اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134209 / ڈاؤنلوڈ: 3955
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

بِجِهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ >(۱)

لیکن کوفہ کا حاکم ہونے کی وجہ سے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

یا ایک اور شخص ،” مروان حکم “(۲) جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ طائف جلا وطن کیا تھا ، بعد میں ایک حاکم واقع ہونے کی وجہ سے عزت وا حترام کا مستحق بن جاتا ہے اور تاریخ میں اس کا نام عظمت کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔

قریش کے بزرگوں اور حکمراں ، فرماں روا اور امراء طبقے کے ایسے لوگوں کےلئے ضروری ہے کہ ان کی عزت و احترام محفوظ رہے اورہم ان کی شخصیت کی حرمت کے محافظ بنیں ، لیکن اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متقی و پرہیزگار تہی دست صحابی ” ابو ذر غفاری“ یا باتقویٰ اور خدا ترس صحابی ” سمیہ “ نامی کنیز کے بیٹے ”عمار یاسر “ یا ” عبدا لرحمان بن عدیس بلوی “ نامی نیک و پارسا صحابی جو اصحاب بیعت شجرہ میں سے تھے اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی :

لَقَد رَضِیَ اللّٰه عَنِ المُؤمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَافِی قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِیباً >(۳)

یا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صحابی جیسے ، ” صوحان عبدی “ کے بیٹے زید اور ”صعصعہ“ اور ان جیسے دسیوں صحابی اور تابعین جو ریاست و حکومت کے عہدہ دار نہ تھے اور قریش کے سرداروں میں سے بھی نہ تھے ، انھیں اہمیت نہ دی جائے بلکہ ان کی ملامت اور طعنہ زنی کی جائے اور یمن کے صنعا سے ایک یہودی کو خلق کرکے اس خیالی اور جعلی شخص کو فرضی طور پر ان مقدس اشخاص میں قرار دیگر صاحبان قدرت اور حکومت سے ان کو ٹکرایا جائے اور

____________________

۱۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ، ایسا نہ ہو کہ ایسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ کہ جس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ( حجرات /۶۰)

۲۔ اسی کتاب کی فصل ” پیدائش افسانہ شیبہ “ اور دیگر فصلو ں میں اس کے حالات کے بارے میں دی گئی تشریح کی طرف رجوع کیا جائے۔

۳۔ یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا ، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلو ں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انھی ں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی ( فتح / ۱۸)

۲۱

اس طرح سیف کی جعلی روایتیں شہرت پاکر رائج ہوجاتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین اور تحقیق نہیں ہوتی ہے ۔

اس قسم کی داستانوں اور افسانوں (جنھیں جعل کرنے والوں نے صاحبان قدرت و حکومت کے دفاع اور ان کے مخالفوں کی سرکوبی کےلئے گڑھ لیا ہے) کی اشاعت ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائج ہوگئی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض افسانے اس حد تک مسلم تاریخی حقائق میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا ہے اور بعض دانشورحضرات اس کے تحفظ کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔

جبکہ یہ اس حالت میں ہے کہ جسے انہوں نے دین کا نام دیا ہے وہ حکمراں طبقے اور ان سے مربوط افراد کی عزت و احترام کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

لیکن اصحاب و تابعین سے مربوط وہ لوگ جو مجبور ہوکر قدرت و حکومت سے دور رہ کر کمزور واقع ہوئے ہیں ، ان دانشوروں کی نظروں میں قابل اہمیت و موردتوجہ قرار نہیں پائے ہیں ، کیونکہ انہوں نے صاحبان قدرت و دولت کی پیروی نہیں کی ہے بلکہان کے موافق نہیں تھے ۔

یہاں پر میں ایک بار پھر خداوند عالم کو شاہد قرار دیکر کہتا ہوں کہ جس چیز نے مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کرنے کی ترغیب دی، وہ یہ ہے کہ مجھے بچپنے ہی سے اسلام ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوران کے اصحاب کے متعلق جاننے و پہچاننے کی دلچسپی تھی اور میں نے اپنی اکثر زندگی اسی راہ میں گزاری ہے ، تب جاکر اس زمانے کے وقائع اور روئدادوں کو پہچاننے اور ان کی طرف بڑھنے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے اپنی تحقیقات کے نتیجہ کو شائع کیا ہے اور اس امید میں بیٹھا ہوں کہ محققین اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس چھان بین کو دقیق اور مضبوط تر صورت میں انجام دیں گے، میں اس کتاب کے قارئین کو اطمینان دلاتا ہوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے تئیں میری محبت اور وفاداری ان سے کم نہیں ہے جو اس سلسلے میں تظاہر کرتے ہیں ، البتہ اس سلسلہ میں اصحاب کے وہ افراد جن کا تاریخ میں اسلام کی نسبت نفاق اور دو رخی ثابت ہوچکی ہے ، اس کے علاوہ میں احترام اور ان کی پرستش میں فرق کا قائل ہوں ، کیونکہ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ان دانشوروں نے اصحاب کی عزت و احترام کو تقدیس و ستائش کی اس حد تک آگے بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض افراد اپنے شائستہ اسلاف کی (خدا کی پنا ہو) غیر شعوری طور پر پرستش کرنے لگے ہیں ، خداوند ہمیں ، ان کو اور تمام مسلمانوں کو اس غلطی سے نجات دے ۔

۲۲

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبر خدا کو دیکھا ہے اور اس دیدار کے دوران اگر ایک لمحہ(۱) کےلئے بھی مسلمان ہوگیا ہے ، وہ صحابی ہے اور ان کے اعتقاد کے مطابق صحابی فرشتہ جیسا ہے جس کی فطرت میں خواہشات اور غریزے کا دخل نہیں ہوتا ، لہذا وہ جب اس کے برعکس کچھ سنتے ہیں تو برہم ہوجاتے ہیں اور ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ہیں اور اس طرز تفکر کی وجہ سے یہ لوگ کافی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں فی الحال ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

آخر کلام میں امید رکھتا ہوں کہ باریک بین اور تیز فہم حضرات ، اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں چھپے ہوئے میرے اس جملہ کو پڑھ لیں :

” جو لوگ تاریخ میں لکھی گئی چیزوں کو بوڑھی عورتوں کے خرافات اور بیہودگیوں کی نسبت تعصب کے مانند اعتقاد رکھتے ہیں ، وہ اس کتاب کو نہ پڑھیں “

اس کے علاوہ بھی چندتنقید یں ہوئی ہیں ، مثلاً اعتراض کیا گیا ہے کہ کیوں اس کتاب کا نام ” عبدا للہ بن سبا“ رکھا گیا ہے جبکہ اس میں ”عبدا للہ بن سبا “ کی بہ نسبت دوسری داستانیں زیادہ ہیں ؟

اس سوال کا ہم نے اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں جواب دیدیا ہے اور اس کے علاوہ کتاب کے سرورق پر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ اور دیگر تاریخی داستانوں پر مشتمل ہے مزید ہم نے پہلی طباعت کے مقدمہ میں کہا ہے :

____________________

۱۔ کتاب الاصابہ، ( ۱/۱۰) الفصل الاول ” فی تعریف الصحابی “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۳

” قارئین کرام جلدی ہی سمجھ لیں گے کہ یہ کتاب صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کی داستان سے مربوط نہیں ہے بلکہ بحث کا دامن اس سے وسیع تر ہے “

ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے باوجود تنقید کرنے والوں کےلئے یہ مطلب کیونکر پوشیدہ رہ گیا ؟!

ضمناً ہم نے کتاب کے آخر میں مصر کے معاصر دانشور جناب ڈاکٹر احسان عباس کی عالمانہ تنقید اور ان کے سوالات درج کرنے کے بعد ان کا جواب لکھا ہے ۔

و مَا توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب

اس تحریر کو میں نے ذی الحجة ۱۳۸۷ ھ ء عید قربان کے دن منی کے خیمون میں مکمل کیا ہے خداوند عالم مسلمانوں کےلئے ایسی عیدیں باربار لائے اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے احکام الہی کو انجام دینے میں تلاش و جستجو کریں تا کہ خداوندعالم ان کی حالت کو بدل دے ۔

اِن َّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقُومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (۱)

صدق الله العلیّ العظیم

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے رعد/ ۱۱

۲۴

مباحث پر ایک نظر

کتاب کی دوسری طباعت پر مصنف کا مقدمہ

میں نے حدیث اور تاریخ اسلام کی چھان بین اور تحقیق کے دوران حاصل شدہ نتیجہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور فیصلہ کرچکا ہوں کہ ہر حصے میں اپنی تحقیق کے نتائج کو براہ راست شائع کروں ، یہ چار حصے حسب ذیل ہیں :

اول : حدیث و تاریخ پر اثر ڈالنے والے تین بنیادی اسباب کی تحقیق۔

الف۔پوجا اور پرستش کی حد تک بزرگوں کی ستائش کا اثر

ب۔وقت کے حکام کا حدیث اور تاریخ پر اثر

ج۔حدیث اور تاریخ پر مذہبی تعصب کا اثر

اس بحث میں مذکورہ تین مؤثر کی وجہ سے حدیث اور تاریخ میں پیدا شدہ تحریف اور تبدیلیوں پر چھان بین ہوئی ہے لیکن آج تک اسے نشر کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے۔

دوم : ام المؤمنین عائشہ کی احادیث

یہ بحث دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے ، اس کا پہلا حصہ حضرت عائشہ کی حالات زندگی سے متعلق ہے، جو عربی زبان میں ۳۱۴ صفحات پرمشتمل ۱۳۸۰ ء ھ میں تھران میں شائع ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ام المؤمنین کی احادیث کے تجزیہ و تحلیل پر مشتمل ہے یہ حصہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے ۔

سوم : صحابہ کی احادیث

اس حصہ میں بعض اصحاب کی احادیث ، جن میں ابو ہریرہ کی احادیث اہم تھیں ، جمع کی گئی ہیں اور میں اس کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، لیکن جب میں نے آیت اللہ سید عبدا لحسین شرف الدین کی کتاب ” ابو ہریرہ“ دیکھی تو اسے اس سلسلے میں کافی سمجھ کر اپنی کتاب کو شائع کرنے سےمنصرف ہوگیا۔

چہارم : سیف کی احادیث:

اس حصہ میں سیف بن عمیر کی روایتوں کی چھان بین کی گئی ہے جن میں اس نے ۱۱ ھء سے ۳۷ ھ ء تک کے تاریخی وقائع نقل کئے ہیں ۔

۲۵

سیف نے پہلے سقیفہ ، پھر مرتدوں سے جنگ اور اس کے بعد خلفائے ثلاثہ کے دوران مسلمانوں کی فتوحات کے بارے میں لکھا ہے اور آخر میں اسلامی شہروں میں حضرت عثمان کی حکومت اور بنی امیہ کے خلاف بغاوتوں کو عثمان کے قتل تک کے واقعات کی وضاحت کی ہے پھر امیر المؤمنین کی بیعت اور جنگ جمل کی بات کی ہے ، اور ان وقائع میں بنی امیہ کی بدکرداریوں کی پردہ پوشی کرنے کےلئے عبد الله بن سبا اور سبائیوں کا افسانہ گڑھ لیا ہے ، اس طرح ان تمام وقائع کو بنی امیہ اور قریش کے تمام اشراف کے حق میں خاتمہ بخشتا ہے ۔

میں نے اس حصہ میں سیف کے چند افسانوں کو تاریخ کی ترتیب سے درج کرکے ” احادیث سیف“ کے عنوان سے طباعت کےلئے آمادہ کیا ،مرحوم شیخ راضی آل یاسین کو میر ی تصنیف کے بارے میں اطلاع ملی اور انہوں نے فرمایا کہ : سیف بن عمیر ناشناختہ ہے لہذا ” احادیث سیف “ کا عنوان جذابیت نہیں رکھتا ہے ، چونکہ سیف کا سب سے بڑا افسانہ ” عبد اللہ بن سبا “ اور سبائی ہے ، لہذا بہتر ہے اس کتاب کا نام ”’ عبدا للہ بن سبا “ رکھا جائے ، اس لئے اس کتاب کا نام بدل کر ” عبدا للہ ابن سبا “ رکھا اور اسے طباعت کے لئے پیش کیا ۔

اس کتاب کی طباعت کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ سیف کے افسانوں کے بہت سے سورما پیغمبر خدا کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں لہذا اس کتاب کی پہلی جلد کے آخر میں اس کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد اس سلسلے میں اصحاب پیغمبر کے بارے میں حالات درج کئے گئے منابع اور کتابوں کی تحقیق کی، اور مطالعہ کرنے لگا اس تحقیق کے نتیجہ میں ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تالیف کی اور طباعت کے حوالے کی ۔ لہذا سیف کی احادیث کے بارے میں بحث تین حصوں میں انجام پائی :

۱ ۔ عبدا للہ بن سبا اور چند دیگر افسانے ۔

۲ ۔ عبدا لله بن سبا اورسبائیوں کا افسانہ۔

۳ ۔ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ۔

پہلے حصہ میں سیف کی پندرہ قسم کی روایتوں کی حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عثمان کی خلافت تک ان کے واقع ہونے کے سالوں کی ترتیب سے چھان بین کی گئی ہے ۔ یہ حصہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ کی پہلی جلد پر مشتمل ہے ، جس میں درج ذیل دو موضوعات پر بحث کی گئی ہے:

۲۶

۱ ۔ اسامہ کا لشکر

۲ ۔ سقیفہ اور ابو بکر کی بیعت

اس کتاب کی دوسری جلد میں مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسلام میں ارتداد ۔

۴ ۔ مالک بن نویرہ کی داستان۔

۵ ۔ علاء حضرمی کی داستان۔

۶ ۔ حواب کی سرزمین اور وہاں کے کتے۔

۷ ۔ نسلِ زیاد کی اصلاح۔

۸ ۔ مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان ۔

۹ ۔ ابو محجن کی شراب نوشی ۔

۱۰ ۔ سیف کے ایام ۔

۱۱ ۔ شوریٰ اور عثمان کی بیعت ۔

۱۲ ۔ ہرمزان کے بیٹے قماذبان کی داستان۔

۱۳ ۔ تاریخ کے سالوں میں سیف کی دخل اندازی۔

۱۴ ۔ سیف کے افسانوی شہر

۱۵ ۔ خاتمہ

کتاب کی اس جلد کو عربی متن کے ساتھ مطابقت کرنے کے بعد اس میں روایتوں کے مآخذ کی چھان بین اور جعلی اصحاب کو مشخص کرنے کے سلسلے میں چند اہم حصوں کا اضافہ کرکے طباعت کےلئے پیش کیا گیا ۔ خدائے تعالی سے استدعا ہے کہ ہمیں اس کتاب کی دوسری جلد اور کتاب ” ۱۵۰ جعلی اصحاب“ کو طبع کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

سید مرتضی عسکری

تہران جمعہ ۱۴/ ۴/ ۱۳۸۶ ھ

۲۷

آغاز بحث

پہلی طباعت کا مقدمہ

میں ۱۳۶۹ ھء میں حدیث و تاریخ کے بارے میں چند موضوعات کا انتخاب کرکے ان پر تحقیق و مطالعہ کررہا تھا، منابع و مآخذ کا مطالعہ کرنے کے دوران میں نے حدیث اور تاریخ کی قدیمی ، مشہور اور معتبر ترین کتابوں میں موجود بعض روایتوں کے صحیح ہونے میں شک کیا، اس کے بعد میں نے شک وشبہہ پیدا کرنے والی راویتوں کو جمع کرکے انھیں دوسری روایتوں سے موازنہ کیا اس موازنہ نے مجھے ایک ایسی حقیقت کی راہنمائی کی جو فراموشی کی سپرد ہوچکی تھی اور تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر زمانے کے حوادث کی شکار ہوچکی تھی ۔

جب اس قسم کی روایتوں کی تعداد قابل توجہ حد تک بڑھ کر ایک مستقل کتاب کی شکل اختیار کرگئی تو میں نے اخلاقی طور پر اس ذمہ داری کا احساس کیا کہ اس ناشناختہ حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھاؤں ۔

اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں لکھی گئی یادداشتوں کو چند فصلوں میں تقسیم کیا اور انھیں ”احادیث سیف “ کا نام دیا، میرے اس کام سے ” کتاب صلح حسن “ کے مؤلف جناب شیخ راضی یاسین طاب ثراہ آگاہ ہوئے اور انہوں نے مجھے اس بحث کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور یہ تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا نام ” عبد اللہ بن سبا “ رکھوں ، اور میں نے بھی ان کی تجویز سے اتفاق کیا۔

۲۸

میری تحقیق کا یہ کام سات سال تک یوں ہی پڑا رہا اور اس دوران گنے چنے چند دانشوروں کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی اورآگاہ نہ ہو ا، جس چیز نے مجھے اس مدت کے دوران اس کتاب کی طباعت سے روکا ، وہ یہ تھا کہ میں اس امر سے ڈرتا تھا کہ بعض مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے ، کیونکہ احادیث اور روایات کا یہ مجموعہ ان واقعات کے بارے میں تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۳۷ ھ ء تک گزرے ہیں ،اس مدت کے بارے میں لکھی گئی تاریخ، عام مسلمانوں کےلئے امر واقعی کے طور پر ثبت ہوچکی تھی اور ان کے اعتقادات کے مطابق اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس زمانے کے بارے میں لکھی گئی تاریخ ان کے دینی عقائد کا جزہے اور پسماندگان کو کسی قسم کے چون، چرا کے بغیر اسے قبول کرنا چاہئے ۔

یہ مباحث ، تاریخ کی بہت سی ایسی بنیادوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتے ہیں ، جنھیں تاریخ دانوں نے بنیاد قرار دیگر ناقابل تغیر سمجھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ مباحث اسلام کی بہت سی تاریخی داستانو ں کو غلط ثابت کرتے ہیں اور بہت سے قابل اعتماد منابع و مآخذکے ضعیف ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔(۱)

قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہ بحث ” عبد اللہ بن سبا“ اور اس کے افسانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دامن کافی وسیع اور عمیق تر ہے ۔

____________________

۱۔اس لئے ” پیرزال “ کے مانند تاریخ میں لکھے گئے خرافات و توہمات پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے حضرات کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔

۲۹

اس سبب اور چندد یگر اسباب کی بنا پر اس کتاب کو شائع کرنے کے سلسلے میں میرے دل میں خوف پیدا ہوا تھا ، لیکن جب میں نے اس موضوع کے ایک حصہ کو تاریخ پر تحقیقاتی کام انجام دینے والے دو عالیمقام دانشوروں کی تحریروں میں پایا تو میرے حوصلے بڑھ گئے اور میں نے ان مباحث کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے ان مباحث میں قدیمی ترین تاریخی منابع و مآخذسے استفادہ کیا ہے اور پانچویں صدی کے بعد والے کسی شخص سے کوئی بات نقل نہیں کی ہے مگر یہ کہ پانچویں صدی کے بعد نقل کی گئی کسی بات کی بنیاد متقدمین سے مربوط ہو اور صرف اس کی شرح و تفصیل اس کے بعد والوں کسی نے کی ہو۔

ولله الحمد و منہ التوفیق

بغداد ۱۵ رمضان ۱۳۷۵ ھ

مرتضی عسکری

۳۰

پہلا حصہ : عبدا للہ بن سبا کا افسانہ

افسانہ کی پیدائش

افسانہ کے روایوں کا سلسلہ

سیف بن عمر ۔ عبد الله بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا۔

عبد الله بن سبا کے افسانہ کی پیدائش

هٰذه هی اسطورة ابن سَبا بإیجاز

یہ افسانہ عبد الله بن سبا اور اس کی پیدائش کا خلاصہ ہے۔

ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے مؤرخین نے ” ابن سبا“ کے بارے میں قلم فرسائی کرکے اس سے اور سبائیوں (اس کے ماننے والوں) سے حیرت انگیز اور بڑے بڑے کارنامے منسوب کئے ہیں ۔ لہذا دیکھنا چاہئے کہ

یہ ابن سبا کون ہے ؟ اور

سبائی کون ہیں ؟

ابن سبا نے کونسے دعوے کئے ہیں اور کیا کارنامے انجام دئے ہیں ؟

۳۱

مؤرخین نے جو کچھ ” ابن سبا “ کے بارے میں لکھا ہے ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے

صنعا ، یمن کے ایک یہودی نے عثمان کے زمانے میں بظاہر اسلام قبول کیا ، لیکن خفیہطور پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پھیلانے میں مصروف تھا اور مسلمانوں کے مختلف بڑے شہروں جیسے ، شام ،کوفہ ، بصرہ اور مصر کا سفر کرکے مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور لوگوں میں اس امر کی تبلیغ کرتا تھا کہ پیغمبر اسلام کےلئے بھی حضرت عیسی کی طرح رجعت مخصوص ہے اور دیگر پیغمبروں کی طرح حضرت محمد مصطفی کےلئے بھی ایک وصی ہے اور وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں وہ خاتم الاوصیاء ہیں جیسے کہ حضرت محمد خاتم الانبیاء ہیں ۔ عثمان نے اس وصی کے حق کو غصب کرکے اس پر ظلم کیا ہے ، لہذا شورش اور بغاوت کرکے اس حق کو چھین لینا چاہئے ۔

مؤرخیں نے اس داستان کے ہیرو کا نام ” عبد الله بن سبا “ اور اس کا لقب ” ابن امة السوداء “ (سیاہ کنیز کا بیٹا)رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسی عبد الله بن سبا نے اپنے مبلغین کو اسلامی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیج کر انھیں حکم دیا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہانے، وقت کے حاکموں کو کمزور بنادیں ، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کی گرویدہ بن گئی اور انہوں نے اس کے پروگرام پر عمل کیا ،حتی ابوذر، عمار بن یاسر اور عبدا لرحمان بن عدیس جیسے پیغمبر کے بزرگ صحابی اور مالک اشتر جیسے بزرگ تابعین اور مسلمانوں کے دیگر سرداروں کو بھی ان میں شمار کیا ہے ۔

کہتے ہیں کہ سبائی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے ، اپنے قائد کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی غرض سے لوگوں کو علاقہ کے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے تھے او روقت کے حکام کے خلاف بیانات اور اعلانیہ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجتے تھے ۔ اس تبلیغات کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک جماعت مشتعل ہوکر مدینہ ک طرف بڑھی اور عثمان کو ان کے گھر میں محاصرہ کرکے انھیں قتل کر ڈالا ۔ کہ سب کام سبائیوں کی قیادت میں اور انھیں کے ہاتھوں سے انجام پاتے تھے ۔

اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور عائشہ، عثمان کی خونخواہی کیلئے طلحہ و زیبر کے ہمراہ، راہی بصرہ ہوئی تو شہر بصرہ کے باہر علی علیہ السلام اور عائشہ کی سپاہ کے سرداروں ، طلحہ و زبیر کے درمیان گفت و شنید ہوئی ۔ سبائی جان گئے کہ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو قتل عثمان کے اصلی مجرم ، جو سبائی تھے ، ننگے ہوکر گرفتار ہوجائیں گے ۔ اس لئے انہوں نے راتوں رات یہ فیصلہ کیا کہ ہر حیلہ و سازش سے جنگ کی آگ کوبھڑکا دیں ۔

۳۲

اس فیصلہ کے تحت خفیہ طور پر ان کاہی ایک گروہ علی علیہ السلام کے لشکر میں اور ایک گروہ طلحہ و زبیر کے لشکر میں گھس گیا ۔ جب دونوں لشکر صلح کی امید میں سوئے ہوئے تھے تو ، علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے گروہ نے مقابل کے لشکر پر تیر اندازی کی اور دوسرے لشکر میں موجود گروہ نے علی علیہ السلام کے لشکر پر تیر اندازی کی ۔ نتیجہ کے طور پر دونوں فوجوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پید اہوگئی جس کے نتیجہ میں جنگ بھڑک اٹھی ۔

کہتے ہیں کہ اس بنا پر بصرہ کی جنگ ، جو جنگ جمل سے معروف ہے چھڑ گئی ورنہ دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں میں سے کوئی ایک بھی اس جنگ کےلئے آمادہ نہ تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس جنگ کا اصلی عامل کون تھا۔

اس افسانہ ساز نے داستان کو یہیں پر ختم کیا ہے اور سبائیوں کی سرنوشت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

یہ تھا ” سبائیوں “ کے افسانہ کا ایک خلاصہ ، اب ہم اس کی بنیاد پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ” سبائیوں “ میں شمار کئے گئے بزرگوں میں سے بعض کے بارے میں جانکاری حاصل کریں

۱ ۔ ابوذر

۲ ۔ عمار بن یاسر

۳ ۔ عبد الرحمان بن عدیس

۴ ۔ صعصعہ بن صوحان

۵ ۔ محمد بن ابی حذیفہ

۶ ۔ محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول کے بیٹے ۔

۷ ۔ مالک اشتر

۳۳

۱ابوذر

ان کا نام جندب بن جنادہ غفاری تھا ، وہ اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے والے پہلے چار افراد میں چوتھے شخص تھے ، وہ جاہلیت کے زمانے میں بھی خدا پرست تھے اور بت پرستی کو ترک کرچکے تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ مکرمہ میں بیت الله الحرام کے اندر اپنے اسلام کا اظہار کیا اس لئے قریش کے بعض سرداروں نے انھیں پکڑ کر اس قدر ان کی پٹائی کی کہ وہ لہو لہان ہوکر زمین پر بیہوش گر پڑے، وہ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے ، ہوش میں آنے کے بعد وہ پیغمبر خدا کے حکم سے واپس اپنے قبیلہ میں چلے گئے اور بدر و احد کے غزوات کے اختتام تک وہیں مقیم رہے ۔

اس کے بعد مدینہ آئے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انھیں شام بھیجا گیا ، لیکن عثمان کے زمانے میں معاویہ نے ان کے بارے میں خلیفہ کے یہاں شکایت کی اور عثمان نے انھیں مکہ و مدینہ کے درمیان ”ربذہ “ نام کی ایک جگہ پر جلا وطن کردیاا ور آپ ۳۲ ھ میں وہیں پر وفات پاگئے ۔

ابوذر کی مدح و ستائش میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی احادیث موجود ہیں من جملہ آپ نے فرمایا:

مَا اظلّت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر

آسمان اور زمین نے ابوذر جیسے راستگو شخص کو نہیں دیکھا ہے(۱)

____________________

۱۔ ابو ذر کی تشریح ، طبقات ابن سعد، ج ۴ ص ا۱۶ ۔ ۱۷۱، مسند احمد، ج ۲/ ۱۶۳و ۱۷۵، ۲۶۳، ج۵/ ۱۴۷ و ۱۵۵، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، ۳۵۱، ۳۵۶، و ج ۶/ ۴۴۲، اور صحیح بخاری و صحیح ترمذی اور صحیح مسلم کتاب مناقب میں ملاحظہ ہو۔

۳۴

۲ عمار بن یاسر

ان کی کنیت ابو یقظان تھی اور قبیلہ بنی ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا ، ان کا بنی مخزوم کے ساتھ معاہدہ تھا۔

عمار اور ان کے والدین اسلام کے سابقین میں سے تھے ، وہ ساتویں شخص تھے جس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، عمار کے والد اور والدہ نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی طرف سے دی گئےں جسمانی اذیتوں کا تاب نہ لا کر جان دیدی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عمار کی ستائش میں کئی صحیح احادیث روایت ہوئی ہیں ، من جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

عمار کی سرشت ایمان سے لبریز ہے(۱) ۔

انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شرکت کی ہے اور جمعرات ۹ صفر ۳۷ ھ کو ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

۱۔”ان عماراً ملیء ایماناً الی مشاشه

۲۔ ملاحظہ ہو : مروج الذہب ، مسعودی، ج /۲۱ ۔ ۲۲، طبعی و ابن اثیر میں حوادث سال ۳۶ ۔ ۳۷ ھ ، انساب الاشراف بلاذری، ج۵ ، ص ۴۸ ۔ ۸۸ ، طبقات ابن سعد، ج ۳، ق ۱ ، ۱۶۶۔ ۱۸۹، مسند احمد، ج ۱/ ۹۹ و ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۷، ۲۰۴، اور ج ۲/ ۱۶۱ ، ۱۶۳، ۲۰۶، و ج ۳/ ۵،۲۲، ۲۸ ۔

۳۵

۳ محمد بن ابی حذیفہ

ان کی کنیت ابو القاسم تھی ۔ وہ عتبہ بن ربیعہ عبشمی کے فرزند تھے، ان کی والدہ سہلہ بنت عمرو عامریہ تھیں ، محمد بن ابی حذیفہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کے باپ ابو حذیفہ یمامہ میں شہید ہو ئے تو عثمان نے اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی تربیت کی ابن ابی حذیفہ کے بالغ ہونے اور عثمان کے خلافت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس نے عثمان سے مصر چلے جانے کی اجازت چاہی ۔ عثمان نے بھی اجازت دیدی ، جب مصر پہنچے تو دوسروں سے زیادہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے پر معروف ہوئے ، جب ۳۵ ھ میں عبدالله بن ابی سرح اپنی جگہ پر عقبہ بن عامرکو جانشین قرار دے کر مدینہ چلا گیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور عقبہ بن عامر کو مصر سے نکال باہر کیا اس طرح مصر کے لوگوں نے محمد بن ابی حذیفہ کی بیعت کی اور عبد الله بن ابی سرح کو مصر سے واپس آنے نہ دیا ، اس کے بعد محمد بن ابی حذیفہ نے عبد الرحمان بن عدیس کو چھ سو سپاہیوں کی قیادت میں عثمان سے لڑنے کیلئے مدینہ روانہ کیا ، جب حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کی حکمرانی پر بدستور برقرار رکھا ، وہ اس وقت تک مصر کے حاکم رہے جب معاویہ صفین کی طرف جاتے ہوئے محمد بن ابی حذیفہ کی طرف بڑھا، محمد مصر سے باہر آئے اور معاویہ کو ” قسطاط “ میں داخل ہونے سے روکا، آخر کا ر نوبت صلح پر پہنچی اور طے یہ پایا کہ محمد بن ابی حذیفہ تیس افراد من جملہ عبد الرحمان بن عدیس کے ہمراہ مصر سے خارج ہوجائیں او رمعاویہ کی طرف سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن ان کے مصر سے خارج ہونے کے بعد معاویہ نے انھیں مکر و فریب سے گرفتار کرکے دمشق کے زندان میں مقید کر ڈالاکچھ مدت کے بعد معاویہ کے غلام ” رشدین“ نے محمد بن ابی حذیفہ کو قتل کر ڈالا ،

۳۶

محمد بن ابی حذیفہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےصحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا(۱)

۴ عبد الرحمان بن عدیس بلوی

وہ صاحب بیعت شجرہ تھے ۔ مصر کی فتح میں شریک تھے اور وہاں پر ایک زمین کو آبادکرکے اس کے مالک بن گئے تھے ، مصر سے عثمان کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے لشکر کی سرپرستی اور کمانڈری ان کے ذمہ تھی، معاویہ نے محمد بن ابی حذیفہ سے صلح کا عہد و پیمان باندھنے کے بعد مکرو فریب سے عبد الرحمان بن عدیس کو پکڑ کر فلسطین کے ایک جیل میں ڈالدیا، ۳۶ ھ میں اس نے جیل سے فرار کیا لیکن اس کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیاگیا(۲)

۵ محمد بن ابی بکر

ان کی والدہ کا نام اسماء تھا اور وہ عمیس خثعمیہ کی بیٹی تھی ، جعفر ابن ابیطالب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی اسماء نے ابو بکر سے شادی کی تھی اور حجة الودادع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ

____________________

۱۔ اصابہ ، حرف میں ق ۱/ ج۳/ ۵۴، اسد الغابہ، ج ۴/ ص ۳۱۵، الاستیعاب ،ج ۳/ ۳۲۱۔۳۲۲۔

۲۔ اصابہ، ج ۴/ ۱۷۱ ق ۱، حرف عین ، استیعاب حرف عین کی طرف مراجعہ کری ں ۔

۳۷

پیدا ہوئے پھر ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے، اور جنگ جمل میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے اور پیادہ لشکر کی کمانڈری بھی کی۔

حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں تلوار چلائی اور اس جنگ میں پیدل فوج کی کمانڈر تھے ۔ انہوں نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی ہے اور اس جنگ کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے مصر کے گورنر مقرر ہوئے اور ۱۵ رمضان المبارک ۳۷ ھ کو مصر پہنچ گئے ،معاویہ نے ۳۸ ھ کو عمرو عاص کی سرکردگی میں مصر پر فوج کشی کی ، عمرو عاص نے مصر پر قبضہ جمانے کے بعد محمد بن ابو بکر کو گرفتار کرکے اسے قتل کر ڈالا پھران کی لاش کو ایک مردار خچر کی کھالمیں ڈال کر نذر آتش کیا(۱)

۶ صعصعہ بن سوہان عبدی

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا ہے ، وہ فصیح تقریر کرنے والا ایک شخص تھا انہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں معاویہ سے جنگ کی ہے ، جب معاویہ نے کوفہ پر تسلط جمایا تو صعصعہ کو بحرین جلا وطن کردیااور انہوں نے وہیں پر وفات پائی(۲)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ، سال ۳۷۔۳۸ ھ کے واقعات کے ذیل میں ، اصابہ، ج ۳/۴۵۱ق، حرف میم ، استیعاب ،ج ۳/ ۳۲۸ و ۳۲۹ ملاحظہ ہو

۲۔ اصابہ، ج۳/ ۱۹۲ حرف ص ، استیعاب، ج۲/ ۱۸۹۔

۳۸

۷ مالک اشتر

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے ، تابعین کے ثقات میں شمار ہوتے

تھے ، مالک اشتر اپنے قبیلے کے سردار تھے ، چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اس لئے انہیں ” اشتر“ لقب ملا تھا ،انہوں نے جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی اور نمایاں کامیابی حاصل کی ، ۳۸ ھ میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا ور وہ مصر کی طرف بڑھ گیے ، جب وہ قلزم (بحر احمر) پہنچے تو معاویہ کی ایک سازش کے تحت انھیں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ وفات پاگئے(۱) یہ تھا صدر اسلام کے بزرگ مسلمانوں کے ایک گروہ کے حالات کا خلاصہ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مؤرخین کی ایک جماعت نے انھیں ایک نامعلوم یہودی کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی ہے ؟!!!

اب جب کہ ہمیں معلوم ہوا کہ عبد الله بن سبا کا افسانہ کیاہے ، تو اب مناسب ہے اس افسانہ کے سر چشمہ اور آغاز کی تلاش کریں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کو کس نے گڑھ لیا ہے اور اس کے راوی کون ہیں ۔

____________________

۱۔ استیعاب ، ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ج ۳/ ۳۲۷، اصابہ ج ۳/ ۴۶۹، اور

افسانہ عبدا للہ بن سبا کے راوی

اکثر من عشرة قرون و المؤرّخون یکتبوں هذه القصة

دس صدیو ں سے زیادہ عرصہ سے مورخین اس افسانہ کو صحیح تاریخ کے طورپر لکھتے چلے آئے ہیں ۔

” مولف“

۳۹

بارہ صدیاں گزر گئیں کہ مؤرخین ” عبدا للہ بن سبا “ کے افسانہ کو لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ جتنا بھی وقت گزرتا جارہاہے ، اس افسانہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملتی جارہی ہے ، یہاں تک کہ آج بہت کم ایسے قلم کار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اصحاب کے بارے میں قلم فرسائی کی ہو اور اپنی تحریرات میں ا س افسانہ کو لکھنا بھول گئے ہوں ! بے شک گزشتہ اور موجودہ قلم کاروں میں یہ فرق ہے کہ قدیمی مؤلفین نے اس افسانہ کو حدیث اور روایت کے روپ میں لکھا ہے اور اس افسانہ کو اپنی گڑھی ہوئی روایتوں کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ معاصر مؤلفین نے اس کو علمی اور تحقیقاتی رنگ سے مزین کیا ہے ۔

اس لحاظ سے اگر ہم اس موضوع کی علمی تحقیق کرنا چائیں تو ہم مجبور ہیں پہلے اس افسانہ کے سرچشمہ اور اس کے راویوں کی زندگی کے بارے میں ابتداء سے عصر حاضر تک چھان بین کریں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن لوگوں اور کن منابع کی بنا پر اس داستان کی روایت کی گئی ہے اس کے بعد اصلی داستان پر بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کریں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

( ۵ )

حضرت نوح اور ان کے بعد اوصیاء کے حالات

* نوح

* نوح کے فرزندسام

* سام کے فرزند ارفخشد

* ارفخشد کے فرزند شالح

حضرت نوح

* قرآنی آیات میں نوح کی سیرت

* کلمات کی تشریح

* آیات کی تفسیر

* داستان نوح کا خلا صہ

* اسلا می منا بع و مآ خذ میں نوح کی خبریں

۸۱

قرآنی آیات میں حضرت نوح کی سیرت وروش

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ حد ید کی ۲۶ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ اَرْسَلنَانُوْحاًوَااِبْرَاهیم وَ جَعَلْنَافِی ذُرِّ یَّتِهِماَالنُّبُوَّةَ وَالَکِتابَ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ وَ کَثِیرمِنْهُمْ فَاسِقُوْنَ )

ہم نے نوح اور ابراہیم کو ( رسالت)کے لئے مبعوث کیا اور ان کے فر زندوں کے درمیان کتاب اور نبوت قرار دی ،پس ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں (لیکن ) بہت سارے فسق وفجور میں مبتلا ہوگئے:

۲۔سورہ عنکبوت کی ۱۴ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے.

( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحاً اِلیٰ قَوْ مِه فَلاَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلاَّ خَمْسِینَ عَاماً )

اور ہم نے نوح کو (رسالت کے ساتھ) ان کی قوم کی طرف بھیجا انھوں نے ان کے درمیا ن ساڑھے نو سو سال زند گی گذاری...

۳۔سورۂ مومنون کی ۲۳ سے ۲۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:ِ

( فَقَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلٰهٍ غَیْرُهُ َفَلاَتَتَّقُونَ ٭ فَقَالَ الْمَلَُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا ِلاَّ بَشَر مِثْلُکُمْ یُرِیدُ َنْ یَتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَائَ ﷲ لََنْزَلَ مَلاَئِکَةً مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِی آبَائِنَا الَوَّلِینَ ٭ ِنْ هُوَ ِلاَّ رَجُل بِهِ جِنَّة فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتّٰی حِینٍ )

(نوح ) نے کہا : اے قو م! خدا کی عبادت کرو کہ اس کے علا وہ کو ئی خدا نہیںہے کیا تم لوگ خدا سے ڈرتے نہیں ؟!

کافر قوم کے بز رگوں نے کہا ، یہ (نوح) تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے اور تم پر سرداری کرنا چا ہتا ہے اگر خدا کسی پیغمبر کو بھیجنا ہی چا ہتا تو کسی فر شتہ کو بھیجتا. ہم نے ( اس کے ادّعا کو ) اپنے گزشتہ آباء واجداد سے نہیں سنا ہے یہ شخص ایک دیوا نہ کے سوا کچھ نہیں ہے. لہٰذا ایک مدت تک اُس کے حالات کا انتظار کرو۔

۴۔سورۂ شعراء کی۱۰۶ اور ۱۰۸ آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

)( إِذْ قَالَ لَهُمْ َخُوهُمْ نُوح َلَا تَتَّقُونَ ٭ِنِّی لَکُمْ رَسُول َمِین ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ )

ان کے بھا ئی نوح نے ان سے کہا : تم لوگ خدا سے خوف کیوں نہیں کرتے اور پرہیزگار کیوں نہیں ہوتے؟! میں تمہارے لئے ایک امین پیغمبر ہو لہٰذا خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۸۲

۵۔سورہ ٔیو نس کی ۷۲ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَاِنْ تَوَ لَّیتُمْ فََمَا سَأَ لْتکُمْ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجِریَ اِلَّا عَلٰی اللّٰهِ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ )

(نوح نے اپنی امت سے کہا :) پس اگر تم لوگ حق سے رو گرداں ہو تو میں تم سے کسی جزاء کا طالب نہیں ہوں(کیو نکہ )اجر وپا داش خدا ہی کے ذ مہّ ہے اور میں مامور ہوں کہ مسلما ن رہ کر اس کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم ہو جاؤں۔

۶۔سورہ ٔشعراء کی ۱۱۱ویں تا۱۱۶ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالُوا َنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الَرْذَلُونَ ٭ قَالَ وَمَا عِلْمِی بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ ِنْ حِسَابُهُمْ ِلاَّ عَلَی راَبِی لَوْ تَشْعُرُونَ ٭ وَمَا َنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِینَ ٭ ِنْ َنَا ِلاَّ نَذِیر مُبِین ٭ قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ یَانُوحُ لَتَکُونَنَّ مِنْ الْمَرْجُومِینَ )

(نوح کی قوم نے ان حضرت سے ) کہا : کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں جب کہ تمہارا اتباع پست لوگ کر تے ہیں ؟! فر مایا : مجھے اس سے کیا سرو کار کہ ہم دو سروں کے اعمال واحوال کوجانیں ،ان کا حسا ب میرے پر وردگا ر کے ذمّہ ہے اگر شعور رکھتے ہو،میر ے لئے منا سب نہیں ہے کہ مومنین کو اپنے پا س سے بھگا دوںمیں تو آشکار طور پر ڈرانے والا ہوںانھوں نے کہا :اے نوح ! اگر تم اپنی بات سے باز نہیں آئے تو ہم تمھیں بری طرح سنگسار کر دیں گے.

۷ ۔ سورہ ٔہود کی ۲۸ویں تا ۳۳ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ یَاقَوْمِ َرََیْتُمْ ِنْ کُنتُ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ راَبِی وَآتَانِی رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ َنُلْزِمُکُمُوهَا وََنْتُمْ لَهَا کَارِهُونَ ٭ وَیَاقَوْمِ لٰاَسَْلُکُمْ عَلَیْهِ مَالاً ِنْ َجْرِی ِلاَّ عَلَی ﷲ وَمَا َنَا بِطَارِدِ الَّذِینَ آمَنُوا ِنَّهُمْ مُلَاقُو راَبِهِمْ وَلَکِنِّی َرَاکُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ٭ وَیَاقَوْمِ مَنْ یَنصُرُنِی مِنَ ﷲ ِنْ طَرَدْتُهُمْ َفَلاَتَذَکَّرُونَ ٭ وَلٰا َقُولُ لَکُمْ عِندِی خَزَائِنُ ﷲ وَلاََعْلَمُ الْغَیْبَ وَلاََقُولُ ِنِّی مَلَک وَلاََقُولُ لِلَّذِینَ تَزْدَرِی َعْیُنُکُمْ لَنْ یُؤْتِیَهُمُ ﷲ خَیْرًا ﷲ َعْلَمُ بِمَا فِی َنفُسِهِمْ ِنِّی ِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ٭ قَالُوا یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فََکْثَرْتَ جِدَالَنَا فَْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ قَالَ ِنَّمَا یَاْتِیکُمْ بِهِ ﷲ ِنْ شَائَ وَمَا َنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ )

(نوح) نے کہا: اے قوم تم لوگ! کیا کہہ رہے ہو جب دیکھو کہ میرے پاس خدا کی جانب سے ایک روشن دلیل ہے اور اس کی رحمت میرے شا مل حا ل ہے پھر بھی حقیقت تم سے پو شیدہ ہی رہے گی؟! کیا میں تمھیں تمہاری خواہش کے خلا ف مجبور کروں؟! اے قوم ! میں تم سے کوئی مال تونہیں چاہتا ہوں ، میرا اجر تو ﷲ کے ذمہ ہے اور میں صاحبان ایمان کو نکال بھی نہیں سکتا ہوںکہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں

۸۳

البتہ میں تم کو ایک جاہل قوم تصوّر کررہا ہوں. اے قوم ! اگر میں ان خدا رسیدہ مومنین کو اپنے پاس سے بھگا دوں،تو کون ہے جو مجھے غضب الٰہی سے بچائے گا ؟! آیا نصیحت حا صل نہیں کر تے ؟! میں یہ نہیں کہہ رہا ہو کہ خدا کے خزا نے میرے پا س ہیں اور(اس بات کا) مد عی بھی نہیں ہو کہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوںکہ میں فر شتہ ہوں اور یہ بھی نہیں کہتاکہ جو لوگ تمہاری نگا ہوں میںبے قیمت ہیں انھیں خدا کوئی خیر نہیں دے گا خدا ان کے حال سے زیادہ واقف ہے اگر میں ایسی بات کروںگا تو ظالموں میں شمار ہوں گاانھوں نے کہا اے نوح ! تم نے ہم سے جنگ وجدا ل کی اور ہم سے جدا ل کو طول دے دیا اگر سچے ہو تو جو کچھ ہم سے وعدہ کیا ہے پیش کر و، نوح نے کہا : اگر خدا چا ہے گا تو اسے تم پرنازل کردے گا اور تم اس کے مقا بل کوئی قدرت اور راہ فرار نہیں رکھتے۔

۸۔سورۂ نوح کی ۵ویں تا ۲۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ راَبِ ِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِی لَیْلاً وَنَهَارًا ٭ فاَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَائِی ِلاَّ فِرَارًا ٭ وَِنِّی کُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا َصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وََصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا ٭ ثُمَّ ِنِّی دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ٭ ثُمَّ ِنِّی َعْلَنتُ لَهُمْ وََسْرَرْتُ لَهُمْ ِسْرَارًا ٭ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا ٭ یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا ٭ وَیُمْدِدْکُمْ بَِمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ َنْهَارًا ٭ مَا لَکُمْ لاَتَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا ٭ وَقَدْ خَلَقَکُمْ َطْوَارًا ٭ اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ ﷲ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ٭ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ٭ وَﷲ َنْبَتَکُمْ مِنَ الَرْضِ نَبَاتًا ٭ ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیهَا وَیُخْرِجُکُمْ ِخْرَاجًا ٭ وَﷲ جَعَلَ لَکُمُ الَرْضَ بِسَاطًا ٭ لِتَسْلُکُوا مِنْهَا سُبُلاً فِجَاجًا٭ قَالَ نُوح راَبِ ِنَّهُمْ عَصَوْنِی وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ یَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ ِلاَّ خَسَارًا ٭ وَمَکَرُوا مَکْرًا کُبَّارًا ٭ وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ٭ وَقَدْ َضَلُّوا کَثِیرًا وَلاَتَزِدِ الظَّالِمِینَ ِلاَّ ضَلاَلاً ٭ مِمَّا خَطِیئَاتِهِمْ ُغْرِقُوا فَُدْخِلُوا نَارًا فاَلَمْ یَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ ﷲ َنْصَارًا٭ وَقَالَ نُوح راَبِ لاَتَذَرْ عَلَی الَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا ٭ ِنَّکَ ِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَلاَیَلِدُوا ِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا ٭ راَبِ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدِ الظَّالِمِینَ ِلاَّ تَبَارًا )

۸۴

نوح نے کہا : خدا یا! میں نے شب وروز اپنی قوم کو دعوت دی .لیکن میری دعوت نے ان کے فرار میں اضا فہ کے سوا کچھ نہیں کیا. اور میں نے انھیں جب بھی دعوت دی تا کہ تو انھیں بخش دے تو انھوں نے اپنی انگلیاں کا نوں میں رکھ لیں اور اپنے کپڑے سر وں پر ڈ ال لئے اور عظیم تکبر کیا ۔پھر میں نے انھیں بلند آواز سے دعوت دی .پھر آشکار اور پوشیدہ طور پر میں نے اپنی دعوت کا اظہار کیا. اور میں نے کہا: خدا سے طلب مغفرت کرو ( کیو نکہ )وہ بہت بخشنے والا ہے، تا کہ تم پر کثرت سے بارش نازل کر ے اور تمہارے اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری نصرت کرے اور تمہارے لئے باغا ت اور نہریں قرار دے تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ خدا کی عظمت کے سامنے سر نہیں جھکا تے. جب کہ اس نے تمھیں مختلف اقسام میں خلق فرمایا ہے؟! کیا تم نے نہیں دیکھا کی خدا وند عالم نے کس طرح ایک پر ایک سات آسمانوں کو خلق کیا ہے .اور ان کے درمیان چا ند کو نور اور آفتاب کو ایک بڑا چراغ قرار دیا ہے.

اور خدا نے تمھیں زمین سے خا ص طرز سے پیدا کیا ہے اور پھر تمھیں اس کی طرف واپس کر دے گا اور مخصوص طریقے سے خارج کرے گا؟! خدا وند عالم نے تمھارے لئے زمین کا فرش بچھایا. تاکہ اس کی وسیع اور دور دراز راہوں میں چلو.نوح نے کہا: خدا یا! ان لوگوںنے میری مخا لفت کی ہے اور ایسے شخص کی بات مانی ہے کہ جس کے مال اور فرزند جز گمرا ہی وضلا لت کے کچھ اور نہیں بڑھا سکتے. اور ان لوگوں نے فریب دیا ،عظیم فریب اور کہا: اپنے خداؤں سے دور نہ ہونا اور انھیں نہ چھوڑنا. ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو. انھوں نے بہت سارے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے اب تو ظالموں پر ضلا لت وگمراہی کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرنا وہ لوگ اپنے گناہوں کے سبب غرق ہوگئے اور عظیم آگ میں دا خل ہوگئے اور خدا کے علا وہ کسی کو اپنا ناصر نہیں پا یا۔

نوح نے کہا: خدا یا! روئے زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ رکھ کہ اگر تو انھیںزندہ چھوڑ دے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور بد کار کافر کے علا وہ کسی اور کو جنم نہیں دیں گے خدا یا! مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے اور اس کو جو میرے گھر میں با ایمان داخل ہو اور تمام مومنین و مومنات کو بھی اور ستمگروں کو ہلا کت اور نا بودی کے سوا کچھ اور نہ دے۔

۸۵

۹۔ سورہ ٔ ہود کی ۳۷ ویں تا ۴۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بَِعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا ِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ ٭ وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ ِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُونَ ٭ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاْتِیهِ عَذَاب یُخْزِیهِ وَیَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَاب مُقِیم٭ حَتَّی ِذَا جَائَ َمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِیهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وََهْلَکَ ِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ ِلاَّ قَلِیل ٭ وَقَالَ ارْکَبُوا فِیهَا بِاِسْمِ ﷲ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ِنَّ راَبِی لَغَفُور رَحِیم ٭ وَهِیَ تَجْرِی بِهِمْ فِی مَوْجٍ کَالْجِبَالِ وَنَادَی نُوح ابْنَهُ وَکَانَ فِی مَعْزِلٍ یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا وَلاَتَکُنْ مَعَ الْکَافِرِینَ ٭ قَالَ سَآوِی الَی جَبَلٍ یَعْصِمُنِی مِنْ الْمَائِ قَالَ لاَعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ َمْرِ ﷲ ِلاَّ مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنْ الْمُغْرَقِینَ ٭ وَقِیلَ یَاَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ وَیَاسَمَائُ َقْلِعِی وَغِیضَ الْمَائُ وَقُضِیَ الَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ٭ وَنَادَی نُوح رَبَّهُ فَقَالَ راَبِ ِنَّ ابْنِی مِنْ َهْلِی وَِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وََنْتَ َحْکَمُ الْحَاکِمِینَ ٭ قَالَ یَانُوحُ ِنَّهُ لَیْسَ مِنْ َهْلِکَ ِنَّهُ عَمَل غَیْرُ صَالِحٍ فَلا َتَسَْلْنِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْم ِنِّی َعِظُکَ َنْ تَکُونَ مِنْ الْجَاهِلِینَ ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی َعُوذُ بِکَ َنْ َسَْلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِهِ عِلْم وَِلاَّ تَغْفِرْ لِی وَتَرْحَمْنِی َکُنْ مِنْ الْخَاسِرِینَ ٭ قِیلَ یَانُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَکَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلَی ُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ وَُمَم سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَاب َلِیم )

ہماری نگرانی اور راہنمائی میں کشتی بنا ؤ اور ظا لموں کے بارے میں ہم سے بات نہ کرنا کہ وہ غرق ہو جائیں گے .نوح کشتی بنانے لگے اور جب بھی ان کی قوم کا کوئی گروہ ان کی طرف سے (ان کے پاس سے) گذرتا تو وہ مذاق اڑا تے تھے.نوح نے کہا : اگر تم لوگ ہمارا مذا ق اڑا ؤ گے تو ہم بھی اسی طرح تمہارا مسخرہ کریں گے اور مذ اق اڑا ئیں گے .بہت جلد ہی تمھیں معلو م ہو جا ئے گا کہ وہ کون ہے جس تک ذلیل اور رسوا کر نے وا لا عذا ب پہنچے گا اور دائمی عذا ب اس پر نازل ہو گا. یہاں تک کہ ہمارا فرمان پہنچا اور تنور سے پانی ابلنے لگا تو ہم نے کہا:ہر حیوان کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرو. اپنے اہل وعیال کو بھی سوار کرو،سوائے اس کے جس پر عذا ب کا وعدہ گذر چکا ہے اور مومنین کو بھی سوار کرو اوراس ( نوح ) پر بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے نوح نے ان سے کہا : کشتی میں سوار ہو جاؤ، اس کی نقل وحرکت خدا کے نام سے ہے ، بیشک میرا خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے.کشتی انھیں پہاڑ جیسی موج کے درمیان لے جا رہی تھی،نوح نے اپنے بیٹے کو جو کنارہ کھڑ اتھا آواز دی اور کہا : میرے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کی ہمراہی اختیار نہ کرو. اس نے کہا : ابھی میں ایک ایسے پہاڑ پر پنا ہ لوںگاجو مجھ کو سیلاب سے محفوظ ر کھے گا نوح نے کہا:

۸۶

. آج خدا کے عذا ب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے، سوائے اس شخص کے جس کوخدا نے اپنی رحمت میں شامل کر رکھا ہے ؛ (اتنے میں) ان دونوںکے درمیان ایک موج حا ئل ہو گئی اور وہ غرق ہو گیا خدا کافرمان پہو نچا کہ اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان !( برسنے سے ) رک جا اپنی بارش بند کر دے اور پانی زمین کی تہہ میں پہنچ گیا اور جس کا حکم دیا گیا تھا وہ انجام پا گیا اور کشتی کوہ جو دی پر جا کر رکی اور کہا گیا: ظا لمین رحمت خدا سے دور ہیں اور نوح نے اپنے رب کو آواز دی کہ: خدا یا ! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ بھی حق ہے اور تو تمام انصاف کر نے والوں میں سب سے زیادہ عادل اور منصف ہے خدا نے کہا: اے نوح وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے وہ ایک غیر صا لح عمل ہے ،جو تم نہیں جا نتے اس کی مجھ سے درخواست نہ کرو میں تمھیں نصیحت کر تا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جانا. نوح نے کہا: خدا یا ! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے ایسی چیز طلب کروں جسے نہیں جانتا ہوں. اگر تو مجھے معاف نہ کرے گااور مجھ پر رحم نہ کر ے گا تو میں نقصا ن اٹھا نے والوں میں ہو جاؤں گا.کہا گیا ! اے نوح! ہماری طرف سے سلا متی اور برکتوں کے ساتھ نیچے اترآؤ اور یہ سلامتی اور برکتیں تم پر اور ان لوگوں پر ہیں جو تمہارے ہمرا ہ ہیں اور کچھ قومیں ایسی ہیںجنھیں ہم پہلے راحت دیں گے پھر اس کے بعد ہماری طرف سے ان پر عذا ب نازل ہوگا۔

۱۰۔سورۂ صا فات کی ۷۷ویں تا ۸۱ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ جَعَلْنَاذُرِّیّتَهَ هُمُ البَا قِینَ٭ وَتَرَ کْنَا عَلیهِ فِی الاخِرِین٭ سَلَامُ عَلیٰ نُو حٍ فِی العَالَمِینَ٭ اِنَّا کَذ لکَ نَجْزِ ی المُحْسِنِینَ٭ اِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا المُؤ مِنینَ )

اور ہم نے صرف ان کی ذ ریت کو با قی رکھا اور آیندہ والوں کے درمیان ان کا نیک نام باقی رکھا.ساری خدائی میں نوح پر سلام ہو .ہم نیکو کاروںکو اسی طرح جزا دیتے ہیں ہی، وہ ہمارے مو من بندوں میں سے ہیں۔

۱۱۔سورہ ٔہود کی ۴۹ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( تِلکَ مِنْ أنْبائِ الغَیْبِ نُو حِیهاا لیکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُهَااَنْتَ وَ لاَ قُومُکَ مِنْ قَبلِ هٰذَا فَاصْبِرْ اِنَّ العَا قِبَةَ لِلمُتَّقِینَ )

یہ سب کچھ غیب کی باتیں ہیں جن کی ہم نے تم پر وحی کی ہے،نہ تم انھیں اس سے پہلے جا نتے تھے اور نہ ہی تمہاری قوم.صبرو تحمل سے کام لو کہ انجام پرہیز گا روں کے نفع میں ہے.

۸۷

کلمات کی تشریح

۱۔فعمّیت علیکم:

عمیت الا خبار والا مور عنہ و علیہ: اخبار اور واقعات اُس سے پنہاں اور پو شیدہ رہ گئے، عمّی علیہ طریقہ یعنی راہ اُس پر پوشیدہ ہو گئی۔

۲۔بمعجزین:

اعجز فلان اُس وقت کہا جا تا ہے جب کوئی فرار کرے اور گر فتار نہ ہو ، کہ یہی معنی موقع اور مقام کے اعتبار سے منا سب ہے۔

۳۔استغشوا ثیا بھم:

خود کو لباس سے ڈھا نپ لیا (سر پر لباس ڈال لیا) تا کہ وہ لوگ اسے سنیں لیکن دیکھ نہ سکیں۔

۴۔مدرارا ً:

لگا تار اورموسلا دھار بر سنا۔

۵۔وقارا ً:

حلم و برد باری، ایسا سکون واطمینان جو عظمت کے ساتھ ہو یہاں پر عظمت کے معنی منا سب ہیں۔

۶۔ اطوارا ً :

اس کا مفرد طور ہے جو حا لت اور شکل کے معنی میں آتا ہے۔

۷۔ طبا قا ً:

تہہ بہ تہہ اور ایک دوسرے کے اوپر قرار پا نا،خواہ فا صلہ کے ساتھ ہو یا بغیر فا صلہ کے۔

۸۔ فجا جا ً:

کشادہ را ستے اس کا مفرد فجّ آتا ہے.

۹۔ تبا را ً :

ہلا کت اور نا بودی۔

۸۸

۱۰ ۔ با عیننا:

ہماری راہنما ئی اور نگرا نی میں اور ہماری پناہ میں۔

۱۱۔تنور:

منجملہ اس کے معنی چشمہ اور فوارہ کے ہیں.حضرت نوح کی شر ح حا ل سے متعلق تاریخ ابن عساکر( ۱ )

میں اس طرح ذ کر ہوا :یہ تنور مسجد کوفہ کے ایک کونے میں واقع تھا ۔

۱۲۔غیض :

پا نی زمین کے اندر چلا گیا ۔

۱۳ ۔جودی:

اس سلسلہ میں اختلا ف ہے کہ یہ'' جودی'' جزیرہ ابن عمر میں واقع تھا یا مو صل کے ارد گرد، یا غری میں نہر فرات سے قر یب نجف کی بلند یوں پر یا دوسری جگہ ۔

کتاب مقدس کی قا موس میں مذ کور ہے : حضرت نوح کی کشتی آرارات نامی پہاڑ پر ٹھہری جو کہ نہر ارس اوردریا ئے وان کے درمیان واقع ہے ۔ (جودی) کی لغت کے بارے میںحموی کی معجم البلدان میں مذ کور ہے : جودی دجلہ کے شرق اور موصل کے اطراف میں ابن عمر نامی جزیرہ پر واقع ایک پہا ڑ ہے. جس پر حضرت نوح کی کشتی رکی تھی۔

(استوت علی الجودی) کی تفسیر میں تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی میں چند روایات کے ضمن میں مذ کور ہے :

جودی جزیرۂ ابن عمر میں ہے،ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ موصل میں واقع ہے.( ۲ ) . اور

____________________

(۱)۔ تاریخ ابن عساکر، خطی شمارہ ۳۲۹، الف.( ۲)۔ تفسیر طبری، ج ۱۲، ص ۲۹۔۳۰ ؛ تفسیر ابن کثیر،ص ۴۴۶، ۴۴۷؛ الدار المنشور ،ج ۳،ص ۳۳۱ ،۳۳۴ ،۳۳۵

۸۹

روضہ کا فی میں مذ کور ہے کہ: کوہ جودی وہی فرات کوفہ ہے .روضہ کا فی کے اس مطلب کی تشریح میں مجلسیمرآة العقول میں تحر یر فرما تے ہیں : احتمال ہے کہ یہ مطلب در حقیقت '' قر یب الکوفہ '' یعنی کوفہ سے قریب تھا کہ بعد میں نسخہ برداری میں '' فرات الکوفہ '' سے تصحیف اور تبد یل ہو گیا ہے۔( ۱ )

''جو دی '' سے متعلق استاد محقق آقا سید سا می البدری حقیر کے خط کے جواب میں اس طرح تحریر فرماتے ہیںکہ:

اُ س تو ریت میں جو عر بی زبا ن میں تر جمہ ہوئی ہے مذ کور ہے کہ نوح کی کشتی ''آراراط'' کے پہاڑ پر ٹھہری تھی .اور کتاب مقد س کی قا موس میں مذ کو ر ہے : یہ ایک عبر ی زبان کا لفظ ہے کہ جو آکا دی کے لفظ ''اورارطو'' سے لیا گیا ہے جو کہ عراق کے شمال میں واقع شمال آشو ر کی پہاڑی نہر وں کے لئے استعما ل ہوتا ہے نوح کی کشتی انہیں پہاڑوں میں سے کسی ایک پر ٹھہری تھی۔

لیکن میری نظر میں کلمۂ آکا دی''اورارطو'' دو جز سے تشکیل پا یا ہے۔

۱۔ '' اور '' جو شہر کے معنی میں ہے جیسے '' اورشلیم '' شہر سلام کے معنی میں ''اور کلدانیین'' کلدنیوں کے شہر کے معنی میں اور '' اوربیل'' شہر بت بعل۔

۲۔''ارطو '' یا ''اردو'' کہ یہ لفظ بھی متعدد معا نی میں استعما ل ہوا ہے منجملہ نہر فرات کا ایک نام ہے اور شہر با بل کا قدیم نام ہے۔

جو کہا گیا اس بنیا د پر کلمہ ''اورارطو''آکادی زبان میں شہر فرات اور شہر با بل تھا۔

جو چیز میرے نظر یہ کی تا ئید کر تی ہے وہ حضرت عیسیٰ مسیح کے عہد میں عبری تو ریت کا آرامی ترجمہ ہے کہ آج یہو دیوں کے نز دیک ''اونقلیوس کے تر جمہ'' کے نام سے مشہور ہے وہ پر ''کلمہ '' آراراط کا ترجمہ'' قردو '' اور '' قردون'' سے کیا ہے اور سریانی زبان کی تورات نے بھی اسی معنی کو اخذ کیا اور لیا ہے ۔

عہد آشور کے سلسلہ میں تحقیق کرنے والے دانشو ر کہتے ہیں: ''قردو'' ایک نام ہے جو حضرت مسیح کی ولا دت سے۰۰ ۱۵ سال پہلے کشینوں کی طرف سے ( کہ جنھوں نے تقر یبا چار سو سال با بل پر حکمر انی کی ہے ) سر زمین بابل کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

اس لحا ظ سے ارارات کے پہا ڑ وہی بابل یا فرات کے پہاڑ ہیں جو بلند چٹا نوں اور پر اگندہ طور پر کم

____________________

(۱) روضة الکافی، حدیث ۴۲۱؛اسی طرح بحار الانوار ،ج، ۱۱،ص ۳۰۳، ۳۱۳، ۳۳۳ ، ۳۳۸ ملاحظہ ہو.

۹۰

بلندی والے پہاڑوں کا ایک مجموعہ ہیں جو کہ نجف کی سہ گا نہ بلندیوں سے شروع ہوکر دریائے نجف اور حبّانیہ کے شمال غر بی تک چلے گئے ہیں جو ''الطارات'' سے معر وف ہیں. ان سب میں سب سے زیادہ اونچائی نجف کی اونچائی ہے جو زمانہ قدیم میں''کو فان '' نامی پہاڑ سے مشہور تھی۔

لیکن روضہ کا فی کے بیان کے مطا بق یہ ہے کہ: ''جو دی پر جا کر ٹھہری اور وہ فرات کوفہ ہے'' یہ اس بات کا موید ہے کہ لفظ (جو دی ) یا ( جودا) فرات کوفہ کاایک نام ہے کہ پتھر پر مکتوب ابھی جلد ہی حاصل ہوا ہے۔ ہم نے اس کی مفصل داستان اور شر ح طوفان نوح کے بارے میں جو مطالب تحریر کئے ہیں اس میں ذ کر کی ہے۔( ۱ )

مؤ لف فرما تے ہیں:

مذ کورہ بالا مطا لب کی تائید میں ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بین النھرین(دجلہ و فرات) کی زمینیں کہ جو قدیم زما نے سے کھیتوں کی سر سبزی اور نخلستا نوں کی ہر یا لی کی بناء پر ایک دوسرے سے متصل آراضی سواد(وہ زمینیں جو ہر یالی کی شدت سے سیا ہی ما ئل دکھائی دیتی ہیں) سے معروف تھیں .اور حیرہ (موجودہ نجف ) اور مدائن (آج کے بغداد) سے دجلہ وفرات دو دریاؤں کے سمندر میں گرنے کی جگہ تک پھیلی ہوئی ہیں وہ حضرت آدم کے زمانے سے بنی عباس کے دور حکو مت تک انسانی حیات کے لئے سب سے بہتر زمینیں شمار کی جا تی تھیں. بر خلا ف عراق کے شمال میں واقع پہا ڑ بر فیلے اور طو لا نی ٹھنڈک والے علا قے ہیں حکمت الٰہی کا یہ تقاضہ تھا کہ نوح کی کشتی پر سوار افراد جو زند گی کے اسباب ووسائل سے محروم تھے انھیں ایسی جگہ اتا را جا ئے جو زند گی گذ ارنے اور سلسلہ حیات کی بقا کے لئے بہترین جگہ ہو۔

گزشتہ آیات کی تفسیر(۱)

حضرت آدم کی نسل میں چند سال گذر نے کے بعد اضافہ ہوتا رہا اور واضح ہے کہ وہ لوگ سر سبز و شاداب سر زمین اور فرات اور دجلہ دو دریا اور ان سے نکلی ہوئی ،چھو ٹی چھوٹی نہروں کے کنا رے آباد ہوئے جو انھیں سے متصل تھیں،حضرت نوح کے دور میں آبادی اور تہذ یب وتمدن ارتقائی منزل پر گا مزن تھے وہ اس طرح کہ جو اسلامی احکام اولین انسا نوں کیلئے حضرت آدم کے زمانے میں وضع کئے گئے تھے اور

____________________

(۱) ان آیات کی تفسیر کے بارے میں جو اللہ کے پیغمبروں کی سر گذشت سے مربوط ہے انشاء اللہ جو کچھ ہماری آیندہ بحثوں سے متعلق ہو گا ہم اس کی تحقیق اور چھان بین کریں گے۔

۹۱

اس کے بعد حضرت ادریس پر جو کچھ اس کی تکمیل کے لئے نازل ہوا تھا اس سے عصر نوح کے لو گوں کی ضرورت بر طرف نہیں ہو رہی تھی کیو نکہ اس پیغمبر کے دور کے لوگ دھیرے دھیرے'' ود ، سواع ، یغو ث ، یعوق'' اور نسر نامی بتوں کی پر ستش کی طرف ما ئل ہوگئے تھے یہ بت در اصل مجسمہ تھے ان پا نچ نیک اور شائستہ افراد کی یاد گار کے جو حضرت آدم اور حضرت نوح کے زمانے کے درمیان زند گی گذ ار چکے تھے جنھیں اس زمانے کے لوگوں نے تراشا تھا.اور ان کے ذریعہ ان بزرگوں کی یاد مناتے تھے. شیطان نے اسی راہ سے فا ئدہ اٹھا یا اور انھیں آمادہ کیا کہ ان ہیکلوں سے تبرک حا صل کریں اور آہستہ آہستہ ان کی عبادت اور پرستش کریں اور انھیں چھو ٹے خداؤں کے عنوان سے ''اللہ'' کے مقابلے ایک خدا قبول کریں''۔

حضرت نوح ۹۵۰ سال ان کے درمیان رہے اور انھیں خدا وند عالم کی عبادت وپرستش اور احکام اسلام پر عمل کر نے اور بت پرستی کے ترک کرنے کی دعوت دیتے رہے.لیکن ان کی طغیا نی اور سر کشی میں اضا فہ ہوتا گیا، ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کو شدید تکلیف پہنچا ئی اور اذیت دی اور ان پر ایمان نہیں لائے اس وجہ سے خدا نے ان پر بارش کو روک دیا کیو نکہ خدا کی حکمت اس بات کی تھی کہ جو امتیں اپنے پیغمبر وں کی تکذیب کرتی تھیںوہ بے چارگی، فقر وفا قہ،مشقت، جان اور مال کے نقصا ن میں مبتلا ہوں.تا کہ شایدان کی سمجھ میںآجائے اور خدا کے حضور معافی تلا فی کریں نوح نے ان سے مطا لبہ کیا کہ وہ توبہ کریںاور خدا کی سمت آجائیں اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ایسا کر تے ہیں تو خدا وند عالم ان کے کھیتوںمیں موسلا دھار بارش نازل کرے گا.لیکن انھوں نے اس کے برعکس اپنے عناد اورانحراف میں اضا فہ کیا اور انھیں ذ لیل وخوار سمجھا اور ان کو ایذا دینے اور تکلیف پہنچانے کے لئے آمادہ ہوگئے، منجملہ یہ ہے کہ انھیں میں سے ایک اپنے بیٹے کو حضرت نوح کے پاس لا یا اور اپنے بیٹے کو بتایا کہ یہ نوح ہیں اور کہا: اے فرزند! اگر تو میرے بعد زندہ رہے تو ہر گز اس دیوانے پر ایمان نہ لا نا!!

اس عناد ا و ر دشمنی،ضد او ر ہٹ دھر می کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ خدا کے مہلک عذا ب کے مستحق ہوئے سب سے پہلے یہ عذا ب نازل ہوا کہ ان کی عورتیں بانجھ ہوگئیںاُس وقت خدا نے نوح کو کشتی بنا نے کا حکم دیا .نوح نے حکم کی تعمیل کی اور خدا کی تعلیم وراہنمائی کے ساتھ اور اس کے تحت نظر اس کی تعمیر میں مشغول ہوگئے۔

پھر تنور سے پانی ابلنے کے ساتھ جو کہ طوفان کے شروع ہو نے کی علامت تھی طوفان کا آغاز ہوا،ابن عساکر کے بقول وہ مذکورہ تنور مسجد کوفہ کے ایک گو شہ میں واقع تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) تاریخ ابن عساکر شرح حال نوح ،خطی نسخہ مجمع علمی اسلامی میں ،ص۳۲۹ الف.

۹۲

نوح نے اپنے اوپر ایمان لا نے والوں اور کچھ جانوروں کو کشتی پر سوار کیا پھر زمین نے ہر گو شے سے اپنا منھ کھو ل دیا اور سیل رواں جوش کھا نے لگا اور شدید بارش ہو نے لگی، پا نی نے زمین کو چھپا لیا یہاں تک کہ نوح کی کشتی کو اٹھا کر اسے موجوں کے درمیان پہا ڑوں کی بلندی پر لے گیا۔

نوح کا بیٹا کشتی پر سوار ہو نے سے انکار کر گیا.نوح کی پدرانہ شفقت نے دل میں درد پیدا کیا ایسی شفقت جو تمام انسا نوں کو ہوتی ہے.لہذا بیٹے کو خطاب کر کے آواز دی :

( یَا بُنیَّ ارْکبْ مَعنا وَ لاَ تَکُن مَعَ الکَا فِرِینَ٭قَالَ سَآوی اِلیٰ جَبلٍ یَعصِمُنی مِنَ المَائِ قَالَ لَا عَاصِمَ الیَومَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَیْنَهُمَا المُوجُ فَکاَنَ مِنَ المُغْرَ قِینَ٭فَناَدی نُوحُ رَبّه فَقَالَ راَبِ انَّ ابنِی مِنْ أهلِی وَانَّ وَعَدکَ الحَقُّ وَ اَنتَ أحکمُ الحَا کِمِینَ٭ قَالَ یَا نُوحُ اِنَهُ لَیْسَ مِن أهلکَ اِنّهُ عَمَل غَیرُصَا لِح ٍفَلَا تَسألْنِی مَا لَیْسَ لکَ بِهِ علم )

اے میرے بیٹے! ہمارے ہمراہ کشتی پر سوار ہو جاؤ اور کا فروں کے ساتھ نہ رہو.نوح کے بیٹے نے کہا : میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو میری اس پانی سے حفا ظت کرے گا.نوح نے کہا : آج کے دن امر خدا سے کوئی چیز بچانے والی نہیں ہے، مگر وہ شخص کہ جس پر خدا نے رحم کیا ہو،(اس اثناء میں ) ان کے درمیان موج حا ئل ہو گی اور وہ غرق ہو گیا .نوح نے اپنے رب کو آواز دی کہ:خدا یا! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ بھی حق ہے اور تو تمام حا کموں میں بہتر حکم کر نے والا ہے ۔

خدا نے کہا :اے نوح :وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے اس نے نا زیبا حر کتیں کی ہیں لہذا تم جو نہیں جانتے ہو اس کا مجھ سے مطا لبہ نہ کرو۔

نوح اللہ کے خطاب کے ذریعہ اس حقیقت سے واقف ہوگئے جس کا انھیں علم نہیں تھا اور سمجھ گئے کہ ان کا بیٹا اپنے نا روا اور نا زیبا افعال کے باعث خدا کے عذا ب کا مستحق ہو گیا ہے اور عرض کیا۔

( رَبّ اِنِّی أَعُوذ بِکَ اَنْ اَسَأَلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِه علم... )

خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کا مطا لبہ کروں جو نہیں جانتا۔

۹۳

خدا وند عالم ان تمام لوگوں کو جو نوح کی کشتی پر سوار نہیں ہوئے تھے ہلا ک کردیا، اس کے بعد سیل آسا بارش بند ہوئی اور سارا پانی زمین کے اندر چلا گیا اور جو لوگ کشتی پر سوارتھے با بل کی سر زمین پر اترے۔( ۱ ) اور جن حیوا نات کو نوح نے اس پر سوار کیاتھا باہر آئے اور زمین پر پھیل گئے۔

جو لوگ حضرت نوح کے بعد آج تک وسیع وعر یض زمین پر پیدا ہوئے ہیںان کے تین فر زندوں سام، حا م اور یافت کی نسل سے ہیں۔

قریش کو حضرت نوح کے واقعہ سے آگا ہی نہیں تھی اور غیبی اخبار کے ذریعہ کہ جنھیں حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وحی کے ذریعہ دریا فت کیا تھا اُس واقعہ سے مطلع ہوئے۔

جو کچھ بیان ہو چکا وہ آیات کی تفسیر میں اخبار نوح کا خلاصہ تھا، بعض اخبار ہیں جو اسلامی منابع و مآخذ میں مذ کور ہوئے ہیں۔

اب ہم اسلامی مآخذ میں: اب ہم حضرت نوح کے اخبار کے دوسرے حصّہ سے بحث کرتے ہیں۔

اسلامی مصا در میں حضرت نوح کی داستان

ہم تاریخ یعقوبی سے ( اختصارکے ساتھ) اس طرح نقل کر تے ہیں:

خدا وند عالم اخنوخ کے زمانے میں کہ اخنوخ نوح کے جد ا ور ادریس پیغمبر ہیں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نوح کو وحی کی اور حکم دیا کہ اپنی قوم کو ڈرائیں اور گناہوں کے ارتکاب سے جن کے وہ لوگ مر تکب ہوتے ہیں دور رکھیں .اور اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، نوح نے حکم کی تعمیل کی اور خود اللہ کی عبادت اور قوم کواس کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہوگئے ۔

پھر یعقوبی (اوردوسرے مورخین) مفصل شرح وبسط کے ساتھ جو ہم نے اختصار سے اس سے پہلے گزشتہ آیات کی تفسیر میں ذکر کیا ہے ذکر کرتے اور تحریر فرماتے ہیں:

نوح نے کشتی سے نکلنے کے بعد ۳۶۰ سال زند گی گذا ری اور جب موت قریب آگئی تو اپنے تینوں فرزندوں ( سام، حام، یافث. ) اور ان کے فرزندوں کو بلا یا اور ان سے وصیت کی اور حکم دیا کہ خدا وند عالم کی عبادت کریں۔

_____________________

(۱)۔حمومی معجم البلدان میں مادہ بابل کے ذیل میں اختصار کے ساتھ تحریر فر ماتے ہیں:بابل اس علاقہ کانام ہے کہ انھیں میں سے((حلہ اور کوفہ بھی ہے))جہاں نوح اور ان کے ساتھی کشتی سے نیچے آئے اور ایک پناہ گاہ بنائی،یہ پہلی جگہ ہے کہ وہ لوگ اس جگہ آبادی کر کے رہنے لگے اور یہاں پر تولید ونسل کا سلسلہ بڑھایا یہاں تک کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان میں سے بادشاہت کے مالک ہوئے اور شہروں کی بنا کی ان کی زندگی حدود دجلہ اور فرات اور دجلہ کی طرف سے نیچے((کسکر)) اور کوفہ کی طرف سے ماروائ''کوفہ'' تک پھیل گئی کہ اسے سواد کہتے ہیں اوران کے بادشاہوں نے بابل میں اپنی پناہ گاہ بنائی اور اسی کو پایۂ تخت بنا یا.

۹۴

پھر اس گھڑی سام سے کہا جب میں دنیا سے رحلت کر جاؤں ،قبل اس کے کہ کوئی آگاہ ہو تم ہی کشتی میں سوار ہو نا اور جسد آدم کو مقدس جگہ جو کہ زمین کے درمیان واقع ہے لے جانا اور اس کے بعد فرمایا:

اے سام : جب تم اپنے بیٹے '' ملکیزدق '' کی نصرت سے حضرت آدم کے جسد کو اٹھاؤگے تو خداوندعالم فر شتوں میں ایک فر شتہ کو تمہارے ہمراہ کر ے گا تاکہ وہ تمہاری راہنمائی کرے اور تمھیں زمین کے وسط کا پتہ بتا ئے.اس ما موریت کے سلسلہ میں تمہارے کام سے کوئی آگاہ نہ ہونے پا ئے؛ کیو نکہ یہ آدم کی اپنے بیٹے سے وصیت ہے کہ ہر ایک نے دوسرے سے وصیت کی ہے یہاں تک کہ تم تک پہنچی ہے، جب تم اس جگہ پر جہاں فر شتہ تمہاری راہنمائی کرے پہنچ جانا تو وہاں پر حضرت آدم کے جسد کو سپرد خاک کر دینااور ''ملکیزدق'' کو حکم دینا کہ اسی جگہ ہمیشہ کے لئے سکو نت اختیا ر کرے اور اس سے جدا نہ ہو اور اللہ کی عبادت اور پر ستش کے علا وہ کوئی کام نہ کرے۔( ۱ )

جب نوح کا انتقال ہو گیا تو عراق میں اسی جگہ دفن کر دیئے گئے جہاں انتقال ہوا تھا کیونکہ پیغمبر خدا نے فرما یاہے :

(وَ مَا قُبِضَ ناَبِیّ اِلَّا دُ فِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ )( ۲ )

ہر پیغمبر جہاں انتقال کر تا ہے وہیں دفن کیا جا تا ہے۔

اس لحا ظ سے ،حضرت آدم کا مد فن (دفن کی جگہ) وہیں ہو نا چاہئے جہاں ان کا انتقال ہوا ہے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۱۳ اور ص ۱۶ ، طبع بیروت ۱۳۷۹ ھجہ.(۲) سیرۂ ابن ہشام، ج۴، ص ۲۴۳ سنن ابن ماجہ، حدیث ۱۶۲۸. فتح الباری، ج۱، ص ۵۲۹.کنز العمال، ۱۸۷۶۳.

۹۵

نوح کے فرزند سام *

* نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت.

* سام کا حضرت آدم کے جسدکو سفینہ سے باہرنکالنااوراس جگہ دفن کرنا جہاں انھیں حکم دیا گیا تھا.

* سام کی اپنے بیٹے ارفخشد سے وصیت.

۹۶

نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت

تاریخ ابن اثیر میں مذ کور ہے :

حضرت نوح نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سا م سے وصیت کی( ۱ )

مسعودی کی اخبار الزمان میں مذکور ہے :

خدا وند عالم نے حضرت نوح کے بعد ریا ست ان کے فرزند سام کے حوالے کی اور انھیں گزشتہ پیغمبروں کی کتا بوں کا وارث قرار دیا اور حضرت نوح کی وصیت کو دیگر بھائیوں کے علا وہ خود ان سے اور ان کے فرزندوں سے مخصوص قرار دیا ۔( ۲ )

سام حضرت آدم کے جسد کو کشتی سے اٹھا تے ہیں

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

سام اپنے والد کے بعد خدا وند عالم کی عبادت اور اس کی اطا عت و فر ما نبرداری میں مشغو ل ہوگئے اور کشتی کادروازہ کھولا اور خفیہ طور پر اپنے دونوں بھا ئیوں کو اطلا ع دی اور ان کے حا ضر ہوئے بغیر اپنے بیٹے کی مدد سے حضرت آدم کے جسد کو وہاں سے اٹھا کر با ہر نکا ل لائے اور نگہبان فر شتے نے انھیں راستہ کی راہنمائی کی اور وہ لوگ اسی طرح حضرت آدم کے جسد کو اپنے ہمراہ لے گئے یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچے جہاں طے تھا کہ حضرت آد م کا جسد سپرد خاک ہو پھر حضرت آدم کے جسد کو خا ک کے حوالے کر دیا( دفن کر دیا )۔

سام کی اپنے فرزند ارفخشد سے وصیت

جب سام کی موت کا زمانہ قر یب آیا تو انھوں نے اپنے فرزند ارفخشد کو بلا یا اور ان سے وصیت کی۔( ۳ )

____________________

(۱ )تاریخ ابن اثیر ، طبع اول مصر،ج ۱، ص ۲۶. ( ۲)ا خبار الزمان، مسعودی ، ص ۷۵ ۔۱۰۲سال طبا عت ۱۳۸۶ ھ بیروت.

(۳)تاریخ یعقو بی ، ص ۱ ۔ ۱۷، طبع بیروت، ۱۳۷۹ ھ.

۹۷

سام کے فرزند ارفخشد *

* باپ کے بعد ان کی جانشینی.

* ارفخشد کی اپنے فرزند سے وصیت.

ارفخشد اپنے والد سام کے بعد

مسعودی کی مروج الذ ھب میں مذ کور ہے :

سام کے بعد ان کے فر زند ارفخشدنے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ۔( ۱)

تاریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

ارفخشد اپنے والد سام کے بعد خدا وند عالم کے اوا مر کی اطا عت اور عبادت میں مشغول ہوگئے اور ۱۸۵ سال کے بعد ان کے فر زند شا لح پیدا ہوئے ان کے عہد میں نوح کی اولا د متفرق ہو کر مختلف جگہوں پر سکو نت اختیا ر کر چکی تھی ،ظالموں اور سرکشوں کی رو زافزوں زیادتی ہونے لگی اور انھوں نے ہر سو تعدی اور تجاوز کا ہاتھ بڑھایا اور کنعان بن حام کے فر زندوں کو تباہی اور فساد میں مبتلا کردیا ؛اور وہ لوگ گستا خانہ اور کھلم کھلا گنا ہوں کے مر تکب ہونے لگے ۔( ۲ )

ارفخشد کی اپنے بیٹے سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذ کو ر ہے :جب ارفخشدکی موت کا زمانہ قریب آیا تو ان کے بیٹے اور رشتہ دار سب ان کے پا س جمع ہوگئے ارفخشد نے ان سے خدا کی عبادت اور گنا ہوں سے دوری کی وصیت کی، پھر اس وقت اپنے فرزند شا لح سے کہا :میری وصیت کی حفا ظت کر تے ہوئے اپنے اہل وعیا ل کے درمیان میرے بعد خدا کی عباد ت میں مشغول رہنا ،پھر آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے.( ۳ )

____________________

(۱)۔ مروج الذھب، مسعودی، ج۱، ص۵۴.(۲)۔ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۸.(۳)۔ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۸.

۹۸

ارفخشد کے فر زند شالح *

* خدا کی اطا عت و عبادت میں شا لح کا مشغول ہونا

* ان کی وصیت اپنے فر زند عابر سے

خدا کی اطا عت و عبادت میں شا لح کا مشغول ہونا

تاریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

پھر ارفخشد کے فرزند شالح ( اپنے باپ کی وصیت کے مطا بق) اپنی قوم کے درمیان خد ا کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور انھیں خدا کی اطاعت و فرمانبر داری کا حکم دیا اور گناہوں کے ارتکاب سے منع فر ما یا اور عذاب الٰہی سے جو کہ گناہ گاروں کے لئے آئے گا ڈرا یا .شا لح ۱۳۰ سا ل کے تھے کہ ان کے فرزند عابر پیدا ہوئے اور جب ان کی وفا ت کا زمانہ قر یب ہوا تو اپنے فرزند عا بر کو بلایا اور ان سے وصیت کی اور انھیں حکم دیاکہ قا بیل کی اولا د کے گناہ آلود کاموں سے دوری اختیار کریں، پھر اس وقت آنکھ بند ہوگئی اور دنیا سے رحلت کر گئے.( ۱ )

٭٭٭

ہم نے گزشتہ مبا حث میں نوح کے وہ اوصیاء جو کہ انبیا ء نہیں تھے ان میں سے صرف سام ،ارفخشد اور شالح کی سر گذ شت پر اکتفا ء کی ہے ۔

اب انشاء اللہ ہم انبیاء کے حالات اور حضرت نوح کے اوصیاء میں سے پیغمبروں کے بعض حالات کو قرآن کی تشریح کے اعتبار سے بیان کر یں گے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ،ج۱، ص ۱۸.

۹۹

( ۶ )

قرآ ن کریم میں اوصیاء حضرت نوح میں سے انبیاء کے حالات

* حضرت ہود پیغمبر

* حضرت صالح

حضرت ہود

* قرآن کی آیا ت کر یمہ میں حضرت ہود کی سیرت

* کلمات کی تشریح

* آیات کر یمہ کی تفسیر.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352