خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی0%

خواجہ نصیر الدین طوسی مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف: قم مرکز تحقیق باقر العلوم
زمرہ جات:

مشاہدے: 14057
ڈاؤنلوڈ: 2287

تبصرے:

خواجہ نصیر الدین طوسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14057 / ڈاؤنلوڈ: 2287
سائز سائز سائز
خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف:
اردو

فصل چہارم

زمانہ آشوب و بلا آغاز فتنہ

جس زمانے میں خواجہ نصیر عراق میں مشغول تحصیل علم تھے قوم مغل کے حملہ کی پراگندہ و ناگوار خبریں ایران سے ان تک پہنچتی رہتی تھیں۔

مغل قوم صحرا نشینوں اور بیاباں گرد قوموں سے بنی تھی۔ جن کی زندگی مویشی پالنے اور شکار کرنے میں گزرتی تھی زیادہ تر خشک بیابانوں میں رہتے تھے اور ابتدا ء میں شمالی چین کے فرمانروا و باج گزار تھے۔

یہاں تک کہ ان میں سے ایک شخص یسوگای نامی جو چنگیز خان کا باپ اور قبیلہ قیات کا سردار تھا اٹھ کھڑا ہوا اس نے غلامی کا لباس نکال پھینکا اور مغلوں کے للت سے قبائل کو اپنا مطیع کر لیا۔

یسوگای کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا ’’تموچین‘‘ (بمعنی مر د آہنی) جو بعد میں چنگیز خان کے نام سے مشہور ہوا۔اس کا جانشین بنا اور تمام قبائل کو اپنی ماتحتی میں لے لیا اور بعد میں قبیلہ ’’کبرائیت ‘‘ جو عیسائی تھا اس پر بھی غلبہ حاصل کر لیا۔ چنگیز خاں جو گمنامی کے غار سے برآمد ہوا تھا جنوب و مشرق پھر مغرب کی طرف موج عظیم بن کر نازل ہوا ابتدا میں اس نے شمالی مغربی چین پر حملہ کیا اور بعد میں ’’کین ‘‘ شاہی پھر دریائے زرد کے ساحل اور پیکن کو فتح کیا اس کے بعد لشکر حرار لے کر مغرب کی طرف چل پڑا۔

اس تعلق سے کتاب چنگیز خاں چہرہ خون ریز تاریخ کا مصنف لکھتا ہے۔

مغلوں کا حملہ تاریخ کی عظیم بلا تھی جو وسط اشیاء کے بڑے حصے سے نازل ہوئی اس کے سبب سے نہ صرف یہ کہ ہزاروں بے گناہوں انسانوں کی ہولناک موت اور شہروں و دیہاتوں کی غارت گری و تاریخی و علمی و ثقافتی نشانیوں کی نابودی ہوئی بلکہ وہ دنیا کے اس خطہ میں اہم سیاسی جغرافیائی و سماجی و تمدنی تغیرات کا وسیلہ بن گئی اور اس کا اثر صدیوں تک باقی رہا۔ نہ محض ان تگ و تاز والے خطوں میں بلکہ دنیا کے ہر حصے میں اب بھی یہ تاریخ حیرت اپنا وجود رکھتی ہے کہ کیسے ایک بے نام و نشان قوم چین کے بلند مقامات کی طرف سے معمولی سازوں ان کے ساتھ نشیب و فراز کو طے کرتی ہوئی چلی اور ترقی یافتہ و متمدن و منظم ممالک و تہس نہس کر کے رکھ دیا اور سب کو شکست دے کر ایک وسیع و قوی ترین حکومت کی مالک ہو گئی۔

اس صحرا نورد قوم کے اندر کون سے عناصر تھے جس نے چنگیز جیسے افراد پیدا کیا اور انھیں تمام فوجی و سیاسی و جسمانی برتری بخش دی جن کی قوت ناقابل تصور تھی ایسے سنگدل سرداروں کو پال پوس کر دنیا کی اقوام کی جان کے پیچھے لگا دیا یہ عقدہ تاریخ آج تک حل نہیں ہو سکا۔(چنگیز خاں چہرہ خوں ریز تاریخ، ص ۱۶،۱۵ ، محمد احمد پناہی)

مغلوں نے ایران پر کیوں حملہ کیا

جس وقت مغلوں نے چین و وسطی ایشاپر قبضہ کر لیا تو وہ خوارزم شاہیوں کے ہمسایہ ہو گئے۔ انہوں نے باہم اقتصادی و تجارتی روابط قائم کرنے کے لئے مغل تجار کو ماوراء النہرا بھیجا لیکن ایران کی سرحد میں داخل ہوتے ہی ان پر حملہ ہو گیا اور اس طرح یہ واقعہ مغلوں کے لئے ایران پر حملہ کا بہانہ بن گیا۔شروع میں چنگیز خاں ایران پر قبضہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن سلطان محمد خوارزم شاہ کا غیر عاقلانہ رویہ اور سیاست سے ناواقفیت اس کی موجب بنی اور جو نہ ہونا چاہیے تھا ہو گیا۔

اس قصہ کی تفصیل یہ ہے کہ سلطان محمد خوارزم شاہ اورچنگیز خاں کے درمیان تجارت کا معاہدہ ہو چکا تھا اور قرار داد پر فریقین نے دستخط بھی کر دئے تھے۔ اس کے بعد تقریباً پانچ سو مغل تجار نے ماوراء النہر کے ارادہ سے سفر کا آغاز کیا اور اپنے ساتھ گراں قیمت اشیا جیسے سونا، چاندی، ریشم، قیمتی کپڑے لئے ہوئے ’’اترار‘‘ پہنچے جو خوارزم شاہی سلطنت کا پہلا شہر تھا۔ یہاں پر اترار کے حاکم غائر خاں کو (جو مادر خوارزم شاہ ’’ ترکان خاتون‘‘ کا رشتہ دار ) لالچ نے آ گھیرا۔ وہ خوارزم شاہ کے پاس پہونچا اور ان تاجروں کو مغلوں کا جاسوس بتایا۔ خوارزم شاہ نے غایر خاں کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ مغل تاجروں کی نگرانی کرتے رہو۔ غایر خاں نے تمام مغلو تاجروں کو بجز ایک نفر کے (جو حمام میں تھا اور بعد میں فرار ہو کر وطن پہنچا) قتل کروا کر ان کے اموال کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔

فراری تاجر چنگیز کے پاس پہنچا اور جو کچھ گذار تھا بیان کیا۔چنگیز خاں نے تجار کے قتل سے آگاہ ہونے کے بعد ایک آدمی کو جو کبھی سلطان تکش خوارزم شاہ کی خدمت میں رہ چکا تھا دو دیگر تاتاریوں کو سلطان محمد کے پاس بھیجا اور اس فعل پر اعتراض کرتے ہوئے غایر خاں کو حوالہ کر نے کی کوشش ظاہر کی لیکن سلطان محمد نے اسے قبول نہیں کیا (کیونکہ اس کے زیادہ تر درباری و امراء لشکر غایر خاں کے قبیلے سے تھے) یہی نہیں بلکہ اس نے چنگیز خاں کے فرستادگان کو قتل کر دیا اور اسی طرح وہ مغلوں کے سیلاب کو ایران اور تمام مشرق اسلامی ممالک کی طرف کھینچ لایا۔

یہ حملہ ۶۱۶ ھ سے شروع ہوا اور سوائے جنوبی حصے کے ایران کے بیشتر شہر مغلوں کے تصرف میں آ گئے۔

مغلوں کے جرائم کی ایک جھلک

ایران کی تاریخ کے بدترین ادوار میں سے ایک اس سر زمین پر مغلوں کا حملہ و یورش تھی جو ویرانی و تباہی کا سیلاب بن گئی اور اپنے دامن میں بجز ادہان و جادو پرستی و خرافات کے اور کچھ نہیں رکھتی تھی۔

انہوں نے بعض مقامات پر حیوانات کو بھی نہیں چھوڑا ان پر بھی رحم نہیں کیا۔ اترار، بخارا، سمرقند، مرو، نیشا پور، بغداد وہ شہر تھے جہاں پر مغلوں نے اپنے جرائم کی تاریخ مرتب کر دی ہے۔

مورخین لکھتے ہیں :

چنگیز خاں کا بیٹا تولوی ایران کے لئے مامور کیا گیا اس کے لشکر کے سردار کا نام ’’تغاجارنویان‘‘ تھا جو چنگیز کا داماد بھی تھا اس نے ماہ رمضان ۶۱۷ ھ میں نیشا پور کا محاصرہ کر لیا۔ تیسرے دن محاصرہ شدگان میں سے کسی کے تیر سے ہلا ک ہو گیا پھر کیا تھا بالآخر دہم صفر ۶۱۸ ھ کو مغلوں نے نیشاپور پر دوبارہ دھاوا بولا اور قتل عام کر کے سب کو مارڈالا۔

چنگیز خاں کی بیٹی (تغاجارنویان کی بیوی) بھی نیشا پور میں آ گئی اور اس کے حکم سے بچے کھچے افراد بھی قتل کر دئے گئے اس نے حکم دیا کہ شہر کو ایسا تباہ کرو کہ یہاں کھیتی باڑی کی جا سکے۔ یہاں تک کہ بلی، کتے بھی زندہ نہ رہ سکیں۔ نیشا پور کو سات دن تک شبانہ روز پانی میں ڈبائے رہے اس کے بعد پوری بستی میں جو بو دیا گیا۔(تاریخ مغول، ص ۵۶ ، عباس اقبال آشتیانی)

ایک شخص بخار ا سے اس واقعہ کے بعد فرار کر کے خراسان آیا۔ جب اس سے بخارا کا حال پوچھا گیا تو بولا:

’’آئے و کھود ڈالا و جلا دیا، مار ڈالا اور لے دے کر چلے گئے۔‘‘(جہاں کشائی جوینی،ج ۱ ، ص ۸۲ ۔ ۸۰ نقل از تاریخ مغول، ص ۳۰ ،عباس اقبال آشتیانی)

ان مغلوں کے طور طریقہ، رسوم و آداب کی تصویر یہ ہے کہ چنگیز خاں کی موت کے دو سال بعد ایک جشن شاہزادگی برپا کیا گیا جشن کے خاتمہ پر مغلوں کے تمام سردار و فرزندان و اشراف چنگیز خاں کی قبر پر پہنچ گئے ان کے ہمراہ چالیس کم عمر و حسین کنیزیں جو لباس ہائے فاخرہ و قیمتی زیورات سے مزین تھیں۔ کنیزوں کے علاوہ انھوں نے اپنے ساتھ چالیس گھوڑے میں اور ان سب کو اپنے متوفی خاقان کے احترام میں قربان کر دیا۔(جہاں کشای جوینی، تاریخ مغول، نوشتہ عباس اقبال نقل از کتاب چنگیز خاں چہرہ خون ریز تاریخ، ص ۱۸۸ ، محمد ا حمد پناہی)

وطن کو واپسی

جس وقت سر زمین ایران پر مغلوں کا ٹڈی دل قتل و غارت مچائے ہوئے تھے اور ہر روز ایک نئے شہر نئی بستی پر ٹوٹ پڑتا تھا خواجہ نصیرالدین عراق میں اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مشغول تھے اگرچہ مغلوں کے حملے کا حال ان کو ملتا رہتا تھا۔ بعض ایرانی عراق پہونچ کر مغلوں کی خوانخواری و بے رحمی کا چشم دید حال نصیر الدین سے کہتے اور اس کی تفصیل سے آگا کرتے ظاہر ہے کہ ایسے حالات کو سن کر ہر مسلمان کا دل تڑپ جاتا تھا۔چنانچہ اس عظیم دانش مند کا بھی یہی حال ہوا وہ بے حد مضطرب ہو گئے۔ اور وطن واپسی کا پختہ ارادہ کر لیا انھیں یہ برداشت نہ ہوا کہ وہ تو آرام سے رہیں او ران کے ہم وطن و خاندان والے پر آشوب و بحرانی حالات میں زندگی بسر کریں۔ نیز عراق میں ان کی علم و دانش سے فائدہ اٹھانے والے بہت کم نظر آتے تھے۔

وطن کی واپسی میں طوسی نے درمیان راہ کئی شہروں کا سفر کیا اور دوستوں سے ملاقات کرتے ہوئے نیشار پور پہنچے (نیشاپور اس وقت مغلوں کی گرفت میں تھا مگر ابھی بالکل ویران نہیں ہوا تھا) یہاں پہنچ کر طوسی کو اپنا زمانہ طالب علمی یاد آیا۔ مدرسہ سراجیہ اور مدرسہ کے وسط میں حوض اور دوستوں کے کمرے وغیرہ یکبارگی تمام یادیں ابھر آئیں اور وہ گھبرا گئے کہ آہ کیا یہ وہی مدرسہ ہے؟ یہیں پر نیشا پور تھا اگر تھا تو کیوں خاموش و مبہوت ہے وہ شہر میں کوئی نہیں سوائے جلے ہوئے درختوں اور نیم ویران مکانوں کے طوسی نیشاپور سے طوس (جائے پیدائش) کی طرف چل پڑے طوس کے جس مکان میں وہ پیدا ہوئے تھے اس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور بچپن کی یاد انھیں گھیر لیتی ہیں۔ گلیوں میں پھرنا، محلہ کے بچوں کے ساتھ کھیلنا کودنا سب کچھ یاد آ جاتا ہے۔ وہ زمانہ جب کہ طوس میں اپنی روحانی و عالم باپ کے ساتھ تھے اور تحصیل علم کا آغاز کیا تھا اسی طرح کی ہزاروں فکریں و خیال ان کے ذہن میں آتے جاتے ہیں۔

مگر یہ کیا۔ گھر میں کوئی نہیں جو دروازہ کھولے کیا پورا کنبہ مغلوں کے حملہ کا شکار ہو گیا یا شہر چھوڑ کر سب کہیں چلے گئے۔ طوسی کو یہی خیالات ستار ہے تھے کہ ان کا قدیم بزرگ ہمسایہ مرد بزرگ و پیر ملتا ہے اور اصل کیفیت سے مطلع کرتا ہے۔ طوسی اپنے کنبہ سے ملاقات کے لئے شہر قائن پہنچتے ہیں اور وہاں اپنی ماں و بہن کو موجود پاتے ہیں ایک مدت قائن میں بسر کرتے ہیں اور اہل شہر کے اصرار پر امام جماعت مسجد ہو کر لوگوں کو مسائل دینی سے آگاہ کرتے ہیں اور قوم مغل کے احوال کو معلوم کرنے کی جستجو و کوشش کرتے رہے۔

قائن میں شادی

نصیرالدین جو اب ایک دانش مند کامل اور مستند عالم و اہل فضل ہیں قائن کے عوام میں خاص احترام کر چکے ہیں ان کی سیرت و کردار و رفتار لوگوں کے لئے نمونہ عمل بن گئی ہے۔ تنہا زندگی بسر کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور فخر الدین نقاش کے مشورہ و تشویق (جو ایک علم دوست و علماء سے محبت رکھنے والے بزرگ تھے اور اس زمانے میں خواجہ نصیر کی ماں و بہن فخر الدین کی بیٹی ہی کے مکان میں رہتی تھیں) اور ماں کی رضا مندی سے ۶۲۸ ہجری میں فخر الدین نقاش کی بیٹی ’’نرگس خانم‘‘ کو اپنا شریک حیات بنا لیتے ہیں۔

٭٭٭