خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی0%

خواجہ نصیر الدین طوسی مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف: قم مرکز تحقیق باقر العلوم
زمرہ جات:

مشاہدے: 14143
ڈاؤنلوڈ: 2379

تبصرے:

خواجہ نصیر الدین طوسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14143 / ڈاؤنلوڈ: 2379
سائز سائز سائز
خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف:
اردو

فصل ششم

خواجہ نصیر کی اولاد

خواجہ نصیر کے بیٹے

خواجہ نصیر الدین طوسی نے صدر الدین علی، اصیل الدین حسن، و فخر الدین احمد تین فرزند یادگار چھوڑے جن میں سے ہر ایک علم و دانش و فضل و کمال میں فخر روز گار تھا وہ ایک مدت تک مسلمانوں کی خدمت میں کرتے رہے۔ ان کی زندگی بہت سے حوادث سے لبریز ہے۔

طوسی کی نسل سے کچھ افراد

حکومت صفویہ میں بہت اونچے عہدے پر پہنچے تھے جن میں ’’حاتم بیک اردو باری‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے جو شاہ عباس کے دور میں اعتماد الدولہ کہلاتے تھے۔

صدر الدین علی

خواجہ نصیر کے بڑے اور لائق فرزند اپنے باپ کی زندگی میں ان کے اہم کار تھے۔ اور وادل نے ان کو مراظہ کے رضا خانہ کار سرپرست مقرر کیا تھا۔ والد کی رحلت کے بعد بھی رصد خانہ کے امور و اوقاف کے نگراں تھے ان کو ایک دانش مند، ریاضی داں، فلسفی و نجومی بتایا گیا ہے۔ مجمع الاداب میں ابن فوطی نے لکھا ہے صدر الدین کو شاہ قہستان اعتماد الدین ابو الفداء قہستانی کی بیٹی سے شادی کا اعزاز حاصل تھا۔

اصیل الدین حسن

اصیل الدین حسن نصیر الدین طوسی کے دوسرے بیٹے تھے اور اپنے بھائی کی طرح اہل دانش و فضیلت تھے۔ ادبیات و سیاست میں اپنے وا لد کے ساتھ دسترس حاصل کی۔ وہ حیات پدر اور بعد وفات دونوں زمانوں میں مہم مشاغل و منصب پر فائز تھے بڑے بھائی(صدر الدین) کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے انہوں نے غازان خاں کے ساتھ شام کا سفر بھی کیا۔ اس کی حکومت میں ان کو اونچا مقام اور خصوصی شہرت حاصل تھی۔ شام میں انہوں نے امور اوقاف کو ہاتھ میں لیا اور بعد میں غازان خاں کے ساتھ بغداد کا سفر کیا جہاں انھیں بھی نائب السلطنت بغداد بنایا۔

فخر الدین احمد

خاندان میں سب سے چھوٹے تھے اور دوسرے بھائیوں کی طرح آپ کے ہاتھ میں تمام ممالک اسلامی کے اوقاف کی ریاست تھی اور وہ ان مسائل کو دیکھتے و سلجھاتے تھے۔

ان کی خصوصیات کے تعلق سے مرقوم ہے:

جب وہ بغداد میں ادراہ اوقاف کے رئیس و سربراہ تھے تو ۶۸۳ ھ میں عراقی عوام کو قحط سخت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا انہوں نے اپنی عالی دماغی اور خصوصی تدبیر سے اس کی نگہداشت کی اور اپنی تمام توانائی و ذہانت کو صرف کر دیا۔

فرزندان طوسی کے علم و دانش کے لئے یہی کافی ہے کہ شیعہ مورخین ہی نے نہیں بلکہ بہت سے اہل سنت ہم عصر مورخین نے بھی ان کے فضل و علم و دانش کا اعتراف کیا اور ان کو دانش مندوں کی صف میں شمار کیا ہے یہی نہیں بلکہ انہیں بعنوان بزرگ اہل دانش یا د کیا ہے۔

ان اوصاف کی طرف کتاب ’’الوافی بالوفیات‘‘ ابن صفدی ‘‘ ’’فوات الوفیات ‘‘ ابن شاکرو ’’حوادث الجامعہ، مجمع الاداب، تلخیص معجم الالقاب‘‘ ابن فوطی میں اشارے موجود ہیں۔

٭٭٭

فصل ہفتم

اخلاق خواجہ نصیر

خواجہ نصیر کا اخلاق

محقق طوسی بے پناہ علم و دانش و مختلف فنون میں ید طولیٰ رکھنے کے علاوہ بہترین اخلاق و صفات حسنہ کے حامل تھے جس کا بیان تمام مورخین نے کیا ہے۔

طوسی کو صرف قلم و کتاب والے دانش مندوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے علمی و فلسفیانہ کارناموں کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا تھا بلکہ اخلاق، حسن سلوک، مجلسی زندگی علماء اور ارد گرد کے حالات میں ان کی گہری دلچسپی تھی یہی نہیں بلکہ ان کے یہاں علم کو اخلاق و معرفت پر سبقت حاصل نہیں تھی چنانچہ جہاں بھی انسانیت و اخلاق و کردار کی بات آتی ہے وہ اخلاق اور تمام انسانی اسلامی قدروں کو کلام و مفہوم بے روح(یعنی علم و دانش) پر ترجیح دیتے تھے۔

اگرچہ ان کو شعر و ادب کا ذوق لطیف بھی تھا مگر ان کا علم و رفتار و گفتار حقیقت و اقعیت کے تابع تھا اسی لئے انہوں نے کشادہ روئی کھلی آنکھوں اور متانت کے ساتھ اس عالم اسلامی زندگی گزاری جہاں بے عقلی، ناہنجاری اور جہالت کا زور تھا۔ خواجہ نے اپنی پوری زندگی میں تہمت، افترا، ملامت و بد گوئی دشنام کا سامنا کیا اور وہ بھی بہت زیادہ۔

(افسوس تو یہ ہے کہ وہ سلسلہ آج بھی بند نہیں ہوا ہے) ویسے تاریخ کی عظیم ہستیوں کی یہ خصوصیت بھی رہی ہے کہ ایک طرف ان کی تعریف و توصیف و ستائش ہوتی ہے اور دوسری طرف دشمن ان کو برا بھلا کہتے رہے ہیں۔

داستان اتہام

یہ محقق طوسی کے صبر و تحمل و بردباری کا قصہ ہے جو بتاتا ہے کہ انسان ہو نا عالم ہونے سے بالا تر ہے اور نصیر الدین کے کردار کے ایسے رخ کو ظا ہر کرتا ہے جس کی مثال بہت کم ملے گی۔

ابن شاکر نے ’’فوات الوفیات‘‘ میں اسے یوں لکھا ہے:

ایک شخص خواجہ نصیر کے پاس آیا اور ان کے سامنے کسی دوسرے آدمی کی تحریر پیش کی جس میں خواجہ کو بہت برا کہا گیا تھا اور گالیاں دی گئی تھیں ان کو سگ ابن سگ لکھا تھا۔ خواجہ نے اس کا جواب نہایت نرم و لطف آمیز زبان میں دیا تھا اور لکھا ’’مگر تمہارا یہ لکھنا درست نہیں ہے کیونکہ سگ(کتا)چوپایہ ہے اور عف عف کرتا ہے اس کی کھال بالوں سے ڈھکی رہتی ہے ناخون بہت لمبے ہوتے ہیں تو یہ صفتیں تو مجھ میں بالکل نہیں ہیں بلکہ اس کے برخلاف میری قامت مستقیم، بدن بلا بال کا ناخن چورے ہیں اور ایسے خصائص رکھتا ہوں جو کتے سے مغائر ہیں اور میرے اندر جو ہے وہ اس میں نہیں ہے اور پھر وہ تمام عیوب و برائیاں جو صاحب نامہ نے خط میں درج کی تھیں ان سب کا جو اب اسی طرح بغیر سختی و درشتی کے لکھ دیا۔ (فوت الوفیات، ج ۳ ،ص ۲۴۸ ،چاپ بیروت ابن شاکر الوافی بالوفیات، ج ۱ ، ص ۱۸۰ ، ابن صفدی الکنی والالقاب، ج ۳ ، ص ۲۱۷ ، محدث قمی، چاپ بیروت)

یہ داستان ایک نمونہ ہے اس بات کا کہ خواجہ طوسی خود پرستی خود خواہی نفس پرستی کے قید سے آزاد تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف تاریخ و طبیعت کا چکر ہی نہیں ہے جس سے انسان علم کی مدد و ذریعہ سے آزادی حاصل کر لے بلکہ ایک اور زندان بلا بنام نفس و خود پرستی بھی ہے جس سے آزادی، علم و دانش کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ ایمان بخدا و تقویٰ الٰہی اس کی کنجی ہے۔

تمام علوم میں جامعیت اور جملہ مسائل پر طوسی کا عبور بتاتا ہے کہ وہ ایک بلند روح کے مالک تھے اور زندگی کو اپنے و دوسروں کے لئے سنگین و سخت نہیں بتاتے تھے اور لوگوں کی خوشنودی و در گزر جیسی عوام پسند صفات کے مالک تھے۔

نصیر الدین نے شرح اشارات، اوصاف الاشراف و اخلاق ناصری میں عرفان و اخلاق کی طرف اپنے میلان کو یوں ظاہر کیا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ ایک فلسفی و ریاضی داں نہیں بلکہ ہمہ جہت عارف، معلم اخلاق ہے جو انسان کو انفرادی و اجتماعی زندگی بسر کرنے کا طریقہ تعلیم کرتا ہے۔ نصیر الدین طوسی نے صحرا نورد وحشی مغل قوم پر اپنی سیرت و کردار کا ایسا گہرا اثر ڈالا کہ آخر کار ان کے سردار، فرمانروا اور فوجی سب دین اسلام میں داخل ہو گئے۔ عہد طوسی کو سات صدیاں گزر چکی ہیں مگر آج بھی ان کے ارشاد کلام، اطوار، اخلاق، علم و دانش اہل علم کی مجالس کی زینت بخش رہی ہے۔ ان کی نیک صفات کے نقوش اشعہ مہرو ماہ و اختر آسمان فضیلت پر چمک رہے ہیں۔

’’علامہ حلی‘‘ جو علمائے تشیع میں بزرگ ترین فردما نے جاتے ہیں اور جن کا فرمان مسلم دانش مندوں میں سند اور مضبوط دلیل کی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی طوسی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے علامہ حلی کے افکار و نظریات کو بزرگ علماء حتیٰ کہ علماء غیر شیعہ بھی معتبر و گراں بہا مانتے ہیں۔

علامہ حلی اپنے استاد کے فضائل اخلاقی کی خصوصیات کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں:

خواجہ بزرگوار علوم عقلی و نقلی میں بہت زیادہ تصنیفات کے مالک ہیں انہوں نے مذہب شیعہ کے دینی علوم پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔ میں نے جتنے دانش مندوں کو دیکھا ان میں شریف ترین شخص وہی تھے۔ خدا ان کی ضریح (قبر) کو منور کرے میں نے ان کی خدمت میں الٰہیات شفاء ابن سینا او ر علم ہئیت میں ’’تذکرہ ‘‘ کا درس لیا جو خود ان کی ایسی تالیفات میں سے ہے کہ جب تک یہ دنیا رہے گی اس کی تابانی باقی رہے گی۔ (مفاخر اسلام، ج ۴ ،ص ۱۳۶ ، علی دوانی، بنقل از اجازات بحار)

خواجہ نصیر کے اخلاق کی تعریف میں ان کے شیعہ شاگردوں سے زیادہ حلاوت ان کے اہل سنت شاگردوں کے بیان میں ہے۔

ابن فوطی (برای اطلاع بیشتر، فصل شاگردان خواجہ نصیر ملاحظہ فرمائیں۔)حنبلی مذہب رکھتے تھے مگر خواجہ نصیر کے شاگرد تھے وہ اپنے استاد کا ذکر یوں کرتے ہیں :

خواجہ مرد فاضل و کریم الاخلاق، نیک سیرت اور انکسار پسند تھے وہ کبھی بھی کسی حاجت مند کے سوا ل پر دل تنگ نہیں ہوتے تھے اور اسے رد نہیں کرتے تھے ان کا برتاؤ سب کے ساتھ خوش روئی کے ساتھ ہوتا تھا۔(احوال و آثار خواجہ، ص ۷۸ مدرس رضوی بنقل از حوادث الجامعہ ابن فوطی)

مورخین اہل سنت میں سے ’’ابن شاکر‘‘ نے اخلاق طوسی کی تعریف یوں کی ہے:

خواجہ نہایت خوش شمائل و کریم و سخی و بردبار و خوش معاشرت، دانا و فراست والے تھے ان کا شمار اس عہد کے سیاست مداروں میں ہوتا تھا۔(فوات الوفیات، ج ۲ ،ص ۱۴۹ ، ابن شاکر چاپ مصر)

٭٭٭

فصل ہشتم

شاگردان خواجہ نصیر

خواجہ نصیر کے شاگرد

نصیر الدین طوسی جو کہ یگانہ روز گار دانش مند و مختلف علوم و فنون کے بحر ذخار تھے وہ ہر طالب علم کو اس استعداد و ظرف کے مطابق اپنے چشمہ پر جوش علم سے سیراب کرتے تھے۔ طوسی جہاں بھی رہتے تشنگان علوم ان سے فائدہ حاصل کرتے جن شہروں اور مختلف ممالک میں وہ آمدورفت رکھتے تھے چمکتے آفتاب کی گرمی بخشتے تھے۔ انہوں نے دنیا کو بہت زیادہ تعداد میں دانش مند بخشے اگر سب کی فہرست مرتب کی جائے تو پورے دفتر کی ضرورت ہو گی ہم یہاں ان کے چند شاگردوں کا مختصر ذکر کرتے ہیں

علامہ حلی

’’جمال الدین حسن بن یوسف مطہر حلی‘‘

معروف بہ علامہ حلی ۶۴۸ ھ میں حلہ (حلہ عراق میں نجف و کربلا کے درمیان ہے)میں متولد ہوئے شیعوں کے مشہور علماء و دانشمندوں بزرگوں میں ان کا شمار ہے جو علم کا خزانہ اور فضائل کا کھلیان تھے۔خاندانی لحاظ سے صاحب شرائع الاسلام جناب ’’محقق حلی‘‘ آپ کے ماموں اور ’’فخر المحققین ‘‘ آپ کے فرزند تھے۔ (ان کا لقب فخر الدین و فخر الاسلام بھی ہے آپ بھی حلہ میں پیدا ہوئے دس سال کی عمر میں تحصیل سے فارغ ہو کر درجہ اجتہاد پر فائز ہو گئے۔)

علامہ حلی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے شیعوں میں ’’آیت اللہ ‘‘ کا لقب حاصل کیا اور عالم تشیع کے لئے بہت تکلیف اٹھائی اور ان کی خدا شناسی و خدا جوئی پر مشتمل افکار سے بے شمار انسان شیعہ ہوئے ۷۸ سال کی عمر بابرکت پائی اور ۷۶۲ ھ میں واصل بحق ہوئے۔ ان کے قیمتی آثار فقہ، اصول، فلسفہ،کلام، تفسیر،حدیث و رجال میں یادگار ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

کشف المردا: یہ کتاب خواجہ نصیر الدین طوسی کی ’’تحرید الکلام‘‘ کی شرح ہے۔ تجرید الکلام کی مختلف شرحیں لکھی گئی ہیں منجملہ اس کے شرح ’’ملا علی قوشجی‘‘ کا نام آتا ہے۔ قوشجی بزرگان اہل سنت میں سے ایک ہیں ان سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ فرماتے تھے۔

’’اگر خواجہ کے عرب شاگرد (مراد علامہ حلی) نے تجرید الکلام کی شرح نہ لکھی ہوتی تو لازمی طور پر تجرید کا اجمال حل نہ ہوتا اور اس میں سے کچھ بھی سمجھا نہ جا سکتا۔‘‘ (کتاب قصص العلماء، ص ۳۸۲ مرزا محمد تنکاینی)

باب حادی عشر۔ یہ کتاب علم کلام میں ہے اور کتاب منہاج الصلاح علامہ حلی کا گیارہواں باب ہے۔

پہلے علامہ حلیؒ نے شیخ طوسیؒ کی مشہور کتاب ’’مصباح المتہجد‘‘ کو اختصار کے ساتھ منہاج الصلاح نامی کتاب میں سمو دیا پھر اس کو دس بات کا اضافہ کیا جس میں علم اصول اعتقادات ہیں اس طرح ’’ باب حادی عشر‘‘ دراصل کتاب منہاج الصلاح کا گیارہواں ہے۔

جوہر النضید۔ خواجہ نصیر کی کتاب منطق’’تجرید‘‘ کی شرح (علامہ حلی دیگر چند کتب درج ذیل ہیں :تذکرہ الفقہاء، تبصرة المتعلمین فی احکام الدین، مدارک الاحکام، قواعد الاحکام، نہایتہ الاحکام، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ درعلم فقہ۔ و کتب مبادی الاصول فی علم الاصول، نہج الوصول فی علم الاصول، نہایت الوصول الی علم الاصول درعلم الاصول، و کتب بسط الاشارات، ایضاح المعضلات من شرح الاشارات، الاشارات الی معانی الاشارات، یہ تینوں کتابیں ابن سینا کی اشارات کی شرح ہیں۔)

ابن مثیم بحرانی

کمال الدین مثیم بن علی بن مثیم بحرانی۔

حکیم، ریاضی دان، متکلم و فقیہ بحرین میں ۶۳۶ ھ میں متولد ہوئے اور بڑے بڑے علماء مثل علامہ سید ابن طاؤس کے محضر میں کسب علم و کمال کیا۔ اگرچہ انہوں نے حکمت میں خواجہ نصیر کی شاگردی اختیار کی تھی مگر وہ ان کے فقہ کے شاگرد مانے جاتے تھے ابن مثیم بحرین میں رہتے تھے اور بہت ہی قانع، خوددار، زاہد و عزت نفس کا خیال رکھنے والے دانش مند تھے۔ ان کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ مرد گوشہ نشین تھے اور علمی مجلسوں کے ہا و ہو سے دور تحقیق و تتبع میں لگے رہتے تھے ایک بار دوستوں کی دعوت پر بحرین سے حلہ پہنچے اور وہیں پر اپنے گراں قدر اثرات تحریر مثلاً شرح کبیر، شرح متوسط و شرح صغیر نہج البلاغہ کو مرتب کیا۔ ان کی قلندرانہ زندگی کا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے جو بے حد نصیحت آمیز بھی ہے:

اے آستین تو کھا

تاریخ کے مردان علم جود و صاحبان فضیلت کی ہمیشہ یہ خصلت رہی ہے کہ وہ تہہ دست ہوتے تھے۔ ابن مثیم بھی سخت زندگی گزارتے اور معمولی و کہنہ لباس زیب تن کئے رہتے تھے اور اسی ہئیت و لباس میں حلہ کے بزرگوں، امر اء دانش مندان کی مجلسوں میں پہنچ کر آخری کنارے پر جا بیٹھتے تھے۔ اس مجلس میں فقہی و علمی مسائل پر غور و فکر ہوتا تھا اور طلاب علماء مختلف مسائل علمی پر بحث و گفتگو کرتے تھے۔ ابن مثیم اس بحث میں شریک ہوتے اور اپنی مضبوط دلیلوں سے حضار و مباحث افراد کے نظریات کو رد کر دیتے اور مختلف علوم کے سوالات کا بالکل درست جواب دیتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے علمی تبحر کو نمایاں کر دکھایا تھا مگر کہنہ لباس اور پیوند لگے ہوئے کپڑوں کی وجہ سے حاضرین مجلس کی سرد مہری کا شکار رہتے تھے۔

طلاب علوم اور دانش مند مجلس میں لباس ہائے فاخرہ پہنے بیٹھے تھے اور ابن مثیم کا دوست و متیقن جواب ان پر گراں گزر رہا تھا لہٰذا ان لوگوں نے صرف اس وقت صرف بے توجہی نہیں بلکہ دل آزاری شروع کر دی اور ان کو حقیر گرداننے لگے۔ ایک شخص نے ابن مثیم کی طرف رخ کر کے کہا مجھے لگتا ہے کہ تم طالب علم ہو۔ ابن مثیم اس دن خاموشی سے باہر نکل گئے اور دوسرے دن ایسا قیمتی لباس پہن کر آئے جس کی آستینیں بہت چوڑی تھیں۔ ان کے سر پر بڑا عمامہ تھا۔ تمام حاضرین اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو مجلس میں آگے لے جا کر بٹھایا۔ علمی بحث کے درمیان ابن مثیم عمداً کمزور و سست جواب دیتے تھے مگر لوگ ان ہی جوابات کو مناسب و صحیح بتاتے تھے۔

جب دوپہر کا کھانا چنا گیا تو ابن مثیم کو مجلس میں بہترین جگہ دی گئی اس وقت انہوں نے اپنی ایک آستین کو دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر کہا کہ کھا اے آستین !حاضرین نے پوچھا کہ آپ کا مطلب کیا ہے ابن مثیم نے جواب دیا کہ میں تو تمہارا وہی کل والا دوست ہوں اگر یہ آستین و نیا لباس نہ ہوتا تمہارا یہ احترام مجھے ہر گز نہ ملتا۔ جب لوگوں نے بات سمجھی تو خجل و شرمندہ ہوئے اور اپنی غلطی تسلیم کی۔(استفادہ از کتاب فلاسفہ شیعہ، ص ۲۴۸ ، شیخ عبداللہ نعمہ۔ ترجمہ جعفر غضبان۔

قطب الدین شیرازی

محمود بن مسعود بن مصلح شیرازی۔ جو قطب الدین شیرازی کے نام سے مشہور ہیں خواجہ نصیر الدین کے نامور شاگردوں میں سے ایک تھے۔

قطب الدین ۶۳۴ ھ میں شیراز میں متولد ہوئے اور اپنے والد ضیاء الدین مسعود بن مصلح کازرونی کے ساتھ جو مشہور طبیب تھے۔ اور مظفری اسپتال شیراز میں تدریس و معالجہ میں مشغول تھے، ابتدائی تعلیم کے مراحل ختم کئے وہ ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے مگر چودہ سال کے نہ ہوئے تھے کہ باپ کا انتقال ہو گیا اور وہ طبابت و تدریس دونوں میں باپ کے جانشین ہوے۔ چنانچہ دس سال تک اسی اسپتال سے منسلک رہے مگر مزید تحصیل علم کے شوق سے مجبور ہو کر اسپتال کو خدا حافظ کہا اور اپنے چچا کمال الدین ابوالخیر بن مصلح کازرونی سے کتاب ’’قانون ابن سینا‘‘ پڑھنے کے لئے ان کے درس میں حاضر ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے خراسان اصفہان، بغداد و روم کا سفر کیا اور خواجہ نصیر الدین (جن کا اس زمانے میں عالم گر شہرہ تھا) کے سامنے زانوئے ادب تہ کر کے علم ہئیت و اشارات بو علی کا درس لیا۔

قطب الدین خود اپن کتاب میں لکھتے ہیں :

مجھے مظفری اسپتال میں طبیب کی نوکری مل گئی چونکہ چودہ سال کی عمر میں مجھے باپ کی موت کا صدمہ سہنا پڑا تھا اس لئے میں دس سال تک اسی حالت میں زندگی بسر کرتا رہا۔ دوسرے طبیبوں کی طرح مجھے بھی نہ تو مطالعات کی فرصت و مجال تھی اور نہ علاج و معالجہ کا وقت تھا لیکن میرا حوصلہ مجھے ابھارتا تھا کہ یہاں سے نکلے بغیر اس راہ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ نہ سکوں گا۔ پس میں نے آغاز تحصیل کو علم کر دیا اور کلمات قانون کو اپنے چچا سلطان حکماء و پیشوانی فضلا کمال الدین ابو الخیر بن مصلح کازرونی سے پڑھا اور شمس الدین محمد بن احمد کیشی حکیم اور شیخ کامل شرف الدین زکی بوشکانی کی خدمت میں حاضر ہوا کہ یہ دونوں اساتذہ کتاب مذکورہ کو بامغز و پوست پڑھانے، مشکلات و نکات سخت کو آسانی سے حل کرنے میں شہرت رکھتے تھے لیکن چونکہ یہ کتاب اسفن میں دشوار ترین کتاب ہے اور اس کو سمجھنا مشکل ہے۔ کتاب تین علمی باریکیاں، حکمت کے لطائف اور عجیب و غریب نکات اور اسرار و رموز بھرے پڑے ہیں جس سے انبائے روزگار اس کے ادراک میں بالکل ناتوان و حیران رہتے ہیں اور ان کی ہمت و حوصلے اس کی اوج کمال تک پہنچنے میں جواب دے دیتے ہیں کیونکہ یہ کتاب افکارو آراء متقدمین میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور ساتھ ہی ان باریک ترین و بہترین نکات پر مشتمل جو متاخرین نے دریافت کئے ہیں اس لئے میں نے ان سے کسی کو نہیں پایا کہ پوری کتاب کو سمجھنے و سمجھانے میں ماہر ہو۔ حتی کہ وہ شرح بھی جو امام فخر الدین رازی نے کی ہے مجھے دستیاب ہوئی مگر مشکل کو حل نہ کر سکی کیونکہ امام رازی نے شرح کے بدلے تمام کتاب یا چند اجزاء پر اعتراضات و جرح سے کام لیا ہے اسی طرح شرح امام قطب الدین مصری و افضل الدین گیلانی و نجم الدین نخجوانی سے بھی ہیں کچھ استفادہ نہیں کر سکا۔ مجبور ہو کر میں نے شہر دانش و حکمت کا رخ کیا وفیلسوف والا منزلت استاد نصیر الدین کے حضور میں پہنچا۔ تاکہ میری مشکلات حل ہو جائیں لیکن ان میں سے کچھ بھی باقی رہ گئیں تو میں نے خراسان کا سفر کیا پھر عراق گیا وہاں سے بغداد اور بالآخر بلاد روم پہنچا اور اس شہر کے حکیموں سے مباحثہ کیا وہاں کے طبیبوں سے ملاقات کی اور اپنی علمی مشکلات کو ان کے سامنے پیش کیا اور جو کچھ ان کے پاس تھا اس سے فائدہ اٹھایا اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان میں سے کوئی بھی اس پر دسترس نہیں رکھتا لیکن اس تمام کوشش و گردش سفر کے بعد جب میں نے غور کیا تو پتہ چلا کہ میرے مجہولات (نامعلوم)بیشتر میرے معلومات ہی میں سے ہیں حتیٰ کہ ۶۱۸ ھ میں مصر کے ملک منصور قلادون الفی صالحی کی خدمت میں رسائی ہوئی اور وہاں میں نے کلیات قانون کی تین کامل شرحیں پائیں پہلی فیلسوف محقق علاء الدین ابو الحسن علی بن ابی الحزم قرشی معروف بہ ابن نفیس کی تھی دوسری طبیب کامل یعقوب بن اسحق السامری منظبب کی اور تیسری حاذوق ابو الفرج یعقوب ابن اسحاق منظبب مسیحی معروف بہ ابن القف کی۔

اسی طرح میں نے جواب ہائے سامری کو پڑھا جو اس نے طبیب نجم الدین بن مفتاح کو دئے تھے اور تنقیح القانون پڑھی جو ہیبتہ اللہ بن جمیع الیہودی نے لکھا تھا اور اس میں شیخ الرائیس (بو علی سینا ) کو تردید کی گئی تھیں اس کے علاوہ او ر بھی شرحوں و تردیدوں کو دیکھا اور مطالعہ کیا کہ کتاب کی جو مشکلات رہ گئی تھیں وہ مجھ پر آشکار ہو گئیں اور اس طرح کوئی تردد و اشکال یا ابہام نہیں رہ گیا نہ کوئی محل قیل و قال۔ اور جب میں نے یہ دیکھا کہ مجھ سے زیادہ کوئی بھی اس کتاب پر مسلط و آگاہ نہیں ہے تو میں نے اس کی شرح اور مشکلات توضیح نے کتاب کے مبہمات کی تحریر اور فوائد کو زیادہ کرنا مناسب و موافق مصلحت خیال کیا۔(تاریخ فلاسفہ ایرانی، ص ۲ ۔ ۴۶۱ ،ڈاکٹر اصغر حلبی، بنقل از مقدمہ کتاب التحفتہ السعدیہ قطب الدین شیرازی)

اس کے بعد قطب الدین تبریز جا کر بس جاتے ہیں اپنی عمر کے آخری ۱۴ سال تالیف و تحقیق میں گزار کر ۷۱۰ ھ میں عالم روحانی کی طرف چلے جاتے ہیں۔

علوم میں ان کی یادگار موجود ہے علم طب میں ’’قانون ابن سینا ‘‘ کی شرح پانچ جلدوں میں بنام ’’التحفۃ السعدیہ‘‘ ہے۔ ان کی دوسری معرکۃ الآرا تصنیف ’’فتح المنان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے جو چالیس جلدوں میں مکمل ہوئی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ قطب الدین شیرازی سے شیعوں اور سنیوں کے مجمع میں سوال کیا گیا کہ علیؓ و ابو بکر میں کون افضل ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا ’’خیر الوریٰ بعد النبی من نبتہ فی بیتتہ‘‘(تاریخ فلاسفہ ایرانی، ص ۴۶۶ ھ، ڈاکٹر علی اصغر حلبی)۔یعنی پیغمبر کے بعد بہترین مخلوق وہ ہے کہ اس کی بیٹی اس کے گھر میں ہو یہ کلام ایسا ہے جو علی علیہ السلام پر شامل ہے اور ابو بکر پر بھی۔

ابن فوطی

کمال الدین عبدالرزاق شیبانی بغدادی۔یہ حنبلی مسلک کے تھے ان کی عرفیت ابن فوطی یا ابن الصایونی ہے۔ آپ نصیرالدین طوسی کے معروف شاگردوں میں سے تھے ۸۱ سال کی عمر پائی اور تمام زندگی بہت زحمت و تکلیف اٹھا کر مسلمانوں کی خدمت انجام دی۔ ابن فوطی ۶۴۲ ھ میں شہر بغداد ہی میں وفات پائی مگر ان کا اصلی وطن خراسان تھا۔

فتح بغداد کے وقتان کی عمر ۱۴ سال سے زیادہ نہ تھی کہ مغلوں کے اسیر ہو گئے اور ۶۶۰ ھ میں چار سال قید رہ کر رہائی پائی اور خواجہ نصیر الدین سے وابستہ ہو گئے ابن فوطی سے بہت علماء نے فیض حاصل کیا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوئے مراغہ میں وہ دس سال تک رصد گاہ کے کتاب خانہ کے نگراں و ملازم رہے اور اپنی علم و دانش دوستی کے باعث کتاب خانہ مستنصریہ بغداد میں بھی مشغول خدمت رہے۔

ابن فوطی تحریر نگارش میں تبحرو مہارت رکھتے تھے وہ مدتوں اسی طرح گزران کرتے رہے۔ وہ درجہ اعلیٰ کے خطاط بھی تھے چنانچہ خوش خطی کی ہنر سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے قلم سے بہت سی کتابیں لکھیں۔

جن میں سے ایک خواجہ نصیر کی ضخیم کتاب ’’زیج ایلخانی ‘‘ کا نام لینا کافی ہے۔

وہ ایک تاریخ نویس تھے اور اپنے عہد کے واقعات کے عینی شاہد بھی تھے۔ اس لئے (ساتویں صدی) کے حالات جو انہوں نے لکھے ہیں اس کی بڑی اہمیت ہے او ر اس کا شمار ساتویں صدی کی اولین تاریخ کتب میں ہوتا ہے اہل سنت کے تاریخ نویسوں نے ان کو ’’فیلسوف مورخین‘‘ کا نام دیا ہے۔ ان کی کتابیں ان کی سخت کوشی، بیش از بیش زحمات کی دلیل ہیں چنانچہ ان کی کتاب معجم الادب پچاس جلدوں پر مشتمل ہے ان کی دیگر دو معروف تر کتابیں ’’الحوادث الجامعہ‘‘ و ’’تلخیص معجم الالقاب‘‘ بھی ہیں۔

سید رکن الدین استر آبادی

حسن بن محمد شرف شاہ علوی استرآبادی بھی خواجہ طوسی کے معروف شاگردوں میں سے تھے جو ۶۴۰ ھ میں پیدا ہوئے اور ۷۵ سال کی عمر میں ۷۱۵ میں فوت ہو گئے۔

کتابوں میں ان کا تعارف بطور شخص متواضع و صبور اور امرائے مغل کے نزدیک لائق و احترام و منزلت کیا گیا ہے۔ سید رکن الدین نے مدتوں خواجہ نصیر سے مراغہ میں استفادہ علمی کیا۔ اور وہ خواجہ نصیر کے سفر بغداد ۶۷۲ ھ میں ان کے ہمراہ تھے۔ ان کے آثار میں شرح مقدمہ ابن حاجب، حاشیہ بر تجرید الکلام خواجہ نصیر اور شرح قواعد العقائد خواجہ کا نام لیا جا سکتا ہے آخر الذکر کتاب انہوں نے طوسی کے کسی بیٹے کے لئے لکھی تھی۔

مرحوم محدث قمی نے ان کو نصیر الدین طوسی کے اصحاب خاص میں شمار کیا ہے اور ان کی وفات و مزار شہر تبریز میں بتائی ہے۔ (فوائد رضویہ، ص ۱۲۱ ، محدث قمی)

خواجہ نصیر کے دیگر شاگرد جن کا نام کتب تاریخ علماء میں ہیں ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:

عماد الدین، ابو علی عبداللہ بن محمد بن عبدالرزاق جربوی بغدادی حاسب معروف بہ ابن الخوام، متولد سال ۶۴۳ وم توفی سال ۷۲۸ دربغداد۔

چموئی، ابراہیم بن شیخ سعد الدین محمد بن موید ابی بکر بن شیخ ابی عبداللہ محمد بن حمویہ بن محمد جیونی، متولد سال ۶۴۴ و متوفی ۷۳۲

اثیر الدین اومانی، قریہ اومان جو ہمدان کی پاس ہے ان کو بطور ایک شاعر و اہل فن پہنچوایا گیا ہے جن کے فارسی دیوان میں پانچ ہزار اشعار ہیں۔

مجد الدین ابو الفتح محمد بن محمد طوسی

مجد الدین ابو علی عبدالمجید بن عمر حارثانی

مجد الدین الیاس بن محمد مراغی

فخر الدین لقمان بن محمد مراغی

مکتب خواجہ نصیر میں جن کے دیگر دانش مندوں نے زانوئے ادب تہہ کیا اور ان کے علم و دانش سے بہرہ مند ہوئے اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم نے ان کا نام نہیں لکھا زیادہ معلومات کے لئے ابن فوطی کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔ (الحوادث الجامعہ وتلخیص الالقاب ابن فوطی)

٭٭٭