خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی0%

خواجہ نصیر الدین طوسی مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف: قم مرکز تحقیق باقر العلوم
زمرہ جات:

مشاہدے: 14184
ڈاؤنلوڈ: 2415

تبصرے:

خواجہ نصیر الدین طوسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14184 / ڈاؤنلوڈ: 2415
سائز سائز سائز
خواجہ نصیر الدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی

مؤلف:
اردو

فصل نہم

دانش و آثار خواجہ نصیر

سات سو برس سے زیادہ ہو گئے مگر آج بھی طوسی کے آثار علم و دانش و وسعت معلومات سے استفادہ جاری ہے۔

طوسی بہت سے عصری علوم بالخصوص فلسفہ و ریاضی میں صاحب نظر تھے۔ کلام منطق، ادبیات، تعلیم و تربیت اخلاق، فلک شناسی و رمل وغیرہ میں ایک مقام رکھتے تھے اور ان علوم میں انہوں نے اپنے آثار بطور یاد گار چھوڑے ہیں۔

بزرگان علم و دانش نے ان کی علمی بلندی کا اعتراف مختلف الفاظ سے کیا ہے جیسے استاد بشر، افضل علماء سلطان فقہاء، سرآمد علم، اعلم نویسندگان، عقل حادی عشر معلم ثالث وغیرہ۔

مخالفین و غیر مسلمین نے ان کی جو تمجید و تعریف کی ہے وہ لائق توجہ اور خواجہ کے توسیع علم و دانش کا ثبوت ہے ان کی شہرت اسلامی سرحدوں کے پرلے ہے غیر مسلم اہل علم و دانش بھی اس بزرگ شخصیت کے بارے میں زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے۔

جرجی زید اس موضوع پر لکھتا ہے:

اس ایرانی کی ذریعہ حکومت و علم مغلوں کی سلطنت کے ہر دور دراز علاقوں میں یوں پہنچ گیا کہ تم کہو گی کہ رات کی تاریکی میں نور تاباں تھا۔(آداب اللغۃ العربیہ، ج ۳ ، ص ۲۳۴ فوائد رضویہ، ص ۶۰۳ محدث قمی)

(’’فزھا العلم فی بلاد المغول یدھذا الفارسی کانہ قبس منیر فی ظلمتہ مدلھمد‘‘

جرمن ادیب ’’بروکلمن‘‘ تاریخ ادبیات میں ساتویں صدی کے دانش مندوں کے بارے میں لکھتا ہے:

اس عہد کے مشہور ترین علماء و مولفین میں مطلقا و بلا شک نصیر الدین طوسی سر فہرست ہیں۔(سرگذشت و عقائد فلسفی خواجہ نصیر، ص ۸۱)

خواجہ کے علم و دانش سے گہری وابستگی کا حال یہ تھا کہ وہ لحظ بھر آرام سے نہیں بیٹھتے تھے اور سیاسی و اجتماعی کاموں میں مشغولیت کے باوجود قلم ان سے جدا نہیں ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ اسماعیلیوں قلعوں میں جب وہ اپنی زندگی کے درد ناک و اذیت ناک ترین لمحات گزار رہے تھے قلم و کتاب ان کی شب و روز کے مونس و غم گسار تھے۔ نابغہ روز گار افراد کے لئے علم و دانش ایک گمشدہ سرمایہ ہوتا ہے جس کی جستجو میں وہ ہر لمحہ بڑی سے بڑی زحمت گوارہ کر لیتے ہیں اور خواب و خوراک کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔

لوگوں نے خواجہ نصیر الدین طوسی کے بارے میں لکھا ہے کہ جب ان کو کوئی مشکل مسئلہ عملی پیش آتا تو اسے حل کرنے کی فکر میں لگ جاتے جب کبھی رات کے آخری حصہ میں کوئی مسئلہ صاف و روشن ہو جاتا تو وہ خوشی سے حالت و جد میں پہنچ جاتے اور کہتے این الملوک وابناء الملوک من ہذہ اللذة یعنی بادشاہان و شہزادگان کہاں ہیں وہ آئیں اور میں اس وقت جس لذت کا احساس کر رہا ہوں اسے دیکھیں گے کہ وہ لوگ جو لذت امور حسی میں پاتے ہیں اس سے یہ کہیں زیادہ لذیذ ہے۔ (فلسفہ اخلاق، ص ۸۰ ، شہید مطہری)

خواجہ کی دانش کا ایک واقعہ

خواجہ نصیر الدین طوسی کے زمانے میں اہل تسنن کے بزرگ علماء میں سے ایک ملا قطب الدین شیرازی کا حلقہ درس ایسا تھا جس میں اہل علم شریک ہوا کرتے تھے۔ ایک روز خواجہ نصیر بھی اس مجلس میں بھیس بدل کر پہنچ گئے اور آخری کونے پر بیٹھ کر ملا قطب الدین کی تقریر سننے لگے اور پھر چپ چاپ اپنے گھر چلے گئے۔ ایک شخص خواجہ کے پاس بیٹھا تھا اس نے انہیں پہچان لیا اور اپنے استاد سے بولا کہ جو شخص میرے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا وہ خواجہ نصیر تھا۔ ملا قطب الدین نے کہا کہ وہ کل صبح بھی یقیناً آئیں گے۔ میں سوچتا ہوں کہ ان سے اس علم میں بحث کروں جس سے وہ نابلد ہوں۔ شاگردوں نے استاد سے کہا کہ ہر علم میں ان کی تالیفات موجود ہیں مگر علم طب سے وہ ناآشنا ہیں اور اس بارے میں انہوں نے کچھ نہیں لکھا ہے۔ ملا قطب الدین نے حکم دیا کہ کل ان کے شاگرد قانون ابن سینا لائیں تاکہ اس میں سے ’’نبض‘‘ کا درس شروع کیا جائے۔ صبح ہوئی شاگرد جمع ہو گئے اور ملا قطب الدین نے بحث ’’نبض‘‘ کی تدریس شروع کر دی اور ابن سینا پر بہت سے اعتراضات وارد کئے، اپنی تحقیقات و نظر کو پیش کیا اس کے بعد اس شاگرد سے پوچھا جو خواجہ نصیر کے پاس بیٹھا تھا۔ سمجھ گئے؟ شاگرد نے کہا جی ہاں سمجھ گیا۔ ملا قطب الدین نے کہا کہ تو پھر اس کی تقریر کرو۔ اس نے تقریر شروع کی تو درمیان اس کی زنان لکنت کرنے لگی۔خواجہ نصیر نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں۔

ملا قطب الدین نے کہا کہ تم بھی سمجھ گئے انہوں نے کہا ہاں ملا قطب الدین بولے تو بیان کرو۔

خواجہ نے کہا جو اعتراضات آپ نے وارد کئے ہیں میں اسے ہی بیان کر دوں یا جو حق ہے اسے کہوں۔ ملا قطب الدین نے کہا پہلے میری تقریر دہرائی جائے پھر اس کے اشکالات اس کے بعد اپنا نظریہ بیان کرنا۔

خواجہ نے استاد کی گفتگو نقل کی اور ان کے شبہات کو بیان کا اس کے بعد جو حق و درست تھا اس کی تقریر کر دی۔

ملا قطب الدین فورا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے خواجہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ پر بیٹھا کران کا بہت احترام کیا اس کے بعد دونوں کے درمیان ’’امامت‘‘ کی بحث چھڑ گئی اور کافی لمبی گفتگو ہوئی۔

خواجہ نے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی خلافت ثابت کر دی اور ملا قطب الدین شیعہ ہو گئے۔ لیکن ایک مدت کے بعد وہ مذہب تشیع سے منصرف ہو گئے۔ تو خواجہ نے ان سے تین بار بحث کی تو قطب الدین نے سر تسلیم خم کر دیا اور مذہب تشیع قبول کر لیا مگر بعد میں پھر پلٹ گئے۔

چوتھی بار خواجہ نے ان سے بحث کرنا چاہی تو ملا قطب الدین نے کہا ’’ مجھ میں تم سے مناظرہ کی طاقت نہیں ہے‘‘ اپنے کسی شاگرد سے کہو کہ مجھ سے بحث کرے۔ اگر اس نے مجھے شکست دے دی تو پھر ایسا شیعہ بن جاؤں گا کہ دوبارہ قدیم مسلک پر کبھی نہ پلٹوں گا۔ خواجہ نصیر نے اپنے ایک شاگرد کو حکم دیا کہ ان سے مباحثہ کرو۔ ملا قطب الدین مناظرہ میں مغلوب ہو گئے اور مذہب حقہ تشیع میں ایسے داخل ہوئے کہ پھر کبھی اس مذہب سے برگشتہ نہ ہوئے۔ (قصص العلماء، ص ۳۷۳ مرزا محمد تنکاینی)

خواجہ کی ریاضی دانی

بلاشبہ خواجہ کی زندگی کا ایک اہم و نمایاں رخ ان کی ریاضی دانی تھی آج تک انہیں الجبرا، حساب، ہندیہ، جیومیٹری اور علوم ریاضی کے جملہ شعبوں کا ایک عظیم عالم مانا جاتا ہے اور اسی سبب سے مغرب کے بڑے بڑے دانش مندوں نے انھیں ریاضی دان ہی سمجھا ہے اس کے علاوہ دیگر علوم میں خواجہ کی مہارت کا حال ان پر کھلا ہی نہیں۔ اگر خواجہ کی علم ریاضی میں خلاقیت و فطانت کا منظر دیکھنا ہو تو کتاب ’’الشکل القطاع‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے خواجہ نے اس کتاب کے ذریعہ علم ریاضی میں اپنی برتری کو عصر حاضر و عہد گذشتہ کے تمام دانش مندوں پر ثابت کر دیا ہے انہوں نے مثلثات کو علم فلک سے جدا کیا اور پھر ہر ایک مقولہ کو جدا گانہ شمار میں لائے۔ طوسی پہلے ریاضی داں ہیں جنہوں نے مثلث کروی کی چھ حالتوں کو قائم الزاویہ مثلث کے ذریعہ کام میں لیا اسی طرح ہندسہ (جیومٹری) کی دیگر شکلوں میں بھی انہوں نے اختراع کی ان کے نظریات و آثار موجود ہیں جن کی تعداد ۳۵ تک پہنچتی ہے یہ بات اس حقیقت کو بتاتی ہے کہ اگر تاریخ کے پورے دور میں علم ریاضی میں بے مثال نہیں تو کم مثال و نظیر ضرور تھا۔

فلسفہ اور خواجہ

اشارات بو علی سینا کے رموز کو حل کرنے میں طوسی کو عمیق و بلند فکر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے انہوں نے مشائین (مشائین راستہ چلنا اصطلاحاً وہ فلاسفہ جو صرف عقل و استدلال پر تکیہ کرتے اور ارسطو و بو علی سینا کے پیرو ہیں بخلاف اشراقیوں کے جو افلاطون و سہروردی کے پیرو ہیں وہ صرف عقل و استدلال سے کام نہیں لیتے بلکہ اس کے لئے سلوک قلبی و مجاہدات نفسی کو بھی لازم جانتے ہیں۔) کے فلسفے کو محکم و استوار کرنے میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے وہ ان کی عملی و فلسفیانہ قدرت کا مظہر ہے۔

خواجہ نے اشارت (انتشارت بو علی سینا کی آخری کتاب ہے جیسا کہ کتاب کے نام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت ہی مہم و دقیق فلسفی منطق و عرفانی مطالب پر مشتمل ہے۔) بو علی سینا کی جو شرح لکھی ہے اس میں نہ صرف ارسطو و افلاطون کے نظریات کو جو اس زمانے میں علمی ستون بن چکے تھے اسلامی فلسفہ سے خارج کیا بلکہ امام فخر الدین رازی کے اشکال و اعتراض کا جواب بھی دیا جو تنقید و اشکال وارد کرنے میں اتنے حساس و دقیق تھے انہیں امام المشککین کہا جاتا تھا۔

فخر الدین رازی کے اشکالات و شبہات کا سامنا بہت دنوں تک کوئی نہیں کر پاتا۔ وہ ابن سینا کے افکار پر متعصبانہ انداز میں حملہ کرتے تھے اور مشائین خصوصاً بو علی سینا پر اعتراضات کی بھرمار کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کے توسط سے اسے مختلف ممالک اسلامی میں شایع و منتشر کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ بو علی کے افکار سے لوگوں کی توجہ کم ہو گئی لیکن اسی اثناء میں خواجہ نصیر میدان میں وارد ہو گئے ایک عظیم دانش مند جو خاندان پیغمبر و اہل بیتؓ معصوم کا پیرو تھا انہوں نے فخر رازی ’’جو بزرگان اہل تسنن میں سے تھے‘‘ کے تمام اعتراضات و شبہات کا ایک ایک کر کے جواب دے دیا۔ بعد میں خواجہ نے شرح اشارات لکھ کر بو علی سینا کے افکار و مسلک میں دوبارہ جان ڈال دی اور اس کے چہرہ سے گمنامی کا غبار صاف ہو گیا بلکہ اس نے آنے والے زمانوں میں بھی اپنی راہ بنا لی۔ اور ایسی کہ آج بو علی کا نام فلسفہ دیار اسلامی کی بلند چوٹی پر درخشندہ ہے۔

طوسی اور علم کلام

علوم اسلامی میں سے ایک علم کلام بھی ہے جس میں عقائد کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔ چونکہ اسلام ہمیشہ سے الحادی افکار و نظریات سے گہرا رہا اس لئے ابتدا ہی سے قرآن و پیغمبر اسلام و اصحاب۔ و ائمہ اطہار علیہم السلام کی نظر میں یہ عمل مورد توجہ رہا اور سب نے اس کی طرف توجہ دی اس بنا پر اس علم کی تاریخ اسلام کے ہم رکاب رہی ہے اور تاریخ اسلام کے پورے دور میں یہ علم کئی مراحل سے گزرا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے فضل بن شاذان نیشا پوری تک جواصحاب امام رضا علیہ السلام میں بھی تھے پھر تیسری صدی میں خاندان نونجتی وابن قبہ رازی اور علی بن مسکویہ پانچویں صدی میں اس کے بعد ساتویں صدی یعنی خواجہ طوسی کے زمانہ تک علم کلام کا سفر جاری رہا ہے لیکن اس بزرگ و عظیم دانش مند کی وجہ سے علم کلام میں انقلاب عظیم آگیا اور طوسی نے ’’تجرید العقائد‘‘ نام کی پرمایہ و محکم ترین کلامی تحریر تصنیف کر دی اس کتاب نے علم کلام کے نئے افق اور نئے راستے کھول دئے آج تک یہ کتاب حوزہ ہائے علمیہ و اسلامی یونیورسٹیوں میں داخل درس ہے اور سات سو برس سے اپنی جاودانی حیثیت قائم رکھے ہوئے ہے۔

ایک سنی المذہب دانش مند کا اعتراف

’’فاضل قوشجی‘‘ اہل سنت کے بزرگ عالم و دانش مند جن کا فضل و کمال بیش از بیش ہے آپ بھی کتاب تجرید العقائد کے معروف شارحین میں سے ایک ہیں ان کی شرح عام طورپر شرح جدید کے نام سے مشہور ہیں آپ تجرید العقائد کی عظمت کے بارے میں لکھتے ہیں:

مخزون بالعجائب، مشحون بالغرائب، صغیرالحجم، جید النظم، کثیر العلم، جلیل الشان، حسن الانتظام، مقبول الائمہ العظام، لم یظفر بمثلہ علماء الامصار وھوفی الاشتھار فی رابعہ النھار(الکنی والالقاب، ج ۳ ، ص ۲۵۱ ، محدث قمی)

’’یعنی یہ کتاب عجائب کا خزانہ و غرائب کا انبار ہے چھوٹی سائز کی، خوبصورت و تنظم، بہت بلند دانش والی و بہت مرتب جسے بزرگ رہبروں و ائمہ نے قبول و تسلیم کیا علماء اس کا مثل نہ پائیں گے۔ یہ کتاب شہرت میں آفتاب نیم روز کی طرح درخشاں ہے۔‘‘

تعلیم و تربیت

خواجہ کے متعدد آثار ہیں ’’آداب المتعلمین‘‘ نام کا چھوٹا سا رسالہ ہے جو سالہا سال گزرنے کے بعد محصلین کا رہنما اور طالب علموں کے مقصد و طریقہ کار کو بتانے والا ہے۔ اگرچہ خواجہ کلام و ریاضی و فلسفہ کی دنیا میں غرق رہتے تھے اور آج بھی ان کی شناخت اپنے زمانے کے عظیم و بلند فکر دانش مندوں کی ہے اس کے باوجود وہ اپنی توجہ کو آداب تعلیم و تربیت سے باز نہ رکھ سکے۔

خواجہ نے اس رسالہ میں بہت باریک نکات اخلاقی کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی پابندی طالب علم کو آداب تعلیم و تعلم سکھا دیتی ہے یہاں پر ہم خواجہ کے ارشادات سے استفادہ کرنے کے لئے کتاب سے چند اقتباس نقل کریں گے۔

فصل چہارم کتاب جو طالب علموں کی کوشش و محنت سے متعلق ہے۔

خواجہ یہاں فرماتے ہیں

بزرگوں نے کہا ہے کہ ’’من طلب شیاء وجدوجد ومن قرع بابا ولحج ولحج‘‘

یعنی جو کوئی شے تلاش کرتا ہے اور اس میں کوشش کرتا ہے تو وہ اسے پا جاتا ہے اور جو کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور جما رہتا ہے تو مراد کو پہنچ جاتا ہے۔

نویں فصل میں دوسروں سے استفادہ کے تعلق سے فرماتے ہیں

’’کہا گیا ہے کہ ’’العلم مایوخذ من افواہ الرجال لانھم یحفظون احسن مایسمعون و یقولون احسن مایحفظون‘‘

یعنی علم و دانش ایسی چیز ہے جو دانش مندوں کے دہن سے لی جاتی ہے کیونکہ جو کچھ وہ سنتے ہیں اس کا بہترین حصہ یاد کر لیتے ہیں اور اسے دوبارہ سناتے ہیں۔

اس فصل میں وہ عمر و وقت سے استفادہ کی نصیحت کرتے ہیں

کہا گیا ہے کہ ’’اللیل طویل فلا تقصرہ بمنا مک والنصار مضیٰ لا تکدرہ باثامک‘‘

یعنی رات طولانی ہے پس اسے سو کر مختصر نہ کر اور دن روشن ہے اسے اپنے گناہوں سے تیرہ تار نہ کر۔

اسی باب میں کسب علم کی راہ میں فروتنی و انکساری کے بارے میں فرماتے ہیں :

کہا گیا ہے کہ ’’العلم عزلاذل فیہ ولا یدرک الا بذل لا عزفیہ‘‘

یعنی علم و دانش عزت و سر بلندی ہے اس میں ذلت و خواری کا گذر نہیں اور اس سے فروتنی کے سوا کچھ نہیں ملتا جس میں اکڑ پن بالکل نہ ہو۔

خواجہ کا ادبی پایہ

نصیر الدین کی جامعیت ایسی ہے کہ ہر علم و فن میں ان کا نام نظر آتا ہے شاید خواجہ نصیر ان کم نظیر ترین انسانوں میں ہوں جنہوں نے علم کے متعدد شعبوں میں اپنے قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں ادبیات و شعر گوئی نگارش میں بھی وہ ید طوبی رکھتے تھے

کتاب ’’الاخلاق ناصری‘‘ فارسی نثر کی شاہکار تحریروں میں سے ہے خواجہ نصیر جیسی محکم و کم نظیر شخصیت نے قلم بند کیا ہے اور اپنی مہارت و قدرت قلمی دکھائی ہے۔

طوسی صرف فارسی نثر ہی میں استاد نہیں تھے بلکہ شعر میں بھی اپنی ایک نظرو روش رکھتے تھے یہاں تک کہ علم عروض (عروض ایک ادبی اصطلاح ہے جو کلام کا معیار و میزان ہے جیسے نثر میں علم نحو میزان ہے)میں معیار الاشعار نامی کتاب مرتب کی جو اب تک سند کے طور پر مستعمل ہے۔

اشعار خواجہ

کتاب کے اس حصہ میں ہم اس دانش مند کے بعض ایسے اشعار نقل کریں گے جو ان کے افاکر و اندیشہ کا پتہ دیتے ہیں۔

موجود بحق ، واحد اول باشد

باقی ہمہ موہوم و مخیل باشد

ہر چیز جزاوکہ آید اندر نظرت

نقش دومین چشم احوال باشد

منم آنکہ خدمت تو کنم و نمی توانم

توی آنکہ چارہ من نکنی ومی توانی

دل من نمی پذیرد بدل تو یار گیرد

تبو دیگر چہ ماند تو بدیگری چہ مانی

لذاب دنیوی ہمہ ہیچ است نزد من

درخاطر از تغیر آن ہیچ ترس نیست

روز تنعم و شب و طرب مرا

غیراز شب مطالعہ و روز درس نیست

نظام بی نظام ار کافرم خواند

چراغ کذب را نبود فروغی

مسلمانان خونمش زیر کہ نبود

مکافات دروغی جز دروغی

اقبال را بقا نبود دل بر اومبند

عمری کہ در غرور گزاری ہبا بود

ور نیست باورتزمن این نکتہ گوشکن

اقبال راچو قلب کنی لا بقا بود

گفتم کہ دلم زعلم محروم نشد

کم ما نذر اسرار کہ مفہوم نشد

اکنون کہ بہ چشم عقل درمی نگر

معلوم مم شد کہ ہیچ معلوم نشد

ہر چند ہمہ ہستی خود می دانیم

چون کار بہ ذات می رسد حیرانیم

بالجملہ بہ دوک پیرہ زن می مانیم

سر رشتہ بہ دست ماوسر گردانیم

بسی تیرو دی ماہ اردیبہشت

بیا ید کہ ماخاک باشیم وخشت

بس می و زد مشک بو با رہا

کہ مارفتہ باشیم از یا دہا

اندر رہ معرفت بسی تاختہ ام

و اندر صف عارفان سرا فراختہ ام

چون پردہ زروی عدل براند اختہ ام

بشناختہ ام کہ ہیچ نشنا ختر ام

افسوس کہ آنچہ بردہ ام باختنی است

بشناختہ ہا تمام نشناختنی است

برداشتہ ام ہر آنچہ باید بگداشت

بگداشتہ ام ہر آنچہ برداشتنی است

خود اپنے سائے سے گھڑی، ساعت، وقت پہچاننے کے لئے ان کے یہ اشعار نقل کئے گئے ہیں:

چو خواہی بدانی تو ساعات روز

زمین مساوی طلب دل فروز

پس آنگہ ببین سایہ خویش را

قدم کن بدانی کم و بیش را

قدم چون شود بیست آنگہ چہار

بود ساعت اولین از نہار

شود سیزدہ چون قدم ای پسر

دو ساعت ازآن روز دانی دگر

ببین نہ قدم راسہ ساعت شناس

توشش را بیا چار دان بی قیاس

سیم گر بود ساعت پنجمن

ششم ظل ثانی زکل بر زمین

قدم چون سہ ماند بعد زوال

بود ساعت ہفتمین بی مثال

دگر شش قدم ہشت ساعت شمار

نہم ساعتش نہ قدم می شمر

دہم ساعتش دان دہ و دو قدم

دہ و چہارشد یازدہ بی الم

بساعت دہ و دو شو در غروب

خود عالم افروز دورا از عیوب

قرآن کریم کے قواعد سے متعلق یہ مشہور اشعار ان سے منسوب کئے گئے ہیں۔

تنوین و نون ساکنہ

حکمش بدان ای ہوشیار

کز حکم وی زینت بود

اندر کلام کرد گار

اظہار کن در حرف حلق

ادغام کن دریر ملون

مقلوب کن در حرف با

درما بقی اخفا بیار

خواجہ کے اشعار میں سے ایک قطعہ عمر خیام کے مشہور قطعہ سے مربوط ہے۔ خیام نے مسلک خبر پر کہا ہے۔

من می، خورم ہر کہ چون من اہل بود

می، خوردن من بہ نزدا وسہل بود

می، خوردن من، حق زازل می دانست

گرمی، نخور علم خدا جہل شود

اس کے جواب میں خواجہ نصیر نے فرمایا ہے۔

این نکتہ نگوید او اہل بود

زیرا کہ جواب شبہہ اش سہل بود

علم ازلی علت عصیان کردن

نزد عقلاء زغایت جہل بود

صرف فارسی ہی نہیں بلکہ خواجہ طوسی نے عربی زبان میں بھی اشعار کہے ہیں اسی میں مدح حضرت علی علیہ السلام کے یہ اشعار بھی ہیں ۔

لو ان عبدا اتی بالصالحات عندا

وود کل نبی مرسل دولی

وصام ما صام صوام بلا ملل

وقام ما قام قوام بلا کسل

وطاف بالبیت طوف غیر منتعل

و طاری فی الجولا یادی الی حد

وخاص فی البحر مامونا من البلل

واکسی الیتامی من الدیباج کلھم

واطعمھم من لذیذ البر والعسل

وعاش فی الناس الافا مولفہ

عار من الذنب معصوما من الزلل

ما کان فی الحشر یوم البعث منتفعا

الابحب امیر المومنین علی

یعنی اگر کوئی بندہ روز قیامت تمام اعمال صالحہ اور جملہ پیغمبروں و اماموں کی دوستی کے ساتھ آئے اس طرح کہ اس نے بغیر خستگی و بے دلی کے دن روزہ رکھا ہو۔ راتیں عبادت میں گزاری ہوں پا پیادہ (پیدل ) متعدد حج کئے ہوں اور خانہ کعبہ کا طواف کر چکا ہو، آسمان کے بلندیوں پر بلا توقف پرواز کرتا ہو، دریا میں جائے اور بھیگے نہیں تمام بیتوں ریشمی لباس پہنائے اور انہیں گیہوں کی روٹی و شہد کھلائے۔ ہزاروں سال بغیر لغزش و گناہ کے لوگوں میں زندگی بسر کرے پھر بھی روز قیامت اسے کوئی فائدہ نہیں ملے گا مگر یہ کہ علی علیہ السلام کا دوست دار ہو۔

آثار خواجہ نصیر

خواجہ نصیر نے اپنے زمانے کے پیشتر علوم و فنون پر اپنی یادگار پیش قیمت تحریریں چھوڑیں ہیں جس میں سے چند اب تک عملی محفلوں اور دانش گاہوں میں کتاب درس کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔

خواجہ نے اپنی اہم اور بڑی کتابیں اسماعیلی قلعوں میں رہ کر لکھیں اور کچھ بعض ایسے اوقات میں جب کہ وہ سیاسی و اجتماعی امور میں مشغول تھے۔

جہاں تک خواجہ کی ریاضی، فلسفہ ، علم الافلاک پر کتابوں کی گراں قیمتی کا سوال ہے اس لئے کہ یہ بتانا کافی ہے کہ ان کی بہت سی کتابوں کا انگریزی و فرانسیسی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

’’ابن شاکر‘‘ نے کتاب فوات الوفیات اور ’’صفدی‘‘ نے الوافی بالوفیات نے تقریباً چالیس تصانیف کا ذکر کیا ہے صاحب کتاب ’’احوال و آثار خواجہ ‘‘ جنہوں نے تمام لکھنے والوں سے زیادہ مفصل اس موضوع پر بحث کی ہے وہ ۱۹۰ تصنیفات بتائی ہیں ۔

ہم کتاب کی اس فصل میں ابتدا میں طوسی کی اہم تصانیف کا ذکر کریں گے اس کے بعد ان کی دیگر کتابوں کو گنائیں گے۔

تجرید العقائد۔ اس کتاب میں علم کلام کی بحث اور یہ نصیر الدین طوسی کی معروف ترین و بیش قیمت کتابوں میں سے ہے اس کے علمی مطالب کی بلندی و باریکی نے علماء و دانش مندوں کی توجہ کھینچ لی ہے اس کتاب کے مختلف حواشی و شرحیں لکھی کئی ہیں ان میں سے چند اہم کتب درج ذیل ہیں

’’کشف المرادفی شرح تجرید الاعتقاد‘‘ نوشتہ علامہ حلی یہ تجرید خواجہ کی پہلی شرح ہے اور اس میں علمی گہرائی و سنگینی بہت ہے اس طرح کہ تجرید کے شارحین میں سے ایک ملا قوشجی فرماتے ہیں کہ اگر علامہ کی شرح نہ ہوتی تو ہم خواجہ کی تجرید کو سمجھ نہ پاتے۔

تسدید القواعد۔ از شمس الدین اصفہانی یہ شرح ’’شرح قدیم ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

شرح تجرید۔ از ملا علی قوشجی (یکے از بزرگ علمائے اہل سنت ) علمائے کے درمیان اسے ’’شرح جدید ‘‘ کہا جاتا ہے۔

’’شوارق الا لہام فی شرح تجرید الکلام ‘‘نوشتہ مولیٰ عبدالرزاق لا ہیجی شاگرد ملا صدرای شیرازی۔

’’شرح اشارات‘‘ کتاب کا متن بزرگ فلسفی بو علی سینا کا ہے اس کی شرح کئی علماء نے لکھی ہیں۔خواجہ نصیر نے اس کی شرح تین جلدوں میں کی ہے اس فلسفہ ، منطق و عرفان وغیرہ کا مضمون سمویا ہوا ہے خواجہ کی اس شرح پر علامہ حلی ، قطب الدین رازی و عبدالرزاق لا ہیجی و دوسروں نے تعلیقات لکھے ہیں۔ (متن و شرح دونوں عربی زبان میں ہے )

قواعد العقائد۔ اصول عقائد میں مختصر سی کتاب ہے اس کی بھی شرحیں لکھی گئی ہیں منجملہ ان کے علامہ حلی کی ’’کشف الفوائد ‘‘ بھی ہے۔

اخلاق ناصری۔ یہ کتاب علم اخلاق میں ہے یہ ابو علی مسکویہ کی کتاب الطہارہ عربی کا فارسی میں ترجمہ ہے جسے خواجہ ناصرالدین محتشم قہستان کے لئے لکھ کر اس کا نام اخلاق ناصری رکھ دیا

اوصاف الاشراف۔ فارسی زبان میں سیر و سلوک و تصوف لکھی گئی۔

آغاز و انجام ۔ میبداء و معاد(آغاز انجام) کے موضوع پر فارسی میں ہے۔

تحریر مجسطی۔ اصل کتاب ’’حکیم بطلیموس یونانی کی تحریر ہے دوسری صدی عیسوی میں تھا اس کتاب کا موضوع علم ہئیت ہے جسے خواجہ نے تحریر کیا ہے۔ (تحریر کا مطلب ہے دوسروں کی کتاب کی تصحیح یا تلخیص ہوتا ہے۔)

تحریر اقلیدس ۔ علم ہندسہ (جیومیٹری )میں ہے ۔ طوسی نے اس کتاب میں اقلیدس کے بر خلاف قضیہ فیثاغورث کے لئے سولہ مور د خاص ترتیب دئے ہیں۔

تجرید المنطق۔ علم منطق میں عربی رسالہ اس کی متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں جس میں سبسے اہم شرح علامہ حلی بنام ’’جوہر النضید‘‘ ہے۔

اساس الاقتباس ۔ یہ بھی علم منطق میں ہے ۔ شفاء بو علی سینا کے بعد اس علم کی مہم ترین کتاب یہی ہے۔

زیج ایلخانی۔ ہم ہیئت میں فارسی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب رصد خانہ مراغح کی تحقیقات کے حاصل کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔

طوسی کی کچھ اور کتابیں :

۱۲ آداب البحث فن تعلیم و تربیت

۱۳ آداب المتعلمین فن تعلیم و تربیت

۱۴ ۔ آغازو انجام حیوان و نبات و معاون و متفرقات

۱۵ ۔ اثبات بقاء النفس

۱۶ ۔ اثبات الجواہر

۱۷ ۔ اثبات العقل

۱۸ ۔ اثبات العقل الفعال

۱۹ ۔ اثبات الفرقتہ الناجیہ

۲۰ ۔ اثبات اللوح المحفوظ

۲۱ ۔ اثبات الواجب تعالیٰ

۲۲ ۔ اختیارات المہمات

۲۳ ۔ اختیارات النجوم

۲۴ ۔ الاسطورانتہ

۲۵ ۔ استخراج التقویم

۲۶ ۔ الاشکال الکرویہ

۲۷ ۔ الاعتقادات

۲۸ ۔ اقسام الحکمتہ

۲۹ ۔ الامامتہ

۳۰ ۔ الانعکاسیہ

۳۱ ۔ ایام ولیالی

۳۲ ۔ البارع فی التقویم و احکام النجوم

۳۳ ۔ بقاء النفس بعد فناء الجسم

۳۴ ۔ بیست باب اسطرلاب

۳۵ ۔ تجرید الہندسہ

۳۶ ۔ تحریر اکرمالاناوس

۳۷ ۔ تحریر کتاب الکرة المتحرکتہ

۳۸ ۔ تحریر کتاب المساکن

۳۹ ۔ تحریر المطالع

۴۰ ۔ تذکرہ الہیتہ

۴۱ ۔ تربیع الدائرة

۴۲ ۔ ترجمہ صور الکواکب

۴۳ ۔ تسطیح الکر

۴۴ ۔ تعدیل المعیار

۴۵ ۔ التقویم العلایی

۴۶ ۔ تلخیص المحصل

۴۷ ۔ تنسوق نامہ ایلخانی

۴۸ ۔ تہافت الفلاسفہ

۴۹ ۔ جامع الحساب

۵۰ ۔ جام گیتی نما

۵۱ ۔ الجبر و الاختیار

۶۲ ۔ خلافت نامہ

۵۳ ۔ خلق الاعمال

۵۴ ۔ رسالہ در عروض

۵۵ ۔ رسالہ در کرہ و اسطرلاب

۵۶ ۔ رسالہ در کلیات طب

۵۷ ۔ الزبدہ

۵۸ ۔ شرح اصول کافی

۵۹ ۔ الطلوع والغروب

۶۰ ۔ ظاہرات الفلک

۶۱ ۔ علم المثلث

۶۲ ۔ الفرائض النصیریہ

۶۳ ۔ الماخوذات

۶۴ ۔ مساحتہ الاشکال

۶۵ ۔ المطالع

۶۶ ۔ المعطیات

۶۷ ۔ المفروضات

۶۸ ۔ نقد التنزیل

٭٭٭