• ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13038 / ڈاؤنلوڈ: 2525
سائز سائز سائز
استشراق اور مستشرقین

استشراق اور مستشرقین

مؤلف:
اردو

مستشرقین کے مقاصد و اہداف

۱ ۔ دینی اہداف

یہودی اور عیسائی جو کہ خود کو اللہ کی پسندیدہ قوم قرار دیتے تھے اور آنے والے نبی کے منتظر اور اس کے ساتھ مل کر ساری دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔لیکن جب اللہ نے ان کی نافرمانیوں اور بدکاریوں کے باعث فضیلت کے منصب سے محروم کر کے نبوت و رسالت کی ذمہ داری بنو اسماعیل کے ایک فرد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ڈال دی تو وہ حسد اور جلن کے باعث ہوش و حواس کھو بیٹھے اور باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نبی کی حیثیت سے پہچان لینے کے ، آپ کی نبوت کا انکار کر دیا۔ اسلام چونکہ انتہائی سرعت سے عرب کے علاقے سے نکل کر دنیا کے ایک بڑ ے حصے پر چھا گیا تھا ، اس لیے یہود و نصاریٰ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسلام اسی رفتار سے پھیلتا گیا تو ایک دن ان کا دین بالکل ہی نہ ختم ہو جائے۔چنانچہ انھوں نے سوچا کہ ایک طرف اسلامی تعلیمات پر شکوک و شبہات کے پردے ڈالے جائیں اور اسے ناقص، ناکام، اور غیر الہامی فلسفہ قرار دیا جائے۔دوسری طرف یہودیوں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے سے روکا جائے اور تمام دنیا میں اپنے مذہب کا پرچار کیا جائے۔اس کا م کے لیے انھوں نے پادریوں کی تربیت کی اور مسلم ممالک سے اسلامی علوم کی کتب جمع کر کے ان میں سے ایسی کمزوریاں تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔انھوں نے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات، ازواج، قرآن مجید، احکام، احادیث، سیرت صحابہ ہر چیز کو ہدف بنایا اور ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی۔مسلمانوں میں اتحاد اور اخوت کو ختم کر کے ان میں مختلف نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات کو ابھارنے کی کوشش کی۔

۲ ۔ علمی اہداف

اگرچہ مستشرقین میں کچھ منصف مزاج لوگ بھی موجود ہیں جو کبھی کبھار کوئی صحیح بات بھی منہ سے نکال لیتے ہیں ، لیکن چونکہ ان کی تربیت میں یہ بات داخل ہو چکی ہے کہ عیسائیت ہی صحیح دین ہے ، اس لیے وہ اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ اپنے انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔صدیوں پر محیط اسلام دشمن پروپیگنڈا کی وجہ سے مغربی عوام کے اذہان اسلام کے بارے میں کوئی صحیح بات آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ ان کے علماء و فٖضلاء نے علمی تحریکوں اور تحقیق و جستجو کے نام پر صرف اسلام مخالف مواد ہیں جمع کیا ہے۔ یہودی اور عیسائی جو ہمیشہ ایک دوسرے کے دشمن رہے ہیں اور عیسائی یہود کو حضرت عیسیٰ کے قاتل کی حیثیت سے دیکھتے تھے ، لیکن مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صدیو ں کی رقابت کو بھول کر باہم شیر و شکر ہو گئے۔یہ لوگ ہر وہ کام کرنے پر متفق ہو چکے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔مختلف ادارے اور انجمنیں بنا کر مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ، سائنسی بنیادوں پر کا م کر رہے ہیں۔اسلام چھوڑ نے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا تا ہے ، مسلمان عورتوں میں آزادی اور بے پردگی کو فروغ دیا جاتا ہے۔غریب ممالک میں عیسائی تنظیمیں فلاحی کام کی آڑ میں عیسائیت کا پرچار کر رہی ہیں۔مسلمان ممالک کے پالیسی ساز اداروں پر اثر انداز ہو کر تعلیمی نصاب اور طریق تعلیم کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔

۳ ۔اقتصادی و معاشی اہداف

استشراق کی اس تحریک کا آغاز اگرچہ اسلام کے بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے ہوا تھا، لیکن بعد میں اس کے مقاصد میں اضافہ ہوتا گیا۔اہل مغرب نے مسلم ممالک کی تکنیکی مہارت حاصل کرنے کے لیے اور اپنے معاشی مفادات ، اور تجارتی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے بھی عربی زبان اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کیا۔مسلم ممالک میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھایا اور مقامی طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ان ممالک کے وسائل مکمل طور پر نہ سہی ، کسی حد تک اہل مغرب کے ہاتھوں میں چلے جائیں۔مشرق کو اہل مغرب سونے کی چڑ یا قرار دیتے تھے۔مغرب جب صنعتی دور میں داخل ہوا تو اس کی نظر مشرق میں موجود خام مال کے ذخیروں پر تھی۔اسی لیے تمام ممالک نے مختلف مشرقی ممالک میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے اور ان کو اپنی کالونیاں بنانے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں ہر قسم کے غیر اخلاقی حربے استعمال کیے گئے اور آزادی ، انصاف اور رحم و مروت کے تمام اصولوں کو فراموش کر دیا گیا۔ایک انگریز ادیب ’’سڈنی لو‘‘ نے مغربی اقوام کے بارے میں اپنے ہم قوموں کا رویے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے :

’’مغرب کی عیسائی حکومتیں کئی سالوں سے امم شرقیہ کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہیں اس سلوک کی وجہ سے یہ حکومتیں چوروں کے اس گروہ کے ساتھ کتنی مشابہت رکھتی ہیں جو پرسکون آبادیوں میں داخل ہوتے ہیں ، ان آبادیوں کے کمزور مکینوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ یہ حکومتیں ان قوموں کے حقوق پامال کر رہی ہیں جو آگے بڑھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اس ظلم کی وجہ کیا ہے جو ان کمزوروں کے خلاف روا رکھا جا رہا ہے۔کتوں جیسے اس لالچ کا جواز کیا ہے کہ ان قوموں کے پاس جو کچھ ہے وہ ان سے چھیننے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔یہ عیسائی قوتیں اپنے اس عمل سے اس دعویٰ کی تائید کر رہی ہیں کہ طاقت ور کو حق پہنچتا ہے کہ وہ کمزوروں کے حقوق غصب کرے۔‘‘

۴ ۔ سیاسی و استعماری اہداف

اتفاق سے جب یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور مسلمانوں کی اپنی اندرونی کمزوریوں کے نتیجے میں مسلمان زوال کا شکار ہوئے تو اسی اثنا میں مغرب میں علمی و سائنسی ترقی کا آغاز ہو رہا تھا۔کچھ اسلام دشمن مفکرین اور مصنفین کی وجہ سے اور کچھ صلیبی جنگوں کے اثرات کے تحت اہل مغرب مسلمانوں کو اپنا سب سے بدترین دشمن گردانتے تھے۔ ان کی ساری جدوجہد اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے ، نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرامؓ کی شخصیات کو ان کے مرتبے سے گرانے اور قرآن و حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں صرف ہو رہی تھی۔ مثال کے طور پر فلپ کے ہٹی( ۱۹۷۸۱۸۸۶)( Philip Khuri Hitti ) اپنے ہم مذہب لوگوں کے رویوں پر اس طرح سے تبصرہ کرتا ہے :

’’ قرون وسطیٰ کے عیسائیوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو غلط سمجھ اور انھیں ایک حقیر کردار خیال کیا۔ ان کے اس رویّے کے اسباب نظریاتی سے زیادہ معاشی اور سیاسی تھے۔نویں صدی عیسوی کے ایک وقائع نگار نے ایک جھوٹے نبی اور مکار کی حیثیت سے آپ کی جو تصویر کشی کی تھی بعد میں اسے جنس پرستی، آوارگی اور قزاقی کے شوخ رنگوں سے مزین کیا گیا۔پادریوں کے حلقوں میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن مسیح کے نام سے مشہور ہوئے۔‘‘

اسلام سے اس دشمنی اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے خوف نے یہود و نصاریٰ کو ایک ایسے نہ ختم ہونے والے خبط میں مبتلا کر دیا جو اسلام کے خاتمے کے بغیر ختم ہونے والا نہیں تھا۔انھوں نے ایک طرف تو مسلمانوں کو دینی اور اخلاقی لحاظ سے پست کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف ایسا منصوبہ بنایا کہ مسلمان دوبارہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑ ے نہ ہو سکیں۔اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر ان لوگوں کو علم ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو جنگ و جدل کے ذریعے سے ختم کرنا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ اس لیے انھوں نے اندھا دھند جنگی اقدام کے بجائے ، متبادل طریقوں سے مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔طویل منصوبہ بندی کے ذریعے مسلمانوں کی قوت اور طاقت کی بنیادوں کو جان کر ان کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔علماء و محققین کے پردے میں مسلم ممالک میں اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو بھیج کر مسلمانوں کی دینی حمیت، اتحاد و اخوت، جہاد، پردہ وغیرہ جیسی امتیازی اقدار کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف علاقائی ، نسلی اور مسلکی تعصبات کو ہو ا دینے کی کوشش کی۔پہلے مرحلے میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے بعد ، اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ کر کے کمزور ممالک کو اپنی طفیلی ریاستوں کی صورت دے دی۔اس طرح ایک طرف تو مسلمان ہر لحاظ سے کمزور ہو گئے اور دوسری طرف ان کے تمام وسائل پر یہود و نصاریٰ کا قبضہ ہو گیا۔جرمن مفکر پاؤل شمٹ( Paul Schmidt ) نے اپنی کتاب میں تین چیزوں کو مسلمانوں کی شان و شوکت کا سبب قرار دیتے ہوئے ، ان پر قابو پانے اور ختم کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے :

’’ ۱ ۔ دین اسلام، اس کے عقائد، اس کا نظام اخلاق اور مختلف نسلوں ، رنگوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں رشتہ اخوت استوار کرنے کی صلاحیت۔

۲ ۔ ممالک اسلامیہ کے طبعی وسائل۔

۳ ۔مسلمانوں کی روز افزوں عددی قوت۔‘‘

چنانچہ ، مسلمانوں کی قوت و طاقت کی اصل بنیادوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :

’’ اگر یہ تینوں قوتیں جمع ہو گئیں ، مسلمان عقیدے کی بنا پر بھائی بھائی بن گئے اور انھوں نے اپنے طبعی وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنا شروع کر دیا، تو اسلام ایک ایسی مہیب قوت بن کر ابھرے گا جس سے یورپ کی تباہی اور تمام دنیا کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘

مستشرقین کی اقسام

مستشرقین صدیوں سے اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں اپنی تحقیقات میں مصروف ہیں۔ان کی تعداد بلا مبالغہ سینکڑ وں میں ہے۔ ان کا تعلق کسی ایک ملک یا علاقے سے نہیں ہے ، بلکہ یہ دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں مصروف عمل ہیں۔آپس میں کسی رابطے اور تعلق کے بغیر اپنے بنیادی مقصد میں سب یکساں ہیں جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلانا ہے۔ لیکن ، جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح ان مستشرقین کو ایک ہی درجے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ان میں کچھ بہت زیادہ متعصب اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف اسلام کو بدنام کرنا ہوتا ہے ، اور کچھ تھوڑ ے بہت انصاف پسند بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو درج ذیل زمرہ جات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱ ۔علم و تحقیق کے شائق محققین

دنیا کے تمام حصوں میں ایسے بہت سے محققین اور علماء موجو د ہیں جو علم و تحقیق کے شیدائی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد صرف تحقیق و تفتیش اور کھوج و جستجو ہے۔ علم ایک ایسی روشنی ہے جو انسان کے قلب و نظر کو وسعت دیتی اور حقائق سے آگاہ کر کے اس کے اندر کی دنیا کو تبدیل کر دیتی ہے۔اس لیے بہت سے ایسے لوگ دنیا میں ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں جن کا مقصد صرف علم اور تحقیق کی حوصلہ افزائی ہے۔ ایسے لوگ مشرق میں بھی پائے جاتے ہیں اور مغرب میں بھی، اسی طرح شمال و جنوب بھی ان کی موجودگی سے خالی نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے علم اور اپنی تحقیق کو بلا خوف و خطر جوں کا توں بیان کر دیتے ہیں۔ان کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی تحقیق سے کسی کو نقصان پہنچ رہا ہے یا فائدہ، وہ سچ کو بیان کر دیتے ہیں۔ان لوگوں نے اسلامی مشرق سے علم و ادب کا ذخیرہ ترجمہ کر کے مغرب میں پہنچایا جس میں تحقیق اور اضافے کے نتیجے میں آج مغرب دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ انھوں نے مشرق کے چپے چپے کو چھان مارا اور جہاں سے کچھ ملا اس کو حاصل کیا اور اپنی شب و روز محنت سے سنوار کر علم و فن کے شیدائیوں کے حوالے کر دیا۔اسلامی دنیا کا بہت سا علمی ذخیرہ جو صرف مسلمانوں کی ضرورت تھا، اسے بھی انھی لوگوں نے تلاش کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔لیکن ہمیں اس بات سے حیرت ہوتی ہے کہ بالعموم ان مستشرقین کا رویہ بھی انھی چیزوں کے بارے میں غیر جانب دارانہ ہوتا ہے جو اسلامی عقائد سے ہٹ کر ہوں ، جب معاملہ اسلامی عقائد و نظریات کا آتا ہے تو یہ لوگ بھی بعض اوقات اپنے متعصب محققین کی تحریروں سے استفادہ کرنے لگتے ہیں اور حقیقت کی تلاش میں زیادہ جستجو نہیں کرتے۔ اس لیے ہمیں ان کی تصانیف کے مواد پر بھی من و عن یقین نہیں کر لینا چاہیے۔تحقیق و تفتیش ، دراصل مسلمانوں ہی کا ورثہ ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اہم اصول دیا ہے کہ کوئی بات بغیر تحقیق کے نہ مانی جائے ، چاہے اس کا بیان کرنے والا کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :

یَٰایُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْاِنْ جَاءَ کُمْ فَاسِکُمْ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِبُوْا قَوْماً بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ ۔(الحجرات ۴۹:۶)

’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو تم اس کی اچھی طرح سے تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے اس عمل پر نادم ہو۔‘‘

۲ ۔ اسلام دشمن متعصب مستشرقین

مستشرقین کا یہ طبقہ ان متعصب یہودی اور عیسائی محققین پر مشتمل ہے ، جن کا بنیادی مقصد صرف اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان میں سے کچھ خود مغربی مفکرین کے لٹریچر کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے باعث اسلام کے خلاف کمر بستہ ہوتے ہیں اور کچھ کو یہود و نصاریٰ خصوصی طور پر مسلمانوں کے مقابلے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگی مسلمانوں کے خلاف اور اپنے عقائد و نظریات کے فروغ کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ان لوگوں نے مشرق سے جو بھی مفید چیزیں اخذ کی ہیں ، علمی دیانت کے برخلاف ان کے ماخذ و مصادر کو پوشیدہ رکھ کے اسے مغرب سے منسوب کیا ہے۔اسی طرح اسلام کے خلاف اس طرح کی باتیں پھیلا ئی ہیں کہ عام سطحی ذہانت کا آدمی بھی معمولی کوشش سے ان میں سے مستشرقین کی بددیانتی کو ظاہر کر سکتا ہے۔چونکہ ان لوگوں نے اپنی تحریروں سے ا سلام کو اس حد تک بدنام کر رکھا تھا کہ ان کے عوام نے ساری ہفوات کو من و عن قبول کر لیا۔اہل مغرب نے عرب مسلمانوں سے جو کچھ حاصل کیا اسے اپنے نام سے پیش کرتے رہے۔مسلمان سائنس دانوں کے ناموں کو بگاڑ کر ان کے مغربی ہونے کا تاثر دیا گیا۔ آج مغرب میں کوئی نہیں جانتا کہ جن اہل علم کی تحقیقات سے مغرب صدیوں تک استفادہ کرتا رہا ، وہ یا تو خود مسلمان تھے یا ان کو مسلمانوں سے اخذ کیا گیا تھا۔کرسٹوفر کولمبس ( ۱۴۵۱ ء۔ ۱۵۰۶ ء) نے ۱۴۹۲ ء میں امریکہ دریافت کیا، جہاں لوگ اس وقت تہذیب و تمدن اور علم و فن کے نام ہی سے واقف نہ تھے۔اور اتفاق سے اسی سال سپین کی اسلامی سلطنت اپنے عروج کی انتہا کو دیکھ کر، مسیحی صلیبیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی تھی۔ جب ۲ جنوری ۱۴۹۲ ء کو سلطان ابو عبد اللہ محمد دوازدہم نے غرناطہ کا قبضہ شاہ فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا کے حوالے کیا۔( ۱۲ اکتوبر ۱۴۹۲ ء کو کولمبس کے امریکہ میں داخلے کے دن کے طور پر سپین اور امریکہ میں ’’کولمبس ڈے ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔)

مسلمانوں کے سینکڑ وں سالہ عروج اور مسیحی و یہودی لوگوں کی مسلمانوں کے خلاف تعصب اور دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں نے جو کچھ مسلمانوں سے لیا اسے مسلمانوں کا ذکر کیے بغیر اپنے معاشروں میں پھیلا دیا۔مسلمانوں کی ایجادات و اختراعات کو مغربی لوگوں سے منسوب کر دیا۔ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں :

’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان بارود ، قطب نما، الکحل، عینک اور دیگر بیسیوں اشیا ء کے موجد تھے ، لیکن بقول رابرٹ بریفالٹ مورخین یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد اور انکشاف کا سہرا اس یورپی کے سر باندھ دیا ہے جس نے پہلے پہل اس کا ذکر کیا تھا۔ مثلاً قطب نما کی ایجاد ایک فرضی شخص فلویوگوجہ کی طرف منسوب کر دی۔’ولے ناف کے آرنلڈ، کو الکحل اور بیکن کو بارود کا موجد بنا دیا۔اور یہ بیانات وہ خوف ناک جھوٹ ہیں جو یورپی تہذیب کے ماخذ کے متعلق بولے گئے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ بعض اوقات عربوں کی تصانیف پر اپنا نام بطور مصنف جڑ دیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لفظ جیبر( Geber )کے تحت ایک مترجم کا نام دیا ہوا ہے ، جس نے اسلام کے مشہور ماہر کیمیا دان جابر بن حیان کے ایک لاطینی ترجمے کو اپنی تصنیف بنا لیا تھا۔یہی حرکت سلرنو کالج کے پرنسپل قسطنطین افریقی ( ۱۰۶۰ ء) نے بھی کی تھی کہ ابن الجزار کی ’’زادالمسافر‘‘ کا لاطینی ترجمہ’ Viaticum ‘کے عنوان سے کیا اور اس پر اپنا نام بطور مصنف لکھ دیا۔‘ ‘

۳ ۔مادی مفادات کے شائق پیشہ ور محققین

مستشرقین کی ایک قسم ایسی بھی ہے جن کے پیش نظر کوئی اعلیٰ ترین قومی یا علمی مقاصد نہیں ہوتے بلکہ وہ مادی مفادات، عہدوں ، سستی شہرت اور دنیاوی مال و دولت کے لالچ میں اس میدان میں قدم رکھتے ہیں۔چونکہ اہل مغرب مسلمانوں کے خلاف کی گئی کسی بھی تحقیق کو ، چاہے وہ کتنی ہی غیر معیاری ، بے بنیاد اور علمی و عقلی لحاظ سے پست ہی کیوں نہ ہو، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔اس وجہ سے اکثر لوگ ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ اہل مغرب سے مفادات سمیٹ سکیں۔اس طرح کے لوگوں میں ہندوستان کے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں پاکستان میں بھی ہوا جس میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے کچھ افراد بلوچستان کے علاقے میں طالبان کے بارے میں جعلی فلم تیار کرتے ہوئے گرفتار کیے گئے تھے۔اس قسم کے افراد کی تحقیقات زیادہ تر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں۔

۴ ۔ ملحد مستشرقین

یورپ میں جس وقت علوم و معارف نے معاشرے میں جگہ بنائی اور سائنسی و تحقیقی دور شروع ہوا تو لوگوں نے ہر چیز کو دلیل اور عقل کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا۔یہودیت اور عیسائیت کی تعلیمات چونکہ تحریف کا شکار ہو چکی تھیں اس لیے وہ عقل اور دلیل کے معیار پر پوری نہ اتر سکیں۔ ہم بلا خوف تردید یہ بات کہ سکتے ہیں کہ انسانی کاوش چاہے کتنی ہی محنت اور دقت نظر سے کی جائے وہ مکمل طور پر غلطی سے مبر ا نہیں ہو سکتی۔صرف اور صرف خدائی احکام کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی قسم کی غلطی اور سے پاک ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے انسانی تحریف کی شکار یہودیت اور عیسائیت اس ذہنی ارتقاء اور علمی انقلاب کا ساتھ نہ دے سکیں۔چونکہ اس دور میں اہل مذہب کو معاشرے میں قوت اور اقتدار حاصل تھا ، لہذا انھوں نے بزور قوت نئے خیالات اور نظریات کو کچلنا اور ختم کرنا چاہا۔اس کے نتیجے میں اہل علم و تحقیق اور اہل مذہب کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔اہل کلیسا کے نزدیک ہر وہ شخص جو نئے نظریات پیش کرتا، علمی کتابیں لکھتا یا کلیسائی خیالات کے خلاف کوئی بھی بات پیش کرتا اسے کافر قرار دے کر خوف ناک سزائیں دی جاتیں۔پاپائے روم کے حکم سے ہزاروں کتابوں اور لوگوں کو جلا دیا گیا۔لاکھوں لوگوں کو قید و بند کی سزائیں دی گئیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر عام آدمی مذہب سے بیزار ہو گیا اور یورپ میں الحاد اور بے دینی کی تحریک شروع ہو گئی۔ان لوگوں نے اپنے اہل مذہب سے بدلہ لینے اور ان کو بدنام کرنے کے لیے ، اسلام اور دوسرے مذاہب کا سہارا لیا۔جہاں وہ اپنے لوگوں کے رویوں اور عقائد پر تنقید کرتے وہاں ان کے شر سے بچنے کے لیے اور ان کی خوش نودی کے لیے اسلام کو بھی ہدف تنقید بنا لیتے۔ اس طرح سے ان لوگوں کو اہل مذہب کی سرپرستی بھی حاصل ہو جاتی اور وہ اپنا کام بھی کرتے رہتے۔