خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی0%

خواجہ نصیر الدین طوسی مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف: قم مرکز تحقیق باقر العلوم
زمرہ جات:

مشاہدے: 14170
ڈاؤنلوڈ: 2408

تبصرے:

خواجہ نصیر الدین طوسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14170 / ڈاؤنلوڈ: 2408
سائز سائز سائز
خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف:
اردو

فصل پنجم

زمانہ کار و خدمات اسماعیلیوں کے قلعے

آج سے ۳۳۵ سال پہلے حسن بن صباح نے مذہب اسماعیلیہ کی ایران میں بنیاد رکھی (یہ فرقہ شیعوں میں سے نکلا تھا جو امامت حضرت علی علیہ السلام سے امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند ’’اسماعیل ‘‘ کو ان کا جانشین مانتا تھا۔

لیکن اس فرقہ کی کار کردگی ایران میں صباح کے ہاتھوں شروع ہوئی جو ابتداء میں بظاہر مذہب اسماعیلیہ پر نہیں تھا مگر بعد میں سیاسی اسباب و مسائل کے باعث اس نے اس فرقہ کو اپنا لیا۔

ایک ہی مدرسہ کے تین دوستوں اور ساتھیوں کی حکایت مشہور ہے اور وہ تین یار تھے عمر خیام، خواجہ نظام الملک و حسن بن صباح یہ تینوں نیشاپور کی طالب علمی کے زمانے میں باہم دوست تھے اور اسی وقت عہد کر لیا تھا کہ جو بھی بلند مقام و عہدہ پر پہنچے وہ دوسروں کی مدد کرے اور ان کا خیال رکھے۔ ان تینوں میں پہلے خواجہ نظام الملک سلجوقیوں کا وزیر بنا۔

اس نے عمر خیام کو نیشا پور کا حاکم بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ لیکن خیام نے یہ عہدہ قبول نہ کیا۔ بلکہ دنیا داری سے بے اعتنائی ظاہر کی حسن بن صباح کورے یا اصفہان کی گورنری پیش کی تو اس نے انکار کیا مگر اس کا سبب بے اعتنائی دنیا نہیں بلکہ لمبی امیدیں اور اونے مقام و مرتبہ کی خواہش تھی وہ چاہتا تھا تھا کہ وزارت میں خواجہ نظام الملک کا شریک ہوا ور تھوڑے عرصے تک اس منصب پر رہا بھی مگر بعد میں زیادہ کی ہوس نے اس میں انتقام جوئی کا جذبہ پیدا کر دیا اور وہ اپنے دوست (خواجہ نظام الملک) سے انتقام لینے کی فکر میں پڑ گیا اس مقصد کے لئے اس نے مصر کے فاطمین سے مدد طلب کی جو اسماعیلی مذہب رکھتے تھے اور سلجوقیان جو سنی مذہب تھے ان سے جنگ کے لئے قلعہ الموت کو اپنا اڈہ و ٹھکانہ بنا لیا۔

قلعہ الموت کا فاصلہ قزوین سے تقریباً چھ فرسخ ہے اس کی حیثیت اسماعیلیہ کے پایہ تخت کی تھی اور لگ بھگ اس علاقہ میں پچاس مستحکم تھے جن پر اسماعیلیوں کے قبضہ و تصرف حاصل کر لیا تھا جس میں مشہور ترین ’’ قلعہ الموت ‘‘ ’’میمونہ دژ‘‘ و ’’لنبہ سر‘‘ تھے۔

مرقوم ہے کہ الموت کے علاوہ اسماعیلیان ولایت قومس (سمنان و دامغان ) و فہستان (جنوب خراسان جو قائن، فردوس و طبس و سچبستان پر مشتمل ہے۔)میں بھی متعدد مضبوط قلعے رکھتے تھے جن کی مجوعی تعداد ایک سو پچاس تک تھی اور ایک ایک آدمی اس قلعہ کے انتظام کے لئے مقرر تھا جسے محتشم بھی کہتے ہیں اور ان محتشموں کے لئے پابندی تھی کہ حکومت کی مدت میں بیوی نہیں رکھ سکتے تھے۔(کتاب تاریخ مغول، ص ۴ ۔ ۱۲ ، عباس اقبال)۔

یہ قلعے ان اسماعیلی جنگجویون کے لئے جائے امن و پناہ تھے جن پر حکومت سلجوقیان دیگر حکومتوں کا بس نہیں چلا اور کوئی ان کو کچل نہیں سکا یہاں تک کہ مغلوں کے بھی کئی حملے اور یورشیں با اثر ثابت نہیں ہوئیں آخر ۶۵۴ ہجری میں ہلاکو خاں مغل عزمان خور شاہ اور ہلاکو خاں کے ہاتھوں میں قلعہ کی فتح ( ۶۵۴ ھ) تک اسماعیلیوں نے وہاں ( ۱۷۱ سال ) اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ (اس ۱۷۱ سال کی مدت میں اسماعیلیوں کے ساتھ بادشاہوں نے حکومت کی جن کے نام یوں ہیں حسن بن صباح، کیا بزرگ امید، اس کا بیٹا محمد ، اس کا محمد کا بیٹا محمد دوم، محمد جلال الدین علاء الدین محمد سوم، رکن الدین خور شاہ،(لٹ نامہ و ہنجدا)

طوسی قلعہ قہستان میں

خواجہ نصیر کے چند ماہ تک قائن رہنے اور شادی کے بعد قہستان کے ’’محتشم‘‘ ناصر الدین عبدالرحیم بن ابی منصور(جو مرد فاضل و کریم، فلسفہ دوست اور فلسفہ کی عربی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ چاہتا تھا) نے انھیں بلا بھیجا ان کی بیوی راضی ہو گئیں اور دونوں نے اسماعیلیوں کے قلعے کی راہ لی۔ اس زمانے میں ایک کے بعد دوسرے شہر مغلوں کے حملے سے سقوط کر رہے تھے تو بہترین و محکم ترین جگہ اسماعیلیوں کے قلعے ہی تھے کیونکہ مغلوں سے مقابلہ اسماعیلیوں اور ان کی مضبوط قلعوں ہی سے ممکن تھا دوسرا کوئی انس کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔

خواجہ نصیر جس زمانے میں قلعہ قہستان میں رہتے تھے بڑے احترام کی زندگی بسر کرتے تھے اور وہ شہر قائن میں آمدو رفت کے لئے آزاد تھے۔ اسی زمانہ میں انہوں نے اپنے میزبان (ناصر الدین) کی فرمائش پر ’’طہارة الاعراق‘‘ ابن مسکوریہ کو عربی سے فارسی میں ترجمہ کر کے میزبان کے نام پر اسے ’’اخلاق ناصری‘‘ سے موسوم کیا۔

اور اس کے بیٹے معین الدین بن ناصر الدین کے لئے علم ہئیت کا ’’رسالہ معینیہ ‘‘ لکھا اور اس رسالہ کا نام اس کے نام پر رکھا۔

سیاست میں داخلہ

اول تو نصیر الدین کا مذہب اسماعیلیوں سے میل نہیں رکھتا تھا دوسرے یہ کہ اسماعیلیہ عام لوگوں پر جو ظلم و ستم ڈھاتے تھے اس نے ان کو اسماعیلیہ سے دل برداشتہ کیا تھا۔ اس لئے انہوں نے بہتر جانا کہ بغداد کے عباسی خلیفہ سے مدد طلب کر لیں لہٰذا انہوں نے خلیفہ کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا اور اسے ایک شخص کے توسط سے بغداد بھیج دیا عباسی خلیفہ کا وزیر ’’ابن علمقی‘‘ جس نے خواجہ نصیر کے فضل و کمال کا شہرہ سن رکھا تھا اس واقعہ سے خوفزدہ ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ہو سکتا ہے کہ خواجہ نصیر کی دانش و علم سے خلیفہ متاثر ہو جائے اور میرا مرتبہ و منزلت کم ہو جائے اس لئے اس نے اسماعیلی بادشاہ کے وزیر (ناصرالدین محتشم قہستانی) کو مخفیانہ طور پر ایک خط لکھ کر تمام ماجرا کہہ سنایا۔ ناصر الدین محتشم کو جیسے ہی یہ خبر ملی، اس نے خواجہ نصیر الدین طوسی کو جو اس وقت نیشاپور میں تھے گرفتار کرا کے اپنے پاس بلوا لیا۔ خواجہ نصیر جو اب تک اسماعیلیہ قلعوں میں عزت و احترام کے ساتھ آزادانہ آمدو رفت کرتے تھے اب ایک قیدی کی صورت میں نظر بند کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔

طوسی، قلعہ الموت، میمون دژ میں

خواجہ نصیر اپنے پہلے سیاسی اقدام میں شکست کھا گئے اور اگر ان کی عقل مندی و ہوش مندی نہ ہوتی تو ان کی جان چلی جاتی۔ انھیں قزوین کے قلعہ میں’’ علاء الدین محمد ‘‘ کے پاس لے گئے اور اس کے حکم سے خواجہ نصیر کو وہیں پر رہنا پڑا اس زمانے میں تمام اسماعیلی قلعوں کا حاکم علاء الدین محمد تھا۔ لیکن وہ ظلم و تعدی قتل عام، بے انتہا شراب خوری، مالیخولیا کے مرض اور حکومت اسماعیل کو کمزور کرنے کے الزام کی وجہ سے انجام کار اپنے بیٹے خور شاہ کی مرضی سے اپنے ہی ایک طرفدار (حسن مازندرانی) کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔ اس کا بیٹا اس کا جانشین بن کر تخت نشین ہوا۔ اس نے خواجہ نصیر کے علم و فضل کی تعریف سن رکھی تھی لہٰذا اس نے انھیں اپنے پاس میمون دژ بلا لیا۔

خواجہ نصیر نے تقریباً ۲۶ سال اسماعیلیہ قلعوں میں گزارے اور یہ پوری مدت انہوں نے متعدد کتابوں کی تالیف و تحریر میں صرف کی جن میں شرح اشارات ابن سینا، اخلاق ناصری،رسالہ معینیہ، مطلوب المومنین، روضۃ القلوب، رسالہ تولا و تبرا، تحریر مجسطی، تحریر اقلیدس روضۃ التسلیم، خصوصیت سے لائق ذکر ہیں۔ اس عرصہ میں انہوں نے اسماعیل کے کتاب خانہ سے استفادہ کیا اور اپنی بے پناہ فکری قوت و علم و دانش و کمال کے باعث مشہور و بلند مرتبہ قرار پائے۔

بعض مورخین کا خیال ہے کہ محقق طوسی اپنی مرضی سے اسماعیلیوں کے پاس نہیں گئے تھے انہوں نے کتاب شرح اشارات کے آخری میں اس طرح اشارہ کیا ہے اور اپنی ناگواری و مجبوری کے بارے میں لکھا ہے کہ:

’’میں اس کتاب کا بیشتر حصہ ایسے برے حالات میں لکھا ہے جس سے بدتر و سخت تر وضع زندگی ممکن نہیں ہے۔ کتاب کا بڑا حصہ میں نے انتشار و پریشانی فکر میں تحریر کیا ہے اس وقت کا ہر لمحہ میرے لئے عذاب درد ناک و رنج سے پر تھا او ر حسرت و اندوہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ کوئی وقت ایسا نہ تھا کہ میری آنکھ تر اور دل پریشان نہ ہو۔ کوئی لمحہ ایسا نہ تھا کہ میرا غم فزوں تر ادر سوز دل دوبالا نہ ہوتا کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

بگردا گرد خودچندانکہ بینم

بلاآنگشتری ومن نگینم

معلوم نہیں کہ میری زندگی کا کوئی حصہ حادثات سے خالی کیوں نہیں ہے اور کیوں مجھے دائمی حسرت و ندامت کا سامنا ہے اور غم کے لشکر کے درمیان میری زندگی گزر رہی ہے۔ خدایا بحق رسول بزرگ و وصی پسندیدہ مجھے اس طوفان مصیبت و امواج بلا سے نجات دے تیرے رسول اور اس کے وصی اور اہل بیت پر درود۔ میں جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہوں اس سے خلاصی عنایت فرما۔ تو ارحم الراحمین ہے اور تیرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔

(رقمت اکثر ہافی حال صعب لایمکن اصعب منھا حال و رسمت اغلبہافی مدة کدورة بال لا یوجد اکدرمنہ بال بل فی ازمنتہ یکون کل جزء منہا ظرفا لغصتہ و عذاب الیم وندامتہ و حسرة عظیم وامکنتہ توقد کل آن فیہا زبانیتہ نارحجیم و یصب من فوقہا حمیم ماضی وقت لیس عینی فیہ مقطر اولا بالی مکدر اولم یحجی حین لم یزدالی ولم یضاعف ہمی وغمی نعم ماقال الشاعربالفارسیتہ:

بگردا گرد خودچندانکہ بینم

بلاآنگشتری ومن نگینم

ومالی لیس فی امتداد حیوتی زمان لیس مملوا بالحوادث المستلزمہ للندائمتہ الدائمتہ والحسرة الابدیہ وکان استمرار عیشی امین جیوشہ امین جیوشہ غموم و عساکرہ ہموم، اللہم نجنی من تزاحم افواج البلاء و تراکم امواج العنابحق رسولک المجتبیٰ ووصیہ المرتضیٰ صلی اللہ علیہما وآلہ وفرج عنی ما انافیہ بحق لا الہ الا انت وانت ارحم الراحمین۔

شرح اشارات، ج ۲ ، ص ۱۴۶ نقل از فلاسفہ شیعہ، ص ۲۵۸ ، شیخ عبداللہ نعمہ

اسماعیلی قلعوں سے خواجہ طوسی کی رہائی

مغلوں نے بہت سے اسلامی ممالک کو اپنا مطیع بنا لیا تھا مگر مغربی ایشیا کے ایک حصہ میں بھی اب اسلام ان سی مغلوب نہیں ہوا تھا ایسا ہونا ہی چاہیے تھا کیونکہ قہستان، دریائے الموت، البرز پہاڑ کے جنوبی دروں میں اسماعیلی فدائیان مستحکم قلعے رکھتے تھے اور دوسری طرف بغداد میں بنی عباس کے نا م کی خلافت بھی قائم تھی، مصر و شام ایوبی سلاطین کے قبضہ میں تھا اور ابھی تک مغلوں کو ان پر تسلط کا موقع نہیں ملا تھا۔

اسماعیلی تمام مسلمانوں سے دشمنی رکھتے تھے اور جو بھی قدرت و طاقت حاصل کر لیتا اسے وہ اپنے فدائیوں کے وسیلہ سے ختم کر دیتے تھے دوسری جانب ایوبی امرا میں باہمی اختلاف تھا ایشیائے کوچک کے سلجوقی سلاطین اور الجزیرہ کے حکام میں ٹھنی رہتی تھی وغیرہ۔

مغل ان حالات سے باخبر تھے۔ لہٰذا پہلے ان کی کوشش یہ رہی کہ اسماعیلیان کو باہر نکالیں اور نبی عباس کا خاتمہ کر دیں اسلامی ممالک کے اندرونی حالات نے مغلوں کے اس خیال کو تقویت بخشی اسماعیلیوں کے ظلم و جور سے مسلمانوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ قہستان و قزوین میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اذیت و مصائب کا شکار نہ ہو یا قتل نہ کر دی جائے۔ اسماعیلیوں کا ظلم اور شورش میں اپنی شدت پید ا ہو گئی جو ہر شخص کے لئے ناقابل تحمل برداشت تھی۔ یہاں تک کہ قزوین کے محبوب عالم ’’قاضی شمس الدین قزوینی‘‘ کئی بار ’’منکوقاآن‘‘ کے پاس حاضر ہوئے اور اس سے اسماعیلیہ کی شکایت کر کے مدد کے طالب ہوئے۔ (برداشت از تاریخ مغول، ص ۴ ۔ ۱۷۰ عباس اقبال آشتبانی)

آخر کار وہ وقت آگیا کہ مغلوں کے بادشاہ و چنگیز کے پوتے ’’منکوقاآن ‘‘ نے اپنے چھوٹے بھائی ’’ہلاکو خاں ‘‘ (جو اس وقت ۳۶ سال کا تھا) کو اسماعیلی قلعوں کی سرکوبی کے لئے مامور کر دیا۔

ہلاکو خاں نے ۲۵۱ ھ میں اپنے ایک ہم مذہب عیسائی امیر ’’کیتوبوقا‘‘ کو بارہ ہزار فوجیوں کے ساتھ قہستان دریائے کرد کی طرف روانہ کیا اور خود ۶۵۳ ھ میں سمر قند آیا طوس پہنچنے کے بعد اس نے ہرات کے حاکم ’’ملک شمس الدین کرت‘‘ کو قہستان کے محتشم ناصر الدین کے پاس بھیجا اور اسے اپنی اطاعت قبول کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت تک ناصر الدین پیرو ضعیف ہو چکا تھا وہ ہلاکو سامنے آیا اور سر جھکا دیا ہلاکو نے بھی اس کا احترام کرتے ہوئے اسے شہر ’’تون(اب شہر تون کا نام فردوس ہو گیا اور شہر صوبہ خراسان کی جنوبی حصے میں ہے۔)‘‘کی حکومت دے دی۔

ناصر الدین محتشم قہستان کی خود حوالگی عملی طور پر اسماعیلیہ کے محاذ کی شکست ثابت ہوئی اور مغلوں نے اس کے بعد یکے بعد دیگرے قلعوں کو تسخیر کر لیا۔ خواجہ نصیر کو تمام خبریں ملتی رہیں انہوں نے گمان کیا کہ ہلاکو خون ریزی پسند نہیں کیونکہ اس نے ناصر الدین محتشم کو دوسری جگہ کی حکومت دے دی اور قہستان کے لوگوں کا قتل عام بھی نہیں کیا۔

ہلاکو خاں نے بعد میں ’’خور شاہ ‘‘ کے پاس اس نے دو نمائندے بھیجے اور اس کو اپنی اطاعت کی طرف بلا یا۔ خور شاہ نے خواجہ نصیر کی مشورت و صلاح سے اس کی اطاعت قبول کر لی اور ایک سال کی مہلت مانگی۔

بادشاہ اسماعیلیان ’’خور شاہ‘‘ اور مغلوں کے فرستادگان میں دو مہینے تک چند مرحلوں میں مذاکرہ چلتا رہا سر انجام کار خور شاہ نے اپنے چھوٹے بھائی کو خواجہ نصیر الدین طوسی کے ساتھ ہلاکو خاں کے پاس بھیج دیا اور خود اول ذی قعدہ ۶۵۴ ھ بروز یک شنبہ قلعہ سے نکل کر نیچے آیا اور اس طرح ایران میں حکومتی اسماعیلیان کا خاتمہ ہوا اور تاریخ میں اسماعیلیان کا نام کے سوا اور کچھ باقی نہ رہا۔ اس موقع پر خواجہ نصیر نے چند اشعار بھی کہے ہیں:

سال عرب چون شش صد و پنجاہ چار شد

یکشنبہ اول مہ ذی قعدہ بامداد

خورشان پادشاہ اسماعیلیان زتخت

برخاست پیش ہلاکو بایستاد

عربی سال ۶۵۴ ھ یک شنبہ اول ذی قعدہ کی صبح تھی جب اسماعیلیوں کا بادشاہ خور شاہ تخت سے اٹھا اور ہلاکو کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔

اس بارے میں ایک دوسرے شاعر نے بھی کہا ہے:

ہماں روز خور شاہ فرزندرا

بزرگان و خویشان و پیوندرا

بہ درگہ فرستاد و دروز دگر

خود آمد برشاہ پیروز گر

حکیمان عالم اصیل و نصیر

طبیبان عصر و موید وزیر

ازآن قلعہ با اوفرود آمدند

چوباران برژرف رود آمدند

خور شاہ نے اسی دن اپنے فرزند و اعزا و اقربا کو ہلاکو کے پاس بھیج دیا اور خود دوسرے دن فاتح بادشاہ کے پاس پہنچا پھر اس قلعہ سے حکیم و دانش مند و طبیب و وزیر و مددگار سب اس طرح زمین پر اتر آئے جیسے دریا میں بارش آئی ہو۔ فعل سردار ہلاکو خاں نے خواجہ نصیر الدین او ر رئیس الدولہ کے فرزند کو جو بزرگ حکماء و اطباء میں سے تھے اور خور شاہ کی تسلیم و سپردگی کا ذریعہ بنے تھے قتل عام و کشت و کشاد کو رکوا دیا تھا۔ اپنے ساتھ بڑے احترام سے لایا اور ان سے بہت خوش ہوا۔ (جامع التواریخ، ج ۲ ، ص ۶۹۵ رشید الدین فضل اللہ، تاریخ مغول، ص ۴ ، ۱۷۳ ۴ عباس اقبال سرگزشت و عقائد فلسفی خواجہ نصیر الدین طوسی، ص ۵۰ ، محمد مدرسی زنجانی۔)

فتح بغداد

اسماعیلیوں کے قلعوں کو ختم کرنے کے بعد ہلاکو خاں نے بغداد پر حملہ کی تیاری شروع کر دی اور اپنی حکومت کے سربراہ و لشکر کے سرداروں سے مشورہ کر کے ان کے خیالات معلوم کئے چونکہ اس کا عقیدہ علم نجوم پر بہت زیادہ تھا اور اس کے بڑے بھائی منکوقا آن نے بھی تاکید کر رکھی تھی کہ ’’حسام الدین منجم‘‘ کو اپنے ساتھ رکھے لہٰذا ہلاکو نے حام الدین منجم سے بڑداد پر حملہ کے تعلق سے رائے مانگی۔ حام الدین جو خلیفہ عباسی کا خیرخواہ تھا جواب میں بولا۔ خاندان خلافت کی بردباری کا ارادہ اور بغداد پر چڑھائی مبارک نہیں ہو گی کیونکہ قدیم الایام سے ایسا ہے کہ جس بادشاہ نے عیسائیوں کی طرف رخ کیا ان کا ملک بھی چلا گیا اور عمر نے بھی وفائی نہیں کہ اگر بادشاہ نے میرے بات نہ مانی اور بغداد کا ارادہ کیا تو چھ خرابیاں و مصائب پیش آئیں گے اول یہ کہ تمام گھوڑے مر جائیں گے اور فوجی بیمار پڑ جائیں گے۔ دوم سورج نہیں نکلے گا۔ سوم بارش نہیں ہو گی۔ چہارم تیز آندھی آئے گی اور زلزلہ سے دنیا میں تباہی مچ جائے گی پنجم زمین سے کچھ آگے گا نہیں۔ ششم اسی سال بادشاہ فوت ہو جائے گا۔ جب ہلاکو نے ان حوادث کا سبب پوچھا تو حسام الدین نے جواب نہ دے سکا۔ تب ہلاکو نے خواجہ نصیر کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا حسام الدین کی بتائی ہوئی ایک مصیبت بھی نہیں آئے گی ہلاکو نے حسام الدین کو طلب کیا تاکہ خواجہ نصیر سے بحث کرے۔

نصیر الدین نے کہا تمام اہل اسلام متفق ہیں کہ بہت سے بزرگ اصحاب شہید ہوئے مگر کچھ بھی گڑ بڑ نہیں ہوئی ا گر تم کہو کہ یہ عباسیوں کی تاثیر و خاصیت ہے تو اس کو جواب یہ ہے کہ مامون رشید کے حکم سے طاہر خراسان سے چل کر بغداد آیا اور اس کے بھائی محمد امین کو مار بڈالا۔ اس کے بعد متوکل اپنے بیٹے اور امراء کے ہاتھوں قتل ہوا۔ منتصر و معتز کو ان کے غلاموں نے قتل کیا۔ اسی طرح دوسرے کئی خلیفہ قتل کئے گئے مگر دنیا میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔(از کتاب سرگذشت و عقائد فلسفی خواجہ نصیر، ص ۵۲ ، محمد مدرس زنجانی(معمولی تبدیلی کے ساتھ)

بہرحال ہلاکو نے بغداد پر حملہ کرنے کی ٹھان لی اور مستعصم خلیفہ کے پاس اپنا سفیر بھیجا اور چاہا کہ خلیفہ ہلاکو کے دربار میں حاضر ہو کر ایلخانی بادشاہ کی اطاعت کا اقرار و اظہار معذرت کرے لیکن جب خلیفہ نے اسے منظور نہیں کیا تو ہلاکو نے ہمدان کی طر ف سے چڑھائی کی اور بغداد کا محاصرہ کر لیا۔ خلیفہ عباسی کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہ رہا کہ وہ بغداد کے قاضیوں، سادات بنی عباس اور اپنے بیٹوں ابو بکر و احمد کے ساتھ شہر بغداد کے باہر آئے اور سر جھکا دئے۔

پھر ہلاکو خاں نے خلیفہ کے قتل کے بارے میں مشورہ کیا تو اکثر بڑھے بوڑھوں نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ خلیفہ کو قتل کر دیا جائے تاکہ لوگوں کو امان مل جائے مگر حسام الدین منجم جس کی بات مغلوں کی یہاں محترم تھی بولا’’ اگر خلیفہ قتل کیا گیا تو اسی وقت زمین پھٹ جائے گی آسمان زمین پر ٹوٹ پڑے گا اور عذاب ہی عذاب کا نزول ہو گا۔‘‘

ہلاکو جو علم نجوم اور منجموں کی پیشین گوئی کا سخت معتقد تھا حسام الدین کی باتیں سن کر ڈر گیا اور ارادہ بدلنے کے لئے سوچنے لگا اس لئے پھر خواجہ نصیر سے مشورہ کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ابتدائے آفرینش عالم سے اب تک لوگوں نے ہزاروں بے گناہ افراد مثل یحییٰ حضرت زکریا، اولاد پیغمبر و غیر ہم کو قتل کیا مگر ان حوادث میں سے کوئی ایک بھی واقع نہیں ہوا تو پھر کیا ہو گا؟ ہاں اگر بادشاہ کو زمین پر خلیفہ کا خون بہانے میں تردد ہے تو اس سے بچنے کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ خلیفہ کو کمبل میں لپیٹ کر آہستہ آہستہ اس کو گھونسے، لات سے ادھ مرا کیا جائے اگر آسمان تاریک ہونے لگے یا طوفان آ جائے یا زمین ہلنے لگے تو وہی پر ہاتھ روک لیا جائے اور اگر کچھ نہ ہوا تو پھر آپ آسودہ مطمئن ہو جائیں۔ ہلاکو نے اس رائے کو پسند کیا اور اسی طرے سے معتصم کو قتل کیا گیا اور دنیا میں کوئی انقلاب نہیں ہوا۔(با استفادہ از قصص العلماء، ص ۳۸۰ ، مرحوم تنکابی۔’’حبیب السیر کی کتاب سے نقل کیا ‘‘

اور پھر چہارم صرف ۶۵۶ ھ کو بغداد مغلوں کے ہاتھوں فتح ہو گیا۔

خواجہ نصیر نے اس موقع پر شعر نظم کئے:

سال ہجرت شش صد و پنجاہ و شش

روز پکشنبہ چہارم از صفر

چون خلیفہ نزد ہلاکو رسید

دولت عباسیان آمد پسر

ایک بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مغربی ایشیا میں مغلوں کی لشکر کشی کا ایک عامل و مدد گار ارمنوں کی چال بھی ہے۔ مغلوں نے جیسے ہی قوت و طاقت حاصل کی وہ بغداد کو فتح کرنے کی سوچنے لگے کیونکہ اس وقت بغداد مسلمانوں کے خلیفہ کا مرکز و مستقر تھا اور خصوصی اہمیت کا حامل تھا اور اس پر کئی بار حملے ہوئے جو نتیجہ خیز نہیں رہے یہاں تک کہ منکوقاآن کے عہد سلطنت میں باہمی نا اتفاقی و فوجی کمزوری بہت بڑھ گئی تھی یہ واقعہ ناگوار ظہور میں آیا۔ ایک طرف مصر و شام کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلیبی جنگ چل رہی تھی دوسری طرف آرمینیہ کے بادشاہ نے منکوقاآن سے اتحاد و دوستی کا عہدہ و پیمان کر لیا۔ یہ دونوں چیزیں اس کا باعث ہوئی کہ منکوقا آن کا بھائی ہلاکو ایران کے اسماعیلیوں اور بغداد و مصر و شام کی فتح کے لئے چل پڑے۔

(یہ دیکھتے ہوئے کہ ہلاکو کی ماں ’’سری قوی تی‘‘ (سوگلی) اور اس کا شوہر ’’دوقوز خاتون‘‘ عیسائی مذہب رکھتے تھے اور اس کے پیشتر فوجی مغل اور عیسائی تھے)

اس بنا پر فتح بغداد میں دو عوامل بڑے تھے ایک تو ہلاکو کے لئے منکوقا آن کا حکم دوسرے بنیادی طور پر اہم عامل جس نے اس واقعہ کو ظہور پذیر کیا وہ عباسی خلیفہ کی سستی و بے تدبیری تھی جس نے مغلوں کو لالچ میں ڈال دیا اور انہوں نے اپنا لشکر جرار بغداد کی طر ف روانہ کر دیا۔

عباسی خلفاء جنہوں نے ۵۲۴ سال تک حکومت کی اور اتنی طویل مدت ہی ان کے مکر و فریب و حیلہ کو ظاہر کرتی ہے جس کی بدولت وہ مسلسل اتنے دنوں تک سلطنت کو چلاتے رہے۔ اس خاندان و سلسلہ (خلفاء بنی عباس نے خلافت بنی امیہ سے چھینی اور ۱۳۲ ھ سے سے ۶۵۶ ھ تک خلافت کرتے رہے ان کا دارالخلافہ شروع میں ’’انبار ‘‘ پھر ’’کوفہ ‘‘ اور بعد میں بغداد رہا ہے۔ ان خلفا کی تعداد ۳۷ تھی۔ پہلا خلیفہ تھا ابو العباس سفاح اور آخری مستعصم باللہ کے نام سے مشہور تھا ان کی ترتیب یوں ہے (منصور، مہدی، ہادی، ہارون،رشید امین، مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، متعین، معتز، متہدی، معتم، معتضد،مکتفی، مقتدر، قاہر، راضی، متقی، مستکفی، مطیع، طایع، قادر، قائم، مقتدی، مستظہر، مسترشد، مقتفی، مستنجد، مستضی، ناصر، ظاہر، مستنصر، مستعصم،لغت نامہ وہنجدا۔)کے خلفائے نے اپنا زیادہ وقت تن پروری میں کاٹا اور مسلمانوں کے لئے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔

اس سلسلہ کا آخری خلیفہ مستعصم عباسی بھی اپنے عادات و اخلاق کے لحاظ سے قابل تعریف نہ تھا خون ریزی و لہو و لعب کے سوا اس نے بھی مسلمانوں کے لئے کچھ کیا نہیں۔ بلکہ اس کے بیٹے ’’ابو بکر‘‘ کے ہاتھوں بغداد کے تھوڑے شیعہ بری طرح قتل کئے گئے اور ان کا فال و اسباب لوٹ لیا گیا محدث قمی لکھتے ہیں :

جب تخت سلطنت پر آخری خلیفہ عباسی مستعصم بیٹھا تو ملک اپنے وزیر موید الدین علمقی قمی کو سونپ دیا اور خود کبوتر بازی ولہو لعب و عیاشی و لذت اندوزی میں ڈوب گیا انہی ایام میں مستعصم کے فرزند ابو بکر نے محلہ ’’کرخ بغداد‘‘ پر جو شیعو ں کا مسکن تھا، دھاوا بول دیا اور سادات کی ایک جماعت کو قیدی بنالیا۔ (تتمتہ المنتہی، ص ۳۷۳ ، محدث قمی)

جس وقت ہلاکو نے ہمدان سے خلیفہ کو پیغام بھیجا کہ اگر تم حکومت ایلخانی سے معافی مانگ لو او ر اسے تسلیم کر لو تو ممکن ہے کہ میں بغداد نہ آؤں۔ خلیفہ اس وقت سیاست سے کام نہ لے سکا اور مغلوں کو نامعقول جواب اور بے ہودہ دھمکیاں دے کر اپنے آپ میں خوش تھا اور مغلوں کا مذاق اڑاتا تھا اور جس وقت وہ خواب خرگوش سے بیدار ہو ا ت و کافی دیر ہو چکی تھی۔ بغداد کے حالات میں مرقوم ہے کہ جب ہلاکو نے خلیفہ کو چھیڑا اور اس سے خزانے اور مخفی دولت کا مطالبہ کیا تو اس نے یہ بھی کہا کہ تم نے اپنی قوم کا خیال کیوں نہ کیا اور اس دولت سے اسلحے کیوں نہ خریدے کہ میرے جیسا دریائے جیحون کو پار کر کے تم تک نہ پہونچ پائے اور جب میں دیگر مسلمانوں کو قتل کر رہا تھا تو تم ان کی مدد کو کیوں نہیں آئے۔

پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغل قوم کے حملے کا اہم سبب و بڑا عامل تھا خلیفہ عباسی کی نا اہلی و بودا پن اور دوسرا عامل تھا ’’منکوقا آن ‘‘ کا حکم جو ارامنہ سے معاہدہ کا لحاظ کر کے جاری کیا گیا تھا۔

البتہ بعض (جیسے ابن تیمیہ حنبلی و ابن قیم حنبلی از علماء اہل سنت اور صاحب طبقات الشافیہ و تاریخ ایران ازجان ملکم) کا نتیجہ مانتے ہیں اور ان ہی کو خاندان آل عباس پر آفت کا سبب خیال کیا ہے مگر مورخین کا (از حملہ عما د الدین ابن الفداء صاحب تارے البدایت والنہایت۔)گروہ ان تمام اتہامات کو طوسی کے دشمنوں کی کارستانی مانتا ہے اور دانش مند طوسی کو ان اتہامات سے دور بتاتا ہے لیکن جو کچھ تاریخ قرائن سے نمایاں ہے وہ یہ ہے خواجہ نصیر ان ان واقعات سے الگ تھلگ و بے تعلق نہیں تھے۔

خواجہ نصیر

ہلاکو خاں نے طوسی کو ان کے علم و فضل کی وجہ سے اپنے بزرگوں کی فہرست میں داخل کر لیا اور ان کی حفاظت و دیکھ بھال میں کافی توجہ دی حتیٰ کہ جہاں جاتا وہاں طوسی کو اپنے ساتھ لے جاتا تھا خواجہ نصیر نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا اور خاموشی کے ساتھ مغلوں کی غارت گری و خونخواری دیکھتے رہے او ر کچھ بولے نہیں۔

چنانچہ اس عظیم دانشمند و فلسفی کا رول و نقش کئی جہات سے قابل توجہ ہے:

تحصیل علم۔ جسے اس نے جوانی میں بہت اعلیٰ پیمانے پر جگہ جگہ سے حاصل کیا اور مختلف علوم کا جامع بن گیا۔

اس کے بعد اسمعیلیوں کے قلعہ میں پر آشوب و ناقابل برداشت حالات میں عملی و ثقافتی کارنامے انجام دئے۔

مغل حکمرانوں پر اپنا اثر ڈالنا اور انہیں شہروں کی تباہی اور ملکوں کی غارت گری سے روک کر آثار علمی اور بہت سے علماء و دانش مندوں کی حفاظت کرنا۔ مراغہ وغیرہ میں عظیم الشان رصدگاہ بنانا۔ اس تعلق سے طوسی کی چند خدمات کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔

الف: اس سیاست داں دانش مند نے ’’جوینی ‘‘ کی مدد سے قلعہ الموت کی فتح کے بعد حسن صباح کے عظیم کتاب خانہ کو آتش زنی سے بچا لیا۔

مغل جو تمدن سے بے بہرہ اور کتاب کی قدرو منزلت سے ناآشنا تھے قلعہ الموت کی فتح کے بعد سوچنے لگے کہ وہاں کے کتابخانہ کو آگ لگا دیں مگر خواجہ نصیر الدین اور جوینی کے تدبیر و ہوشیاری سے یہ کام رک گیا اور وہ علمی خزانہ نابودی کے خطرہ سے باہر ہو گیا۔ اور اس عہد میں تاریخ اسلام کے پورے سابقہ ادوار سے زیادہ فارسی میں تاریخ نویسی کا کام ہوا۔

ب: دوسری بات علماء و دانش مندان کی جان کی حفاظت ہے۔ طوسی اپنی اثرات کی بنا پر قادر ہو سکے کہ بے رحم و بے عقل قوم مغل کی تلوار سے بہت سوں کو بچا لیں ان میں سے ایک تاریخ جہاں کشا کے مولف عطا ملک جوینی بھی تھے جو نامعلوم اسباب کی بنا پر مورد عتاب ہلاکو ہو گئے تھے اور ان کو سزائے موت سنا کر زندان میں ڈال دیا گیا تھا۔ (فوات الوافیات، ج ۳ ، ص ۲۴۷ ، ابن شاکر (چاپ بیروت)

’’ابن ابی الحدید‘‘ نہج البلاغہ کا شارح اور اس کا بھائی ’’موفق الدولہ‘‘ یہ دونوں علمائے اہل سنت فتح بغداد کے بعد مغلوں کی قید میں تھے اور قتل کئے جانے والے تھے مگر ابن ابی الحدید کا شیعہ شاگرد تھے ابن علقمی اپنے استاد کی سفارش کے لئے خواجہ نصیرالدین کے پاس پہنچا اور طوسی نے ان دونوں کی شفاعت کر کے موت کے خطرہ سے رہائی دلائی۔

ج: دوسرا دلچسپ و قابل توجہ نکتہ قوم مغل کا مسلم ایران کے تمدن و تہذیب میں جذب و حل ہو جانا ہے وہ لوگ ہلاکو کے لائق دانشمند وزراء مثل نصیر الدین و چند دیگر افراد سے بہت متاثر ہوئے اور آہستہ آہستہ اسلام کی طرف کھچتے چلے گئے۔

یہ قوم جو تہذیب و تمدن سے عاری تھی اور جس نے ممالک اسلامی کی نابودری کے ارادے سے ایران اور دیگر ممالک پر دھاوا بولا تھا نہایت کم مدت کے اندر اسلامی تہذیب کی توانائی و عظمت کے سامنے جھک گئی اور مسلمان ہو گئی اور ۶۹۴ ھ (غازان خاں مغل کا زمانہ) سے اسلام ایران کا رسمی مذہب بن گیا اسی بنا پر اہل نظر نے اسے مغل دور اور اس کے بعد کے زمانے کو جدید تمدن اسلامی کی بنیاد رکھنے والا کہا ہے۔

د: دوسرا سب سے اہم و تاریخی کام جو طوسی نے کیا اور جس کی وجہ سے انہوں نے زیادہ شہرت پائی اور ان کا نام دنیا کے چند مشہور و عظیم دانش مندوں و علماء میں شامل ہو گیا۔ وہ تھا مراغہ میں رصد گاہ کی تعمیر اور ایک بڑے مکتب علم و دانش کی بنیاد۔

مغلوں کی تباہ کاری و لوٹ مار کے بند ہو جانے کے بعد ان علمی و ثقافتی مراکز نے دوبارہ اپنا کام شروع کر دیا اور خواجہ نصیر کی دانائی سے مراغہ کی عظیم رصد گاہ اور کتاب خانہ وجود میں آیا۔

بعض مورخین نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ رصد گاہ کا خیال اور بنیاد کس نے ڈالی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جدت خواجہ نصیر الدین کی تھی انہوں نے ہلاکو خاں کو اس کی تعمیر پر مائل کیا اور ہلاکو خاں نے اس کے لئے فرمان جا ری کیا۔

بعض کا کہنا ہے کہ چونکہ مغل قوم ہئیت و نجوم سے بہت زیادہ علاقہ مند تھی اور اس علاقہ مندی کی ایک قدیم تاریخ ہے اس لئے ’’منکوقاآن ‘‘ نے مراغہ میں رصد گاہ کی تعمیر کی تجویز ہلاکو کے سامنے رکھی تاکہ وہ منجموں کی پیشین گوئی سے اپنے مقاصد و امور انجام دینے میں مدد حاصل کر سکے مغل سرداروں کی نجوم سے علاقہ مندی کا سبب خاص بھی یہی تھا۔ لیکن جو بات مہم اور ناقابل تردید ہے وہ اس کام میں خواجہ نصیر کا موثر کردار ہے بلاشبہ اگر وہ دنیا کے اس عظیم مجتمع کا موجد نہ رہا ہو (جس کی مثال شرق و غرب میں تین سو سال تک نہیں تھی، مگر موسس ضرور تھا۔

مشہور مستشرق رونالڈس لکھتا ہے:

’’طوسی نے مراغہ میں سے ہلاکو سے کہا کہ ’’فاتح حاکم کو صرف غارت گری پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ ‘‘ اس مغل نے طوسی کا مطلب بھانپ لیا اور حکم دیا کہ مراغہ کے شمالی پہاڑ پر ایک عظیم رصد گاہ بنائی جائے چنانچہ کام شروع ہوا اور بارہ سال میں تمام ہوا اس درمیانی مدت میں ریج کی جمع آوری ہوتی رہی۔ ہلاکو کے مرنے کے بعد تک یہ کام چلتا رہا تکمیل کے بعد اس کا نام زیج ایلخانی رکھا گیا۔

اس کے ساتھ بہت بڑا کتب خانہ بھی بنایا گیا جس میں ان تمام کتابوں کو اکٹھا کر دیا گیا جو بغداد کے کتابخانوں کی غارت گری سے بکھر گئی تھیں۔ (فلاسفہ شیعہ، ص ۲۸۷ ، شیخ عبداللہ نعمہ۔)

صاحب حبیب السیر لکھتے ہیں :

جس وقت ہلاکو خاں کو بغداد کی تسخیر و تخریب سے فراغت حاصل ہوئی تو اس نے خواجہ نصیر کی ترغیب پر حکم دیا کہ رصد کے اسباب کی ترتیب اور زیج کا استنباط کیا جائے اور خواجہ نصیر نے تبریز میں مراغہ کو رصد گاہ کے لئے منتخب کیا۔ حکم شاہی ہوا کہ اس کام کے لئے جو رقم درکار ہو اسے خزانہ دار و دیوان مہیا کر کے دیں۔ چنانچہ اس کے لئے خواجہ نے جو بھی خرچ لازم تھا اسے حاصل کیا۔ (حبیب السیر، ج ۳ ، ص ۱۰۳ ، نقل از مفاخر اسلام، ج ۴ ، ص ۱۱۲)

صاحب کتاب ’’فوات الوفیات ‘‘ ابن شاکر کے مطابق رصد گاہ بنانے کا خیال خواجہ کے دماغ کی پیداوار تھی اور وہ ہلاکو سے ملاقات سے برسوں پہلے اس فکر میں تھا کہ جب بھی وقت و موقع ہاتھ لگا اور وسائل فراہم ہو گئے اس کام کو شروع کرنا ہے بالآخر جب ہلاکو کے عہد میں انہوں نے اسے ممکن دیکھا تو اس کے لئے ابھارا کہتے ہیں کہ ہلاکو نے کہا کہ اس کام کا فائدہ کیا ہے۔؟

اور کیا اس سے جو خیال و تمنا ہے وہ انجام پذیر ہو جائے گا؟ رصد گاہ بنانے اور ستاروں کی حرکت کو جان لینے کے بعد کیا حوادث کو روکا جاتا ہے؟ خواجہ نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب ایک مثال سے دیتا ہوں۔ انہوں نے ایل خان(ایل خاں کہتے ہیں ایل کے سرپرست کو اس طرح مغلوں کے سرداروں کا ین لقب بن گیا)سے کہا کہ ایک آدمی کو بلندی پر بھیجو مگر وہ یہاں سے نزدیک ہو بہت دور نہیں اور وہ آدمی وہاں جا کر زمین پر ایک بہت بڑا طشت گرائے مگر پہلے سے کسی کو خبر نہ ہو۔ ہلاکو نے یہ کام انجام دیا اور ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ وہ بالا خانہ پر جا کر طشت کو زمین پر پھینک دے۔ طشت کے گرنے سے بڑی مہیب و زوردار آواز نکلی اور لوگ گھبرا کے بھاگنے لگے۔ اور چاروں طرف وحشت و خوف پھیل گیا۔ لیکن چونکہ خواجہ و ہلاکو معاملہ سے واقف تھے اس لئے بالکل نہ ڈرے۔ تب خواجہ نے کہا کہ اگر علم نجوم کا کوئی فائدہ نہ ہو تب بھی اتنا فائدہ تو ہے ہی کہ نادان واقف اور غافل لوگوں کو جو حوادث خوف و رنج میں مبتلا کر دیتے ہیں علوم نجوم کے جاننے والے اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہلاکو نے جب دیکھا کہ معاملہ یوں ہی ہے تو پھر خواجہ کو صدر گاہ بنانے کا حکم دے دیا اور کہا اس کے لئے عمارت بنائی جائے۔ (فوات الوفیات، ج ۳ ، ص ۲۴۷ ، چاپ بیروت، ابن شاکر تاریخ فلاسفہ ایرانی، ص ۴۲۰ ،ڈاکٹر علی اصغر حبلی)

مغل بادشاہ نے اس عظیم مرکز کے قیام و توسیع و ترقی کے لئے اپنی مملکت کی ہر مقبوضہ ریاست کے اوقات خواجہ نصیر الدین کے سپر د کر دئے۔ خواجہ نصیر نے ہر شہر میں ایک نمائندہ مقرر کر دیا اور رصد گاہ کے خرچ کے لئے اوقاف کے مال کا دسواں حصہ مخصوص کر دیا۔خواجہ کا یہ عمل اوقاف سے صحیح استفادہ اور علم کے لئے اس سے بہرہ برداری، دوسروں کے لئے نمونہ ہے او ر طوسی کے سیاسی اقتدار و ذہانت کو ظاہر کرتا ہے۔

مراغہ کی رصد گاہ ۶۵۶ ھ میں بننا شروع ہوئی اور خواجہ نصیر الدین کی وفات کے سال ۶۷۲ ھ میں مکمل ہوئی۔

اس تعمیر میں فلسفہ و طب و علم دین حاصل کرنے والے طالبعلموں کے لئے الگ الگ مدارس و عمارتیں بنائیں گئی تھیں جہاں فلسفہ کے ہر ایک طالب علم کو روزانہ تین درہم اور طب پڑھنے والوں کو دو درہم فقیہ کے لئے ایک درہم اور محدث کے لئے روزانہ نصف درہم مقرر کیا گیا تھا۔ علماء کے وظیفہ میں درجہ بندی اس زمانے کے سیاسی و اجتماعی اور ضروریات زندگی کا لحاظ کر کے کی گئی تھی اس لئے اگر خواجہ نے فلسفہ کے طالب علم کو متعلم طبابت پر ترجیح دی تو اس کا سبب اس زمانے کے حالات تھے جہاں اس علم کو سب پر اولیت حاصل تھی۔

اس عظیم عملی کام کو انجام دینے کے لئے دانش مند طوسی نے چند مشہور فلک شناس علماء سے استفادہ کیا اور اس کے لئے بھاری رقم خرچ کی۔ اس مرکز میں دانشمندوں کی جتنی تعداد جمع ہو گئی تھی اس سے انہوں نے ایک بڑا علمی گروہ تشکیل دیا جن کا کام علم نجوم و ریاضی میں نئی تحقیق و انکشاف تھا۔

اس علمی کام میں جن علماء و دانشمندوں نے طوسی کا ساتھ دیا ان میں سے چند اعلام کا ذکر کیا جاتا ہے۔

نجم الدین کاتبی قزوینی۔ ولادت ۶۰۰ ھ وفات ۶۷۵ ھ۔ علماء و حکاء شافعیہ میں سے تھے اور رصد گاہ مراغہ میں خواجہ نصیر الدین طوسی کے شریک کار تھے۔ مشہور کتاب منطق ’’شمسیہ‘‘ ان ہی کی تصنیف ہے رصدگاہ مراغہ میں خواجہ نصیر کا علمائے اہل سنت سے کام لینا یہ بتاتا ہے کہ وسیع نظرو وحدت پسند تھے اور علوم کی ترقی میں مذہبی تعصب سے بہت دور تھے۔

موید الدین عرضی۔ دمشق کے علماء و فلاسفہ میں سے تھے ۶۵۰ میں پیدا ہوئے ۶۶۴ میں وفات پائی۔ انہوں نے مراغہ کے رصدی آلات کے بارے میں ایک کتاب بنام ’’شرح آلات رصدیہ مراغہ ‘‘ لکھی۔

فخر الدین خلاصی۔ عالم فلسفہ و طب کے ماہر تھے ۵۸۷ میں متولد ہوئے اور ۶۸۰ ھ میں مراغہ ہی میں وفات پائی۔

محی الدین مغربی۔ اندلس کے رہنے والے تھے وہ خواجہ نصیر کے اہم ساتھیوں میں گنے جاتے ہیں ان کی تحریر کردہ کتابیں بہت ہیں محی الدین علم نجوم میں بہت زیادہ دستر س رکھتے تھے اور ان کی کتابیں زیادہ تر اسی علم میں سے متعلق ہیں۔

فرید الدین طوسی۔ اہل حکمت و عرفان تھے معماری میں بھی تخصص رکھتے تھے۔ ا س دانش مند نے رصد گاہ بنانے میں طوسی کی بہت زیادہ مدد کی۔

فخر الدین مراغی۔ علم اصول و ہندسہ د رصد میں مہارت رکھتے تھے ۵۸۳ ھ میں پیدا ہوئے اور ۶۶۷ میں اصفہان میں انتقال فرمایا۔

فرید الدین ابو الحسن علی بن حیدر طوسی۔ یہ بھی اہل فن تھے انہوں نے بھی رصد گاہ کی تاسیس میں خواجہ طوسی کے ساتھ ہم کاری کی ان پر طوسی بہت اعتماد کرتے تھے فریدی الدین نے ۶۹۹ ھ میں وفات پائی۔

محمود بن مسعود بن مصلح الدین کازرونی۔ معروف بہ فخر الدین کازورنی ۶۶۴ میں بغداد آئے اور خواجہ نصیر سے ملے۔ اس صاحب علم و دانش کا باپ طبیب تھا، شیراز میں ایک مدت تک طبابت میں مشغول رہا۔ (خواجہ نصیر کے شاگردوں کی بحث میں ان کا بیان آئے گا۔)

مراغہ کے رصد خانہ میں بہت سے ان آلات سے بھی استفادہ کیا گیا جو قلعہ الموت و بغداد سے لائے گئے تھے اور وہ ایک بہترین رصد خانہ مانا جانے لگا۔ جوینی نے ’’ تاریخ جہاں کشا‘‘ میں نجوم کے چند قم کے سامان و اوزار کا ذکر کیا ہے جو الموت سے مراغہ میں لائے گئے تھے (منجملہ اس کے اسطرلاب، ذات الکرسی، ذات الحلق وغیرہ)۔(اسطرلاب علم نجوم کا قدیم ترین و معروف ترین آلہ ہے اور مختلف زبانوں میں اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی اور اسے ستارہ شناسی میں استعمال کیا جاتا رہا۔ اسطرلاب دو لفظ یونانی استر بمعنی ستارہ اور لابون یعنی گننا سے مرکب ہے اس سے بہت سے کام لئے جاتے تھے مثلاً ستاروں کی بلندی اور آسمان میں اس کی جگہ یہ کئی قسم کا ہوتا تھا اور ہر ایک کا نام الگ تھا۔)

(کچھ قسمیں اس طرح ہیں : اسطرلاب تام، مسطح شمالی و جنوبی، طوماری، ہلالی زورقی، عقربی، قوسی،ہلالی ) مسرطین (خرچنگی ) حق القہر، مغنی، جامعہ، عصا موسیٰ، اہلیلچی صلیبی، بولبی، کری، ذی العنکبوت، رصدی، مجنخ، صدفی، سفرجلی، اسطرلاب نصف (برائے اندازہ و دورجہ دودرجہ) اسطرلاب ثلث (برائے اندازہ سہ درجہ سہ درجہ) اسطرلاب سدس(برائے اندازہ شش درجہ شش درجہ) اسطرلاب عشر(برائے اندازہ دس درجہ دس درجہ) خواجہ نصیر الدین کا ایک بیس بابی رسالہ اسطرلاب کی معرفت میں جس کا نام ’’بیست باب در معرفت اسطرلاب ‘‘ ہے اس رسالہ میں اسطرلاب کے اجزاء کی شرح کی گئی ہے۔)

خواجہ نصیر کی یادداشت میں ہے کہ:

مراغہ کی رصد گاہ میں ایک قبہ ہے اسے اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ قبہ کے سوراخ سے نور آفتاب صبح سے شام تک آوے اور اندر اجالا کرے اور اس وسیلہ سے آفتاب کی وسطی حرکت بلحاظ درجہ و دقیقہ معلوم ہوتی ہے۔ نیز اسی وسیلے سے ممکن ہے کہ مختلف فصلوں میں آفتاب کی بلندی کے زاویوں کا اندازہ ہو سکے۔ اسی طرح قبہ کو ایسا بنایا گیا ہے کہ نوروز کے دن شعاع آفتاب ’’عتبہ ‘‘ پر پڑتی ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ مراغہ کی رصد گاہ دور بین کی ایجاد سے پہلے ایک اعلیٰ و مکمل رصد گاہ تھی۔ (یادنامہ خواجہ نصیر، ص ۸۲ ۔)

مراغہ کار صد خانہ اسلام میں پہلا رصد خانہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی کئی رصد گاہ موجود تھیں جن میں سے مشہور ترین کا ذکر یہاں جاتا ہے۔

رصد خانہ’’ شماسیہ‘‘ جو مامون کے زمانے میں ( ۲۱۴ ھ) قائم کیا گیا اسے اسلام کا رصد گاہ مانا گیا۔

رصد خانہ بتائی جو شام میں واقع تھا۔

سرزمین مصر میں رصد خانہ حاکمی تھا۔

بغداد کا رصد خانہ بنی الاعلم۔(فوت الوفیات، ج ۳ ،ص ۳۵۱ ، ابن شاکر (چاپ بیروت)

قبل اسلام بھی چند رصدگاہیں بنائی گئی تھیں مثلاً رصد برجس (ابن جیس) و رصد بطلیموس (فوات الوفیات، ج ۲ ، ص ۱۵۱ ، چاپ مصر)اور ایران میں رصد خانہ درجندی شاپور موجود تھا۔(دیکھو تاریخ در ایران نوشتہ ڈاکٹر مہدی فرشاد۔ (چاپ انتشارات امیر کبیر)بہرحال مراغہ کا رصد خانہ اپنے وقت کا سب سے عظیم رصد خانہ تھا جس کی تعمیر و تاسیس خواجہ نصیر کی ہمت و حوصلے نے کی انہوں نے اس تعلق سے زیج بھی مرتب کرائی جس کا نام زیج ایلخانی رکھا۔ (فارسی زیگ کو عربی میں زیج کر دیا گیا ہے اور وہ ایسی کتاب ہے جس سے منجم لوگ احوال و حرکات افلاک و ستارگان معلوم کرتے ہیں(لغت نامہ و ہنجدا) زیج ان خطوط (افق و عمودی) کا مجموعہ ہوتا ہے جن کی بنیاد پر اختر شناسی کے مشاہدات و مطالعات ہوتے ہیں۔ ان خطوط (جدول ) سے ستارہ شناس ستاروں کی موقعیت کے تعین اور احکام نجوم کے استخراج اور نقاط و مقامات کی خصوصیات اور زمان شناسی کا کام لیا جاتا ہے(کتاب تاریخ علم در ایران، ص ۱۹۳ ڈاکٹر مہدی فرشاد)

طوسی کے عظیم کارناموں میں سے ایک مراغہ کی رصد گاہ کے نزدیک کتاب خانہ بنانا ہے جس میں مختلف شہروں و ملکوں سے کتابیں لائی گئیں۔ خواجہ نصیر نے اپنے گماشتوں کو اطراف و کناف میں بھیجا کہ جہاں بھی علمی کتاب دست یاب ہو وہ اسے خرید لیں اور مراغہ بھیج دیں طوسی خود بھی جہاں جاتے اچھی و مفید کتاب دیکھتے تھے تو خرید لیتے تھے۔ اور اس میں کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مراغہ کے کتاب خانہ میں چار لاکھ کتا بوں کاذخیرہ ہو گیا جیسا کہ مورخین نے لکھا ہے۔

٭٭٭