انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 30%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95651 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

انتخاب حمد و مناجات

قرطاس ناگپور کے حمد و مناجات نمبر کا نظمیہ حصہ

مدیر : محمد امین الدین

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

۳

سورۂ الفاتحہ

(آزاد منظوم ترجمہ)

امتیاز الدین خان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا وصف ہو تیرا بیاں، اللہ رب العالمیں

بے حد رحیم و مہرباں، اللہ رب العالمیں

*

اے مالک روز جزا، ( اللہ رب العالمیں)

معبود بس تو ہی مرا، ( اللہ رب العالمیں)

*

تو ہی مرا حاجت روا، ( اللہ رب العالمیں)

دکھلا دے سیدھا راستہ، ( اللہ رب العالمیں)

*

جو راہ ان لوگوں کی ہے جن کو تری نعمت ملی

ان کی نہیں ہرگز جنھیں گمراہی و ذلت ملی

***

۴

حمد

حضرت ادیب مالیگانوی مرحوم

(۱)

میں کون ہوں ستم کش نیرنگ روزگار

میں کون ہوں خفائے زمانہ کا اک شکار

*

ناکامیِ حیات سے دل داغ داغ ہے

سینہ بنا ہے خونِ تمنائے لالہ زار

*

ہر شے سے ہے عیاں مری افسردگی کا رنگ

گویا ہے کائنات مرے غم میں سوگوار

*

میں نے خزاں کی گود میں پائی ہے پرورش

شایاں مرے چمن کے نہیں عشرت بہار

*

اک عالم سکوت ہے دنیائے آرزو

ٹوٹا ہوا ہے زمزمۂ زندگی کا تار

*

مایوسیوں سے دل کا کنول ہے بجھا ہوا

ہے زندگی کو مجھ سے، مجھے زندگی سے عار

*

محرومیِ سکون و مسرت کہاں تلک

یہ بزم رنگ و بو ہے مرے حق میں خارزار

*

۵

اے رب ذوالجلال خداوند کردگار

سن ! اک غریب و بیکس و مجبور کی پکار

*

تو وہ کہ اک اشارۂ چشم کرم ترا

جاری کرے پہاڑ کے سینے سے جوئبار

*

تو وہ کہ تیری بارش الطاف و رحم سے

ہو سرزمین دشت و بیاباں بھی لالہ زار

*

تیری رضا اگر ہو چمن بند کائنات

پیدا خزاں کے ساز سے ہو نغمہ بہار

*

باہر ہے میرے ظرف سے اب امتحان ترا

اے ذوالکرام! جوش کرم ہے کہاں ترا

*

وہ رحمتِ تمام کہ ہے تیری شان خاص

یا رب ادیبؔ کو بھی اسی کا ہے انتظار

***

۶

(۲)

یہ عرش اے مولا ترے جلووں سے سجا ہے

ان چاند ستاروں میں ترا نور بھرا ہے

*

پھولوں کی قباؤں پہ ہے تیری ہی نگارش

تتلی کے پروں کو ترے ہاتھوں نے رچا ہے

*

گلشن کی کیاری تیری خوشبو سے بھری ہے

غنچوں کی بناوٹ میں ترا نقش چھپا ہے

*

انگڑائیاں لیتی ہیں فقط تیری بدولت

جو سوئے فلک چھائی ہوئی کالی گھٹا ہے

*

جو چاہے کھلی آنکھ سے پڑھ لے اسے مولا

افلاک کی تختی پہ ترا نام لکھا ہے

***

۷

(۳)

آسماں تیرا ہے یہ شمس و قمر تیرے ہیں

یہ افق نور شفق، شام و سحر تیرے ہیں

*

آتے جاتے ہوے یہ شادی و غم کے موسم

ان کے معمول میں جو بھی ہیں اثر تیرے ہیں

*

سائباں بن کے کھڑی ہے تیری رحمت ہر سو

مجھ پہ جو سایہ فگن ہیں وہ شجر تیرے ہیں

*

تو نے ہی بخشی ہے یہ فطرت حساس مجھے

ہیں جو اس دل کے صدف میں وہ گہر تیرے ہیں

*

تیرے بخشے ہوئے جلوے ہیں خدایا مجھ میں

میرے اندر جو نمایاں ہیں ہنر تیرے ہیں

*

ہے جو ہستی میں میری روح امانت ہے تری

دل کے اندر سبھی آباد نگر تیرے ہیں

***

۸

حمد

الحاج حکیم رازیؔ ادیبی (پونہ)

ازل سے ہے تو ہی تجھی کو بقا ہے

تو مالک ہے سب کا تو سب کا خدا ہے

*

ہو تعریف جتنی بھی تیری بجا ہے

تو ہی اک سزا وار حمد و ثنا ہے

*

ترے آستاں پر مرا سر جھکا ہے

مری ابتدا تو مری انتہا ہے

*

زمانے میں ہر شے کی تکمیل تجھ سے

تو رہ رو ہے رستہ ہے منزل نما ہے

*

کرم سے تو اس کا بھی کشکول بھر دے

الٰہی ترے در کا رازیؔ گدا ہے

***

۹

حمد

ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی (بہرائچ)

کرم وہ کر دے خدایا تری ثنا لکھوں

میں اپنے آپ کو بندہ تجھے خدا لکھوں

*

میں آرزو کوئی لکھوں یا مدعا لکھوں

نوازشوں کا تری پہلے شکریہ لکھوں

*

نہ تجھ سے پہلے کوئی اور نہ تیرے بعد کوئی

بلند سب سے ترا کیوں نہ مرتبہ لکھوں

*

صفات و ذات میں تیرا کوئی نہیں ثانی

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ تجھ کو کیا لکھوں

*

یہ لوح و عرش یہ کرسی یہ آسماں یہ زمیں

تمام عمر میں صناعی خدا لکھوں

*

ہر ایک چیز کا رشتہ تو تیری ذات سے ہے

میں کس کو ذات سے تیری بھلا جدا لکھوں

*

بلا کے عرش پہ آقا کو دیکھنے والے

میں اس ادا کو تری کون سی ادا لکھوں

*

۱۰

خلیل و نوح کو بھی تو نے آسرا ہے دیا

غلط نہ ہو گا اگر تجھ کو آسرا لکھوں

*

تجھے تو خالق ہر دو جہاں بھی کہتے ہیں

تجھے میں ذات کا اپنی نہ کیوں پتا لکھوں

***

۱۱

حمد

قیصر شمیم (کولکتہ)

صبح تیری عطا، شام تیری عطا

کام کے بعد آرام، تیری عطا

*

قصۂ غم کا آغاز تیرا کرم

نیک پھر اس کا انجام، تیری عطا

*

ایک شب کا سماں، راہ کی تیرگی

روشنی پھر بہر گام تیری عطا

*

حوصلوں کی بلندی پہ تیری نظر

آزمائش کے ایام، تیری عطا

*

لا مکاں تو ہے، لیکن مکاں کے لیے

در نوازش تری، بام، تیری عطا

*

ذکر جس کا ترے نام کے بعد ہے

میرے ہونٹوں کو وہ نام، تیری عطا

*

آنسوؤں کی زباں میں حکایات دل

چشم تر کو یہ انعام، تیری عطا

*

کاسۂ فن میں قیصرؔ کے اے ذوالکرم!

دولت عز و ا کرام تیری عطا

***

۱۲

حمد

قیصر شمیم (کولکتہ)

میں اندھیرے میں ہوں، روشنی دے خدا

آگہی دے خدا، آگہی دے خدا

*

تیرے بندے کا دل بجھ نہ جائے کہیں

غم دیئے ہیں بہت، کچھ خوشی دے خدا

*

یا خدا، یا خدا کی صدا لب پہ ہو

وجد کرتی ہوئی زندگی دے خدا

*

میں طلب گار دریا کا تجھ سے نہیں

کب سے پیاسا ہوں، اک بوند ہی دے خدا

*

درپہ تیرے رہوں آخری سانس تک

اس طرح کی مجھے بندگی دے خدا

*

ایک دنیا خودی میں گرفتار ہے

بے خودی دے خدا، بے خودی دے خدا

*

ساز قیصرؔ کو تو نے دیا ہے تو پھر

اس کی آواز کو سوز بھی دے خدا

***

۱۳

حمد

ڈاکٹر زبیر قمر دیگلوری (دیگلور)

تو ہی سب کا خدا اے خدا

نا کوئی دوسرا ائے خدا

*

تو ہی معبود مولا تو ہی

ہے نہ کوئی الہٰ ائے خدا

*

چاند تارے فلک یہ زمیں

سب میں جلوہ ترا ائے خدا

*

اب تری قوم کا رکھ بھرم

راہ حق پر چلا ائے خدا

*

فرش سے عرش تک تو ہی تو

تو ہی سب کا خدا ائے خدا

*

حمد لکھتا رہوں میں سدا

ائے خدا ائے خدا ائے خدا

*

روز محشر قمرؔ پر ذرا

کر کرم ائے خدا ائے خدا

***

۱۴

محمد ہارون سیٹھ سلیم (بنگلور)

کشتی میری ڈوب رہی ہے بیچ بھنور میں اے مولا

میرا معاون کوئی نہیں ہے بحر و بدر میں اے مولا

*

وسط سمندر میرے مالک، میں ہی ایک اکیلا ہوں

میرا ساتھی کوئی نہیں ہے آج سفر میں اے مولا

*

نہ میں زاہد نہ میں عابد، میں تو بس اک عارف ہوں

مجھ کو یقیں ہے، سب ہیں برابر تیری نظر میں اے مولا

*

سوکھے ہوئے بھرپور شجر تھے جتنے بھی تھے باغوں میں

برگ و ثمر کو دیکھا میں نے، ایک شجر میں اے مولا

*

کہتے ہیں کہ نام خدا کا ثبت ہے ذرے ذرے پر

ڈھونڈ رہا تھا نام ترا میں لعل و گہر میں اے مولا

*

پھیلا ہے جو نور منور سارے جہاں میں شام و سحر

اس کا مطلب تو ہی تو ہے، شمس و قمر میں اے مولا

*

گزریں گے جب خضر یہاں سے حال سناؤں گا اپنا

پلکیں بچھائے کب سے کھڑا ہوں، راہ خضر میں اے مولا

*

۱۵

شہر میں سارے شور شرابا ہو گا یہ امید نہ تھی

مہر و وفا کا نام نہیں ہے، سارے نگر میں اے مولا

*

گھاؤ مرے بھرنے کے لیے دنیا میں کوئی جراح نہیں

بڑھنے لگا ہے درد مسلسل زخم جگر میں اے مولا

*

نوع انساں ہو گئی قابض دیکھو چاند ستاروں پر

آئی کہاں سے اتنی فراست آج بشر میں اے مولا

*

رکھوالی تو کرنا اس کی بندہ سیدھا سادہ ہے

سلیمؔ کے جانی دشمن ہوں گے ڈگر ڈگر میں اے مولا

***

۱۶

ڈاکٹر فیض اشرف فیض (اکبرآبادی)

یا رب پیا ہے میں نے وحدت کا جام تیرا

دل میں ہے یاد تیری، لب پر ہے نام تیرا

*

ہو گی حیات روشن، تحقیق ذات حق سے

قرآن میں لکھا ہے ہر اک کلام تیرا

*

عقل و شعور انساں، حیرت میں ہے خدایا

وہم و گمان سے ہے بالا مقام تیرا

*

وہ دیکھتے ہیں تیری ہر ایک شے میں قدرت

اہل نظر کی خاطر جلوہ ہے عام تیرا

*

تیرے ہی حسن ظن کا ہر ذرہ آئینہ ہے

ہم لوگ دیکھتے ہیں حسن تمام تیرا

*

اس شخص کے لئے تو جنت بھی منتظر ہے

یا رب ہے جس کے دل میں عشق دوام تیرا

*

پی کر وہی مئے حق پائے گا فیض ہر دم

جس کو نصیب ہو گا، پر کیف جام تیرا

*

۱۷

ہو گا دماغ روشن جس کے مطالعہ سے

قرآن میں لکھا ہے ایسا کلام تیرا

*

تیرے ہی حسن کا ہے ہر ایک حسن پر تو

سب لوگ دیکھتے ہیں حسن تمام تیرا

*

وہ دیکھتا ہے ہر اک شے میں تراہی جلوہ

اہل نظر کی خاطر جلوہ ہے عام تیرا

*

پی کر وہی مئے وحدت کامیاب ہو گا

جس کو نصیب ہو گا پر کیف جام تیرا

*

پروردگار تیرا عاشق ہے یہ سخنور

جاوید فیضؔ کے ہونٹوں پر ہے نام تیرا

***

۱۸

یونس انیس (ناگپور)

لازم ہے کہ ہر حمد کا عنوان خدا ہے

جب شان کی بات آئے تو ذیشان خدا ہے

*

غفار ہے، ستار ہے، سبحان خدا ہے

جبار ہے، قہار ہے، لافان خدا ہے

*

توحید خدا کی صفت اول و آخر

مقصود ہو معبود تو ہر آن خدا ہے

*

مسجود ملائک ہے وہ مسجود جن و انس

سجدہ اسے زیبا ہے وہ ذی شان خدا ہے

*

یہ گردش ایام، یہ نیرنگیِ افلاک

لاریب یہ سب کچھ ترا فرمان خدا ہے

*

ہر چیز کا خالق ہے وہ ہر چیز کا مالک

سب جھوٹ یہ انسان، وہ انسان خدا ہے

*

عقبیٰ کا کوئی خوف نہ دنیا کا کوئی ڈر

واللہ انیسؔ اپنا نگہبان خدا ہے

***

۱۹

ظفر کلیم (ناگپور)

وہ مرا رب مرا خدا سب کچھ

میں تو اس کا ہوں وہ مرا سب کچھ

*

ہے سبھی کچھ اسی کے قبضے میں

آگ، مٹی، ہوا، گھٹا سب کچھ

*

لفظ کن سے یہ کائنات بنی

کن کہا اس نے ہو گیا سب کچھ

*

کام سارے ہماری مرضی کے

ہے اسی کی مگر رضا سب کچھ

*

میں کسی اور سے نہ کچھ مانگوں

مجھ کو اس نے کیا عطا سب کچھ

*

چھین لیں جب بلندیاں اس نے

یاد آیا کہ ہے خدا سب کچھ

*

جان لیجے نہیں کوئی کچھ بھی

مان لیجے ظفرؔ خدا سب کچھ

***

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193