انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 30%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95676 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ارشاد خان ارشاد (ممبرا۔ ممبئی)

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

سب خامیوں سے پاک منزہ ہے تیری ذات

*

زیبا فقط تجھی کو حمد و ثنا ہے یا رب

فخر و غرور، نخوت تیرا بجا ہے یا رب

*

برتر عظیم تر ہے اعلیٰ تیری صفات

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

*

خاکی میں جان ڈالی اس کو شعور بخشا

منھ میں زبان رکھی آنکھوں کو نور بخشا

*

رب کریم تو نے بخشی ہمیں حیات

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

*

تارے شجر حجر سب رطب اللسان تیرے

طبقات ارض تیرے یہ آسمان تیرے

*

تیرا نہیں ہے ہمسر یکتا ہے تیری ذات

تو خالق جہاں تو ہی رب کائنات

***

۱۲۱

الیاس احمد انصاری شادابؔ (آکولہ)

دل سکوں پا گیا، راحتیں مل گئیں

آفتیں ذکر سے ٹل گئیں، ٹل گئیں

*

اس زمیں پر فلک پر تری حمد ہے

خانقاہوں میں اک عالم وجد ہے

*

خشک دھرتی ہو، جل تھل تری ذات ہے

حکم سے تیرے برسی یہ برسات ہے

*

را ہوں میں زندگی کی بغاوت رہی

بندگی تیری مثل علامت رہی

*

رحمتوں سے تیری، پاپ دھل جائیں گے

پھوٹی قسمت کے سب پھول کھل جائیں گے

*

رحمتیں ہیں تری عام انسان پر

برق کیسے گرے پھر مسلمان پر

*

نام کا بحر میں بھی ترے ورد ہے

تو ہی تو میری شہہ رگ سے بھی نزد ہے

*

پاؤں کی اس رگڑسے بہا آب ہے

تو جو چاہے تو بنجر بھی شادابؔ ہے

***

۱۲۲

عرفان پربھنوی

ائے دو جہاں کے مالک تو ہی ہے رب ہمارا

تیرے سوا نہیں ہے اور کوئی رب ہمارا

*

تیری ہی میرے مولا کرتے ہیں ہم عبادت

تجھ ہی سے مانگتے ہیں ہر وقت استعانت

روز جزا کا تو ہی مالک ہے میرے مولا

دونوں جہاں کا تو ہی خالق ہے میرے مولا

*

تو نے ہی آسماں سے پانی کو ہے گرایا

تو نے زمیں سے مولا فصلوں کو ہے اگایا

تو نے ہی چاند سورج، تاروں کو ہے بنایا

تو نے ہی آسماں کو تاروں سے ہے سجایا

*

تو ہی کھلانے والا، تو ہی پلانے والا

تو ہی ہے مارنے اور تو ہی جلانے والا

حمد و ثنا کے لائق تو ہی ہے میرے مولا

عرفانؔ کی بھی سن لے یہ حمد میرے مولا

***

۱۲۳

گوہر تری کروی (میسور)

حمد ہے میری زباں پر تیری اے پروردگار

رحمتوں کا تیری صبح و شام ہوں امیدوار

*

قاضی الحاجات ہے تو یہ مرا ایمان ہے

بندۂ عاجز پہ تیرا کس قدر احسان ہے

*

ساری مخلوقات کا داتا ہے تو محتاج ہم

ہم گنہگاروں پہ برساتا ہے تو ابر کرم

*

نام سے تیرے سخن کی، کی ہے میں نے ابتدا

لطف گویائی کو بخشا تو نے میری حوصلہ

*

تو نے شیرینی عطا کی ہے مری گفتار کو

با اثر تو نے کیا ہے جرأت اظہار کو

*

بخش دی تو نے مجھے حسن تخیل کی ضیا

ذہن و دل روشن کیا ہے دے کے ذوق ارتقا

*

دل میں علم و آگاہی کی روشنی باقی رہے

فکر میں گوہرؔ کی دائم تازگی باقی رہے

*

ہے تمنا ہو عطا اقبالؔ کا سوز دروں

آخری دم تک تری حمد و ثنا کرتا رہوں

***

۱۲۴

اسماعیل پرواز (ہوڑہ)

ہے گماں پردے کے باہر اور یقیں پردے میں ہے

آپ پر تو چومئے وہ مہہ جبیں پردے میں ہے

*

آپ کتنے زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں اسے

عکس اس کا دیکھئے وہ تو مکیں پردے میں ہے

*

کتنی منطق اس میں پوشیدہ ہے کوئی کیا کہے !

سب پہ جو ظاہر ہے وہ پردہ نشیں پردے میں ہے

*

دعویٰ چشم بصیرت کھوکھلا لگنے لگا

جب عقیدت نے کہا دیکھو! یہیں پردے میں ہے

*

ہے انا الحق کی صدا تحت الثریٰ سے عرش تک

جو فلک پر ہے وہی زیر زمیں پردے میں ہے

*

راز تخلیق جہاں جس کن میں ہے پروازؔ وہ

ہے قلندر کی نظر میں یا کہیں پردے میں ہے

***

۱۲۵

زاہدہ تقدیسؔ فردوسی (جبلپور)

اے میرے خالق! مرے پروردگار

نطق دل آویز بخشا کر دگار

*

علم کی دولت عطا کی خوب تر

نعمتیں بخشیں مجھے تو نے ہزار

*

شکر ہو کیسے ادا ناچیز سے

لفظ کم احسان تیرے بے شمار

*

قوت گویائی کر مجھ کو عطا

شکر تیرا ہو زباں پر بار بار

*

زندگی کیا جانے کیسے کٹ گئی

ہوں خطاؤں پر نہایت شرمسار

*

دار فانی میں نہیں لگتا ہے دل

دامن دل ہو چکا ہے تار تار

*

دامن عصیاں کے دھبے دھو سکوں

اشک آنکھوں سے رواں ہوں زار زار

*

ہو دم آخر لبوں پر تیرا نام

ختم ہوں تقدیسؔ کے لیل و نہار

***

۱۲۶

ڈاکٹر فدا المصطفی فدوی (ساگر)

ترے جلوے ہر طرف ہیں تیری خوشبو چار سو

کس میں ہے تابِ نظارہ تجھ کو دیکھے روبرو

*

دیکھنا ممکن نہیں تجھ کو ان آنکھوں سے مگر

تو نے اپنی دید کی بخشی ہے دل کو آرزو

*

کاروان شوق سرگرداں ہے تیری راہ میں

منزل مقصود تو ہے سب کو تیری جستجو

*

صبح دم غنچے چٹک کر ذکر کرتے ہیں ترا

طائران خوش نوا کرتے ہیں تیری گفتگو

*

حاضر و ناظر ترے ہونے کا عام اقرار ہے

ہر کس و ناکس کے لب پر نعرۂ اللہ ہو

*

کبریائی کا تری کرتے ہیں دل سے اعتراف

عاجزی سے اہل ایماں سر بسجدہ با وضو

*

مل سکی ان کو نہ اپنی روسیاہی سے نجات

تیرے باغی دین و دنیا میں ہوئے کب سرخ رو

*

۱۲۷

شک ترے انصاف میں کیونکر ہو قسام ازل

عزت و ذلت بقدر ظرف عطا کرتا ہے تو

*

اک نگاہ لطف کا طالب ہوں میں بھی ساقیا!

مست و بے خود کر مجھے بے منت جام و سبو

*

مجھ پہ بھی برسے ترے عرفان کا ابر کرم

تاکہ تسکین پائے میری روح کا ذوق نمو

*

حق تری حمد و ثنا کا ہو سکا کس سے ادا

بے مثال اپنی صفات و ذات کی خوبی میں تو

*

وقت آخر کلمہ طیب پہ دم نکلے مرا

ساز دل پر گنگنائے بس یہی نغمہ ہو

*

پر معاصی فدویؔ عاصی کو بخشش کا یقین

ہے ترا فرمان محکم آیہِ ’’لاتقنطو‘‘ !

***

۱۲۸

طالوت

ڈاکٹر شرف الدین ساحل (ناگپور)

خدائے قادر و عادل!

یہ عہدِ نومزین ہے یقیناً علم و فن سے

*

مگر دراصل یہ عہدِ جہالت ہے

ترقی یافتہ حسنِ تمدن جل رہا ہے

اور عریاں ہو رہا ہے پیکرِ تہذیبِ دوراں

دھماکوں سے مسلط خوف کی ہر سو فضا ہے

*

گلا انسانیت کا گھُٹ رہا ہے

علوم و آگہی بے جان ہو کر رہ گئے ہیں

ہوائے مادیت چل رہی ہے تیز رفتاری سے دنیا میں

رخ روحانیت مرجھا رہا ہے

*

غرور و سرکشی کا رقص پیہم ہو رہا ہے

حقوق انساں کے چھینے جا رہے ہیں

فرائض رو رہے ہیں

ستم جالوت کا اب انتہا پر آ چکا ہے

*

خدائے قادر و عادل!

پھر کسی مفلس کے مسکن سے

کوئی طالوت کر ظاہر

***

۱۲۹

فہیم بسمل (شاہجہاں پور)

ہر طرف ہیں تری وحدت کے اجالے یا رب

تیری قدرت کے ہیں قرآں میں حوالے یا رب

*

دل میں آیا ترے دنیا جو بنانے کا خیال

اپنا محبوب بھی لاثانی بنانے کا خیال

*

اولاً نور محمد ؐ کیا پیدا تو نے

ورفعنا لک ذکرک سے نوازا تو نے

*

خلق قدرت سے کیے کتنے ہی عالم تو نے

اور پیدا کیا پھر پیکرِ آدم تو نے

*

تو نے تخلیق کیے چاند ستارے اللہ

بخشے مخلوق کو خوش رنگ نظارے اللہ

*

بحر و بر تیرے، ہوا تیری ہے افلاک ترے

برگ و گل تیرے ہیں بے شک خس و خاشاک ترے

*

میرا ایماں ہے یہی قادرِ مطلق تو ہے

جس کی مرضی سے ہوا ماہِ مبیں شق تو ہے

*

۱۳۰

کر دے رحمت کا اک ادنیٰ سا اشارہ معبود

میری قسمت کا بھی چمکا دے ستارا معبود

*

کب سے ہی لطف کو تر سے ہوئے ان ہاتھوں کی

لاج رکھ لے مرے پھیلے ہوئے ان ہاتھوں کی

*

مجھ کو ہر اک کی نگاہوں میں جو عزت بخشے

کاش مجھ کو وہ سلیقہ تری رحمت بخشے

*

ایک مدت سے یہ بسمل ہے پریشاں مولا

اپنی رحمت سے عطا کر اسے خوشیاں مولا

***

۱۳۱

مناجات

عرفان پربھنوی (پربھنی)

ترے ہیں تجھی سے کرم مانگتے ہیں

رحم کے ہیں طالب رحم مانگتے ہیں

*

تو ہی ہے عبادت کے لائق خدایا

تجھی سے مدد کے ہیں طالب خدایا

تجھی سے نگاہِ کرم مانگتے ہیں

*

تو ہی دو جہاں کا حقیقی ہے داتا

تو ہی بے نیاز اور یکتا ہے مولا

تو داتا ہے تجھ سے ہی ہم مانگتے ہیں

*

نہ دولت ہی دے اور نہ دے کوئی عہدہ

فقط اپنی رحمت کا دے تھوڑا صدقہ

یہی تجھ سے ہم دم بدم مانگتے ہیں

*

جو تڑپے تیری یاد میں وہ جگر دے

جو دیکھے تجھی کو بس ایسی نظر دے

ملا دے جو تجھ سے وہ غم مانگتے ہیں

*

۱۳۲

گنا ہوں پہ اپنے بہت ہوں پشیماں

تو غفار ہے بخش دے ہم کو رحماں

کرم کر کہ تیرا کرم مانگتے ہیں

*

ہو تابع تیرے میری یہ زندگانی

ہر اک حال میں ہو تیری مہربانی

یہی چیز عرفانؔ ہم مانگتے ہیں

***

۱۳۳

لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ

رزاق افسر (میسور)

ظہورِ صبح ازل لا الہ الا اللہ

حیات ہو کہ اجل لا الہ الا اللہ

*

ہمارا کل تھا وہی آج بھی وہ ہے اپنا

اصول دیں کا ہے کل لا الہ الا اللہ

*

دلیل وحدت رب لا الہ الا اللہ

مزاج عظمت رب لا الہ الا اللہ

*

طفیل رحمت خیر الانام ہے افسرؔ

سبیل قربت رب لا الہ الا اللہ

*

خدا کا خاص کرم لا الہ الا اللہ

عطائے شاہؐ امم لا الہ الا اللہ

*

سمٹ کے آ گئی ہے جس میں کائنات تمام

ارم سے تابہ حرم لا الہ الا اللہ

*

خدا کا ذکر جلی لا الہ الا اللہ

عروج شان نبیؐ لا الہ الا اللہ

*

۱۳۴

جو دل کہ مومنِ شب زندہ دار ہے اس کی

دعائے نیم شبی لا الہ الا اللہ

*

مکاں کا دست ہنر لا الہ الا اللہ

زماں کا زادِ سفر لا الہ الا اللہ

*

مری نظر میں ہے تفسیر آخری اس کی

قرآں کا نام دگر لا الہ الا اللہ

*

مدارِ فکرِ بشر لا الہ الا اللہ

قرارِ قلب و نظر لا الہ الا اللہ

*

نمودِ صبح سے تاروں کی رونمائی تک

ہے سب کا رختِ سفر لا الہ الا اللہ

*

زباں تو میری کہے لا الہ الا اللہ

سمجھ سے پر ہے پرے لا الہ الا اللہ

*

اسی پہ کھلتا ہے افسرؔ یہ بابِ رازِ خفی

جو جان و دل سے پڑھے لا الہ الا اللہ

***

۱۳۵

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ

ڈاکٹر نسیم (وارانسی)

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ

ہے کون اس سے بڑا، لا الہ الا اللہ

*

پیامِ غارِ حرا، لا الہ الا اللہ

نبیؐ کی پہلی صدا، لا الہ الا اللہ

*

اذاں کی آئی صدا، لا الہ الا اللہ

تو گونجے ارض و سما، لا الہ الا اللہ

*

کبھی یہ مشعل توحید بجھ نہیں سکتی

چلے کوئی بھی ہوا، لا الہ الا اللہ

*

یہ بحر و بر، یہ زمیں، آسماں یہ شمس و قمر

وہی ہے سب کا خدا، لا الہ الا اللہ

*

یہی وظیفہ ازل سے ہے ساری خلقت کا

ندائے ارض و سما، لا الہ الا اللہ

*

شعاع مہر جو پھوٹی افق سے وقتِ سحر

تو بادلوں پہ لکھا، لا الہ الا اللہ

*

۱۳۶

عدو ہے سارا زمانہ تو کیا خدا تو ہے ساتھ

کسی سے خوف نہ کھا، لا الہ الا اللہ

*

تو اژدہوں سے گھرا ہو تو دل میں خوف نہ لا

اٹھا لے اپنی عصا، لا الہ الا اللہ

*

وہی ہے بس، وہی شایان بندگی اے دل

وہی ہے تیرا خدا لا الہ الا اللہ

*

ترا ولی، ترا فریاد رس، ترا معبود

ہے کون اس کے سوا، لا الہ الا اللہ

*

اسے نصیب ہوا اوجِ عبدیت کا مقام

وہ جس نے دل سے پڑھا، لا الہ الا اللہ

*

تری جبیں ہے فقط اس کے سنگِ در کے لیے

اسے کہیں نہ جھکا، لا الہ الا اللہ

*

وہی ہے آسرا ٹوٹی ہوئی امیدوں کا

دکھے دلوں کی صدا، لا الہ الا اللہ

*

تو لوحِ دل پہ رقم کر اسے بہ خطِ جلی

یہی ہے نقشِ شفاء، لا الہ الا اللہ

*

۱۳۷

اسی سے چمکے گا آئینہ تیرے باطن کا

یہی ہے دل کی جِلا، لا الہ الا اللہ

*

اسی سے مانگ، تجھے جو بھی مانگنا ہے نسیمؔ

وہی سنے گا دعا، لا الہ الا اللہ

***

۱۳۸

محمد شاہد پٹھان (جئے پور)

نگاہ و دل کا نشہ لا الہ الا اللہ

ایاغِ آبِ بقا لا الہ الا اللہ

*

فضائے باغِ بلادِ حجاز میں اول

پیام لائی صبا لا الہ الا اللہ

*

حیات بخش ہے گلزارِ مصطفی کی بہار

کلی کلی کی صدا لا الہ الا اللہ

*

نشاطِ اہلِ وفا عشقِ سرورِ بطحیٰ

طریقِ اہلِ صفا لا الہ الا اللہ

*

سکندری کا نشہ تخت و تاج و حورو قصور

قلندری کی ادا لا الہ الا اللہ

*

جمال حمد و ثنا عشقِ صاحبِ لولاک

جلالِ ذکرِ خدا، لا الہ الا اللہ

*

اسے نصیب ہوئی سرفرازیِ کونین

زباں پہ جس کی رہا لا الہ الا اللہ

*

نگاہِ لطفِ محمد ؐ کا فیض ہے شاہدؔ

ہے ورد صبح و مسا لا الہ الا اللہ

***

۱۳۹

محمد ہارون سیٹھ سلیم بنگلوری

ہمیں تیری قدرت پہ ایقان ہے

تو بندوں پہ یا رب مہربان ہے

امڈ کر نہ آئے مری آنکھ سے

مرے دل میں غم کا جو طوفان ہے

پریشانیوں کو مری دور کر

یہ ناچیز بے حد پریشان ہے

تجھے رات دن یاد کرتا ہوں میں

مگر پھر بھی تو ہے کہ انجان ہے

خداوندا دے رستگاری مجھے

مری زندگی ایک زندان ہے

خطاؤں کو بندے کی کر دے معاف

یہ اولاد آدمؑ ہے انسان ہے

***

۱۴۰

ڈاکٹر سید ساجد علی (بنگلور)

مدعا ہے میرے دل کا اے مرے پروردگار

ہوں میں نافرمان بندہ اے مرے پروردگار

*

تو نے ہم جن و بشر کو جس لئے پیدا کیا

وہ عبادت ہم سے کروا ے مرے پروردگار

*

بھول کر تیری ڈگر دنیا میں کھوئے ہیں سبھی

اپنی رحمت ہم پہ برسا اے مرے پروردگار

*

ہو نزع کا وقت جب ہم کو نہ کچھ احساس ہو

خیال میں چہرہ ہو شہؐ کا اے مرے پروردگار

*

شہؐ کے صدقے ان دعاؤں کو میری کر لو قبول

کر دو بیڑا پار میرا اے مرے پروردگار

*

بندگی ساجدؔ کی تم برتر پھر اعلیٰ تر کرو

بخش دو جام اس کو ایسا اے مرے پروردگار

***

۱۴۱

محمد حسین دلبرؔ ادیبی

تو اپنی رحمتوں کی عطا بے شمار دے

بے چینیاں سمیٹ لے دل کو قرار دے

*

میخانۂ الست میں ٹوٹے نہ جو کبھی

پیمانۂ رسولؐ سے ایسا خمار دے

*

عشقِ رسولؐ جذبۂ صادق لئے ہوئے

یا رب کرم سے امت مسلم پہ وار دے

*

طوفان غم میں کشتیِ مسلم ہے، اے خدا

اپنے کرم سے پھر سر ساحل اتار دے

*

آلودہ پھر کبھی نہ ہو عصیاں کے داغ سے

نورِ نبیؐ سے سینۂ دلبرؔ نکھار دے

***

۱۴۲

سلام نجمی (بنگلور)

ہم نہیں کہتے ہمیں شان سلیمانی تو بخش

یہ بھی ہم کہتے نہیں تخت اور سلطانی تو بخش

*

کوئی منصب کوئی عہدہ اور نہ دیوانی تو بخش

ہے ضرورت جس کی اب وہ جذب ایمانی تو بخش

*

یا خدا پھر سے متاع درس قرآنی تو بخش

ہم مسلمانوں کو پھر سچی مسلمانی تو بخش

*

زندگانی کو خدایا خوئے انسانی تو بخش

ذہن و دل کو روح کو توحید افشانی تو بخش

*

صدق، اخلاص و وفا اور عشق لاثانی تو بخش

یعنی یاران نبیؐ کا وصف قربانی تو بخش

*

اقلیت کے فرق کا یا رب نہ ہو ہم کو خیال

دعوت حق کا ہمیں اندازِ فارانی تو بخش

*

ہم مٹا دیں پھر سے یا رب فتنۂ باطل تمام

خالدؓ ایوبیؓ جیسی ہم کو جولانی تو بخش

*

۱۴۳

دور کر ملت سے یا رب مسلکی ناچاقیاں

اور دلوں کو جوڑ دے آپس میں اک جانی تو بخش

*

خار زاران وطن کو نیست کر نابود کر

اور یہاں کے ذرے ذرے کو گل افشانی تو بخش

*

پیروی کرنے لگے ہیں ہم سبھی اغیار کی

پھر سے یا رب ہم کو اپنی راہ نورانی تو بخش

*

ہر طرف سے بڑھ رہی ہیں ہر طرح کی مشکلیں

مہربانی ہم پہ فرما اور آسانی تو بخش

*

شعبۂ ہستی ہوا اپنا ہر اک تاریک تر

شعبۂ ہستی کو ہر اک اپنے تابانی تو بخش

*

اس مشینی دور کی جو بے حسی ہے ذوالجلال

بہر رحمت بے حسی کو ذوق روحانی تو بخش

*

جب دیا ہے دل تو درد دل بھی کر ہم کو عطا

یعنی ہم کو درد مندی اور درمانی تو بخش

*

جس میں تو ہی تو ہو رب دل کو وہ آئینہ بنا

اور بصیرت کو ہماری جلوہ سامانی تو بخش

*

۱۴۴

میں تری شان کریمی کے تصدق رب مرے

جس سے ملت کا بھلا ہو وہ سخندانی تو بخش

*

شاعر ی میں نعت گوئی ہو مری پہچان خاص

نعت گوئی کو مری ایسی فراوانی تو بخش

*

بندگی کی دے سدا توفیق رب ذوالجلال

اور نجمیؔ کو ترے حمد و ثنا خوانی تو بخش

***

۱۴۵

سید طاہر حسین طاہر (ناندیڑ)

ظلمتوں سے نجات دے اللہ

نور والی حیات دے اللہ

*

سب کو کل کائنات دے اللہ

مجھ کو طیبہ کی رات دے اللہ

*

باطلوں سے نباہ کیا ہو گا

اہل ایماں کا ساتھ دے اللہ

*

تیری مخلوق کے جو کام آئے

مجھ میں کچھ ایسی بات دے اللہ

*

حق پرستی میں عمر کٹ جائے

قابل رشک ذات دے اللہ

*

دے ارادوں کو تو ظفریابی

حوصلوں کو ثبات دے اللہ

*

سرخروئی ہو حشر میں جس سے

مجھ میں ایسی صفات دے اللہ

*

۱۴۶

میں ہوں حالات کے شکنجے میں

گردشوں سے نجات دے اللہ

*

ہم سے باطل ہے برسر پیکار

دشمن دیں کو مات دے اللہ

*

اس گنہگار کو تو فیض کرم

باعث التفات دے اللہ

*

لکھ رہا ہے تری ثنا طاہرؔ

شاعر ی کو ثبات دے اللہ

***

۱۴۷

رجب عمر (ناگپور)

تجھے پسند ہوں ایسے مرے مشاغل کر

حیات میری ہے طوفاں تو اس کو ساحل کر

*

تری طلب میں رہوں ڈھونڈتا پھروں تجھ کو

تو اپنے چاہنے والوں میں مجھ کو شامل کر

*

سنا ہے اب بھی ہیں اصحاب فیل حرکت میں

خدایا ان پہ ابابیل پھر سے نازل کر

*

بہت کٹھن ہے رہ مستقیم پہ چلنا

تو اپنے فضل سے آساں مرے مراحل کر

*

الجھنا خطروں سے بس میں نہیں ہے اب میرے

تو اپنے لطف سے ان کو خدایا باطل کر

***

۱۴۸

علیم الدین علیم (کلکتہ)

دل سے نکلے تری ثنا یا رب

میرے لب پہ رہے سدا یا رب

*

آسماں سے زمیں کے سینے تک

جلوہ تیرا ہے جا بہ جا یا رب

*

اپنی قدرت سے سارے عالم کو

زندگی تو نے کی عطا یا رب

*

باغ میں عندلیب ہیں جتنے

گیت گاتے ہیں سب ترا یا رب

*

بے زباں یا زبان والا ہو

سب کو دیتا ہے، تو غذا یا رب

*

درد معصوم کو جو دیتا ہے

کب ملے گی اسے سزا یا رب

*

سرورؐ انبیا کی امت کو

ہے فقط آسرا ترا یا رب

*

مانگتا ہے علیمؔ کیا تجھ سے

سن لے اب اس کی بھی دعا یا رب

***

۱۴۹

حسن رضا اطہر (بوکارو سیٹی)

متاع علم و ہنر لازوال دے اللہ

مجھے بلندیِ فکر و خیال دے اللہ

*

گداز و سوزش عشق بلال دے اللہ

شراب عشق مرے دل میں ڈال دے اللہ

*

مرا وجود ہے بے سور اس لئے مجھ سے

وہ کام لے کے زمانہ مثال دے اللہ

*

سروں پہ تان دے حفظ و اماں کی اک چادر

قصور وار ہیں رحمت کی شال دے اللہ

*

خیال سختی محشر سے مرتعش ہے بدن

کوئی نجات کی صورت نکال دے اللہ

*

وفا خلوص کی خوشبو ہی جسم سے پھیلے

سرشت بد نہ کوئی ابتذال دے اللہ

*

تو ہی تو رزاق مطلق ہے مالک و خالق

نبی کے صدقے میں رزق حلال دے اللہ

***

۱۵۰

تلک راج پارس (جبل پور)

گداز ریشمی گفت و شنید ہو مولا

متاع ذہن رسا بھی جدید ہو مولا

*

اک ایسا بندہ مرے گھر میں پرورش پائے

جو تیری راہ پہ چل کر شہید ہو مولا

*

جو مرے پاس ہے تاوان ہے سخاوت کا

یہ التفات و عنایت مزید ہو مولا

*

ہمارے ذہن کو عرفان آگہی دے دے

جو نسل نو کے لئے بھی مفید ہو مولا

*

یہ بد نمائی نمائش کبھی نہ کر پائے

جو احتجاج کا جذبہ شدید ہو مولا

*

ہمارے خون کی ہر بوند تیغ بن جائے

نظر کے سامنے جب بھی یزید ہو مولا

*

قبول ساری عبادت ہو روزہ داروں کی

جو تیری مرضی ہے ویسی ہی عید ہو مولا

***

۱۵۱

رخشاں ہاشمی (مونگیر)

اس فضا کو نکھار دے یا رب

سب کے دل میں تو پیار دے یا رب

*

نیک رستہ پہ تو چلا سب کو

سب کی دنیا سنوار دے یا رب

*

بندگی تیری بس ہم کرتے رہیں

زندگی با وقار دے یا رب

*

غم کے دن کو گزار لوں ہنس کر

حوصلہ دے اعتبار دے یا رب

*

تنگ پڑ جائے رخشاں ؔ کا دامن

خوشیوں کی تو، بہار دے یا رب

***

۱۵۲

رئیس احمد رئیس (بدایوں )

بدی کی راہ سے مجھ کو ہٹا دے یا اللہ

مطیع احمد مرسل بنا دے یا اللہ

*

تمام عمر حقیقت کو یہ بیان کرے

مری زبان کو وہ حوصلہ دے یا اللہ

*

جو میری نسلوں کا اب تک رہی ہے سرمایہ

دلوں میں پھر وہی الفت جگا دے یا اللہ

*

ہر ایک سمت جہالت کا بول بالا ہے

یہاں تو علم کی شمعیں جلا دے یا اللہ

*

تمام شہر میں، میں منفرد نظر آؤں !

تو میری ذات مثالی بنا دے یا اللہ!

*

ہر ایک لمحہ تیرا نام ہو زباں پہ مری!

تو مجھ کو اپنا دیوانہ بنا دے یا اللہ

*

ترے وجود کو تسلیم کر لیں منکر بھی!

کوئی تو معجزہ ایسا دکھا دے یا اللہ

*

تو اپنے پیارے نبیؐ رحمت دو عالم کی

دل رئیسؔ میں الفت جگا دے یا اللہ

***

۱۵۳

امیر اللہ عنبر خلیقی (ناگپور)

عرفان و آگاہی پاؤں، حرف ہدایت دے داتا

خود سمجھوں، سب کو سمجھاؤں ایسی صداقت دے داتا

*

رسم جہاں جانی پہچانی، دولت و شہرت آنی جانی

دائم و قائم جو رہ جائے، ایسی عزت دے داتا

*

ظلم و ستم کرنا ہے کس کو، جور و جفا سہنا ہے کس کو

رحم کرے جو انسانوں پر، ایسی مروت دے داتا

*

میں نے ہر خواہش کو چھوڑا، تیری جانب رخ کو موڑا

میں مخلص تیرا بندہ ہوں، رحمت و برکت دے داتا

*

حرص و ہوس کے چلتے جھونکے، دنیا میں مطلب اور دھوکے

اخلاق و اخلاص نبھاؤں، اتنی شرافت دے داتا

*

جھوٹ کا جب ماحول ہوا ہے جھوٹ یہاں انمول ہوا ہے

جگ میں ہمیشہ سچ کہنے کی جرأت و ہمت دے داتا

*

بجلی کوندے محنت کی اور برق بھی کوندے غیرت کی

میری رگ رگ اور لہو میں ایسی حرارت دے داتا

*

کرنے کو اصلاحی خدمت، عنبرؔ کو ابلاغ سے نسبت

ذکر میں کچھ ندرت لانے کو، فکر میں رفعت دے داتا

***

۱۵۴

ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی (بہرائچ)

یا رب نبیؐ کے باغ کی قربت نصیب ہو

مجھ کو میری حیات میں جنت نصیب ہو

*

نار سقر سے مجھ کو برأت نصیب ہو

سرکار دو جہاں کی محبت نصیب ہو

*

میدانِ حشر میں جو مرے کام آ سکے

محبوب دو جہاں کی وہ چاہت نصیب ہو

*

غم ہائے روزگار سے تنگ آ چکا ہوں میں

شہر نبیؐ میں مجھ کو سکونت نصیب ہو

*

میں بھی شفیع حشر کا ادنیٰ غلام ہوں

محشر کے روز مجھ کو شفاعت نصیب ہو

*

اچھے برے کی کچھ تو میں تمیز کر سکوں

روشن دماغ، چشم بصیرت نصیب ہو

*

جو سرزمین طیبہ پہ پہنچا سکے ہمیں

یا رب ہمیں وہ قوت و ہمت نصیب ہو

*

۱۵۵

بس اتنی التجا ہے مری تجھ سے اے خدا

دیدارِ مصطفی کی اجازت نصیب ہو

*

کوئی قمرؔ رئیس کو کاذب نہ کہہ سکے

بوبکرؓ کی اسے بھی صداقت نصیب ہو

***

۱۵۶

بیتاب کیفی (بھوجپور)

ہم پہ ہر وقت عنایت کی نظر ہو یا رب

زندگی نور کے سایہ میں بسر ہو یا رب

*

دل کی گہرائی سے ہر بات زباں تک آئے

ذہن روشن ہو دعاؤں میں اثر ہو یا رب

*

حسن اخلاق و محبت کی عطا ہو دولت

خدمت خلق سے لبریز جگر ہو یا رب

*

ایک پل بھی نہ تری یاد سے دل غافل ہو

بس اسی طرح بسر شام و سحر ہو یا رب

*

ہر طرف آج حوادث کی گھٹا چھائی ہے

اک نظر خاص نوازش کی ادھر ہو یا رب

*

دشمنوں کے لئے ہو درد کا دریا دل میں

دوستوں کو بھی منانے کا ہنر ہو یا رب

*

بخش دے گا تو گنا ہوں کو یقین کامل ہے

قلب صادق سے مناجات اگر ہو یا رب

*

۱۵۷

ہاتھ سے دامن تہذیب نہ چھوٹے ہرگز

عدل و انصاف کا ہر معرکہ سر ہو یا رب

*

دیکھ بس ایک دفعہ شہر مدینہ جا کر

زندگانی میں کبھی نیک سفر ہو یا رب

*

بھول کر آئے نہ اس سمت خزاں کا موسم

پھول کی طرح مہکتا ہوا گھر ہو یا رب

*

کج روی پر نہ حسیں قلب کبھی مائل ہو

ہر گھڑی پیش نظر سیدھی ڈگر ہو یا رب

*

جب بھی بیتابؔ مری روح بدن سے نکلے

سامنے سید کونین کا در ہو یا رب

***

۱۵۸

عارف حسین افسر (بلندشہری)

یا الٰہی پاک و اعلیٰ تیری ذات

معرفت سے ماوراء تیری صفات

*

بھیج سیدنا محمد ؐ پر سلام

حیثیت سے اپنی برکت اور صلوٰۃ

*

بخش دے یا رب خطاؤں کو مری

خیر میں تبدیل فرما سیّات

*

نفس اور شیطاں کے شر سے دے پناہ

دے بلاؤں اور فتنوں سے نجات

*

کر دئے تیرے حوالے معاملات

میرے رب تو ہی حل المشکلات

***

۱۵۹

حبیب سیفی آغاپوری (نئی دہلی)

خالق دو جہاں سن مری التجا

مجھ کو رکھنا فقط اپنے در کا گدا

سب سہارے ہیں دنیا کے جھوٹے خدا

تیری ہی ذات ہے اے خدا ماوریٰ

سارا عالم فنا ہونا ہے ایک دن

میرا ایمان ہے صرف تو ہے بقا

وحدہٗ لاشریک لہٗ، تو ہی تو

کر دیا ہے زباں سے بیاں مدعا

باقی کچھ جان ہے اور یہ ارمان ہے

ساتھ ایمان کے نکلے بس دم مرا

قبر کی ہولناکی سے ڈرتا ہوں میں

کرتا ہوں اس لئے مغفرت کی دعا

لاکھ عاصی ہوں میں تو تو رحمن ہے

در گزر کر دے تو میری بس ہر خطا

کیوں تمنا کروں میں کسی غیر کی

مجھ کو جو بھی ملا تیرے در سے ملا

میری ناکام مسرت کا رکھنا بھرم

تیرے آگے جھکایا ہے پھر سر خدا

***

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193