انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں33%

انسان قرآن کی نظرمیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 110

انسان قرآن کی نظرمیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 110 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 46552 / ڈاؤنلوڈ: 4137
سائز سائز سائز
انسان قرآن کی نظرمیں

انسان قرآن کی نظرمیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

دستاویزات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ۳ ۱ ھ کو جناب ابوبکر کی وفات کی خبر لشکر تک پہنچنے سے پہلے یا کم از کم ابوعبیدہ جراح کے اس خبر کو ظاہر کرنے سے پہلے دمشق فتح ہوگیا تھا_ اور اہل دمشق کے ساتھ مصالحت کرنے والے بھی اس وقت کے سردار لشکر خالد بن ولید ہی تھے_

حتی کہ اگر اس تحریر کی تاریخ ۱۵ ہجری بھی مان لی جائے تب بھی ہماری مدعا کے لئے نقصان دہ نہیں ہے_ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کی حکومت کا واقعہ اس کے بعد یعنی ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تھا_

ابوعبیدہ، ابن قتیبہ ، واقدی ، بلاذری(۱) اور دوسرے بہت سے حضرات نے تصریح کی ہے کہ صلح خالد کے ہاتھ پر ہوئی اور اس سے واضح ہے کہ صلح کے وقت لشکر کا امیر وہی تھا_

بلکہ واقدی کا کہناہے کہ ان کے ساتھ خالد کے صلح کرنے کی وجہ سے ابو عبیدہ اور خالد کے درمیان سخت تکرار اور مقابلہ بازی پیش آئی _اس سے ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے کہ خالد اپنے موقف میں کس قدر سرسخت تھا اور ابوعبیدہ اس کے مقابلہ میں کس قدر کمزور(۲) _یہی چیز ہمارے اس نظریئےے ساتھ بہت زیادہ ہماہنگی رکھتی ہے کہ لشکر کی قیادت اس وقت خالد کے پاس تھی_

بلکہ بلاذری و غیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوعبیدہ مشرقی دروازے پر تھا اور قہر و غلبہ سے شہر میں داخل ہوا تو شہر والے خالدکے پاس آئے اور اس سے صلح کرلی_ اس نے ان کے لئے تحریر لکھی اور انھوں نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا پھر بلاذری نے ابی مخنف کے قول کو بھی نقل کیا ہے جو مذکورہ واقعہ کے بالکل برعکس ہے_ پھر اس کے بعد کہتاہے کہ پہلا قول نہایت مناسب ہے(۳) _

ہم بھی کہتے ہیں : کہ ہاں یہی قول درست ہے کیونکہ اکثر مورخین بھی اسی کے قائل ہیں، اس بحث کی ابتداء میں مذکور صلح نامہ کی عبارت اور دیگر دستاویزات بھی اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ اہل دمشق سے صلح کرنے والا خالد ہی تھا اور وہی امیر لشکر تھا_

____________________

۱) المعارف لابن قتیبة ص ۷۹ ط ۱۳۹۰ بیروت ، فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ۵۹ ، فتوح البلدان ازص ۱۲۸ تا ص ۱۳۱ و دیگر کتب_

۲) فتوح الشام ج۱ ص ۵۸ ، ۶۰_ (۳) فتوح البلدان ص ۱۲۹ ، البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۱_

۶۱

البتہ خالد کی معزولی کا حکم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا تھاجب وہ دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو ابوعبیدہ نے تقریباً بیس دن تک اسے مخفی رکھا یہاں تک کہ دمشق کو فتح کرلیا گیا تا کہ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے مسلمانوں کو خالد کا مسئلہ کمزور نہ کردے(۱)

البتہ واقدی کہتاہے کہ دمشق کی فتح حضرت ابوبکر کی وفات والی رات ہوئی(۲) _

اور زینی دحلان کہتاہے : '' کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد ۱۳ ھ میں آئی اورحضرت ابوبکر کی وفات اسی رات ہوئی جس رات مسلمان دمشق میں داخل ہوئے اور یہ ۲۲جمادی الثانی ۱۳ ھ کا واقعہ ہے _ اور جو قائل ہیں کہ وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد آئی وہی افراد اس بات کے قائل ہیں کہ یرموک کا واقعہ فتح دمشق کے بعد پیش آیا(۳) _

اور ابن کثیر کہتاہے کہ '' سیف بن عمر کی عبارت کے سیاق سے ظاہر ہوتاہے کہ ۱۳ ھ میں دمشق فتح ہوا لیکن خود سیف عمومی نظریئے کے مطابق تصریح کرتے ہیں کہ ۱۵ رجب ۱۴ ھ کو دمشق فتح ہوا ''(۴) _

اورعبدالرحمن بن جبیر سے منقول ہے کہ ابوعبیدہ خود حضرت ابوبکر کو فتح دمشق کی خوشخبری دینے کے لئے گیا تھا لیکن حضرت ابوبکر پہلے ہی وفات پاچکے تھا او ر حضرت عمر نے اسے لشکر کا امیر بنادیا پھر جب وہ دمشق واپس آیا تو مسلمانوں نے یہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا : '' ایسے شخص کو خوش آمدید جسے ہم نے قاصد بنا کر بھیجا تھا اور وہ ہم پر امیر بن کر واپس آیا ہے''(۵) _

بہرحال یہ صلح نامہ اور تمام گذشتہ دستاویزات گواہ ہیں کہ اکثر مؤرخین کے مطابق خالد نے ہی اہل شام سے صلح کی تھی اور ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر فرض کریں کہ یہ تحریر ۱۵ ھ میں بھی لکھی گئی ہو یا یہ دوسری تحریر ہو تب بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے پہلے مقرّر کی جاچکی تھی_

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۲۳ و فتوح البلدان ص ۱۲۷ و ۱۲۹_

۲) فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ص ۵۹_ (۳) الفتوحات الاسلامیة ج/۱ ص ۴۷_

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲_ (۵) البدایة والنھایة ج/۱ ص ۲۴_

۶۲

رہی یہ بات کہ مؤرخین اور راویوں نے اس حقیقت سے روگردانی کیوں کی ؟شاید واقعات و حوادث کاپے درپے واقع ہونا اور ایک دوسرے کے نزدیک ہونا ان کے اشتباہ کا موجب بناہواور ان پر اچھا گما ن کرتے ہوئے (کیونکہ ان کے متعلق اچھا گمان ہی کیا جاسکتاہے) یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عمر کا دور حکومت عظیم فتوحات ا ور کشور کشائی کادور تھا اور فتح شام بھی چونکہ نہایت اہم معرکہ تھا اس لئے اسے بھی عمر کے دور حکومت میں ہونا چاہئے ، حضرت ابوبکر کے عہد میں نہیں_اور اسی طرح خالد کی شجاعت اور مختلف مواقع میں اس کی قوت و بہادری ثابت اور ظاہر کرناچاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ بلا شرکت غیرے تلوار کا دھنی ہے _ پس اس کا شام پر غلبہ حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شامیوں سے مصالحت کرنے والا کوئی اور ہو چاہے یہ معاملہ جھوٹ اور مکرو فریب سے ہی حل ہوا ہو _ لیکن کیا یہ مذکورہ باتیں ہی ان لوگوں کی حقیقت سے روگردانی کا حقیقی سبب ہیں _ مجھے تو نہیں معلوم لیکن شاید ذہین و فطین قارئین کو اس کا علم ہوگا_

۸_ سیوطی نے ابن القماح کے ہاتھ سے تحریر شدہ مجموعہ سے ایک بات نقل کی ہے جس میں مذکور ہے کہ ابن الصلاح نے کہا ہے : ''ابوطاہر محمد بن محمش الزیادی نے تاریخ الشروط میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نجران کے نصاری کے لئے تحریر لکھی اس میں ہجرت کی تاریخ قلمبند فرمائی اور علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ یہ عبارت لکھیں '' انہ کتب لخمس من الھجرة'' کہ ہجرت کے پانچویں سال میں لکھی گئی ہے''_ (پھر ) کہتاہے ''ہجرت کے ساتھ تاریخ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے لکھی گئی اور تاریخ لکھنے میں حضرت عمر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کی ہے''(۱)

اسی طرح سیوطی کہتاہے '' کہا جاتاہے یہ بات صداقت رکھتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے پانچویں برس تاریخ لکھی اور پہلی حدیث ( زھری کی گذشتہ روایت) میں تھا کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ پہنچنے کے دن تاریخ لکھی '' اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں چونکہ ظرف (یوم قدم المدینة ) فعل (امر)

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ، سیوطی ص ۱۰ نیز التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۱۸۱_

۶۳

سے متعلق نہیں بلکہ مصدر ( التاریخ) سے متعلق ہے تو اصل عبارت اس طرح ہوگی _امربان یورخ بذلک الیوم لا ان الامر کان فی ذلک الیوم یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس دن سے تاریخ لکھی جائے نہ یہ کہ یہ فرمان اس دن جاری ہوا'' (یعنی ہوسکتاہے کہ پانچ ہجری کو حکم دیا ہو کہ مدینہ تشریف آوری سے تاریخ شمار کی جائے _از مترجم)(۱) یہ سیوطی کا کلام ہے_

لیکن اس سے واضح تر جواب یہ ہے کہ آپ نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ربیع الاول کو مبداء قرار دیا اور خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ۵ میں نجران کے نصرانیوں کے لئے تحریر لکھی تو اس وقت اسی تاریخ سے استفادہ کیا_

بہر حال سخاوی کہتاہے کہ '' اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو عمر پیروی کرنے والا ہوگا پہل کرنے والا نہیں''(۲) _

اور عباس مکی کہتاہے کہ '' تاریخ ایک گذشتہ سنت اور پسندیدہ طریقہ ہے کہ جس کا حکم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجران کے نصاری کی طرف نامہ لکھتے ہوئے دیا تھا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ اس میں لکھیں (کتب لخمس من الہجرة)(۳) _پھر ابن شہاب کی گذشتہ روایت نقل کی ہے_

۹_ صحیفہ سجادیہ کی خبر سے ظاہر ہوتاہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبدا قرار دینااللہ جلّ شانہ کی منشاء کے مطابق تھاکیونکہ حدیث میں آیاہے کہ جبرائیلعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے اسلام کی چکی چلے گی اور دس سال تک چلتی رہے گی اور ہجرت سے پینتیس (۳۵) برس بعد پھراسلام کی چکی چلے گی اور پانچ سال تک چلتی رہے گی''(۴) _

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰ ، التراتیب الاداریة ج۱ ، ص ۱۸۱_

۲) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱_

۳) نرھة الجلیس ج/۱ص ۲۱_

۴) البحار ج/۵۸ ص ۳۵۱ (البتہ صفحات کی تصحیح کرنے کے بعد) سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱ ، الصحیفة السجادیة ص ۱۰ ، البتہ یہ روایت کئی اور اسناد سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے بھی وارد ہوئی ہے جنہیں البدایة والنھایة ج۶ ص۲۰۶ ، ۲۰۷ ، ج/۷ ص ۲۱۹ ، ۲۷۵ ، ص ۲۷۶ ، میں ذکر کیا گیا ہے نیز ملاحظہ ہو سنن ابی داؤد مطبوعہ دار الکتاب العربی ج۴ ص ۱۵۹ ، ص ۱۶۰_ و دیگر کتب

۶۴

۱۰ _ ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''میری ہجرت کے ساٹھ (سال) پورے ہونے پر حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کو شہید کیا جائے گا''(۱) _

۱۱ _ انس سے ایک روایت منقول ہے کہ اس نے کہا :' ' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے ہمارے لئے روایت بیان کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کے (۱۰۰) سال پورے ہونے تک تم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا''_(۲)

۱۲_ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد نے اپنے رسالے (مشہدالامام علیعليه‌السلام فی النجف الاشرف) ص ۱۰۴، ص ۱۰۵ میں اہل حیرہ کے لئے خالد بن ولید کی لکھی ہوئی تحریر کا متن درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے ( اور اگر انہوں نے فعل یا قول کے ساتھ بدعہدی اور خیانت کی تو ہم ان سے بری الذمہ ہوں گے اور ( یہ تحریر) ۱۲ ھ ماہ ربیع الاول میں لکھی گئی) _

اور یہ بات واضح ہے حیرہ کی فتح خالد کے ہاتھوں حضرت ابوبکر کے دور میں ہوئی تھی اس کا معنی یہ ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے بھی پہلے وضع کی جاچکی تھی اور اس سے پہلے سے ہی استعمال بھی ہورہی تھی پس کس طرح حضرت عمر نے ۱۶ ھ میں تاریخ معین کی ؟اور سھیلی و ابن عباس و غیرہ کے کلام سے مذکورہ بات کی تائید ممکن ہے_

۱۳_ حافظ عبدالرزاق نے ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: ''ہلاکت ہے عربوں کے لئے اس بدبختی سے جو ساٹھ سال پورے ہونے پر آئے گی _جب امانت کو غنیمت سمجھا جائے گا ...''(۳) _

۱۴_ اسی طرح عبدالرزاق نے ہی ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا :''جب پینتیس برس

____________________

۱) مجمع الزوائد ج۹ ص۱۹۰عن الطبری اوراس کی سند میں کوئی اعتراض نہیں مگر سعد بن طریف میں اور وہ بھی خود ان کی تصریح کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہے تاریخ بغدادج/۱ص۱۴۲، الالمام ج/۵ص ۲۹۹، کنزالعمال ج/۱۳ص۱۱۳ط حیدرآباد،میزان الاعتدال ج/۱ص۲۱۲عن الطبرانی وا لخطیب و ابن عساکر ،منتخب کنز العمال (حاشیہ مسنداحمد)ج/۵ ص۱۱۱، مقتل الحسین خوارزمی ج/۱ ص ۱۶۱ ، احقاق الحق ج/۱۱ ص ۳۵۴ از گذشتہ بعض و از مفتاح النجا ص ۱۳۶ قلمی نیز از امعجم الکبیر طبرانی، زندگینامہ امام حسینعليه‌السلام از تاریخ دمشق با تحقیق محمودی ص ۱۸۵_

۲) مجمع الزوائدج/۱ص ۱۹۷ ، عن ابی یعلی ، یہ روایت مختلف الفاظ اور مختلف اسناد سے نقل کی گئی ہے ، لیکن ان میں لفظ ( من الہجرة) نہیں ہے_

۳)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_

۶۵

پورے ہوں گے تو ایک امر عظیم حادث ہوگا پس اگر تم ہلاک ہوگئے تو اس کے لائق ہو گے اور اگر نجات پاگئے تو اس کی امید ہے اور جب ستر برس پورے ہوں گے تو تم انوکھی چیزیں دیکھوگے(۱) _

ابن مسعوداور ابوہریرہ نے اس کا علم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا ہے کیونکہ یہ غیب گوئی ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجری تاریخ مقر ر فرمائی _

۱۵_ ایک حدیث جس کے راوی موثق ہیں یہ ہے کہ : ہم ساٹھ ہجری سال کے پورے ہونے سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۰ ھ اور بچوں کی فرمانروائی سے(۲) _

ابوہریرہ سے مروی ہے : '' خدایا مجھے ۶۰ ھ اور بچوں کی حکومت دیکھنا نصیب نہ کر''(۳) _

۱۶_ مالک نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ایک سوستر سال پورے ہوجائیں تو جدّہ میں رہائشے پذیر ہونا بہترین اقامت اختیار کرنے میں سے ہوگا(۴) _

خلاصہ بحث:

گذشتہ امور سے واضح ہوجاتاہے کہ لوگوں کے درمیان مشہور یہ بات کہ حضرت عمر نے اسلامی ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، ناقابل قبول ، بلا دلیل اور بے بنیاد ہے_ البتہ حضرت عمر کے دور میں صرف یہ ہوا کہ ربیع الاّول کی بجائے محرم کو ہجری سال کا مبدا قرار دیا گیا اورایسا انہوں نے یا توخود کیا تھا یا حضرت عثمان کے مشورہ سے _ جبکہ محرم ( جیسا کہ سب کو معلوم ہے) زمانہ جاہلیت میں سال کا مبداء شمار ہوتا تھا(۵) _ بعید نہیں کہ ہجری تاریخ جسے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمائی تھی اور کئی بار لکھی بھی تھی،اس زمانہ میں تاریخ کی ضرورت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مشہور نہ ہوسکی ہو اور پھر حضرت عمر نے صحابہ کو اکٹھا کیا ہو تا کہ تاریخ

____________________

۱)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_ (۲) تطہیر الجنان واللسان ص ۶۶ ۱۳۷۰ نیز کنز العمال ج۱۱ ص ۱۱۳_

۳)الاتحاف بحبّ الاشراف ص ۶۵ از ابن ابی شیبہ و غیرہ _ (۴) لسان المیزان ج/۲ ص ۷۹_

۵)البدایة والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ص ۲۰۷ نیز السیرة النبویة ابن کثیر ج۲ ص ۲۸۸ و ۲۸۹_

۶۶

پر اتفاق حاصل ہوجائے(۱) لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی غرض یہ تھی کہ جس تاریخ کا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا اور جس تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا اس کو طاق نسیان میں رکھ دیا جائے _ اس لئے کہ فلاں آدمی رومی تاریخ کا مشورہ دے رہا تھا، یہود یت سے اسلام لانے والے کچھ مسلمان ایسی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں جو سکندر اورہر مزان کے دورکی طرف لوٹتی ہے اور ان لوگوںسے حضرت عمر یہ مشورے لے رہے تھے حالانکہ حضرت عمر ایرانیوں سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ لوگ اسے ایرانی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ ہلاک ہوجاتا تو وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی کے دن سے تاریخ کی ابتدا کرتے تھے_ (یعنی ...؟) کوئی مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعنی عام الفیل کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کا مشورہ دیتاہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت کے آخری سالوں میں عرب عام الفیل سے تاریخ لکھتے تھے_ اور مسعودی کے الفاظ کے مطابق:

(و کثر منهم القول و طال الخطب فی تواریخ الاعاجم و غیرها) (۲)

عجمیوں و غیرہ کی تاریخوں میں ان کے درمیان اقوال زیادہ ہوگئے اور بحث لمبی ہوگئی_

یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں تو محافظ دین اورحق کے علمبردار حضرت علیعليه‌السلام نے مناسب وقت میں اس ہجری تاریخ کا اعلان کیا جسے خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرّر فرمایا تھا اور خود انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی حیات طیبہ میں متعدد خطوط اور معاہدوں میں لکھا تھا_

آپعليه‌السلام کی رائے اور نظریہ کو قبول کرنے اور آپعليه‌السلام کے مشورہ کو دل و جان سے مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ حق ہے''والحق یعلو ولا یعلی علیه '' _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یوم ولادت و رحلت کی بجائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کی وجہ ارض شرک سے (جہاں ذلت، گمراہی اور پستی تھی) ارض

____________________

۱) علامہ محقق سید مہدی روحانی نے اپنے مقالہ میں یہ احتمال دیا ہے اور یہ مقالہ ما ہنامہ '' الھادی'' سال اول شمارہ نمبر ۴ ص ۴۸ میں شائع ہوا ہے_

۲) التنبیہ الاشراف ص ۲۵۲_

۶۷

اسلام کی طرف (جہاں عزت ، شرافت اور سربلندی تھی) ہجرت کی اہمیت تھی اور انسانیت اور تاریخ کی تشکیل کے اعتبار سے یہ چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے_ اسی طرح آپعليه‌السلام نے اس عمل سے ہرذلت آمیز رائے اور ظالم و جابر اور طاغوتی حکمرانوں سے وابستہ واقعات کو تاریخ کا مبداء قرار دینے سے اجتناب کیا _ اور بہتی گنگا کی لہروں کا دھارا بننے سے بھی پرہیز کیا جبکہ عام لوگوں میں یہ چیز عام ہوتی ہے اور ان کی رگ و پے میں خون اور زندگی کی طرح گردش کررہی ہوتی ہے_

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟

اس کے بعد ہم یہاں نہایت افسوس اور گہرے ملال سے یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ اہل مغرب اور غیر مسلم تواپنی تاریخ، تمدن اور واقعات کی حفاظت کرتے ہیں _ اور خواہ وہ کتنے ہی حقیر اور بے اہمیت ہوں کسی طر ح بھی ان سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ انہیں پھیلانے اور دوسری قوموں میں انہیں ترویج دینے اور راسخ کرنے کے درپے ہوتے ہیں _ حتی کہ اسلامی واقعات اور تاریخ کو لکھنا چاہتے ہیں تو ہجری تاریخ کو عیسوی تاریخ سے بدل کر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے سے کتنے ہی حقائق مسخ ہوجائیں اور ان میں اشتباہ و غلطی ہوجائے_

لیکن دوسری طرف ہم ترقی ، ترقی یافتہ اور تہذیب و ثقافت و غیرہ جیسے بے وزن اور خوشنما الفاظ اور نعروں کا فریب کھاکے اپنی بہت سی بنیادی اور اساسی چیزوں سے بآسانی دستبردار ہوجاتے ہیں حالانکہ ان نعروں کے پس پردہ ہزاروں خطرات اور بربادیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں _ حتی کہ بعض اسلامی ممالک نے تو عربی رسم الخط کو چھوڑ کر لاطینی اور انگریزی رسم الخط کو اپنا لیا ہے _ بلکہ اپنے رنگ ڈھنگ اور لباس جیسے حیاتی اور ضروری امور کو چھوڑ کر غیروں کے اقدار اپنالئے ہیں_ بالکل یہی صورتحال ہجری تاریخ کے متعلق بھی ہے_

ہم نے کس سہولت سے ہجری تاریخ کو چھوڑ دیا ہے جب کہ یہ ہماری عزت و سربلندی کا سرچشمہ تھی

۶۸

اس سے ہماری تاریخ اور ثقافت قائم تھی ہم نے اس کی جگہ عیسوی تاریخ کو اپنا لیا جو تقریباً چوتھی صدی ہجری میںیعنی اسلامی ہجری تاریخ کے وضع ہونے کے بہت عرصہ بعد ظاہر ہوئی عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کے دن سے نہیں بلکہ ان کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے دن سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں _(۱) بلکہ ایک اور دستاویز کے مطابق جناب سکندر ذوالقرنین کے دور سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں(۲) حتی کہ ابن العبری نے بھی ( جو عیسائیوں کے بہت بڑے پادری شمار ہوتے تھے اور کارڈینال کے درجہ کے برابر ان کا رتبہ تھا اور ۶۸۵ ہجری کو فوت ہوئے انہوں نے بھی) اپنی کتاب میں عیسوی تاریخ کبھی نہیں لکھی بلکہ کئی مقامات پر تاریخ سکندری سے کتاب کو مزین کیا _ پس اگر اس وقت عیسوی تاریخ عام اور معروف ہوتی تو وہ اس سے ہرگز روگردانی نہ کرتے_ اسی طرح ۹۰۲ ہجری کو وفات پانے والے سخاوی کے کلام سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ دسویں صدی ہجری کے اوائل تک بھی میلاد مسیح کی تاریخ رائج نہیں تھی_

لیکن بہت سی ایسی حکومتیں ہمارے سامنے ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نام سے یاد کرتی ہیں اور بہت سی قومیں جو خود کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں انہوں نے صرف عیسوی تاریخ کو اپنا رکھاہے فارسی اور رومی تاریخ کو بھی نہیں اپنایا ہاں انہوں نے صرف تمدن و ترقی کے نام پر اور اس قسم کے دلکش اور پرفریب نعروں کی وجہ سے عیسوی تایخ کو محور نظام بنایا جبکہ اپنی عظمت و سربلندی کی اساس ،تاریخ اور ثقافت کو چھوڑ دیا ہے اس طرح بہت سے عظیم اور اہم امور سے دستبردار ہوچکے ہیں جب کہ ان سے پیچھے ہٹنا نہایت دشوار اور خطرناک ہے_

نکتہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گیا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کانون (رومی مہینہ) کی چوبیس تاریخ کو ہے (آپعليه‌السلام کیا فرماتے ہیں ؟) جس پر آپعليه‌السلام نے فرمایا: '' وہ

____________________

۱)الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۳ _

۲)نزہة الجلیس ج۱ ص ۲۲ نیز ملاحظہ ہو کنز العمال ج ۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و از کتاب الادب صحیح بخاری_

۶۹

جھوٹ کہتے ہیں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت حزیران (رومی مہینہ) کے نصف میں ہوئی جو گردش ایام کے حساب سے آذر (فارسی مہینہ) کا بھی نصف بنتاہے''(۱) ( جس سے معلوم ہوتاہے کہ فارسی اور رومی مہینے، عیسوی مہینوں سے پہلے اور معروف تھے کہ عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی پیدائشے کو ان تاریخوں سے مطابقت دے رہے ہیں _ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ صحیح مطابقت نہیں دے پائے_ از مترجم)

مخلصانہ اپیل

ہم امت مسلمہ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے امور اور تقویم ( کیلنڈروں ) میںہجری تاریخ کو اپنائیں چونکہ اس طرح ان کا ماضی ان کے حال سے متصل ہوجائے گا اور یہی چیز انہیں ان کی عزت و سربلندی کا راز یاد دلائے گی اور یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالی نے ان کے لئے اور تمام انسانیت کے لئے اختیار فرمایا ہے_ علاوہ ازیں اگر فرض کریں کہ تاریخ کا مبداء بڑے اور عظیم واقعات ہونے چاہئیں تو پھر کونسا واقعہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظہور سے عظیم تر ہے اور کونسا بڑا واقعہ اس عظیم واقعہ کی برابری کرسکتاہے_

علامہ مجلسی (رہ) کا کہنا ہے : (ہجری تاریخ کو اپنانے کی) اصلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ (ہجرت) اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا ابتدائیہ، دینی احکام کے ظہور کا افتتاحیہ، مشرکوں کی قید سے مسلمانوں کی رہائی کی شروعات اور ہجرت کے بعد دین مبین کے قواعد کی تاسیس جیسے دوسرے اہم کاموں کا ابتدائیہ تھی''(۲) _

میں امت اسلامی خصوصاً عربوں سے گزارش کرتاہوں اگر ہم دینی لحاظ سے بھی اس سے صرف نظر کرلیں تب بھی عرب ہونے کے ناطے اس کو اہمیت دینی چاہئے اور اس مقام پر انہیں سید الشہداء امام حسینعليه‌السلام

____________________

۱)بحارالانوار ج۷۵ ص ۳۶ ، تحف العقول ، مختصر التاریخ ابن کازروفی ص ۶۷ اور مروج الذہب ج۲ ص۱۷۹ و ص ۱۸۰_

۲)بحارالانوار ج۸۵ ص ۳۵۱_

۷۰

کا بہترین قول یاد دلاتاہوں کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

(ان لم یکن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم هذه و ارجعوا الی احسابکم ان کنتم عرباً کما تزعمون )(۱)

اگر تم کسی دین کے قائل نہیں اور قیامت کا خوف نہیں رکھتے تو کم از کم اپنی اس دنیا کے معاملے میں تو آزاد رہو اور اپنے آبا ء و اجداد کے محاسن ومفاخر کو مدّنظر رکھو اگر تم اپنے آپ کوعرب سمجھتے ہو_

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ وہ انہیں ان کا بہترین منشور عطا فرمائے او ر اپنی عقول و ضمائرسے راہنمائی حاصل کرنے والوں میںقرار دے_

اگروہ ہر چیز میں دوسروں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کریں یعنی دوسروں کی تقلید اس طرح کریں کہ ہم اپنے عظیم تمدن اور اعلی روایات سے دستبردار نہ ہونے پائیں تا کہ دوسروں کے دست نگر نہ ہوں اور ایسی چیزیں اخذ نہ کریں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہو_

''قل هذا سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة اناومن اتبعنی''

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر :

مسجد والی جگہ یا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خریدی تھی یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدیہ کی گئی تھی ، اس بارے میں کہا جاتاہے کہ اس جگہ قبیلہ خزرج کے دو یتیم بچوں کے اونٹوں کا باڑہ تھا اور وہ بچے اسعد بن زرارہ یا کسی اور شخص کے زیر کفالت تھے، ایک قول کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جگہ دس دینار میں خریدی _

وہاں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر(مدینہ کے

____________________

۱)اللہوف ص۵۰ نیز مقتل الحسین مقرم ص ۳۳۵ ازلہوف_

۷۱

مضافات میں) سیاہ پتھروں پر مشتمل ''حرّہ'' نامی زمین سے پتھر اٹھاکر لاتے تھے، اس کام میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت کی وجہ سے اصحاب اور زیادہ کوشش اورتگ و دو سے کام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے یہ شعر پڑھا_

لئن قعدنا و النبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

(اگر ہم آرام سے بیٹھ جائیں اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کام میں مشغول رہیں ( تو یہ درست نہیں) لہذا ہم اسی وجہ سے سخت طاقت فرسا کام میں مصروف ہیں)_

مسجد کی تعمیر کے وقت مسلمین یہ رجز پڑھ رہے تھے_

لا عیش الا عیش الآخرة

اللّهم ارحم الانصار والمهاجرة

(زندگی تو صرف آخرت اور جنت کی ہی زندگی ہے، خدایا انصار و مہاجرین پر رحم فرما)

اور اسطرح کے دیگر اشعار(۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کا طول و عرض تقریباً سوسو ذراع (ہاتھ)قرار دیا(۲) ایک اور قول کے مطابق طول ستر ذراع (ہاتھ)(۳) اور عرض ساٹھ ذراع قرار دیا(۴) ، احتمال ہے کہ یہ دونوں قول صحیح ہوں اور وہ اس طرح کہ پہلی دفعہ تعمیر کرتے وقت آپ نے لمبائی میں ستر اور چوڑائی میں ساٹھ ذراع پر بنیادیں رکھی ہوں جبکہ تعمیر نو کے وقت اس میں توسیع کردی ہو(۵) _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کے اطراف میں اپنے اور اپنے اصحاب کے گھر بنائے شروع میں ہر گھر کا دروازہ مسجد کے صحن کی طرف کھلتا تھا لیکن بعد میں امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کے گھر کے علاوہ باقی تمام دروازے بند کردیئے گئے ، انشاء اللہ بعد میں ہم اس بات کی زیادہ وضاحت کریں گے _ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہاں مؤرخین کے بعض اقوال کا جائزہ لیں_

____________________

۱) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ص ۶۴ و ۶۷ و ۷۱_ (۲)یعنی تقریباً ۹۱ میٹر سے کچھ زیادہ طول اور اتنا ہی عرض (مترجم)

۳)یعنی تقریباً ۶۷ میٹر کے لگ بھگ (مترجم) (۴)یعنی تقریباً ۴۹ میٹر سے کچھ کم (مترجم)

۵)وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۴۰ اور اس کے بعد _ نیز ملاحظہ ہو: تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۶۵ و ۳۶۶ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۷۲

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار:

اہل سنت مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسجد کی جگہ کو خریدنے کیلئے حضرت ابوبکر نے دس دینار ادا کئے(۱) _

لیکن ہماری نظر میں یہ بات مشکوک ہے اس لئے کہ :

اولاً: حضرت ابوبکر کی مالی حالت اس قدر مستحکم نہ تھی کہ وہ یہ رقم ادا کرسکتے، اگر فرض کریں کہ ان کی مالی حالت بہتر تھی تب بھی ہمیں شک ہے کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو اور اس کی دلیل ہم واقعہ غار میں ذکر کرچکے ہیں_

ثانیاً:اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی اس کے برعکس کچھ اور روایات بھی موجود ہیں _ جن میں سے ایک روایت کے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس زمین کے بدلے میںبنی بیاضہ میں اپنا کھجور کا ایک درخت ان یتیموں کو دیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں آیاہے کہ ابوایوب نے کسی طرح انہیں راضی کیا تھا اور تیسری روایت کے بقول معاذ بن عفراء نے یہ کام انجام دیا تھا(۲) _

بعض مؤرخین نے احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے حضرت ابوبکر نے زمین کی قیمت ادا کی ہو جبکہ بعض دیگر صحابہ نے محض اجر و ثواب اور نیکی کے طور پر زمین کی اصل قیمت کے علاوہ ان یتیموں کو یہ سب کچھ دیا ہو(۳) _

لیکن یہ احتمال بھی دیا جاسکتاہے کہ دیگر صحابہ نے زمین کی اصل قیمت ادا کی ہو اور حضرت ابوبکر نے صلہ و نیکی کے طور پر کچھ رقم ادا کی ہو، اس طرح پہلے احتمال کو اس دوسرے احتمال پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ، علاوہ ازیں یہ احتمال روایت میں موجود کلمہ ''عوضھما'' کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کلمے سے واضح ہوتاہے کہ ایک تو یہ چیز زمین کی قیمت تھی اور دوسرا وہ رقم اس زمین کے بدلے میں تھی نیکی اور صدقہ کے طور پر نہیں تھی_

ثالثاً : صحیح بخاری و غیرہ میں لکھا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو بنی نجار کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۵_

۲) البدایة و النہایةج ۳ص۳۱۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص۳۲۳ و ص ۳۲۴، (روایت ابن حجر) ، السیرة الحلبیة ج ۲ص ۶۵_

۳) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۳ ، ۳۲۴_

۷۳

کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس زمین کے محدودے کی قیمت طے کریں_ تو انہوں نے جواب دیا :'' قسم بخدا ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے اس زمین کی قیمت وصول نہیں کریں گے''(۱) _

ب: پتھراور خلافت

حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ مسجد کیلئے سب سے پہلا پتھر خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھاکر لائے تھے پھر دوسرا پتھر حضرت ابوبکر (تیسرا حضرت عمر(۲) )اور چوتھا حضرت عثمان اٹھاکر لائے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طر ف نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کررہے ہیں ''؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''اے عائشہ ، میرے بعد یہ میرے خلیفہ ہوں گے ''یہ حدیث شیخین کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن خود انہوں نے اسے ذکر نہیں کیا(۳) _

اس روایت کے الفاظ میں موجود تضاد و تناقض کے علاوہ درج ذیل امور کی بنا پر اس حدیث کا صحیح ہونا ہرگز ممکن نہیں_

اولاً : ذہبی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو یہ تینوں خلفاء کی خلافت پر نصّ ہوتی جبکہ یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ، اس لئے کہ حضرت عائشہ اس وقت ایک کم سن پردہ نشین بچی تھیں اور ابھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہی نہیں ہوئی تھیں ، پس ان سے اس حدیث کو منسوب کرنا، اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتاہے(۴) _البتہ ہم ان کے کم سن ہونے والی بات پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں_

ابن کثیر کہتے ہیں : ''اس سیاق و سباق کے ساتھ یہ حدیث بالکل عجیب وغریب ہے''(۵) _

____________________

۱) صحیح البخاری ج۱ص ۵۷ ، تاریخ الطبری ج۲ص ۱۱۶ ، الکامل لابن اثیرج ۲ ص۱۱۰ وفاء الوفاء ج ۱ص ۳۲۳ _ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۲) حضرت عمر کا ذکر صرف تلخیص المستدرک کی روایت میں ہوا ہے_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ص۹۶ ، ۹۷ ، وفاء الوفاج ۱ص۳۳۲ ، ۳۳۳ ، ۳۵۱ ، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۱۸ ، اورج ۶ص ۲۰۴ ( انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ مسجدمدینہ کی تعمیر کے وقت پیش آیا) السیرة الحلبیةج ۲ص ۵۶ ، ۶۶ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۴ ، ۳۴۳ نیز دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۲۷۲_

۴) تلخیص المستدرک ذہبی ج ۳ص ۹۷ ( مستدرک الحاکم ج۳ ص ۹۷کے حاشیے پرمطبوع )_ (۵) البدایة والنہایة ج۳ص ۲۱۸ _

۷۴

ثانیاً:حدیث سفینہ پر اشکال و اعتراض کرتے ہوئے بخاری نے '' خلافت اور پتھر'' کی حدیث(۱) کے بارے اپنی تاریخ میںلکھا ہے :_

ابن حبان نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا کیونکہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام ( البتہ یہ انہی لوگوں کے الفاظ ہیں)کہا کرتے تھے : '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں کیا ''(۲) _

یہاں بخاری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس لحاظ سے یہ حدیث خود اہل سنت کے اس عقیدے سے بھی تضاد رکھتی ہے کہ جس کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ تو کسی شخص کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ ہی خلافت کے بارے میں کوئی وضاحت فرمائی تھی ، اور اسی بناپر اہل سنت حضرت ابوبکر کے ہاتھ آنے والی خلافت کو درست قرار دیتے ہیں_ بلکہ حضرت عائشہ سے یہ روایت بھی منقول ہے : '' اگر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو (میرے خیال میں) ضرورحضرت ابوبکر و حضرت عمرکوہی خلیفہ مقرر فرماتے'' اس حدیث کو ذہبی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے(۳) _

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی گراں قدر تصنیف '' الغدیر'' (ج/۵ ص ۳۵۷ تا ۳۷۵) میں علمائے اہل سنت کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلافت ایک انتخابی امر ہے (یعنی معاملہ لوگوں کے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے) پس یہ حدیث ان کے مذہب کے مطابق بھی جھوٹی ہے اور حقیقت میں بھی جھوٹی ہے اس لئے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا واضح اعلان فرمایا اور اس بارے میں بے شمار روایات منقول ہیں انہی روایات کے ذریعے امیرالمؤمنینعليه‌السلام ، آپعليه‌السلام کے اصحاب ، اہل بیت ، آپکی اولاد اور آپعليه‌السلام کے شیعہ ، اس وقت سے آج تک آپعليه‌السلام کی خلافت پر استدلال کرتے چلے آرہے ہیں، شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہوکہ جس میں ان بے شمار متواتر روایات یا خبر واحدمیں سے کوئی روایت نقل نہ کی گئی ہو(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۳_ (۲) السیرة الحلبیہ ج ۲ص۶۶_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۷۸_

۴)بطور مثال ملاحظہ ہو: الغدیر ج۱ ص ۱۹۵ ا ص ۲۱۳_

۷۵

ثالثاً : اس روایت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں سب سے پہلے پتھر رکھنے والوں میں حضرت عثمان بھی شامل تھے لیکن خود اہل سنت کے مؤرخین کے بقول حضرت عثمان اس وقت حبشہ میںتھے اور مدینہ میں موجود نہ تھے جیسا کہ سمہودی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اسی وجہ سے سہیلی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عثمان کو حذف کرتے ہوئے اس کے نام کو ذکر نہیں کیا(۱) _

اور جب حاکم کی کتاب طبع ہوئی تو اس روایت میں سے حضرت عثمان کا نام حذف کردیا گیا اس کے پیچھے بھی شاید یہی راز پوشیدہ تھا ، حالانکہ ذہبی نے اپنی تلخیص میں اس روایت کو ذکر کیا ہے _اور اسے تحریف کہا جاتاہے جو دین، امت اور کسی فرقے کے حقائق کے ساتھ خیانت میں شمار ہوتی ہے_

کیونکہ بطور خلاصہ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عثمان اگر چہ اہل مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر مکہ پلٹ آئے تھے لیکن حقیقت حال کا پتہ چلنے پردوبارہ واپس حبشہ چلے گئے تھے ، جیسا کہ خود اہل سنت مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی(۲) عسقلانی کہتے ہیں :'' جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا علم ہوا تو ان میں سے تیس آدمی واپس مکہ لوٹ آئے ، ان میں ابن مسعود بھی تھے ، جو اس وقت مکہ پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) (تو پھر عثمان کہاں سے شریک ہوسکتے ہیں؟)_

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار:

مؤرخین لکھتے ہیں : حضرت عثمان بہت صفائی پسند اور صاف ستھرے رہنے والے آدمی تھے، جب مسجد کی تعمیر کیلئے اینٹیں اٹھاتے تو انہیں اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تھے اور جب اینٹوں کو مسجد کے پاس رکھتے تو

____________________

۱) وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۵۲ _

۲) طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص۱۳۸ ، الکامل لابن اثیرج۳ص۱۸۵،البدء والتاریخ ج۱ص۲۲،اس کتاب کی روایت کے مطابق حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت کشتی میںحضرت عثمان کی زوجہ حضرت رقیہ کا حمل گر گیا تھا _

۳) فتح الباری ج۷ص۱۴۵_

۷۶

اپنی آستینوں کو جھاڑتے اور اپنے کپڑوں کو دیکھتے کہ کہیں ان پر مٹی تو نہیں لگی ، اگر مٹی لگی دیکھتے تو اسے جھاڑ دیتے تھے، حضرت علیعليه‌السلام ابن ابیطالب نے انہیں دیکھ کر یہ اشعار پڑھے_

لا یستوی من یعمر المساجدا

یدأب فیها قائما ً و قاعداً

و من یری عن التراب حائداً

( وہ شخص جو مساجد کی تعمیر میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہایت کوشش و مشقت سے کام کرتاہے اس شخص کے برابرنہیں ہوسکتا جو مٹی سے دور رہنے کی کوشش کرتاہے)_

جب حضرت عمار یاسر نے یہ اشعار سنے تو انہوں نے ان اشعار کو دہرانا شروع کردیا ، اگر چہ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان اشعار سے مراد کون ہے؟ اسی اثناء میں جب وہ حضرت عثمان کے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان( جن کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی) نے ان سے کہا : ''اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو؟'' پھر کہا :'' چپ ہوجاؤ ورنہ (یہی چھڑی) تیرے چہرے پر ماروںگا''_ یہ بات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سن لی ، اس وقت آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجرہ ام سلمہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، یا ایک اور روایت کے مطابق اپنے حجرہ کے سائے میں آرام کررہے تھے، یہ سن کر آنحضرت سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ''بے شک عمار بن یاسر میری ناک اور آنکھوں کے درمیان موجود جلد (پیشانی) کی مانند ہیں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دو آنکھوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: ''جب کوئی شخص اس مقام تک پہنچ جائے تو یہ قربت کی انتہا ہے''_

یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو انہیں آزار و اذیت پہنچانے سے باز رکھا، پھر لوگوں نے حضرت عمار سے کہا : ''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی وجہ سے ہمارے ساتھ ناراض اور غضبناک ہوئے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہیں ہمارے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے'' حضرت عمار نے کہا : ''جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض و غضبناک ہوئے ہیں میں ابھی اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی کرتاہوں''_

پھر حضرت عمار نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو مجھ سے کیا

۷۷

دشمنی ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' ان کی طرف سے تمہیں کیا تکلیف پہنچی ہے؟ ''عرض کی :'' وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں ، خود تو ایک ایک اینٹ اٹھاتے ہیں جبکہ میرے اوپر دو دو تین تین اینٹیں لاد دیتے ہیں''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر چکر لگایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بالوں سے خاک جھاڑتے ہوئے فرمایا : ''اے ابن سمیہ تمہیں میرے اصحاب قتل نہیں کریں گے بلکہ تم ایک باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہوگے(۱) ...''_

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں موجود نہ تھے اور اس وقت وہ حبشہ میں تھے_

شاید یہی وجہ ہے کہ عسقلانی اور حلبی نے حضرت عثمان بن عفان کی جگہ اس روایت میں عثمان بن مظعون کا نام ذکر کیا ہے(۲) _

ہم اس سوال اور اعتراض کا جواب دینے سے پہلے گذشتہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ اس کی یہ توجیہ کرنا بھی نامناسب ہے کہ '' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک سال یا سات ماہ تک ابوایوب کے ہاں قیام پذیر رہے اور اسی دوران آپ اپنے گھر اور مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے، ممکن ہے کہ اس وقت یہ خبر حبشہ میں مہاجرین تک پہنچی ہو اور اس دوران وہ مدینہ آتے رہے ہوں اور شاید حضرت عثمان بھی ان میں سے ایک ہوں وہاں انہوں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور مذکورہ واقعہ پیش آیا ہو، اگر چہ مسجد کی بنیاد رکھتے وقت اور خلافت کے پتھر رکھنے میں وہ شریک نہ ہوسکے ہوں''_

بہر حال ہمارے نزدیک یہ بعید ہے کہ مسلمان اتنے طویل عرصہ تک مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے ہوں

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج۲ص۱۴۲، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۵ ، اعلاق النفیسة ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۹ ، السیرة الحلبیة ج۲ص۷۲ ، علامہ امینی نے '' الغدیر'' کی نویں جلد میں (ص ۲۱ سے ۲۷ تک) اس واقعہ کے بہت زیادہ مصادر و منابع ذکر کئے ہیں، ہم نے صرف چند ایک ذکر کئے ہیں ، مزید تحقیق کیلئے '' الغدیر'' ج۹ کی طرف رجوع فرمائیں_

۲) السیرة الحلبیة ج ۲ص۷۱ ، حاشیہ سیرت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابن ھشام ج ۲ص۱۴۲_ از مواہب اللدنیہ_

۷۸

اس لئے کہ وہ دسیوں کی تعداد میں تھے اور اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افرادتو مقام عقبہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیعت کرچکے تھے_

صحیح بات یہ ہے کہ ظاہراً حضرت عمار اور حضرت عثمان کا مذکورہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے وقت پیش آیا اور یہ جنگ خیبر کے بعد کی بات ہے یعنی ہجرت کے ساتویں سال(۱) اور درج ذیل امور اسی بات کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

اولاً: بیہقی نے اپنی کتاب'' الدلائل'' میں روایت کی ہے کہ جب حضرت عمار قتل کردیئے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے والد(عمرو بن العاص) سے کہا: ''اس شخص (حضرت عمار) کو ہم نے قتل کیا ہے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ بھی پتاہے''_ اس کے والد نے پوچھا:'' تم کس شخص کی بات کررہے ہو؟ ''تو اس نے جواب دیا : ''عمار یاسر کی'' پھر کہا : ''کیا تمہیں یاد نہیں جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد تعمیر کررہے تھے تو اس وقت ہم ایک ایک اینٹ اٹھاکر لارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو ا ینٹیں اٹھالاتا تھا چنانچہ اسی دوران جب وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گزرا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم دو دو اینٹیں اٹھاکر لارہے ہو حالانکہ تمہارے لئے یہ ضروری نہیں ہے جان لو کہ تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور تم اہل جنت میں سے ہو''_ پھر عمرو معاویہ کے پاس گیا الخ_(۲)

سمہودی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:'' اس بات سے پتہ چلتاہے کہ دوسری بار مسجد کی تعمیرکے وقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا، اس لئے کہ عمرو نے ہجرت کے پانچویں برس اسلام قبول کیا تھا ''(۳) _

عبدالرزاق و غیرہ سے مروی ہے کہ عمرو بن عاص معاویہ کے پاس گیا اور اس نے معاویہ سے کہا کہ ہم

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۱ص۳۳۸_

۲)تذکرة الخواص ص ۹۳ از طبقات ابن سعد، الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۱۱۹ و ۱۳۰ ، الثقات ابن حبان ج۲ ص ۲۹۱ ، انساب الاشراف ; با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۳۱۳و ص ۳۱۷ ، طبقات ابن سعد ج۳ حصہ اول ص ۱۸۰ و ۱۸۱ المصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۶۴ ، حاشیہ انساب الاشراف ج ۲ ص ۳۱۳ ; تحقیق محمودی،المناقب خوارزمی ص ۱۶۰ ، وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱و ۳۳۲_

۳) وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱ و ۳۳۲_

۷۹

نے سنا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمار کے بارے ہیں فرمارہے تھے: ''اسے (عمار کو) ایک باغی گروہ قتل کرےگا''(۱) _

اور معاویہ کے پاس دو آدمی آئے جو حضرت عمار کے سرکے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہیں دیکھ کر کہا :'' عمار کے سر کی بابت تمہیں اپنے ساتھی کے لئے راضی ہو جانا چاہئے ، کیونکہ میں نے عمار کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا _'' اس پر معاویہ نے عمرو سے کہا: ''تو اپنے اس پاگل کو ہم سے دور کیوں نہیں کرلیتا ''(۲) _

اور یہ واضح ہے کہ حضرت عمار کا واقعہ ایک ہی دفعہ اور ایک ہی مناسبت سے پیش آیاہے_

ثانیاً: خود روایت میں قرینہ موجود ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے دوران پیش آیا تھا، کیونکہ روایت میں ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت حضرت ام سلمہ کے حجرے کے سائے میں تشریف فرماتھے اور یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی تھی اور اس کے بعد اپنے حجرے تعمیر کئے تھے(۳) نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ گھر اکٹھے تعمیر نہیں کئے تھے بلکہ ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں تدریجی طور پر تعمیر کیا تھا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کا حجرہ تعمیر کیا گیا(۴) اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائشے نہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے کافی دیر بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ام سلمہ کیلئے حجرہ تعمیر کیا تھا_

____________________

۱) المصنف ج۱۱ص۲۴۰ ، مجمع الزوائدج ۹ص ۲۹۷ ،ج ۷ص۲۴۲ ، ( امام احمد کی مسند اور طبرانی سے روایت نقل ہوئی ہے)_

۲) انساب الاشراف ج۲ص۳۱۳، مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو، مصنف ابن ابی شیبہ اور فتح الباری کے علاوہ دیگر بہت سے مصادر و منابع میں یہ روایت نقل ہوئی ہے_

۳) زاد المعاد ج۱ص۲۵ ، السیرة الحلبیة ج۲ ص۸۷ _

۴) تاریخ الخمیس ج۱ص۳۴۶ ، وفاء الوفا ج ۲ص ۴۵۸ وفاء الوفاء کے صفحہ ۴۶۲ پر ذھبی سے نقل ہواہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے حضرت سودہ کا گھرتعمیر کیا ، پھر جب حضرت عائشہ کیلئے گھر کی ضرورت پڑی تو ان کے لئے گھر تعمیر کردایا، اسی طرح مختلف مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باقی گھر تعمیر کروائے_

۸۰

جوں جوں انسان کی آگاہی کا درجہ بڑھتا جاتا ہے‘ اس کی حیات اور جانداری کا درجہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ زیربحث ”خود شناسی“، ”شناختی کارڈ“ والی خود شناسی نہیں ہے‘ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میرا نام کیا ہے؟ میرے ماں باپ کا نام کیا ہے؟ میری جائے پیدائش کون سی ہے؟ اور میری سکونت کہاں ہے؟ اور اسی طرح سے زیربحث ”خود شناسی“ حیاتیات کی شناخت بھی نہیں ہے جو حیوانات کی شناخت میں انسان کو ریچھ یا بندر سے بالاتر درجے کا ایک حیوان قرار دے۔

اس مقصد کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں ”حقیقی خود شناسی“ کی اقسام مختصراً بیان کرتے ہیں‘ مجازی خود آگاہی سے قطع نظر خود شناسی کی چند اقسام ہیں:

۱ ۔ فطری خود شناسی

انسان ذاتاً خود شناس ہے‘ یعنی اس کی ذات کا جوہر ہی آگاہی ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے کہ پہلے انسان کا جوہر ذات وجود میں آئے اور اس کے بعد انسان اس سے آگاہ ہو‘ بلکہ اس کے جوہر ذات کی پیدائش ہی اس کی خود آگاہی کی پیدائش ہے اور اس مرحلے میں آگاہ ”آگاہی“ اور درجہ آگاہی میں آیا ہوا‘ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ جوہر ذات وہ حقیقت ہے جو عین خود آگاہی ہے۔

دوسری چیزوں سے کم و بیش آگاہی کے بعد والے مراحل میں اپنے بارے میں بھی اسے اسی طرح سے آگاہی حاصل ہوتی ہے یعنی اپنے بارے میں انسان ذہن میں ایک تصور قائم کر لیتا ہے اور اصطلاحی الفاظ میں علم حصولی کے ذریعے خود سے آگاہ ہوتا ہے‘ لیکن اس طرح کی آگاہی سے قبل بلکہ ہر طرح کی دوسری چیزوں کی شناخت سے قبل اپنے بارے میں وہ علم حضوری رکھتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔

۸۱

ماہرین نفسیات عموماً خود شناسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں‘ ان کے پیش نظر دوسرا مرحلہ ہوتا ہے یعنی علم حصولی اور ذہنی کے ذریعے خود شناسی لیکن فلاسفہ کی نظر زیادہ تر علم حضوری کے مرحلے پر ہوتی ہے نہ علم ذہنی پر۔ شناخت کی یہ قسم وہی ہے جو فلسفہ میں تجردد نفس کی مضبوط ترین دلیل کے طور بیان کی جاتی ہے۔

اس قسم کی خود شناسی میں اس طرح کے شک و تردد کی گنجائش نہیں ہوتی کہ میں موجود ہوں یا نہیں؟ اور اگر موجود ہوں تو کون ہوں؟ شک و تردید کی گنجائش وہاں ہوتی ہے‘ جہاں شناخت علم حصولی کا نتیجہ ہو یعنی شناخت شدہ شے کا عینی وجود اور شناخت کا عینی وجود دو مختلف چیزیں ہوں۔

لیکن جہاں شناخت‘ شناخت کنندہ اور شناخت شدہ تینوں ایک ہی چیز ہوں تو یہ شناخت حضوری ہو گی جس میں شک و تردد کو فرض نہیں کیا جا سکتا یعنی شک کا واقع ہونا وہاں وہاں محال ہے۔

ڈیکارٹ کی بنیادی غلطی ہی یہی ہے کہ اس نے اس بات پر توجہ ہی نہیں کی کہ ”میں ہوں“ شک و تردد سے مبرا ہے جو ہم ”شک“ کو ”میں سوچتا ہوں“ سے دور کریں۔

فطری خود شناسی اگرچہ ایک واقعیت ہے لیکن اکتسابی اور حصولی نہیں ہے بلکہ وجود انسان کی ذات کا ایک پرتو اور عکس ہے۔ اسی لئے وہ خود شناسی جس کی دعوت دی گئی ہے‘ خود شناسی کا ایسا درجہ نہیں جو فطرت کی حرکت جوہری کے نتیجے میں تکوینی اور قہری طور پر وجود میں آتی ہے۔ جہاں پر قرآن حکیم نے رحم مادر میں بچے کی خلقت کے تین مراحل بیان کرتے ہوئے آخری مرحلے کے بارے میں فرمایا:

۸۲

ثم انشاء ناه خلقاً آخر (سورئہ مومنون‘ آیت ۱۴)

”پھر ہم نے اسے ایک اور چیز سے اور ایک اور خلقت سے کر دیا۔“

اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ مادہ انجانے طور پر خود شناس روحی جوہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

۲ ۔ فلسفی خود شناسی

فلسفی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ”ذات خود شناس“ کی حقیقت کو پہچانے کہ وہ کیا ہے؟ آیا وہ ”جوہر“ ہے یا ”عرض“؟ وہ مجرد ہے یا مادی؟ اس کا جسم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ جسم سے پہلے موجود تھا‘ یا جسم کے ساتھ وجود میں آیا؟ یا خود جسم سے نکلا ہے؟ کیا وہ فنائے جسم کے بعد بھی باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کے اور سوالات۔

خود شناسی کی اس سطح پر جو سوال پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ خود اور ذات کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے؟ وہ کیا ہے اور کس جنگ سے ہے؟ اگر فلسفی ”خود شناسی“ کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات کی ماہیت‘ جوہر اور جنس کو پہچانتا ہے۔

۸۳

۳ ۔ دنیوی خود شناسی

یعنی انسان کے دنیا سے تعلق کی شناخت کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں ہوں؟ اور کہاں جا رہا ہوں؟ اس ”خود شناسی“ سے اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اس ”کل“ کا ایک ”جزو“ ہے جس کا نام ”دنیا“ ہے وہ جانتا ہے کہ وہ خود کسی مستقل حیثیت کا ملک نہیں بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے ملحق ہے۔ وہ اپنی مرضی سے نہ خود وجود میں آیا ہے اور نہ ہی زندگی بسر کر رہا ہے البتہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے اس ”جزو“ کو اس ”کل“ میں معین کر دے۔

حضرت علی ۱  کے اس پرمغز کلام سے اس قسم کی خود شناسی کی عکاسی ہوتی ہے:

رحم الله امرء علم من این؟ وفی این؟ والی این؟

”خدا اس پر رحمت کرے جو یہ جان لے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟“

اس طرح کی ”خود شناسی“ انسان میں ایک لطیف ترین اور باعظمت ترین درد پیدا کرتی ہے‘ جو اس کائنات کی دوسری ذی روح چیزوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ درد ہے ”حقیقت رکھنے“ کا درد اور یہی وہ خود شناسی ہے جو ان کو حقیقت کا پیاسا اور یقین کا متلاشی بناتی ہے‘ شک و تردد کی آگ اس کی روح میں روشن کرتی ہے‘ اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی ہے اور یہ وہی آگ ہے جو امام غزالی(سچی کہانیاں) جیسے انسان کی روح میں روشن ہوتی ہے‘ جس سے ان کی بھوک اور نیند اڑ جاتی ہے‘ ان کو نظامیہ کی مسند سے نیچے کھینچ لاتی اور بیابانوں میں آوارہ کرتی ہے اور سالہا سال تک عالم غربت اور بے وطنی میں تدبر اور تفکر میں مصروف رکھتی ہے۔

یہ وہی آگ ہے جو ”عنوان بصری“(سچی کہانیاں) جیسے انسانوں کو حقیقت کی تلاش میں شہر شہر اور کوچہ کوچہ گھومنے پر مجبور کر دیتی ہے اس طرح کی خود شناسی انسان میں تقدیر کا خیال پیدا کرتی ہے۔

۸۴

۴ ۔ طبقاتی خود شناسی

یہ خود شناسی ”اجتماعی خود شناسی“ کی مختلف صورتوں میں سے ایک ہے۔ طبقاتی خود شناسی یعنی معاشرے کے مختلف طبقات سے اپنے تعلق کی شناخت جن کے ساتھ وہ زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی معاشروں میں ہر فرد کی ایک خاص ٹولی ہے اور ایک خاص طبقہ میں کامیاب یا ناکام زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی مقام اور طبقاتی ذمہ داریوں کی پہچان طبقاتی ”خود شناسی“ ہے۔

بعض نظریات کی رو سے انسان کا اس طبقے سے باہر کوئی ”خود“ موجود نہیں جس میں وہ ہے‘ ہر شخص کی ذات‘ اس کا ضمیر ہے اور اس کے احساسات‘ افکار‘ آلام اور میلانات کا مجموعہ ہیں اور یہ سب طبقاتی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے نزدیک نوع انسان کی کوئی ذات نہیں ہوتی وہ ایک انتزاع شدہ انسان ہے نہ عینی انسان‘ کیوں کہ عینی انسان تو طبقے میں معین ہو جاتا ہے‘ انسان موجود نہیں ہوتا بلکہ یا اشراف ہوتے ہیں یا عوام‘ لہٰذا ایک غیر طبقاتی معاشرے میں اجتماعی خود شناسی‘ طبقاتی خود شناسی پر منحصر ہے۔

اس نظریے کے مطابق ”طبقاتی خود شناسی“، ”نفع شناسی“ کے مساوی ہے‘ کیوں کہ اس کی بنیاد یہ فلسفہ ہے کہ ”فرد“ پر اصل حاکم اور فرد کی شخصیت کی بنیاد ”مادی منافع“ ہے جس طرح سے معاشرے کی عمارت میں اس کی بنیاد اقتصاد ہے اور جو چیز ایک طبقے کے افراد کو مشترک ضمیر‘ مشترک ذوق اور مشترک فیصلہ دیتی ہے وہ مشترک مادی زندگی اور مشترک منافع ہیں‘ طبقاتی زندگی انسان کو طبقاتی نقطہ نظر عطا کرتی ہے اور طبقاتی نقطہ نظر اس چیز کا باعث ہوتاہے کہ انسان دنیا اور معاشرے کو خاص زاویے اور خاص عینک سے دیکھے اور اسے طبقاتی نظر سے پیش کرے۔ اس کے اندر درد بھی طبقاتی ہوتا ہے اور اس کی کوششیں اور طرز تفکر بھی طبقاتی ہوتا ہے۔

مارکسزم اس طرح کی خود شناسی کا قائل ہے اس طرح کی خود شناسی کو مارکسزم کی خود شناسی کہا جا سکتا ہے۔

۸۵

۵ ۔ قومی خود شناسی

قومی خود شناسی سے مراد اپنے بارے میں ایسی خود شناسی ہے جو انسان اور اس کی اپنی قوم کے دیگر افراد سے تعلق اور ربط کے سلسلے میں ہو‘ ایک طبقے کے افراد کے آداب‘ قوانین‘ تاریخ‘ تاریخی فتوحات اور شکستیں‘ زبان‘ ادبیات اور تہذیب مشترک ہو تو ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں انسان میں ان لوگوں کے ساتھ ایک طرح کی یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے‘ بلکہ جس طرح ایک فرد ایک شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایک قوم بھی ایک تہذیب کی حامل ہونے کی بناء پر ایک ملی شخصیت پیدا کر لیتی ہے۔ مشترک تہذیب سے افراد کے درمیان مشترک قومیت کی نسبت زیادہ شباہت اور وحدت پیدا ہوتی ہے‘ ایسی قومیت جس کی بنیاد تہذیب اور ثقافت پر ہو‘ افراد کو اجتماع اور وحدت میں بدل دیتی ہے اور اسی اجتماع اور وحدت کی خاطر قربانی دیتی ہے‘ اجتماع کی کامیابی سے اس میں فخر اور شکست سے شرمندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ یعنی قومی ثقافت سے آگاہی‘ ملی شخصیت کی شناخت قومیت کے اجتماعی احساس کی شناخت ہے‘ بنیادی طور پر دنیا میں ”ایک ثقافت“ نہیں بلکہ ”ثقافتیں“ موجود ہیں اور ہر ثقافت کی ایک خاص ماہیت‘ خصوصیت اور پہچان ہوتی ہے لہٰذا صرف ایک ثقافت کا نعرہ کھوکھلا اور بے معنی ہے۔ نیشنلزم (قومیت) جس نے بالخصوص انیسویں صدی عیسوی میں بہت رواج پایا ہے اور اب بھی کم و بیش اس کی ترویج کا سلسلہ جاری ہے‘ اسی فلسفے پر مبنی ہے اس طرح کی ”خود شناسی“ میں ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس‘ جس میں ہر قسم کے اندازے‘ جذبات‘ فیصلے اور طرف داریوں کا رجحان طبقاتی ہوتا ہے‘ قومی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ اگرچہ ”منافع خود شناسی“ نہیں ہے تاہم یہ ”خود خواہی“ کے جذبے سے خالی نہیں ہوتی‘ اس میں ”خود خواہی“ کے تمام عیب جیسے تعصب‘ جانبداری کا احساس‘ اپنے عیوب نہ دیکھنا‘ اپنے آپ پر اترانا اور خود پسندی وغیرہ پائے جاتے ہیں‘ اس لئے یہ بھی ”طبقاتی خود شناسی“ کی مانند اخلاقی صفات سے عاری ہوتی ہے۔

۸۶

۶ ۔ انسانی خود شناسی

یعنی دوسرے انسانوں کے لحاظ سے انسان کی اپنے بارے میں شناخت‘ اس خود شناسی کا انحصار اس فلسفے پر ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک اکائی ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر رکھتے ہیں‘ اس لئے انسان دوستی اور اس کی طرف میلان کا احساس ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔

سعدی شیرازی کے بقول:

بنی آدم اعضای یک پیکر اند

کہ در آفرینش زیک گوہر اند

چو عضوی بدرد آورد روزگار

عضوھا را نماند قرار

تو کز محنت دیگران بی غمی

نشاید کہ نامت نھند آدمی

بنی آدم ۱  ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں‘ اس لئے کہ وہ خلقت میں ایک ہی جوہر سے ہیں۔

جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے‘ تو دوسرے اعضاء بھی بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں تو جو کہ دوسروں کی مصیبت سے بے غم ہے‘ تجھے انسان کہنا نامناسب ہے‘ وہ لوگ جو کانٹ کی مانند ”دین انسانیت“ کی تلاش میں تھے اور اب بھی ہیں‘ اسی طرز فکر کے حامل ہیں۔ ہیومانزم ( Humanism ) کا فلسفہ جو ہمارے زمانے میں بھی کم و بیش رائج ہے اور بہت سے روشن فکر اشخاص جس کے مدعی ہیں‘ یہی ہے۔ یہ فلسفہ انسان کو گروہوں‘ قومیتوں‘ تہذیبوں‘ مذہبوں‘ رنگوں اور نسلوں سے بالاتر ہو کر انسانوں کو ایک ”اکائی“ کی صورت میں دیکھتا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کی تفریق اور امتیازات کی نفی کرتا ہے‘ وہ منشور جو ”حقوق انسانی“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں‘ اسی فلسفہ پر مبنی ہیں اور دنیا میں اسی طرح کی خود شناسی کی ترویج کرتے ہیں۔

۸۷

اگر اس طرح کی ”انسانی خود شناسی“ ایک فرد میں پیدا ہو جائے تو اس کا درد انسانیت کا درد اور اس کی آرزوئیں انسانیت کی آرزوئیں بن جاتی ہیں۔ اس کا میلان انسانی میلانات کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی بھی انسانی رنگ اختیار کرتی ہے۔ وہ انسان کے دوستوں یعنی علم‘ تہذیب‘ رفاہ‘ آزادی‘ انصاف اور محبت کا دوست اور اس کے دشمنوں یعنی جہالت‘ افلاس‘ ظلم‘ بیماری‘ گھٹن اور تفریق کا دشمن بن جاتا ہے اور اس طرح کی خود شناسی ”ملی خود شناسی“ اور ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس اخلاقی صفات کی حامل ہوتی ہے۔

لیکن ایسی خود شناسی باوجودیکہ سب سے زیادہ منطقی اور شہرت یافتہ ہے۔ دوسری خود شناسیوں کی نسبت کم پائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

اس کا راز انسان کے وجود اور اس کی اصلیت میں پوشیدہ ہے۔ انسان اپنے وجود اور اپنی اصلیت کے اعتبار سے تمام دوسری موجودات سے‘ جمادات ہوں‘ نبادات ہوں یا حیوانات‘ مختلف ہے۔ اس لئے انسان کے علاوہ ہر دوسرا وجود جو اس دنیا میں آتا ہے‘ وہی ہوتا ہے جس حالت میں وہ پیدا کیا گیا ہے یعنی اس کی اصلیت اور کیفیت وہی ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت اس کو دی گئی ہے‘ لیکن اس حالت کے برعکس انسان کو پیدائش کے بعد ایک نیا مرحلہ پیش آتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور اسے کیسے ہونا چاہئے؟ انسان ویسا نہیں رہتا جیسا پیدائش کے وقت ہوتا ہے بلکہ وہ جیسا چاہتا ہے بنتا ہے‘ یعنی وہ تمام وسائل‘ جن میں اس کا ارادہ اور انتخاب بھی شامل ہوتا ہے‘ اس کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انسان کے علاوہ ہر چیز اپنی ماہیت کے لحاظ سے کہ وہ کیا ہے؟ اور کیفیت کے اعتبار سے کہ اسے کیسے ہونا چاہئے؟

۸۸

حقیقی طور پر مکمل پیدا کی گئی ہے‘ لیکن اس لحاظ سے انسان ایک ممکنہ قوت اور استعداد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے‘ یعنی انسانیت کا بیج اس کے اندر استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اگر اس بیج پر کوئی آفت نہ پڑے تو وہ آہستہ آہستہ وجود انسان کی زمین سے باہر نکل آتا ہے اور یہی وہ انسانی فطریات ہیں جو بعد میں اس کے فطری اور انسانی ضمیر کی تعمیر کرتی ہیں۔ انسان جمادات‘ نباتات اور حیوانات کے برعکس ایک ظاہری بدن اور شخصیت کا حامل ہوتا ہے‘ اس کا بدن یعنی جسمانی اعضاء کا مجموعہ جو مکمل طور پر دنیا میں آتا ہے اس لحاظ سے پیدائش کے وقت حیوانات کی مانند ہوتا ہے‘ لیکن روحانی پہلوؤں سے وہ ایک استعدادی قوت رکھتا ہے جو اس کی انسانی شخصیت کو بناتی ہے‘ انسانی اقدار اس کے وجود میں استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہیں جو پیدا ہونے اور بڑھنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔

انسان روحانی اور باطنی اعتبار سے جسم سے ایک مرحلہ پیچھے ہوتا ہے اس کے جسمانی اعضاء پہلے مرحلے میں رحم مادر میں دست قدرت کے وسائل سے تکمیل پاتے ہیں لیکن اس کی روحانی اور باطنی حیثیت اور اس کی شخصیت کے حصے اس کی پیدائش کے بعد والے مرحلے میں مکمل ہوتے ہیں‘ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہر شخص خود اپنی شخصیت کا معمار ہے۔ انسان کی تصویر بنانے والا قلم خود اس کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور (اپنی جسمانی ساخت کے برعکس) اپنی شخصیت کو بنانے والا نقاش وہ خود ہے۔

انسان کے علاوہ دوسرے تمام موجودات میں ان کی ذات اور ماہیت کے درمیان جدائی کا تصور ناممکن ہے مثلاً پتھر اور اس کی خصوصیات جیسے مختلف درخت اور اس کی خصوصیات‘ کتا اور اس کی خصوصیات‘ بلی اور اس کی خصوصیات کے مابین جدائی ناممکن ہے‘ اگر بلی‘ بلی ہے تو اپنی خصوصیات کی بنیاد پر ہے اگر اس کی خصوصیات اس سے چھین لی جائیں تو بلی‘ بلی نہیں رہتی۔

۸۹

لیکن انسان ایک ایسا وجود ہے جس کی ذات اور اس کی ماہیت کے درمیان جدائی اور دوری ممکن ہے یعنی انسان اور انسانیت کے درمیان جدائی ممکن ہے۔ بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں جو ابھی انسانیت کے مرحلے پر نہیں ہوتے اور ابھی تک حیوانیت ہی کے مرحلے پر باقی ہوتے ہیں‘ جیسے ابتدائی انسان تھے یا جنگلی انسان ہوتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بہت سے انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسخ ہو جاتے ہیں اور انسان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسے وجود اور اس کی ماہیت میں جدائی پیدا ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ ماہیت وجود کا لازمہ ہے اگر ایک وجود موجود ہو تو اس کی ماہیت بھی وجود کے ساتھ ساتھ موجود ہو گی۔ ہاں‘ استعدادی وجود کی ماہیت نہیں ہوتی۔

اگزیسٹینشالیزم ( Existentialism ) کے اصالت وجود کا نظریہ مدعی ہے کہ ”انسان بغیر ماہیت کے ایک وجود ہے اور اپنے ہی انتخاب سے راستہ طے کرتا ہے اور ماہیت پیدا کر لیتا ہے۔“

اس کی صحیح فلسفیانہ توجیہ یہی ہے۔ اسلامی فلاسفہ خصوصاً ملاصدرا کا انحصار اسی نظریے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

”انسان ایک نوع نہیں بلکہ انواع ہے‘ بلکہ ہر فرد ایک دن اس طرح ہوتا ہے جس طرح دوسرے دن نہیں ہوتا۔“

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم حیاتیات ( Biology ) کا انسان انسانیت کا معیار نہیں ہے بلکہ وہ صرف انسان کا ڈھانچہ ہے اور فلاسفہ کی تفسیر کے مطابق ”استعداد انسانیت“ کا حامل ہے نہ کہ خود ”انسانیت“ کا اور یہ بھی واضح ہے کہ واقعیت روح کے بغیر ”انسانیت“ کا دعویٰ بے معنی ہے۔

مذکورہ مقدمہ کے جاننے کے بعد ہم ”انسانی خود شناسی“ کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ”انسانی خود شناسی“ کی بنیاد یہ ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک حقیقی اکائی کے طور پر شمار کئے جاتے ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر سے بہرہ مند ہیں‘ جو طبقاتی‘ مذہبی اور قومی ضمیر سے بالاتر ہے۔

۹۰

البتہ یہ بیان توضیح طلب ہے کہ کون سے انسان مجموعی طور پر ایک ”شخصیت“ کے حامل ہیں اور واحد روح ان پر حاکم ہے؟ ”انسانی خود شناسی“ کون سے انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے اور ان میں ہمدردی اور جسد واحد ہونے کا تصور پیدا کرتی ہے؟ آیا ”انسانی خود شناسی“ صرف انہی انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے‘ جو انسانیت کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور جن میں انسانی اقدار اور انسان کی حقیقی ماہیت‘ حقیقت بن چکی ہوتی ہے؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو انسانیت نہیں پا سکے لیکن استعداد رکھتے ہیں؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو مسخ ہو کر بدترین جانور بن گئے ہیں؟ یا ان سب کے درمیان یہ خود شناسی پائی جاتی ہے؟ جہاں تک باہمی احساس درد کا تعلق ہے سب کو اس درد کا احساس ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ بظاہر تو تمام انسان ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اور ایک دوسرے کے درد سے بے چین ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہ سب گروہ تو ایسے نہیں ہو سکتے‘ جنگلی اور ابتدائی انسان جو اپنے بچپن پر باقی رہے اور ان کی انسانی فطرت ابھی بیدار اور متحرک نہیں ہوئی‘ کب باہمی احساس درد کے حامل ہوتے ہیں؟ اور ایک مشترک روح ان پر کیسے حکومت کر سکتی ہے؟ البتہ جن انسانوں کی ہیئت ہی مسخ ہو چکی ہو‘ ان کا معاملہ تو بالکل واضح ہے پس صرف وہی انسان جو انسانیت کے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ جو انسانی ماہیت کے حامل ہیں اور جو انسانی فطرت کے لحاظ سے تکمیل پائے ہوئے ہیں‘ حقیقت میں ایک جسم کے اعضاء ہیں اور ایک واحد روح پر حکم فرما ہے اور بقول سعدی شیرازی ۱۱۱#

چو عضوی بدرد آورد روزگار

دیگر عضوھارا نماند قرار

”جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے چین ہو جاتے ہیں۔“

۹۱

ایسے انسان جن میں تمام فطری اقدار پیدا ہو چکی ہیں ”مومن انسان“ ہیں کیوں کہ ایمان انسان کی فطریات اور حقیقی انسانی اقدار میں سرفہرست ہے‘ چنانچہ جو چیز انسانوں کو حقیقی طور پر سماجی وحدت کی صورت دیتی ہے‘ ان میں واحد روح پھونکتی ہے اور اس طرح کے اخلاقی اور انسانی معجزے کو ظہور میں لاتی ہے‘ وہ صرف ”مشترک ایمان“ ہے‘ نہ کہ مشترک جوہر‘ نسب اور وطنیت جیسا کہ سعدی شیرازی کے کلام میں آیا ہے۔

جو کچھ سعدی نے کہا ہے وہ ایک ”آئیڈیل“ ہے نہ کہ حقیقت بلکہ ”آئیڈیل“ بھی نہیں ہے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موسیٰ ۱  فرعون کے جسم کا حصہ ہوں‘ ابوذر معاویہ کے ہمدرد ہوں‘علیٰ هذا القیاس…؟

جو چیز حقیقت بھی ہے اور ”آئیڈیل“ بھی وہ ایسے انسانوں کی وحدت ہے‘ جو انسانیت کے درجے اور اقدار تک پہنچے ہوئے ہیں‘ یہ وہ حقیقی بیان ہے جو رسول اکرم نے فرمایا تھا اور شیخ سعدی نے اسے عمومیت دے کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا‘ پیغمبر اسلام نے بجائے اس کے کہ کہا جائے بنی آدم ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ فرمایا:

مثل المومنین فی توا ددهم و تراحمهم کمثل الجسد اذا شتکی بعضی تداعی له سائر اعضائه بالحمی والسهر

”مومنین ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ جب ایک حصے میں درد اٹھتا ہے تو دوسرے حصے بخار اور بے خوابی میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے درجے پر پہنچا ہوا انسان تمام انسانوں بلکہ تمام موجودات سے محبت کرتا ہے‘ حتیٰ کہ انسان انسانوں سے بھی‘ جن کی ہیئت مسخ ہو چکی ہے اور جنہوں نے اپنی اصل تبدیل کر لی ہے‘ اسی لئے خداوند تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم ۱ کو رحمتہ للعالمین قرار دیا ہے۔

۹۲

ایسے انسان اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ حضرت علی ۱  نے ابن ملجم کے بارے میں فرمایا تھا کہ

”میں اس کی زندگی چاہتا ہوں اور وہ میرا قتل۔“

لیکن معاملہ برابر کی محبت اور برابر کی دردمندی کا ہے اور برابری کی محبت صرف اور صرف معاشرے کے اہل ایمان افراد کے درمیان ہی وجود پا سکتی ہے۔

ظاہر ہے تمام انسانوں سے محبت یعنی ”صلح کلی“ کا تقاضا یہ نہیں کہ کوئی ذمہ داری قبول نہ کی جائے اور کسی گمراہی اور ظالم سے لاتعلق رہا جائے‘ بلکہ اس کے برعکس انسانوں سے حقیقی محبت کا تقاضا اس ضمن میں سخت ترین ذمہ داریاں قبول کرنا ہے۔

ہمارے زمانے میں مشہور انگریز فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈرسل اور فرانس کے ایگزیسٹینشل فلسفی ”جان پال سارتر“ انسانی مسلک کے دو مشہور انسان دوست چہرے ہیں‘ البتہ رسل کے فلسفہ اخلاق کی بنیاد اس کے نظریہ ”انسان دوستی“ کی دو طرح سے مخالف ہے‘ رسل کا فلسفہ اخلاق شخصی منافع کی سوچ پر مبنی ہے‘ یعنی اس کے اخلاق کی بنیاد اصول اخلاق کی روشنی میں زیادہ اور بہتر منافع کے تحفظ پر ہے اور وہ اخلاق کے کسی دوسرے فلسفہ کا قائل نہیں ہے‘ اس بناء پر رسل کی ”انسان دوستی“ ایک اہل قلم کے قول کے مطابق مغربی دنیا کے اس اضطراب کی مظہر ہے‘ جس کی بنیاد ختم ہو چکی ہے‘ یہ اہل قلم ”آج کے مغربی نیھیلزم کے دو چہرے“ کے عنوان سے لکھتا ہے:

”وہ جوشیلا برژوازی جس نے قومیت کا پرچم لہرایا تھا‘ آج اس کے پاس سوچنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ یورپی جوان نسل ایک کھوکھلے نقطے پر کھڑی ہے۔ آج مغرب اور برآمدات کو جو اجتماعی شورش‘ ناامیدی‘ پریشانی‘ احساس حقارت اور افکار مذہب و اخلاق کے جذبات پر مشتمل ہیں اور جو اس نے دوسری قوموں اور تہذیبوں پر مسلط کیا تھا‘ واپس لے رہا ہے۔ منکر مذہب و اخلاق تو یہ سوچتا ہے کہ جب میرے لئے کچھ نہیں تو دوسرے کے لئے بھی کچھ نہ ہو اور اس طرح وہ خود اپنی ہی خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔

۹۳

لیکن ایک اور ردعمل ایک طرح کے روحانی انسان دوستی کے فلسفے کے ظہور میں آنے سے ہوا ہے‘ جو مختلف سطحوں پر مغربی روشن فکر افراد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے ایک طرف رسل کا سادہ عملی نظریہ ہے اور دوسری جانب سارتر کا پیچیدہ اور شدید نظریہ اور درمیان میں ٹیبو رمنڈر جیسے سیاست دان کا اور اقتصادیات کے حامی روشن فکر افراد اپنی اور دوسروں کی مشکلات کے حل کے لئے عملی طریقے سوچ رہے ہیں۔

لیکن سارتر اپنے عارفانہ اور آزادانہ مشرب اور ذمہ داری کے اس پیچیدہ اور شدت آمیز نظریے کے باوجود مغربی روح کا ایک اور مظہر ہے‘ جو احساس گناہ کی بناء پر تلافی مکافات کرنا چاہتا ہے۔ وہ رواقی فلاسفہ کی مانند انسانوں میں برادری‘ برابری‘ آزادی‘ خود مختاری‘ پرہیزگاری اور پارسائی سے دنیا میں حکومت کرنے کا معتقد ہے۔ موجودہ دور میں وہ ایسی روشن خیالی کا مظہر ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ”انسانیت کامل“ کا حامی بن کر اپنے آپ کو مغرب کے اس اضطراب سے نکال لے‘ جس کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہے۔ وہ نظریہ ”انسان دوستی“ کو مذہب کا بدل بنا کر پرانے خدا کے بدلے پوری انسانیت کے لئے نئے خدا سے اپنے اور پورے مغرب کے لئے معافی کا خواستگار ہے۔“

سارتر کی واضح انسان دوستی کا نتیجہ یہی ہے کہ کبھی تو وہ اسرائیل کی مظلومیت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے اور کبھی عربوں اور بالخصوص فلسطینی مہاجرین کے مظالم پر فریاد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

دنیا نے مغرب کے تمام انسان دوستوں کو جنہوں نے ”حقوق انسانی“ کے منشور پر دستخط کئے ہیں۔ مسلسل دیکھا ہے اور دیکھ رہی ہے اور یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔

”اجتماعی خود شناسی“ ملی ہو یا طبقاتی یا انسانی ہمارے دور میں ”روشن خیال خود شناسی“ کہلاتی ہے۔ روشن خیال شخص وہ ہے جسے ان اقسام خود شناسی میں سے کوئی ایک حاصل ہو جس کے دل میں قوم یا طبقے یا انسان کے درد کا احساس ہو‘ جو انہیں اس درد سے رہائی دلانے میں کوشاں ہو‘ وہ چاہتا ہو کہ اپنی ”خود شناسی“ کو ان میں منتقل کر دے اور اجتماع کی قیود سے رہائی کے لئے ان کو کوشش اور حرکت کی ترغیب دلائے۔

۹۴

۷ ۔ عارفانہ خود شناسی

عارفانہ خود شناسی ذات حق سے اپنے رابطے کے سلسلے میں خود شناسی ہے‘ عرفا کے نقطہ نظر سے یہ رابطہ ایسا نہیں ہے جو دو انسانوں کا آپس میں یا معاشرے کے کسی دوسرے افراد سے ہوتا ہے‘ بلکہ یہ رابطہ ”شاخ کا جڑ“ سے ”مجاز کا حقیقت“ سے اور عرفا کی اصطلاح میں مقید کا مطلق سے رابطہ ہے۔

ایک روشن فکر کے درد کے برعکس عارف کا درد انسان کی ”خود شناسی“ میں کسی بیرونی درد کا انعکاس نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسا باطنی درد ہے‘ جو فطری اور اجتماعی درد ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ پہلے اس سے آگاہ ہوتا ہے پھر یہ آگاہی اس کو درد مندبناتی ہے۔

لیکن ایک عارف کا درد چونکہ ایک باطنی درد ہوتا ہے‘ خود درد ہی اس کے لئے آگاہی ہے بالکل بیماریوں کے درد ہی کی طرح‘ جو طبیعت کی طرف سے کسی حاجت اور ضرورت کا اعلان ہے۔

حسرت و زاری کہ درد بیماری است

وقت بیماری ھمہ بیداری است

ہر کہ او بیدار تر پر درد تر

ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر

پس بدان این اصل را ای اصلجو

ہر کہ را درد است او بردہ است بو

۹۵

”بیماری میں جو حسرت اور گریہ زاری ہے‘ بیماری کے وقت سب کی بیداری کی علامت ہے۔

جو جتنا زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ دردمند ہے اور جو جتنا زیادہ خود شناس ہے اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ زرد ہے‘ پس اے حقیقت کے متلاشی! اس حقیقت کو جان لے کہ جو شخص درد میں مبتلا ہے اسی نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ہے۔“

عارف کا درد فلسفی کے درد جیسا بھی نہیں‘ دونوں ہی حقیقت کے درد مند ہیں لیکن فلسفی کا درد حقیقت کے جاننے اور شناخت کرنے کا درد ہے اور عارف کا درد پہنچنے‘ ایک ہو جانے اور محو ہو جانے کا درد۔ فلسفی کا درد اسے فطرت کے دیگر فرزندوں یعنی تمام جمادات‘ نباتات اور حیوانات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ عالم طبیعت کے کسی وجود میں ماننے اور شناخت کرنے کا درد موجود نہیں‘ لیکن عارف کا درد عشق اور جذبے کا درد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نہ صرف حیوان میں نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں‘ جن کی ذات کا جوہر ہی خود شناسی اور جاننا ہے۔

فرشتہ عشق نداانست چیست قصہ مخوان

بخواہ جام و گلابی بہ خاک آدم ریز

”فرشتے نے عشق کو نہ جانا کہ وہ کیا چیز ہے قصہ نہ سنا‘ جام طلب کر اور گلاب کا پانی آدم کی خاک پر ڈال دے۔“

جلوہ ای کرد رخش دید ملک‘ عشق نداشت

خیمہ در مزرعہ آب و گل آدم زد

”جب اس کے رخ کا ایک جلوہ نظر آیا تو فرشتے نے دیکھا کہ اس میں عشق نہیں تو اس نے آدم کی خاک پر اپنے خیمے گاڑ دیئے۔“

۹۶

فلسفی کا درد فطرت کی حاجتوں کے جاننے کا اعلان ہے جسے فطری طور پر انسان جاننا چاہتا ہے اور عارف کا درد فطرت عشق کی حاجتوں کا اعلان ہے جو پرواز کرنا چاہتا ہے اور جب تک پوری طرح سے حقیقت کا ادراک نہیں کرتا‘ سکون نہیں پاتا۔ عارف کامل خود شناسی کو ”خداشناسی“ میں منحصر سمجھتا ہے۔ عارف کی نظر میں جسے فلسفی انسان کا حقیقی ”من“ سمجھتا ہے‘ حقیقی ”من“ نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ ”جان“ ہے‘ ایک تعین ہے‘ حقیقی ”من“ خدا ہے اور اس تعین کے ٹوٹنے کے بعد انسان اپنے حقیقی ”من“ کو پا لیتا ہے۔

محی الدین ابن عربی فصول الحکم‘ فص شعیبی میں فرماتے ہیں‘ حکماء اور متکلمین نے خود شناسی کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن ان راہوں سے ”معرفت النفس“ حاصل نہیں ہو سکتی‘ جس کا خیال یہ ہو کہ ”خود شناسی“ کے بارے میں حکماء نے جو کچھ سمجھا ہے‘ وہ حقیقت ہے‘ تو اس نے پھولی ہوئی چیز کو موٹا سمجھ رکھا ہے۔

شیخ محمود شبستری سے عرفانی مسائل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات ”جن کے جواب میں کم نظیر عرفانی کلام‘ ”گلشن راز“ وجود میں آیا ہے۔“ میں سے ایک ”خود“ ذات اور ”من“ کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کیا ہے؟

۹۷

دگر کردی سوال ازمن کہ ”من“ چیست

مرا از من خبر کن تاکہ ”من“ کیست

چو ہست مطلق آمد در اسارت

بہ لفظ ”من“ کنند از وی عبارت

حقیقت کز تعین شد معین

تو او را در عبارت گفتہ ای من

من و تو عارض ذات وجودیم

مشبکہای مشکوة وجودیم

ھمہ یک نور دان اشباح و ارواح

گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح

”تو نے پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ ”من“ کیا ہے‘ ”من“ کے بارے میں پوچھنے سے پہلے مجھے میرے بارے میں خبر تو دو!

مطلق ہستی کو جب اسیر اور مقید کر دیا جاتا ہے تو اسے ”من“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جب تعین اور حدود و قیود کی وجہ سے حقیقت کو متعین کیا جاتا ہے اسے سادہ عبارت میں ”من“ کہا جاتا ہے‘ میں اور تم دونوں ذات وجود کے عارض ہیں اور ہم وجود (روح) کے فانوس کے گرد لگی ہوئی جالیاں ہیں (جن سے روشنی چھن چھن کر باہر آتی ہے) ہیولا اور روح کو ایک نور ہی سمجھ لو‘ کیوں کہ نور کبھی تو آئینہ سے منعکس ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی فانوس سے سیدھا تم تک پہنچ جاتا ہے۔“

پھر ”روح“ اور ”من“ کے بارے میں فلاسفہ کی خود شناسی پر اس طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔

۹۸

تو گوی لفظ ”من“ در ہر عبارت

بسوی روح می باشد اشارت

چو کردی پیشوائے خود خرد را

نمی دانی ز جزء خویش خودرا

برو ای خواجہ خود را نیک بشناس

کہ نبود فربہی مانند آماس( ۱)

من و تو بر تر از جان و تن آمد

کہ این ہر دو ز اجزای من آمد

بہ لفظ من نہ انسان است مخصوص

کہ تا گوی بدان جان است مخصوص

یکی راہ برتر از کون و مکان شو

جہاں بگذار و خود در خود جہان شو

”تم چاہے کسی بھی عبارت میں لفظ ”من استعمال کرو اشارہ تمہاری روح ہی کی طرف ہے‘ جب تم عقل کو اپنا رہبر اور رہنما بناؤ گے‘ تو اپنے آپ کو اپنے اعضاء سے نہیں سمجھو گے۔ اے خواجہ جا اور اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے کیوں کہ پھول جانا موٹاپا نہیں ہوتا‘ ”من“ اور ”تو“ جگہ اور بدن سے برتر ہیں کیوں کہ یہ دونوں مرے اجزاء اور حصے ہیں لفظ ”من“ کسی خاص انسان سے مخصوص نہیں جو تم اس سے کسی خصوصی روح کو مراد لو‘ ایک راستے پر چلو اور کون و مکان سے برتر ہو جاؤ‘ دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے اندر ایک دنیا بن جاؤ۔“

۹۹

مولانا کہتے ہیں:

ای کہ در پیکار ”خود“ را باختہ

دیگران را تو ز خود نشاختہ

تو بہ ہر صورت کہ آئی بیستی

کہ منم این واللہ آن تو نیستی

یک زمان تنہا بمانی تو زخلق

در غم و اندیشہ مانی تا بحلق

این تو کی باشی؟ کہ تو آن اوحدی

کہ خوش و زیبا و سرمست خودی

مرغ خویشی‘ صید خویشی‘ دام خویش

صدر خویشی‘ فرش خویشی‘ بام خویش

گر تو آدم زادہ ای چون اونشین

جملہ ذرات را در خود ببین

”اے وہ شخص جو جنگ میں اپنے آپ کو ہار چکا ہے اور اپنے اور دوسروں کے فرق کو نہ جان سکا‘ تم چاہے کسی بھی صورت میں آ جاؤ تم نہیں ہو‘ بلکہ اللہ کی قسم وہ میں ہوں‘ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم مخلوقات سے الگ تھلگ اکیلے رہ جاؤ گے اور گردن تک غم و اندوہ میں مبتلا رہو گے۔ یہ تم کب ہو؟‘ تم تو وہ فرد ہو جو اپنا مرکز‘ اپنا فرش اور اپنا چھت ہے اور جو اپنے آپ میں سرمست‘ خوش اور مگن ہے‘ تم خود ہی پرندہ ہو‘ خود شکار ہو اور خود ہی جال بھی‘ بلندی بھی تم خود ہو‘ پستی بھی خود ہی اور چھت بھی تم ہی ہو‘ اگر تم آدم کی اولاد ہو تو اس کی طرح رہو اور تمام ذرات کا اپنے اندر مشاہدہ کرو۔“

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110