خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی0%

خواجہ نصیر الدین طوسی مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف: قم مرکز تحقیق باقر العلوم
زمرہ جات:

مشاہدے: 14145
ڈاؤنلوڈ: 2384

تبصرے:

خواجہ نصیر الدین طوسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14145 / ڈاؤنلوڈ: 2384
سائز سائز سائز
خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

خواجہ نصیر الدین طوسی

قم مرکز تحقیق باقر العلوم

تشکر: اردو برقی کتابیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیش لفظ

آج کل جسے تاریخ کا نام دیا جاتا ہے اور جس کے ذریعہ بڑی بڑی ہستیوں کو پہچنوایا جاتا ہے وہ سب حقیقت نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ ہے جس میں انسان اور دنیا کی جھلک دکھائی جاتی ہے۔ رسمی تاریخ تعلق انھیں افراد سے ہوتا ہے جن کی فکر و نظر مادیت سے آگے نہیں جاتی اور انہوں نے انسان اور اس کی دنیا کو جغرافیائی حدود میں قید کر رکھا ہے۔ اکثر مغربی تاریخ نویس حقیقت کو آنکھ کے تل کی طرح مانتے ہیں جو خود کو دیکھ نہیں پاتا وہ لوگ حقیقت شناسی کے میدان میں حواس و ہوش کو کام میں لاتے ہیں۔ جب کہ اس کے مصرف ہیں کہ اسے محسوس نہیں کیا جاتا۔

وہ لوگ بہترین تاریخ نویس نہیں ہو سکتے جو تجربہ کو عقل کی بنیاد اور رواں دواں لذت و توسعہ کو انسان کا اعلیٰ مقصد و بشریت کے انجام کا کعبہ جانتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ’’ہستی ‘‘ کو بے آغاز انجام کتاب اور انسان کو زندگی کے دلدل کا روئیدہ شجر جانتے ہیں وہ حقائق عالم کی تفسیر و تشریح نہیں کر سکتے یہ لوگ ہمیشہ زمانے کی بساط شطرنج پر ظلمت کے لشکریان کو مات دینے والے بنے رہے اور صرف ایسی چیزوں کو ابھارا جس میں گہرائی ہے نہ حس و تواں۔

آج تاریخ کے کتاب خانوں کی الماریاں مادہ پرست مورخین کی نگارشات سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے ہزاروں کتابیں، مقالے، تصاویر و قلم و اسناد اپنے جیسے معمولی افراد کے فضائل و مناقب میں جمع کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ان کتاب خانوں میں بہت کم ایسی ہستیاں ملیں گی جنہوں نے وحی کے لئے طور کی سیر کی اور آواز لن ترانی سنی ہو اور خلیل خدا کی طرح عقل کو کوچہ عشق میں قربان کر دیا۔

یہ تاریخ نویس ہمیشہ حالات کو ایک نگاہ سے دیکھنے کے عادی تھے، شاہان ستم گرکے کاسہ لیس اور سطحی نظر رکھنے والے تھے ان کی زیادہ تر روایتیں ساز و سوز و شہرت و شعر و شباب کی ہوتی تھیں اور وہ عقیدہ ایمان و آزادی کے دشمن تھے۔ ان کا مقبول و مطلوب معیار اب بھی زر، و زور و تزویری ہے۔ اورنگ و جنگ و ننگ ان کے تین عناصر ترکیبی ایسے میں شجاعت دائمی کے نگہبانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مغرب کے معیار و نمونہ پر حملہ کریں اور تفسیر آفتاب لکھیں حدیث و ’’روایت نور‘‘ کو دہرائیں۔

ہاں:اس فریب و مکر کی دنیا میں حدیث اخلاص اور ’’قلہ ہائے شجاعت ایثار ‘‘ کی باتیں بھی ہونا چاہیں اور فکر بلند و جہاد‘‘ کے ان صدر نشینوں کا تعارف کرانا چاہیے جو غفلت و ذات کے اندھے کنویں میں پڑے ہوئے ہیں۔

لازم ہے کہ آزادی کے ان جھوٹے مجسموں کے مقابلے ’’تندیس(تصویر،مجسمہ، پیکر، تمثال)ڈھنڈورچی‘‘ تو سعہ (وسیع النظری)‘‘کے خالی نقارے کو پیٹ رہے ہیں۔صدائے بیدارہ اور نعرہ فضیلت کو بلند کرنا چاہیے۔ حوزہ علمیہ کے بیدار اشرف اور قبیلہ ابرار کے بہترین فرزند ان کا فرض ہے کہ وہ حتی الامکان مغرب کی دروغ گوئی و فریبی معیار پیمانے و ترازو کو توڑ پھوڑ ڈالیں ان کے معیار و اقدار کو رسوا کر کے قرآنی و اسلامی تہذیب و آداب سے لوگوں کو آشنا کریں او ر کفر و الحاد و ابتذال و استبداد کی ثقافتی جنگ میں سب لوگ ایک صف ہو کر ایمان و توحید و تقویٰ و عدالت کا لشکر ترتیب دیں۔

یونیورسٹی و حوزہ علمیہ و مدراس دینی کے علمائے متعہد کا فریضہ ہے کہ جوانوں اور نئی نسل کے سامنے اسلام کے اعلی معیار و اقدار اور مغرب کی مبتذل تہذیب کا مقابلہ کر کے انھیں اسلام سے رغبت دلائیں تاکہ امت کے امور کی ڈور مغرب کے پروانہ صفت عشاق کے ہاتھوں میں نہ جانے پائے۔

لہٰذا اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ خالص عوامی رفاہ طلب افراد اور زاہدان سیاست مدار کا تعارف کیا جائے اور ان کے مقابل میں مغرب کے ہاتھوں بکے ہوئے ’’پرچمداران علم و سیاست‘‘ و ’’وزیران دین پرور‘‘ کی بات چھیڑی جائے او ر مغربی سازش والے سیمناروں کے مقابلے اور اس ڈالر کی حاکمیت والے زمانے میں مدرسہ فیضیہ کے فرزند آزادی و استقلال کا پرچم لے کر کھڑے ہو جائیں اور سرکار مرزا شیرازی کی طرح فتویٰ کی طاقت کو دکھا دیں اور سیاسی و ثقافتی سرحدوں کی نگہبانی تنگ درہ کے کماندار جیسی کریں۔

عظیم شخصیتیں حیات بشری کی راتوں کے مہتاب اور انسانی امن و عافیت کے مضبوط قلعے اور پناہ گاہ ہیں اور انسانی قدروں پر بھیڑیوں کا حملہ ہو تو پناہ گاہوں کی طرف بسرعت چل پڑنا چاہیے۔

شخصیتوں کا قعلہ دراصل علم فقہ کے باغبانوں کی داستان ہے وہ فقیہان جاوداں، حکیمان فرو تن و فرزانہ جنہوں نے شریعت کی مشعل ہاتھوں میں یوں تھامی کہ سحر کے سفیر اور مصلحان دلاور بن گئے اس لئے تمام فرزندان اسلام پر لازم ہے کہ ستم و جورو فریب و جہل کی تاریکی میں اس قبیلہ نور کو پہچانیں۔’’درفش (پرچم، علم، جھنڈا)ولایت‘‘ سے آشنا ہوں اور مغرب کی سیاہ رات میں مشرق و شمال و جنوب کے ستاروں کی مدد سے راستہ ڈھونڈ نکالیں یہ ’’قلم کی رسالت و منصب، حریت کی حدیث مسلسل نورو نمائش کے حلقہ کی پاسداری ہے لہٰذا خیال رہے کہ دوسرے لوگ ہر گز ہماری دلاوی کی تاریخ لکھیں گے نہ ہماری تہذیب و ثقافت کی تعریف کریں گے ہمیں خود ہی یہ کام کرنا ہو گا۔ ان ستاروں کی سوانح عمری لکھنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ظلمت کے نگہبان و پرستار ہمیشہ نور سے بھاگتے ہیں اور فکر و نظر کے جلاد کبھی بھی عقل و وحی کے طرف داروں کو اچھا نہیں کہیں گے اور سستی و کاہلی کے عاشق کبھی بھی پرواز کے ترانے نہیں سنائیں گے۔

اس کے ساتھ ہم محترم نویسند گان و قارئین کے شکر گزار ہیں عظیم شخصیتوں کی زیارت ان ہی ستاروں کے ذکر پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آئندہ دنوں ہم ساٹھ دیگر شخصیات پر نور کی زیارت کریں گے۔ اور ان کی حیات و آثار پڑھ کر فیض حاصل کریں گے۔ توفیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس سے قبولیت و الطاف بیکراں کی امید ہے۔ آخر میں صاحبان فکر و نظر قارئین سے گزارش ہے کہ اپنے مشورہ قم پوسٹ بکس نمبر ۱۳۵/۳۷۱۸۵ کے پتے پر ارسال کر کے ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں۔

قم مرکز تحقیق باقر العلوم

٭٭٭

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

اس کتاب میں سر زمین ایران کے عظیم فلسفی و عالم خواجہ نصیر الدین طوسی کی زندگی کا مختصر بیان ہے۔ کون تھے وہ، ساتویں صدی ہجری کے علمائے اجل میں سب سے نمایاں ایسا انسان کہ ان کی وفات کے سات سو سال بعد بھی دنیا ان کے علم پر تکیہ کئے ہوئے ہے جنہوں نے اپنی فکر و نظر کی وسعتوں کو دنیائے اسلام کے لئے سرمہ نگاہ اپنی سیاسی و علم شخصیت کو نمائش دوام کے لئے رکھا دیا ہے۔

خواجہ نصیر ایک ایسا نام ہے جس سے دنیائے علم کی تاریخ آگاہ ہے یہ ہی نہیں بلکہ وہ اس سر زمین ایران کی عالم پروری اور علم کی تلاش و کوشش کی بولتی ہوئی تصویر بھی ہے۔

اس عظیم دانش مند اور فلسفی و ریاضی دان کی زندگی جو بغداد حلہ و نیشاپورو طوس جیسے شہروں میں تحصیل و تالیف و مسائل اجتماعی و سیاسی مشاغل میں گزری وہ حکمت و ریاضی و ہئیت کا نامور ترین استاد تھا اس نے ایسے انکشافات کئے ہیں جہاں کسی کی فکر کی رسائی نہیں ہوئی تھی اور ایسے موضوعات کو منور کیا ہے جو اب تک اچھوتے تھے۔ آپ نے علم کلام میں ایسا ناقوس بجایا کہ اس کی آواز دلربا بھی اہل دانش کے کانوں میں گونج رہی ہے۔

اگرچہ ہم خواجہ نصیر کو ایک عظیم فلسفی،کلامی ماہر فلکیات کے طور پر جانتے ہیں۔لیکن حق یہ ہے کہ ہنگاموں و حوادث سے بھرئی ہوئی اور ایک وحشی ترین قوم کے درمیان گزرنے والی ان کی طویل زندگی کا کما حقہ بیان اب تک ہوا ہی نہیں کیونکہ مستشرقین و مغرب زدہ اہل قلم نے ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ان کے زمانے سیاسی و اجتماعی حالات کا لحاظ کئے بغیر ہی لکھا اور اس طرح انہوں نے خواجہ کی شخصیت کو بالکل بدل دیا ہے اور ان کی صحیح تصویر کو جہل و سیاست کے غبار میں چھپا دیا ہے۔ چنانچہ سات سو برس گزرنے کے بعد بھی خواجہ نصیر مظلومیت کے اسیر ہیں کیونکہ جب خود غرض و متعصب افراد سے ان کی علمی حیثیت کا انکار ممکن نہ ہوا تو انہوں نے خواجہ کے سیاسی و اجتماعی چہرے کو داغدار و مجروح کرنے کی کوشش کی اور کم نہیں بلکہ بہت زیادہ۔

ادھر جس بات نے ہمیں قلم اٹھانے پر اکسایا اور ا س عظیم دانشمند کی طوفانی دریا جیسی زندگی کو کاغذ کے سینے پر اتارنے کے لئے مجبور کیا اس کی ایک وجہ نئی نسل کی تشنگی دور کرنا و اسلامی معاشرہ کے نمونہ کو پیش کرتا تھا دوسری وجہ مغلوں کی غارت گری۔

جیسا کہ مغربی ثقافت کا حملہ بھی ہے جوان دنوں بڑی ہی شدت کے ساتھ ہم پر ہو رہا ہے۔ ایسے میں ایمان و جہاد و آزادی کے پیکروں اور بڑے بڑے دانشمندوں کی زندگی و سوانح سے بہتر ان نونہالوں کے لئے کون سا نمونہ عمل ہو سکتا ہے۔

آخر میں مناسب جانتا ہوں کہ پژوہشکدہ باقر العلوم کے ارکان اور کتاب خانہ آیت اللہ نجفی مرعشی و کتابخانہ آیت اللہ حا ئری کے مامورین کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے کتابوں اور مآخذ کی جمع آوری میں حقیر کی مدد کی۔

ولہ الحمد فی الاولی والآخرہ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

عبدالوحید وفائی

پائیز( ۱۳۷۲ ھ ش)

٭٭٭

فصل اول

ساتویں صدی ہجری کا ایران

سر زمین ایران کے لئے ساتویں صدی بہت سخت و پر آشوب رہی ہے یہ خوازم شاہی حکومت کا زمانہ تھا جب کہ مغلوں کا حملہ ہوا اس ملک پر ان کا غلہ و قبضہ ہو گیا البتہ اس سے پیشتر ۱۵۰ سال تک سلجوقی حکومت بہرحال امن و سکون کی ضامن رہی لیکن خوارزم شاہیوں (خوارزم میں حکومت کرنے والوں کا لقب خوارزم شاہ تھا اور خورازم کا علاقہ ماورا النہر اور بحیرہ خوارزم کے شمال میں تھا۔ وہاں کے بزرگوں میں زمحشری ابوریحان بیرونی جمال الدین محمد بن عباس خوارزمی کا نام لیا جا سکتا ہے۔)کی سلطنت اور مغلوں کے حملے سے بدامنی و بے چینی کا دور شروع ہو گیا۔

خوارزم شاہیان نسلاً ترک تھے اور سلجوقیوں کی حکومت کی ایک شاخ جیسے ہے ابتدائی دور میں یہ سلجوقیوں کے تابع و تاج گذار تھے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ طاقت ور ہو گئے اور اپنی خود مختار حکومت بنائی۔

سلجوقی سرداروں میں سے بلکاتین ایک شخص انوشتکین نامی غلام کو خریدتا ہے اور انوشتکین اپنی غیر معمولی ذہانت و صلاحیت کے باعث سلجوقی دربار میں معزز ہو جاتا ہے اور اسے ترقی مل جاتی ہے بعد وہ میں بغاوت کا پرچم بلند کر کے خوارزم شاہیوں کی حکومت قائم کر لیتا ہے۔ اس سلسلہ کی بہت سی شاخیں ہیں ان میں اہم ترین لوگ جنہوں نے تاریخ میں حیثیت خاص پیدا کی اورایک بڑی حکومت بنا سکے ان کی ابتدا انوشتکین سے ہوتی ہے اور خاتمہ محمد خوارزم شاہ پر (خوارزم شاہیوں کی اس جماعت کلی ترتیب اس طرحہے انوشتکین پہلا حاکم قطب الدین محمد پسر انوشتکین، آیتز فرزند قطب الدین لب ارسلان، علاء الدین تکش و سلطان محمد خورازم شان فرزند تکش)

سلطان محمد خوارزم شاہ کے غرور کی وجہ سے یہ سلسلہ پائداری و مضبوطی نہیں پیدا کر سکا گو اس نے بہت خون ریزی کی اور متعدد لڑائیاں لڑیں، ماوراء النہر کی سرزمین کو فراختائیوں سے چھینا، غوریوں سے افغانستان اور اتابکان سے اراک، فارس و آذربائیجان لے کر تقریباً پورے ایران کا فرمانروا بن بیٹھا۔

لیکن اس کے عہد میں ملک کے اندر اتحاد و یگانگی برائے نام نہ تھی پھر سلطان محمد کے عباسی خلیفہ سے نامناسب تعلقات، امور ملکی میں سلطان کی والدہ ترکان خاتون اور ترک سرداروں کی مداخلت، ان کی زور زبر دستی و انصافی وغیرہ ایسے عوامل تھے جس کی وجہ سے ملک کی حالت ابتر ہو گئی تھی۔ سلطان محمد فتح بغداد کا قصد رکھتا تھا کہ ناگہاں ایران پر مغلوں کے حملے کے خبر آئی جس نے اسے روک دیا اس کتاب کی چوتھی فصل میں ہم مغلوں کے حملے اور اس کے وجوہات کو بیان کریں گے۔

لیکن ان خراب و نامساعد حالات اور اسی ساتویں صدی میں ایک سے ایک عظیم الشان بزرگان دین، دانشمندان، و بڑے بڑے تائفہ جہان افراد کا سر زمین ایران پر ظہور ہوا۔ انہوں نے ایجاد و اختراع کی دنیا میں ایسی زمین دریافت کی جہاں کسی دانش مند کے قدم نہیں پہنچے تھے اور ایسی ایسی ایجادات سے لوگوں کو بہرہ ور کیا جہاں اب تک کسی کی رسائی نہیں ہوئی تھی ان بزرگوں نے تاریخ میں انقلاب رپا کر دیا اس عہد کے دانشوروں میں خواجہ حافظ شیرازی، شیخ مصلح الدین سعید، رشید الدین فضل اللہ (جامع التواریخ والے) خواجہ شمس الدین جوینی، عطا ملک جوینی (مصنف تاریخ جہاں کشا، اور فلسفی، ریاضی داں،منجم، متکلم نامی خواجہ نصیر الدین کا نام لیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

فصل دوم

مولد و ولادت خواجہ نصیر الدین طوسی

مولد۔ طوس۔ ایک سے ایک نامی گراں علماء دانش مند و بزرگ ہستیوں کی سرزمین ہے جس میں کا ہر ایرانی ادب، ریاضی، تاریخ، علم،تمدن و تہذیب، ثقافت میں اپنی ایک چمکدار تاریخ رکھتا ہے۔

ماضی میں اسی خاک سے تاریخ ساز اور حکمت و فلسفہ و عملی دنیا کے قد آور افراد جیسے ’’جابر بن حیان ‘‘ امام محمد غزالی، حکیم ابو القاسم فردوسی خواجہ نظام الدین الملک و خواجہ نصیر الدین طوسی وغیرہ اٹھے ہیں۔

طوس خراسان کے مضافات میں ہے ج س کا اہم شہر مشہد ہے۔ زمانہ قدیم میں طوس کئی شہروں کا مجموعہ تھا جن کے نام نوفان، طابران، رادکان ہیں ان میں اہم شہر طابران (شہر طوس) رہا ہے۔ مگر آج کل طابران جو مشہد سے چار فرسخ کی دوسری پر تھا بالکل مٹ گیا ہے چند شکستہ برجیوں کے کچھ نہیں رہ گیا ہے۔

’’نوقان‘‘ شہر طابران سے کچھ چھوٹا تھا۔ شیعوں کے آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ الرضاؓ کی قبر اس شہر سے باہر سناباد گاؤں(موجودہ مشہد) میں ہے۔ جب امام رضا علیہ السلام کے مشہد میں توسی ہوئی تو وہ سناباد گاؤں سے متصل ہو گیا۔اور مشہد کا ایک محلہ بن گیا سو آج بھی نوقان کا نام محلہ باقی ہے۔(طوس کی توصیف میں خواجہ نصیر کے ایک معاصر شاعر نے کہا جو حسب ذیل اشعار ہیں )

جبذآب و خاک جلگہ طوس

کہ شد آرامگہ فضل و ہنر

معدن و منبع حقیقت وفضل

مرتع و مربع صفا و نظر

آب اوچون سپہر مہر نمای

خاک اوچون صد ف گہر پرور

ہمچوعہ غزالی و نظام الملک

ہمچوفردوسی و ابو جعفر

وندرین روزگارخواجہ نصیر

اعلم عصر مو مقتدای بشر

کزا فاضل زمبداء فطرت

تاباکنون چوا اونخواست دیگر

این خپین بقعہ باخپین فضلا

سزدار برفلک برارد سر

ولادت

تقریباً آٹھ سو سال پہلے ’’جہرود‘‘ قم ایک روحانی و عالم کنبہ آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہد کا قصد کرتا ہے اور واپسی کے وقت اسے خاندان کے بزرگ عالم کی مادر گرامی کی بیماری کے سبب سے شہر طوس کے ایک محلہ میں ٹھہرنا پڑتا ہے تھوڑے دن کے بعد اس عالم روحانی کے اخلاق و سیرت پسندیدہ کو دیکھ کر عوام گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ اور اس عالم جلیل القدر سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ امامت جماعت مسجد کی اور تدریس مدرسہ علمیہ محلہ حسینیہ طوس کو کر لیں اور یہیں قیام فرما ہو جائیں۔

اس بزرگ روحانی کا نام شیخ وجیہ الدین محمد بن حسن تھا آپ کو بزرگان دین سے اجازہ روایت حاصل تھی اور ایک اہم سبب تھا کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔

شیخ وجیہ الدین کے ایک فرزند تھے جن کا نام صادق تھا اور ایک صاحبزادی تھی جن کا نام صدیقہ تھا مگر انہیں ایک اور اولاد نرینہ کا انتظار تھا کیونکہ شیخ کا دل بہت چاہتا تھا کہ ان کے یہاں ایک ایسا فرزند پیدا ہوا جو مشہور علمی گھرانے معروف بہ ’’فیروزشاہ جہرودی‘‘ کا نام روشن کرے اور اسے باقی رکھے۔ کیونکہ ان کے بڑے بیٹے صادق نے درس و تحصیل علم میں دل چسپی ظاہر نہیں کی چنانچہ یہ انتظار زیادہ طولانی نہیں ہوا تھا کہ ایک رات جب شیخ مسجد سے گھر آئے تو انھیں دوسرے بیٹے کی ولادت کی خوش خبری مل گئی ہوا یہ کہ اس رات شیخ بہت مضطرب تھے کہ خدانخواستہ ان کی اہلیہ کو کوئی آزار و ناگواری درپیش نہ ہو جائے اس لئے انہوں نے دعا و مناجات کے بعد قران کریم سے فال نکالی تو یہ آیت مبارکہ نکلی ’’محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم ‘‘ شیخ وجیہ الدین نے قرآن کریم کی اس آیت کو فال نیک خیال کیا اور مولود جس کے بارے معلوم نہ تھا کہ لڑکی ہے یا لڑکا ’’محمد ‘‘ نام رکھ دیا جب کہ خود ان کا نام بھی محمد تھا۔

ابھی آفتاب نے سر زمین ایران کو روشن نہیں کیا کہ شیخ کے گھر کے سورج نے بارش انوار کر دی یعنی روز شنبہ ۱۱/ جمادی الثانی ۵۹۷ ھ کو بوقت طلوع آفتاب ساتویں صدی کی حکمت و ریاضی کا منور ترین چراغ سر زمین طوس پر جلوہ گر ہو گیا۔ جواس صدی کے ایرانی دانش مندوں و فلاسفہ و سیاست مداروں میں ممتاز ہوا اور سارے عالم میں اس کی شہرت ہوئی۔

اس کا نام ’’محمد ‘‘ کنیت ’’ابو جعفر ‘‘ لقب ’’نصیر الدین‘‘ محقق طوسی، استاد البشر تھا اور مشہور خواجہ سے ہوا۔(ایران میں خواجہ کہتے تھے دانش مند بزرگ، سرور و مالدار کو جیسے خواجہ حافظ شیرازی، خواجہ عبداللہ انصاری، خواجہ نظام الملک)

مرحوم شیخ عباس قمی ’’محدث قمی‘‘ خواجہ نصیر کے بارے میں کتاب مفاتیح الجنان میں لکھتے ہیں:

’’نصیر الملتہ والدین، سلطان الحکماء و المتکلین، فخرالشیعہ و حجتہ الفرخہ الناجیہ استاد البشر و العقل الحادی عشر(تحفہ الاحباب، ص ۴۸۵ ، محدث قمی)

اکثر مورخین کے مطابق خواجہ نصیر کے اجداد جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے اہل جہرود قم تھے اس طرح خواجہ نصیر کی اصل ارض قم ہے لیکن چونکہ ان کی ولادت طوس میں ہوئی اس لئے طوس کہلائے اور اسی نام سے شہرت حاصل کر لی۔

محدث قمی کے مطابق خواجہ کے مورث اعلیٰ جہرود (وشارہ کے نام ے مشہور جگہ )قم کے نزدیک (فوائد الرضویہ، ص ۶۰۳ ، محدث قمی) کے باشندے تھے۔ جہرود کا فاصلہ قم سے دس فرسخ ہے ( ۲۵) میل، وہ جگہ بہترین آب و ہوا والی ہے اور وہاں ایک قلعہ بھی موجود ہے جو قلعہ خواجہ نصیر کے نام سے مشہور ہے۔

٭٭٭

فصل سوم

زمانہ تحصیل علم و اساتذہ

طوسی، سوس میں

خواجہ نصیر الدین نے اپنا بچپن و نوجوانی طوس میں گزارا۔ انہوں نے ابتدائی اسباق جیسے پڑھنا، لکھنا، قرات قرآن، عربی و فارسی قواعد معانی و بیان اور کچھ علم منقول جیسے حدیث کو اپنے عالم و روحانی باپ محمد بن حسن طوسی سے حاصل کیا ساتھ ہی اس زمانے میں خواجہ نصیر قرآن خوانی و فارسی شناسی میں اپنے والد سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔

اتنا کچھ پڑھانے کے بعد باپ نے بیٹے کو منطق، حکمت، ریاضی و طبیعات کے نامور استاد نور الدین علی بن محمد شیعی کے سپرد کر دیا جو خواجہ نصیر کے ماموں بھی تھے۔ کچھ عرصے تک خواجہ طوسی نے ماموں سے درس اس لئے انہوں نے کہا کہ ان کو نیشا پور جانا چاہیے۔

طوسی نے شہر طوس میں اپنے استاد اور باپ کے ماموں ’’نصیر لیا لیکن بعد میں انہیں ایسا لگا کہ ان کے علم کی پاس ماموں نہیں بجھا سکتے اس لئے اسی اثنا میں وہ اپنے باپ کے مشہور پر ریاضی کے مستند ماہر محمد حاسب سے متوسل ہوئے جو اس وقت طوس آئے ہوئے تھے۔ جن کے چشمہ علوم و دانش سے ان کی روحی و فکری تشنگی ایک حد تک دور بھی ہوئی لیکن کمال الدین محمد حاسب طوس میں چند ماہ ہی رہے۔ اور چلتے چلتے خواجہ نصیر کے والد سے بولے کے جتنا مجھے معلوم تھا میں نے تمہارے بیٹے کو دے دیا مگر اب وہ ایسے سوالات کرتا ہے کہ کبھی کبھی میں اس کے جواب سے عاجز ہو جتا ہوں۔

اب محقق طوسی نے طوس میں رہنے کا خیال ترک کر دیا اور اہل علم کی تلاش میں نکل پڑنے کی سوچنے لگے اسی درمیان ان کے والد کے ’’نصیر الدین عبداللہ بن حمزہ ‘‘ طوس تشریف لائے اور خواجہ نصیر کچھ عرصہ کے لئے ان سے فیض حاصل کرنے کی غرض سے طوس میں ٹھہر گئے۔ لیکن ان کے والد کے ماموں بھی جو علوم حدیث و رجال و درایہ کے ماہر دانشمند تھے خواجہ کی روح تشنگی کو سکون نہ بخش سکے۔

خواجہ نصیر الد ین ان نے سے زیادہ نئی باتیں سیکھ لیں۔ لیکن خواجہ نصیر کی بے انتہا ذہانت و استعداد نے والد کے ماموں کو حیران کر دیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ خواجہ نصیر کا طوس میں رہنا زیادہ فائدہ مند نہیں ہے ’’ الدین عبداللہ بن حمزہ‘‘ کے ہاتھ سے مقدس روحانی لباس زیب تن کیا اور خواجہ نصیر کو ان کی طرف سے نصیر الدین کا لقب عطا ہوا۔ ان کی اور ان کے والد کی تاکید سے خواجہ کی طوس سے ہجرت کے خیال کو تقویت ملی۔

رحلت پدر

کچھ ہی دنوں پہلے خواجہ نصیر نے خوشی خوشی روحانیت کا مقدس لباس زیب تن کیا تھا اور نصیر الدین کا لقب پایا تھا اس کی یاد ابھی محو نہیں ہوئی تھی اور وہ طوس ہی میں تھے کہ اچانک ان کے پدر نامدار بیمار پڑ گئے اور روز بروز ان کی حالت خراب ہونے لگی۔ اہل خانہ نے جتنی بھی کوشش دوا و علاج میں کی وہ مفید نہ ہوئی اور آخر کار جاڑوں کی ایک سرد رات میں وجیہ الدین نے اپنے عزیز و اقربا کو پاس بلایا اور ہر ایک کو وصیتیں کر کے ہمیشہ کے لئے سب کو خدا حافظ کہا اور خواجہ نصیر کی روح کو غم و اندوہ سے بھر دیا۔ خواجہ نصیر الدین جو جلد ہی وطن سے ہجرت کے خیال میں تھے اب پہلے سے زیادہ سہارے و امداد کے محتاج ہو گئے لیکن مقدر میں تو یہ تھا کہ ایک طرف باپ کی موت اور دوسری طرف ترک وطن ان کو مضبوط کر کے آئندہ کے سخت حادثات سے مقابلہ کے لئے توانا کر دے۔

انہوں نے خود ان ایام کی یاد میں لکھا ہے:

’’میرے باپ جو جہاندیدہ و تجربہ کار تھے انہوں نے مجھے علوم و فنون کی تحصیل اور بزرگان مذاہب کے اقوال و نوشتوں کو سننے و پڑھنے کی ترغیب دلائی یہاں تک کہ افضل الدین کا شی کے شاگردوں میں سے ایک بزرگ کمال الدین محمد حاسب ہمارے شہر میں کچھ دنوں کے لئے آئے جو حکمت و فلسفہ خصوصاً علم ریاضی میں مہارت نامہ رکھتے تھے اگرچہ میرے والد سے ان کی گہری آشنائی نہیں تھی پھر بھی انہوں نے مجھے حکم دیا کہ ان سے استفادہ کرو اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر فن ریاضی کی تحصیل میں مشغول ہو گیا۔ پھر وہ حضرت طوس چھوڑ کر چلے گئے اور میرے باپ کی وفات بھی ہو گئی مگر میں نے اپنے باپ کی وصیت کے مطابق مسافرت اختیار کر لی۔ چنانچہ جہاں جہاں کسی فن کے استاد سے ملاقات ہوتی، میں وہیں ٹھہر جاتا اور ان سے استفادہ کرتا تھا مگر چونکہ میرا باطنی رجحان حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے کا تھا، اس لئے کلام و حکمت جیسے علوم کی جستجو میں لگ گیا۔‘‘

نیشاپور کو ہجرت

نیشا پور خراسان کے چار بڑے شہروں (مرو، بلخ، ہراشا، نیشاپور) میں سے ایک شہر تھا اور سالہا سال شاہان ظاہریان وغیرہ کا پایہ تخت رہ چکا تھا۔ عرصہ دراز سے علم و دانش کا مرکز تھا اور اپنے دامن میں بہت سے علمائے ایران کی پرورش کر چکا تھا۔ اگرچہ وہ کئی بار حملہ و ہجوم کا شکار بھی ہوا خصوصاً قبیلہ ’’ غز‘‘ جس نے بڑی تباہی مچائی تھی اور شہر کے اکثر مدارس، مساجد، کتاب خانے ویران ہو گئے تھے پھر بھی مغلوں کے حملہ سے قبل تک نیشاپور عملی اہمیت کا حامل تھا مگر اس وحشی نورد قوم کے حملہ سے ویرانہ و کھنڈر میں بدل گیا۔

خواجہ نصیر نے طوس میں مقدمات و مبادیات کی تحصیل کے بعد والد کے ماموں کی نصیحت و باپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے تکمیل علم کے لئے جب نیشا پور کا سفر اختیار کیا تو اس وقت ان کے والد کی وفات کو ایک سال گزرا تھا اور نیشا پور کا شمار اس عہد کے مشہور اسلام درسگاہوں میں ہوتا تھا اور شہر اس وقت تک مغلوں کی یلغار کا شکار نہیں ہوا تھا۔

محقق طوسی نے نیشا پور میں اپنی مسلسل کوشش و محنت جاری رکھی اور والد کے ماموں کی نصیحت کے مطابق مدرسہ سراجیہ نیشا پور میں قیام کیا اور پھر ’’سراج الدین قمری‘‘ کی تلاش میں لگ گئے۔

امام سراج الدین ایک مرد فاضل و دیندار تھے۔ انہوں نے نہایت صبر و وقار و احترام کے ساتھ خواجہ نصیر کی احوال پرسی کی، باپ کی وفات پر تعزیت ادا کی اور خواجہ کا تعارف مدرسہ سراجیہ کے متولی مرزا کاظم سے کرایا تاکہ وہ انھیں مدرسہ میں ایک کمرہ رہنے کے لئے دے دیں۔

خواجہ نصیر کے لئے یہ مدرسہ سطح بالا کے کالج جیسا تھا ان کے کمرہ کے ساتھی مدرسہ کے ایک فاضل شمس الدین عبدالحمید ابن عیسیٰ خسرو شاہی تھے جو تبریز سے نیشاپور تحصیل علم کی غرض سے آئے تھے۔

اس مدرسہ میں امام سراج الدین کا علمی پایہ سب سے بلند تھا ان کا شمار افضل ترین استادوں میں ہوتا تھا۔ وہ فقہ و حدیث و رجال کا درس خارج دیتے تھے۔ انہوں نے جب نصیر الدین کے فوق العادہ وغیرہ معمولی ذہن و استعداد کو ملاحظہ کیا تو ان کو اپنے درس میں شرکت کی اجازت دے دی اور خواجہ نصیر تقریباً ایک سال تک امام سراج الدین کے درس میں شریک رہے۔

اس مدرسہ میں ایک اور بزرگ استاد تھے جنہوں نے امام فخر الدین رازی سے درس لیا تھا اور فلسفہ میں تبحر خاص رکھتے تھے وہ چار واسطوں سے ابن سینا کے شاگرد قرار پائے تھے ان کا نام فرید الدین داماد نیشا پوری تھا ان کا شمار اس عہد کے بزرگ ترین استادوں میں ہوتا تھا وہ مدرسہ نظامیہ میں درس دیتے تھے خواجہ نصیر کو موقع مل گیا کہ وہ ان سے ’’اشارات ابن سینا ‘‘ کا درس لیں۔ مرقوم ہے کہ فرید الدین سرخسی کے شاگرد تھے جو افضل الدین غیلانی کے اور وہ ابو العباس لوکری کے اور وہ بو علی سینا کے مشہور شاگرد تھے۔ (روضات الجنات، ج ۶ ، ص ۵۸۳( خوارن ری) قصص العلماء، ص ۳۸۱( مرزا محمد تنکاینی) مجالس المومنین، ج ۲ ، ص ۲۰۳( قاضی نور اللہ شوشتری)

پس جائز و شائستہ یہی ہے کہ ہم خواجہ نصیر الدین طوسی کو بو علی سینا کے شاگردوں میں شمار کریں۔

استاد و شاگرد میں مذاکرہ و مباحثہ کا سلسلہ بڑھا تو فرید الدین نیشا پوری نے نصیر الدین طوسی کی استعداد علمی و خواہش کسب علم کو دیکھتے ہوئے ان کو ایک دوسرے دانش مند قطب الدین مصری شافعی سے ملایا جو فخر الدین رازی کے شاگرد تھے نہیں بلکہ علم طب کی مشہور کتاب ’’قانون ابن سینا‘‘ کے بہترین شارحین میں سے تھے۔

خواجہ نصیر نے جو ابن سینا کی ’’اشارت‘‘ فرید الدین سے پڑھ رہے تھے قطب الدین سے قانون ابن سینا کا درس لینا شروع کر دیا۔ الغرض یہ ایرانی عالم دریا کی طرح حرکت و روانی و زندگی سے لبریز تھا اور اسے ایک لمحہ بھی قرار نہ تھا اور جہاں بھی کسی علم و فن کا استاد اسے مل جاتا وہیں اس س سے علم حاصل کرنے میں لگ جاتا۔ طوسی کو نیشاپور میں سب کچھ ملا مگر عرفان و سلوک کی لطافتوں سے بے بہرہ رہے اس لئے وہ اس زمانے کے مشہور عارف شیخ عطار (متوفی ۶۲۷ ھ) کی خدمت میں پہنچے اور ان سے استفادہ کیا۔

طوسی شہر رہے میں

نیشاپور کے علماء دانش مندوں سے علوم فنون کے حصول کے بعد طوسی زیادہ دن وہاں نہیں رہے۔ انہوں نے سطح بالا تر کے دورہ کو چھوڑ کر شہروں شہروں ملکوں ملکوں پھرنا شروع کر دیا جس کا مقصد نئی بات کا حصول و اس عہدے کے علماء و دانش مندان کا دیدار تھا تاکہ قابل استفادہ شخصیت سے کچھ حاصل کر لیا جائے اس لئے وہ چند مہینے رے میں مقیم رہے اور اس عرصے میں وہ عظیم دانش مند برہان الدین محمد بن محمد بن علی الحمدانی قزوینی سے آشنا ہوئے جنہوں نے رے میں سکونت اختیار کر رکھی تھی۔

طوسی قم میں

محقق طوسی شہر رے سے اصفہان جانا چاہتا تھے اثنائے راہ میں وہ ایک عالم مثیم بن علی بن مثیم بحرانی سے ملے تو انہوں نے خواجہ نصیر کو قم چلنے اور خواجہ ابو السعادت اسعدی بن عبدالقادر بن اسعد اصفہانی کے درس سے استفادہ کا مشورہ دیا۔

مصنف کتاب ’’فلاسفہ شیعہ‘‘ نے قم کو ان شہروں میں شمار کیا ہے۔ جہاں خواجہ نصیر نے تعلیم حاصل کی اور خواجہ نصیر کی معین الدین سے شاگردی کے تعلق سے لکھا ہے:

شاید قم میں خواجہ نے معین الدین بن سالم بن بدران مازنی مصری امامی سے بھی استفادہ کیا ہو۔(فلاسفہ شیعہ، ص ۲۸۲ از شیخ عبداللہ نعمہ (ترجمہ جعفر غضبان)

طوسی اصفہان میں

نصیرالدین نے قم کے بعد اصفہان کا سفر کیا مگر جب وہاں کسی استاد کو نہ پایا جس سے استفادہ کیا جائے تو سفر عراق کا ارادہ کر لیا۔

طوسی عراق میں

خواجہ نصیر نے عراق میں ’’علم فقہ ‘‘ ابن ادریس حلی و ابن زہرہ حلی کے شاگرد معین الدین بن سلم بن بدران مصری مازنی سے حاصل کیا اور ۲۱۹ ھ میں معین الدین سے اجازہ روایت لینے میں کامیاب ہو گئے۔

محقق طوسی نے عراق میں فقہ علامہ حلی سے سیکھی اور علامہ نے بھی حکمت کی تحصیل خواجہ نصیر سے کی حوزہ میں یہ روایت و طریقہ اب تک باقی ہے اور استاد و شاگرد ایک دوسرے سی معلومات علمی کا حصول کرتے رہتے ہیں اور نہایت انکساری و تواضع کے ساتھ کسب علم کا عمل جاری رہتا ہے۔

اس کے بعد نصیر الدین موصل میں کمال الدین موصلی کی خدمت میں باریاب ہوئے اور ان سے علم نجوم و ریاضی کا حصول کیا۔ اس طرح خواجہ نصیر نے حصول علم کے دوران خود کو فراموش کر دیا اور وطن و خانوادہ سے مدتوں دور رہنے کے بعد ہی خراسان واپسی کا قصد کیا۔ ٭٭٭

٭٭٭