انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 20%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95690 / ڈاؤنلوڈ: 2870
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

بنا ہے مشق ستم فلسطیں مجاہدوں پر ہے وجد طاری

زباں پہ ہے لا الہٰ ان کی، یہی ہے انکا کمال یا رب

*

زمیں فلسطیں کی منتظر ہے، کہ کوئی ایوبؔ پھر سے آئے

ہے ارضِ اقصیٰ کا تیرے در پر، دراز دست سوال یا رب

*

اے رب کعبہ تو مقتدر ہے، تو خالق کل جہاں ہے مولیٰ

عطا ہو صبر و عمل کی قوت، کہ ہو گئے ہیں نڈھال یا رب

*

ہے شش جہت میں تری ہی خاطر، صدائے لبیک سب کے لب پر

دعا ہے شام و سحر کہ رکھیو، ہماری عزت بحال یا رب

*

دعا ہے منظورؔ ناتواں کی، جہاں میں امن و اماں ہو مولیٰ

ستم گروں سے ملے رہائی، دکھا دے اپنا جلال یا رب

***

۱۰۱

حمد باری تعالیٰ جل شانہٗ

بختیار مشرقی (اورئی)

تو مرا خدائے برحق

تو مکمل اور مطلق

تو قدیم اور محقق

*

میں زمیں نہ آسماں کا

تو ہے ثابت اور قائم

میں ہواؤں میں معلق

*

میں تمام تر معاصی

تری حمد کیا کروں میں

ترے وصف بیکراں ہیں

*

ترے انگنت فرشتے

تری حمد کر رہے ہیں

جو محیط آسماں ہیں

*

یہ کروڑہا پرندے

یہ وحوش یہ درندے

یہ ملخ یہ مور سارے

*

۱۰۲

وہ ہوں پتھروں کے کیڑے

کہ ہوں کرم قعر دریا

کہ زمیں کے چور سارے

*

تری حمد میں لگے ہیں

ترے گیت گا رہے ہیں

یہ تمام مرغ و ماہی

*

یہ شجر حجر یہاں کے

مہہ و مہر آسماں کے

گل و نجم صبح گاہی

*

مرا عجز کہہ رہا ہے

وہ خدا ہے جانتا ہے

کہ تری بساط کتنی!

*

تو بس ایک کام کر لے

کوئی نعت لکھ نبیؐ کی

مری بات مان اتنی!

*

کوئی نعت مصطفیٰؐ لکھ

یہ پسند کبریا ہے

یہی نسخہ کیمیا ہے

*

۱۰۳

تو بس اے خدائے برتر

یہ گناہ گار بدتر

ترے سجدے میں پڑا ہے

*

تری حمد کے بھی قابل

نہیں جانتا جو خود کو

بھلا نعت کیا کہے گا

*

یہ تو پل صراط سے بھی

بڑا سخت مرحلہ ہے

مری لاج رکھ خدایا

*

ترا حکم مانتا ہوں

میں درود بھیجتا ہوں

ترے پیارے مصطفی پر

*

سبھی آل مصطفیؐ پر

تو قبول کر لے یا رب

یہ ادائے بندہ پرور

*

مری التجا ہے یا رب

*

۱۰۴

مجھے بخش دے حضوری

در کعبۂ یقیں کی

مجھے صدقہ دے نبیؐ کا

مری بے بضاعتی تو

نہیں رہ گئی کہیں کی!

میں بڑا خطا کنندہ

تو بڑا رحیم یا رب

*

میں پہ سڑرہا ہوں

مجھے بخش دے الہٰا

ترے ہاتھ جوڑتا ہوں

ترے پاؤں پڑ رہا ہوں

ترے ہاتھ جوڑتا ہوں

ترے پاؤں پڑ رہا ہوں

یہاں کب سے سڑرہا ہوں

***

۱۰۵

دوہا حمد

عاجز ہنگن گھاٹی (ہنگن گھاٹ)

عزت اس کے ہاتھ ہے ذلت اس کے ہاتھ

گمنامی بھی بخشے وہ شہرت اس کے ہاتھ

*

بالکل سچی بات ہے اپنی کیا اوقات

کٹھ پتلی کے جیسے ہم فطرت اس کے ہاتھ

*

ہست و بود کا راز کیا اپنی ہستی خاک

بے شک مرنے جینے کی حرکت اس کے ہاتھ

*

افراتفری سب کے گھر الجھن سب کے پاس

چاہت ہم کو چین کی راحت اس کے ہاتھ

*

تخلیق اس کا کل جہاں واحد اس کی ذات

لفظ کن کے راز کی حکمت اس کے ہاتھ

*

بے شک وہ مختار ہے سب کا پالن ہار

عاجزؔ تو بھی مانگ لے رحمت اس کے ہاتھ

***

۱۰۶

حمدیہ ماہیے

مدہوش بلگرامی (ہردوئی)

رحمان و رحیم اللہ

اس سے ہے سب ممکن

ستاروکریم اللہ

٭

خلاق تو ہی بے شک

سب کو کھلاتا ہے

رزاق تو ہی بے شک

٭

غفار خدا ہے بس

میں ہوں بت عاصی

مختار خدا ہے بس

٭

ہر شے پہ حکومت ہے

کون و مکاں کس کا

ہے جس کا وہ قدرت ہے

٭

۱۰۷

ہے ذات تری طاہر

عرش بریں والے

ہر چیز پہ تو قادر

٭

چڑیوں کو زباں دی ہے

کھلتی کلی کو بھی

تو نے ہی ادادی ہے

٭

ہے عرش بریں تیرا

فکر و بیاں، لہجہ

اے نور یقیں تیرا

٭

حمد و ثنا کرتے

بحر و جزیرے بھی

توصیف خدا کرتے

٭

معبود ہر اک شے کا

ارض وسما اس کے

مسجود ہر اک شئے کا

***

۱۰۸

راہی صدیقی (ہردوئی)

پھولوں میں رنگ الگ اور خوشبو جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

سب چرند اور پرند مختلف رنگ کے

آدمی ملتے ہیں سب الگ ڈھنگ کے

شکل و صورت الگ بولیاں ہیں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جس میں چاقو لگے نکلے گا، خوں لئے

پر اسی سینے سے دودھ بچہ پئے

خون سے دودھ کو ایسے رکھا جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جب سمندر سے جا کر کے دریا ملا

اپنی پہچان کو ملتے ہی کھو دیا

اپنا اپنا وجود گر رہیں وہ جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

۱۰۹

ریگزاروں میں پیدا کئے ہیں شجر

رزق کیڑوں کو پتھر میں دے پیٹ بھر

ظاہراً بھی الگ باطناً بھی جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

کیسے کیسے عجوبے دہر میں ہوئے

یوں ملے حیرتوں میں ہی ڈوبے ہوئے

سر جڑے دھڑ جڑے جسم و جاں ہیں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

دھوپ تھی دھوپ کی تھیں ابھی گرمیاں

دیکھتے دیکھتے چھا گئیں بدلیاں

برسا پانی ہوا بادلوں سے جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

آندھیاں اور طوفان اور زلزلہ

آتے ہی یاد آ جائے جو برملا

وہ ہوا میں گھلا وہ ہوا سے جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

روز ہوتے طلوع اور ہوتے غروب

چاند سورج کا ہے یہ تماشہ بھی خوب

فرق پڑتا نہیں ڈھنگ نہ ہوتا جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

۱۱۰

**

اک طرف تیرگی اک طرف روشنی

اس طرف ہے غمی اس طرف ہے خوشی

ایک ہی وقت پر حادثے ہوں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جگنو پیدا کئے رات کے واسطے

بند اک جو کیا کھولے کئی راستے

ہر بقا بھی الگ ہر فنا بھی جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

پیاس ہونٹوں پہ ہے دل میں ہے تشنگی

بکھری بکھری سی لگتی ہے یہ زندگی

موت کا رنگ الگ موت کا ڈھنگ جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

حکم سے جس کے ہوتی عطا زندگی

موت بھی راہیؔ جس کی ہی طابع رہی

اس کی رحمت الگ اس کی حکمت جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

***

۱۱۱

منصور اعجاز (آکولہ)

تو زمین آسمان کا رب ہے

تو ہی سارے جہان کا رب ہے

حکم چلتا ہے بحر و بر پہ ترا

رعب ہے خیر اور شر پہ ترا

چاند تاروں میں چاندنی تیری

ہے ہواؤں میں راگنی تیری

سبزہ و گل میں جان تیری ہے

چہچہوں میں زبان تیری ہے

سارے عالم پہ مہرباں تو ہے

حق پرستوں کا نگہباں تو ہے

تیرے محکوم ہیں یہ جن و ملک

تیرے تابع بشر ہیں عرض و فلک

تیری حمد و ثنا ہو کس سے بیاں

تو نہاں ہو کے بھی ہے سب پہ عیاں

سب فنا ہے بقا ہے تیرے لئے

ساری حمد و ثنا ہے تیرے لئے

***

۱۱۲

تخلیق کائنات

منصور اعجاز (آکولہ)

اگر تو یہ زمین نہیں بناتا

ہم خلاؤں میں تیرتے رہتے

*

تو نے زمیں کی کوکھ میں

آبی ذخیرے نہ سموئے ہوتے

ہم فضاؤں میں نمی چوستے ہوتے

تو نے خورشید کو تپش دے کر

چمکایا نہ ہوتا

فصلیں اگتی اور پکتی کیسے ؟

*

ہماری دنیا اندھی

اندھیاری ہو جاتی

رب اللعالمین!

تو نے زمین و آسمان کی

بے پناہ دولت اور خلافت

ہمیں عطا کر دی (کتنا سخت امتحان ہے )

۱۱۳

قیامت قریب ہے اور ہم

بے چین و پریشان

بے حس و حرکت

یا غفور الرحیم!

ہمیں ایمان کی حرارت سے پگھلا دے

کل کائنات پر پھیلا دے

ہم پر امید ہیں

تجھے بھی یہی مقصود ہے نا۔ ؟

***

۱۱۴

حمد

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ)

اے دنیا کے سرجن ہارے

اعلیٰ تو ہے

برتر تو ہے

ذات کو تیری نہیں زوال

قائم تیرا جاہ و جلال

توہے عین عز و کمال

مالک۔۔۔ روز حشر کا تو ہے

خالق۔۔۔ توہے رات کا دن کا

تو ہی۔۔۔ عبادت کے لائق ہے

تیرے لئے سب حمد و ثنا ہیں

تیرے غضب سے سب ہیں لرزاں

عالم کن کا رب جلیل

تو ہی رحیم

تو ہی کریم

پاشاؔ۔۔۔ تیرے در پہ کھڑا ہے

لب پہ دعا ہے

ہاتھ اٹھا ہے

۱۱۵

سچا نیک انسان بنا دے

سیدھا رستہ ہم کو دکھا دے

مجبوروں کے کام میں آؤں

دکھیاروں کا درد بٹاؤں

***

۱۱۶

اللہ تعالیٰ

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ)

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

شجر یہ ڈاب کے کس نے اگائے ہیں

کہ ڈابوں میں کہاں سے آتا ہے پانی یہ میٹھا سا

نظر جائے جہاں تک دور اس نیلے گگن پر

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

کہ ننھے منے چمکیلے سے تاروں کو

انھیں آکاش پہ کس نے سجایا ہے

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

بنایا ہے یہ کس نے چندا ماما کو

جو شب بھرآسماں پر وہ چمکتا ہے

جو چلتا ہوں تو میرے ساتھ چلتا ہے

یہ اکثر سوچاکرتا ہوں

مجھے پیداکیاکس نے۔۔۔ ؟

مری امی یہ کہتی ہیں

کہ اک خالق ہے ان ساری ہی چیزوں کا

وہی برتر و بالا ہے

وہی اللہ تعالیٰ ہے

***

۱۱۷

تحفہ حمد بحضور خالق کائنات

خان حسنین عاقبؔ (پوسد)

مرا تصور بھٹک رہا ہے

مرا تخیل جھجک رہا ہے

*

مجھے خبر ہے نہیں یہ ممکن

کہ تیری تعریف کر سکوں میں

تری خدائی کی حد کو پاؤں

محال ہے اس پہ غور کرنا

مگر میں ٹوٹے ہوئے سے الفاظ کو

عقیدت کی چاشنی میں ڈبو رہا ہوں

اور اپنے جذبات کے سمندر کو

حرف و معنیٰ کے بس ایک کوزے

میں ڈرتے ڈرتے سمورہا ہوں

*

ہے میٹھے خوش رنگ پانیوں پر

ہے کھارے سمندروں پر

*

تری ہی قدرت و حکمرانی

*

۱۱۸

تو کن سے دنیا بنانے والا

تو پربتوں کو جمانے والا

کو کشتیوں کو چلانے والا

قیامتوں کو جگانے والا

مصیبتوں کو سلانے والا

تو ساحلوں پر ڈبونے والا

تو بیچ دریا بچانے والا

*

علیم تو ہے بصیر تو ہے

تجھے پتا ہے وہ بات بھی جو

ہر اک نظر سے چھپی ہوئی ہے

تری ہی قدرت میں ہے وہ آتش

جو راکھ ہی میں دبی ہوئی ہے

حسین شکلوں کو کس کا آخر جمال سمجھوں ؟

*

قلم سے اپنے نکلتی کرنوں

کو تیری مدحت کا نور سمجھوں !

کہ کوئی مجھ سے غریب شاعر

کا ہچکچاتا خیال سمجھوں ؟

*

۱۱۹

ہے رہبری بھی خضرؑ کی تجھ سے

عصائے موسیٰؑ تری عطا ہے

بلندیوں کو ہے سرفرازی کا شرف حاصل

تو سونی سونی ہے پستیوں کی ہر ایک محفل

مرے عمل کا ہر ایک دفتر

ہے چیدہ چیدہ

مگر بڑائی ہے کس کو زیبا؟

*

تری عطا کو!

کہ پھر خطاؤں کو عاصیوں کی؟

مجھے پتا ہے !

مری ندامت کو ڈھونڈتی ہیں

شفیق بانہیں ترے کرم میں

تو کشتیِ نوحؑ کو کھویّا

حرم سے لے کر مرے مکاں تک

تری عطا کے سمندروں پر

*

مری دعا کو

بس اتنا سا اختیار دے دے

حیات میری خزاں رسیدہ

تو اس کو حکم بہار دے دے

***

۱۲۰

ارشاد خان ارشاد (ممبرا۔ ممبئی)

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

سب خامیوں سے پاک منزہ ہے تیری ذات

*

زیبا فقط تجھی کو حمد و ثنا ہے یا رب

فخر و غرور، نخوت تیرا بجا ہے یا رب

*

برتر عظیم تر ہے اعلیٰ تیری صفات

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

*

خاکی میں جان ڈالی اس کو شعور بخشا

منھ میں زبان رکھی آنکھوں کو نور بخشا

*

رب کریم تو نے بخشی ہمیں حیات

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

*

تارے شجر حجر سب رطب اللسان تیرے

طبقات ارض تیرے یہ آسمان تیرے

*

تیرا نہیں ہے ہمسر یکتا ہے تیری ذات

تو خالق جہاں تو ہی رب کائنات

***

۱۲۱

الیاس احمد انصاری شادابؔ (آکولہ)

دل سکوں پا گیا، راحتیں مل گئیں

آفتیں ذکر سے ٹل گئیں، ٹل گئیں

*

اس زمیں پر فلک پر تری حمد ہے

خانقاہوں میں اک عالم وجد ہے

*

خشک دھرتی ہو، جل تھل تری ذات ہے

حکم سے تیرے برسی یہ برسات ہے

*

را ہوں میں زندگی کی بغاوت رہی

بندگی تیری مثل علامت رہی

*

رحمتوں سے تیری، پاپ دھل جائیں گے

پھوٹی قسمت کے سب پھول کھل جائیں گے

*

رحمتیں ہیں تری عام انسان پر

برق کیسے گرے پھر مسلمان پر

*

نام کا بحر میں بھی ترے ورد ہے

تو ہی تو میری شہہ رگ سے بھی نزد ہے

*

پاؤں کی اس رگڑسے بہا آب ہے

تو جو چاہے تو بنجر بھی شادابؔ ہے

***

۱۲۲

عرفان پربھنوی

ائے دو جہاں کے مالک تو ہی ہے رب ہمارا

تیرے سوا نہیں ہے اور کوئی رب ہمارا

*

تیری ہی میرے مولا کرتے ہیں ہم عبادت

تجھ ہی سے مانگتے ہیں ہر وقت استعانت

روز جزا کا تو ہی مالک ہے میرے مولا

دونوں جہاں کا تو ہی خالق ہے میرے مولا

*

تو نے ہی آسماں سے پانی کو ہے گرایا

تو نے زمیں سے مولا فصلوں کو ہے اگایا

تو نے ہی چاند سورج، تاروں کو ہے بنایا

تو نے ہی آسماں کو تاروں سے ہے سجایا

*

تو ہی کھلانے والا، تو ہی پلانے والا

تو ہی ہے مارنے اور تو ہی جلانے والا

حمد و ثنا کے لائق تو ہی ہے میرے مولا

عرفانؔ کی بھی سن لے یہ حمد میرے مولا

***

۱۲۳

گوہر تری کروی (میسور)

حمد ہے میری زباں پر تیری اے پروردگار

رحمتوں کا تیری صبح و شام ہوں امیدوار

*

قاضی الحاجات ہے تو یہ مرا ایمان ہے

بندۂ عاجز پہ تیرا کس قدر احسان ہے

*

ساری مخلوقات کا داتا ہے تو محتاج ہم

ہم گنہگاروں پہ برساتا ہے تو ابر کرم

*

نام سے تیرے سخن کی، کی ہے میں نے ابتدا

لطف گویائی کو بخشا تو نے میری حوصلہ

*

تو نے شیرینی عطا کی ہے مری گفتار کو

با اثر تو نے کیا ہے جرأت اظہار کو

*

بخش دی تو نے مجھے حسن تخیل کی ضیا

ذہن و دل روشن کیا ہے دے کے ذوق ارتقا

*

دل میں علم و آگاہی کی روشنی باقی رہے

فکر میں گوہرؔ کی دائم تازگی باقی رہے

*

ہے تمنا ہو عطا اقبالؔ کا سوز دروں

آخری دم تک تری حمد و ثنا کرتا رہوں

***

۱۲۴

اسماعیل پرواز (ہوڑہ)

ہے گماں پردے کے باہر اور یقیں پردے میں ہے

آپ پر تو چومئے وہ مہہ جبیں پردے میں ہے

*

آپ کتنے زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں اسے

عکس اس کا دیکھئے وہ تو مکیں پردے میں ہے

*

کتنی منطق اس میں پوشیدہ ہے کوئی کیا کہے !

سب پہ جو ظاہر ہے وہ پردہ نشیں پردے میں ہے

*

دعویٰ چشم بصیرت کھوکھلا لگنے لگا

جب عقیدت نے کہا دیکھو! یہیں پردے میں ہے

*

ہے انا الحق کی صدا تحت الثریٰ سے عرش تک

جو فلک پر ہے وہی زیر زمیں پردے میں ہے

*

راز تخلیق جہاں جس کن میں ہے پروازؔ وہ

ہے قلندر کی نظر میں یا کہیں پردے میں ہے

***

۱۲۵

زاہدہ تقدیسؔ فردوسی (جبلپور)

اے میرے خالق! مرے پروردگار

نطق دل آویز بخشا کر دگار

*

علم کی دولت عطا کی خوب تر

نعمتیں بخشیں مجھے تو نے ہزار

*

شکر ہو کیسے ادا ناچیز سے

لفظ کم احسان تیرے بے شمار

*

قوت گویائی کر مجھ کو عطا

شکر تیرا ہو زباں پر بار بار

*

زندگی کیا جانے کیسے کٹ گئی

ہوں خطاؤں پر نہایت شرمسار

*

دار فانی میں نہیں لگتا ہے دل

دامن دل ہو چکا ہے تار تار

*

دامن عصیاں کے دھبے دھو سکوں

اشک آنکھوں سے رواں ہوں زار زار

*

ہو دم آخر لبوں پر تیرا نام

ختم ہوں تقدیسؔ کے لیل و نہار

***

۱۲۶

ڈاکٹر فدا المصطفی فدوی (ساگر)

ترے جلوے ہر طرف ہیں تیری خوشبو چار سو

کس میں ہے تابِ نظارہ تجھ کو دیکھے روبرو

*

دیکھنا ممکن نہیں تجھ کو ان آنکھوں سے مگر

تو نے اپنی دید کی بخشی ہے دل کو آرزو

*

کاروان شوق سرگرداں ہے تیری راہ میں

منزل مقصود تو ہے سب کو تیری جستجو

*

صبح دم غنچے چٹک کر ذکر کرتے ہیں ترا

طائران خوش نوا کرتے ہیں تیری گفتگو

*

حاضر و ناظر ترے ہونے کا عام اقرار ہے

ہر کس و ناکس کے لب پر نعرۂ اللہ ہو

*

کبریائی کا تری کرتے ہیں دل سے اعتراف

عاجزی سے اہل ایماں سر بسجدہ با وضو

*

مل سکی ان کو نہ اپنی روسیاہی سے نجات

تیرے باغی دین و دنیا میں ہوئے کب سرخ رو

*

۱۲۷

شک ترے انصاف میں کیونکر ہو قسام ازل

عزت و ذلت بقدر ظرف عطا کرتا ہے تو

*

اک نگاہ لطف کا طالب ہوں میں بھی ساقیا!

مست و بے خود کر مجھے بے منت جام و سبو

*

مجھ پہ بھی برسے ترے عرفان کا ابر کرم

تاکہ تسکین پائے میری روح کا ذوق نمو

*

حق تری حمد و ثنا کا ہو سکا کس سے ادا

بے مثال اپنی صفات و ذات کی خوبی میں تو

*

وقت آخر کلمہ طیب پہ دم نکلے مرا

ساز دل پر گنگنائے بس یہی نغمہ ہو

*

پر معاصی فدویؔ عاصی کو بخشش کا یقین

ہے ترا فرمان محکم آیہِ ’’لاتقنطو‘‘ !

***

۱۲۸

طالوت

ڈاکٹر شرف الدین ساحل (ناگپور)

خدائے قادر و عادل!

یہ عہدِ نومزین ہے یقیناً علم و فن سے

*

مگر دراصل یہ عہدِ جہالت ہے

ترقی یافتہ حسنِ تمدن جل رہا ہے

اور عریاں ہو رہا ہے پیکرِ تہذیبِ دوراں

دھماکوں سے مسلط خوف کی ہر سو فضا ہے

*

گلا انسانیت کا گھُٹ رہا ہے

علوم و آگہی بے جان ہو کر رہ گئے ہیں

ہوائے مادیت چل رہی ہے تیز رفتاری سے دنیا میں

رخ روحانیت مرجھا رہا ہے

*

غرور و سرکشی کا رقص پیہم ہو رہا ہے

حقوق انساں کے چھینے جا رہے ہیں

فرائض رو رہے ہیں

ستم جالوت کا اب انتہا پر آ چکا ہے

*

خدائے قادر و عادل!

پھر کسی مفلس کے مسکن سے

کوئی طالوت کر ظاہر

***

۱۲۹

فہیم بسمل (شاہجہاں پور)

ہر طرف ہیں تری وحدت کے اجالے یا رب

تیری قدرت کے ہیں قرآں میں حوالے یا رب

*

دل میں آیا ترے دنیا جو بنانے کا خیال

اپنا محبوب بھی لاثانی بنانے کا خیال

*

اولاً نور محمد ؐ کیا پیدا تو نے

ورفعنا لک ذکرک سے نوازا تو نے

*

خلق قدرت سے کیے کتنے ہی عالم تو نے

اور پیدا کیا پھر پیکرِ آدم تو نے

*

تو نے تخلیق کیے چاند ستارے اللہ

بخشے مخلوق کو خوش رنگ نظارے اللہ

*

بحر و بر تیرے، ہوا تیری ہے افلاک ترے

برگ و گل تیرے ہیں بے شک خس و خاشاک ترے

*

میرا ایماں ہے یہی قادرِ مطلق تو ہے

جس کی مرضی سے ہوا ماہِ مبیں شق تو ہے

*

۱۳۰

کر دے رحمت کا اک ادنیٰ سا اشارہ معبود

میری قسمت کا بھی چمکا دے ستارا معبود

*

کب سے ہی لطف کو تر سے ہوئے ان ہاتھوں کی

لاج رکھ لے مرے پھیلے ہوئے ان ہاتھوں کی

*

مجھ کو ہر اک کی نگاہوں میں جو عزت بخشے

کاش مجھ کو وہ سلیقہ تری رحمت بخشے

*

ایک مدت سے یہ بسمل ہے پریشاں مولا

اپنی رحمت سے عطا کر اسے خوشیاں مولا

***

۱۳۱

مناجات

عرفان پربھنوی (پربھنی)

ترے ہیں تجھی سے کرم مانگتے ہیں

رحم کے ہیں طالب رحم مانگتے ہیں

*

تو ہی ہے عبادت کے لائق خدایا

تجھی سے مدد کے ہیں طالب خدایا

تجھی سے نگاہِ کرم مانگتے ہیں

*

تو ہی دو جہاں کا حقیقی ہے داتا

تو ہی بے نیاز اور یکتا ہے مولا

تو داتا ہے تجھ سے ہی ہم مانگتے ہیں

*

نہ دولت ہی دے اور نہ دے کوئی عہدہ

فقط اپنی رحمت کا دے تھوڑا صدقہ

یہی تجھ سے ہم دم بدم مانگتے ہیں

*

جو تڑپے تیری یاد میں وہ جگر دے

جو دیکھے تجھی کو بس ایسی نظر دے

ملا دے جو تجھ سے وہ غم مانگتے ہیں

*

۱۳۲

گنا ہوں پہ اپنے بہت ہوں پشیماں

تو غفار ہے بخش دے ہم کو رحماں

کرم کر کہ تیرا کرم مانگتے ہیں

*

ہو تابع تیرے میری یہ زندگانی

ہر اک حال میں ہو تیری مہربانی

یہی چیز عرفانؔ ہم مانگتے ہیں

***

۱۳۳

لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ

رزاق افسر (میسور)

ظہورِ صبح ازل لا الہ الا اللہ

حیات ہو کہ اجل لا الہ الا اللہ

*

ہمارا کل تھا وہی آج بھی وہ ہے اپنا

اصول دیں کا ہے کل لا الہ الا اللہ

*

دلیل وحدت رب لا الہ الا اللہ

مزاج عظمت رب لا الہ الا اللہ

*

طفیل رحمت خیر الانام ہے افسرؔ

سبیل قربت رب لا الہ الا اللہ

*

خدا کا خاص کرم لا الہ الا اللہ

عطائے شاہؐ امم لا الہ الا اللہ

*

سمٹ کے آ گئی ہے جس میں کائنات تمام

ارم سے تابہ حرم لا الہ الا اللہ

*

خدا کا ذکر جلی لا الہ الا اللہ

عروج شان نبیؐ لا الہ الا اللہ

*

۱۳۴

جو دل کہ مومنِ شب زندہ دار ہے اس کی

دعائے نیم شبی لا الہ الا اللہ

*

مکاں کا دست ہنر لا الہ الا اللہ

زماں کا زادِ سفر لا الہ الا اللہ

*

مری نظر میں ہے تفسیر آخری اس کی

قرآں کا نام دگر لا الہ الا اللہ

*

مدارِ فکرِ بشر لا الہ الا اللہ

قرارِ قلب و نظر لا الہ الا اللہ

*

نمودِ صبح سے تاروں کی رونمائی تک

ہے سب کا رختِ سفر لا الہ الا اللہ

*

زباں تو میری کہے لا الہ الا اللہ

سمجھ سے پر ہے پرے لا الہ الا اللہ

*

اسی پہ کھلتا ہے افسرؔ یہ بابِ رازِ خفی

جو جان و دل سے پڑھے لا الہ الا اللہ

***

۱۳۵

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ

ڈاکٹر نسیم (وارانسی)

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ

ہے کون اس سے بڑا، لا الہ الا اللہ

*

پیامِ غارِ حرا، لا الہ الا اللہ

نبیؐ کی پہلی صدا، لا الہ الا اللہ

*

اذاں کی آئی صدا، لا الہ الا اللہ

تو گونجے ارض و سما، لا الہ الا اللہ

*

کبھی یہ مشعل توحید بجھ نہیں سکتی

چلے کوئی بھی ہوا، لا الہ الا اللہ

*

یہ بحر و بر، یہ زمیں، آسماں یہ شمس و قمر

وہی ہے سب کا خدا، لا الہ الا اللہ

*

یہی وظیفہ ازل سے ہے ساری خلقت کا

ندائے ارض و سما، لا الہ الا اللہ

*

شعاع مہر جو پھوٹی افق سے وقتِ سحر

تو بادلوں پہ لکھا، لا الہ الا اللہ

*

۱۳۶

عدو ہے سارا زمانہ تو کیا خدا تو ہے ساتھ

کسی سے خوف نہ کھا، لا الہ الا اللہ

*

تو اژدہوں سے گھرا ہو تو دل میں خوف نہ لا

اٹھا لے اپنی عصا، لا الہ الا اللہ

*

وہی ہے بس، وہی شایان بندگی اے دل

وہی ہے تیرا خدا لا الہ الا اللہ

*

ترا ولی، ترا فریاد رس، ترا معبود

ہے کون اس کے سوا، لا الہ الا اللہ

*

اسے نصیب ہوا اوجِ عبدیت کا مقام

وہ جس نے دل سے پڑھا، لا الہ الا اللہ

*

تری جبیں ہے فقط اس کے سنگِ در کے لیے

اسے کہیں نہ جھکا، لا الہ الا اللہ

*

وہی ہے آسرا ٹوٹی ہوئی امیدوں کا

دکھے دلوں کی صدا، لا الہ الا اللہ

*

تو لوحِ دل پہ رقم کر اسے بہ خطِ جلی

یہی ہے نقشِ شفاء، لا الہ الا اللہ

*

۱۳۷

اسی سے چمکے گا آئینہ تیرے باطن کا

یہی ہے دل کی جِلا، لا الہ الا اللہ

*

اسی سے مانگ، تجھے جو بھی مانگنا ہے نسیمؔ

وہی سنے گا دعا، لا الہ الا اللہ

***

۱۳۸

محمد شاہد پٹھان (جئے پور)

نگاہ و دل کا نشہ لا الہ الا اللہ

ایاغِ آبِ بقا لا الہ الا اللہ

*

فضائے باغِ بلادِ حجاز میں اول

پیام لائی صبا لا الہ الا اللہ

*

حیات بخش ہے گلزارِ مصطفی کی بہار

کلی کلی کی صدا لا الہ الا اللہ

*

نشاطِ اہلِ وفا عشقِ سرورِ بطحیٰ

طریقِ اہلِ صفا لا الہ الا اللہ

*

سکندری کا نشہ تخت و تاج و حورو قصور

قلندری کی ادا لا الہ الا اللہ

*

جمال حمد و ثنا عشقِ صاحبِ لولاک

جلالِ ذکرِ خدا، لا الہ الا اللہ

*

اسے نصیب ہوئی سرفرازیِ کونین

زباں پہ جس کی رہا لا الہ الا اللہ

*

نگاہِ لطفِ محمد ؐ کا فیض ہے شاہدؔ

ہے ورد صبح و مسا لا الہ الا اللہ

***

۱۳۹

محمد ہارون سیٹھ سلیم بنگلوری

ہمیں تیری قدرت پہ ایقان ہے

تو بندوں پہ یا رب مہربان ہے

امڈ کر نہ آئے مری آنکھ سے

مرے دل میں غم کا جو طوفان ہے

پریشانیوں کو مری دور کر

یہ ناچیز بے حد پریشان ہے

تجھے رات دن یاد کرتا ہوں میں

مگر پھر بھی تو ہے کہ انجان ہے

خداوندا دے رستگاری مجھے

مری زندگی ایک زندان ہے

خطاؤں کو بندے کی کر دے معاف

یہ اولاد آدمؑ ہے انسان ہے

***

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193