انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 30%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95701 / ڈاؤنلوڈ: 2870
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

بنا ہے مشق ستم فلسطیں مجاہدوں پر ہے وجد طاری

زباں پہ ہے لا الہٰ ان کی، یہی ہے انکا کمال یا رب

*

زمیں فلسطیں کی منتظر ہے، کہ کوئی ایوبؔ پھر سے آئے

ہے ارضِ اقصیٰ کا تیرے در پر، دراز دست سوال یا رب

*

اے رب کعبہ تو مقتدر ہے، تو خالق کل جہاں ہے مولیٰ

عطا ہو صبر و عمل کی قوت، کہ ہو گئے ہیں نڈھال یا رب

*

ہے شش جہت میں تری ہی خاطر، صدائے لبیک سب کے لب پر

دعا ہے شام و سحر کہ رکھیو، ہماری عزت بحال یا رب

*

دعا ہے منظورؔ ناتواں کی، جہاں میں امن و اماں ہو مولیٰ

ستم گروں سے ملے رہائی، دکھا دے اپنا جلال یا رب

***

۱۰۱

حمد باری تعالیٰ جل شانہٗ

بختیار مشرقی (اورئی)

تو مرا خدائے برحق

تو مکمل اور مطلق

تو قدیم اور محقق

*

میں زمیں نہ آسماں کا

تو ہے ثابت اور قائم

میں ہواؤں میں معلق

*

میں تمام تر معاصی

تری حمد کیا کروں میں

ترے وصف بیکراں ہیں

*

ترے انگنت فرشتے

تری حمد کر رہے ہیں

جو محیط آسماں ہیں

*

یہ کروڑہا پرندے

یہ وحوش یہ درندے

یہ ملخ یہ مور سارے

*

۱۰۲

وہ ہوں پتھروں کے کیڑے

کہ ہوں کرم قعر دریا

کہ زمیں کے چور سارے

*

تری حمد میں لگے ہیں

ترے گیت گا رہے ہیں

یہ تمام مرغ و ماہی

*

یہ شجر حجر یہاں کے

مہہ و مہر آسماں کے

گل و نجم صبح گاہی

*

مرا عجز کہہ رہا ہے

وہ خدا ہے جانتا ہے

کہ تری بساط کتنی!

*

تو بس ایک کام کر لے

کوئی نعت لکھ نبیؐ کی

مری بات مان اتنی!

*

کوئی نعت مصطفیٰؐ لکھ

یہ پسند کبریا ہے

یہی نسخہ کیمیا ہے

*

۱۰۳

تو بس اے خدائے برتر

یہ گناہ گار بدتر

ترے سجدے میں پڑا ہے

*

تری حمد کے بھی قابل

نہیں جانتا جو خود کو

بھلا نعت کیا کہے گا

*

یہ تو پل صراط سے بھی

بڑا سخت مرحلہ ہے

مری لاج رکھ خدایا

*

ترا حکم مانتا ہوں

میں درود بھیجتا ہوں

ترے پیارے مصطفی پر

*

سبھی آل مصطفیؐ پر

تو قبول کر لے یا رب

یہ ادائے بندہ پرور

*

مری التجا ہے یا رب

*

۱۰۴

مجھے بخش دے حضوری

در کعبۂ یقیں کی

مجھے صدقہ دے نبیؐ کا

مری بے بضاعتی تو

نہیں رہ گئی کہیں کی!

میں بڑا خطا کنندہ

تو بڑا رحیم یا رب

*

میں پہ سڑرہا ہوں

مجھے بخش دے الہٰا

ترے ہاتھ جوڑتا ہوں

ترے پاؤں پڑ رہا ہوں

ترے ہاتھ جوڑتا ہوں

ترے پاؤں پڑ رہا ہوں

یہاں کب سے سڑرہا ہوں

***

۱۰۵

دوہا حمد

عاجز ہنگن گھاٹی (ہنگن گھاٹ)

عزت اس کے ہاتھ ہے ذلت اس کے ہاتھ

گمنامی بھی بخشے وہ شہرت اس کے ہاتھ

*

بالکل سچی بات ہے اپنی کیا اوقات

کٹھ پتلی کے جیسے ہم فطرت اس کے ہاتھ

*

ہست و بود کا راز کیا اپنی ہستی خاک

بے شک مرنے جینے کی حرکت اس کے ہاتھ

*

افراتفری سب کے گھر الجھن سب کے پاس

چاہت ہم کو چین کی راحت اس کے ہاتھ

*

تخلیق اس کا کل جہاں واحد اس کی ذات

لفظ کن کے راز کی حکمت اس کے ہاتھ

*

بے شک وہ مختار ہے سب کا پالن ہار

عاجزؔ تو بھی مانگ لے رحمت اس کے ہاتھ

***

۱۰۶

حمدیہ ماہیے

مدہوش بلگرامی (ہردوئی)

رحمان و رحیم اللہ

اس سے ہے سب ممکن

ستاروکریم اللہ

٭

خلاق تو ہی بے شک

سب کو کھلاتا ہے

رزاق تو ہی بے شک

٭

غفار خدا ہے بس

میں ہوں بت عاصی

مختار خدا ہے بس

٭

ہر شے پہ حکومت ہے

کون و مکاں کس کا

ہے جس کا وہ قدرت ہے

٭

۱۰۷

ہے ذات تری طاہر

عرش بریں والے

ہر چیز پہ تو قادر

٭

چڑیوں کو زباں دی ہے

کھلتی کلی کو بھی

تو نے ہی ادادی ہے

٭

ہے عرش بریں تیرا

فکر و بیاں، لہجہ

اے نور یقیں تیرا

٭

حمد و ثنا کرتے

بحر و جزیرے بھی

توصیف خدا کرتے

٭

معبود ہر اک شے کا

ارض وسما اس کے

مسجود ہر اک شئے کا

***

۱۰۸

راہی صدیقی (ہردوئی)

پھولوں میں رنگ الگ اور خوشبو جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

سب چرند اور پرند مختلف رنگ کے

آدمی ملتے ہیں سب الگ ڈھنگ کے

شکل و صورت الگ بولیاں ہیں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جس میں چاقو لگے نکلے گا، خوں لئے

پر اسی سینے سے دودھ بچہ پئے

خون سے دودھ کو ایسے رکھا جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جب سمندر سے جا کر کے دریا ملا

اپنی پہچان کو ملتے ہی کھو دیا

اپنا اپنا وجود گر رہیں وہ جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

۱۰۹

ریگزاروں میں پیدا کئے ہیں شجر

رزق کیڑوں کو پتھر میں دے پیٹ بھر

ظاہراً بھی الگ باطناً بھی جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

کیسے کیسے عجوبے دہر میں ہوئے

یوں ملے حیرتوں میں ہی ڈوبے ہوئے

سر جڑے دھڑ جڑے جسم و جاں ہیں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

دھوپ تھی دھوپ کی تھیں ابھی گرمیاں

دیکھتے دیکھتے چھا گئیں بدلیاں

برسا پانی ہوا بادلوں سے جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

آندھیاں اور طوفان اور زلزلہ

آتے ہی یاد آ جائے جو برملا

وہ ہوا میں گھلا وہ ہوا سے جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

روز ہوتے طلوع اور ہوتے غروب

چاند سورج کا ہے یہ تماشہ بھی خوب

فرق پڑتا نہیں ڈھنگ نہ ہوتا جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

۱۱۰

**

اک طرف تیرگی اک طرف روشنی

اس طرف ہے غمی اس طرف ہے خوشی

ایک ہی وقت پر حادثے ہوں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جگنو پیدا کئے رات کے واسطے

بند اک جو کیا کھولے کئی راستے

ہر بقا بھی الگ ہر فنا بھی جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

پیاس ہونٹوں پہ ہے دل میں ہے تشنگی

بکھری بکھری سی لگتی ہے یہ زندگی

موت کا رنگ الگ موت کا ڈھنگ جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

حکم سے جس کے ہوتی عطا زندگی

موت بھی راہیؔ جس کی ہی طابع رہی

اس کی رحمت الگ اس کی حکمت جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

***

۱۱۱

منصور اعجاز (آکولہ)

تو زمین آسمان کا رب ہے

تو ہی سارے جہان کا رب ہے

حکم چلتا ہے بحر و بر پہ ترا

رعب ہے خیر اور شر پہ ترا

چاند تاروں میں چاندنی تیری

ہے ہواؤں میں راگنی تیری

سبزہ و گل میں جان تیری ہے

چہچہوں میں زبان تیری ہے

سارے عالم پہ مہرباں تو ہے

حق پرستوں کا نگہباں تو ہے

تیرے محکوم ہیں یہ جن و ملک

تیرے تابع بشر ہیں عرض و فلک

تیری حمد و ثنا ہو کس سے بیاں

تو نہاں ہو کے بھی ہے سب پہ عیاں

سب فنا ہے بقا ہے تیرے لئے

ساری حمد و ثنا ہے تیرے لئے

***

۱۱۲

تخلیق کائنات

منصور اعجاز (آکولہ)

اگر تو یہ زمین نہیں بناتا

ہم خلاؤں میں تیرتے رہتے

*

تو نے زمیں کی کوکھ میں

آبی ذخیرے نہ سموئے ہوتے

ہم فضاؤں میں نمی چوستے ہوتے

تو نے خورشید کو تپش دے کر

چمکایا نہ ہوتا

فصلیں اگتی اور پکتی کیسے ؟

*

ہماری دنیا اندھی

اندھیاری ہو جاتی

رب اللعالمین!

تو نے زمین و آسمان کی

بے پناہ دولت اور خلافت

ہمیں عطا کر دی (کتنا سخت امتحان ہے )

۱۱۳

قیامت قریب ہے اور ہم

بے چین و پریشان

بے حس و حرکت

یا غفور الرحیم!

ہمیں ایمان کی حرارت سے پگھلا دے

کل کائنات پر پھیلا دے

ہم پر امید ہیں

تجھے بھی یہی مقصود ہے نا۔ ؟

***

۱۱۴

حمد

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ)

اے دنیا کے سرجن ہارے

اعلیٰ تو ہے

برتر تو ہے

ذات کو تیری نہیں زوال

قائم تیرا جاہ و جلال

توہے عین عز و کمال

مالک۔۔۔ روز حشر کا تو ہے

خالق۔۔۔ توہے رات کا دن کا

تو ہی۔۔۔ عبادت کے لائق ہے

تیرے لئے سب حمد و ثنا ہیں

تیرے غضب سے سب ہیں لرزاں

عالم کن کا رب جلیل

تو ہی رحیم

تو ہی کریم

پاشاؔ۔۔۔ تیرے در پہ کھڑا ہے

لب پہ دعا ہے

ہاتھ اٹھا ہے

۱۱۵

سچا نیک انسان بنا دے

سیدھا رستہ ہم کو دکھا دے

مجبوروں کے کام میں آؤں

دکھیاروں کا درد بٹاؤں

***

۱۱۶

اللہ تعالیٰ

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ)

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

شجر یہ ڈاب کے کس نے اگائے ہیں

کہ ڈابوں میں کہاں سے آتا ہے پانی یہ میٹھا سا

نظر جائے جہاں تک دور اس نیلے گگن پر

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

کہ ننھے منے چمکیلے سے تاروں کو

انھیں آکاش پہ کس نے سجایا ہے

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

بنایا ہے یہ کس نے چندا ماما کو

جو شب بھرآسماں پر وہ چمکتا ہے

جو چلتا ہوں تو میرے ساتھ چلتا ہے

یہ اکثر سوچاکرتا ہوں

مجھے پیداکیاکس نے۔۔۔ ؟

مری امی یہ کہتی ہیں

کہ اک خالق ہے ان ساری ہی چیزوں کا

وہی برتر و بالا ہے

وہی اللہ تعالیٰ ہے

***

۱۱۷

تحفہ حمد بحضور خالق کائنات

خان حسنین عاقبؔ (پوسد)

مرا تصور بھٹک رہا ہے

مرا تخیل جھجک رہا ہے

*

مجھے خبر ہے نہیں یہ ممکن

کہ تیری تعریف کر سکوں میں

تری خدائی کی حد کو پاؤں

محال ہے اس پہ غور کرنا

مگر میں ٹوٹے ہوئے سے الفاظ کو

عقیدت کی چاشنی میں ڈبو رہا ہوں

اور اپنے جذبات کے سمندر کو

حرف و معنیٰ کے بس ایک کوزے

میں ڈرتے ڈرتے سمورہا ہوں

*

ہے میٹھے خوش رنگ پانیوں پر

ہے کھارے سمندروں پر

*

تری ہی قدرت و حکمرانی

*

۱۱۸

تو کن سے دنیا بنانے والا

تو پربتوں کو جمانے والا

کو کشتیوں کو چلانے والا

قیامتوں کو جگانے والا

مصیبتوں کو سلانے والا

تو ساحلوں پر ڈبونے والا

تو بیچ دریا بچانے والا

*

علیم تو ہے بصیر تو ہے

تجھے پتا ہے وہ بات بھی جو

ہر اک نظر سے چھپی ہوئی ہے

تری ہی قدرت میں ہے وہ آتش

جو راکھ ہی میں دبی ہوئی ہے

حسین شکلوں کو کس کا آخر جمال سمجھوں ؟

*

قلم سے اپنے نکلتی کرنوں

کو تیری مدحت کا نور سمجھوں !

کہ کوئی مجھ سے غریب شاعر

کا ہچکچاتا خیال سمجھوں ؟

*

۱۱۹

ہے رہبری بھی خضرؑ کی تجھ سے

عصائے موسیٰؑ تری عطا ہے

بلندیوں کو ہے سرفرازی کا شرف حاصل

تو سونی سونی ہے پستیوں کی ہر ایک محفل

مرے عمل کا ہر ایک دفتر

ہے چیدہ چیدہ

مگر بڑائی ہے کس کو زیبا؟

*

تری عطا کو!

کہ پھر خطاؤں کو عاصیوں کی؟

مجھے پتا ہے !

مری ندامت کو ڈھونڈتی ہیں

شفیق بانہیں ترے کرم میں

تو کشتیِ نوحؑ کو کھویّا

حرم سے لے کر مرے مکاں تک

تری عطا کے سمندروں پر

*

مری دعا کو

بس اتنا سا اختیار دے دے

حیات میری خزاں رسیدہ

تو اس کو حکم بہار دے دے

***

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ڈاکٹر سید ساجد علی (بنگلور)

مدعا ہے میرے دل کا اے مرے پروردگار

ہوں میں نافرمان بندہ اے مرے پروردگار

*

تو نے ہم جن و بشر کو جس لئے پیدا کیا

وہ عبادت ہم سے کروا ے مرے پروردگار

*

بھول کر تیری ڈگر دنیا میں کھوئے ہیں سبھی

اپنی رحمت ہم پہ برسا اے مرے پروردگار

*

ہو نزع کا وقت جب ہم کو نہ کچھ احساس ہو

خیال میں چہرہ ہو شہؐ کا اے مرے پروردگار

*

شہؐ کے صدقے ان دعاؤں کو میری کر لو قبول

کر دو بیڑا پار میرا اے مرے پروردگار

*

بندگی ساجدؔ کی تم برتر پھر اعلیٰ تر کرو

بخش دو جام اس کو ایسا اے مرے پروردگار

***

۱۴۱

محمد حسین دلبرؔ ادیبی

تو اپنی رحمتوں کی عطا بے شمار دے

بے چینیاں سمیٹ لے دل کو قرار دے

*

میخانۂ الست میں ٹوٹے نہ جو کبھی

پیمانۂ رسولؐ سے ایسا خمار دے

*

عشقِ رسولؐ جذبۂ صادق لئے ہوئے

یا رب کرم سے امت مسلم پہ وار دے

*

طوفان غم میں کشتیِ مسلم ہے، اے خدا

اپنے کرم سے پھر سر ساحل اتار دے

*

آلودہ پھر کبھی نہ ہو عصیاں کے داغ سے

نورِ نبیؐ سے سینۂ دلبرؔ نکھار دے

***

۱۴۲

سلام نجمی (بنگلور)

ہم نہیں کہتے ہمیں شان سلیمانی تو بخش

یہ بھی ہم کہتے نہیں تخت اور سلطانی تو بخش

*

کوئی منصب کوئی عہدہ اور نہ دیوانی تو بخش

ہے ضرورت جس کی اب وہ جذب ایمانی تو بخش

*

یا خدا پھر سے متاع درس قرآنی تو بخش

ہم مسلمانوں کو پھر سچی مسلمانی تو بخش

*

زندگانی کو خدایا خوئے انسانی تو بخش

ذہن و دل کو روح کو توحید افشانی تو بخش

*

صدق، اخلاص و وفا اور عشق لاثانی تو بخش

یعنی یاران نبیؐ کا وصف قربانی تو بخش

*

اقلیت کے فرق کا یا رب نہ ہو ہم کو خیال

دعوت حق کا ہمیں اندازِ فارانی تو بخش

*

ہم مٹا دیں پھر سے یا رب فتنۂ باطل تمام

خالدؓ ایوبیؓ جیسی ہم کو جولانی تو بخش

*

۱۴۳

دور کر ملت سے یا رب مسلکی ناچاقیاں

اور دلوں کو جوڑ دے آپس میں اک جانی تو بخش

*

خار زاران وطن کو نیست کر نابود کر

اور یہاں کے ذرے ذرے کو گل افشانی تو بخش

*

پیروی کرنے لگے ہیں ہم سبھی اغیار کی

پھر سے یا رب ہم کو اپنی راہ نورانی تو بخش

*

ہر طرف سے بڑھ رہی ہیں ہر طرح کی مشکلیں

مہربانی ہم پہ فرما اور آسانی تو بخش

*

شعبۂ ہستی ہوا اپنا ہر اک تاریک تر

شعبۂ ہستی کو ہر اک اپنے تابانی تو بخش

*

اس مشینی دور کی جو بے حسی ہے ذوالجلال

بہر رحمت بے حسی کو ذوق روحانی تو بخش

*

جب دیا ہے دل تو درد دل بھی کر ہم کو عطا

یعنی ہم کو درد مندی اور درمانی تو بخش

*

جس میں تو ہی تو ہو رب دل کو وہ آئینہ بنا

اور بصیرت کو ہماری جلوہ سامانی تو بخش

*

۱۴۴

میں تری شان کریمی کے تصدق رب مرے

جس سے ملت کا بھلا ہو وہ سخندانی تو بخش

*

شاعر ی میں نعت گوئی ہو مری پہچان خاص

نعت گوئی کو مری ایسی فراوانی تو بخش

*

بندگی کی دے سدا توفیق رب ذوالجلال

اور نجمیؔ کو ترے حمد و ثنا خوانی تو بخش

***

۱۴۵

سید طاہر حسین طاہر (ناندیڑ)

ظلمتوں سے نجات دے اللہ

نور والی حیات دے اللہ

*

سب کو کل کائنات دے اللہ

مجھ کو طیبہ کی رات دے اللہ

*

باطلوں سے نباہ کیا ہو گا

اہل ایماں کا ساتھ دے اللہ

*

تیری مخلوق کے جو کام آئے

مجھ میں کچھ ایسی بات دے اللہ

*

حق پرستی میں عمر کٹ جائے

قابل رشک ذات دے اللہ

*

دے ارادوں کو تو ظفریابی

حوصلوں کو ثبات دے اللہ

*

سرخروئی ہو حشر میں جس سے

مجھ میں ایسی صفات دے اللہ

*

۱۴۶

میں ہوں حالات کے شکنجے میں

گردشوں سے نجات دے اللہ

*

ہم سے باطل ہے برسر پیکار

دشمن دیں کو مات دے اللہ

*

اس گنہگار کو تو فیض کرم

باعث التفات دے اللہ

*

لکھ رہا ہے تری ثنا طاہرؔ

شاعر ی کو ثبات دے اللہ

***

۱۴۷

رجب عمر (ناگپور)

تجھے پسند ہوں ایسے مرے مشاغل کر

حیات میری ہے طوفاں تو اس کو ساحل کر

*

تری طلب میں رہوں ڈھونڈتا پھروں تجھ کو

تو اپنے چاہنے والوں میں مجھ کو شامل کر

*

سنا ہے اب بھی ہیں اصحاب فیل حرکت میں

خدایا ان پہ ابابیل پھر سے نازل کر

*

بہت کٹھن ہے رہ مستقیم پہ چلنا

تو اپنے فضل سے آساں مرے مراحل کر

*

الجھنا خطروں سے بس میں نہیں ہے اب میرے

تو اپنے لطف سے ان کو خدایا باطل کر

***

۱۴۸

علیم الدین علیم (کلکتہ)

دل سے نکلے تری ثنا یا رب

میرے لب پہ رہے سدا یا رب

*

آسماں سے زمیں کے سینے تک

جلوہ تیرا ہے جا بہ جا یا رب

*

اپنی قدرت سے سارے عالم کو

زندگی تو نے کی عطا یا رب

*

باغ میں عندلیب ہیں جتنے

گیت گاتے ہیں سب ترا یا رب

*

بے زباں یا زبان والا ہو

سب کو دیتا ہے، تو غذا یا رب

*

درد معصوم کو جو دیتا ہے

کب ملے گی اسے سزا یا رب

*

سرورؐ انبیا کی امت کو

ہے فقط آسرا ترا یا رب

*

مانگتا ہے علیمؔ کیا تجھ سے

سن لے اب اس کی بھی دعا یا رب

***

۱۴۹

حسن رضا اطہر (بوکارو سیٹی)

متاع علم و ہنر لازوال دے اللہ

مجھے بلندیِ فکر و خیال دے اللہ

*

گداز و سوزش عشق بلال دے اللہ

شراب عشق مرے دل میں ڈال دے اللہ

*

مرا وجود ہے بے سور اس لئے مجھ سے

وہ کام لے کے زمانہ مثال دے اللہ

*

سروں پہ تان دے حفظ و اماں کی اک چادر

قصور وار ہیں رحمت کی شال دے اللہ

*

خیال سختی محشر سے مرتعش ہے بدن

کوئی نجات کی صورت نکال دے اللہ

*

وفا خلوص کی خوشبو ہی جسم سے پھیلے

سرشت بد نہ کوئی ابتذال دے اللہ

*

تو ہی تو رزاق مطلق ہے مالک و خالق

نبی کے صدقے میں رزق حلال دے اللہ

***

۱۵۰

تلک راج پارس (جبل پور)

گداز ریشمی گفت و شنید ہو مولا

متاع ذہن رسا بھی جدید ہو مولا

*

اک ایسا بندہ مرے گھر میں پرورش پائے

جو تیری راہ پہ چل کر شہید ہو مولا

*

جو مرے پاس ہے تاوان ہے سخاوت کا

یہ التفات و عنایت مزید ہو مولا

*

ہمارے ذہن کو عرفان آگہی دے دے

جو نسل نو کے لئے بھی مفید ہو مولا

*

یہ بد نمائی نمائش کبھی نہ کر پائے

جو احتجاج کا جذبہ شدید ہو مولا

*

ہمارے خون کی ہر بوند تیغ بن جائے

نظر کے سامنے جب بھی یزید ہو مولا

*

قبول ساری عبادت ہو روزہ داروں کی

جو تیری مرضی ہے ویسی ہی عید ہو مولا

***

۱۵۱

رخشاں ہاشمی (مونگیر)

اس فضا کو نکھار دے یا رب

سب کے دل میں تو پیار دے یا رب

*

نیک رستہ پہ تو چلا سب کو

سب کی دنیا سنوار دے یا رب

*

بندگی تیری بس ہم کرتے رہیں

زندگی با وقار دے یا رب

*

غم کے دن کو گزار لوں ہنس کر

حوصلہ دے اعتبار دے یا رب

*

تنگ پڑ جائے رخشاں ؔ کا دامن

خوشیوں کی تو، بہار دے یا رب

***

۱۵۲

رئیس احمد رئیس (بدایوں )

بدی کی راہ سے مجھ کو ہٹا دے یا اللہ

مطیع احمد مرسل بنا دے یا اللہ

*

تمام عمر حقیقت کو یہ بیان کرے

مری زبان کو وہ حوصلہ دے یا اللہ

*

جو میری نسلوں کا اب تک رہی ہے سرمایہ

دلوں میں پھر وہی الفت جگا دے یا اللہ

*

ہر ایک سمت جہالت کا بول بالا ہے

یہاں تو علم کی شمعیں جلا دے یا اللہ

*

تمام شہر میں، میں منفرد نظر آؤں !

تو میری ذات مثالی بنا دے یا اللہ!

*

ہر ایک لمحہ تیرا نام ہو زباں پہ مری!

تو مجھ کو اپنا دیوانہ بنا دے یا اللہ

*

ترے وجود کو تسلیم کر لیں منکر بھی!

کوئی تو معجزہ ایسا دکھا دے یا اللہ

*

تو اپنے پیارے نبیؐ رحمت دو عالم کی

دل رئیسؔ میں الفت جگا دے یا اللہ

***

۱۵۳

امیر اللہ عنبر خلیقی (ناگپور)

عرفان و آگاہی پاؤں، حرف ہدایت دے داتا

خود سمجھوں، سب کو سمجھاؤں ایسی صداقت دے داتا

*

رسم جہاں جانی پہچانی، دولت و شہرت آنی جانی

دائم و قائم جو رہ جائے، ایسی عزت دے داتا

*

ظلم و ستم کرنا ہے کس کو، جور و جفا سہنا ہے کس کو

رحم کرے جو انسانوں پر، ایسی مروت دے داتا

*

میں نے ہر خواہش کو چھوڑا، تیری جانب رخ کو موڑا

میں مخلص تیرا بندہ ہوں، رحمت و برکت دے داتا

*

حرص و ہوس کے چلتے جھونکے، دنیا میں مطلب اور دھوکے

اخلاق و اخلاص نبھاؤں، اتنی شرافت دے داتا

*

جھوٹ کا جب ماحول ہوا ہے جھوٹ یہاں انمول ہوا ہے

جگ میں ہمیشہ سچ کہنے کی جرأت و ہمت دے داتا

*

بجلی کوندے محنت کی اور برق بھی کوندے غیرت کی

میری رگ رگ اور لہو میں ایسی حرارت دے داتا

*

کرنے کو اصلاحی خدمت، عنبرؔ کو ابلاغ سے نسبت

ذکر میں کچھ ندرت لانے کو، فکر میں رفعت دے داتا

***

۱۵۴

ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی (بہرائچ)

یا رب نبیؐ کے باغ کی قربت نصیب ہو

مجھ کو میری حیات میں جنت نصیب ہو

*

نار سقر سے مجھ کو برأت نصیب ہو

سرکار دو جہاں کی محبت نصیب ہو

*

میدانِ حشر میں جو مرے کام آ سکے

محبوب دو جہاں کی وہ چاہت نصیب ہو

*

غم ہائے روزگار سے تنگ آ چکا ہوں میں

شہر نبیؐ میں مجھ کو سکونت نصیب ہو

*

میں بھی شفیع حشر کا ادنیٰ غلام ہوں

محشر کے روز مجھ کو شفاعت نصیب ہو

*

اچھے برے کی کچھ تو میں تمیز کر سکوں

روشن دماغ، چشم بصیرت نصیب ہو

*

جو سرزمین طیبہ پہ پہنچا سکے ہمیں

یا رب ہمیں وہ قوت و ہمت نصیب ہو

*

۱۵۵

بس اتنی التجا ہے مری تجھ سے اے خدا

دیدارِ مصطفی کی اجازت نصیب ہو

*

کوئی قمرؔ رئیس کو کاذب نہ کہہ سکے

بوبکرؓ کی اسے بھی صداقت نصیب ہو

***

۱۵۶

بیتاب کیفی (بھوجپور)

ہم پہ ہر وقت عنایت کی نظر ہو یا رب

زندگی نور کے سایہ میں بسر ہو یا رب

*

دل کی گہرائی سے ہر بات زباں تک آئے

ذہن روشن ہو دعاؤں میں اثر ہو یا رب

*

حسن اخلاق و محبت کی عطا ہو دولت

خدمت خلق سے لبریز جگر ہو یا رب

*

ایک پل بھی نہ تری یاد سے دل غافل ہو

بس اسی طرح بسر شام و سحر ہو یا رب

*

ہر طرف آج حوادث کی گھٹا چھائی ہے

اک نظر خاص نوازش کی ادھر ہو یا رب

*

دشمنوں کے لئے ہو درد کا دریا دل میں

دوستوں کو بھی منانے کا ہنر ہو یا رب

*

بخش دے گا تو گنا ہوں کو یقین کامل ہے

قلب صادق سے مناجات اگر ہو یا رب

*

۱۵۷

ہاتھ سے دامن تہذیب نہ چھوٹے ہرگز

عدل و انصاف کا ہر معرکہ سر ہو یا رب

*

دیکھ بس ایک دفعہ شہر مدینہ جا کر

زندگانی میں کبھی نیک سفر ہو یا رب

*

بھول کر آئے نہ اس سمت خزاں کا موسم

پھول کی طرح مہکتا ہوا گھر ہو یا رب

*

کج روی پر نہ حسیں قلب کبھی مائل ہو

ہر گھڑی پیش نظر سیدھی ڈگر ہو یا رب

*

جب بھی بیتابؔ مری روح بدن سے نکلے

سامنے سید کونین کا در ہو یا رب

***

۱۵۸

عارف حسین افسر (بلندشہری)

یا الٰہی پاک و اعلیٰ تیری ذات

معرفت سے ماوراء تیری صفات

*

بھیج سیدنا محمد ؐ پر سلام

حیثیت سے اپنی برکت اور صلوٰۃ

*

بخش دے یا رب خطاؤں کو مری

خیر میں تبدیل فرما سیّات

*

نفس اور شیطاں کے شر سے دے پناہ

دے بلاؤں اور فتنوں سے نجات

*

کر دئے تیرے حوالے معاملات

میرے رب تو ہی حل المشکلات

***

۱۵۹

حبیب سیفی آغاپوری (نئی دہلی)

خالق دو جہاں سن مری التجا

مجھ کو رکھنا فقط اپنے در کا گدا

سب سہارے ہیں دنیا کے جھوٹے خدا

تیری ہی ذات ہے اے خدا ماوریٰ

سارا عالم فنا ہونا ہے ایک دن

میرا ایمان ہے صرف تو ہے بقا

وحدہٗ لاشریک لہٗ، تو ہی تو

کر دیا ہے زباں سے بیاں مدعا

باقی کچھ جان ہے اور یہ ارمان ہے

ساتھ ایمان کے نکلے بس دم مرا

قبر کی ہولناکی سے ڈرتا ہوں میں

کرتا ہوں اس لئے مغفرت کی دعا

لاکھ عاصی ہوں میں تو تو رحمن ہے

در گزر کر دے تو میری بس ہر خطا

کیوں تمنا کروں میں کسی غیر کی

مجھ کو جو بھی ملا تیرے در سے ملا

میری ناکام مسرت کا رکھنا بھرم

تیرے آگے جھکایا ہے پھر سر خدا

***

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193