انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں0%

انسان قرآن کی نظرمیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 110

انسان قرآن کی نظرمیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شھید مرتضی مطہری
زمرہ جات: صفحے: 110
مشاہدے: 39006
ڈاؤنلوڈ: 2753

تبصرے:

انسان قرآن کی نظرمیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 110 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39006 / ڈاؤنلوڈ: 2753
سائز سائز سائز
انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

10 ۔ مفید نتیجے اور فائدے کی امتیازی حیثیت:

اسلام کی نظر میں ہر کام خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی سب سے پہلے اس کے فائدے اور مفید نتیجے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جس کام سے کوئی فائدہ برآمد نہ ہو اسلام کی نظر میں اسے بے ہودہ فضول اور ممنوع سمجھا جاتا ہے۔والذین هم عن اللغو معرضون ( سورہ مومنون آیت 3)

11 ۔ لین دین میں خیر و صلاح کا لحاظ:

مال و دولت کی گردش اس کے نقل و انتقال کو ہر قسم کی بے ہودگی اور بدعنوانی سے پاک و صاف ہونا چاہئے۔ ہر نقل و انتقال کے مقابل میں کوئی مادی یا معنوی خیر و بھلائی ملحوظ خاطر ہونی چاہئے ورنہ مال کی یہ گردش باطل اور ممنوع ہو گی۔

ولاتا کلوا اموالکم بینکم بالباطل ( سورہ بقرہ آیت 188)

”جوئے وغیرہ کے ذریعے مال کا نقل و انتقال باطل طریقے سے مال کمانے کا مصداق ہے اور حرام ہے۔“

12 ۔ سرمایہ جونہی گردش یا نقصان یا تباہی کی صورت سے خارج ہو کر ضمانت و غرض کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو عقیم (فائدے سے خالی) اور بے سود ہو جاتا ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کا کوئی جائز فائدہ نہیں رہتا اور جو اضافی مقدار بھی اصل سرمائے پر لی جائے گی وہ سود اور حرام کے زمرے میں آئے گی۔

13 ۔ ہر مالی تبادلہ اور سرمائے کی گردش طرفین کی پوری واقفیت و آگاہی ہی سے ہونی چاہئے اور ضروری سمجھا جائے گا۔

نهی النبی عن الغرر (صحیح مسلم ج 3 ص 1153)

”اپنے کو معرض ہلاکت میں ڈالنا خدعہ دھوکہ و فریب ہے۔“

۶۱

14 ۔ خلاف عقل امور سے مقابلہ:

اسلام عقل کو قابل احترام چیز اور خدا کا باطنی رسول سمجھتا ہے اصول دین عقلی و منطقی دلیل کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔ فروع دین میں بھی عقل اجتہاد کے سرچشموں میں سے ایک ہے۔ اسلام عقل کو ایک قسم کی طہارت اور عقل کے زائل ہونے کو ایک طرح کا محدث ہونا سمجھتا ہے لہٰذا جنون یا مستی کا طاری ہونا بھی پیشاب کرنے یا سو جانے کی مانند وضو کو باطل کر دیتا ہے۔ اسلام ہر طرح کی مستی اور نشے کا مخالف ہے اور مطلقاً تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال کو حرام قرار دیتا ہے کیوں کہ وہ ہر اس چیز کا مخالف ہے جو عقل کی مخالف ہو اور یہ مخالفت دین کا جزولاینفک ہے۔(جو چیز نہی نبوی کی عبارت میں ہے وہ ”بیع غرری“ ہے لیکن اجتہادی معیارات مطلقہ طور پر غرر و فریب کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔مولف)

15 ۔ خلاف ارادہ امور سے مقابلہ:

جس طرح عقل قابل احترام اور اسلامی تعلیمات میں بہت سے احکام عقل کی حفاظت و نگہبانی کے لئے ہیں اسی طرح ارادہ بھی جو عقل کی قوت مجریہ ہے قابل احترام ہے اس لحاظ سے ارادے (خیر) سے روکنے والی چیزیں جو زبان اسلام میں لہو و لعب کہلاتی ہیں بھی حرام و ممنوع ہیں۔

۶۲

16 ۔ کام اور مشغلہ:

اسلام بیکاری اور کاہلی کا دشمن ہے اس لحاظ سے کہ انسان معاشرے سے استفادہ کرتا ہے کام فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا بہترین عامل اور سبب ہے اور بیکاری تباہی و فساد کا سب سے بڑا عامل ہے۔ اس لئے انسان کو مفید کام انجام دینے چاہیں۔ اسلام طفیلی ہونے اور معاشرے پر بوجھ بننے کی سخت مذمت کرتا ہے اور معاشرے پر بوجھ بننے والے پر لعنت کرتا ہے:

ملعون من القی کله علی الناس

(وسائل ج 12 ص 18)

”وہ شخص جو اپنا بوجھ لوگوں پر ڈالتا ہے۔“

17 ۔ پیشے اور فن و ہنر کا مقدس ہونا:

پیشہ اور فن و ہنر جہاں ایک خدائی حکم ہے وہاں ایک مقدس اور پاکیزہ عمل اور اللہ کا محبوب و پسندیدہ امر بھی ہے اور جہاد کی مانند ہے۔

ان الله یحب المومن المحترف

(وسائل ج 12 ص 13 ان الفاظ کے ساتھ:ان الله یحب المحترف الامین )

”خداوند عالم اس مومن کو دوست رکھتا ہے جو صاحب فن و حرفت ہو۔“

الکاد لعیاله کالمجاهد فی سبیل الله (وسائل ج 12 ص 43 وہاں پر لعیالہ کی جگہ علی عیالہ آیا ہے)

”جو شخص اپنے عیال کے لئے اپنے کو رنج و تکلیف میں ڈالتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔

۶۳

18 ۔ استحصال کی ممانعت:

اسلام استحصال و استثمار یعنی دوسروں کے کام سے بلاعوض یا غیر مناسب معاوضہ حاصل کرنے کو خواہ وہ کسی شکل اور کسی تدبیر سے ہونا جائز اور ممنوع قرار دیتا ہے۔ کسی کام کے ناجائز ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ استحصالی ماہیت رکھتا ہے۔

19 ۔ اسراف و فضول خرچی:

لوگ اپنے اموال کے مالک ہیں اور ان پر اپنا پورا تسلط رکھتے ہیں(الناس مسلطون علی اموالهم) لیکن یہ تسلط اس معنی میں ہے کہ اسلام نے جو حدود معین کی ہیں وہ ان کے دائرے میں ہو نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ مال کا ضائع کرنا ہر شکل میں اور ہر صورت سے خواہ وہ پھینک دینے کی صورت میں ہو یا تباہ کن تجملات اور زیب و زینت کی چیزوں پر تصرف کی شکل میں ہو اور جسے اسلام کی زبان میں ”اسراف و تبذیر“ سے تعبیر کیا گیا ہے ممنوع اور حرام ہے۔

۶۴

20 ۔ زندگی میں ترقی و توسیع:

اہل و عیال کے آرام و آسائش کے لئے ضروریات زندگی کی چیزوں میں اضافہ کرنا اگر کسی کی حق تلفی یا اسراف اور فضول خرچی کی حد میں داخل نہ ہو جائے نہ صرف جائز بلکہ قابل تعریف فعل ہے اور اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔

21 ۔ رشوت:

اسلام میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں کی سخت مذمت کی گئی ہے اور دونوں کو آتش جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور جو پیسے اس طرح سے حاصل ہوتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں۔

22 ۔ ذخیرہ اندوزی:

اگر عام طور پر اشیائے ضرورت (خاص کر اشیائے خوردنی) کو ذخیرہ کر لیا جائے تاکہ ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے تو یہ عمل ان اشیاء کا مہنگا بیچنا حرام اور ممنوع ہے حاکم شرعی مالک کی خواہش اور مرضی کے خلاف ان جمع شدہ اشیاء کو بازار میں لائے گا اور انہیں عادلانہ نرخ پر فروخت کرائے گا۔

۶۵

23 ۔ آمدنی کا مصلحت کی بنیاد پر ہونا نہ کہ طلب و تقاضے کی بنیاد پر:

عام طور پر چیزوں کی قدر و قیمت اور مالیت کا تعین صارفین کی طلب اور مانگ سے ہوتا ہے اور کسی کام کے جائز ہونے کے لئے اس کام کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونے کو کافی سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام کسی چیز کی مالی قدر و قیمت کے تعین اور لوگوں کے کام کو جائز قرار دینے کے لئے لوگوں کی طلب اور مانگ کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ کام کے معاشرے کی مصلحت کے مطابق ہونے کو عرف شریعت میں مالیت کے تعین اور کام کے جائز ہونے کے لئے لازمی شرط قرار دیتا ہے یعنی اسلام صرف لوگوں کی خواہشوں اور رغبتوں کو جائز آمدنی کا منبع نہیں سمجھتا بلکہ خواہشات اور رغبتوں کے علاوہ معاشرے کی مصلحت کے ساتھ آمدنی کو بھی شرط قرار دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام لوگوں کی طلب کو رسد کے جواز کے لئے کافی نہیں جانتا اس لئے اسلام میں بعض کاموں اور کسب کے طریقوں کو ”مکاسب محرمہ“ کہا گیا ہے۔ مکاسب محرمہ (کمانے کے حرام طریقے) چند قسم کے ہیں:

(الف) چیزوں کا ایسا لین دین جو جہالت میں ڈآلنے کا موجب ہو۔ ایسی چیزیں جو لوگوں کو عملاً جہالت اور فکری و اعتقادی روگردانی کی طرف راغب کرنے اور شُق دلانے کا سبب ہوتی ہیں حرام ہیں اگرچہ ان کی مانگ کافی مقدار میں ہو اس لحاظ سے بت فروشی صلیب کا بیچنا تدلیس ماشطہ (عورت کی آرائش کرنا اور اس آرائش کے ذریعے عورت کے عیوب کو چھپانا تاکہ اس کا رشتہ لینے کے لئے آنے والے فریب کھا جائیں) کسی ایسے شخص کی مدح کرنا جو اس مدح کا مستحق نہ ہو کہانت اور غیب گوئی یہ سب امور حرام ہیں اور ان طریقوں سے مال وصول کرنا بھی ممنوع اور حرام ہے۔

۶۶

(ب) ان چیزوں کا باہمی تبادلہ جو گمراہ کرنے اور غفلت میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں- گمراہ کن کتابوں اور فلموں کی خرید و فروخت اور ہر وہ کام جو کسی طرح سے بھی معاشرے کی گمراہی کا موجب ہو ناجائز اور حرام ہے۔

(ج) وہ کام جو دشمن کی تقویت کا موجب ہو کسی بھی ایسے طریقے سے روپیہ پیسہ کمانا حرام ہے جو دشمن کی بنیاد مضبوط کرنے کا باعث ہو خواہ وہ فوجی اعتبار سے ہو یا اقتصادی ثقافتی یا جاسوسی کے اعتبار سے اسلامی محاذ کو کمزور بناتا ہو چاہئے اسلحہ فروشی کی صورت میں ہو یا ایسی دوسری چیزوں کی فروخت کی شکل میں جن کی احتیاج ہو اور جو عملاً مذکورہ امور کا سبب ہوں اور نایاب قلی نسخوں کا بیچنا بھی انہی چیزوں میں شامل ہے۔

(د) ایسے امور کے ذریعے مال حاصل کرنا جو فرد یا معاشرے کے لئے تباہ کن اور نقصان پہنچانے والے ہوں مثلاً شراب فروشی آلات قمار کا بیچنا اسی طرح نجس العین چیزوں کا بیچنا اور ناقص اور ملاوٹ کی ہوئی چیزیں بھی اسی زمرے میں شامل ہیں (ان سب طریقوں سے) مال حاصل کرنا جوا کھیلنا امر حرام کی طرف دوسروں کو مائل کرنا اور لے جانا کسی مومن کی ہجو ظالموں کی مدد کرنا اور ان کی نوکری اور ملازمت وغیرہ (ممنوع اور حرام ہے) البتہ کسب حرام کی دوسری قسم بھی ہے جو کام کے خلاف مصلحت ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ اس کے لین دین سے بالاتر ہونے کی وجہ سے حرام ہے بہت سے کام بزرگی و پاکیزگی کی ایسی حد میں ہیں کہ ان کے عوض قرار دینا ان کی حیثیت و عظمت و حرمت کے خلاف ہے جیسے فتویٰ دینے شرعی فیصلہ کرنے اصول و فروع دین کی تعلیم دینے وعظ و نصیحت کرنے اور اس جیسی دوسری چیزیں اور ممکن ہے طبابت بھی اسی میں شامل ہو۔

مذکورہ کام اور پیشے اپنے مقدس ہونے کی بناء پر لین دین اور مبادلہ سے بالاتر ہیں اور اس چیز سے کہیں بلند ہیں کہ آمدنی اور دولت کی جمع آوری کا ذریعہ بنیں یہ سب کام واجبات کا ایک سلسلہ ہیں جنہیں بلاعوض انجام پانا چاہئے البتہ مسلمانوں کا بیت المال ان مقدس کاموں کے انجام دینے والوں کی ضروریات زندگی کے اخراجات کا ذمہ دار ہو گا۔

۶۷

24 ۔ حقوق کا دفاع کرنا (خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی) اور زیادی و زبردستی کرنے والے کے خلاف جہاد کرنا واجب اور مقدس کام ہے۔

لا یحب الله الجهر باالسوء من القول الا من ظلم ( سورہ نساء آیت 148)

”خداوند عالم اعلانیہ طور پر بدگوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔“

رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے:

افضل الجهاد کلمة عدل عند امام جائر (کافی ج 5 ص 60)

”بہترین جہاد ظالم و جابر پیشوا کے سامنے عدل و انصاف کی بات کہنا ہے۔“

حضرت علی 1  حضرت رسول خدا سے نقل فرماتے ہیں:

لن تقدس امة حتی یوخذ للضعیف حقه من القوی غیر متعتع

(نہج البلاغہ عہد نامہ مالک اشتر)

”کوئی قوم و ملت بزرگی و پاکیزگی (تعریف و تمجید کی قابلیت) حاصل نہیں کرتی یہاں تک کہ اس مرحلے پر پہنچ جائے کہ کمزور اپنا حق بلاخوف اور بلاجھجک طاقتور سے لے لے۔“

۶۸

25 ۔ اصلاح کی کوشش اور فساد و خرابی کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد اسلام میں اچھائیوں کا حکم دینا اور اس طرف متوجہ رکھنا اور برائیوں سے روکنا وہ فریضہ ہے جو امام باقر 1  کے مبارک الفاظ میں تمام اسلامی فرائض کا پایہ اور ستون ہے۔ یہ اصول مسلمان کو دائمی اور فکری انقلاب کے ذریعے اصلاح معاشرے کے لئے مسلسل کوشش اور تمام برائیوں اور تباہ کاریوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون عن المنکر ( سورہ آل عمران آیت 110)

”تم بہترین گروہ ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے منع کرتے ہو۔“

جناب رسالت مآب فرماتے ہیں:

لتا مرون بالمعروف و تنهون عن المنکر او یسلطن الله (علیکم) شرار کم فید عو اخیار کم فلا یستجاب لهم (کافی ج 5 ص 56 کچھ کمی بیشی کے ساتھ)

”تم لوگوں کو امربالمعروف کرنا چاہئے برائیوں سے روکنا چاہئے ورنہ خداوند عالم تمہارے بروں کو تم پر مسلط کر دے گا پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو مستجاب نہیں ہو گی۔“

۶۹

26 ۔ توحید:

اسلام ہر چیز سے زیادہ دین توحید ہے توحید کے بارے میں کسی خدشے کو چاہے وہ توحید نظری میں ہو یا توحید عملی میں قبول نہیں کرتا اسلامی افکار رفتار اور کردار سب خدا سے شروع ہوتے ہیں اور خدا ہی پر ختم ہوتے ہیں اس لحاظ سے اسلام ہر قسم کی ثنویت تثلیت یا کسی بھی قسم کی زیادتی کو جو اس اصول کو مخدوش کرتی ہو سختی کے ساتھ مسترد کرتا ہے جیسے (معاذ اللہ) خدا اور شیطان کی ثنویت یا خدا اور انسان کی دوئیت یا خدا اور مخلوق خدا کی دوئیت۔

ہر کام کو اللہ کے نام سے خدائی فکر کے ساتھ اور اللہ سے تقرب و نزدیکی حاصل کرنے کے لئے شروع ہونا چاہئے اور انجام کو پہنچنا چاہئے اور جو کام اس کے علاوہ ہو گا وہ اسلامی کام نہیں ہے اسلام میں تمام راہیں توحید پر ختم ہوتی ہیں۔ اخلاق اسلامی کا سرچشمہ توحید ہے اور یہ توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔ اسلامی تربیت بھی اسی طرح ہے سیاست اسلامی اقتصاد اسلامی اور اجتماع اسلامی سب اسی طرح اسلام سے وابستہ ہیں۔ اسلام میں ہر کام خدا کے نام سے اور اسی کی استعانت سے شروع ہوتا ہے۔

بسم الله الرحمن الرحیم

”اور خدا کے نام اور اس کی حمد پر ختم ہوتا ہے۔“

الحمدلله رب العالمین

”اور خدا کے نام سے اور اسی پر اعتماد سے ہر کام جاری ہوتا ہے۔“

توکلت علی الله وعلی الله فلیتو کل المومنون

( سورہ ہود آیت 56 اور سورہ آل عمران آیت 122)

۷۰

”ایک حقیقی مسلمان کی توحید ایک خیال اور خشک عقیدہ نہیں ہے جس طرح ذات خدا پنی مخلوقات سے جدا نہیں ہے بلکہ سب کے ساتھ ہے اور سب پر محیط ہے۔ ساری چیزیں اسی سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔“

اسی طرح توحید کا تصور بھی ایک حقیقی موحد کے پورے وجود پر محیط ہوتا ہے اس کے تمام افکار و خیالات اس کی تمام قوتوں اور اس کے طور طریقوں پر سایہ فگن ہو جاتا ہے اور ان سب کی ایک خاص سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کے کام کی ابتداء انتہا اور وسط اللہ کی ذات ہوتی ہے اور وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہیں دیتا۔

27 ۔ واسطوں کی نفی:

اسلام اگرچہ نزول فیض میں واسطوں اور ذریعوں کو قبول کرتا ہے اور علت و معلول کے نظام کو خواہ وہ امور مادی ہوں اور خواہ امور معنوی میں حقیقی اور واقعی شمار کرتا ہے مگر پرستش اور عبادت کی منزل میں تمام وسائل اور ذرائع کو مسترد کر دیتا ہے جیسا کہ ہم سب اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تحریف شدہ مذاہب میں فرد (یعنی انسان انفرادی حیثیت سے) خدا سے براہ راست رابطہ اور تعلق کی قدر و قیمت اپنے ہاتھ سے کھو چکا ہے خدا اور بندے کے درمیان جدائی فرض کر لی گئی ہے صرف کاہن یا روحانی پیشوا براہ راست خدا کے ساتھ راز و نیاز کر سکتا ہے اور پس اسی کو حق ہے کہ دوسرے تمام لوگوں کے پیغامات کو خدا تک پہنچائے۔ اسلام میں یہ کام ایک طرح کا شرک گنا جاتا ہے قرآن کریم صراحت کے ساتھ کہتا ہے:

”(اے حبیب) اگر میرے بندے میرے بارے میں تم سے سوال کریں تو کہہ دو! میں نزدیک ہوں میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔“

۷۱

28 ۔ اہل توحید کے ساتھ باہمی زندگی کا امکان:

اسلام کی نظر میں تمام مسلمان اپنے ملک میں دوسرے ادیان کے ماننے والوں اور پیروکاروں کے ساتھ جو اصول توحید کو قبول کرتے ہیں جیسے یہودی عیسائی اور مجوسی اگرچہ فی الحال وہ توحید سے منحرف ہی ہوں پھر بھی چند مخصوص شرائط کے ساتھ ان کے ہمراہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

لیکن اسلامی ملک کے اندر مشرک کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے مسلمان اسلام کی اعلیٰ مصلحتوں کی بنیاد پر مشرکین کے ساتھ صلح و صفائی اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے معاہدہ کر سکتے ہیں یا کسی خاص مسئلے پر بھی معاہدہ کر سکتے ہیں۔

29 ۔ مساوات:

اسلامی آئیڈیالوجی کے اصول و ارکان مساوات اور غیر امتیازی سلوک ہے۔ اسلام کی نظر میں سب انسان اپنی ذات کے لحاظ سے برابر ہیں اور لوگ اس اعتبار سے دو یا کئی قسموں میں پیدا نہیں کئے گئے ہیں رنگ خون نسل و قومیت بلندی و برتری کے معیار نہیں ہیں۔ سید قریشی اور سیاہ حبشی دونوں برابر ہیں۔ اسلام میں آزادی جمہوریت اور عدل و انصاف انسانوں کی برابری اور مساوات کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔

اسلامی نظریے کے مطابق صرف چند محدود و معین حالات میں افراد کے بعض حقوق خود انہی افراد اور معاشرے کی چند مصلحتوں کے پیش نظر وقتی طور پر سلب ہوتے ہیں لیکن یہ چیز افراد کے جوہر ذات خون نسل اور مقام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی غلاموں کی غلامی کا وقتی اور عارضی دور جو اسلام کی نظر میں ثقافتی تعلیمی اور تربیتی پہلو رکھتا تھا نہ کہ اقتصادی اور حصول نفع کا پہلو اور وہ دور اسلامی تربیت کے لئے ایک پرورش گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔

۷۲

30 ۔ اسلام میں حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں دو جنسوں کے لحاظ سے ہیں یعنی جس طرح انسانیت میں مرد و زن مشترک ہیں اور نوعی مشترکات رکھتے ہیں لیکن ان کی جنسیت (یا صنفیت) ان کو خاص فرعی امتیاز عطا کر دیتی ہے اسی طرح حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں بھی جہاں تک دو جنسوں کی مشترکات کے ساتھ مربوط ہیں مشترک اور مساوی ہین مثلاً تحصیل علم کا حق عبادت و پرستش کا حق شریک حیات کے انتخاب کا حق ملکیت کا حق اپنی مملوکہ چیزوں میں تصرف کا حق وغیرہ اور جہاں تک یہ فرعی مختصات اور جنسیت سے مربوط ہیں تو وہاں بھی برابر اور مساوی حالت تو ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے سے مشابہت اور یکسانیت کی صورت نہیں ہوتی اور دو جنسیت ہوتی ہے۔(ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”اسلام میں خواتین کے حقوق“)

۷۳

انسان کی شناخت

انسان اپنی بھی شناخت رکھتا ہے اور دنیا کی بھی‘ اور یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور دنیا کو اس سے بھی زیادہ پہچانے‘ کیوں کہ اس کا تکامل‘ ترقی اور سعادت اپنی دو صورتوں کی مرہون ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کس کی اہمیت زیادہ ہے اور کس کی کم؟ لیکن اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔

بعض لوگ ”خود شناسی“ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بعض ”دنیا شناسی“ کو‘ مشرقی اور مغربی طرز فکر میں اختلافات کی ایک وجہ وہ دو طرح کے جوابات ہیں جو اس سوال کے دیئے جاتے ہیں‘ جیسا کہ علم اور ایمان میں فرق کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ علم دنیا شناسی کا ذریعہ ہے اور ایمان خود شناسی کا سرمایہ ہے۔

البتہ علم کی کوشش یہ ہوتی ہے جس طرح انسان کو دنیا شناسی تک پہنچاتا ہے اسی طرح اس کو ”خود شناسی“ میں بھی مدد دے اور علم النفس کی یہی ذمہ داری ہے لیکن علم جس طرح کی خود شناسی کا ذریعہ ہے‘ وہ خود شناسی بالکل مردہ اور بے جان ہے‘ اس سے نہ تو دلوں میں ولولہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی انسان کی خوابیدہ قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس جس ”خود شناسی“ کے حصول کا ذریعہ دین اور مذہب ہے اور اس میں ایمان کی آمیزش ہوتی ہے وہ اپنی ایمانی قوت سے وجود انسان کو گرما دیتی ہے۔ یہ وہ خود شناسی ہے جو انسان کو اس کی حقیقی ذات سے آشنا کرتی‘ اس کو غفلت سے بیدار کرتی‘ اس کی روح کو گرماتی اور اس کو درمند اور درد آشنا بناتی ہے اور یہ کام سائنس اور فلسفہ کے بس کی بات نہیں۔

۷۴

بلکہ بعض اوقات سائنس اور فلسفہ انسان کو غفلت اور خود فراموشی کے سپرد کر دیتے ہیں اور اسی لئے اس دنیا میں جہاں بہت سے بے درد اور خود فراموش شکم پرست سائنس دان اور فلسفی ملتے ہیں تو وہاں بہت سے خود شناس ان پڑھ بھی نظر آتے ہیں۔

خود شناسی کی دعوت مذہبی تعلیم کا برنامہ کلام ہے۔ مذہب کہتا ہے خود کو پہچان لو تاکہ اپنے خدا کو پہچان سکو ”اور اپنے خدا کو فراموش نہ کرو ورنہ خود کو بھی بھول جاؤ گے“ قرآن حکیم میں آیا ہے:

ولا تکونوا کاالذین نسوا الله فانسیهم انفسهم اولئک هم الفاسقون (سورئہ حشر‘ آیت 19)

”اور ان لوگوں کی مانند نہ ہونا جو خدا کو بھول گئے پھر خدا نے ان کے لئے ان کی جانیں بھلا دیں‘ یہ لوگ وہی فاسق لوگ ہیں جو اپنے آپ کو بھول چکے ہیں۔“

حضرت رسول اکرم نے فرمایا:

من عرف نفسه فقد عرف ربه

(بحارالانوار‘ ج 91‘ ص 99)

”جو کوئی اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے‘ وہ اپنے خدا کو پہچان لیتا ہے۔“

حضرت علی 1  نے فرمایا:

معرفة النفس انفع المعارف

(غدرالحکم طبع بیروت‘ ج 2‘ ص 288)

”خود شناسی مفید ترین شناخت ہے۔“

۷۵

اور انہوں نے ہی فرمایا:

عجبت لمن ینشد ضالة کیف لا ینشد نفسه (غدرالحکم‘ ج 6‘ ص 39)

”تعجب ہے اس شخص پر جو اپنے پاس سے کوئی چیز گم کر دیتا ہے‘ تو تلاش کرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گم کر دینے کے بعد تلاش نہیں کرتا۔“

دانشوروں نے مغربی تہذیب کے جو بنیادی عیوب بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ تہذیب دنیا شناسی اور خود فراموشی کی تہذیب ہے۔

انسان اس تہذیب کے ذریعے ”دنیا شناس“ تو ہو جاتا ہے‘ لیکن وہ جتنا زیادہ ”دنیا شناس“ ہوتا ہے‘ اتنا ہی زیادہ خود کو بھول بھی جاتا ہے‘ مغرب میں انسانیت کی پستی کا اصل راز یہی ہے۔

جب انسان قرآنی عبارت میں اپنے آپ کو ہار جاتا ہے (خسران نفس) تو دنیا کو پا لینا اس کے کس کام آ سکتا ہے۔ میرے خیال میں جس نے اس زاویے سے سب سے بہتر انداز میں مغرب پر تنقید کی ہے‘ ہندوستان کے آنجہانی لیڈر مہاتما گاندھی ہیں۔ گاندھی کہتے ہیں:

”اہل مغرب وہ بڑے کام کرنے پر قادر ہیں‘ جو دوسری قوموں کے نزدیک خدا کی قدرت ہی میں ہیں۔ لیکن مغربی لوگ ایک چیز سے محروم ہیں اور وہ باطن شناسی ہے اور صرف یہی بات مغربی جدید تہذیب کی جھوٹی چکاچوند کے کھلے پن کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔“

۷۶

مغربی تہذیب نے اگر اہل مغرب کو شراب خوری اور جنسی اختلاط میں مبتلا کیا ہے تو اس لئے کہ وہ بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو تلاش کریں اپنی ذات سے غفلت اور اسے بھلا دینے کے درپے ہیں‘ اکثر ان کے بہت بڑے کام حتیٰ کہ ان کے نیک اعمال کا نتیجہ بھی خود فراموشی اور بے ہودگی ہے۔ ان کی تمام قوت عمل‘ ایجادات‘ اختراعات اور جنگی وسائل کے مہیا کرنے پر صرف ہوتی ہے‘ جس کی بنیاد اپنے آپ سے فرار ہے نہ اپنے آپ پر حکومت اور اپنے نفس پر تسلط۔

جب انسان اپنی روح کو گم کر دے تو دنیا کو فتح کر لینا اس کے کس کام آ سکتا ہے؟ گاندھی کہتے ہیں:

”دنیا میں صرف ایک ہی حقیقت ہے اور وہ ہے ”خود شناسی“ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا اور دوسروں کو بھی پہچان لیا‘ جس نے اپنے آپ کو نہیں پہچانا‘ اس نے کسی چیز کو بھی نہیں پہچانا۔ دنیا میں صرف ایک طاقت ایک آزادی اور ایک عدالت موجود ہے اور وہ اپنے آپ پر حکومت کرنے کی قوت ہے‘ جس نے اپنے آپ پر غلبہ پایا‘ وہ دنیا پر بھی غالب آ گیا‘ دنیا میں صرف ایک ہی نیکی کا وجود ہے اور وہ یہ کہ انسان دوسروں سے اسی طرح محبت کرے‘ جس طرح اپنے آپ سے کرتا ہے‘ بالفاظ دیگر ہمیں چاہئے کہ دوسروں کو بھی اپنی طرح سمجھیں‘ باقی مسائل تصور‘ وہم اور عدم ہیں۔“

(فارسی کتاب ”این است مذہب من“، مقدمہ)

بہرحال ہم خواہ خود شناسی کو زیادہ اہمیت دیں یا دنیا شناسی کو اور خواہ دونوں کو برابر کا درجہ دیا جائے‘ امر مسلم یہ ہے کہ شناخت کی وسعت عین انسانی زندگی کی وسعت ہی ہے۔ روح اور شناخت ایک دوسرے کے مساوی ہیں اور آگاہی و شناخت روح کے مساوی‘ جو انسان زیادہ شناخت رکھتا ہے‘ اس کی روح بھی زیادہ قوی ہے۔

۷۷

مولانا رومی فرماتے ہیں:

جان نباشد جز ”خبر“ در آزمون

ہر کہ را افزوں ”خبر“ جانش فزون

جان ما از جان حیوان بیشتر

ازچہ؟ زان روکہ فزون دارد خبر

پس فزون از جان ما جان ملک

کو منزہ شد ز حس مشترک

و ز ملک جان خداوندان دل

باشد افزون تو تجبررا بھل

زان سبب آدم بود مسجود شان

جان او افزون تر است از بود شان

ورنہ بہتر را سجود دون تری

امر کردن ھیچ نبود در خوری

کی پسندد لطف و عدل کردگار

کہ گلی سجدہ کند درپیش خار

شد مطیعش جان جملہ چیزھا

جان چو افزوں شدگشتہ از انتہا

۷۸

مرغ و ماہی و پری و آدمی

زانکہ او بیش است و ایشان در کمی

جان چہ باشد؟ با خبر از خیر و شر

شاد از احسان وگریان از ضرر

چون سر و ماہیت جان مخبر است

ہر کہ او آگاہ تر با جان تر است

اقتضای جان چو ای دل آگہی است

ہر کہ آگہ تر بود جانش قوی است

روح را تاثیر آگاہی بود

ہر کہ را این بیش اللہی بود

چون جہان جان سراسر آگہی است

ہر کہ بی جان است از دانش تہی است

۷۹

آزمائش میں روح سوائے شناخت کے کوئی اور چیز نہیں‘ جس کی شناخت زیادہ ہے اس کی روح زیادہ قوی ہے۔

ہماری روح حیوان کی روح سے زیادہ قوی ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس کی شناخت زیادہ ہے۔

ہماری روح سے فرشتے کی روح زیادہ قوی ہے کیوں کہ وہ انسان اور حیوان میں مشترک احساسات سے پاک ہے۔

اور اہل دل کی روحیں فرشتوں کی روحوں سے بھی قوی ہیں‘ تو اس پر حیران مت ہو۔

آدم اس لئے ان کا مسجود ہوا کہ اس کی روح ان کے وجود سے زیادہ قوی ہے ورنہ بہتر کا کمتر کو سجدہ کرنے کا حکم دینا مناسب نہیں۔

اللہ کے عدل اور مہربانی کے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ پھول کانٹے کے سامنے سجدہ کرے‘ جب روح زیادہ قوی ہو گئی تو وہ حد سے گذر گئی اور تمام دوسری ر وحیں اس کی مطیع ہو گئیں۔

اس لئے کہ پرندے‘ مچھلیاں اور پریاں اس سے کمتر ہیں اور وہ ان سب سے بلند مرتبہ ہے‘ روح کیا ہے؟ وہ نیکی اور بدی سے باخبر ہے جو احسان سے خوش ہوتی اور نقصان سے روتی ہے۔

چونکہ روح کا راز اور اس کی ماہیت کی خبر دی گئی ہے‘ اس لئے جو اس سے زیادہ آگاہ ہے اس کی روح زیادہ قوی ہے۔

اے دل‘ چونکہ روح کا تقاضا شناخت ہے‘ اس لئے جو انسان زیادہ شناخت رکھے گا اس کی روح زیادہ قوی ہے۔

روح کی تاثیر آگاہی سے ہے‘ اس لئے جس انسان کی آگاہی زیادہ ہے وہ خدائی ہے چونکہ روح کی دنیا مکمل آگاہی ہے اس لئے جو بے روح ہے علم و دانش سے عاری ہے۔

لہٰذا جو انسان جتنا اپنے آپ سے اور دنیا سے زیادہ آگاہ ہے‘ اس کی روح اتنی ہی زیادہ قوی ہے‘ فلاسفہ کی اصطلاح میں جاندار ہونا حقیقت مشککہ ہے یعنی اس کے درجات اور مراتب ہیں۔

۸۰