انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 30%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95643 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ارشاد خان ارشاد (ممبرا۔ ممبئی)

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

سب خامیوں سے پاک منزہ ہے تیری ذات

*

زیبا فقط تجھی کو حمد و ثنا ہے یا رب

فخر و غرور، نخوت تیرا بجا ہے یا رب

*

برتر عظیم تر ہے اعلیٰ تیری صفات

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

*

خاکی میں جان ڈالی اس کو شعور بخشا

منھ میں زبان رکھی آنکھوں کو نور بخشا

*

رب کریم تو نے بخشی ہمیں حیات

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

*

تارے شجر حجر سب رطب اللسان تیرے

طبقات ارض تیرے یہ آسمان تیرے

*

تیرا نہیں ہے ہمسر یکتا ہے تیری ذات

تو خالق جہاں تو ہی رب کائنات

***

۱۲۱

الیاس احمد انصاری شادابؔ (آکولہ)

دل سکوں پا گیا، راحتیں مل گئیں

آفتیں ذکر سے ٹل گئیں، ٹل گئیں

*

اس زمیں پر فلک پر تری حمد ہے

خانقاہوں میں اک عالم وجد ہے

*

خشک دھرتی ہو، جل تھل تری ذات ہے

حکم سے تیرے برسی یہ برسات ہے

*

را ہوں میں زندگی کی بغاوت رہی

بندگی تیری مثل علامت رہی

*

رحمتوں سے تیری، پاپ دھل جائیں گے

پھوٹی قسمت کے سب پھول کھل جائیں گے

*

رحمتیں ہیں تری عام انسان پر

برق کیسے گرے پھر مسلمان پر

*

نام کا بحر میں بھی ترے ورد ہے

تو ہی تو میری شہہ رگ سے بھی نزد ہے

*

پاؤں کی اس رگڑسے بہا آب ہے

تو جو چاہے تو بنجر بھی شادابؔ ہے

***

۱۲۲

عرفان پربھنوی

ائے دو جہاں کے مالک تو ہی ہے رب ہمارا

تیرے سوا نہیں ہے اور کوئی رب ہمارا

*

تیری ہی میرے مولا کرتے ہیں ہم عبادت

تجھ ہی سے مانگتے ہیں ہر وقت استعانت

روز جزا کا تو ہی مالک ہے میرے مولا

دونوں جہاں کا تو ہی خالق ہے میرے مولا

*

تو نے ہی آسماں سے پانی کو ہے گرایا

تو نے زمیں سے مولا فصلوں کو ہے اگایا

تو نے ہی چاند سورج، تاروں کو ہے بنایا

تو نے ہی آسماں کو تاروں سے ہے سجایا

*

تو ہی کھلانے والا، تو ہی پلانے والا

تو ہی ہے مارنے اور تو ہی جلانے والا

حمد و ثنا کے لائق تو ہی ہے میرے مولا

عرفانؔ کی بھی سن لے یہ حمد میرے مولا

***

۱۲۳

گوہر تری کروی (میسور)

حمد ہے میری زباں پر تیری اے پروردگار

رحمتوں کا تیری صبح و شام ہوں امیدوار

*

قاضی الحاجات ہے تو یہ مرا ایمان ہے

بندۂ عاجز پہ تیرا کس قدر احسان ہے

*

ساری مخلوقات کا داتا ہے تو محتاج ہم

ہم گنہگاروں پہ برساتا ہے تو ابر کرم

*

نام سے تیرے سخن کی، کی ہے میں نے ابتدا

لطف گویائی کو بخشا تو نے میری حوصلہ

*

تو نے شیرینی عطا کی ہے مری گفتار کو

با اثر تو نے کیا ہے جرأت اظہار کو

*

بخش دی تو نے مجھے حسن تخیل کی ضیا

ذہن و دل روشن کیا ہے دے کے ذوق ارتقا

*

دل میں علم و آگاہی کی روشنی باقی رہے

فکر میں گوہرؔ کی دائم تازگی باقی رہے

*

ہے تمنا ہو عطا اقبالؔ کا سوز دروں

آخری دم تک تری حمد و ثنا کرتا رہوں

***

۱۲۴

اسماعیل پرواز (ہوڑہ)

ہے گماں پردے کے باہر اور یقیں پردے میں ہے

آپ پر تو چومئے وہ مہہ جبیں پردے میں ہے

*

آپ کتنے زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں اسے

عکس اس کا دیکھئے وہ تو مکیں پردے میں ہے

*

کتنی منطق اس میں پوشیدہ ہے کوئی کیا کہے !

سب پہ جو ظاہر ہے وہ پردہ نشیں پردے میں ہے

*

دعویٰ چشم بصیرت کھوکھلا لگنے لگا

جب عقیدت نے کہا دیکھو! یہیں پردے میں ہے

*

ہے انا الحق کی صدا تحت الثریٰ سے عرش تک

جو فلک پر ہے وہی زیر زمیں پردے میں ہے

*

راز تخلیق جہاں جس کن میں ہے پروازؔ وہ

ہے قلندر کی نظر میں یا کہیں پردے میں ہے

***

۱۲۵

زاہدہ تقدیسؔ فردوسی (جبلپور)

اے میرے خالق! مرے پروردگار

نطق دل آویز بخشا کر دگار

*

علم کی دولت عطا کی خوب تر

نعمتیں بخشیں مجھے تو نے ہزار

*

شکر ہو کیسے ادا ناچیز سے

لفظ کم احسان تیرے بے شمار

*

قوت گویائی کر مجھ کو عطا

شکر تیرا ہو زباں پر بار بار

*

زندگی کیا جانے کیسے کٹ گئی

ہوں خطاؤں پر نہایت شرمسار

*

دار فانی میں نہیں لگتا ہے دل

دامن دل ہو چکا ہے تار تار

*

دامن عصیاں کے دھبے دھو سکوں

اشک آنکھوں سے رواں ہوں زار زار

*

ہو دم آخر لبوں پر تیرا نام

ختم ہوں تقدیسؔ کے لیل و نہار

***

۱۲۶

ڈاکٹر فدا المصطفی فدوی (ساگر)

ترے جلوے ہر طرف ہیں تیری خوشبو چار سو

کس میں ہے تابِ نظارہ تجھ کو دیکھے روبرو

*

دیکھنا ممکن نہیں تجھ کو ان آنکھوں سے مگر

تو نے اپنی دید کی بخشی ہے دل کو آرزو

*

کاروان شوق سرگرداں ہے تیری راہ میں

منزل مقصود تو ہے سب کو تیری جستجو

*

صبح دم غنچے چٹک کر ذکر کرتے ہیں ترا

طائران خوش نوا کرتے ہیں تیری گفتگو

*

حاضر و ناظر ترے ہونے کا عام اقرار ہے

ہر کس و ناکس کے لب پر نعرۂ اللہ ہو

*

کبریائی کا تری کرتے ہیں دل سے اعتراف

عاجزی سے اہل ایماں سر بسجدہ با وضو

*

مل سکی ان کو نہ اپنی روسیاہی سے نجات

تیرے باغی دین و دنیا میں ہوئے کب سرخ رو

*

۱۲۷

شک ترے انصاف میں کیونکر ہو قسام ازل

عزت و ذلت بقدر ظرف عطا کرتا ہے تو

*

اک نگاہ لطف کا طالب ہوں میں بھی ساقیا!

مست و بے خود کر مجھے بے منت جام و سبو

*

مجھ پہ بھی برسے ترے عرفان کا ابر کرم

تاکہ تسکین پائے میری روح کا ذوق نمو

*

حق تری حمد و ثنا کا ہو سکا کس سے ادا

بے مثال اپنی صفات و ذات کی خوبی میں تو

*

وقت آخر کلمہ طیب پہ دم نکلے مرا

ساز دل پر گنگنائے بس یہی نغمہ ہو

*

پر معاصی فدویؔ عاصی کو بخشش کا یقین

ہے ترا فرمان محکم آیہِ ’’لاتقنطو‘‘ !

***

۱۲۸

طالوت

ڈاکٹر شرف الدین ساحل (ناگپور)

خدائے قادر و عادل!

یہ عہدِ نومزین ہے یقیناً علم و فن سے

*

مگر دراصل یہ عہدِ جہالت ہے

ترقی یافتہ حسنِ تمدن جل رہا ہے

اور عریاں ہو رہا ہے پیکرِ تہذیبِ دوراں

دھماکوں سے مسلط خوف کی ہر سو فضا ہے

*

گلا انسانیت کا گھُٹ رہا ہے

علوم و آگہی بے جان ہو کر رہ گئے ہیں

ہوائے مادیت چل رہی ہے تیز رفتاری سے دنیا میں

رخ روحانیت مرجھا رہا ہے

*

غرور و سرکشی کا رقص پیہم ہو رہا ہے

حقوق انساں کے چھینے جا رہے ہیں

فرائض رو رہے ہیں

ستم جالوت کا اب انتہا پر آ چکا ہے

*

خدائے قادر و عادل!

پھر کسی مفلس کے مسکن سے

کوئی طالوت کر ظاہر

***

۱۲۹

فہیم بسمل (شاہجہاں پور)

ہر طرف ہیں تری وحدت کے اجالے یا رب

تیری قدرت کے ہیں قرآں میں حوالے یا رب

*

دل میں آیا ترے دنیا جو بنانے کا خیال

اپنا محبوب بھی لاثانی بنانے کا خیال

*

اولاً نور محمد ؐ کیا پیدا تو نے

ورفعنا لک ذکرک سے نوازا تو نے

*

خلق قدرت سے کیے کتنے ہی عالم تو نے

اور پیدا کیا پھر پیکرِ آدم تو نے

*

تو نے تخلیق کیے چاند ستارے اللہ

بخشے مخلوق کو خوش رنگ نظارے اللہ

*

بحر و بر تیرے، ہوا تیری ہے افلاک ترے

برگ و گل تیرے ہیں بے شک خس و خاشاک ترے

*

میرا ایماں ہے یہی قادرِ مطلق تو ہے

جس کی مرضی سے ہوا ماہِ مبیں شق تو ہے

*

۱۳۰

کر دے رحمت کا اک ادنیٰ سا اشارہ معبود

میری قسمت کا بھی چمکا دے ستارا معبود

*

کب سے ہی لطف کو تر سے ہوئے ان ہاتھوں کی

لاج رکھ لے مرے پھیلے ہوئے ان ہاتھوں کی

*

مجھ کو ہر اک کی نگاہوں میں جو عزت بخشے

کاش مجھ کو وہ سلیقہ تری رحمت بخشے

*

ایک مدت سے یہ بسمل ہے پریشاں مولا

اپنی رحمت سے عطا کر اسے خوشیاں مولا

***

۱۳۱

مناجات

عرفان پربھنوی (پربھنی)

ترے ہیں تجھی سے کرم مانگتے ہیں

رحم کے ہیں طالب رحم مانگتے ہیں

*

تو ہی ہے عبادت کے لائق خدایا

تجھی سے مدد کے ہیں طالب خدایا

تجھی سے نگاہِ کرم مانگتے ہیں

*

تو ہی دو جہاں کا حقیقی ہے داتا

تو ہی بے نیاز اور یکتا ہے مولا

تو داتا ہے تجھ سے ہی ہم مانگتے ہیں

*

نہ دولت ہی دے اور نہ دے کوئی عہدہ

فقط اپنی رحمت کا دے تھوڑا صدقہ

یہی تجھ سے ہم دم بدم مانگتے ہیں

*

جو تڑپے تیری یاد میں وہ جگر دے

جو دیکھے تجھی کو بس ایسی نظر دے

ملا دے جو تجھ سے وہ غم مانگتے ہیں

*

۱۳۲

گنا ہوں پہ اپنے بہت ہوں پشیماں

تو غفار ہے بخش دے ہم کو رحماں

کرم کر کہ تیرا کرم مانگتے ہیں

*

ہو تابع تیرے میری یہ زندگانی

ہر اک حال میں ہو تیری مہربانی

یہی چیز عرفانؔ ہم مانگتے ہیں

***

۱۳۳

لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ

رزاق افسر (میسور)

ظہورِ صبح ازل لا الہ الا اللہ

حیات ہو کہ اجل لا الہ الا اللہ

*

ہمارا کل تھا وہی آج بھی وہ ہے اپنا

اصول دیں کا ہے کل لا الہ الا اللہ

*

دلیل وحدت رب لا الہ الا اللہ

مزاج عظمت رب لا الہ الا اللہ

*

طفیل رحمت خیر الانام ہے افسرؔ

سبیل قربت رب لا الہ الا اللہ

*

خدا کا خاص کرم لا الہ الا اللہ

عطائے شاہؐ امم لا الہ الا اللہ

*

سمٹ کے آ گئی ہے جس میں کائنات تمام

ارم سے تابہ حرم لا الہ الا اللہ

*

خدا کا ذکر جلی لا الہ الا اللہ

عروج شان نبیؐ لا الہ الا اللہ

*

۱۳۴

جو دل کہ مومنِ شب زندہ دار ہے اس کی

دعائے نیم شبی لا الہ الا اللہ

*

مکاں کا دست ہنر لا الہ الا اللہ

زماں کا زادِ سفر لا الہ الا اللہ

*

مری نظر میں ہے تفسیر آخری اس کی

قرآں کا نام دگر لا الہ الا اللہ

*

مدارِ فکرِ بشر لا الہ الا اللہ

قرارِ قلب و نظر لا الہ الا اللہ

*

نمودِ صبح سے تاروں کی رونمائی تک

ہے سب کا رختِ سفر لا الہ الا اللہ

*

زباں تو میری کہے لا الہ الا اللہ

سمجھ سے پر ہے پرے لا الہ الا اللہ

*

اسی پہ کھلتا ہے افسرؔ یہ بابِ رازِ خفی

جو جان و دل سے پڑھے لا الہ الا اللہ

***

۱۳۵

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ

ڈاکٹر نسیم (وارانسی)

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ

ہے کون اس سے بڑا، لا الہ الا اللہ

*

پیامِ غارِ حرا، لا الہ الا اللہ

نبیؐ کی پہلی صدا، لا الہ الا اللہ

*

اذاں کی آئی صدا، لا الہ الا اللہ

تو گونجے ارض و سما، لا الہ الا اللہ

*

کبھی یہ مشعل توحید بجھ نہیں سکتی

چلے کوئی بھی ہوا، لا الہ الا اللہ

*

یہ بحر و بر، یہ زمیں، آسماں یہ شمس و قمر

وہی ہے سب کا خدا، لا الہ الا اللہ

*

یہی وظیفہ ازل سے ہے ساری خلقت کا

ندائے ارض و سما، لا الہ الا اللہ

*

شعاع مہر جو پھوٹی افق سے وقتِ سحر

تو بادلوں پہ لکھا، لا الہ الا اللہ

*

۱۳۶

عدو ہے سارا زمانہ تو کیا خدا تو ہے ساتھ

کسی سے خوف نہ کھا، لا الہ الا اللہ

*

تو اژدہوں سے گھرا ہو تو دل میں خوف نہ لا

اٹھا لے اپنی عصا، لا الہ الا اللہ

*

وہی ہے بس، وہی شایان بندگی اے دل

وہی ہے تیرا خدا لا الہ الا اللہ

*

ترا ولی، ترا فریاد رس، ترا معبود

ہے کون اس کے سوا، لا الہ الا اللہ

*

اسے نصیب ہوا اوجِ عبدیت کا مقام

وہ جس نے دل سے پڑھا، لا الہ الا اللہ

*

تری جبیں ہے فقط اس کے سنگِ در کے لیے

اسے کہیں نہ جھکا، لا الہ الا اللہ

*

وہی ہے آسرا ٹوٹی ہوئی امیدوں کا

دکھے دلوں کی صدا، لا الہ الا اللہ

*

تو لوحِ دل پہ رقم کر اسے بہ خطِ جلی

یہی ہے نقشِ شفاء، لا الہ الا اللہ

*

۱۳۷

اسی سے چمکے گا آئینہ تیرے باطن کا

یہی ہے دل کی جِلا، لا الہ الا اللہ

*

اسی سے مانگ، تجھے جو بھی مانگنا ہے نسیمؔ

وہی سنے گا دعا، لا الہ الا اللہ

***

۱۳۸

محمد شاہد پٹھان (جئے پور)

نگاہ و دل کا نشہ لا الہ الا اللہ

ایاغِ آبِ بقا لا الہ الا اللہ

*

فضائے باغِ بلادِ حجاز میں اول

پیام لائی صبا لا الہ الا اللہ

*

حیات بخش ہے گلزارِ مصطفی کی بہار

کلی کلی کی صدا لا الہ الا اللہ

*

نشاطِ اہلِ وفا عشقِ سرورِ بطحیٰ

طریقِ اہلِ صفا لا الہ الا اللہ

*

سکندری کا نشہ تخت و تاج و حورو قصور

قلندری کی ادا لا الہ الا اللہ

*

جمال حمد و ثنا عشقِ صاحبِ لولاک

جلالِ ذکرِ خدا، لا الہ الا اللہ

*

اسے نصیب ہوئی سرفرازیِ کونین

زباں پہ جس کی رہا لا الہ الا اللہ

*

نگاہِ لطفِ محمد ؐ کا فیض ہے شاہدؔ

ہے ورد صبح و مسا لا الہ الا اللہ

***

۱۳۹

محمد ہارون سیٹھ سلیم بنگلوری

ہمیں تیری قدرت پہ ایقان ہے

تو بندوں پہ یا رب مہربان ہے

امڈ کر نہ آئے مری آنکھ سے

مرے دل میں غم کا جو طوفان ہے

پریشانیوں کو مری دور کر

یہ ناچیز بے حد پریشان ہے

تجھے رات دن یاد کرتا ہوں میں

مگر پھر بھی تو ہے کہ انجان ہے

خداوندا دے رستگاری مجھے

مری زندگی ایک زندان ہے

خطاؤں کو بندے کی کر دے معاف

یہ اولاد آدمؑ ہے انسان ہے

***

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳