پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت طلب کی اور ان سے کہا:

اُس خدا وند متعال سے سوال کرتا ہوں جس نے آدم کو پیدا کیا کہ وہ ہمارے باپ آدم کی بر کت کو تم پر باقی رکھے اور سلطنت و قدرت تمہاری اولاد میں قرار دے..

اے نوح! میںمر جا ئوں گا اور اہل عذا ب میں سے تمہارے علاوہ کو ئی نجات نہیں پا ئے گا جب میں مر جا ؤں تو میرا جنا زہ غار گنج میں جہ حضرت آدم کا جنازہ ہے رکھ دینا اور جب خدا کی مرضی ہو کہ کشتی پر سوار ہو تو ہمارے باپ آدم کے جسد کو اٹھا کر اپنے ساتھ اسے لے کر پائینتی کی طرف جا ؤ اور کشتی کے اوپر ی کمرہ میں رکھدو اور تم اور تمہاری اولادکشتی کے مشرقی سمت میں اور تمہاری بیوی اور بہوویں مغر بی سمت میں جگہ لیں.جسد آدم کو تمہارے درمیان میں ہو نا چا ہئے ، نہ تم ان عورتوں تک دستر سی رکھو اور نہ وہ عورتیں تم تک رسائی رکھیں نہ ان کے ساتھ کھا ؤ اور نہ ہی پیو اور ان سے نزدیک نہ ہو یہاں تک کہ کشتی سے باہر آجاؤ... جب طوفان تھمے اور کشتی سے نیچے اترجاؤ تو حضرت آدم کے جسد پر نماز پڑ ھو۔اس کے بعد اپنے فرزندارشد سام سے وصیت کرو کہ جسد حضرت آدم کو اپنے ہمراہ لے جائے اور زمین کے بیچ میں رکھ دے اور کسی ایک فرزند کو مقرر کرو کہ اس کے پاس رہے۔

یہاں تک فرمایا کہ :

خدا وند عالم فرشتوں میں سے ایک فرشتے کو اس ( سام )کا راہنما قرار دے گا تا کہ اس کا مونس وغمخوار رہے اور زمین کے درمیان میں اس کی راہنما ئی کرے۔( ۱ )

٭٭٭

ہم حضرت نوح سے پہلے کے اوصیاء وانبیاء کے حالات کو قرآن کریم اوراسلامی منابع کی رو سے اتنی ہی مقدار میں نقل کرنے پر اکتفاء کر تے ہیں، اب خدا کی تائید و مرضی سے ان کی سوانح توریت سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی،ج،۱،ص۱۲،۱۳،طبع بیروت ۱۳۷۹ ھ.

۷۴

( ۴ )

پیغمبروں کے اوصیاء کی تاریخ توریت کی روشنی میں

توریت کی نقل کے مطابق حضرت نوح کے زمانے تک اوصیاء کی کچھ سر گذ شت

سفر تکوین اصحا ح پنجم میں مذکور ہے:

یہ کتاب میلاد آدم ہے جس دن خدا وند عالم نے آدم کو اپنے ہاتھ (دست قدرت) سے خلق فر مایا انھیں نر ینہ اور مادینہ پیدا کیا اور انھیں بر کت دی اور اسی روز تخلیق ان کا نام آدم رکھاحضرت آدم ایک سو تیس سال کے تھے کہ ان کی شکل وصورت کا ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام (شیث) رکھاآدم نے شیث کے پیدا ہونے کے بعد دنیا میں آٹھ سو سال زند گی گذاری اور اس مدت میں لڑکوں اور لڑکیوں کے باپ ہوئے (کثیر اولا دہوئی) حضرت آدم کی پوری مدت عمر نو سو تیس سال تھی اور آپ نے اسی عمر میں رحلت کی ہے.

شیث ایک سو پانچ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (انوش ) پیدا ہوئے شیث انوش کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سات سال زندہ رہے. اور اتنی مدت میں لڑ کوں اور لڑ کیوں کے مالک ہوئے شیث کی پوری مدت عمر ۹۱۲ سال تھی تب انتقال ہوا۔

انوش بھی نوّے سال کے تھے کہ ان کے فرزند (قینان) پیدا ہوئے انوش قینان کی پیدائش کے بعد آٹھ سوپندرہ سال زندہ رہے اور صاحب اولاد ہوئے پھر نو سو پانچ سال کی عمر میں رحلت کر گئے.قینان ستّر سال کے تھے کہ ان کے بیٹے ''مَہلَلْئِیْل'' ( مہلائیل) پیدا ہوئے، قینان مہلائیل کی پیدائش کے بعد آٹھ سو چالیس سال زندہ رہے اور ان بہت سے بیٹے اور بیٹیاں تھیں اور نو سو دس (۹۱۰ ) سال کی عمر میں وفات پائی۔

(مہلائیل) ۶۵ سال کے تھے کے ان کے فرزند (یارد) پیدا ہوئے مہلا ئیل یارد کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو تیس سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں وا لے ہوئے پھر انتقال کر گئے مہلا ئیل کی مدت عمر پورے ۸۹۵ سال ہے.

یارد ۱۶۲ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (اخنوخ ) پیدا ہوئے اخنوخ کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں والے ہوئے یارد کی پوری عمر ۹سو ۶۲ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے.

۷۵

اَخنوخ ۶۵ سال کے تھے کہ ان کے فرزند(مَتُو شَلَح)پیدا ہوئے. اخنوخ متوشلح کے پیدا ہونے سے خدا کے پاس جانے تک ۳۰۰ سال مزید زندہ رہے اور اس مدت میں صاحب اولاد ہوئے لہٰذا اخنوخ کی پو ری مدت حیات ۳۶۵ سال ہے اخنوخ خداکے جوار میں چلے گئے اس کے بعد کبھی دکھائی نہیں دئیے کیو نکہ خداوند عالم نے انھیں اٹھا لیا تھا۔

متوشلح ۱۸۷ سال کے تھے کہ ان کے بہت سے لڑ کے اور لڑ کیاں ہوئیں متوشلح کی پوری مدت حیات ۹۶۹ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے۔

(لا مک) ۱۸۲ سال کے سن میں صاحب فرزند ہوئے ان کا نام نوح رکھا اور کہا یہ بچہ ، ہمارے کاروبار اور اس زمین کے حا صل سے جس پر خدا نے لعنت کی ہے ہمیں بہرہ مند کرے گا۔

لا مک نوح کی پیدا ئش کے بعد ۵۹۵ سال زندہ رہے لڑکے اور لڑ کیاں پیدا ہوئیں لا مک کی پوری مدت حیا ت ۷۷۷ سال ہے پھر انتقا ل کر گئے،نوح پانچ سو سال کے تھے کہ ان کے بیٹے سام، حام اور یافث پیدا ہوئے۔

٭٭٭

اسی طرح توریت نے آدم اور نوح کے درمیان اوصیاء کے حالات نقل کرنے میںہر ایک کی مدت عمر کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے مگرا خنوخ کی خبر میں اس جملے (اور اخنوخ خدا کے پاس گئے کیو نکہ خدا وندعالم نے انھیں اُٹھا لیا تھا) کا بھی اضا فہ ہے. قرآن کریم نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر مایا ہے :

( و َ رَفَعْنٰاه مَکَا ناً علیّاً )

ہم نے اسے بلند جگہ پر اٹھا لیا۔

۷۶

اس بحث کا نتیجہ

خداوند عالم نے حضرت آدم کوبخش دیا اور انھیں لوگوںکی ہدایت اور اولین انسانوں کوجن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی ان کے زمانے کے انسا نوں کو جن اسلامی احکام کی ضرورت تھی اس کی تبلیغ کے لئے انتخاب کیا. پھر اس وقت انھیں اپنے پاس بلالیا اور ان کے بعد اوصیا ء شریعت کی حفا ظت اور پاسداری اور لوگوں کی ہدایت کے لئے اس کی تبلیغ کو اٹھ کھڑے ہوئے .انسان حضرت ادریس کے زمانے تک دھیرے دھیرے تہذ یب وتمدن سے نزدیک ہوتا گیا اور تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ زندگی کی راہ میں اسلامی احکام کی شرح وبیان کی نئے سرے سے ضرورت محسوس ہوئی یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے ادریس پیغمبر کو ان چیزوں کے لئے جن کی ان کے ہم عصر لوگوں کوضرورت تھی '' یعنی اسلامی احکام' ' کی وحی کی تو آپ نے بھی احسن طریقہ سے اپنی رسا لت انجام دی، خدا نے جس چیز کی انھیں وحی کی تھی لوگوں کی ہدایت کی خاطرانھیں تبلیغ کی ؛ اس کے بعد حکمت خدا وندی یہ رہی کہ انھیں بلند جگہ پرلے جا ئے ، خدا جانتا ہے کہ انھیں کیسے اور کہاں بلندی پر لے گیا ، اس بحث میں اس کی تحقیق کی گنجا ئش نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اسلا می مصا در میں انبیاء واوصیاء کی خبروں سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے وصی سے حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے بارے میں جو کہ اس کو منتقل ہوتا تھا، عہد وپیمان لیا اور اس نے بھی اپنے بعد کے وصی کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اسے متعہد و پا بند بنایا۔اس عہد و پیمان پر تاکید قرآن مجید میں نما یاں اور روشن ہے:( وَإِذْ َخَذَ ﷲ مِیثَاقَ النّاَبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُول مُصَدِّق لِمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ََقْرَرْتُمْ وََخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ ِصْرِی قَالُوا َقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وََنَا مَعَکُمْ مِنْ الشَّاهِدِین َ٭ فَمَنْ تَوَلَّی بَعْدَ ذَلِکَ فَُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ )

جب خدا وند عالم نے پیغمبروں سے پیمان لیا ،کہ چونکہ تمھیں کتاب وحکمت دی ، پھر جس وقت تمہارے پاس وہ پیغمبر جائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والاہے تو تمھیں چا ہئے اُس پر ایمان لا کر اُس کی نصرت کرو( خدا وند عالم نے پیغمبروں سے فرمایا) آیا اقرار کر تے ہو اور اپنی امتوں سے اس کے مطابق پیمان لیا ہے؟

سب نے کہا ،ہاں : اقرار کرتے ہیں فر مایا اس پر گواہ رہنا کہ میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوںلہٰذا جو کوئی اس کے بعد( آخری رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کے بعد )حق سے رو گردانی کرے یقینا وہ فاسقوں میں ہو گا۔( ۱ )

طبری نے پہلی آیت کی تفسیر میں حضرت امام علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فر مایا:

____________________

(۱)آل عمران،۸۱ اور ۸۲

۷۷

خداوند عالم نے حضرت آدم اور ان کے بعد کے پیغمبر وں کو پیغمبری کے لئے مبعوث نہیں کیامگر یہ کہ ان سے حضرت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلہ میں عہد وپیمان لیا پھر اس کے بعد اس آیت کی تلا وت فر ما ئی:

( وَاإِذْ اَخَذَاللّٰهُ مِیثَاقَ النَبْیِین... )

دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت سے نقل کیا ہے کہ آیہ کر یمہ اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ خدا وند فرما تا ہے : اس مطلب پر اپنی امتوں پر گواہ رہنا کہ میں تم پر بھی گواہ ہوں اور اُ ن پر بھی۔

لہٰذا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو بھی اس عہد و پیمان کے بعد ان تمام امتوں میں سے تم سے رو گردانی کرے وہ فاسقوں میں سے ہو گا۔( ۱ )

مذکورہ آیت کی تفسیر میں قرطبی فر ماتے ہیں:

یہاں پر حضرت علی اور ابن عباس کے بقول ''رسول'' سے مراد حضر ت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

مؤلف فر ماتے ہیں:

یہ دو نوں مذ کورہ آیتیں اُن چند آیات کے مجمو عہ کے ضمن میں ذ کر ہوئی ہیں جو خود ہی ایسی بات پر گواہ ہیں کہ حضرت علی سے روایت کی گئی ہے، کہ جس کے آغا ز ہی میں خدا وند عالم نے اس طرح فر مایا:

( لَمْ تَرَ الَی الَّذِینَ ُوتُوا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ الَی کِتَابِ ﷲ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیق مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ )

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کتاب سے تھوڑا بہرہ مند ہوئے ہیں جب انھیں کتاب خدا وندی کی دعوت دی گئی تا کہ وہ لوگ اپنے درمیان قضا وت کر یں ، تو ان میں سے بعض گروہ نے پچھلے پاؤں لوٹ کر رو گردانی کی اور وہ لوگ اعرا ض( رو گردانی ) کر نے والوں میں ہیں؟( ۲ ) ( قُلْ اِنْ تُخَفُوا مَا فِی صَدُ وْرِکُم اَوتُبدُوهُ یَعْلَمهُ اللّٰهُ... )

(اے پیغمبر ) کہدو: اگر جو کچھ تم لوگ دل میں رکھتے ہو خواہ چھپا ؤ یا آشکا ر کرو خدا سب جانتا ہے۔( ۳ )

( قُلْ ِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ ﷲ فَاتّاَبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ ﷲ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَﷲ غَفُور رَحِیم )

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۳، ص ۲۳۶ اور ۲۳۸؛ زاد المسیر فی علم التفسیر، تالیف، ابن جوزی، ج۱، ص ۴۱۶؛تفسیرابن کثیر، ج۱، ص۳۷۸، الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ؛ اور تفسیر قرطبی، ج۴، ص ۱۲۵. (۲)سورۂ آل عمران، آیت:۲۳.(۳)سورۂ آل عمران، آیت:۲۹.

۷۸

(اے پیغمبر ) کہو: اگر خدا کو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تا کہ خدا تمھیں دوست رکھے اور تمہا رے گنا ہوںکو بخش دے۔( ۱ )

( قُلْ َطِیعُوا ﷲ وَالرَّسُولَ فَِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ ﷲ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِینَ )

(اے پیغمبر ) کہو: خدا اور پیغمبر کی اطا عت کرو اگر ان دو سے رو گردانی کرو گے ، تو بیشک خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا ۔( ۲ )

چونتیسویں آیت ا ور اس کے بعد اسی سورہ میں بیان کر تا ہے کہ خدا نے آدم اور نوح کومنتخب کیا اور یہ کہ اس نے کس طرح عیسیٰ کو پیدا کیا اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا اور یہ کہ حواری ان پر ایمان لائے۔

پھر اس کے بعد فر ماتا ہے:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ َبْنَائَنَا وََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَا وََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲ عَلَی الْکَاذِبِینَ )

پھر جو بھی (حضرت عیسیٰ کے بارے میں ) علم آجانے کے بعد تم سے کٹ حجتی کرے، تو اس سے کہو: آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں، پھر مبا ہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیتے ہیں۔( ۳ )

پھر چند آیات کے بعد فرماتا ہے:

( یَااَهلَ الَکِتاب لِمَ تَلبِسُونَ الَحَقَّ بِِالبَاطِل وَ تَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ اَنْتُم تَعْلَمُون )

اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کے لباس میں ظاہر کرتے ہو ،جب کہ خود بھی جانتے ہو کہ حق چھپا رہے ہو؟( ۴ )

دوسری جگہ فر ماتا ہے:

( وَاِذَ اَخَذَ اللّٰهُ مِیثَاقَ النَّبیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ... )

جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا ، چو نکہ ہم نے تمھیں کتاب وحکمت بخشی ہے...( ۵ )

اس طرح سیاق آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند اعالم کی فرمایش سے مراد سورہ ٔآل عمران کی ۸۱ ویں

____________________

(۱)سورۂ آل عمران، آیت: ۳۱.(۲) سورۂ آل عمران، آیت: ۳۲.(۳) سورۂ آل عمران، آیت:۶۱(۴) سورۂ آل عمران، آیت:۷۱ (۵)سورۂ آل عمران، آیت:۸۱

۷۹

آیت میںکہ ا س میں فر ماتا ہے: (تمہا ری ہدایت کے لئے اے اہل کتاب! خدا کی طرف سے ایک رسول آیا جس نے تمہاری کتاب اور شریعت کی صداقت کی گو اہی دی، تا کہ ایمان لاؤ.اور اس کی نصرت کرو...)یہ چیز ہے کہ امتوں سے عہد لیا گیا ہے کہ حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر ایمان لائیں، جس طرح سے اس کی تفسیر ہم نے حضرت امیر المو منین علی سے نقل کی ہے. ان تمام چیزوں کے علا وہ اُن آیات کی طرف آپ کی تو جہ مبذول کریں گے جسے ہم نے کتاب کے آخر میں ''آخرین شریعت'' کے عنوان کے تحت ذ کر کیا ہے جیسے اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَعرِ فُونَهُ کَمَایَعِرفُونَ اَبْنَائِ هم )

اہل کتاب، خاتم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس طرح پہچا نتے ہیں جیسے کہ وہ اپنی اولا دکو پہچا نتے ہیں۔

ان تمام آیات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا وند متعال نے گزشتہ انبیاء سے عہد وپیمان لیا ہے کہ اپنی امتوں کو حضرت ختمی مرتبت کی رسا لت کے وجوب پر ایمان لا نے سے آگا ہ کریں( ۱ ) اور یہ بھی کہ ہرایک نبی نے اپنے وصی سے اس سلسلہ میں عہد وپیمان لیا ہے .جیساکہ اسلامی منا بع و مصادر سے حضرت نوح کے زمانے تک اس کی شرح وتفصیل گذر چکی ہے۔

یہ سب حضرت آدم سے حضرت نوح کے زمانے تک انبیا ء اور ان کے اوصیاء کی کچھ خبریں تھیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں شیث کے پو توں نے قا بیل کے پو توں سے آمیز ش اور اختلاط پیدا کیا اور نتیجہ کے طور پر ایک فاسد،سر کش، گمراہ ، بت پرست اور طاغی نسل کو جنم دیا۔

انشاء اللہ ان کے حالات کوحضرت نوح کے حالات کے ضمن میں بیان کریں گے۔

____________________

(۱)لباب التاویل فی معانی التنزیل معروف بہ تفسیر خازن ، متوفیّٰ ۷۴۱ھ، ج۱، ص۲۵۲.اورتفسیر البحر المحیط، ابوحیان،متوفیّٰ ۷۴۵ھ، ج۲، ص۵۰۸، ۵۰۹.اورتفسیر در منثور، سیوطی، متوفیّٰ ۹۱۱ھ، ج۲، ص۴۷، ۴۸.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352