• ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10855 / ڈاؤنلوڈ: 3492
سائز سائز سائز
مدحت کا شوق ہے

مدحت کا شوق ہے

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

مدحت کا شوق ہے

کاشف حیدر

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

۳

نبیؐ کی اس قدر مجھ پہ ہوئی رحمت مدینے میں

نبیؐ کی اس قدر مجھ پہ ہوئی رحمت مدینے میں

مجھے تو مل گئی یارو مری جنت مدینے میں

٭

پلک بھی کب جھپکتی ہے، کھڑا ہوں در پہ مولا کے

گئی جانے کہاں سونے کی وہ عادت، مدینے میں

٭

جو سر سجدے میں رکھا پھر کہاں خود سے اٹھا پایا

مجھے سجدے میں روکے ہے کوئی طاقت مدینے میں

٭

نوازا ہے بہت اب اپنے در پر بھی بلا لیجئے

مری بڑھ جائے گی کچھ اور بھی قامت مدینے میں

٭

مدینے کے مسافر مجھ پہ بس اتنا کرم کرنا

ذرا سا ذکر کر دینا مری بابت مدینے میں

٭

یہاں ہے خواہش شہرت بھی ، جنت کی طلب بھی ہے

نہیں ہوتی کوئی خواہش کوئی حاجت مدینے میں

٭

۴

مدینے کی زمیں پہ پاؤں رکھوں ، دم نکل جائے

چمک جائے گی بس پھر تو مری قسمت مدینے میں

٭

نہیں ہے حرمت آل نبی جس دل میں بھی کاشف

کہاں مل پائے گی اس کو کوئی عزت مدینے میں

٭٭٭

۵

روکنے پائے نہ خنجر بھی زبان انقلاب

روکنے پائے نہ خنجر بھی زبان انقلاب

دار سے ہم دے کے آئے ہیں اذان انقلاب

٭

غیر ممکن ہے کہ بھٹکیں رہروان انقلاب

ہر قدم سجاد کا ہے اک نشان انقلاب

٭

اے حسین ابن علی تو ہی ہے جان انقلاب

بن ترے ہو ہی نہیں سکتا بیان انقلاب

٭

تیر جیسے ہی چلایا ظلم رونے لگ گیا

تیر کھا کر مسکرایا شادمان انقلاب

٭

سر کو سجدے میں کٹا کر کربلا کی خاک پر

کون تھا جس نے تراشا آسمان انقلاب

٭

کربلا کو تقویت زینب کے خطبوں سے ملی

ورنہ رہ جاتی ادھوری داستان انقلاب

٭

موت سے یہ ماتمی ڈرتے نہیں ہیں ظالمو

رک نہ پائے گا کبھی بھی کاروان انقلاب

٭٭٭

۶

اے مرے مولا ترے غم کی نشانی دیکھ کر

اے مرے مولا ترے غم کی نشانی دیکھ کر

آہ اک دل سے نکل جاتی ہے پانی دیکھ کر

٭

رکھ دیا اس کو حصار بازوئے عباس میں

شاہ دیں نے دین حق کی بے امانی دیکھ کر

٭

زینبِ دلگیر کا خطبہ سنو گے کس طرح

ڈر گئے بے شیر کی تم بے زبانی دیکھ کر

٭

قبر میں میری بھی کاشف آئے تھے منکر نکیر

رو دیئے خود بھی مری آنکھوں میں پانی دیکھ کر

٭٭٭

۷

قریب مرگ تھا آئی علی علی کی صدا

قریب مرگ تھا آئی علی علی کی صدا

حیات ساتھ میں لائی علی علی کی صدا

٭

دعائیں ماں کے لئے کیں بہت سر محشر

وہاں پہ کام جو آئی علی علی کی صدا

٭

میں مر گیا تو مری قبر میں بھی گونج اٹھی

کچھ ایسی دل میں سمائی علی علی کی صدا

٭

گھرے ہوئے ہوئے ہو مصیبت میں دل جلاتے ہو

ذرا لگاؤں تو بھائی علی علی کی صدا

٭

جو پائی باپ سے ورثے میں دی ہے بچوں کو

انہیں بھی میں نے سکھائی علی علی کی صدا

٭

وہیں سے جھولیاں بھر کر چلا ہوں میں کاشف

جہاں بھی میں نے لگائی علی علی کی صدا

٭٭٭

۸

باغ حیدر کے مقابل کون ٹہرا سر سمیت

باغ حیدر کے مقابل کون ٹہرا سر سمیت

ہو گیا منظر سے غائب اپنے پس منظر سمیت

٭

وہ تو غیض مرتضی پر رحم غالب آگیا

ورنہ اے جبریل کٹ جاتی زمیں شہپر سمیت

٭

پہلے سر انتر کا کاٹا پھر کیا مرحب پہ وار

لاش مرحب کی گری لیکن سر انتر سمیت

٭

ہاتھ میں اک پھول تتلی پھول سے لپٹی ہوئی

تھا یونہی اک ہاتھ میں خیبر کا در لشکر سمیت

٭

وہ تو قنبر نے مہار اونٹوں کی فورا چھوڑ دی

ورنہ کہہ دیتے علی لے جا انہیں قنبر سمیت

٭

پنجتن کے نام جن کے بادبانوں پر نہ ہوں

ڈوب جائیں گی وہ ساری کشتیاں لنگر سمیت

٭

عشق کے آداب کوئی حر سے سیکھے اے سروش

ڈال دیں قدموں میں شہہ کے دولتیں دل سر سمیت

٭٭٭

۹

ہم کو جو اہل بیت کی مدحت کا شوق ہے

ہم کو جو اہل بیت کی مدحت کا شوق ہے

دنیا میں باغبانی جنت کا شوق ہے

٭

ذکر علی سے روحوں کی تطہیر بھی کریں

جن کو فقط بدن کی طہارت کا شوق ہے

٭

میثم ثنا کے شوق میں پہنچے ہیں دار پر

یہ شوق بھی عجیب قیامت کا شوق ہے

٭

عشق علی نے کر دیا یوں ہم کو بے نیاز

دوزخ کا ڈر ہے اور نہ جنت کا شوق ہے

٭٭٭

۱۰

دین حق مشکل میں جو پایا گیا

دین حق مشکل میں جو پایا گیا

فاطمہ کے لعل کو لایا گیا

٭

دیکھ کر عباس کو کہتی تھی فوج

جو بھی اس کے سامنے آیا گیا

٭

ثانی زہرا نے چادر ڈال دی

دین حق کے سر سے جو سایا گیا

٭

پیس کر چکی کمایا عمر بھر

ایک دن میں سارا سرمایہ گیا

٭

ریت نم کی آنسوؤں سے شاہ نے

پھر علی اصغر کو دفنایا گیا

٭

کیا مری ہمت کہ خود سے لکھ سکوں

میں نے وہ لکھا جو لکھوایا گیا

٭٭٭

۱۱

علیؑ کے ذکر سے شمس و قمر چمکتے ہیں

علیؑ کے ذکر سے شمس و قمر چمکتے ہیں

اسی طرح سے مرے بام و در چمکتے ہیں

٭

کچھ اس طرح سے ہے فطرت ہر اک مک سے جدا

ہیں سب کے پاس مگر اس کے پر چمکتے ہیں

٭

در علیؑ پہ جو آیا اسے ملی عزت

یہ ایسا در ہے جہاں سب ہنر چمکتے ہیں

٭

کبھی جو محفل حیدرؑ کروں میں اپنے گھر

ستارے آ کے مرے بام پر چمکتے ہیں

٭

سجا ہو جن میں عزا خانہ شہہ والا

اندھیرا کتنا ہو کاشف وہ گھر چمکتے ہیں

٭٭٭

۱۲

اوج انسانی کو پانا چاہئیے

اوج انسانی کو پانا چاہئیے

کربلا کی سمت جانا چاہئیے

٭

آگیا ہوں مجلس شبیر میں

خلد جانے کا بہانہ چاہئیے

٭

کربلا جا کر سفر ہوگا تمام

زندگی کو اب ٹھکانہ چاہئیے

٭

دیکھ کر عباس کو اک غل اٹھا

کیسے دریا کو بچانا چاہئیے

٭

سر جھکا کر کربلا کی خاک پر

اپنی قسمت خود بنانا چاہئیے

٭

ہو گی سنوائی در شبیر پر

حال دل جا کر سنانا چاہئیے

٭

۱۳

جب خدا کی نعمتوں کی بات ہو

کربلا کا ذکر آنا چاہئیے

٭

زندگی مل جائے گی کاشف تجھے

شہہ کے غم میں مر ہی جانا چاہئیے

٭٭٭

۱۴

ذوالفقار ہوں میں

چلو جو میں تو زمانے پہ خوف چھاتا ہے

وہ بچ نہ پائے گا جو میری زد میں آتا ہے

علیٰ کا غیض جو مجھ کو کبھی چلاتا ہے

٭٭

میں کاٹتی ہوں بس اک وار میں ہی سب لشکر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

بقائے حق کیلئے مرضی خدا کیلئے

اٹھی ہوں میں تو فقط دین کی بقا کیلئے

خدا نے مجھ کو بنایا ہے مرتضیٰ کیلئے

٭

چلا سکے گا مجھے صرف بازوَئے حیدرّٰ

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

کہاں وہ ڈھال جہاں میں جو میری مار سہے

جری کہاں کوئی ایسا جو میرا وار سہے

جو میرے سامنے آئے وہ صرف ہار سہے

٭

یقیں نہیں ہے تو بتلائے گا تمھیں انتر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

۱۵

میں پل میں جنگ کا نقشہ بدل بھی سکتی ہوں

میں دشمنوں کی صفوں کو نگل بھی سکتی ہوں

میں کوئی موت نہیں ہوں جو ٹل بھی سکتی ہوں

٭

نہ بھاگ پائے گا مجھ سے کوئی عدو بچ کر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

دیار کفر پہ اب بھی مری وہ ہیبت ہے

میں چپ رہی ہوں جو اب تک مری شرافت ہے

امام عصر کی درکار بس اجازت ہے

٭

میں یاد تم کو کراؤں گی خندق و خیبر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭

مرے علیؑ نے دلایا ہے وہ وقار مجھے

اے مومنو ہے یہی آج انتظار مجھے

امام ِ وقت اٹھائیں پھر ایک بار مجھے

٭

یزیدیت سے میں کاشف لوں انتقام آ کر

ہاں ذوالفقار ہوں میں ہاں ذوالفقار ہوں میں

٭٭٭

۱۶

متفرقات

جب تری رہ گزر پہ آنے لگے راہبر راہ سے ہٹانے لگے

وار دشمن کے سب گئے خالی دوستوں کے سبھی نشانے لگے

٭

میں نے پوچھا کوئی نئی تازہ حال میرا مجھے سنانے لگے

تجھ کو سوچا تو سادے کاغذ پر کچھ خیالات مسکرانے لگے

٭

دل ترا غم بھلا چکا جاناں یہ الگ بات ہے زمانے لگے

تھے یہ تازہ رفاقتوں کے سبب زخم لیکن بہت پرانے لگے

بن نہ پائے جو تم ہنسی لب کی آنسوؤں میں ہی جھلملانے لگے

خود کو مجھ سے کرو گے پھر بد ظن تم مجھے پھر سے آزمانے لگے

٭٭٭

۱۷

تبدیلی

چلو ایسا کریں ہم اپنی بنیادیں بدلتے ہیں

جہان پر تم کھڑی ہو اب وہاں پر میں کھڑا ہوں گا

٭

مرے الفاظ تم لے لو مری سوچیں بھی تم لے لو

مجھے اپنی نگاہیں دو مجھے انداز اپنا دو

٭

چلو ایسا کریں ہم اپنی بنیادیں بدلتے ہیں

چلو اب یوں کرو تم موسموں کے رنگ کو سمجھو

٭

بہاروں کو خزاں جانو خزاں کو خوشنما دیکھو

اور اب میں یوں کروں گا تتلیوں کا بھیس دھاروں گا

٭

ہر اک ڈالی پہ بیٹھوں گا ہزاروں رنگ بدلوں گا

چلو ایسا کریں ہم اپنی بنیادیں بدلتے ہیں

٭

چلو اب یوں کریں جب بھی وفا پہ بحث چھڑ جائے

تو میں اس کو فقط دیوانگی کا نام دے دونگا

٭

۱۸

مجھے معلوم ہے اس بحث لا معنی کے آخر میں

ترے چہرے کا جاناں رنگ فق ہوگا

٭

مگر اک بات تم سن لو کہ

اب کے بے وفائی میرا حق ہوگا

٭٭٭

۱۹

جانے سے بدلتا نہیں منظر تو مجھے کیا

جانے سے بدلتا نہیں منظر تو مجھے کیا

وہ یاد مجھے کرتا ہے اکثر تو مجھے کیا

٭

میں جیسا ہوں ایسا ہی مجھے ہونا تھا صاحب

کچھ لوگ اگر مجھ سے ہیں بہتر تو مجھے کیا

٭

تسکین مجھے دیتے ہیں اشعار یہ میرے

کھلتے نہیں تم پر مرے جوہر تو مجھے کیا

٭

جب گھر سے میں نکلا تو کسی نے نہیں روکا

اب لاکھ بلاتا ہے مرا گھر تو مجھے کیا

٭

میں عشق کروں گا کہ مرے خوں میں ہے شامل

وہ شخص نہیں میرا مقدر تو مجھے کیا

٭

دشمن ہے تو دشمن کی نظر سے اسے دیکھوں

وہ روز ملا کرتا ہے ہنس کر تو مجھے کیا

٭

۲۰

خواہشات پر عقل کی حکومت

اگر چہ انسان پرخواہشات کی حکومت بہت ہی مستحکم ہوتی ہے لیکن عقل کے اندر ان خواہشات کو کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح رخ پرلانے کی مکمل صلاحیت اورقدرت پائی جاتی ہے۔بشرطیکہ انسان خواہشات پر عقل کو فوقیت دے اور اپنے معاملات زندگی کی باگ ڈورعقل کے حوالہ کردے۔

صرف یہی نہیں بلکہ جس وقت خواہشات پر عقل کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے اور خواہشات اسکے دائرہ اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں تب بھی عقل کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہوتی ہے وہ حکم دیتی ہے ،انسان کو برے کامو ںسے روکتی ہے،اور خواہشات ،نفس کے اندرصرف وسوسہ پیدا کرتے ہیں حضرت علی نے فرمایاہے:

(للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجروتنهی )( ۱ )

''نفسوں کے اندرمختلف خواہشیں سر ابھارتی ہیںاور عقلیں ان سے مانع ہوتی ہیں اورانہیں روکتی رہتی ہیں''

آپ ہی سے منقول ہے :

(للقلوب خواطرسوئ،والعقل یزجرمنها )( ۲ )

''دلوںمیں برے خیالات آتے ہیں اور عقل ان سے روکتی رہتی ہے''

اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہشات کی بناء پر انسان کے نفس میں صرف برے خیالات،اوہام اور وسوسے جنم لیتے ہیں لیکن عقل کے پاس انہیں کنڑول کرنے نیز ان سے روکنے کا اختیار موجود ہے اور اس کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہے۔ اسی لئے مولائے کائنات نے فرمایاہے:

(العقل الکامل قاهرللطبع السُّوئ )( ۳ )

''عقل کامل ،بری طبیعتوں پر غالب ہی رہتی ہے''

جسکا مطلب یہ ہوا کہ انسانی مزاج اور اسکا اخلاق، بے جا خواہشات کی بناء پر بگڑکرچاہے جتنی پستی میں چلاجائے تب بھی عقل کی حکومت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے اور عقل سلیم وکامل اپنے اندر

____________________

(۱)تحف العقول ص۹۶۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۳)بحار الانوارج۱۷ص۱۱۶۔

۲۱

ہر قسم کی بری طبیعت اور مزاج کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ اسلامی تربیت کا ایک اہم اصول ہے جسکے بارے میں ہم آئندہ تفصیل سے گفتگوکریں گے۔

انسان ،عقل اور خواہش کا مجموعہ

یہاں تک ہم اس واضح نتیجہ تک پہونچ چکے ہیں کہ خواہشیں کتنی ہی قوی اورموثر کیوں نہ ہوںلیکن وہ انسان سے اسکاارادہ اور قوت ارادی کونہیں چھین سکتی ہیں۔بشرطیکہ انسان عقل کو کامل بنالے اور معاملات زندگی میں عقل کو اہمیت دیتارہے کیونکہ انسان، عقل اور خواہشات سے مل کر بنا ہے لہٰذاعقل اور خواہشات کے باعث انسان ہمیشہ ترقی و تنزلی کی منزلیںطے کرتارہتاہے انسان اپنے معاملات حیات میں جس حد تک عقل کی حاکمیت کا قائل ہوگا اور اپنی عقل کے تکامل کی کوشش کرے گا اسی حد تک ترقی اور کمال کی جانب قدم بڑھائے گا اسکے برخلاف عقل کو بالکل نظر انداز کرکے اور اس سے غافل ہو کراگرخواہشات کوعقل پر ترجیح دے گاتو اسی کے مطابق پستیوں میں چلاجائے گا۔

لیکن حیوانات کی زندگی کا معاملہ انسان کے بالکل بر خلاف ہے کیونکہ ان کے یہاں کہیں سے کہیں تک عقل کا گذر نہیں ہے اوروہاںسوفیصد خواہشات کی حکومت ہوتی ہے گویا وہ صرف ایک سبب کے تابع ہوتے ہیںاوران کی زندگی صرف اسی ایک سبب کے تحت گذرتی ہے۔مولائے کائنات کا ارشاد ہے:

(إن ﷲ رکّب فی الملائکة عقلا ًبلا شهوة،ورکّب فی البهائم شهوةبلاعقل،ورکّب فی بنی آدم کلیهمافمن غلب عقله شهوته فهوخیرمن الملائکة،ومن غلبت شهوته عقله،فهوشرمن البهائم )( ۱ )

''خداوند عالم نے ملائکہ کو صرف عقل دی ہے مگرخواہشات نہیں دیںاورحیوانات

____________________

(۱)وسائل الشیعہ،کتاب الجھاد:جہاد النفس باب ۹ح۲۔

۲۲

کو خواہشات دی ہیں مگر عقل سے نہیں نوازا ،مگر اولاد آدم میں یہ دونوںچیزیں ایک ساتھ رکھی ہیں لہٰذا جسکی عقل اس کی خواہشوں پر غالب آجائے وہ ملائکہ سے بہتر ہے اور جس کی خواہشیں اسکی عقل پر غلبہ حاصل کرلیں وہ حیوانات سے بدتر ہے ''

خواہشات کی شدت اورکمزوری

اسلامی تہذیب کاایک اہم مسئلہ خواہشات کی شدت اورکمزوری کا بھی ہے۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی خواہش نہایت مختصر اور کم ہواور ممکن ہے کہ بعض خواہشات بھڑک کرشدت اختیار کرلیں ۔ چنانچہ اگر یہ مختصر ہوگی تو اس پر عقل حاکم ہوگی اور آدمی ،انسان کامل بن جائے گا اوراگر یہی خواہشات شدت اختیار کرلیں تو پھر ان کا تسلط قائم ہوجاتا ہے اور انسان،حیوانیت کی اس پستی میں پہنچ جاتا ہے جہاں صرف اور صرف خواہشات کا راج ہوتاہے اور عقل وشعور نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔

انسان چاہے اس حالت کے ماتحت ہو یا اس حالت کے ماتحت ہو ہرصورت میں خواہشات کی کمی یا زیادتی کا دارومدار خود انسان کے اوپر ہی ہوتا ہے کہ جب وہ خواہشات کا تابع ہوتاہے اور ان کے تمام مطالبات کو پورا کرتاہے تو خواہشات اور بھڑک اٹھتی ہیں اور انسان کو مکمل طور پر اپنا اسیر بنالیتی ہیںاور انسانی زندگی میں ایک مضبوط قوت کے روپ میں ابھرتی ہیں اور انسان کی زندگی میں ان کاکردار بہت اہم ہوتا ہے۔

اوراسی کے برعکس جب انسان اپنی خواہشات پرپابندی لگاتارہے اوران کوہمیشہ حداعتدال میں رکھے اور خواہشات پرانسان کا غلبہ ہواور وہ عقل کے ماتحت ہوں تو پھر اسکی خواہشات ضعیف ہوجاتی ہیں اور انکا زور گھٹ جاتاہے ۔

ایک متقی کے اندر بھی وہی خواہشات ہوتے ہیں جو دوسروں کے اندر پائے جاتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ متقی افراد خواہشات کو اپنی عقل و فہم کے ذریعہ اپنے قابو میں رکھتے ہیں جبکہ بے عمل افرادپر ان کے خواہشات حاکم ہوتے ہیں اورخواہشات ان کو قابو میںکرلیتے ہیں۔ اس دور اہے پر انسان کوکوئی ایک راستہ منتخب کرناہے وہ جسے چاہے اختیار کرے۔ خواہشات کو کچل کر ان کا مالک ومختا ر بن جائے یا انکی پیروی کرکے ان کاغلام ہوجائے۔

۲۳

آئندہ صفحات میں ہم خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے ذکر کریںگے لیکن فی الحال آیات وروایات کی روشنی میں ان باتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جن سے خواہشات کی کمزوری یاشدت اور ان صفات کے اسباب کا علم حاصل ہوتاہے۔

سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات ملاحظہ فرمائیں۔ﷲتعالیٰ ارشادفرماتاہے:

( ولکن ﷲ حبَّب لیکم الایمان وزیَّنه فی قلوبکم وکَرَّه إلیکم الکفروالفسوق والعصیان ) ( ۱ )

''لیکن خدا نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

فسوق (برائی) کی یہ نفرت خداوند عالم نے مومنین کے دلوں میں پیداکی اور اہل تقویٰ اس سے ہمیشہ متنفر رہتے ہیںمگرفاسقین اس پرلڑنے مرنے کو تیار رہتے ہیں اسکے واسطے جان توڑ کوشش کرتے ہیں اور اس کی راہ میں بیش قیمت اشیاء کو قربان کردیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کس ذات نے اس برائی کو مومنین کی نظروں میں قابل نفرت بنادیا؟ کون ہے جس نے فاسقوں کی نگاہ میں اسے محبوب بنادیا؟یقینا خدا وند عالم ہی نے مومنین کو اس سے متنفر کیا ہے۔کیونکہ مومن کا دل خداکے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے لیکن برائیوں کو فاسقوں کیلئے پسندیدہ بنانے والی چیز خود ان برائیوں اور خواہشات کی تکمیل نیزان کوہرقیمت پر انجام دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسکی بناپر وہ ان کی

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۴