انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں50%

انسان قرآن کی نظرمیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 110

انسان قرآن کی نظرمیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 110 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 46557 / ڈاؤنلوڈ: 4137
سائز سائز سائز
انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

انسان کی مختلف قوتیں

”قوت“ کسی تعریف کی محتاج نہیں ایسا عنصر جس سے کوئی اثر ظاہر ہو ”قوت“ کہلاتا ہے۔ دنیا کی ہر شے کسی ایک یا زیادہ خاصیتوں کی حامل ہوتی ہے اس لئے ہر شے میں چاہے جمادات ہوں یا نباتات حیوانات ہوں یا انسان ”قوت“ پائی جاتی ہے اور اگر ”قوت“ کے ساتھ ”فہم و ادراک“ اور خواہش بھی مل جائے تو وہ ”قدرت“ کہلاتی ہے۔

ایک اور فرق جو ”انسان اور حیوانات“ اور ”نباتات و جمادات“ کے درمیان پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ”انسان اور حیوانات“، ”نباتات و جمادات“ کے برعکس اپنی قوت اپنے میلان اور شوق یا خوف اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی خواہش کی بناء پر عمل میں لاتے ہیں مثلاً مقناطیس لوہے کو خودبخود یا ایک فطری جبر کے تحت اپنی طرف کھینچتا ہے لیکن نہ وہ اپنے اس عمل سے آگاہ ہے اور نہ ہی کوئی میلان اور شوق یا ڈر یا خوف اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ لوہے کو اپنی طرف کھینچے یہی صورت آگ کی ہے جو جلاتی ہے گھاس کی ہے جو زمین سے اگتی ہے اور درخت کی ہے جس سے شگوفے پھوٹتے ہیں اور پھل لگتے ہیں لیکن جب حیوان چلتا ہے تو اپنے عمل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس کا ارادہ اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ چلے پھرے اور اگر اس کی خواہش نہ ہوتی تو وہ جبراً نہ چلتا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حیوان ایک باارادہ متحرک شے ہے یا بہ الفاظ دیگر حیوان کی بعض قوتیں اس کے ارادہ کی تابع ہیں یعنی اگر حیوان چاہے تو اس قوت کو عمل میں لائے اور نہ چاہے تو عمل میں نہ لائے۔

۲۱

خود انسان میں بھی اسی طرح سے بعض ایسی قوتیں موجود ہیں جو اس کے ارادے کی تابع ہیں البتہ اس فرق کے ساتھ کہ حیوان کی خواہش اس کے فطری میلان کا نتیجہ ہے اور اس میں اپنی خواہش کا مقابلہ کرنے کی قوت موجود نہیں ہے جونہی اس کا میلان کسی جانب ہوتا ہے تو وہ خود بخود ادھر چل پڑتا ہے نہ تو وہ اس میلان کے مقابلے کی قوت رکھتا ہے اور نہ وہ سوچ جس کے ذریعے جو وہ اپنے میلانات میں سے کسی ایک کو تدبر و تفکر کے بعد ترجیح دے سکے یا وہ عمل اختیار کر سکے جس کی جانب اس کا میلان ہے یا دوراندیشی جس کی متقاضی ہے۔

لیکن انسان ایسا نہیں ہے بلکہ وہ خود اس امر پر قادر ہے کہ اپنے میلانات کا مقابلہ کر سکے اور ان کے مطابق عمل نہ کرے اور یہ قوت اس کو ایک اور قوت سے حاصل ہوتی ہے جسے ارادہ کہتے ہیں۔ ارادہ ”عقل“ کے تابع ہے یعنی ”عقل“ کوئی کام مقرر کرتی ہے اور ”ارادہ“ اسے انجام دیتا ہے۔

مذکورہ مباحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے اندر دو پہلوؤں سے کچھ قوتیں پائی جاتی ہیں جو دیگر جانداروں میں موجود نہیں۔

ایک اس پہلو سے کہ انسان ایسے داخلی میلانات اور جذبات کا حامل ہے جو دوسرے جانداروں میں نہیں جن کی بدولت وہ اپنے کاموں کا دائرہ مادیات کی حدود سے بڑھا کر معنویات کے بلند افق تک پہنچا سکتا ہے لیکن دوسرے تمام جاندار مادیات کی حدود سے نہیں نکل سکتے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ”عقل اور اراد“ کی قوتوں کا مالک ہے جن کی بدولت نہ صرف یہ کہ وہ اپنے میلانات کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو ان کے جبری اثرات سے بھی نکال سکتا ہے اور اپنے تمام میلانات پر حاکم بھی ہو سکتا ہے اور انہیں کو اپنی عقل کے تابع رکھ کر ان کی حدود بھی مقرر کر سکتا ہے اور اس طرح وہ گراں بہا آزادی یعنی ”معنوی آزادی“ حاصل کر سکتا ہے۔

یہ صرف انسان ہی کا خاصہ ہے کہ وہ ایسی بڑی قوت کا مالک ہے جو نہ صرف یہ کہ کسی بھی حیوان میں نہیں پائی جاتی بلکہ انسان کو فرائض کی صحیح انجام دہی کے قابل بھی بناتی ہے اور اس کو جائز میلانات کے انتخاب کا حق عطا کرتی ہے اور جس کے ذریعے سے وہ ایک حقیقی طور پر آزاد اور صاحب اختیار انسان بن جاتا ہے۔

۲۲

میلانات اور جذبات انسان اور ایک بیرونی قوت کے درمیان ایک ایسی کشش اور پیوند کی مانند ہیں جو انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ جتنا ان میلانات کا تابع ہوتا جاتا ہے اپنے آپ کو کلی طور پر ان کے سپرد کرتا جاتا ہے چنانچہ اس پر سستی اور ذلت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ اپنی قسمت کو اس ”بیرونی قوت“ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جو اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی پھرتی ہے لیکن اس کے برخلاف ”عقل اور ارادہ“ انسان کی ایسی داخلی قوتیں ہیں جو اس کی حقیقی شخصیت کی مظہر ہیں۔ انسان جب ”عقل اور ارادہ“ کی قوتوں پر تکیہ کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ ”بیرونی قوت“ کے اثرات سے محفوظ رہتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو آزاد بااختیار اور مستحکم شخصیت بھی قرار دیتا ہے انسان عقل اور ارادے ہی کے ذریعے اپنی ذات کا مالک بن جاتا ہے۔

اسلامی تربیت کا اصل ہدف میلانات اور جذبات کے اثرات سے رہائی پانا اور خود اپنا حاکم بن کر اپنی ذات کا مالک بن جانا ہے اور ایسی تربیت کا مقصد ”معنوی آزادی“ ہے۔

۲۳

خود شناسی

اسلام نے اس بات پر خصوصی توجہ دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اس عالم وجود میں اپنے مرتبہ کو سمجھے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود شناسی کے ذریعے اپنے آپ کو اس بلند مقام پر پہنچائے جس کا وہ اہل ہے۔

قرآن حکیم انسان ساز کتاب ہے یہ کسی ایسے نظری فلسفہ پر مشتمل نہیں ہے جس کا تعلق محض بحث و نظر اور منظر سے ہو یہ جس منظر کو بھی پیش کرتی ہے وہ عمل کے لئے ہوتا ہے۔ قرآن حکیم کا منشاء یہ ہے کہ انسان ”خود“ کو کشف کرے البتہ اس کے اس ”خود“ کا کشف ”شناختی کارڈ“ کا ”خود“ نہیں ہے جس میں لکھا ہوتا ہے:

”تیرا نام کیا ہے؟ تیرے باپ کا نام کیا ہے؟ تیرا سال پیدائش کیا ہے؟ تو کس ملک کی قومیت رکھتا ہے؟ تو کس علاقے کا باشندہ ہے؟ تو نے کس سے شادی کی ہے؟ اور تیرے کتنے بچے ہیں؟“

قرآن حکیم کا ”خود“ وہ ہے جو ”روح خدا“ کہلاتا ہے جسے پہچاننے کے بعد انسان اپنے اندر شرافت بزرگی اور بلندی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو اخلاقی پستی میں گرانے سے بچاتا ہے اپنے تقدس کو سمجھتا ہے اور اخلاقی اور معاشرتی پاکیزگی اس کے لئے بلند ”اقدار“ بن جاتی ہیں۔

قرآن حکیم انسان کے ایک برگزیدہ شخصیت ہونے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ تو ایک ایسے اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے جو کسی امر کے واقع ہونے (مثلاً ایٹموں کے اتفاقی طور پر جمع ہو جانے) سے وجود میں آیا ہو بلکہ تو ایک برگزیدہ اور منتخب ہستی ہے۔ اسی بناء پر تو خدائی پیغام کا حامل اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔

بے شک انسان زمین پر قوی ترین مخلوق ہے اگر زمین اور اس کے موجودات کو ایک خطہ فرض کیا جائے تو انسان اس خطے کا امیر شمار کیا جائے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ منتخب امیر ہے یا اس نے اپنی طاقت کے ذریعے اس مقام پر قبضہ کیا ہے؟

۲۴

مادی فلسفہ انسان کی قوت حاکمہ کو اس کی طاقت کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ انسان نے اتفاقی وجوہ کی بناء پر قوت حاصل کی ہے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں انسان کے لئے خدائی پیغام کا حامل ہونے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری بے معنی ہو جاتی ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسا پیغام اور کیسی ذمہ داری؟ کس کی طرف سے اور کس مقصد کے لئے؟ لیکن قرآن حکیم کی نظر میں انسان زمین کا ایک ایسا منتخب امیر ہے جو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بناء پر ذات خداوندی کی جانب سے منتخب ہوا ہے نہ کہ اپنی ذات طاقت اور زور کی بنیاد پر اور یہ کہ قرآن کی نظر میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک برگزیدہ ہستی ہے جس کے لئے قرآن نے ”اصطفاً“ کا لفظ استعمال کیا ہے اسی لئے وہ ”پیغام“ اور ”ذمہ داری“ کا حامل ہے ”پیغام“ خدا کی طرف سے اور ”ذمہ داری“ اس کی بارگاہ میں یہ عقیدہ کہ انسان دنیا میں ایک منتخب ہستی ہے اور اس کے اس انتخاب کا ایک مقصد ہے انسان میں ایک خاص نوعیت کے نفسیاتی اور تربیتی آثار پیدا کرتا ہے اور اس کے برعکس اس اعتقاد کی بناء پر کہ وہ بے مقصد اتفاقات کے ایک سلسلے کا نتیجہ ہے اس میں ایک دوسری نوعیت کے نفسیاتی اور تربیتی آثار پیدا ہوتے ہیں۔

خود شناسی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنا صحیح مقام سمجھے اور یہ جانے کہ وہ محض خاک کا پتلا نہیں ہے روح خدائی کا نور اس کے اندر موجود ہے اور وہ یہ جانے کے علم و دانش کے ذریعے وہ فرشتوں پر برتری حاصل کر سکتا ہے اور یہ کہ وہ آزاد اور خود مختار ہے اور اپنی ذات دوسروں اور دنیا کو آزاد کرنے اور اس کو بہتر بنانے کا ذمہ دار ہے۔

”اس نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں آباد کیا ہے۔“

( سورہ دہر آیت ۶۱)

وہ یہ جان لے کہ وہ خدائی پیغام کا امین ہے اور یہ کہ اس نے برتری اتفاقی طور پر حاصل نہیں کی تاکہ استبداد کا مظاہرہ کرے اور ہر چیز کو صرف اپنی ذات کے لئے حاصل کرنے سے گریز کے علاوہ اپنے لئے کسی ذمہ داری اور فرض کا قائل نہ ہو۔

۲۵

انسانی صلاحیتوں کی تربیت

اسلامی تعلیمات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے مقدس مکتب میں دوسری تمام ذی روح ہستیوں کے مقابلے میں انسان کی متفاوت قوتوں کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے خواہ وہ جسمانی ہوں یا روحانی مادی ہوں یا معنوی انفرادی ہوں یا اجتماعی نہ صرف یہ کہ ان میں سے کسی ایک پہلو کو مجہول نہیں رکھا گیا بلکہ ان میں سے ہر ایک پر خاص توجہ دی گئی ہے۔

اب ہم ذیل میں ان امور کی طرف اجمالی اشارہ کرتے ہیں:

جسم کی پرورش

اگرچہ اسلام ”نفس پروری“ اور ”شہوت رانی“ کے قصد سے جسم کی پرورش کی سخت مذمت کرتا ہے لیکن ”تربیت بدن“ کو جس کا مقصد بدن کی صحت اور سلامتی کی حفاظت ہو واجبات میں سے قرار دیتا ہے اور ہر اس عمل کو جو بدن کے لئے ضرر رساں ہو حرام گردانتا ہے اگر کبھی ایک واجب کو (جیسے روزہ) بدن کے لئے ضرر رساں سمجھا جائے تو اس بناء پر اسلام نہ صرف یہ کہ انسان کو اس امر واجب کی ادائیگی سے بری قرار دیتا ہے بلکہ وہ ایسے روزے کو حرام سمجھتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی ہلاکت کا اندیشہ ہو اس لئے ہر وہ نشہ جو بدن کو نقصان پہنچائے اسلام کے نزدیک حرام ہے اسلام میں بدن کی صحت اور سلامتی کے لئے بہت سے آداب اور طریقے وضع کئے گئے ہیں۔

ممکن ہے بعض لوگ ”تربیت بدن“ جس کا تعلق بدن کی صحت اور سلامتی سے ہے اور ”تن پروری“، بہ معنی ”نفس پروری“ اور ”شہوت رانی“ میں جس کا تعلق اخلاق سے ہے فرق نہ سمجھیں اور یہ خیال کریں کہ اسلام جو ”تن پروری“ کے خلاف ہے بدن کی صحت اور سلامتی کے بھی خلاف ہے اس لئے بدن کی حفاظت کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں اور ہر ایسا کام جو سلامتی بدن کے لئے ضرر رساں ہو انجام دینا بھی اسلام کے نزدیک ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔

۲۶

یہ ایک بڑی خطرناک غلطی ہے بدن کی قوت سلامتی اور حفظان صحت کہاں؟ اور منفی معنی میں تن پروری کہاں؟

تن پروری اور شہوت پرستی جن کی اسلام نے مذمت کی ہے جس طرح روح کی پرورش کے خلاف ہے اور روح کی بیماری کا سبب بنتی ہے اسی طرح بدن کی پرورش اور حفظان صحت کے بھی خلاف ہے اور بدن کی بیماری کا سبب بھی بنتی ہے اس لئے کہ تن پروری اور شہوت پرستی میدان عمل میں ایسے افراط کا سبب بنتی ہیں جو بدن کے اعضاء میں بنیادی خلل کا باعث بن جاتا ہے۔

روح کی پرورش

اسلام کے نزدیک عقل و فکر اور حصول آزادی فکر کی تربیت ایک پسندیدہ امر ہے اور ایسے امور جو آزادی فکر کے خلاف ہوں جیسے آبا و اجداد بڑے بوڑھوں اور اکثریت کے طور طریقوں کی اندھی تقلید وغیرہ۔ اسلام ان کے خلاف جہاد کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ ارادوں میں تقویت نفس پر غلبہ اور میلانات نفسانی سے مکمل معنوی آزادی اسلام کی بہت ساری عبادات اور تعلیمات کی اساس اور بنیاد ہے۔ اسی طرح علم تلاش حقیقت حسن و جمال اور پرستش کے احساسات میں سے ہر ایک کی پرورش پر اسلام کی خصوصی توجہ ہے۔

۲۷

مستقبل کی تعمیر میں انسان کا کردار

دنیا کی جملہ موجودات ”جاندار“ اور ”بے جان“ میں منقسم ہوتی ہیں بے جان موجودات وہ ہیں جن کا اپنی تعمیر میں کوئی کردار نہیں وہ اپنی تعمیر یا تکمیل میں خود کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں جیسے آگ پانی خاک اور پتھر جو بے جان ہیں اور اپنی تعمیر و تکمیل میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ یہ سب خارجی عوامل کے زیراثر وجود پاتے ہیں اور انہی بیرونی اثرات کے نتیجے میں ایک طرح کا کمال حاصل کرتے ہیں ان میں کوئی ایسی حرکت یا کوشش نظر نہیں آتی جس کا تعلق ان کی ذاتی تعمیر اور تکمیل سے ہو۔

لیکن ”جاندار“ موجودات مثلاً نباتات حیوانات اور انسانوں میں حرکت اور کوشش کا ایک ایسا سلسلہ مشاہدے میں آتا ہے جس کا تعلق انہیں قدرتی آفات سے بچانے اپنے اندر دوسرے مواد کو جذب کرنے اور اپنی نسل آگے بڑھانے سے ہے۔

نباتات میں فطری قوتوں کا ایک ایسا سلسلہ موجود ہے جو ان کے مستقبل کی تعمیر میں موثر ہے اور وہ قوتیں ان کے لئے زمین اور ہوا سے مواد حاصل کرتی ہیں ان میں ایسی قوتیں بھی ہیں جو اس حاصل شدہ مواد کے ذریعے اندر سے ان کی رشد کا باعث بنتی ہیں اور ان میں ایسی قوتیں بھی ہیں جو نسل کو آگے بڑھانے کے عمل کو ممکن بناتی ہیں۔

حیوانات میں ان تمام فطری قوتوں کے علاوہ جو نباتات میں پائی جاتی ہیں شعوری قوتیں جیسے (حواس خمسہ) اور بعض میلانات بھی موجود ہیں جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے اور حیوانات جہاں مذکورہ قوتوں کے ذریعے اپنے آپ کو قدرتی آفات سے بچاتے ہیں وہاں اپنی ذات کی تکمیل اور اپنی صنف کی بقاء کے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں-

۲۸

انسان میں وہ تمام فطری اور شعوری قوتیں موجود ہیں جو نباتات اور حیوانات میں موجود ہیں اور ان کے علاوہ میلانات کا ایک سلسلہ بھی موجود ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ان کے علاوہ اس میں ”عقل اور ارادہ“ کی غیر معمولی قوتیں بھی موجود ہیں جن کے ذریعے اسے اپنے مستقبل کو خود انتخاب کرنے اور تعمیر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

مذکورہ مباحث سے یہ واضح ہوا کہ

بعض موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں کسی طرح کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں جیسے جمادات۔

بعض دوسری موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا تو کرتی ہیں لیکن ان کا یہ کردار نہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہے اور نہ ہی آزادی کی اساس پر بلکہ فطرت ان کی داخلی قوتوں کو غیر شعوری طور پر بروئے کار لاتے ہوئے ان کی حفاظت ان کی بقاء اور ان کے مستقبل کی تعمیر کرتی ہے جیسے نباتات۔

بعض موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں جو اہم کردار ادا کرتی ہیں وہ کردار آگاہی اور علم پرستی پر استوار ہونے کے باوجود آزادی کی بنیاد پر نہیں ہوتا یعنی وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول سے ایک قسم کی آگاہی اور شعوری میلانات کی تاثیر سے مستقبل میں اپنی حفاظت کی کوششیں کرتی ہیں جیسے حیوانات۔

بعض انسان اپنے مستقبل کی تعمیر میں زیادہ متحرک زیادہ موثر اور زیادہ وسیع کردار ادا کرتے ہیں ان کا یہ کردار علم و شناخت اور آزادی کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے یعنی انسان اپنی ذات اور اپنے ماحول سے بھی آگاہ ہوتا ہے اور اپنے ”عقل و ارادہ“ کی قوتوں کی مدد سے آزادانہ طور پر اپنی خواہش کے مطابق اپنے مستقبل کا انتخاب اور اس کی تعمیر کرتا ہے انسان کا دائرئہ کار حیوان کی نسبت بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے جس کے حسب ذیل تین اسباب ہیں:

۲۹

۱ ۔ وسعت دید اور آگاہی

انسان اپنے علم کی طاقت سے اپنی بینائی اور آگاہی کے دائرے کو مظاہر فطرت کی سطح سے بڑھا کر ان کی گہرائی تک پہنچنے کے بعد قوانین فطرت سے آگاہی حاصل کرتا ہے جس سے فطرت کو انسانی زندگی کے موافق بنانے میں اس کی استعداد بڑھتی ہے۔

۲ ۔ خواہشات کی وسعت

اس کا ذکر ”انسان اور حیوان“ کے باب میں کیا جا چکا ہے۔

۳ ۔ تعمیر نفس کی خصوصی صلاحیت

اپنی تعمیر کے سلسلے میں ایسی خصوصی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں جو کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتیں اس لئے کوئی اور جاندار اس پہلو سے انسان کی مانند نہیں۔

اگرچہ بعض دوسری ذی روح ہستیوں کی تعمیر کسی حد تک کی جا سکتی ہے اور خاص تربیت سے ان میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے جیسا کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا سے مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن اول تو ان میں سے کوئی بھی خود اپنی تعمیر نہیں کر سکتی اور انسان ہی ان کی تعمیر کرتا ہے دوسرے یہ کہ انسان کی نسبت ان میں اثرپذیری بہت کم ہوتی ہے۔

۳۰

انسان اپنے خصائل اور عادات کے اعتبار سے خاص استعداد کا حامل ہے یعنی آغاز پیدائش میں اس میں کوئی خصلت اور عادت موجود نہیں ہوتی اس کے برعکس ہر حیوان خاص خصائل اور عادت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے لیکن انسان آہستہ آہستہ خصائل اور عادات قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لئے اس میں فطری جہتوں کے علاوہ ثانوی نوعیت کی صفات بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ تنہا ایسی ہستی ہے جس کے ہاتھ میں قانون قدرت نے اپنا نقشہ کھینچنے کا قلم خود تھما دیا ہے تاکہ جیسے وہ چاہے اپنی تصویر بنائے یعنی اس کے جسمانی اعضاء کے برعکس جو رحم مادر ہی میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ انسان کے نفسیاتی اجزاء جو خصائل عادات اور اخلاقی صفات کہلاتے ہیں زیادہ وسیع پیمانے پر پیدائش کے بعد ہی ظہور میں آتے ہیں۔

جب کہ اگرچہ دیگر جاندار حتیٰ کہ حیوانات بھی پیدائش سے قبل ہی اپنے خصائل اور عادات کے اعتبار سے مکمل کر دیئے جاتے ہیں لیکن صرف انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جو مذکورہ صفات کے اعتبار سے اپنی تعمیر اپنی خواہشات کے مطابق کرتا ہے اور یہی سبب ہے کہ حیوانات کی ہر جنس کے جسمانی اعضاء جس طرح ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اسی طرح ان کے نفسیاتی اجزاء اور خصائل بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جیسے بلیوں کتوں یا چیونٹیوں میں سے ہر ایک اپنی اپنی جنس کے مشترک خصائل رکھتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی جنس کے باہمی خصائل اور عادات میں کوئی فرق ہے بھی تو وہ بہت کم ہے۔ لیکن انسانوں کے خصائل اور عادات میں بے انتہا فرق ہے اور اسی وجہ سے انسان ایسی ہستی ہے جو خود اپنے آپ کو انتخاب کرتی ہے کہ اسے کیا ہونا چاہئے؟

۳۱

اسلامی آثار میں آیا ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنے اکتسابی روحانی خصائل کی بناء پر محشور ہوں گے نہ کہ اپنے ظاہری جسمانی اعضاء کے اعتبار سے یعنی انسان اکتسابی خصائل کے اعتبار سے جس قسم کے جاندار سے زیادہ مشابہت رکھتے ہوں گے اسی کی شکل اور اعضاء کے ساتھ محشور ہوں گے اور صرف وہ لوگ انسانی شکل و صورت میں محشور ہوں گے جن کے اکتسابی خصائل اور جن کی روحانی اور ثانوی صفات انسانی مرتبہ اور کمال سے ہم آہنگ ہوں گی یا بہ الفاظ دیگر جن کے اخلاق ”انسانی اخلاق“ ہوں گے۔

انسان اپنی علمی قوت سے فطرت پر غالب آتا ہے اور فطرت کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ضروریات سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ وہ اپنی تعمیری قوت کے ذریعے اپنے آپ کو اپنی خواہش کے مطابق بناتا اور اس طرح اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔

تمام تربیتی ادارے اخلاقی مکاتب اور دینی اور مذہبی تعلیمات انسان کی رہنمائی کے لئے ہیں تاکہ اسے بتا سکیں کہ وہ اپنے مستقبل کو کیسے بنائے اور کیا بنائے؟ سیدھا راستہ تو وہ ہے جو انسان کو ایک باسعادت مستقبل تک پہنچائے جب کہ انحرافات اور گمراہی کا راستہ وہ ہے جو اس کو ایک تباہ کن اور شقاوت سے بھرپور مستقبل کی جانب لے جائے۔

خداوند تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے:

”ہم نے انسان (اس آزاد اور خود ساز وجود) کو راستہ دکھایا ہے تاکہ وہ خود جو چاہے انتخاب کرے (وہ دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گا) یا وہ راستہ جو ہم نے دکھایا ہے اور ہمارا شکر ادا کرے گا یا دوسرا راستہ جو کہ ناشکری کا راستہ ہے۔“( سورہ دہر آیت ۳)

۳۲

مذکورہ مباحث سے ہم نے جان لیا کہ ”علم“ اور ”ایمان“ میں سے ہر ایک انسان کے مستقبل کی تعمیر میں مختلف کردار ادا کرتا ہے۔ ”علم“ انسان کو تعمیر کا راستہ دکھاتا ہے وہ اس کو توانائی بخشتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کی تعمیر اپنی خواہش کے مطابق کرے لیکن ”ایمان“ انسان کو راستہ دکھاتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے مستقبل کی کس طرح تعمیر کرے کہ وہ اپنی ذات اور معاشرے کے لئے مفید ثابت ہو سکے۔ ”ایمان“ اس امر کی ممانعت کرتا ہے کہ انسان کے مستقبل کا محور صرف مادیات اور ذات پر مبنی ہو ”ایمان“ انسانی خواہشات کی سمت متعین کرتا ہے وہ انسان کو مادی امور پر انحصار کرنے سے بچاتا ہے اور معنوی امور کو اس کی خواہشات کا جزو قرار دیتا ہے۔

انسانی خواہشات میں علم کی حیثیت ایک ایسے اوزار کی سی ہے جو فطرت کو انسان کی خواہش کے مطابق بناتا ہے لیکن یہ کہ وہ فطرت کی تعمیر کس طرح کرے؟ آیا علم فطرت سے ایسی تخریبی چیزیں پیدا کرے جو ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری میں معاون ہوں؟ اس کا ”علم“ کے اوزار سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ علم کا ہتھیار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ کیسے انسان ہیں (وہ جیسے ہوں گے علم کا ویسا استعمال کریں گے)؟

لیکن ایمان ”انسان پر حاکم قوت“ کا سا عمل کرتا ہے اسے جادئہ حق اور اخلاق کی طرف لے جاتا ہے۔ ”ایمان“ انسان کی تعمیر کرتا ہے اور انسان علم کی قوت سے دنیا کی تعمیر کرتا ہے۔ اگر ”علم اور ایمان“ باہم مل جائیں تو انسان اور دنیا دونوں سدھر جاتے ہیں۔

۳۳

آزادی کی حدود اور انسان کا ارادہ

ظاہر ہے کہ انسان اپنی تعمیر نفس اور اپنے فطری ماحول کو اپنی مطلوبہ صورت میں تبدیل کرنے اور اپنی خواہش کے مطابق اپنا مستقبل بنانے میں آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی مجبوریوں سے دوچار ہوتا ہے اور اس کی آزادی بھی مشروط ہوتی ہے یعنی اس کی آزادی ایک دائرے میں محدود ہوتی ہے اس لئے انسان اس دائرے میں رہ کر اپنے مستقبل کا انتخاب کر سکتا ہے خواہ وہ سعادت مندی پر مبنی ہو یا شقاوت اور بدبختی پر۔

انسان ارادہ کے محدود ہونے کی وجوہات حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ وراثت

انسان انسانی فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے چونکہ اس کے والدین انسان ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی مجبوراً انسانی فطرت لے کر انسان کی صورت میں دنیا میں آتا ہے اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے بھی کچھ خصوصیات جبراً ورثے میں ملتی ہیں جو ان میں پائی جاتی ہیں جیسے جلد اور آنکھ کا رنگ اور ایسی جسمانی خصوصیات جو چند پشتوں سے اس کو ورثے میں ملیں لیکن انسان ان خصوصیات میں سے کوئی بھی خود انتخاب نہیں کرتا بلکہ وراثت نے جبراً اسے دیا ہوتا ہے۔

۳۴

۲ ۔ جغرافیائی اور قدرتی ماحول

انسان کے جسم اور روح پر اس کے جغرافیائی اور قدرتی ماحول کا بہرحال ایک اثر مرتب ہوتا ہے سرد گرم معتدل کوہستانی اور صحرائی خطے انسان کے مزاج اور اخلاق پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

۳ ۔ معاشرتی ماحول

انسان کی روحانی اور اخلاقی خصوصیات کے تکامل میں اس کے معاشرتی ماحول کا بھی ایک خاص کردار ہوتا ہے انسان کی زبان معاشرتی آداب دینی اور مذہبی آداب و رسوم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو اس کو اپنے معاشرتی ماحول سے ملتی ہیں۔

۴ ۔ تار اور عصری عوامل

انسان سماجی اعتبار سے صرف زمانہ حال سے اثر نہیں لیتا بلکہ زمانہ ماضی کے واقعات اور حادثات اس کی تعمیر میں موثر کردار ادا کرتے ہیں ہر چیز کے ماضی اور مستقبل میں ایک یقینی رابطہ ہوتا ہے ماضی اور مستقبل ان دو نقطوں کی مانند نہیں ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہوں بلکہ وہ وقت کے ایسے دو دھارے ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہمیشہ سے رواں دواں ہیں۔ گویا ماضی اس بیج کی مانند ہے جس سے مستقبل پیدا ہوتا ہے۔

۳۵

۵ ۔ حدود و قیود کے خلاف انسان کی بغاوت

انسان اگرچہ وراثت قدرتی ماحول معاشرتی ماحول اور تاریخ سے پوری طرح منقطع نہیں ہو سکتا لیکن وہ بڑی حد تک ان سے بغاوت کر کے اپنے آپ کو ان کی قید سے آزاد کر سکتا ہے۔ وہ اپنے علم عقل ارادہ اور ایمان کی قوتوں سے ان حالات میں تبدیلی پیدا کر کے ان کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا سکتا اور خود قسمت کا مالک بن سکتا ہے۔

انسان اور قضا و قدر

بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی آزادی میں حد بندی کا اصل سبب ”قضا و قدر“ ہے لیکن ہم نے اس کے برعکس اس معاملے میں قضا و قدر کا نام نہیں لیا کیوں؟ کیا اس لئے کہ ”قضا و قدر“ موجود نہیں؟ یا یہ کہ وہ انسانی آزادی کی حد بندی کا سبب نہیں؟

”قضا و قدر“ ایک قطعی اور مسلم امر ہے لیکن آزادی انسان کو محدود کرنے کا سبب نہیں ”قضا“ واقعات اور حادثات کے بارے میں خدا کے اٹل حکم کا نام ہے اور ”قدر“ ان کی مقدار کے اندازے کا نام۔

۳۶

الٰہی علوم کے نقطہ نظر سے یہ امر مسلم ہے کہ قضائے الٰہی کسی بھی حادثے سے براہ راست یا بلاوسطہ کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ وہ ہر حادثے کا وقوع اس کے اپنے اسباب اور علل کی بناء پر قرار دیتی ہے قضائے الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ عالم کا نظام ”اسباب اور مسببات“ کا نظام ہو انسان جتنی آزادی ”عقل اور ارادہ“ کی مدد سے حاصل کرتا ہے اور اس آزادی کی جو حد بندی اس پر وراثت ماحول اور تاریخ کی وجہ سے عائد ہوتی ہے وہ محض قضائے الٰہی اور دنیا کے اسباب و مسببات کے مذکورہ نظام کی وجہ سے ہے۔

اس لئے خود قضائے الٰہی آزادی انسان کی محدودیت کا سبب نہیں ہوتی بلکہ یہ وہی حدود و قیود ہیں جو انسان پر ورثے ماحول اور تاریخ کی جانب سے عائد ہوتی ہیں نہ کوئی اور اسی طرح وہ آزادی جو انسان کو نصیب ہوتی ہے وہ بھی قضائے الٰہی سے اسے ملتی ہے وہ یوں کہ قضائے الٰہی ہی کا تقاضا ہے کہ انسان عقل اور ارادے کا مالک ہو اور طبیعی اور اجتماعی حالات کے محدود دائرے میں رہتے ہوئے بھی وسیع پیمانے پر ان حالات کی قید سے آزادی حاصل کر لے اور اپنی قسمت اور مستقبل کی تعمیر کا کام اپنے ہاتھ میں لے۔“

بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال :

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے

انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

نہیں یہ شان خودداری چمن سے توڑ کر تجھ کو

کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کر لے

۳۷

انسان اور فرائض

انسان میں ان صلاحیتوں کے علاوہ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے قبولیت فرض کی صلاحیت بھی موجود ہے انسان ان قوانین کی حدود کے اندر رہ کر اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے جو اس کے لئے وضع کئے گئے ہوں۔

انسان کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق فطرت کے جبری قوانین کے علاوہ کسی دوسرے قانون کی پابند نہیں ہو سکتی مثلاً پتھروں لکڑیوں درختوں پھلوں بھیڑ بکریوں اور گائے بیل کے لئے کوئی قانون وضع کر کے ان تک نہیں پہنچایا جا سکتا اور نہ انہیں پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان کے لئے وضع شدہ ”مصلحت“ پر مبنی قوانین پر عمل کریں اگر ان کی مصلحت اور حفاظت کے لئے کوئی اقدام کیا بھی جائے تو ان پر جبری طور پر نافذ کیا جا سکے گا۔

لیکن یہ صرف انسان ہے جو اس عجیب امر کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ وضع کئے گئے قوانین کے مطابق عمل کرے چونکہ یہ قوانین ایک باصلاحیت ہستی ہی کی جانب سے وضع ہو کر انسان پر لاگو کئے جاتے ہیں اور یہ کہ ان کی پابندی تکلیف اور مشقت سے خالی نہیں ہوتی اس لئے اسے ”فرض“ کہا جاتا ہے۔ قانون ساز کے لئے انسان کو کسی خاص فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار بناتے وقت چند شرائط کا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے بہ الفاظ دیگر انسان میں جب چند شرائط موجود ہوں تو تبھی وہ کسی فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر سکتا ہے کسی فرض کے عائد ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں:

۳۸

۱ ۔ بلوغت

انسان جب اپنی عمر کی ایک منزل پر پہنچتا ہے تو اس کے اعضاء احساسات اور اس کی سوچ میں چند ناگہانی تبدیلیاں نمودار ہو جاتی ہیں جو ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف جست لگانے سے مشابہت رکھتی ہیں اسی کو ”بلوغت“ کہتے ہیں۔

ہر شخص ایک بلوغت کو پہنچتا ہے بلوغت کے سلسلے میں عمر کی کوئی خاص منزل تمام افراد کے لئے مقرر نہیں کی جا سکی ممکن ہے بعض لوگ دوسروں کی نسبت جلدی بلوغت کو پہنچ جائیں اس لئے کہ انفرادی یا کسی خاص خطہ زمین یا ماحول کی خصوصیات انسان کے جلد یا بدیر طبیعی طور پر بالغ ہونے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

امر مسلم یہ ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت جلدی بالغ ہو جاتی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے لازم ہے کہ ایک مقررہ عمر لوگوں کی متوسط عمر ہوتی ہے یا ایسی عمر جو بلوغت کی کم سے کم عمر ہے۔ اسلامی فقہ کی شرائط سے قطع نظر شرائط رشد معین کی جائیں تاکہ سب لوگ ایک ضابطے کے پابند ہو جائیں۔

بنابرایں ممکن ہے بعض انسان طبیعی طور پر بالغ ہو چکے ہوں لیکن ابھی قانونی بلوغت کی عمر تک نہ پہنچے ہوں اسلام میں اکثر شیعہ علماء کے نقطہ نظر سے عمر کے لحاظ سے مرد کی قانونی بلوغت پندرہ قمری سال پورے ہونے اور سولہویں سال میں داخل ہونے پر مقرر کی گئی ہے اور عورت کی قانونی بلوغت نو قمری سال پورے ہونے اور دسویں سال میں داخل ہونے پر مقرر کی گئی ہے۔ قانونی بلوغت ادائیگی فرض کی ایک شرط ہے یعنی اگر کوئی شخص قانونی بلوغت کی عمر تک نہ پہنچا ہو تو وہ ادائیگی فرض کا ذمہ دار نہیں ہے مگر یہ کہ دلائل سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ قانونی بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی طبیعی بلوغت کی عمر کو پہنچ گیا ہے۔

۳۹

۲ ۔ عقل

ادائیگی فرض کی ایک اور شرط انسان کا عاقل ہونا ہے۔ ایک پاگل شخص جو عقل سے عاری ہے ادائیگی فرض کا پابند نہیں اور فرض اس سے ساقط ہے۔ ایک نابالغ لڑکا کسی طرح بھی ادائیگی فرض کا پابند نہیں اور بالغ ہونے کے بعد بھی وہ اس بات کا ذمہ دار نہیں ہے کہ جو فرض اس نے بلوغت سے قبل انجام دیا اس کی تلافی کرے۔ مثلاً ایک بالغ لڑکے کا یہ فرض نہیں کہ جو نمازیں اس نے بلوغت سے پہلے ادا نہیں کیں ان کی قضا کرے اس لئے کہ اس عمر میں وہ اس پر فرض نہیں تھیں بنابرایں اگر ایک پاگل شخص کچھ عرصے کے بعد عاقل ہو جائے تو وہ ان فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں جو اس نے پاگل پن کے عرصے میں ادا نہیں کئے تھے یعنی یہ کہ وہ اس عرصے کے روزے اور نمازیں قضا کرنے کا ذمہ دار نہیں۔

ہاں بعض فرائض ایسے ہیں جن کا تعلق بچے یا پاگل کی دولت اور مال سے ہوتا ہے اور بچہ یا پاگل اپنے بچپن یا پاگل پن کی حالت میں ان کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں ہے لیکن جب بچہ ”بالغ“ ہو جائے اور پاگل ”عاقل“ ہو جائے تو ان پر واجب ہے کہ وہ ان فرائض کو ادا کریں جیسے زکوٰة یا خمس جو اس بچے یا پاگل کے مال سے متعلق ہے اور اگر یہ فرائض ان کے شرعی ولی نے ادا نہ کئے ہوں تو ادائیگی کی منزل پر پہنچنے کے بعد وہ خود ادا کریں۔

۴۰

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110