اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134181 / ڈاؤنلوڈ: 3954
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

( ۵ )

حضرت نوح اور ان کے بعد اوصیاء کے حالات

* نوح

* نوح کے فرزندسام

* سام کے فرزند ارفخشد

* ارفخشد کے فرزند شالح

حضرت نوح

* قرآنی آیات میں نوح کی سیرت

* کلمات کی تشریح

* آیات کی تفسیر

* داستان نوح کا خلا صہ

* اسلا می منا بع و مآ خذ میں نوح کی خبریں

۸۱

قرآنی آیات میں حضرت نوح کی سیرت وروش

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ حد ید کی ۲۶ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ اَرْسَلنَانُوْحاًوَااِبْرَاهیم وَ جَعَلْنَافِی ذُرِّ یَّتِهِماَالنُّبُوَّةَ وَالَکِتابَ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ وَ کَثِیرمِنْهُمْ فَاسِقُوْنَ )

ہم نے نوح اور ابراہیم کو ( رسالت)کے لئے مبعوث کیا اور ان کے فر زندوں کے درمیان کتاب اور نبوت قرار دی ،پس ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں (لیکن ) بہت سارے فسق وفجور میں مبتلا ہوگئے:

۲۔سورہ عنکبوت کی ۱۴ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے.

( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحاً اِلیٰ قَوْ مِه فَلاَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلاَّ خَمْسِینَ عَاماً )

اور ہم نے نوح کو (رسالت کے ساتھ) ان کی قوم کی طرف بھیجا انھوں نے ان کے درمیا ن ساڑھے نو سو سال زند گی گذاری...

۳۔سورۂ مومنون کی ۲۳ سے ۲۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:ِ

( فَقَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلٰهٍ غَیْرُهُ َفَلاَتَتَّقُونَ ٭ فَقَالَ الْمَلَُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا ِلاَّ بَشَر مِثْلُکُمْ یُرِیدُ َنْ یَتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَائَ ﷲ لََنْزَلَ مَلاَئِکَةً مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِی آبَائِنَا الَوَّلِینَ ٭ ِنْ هُوَ ِلاَّ رَجُل بِهِ جِنَّة فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتّٰی حِینٍ )

(نوح ) نے کہا : اے قو م! خدا کی عبادت کرو کہ اس کے علا وہ کو ئی خدا نہیںہے کیا تم لوگ خدا سے ڈرتے نہیں ؟!

کافر قوم کے بز رگوں نے کہا ، یہ (نوح) تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے اور تم پر سرداری کرنا چا ہتا ہے اگر خدا کسی پیغمبر کو بھیجنا ہی چا ہتا تو کسی فر شتہ کو بھیجتا. ہم نے ( اس کے ادّعا کو ) اپنے گزشتہ آباء واجداد سے نہیں سنا ہے یہ شخص ایک دیوا نہ کے سوا کچھ نہیں ہے. لہٰذا ایک مدت تک اُس کے حالات کا انتظار کرو۔

۴۔سورۂ شعراء کی۱۰۶ اور ۱۰۸ آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

)( إِذْ قَالَ لَهُمْ َخُوهُمْ نُوح َلَا تَتَّقُونَ ٭ِنِّی لَکُمْ رَسُول َمِین ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ )

ان کے بھا ئی نوح نے ان سے کہا : تم لوگ خدا سے خوف کیوں نہیں کرتے اور پرہیزگار کیوں نہیں ہوتے؟! میں تمہارے لئے ایک امین پیغمبر ہو لہٰذا خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۸۲

۵۔سورہ ٔیو نس کی ۷۲ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَاِنْ تَوَ لَّیتُمْ فََمَا سَأَ لْتکُمْ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجِریَ اِلَّا عَلٰی اللّٰهِ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ )

(نوح نے اپنی امت سے کہا :) پس اگر تم لوگ حق سے رو گرداں ہو تو میں تم سے کسی جزاء کا طالب نہیں ہوں(کیو نکہ )اجر وپا داش خدا ہی کے ذ مہّ ہے اور میں مامور ہوں کہ مسلما ن رہ کر اس کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم ہو جاؤں۔

۶۔سورہ ٔشعراء کی ۱۱۱ویں تا۱۱۶ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالُوا َنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الَرْذَلُونَ ٭ قَالَ وَمَا عِلْمِی بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ ِنْ حِسَابُهُمْ ِلاَّ عَلَی راَبِی لَوْ تَشْعُرُونَ ٭ وَمَا َنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِینَ ٭ ِنْ َنَا ِلاَّ نَذِیر مُبِین ٭ قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ یَانُوحُ لَتَکُونَنَّ مِنْ الْمَرْجُومِینَ )

(نوح کی قوم نے ان حضرت سے ) کہا : کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں جب کہ تمہارا اتباع پست لوگ کر تے ہیں ؟! فر مایا : مجھے اس سے کیا سرو کار کہ ہم دو سروں کے اعمال واحوال کوجانیں ،ان کا حسا ب میرے پر وردگا ر کے ذمّہ ہے اگر شعور رکھتے ہو،میر ے لئے منا سب نہیں ہے کہ مومنین کو اپنے پا س سے بھگا دوںمیں تو آشکار طور پر ڈرانے والا ہوںانھوں نے کہا :اے نوح ! اگر تم اپنی بات سے باز نہیں آئے تو ہم تمھیں بری طرح سنگسار کر دیں گے.

۷ ۔ سورہ ٔہود کی ۲۸ویں تا ۳۳ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ یَاقَوْمِ َرََیْتُمْ ِنْ کُنتُ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ راَبِی وَآتَانِی رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ َنُلْزِمُکُمُوهَا وََنْتُمْ لَهَا کَارِهُونَ ٭ وَیَاقَوْمِ لٰاَسَْلُکُمْ عَلَیْهِ مَالاً ِنْ َجْرِی ِلاَّ عَلَی ﷲ وَمَا َنَا بِطَارِدِ الَّذِینَ آمَنُوا ِنَّهُمْ مُلَاقُو راَبِهِمْ وَلَکِنِّی َرَاکُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ٭ وَیَاقَوْمِ مَنْ یَنصُرُنِی مِنَ ﷲ ِنْ طَرَدْتُهُمْ َفَلاَتَذَکَّرُونَ ٭ وَلٰا َقُولُ لَکُمْ عِندِی خَزَائِنُ ﷲ وَلاََعْلَمُ الْغَیْبَ وَلاََقُولُ ِنِّی مَلَک وَلاََقُولُ لِلَّذِینَ تَزْدَرِی َعْیُنُکُمْ لَنْ یُؤْتِیَهُمُ ﷲ خَیْرًا ﷲ َعْلَمُ بِمَا فِی َنفُسِهِمْ ِنِّی ِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ٭ قَالُوا یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فََکْثَرْتَ جِدَالَنَا فَْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ قَالَ ِنَّمَا یَاْتِیکُمْ بِهِ ﷲ ِنْ شَائَ وَمَا َنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ )

(نوح) نے کہا: اے قوم تم لوگ! کیا کہہ رہے ہو جب دیکھو کہ میرے پاس خدا کی جانب سے ایک روشن دلیل ہے اور اس کی رحمت میرے شا مل حا ل ہے پھر بھی حقیقت تم سے پو شیدہ ہی رہے گی؟! کیا میں تمھیں تمہاری خواہش کے خلا ف مجبور کروں؟! اے قوم ! میں تم سے کوئی مال تونہیں چاہتا ہوں ، میرا اجر تو ﷲ کے ذمہ ہے اور میں صاحبان ایمان کو نکال بھی نہیں سکتا ہوںکہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں

۸۳

البتہ میں تم کو ایک جاہل قوم تصوّر کررہا ہوں. اے قوم ! اگر میں ان خدا رسیدہ مومنین کو اپنے پاس سے بھگا دوں،تو کون ہے جو مجھے غضب الٰہی سے بچائے گا ؟! آیا نصیحت حا صل نہیں کر تے ؟! میں یہ نہیں کہہ رہا ہو کہ خدا کے خزا نے میرے پا س ہیں اور(اس بات کا) مد عی بھی نہیں ہو کہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوںکہ میں فر شتہ ہوں اور یہ بھی نہیں کہتاکہ جو لوگ تمہاری نگا ہوں میںبے قیمت ہیں انھیں خدا کوئی خیر نہیں دے گا خدا ان کے حال سے زیادہ واقف ہے اگر میں ایسی بات کروںگا تو ظالموں میں شمار ہوں گاانھوں نے کہا اے نوح ! تم نے ہم سے جنگ وجدا ل کی اور ہم سے جدا ل کو طول دے دیا اگر سچے ہو تو جو کچھ ہم سے وعدہ کیا ہے پیش کر و، نوح نے کہا : اگر خدا چا ہے گا تو اسے تم پرنازل کردے گا اور تم اس کے مقا بل کوئی قدرت اور راہ فرار نہیں رکھتے۔

۸۔سورۂ نوح کی ۵ویں تا ۲۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ راَبِ ِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِی لَیْلاً وَنَهَارًا ٭ فاَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَائِی ِلاَّ فِرَارًا ٭ وَِنِّی کُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا َصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وََصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا ٭ ثُمَّ ِنِّی دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ٭ ثُمَّ ِنِّی َعْلَنتُ لَهُمْ وََسْرَرْتُ لَهُمْ ِسْرَارًا ٭ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا ٭ یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا ٭ وَیُمْدِدْکُمْ بَِمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ َنْهَارًا ٭ مَا لَکُمْ لاَتَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا ٭ وَقَدْ خَلَقَکُمْ َطْوَارًا ٭ اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ ﷲ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ٭ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ٭ وَﷲ َنْبَتَکُمْ مِنَ الَرْضِ نَبَاتًا ٭ ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیهَا وَیُخْرِجُکُمْ ِخْرَاجًا ٭ وَﷲ جَعَلَ لَکُمُ الَرْضَ بِسَاطًا ٭ لِتَسْلُکُوا مِنْهَا سُبُلاً فِجَاجًا٭ قَالَ نُوح راَبِ ِنَّهُمْ عَصَوْنِی وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ یَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ ِلاَّ خَسَارًا ٭ وَمَکَرُوا مَکْرًا کُبَّارًا ٭ وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ٭ وَقَدْ َضَلُّوا کَثِیرًا وَلاَتَزِدِ الظَّالِمِینَ ِلاَّ ضَلاَلاً ٭ مِمَّا خَطِیئَاتِهِمْ ُغْرِقُوا فَُدْخِلُوا نَارًا فاَلَمْ یَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ ﷲ َنْصَارًا٭ وَقَالَ نُوح راَبِ لاَتَذَرْ عَلَی الَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا ٭ ِنَّکَ ِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَلاَیَلِدُوا ِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا ٭ راَبِ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدِ الظَّالِمِینَ ِلاَّ تَبَارًا )

۸۴

نوح نے کہا : خدا یا! میں نے شب وروز اپنی قوم کو دعوت دی .لیکن میری دعوت نے ان کے فرار میں اضا فہ کے سوا کچھ نہیں کیا. اور میں نے انھیں جب بھی دعوت دی تا کہ تو انھیں بخش دے تو انھوں نے اپنی انگلیاں کا نوں میں رکھ لیں اور اپنے کپڑے سر وں پر ڈ ال لئے اور عظیم تکبر کیا ۔پھر میں نے انھیں بلند آواز سے دعوت دی .پھر آشکار اور پوشیدہ طور پر میں نے اپنی دعوت کا اظہار کیا. اور میں نے کہا: خدا سے طلب مغفرت کرو ( کیو نکہ )وہ بہت بخشنے والا ہے، تا کہ تم پر کثرت سے بارش نازل کر ے اور تمہارے اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری نصرت کرے اور تمہارے لئے باغا ت اور نہریں قرار دے تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ خدا کی عظمت کے سامنے سر نہیں جھکا تے. جب کہ اس نے تمھیں مختلف اقسام میں خلق فرمایا ہے؟! کیا تم نے نہیں دیکھا کی خدا وند عالم نے کس طرح ایک پر ایک سات آسمانوں کو خلق کیا ہے .اور ان کے درمیان چا ند کو نور اور آفتاب کو ایک بڑا چراغ قرار دیا ہے.

اور خدا نے تمھیں زمین سے خا ص طرز سے پیدا کیا ہے اور پھر تمھیں اس کی طرف واپس کر دے گا اور مخصوص طریقے سے خارج کرے گا؟! خدا وند عالم نے تمھارے لئے زمین کا فرش بچھایا. تاکہ اس کی وسیع اور دور دراز راہوں میں چلو.نوح نے کہا: خدا یا! ان لوگوںنے میری مخا لفت کی ہے اور ایسے شخص کی بات مانی ہے کہ جس کے مال اور فرزند جز گمرا ہی وضلا لت کے کچھ اور نہیں بڑھا سکتے. اور ان لوگوں نے فریب دیا ،عظیم فریب اور کہا: اپنے خداؤں سے دور نہ ہونا اور انھیں نہ چھوڑنا. ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو. انھوں نے بہت سارے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے اب تو ظالموں پر ضلا لت وگمراہی کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرنا وہ لوگ اپنے گناہوں کے سبب غرق ہوگئے اور عظیم آگ میں دا خل ہوگئے اور خدا کے علا وہ کسی کو اپنا ناصر نہیں پا یا۔

نوح نے کہا: خدا یا! روئے زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ رکھ کہ اگر تو انھیںزندہ چھوڑ دے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور بد کار کافر کے علا وہ کسی اور کو جنم نہیں دیں گے خدا یا! مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے اور اس کو جو میرے گھر میں با ایمان داخل ہو اور تمام مومنین و مومنات کو بھی اور ستمگروں کو ہلا کت اور نا بودی کے سوا کچھ اور نہ دے۔

۸۵

۹۔ سورہ ٔ ہود کی ۳۷ ویں تا ۴۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بَِعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا ِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ ٭ وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ ِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُونَ ٭ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاْتِیهِ عَذَاب یُخْزِیهِ وَیَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَاب مُقِیم٭ حَتَّی ِذَا جَائَ َمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِیهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وََهْلَکَ ِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ ِلاَّ قَلِیل ٭ وَقَالَ ارْکَبُوا فِیهَا بِاِسْمِ ﷲ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ِنَّ راَبِی لَغَفُور رَحِیم ٭ وَهِیَ تَجْرِی بِهِمْ فِی مَوْجٍ کَالْجِبَالِ وَنَادَی نُوح ابْنَهُ وَکَانَ فِی مَعْزِلٍ یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا وَلاَتَکُنْ مَعَ الْکَافِرِینَ ٭ قَالَ سَآوِی الَی جَبَلٍ یَعْصِمُنِی مِنْ الْمَائِ قَالَ لاَعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ َمْرِ ﷲ ِلاَّ مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنْ الْمُغْرَقِینَ ٭ وَقِیلَ یَاَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ وَیَاسَمَائُ َقْلِعِی وَغِیضَ الْمَائُ وَقُضِیَ الَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ٭ وَنَادَی نُوح رَبَّهُ فَقَالَ راَبِ ِنَّ ابْنِی مِنْ َهْلِی وَِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وََنْتَ َحْکَمُ الْحَاکِمِینَ ٭ قَالَ یَانُوحُ ِنَّهُ لَیْسَ مِنْ َهْلِکَ ِنَّهُ عَمَل غَیْرُ صَالِحٍ فَلا َتَسَْلْنِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْم ِنِّی َعِظُکَ َنْ تَکُونَ مِنْ الْجَاهِلِینَ ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی َعُوذُ بِکَ َنْ َسَْلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِهِ عِلْم وَِلاَّ تَغْفِرْ لِی وَتَرْحَمْنِی َکُنْ مِنْ الْخَاسِرِینَ ٭ قِیلَ یَانُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَکَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلَی ُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ وَُمَم سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَاب َلِیم )

ہماری نگرانی اور راہنمائی میں کشتی بنا ؤ اور ظا لموں کے بارے میں ہم سے بات نہ کرنا کہ وہ غرق ہو جائیں گے .نوح کشتی بنانے لگے اور جب بھی ان کی قوم کا کوئی گروہ ان کی طرف سے (ان کے پاس سے) گذرتا تو وہ مذاق اڑا تے تھے.نوح نے کہا : اگر تم لوگ ہمارا مذا ق اڑا ؤ گے تو ہم بھی اسی طرح تمہارا مسخرہ کریں گے اور مذ اق اڑا ئیں گے .بہت جلد ہی تمھیں معلو م ہو جا ئے گا کہ وہ کون ہے جس تک ذلیل اور رسوا کر نے وا لا عذا ب پہنچے گا اور دائمی عذا ب اس پر نازل ہو گا. یہاں تک کہ ہمارا فرمان پہنچا اور تنور سے پانی ابلنے لگا تو ہم نے کہا:ہر حیوان کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرو. اپنے اہل وعیال کو بھی سوار کرو،سوائے اس کے جس پر عذا ب کا وعدہ گذر چکا ہے اور مومنین کو بھی سوار کرو اوراس ( نوح ) پر بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے نوح نے ان سے کہا : کشتی میں سوار ہو جاؤ، اس کی نقل وحرکت خدا کے نام سے ہے ، بیشک میرا خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے.کشتی انھیں پہاڑ جیسی موج کے درمیان لے جا رہی تھی،نوح نے اپنے بیٹے کو جو کنارہ کھڑ اتھا آواز دی اور کہا : میرے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کی ہمراہی اختیار نہ کرو. اس نے کہا : ابھی میں ایک ایسے پہاڑ پر پنا ہ لوںگاجو مجھ کو سیلاب سے محفوظ ر کھے گا نوح نے کہا:

۸۶

. آج خدا کے عذا ب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے، سوائے اس شخص کے جس کوخدا نے اپنی رحمت میں شامل کر رکھا ہے ؛ (اتنے میں) ان دونوںکے درمیان ایک موج حا ئل ہو گئی اور وہ غرق ہو گیا خدا کافرمان پہو نچا کہ اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان !( برسنے سے ) رک جا اپنی بارش بند کر دے اور پانی زمین کی تہہ میں پہنچ گیا اور جس کا حکم دیا گیا تھا وہ انجام پا گیا اور کشتی کوہ جو دی پر جا کر رکی اور کہا گیا: ظا لمین رحمت خدا سے دور ہیں اور نوح نے اپنے رب کو آواز دی کہ: خدا یا ! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ بھی حق ہے اور تو تمام انصاف کر نے والوں میں سب سے زیادہ عادل اور منصف ہے خدا نے کہا: اے نوح وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے وہ ایک غیر صا لح عمل ہے ،جو تم نہیں جا نتے اس کی مجھ سے درخواست نہ کرو میں تمھیں نصیحت کر تا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جانا. نوح نے کہا: خدا یا ! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے ایسی چیز طلب کروں جسے نہیں جانتا ہوں. اگر تو مجھے معاف نہ کرے گااور مجھ پر رحم نہ کر ے گا تو میں نقصا ن اٹھا نے والوں میں ہو جاؤں گا.کہا گیا ! اے نوح! ہماری طرف سے سلا متی اور برکتوں کے ساتھ نیچے اترآؤ اور یہ سلامتی اور برکتیں تم پر اور ان لوگوں پر ہیں جو تمہارے ہمرا ہ ہیں اور کچھ قومیں ایسی ہیںجنھیں ہم پہلے راحت دیں گے پھر اس کے بعد ہماری طرف سے ان پر عذا ب نازل ہوگا۔

۱۰۔سورۂ صا فات کی ۷۷ویں تا ۸۱ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ جَعَلْنَاذُرِّیّتَهَ هُمُ البَا قِینَ٭ وَتَرَ کْنَا عَلیهِ فِی الاخِرِین٭ سَلَامُ عَلیٰ نُو حٍ فِی العَالَمِینَ٭ اِنَّا کَذ لکَ نَجْزِ ی المُحْسِنِینَ٭ اِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا المُؤ مِنینَ )

اور ہم نے صرف ان کی ذ ریت کو با قی رکھا اور آیندہ والوں کے درمیان ان کا نیک نام باقی رکھا.ساری خدائی میں نوح پر سلام ہو .ہم نیکو کاروںکو اسی طرح جزا دیتے ہیں ہی، وہ ہمارے مو من بندوں میں سے ہیں۔

۱۱۔سورہ ٔہود کی ۴۹ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( تِلکَ مِنْ أنْبائِ الغَیْبِ نُو حِیهاا لیکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُهَااَنْتَ وَ لاَ قُومُکَ مِنْ قَبلِ هٰذَا فَاصْبِرْ اِنَّ العَا قِبَةَ لِلمُتَّقِینَ )

یہ سب کچھ غیب کی باتیں ہیں جن کی ہم نے تم پر وحی کی ہے،نہ تم انھیں اس سے پہلے جا نتے تھے اور نہ ہی تمہاری قوم.صبرو تحمل سے کام لو کہ انجام پرہیز گا روں کے نفع میں ہے.

۸۷

کلمات کی تشریح

۱۔فعمّیت علیکم:

عمیت الا خبار والا مور عنہ و علیہ: اخبار اور واقعات اُس سے پنہاں اور پو شیدہ رہ گئے، عمّی علیہ طریقہ یعنی راہ اُس پر پوشیدہ ہو گئی۔

۲۔بمعجزین:

اعجز فلان اُس وقت کہا جا تا ہے جب کوئی فرار کرے اور گر فتار نہ ہو ، کہ یہی معنی موقع اور مقام کے اعتبار سے منا سب ہے۔

۳۔استغشوا ثیا بھم:

خود کو لباس سے ڈھا نپ لیا (سر پر لباس ڈال لیا) تا کہ وہ لوگ اسے سنیں لیکن دیکھ نہ سکیں۔

۴۔مدرارا ً:

لگا تار اورموسلا دھار بر سنا۔

۵۔وقارا ً:

حلم و برد باری، ایسا سکون واطمینان جو عظمت کے ساتھ ہو یہاں پر عظمت کے معنی منا سب ہیں۔

۶۔ اطوارا ً :

اس کا مفرد طور ہے جو حا لت اور شکل کے معنی میں آتا ہے۔

۷۔ طبا قا ً:

تہہ بہ تہہ اور ایک دوسرے کے اوپر قرار پا نا،خواہ فا صلہ کے ساتھ ہو یا بغیر فا صلہ کے۔

۸۔ فجا جا ً:

کشادہ را ستے اس کا مفرد فجّ آتا ہے.

۹۔ تبا را ً :

ہلا کت اور نا بودی۔

۸۸

۱۰ ۔ با عیننا:

ہماری راہنما ئی اور نگرا نی میں اور ہماری پناہ میں۔

۱۱۔تنور:

منجملہ اس کے معنی چشمہ اور فوارہ کے ہیں.حضرت نوح کی شر ح حا ل سے متعلق تاریخ ابن عساکر( ۱ )

میں اس طرح ذ کر ہوا :یہ تنور مسجد کوفہ کے ایک کونے میں واقع تھا ۔

۱۲۔غیض :

پا نی زمین کے اندر چلا گیا ۔

۱۳ ۔جودی:

اس سلسلہ میں اختلا ف ہے کہ یہ'' جودی'' جزیرہ ابن عمر میں واقع تھا یا مو صل کے ارد گرد، یا غری میں نہر فرات سے قر یب نجف کی بلند یوں پر یا دوسری جگہ ۔

کتاب مقدس کی قا موس میں مذ کور ہے : حضرت نوح کی کشتی آرارات نامی پہاڑ پر ٹھہری جو کہ نہر ارس اوردریا ئے وان کے درمیان واقع ہے ۔ (جودی) کی لغت کے بارے میںحموی کی معجم البلدان میں مذ کور ہے : جودی دجلہ کے شرق اور موصل کے اطراف میں ابن عمر نامی جزیرہ پر واقع ایک پہا ڑ ہے. جس پر حضرت نوح کی کشتی رکی تھی۔

(استوت علی الجودی) کی تفسیر میں تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی میں چند روایات کے ضمن میں مذ کور ہے :

جودی جزیرۂ ابن عمر میں ہے،ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ موصل میں واقع ہے.( ۲ ) . اور

____________________

(۱)۔ تاریخ ابن عساکر، خطی شمارہ ۳۲۹، الف.( ۲)۔ تفسیر طبری، ج ۱۲، ص ۲۹۔۳۰ ؛ تفسیر ابن کثیر،ص ۴۴۶، ۴۴۷؛ الدار المنشور ،ج ۳،ص ۳۳۱ ،۳۳۴ ،۳۳۵

۸۹

روضہ کا فی میں مذ کور ہے کہ: کوہ جودی وہی فرات کوفہ ہے .روضہ کا فی کے اس مطلب کی تشریح میں مجلسیمرآة العقول میں تحر یر فرما تے ہیں : احتمال ہے کہ یہ مطلب در حقیقت '' قر یب الکوفہ '' یعنی کوفہ سے قریب تھا کہ بعد میں نسخہ برداری میں '' فرات الکوفہ '' سے تصحیف اور تبد یل ہو گیا ہے۔( ۱ )

''جو دی '' سے متعلق استاد محقق آقا سید سا می البدری حقیر کے خط کے جواب میں اس طرح تحریر فرماتے ہیںکہ:

اُ س تو ریت میں جو عر بی زبا ن میں تر جمہ ہوئی ہے مذ کور ہے کہ نوح کی کشتی ''آراراط'' کے پہاڑ پر ٹھہری تھی .اور کتاب مقد س کی قا موس میں مذ کو ر ہے : یہ ایک عبر ی زبان کا لفظ ہے کہ جو آکا دی کے لفظ ''اورارطو'' سے لیا گیا ہے جو کہ عراق کے شمال میں واقع شمال آشو ر کی پہاڑی نہر وں کے لئے استعما ل ہوتا ہے نوح کی کشتی انہیں پہاڑوں میں سے کسی ایک پر ٹھہری تھی۔

لیکن میری نظر میں کلمۂ آکا دی''اورارطو'' دو جز سے تشکیل پا یا ہے۔

۱۔ '' اور '' جو شہر کے معنی میں ہے جیسے '' اورشلیم '' شہر سلام کے معنی میں ''اور کلدانیین'' کلدنیوں کے شہر کے معنی میں اور '' اوربیل'' شہر بت بعل۔

۲۔''ارطو '' یا ''اردو'' کہ یہ لفظ بھی متعدد معا نی میں استعما ل ہوا ہے منجملہ نہر فرات کا ایک نام ہے اور شہر با بل کا قدیم نام ہے۔

جو کہا گیا اس بنیا د پر کلمہ ''اورارطو''آکادی زبان میں شہر فرات اور شہر با بل تھا۔

جو چیز میرے نظر یہ کی تا ئید کر تی ہے وہ حضرت عیسیٰ مسیح کے عہد میں عبری تو ریت کا آرامی ترجمہ ہے کہ آج یہو دیوں کے نز دیک ''اونقلیوس کے تر جمہ'' کے نام سے مشہور ہے وہ پر ''کلمہ '' آراراط کا ترجمہ'' قردو '' اور '' قردون'' سے کیا ہے اور سریانی زبان کی تورات نے بھی اسی معنی کو اخذ کیا اور لیا ہے ۔

عہد آشور کے سلسلہ میں تحقیق کرنے والے دانشو ر کہتے ہیں: ''قردو'' ایک نام ہے جو حضرت مسیح کی ولا دت سے۰۰ ۱۵ سال پہلے کشینوں کی طرف سے ( کہ جنھوں نے تقر یبا چار سو سال با بل پر حکمر انی کی ہے ) سر زمین بابل کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

اس لحا ظ سے ارارات کے پہا ڑ وہی بابل یا فرات کے پہاڑ ہیں جو بلند چٹا نوں اور پر اگندہ طور پر کم

____________________

(۱) روضة الکافی، حدیث ۴۲۱؛اسی طرح بحار الانوار ،ج، ۱۱،ص ۳۰۳، ۳۱۳، ۳۳۳ ، ۳۳۸ ملاحظہ ہو.

۹۰

بلندی والے پہاڑوں کا ایک مجموعہ ہیں جو کہ نجف کی سہ گا نہ بلندیوں سے شروع ہوکر دریائے نجف اور حبّانیہ کے شمال غر بی تک چلے گئے ہیں جو ''الطارات'' سے معر وف ہیں. ان سب میں سب سے زیادہ اونچائی نجف کی اونچائی ہے جو زمانہ قدیم میں''کو فان '' نامی پہاڑ سے مشہور تھی۔

لیکن روضہ کا فی کے بیان کے مطا بق یہ ہے کہ: ''جو دی پر جا کر ٹھہری اور وہ فرات کوفہ ہے'' یہ اس بات کا موید ہے کہ لفظ (جو دی ) یا ( جودا) فرات کوفہ کاایک نام ہے کہ پتھر پر مکتوب ابھی جلد ہی حاصل ہوا ہے۔ ہم نے اس کی مفصل داستان اور شر ح طوفان نوح کے بارے میں جو مطالب تحریر کئے ہیں اس میں ذ کر کی ہے۔( ۱ )

مؤ لف فرما تے ہیں:

مذ کورہ بالا مطا لب کی تائید میں ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بین النھرین(دجلہ و فرات) کی زمینیں کہ جو قدیم زما نے سے کھیتوں کی سر سبزی اور نخلستا نوں کی ہر یا لی کی بناء پر ایک دوسرے سے متصل آراضی سواد(وہ زمینیں جو ہر یالی کی شدت سے سیا ہی ما ئل دکھائی دیتی ہیں) سے معروف تھیں .اور حیرہ (موجودہ نجف ) اور مدائن (آج کے بغداد) سے دجلہ وفرات دو دریاؤں کے سمندر میں گرنے کی جگہ تک پھیلی ہوئی ہیں وہ حضرت آدم کے زمانے سے بنی عباس کے دور حکو مت تک انسانی حیات کے لئے سب سے بہتر زمینیں شمار کی جا تی تھیں. بر خلا ف عراق کے شمال میں واقع پہا ڑ بر فیلے اور طو لا نی ٹھنڈک والے علا قے ہیں حکمت الٰہی کا یہ تقاضہ تھا کہ نوح کی کشتی پر سوار افراد جو زند گی کے اسباب ووسائل سے محروم تھے انھیں ایسی جگہ اتا را جا ئے جو زند گی گذ ارنے اور سلسلہ حیات کی بقا کے لئے بہترین جگہ ہو۔

گزشتہ آیات کی تفسیر(۱)

حضرت آدم کی نسل میں چند سال گذر نے کے بعد اضافہ ہوتا رہا اور واضح ہے کہ وہ لوگ سر سبز و شاداب سر زمین اور فرات اور دجلہ دو دریا اور ان سے نکلی ہوئی ،چھو ٹی چھوٹی نہروں کے کنا رے آباد ہوئے جو انھیں سے متصل تھیں،حضرت نوح کے دور میں آبادی اور تہذ یب وتمدن ارتقائی منزل پر گا مزن تھے وہ اس طرح کہ جو اسلامی احکام اولین انسا نوں کیلئے حضرت آدم کے زمانے میں وضع کئے گئے تھے اور

____________________

(۱) ان آیات کی تفسیر کے بارے میں جو اللہ کے پیغمبروں کی سر گذشت سے مربوط ہے انشاء اللہ جو کچھ ہماری آیندہ بحثوں سے متعلق ہو گا ہم اس کی تحقیق اور چھان بین کریں گے۔

۹۱

اس کے بعد حضرت ادریس پر جو کچھ اس کی تکمیل کے لئے نازل ہوا تھا اس سے عصر نوح کے لو گوں کی ضرورت بر طرف نہیں ہو رہی تھی کیو نکہ اس پیغمبر کے دور کے لوگ دھیرے دھیرے'' ود ، سواع ، یغو ث ، یعوق'' اور نسر نامی بتوں کی پر ستش کی طرف ما ئل ہوگئے تھے یہ بت در اصل مجسمہ تھے ان پا نچ نیک اور شائستہ افراد کی یاد گار کے جو حضرت آدم اور حضرت نوح کے زمانے کے درمیان زند گی گذ ار چکے تھے جنھیں اس زمانے کے لوگوں نے تراشا تھا.اور ان کے ذریعہ ان بزرگوں کی یاد مناتے تھے. شیطان نے اسی راہ سے فا ئدہ اٹھا یا اور انھیں آمادہ کیا کہ ان ہیکلوں سے تبرک حا صل کریں اور آہستہ آہستہ ان کی عبادت اور پرستش کریں اور انھیں چھو ٹے خداؤں کے عنوان سے ''اللہ'' کے مقابلے ایک خدا قبول کریں''۔

حضرت نوح ۹۵۰ سال ان کے درمیان رہے اور انھیں خدا وند عالم کی عبادت وپرستش اور احکام اسلام پر عمل کر نے اور بت پرستی کے ترک کرنے کی دعوت دیتے رہے.لیکن ان کی طغیا نی اور سر کشی میں اضا فہ ہوتا گیا، ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کو شدید تکلیف پہنچا ئی اور اذیت دی اور ان پر ایمان نہیں لائے اس وجہ سے خدا نے ان پر بارش کو روک دیا کیو نکہ خدا کی حکمت اس بات کی تھی کہ جو امتیں اپنے پیغمبر وں کی تکذیب کرتی تھیںوہ بے چارگی، فقر وفا قہ،مشقت، جان اور مال کے نقصا ن میں مبتلا ہوں.تا کہ شایدان کی سمجھ میںآجائے اور خدا کے حضور معافی تلا فی کریں نوح نے ان سے مطا لبہ کیا کہ وہ توبہ کریںاور خدا کی سمت آجائیں اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ایسا کر تے ہیں تو خدا وند عالم ان کے کھیتوںمیں موسلا دھار بارش نازل کرے گا.لیکن انھوں نے اس کے برعکس اپنے عناد اورانحراف میں اضا فہ کیا اور انھیں ذ لیل وخوار سمجھا اور ان کو ایذا دینے اور تکلیف پہنچانے کے لئے آمادہ ہوگئے، منجملہ یہ ہے کہ انھیں میں سے ایک اپنے بیٹے کو حضرت نوح کے پاس لا یا اور اپنے بیٹے کو بتایا کہ یہ نوح ہیں اور کہا: اے فرزند! اگر تو میرے بعد زندہ رہے تو ہر گز اس دیوانے پر ایمان نہ لا نا!!

اس عناد ا و ر دشمنی،ضد او ر ہٹ دھر می کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ خدا کے مہلک عذا ب کے مستحق ہوئے سب سے پہلے یہ عذا ب نازل ہوا کہ ان کی عورتیں بانجھ ہوگئیںاُس وقت خدا نے نوح کو کشتی بنا نے کا حکم دیا .نوح نے حکم کی تعمیل کی اور خدا کی تعلیم وراہنمائی کے ساتھ اور اس کے تحت نظر اس کی تعمیر میں مشغول ہوگئے۔

پھر تنور سے پانی ابلنے کے ساتھ جو کہ طوفان کے شروع ہو نے کی علامت تھی طوفان کا آغاز ہوا،ابن عساکر کے بقول وہ مذکورہ تنور مسجد کوفہ کے ایک گو شہ میں واقع تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) تاریخ ابن عساکر شرح حال نوح ،خطی نسخہ مجمع علمی اسلامی میں ،ص۳۲۹ الف.

۹۲

نوح نے اپنے اوپر ایمان لا نے والوں اور کچھ جانوروں کو کشتی پر سوار کیا پھر زمین نے ہر گو شے سے اپنا منھ کھو ل دیا اور سیل رواں جوش کھا نے لگا اور شدید بارش ہو نے لگی، پا نی نے زمین کو چھپا لیا یہاں تک کہ نوح کی کشتی کو اٹھا کر اسے موجوں کے درمیان پہا ڑوں کی بلندی پر لے گیا۔

نوح کا بیٹا کشتی پر سوار ہو نے سے انکار کر گیا.نوح کی پدرانہ شفقت نے دل میں درد پیدا کیا ایسی شفقت جو تمام انسا نوں کو ہوتی ہے.لہذا بیٹے کو خطاب کر کے آواز دی :

( یَا بُنیَّ ارْکبْ مَعنا وَ لاَ تَکُن مَعَ الکَا فِرِینَ٭قَالَ سَآوی اِلیٰ جَبلٍ یَعصِمُنی مِنَ المَائِ قَالَ لَا عَاصِمَ الیَومَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَیْنَهُمَا المُوجُ فَکاَنَ مِنَ المُغْرَ قِینَ٭فَناَدی نُوحُ رَبّه فَقَالَ راَبِ انَّ ابنِی مِنْ أهلِی وَانَّ وَعَدکَ الحَقُّ وَ اَنتَ أحکمُ الحَا کِمِینَ٭ قَالَ یَا نُوحُ اِنَهُ لَیْسَ مِن أهلکَ اِنّهُ عَمَل غَیرُصَا لِح ٍفَلَا تَسألْنِی مَا لَیْسَ لکَ بِهِ علم )

اے میرے بیٹے! ہمارے ہمراہ کشتی پر سوار ہو جاؤ اور کا فروں کے ساتھ نہ رہو.نوح کے بیٹے نے کہا : میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو میری اس پانی سے حفا ظت کرے گا.نوح نے کہا : آج کے دن امر خدا سے کوئی چیز بچانے والی نہیں ہے، مگر وہ شخص کہ جس پر خدا نے رحم کیا ہو،(اس اثناء میں ) ان کے درمیان موج حا ئل ہو گی اور وہ غرق ہو گیا .نوح نے اپنے رب کو آواز دی کہ:خدا یا! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ بھی حق ہے اور تو تمام حا کموں میں بہتر حکم کر نے والا ہے ۔

خدا نے کہا :اے نوح :وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے اس نے نا زیبا حر کتیں کی ہیں لہذا تم جو نہیں جانتے ہو اس کا مجھ سے مطا لبہ نہ کرو۔

نوح اللہ کے خطاب کے ذریعہ اس حقیقت سے واقف ہوگئے جس کا انھیں علم نہیں تھا اور سمجھ گئے کہ ان کا بیٹا اپنے نا روا اور نا زیبا افعال کے باعث خدا کے عذا ب کا مستحق ہو گیا ہے اور عرض کیا۔

( رَبّ اِنِّی أَعُوذ بِکَ اَنْ اَسَأَلَکَ مَا لَیْسَ لِی بِه علم... )

خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کا مطا لبہ کروں جو نہیں جانتا۔

۹۳

خدا وند عالم ان تمام لوگوں کو جو نوح کی کشتی پر سوار نہیں ہوئے تھے ہلا ک کردیا، اس کے بعد سیل آسا بارش بند ہوئی اور سارا پانی زمین کے اندر چلا گیا اور جو لوگ کشتی پر سوارتھے با بل کی سر زمین پر اترے۔( ۱ ) اور جن حیوا نات کو نوح نے اس پر سوار کیاتھا باہر آئے اور زمین پر پھیل گئے۔

جو لوگ حضرت نوح کے بعد آج تک وسیع وعر یض زمین پر پیدا ہوئے ہیںان کے تین فر زندوں سام، حا م اور یافت کی نسل سے ہیں۔

قریش کو حضرت نوح کے واقعہ سے آگا ہی نہیں تھی اور غیبی اخبار کے ذریعہ کہ جنھیں حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وحی کے ذریعہ دریا فت کیا تھا اُس واقعہ سے مطلع ہوئے۔

جو کچھ بیان ہو چکا وہ آیات کی تفسیر میں اخبار نوح کا خلاصہ تھا، بعض اخبار ہیں جو اسلامی منابع و مآخذ میں مذ کور ہوئے ہیں۔

اب ہم اسلامی مآخذ میں: اب ہم حضرت نوح کے اخبار کے دوسرے حصّہ سے بحث کرتے ہیں۔

اسلامی مصا در میں حضرت نوح کی داستان

ہم تاریخ یعقوبی سے ( اختصارکے ساتھ) اس طرح نقل کر تے ہیں:

خدا وند عالم اخنوخ کے زمانے میں کہ اخنوخ نوح کے جد ا ور ادریس پیغمبر ہیں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نوح کو وحی کی اور حکم دیا کہ اپنی قوم کو ڈرائیں اور گناہوں کے ارتکاب سے جن کے وہ لوگ مر تکب ہوتے ہیں دور رکھیں .اور اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، نوح نے حکم کی تعمیل کی اور خود اللہ کی عبادت اور قوم کواس کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہوگئے ۔

پھر یعقوبی (اوردوسرے مورخین) مفصل شرح وبسط کے ساتھ جو ہم نے اختصار سے اس سے پہلے گزشتہ آیات کی تفسیر میں ذکر کیا ہے ذکر کرتے اور تحریر فرماتے ہیں:

نوح نے کشتی سے نکلنے کے بعد ۳۶۰ سال زند گی گذا ری اور جب موت قریب آگئی تو اپنے تینوں فرزندوں ( سام، حام، یافث. ) اور ان کے فرزندوں کو بلا یا اور ان سے وصیت کی اور حکم دیا کہ خدا وند عالم کی عبادت کریں۔

_____________________

(۱)۔حمومی معجم البلدان میں مادہ بابل کے ذیل میں اختصار کے ساتھ تحریر فر ماتے ہیں:بابل اس علاقہ کانام ہے کہ انھیں میں سے((حلہ اور کوفہ بھی ہے))جہاں نوح اور ان کے ساتھی کشتی سے نیچے آئے اور ایک پناہ گاہ بنائی،یہ پہلی جگہ ہے کہ وہ لوگ اس جگہ آبادی کر کے رہنے لگے اور یہاں پر تولید ونسل کا سلسلہ بڑھایا یہاں تک کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان میں سے بادشاہت کے مالک ہوئے اور شہروں کی بنا کی ان کی زندگی حدود دجلہ اور فرات اور دجلہ کی طرف سے نیچے((کسکر)) اور کوفہ کی طرف سے ماروائ''کوفہ'' تک پھیل گئی کہ اسے سواد کہتے ہیں اوران کے بادشاہوں نے بابل میں اپنی پناہ گاہ بنائی اور اسی کو پایۂ تخت بنا یا.

۹۴

پھر اس گھڑی سام سے کہا جب میں دنیا سے رحلت کر جاؤں ،قبل اس کے کہ کوئی آگاہ ہو تم ہی کشتی میں سوار ہو نا اور جسد آدم کو مقدس جگہ جو کہ زمین کے درمیان واقع ہے لے جانا اور اس کے بعد فرمایا:

اے سام : جب تم اپنے بیٹے '' ملکیزدق '' کی نصرت سے حضرت آدم کے جسد کو اٹھاؤگے تو خداوندعالم فر شتوں میں ایک فر شتہ کو تمہارے ہمراہ کر ے گا تاکہ وہ تمہاری راہنمائی کرے اور تمھیں زمین کے وسط کا پتہ بتا ئے.اس ما موریت کے سلسلہ میں تمہارے کام سے کوئی آگاہ نہ ہونے پا ئے؛ کیو نکہ یہ آدم کی اپنے بیٹے سے وصیت ہے کہ ہر ایک نے دوسرے سے وصیت کی ہے یہاں تک کہ تم تک پہنچی ہے، جب تم اس جگہ پر جہاں فر شتہ تمہاری راہنمائی کرے پہنچ جانا تو وہاں پر حضرت آدم کے جسد کو سپرد خاک کر دینااور ''ملکیزدق'' کو حکم دینا کہ اسی جگہ ہمیشہ کے لئے سکو نت اختیا ر کرے اور اس سے جدا نہ ہو اور اللہ کی عبادت اور پر ستش کے علا وہ کوئی کام نہ کرے۔( ۱ )

جب نوح کا انتقال ہو گیا تو عراق میں اسی جگہ دفن کر دیئے گئے جہاں انتقال ہوا تھا کیونکہ پیغمبر خدا نے فرما یاہے :

(وَ مَا قُبِضَ ناَبِیّ اِلَّا دُ فِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ )( ۲ )

ہر پیغمبر جہاں انتقال کر تا ہے وہیں دفن کیا جا تا ہے۔

اس لحا ظ سے ،حضرت آدم کا مد فن (دفن کی جگہ) وہیں ہو نا چاہئے جہاں ان کا انتقال ہوا ہے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۱۳ اور ص ۱۶ ، طبع بیروت ۱۳۷۹ ھجہ.(۲) سیرۂ ابن ہشام، ج۴، ص ۲۴۳ سنن ابن ماجہ، حدیث ۱۶۲۸. فتح الباری، ج۱، ص ۵۲۹.کنز العمال، ۱۸۷۶۳.

۹۵

نوح کے فرزند سام *

* نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت.

* سام کا حضرت آدم کے جسدکو سفینہ سے باہرنکالنااوراس جگہ دفن کرنا جہاں انھیں حکم دیا گیا تھا.

* سام کی اپنے بیٹے ارفخشد سے وصیت.

۹۶

نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت

تاریخ ابن اثیر میں مذ کور ہے :

حضرت نوح نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سا م سے وصیت کی( ۱ )

مسعودی کی اخبار الزمان میں مذکور ہے :

خدا وند عالم نے حضرت نوح کے بعد ریا ست ان کے فرزند سام کے حوالے کی اور انھیں گزشتہ پیغمبروں کی کتا بوں کا وارث قرار دیا اور حضرت نوح کی وصیت کو دیگر بھائیوں کے علا وہ خود ان سے اور ان کے فرزندوں سے مخصوص قرار دیا ۔( ۲ )

سام حضرت آدم کے جسد کو کشتی سے اٹھا تے ہیں

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

سام اپنے والد کے بعد خدا وند عالم کی عبادت اور اس کی اطا عت و فر ما نبرداری میں مشغو ل ہوگئے اور کشتی کادروازہ کھولا اور خفیہ طور پر اپنے دونوں بھا ئیوں کو اطلا ع دی اور ان کے حا ضر ہوئے بغیر اپنے بیٹے کی مدد سے حضرت آدم کے جسد کو وہاں سے اٹھا کر با ہر نکا ل لائے اور نگہبان فر شتے نے انھیں راستہ کی راہنمائی کی اور وہ لوگ اسی طرح حضرت آدم کے جسد کو اپنے ہمراہ لے گئے یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچے جہاں طے تھا کہ حضرت آد م کا جسد سپرد خاک ہو پھر حضرت آدم کے جسد کو خا ک کے حوالے کر دیا( دفن کر دیا )۔

سام کی اپنے فرزند ارفخشد سے وصیت

جب سام کی موت کا زمانہ قر یب آیا تو انھوں نے اپنے فرزند ارفخشد کو بلا یا اور ان سے وصیت کی۔( ۳ )

____________________

(۱ )تاریخ ابن اثیر ، طبع اول مصر،ج ۱، ص ۲۶. ( ۲)ا خبار الزمان، مسعودی ، ص ۷۵ ۔۱۰۲سال طبا عت ۱۳۸۶ ھ بیروت.

(۳)تاریخ یعقو بی ، ص ۱ ۔ ۱۷، طبع بیروت، ۱۳۷۹ ھ.

۹۷

سام کے فرزند ارفخشد *

* باپ کے بعد ان کی جانشینی.

* ارفخشد کی اپنے فرزند سے وصیت.

ارفخشد اپنے والد سام کے بعد

مسعودی کی مروج الذ ھب میں مذ کور ہے :

سام کے بعد ان کے فر زند ارفخشدنے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ۔( ۱)

تاریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

ارفخشد اپنے والد سام کے بعد خدا وند عالم کے اوا مر کی اطا عت اور عبادت میں مشغول ہوگئے اور ۱۸۵ سال کے بعد ان کے فر زند شا لح پیدا ہوئے ان کے عہد میں نوح کی اولا د متفرق ہو کر مختلف جگہوں پر سکو نت اختیا ر کر چکی تھی ،ظالموں اور سرکشوں کی رو زافزوں زیادتی ہونے لگی اور انھوں نے ہر سو تعدی اور تجاوز کا ہاتھ بڑھایا اور کنعان بن حام کے فر زندوں کو تباہی اور فساد میں مبتلا کردیا ؛اور وہ لوگ گستا خانہ اور کھلم کھلا گنا ہوں کے مر تکب ہونے لگے ۔( ۲ )

ارفخشد کی اپنے بیٹے سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذ کو ر ہے :جب ارفخشدکی موت کا زمانہ قریب آیا تو ان کے بیٹے اور رشتہ دار سب ان کے پا س جمع ہوگئے ارفخشد نے ان سے خدا کی عبادت اور گنا ہوں سے دوری کی وصیت کی، پھر اس وقت اپنے فرزند شا لح سے کہا :میری وصیت کی حفا ظت کر تے ہوئے اپنے اہل وعیا ل کے درمیان میرے بعد خدا کی عباد ت میں مشغول رہنا ،پھر آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے.( ۳ )

____________________

(۱)۔ مروج الذھب، مسعودی، ج۱، ص۵۴.(۲)۔ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۸.(۳)۔ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۸.

۹۸

ارفخشد کے فر زند شالح *

* خدا کی اطا عت و عبادت میں شا لح کا مشغول ہونا

* ان کی وصیت اپنے فر زند عابر سے

خدا کی اطا عت و عبادت میں شا لح کا مشغول ہونا

تاریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

پھر ارفخشد کے فرزند شالح ( اپنے باپ کی وصیت کے مطا بق) اپنی قوم کے درمیان خد ا کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور انھیں خدا کی اطاعت و فرمانبر داری کا حکم دیا اور گناہوں کے ارتکاب سے منع فر ما یا اور عذاب الٰہی سے جو کہ گناہ گاروں کے لئے آئے گا ڈرا یا .شا لح ۱۳۰ سا ل کے تھے کہ ان کے فرزند عابر پیدا ہوئے اور جب ان کی وفا ت کا زمانہ قر یب ہوا تو اپنے فرزند عا بر کو بلایا اور ان سے وصیت کی اور انھیں حکم دیاکہ قا بیل کی اولا د کے گناہ آلود کاموں سے دوری اختیار کریں، پھر اس وقت آنکھ بند ہوگئی اور دنیا سے رحلت کر گئے.( ۱ )

٭٭٭

ہم نے گزشتہ مبا حث میں نوح کے وہ اوصیاء جو کہ انبیا ء نہیں تھے ان میں سے صرف سام ،ارفخشد اور شالح کی سر گذ شت پر اکتفا ء کی ہے ۔

اب انشاء اللہ ہم انبیاء کے حالات اور حضرت نوح کے اوصیاء میں سے پیغمبروں کے بعض حالات کو قرآن کی تشریح کے اعتبار سے بیان کر یں گے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ،ج۱، ص ۱۸.

۹۹

( ۶ )

قرآ ن کریم میں اوصیاء حضرت نوح میں سے انبیاء کے حالات

* حضرت ہود پیغمبر

* حضرت صالح

حضرت ہود

* قرآن کی آیا ت کر یمہ میں حضرت ہود کی سیرت

* کلمات کی تشریح

* آیات کر یمہ کی تفسیر.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

٢)۔ تعصب

ہم نے دیکھا کہ سیف کے زمانے میں موجود اسلامی مراکز خاندانی اور قبائلی تعصب کی وجہ سے پے در پے تباہ و برباد ہو گئے اور ہر طرف فتنہ و فساد اور انتہائی خون ریزی کا بازار گرم ہو ا بالاخر یہی امر بنی امیہ کی حکمرانی کی نابودی اور بنی عباس کی خلافت کے بر سر کار آنے کا باعث ہوا ۔ان تمام فتنوں اور بغاوتوں کے بارے میں اس وقت کے شاعروں نے فخر و مباہات اور خود ستائی پر مبنی ولولہ انگیز رزمی قطعات اور قصیدے کہے ہیں ،جو یادگار کے طور پر موجود ہیں اور آج بھی ہم اس زمانے کے شعراء و ادب کے مجموعوں کو ان رزمی قصیدوں سے پر پاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ معلوم ہو ا کہ انہی خاندانی تعصبات کی وجہ سے بعض افراد نے اپنے خاندان کی فضیلت ،منقبت اور بالادستی پر مبنی تاریخی قصے اور احادیث جعل کی ہیں اور انھیں اپنے خاندانی فخر و مباہات کی سند کے طور پر دشمن کو نیچا دکھا نے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ لیکن اس میدان میں بھی سیف کا کوئی ہم پلہ نہیں ملتا کیوں کہ وہ اپنی کتابوں '' فتوح '' اور ''جمل'' میں شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کرنے میں کامیاب ہو اہے ،جنھوں نے اپنے رزمی قصیدوں میں قبیلہ مضر کے فخر و مباہات پر عام طور سے اور خاندان تمیم کے بارے میں خصوصی طور سے داد سخن دی ہے ۔اس کے علاوہ سیف نے اپنے خاندان تمیم کے بہت سے ایسے شجاع و بہادر نیز اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعل کئے ہیں جن کو اسلامی جنگوں میں فاتح سپہ سالار کی حیثیت سے دکھایا ہے ۔اس کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے احادیث کے بے شمار راوی جعل کئے ہیں

۱۲۱

٣)۔من گڑھت

اس کے علاوہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے فتوح اور ارتداد کی جنگوں میں اپنے افسانوں کے بہادر وں کی شجاعت کے جوہر دکھانے کے لئے قصہ اور کہانیاں گڑھی ہیں ،جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ۔اور اس نے ایسے جنگی میدانوں کانام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔اس کے علاوہ ان جنگوں میں قتل کئے گئے افراد کی تعداد لاکھوں بیان کی گئی ہے جب کہ اس زمانے میں پورے علاقے میں تمام جانداروں کی بھی اتنی تعداد نہیں تھی کہ اتنے انسان قتل یا گرفتار کئے جاتے ۔ سیف نے ان افسانوی بہادروں کی زبانی فخرو مباہات اور رزمی قصیدے بیان کئے ہیں اور دشمنوں کی ہجو گوئی کی ہے اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان کے سور مائوں کے نام خلفائے وقت کی طرف سے ترقی کے حکم نامے جعل کئے ہیں اور مذکورہ فاتح سپہ سالاروں کے فتح شدہ فرضی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ جنگی معاہدے بھی درج کئے ہیں جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ،رونما نہ ہوئے واقعات کو جعل کرنے اور قبیلہ نزار کی فضیلتیں بیان کرنے کے لئے اس شخص کی حرص اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ خاندان تمیم کی فضیلتوں کو پھیلانے کے لئے اس نے ملائکہ اور جنات سے بھی خدمات حاصل کرنے میں گریز نہیں کی ہے ۔سیف قبیلہ مضر ،خاندان تمیم خاص کر سیف کے اپنے خاندان بنی عمرو کے فخرو مباہات کی سند جعل کرنے کے لئے ہر قسم کے دھوکہ اور چالبازیوں کو بروئے کار لاتا ہے !

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا ہے کہ سیف کے افسانوں کے سورمائوں کے لئے کچھ معاونین کی ضرورت تھی اس لئے اس نے غیر مضریوں پرمشتمل کچھ معاون بھی جعل کئے ہیں اور ان کے لئے معمولی درجے کے عہدے مقرر کئے ہیں ۔اس طرح اس نے تاریخ اسلام میں بہت سے اصحاب تابعین اور حدیث کے راوی جعل کئے ہیں ،جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ سب سیف بن عمر کے تخیلات کی تخلیق ہیں ۔

۱۲۲

٤)۔حقائق کو الٹا کرکے دکھا نا

ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف نے بعض ایسے افسانے جعل کئے ہیں ،جن میں تاریخ کے صحیح واقعات کو تحریف کرکے ایسے افراد سے نسبت دی ہے کہ یہ واقعات کسی بھی صورت میں ان سے مربوط نہ تھے ۔مثال کے طور پر قبیلہ مضر کے علاوہ کسی اور خاندان کے کسی سور ما کو نصیب ہوئی فتحیابی کو کسی ایسے سپہ سالار کے نام درج کیا ہے جو خاندان مضر سے تعلق رکھتا تھا چاہے اس مضری سورما کا کوئی وجود نہ بھی ہو اور وہ محض سیف کے ذہن کی تخلیق ہو!اسی طرح اگر قبیلہ مضر کے کسی سردار سے کوئی نامناسب اور ناگوار واقعہ رونما ہو اہو تو اسے بڑی آسانی کے ساتھ کسی غیر مضری شخص سے نسبت دے دیتا ہے اور سیف کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ غیر مضری فرد حقیقی ہو یا اس کا جعل کردہ اور فرضی۔بہر حال اس کا مقصد یہ ہے کہ مضری فردسے بد نما داغ صاف کرکے اسے کسی غیر مضری شخص کے دامن پر لگایا جائے۔

٥)۔پردہ پوشی

سیف نے قبیلہ مضر کے بعض ایسے سرداروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی حقائق میں تحریف کی ہے ،جو ناقابل معافی جرم وخطاکے مرتکب ہوئے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے خلیفہ عثمان کے معاملہ میں عائشہ،طلحہ و زبیرکے اقدامات کے بارے میں دیکھا جو عثمان کے قتل پر تمام ہوئے ۔یا ان ہی تین اشخاص یعنی عائشہ ،طلحہ وزبیرکے امام علی کے خلاف اقدامات جو جنگ جمل کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔چونکہ یہ سب قبیلہ نزار و مضر سے تعلق رکھتے تھے،اس لئے سیف نے کوشش کی کہ اس عیب سے ان تمام افراد کے دامن کو پاک کرے ۔لہٰذا اس نے ''عبداللہ ابن سبا''کے حیرت انگیز افسانہ کو جعل کرکے تمام فتنوں ،بغاوتوں اور برے کاموں کو ابن سبا اور سبائیوں کے سرتھوپ دیا۔سیف نے جس ابن سباکا منصوبہ مرتب کیاہے ،وہ یہودی ہے اور اس نے یمن سے اٹھکر مسلمانوں کے مختلف شہروں میں فتنہ اور بغاوتیں بر پاکی ہیں ۔سیف،عبداللہ اور اس کے پیرئوں کو سبائی کہتا ہے اور اس خیالی گروہ کو یمنی بتاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یمنی روئے زمین پر فتنہ گر اور بدترین لوگ ہیں ۔اس طرح بدترین اعمال کے عاملوں ،جو در حقیقت قبیلہ نزار ومضر سے تعلق رکھتے تھے ،کی مضحکہ خیزطور پر پردہ پوشی کرتا ہے ۔لیکن قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر افراد ،جیسے عمار یاسر ،ابن عدیس اور مالک اشتر وغیرہ ،جو سب قحطانی تھے ،کو سیف نہ فقط بری نہیں کرتابلکہ ان حوادث میں ان کی مداخلت کو محکم تر کرکے ان پر اپنے افسانے کے ہیرو عبداللہ ابن سبا کی پیروی ،ہم فکری اور مشارکت کا الزام لگاتا ہے وہ اس طرح قبیلۂ مضر کی ان رسوائیوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔

۱۲۳

٦)۔کمزور کو طاقتور پر فدا کرنا

لیکن قبیلہ مضر کے کسی سردار اوراسی قبیلہ کے کسی معمولی شخص کے در میان اگر کوئی ٹکرائو یااختلاف پیدا ہوتا ہے ،تو سیف اس خاندان کے معمولی فرد کو خا ندان کی عظمت پر قربان کردیتا ہے سیف کا مقصد خاندان مضر کی عظمت و بزرگی ،زرو زور کے خدائوں کے فخرو مباہات ،نامور پہلوانوں سپہ سالاروں کی شجاعت وبہادری کی ترویج و تبلیغ ہے اور اس راہ میں وہ کوئی کسراٹھا نہیں رکھتا۔اس کی مثال کے لئے سیف کا خالد بن سعید اموی مضری کو خلیفہ اول ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر سر کوب اور بد نام کرنا اورمالک بن نویرہ پر صرف اس لئے ناروا تہمتیں لگانا کہ خالد بن ولید نزاری کی حیثیت محفوظ رہے،کافی ہے۔

لیکن اگر کسی مضری اور یمانی کے در میان کوئی ٹکرائو یا حادثہ پیش آیا ہو اور سیف نے اسے سبائیوں کے افسانہ میں ذکر نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے قصہ اور افسانہ جعل کرکے اس میں حتیٰ الامکان یمنی کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور مضری شخص کے مرتبہ و منزلت کو اونچا کرکے پیش کرتا ہے ۔اس سلسلے میں مضری خلیفہ عثمان کے ذریعہ ابوموسیٰ اشعری یمنی کو معزول کرنے کا مسئلہ قابل توجہ ہے۔

٧)۔حدیث سازی کا تلخ نتیجہ

ان تمام امورکے نتیجہ میں اسلام کی ایک ایسی تاریخ مرتب ہوئی ہے جو بالکل جھوٹ اور افسانوں سے بھری ہے ۔اس طرح تاریخ اسلام میں ،اصحاب ،تابعین ،راویوں ،سپہ سالاروں اور رزمیہ شعراء پر مشتمل ایسے اشخاص مشہور ہوئے ہیں ،جن میں سے ایک کابھی وجود سیف کے افسانوں سے باہر ہر گزپایا نہیں جاتا۔اس کے با وجود سیف سے نقل کرکے ان میں سے ہر ایک کی زندگی کے حالات لکھے گئے ہیں اور انھیں تاریخ کی معتبر کتابوں اور دیگر دسیوں کتابوں میں مختلف موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں ان میں سے ستر کے قریب نمونوں کا ذکر کیا ہے ۔

۱۲۴

٨)۔ سیف کی احادیث پھیلنے کے اسباب

ہم نے سیف کی احادیث کے پھیلنے کے اسباب کے بارے میں کہا کہ اس کی حیرت انگیز روایات اور افسانوں کے پھیلنے اور علماء و دانشوروں کی طرف سے ان کو اہمیت دینے کے اسباب درج ذیل ہیں :

١۔ سیف نے اپنی داستانوں اور افسانوں کو ایسے جعل کیا ہے کہ ہر زمانے کے حکمرانوں ، ارباب اقتدار اور دولتمندوں کے مفادات اور مصلحتوں کا تحفظ کر سکیں ۔جیسا کہ ہم نے علاء خضری کی داستان میں دیکھا کہ دار ین کی جنگ میں وہ اپنے پیادہ و سوار سپاہیوں کے ہمراہ سمندر کے پانی سے ایسے گزر ا جیسے وہ صحرا کی نرم ریت پر چل رہا تھا جب کہ اس سمندر ی فاصلہ کو کشتی سے طے کرنے کے لئے ایک شب و روز کا زمانہ درکار تھا اس کے علاوہ اس جنگ میں جتنی بھی کرامتیں اس نے دکھائیں وہ سب علاء کی جانب سے خلیفہ اول کی فرمانبرداری و اطاعت کے نتیجہ میں تھیں چوں کہ جب یہی علاء دوسرے خلیفہ کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی نا فرمانی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرتا ہے تو شکست سے دو چار ہوتا ہے اور ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔اس لئے اگر علاء سے کوئی کارنامہ دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف خلیفہ اول کی اطاعت کے نتیجہ میں تھا ،نہ یہ کہ علاء کسی ذاتی فضل و شرف کا مالک تھا کیوں کہ ہم نے دیکھا کہ دوسری بار خلیفہ دوم کی نافرمانی کے نتیجہ میں اس کے فضل و شرف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ اس قسم کے افسانے وقت کی سیاست کے مطابق اور خلافت کی مصلحتوں اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جعل کئے گئے ہیں ۔اسی لئے یہ افسانے ہر زمانہ میں حکمراں طبقہ اور ان کے حامیوں کی طرف سے مورد تائید وحمایت قرار پائیں گے۔

٢۔اس نے اپنے افسانوں کو عوام پسند،ہر دل عزیز اور ہر زمانے کے متناسب جعل کیاہے۔ اسلاف کی پوجا کرنے والے اس افسانوں میں اپنے اجداد کی بے مثال عظمتیں اور شجاعتیں پاتے ہیں ۔ثقافت وادب کے شیدائی منتخب اور دلچسپ اشعار اور نثر میں بہترین اور دلپسند عبارتیں پاتے ہیں ۔تاریخ کے متوالوں کو بھی ایک قسم کے تاریخی اسناد،جیسے خطوط،عہد نامے،دستاویز اور تاریخ کے بارے میں جزئیات ملتے ہیں اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والوں کو بھی سیف کے افسانوں میں اپنا حصہ ہاتھ آتاہے تاکہ اپنی شب باشی کی محفلوں میں اس کے شیرین قصوں اور داستانوں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔

مختصر یہ کہ حکام اور اہل اقتدار ،جو کچھ اپنی سیاست کے مطابق چاہتے ہیں سیف کے افسانوں میں پاتے ہیں ۔اس کے علاوہ عام لوگ بھی اپنی چاہت کے مطابق مطالب سے محروم نہیں رہتے ۔علماء اور ادب کے شیدائی بھی اپنی مرضی کے مطابق بحث و مباحثے میں کام آنے والی چیزوں سے مستفید ہوتے ہیں ۔

۱۲۵

ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف کو دوسروں پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ اس نے دوسروں کی نسبت اپنے شخصی مفاد کو کامیابی کے ساتھ تمام طبقوں کی خواہشات کے مطابق ہماہنگ کیا ہے اس نے مختلف طبقات کی خواہشات کو پورا کرنے کے باوجود عام طور پر قبیلۂ مضر کو اور خاص طور پر خاندان تمیم کو ہمیشہ کے لئے با افتخار بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔اس کے علاوہ اپنے خاندان کے دشمنوں جیسے ،یمنیوں اور سبائیوں کو ذلیل وخوار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔

٩)۔ سیف کے مقاصد

مذکورہ بالاتمام چیزوں کا سیف کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ ہوتاہے۔لیکن تاریخی حواد ث کی تاریخوں میں تحریف کرنے کا کیا سبب تھا؟اور کس چیز نے سیف کو اس بات پر مجبور کیا کہ تاریخی اشخاص کے نام بدل دے ،مثال کے طور پر عبد الرحمن ابن ملجم کے بجائے خالد بن ملجم بتائے؟یا کون سی چیز اس کا باعث بنی کہ وہ یہ داستان گڑھے کہ عمر اپنی بیوی سے یہ کہیں کہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھائے!اور ان کی بیوی کا اپنے شوہر کی تجویز پر اطاعت نہ کرنے کاسبب اس کانامناسب لباس ہو؟اور اسی طرح کی دوسری مثالیں ؟یہ وہ مسائل ہیں جن سے سیف کے وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکتے جن سے ہم واقف ہیں ،مگر یہ کہ اس پر زندیق ہونے کا الزام صحیح ثابت ہو اور اگریہ الزام اس پر صحیح ثابت ہوجائے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان تمام جھوٹ اور افسانوں کے گڑھنے کا اس کا اصلی مقصد اسلامی تاریخ کے حقائق میں تبدیلی لانے،تحریف کرنے اور انھیں مسخ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔اور اس میں سیف اس قدر کامیاب ہوا ہے کہ یہ کامیابی اس کے علاوہ کسی اور زندیق کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔

بہر حال ،خواہ سیف کے زندیقی ہونے اور اسلام کے ساتھ اس کی دشمنی کے سبب یا جھوٹ اور افسانے گڑھنے میں اس کی غفلت اور حماقت کی وجہ سے ،جو بھی ہو ،اس نے تاریخ اسلام کو خاص کر ارتداد اور فتوح کی جنگوں میں اور ان کے بعد حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے تک کے تاریخی حوادث میں زبردست تحریف کی ہے۔

۱۲۶

ستم ظریفی یہ ہے کہ جو کچھ سیف نے جعل کیا ہے وہ اسلام ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب ان کی جنگوں اور فتحیابیوں کی باقاعدہ اور معتبر تاریخ محسوب ہوتاہے۔جھوٹ اور افسانوں پر مشتمل اس قسم کی تاریخ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے دشمنوں کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ اور ہزار ہا انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے بعد پھیلا ہے۔جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ یہ خود ملتیں اور قومیں تھیں جو ظالم اور جابر حکام کے خلاف بغاوت کرکے اسلام کے سپاہیوں کی صف میں شامل ہوکر گروہ گروہ دین اسلام قبول کرتی تھیں ۔حقیقت میں اسلام اسی طرح پھیلاہے نہ کہ تلوار کے ذریعہ جیسا کہ سیف کا دعویٰ ہے۔

١٠)۔ ہماری ذمہ داری :

یہ وہ تاریخ ہے جسے سیف نے تاریخ اسلام کے طور پر تدوین کیا ہے اور یہ عوام الناس میں محترم قرار پاکر تسلیم کی گئی ہے اور جو کچھ دوسروں نے حقیقی واقعات پر مشتمل تاریخ اسلام لکھی ہے ،سیف کے افسانوں کی وجہ سے ماند پڑگئی ہے اور سرد مہری وعدم توجہ کا شکار ہوکر فراموش کردی گئی ہے۔اس طرح ہر نسل نے جو کچھ سیف کے افسانوں سے حاصل کیا،اسے اپنے بعد والی نسل کے لئے صحیح تاریخی سند کے طور پر وراثت میں چھوڑا اور اس کے تحفظ کی تاکید کی ہے۔اسی طرح صدیاں گزرگئیں ۔

گزشتہ بارہ صدیوں سے یہی حالت جاری ہے۔اور ہماری تدوین شدہ تاریخ ،خصوصاً فتوح ،ارتداد اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ کی یہی ناگفتہ بہ حالت ہے ۔لیکن کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ ہم ہوش میں آئیں اور اپنے آپ کو اس زندیق کے فتنوں کے پھندوں سے آزاد کریں ؟ کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں ؟اگر ہمیں ایسا موقع ملا اور اس بات کی اجازت ملی کہ تاریخ کی بڑی کتابوں اور معارف اسلامی کے دیگر منابع کے بارے میں تعصب اور فکری جمود سے اوپر اٹھ کر بحث وتحقیق کریں تاکہ اسلام کے حقائق سے آشنا ہو سکیں تو ایسی بحث کے مقدمہ کے طور پر سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سچے اور حقیقی اصحاب کی شناخت اور پہچان ضروری ہو گی اور اس سلسلے میں پہلے سیف کے جعلی اصحاب کو پہچاننے کی ضرورت ہے ایسے صحابی جنھیں اس نے سپہ سالار اور احادیث کے راویوں کی شکل میں جعل کیا ہے اور اپنی احادیث کی تائید کے لئے اپنی روایتوں میں بے شمار راوی جعل کئے ہیں اور شعراء ،خطباء حتٰی جن و انس سے بھی مدد حاصل کی ہے جب کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔

۱۲۷

اس کتاب کے اگلے حصوں میں ہم سیف کے افسانوں کے ایسے سورمائوں کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں خدا شاہد ہے کہ ہم نے جو یہ کام اور راستہ اختیار کیا ہے اس میں اسلام کی خدمت اور خدا کی رضامندی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد کارفرما نہیں ہے ۔

ہم اس کتاب کو اس کے تمام مطالب اور مباحث کے ساتھ علماء اور محققین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس کی تکمیل میں اپنی راہنمائی اور علمی تنقید کے ذریعہ ہماری مدد اور تعاون فرمائیں ۔

خد ا ئے تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق و حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی و دستگیر ی فرمائے !اور اپنی پسندیدہ راہ کی طرف راہنمائی فرمائے !

گزشتہ بحث کا ایک جائزہ اور

آئندہ پر ایک نظر

گزشتہ فصلوں میں ہم نے زیر نظر مباحث کی بنیاد کے طور پر چند کلی مسائل بیان کئے اور اس طرح زندیقیت اور زندیقیوں کا تعارف کرایا اور خاندانی تعصبات کی بنیاد پر حدیث اور تاریخ اسلام پر پڑنے والے برے اثرات سے واقف ہوئے ۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف بن عمر ایک زبر دست متعصب اور خطر ناک زندیقی تھا ۔اس میں زندیقیت اور تعصب دو ایسے عامل موجود تھے جو حدیث جعل کرنے کے لئے اسے بڑی شدت سے آمادہ کرتے تھے ۔اور یہی قوی دو عامل اسے تاریخ اسلام میں ہر قسم کے جعل ،تحریف ،جھوٹ اور افسانہ سازی میں مدد دیتے تھے جس کے نتیجہ میں اس نے اپنے تخیلات کی طاقت سے بہت سے راوی ،شاعر اور اصحاب کو اپنی احادیث اور افسانوں کے کردار کے طور پر جعل کرکے انھیں اسلام کی تاریخ و لغت میں داخل کر دیا ہے اس کتاب کی تالیف کا مقصد سیف کے جعل کئے ہوئے افراد کے ایک گروہ کا تعارف کرانا ہے جنھیں اس نے تاریخ اسلام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیثیت سے پیش کیا ہے

سیف نے اپنے جعلی اور افسانوی اصحاب میں سے اہم اور نامور افراد کو خاندان تمیم سے مربوط ثابت کیا ہے ،جو اس کا اپنا خاندان ہے اور باقی اصحاب کو دوسرے مختلف قبیلوں سے مربوط دکھایا ہے اب ہم ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ فصل میں بحث و تحقیق کریں گے ۔ہم اس بحث کا آغاز خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے کرتے ہیں ،جن کا سرغنہ اور سب سے پہلا شخص '' قعقا ع بن عمرو'' ہے ۔

۱۲۸

تیسرا حصہ :

١۔ قعقاع بن عمر و تمیمی

٭ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں

٭ ابوبکر کے زمانے میں

٭ حیرہ کی جنگوں میں

٭ حیرہ کی جنگوں کے بعد

٭ مصیخ و فراض کی جنگوں میں

٭ خالد کے شام کی طرف جاتے ہوئے

٭ شام کی جنگوں کے دوران

٭ عمر کے زمانہ میں

٭ عراق کی جنگوں میں

٭ ایران کی جنگوں میں

٭ د وبارہ شام میں

٭ نہاوند کی جنگوں میں

٭ عثمان کے زمانے میں

٭ حضرت علی ـکے زمانے میں

٭ بحث کا خلاصہ

٭ احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

۱۲۹

قعقاع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں

لم نجد له ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے قعقاع کا نام سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا۔

(مؤلف)

اسلامی تاریخ اور لغت کی دسیوں معروف و مشہور کتابوں میں '' قعقاع بن عمر و'' کا نام اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی حیثیت سے اس کی زندگی کے حالات درج کئے گئے ہیں ابو عمر کی تالیف کتاب '' استیعاب'' ١ ان کتابوں میں سے ہے جو آج کل ہماری دست رس میں ہیں ۔اس مؤلف نے قعقاع کی زندگی کے حالات خصوصیت سے لکھے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' قعقاع ،عاصم کا بھائی اور عمر و تمیمی کا بیٹا ہے ۔ان دونوں بھائیوں نے جنگ قادسیہ میں جس میں ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم فرخ زاد تھا بے مثال اور قابل تحسین شجاعت اور بہادر ی کا مظاہرہ کیا ہے اور شائشتہ و قابل احترام مرتبہ و منزلت کے مالک بن گئے ''

'' استیعاب ''کے مولف کے بعد ابن عساکر '' تاریخ شہر دمشق '' ٢میں قعقاع بن عمرو کے بارے میں یوں ر قم طراز ہے :

'' قعقاع ،رسول خدا کا صحابی تھا !وہ ایک قابل ذکر بہادر اور نامور عربی شاعر تھا ۔اس نے ''جنگ یرموک ''اور ''فتح دمشق '' میں شرکت کی ہے ۔اس نے عراق اور ایران کی اکثر جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے ہیں اور قابل ذکر و نمایاں جنگیں لڑی ہیں ''

قعقاع کے بارے میں دوسری صدی ہجری کی ابتداء سے آج تک یوں بیان کیا گیا ہے :

'' قعقاع ،اسلامی جنگوں میں ہمیشہ ایک دادرس و فریاد رس بہادر کی حیثیت سے رہا ہے ٣ وہ خانقین ،ہمدان اور حلوان کا فاتح ہے '' ٤

ان خصوصیت کا مالک قعقاع کون ہے ؟

۱۳۰

قعقاع کا شجرۂ نسب

سیف نے قعقاع کا خیالی شجرۂ نسب ذکر کیا ہے :

''قعقاع عمرو ابن مالک کا بیٹا ١ ہے ۔اس کی کنیت ابن حنظلہ ہے ٢ ۔اس کے ماموں خاندان بارق ٣ سے تھے ۔اور اس کی بیوی ہنیدہ ،عامر ہلالیہ کی بیٹی تھی جو خاندان ہلال نخع سے تعلق رکھتا تھا '' ٤

قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی

طبری اور ابن عساکر ،دونوں کا قول ہے کہ سیف نے یوں بیان کیا ہے :

'' ْقعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔'' ١

ابن حجر شعری نے سیف کا نقل کیا ہوا قعقاع کا قول حسب ذیل ذکر کیا ہے :

'' میں تہامہ کی ترقی و درخشندگی کو دیکھ رہا تھا ،جس دن خالد بن ولید ایک نفیس گھوڑ ے

پر سوار ہو کر سواروں کی قیادت کر رہا تھا ،میں سیف اللہ کی فوج میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلوار تھا اور آزادانہ طور پر سب سے پہلے اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں کے شانہ بشانہ قدم بڑھارہا تھا ''

۱۳۱

قعقاع سے منقول ایک حدیث :

ابن حجر '' اصابہ '' میں قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے خود قعقاع کی زبانی یوں نقل کرتا ہے :

''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم نے جہاد کے لئے کیا آمادہ کیا ہے ؟ میں نے جواب میں کہا: خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت اور اپنا گھوڑا ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:سب کچھ یہی ہے ''

ابن حجر ،سیف سے نقل کرتے ہوئے قعقاع کی زبانی مزید نقل کرتا ہے :

''میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت وہاں پر موجود تھا ۔جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور بعض لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: انصار سعد کو خلیفہ منتخب کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدے اور وصیت کو کچل کے رکھ دیں ۔ مہاجرین یہ خبر سن کر پریشان ہو گئے.... ''(۱)

ابن حجر مزید لکھتا ہے :

'' ابن مسکن نے کہا ہے کہ سیف بن عمر ضعیف ہے ،یعنی اس کی یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے ''

____________________

۱)۔ عبداللہ ابن سباج١،بحث سقیفہ میں اس جعلی حدیث پر تحقیق کی گئی ہے ۔

۱۳۲

علم رجال کے عالم و دانشور رازی نے بھی اس داستان کو خلاصہ کے طور قعقاع کی زندگی کے حالات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

''سیف کی روایتوں کو دیگر لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ،لہٰذا یہ حدیث خود بخود مردود ہے اور ہم نے اسے صرف قعقاع کو پہچاننے کے لئے نقل کیا ہے '' ٢

ابن عبد البر نے قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں رازی کی پیروی کی ہے اور جو کچھ اس نے اس کے بارے میں لکھا ہے اور سیف کے بارے میں نظریہ پیش کیا ہے سب کو اپنی کتاب

کتاب میں درج کیا ہے ۔

سند کی تحقیقات

قعقاع کے شجرہ ٔنسب کو سیف ،صعب بن عطیہ کی زبانی ،اس کے باپ بلال ابن ابی بلال سے روایت کرتا ہے ۔سیف کی روایتوں میں نو مواقع پر صعب کا نام ذکر ہو ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سات اصحاب کی زندگی کے حالات ان روایتوں سے حاصل کئے گئے ہیں ۔(۱)

اس کی کنیت ،جو ابن الحنظلیہ بتائی گئی ہے اور یہ کہ قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہے یہ سب سیف کی روایتیں ہیں اور اس کی روایتوں کی سند میں محمد بن عبداللہ بن سواد بن نویرہ کا نام ذکر ہوا ہے ۔طبری کی کتاب '' تاریخ طبری '' میں سیف کی روایتوں میں سے ٢١٦روایتوں کی سند میں عبداللہ کا نام آیا ہے ۔

سیف کی روایت میں مذکورہ محمد بن عبداللہ سے منقول قعقاع کی بیوی کانام مہلب بنت عقبہ اسدی بیان ہوا ہے ۔تاریخ طبری میں سیف کی ٧٦ روایات کی سند میں مہلب کا نام ذکر ہوا ہے ۔

لیکن قعقاع کے شعر کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہو ا ہے کہ سیف نے کسی راوی سے نقل کیا

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد ٢ میں عفیف بن المنذر اور دیگر چھ تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات۔

۱۳۳

ہے تاکہ ہم اس کے راوی کے بارے میں بحث کریں ۔

اسی طرح جنگی آمادگی کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی گئی اس کی حدیث اور سقیفہ کے دن اس کا مسجد میں موجود ہونا ،یہ دونوں چیزیں سیف کے افسانہ کے ہیرو '' قعقاع '' سے نقل ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند نہیں ہے ۔

ہم نے حدیث ،تاریخ ،انساب اور ادب کی تمام کتابوں میں جستجو کی تاکہ مذکورہ راویوں کا کہیں کوئی سراغ ملے ،لیکن ہماری تلاش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا چوں کہ ان کے نام یعنی صعب ،محمد ،مہلب اور خود قعقاع سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے لہٰذا حدیث شناسی کے قاعدے اور قانون کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب کے سب سیف کے ذہنی تخیل کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔

تحقیقات کا نتیجہ : جو کچھ اب تک قعقاع کے بارے میں ہم نے بیان کیا وہ صرف سیف کی روایت تھی ،کسی اور نے اس کے بارے میں کسی قسم کا ذکر نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ اور مقائسہ کرتے ۔سیف ان مطالب کا تنہا ترجمان ہے ۔اس طرح اس کے مطالب کے واسطے روایتوں کی سند بھی اس کے ذہن کی تخلیق معلوم ہوتی ہے ۔

سیف کی حدیث کا نتیجہ

اول ۔ سیف اپنے مطالب کا مطالعہ کرنے والے کو اس طرح آمادہ کرتا ہے کہ ایک مطیع اور فرمانبردار کی طرح آنکھ بند کرکے مست و مدہوشی کے عالم میں ایک نغمہ سننے والے کی طرح اس کی باتوں میں محو ہو جائے ۔

دوم ۔ قعقاع کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا اور جو مطالب آئندہ آئیں گے اس سے معلوم ہوگا کہ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایک ایسا صحابی جعل کیا ہے جو بزرگوار اور جلیل القدر ہے اور یہ بزرگوار ،خاندان تمیم کی عظمت کا نمونہ ہے ۔یہ ایک خوش ذوق شاعر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کا راوی ہے کہ اس کے بارے میں اصحاب کی زندگی کے حالات اور احادیث کے راویوں کی شناخت کے ذیل میں گفتگو ہوگی ۔

۱۳۴

قعقاع ،ابوبکر کے زمانے میں

لایهزم جیش فیهم مثل هٰذ ا

جس فوج میں ایسا بہادر قعقاع موجود ہو وہ فوج ہر گز شکست سے دو چار نہیں ہوگی

( ابو بکر کا بیان بقول سیف!)

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں

طبری ١١ ھ کے حوادث میں قبیلۂ ہوازن کے ارتداد کی بحث کے بارے میں یوں روایت کی ہے :

''جب علقمہ بن علاثہ ٔ کلبی مرتد ہو ا،تو ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو حکم دیا کہ اس پر حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالے یا گرفتار کرے ،قعقاع نے ابوبکر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قبیلۂ ہوازن پر حملہ کیا علقمہ جنگل کے راستہ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے خاندان کے افراد قعقاع کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔قعقاع نے انھیں ابوبکر کے خدمت میں بھیجا ۔علقمہ کے خاندان نے ابوبکر کے سامنے اسلام کا اظہار کیا اور اپنے خاندان کے سردار کے عقائد کی تاثیر سے انکار کیا تو ان کی توبہ قبول کر لی گئی اور ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا '' ١

یہ داستان کہاں تک پہنچی ؟

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کیا ہے اور ابو الفرج اور ابن حجر نے علقمہ کی زندگی کے حالات کے سلسلے میں طبری سے نقل کیا ہے ۔اور ابن اثیر نے اسے خلاصہ کرکے طبری سے روایت کرتے ہوئے اپنی کتاب کامل میں درج کیا ہے ۔

۱۳۵

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے فرق

یہ داستان مذکورہ صورت میں سیف بن عمر نے نقل کی ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔اس سلسلے میں مدائنی لکھتا ہے :

''ابو بکر نے خالد بن ولید کو علقمہ کے خلاف کاروائی کرنے پر مامور کیا ۔علقمہ خالد کے چنگل سے بھاگ کر ابو بکر کی خدمت میں پہنچا اور اسلام قبول کیا ۔ابو بکر نے اسے معاف کرکے امان دے دی''٢

مذکورہ داستان کے پیش نظر سیف نے خالد بن ولید کے کام کو قعقاع بن عمر و تمیمی کے کھاتے میں ڈال دیا ہے تاکہ یہ سعادت اس کے اپنے قبیلہ تمیم کو نصیب ہو جائے ۔اس کے بعد طبری نے سیف کی جعلی داستان کو نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر لوگوں نے بھی جھوٹ کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

موازنہ کا نتیجہ

علقمہ کی داستان ایک حقیقت ہے یہ داستان پوری کی پوری سیف کے تخیلات کی ایجاد نہیں ہے ۔بلکہ موضوع یہ ہے کہ سیف بن عمر نے خالد بن ولید کے کار نامے کو قعقاع بن عمر و تمیمی سے نسبت دے دی ہے ۔

سند کی جانچ پڑتال

اس داستان کی سند میں '' سہل بن یوسف سلمی '' اور ''عبداللہ بن سعید ثابت انصاری'' جیسے راویوں کے نام ذکر ہوئے ہیں ۔تاریخ طبری میں سیف نے سہل سے ٣٧احادیث اور عبداللہ سے ١٦ احادیث روایت کی ہیں ۔چوں کہ ہم نے ان دو راویوں کا نام کتب طبقات وغیرہ میں کہیں نہیں پایا، لہٰذاہم ان دو راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔

۱۳۶

اس داستان کا نتیجہ

١۔ خلیفہ کے حکم سے قعقاع بن عمرو کا ہوازن کی جنگ میں شرکت کرنا اور علقمہ کے خاندان کا اس کے ہاتھوں اسیر ہونا ،قعقاع بن عمر و تمیمی کے لئے ایک فضیلت ہے ۔

٢۔ سیف نے اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حقائق میں تصرف کرکے ایک سچے واقعہ کی بنیاد پر ایک الگ اور جھوٹی داستان گڑھ لی ہے اور اس سے قبیلہ تمیم کے حق میں استفادہ کیا ہے جب کہ نہ قعقاع کا کوئی وجود ہے اور نہ اس کی جعلی داستان کی کوئی حقیقت ہے ۔یہ صرف سیف بن عمر تمیمی کے خیالات اور افکار کی تخلیق ہے ۔

لیکن اس داستان کے علاوہ جو علقمہ کے نام سے مشہور ہے یا قوت حموی نے لغت ''بزاخہ '' جو سر زمین نجد میں ایک پانی کا سر چشمہ تھا اور ارتداد کی جنگیں اسی کے اطراف میں لڑی گئی ہیں کی وضاحت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''مسحلان(۱) اس روز میدان جنگ سے فرار کرکے اپنی جان بچانے میں

____________________

۱)۔ سیف کے کہنے کے مطابق دشمن کے لشکر کے معروف افراد مسحلان کہلائے جاتے تھے سیف اپنے تخیلات کی مخلوق کے سرداروں کے نام اکثر و بیشتر الف و نون پر ختم کرتا تھا مثلا قماذیان ابن ہر مزان اور ابن الحیسمان و مسحلان وغیرہ ملاحظہ ہو کتاب طبری چاپ یوروپ ( ٢٨٠١١)اور ( ٢٤٠١)

۱۳۷

کامیاب ہوا اس دن اس نے میدان کار زار میں گرد و غبار آسمان پر اڑتے دیکھا اور خالد میدان جنگ میں دشمنوں کی فوج کو تہس نہس کر رہا تھا اور دشمنوں کو وحشی کتوں کی طرح چیر پھاڑ کر زمین پر چھوڑ دیتا اور آگے بڑھ جاتا تھا''

حموی کی یہ عادت ہے کہ جن جگہوں کا وہ نام لیتا ہے ان کے بارے میں سیف کے اشعار کو کسی راوی کا اشارہ کئے بغیر گواہ کے طور پر ذکر کرتا ہے اس قسم کی چیزیں ہمیں بعد میں بھی نظر آئیں گی

ہم نہیں جانتے ان اشعار میں سیف کیا کہنا چاہتا ہے !کیا ان شعار کے ذریعہ قعقاع کو ''بزاخہ''میں خالد کی جنگوں میں براہ راست شریک قرار دینا چاہتا ہے اور اسی لئے یہ اشعار کہے ہیں یا اس جنگ میں قعقاع کی شرکت کے بغیر اس کی توصیف کرنا چاہتا ہے۔ہماری نظر کے مطابق یہ امر بعید دکھائی دیتا ہے ۔بہر حال جنگ ''بزاخہ ''کا ذکر کرنے والوں نے قعقاع کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے ۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ،اس کے علاوہ ہم نے ارتداد کی جنگوں میں کہیں قعقاع کا نام نہیں پایا ۔لیکن ان کے علاوہ تاریخ کی اکثر مشہور کتابوں میں سیف ابن عمر سے مطالب نقل کئے گئے ہیں اور قعقاع اور اس کی شجاعت اور فتوحات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ان تحریفات کاپہلا حصہ ،عراق میں مسلمانوں کی جنگوں سے مربوط ہے جس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :

۱۳۸

قعقاع،عراق کی جنگ میں :

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے : ١

''جب خالد بن ولید ،یمامہ کی جنگ سے واپس آیا ابوبکر نے اسے حکم دیا کہ اپنے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہو جائے اور اس ضمن میں یہ بھی حکم دیا کہ اپنے لشکر کے سپاہیوں سے کہہ دے کہ جو بھی اس فوجی مہم میں شرکت کرنا نہیں چاہتا وہ اپنے گھرجا سکتا ہے ۔جوں ہی خلیفہ کا حکم لشکر میں اعلان کیا گیا خالد کی فوج تتر بتر ہو گئی اور گنے چنے چند افراد کے علاوہ باقی سب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ۔اس طرح خالد نے مجبور ہو کر خلیفہ سے نئی فوج کی مدد طلب کی ۔ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو خالد کے فوجی کیمپ کی طرف روانہ کیا ان حالات پر نظر رکھنے والے افراد نے ابوبکر پر اعتراض کیا کہ خالد نے اپنی فوج کے تتر بتر ہونے پر آپ سے نئی فوج کی درخواست کی ہے اور آپ صرف ایک آدمی کو اس کی مدد کے لئے بھیج رہے ہیں ؟! ابو بکر نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں کہا : جس فوج میں ایسا پہلوان موجود ہو وہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی۔''

اس کے بعد طبری نے عراق کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں قعقاع کی شجاعتوں اور بہادریوں کا ذکر کیا ہے ۔ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو آخر تک بیان کیا ہے لیکن اس کاکوئی راوی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ اس کا راوی صرف سیف ہے ۔طبری نے یہ حدیث سیف سے لی ہے اور دسروں نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے نے بھی اپنی کتاب معجم البلدان میں سیف کی احادیث میں ذکر شدہ اماکن کی نشاندہی کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے ۔

طبری نے سیف بن عمر کی روایت سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے پہلی جنگ جو عراق میں مسلمانوں اور مشرقین کے درمیان واقع ہوئی '' ابلہ''(۱) کی جنگ تھی ۔

____________________

۱)۔ ''ابلہ '' خلیج فارس کے نزدیک دریائے دجلہ کے کنارے پر ایک شہر تھا جو بصرہ تک پھیلا ہوا تھا یہ شہر اس زمانہ میں فوجی اہمیت کے لحاظ سے ایرانیوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل تھا اور ملک کی ایک عظیم فوجی جھاونی محسوب ہوتا تھا۔

۱۳۹

ابلہ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے:

'' ابو بکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ عراق کی جنگ کو ہند اور سندھ کی سرحد سے شروع کرے '' اس کے بعد سیف کہتا ہے : '' ابلہ '' ان دنوں ہند اور سندھ کی سرحد تھی اس کے بعد ''ابلہ'' کی فتح کی داستان یوں بیان کرتا ہے :

ایرانی فوج کا سپہ سالارہرمز '' ابلہ'' میں خالد کو قتل کرنے کی سازش تیار کرتا ہے اس لئے اپنے سپاہیوں سے کہتا ہے کہ جب وہ خالد کے ساتھ دست بدست جنگ شروع کرے تو بھر پور حملہ کرکے خالد کا کام تمام کردیں اس لئے ہرمز ،خالد کو دست بدست جنگ کی دعوت دیتا ہے اور خالد بھی ہرمز سے لڑنے کے لئے پیدل آگے بڑھتا ہے جب دونوں سپہ سالار آمنے سامنے آکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ہرمز کے سپاہی اچانک خالد پر حملہ آور ہوتے ہیں اور دست بدست جنگ کے قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چالبازی سے خالد کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن قعقاع بن عمرو جو حالات اور دشمن کی تمام نقل و حرکت پر پوری طرح نظریں جمائے ہوئے تھا خالد کو کسی قسم کا گزند پہنچنے سے پہلے اکیلا میدان میں کود پڑتا ہے اور دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرکے انھیں تہس نہس کرکے ان کی چالبازی کو ناکام بنا دیتا ہے اور اس گیرو دار کے دوران ہرمز خالد کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے ۔ ایرانی اپنے سپہ سالار کو قتل ہوتے دیکھ کر میدان جنگ سے بھاگ جاتے ہیں اس طرح شکست سے دو چار ہوتے ہیں اور قعقاع بن عمرو فاتح کی حیثیت سے سر بلند ی کے ساتھ میدان جنگ سے واپس لوٹتا ہے ''

یہ داستان کہاں تک پہنچی ہے ؟

اس روایت کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور دیگر لوگوں نے ،جیسے ابن اثیر ،ذہبی ،ابن کثیر اور ابن خلکان نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔

طبری ابلہ کی فتح اور جنگی غنائم کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :

'' ابلہ کی فتح کے بارے میں یہ داستان اس کے برخلاف ہے جو صحیح روایتوں میں بیان ہوئی ہے ''

اس کی وضاحت ہم مناسب جگہ پر کریں گے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352