• ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11216 / ڈاؤنلوڈ: 3763
سائز سائز سائز
مدحت کا شوق ہے

مدحت کا شوق ہے

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

مدحت کا شوق ہے

کاشف حیدر

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

۳

نبیؐ کی اس قدر مجھ پہ ہوئی رحمت مدینے میں

نبیؐ کی اس قدر مجھ پہ ہوئی رحمت مدینے میں

مجھے تو مل گئی یارو مری جنت مدینے میں

٭

پلک بھی کب جھپکتی ہے، کھڑا ہوں در پہ مولا کے

گئی جانے کہاں سونے کی وہ عادت، مدینے میں

٭

جو سر سجدے میں رکھا پھر کہاں خود سے اٹھا پایا

مجھے سجدے میں روکے ہے کوئی طاقت مدینے میں

٭

نوازا ہے بہت اب اپنے در پر بھی بلا لیجئے

مری بڑھ جائے گی کچھ اور بھی قامت مدینے میں

٭

مدینے کے مسافر مجھ پہ بس اتنا کرم کرنا

ذرا سا ذکر کر دینا مری بابت مدینے میں

٭

یہاں ہے خواہش شہرت بھی ، جنت کی طلب بھی ہے

نہیں ہوتی کوئی خواہش کوئی حاجت مدینے میں

٭

۴

مدینے کی زمیں پہ پاؤں رکھوں ، دم نکل جائے

چمک جائے گی بس پھر تو مری قسمت مدینے میں

٭

نہیں ہے حرمت آل نبی جس دل میں بھی کاشف

کہاں مل پائے گی اس کو کوئی عزت مدینے میں

٭٭٭

۵

روکنے پائے نہ خنجر بھی زبان انقلاب

روکنے پائے نہ خنجر بھی زبان انقلاب

دار سے ہم دے کے آئے ہیں اذان انقلاب

٭

غیر ممکن ہے کہ بھٹکیں رہروان انقلاب

ہر قدم سجاد کا ہے اک نشان انقلاب

٭

اے حسین ابن علی تو ہی ہے جان انقلاب

بن ترے ہو ہی نہیں سکتا بیان انقلاب

٭

تیر جیسے ہی چلایا ظلم رونے لگ گیا

تیر کھا کر مسکرایا شادمان انقلاب

٭

سر کو سجدے میں کٹا کر کربلا کی خاک پر

کون تھا جس نے تراشا آسمان انقلاب

٭

کربلا کو تقویت زینب کے خطبوں سے ملی

ورنہ رہ جاتی ادھوری داستان انقلاب

٭

موت سے یہ ماتمی ڈرتے نہیں ہیں ظالمو

رک نہ پائے گا کبھی بھی کاروان انقلاب

٭٭٭

۶

اے مرے مولا ترے غم کی نشانی دیکھ کر

اے مرے مولا ترے غم کی نشانی دیکھ کر

آہ اک دل سے نکل جاتی ہے پانی دیکھ کر

٭

رکھ دیا اس کو حصار بازوئے عباس میں

شاہ دیں نے دین حق کی بے امانی دیکھ کر

٭

زینبِ دلگیر کا خطبہ سنو گے کس طرح

ڈر گئے بے شیر کی تم بے زبانی دیکھ کر

٭

قبر میں میری بھی کاشف آئے تھے منکر نکیر

رو دیئے خود بھی مری آنکھوں میں پانی دیکھ کر

٭٭٭

۷

قریب مرگ تھا آئی علی علی کی صدا

قریب مرگ تھا آئی علی علی کی صدا

حیات ساتھ میں لائی علی علی کی صدا

٭

دعائیں ماں کے لئے کیں بہت سر محشر

وہاں پہ کام جو آئی علی علی کی صدا

٭

میں مر گیا تو مری قبر میں بھی گونج اٹھی

کچھ ایسی دل میں سمائی علی علی کی صدا

٭

گھرے ہوئے ہوئے ہو مصیبت میں دل جلاتے ہو

ذرا لگاؤں تو بھائی علی علی کی صدا

٭

جو پائی باپ سے ورثے میں دی ہے بچوں کو

انہیں بھی میں نے سکھائی علی علی کی صدا

٭

وہیں سے جھولیاں بھر کر چلا ہوں میں کاشف

جہاں بھی میں نے لگائی علی علی کی صدا

٭٭٭

۸

باغ حیدر کے مقابل کون ٹہرا سر سمیت

باغ حیدر کے مقابل کون ٹہرا سر سمیت

ہو گیا منظر سے غائب اپنے پس منظر سمیت

٭

وہ تو غیض مرتضی پر رحم غالب آگیا

ورنہ اے جبریل کٹ جاتی زمیں شہپر سمیت

٭

پہلے سر انتر کا کاٹا پھر کیا مرحب پہ وار

لاش مرحب کی گری لیکن سر انتر سمیت

٭

ہاتھ میں اک پھول تتلی پھول سے لپٹی ہوئی

تھا یونہی اک ہاتھ میں خیبر کا در لشکر سمیت

٭

وہ تو قنبر نے مہار اونٹوں کی فورا چھوڑ دی

ورنہ کہہ دیتے علی لے جا انہیں قنبر سمیت

٭

پنجتن کے نام جن کے بادبانوں پر نہ ہوں

ڈوب جائیں گی وہ ساری کشتیاں لنگر سمیت

٭

عشق کے آداب کوئی حر سے سیکھے اے سروش

ڈال دیں قدموں میں شہہ کے دولتیں دل سر سمیت

٭٭٭

۹

ہم کو جو اہل بیت کی مدحت کا شوق ہے

ہم کو جو اہل بیت کی مدحت کا شوق ہے

دنیا میں باغبانی جنت کا شوق ہے

٭

ذکر علی سے روحوں کی تطہیر بھی کریں

جن کو فقط بدن کی طہارت کا شوق ہے

٭

میثم ثنا کے شوق میں پہنچے ہیں دار پر

یہ شوق بھی عجیب قیامت کا شوق ہے

٭

عشق علی نے کر دیا یوں ہم کو بے نیاز

دوزخ کا ڈر ہے اور نہ جنت کا شوق ہے

٭٭٭

۱۰

دین حق مشکل میں جو پایا گیا

دین حق مشکل میں جو پایا گیا

فاطمہ کے لعل کو لایا گیا

٭

دیکھ کر عباس کو کہتی تھی فوج

جو بھی اس کے سامنے آیا گیا

٭

ثانی زہرا نے چادر ڈال دی

دین حق کے سر سے جو سایا گیا

٭

پیس کر چکی کمایا عمر بھر

ایک دن میں سارا سرمایہ گیا

٭

ریت نم کی آنسوؤں سے شاہ نے

پھر علی اصغر کو دفنایا گیا

٭

کیا مری ہمت کہ خود سے لکھ سکوں

میں نے وہ لکھا جو لکھوایا گیا

٭٭٭

۱۱

علیؑ کے ذکر سے شمس و قمر چمکتے ہیں

علیؑ کے ذکر سے شمس و قمر چمکتے ہیں

اسی طرح سے مرے بام و در چمکتے ہیں

٭

کچھ اس طرح سے ہے فطرت ہر اک مک سے جدا

ہیں سب کے پاس مگر اس کے پر چمکتے ہیں

٭

در علیؑ پہ جو آیا اسے ملی عزت

یہ ایسا در ہے جہاں سب ہنر چمکتے ہیں

٭

کبھی جو محفل حیدرؑ کروں میں اپنے گھر

ستارے آ کے مرے بام پر چمکتے ہیں

٭

سجا ہو جن میں عزا خانہ شہہ والا

اندھیرا کتنا ہو کاشف وہ گھر چمکتے ہیں

٭٭٭

۱۲

اوج انسانی کو پانا چاہئیے

اوج انسانی کو پانا چاہئیے

کربلا کی سمت جانا چاہئیے

٭

آگیا ہوں مجلس شبیر میں

خلد جانے کا بہانہ چاہئیے

٭

کربلا جا کر سفر ہوگا تمام

زندگی کو اب ٹھکانہ چاہئیے

٭

دیکھ کر عباس کو اک غل اٹھا

کیسے دریا کو بچانا چاہئیے

٭

سر جھکا کر کربلا کی خاک پر

اپنی قسمت خود بنانا چاہئیے

٭

ہو گی سنوائی در شبیر پر

حال دل جا کر سنانا چاہئیے

٭

۱۳

جب خدا کی نعمتوں کی بات ہو

کربلا کا ذکر آنا چاہئیے

٭

زندگی مل جائے گی کاشف تجھے

شہہ کے غم میں مر ہی جانا چاہئیے

٭٭٭

۱۴

ذوالفقار ہوں میں

چلو جو میں تو زمانے پہ خوف چھاتا ہے

وہ بچ نہ پائے گا جو میری زد میں آتا ہے

علیٰ کا غیض جو مجھ کو کبھی چلاتا ہے

٭٭

میں کاٹتی ہوں بس اک وار میں ہی سب لشکر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

بقائے حق کیلئے مرضی خدا کیلئے

اٹھی ہوں میں تو فقط دین کی بقا کیلئے

خدا نے مجھ کو بنایا ہے مرتضیٰ کیلئے

٭

چلا سکے گا مجھے صرف بازوَئے حیدرّٰ

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

کہاں وہ ڈھال جہاں میں جو میری مار سہے

جری کہاں کوئی ایسا جو میرا وار سہے

جو میرے سامنے آئے وہ صرف ہار سہے

٭

یقیں نہیں ہے تو بتلائے گا تمھیں انتر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

۱۵

میں پل میں جنگ کا نقشہ بدل بھی سکتی ہوں

میں دشمنوں کی صفوں کو نگل بھی سکتی ہوں

میں کوئی موت نہیں ہوں جو ٹل بھی سکتی ہوں

٭

نہ بھاگ پائے گا مجھ سے کوئی عدو بچ کر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

دیار کفر پہ اب بھی مری وہ ہیبت ہے

میں چپ رہی ہوں جو اب تک مری شرافت ہے

امام عصر کی درکار بس اجازت ہے

٭

میں یاد تم کو کراؤں گی خندق و خیبر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

مرے علیؑ نے دلایا ہے وہ وقار مجھے

اے مومنو ہے یہی آج انتظار مجھے

امام ِ وقت اٹھائیں پھر ایک بار مجھے

٭

یزیدیت سے میں کاشف لوں انتقام آ کر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭٭

۱۶

متفرقات

جب تری رہ گزر پہ آنے لگے راہبر راہ سے ہٹانے لگے

وار دشمن کے سب گئے خالی دوستوں کے سبھی نشانے لگے

٭

میں نے پوچھا کوئی نئی تازہ حال میرا مجھے سنانے لگے

تجھ کو سوچا تو سادے کاغذ پر کچھ خیالات مسکرانے لگے

٭

دل ترا غم بھلا چکا جاناں یہ الگ بات ہے زمانے لگے

تھے یہ تازہ رفاقتوں کے سبب زخم لیکن بہت پرانے لگے

بن نہ پائے جو تم ہنسی لب کی آنسوؤں میں ہی جھلملانے لگے

خود کو مجھ سے کرو گے پھر بد ظن تم مجھے پھر سے آزمانے لگے

٭٭٭

۱۷

تبدیلی

چلو ایسا کریں ہم اپنی بنیادیں بدلتے ہیں

جہان پر تم کھڑی ہو اب وہاں پر میں کھڑا ہوں گا

٭

مرے الفاظ تم لے لو مری سوچیں بھی تم لے لو

مجھے اپنی نگاہیں دو مجھے انداز اپنا دو

٭

چلو ایسا کریں ہم اپنی بنیادیں بدلتے ہیں

چلو اب یوں کرو تم موسموں کے رنگ کو سمجھو

٭

بہاروں کو خزاں جانو خزاں کو خوشنما دیکھو

اور اب میں یوں کروں گا تتلیوں کا بھیس دھاروں گا

٭

ہر اک ڈالی پہ بیٹھوں گا ہزاروں رنگ بدلوں گا

چلو ایسا کریں ہم اپنی بنیادیں بدلتے ہیں

٭

چلو اب یوں کریں جب بھی وفا پہ بحث چھڑ جائے

تو میں اس کو فقط دیوانگی کا نام دے دونگا

٭

۱۸

مجھے معلوم ہے اس بحث لا معنی کے آخر میں

ترے چہرے کا جاناں رنگ فق ہوگا

٭

مگر اک بات تم سن لو کہ

اب کے بے وفائی میرا حق ہوگا

٭٭٭

۱۹

جانے سے بدلتا نہیں منظر تو مجھے کیا

جانے سے بدلتا نہیں منظر تو مجھے کیا

وہ یاد مجھے کرتا ہے اکثر تو مجھے کیا

٭

میں جیسا ہوں ایسا ہی مجھے ہونا تھا صاحب

کچھ لوگ اگر مجھ سے ہیں بہتر تو مجھے کیا

٭

تسکین مجھے دیتے ہیں اشعار یہ میرے

کھلتے نہیں تم پر مرے جوہر تو مجھے کیا

٭

جب گھر سے میں نکلا تو کسی نے نہیں روکا

اب لاکھ بلاتا ہے مرا گھر تو مجھے کیا

٭

میں عشق کروں گا کہ مرے خوں میں ہے شامل

وہ شخص نہیں میرا مقدر تو مجھے کیا

٭

دشمن ہے تو دشمن کی نظر سے اسے دیکھوں

وہ روز ملا کرتا ہے ہنس کر تو مجھے کیا

٭

۲۰

مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بستر میں پر چھا گیا ہے۔ بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لیے کہ:

۱. وہ (مرکز ) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔

۲. تم امر حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔

۳. وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔

۴. وہ اپنے شہروں میں امن برقرار رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔

میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤ ، تو ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لےجائے گا۔

امام اس حد تک ان سے خوف محسوس کر رہے ہیں کہ ایک لکڑی کا پیالہ بھی انہیں دیتے ہوئے امن محسوس نہیں کرتے ہیں۔ چہ جائے کہ ان کی اطاعت اور پیروی پر اعتماد کریں۔ یہ مظلومیت امام علی علیہ السلام کی انتہاء ہے۔ اس کے بعد آپ اللہ کے حضور اس طرح شکوہ کرتے ہیں:

اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّونِي وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُونِي فَإَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيراً مِنْهُمْ وَ إَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ إَمَا وَ اللَّهِ لَوَدِدْتُ إَنَّ لِي بِكُمْ إَلْفَ فَارِسٍ مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْم‏: هُنَالِكَ لَوْ دَعَوْتَ‏ إَتَاكَ‏ مِنْهُمْ‏ ****** فَوَارِسُ مِثْلُ إَرْمِيَةِ الْحَمِيم

۲۱

اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے۔ وہ مجھ سے اکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر او رمیرے بدلے میں انہیں کوئی اور برا حاکم دے۔ خدا یا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس نبی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے بیان کیا) اگر تم کسی وقت انہیں پکارو، تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روئی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں۔(۱۶)

امت کے درمیان امام کا وجود چکی میں کیل کی طرح ہےکہ لوگ اس کے ارد گرد نظم و نسق کے ساتھ رہتے ہیں ان میں کوئی بھی اگر اپنی گردش سے منحرف ہو جائے تو اس کا بنیادی ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ امام فرماتے ہیں:

وَ إِنَّمَا إَنَا قُطْبُ الرَّحَى‏تَدُورُ عَلَيَّ وَ إَنَا بِمَكَانِي فَإِذَا فَارَقْتُهُ‏ اسْتَحَارَ مَدَارُهَا وَ اضْطَرَبَ ثِفَالُهَا هَذَا لَعَمْرُ اللَّهِ الرَّإيُ السُّوءُ

میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں جس کے گرد چکی گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا ، تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا۔ خدا کی قسم یہ بہت برا مشورہ ہے ۔

امام اور رہبر کی اطاعت اور پیروی امت کو گرداب حوادث میں حیران اور سرگردان ہونے سے بچاتی ہےتاکہ اپنے زمانے اور اس کے حوادث سے انسان امان میں رہیں اور ٹیڑھے راستے پر جانے سے خود کو بچا کے رکھ سکیں، جیسا کہ بنی اسرائیل کے قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے حیرانی اور پریشانی کی گرداب میں پھنس گئے۔ امام فرماتے ہیں:

-------------

(۱۶)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۱۳۶ و ۱۳۷ خ ۲۵

۲۲

لَكِنَّكُمْ تِهتُمْ مَتَاهَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ لَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَ‏ لَكُمُ‏ التِّيهُ‏ مِنْ بَعْدِي إَضْعَافاً بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَ قَطَعْتُمُ الْإَدْنَى وَ وَصَلْتُمُ الْإَبْعَدَ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وَ كُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ وَ نَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الْإَعْنَاق‏

تم بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے اور اپنی جان کی قسم میرے بعدتمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے ۔ یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔ (۱۷)

-----------------

(۱۷)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۳۹۰ خ۱۵۹

۲۳

ج- رہبر اور عوام کے ایک دوسرے پر حقوق

کسی بھی معاشرے میں امام اور امت کے ایک دوسرے کے اوپر حقوق ہیں، کہ ان کی رعایت کرنے سے وہ معاشرہ ترقی، کمال اور ہمیشہ کی سعادت اور خوشبختی حاصل کر لے گا۔ان حقوق کی دو قسم ہیں: ایک وہ حقوق ہیں جو امام اور رہبر کی نسبت لوگوں کے گردنوں پر ہیں۔ دوسرے وہ حقوق جو معاشرے میں رہنے والوں کی نسبت امام اور رہبر کی گردن پر ہیں یہ امام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرے۔ ایک جگہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

إَيُّهَا النَّاسُ إِنَ‏ لِي‏ عَلَيكُمْ‏ حَقّاً وَ لَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَإَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ: ۱- فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ ۲-وَ تَوْفِيرُ فَيئِكُمْ عَلَيكُمْ ۳- وَ تَعْلِيمُكُمْ كَيلَا تَجْهَلُوا ۴- وَ تَإدِيبُكُمْ كَيمَا تَعْلَمُوا

وَ إَمَّا حَقِّي عَلَيكُمْ ۱- فَالْوَفَاءُ بِالْبَيعَةِ۲- وَ النَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِيبِ ۳- وَ الْإِجَابَةُ حِينَ إَدْعُوكُمْ ۴- وَ الطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُم‏

اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ ۱- میں تمہاری خیر خواہی کو پیش نظر رکھوں۲- اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں، ۳- تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو۴- اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو ۔

اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ ۱- بیعت کی ذمہ داریوں کو پوا کرو۲- اور سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو۔ ۳- جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو،۴- اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔(۱۸)

---------------

(۱۸)- ترجمہ مفتی جعفر ص ۱۵۸ خ ۳۴

۲۴