انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں50%

انسان قرآن کی نظرمیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 110

انسان قرآن کی نظرمیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 110 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 46571 / ڈاؤنلوڈ: 4141
سائز سائز سائز
انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

۱۰ ۔ مفید نتیجے اور فائدے کی امتیازی حیثیت:

اسلام کی نظر میں ہر کام خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی سب سے پہلے اس کے فائدے اور مفید نتیجے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جس کام سے کوئی فائدہ برآمد نہ ہو اسلام کی نظر میں اسے بے ہودہ فضول اور ممنوع سمجھا جاتا ہے۔والذین هم عن اللغو معرضون ( سورہ مومنون آیت ۳)

۱۱ ۔ لین دین میں خیر و صلاح کا لحاظ:

مال و دولت کی گردش اس کے نقل و انتقال کو ہر قسم کی بے ہودگی اور بدعنوانی سے پاک و صاف ہونا چاہئے۔ ہر نقل و انتقال کے مقابل میں کوئی مادی یا معنوی خیر و بھلائی ملحوظ خاطر ہونی چاہئے ورنہ مال کی یہ گردش باطل اور ممنوع ہو گی۔

ولاتا کلوا اموالکم بینکم بالباطل ( سورہ بقرہ آیت ۱۸۸)

”جوئے وغیرہ کے ذریعے مال کا نقل و انتقال باطل طریقے سے مال کمانے کا مصداق ہے اور حرام ہے۔“

۱۲ ۔ سرمایہ جونہی گردش یا نقصان یا تباہی کی صورت سے خارج ہو کر ضمانت و غرض کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو عقیم (فائدے سے خالی) اور بے سود ہو جاتا ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کا کوئی جائز فائدہ نہیں رہتا اور جو اضافی مقدار بھی اصل سرمائے پر لی جائے گی وہ سود اور حرام کے زمرے میں آئے گی۔

۱۳ ۔ ہر مالی تبادلہ اور سرمائے کی گردش طرفین کی پوری واقفیت و آگاہی ہی سے ہونی چاہئے اور ضروری سمجھا جائے گا۔

نهی النبی عن الغرر (صحیح مسلم ج ۳ ص ۱۱۵۳)

”اپنے کو معرض ہلاکت میں ڈالنا خدعہ دھوکہ و فریب ہے۔“

۶۱

۱۴ ۔ خلاف عقل امور سے مقابلہ:

اسلام عقل کو قابل احترام چیز اور خدا کا باطنی رسول سمجھتا ہے اصول دین عقلی و منطقی دلیل کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔ فروع دین میں بھی عقل اجتہاد کے سرچشموں میں سے ایک ہے۔ اسلام عقل کو ایک قسم کی طہارت اور عقل کے زائل ہونے کو ایک طرح کا محدث ہونا سمجھتا ہے لہٰذا جنون یا مستی کا طاری ہونا بھی پیشاب کرنے یا سو جانے کی مانند وضو کو باطل کر دیتا ہے۔ اسلام ہر طرح کی مستی اور نشے کا مخالف ہے اور مطلقاً تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال کو حرام قرار دیتا ہے کیوں کہ وہ ہر اس چیز کا مخالف ہے جو عقل کی مخالف ہو اور یہ مخالفت دین کا جزولاینفک ہے۔(جو چیز نہی نبوی کی عبارت میں ہے وہ ”بیع غرری“ ہے لیکن اجتہادی معیارات مطلقہ طور پر غرر و فریب کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔مولف)

۱۵ ۔ خلاف ارادہ امور سے مقابلہ:

جس طرح عقل قابل احترام اور اسلامی تعلیمات میں بہت سے احکام عقل کی حفاظت و نگہبانی کے لئے ہیں اسی طرح ارادہ بھی جو عقل کی قوت مجریہ ہے قابل احترام ہے اس لحاظ سے ارادے (خیر) سے روکنے والی چیزیں جو زبان اسلام میں لہو و لعب کہلاتی ہیں بھی حرام و ممنوع ہیں۔

۶۲

۱۶ ۔ کام اور مشغلہ:

اسلام بیکاری اور کاہلی کا دشمن ہے اس لحاظ سے کہ انسان معاشرے سے استفادہ کرتا ہے کام فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا بہترین عامل اور سبب ہے اور بیکاری تباہی و فساد کا سب سے بڑا عامل ہے۔ اس لئے انسان کو مفید کام انجام دینے چاہیں۔ اسلام طفیلی ہونے اور معاشرے پر بوجھ بننے کی سخت مذمت کرتا ہے اور معاشرے پر بوجھ بننے والے پر لعنت کرتا ہے:

ملعون من القی کله علی الناس

(وسائل ج ۱۲ ص ۱۸)

”وہ شخص جو اپنا بوجھ لوگوں پر ڈالتا ہے۔“

۱۷ ۔ پیشے اور فن و ہنر کا مقدس ہونا:

پیشہ اور فن و ہنر جہاں ایک خدائی حکم ہے وہاں ایک مقدس اور پاکیزہ عمل اور اللہ کا محبوب و پسندیدہ امر بھی ہے اور جہاد کی مانند ہے۔

ان الله یحب المومن المحترف

(وسائل ج ۱۲ ص ۱۳ ان الفاظ کے ساتھ:ان الله یحب المحترف الامین )

”خداوند عالم اس مومن کو دوست رکھتا ہے جو صاحب فن و حرفت ہو۔“

الکاد لعیاله کالمجاهد فی سبیل الله (وسائل ج ۱۲ ص ۴۳ وہاں پر لعیالہ کی جگہ علی عیالہ آیا ہے)

”جو شخص اپنے عیال کے لئے اپنے کو رنج و تکلیف میں ڈالتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔

۶۳

۱۸ ۔ استحصال کی ممانعت:

اسلام استحصال و استثمار یعنی دوسروں کے کام سے بلاعوض یا غیر مناسب معاوضہ حاصل کرنے کو خواہ وہ کسی شکل اور کسی تدبیر سے ہونا جائز اور ممنوع قرار دیتا ہے۔ کسی کام کے ناجائز ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ استحصالی ماہیت رکھتا ہے۔

۱۹ ۔ اسراف و فضول خرچی:

لوگ اپنے اموال کے مالک ہیں اور ان پر اپنا پورا تسلط رکھتے ہیں(الناس مسلطون علی اموالهم) لیکن یہ تسلط اس معنی میں ہے کہ اسلام نے جو حدود معین کی ہیں وہ ان کے دائرے میں ہو نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ مال کا ضائع کرنا ہر شکل میں اور ہر صورت سے خواہ وہ پھینک دینے کی صورت میں ہو یا تباہ کن تجملات اور زیب و زینت کی چیزوں پر تصرف کی شکل میں ہو اور جسے اسلام کی زبان میں ”اسراف و تبذیر“ سے تعبیر کیا گیا ہے ممنوع اور حرام ہے۔

۶۴

۲۰ ۔ زندگی میں ترقی و توسیع:

اہل و عیال کے آرام و آسائش کے لئے ضروریات زندگی کی چیزوں میں اضافہ کرنا اگر کسی کی حق تلفی یا اسراف اور فضول خرچی کی حد میں داخل نہ ہو جائے نہ صرف جائز بلکہ قابل تعریف فعل ہے اور اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔

۲۱ ۔ رشوت:

اسلام میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں کی سخت مذمت کی گئی ہے اور دونوں کو آتش جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور جو پیسے اس طرح سے حاصل ہوتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں۔

۲۲ ۔ ذخیرہ اندوزی:

اگر عام طور پر اشیائے ضرورت (خاص کر اشیائے خوردنی) کو ذخیرہ کر لیا جائے تاکہ ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے تو یہ عمل ان اشیاء کا مہنگا بیچنا حرام اور ممنوع ہے حاکم شرعی مالک کی خواہش اور مرضی کے خلاف ان جمع شدہ اشیاء کو بازار میں لائے گا اور انہیں عادلانہ نرخ پر فروخت کرائے گا۔

۶۵

۲۳ ۔ آمدنی کا مصلحت کی بنیاد پر ہونا نہ کہ طلب و تقاضے کی بنیاد پر:

عام طور پر چیزوں کی قدر و قیمت اور مالیت کا تعین صارفین کی طلب اور مانگ سے ہوتا ہے اور کسی کام کے جائز ہونے کے لئے اس کام کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونے کو کافی سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام کسی چیز کی مالی قدر و قیمت کے تعین اور لوگوں کے کام کو جائز قرار دینے کے لئے لوگوں کی طلب اور مانگ کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ کام کے معاشرے کی مصلحت کے مطابق ہونے کو عرف شریعت میں مالیت کے تعین اور کام کے جائز ہونے کے لئے لازمی شرط قرار دیتا ہے یعنی اسلام صرف لوگوں کی خواہشوں اور رغبتوں کو جائز آمدنی کا منبع نہیں سمجھتا بلکہ خواہشات اور رغبتوں کے علاوہ معاشرے کی مصلحت کے ساتھ آمدنی کو بھی شرط قرار دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام لوگوں کی طلب کو رسد کے جواز کے لئے کافی نہیں جانتا اس لئے اسلام میں بعض کاموں اور کسب کے طریقوں کو ”مکاسب محرمہ“ کہا گیا ہے۔ مکاسب محرمہ (کمانے کے حرام طریقے) چند قسم کے ہیں:

(الف) چیزوں کا ایسا لین دین جو جہالت میں ڈآلنے کا موجب ہو۔ ایسی چیزیں جو لوگوں کو عملاً جہالت اور فکری و اعتقادی روگردانی کی طرف راغب کرنے اور شُق دلانے کا سبب ہوتی ہیں حرام ہیں اگرچہ ان کی مانگ کافی مقدار میں ہو اس لحاظ سے بت فروشی صلیب کا بیچنا تدلیس ماشطہ (عورت کی آرائش کرنا اور اس آرائش کے ذریعے عورت کے عیوب کو چھپانا تاکہ اس کا رشتہ لینے کے لئے آنے والے فریب کھا جائیں) کسی ایسے شخص کی مدح کرنا جو اس مدح کا مستحق نہ ہو کہانت اور غیب گوئی یہ سب امور حرام ہیں اور ان طریقوں سے مال وصول کرنا بھی ممنوع اور حرام ہے۔

۶۶

(ب) ان چیزوں کا باہمی تبادلہ جو گمراہ کرنے اور غفلت میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں- گمراہ کن کتابوں اور فلموں کی خرید و فروخت اور ہر وہ کام جو کسی طرح سے بھی معاشرے کی گمراہی کا موجب ہو ناجائز اور حرام ہے۔

(ج) وہ کام جو دشمن کی تقویت کا موجب ہو کسی بھی ایسے طریقے سے روپیہ پیسہ کمانا حرام ہے جو دشمن کی بنیاد مضبوط کرنے کا باعث ہو خواہ وہ فوجی اعتبار سے ہو یا اقتصادی ثقافتی یا جاسوسی کے اعتبار سے اسلامی محاذ کو کمزور بناتا ہو چاہئے اسلحہ فروشی کی صورت میں ہو یا ایسی دوسری چیزوں کی فروخت کی شکل میں جن کی احتیاج ہو اور جو عملاً مذکورہ امور کا سبب ہوں اور نایاب قلی نسخوں کا بیچنا بھی انہی چیزوں میں شامل ہے۔

(د) ایسے امور کے ذریعے مال حاصل کرنا جو فرد یا معاشرے کے لئے تباہ کن اور نقصان پہنچانے والے ہوں مثلاً شراب فروشی آلات قمار کا بیچنا اسی طرح نجس العین چیزوں کا بیچنا اور ناقص اور ملاوٹ کی ہوئی چیزیں بھی اسی زمرے میں شامل ہیں (ان سب طریقوں سے) مال حاصل کرنا جوا کھیلنا امر حرام کی طرف دوسروں کو مائل کرنا اور لے جانا کسی مومن کی ہجو ظالموں کی مدد کرنا اور ان کی نوکری اور ملازمت وغیرہ (ممنوع اور حرام ہے) البتہ کسب حرام کی دوسری قسم بھی ہے جو کام کے خلاف مصلحت ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ اس کے لین دین سے بالاتر ہونے کی وجہ سے حرام ہے بہت سے کام بزرگی و پاکیزگی کی ایسی حد میں ہیں کہ ان کے عوض قرار دینا ان کی حیثیت و عظمت و حرمت کے خلاف ہے جیسے فتویٰ دینے شرعی فیصلہ کرنے اصول و فروع دین کی تعلیم دینے وعظ و نصیحت کرنے اور اس جیسی دوسری چیزیں اور ممکن ہے طبابت بھی اسی میں شامل ہو۔

مذکورہ کام اور پیشے اپنے مقدس ہونے کی بناء پر لین دین اور مبادلہ سے بالاتر ہیں اور اس چیز سے کہیں بلند ہیں کہ آمدنی اور دولت کی جمع آوری کا ذریعہ بنیں یہ سب کام واجبات کا ایک سلسلہ ہیں جنہیں بلاعوض انجام پانا چاہئے البتہ مسلمانوں کا بیت المال ان مقدس کاموں کے انجام دینے والوں کی ضروریات زندگی کے اخراجات کا ذمہ دار ہو گا۔

۶۷

۲۴ ۔ حقوق کا دفاع کرنا (خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی) اور زیادی و زبردستی کرنے والے کے خلاف جہاد کرنا واجب اور مقدس کام ہے۔

لا یحب الله الجهر باالسوء من القول الا من ظلم ( سورہ نساء آیت ۱۴۸)

”خداوند عالم اعلانیہ طور پر بدگوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔“

رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے:

افضل الجهاد کلمة عدل عند امام جائر (کافی ج ۵ ص ۶۰)

”بہترین جہاد ظالم و جابر پیشوا کے سامنے عدل و انصاف کی بات کہنا ہے۔“

حضرت علی ۱  حضرت رسول خدا سے نقل فرماتے ہیں:

لن تقدس امة حتی یوخذ للضعیف حقه من القوی غیر متعتع

(نہج البلاغہ عہد نامہ مالک اشتر)

”کوئی قوم و ملت بزرگی و پاکیزگی (تعریف و تمجید کی قابلیت) حاصل نہیں کرتی یہاں تک کہ اس مرحلے پر پہنچ جائے کہ کمزور اپنا حق بلاخوف اور بلاجھجک طاقتور سے لے لے۔“

۶۸

۲۵ ۔ اصلاح کی کوشش اور فساد و خرابی کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد اسلام میں اچھائیوں کا حکم دینا اور اس طرف متوجہ رکھنا اور برائیوں سے روکنا وہ فریضہ ہے جو امام باقر ۱  کے مبارک الفاظ میں تمام اسلامی فرائض کا پایہ اور ستون ہے۔ یہ اصول مسلمان کو دائمی اور فکری انقلاب کے ذریعے اصلاح معاشرے کے لئے مسلسل کوشش اور تمام برائیوں اور تباہ کاریوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون عن المنکر ( سورہ آل عمران آیت ۱۱۰)

”تم بہترین گروہ ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے منع کرتے ہو۔“

جناب رسالت مآب فرماتے ہیں:

لتا مرون بالمعروف و تنهون عن المنکر او یسلطن الله (علیکم) شرار کم فید عو اخیار کم فلا یستجاب لهم (کافی ج ۵ ص ۵۶ کچھ کمی بیشی کے ساتھ)

”تم لوگوں کو امربالمعروف کرنا چاہئے برائیوں سے روکنا چاہئے ورنہ خداوند عالم تمہارے بروں کو تم پر مسلط کر دے گا پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو مستجاب نہیں ہو گی۔“

۶۹

۲۶ ۔ توحید:

اسلام ہر چیز سے زیادہ دین توحید ہے توحید کے بارے میں کسی خدشے کو چاہے وہ توحید نظری میں ہو یا توحید عملی میں قبول نہیں کرتا اسلامی افکار رفتار اور کردار سب خدا سے شروع ہوتے ہیں اور خدا ہی پر ختم ہوتے ہیں اس لحاظ سے اسلام ہر قسم کی ثنویت تثلیت یا کسی بھی قسم کی زیادتی کو جو اس اصول کو مخدوش کرتی ہو سختی کے ساتھ مسترد کرتا ہے جیسے (معاذ اللہ) خدا اور شیطان کی ثنویت یا خدا اور انسان کی دوئیت یا خدا اور مخلوق خدا کی دوئیت۔

ہر کام کو اللہ کے نام سے خدائی فکر کے ساتھ اور اللہ سے تقرب و نزدیکی حاصل کرنے کے لئے شروع ہونا چاہئے اور انجام کو پہنچنا چاہئے اور جو کام اس کے علاوہ ہو گا وہ اسلامی کام نہیں ہے اسلام میں تمام راہیں توحید پر ختم ہوتی ہیں۔ اخلاق اسلامی کا سرچشمہ توحید ہے اور یہ توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔ اسلامی تربیت بھی اسی طرح ہے سیاست اسلامی اقتصاد اسلامی اور اجتماع اسلامی سب اسی طرح اسلام سے وابستہ ہیں۔ اسلام میں ہر کام خدا کے نام سے اور اسی کی استعانت سے شروع ہوتا ہے۔

بسم الله الرحمن الرحیم

”اور خدا کے نام اور اس کی حمد پر ختم ہوتا ہے۔“

الحمدلله رب العالمین

”اور خدا کے نام سے اور اسی پر اعتماد سے ہر کام جاری ہوتا ہے۔“

توکلت علی الله وعلی الله فلیتو کل المومنون

( سورہ ہود آیت ۵۶ اور سورہ آل عمران آیت ۱۲۲)

۷۰

”ایک حقیقی مسلمان کی توحید ایک خیال اور خشک عقیدہ نہیں ہے جس طرح ذات خدا پنی مخلوقات سے جدا نہیں ہے بلکہ سب کے ساتھ ہے اور سب پر محیط ہے۔ ساری چیزیں اسی سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔“

اسی طرح توحید کا تصور بھی ایک حقیقی موحد کے پورے وجود پر محیط ہوتا ہے اس کے تمام افکار و خیالات اس کی تمام قوتوں اور اس کے طور طریقوں پر سایہ فگن ہو جاتا ہے اور ان سب کی ایک خاص سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کے کام کی ابتداء انتہا اور وسط اللہ کی ذات ہوتی ہے اور وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہیں دیتا۔

۲۷ ۔ واسطوں کی نفی:

اسلام اگرچہ نزول فیض میں واسطوں اور ذریعوں کو قبول کرتا ہے اور علت و معلول کے نظام کو خواہ وہ امور مادی ہوں اور خواہ امور معنوی میں حقیقی اور واقعی شمار کرتا ہے مگر پرستش اور عبادت کی منزل میں تمام وسائل اور ذرائع کو مسترد کر دیتا ہے جیسا کہ ہم سب اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تحریف شدہ مذاہب میں فرد (یعنی انسان انفرادی حیثیت سے) خدا سے براہ راست رابطہ اور تعلق کی قدر و قیمت اپنے ہاتھ سے کھو چکا ہے خدا اور بندے کے درمیان جدائی فرض کر لی گئی ہے صرف کاہن یا روحانی پیشوا براہ راست خدا کے ساتھ راز و نیاز کر سکتا ہے اور پس اسی کو حق ہے کہ دوسرے تمام لوگوں کے پیغامات کو خدا تک پہنچائے۔ اسلام میں یہ کام ایک طرح کا شرک گنا جاتا ہے قرآن کریم صراحت کے ساتھ کہتا ہے:

”(اے حبیب) اگر میرے بندے میرے بارے میں تم سے سوال کریں تو کہہ دو! میں نزدیک ہوں میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔“

۷۱

۲۸ ۔ اہل توحید کے ساتھ باہمی زندگی کا امکان:

اسلام کی نظر میں تمام مسلمان اپنے ملک میں دوسرے ادیان کے ماننے والوں اور پیروکاروں کے ساتھ جو اصول توحید کو قبول کرتے ہیں جیسے یہودی عیسائی اور مجوسی اگرچہ فی الحال وہ توحید سے منحرف ہی ہوں پھر بھی چند مخصوص شرائط کے ساتھ ان کے ہمراہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

لیکن اسلامی ملک کے اندر مشرک کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے مسلمان اسلام کی اعلیٰ مصلحتوں کی بنیاد پر مشرکین کے ساتھ صلح و صفائی اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے معاہدہ کر سکتے ہیں یا کسی خاص مسئلے پر بھی معاہدہ کر سکتے ہیں۔

۲۹ ۔ مساوات:

اسلامی آئیڈیالوجی کے اصول و ارکان مساوات اور غیر امتیازی سلوک ہے۔ اسلام کی نظر میں سب انسان اپنی ذات کے لحاظ سے برابر ہیں اور لوگ اس اعتبار سے دو یا کئی قسموں میں پیدا نہیں کئے گئے ہیں رنگ خون نسل و قومیت بلندی و برتری کے معیار نہیں ہیں۔ سید قریشی اور سیاہ حبشی دونوں برابر ہیں۔ اسلام میں آزادی جمہوریت اور عدل و انصاف انسانوں کی برابری اور مساوات کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔

اسلامی نظریے کے مطابق صرف چند محدود و معین حالات میں افراد کے بعض حقوق خود انہی افراد اور معاشرے کی چند مصلحتوں کے پیش نظر وقتی طور پر سلب ہوتے ہیں لیکن یہ چیز افراد کے جوہر ذات خون نسل اور مقام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی غلاموں کی غلامی کا وقتی اور عارضی دور جو اسلام کی نظر میں ثقافتی تعلیمی اور تربیتی پہلو رکھتا تھا نہ کہ اقتصادی اور حصول نفع کا پہلو اور وہ دور اسلامی تربیت کے لئے ایک پرورش گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔

۷۲

۳۰ ۔ اسلام میں حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں دو جنسوں کے لحاظ سے ہیں یعنی جس طرح انسانیت میں مرد و زن مشترک ہیں اور نوعی مشترکات رکھتے ہیں لیکن ان کی جنسیت (یا صنفیت) ان کو خاص فرعی امتیاز عطا کر دیتی ہے اسی طرح حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں بھی جہاں تک دو جنسوں کی مشترکات کے ساتھ مربوط ہیں مشترک اور مساوی ہین مثلاً تحصیل علم کا حق عبادت و پرستش کا حق شریک حیات کے انتخاب کا حق ملکیت کا حق اپنی مملوکہ چیزوں میں تصرف کا حق وغیرہ اور جہاں تک یہ فرعی مختصات اور جنسیت سے مربوط ہیں تو وہاں بھی برابر اور مساوی حالت تو ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے سے مشابہت اور یکسانیت کی صورت نہیں ہوتی اور دو جنسیت ہوتی ہے۔(ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”اسلام میں خواتین کے حقوق“)

۷۳

انسان کی شناخت

انسان اپنی بھی شناخت رکھتا ہے اور دنیا کی بھی‘ اور یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور دنیا کو اس سے بھی زیادہ پہچانے‘ کیوں کہ اس کا تکامل‘ ترقی اور سعادت اپنی دو صورتوں کی مرہون ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کس کی اہمیت زیادہ ہے اور کس کی کم؟ لیکن اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔

بعض لوگ ”خود شناسی“ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بعض ”دنیا شناسی“ کو‘ مشرقی اور مغربی طرز فکر میں اختلافات کی ایک وجہ وہ دو طرح کے جوابات ہیں جو اس سوال کے دیئے جاتے ہیں‘ جیسا کہ علم اور ایمان میں فرق کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ علم دنیا شناسی کا ذریعہ ہے اور ایمان خود شناسی کا سرمایہ ہے۔

البتہ علم کی کوشش یہ ہوتی ہے جس طرح انسان کو دنیا شناسی تک پہنچاتا ہے اسی طرح اس کو ”خود شناسی“ میں بھی مدد دے اور علم النفس کی یہی ذمہ داری ہے لیکن علم جس طرح کی خود شناسی کا ذریعہ ہے‘ وہ خود شناسی بالکل مردہ اور بے جان ہے‘ اس سے نہ تو دلوں میں ولولہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی انسان کی خوابیدہ قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس جس ”خود شناسی“ کے حصول کا ذریعہ دین اور مذہب ہے اور اس میں ایمان کی آمیزش ہوتی ہے وہ اپنی ایمانی قوت سے وجود انسان کو گرما دیتی ہے۔ یہ وہ خود شناسی ہے جو انسان کو اس کی حقیقی ذات سے آشنا کرتی‘ اس کو غفلت سے بیدار کرتی‘ اس کی روح کو گرماتی اور اس کو درمند اور درد آشنا بناتی ہے اور یہ کام سائنس اور فلسفہ کے بس کی بات نہیں۔

۷۴

بلکہ بعض اوقات سائنس اور فلسفہ انسان کو غفلت اور خود فراموشی کے سپرد کر دیتے ہیں اور اسی لئے اس دنیا میں جہاں بہت سے بے درد اور خود فراموش شکم پرست سائنس دان اور فلسفی ملتے ہیں تو وہاں بہت سے خود شناس ان پڑھ بھی نظر آتے ہیں۔

خود شناسی کی دعوت مذہبی تعلیم کا برنامہ کلام ہے۔ مذہب کہتا ہے خود کو پہچان لو تاکہ اپنے خدا کو پہچان سکو ”اور اپنے خدا کو فراموش نہ کرو ورنہ خود کو بھی بھول جاؤ گے“ قرآن حکیم میں آیا ہے:

ولا تکونوا کاالذین نسوا الله فانسیهم انفسهم اولئک هم الفاسقون (سورئہ حشر‘ آیت ۱۹)

”اور ان لوگوں کی مانند نہ ہونا جو خدا کو بھول گئے پھر خدا نے ان کے لئے ان کی جانیں بھلا دیں‘ یہ لوگ وہی فاسق لوگ ہیں جو اپنے آپ کو بھول چکے ہیں۔“

حضرت رسول اکرم نے فرمایا:

من عرف نفسه فقد عرف ربه

(بحارالانوار‘ ج ۹۱‘ ص ۹۹)

”جو کوئی اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے‘ وہ اپنے خدا کو پہچان لیتا ہے۔“

حضرت علی ۱  نے فرمایا:

معرفة النفس انفع المعارف

(غدرالحکم طبع بیروت‘ ج ۲‘ ص ۲۸۸)

”خود شناسی مفید ترین شناخت ہے۔“

۷۵

اور انہوں نے ہی فرمایا:

عجبت لمن ینشد ضالة کیف لا ینشد نفسه (غدرالحکم‘ ج ۶‘ ص ۳۹)

”تعجب ہے اس شخص پر جو اپنے پاس سے کوئی چیز گم کر دیتا ہے‘ تو تلاش کرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گم کر دینے کے بعد تلاش نہیں کرتا۔“

دانشوروں نے مغربی تہذیب کے جو بنیادی عیوب بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ تہذیب دنیا شناسی اور خود فراموشی کی تہذیب ہے۔

انسان اس تہذیب کے ذریعے ”دنیا شناس“ تو ہو جاتا ہے‘ لیکن وہ جتنا زیادہ ”دنیا شناس“ ہوتا ہے‘ اتنا ہی زیادہ خود کو بھول بھی جاتا ہے‘ مغرب میں انسانیت کی پستی کا اصل راز یہی ہے۔

جب انسان قرآنی عبارت میں اپنے آپ کو ہار جاتا ہے (خسران نفس) تو دنیا کو پا لینا اس کے کس کام آ سکتا ہے۔ میرے خیال میں جس نے اس زاویے سے سب سے بہتر انداز میں مغرب پر تنقید کی ہے‘ ہندوستان کے آنجہانی لیڈر مہاتما گاندھی ہیں۔ گاندھی کہتے ہیں:

”اہل مغرب وہ بڑے کام کرنے پر قادر ہیں‘ جو دوسری قوموں کے نزدیک خدا کی قدرت ہی میں ہیں۔ لیکن مغربی لوگ ایک چیز سے محروم ہیں اور وہ باطن شناسی ہے اور صرف یہی بات مغربی جدید تہذیب کی جھوٹی چکاچوند کے کھلے پن کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔“

۷۶

مغربی تہذیب نے اگر اہل مغرب کو شراب خوری اور جنسی اختلاط میں مبتلا کیا ہے تو اس لئے کہ وہ بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو تلاش کریں اپنی ذات سے غفلت اور اسے بھلا دینے کے درپے ہیں‘ اکثر ان کے بہت بڑے کام حتیٰ کہ ان کے نیک اعمال کا نتیجہ بھی خود فراموشی اور بے ہودگی ہے۔ ان کی تمام قوت عمل‘ ایجادات‘ اختراعات اور جنگی وسائل کے مہیا کرنے پر صرف ہوتی ہے‘ جس کی بنیاد اپنے آپ سے فرار ہے نہ اپنے آپ پر حکومت اور اپنے نفس پر تسلط۔

جب انسان اپنی روح کو گم کر دے تو دنیا کو فتح کر لینا اس کے کس کام آ سکتا ہے؟ گاندھی کہتے ہیں:

”دنیا میں صرف ایک ہی حقیقت ہے اور وہ ہے ”خود شناسی“ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا اور دوسروں کو بھی پہچان لیا‘ جس نے اپنے آپ کو نہیں پہچانا‘ اس نے کسی چیز کو بھی نہیں پہچانا۔ دنیا میں صرف ایک طاقت ایک آزادی اور ایک عدالت موجود ہے اور وہ اپنے آپ پر حکومت کرنے کی قوت ہے‘ جس نے اپنے آپ پر غلبہ پایا‘ وہ دنیا پر بھی غالب آ گیا‘ دنیا میں صرف ایک ہی نیکی کا وجود ہے اور وہ یہ کہ انسان دوسروں سے اسی طرح محبت کرے‘ جس طرح اپنے آپ سے کرتا ہے‘ بالفاظ دیگر ہمیں چاہئے کہ دوسروں کو بھی اپنی طرح سمجھیں‘ باقی مسائل تصور‘ وہم اور عدم ہیں۔“

(فارسی کتاب ”این است مذہب من“، مقدمہ)

بہرحال ہم خواہ خود شناسی کو زیادہ اہمیت دیں یا دنیا شناسی کو اور خواہ دونوں کو برابر کا درجہ دیا جائے‘ امر مسلم یہ ہے کہ شناخت کی وسعت عین انسانی زندگی کی وسعت ہی ہے۔ روح اور شناخت ایک دوسرے کے مساوی ہیں اور آگاہی و شناخت روح کے مساوی‘ جو انسان زیادہ شناخت رکھتا ہے‘ اس کی روح بھی زیادہ قوی ہے۔

۷۷

مولانا رومی فرماتے ہیں:

جان نباشد جز ”خبر“ در آزمون

ہر کہ را افزوں ”خبر“ جانش فزون

جان ما از جان حیوان بیشتر

ازچہ؟ زان روکہ فزون دارد خبر

پس فزون از جان ما جان ملک

کو منزہ شد ز حس مشترک

و ز ملک جان خداوندان دل

باشد افزون تو تجبررا بھل

زان سبب آدم بود مسجود شان

جان او افزون تر است از بود شان

ورنہ بہتر را سجود دون تری

امر کردن ھیچ نبود در خوری

کی پسندد لطف و عدل کردگار

کہ گلی سجدہ کند درپیش خار

شد مطیعش جان جملہ چیزھا

جان چو افزوں شدگشتہ از انتہا

۷۸

مرغ و ماہی و پری و آدمی

زانکہ او بیش است و ایشان در کمی

جان چہ باشد؟ با خبر از خیر و شر

شاد از احسان وگریان از ضرر

چون سر و ماہیت جان مخبر است

ہر کہ او آگاہ تر با جان تر است

اقتضای جان چو ای دل آگہی است

ہر کہ آگہ تر بود جانش قوی است

روح را تاثیر آگاہی بود

ہر کہ را این بیش اللہی بود

چون جہان جان سراسر آگہی است

ہر کہ بی جان است از دانش تہی است

۷۹

آزمائش میں روح سوائے شناخت کے کوئی اور چیز نہیں‘ جس کی شناخت زیادہ ہے اس کی روح زیادہ قوی ہے۔

ہماری روح حیوان کی روح سے زیادہ قوی ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس کی شناخت زیادہ ہے۔

ہماری روح سے فرشتے کی روح زیادہ قوی ہے کیوں کہ وہ انسان اور حیوان میں مشترک احساسات سے پاک ہے۔

اور اہل دل کی روحیں فرشتوں کی روحوں سے بھی قوی ہیں‘ تو اس پر حیران مت ہو۔

آدم اس لئے ان کا مسجود ہوا کہ اس کی روح ان کے وجود سے زیادہ قوی ہے ورنہ بہتر کا کمتر کو سجدہ کرنے کا حکم دینا مناسب نہیں۔

اللہ کے عدل اور مہربانی کے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ پھول کانٹے کے سامنے سجدہ کرے‘ جب روح زیادہ قوی ہو گئی تو وہ حد سے گذر گئی اور تمام دوسری ر وحیں اس کی مطیع ہو گئیں۔

اس لئے کہ پرندے‘ مچھلیاں اور پریاں اس سے کمتر ہیں اور وہ ان سب سے بلند مرتبہ ہے‘ روح کیا ہے؟ وہ نیکی اور بدی سے باخبر ہے جو احسان سے خوش ہوتی اور نقصان سے روتی ہے۔

چونکہ روح کا راز اور اس کی ماہیت کی خبر دی گئی ہے‘ اس لئے جو اس سے زیادہ آگاہ ہے اس کی روح زیادہ قوی ہے۔

اے دل‘ چونکہ روح کا تقاضا شناخت ہے‘ اس لئے جو انسان زیادہ شناخت رکھے گا اس کی روح زیادہ قوی ہے۔

روح کی تاثیر آگاہی سے ہے‘ اس لئے جس انسان کی آگاہی زیادہ ہے وہ خدائی ہے چونکہ روح کی دنیا مکمل آگاہی ہے اس لئے جو بے روح ہے علم و دانش سے عاری ہے۔

لہٰذا جو انسان جتنا اپنے آپ سے اور دنیا سے زیادہ آگاہ ہے‘ اس کی روح اتنی ہی زیادہ قوی ہے‘ فلاسفہ کی اصطلاح میں جاندار ہونا حقیقت مشککہ ہے یعنی اس کے درجات اور مراتب ہیں۔

۸۰

خدمت میں عرض کیا تھا کہ فاطمہ (ع) اللہ کی اطاعت میں میری بہترین مددگار اور یاور ہے _(۱)

بچوں کی تعلیم و تربیت

جناب زہرا ء کی ذمہ داریوں میں سے سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی_ آپ کے پانچ بچے ہوئے، جناب امام حسن(ع) اور امام حسین (ع) اور جناب زینب خاتوں اور جناب ام کلثوم اور پانچوں فرزند کا نام محسن تھا جو ساقط کردیا گیا، آپ کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ ہیں آپ کی اولاد عام لوگوں کی اولاد کی طرح نہ تھی بلکہ یوں ہی مقدر ہوچکا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) کی نسل مبارک جناب فاطمہ (ع) سے چلے_

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے باقی پیغمبروں کی ذریت ان کے صلب سے ہے لیکن میری نسل علی (ع) کے صلب سے مقرر ہوئی ہے میں فاطمہ (ع) کی اولاد کا باپ ہوں_(۲)

خدا نے مقرر فرمایا ہے کہ دین کے پیشوا اور رسول خدا(ص) کے خلفاء جناب زہرا(ع) کی پاک نسل سے ہوں لہذا جناب زہرا(ع) کی سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی_

تربیت اولاد ایک مختصر جملہ ہے لیکن یہ لفظ بہت مہم اور وسیع المعنی ہے شاید کسی کے ذہن میں آئے کہ اولاد کی تربیت صرف اور صرف باپ کا ان کے لئے لوازم زندگی

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۱۱۷_

۲) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ص ۲۸۷_

۸۱

فراہم کرنا ہی نہیں اور ماں ان کے لئے خشک و ترسے غذا مہیا کردے اور لباس دھو دے اور بس اس کے علاوہ اور کوئی بھی ذمہ داری اولاد کی ان پر عائد نہیں ہوتی لیکن معلوم ہونا چاہیئےہ اسلام اسی حد تک اولاد کی تربیت میں اکتفا نہیں کرتا بلکہ ماں باپ کو ان کے بہت بڑے وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے_

اسلام بچے کی بعد میں بننے والی شخصیت کو ماں باپ کی پرورش او رتربیت اور ان کی نگہداری کے مرہون منت سمجھتا ہے ماں باپ کے تمام حرکات او رسکنات اور افعال و کردار بچے کی لطیف اور حساس روح پر اثرانداز ہوتے ہیں، ہر بچہ ماں باپ کے رفتار اور سلوک کی کیفیت کا نمائندہ ہوتا ہے_ ماں باپ کا وظیفہ ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے بچے کے مستقبل کے مراقب او رمواظب ہوں تا کہ بے گناہ بچہ کہ جس کی نہاد اچھائی خلق ہوئی ہے فاسد اور بدبخت نہ ہوجائے_

جناب زہرا(ع) نے خود دامن وحی میں تربیت پائی تھی او راسلامی تربیت سے نا آشنا او رغافل نہ تھیں_ یہ جانتی تھیں کہ کس طرح ماں کا دودھ اور اس کے معصوم بچے کے لبوں پر بوسے لے کر اس کے تمام حرکات اور سکنات اعمال اور گفتار اس کی حساس روح پر اثرانداز ہوا کرتے ہیں_ جانتی تھیں کہ مجھے امام کی تربیت کرتا ہے اور معاشرہ اسلامی کو ایک ایسا نمونہ دینا ہے جو روح اسلام کا آئینہ دار اور حقیقت کا معرف ہوگا، معارف اور حقائق ان کے وجود میں جلوہ گر ہوں اور یہ کام کوئی آسانی کا م نہ تھا_

جناب فاطمہ (ع) جانتی تھیں کہ مجھے اس حسین (ع) کی تربیت کرنا ہے کہ جو اسلام کی ضرورت کے وقت اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان دین اسلام کے دفاع اور ظلم سے مبارزہ کر کے فداکر سکے اور اپنے عزیزوں کے پاک خون سے اسلام کے درخت کو سیراب کردے_ جانتی تھیں کہ انھیں ایسی لڑکیاں زینب او رام کلثوم تربیت

۸۲

کرنی ہیں جو اپنے پر جوش خطبوں اور تقریروں سے بنی امیہ کی ظلم و ستم کی حکومت کو رسوا اور مفتضح کردیں اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنادے_ فاطمہ (ع) زہرا گھریلو یونیورسٹی میں زینب کو فداکاری اور شجاعت اور یزید کے ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا دس دے رہی تھیں تا کہ اپنی شعلہ بیانی سے دوست اور دشمن کو رلائے اور اپنے بھائی کی مظلومیت اور بنو امیہ کی بیدادگی اور ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا درس دے رہی تھیں، جانتی تھیں کہ ایک متحمل مزاج فرزند امام حسن جیسا تربیت کرنا ہے تا کہ اسلام کے حساس موقع پر اپنے جگر کا خون پیتا رہے اور اسلام کے منافع اور اساسی انقلاب کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے ساکت رہے اور شام کے حاکم سے صلح کر کے عالم کو بتلا دے کہ اسلام جب تک ممکن ہو صلح کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے اور اس طرح کر کے حاکم شام کی عوام فریبی اور دغل بازی کو ظاہر کردے، غیر معمولی نمونے جو اس اعجازآمیز مکتب سے نکلے ہیں وہ حضرت زہرا (ع) کی غیر معمولی طاقت اور عظمت روحی کے ظاہر کر نے کے لئے کافی ہیں_

جی ہاں حضرت زہرا (ع) کوتاہ فکر عورتوں سے نہ تھیں کہ جو گھر کے ماحول اور محیط کو معمولی شمار کرتے ہوئے بلند پرواز کرتی ہیں_ حضرت زہرا(ع) کے گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس خیال کرتی تھیں اسے انسان سازی کا ایک بہت بڑا کارخانہ اور فوجی تمرین اور فداکاری کی ایک اہم یونیورسٹی شمار کرتی تھیں اور جانتی تھیں کہ اس درسگاہ کے تربیت شدہ کو جو درس دیا جائے گا وہ نہیں معاشرہ کے بہت بڑے میدان میں ظاہر کرنا ہوگا، جو یہاں ٹریننگ لیں گے اس پر انہیں مستقبل میں عمل کرنا ہوگا، جناب زہرا (ع) عورت ہونے میں احساس کمتری میں مبتلا نہ تھیں اور عورت کے مقام اور مرتبے کو اہم اور اعلی جانتی تھیں اور اس قسم کی بھاری

۸۳

استعداد اپنے میں دیکھ رہی تھیں کہ کارخانہ خلقت نے ان پر اس قسم کی بھاری اور مہم ذمہ داری ڈال دی ہے اور اس قسم کی اہم مسئولیت اس کے سپرد کردی ہے_

تربیت کی اعلی درسگاہ

حضرت زہرا(ع) کے گھر میں بچوں کی ایک اسلامی تربیت اور اعلی درسگاہ کی بنیاد رکھی گئی یہ درسگاہ اسلام کی دوسری شخصیت اور اسلام کی خاتون اول کی مدد سے یعنی علی (ع) اور فاطمہ زہرا (ع) کی مدد سے چلائی جارہی تھی اور اسلام کی پہلی شخصیت یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیرنگرانی چل رہی تھی_اس میں تربیت کے قواعد اور پروگرام بلاواسطہ پرودگار جہان کی طرف سے نازل ہوتے تھے، تربیت کے بہترین پروگرام اس میںجاری کئے جاتے تھے اور بہترین افراد کو تربیت دی گئی تھی میں یہاں اس مطلب کے اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ اس عالی پروگرام کے جزئیات ہمارے لئے بیان نہیں کئے گئے، کیوں کہ اول تو اس زمانے کے مسلمان اتنی فکری رشد نہیں رکھتے تھے کہ وہ تربیتی امور کی اہمیت کے قائل ہوں اور اس کی قدر کریں اور پیغمبر اور علی (ع) اور فاطمہ علیہم السلام کی گفتار اور رفتار کو جو وہ بجالائے تھے محفوظ کر لیتے اور دوسروں کے لئے روایت کرتے دوسرے بچوں کی تربیت کا اکثر لائحہ عمل گھر کے اندر جاری کیا جاتا تھا کہ جو دوسروں سے اندرونی اوضاع غالباً پوشیدہ رہتے تھے_

لیکن اس کے باوجود اجمالی طور سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تربیت کا لائحہ عمل وہی تھا جو قرآن کریم اور احادیث پیغمبر(ص) اور احادیث آئمہ اطہار میں وارد ہوا ہے اور پھر جو تھوڑی بہت جزئیات نقل کی گئی ہیں اس سے ایک حد تک ان کی تربیت

۸۴

کی طرف راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے_

یہ بھی واضح رہے کہ میں نہیں چاہتا ہوں کہ مفصول طور پر اصول تربیت پر بحث کروں کیوں کہ یہاں اس بحث کے لئے گنجائشے نہیں ہے_ لیکن ان میں سے کچھ اصول تربیت کو جو حضرت زہرا(ع) کی اولاد کی تربیت میں استعمال کئے گئے ہیں اور ہمارے لئے نقل ہوئے ہیں اختصار کے طور پر یہاں بیان کرتا ہوں_

پہلا درس

محبت

شاید اکثر لوگ یہ خیال کریں کے بچے کی تربیت کا آغاز اس وقت سے ہونا چاہیئے جب اچھائی اور برائی کو بچہ درک کرنے لگے اور اس سے پہلے بچے کی تربیت کرنا موثر نہ ہوگی، کیوں کہ اس سے پہلے بچہ خارجی عوامل سے متاثر نہیں ہوتا لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کیوں کہ فن تربیت کے دانشمندوں کی تصدیق کے مطابق بچے کی پرورش اور تربیت کا آغاز اس کی پیدائشے سے ہی شروع کردینا چاہیئے، دودھ پلانے کی کیفیت اور ماں باپ کے واقعات اور رفتار نو مولود کی پرورش میں ایک حد تک موثر واقع ہوتے ہیں اور اس کی مستقبل کی شخصیت اسی وقت سے شروع جاتی ہے_

فن تربیت اور نفسیات کے ماہرین کے نزدیک یہ مطلب یا یہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ بچے بچپن کے زمانے سے ہی محبت اور شفقت کے محتاج ہوتے ہیں_ بچہ چاہتا ہے کہ اس کے ماں باپ اسے حد سے زیادہ دوست رکھیں

۸۵

اور اس کے ساتھ شفقت کا اظہار کریں بچے کو اس کی زیادہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ قصر میں زندگی گزار رہا ہے یا خیمے میں اس کا لباس بہت اعلی اور نفیس ہے یا نہیں، لیکن اسے اس موضوع سے زیادہ توجہ ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جاتی ہے یا نہیں، بچے کے اس اندورنی احساس کو سوائے محبت کے اظہار اور شفقت کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی، بچے کی مستقبل کی شخصیت اور اخلاق کا سرچشمہ اس سے محبت کا اظہار ہے یہی ماں کی گرم گود اور باپ کی مخلصانہ نوازش بچے میں بشر دوستی کی حس اور ہم جنس سے علاقہ مندی پیدا کرتی ہے_ یہی بچے سے بے ریاء نوازش بچے کو تنہائی کے خوف اور ضعف سے نجات دیتی ہے اور اسے زندگی کا امیدوار بناتی ہے، یہی خالص پیار و محبت بچے کی روح میں اچھی اخلاق اور حسن ظن کی آمیرش کرتی ہے اور اسے اجتماعی زندگی اور ایک دوسرے سے تعاون و ہمکاری کی طرف ہدایت کرتی ہے اور گوشہ نشینی اور گمنامی سے نجات دیتی ہے انہیں نوازشات کے واسطے سے بچے میں اپنی شخصیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو دوستی کے لائق سمجھتا ہے_

جس بچے میں محبت کی کمی کا احساس ہو وہ عام طور سے ڈرپوک، شرمیلا ضعیف، بدگمان، گوشہ نشین، بے علاقہ، پمردہ اور مریض ہوا کرتا ہے، اور کبھی ممکن ہے کہ اس کے رد عمل کے اظہار کے لئے اور اپنی بے نیازی کو بتلانے کے لئے مجرمانہ افعال کے بجالانے میں ہاتھ ڈال دے جیسے جنایت، چوری، قتل و غیرہ تا کہ اس وسیلہ سے اس معاشرہ سے انتقام لے سکے جو اسے دوست نہیں رکھتا اور اس سے بے نیازی کا مظاہرہ کرسکے_

پس بچے سے محبت اور شفقت اس کی ضروریات میں شمار ہوتی ہیں اور اس

۸۶

کی پرورش میں محبت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے_

اس چیز کا درس حضرت زہرا(ع) کے گھر میں کامل طور سے دیا جاتا تھا اور پیغمبر اکرم(ص) یہ جناب فاطمہ (ع) کو یاد دلاتے تھے_

روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسن (ع) متولد ہوئے تو آپ کو زرد کپڑے میں لپیٹ کر پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ نو مولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹا کرو؟ اس کے بعد امام حسن (ع) کے زرد کپڑے کو اتار پھینکا اور انہیں سفید کپڑے میں لپیٹا اور بغل میں لیا او رانہیں بوسہ دینا شروع کیا، یہی کام آپ نے امام حسین علیہ السلام کی پیدائشے وقت بھی انجام دیا_(۱)

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز جماعت میں مشغول تھے آپ جب سجدے میں جاتے تو امام حسین (ع) آپ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے اور پاؤں کو حرکت دینے اور جب سجد سے سر اٹھاتے تو امام حسین علیہ السلام کو پشت سے ہٹاکر زمین پر بٹھا دیتے اور جب آپ دوبارہ سجدے میں جاتے تو امام حسین علیہ و آلہ و سلم انہیں ہٹا دیتے، پیغمبر اکرم(ص) نے اسی کیفیت سے نماز پوری کی، ایک یہودی جو یہ کیفیت دیکھ رہا تھا اس نے عرض کی کہ بچوں کے ساتھ آپ کا جو برتاؤ ہے اس کو ہم پسند نہیں کرتے_ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ اگر تم بھی خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوتے تو تم بھی بچوں کے ساتھ ایسی ہی نرمی سے پیش آتے وہ یہودی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۲۴۰_

۸۷

کے اس رویہ کی وجہ سے مسلمان ہوگیا_(۱)

ایک دن پیغمبر(ص) جناب امام حسن (ع) کو بوسہ اور پیار کر رہے تھے کہ اقرع بن حابس نے عرض کی کہ میرے دس فرزند ہیں لیکن میں نے ابھی تک کسی کو بھی بوسہ نہیں دیا_ پیغمبر (ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ اگر خدا نے تیرے دل سے محبت کو لے لیا ہے تو میں کیا میں کیا کروں؟ جو شخص بھی بچوں پر ترحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے _(۲)

ایک دن جناب رسول خدا(ص) کا جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزر ہوا آپ نے امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز سنی آپ نے جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی اور فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ حسین (ع) کو رونا مجھے اذیت دیتا ہے_(۳)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے کندھے پر سوار کیا تھا راستے میں کبھی امام حسن علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے اور کبھی امام حسین علیہ السلام کا، ایک آدمی نے عرض کی_ یا رسول اللہ(ص) آپ ان دو بچوں کو دوست رکھتے ہیں آپ نے فرمایا_ ہاں، جو شخص حسن (ع) اور حسین (ع) کو دوست رکھے وہ میرا دوست ہے اور جو شخص ان سے دشمنی کرے وہ میرا دشمن ہے _(۴)

پیغمبر اسلام(ص) کبھی جناب فاطمہ (ع) سے فرماتے تھے، حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۲_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ص ۲۹۵_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۱_

۸۸

اور جب آپ ان کو حضور کی خدمتم یں لے جاتیں تو رسول اکرم(ص) ان کو سینے سے لگاتے اورپھول کی طرح ان کو سونگھتے _(۱)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حسن(ع) اور حسین(ع) کے لبوں کو اس طرح چوستے دیکھا ہے جیسے خرما کو چوسا جاتا ہے_(۲)

دوسرا درس

شخصیت

نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچے کی تربیت کرنے والے کو بچے کی شخصیت کی پرورش کرنی چاہیئے اور بچے کو خود اعتماد کا درس دینا چاہیئے_ یعنی اس میں اعتماد نفس اجاگر کیا جائے تا کہ اسے بڑی شخصیت اور بڑا آدمی بنایا جاسکے_

اگر بچے کی تربیت کرتے والا بچے کا احترام نہ کرے اور اسے حقیر شمار کرے اور اس کی شخصیت کو ٹھیس پہنچاتا رہے تو خودبخود وہ بچہ ڈرپوک اور احساس کمری کا شکار ہوجائے گا اور اپنے آپ کو بے قیمت اور حقیر جاننے لگے گا_ اور جب جوان ہوگا تو اپنے آپ کو اس لائق ہی نہیں سمجھے گا کہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے_ اس قسم کا آدمی معاشرہ میں بے اثر ہوگا اور اپنے آپ کو بہت آسانی سے پست کاموں کے لئے حاضر کردے گا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۴_

۸۹

بخلاف اگر اپنے آپ کو صاحب شخصیت اور با وقار سمجھتا ہو تو پھر وہ پست کاموں کے لئے تیار نہ ہوگا اورذلت وخواری کے زیر بار نہ ہوگا_ اس قسم کی نفسیاتی کیفیت ایک حد تک ماں باپ کی روحی کیفیت اور خاندانی تربیت سے وابستہ ہوا کرتی ہے_

نفسیات کے ماہر بچے کی تربیت کے لئے تربیت کرنے والوں سے سفارش کرتے ہیں کہ جن میں سے بعض یہ مطالب ہیں_

اول: بچے سے محبت اور نوازش کااظہار کرتا ہم اسے پہلے درس میں بیان کرچکے ہیں اور ہم نے ذکر کیا تھا کہ جناب امام حسن(ع) اور جناب امام حسین(ع) ماں باپ اور حضرات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بہت زیادہ محبت سے بہرہ ور تھے_

دوم: بچے کی اچھی صفات کا ذکر کیا جائے اور اس کی اپنے دوستوں کے سامنے تعریف اورتوصیف کی جائے اور اسے نفس کی بزرگی کا درس دیا جائے_

جناب رسول خدا(ص) نے کئی دفعہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا کہ یہ جوانان جنت کے بہترین افراد سے ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی بہتر ہے_(۱)

پیغمبر اکرم(ص) نے امام حسین اور امام حسین علیہما السلام سے فرمایا کہ تم خدا کے ریحان ہو_(۲)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳_ ص ۲۶۴_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ج_ ص۲۸۱_

۹۰

جناب ابوبکر کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تشریف فرماتھے اور جناب امام حسن (ع) آپ کے پہلوں میں بیٹھے ہوئے تھے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی جناب امام حسن علیہ السلام کی طرف اور فرماتے تھے کہ حسن (ع) سید وسردار ہے_ شاید اس کی برکت سے میری امت میں صلح واقع ہو_(۱)

جابر کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پشت پر سوار ہیں اور آپ گھٹنوں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تمہاری سواری بہترین ہے اورتم بہترین سوار ہو_(۲)

یعلی عامری کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، آپ نے اپنے ہاتھ بڑھائے تا کہ آپ کو پکڑلیں جناب امام حسین علیہ السلام اس طرف اور اس طرف بھاگتے تھے_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہنستے ہوئے امام حسین علیہ السلام کو بغل میں لے لیا اور اس وقت اپنا ایک ہاتھ امام حسین علیہ السلام کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ گردن کے پیچھے رکھا اور اپنے دہن مبارک کو امام حسین(ع) کے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیا اور فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں_ جو شخص اسے دوست رکھے خدا اسے دوست رکھتا ہے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۲۰۵_

۲) بحار الانوار،ج ۴۳_ ص ۲۸۵_

۹۱

حسین (ع) میری بیٹی کا فرزند ہے_(۱)

حضرت علی بن ابی طالب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے فرمایا کرتے تھے کہ تم، لوگوں کے پیشوا اور جوانان جنت کے سردار ہو اور معصوم ہو خدا اس پر لعنت کرے جو تم سے دشمنی کرے_(۲)

جناب فاطمہ (ع) ایک دن امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت میں لائیںاور عرض کی یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) اور حسین آپ کے فرزند ہیں ان کو کچھ عطا فرمایئےرسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنی سیادت و ہیبت حسن کو بخشی، اور اپنی شجاعت اور سخاوت حسین (ع) کو دی_

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میںنے امام حسین (ع) کو دیکھا کہ آپ پیغمبر(ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ ان کو بوسہ دے رہیں اور فرماتے ہیں کہ تم سردار اورسردار زادہ ہو امام اور امام کے فرزند اور ماموں کے باپ ہو تم حجت ہو اور حجت کے فرزند اور نوحجتوں کے باپ ہو کہ آخری حجت امام مہدی قائم ہوں گے_(۳)

جی ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب زہرا(ع) کی اولاد کی تربیت میں کوشش کرتے تھے جناب زہراء اور حضرت علی بھی اسی لائحہ عمل پرآپ کی متابعت کرتے تھے کبھی بھی انہوں نے بچوں کو حقیر نہیں سمجھا اور ان کی شخصیت کو دوسروں کے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۷۱_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۶۵_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۵_

۹۲

سامنے ہلکاپھلکا بنا کر پیش نہیں کیا، اور ان کے روح اور نفس پر اس قسم کی ضرب نہیں لگائی یہی وجہ تھی کہ آپ کے یہاں سید و سردار نے تربیت پائی_

روایت میںآیا ہے کہ ایک آدمی نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا کہ جس کی اسے سزا ملنی تھی اس نے اپنے آپ کو جناب رسول خدا(ص) سے مخفی رکھا یہاں تک کہ ایک دن راستے میں امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) سے اس کی ملاقات ہوگئی ان دونوں کو کندھے پر بیٹھایا اور جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) میں حسن (ع) اور حسین (ع) کو شفیع اورواسطہ قرار دیتا ہوں پیغمبر اکرم(ص) ہنس دیئے اورفرمایا میںنے تمہیں معاف کردیا اس کے بعد امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے فرمایا کہ میں نے تمہاری سفارش اور شفاعت قبول کرلی ہے _(۱)

یہی عظمت نفس اور بزرگی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اپنی مختصر فوج سے یزید کے بے شمار لشکر کے سامنے ڈٹ گئے اور مردانہ وار جنگ کی لیکن ذلت اور خواری کو برداشت نہ کیا آپ فرماتے تھے میں غلاموں کی طرح بھاگوں گا نہیں اور ذلت اور خواری کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا _(۲)

اسی تربیت کی برکت تھی کہ زینب کبری ان تمام مصائب کے باوجود یزید کے ظلم و ستم کے سامنے حواس باختہ نہ ہوئیں اور اس سے مرعوب نہ ہوئیں اور پرجوش خطابت سے کوفہ اور شام کو منقلب کر گئیں اور یزید کی ظالم اور خونخوار حکوت کو ذلیل اور خوار کر کے رکھ دیا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۳۱۸_

۲) مقتل ابن مختف، ص ۴۶_

۹۳

تیسرا درس

ایمان اورتقوی

نفسیات کے ماہرین کے درمیان یہ بحث ہے کہ بچوں کے لئے دینی تعلیمات اور تربیت کس وقت سے شروع کی جائے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ بچہ جب تک بالغ اوررشید نہ ہو وہ عقائد اورافکار دینی کو سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتا اور بالغ ہوتے تک اسے دینی امور کی تربیت نہیں دینی چاہیئے_ لیکن ایک دوسرے گروہ کاعقیدہ یہ ہے کہ بچے بھی اس کی استعداد رکھتے ہیں اور انہیں دینی تربیت دی جانی چاہیئےربیت کرنے والے دینی مطالب اور مذہبی موضوعات کو سادہ اور آسان کر کے انہیں سمجھائیں اور تلقین کریں اور انہیں دینی امور اور اعمال کو جو آسان ہیں بجالانے پر تشویق دلائیں تا کہ ان کے کان ان دینی مطالب سے آشنا ہوں اور وہ دینی اعمال اورافکار پرنشو و نما پاسکیں_ اسلام اسی دوسرے نظریئے کی تائید کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کریں _(۱)

پیغمبر اسلام(ص) نے دینی امور کی تلقین حضرت زہرا(ع) کے گھر بچپن اور رضایت کے زمانے سے جاری کردی تھی_ جب امام حسن علیہ السلام دنیا میں آئے اور انہیں رسول خدا(ص) کی خدمت میں لے گئے تو آپ نے انہیں بوسہ دیا اوردائیں کان میں

____________________

۱) شافی ج ۲ ص ۱۴۹_

۹۴

اذان اور بائیں کان میں اقامت اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے موقع پربھی یہی عمل انجام دیا(۱) _

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنا چاہتے تھے امام حسین علیہ السلام بھی آپ کے پہلو میں کھڑے ہوگئے جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی توجناب امام حسین علیہ السلام نہ کہہ سکے رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے سات مرتبہ تکبیرکی تکرار کی یہاں تک کہ امام حسین (ع) نے بھی تکبیر کہہ دی _(۲)

جناب رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دینی تلقین کو اس طرح موثر جانتے تھے کہ تولد کے آغاز سے ہی آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے کانوں میں اذان اور اقامت کہی تا کہ اولاد کی تربیت کرنے والوں کے لئے درس ہوجائے یہی وجہ تھی کہ جناب فاطمہ (ع) جب امام حسن (ع) کو کھلایا کرتیں اورانہیں ہاتھوں پرا ٹھا کر اوپر اور نیچے کرتیں تو اس وقت یہ جملے پڑھتیں اے حسن(ع) تو باپ کی طرح ہوتا حق سے دفاع کرنا اور اللہ کی عبادتکرنا اوران افراد سے جو کینہ پرور اور دشمن ہوں دوستی نہ کرنا_(۳)

جناب فاطمہ زہرا، بچوں کے ساتھ کھیل میں بھی انہیں شجاعت اور دفاع حق اور عبادت الہی کا درس دیتی تھیں اور انہیں مختصر جملوں میں چار حساس مطالبہ بچے کویاد دلا رہی ہیں، یعنی باپ کی طرح بہادر بننا اوراللہ کی عبادت کرنا اور

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴۱_

۲) بحار الانوار ، ج ۴۳ ص ۲۰۷_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۶_

۹۵

حق سے دفاع کرنااوران اشخاص سے دوستی نہ کرنا جو کینہ پرور اور دشمن ہوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مالی تقوی اورناپاک غذا کے موارد میں اپنی اسخت مراقبت فرماتے تھے کہ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں کچھ خرما کی مقدار زکوة کے مال سے موجود تھی آپ نے اسے فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جب آپ تقسیم سے فارغ ہوئے اور امام حسن (ع) کو کندھے پر بیٹھا کر چلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ خرما کا ایک دانہ امام حسن(ع) کے منھ میں ہے_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ امام حسن علیہ السلام کے منھ میں ڈال کر فرمایا طخ طخ بیٹا حسن (ع) کیا تمہیں علم نہیں کہ آل محمد(ص) صدقہ نہیں کھاتے _(۱)

حالانکہ امام حسن (ع) بچے اور نابالغ تھے کہ جس پرکوئی تکلیف نہیں ہوا کرتی چونکہ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ ناپاک غذا بچے کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے لہذا اسے نکال دینے کا حکم فرمای قاعدتاً بچے کو بچپن سے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ کھانے کے معاملہ میں مطلقاً آزاد نہیں ہے بلکہ وہ حرام اور، حلال کا پابند ہے اس کے علاوہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اس عمل سے حسن علیہ السلام کی شخصیت اور بزرگی منش ہونے کی تقویت کی اور فرمایا زکوة بیچاروں کا حق ہے اور تمہارے لئے سزاوار نہیں کہ ایسے مال سے استفادہ کرو، حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی اولاد میں شرافت، طبع اور ذاتی لحاظ سے بڑا ہونا اس قدر نافذ تھا کہ جناب ام کلثوم نے ویسے ہی کوفہ میں عمل کر دکھایا جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے جد نے انجام دیا تھا_

مسلم نے کہا کہ جس دن امام حسین علیہ السلام کے اہلبیت قید ہوکر کوفہ میں

____________________

۱) ینابیع المودہ ص ۴۷_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۳۰۵_

۹۶

لائے گئے تھے تو لوگوں میںاہلبیت کے بچوں پرترحم اوررقت طاری ہوئی اور انہوں نے روٹیاں، خرمے، اخروٹ بطور صدقہ ان پر ڈالنی شروع کیں اور ان سے کہتے تھے کہ دعا کرنا ہمارے بچے تمہاری طرح نہ ہوں_

جناب زہرا(ع) کی باغیرت دختر اور آغوش وحی کی تربیت یافتہ جناب ام کلثوم روٹیاں اور خرمے اور اخروٹ بچوں کے ہاتھوں اور منھ سے لے کر دور پھینک دیتیں اور بلند آواز سے فرماتیں ہم اہلبیت پرصدقہ حرام ہے _(۱)

اگر چہ امام حسین (ع) کے بچے مکلف نہ تھے لیکن شرافت طبع اور بزرگواری کا اقتضا یہ تھا کہ اس قسم کی غذا سے حتی کہ اس موقع پربھی اس سے اجتناب کیا جائے تا کہ بزرگی نفس اور شرافت اور پاکدامنی سے تربیت دیئے جائیں_

چوتھا درس

نظم اوردوسروں کے حقوق کی مراعات

ایک اہم مطلب جو ماں باپاور دوسرے بچوں کی تربیت کرنے والوں کے لئے مورد توجہ ہونا چاہیئےہ یہ ہے کہ وہ بچے پرنگاہ رکھیں کہ وہ اپنے حق سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حق کا احترام کرے بچے کو منظم اور با ضبط ہونا چاہیئے زندگی میں نظم اور ضبط کا برقرار رکھنا اسے سمجھایا جائے اس کی اس طرح تربیت کی

____________________

۱) مقتل ابی مختف، ص ۹۰_

۹۷

جائے کہ اپنے حق کے لینے سے عاجز نہ ہو اوردوسروں کے حق کو پا مال نہ کرے، البتہ اس صفت کی بنیاد گھر اور ماں باپ کو رکھنی ہوگی، ماں باپ کو اپنی تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیئے کسی ایک کو دوسرے پر مقدم نہ کریں، لڑکے اور لڑکی کے درمیان، چھوٹے اور بڑے کے درمیان، خوبصورت اور بدصورت کے درمیان، ذہین او رکم ذہن کے درمیان فرق نہ کریں یہاں تک کہ محبت کے ظاہر کرنے کے وقت بھی ایک جیسا سلوک کریں تا کہ ان میں حسد اور کینہ کی حس پیدا نہ ہو اور مراکش اور متجاوز نہ نکل آئیں_

اگر بچہ دیکھے کہ گھر میں تمام افراد کے درمیان حقوق کی پوری طرح رعایت کی جاتی ہے تو وہ سمجھ جائے گا کہ جامعہ اور معاشرہ میں بھی ایک دوسرے کے حقوق کی پوری طرح رعایت نہ ہوئی تو اس میںسرکشی اور تجاوز کی عادت تقویت پکڑے گی اگر کوئی بچہ کسی تربیت وار چیز کے خرید نے یا کسی جگہ با تربیت سوار ہونے میں یا کلاس کے کمرے میں باترتیب جانے یا نکلنے میں اس ترتیب اور نظم کا خیال نہ کرے اور دوسروں کے حق کو پا مال کرے اور اس کے ماں باپ اور تربیت کرنے والے افراد اس کے اس عمل میںتشویق کریں تو انہوں نے اس معصوم بچے کے حق میں خیانت کی کیونکہ وہ بچپن سے یہی سمجھے گا کہ دوسروں پر تعدی اور تجاوز بلا وجہ تقدم ایک قسم کی چالاکی اور ہنر ہے_ یہی بچہ جوان ہو کر جب معاشرہ میں وارد ہوگا یا کسی کام کی بجا آوری کا ذمہ دار بنا جائے گا تو اس کی ساری کوشش دوسروں کے حقوق کو تلف اور پائمال کرنا ہوگی اور اپنے ذاتی منافع کے علاوہ اس کا کوئی ہدف نہ ہوگا اس صفت کا درس حضرت زہرا کے گھر میں کامل طور ''اتنی وقت کے ساتھ کہ معمولی سے معمولی ضابطہ کی بھی مراعات کی جات تھی'' دیا جاتا تھا_

مثال کے طور پر حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

۹۸

ہمارے گھر آرام کر رہے تھے، امام حسن (ع) نے پانی مانگا جناب رسول خدا(ص) اٹھے تھوڑا دودھ برتن میں دودہ کر جناب امام حسن (ع) کو دیا کہ اتنے میں امام حسین علیہ السلام بھی اٹھے اور چاہا کہ دودھ کا برتن امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ سے لیں لیکن پیغمبر(ص) نے امام حسین علیہ السلام کو اس کے لینے سے روک دیا، جناب فاطمہ زہرا یہ منظر دیکھ رہی تھیں، عرض کیا یا رسول اللہ(ص) گویا آپ امام حسن (ع) کو زیادہ دوست رکھتے ہیں؟ آپ(ص) نے جواب دیا کہ بات یہ نہیںہے بلکہ اس کے روکنے کی وجہ یہ ہے کہ امام حسن (ع) کو تقدم حاصل ہے اس نے حسین (ع) سے پہلے پانی مانگا تھا لہذا نوبت کی مراعات ہونی چاہیئے _(۱)

پانچواں درس

ورزش اور کھیل کود

تربیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کہ کھیل کود کی اس کی مرضی کے مطابق آزادی دینی چاہیئے بلکہ اس کے لئے کھیل کود اور سیر و سیاحت کے پورے اسباب فراہم کرنے ہیں آج کل متمدن معاشرے میں یہ موضوع قابل توجہ قرار دیا جاتا ہے اور پرائمری، ہڈل اور ہائی اسکول اور کالجوں میں کھیل اور تفریح کے مختلف وسائل بچوں اور جوانوں کی عمر کے مطابق فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں مل کرکھیلنے اور ورزش کرنے کی تشویق دلاتے ہیں،

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۳_

۹۹

گویا وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کھیلنا جیسے بدن کے رشد کرنے کے لئے ضروری ہے ویسے ہی یہ ان کی روح کی تربیت کے لئے بھی بہت تاثیر رکھتا ہے_

بعض لوگ بچوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑوں کی طرح زندگی گزاریں اوراپنے لئے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انہیں طفلانہ کھیل گود سے روکے رکھیں اور اگر کوئی بچہ کھیل کود میں مشغول ہو تو اسے بے ادب بچہ قرار دیتے ہیں اوراگر چپ چاپ سر جھکائے اورکھیل گود سے دور ایک گوشہ میں بیٹھا رہنے والا ہو تو اسے شاباشی دیتے ہیں اور اسے با ادب بچہ سمجھتے ہیں_ لیکن نفسیات کے ماہر اس عقیدے کوغلط اور بے جا قرار دیتے ہیں ان کاعقیدہ ہے کہ بچے کو کھیلنا چاہیئے_ اور اگر بچہ نہ کھیلے تو یہ اس کے جسمی اور روحی بیمار ہونے کی علامت ہے_ البتہ ماں باپ کو یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ بچہ وہ کھیل کود انجام نہ دے جو اس کے لئے ضرر کا موجب ہو اور دوسروں کے لئے مسرت کے اسباب فراہم کرتا ہو_

ماں باپ صرف بچہ کو کھیل کودکے لئے آزادی ہی نہ دیں بلکہ خود بھی بیکاری کے وقت بچے کے ساتھ کھیلیں، کیوں کہ ماں باپ کا یہ عمل بچے کے لئے لذت بخش ہوتا ہے اوروہ اسے اپنے لئے محبت کی علامت قرار دیتا ہے_

رسول خدا(ص) جناب امام حسن اور امام حسین کے ساتھ کھیلتے تھے_ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خد ا (ص) کو دیکھا کہ وہ حسن (ع) اور حسین (ع) کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کے پاؤں کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے فرما رہے تھے، فاطمہ (ع) کے نور چشم اور چڑھو، حسن (ع) اور حسین (ع) اوپر چڑھتے یہاں تک کہ ان کے پاؤں آپ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110