انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 30%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95672 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ارشاد خان ارشاد (ممبرا۔ ممبئی)

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

سب خامیوں سے پاک منزہ ہے تیری ذات

*

زیبا فقط تجھی کو حمد و ثنا ہے یا رب

فخر و غرور، نخوت تیرا بجا ہے یا رب

*

برتر عظیم تر ہے اعلیٰ تیری صفات

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

*

خاکی میں جان ڈالی اس کو شعور بخشا

منھ میں زبان رکھی آنکھوں کو نور بخشا

*

رب کریم تو نے بخشی ہمیں حیات

تو خالق جہان تو ہی رب کائنات

*

تارے شجر حجر سب رطب اللسان تیرے

طبقات ارض تیرے یہ آسمان تیرے

*

تیرا نہیں ہے ہمسر یکتا ہے تیری ذات

تو خالق جہاں تو ہی رب کائنات

***

۱۲۱

الیاس احمد انصاری شادابؔ (آکولہ)

دل سکوں پا گیا، راحتیں مل گئیں

آفتیں ذکر سے ٹل گئیں، ٹل گئیں

*

اس زمیں پر فلک پر تری حمد ہے

خانقاہوں میں اک عالم وجد ہے

*

خشک دھرتی ہو، جل تھل تری ذات ہے

حکم سے تیرے برسی یہ برسات ہے

*

را ہوں میں زندگی کی بغاوت رہی

بندگی تیری مثل علامت رہی

*

رحمتوں سے تیری، پاپ دھل جائیں گے

پھوٹی قسمت کے سب پھول کھل جائیں گے

*

رحمتیں ہیں تری عام انسان پر

برق کیسے گرے پھر مسلمان پر

*

نام کا بحر میں بھی ترے ورد ہے

تو ہی تو میری شہہ رگ سے بھی نزد ہے

*

پاؤں کی اس رگڑسے بہا آب ہے

تو جو چاہے تو بنجر بھی شادابؔ ہے

***

۱۲۲

عرفان پربھنوی

ائے دو جہاں کے مالک تو ہی ہے رب ہمارا

تیرے سوا نہیں ہے اور کوئی رب ہمارا

*

تیری ہی میرے مولا کرتے ہیں ہم عبادت

تجھ ہی سے مانگتے ہیں ہر وقت استعانت

روز جزا کا تو ہی مالک ہے میرے مولا

دونوں جہاں کا تو ہی خالق ہے میرے مولا

*

تو نے ہی آسماں سے پانی کو ہے گرایا

تو نے زمیں سے مولا فصلوں کو ہے اگایا

تو نے ہی چاند سورج، تاروں کو ہے بنایا

تو نے ہی آسماں کو تاروں سے ہے سجایا

*

تو ہی کھلانے والا، تو ہی پلانے والا

تو ہی ہے مارنے اور تو ہی جلانے والا

حمد و ثنا کے لائق تو ہی ہے میرے مولا

عرفانؔ کی بھی سن لے یہ حمد میرے مولا

***

۱۲۳

گوہر تری کروی (میسور)

حمد ہے میری زباں پر تیری اے پروردگار

رحمتوں کا تیری صبح و شام ہوں امیدوار

*

قاضی الحاجات ہے تو یہ مرا ایمان ہے

بندۂ عاجز پہ تیرا کس قدر احسان ہے

*

ساری مخلوقات کا داتا ہے تو محتاج ہم

ہم گنہگاروں پہ برساتا ہے تو ابر کرم

*

نام سے تیرے سخن کی، کی ہے میں نے ابتدا

لطف گویائی کو بخشا تو نے میری حوصلہ

*

تو نے شیرینی عطا کی ہے مری گفتار کو

با اثر تو نے کیا ہے جرأت اظہار کو

*

بخش دی تو نے مجھے حسن تخیل کی ضیا

ذہن و دل روشن کیا ہے دے کے ذوق ارتقا

*

دل میں علم و آگاہی کی روشنی باقی رہے

فکر میں گوہرؔ کی دائم تازگی باقی رہے

*

ہے تمنا ہو عطا اقبالؔ کا سوز دروں

آخری دم تک تری حمد و ثنا کرتا رہوں

***

۱۲۴

اسماعیل پرواز (ہوڑہ)

ہے گماں پردے کے باہر اور یقیں پردے میں ہے

آپ پر تو چومئے وہ مہہ جبیں پردے میں ہے

*

آپ کتنے زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں اسے

عکس اس کا دیکھئے وہ تو مکیں پردے میں ہے

*

کتنی منطق اس میں پوشیدہ ہے کوئی کیا کہے !

سب پہ جو ظاہر ہے وہ پردہ نشیں پردے میں ہے

*

دعویٰ چشم بصیرت کھوکھلا لگنے لگا

جب عقیدت نے کہا دیکھو! یہیں پردے میں ہے

*

ہے انا الحق کی صدا تحت الثریٰ سے عرش تک

جو فلک پر ہے وہی زیر زمیں پردے میں ہے

*

راز تخلیق جہاں جس کن میں ہے پروازؔ وہ

ہے قلندر کی نظر میں یا کہیں پردے میں ہے

***

۱۲۵

زاہدہ تقدیسؔ فردوسی (جبلپور)

اے میرے خالق! مرے پروردگار

نطق دل آویز بخشا کر دگار

*

علم کی دولت عطا کی خوب تر

نعمتیں بخشیں مجھے تو نے ہزار

*

شکر ہو کیسے ادا ناچیز سے

لفظ کم احسان تیرے بے شمار

*

قوت گویائی کر مجھ کو عطا

شکر تیرا ہو زباں پر بار بار

*

زندگی کیا جانے کیسے کٹ گئی

ہوں خطاؤں پر نہایت شرمسار

*

دار فانی میں نہیں لگتا ہے دل

دامن دل ہو چکا ہے تار تار

*

دامن عصیاں کے دھبے دھو سکوں

اشک آنکھوں سے رواں ہوں زار زار

*

ہو دم آخر لبوں پر تیرا نام

ختم ہوں تقدیسؔ کے لیل و نہار

***

۱۲۶

ڈاکٹر فدا المصطفی فدوی (ساگر)

ترے جلوے ہر طرف ہیں تیری خوشبو چار سو

کس میں ہے تابِ نظارہ تجھ کو دیکھے روبرو

*

دیکھنا ممکن نہیں تجھ کو ان آنکھوں سے مگر

تو نے اپنی دید کی بخشی ہے دل کو آرزو

*

کاروان شوق سرگرداں ہے تیری راہ میں

منزل مقصود تو ہے سب کو تیری جستجو

*

صبح دم غنچے چٹک کر ذکر کرتے ہیں ترا

طائران خوش نوا کرتے ہیں تیری گفتگو

*

حاضر و ناظر ترے ہونے کا عام اقرار ہے

ہر کس و ناکس کے لب پر نعرۂ اللہ ہو

*

کبریائی کا تری کرتے ہیں دل سے اعتراف

عاجزی سے اہل ایماں سر بسجدہ با وضو

*

مل سکی ان کو نہ اپنی روسیاہی سے نجات

تیرے باغی دین و دنیا میں ہوئے کب سرخ رو

*

۱۲۷

شک ترے انصاف میں کیونکر ہو قسام ازل

عزت و ذلت بقدر ظرف عطا کرتا ہے تو

*

اک نگاہ لطف کا طالب ہوں میں بھی ساقیا!

مست و بے خود کر مجھے بے منت جام و سبو

*

مجھ پہ بھی برسے ترے عرفان کا ابر کرم

تاکہ تسکین پائے میری روح کا ذوق نمو

*

حق تری حمد و ثنا کا ہو سکا کس سے ادا

بے مثال اپنی صفات و ذات کی خوبی میں تو

*

وقت آخر کلمہ طیب پہ دم نکلے مرا

ساز دل پر گنگنائے بس یہی نغمہ ہو

*

پر معاصی فدویؔ عاصی کو بخشش کا یقین

ہے ترا فرمان محکم آیہِ ’’لاتقنطو‘‘ !

***

۱۲۸

طالوت

ڈاکٹر شرف الدین ساحل (ناگپور)

خدائے قادر و عادل!

یہ عہدِ نومزین ہے یقیناً علم و فن سے

*

مگر دراصل یہ عہدِ جہالت ہے

ترقی یافتہ حسنِ تمدن جل رہا ہے

اور عریاں ہو رہا ہے پیکرِ تہذیبِ دوراں

دھماکوں سے مسلط خوف کی ہر سو فضا ہے

*

گلا انسانیت کا گھُٹ رہا ہے

علوم و آگہی بے جان ہو کر رہ گئے ہیں

ہوائے مادیت چل رہی ہے تیز رفتاری سے دنیا میں

رخ روحانیت مرجھا رہا ہے

*

غرور و سرکشی کا رقص پیہم ہو رہا ہے

حقوق انساں کے چھینے جا رہے ہیں

فرائض رو رہے ہیں

ستم جالوت کا اب انتہا پر آ چکا ہے

*

خدائے قادر و عادل!

پھر کسی مفلس کے مسکن سے

کوئی طالوت کر ظاہر

***

۱۲۹

فہیم بسمل (شاہجہاں پور)

ہر طرف ہیں تری وحدت کے اجالے یا رب

تیری قدرت کے ہیں قرآں میں حوالے یا رب

*

دل میں آیا ترے دنیا جو بنانے کا خیال

اپنا محبوب بھی لاثانی بنانے کا خیال

*

اولاً نور محمد ؐ کیا پیدا تو نے

ورفعنا لک ذکرک سے نوازا تو نے

*

خلق قدرت سے کیے کتنے ہی عالم تو نے

اور پیدا کیا پھر پیکرِ آدم تو نے

*

تو نے تخلیق کیے چاند ستارے اللہ

بخشے مخلوق کو خوش رنگ نظارے اللہ

*

بحر و بر تیرے، ہوا تیری ہے افلاک ترے

برگ و گل تیرے ہیں بے شک خس و خاشاک ترے

*

میرا ایماں ہے یہی قادرِ مطلق تو ہے

جس کی مرضی سے ہوا ماہِ مبیں شق تو ہے

*

۱۳۰

کر دے رحمت کا اک ادنیٰ سا اشارہ معبود

میری قسمت کا بھی چمکا دے ستارا معبود

*

کب سے ہی لطف کو تر سے ہوئے ان ہاتھوں کی

لاج رکھ لے مرے پھیلے ہوئے ان ہاتھوں کی

*

مجھ کو ہر اک کی نگاہوں میں جو عزت بخشے

کاش مجھ کو وہ سلیقہ تری رحمت بخشے

*

ایک مدت سے یہ بسمل ہے پریشاں مولا

اپنی رحمت سے عطا کر اسے خوشیاں مولا

***

۱۳۱

مناجات

عرفان پربھنوی (پربھنی)

ترے ہیں تجھی سے کرم مانگتے ہیں

رحم کے ہیں طالب رحم مانگتے ہیں

*

تو ہی ہے عبادت کے لائق خدایا

تجھی سے مدد کے ہیں طالب خدایا

تجھی سے نگاہِ کرم مانگتے ہیں

*

تو ہی دو جہاں کا حقیقی ہے داتا

تو ہی بے نیاز اور یکتا ہے مولا

تو داتا ہے تجھ سے ہی ہم مانگتے ہیں

*

نہ دولت ہی دے اور نہ دے کوئی عہدہ

فقط اپنی رحمت کا دے تھوڑا صدقہ

یہی تجھ سے ہم دم بدم مانگتے ہیں

*

جو تڑپے تیری یاد میں وہ جگر دے

جو دیکھے تجھی کو بس ایسی نظر دے

ملا دے جو تجھ سے وہ غم مانگتے ہیں

*

۱۳۲

گنا ہوں پہ اپنے بہت ہوں پشیماں

تو غفار ہے بخش دے ہم کو رحماں

کرم کر کہ تیرا کرم مانگتے ہیں

*

ہو تابع تیرے میری یہ زندگانی

ہر اک حال میں ہو تیری مہربانی

یہی چیز عرفانؔ ہم مانگتے ہیں

***

۱۳۳

لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ

رزاق افسر (میسور)

ظہورِ صبح ازل لا الہ الا اللہ

حیات ہو کہ اجل لا الہ الا اللہ

*

ہمارا کل تھا وہی آج بھی وہ ہے اپنا

اصول دیں کا ہے کل لا الہ الا اللہ

*

دلیل وحدت رب لا الہ الا اللہ

مزاج عظمت رب لا الہ الا اللہ

*

طفیل رحمت خیر الانام ہے افسرؔ

سبیل قربت رب لا الہ الا اللہ

*

خدا کا خاص کرم لا الہ الا اللہ

عطائے شاہؐ امم لا الہ الا اللہ

*

سمٹ کے آ گئی ہے جس میں کائنات تمام

ارم سے تابہ حرم لا الہ الا اللہ

*

خدا کا ذکر جلی لا الہ الا اللہ

عروج شان نبیؐ لا الہ الا اللہ

*

۱۳۴

جو دل کہ مومنِ شب زندہ دار ہے اس کی

دعائے نیم شبی لا الہ الا اللہ

*

مکاں کا دست ہنر لا الہ الا اللہ

زماں کا زادِ سفر لا الہ الا اللہ

*

مری نظر میں ہے تفسیر آخری اس کی

قرآں کا نام دگر لا الہ الا اللہ

*

مدارِ فکرِ بشر لا الہ الا اللہ

قرارِ قلب و نظر لا الہ الا اللہ

*

نمودِ صبح سے تاروں کی رونمائی تک

ہے سب کا رختِ سفر لا الہ الا اللہ

*

زباں تو میری کہے لا الہ الا اللہ

سمجھ سے پر ہے پرے لا الہ الا اللہ

*

اسی پہ کھلتا ہے افسرؔ یہ بابِ رازِ خفی

جو جان و دل سے پڑھے لا الہ الا اللہ

***

۱۳۵

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ

ڈاکٹر نسیم (وارانسی)

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ

ہے کون اس سے بڑا، لا الہ الا اللہ

*

پیامِ غارِ حرا، لا الہ الا اللہ

نبیؐ کی پہلی صدا، لا الہ الا اللہ

*

اذاں کی آئی صدا، لا الہ الا اللہ

تو گونجے ارض و سما، لا الہ الا اللہ

*

کبھی یہ مشعل توحید بجھ نہیں سکتی

چلے کوئی بھی ہوا، لا الہ الا اللہ

*

یہ بحر و بر، یہ زمیں، آسماں یہ شمس و قمر

وہی ہے سب کا خدا، لا الہ الا اللہ

*

یہی وظیفہ ازل سے ہے ساری خلقت کا

ندائے ارض و سما، لا الہ الا اللہ

*

شعاع مہر جو پھوٹی افق سے وقتِ سحر

تو بادلوں پہ لکھا، لا الہ الا اللہ

*

۱۳۶

عدو ہے سارا زمانہ تو کیا خدا تو ہے ساتھ

کسی سے خوف نہ کھا، لا الہ الا اللہ

*

تو اژدہوں سے گھرا ہو تو دل میں خوف نہ لا

اٹھا لے اپنی عصا، لا الہ الا اللہ

*

وہی ہے بس، وہی شایان بندگی اے دل

وہی ہے تیرا خدا لا الہ الا اللہ

*

ترا ولی، ترا فریاد رس، ترا معبود

ہے کون اس کے سوا، لا الہ الا اللہ

*

اسے نصیب ہوا اوجِ عبدیت کا مقام

وہ جس نے دل سے پڑھا، لا الہ الا اللہ

*

تری جبیں ہے فقط اس کے سنگِ در کے لیے

اسے کہیں نہ جھکا، لا الہ الا اللہ

*

وہی ہے آسرا ٹوٹی ہوئی امیدوں کا

دکھے دلوں کی صدا، لا الہ الا اللہ

*

تو لوحِ دل پہ رقم کر اسے بہ خطِ جلی

یہی ہے نقشِ شفاء، لا الہ الا اللہ

*

۱۳۷

اسی سے چمکے گا آئینہ تیرے باطن کا

یہی ہے دل کی جِلا، لا الہ الا اللہ

*

اسی سے مانگ، تجھے جو بھی مانگنا ہے نسیمؔ

وہی سنے گا دعا، لا الہ الا اللہ

***

۱۳۸

محمد شاہد پٹھان (جئے پور)

نگاہ و دل کا نشہ لا الہ الا اللہ

ایاغِ آبِ بقا لا الہ الا اللہ

*

فضائے باغِ بلادِ حجاز میں اول

پیام لائی صبا لا الہ الا اللہ

*

حیات بخش ہے گلزارِ مصطفی کی بہار

کلی کلی کی صدا لا الہ الا اللہ

*

نشاطِ اہلِ وفا عشقِ سرورِ بطحیٰ

طریقِ اہلِ صفا لا الہ الا اللہ

*

سکندری کا نشہ تخت و تاج و حورو قصور

قلندری کی ادا لا الہ الا اللہ

*

جمال حمد و ثنا عشقِ صاحبِ لولاک

جلالِ ذکرِ خدا، لا الہ الا اللہ

*

اسے نصیب ہوئی سرفرازیِ کونین

زباں پہ جس کی رہا لا الہ الا اللہ

*

نگاہِ لطفِ محمد ؐ کا فیض ہے شاہدؔ

ہے ورد صبح و مسا لا الہ الا اللہ

***

۱۳۹

محمد ہارون سیٹھ سلیم بنگلوری

ہمیں تیری قدرت پہ ایقان ہے

تو بندوں پہ یا رب مہربان ہے

امڈ کر نہ آئے مری آنکھ سے

مرے دل میں غم کا جو طوفان ہے

پریشانیوں کو مری دور کر

یہ ناچیز بے حد پریشان ہے

تجھے رات دن یاد کرتا ہوں میں

مگر پھر بھی تو ہے کہ انجان ہے

خداوندا دے رستگاری مجھے

مری زندگی ایک زندان ہے

خطاؤں کو بندے کی کر دے معاف

یہ اولاد آدمؑ ہے انسان ہے

***

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تاریخی حقائق اور سیف کا افسانہ:

داستان کی حقیقت یہ تھی کہ قیس پر ''داوذیہ'' کو قتل کرنے اور ایرانیوں کو صنعا سے نکال باہر کرنے کی تدبیر کا الزام تھا۔ اس لئے ابوبکر نے اپنے کارگزار کو حکم دیا تھا کہ صنعا میں داخل ہونے کے بعد قیس کو گرفتار کر کے اس کے پاس مدینہ بھیجدے ۔ قیس نے بھی مدینہ پہنچ کر خلیفہ کے پاس قسم کھائی کہ داذویہ کے قتل میں اس کا دخل نہیں تھا ۔ اورخلیفہ نے اسے جنگ کے لئے شام بھیجدیا۔ قیس کی پوری روایت یہی تھی اور بس!

لیکن، سیف اپنی تخلیق توانائی سے استفادہ کرتے ہوئے اس مختصر اور جھوٹی داستان کے شاخ وبرگ نکال کراسے ایک طویل افسانہ میں تبدیل کر دیتا ہے اور اسے ارتداد کے دوسرے افسانوں کے ساتھ بڑی آب و تاب کے ساتھ '' یمنیوں کے دوسرے ارتداد'' کے عنوان سے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔

وہ اپنے افسانہ میں سب سے پہلے قیس کو ابوبکر کے فیروز کو یمن پر حاکم منصوب کرنے کے حکم کے نتیجہ میں فیروز،جشیش اور داذویہ کے خلاف اکساتا ہے اور اس کے بعد منظر کشی کرکے داذویہ کو قتل کراتا ہے ، اس کے بعد اسود عنسی کی تتر بتر ہوئی سپاہ کو اس کے گرد جمع کرکے صنعااور اس کے اطراف کے تمام علاقوں پر قابض کراتا ہے ، اس کے بعد ایرانیوں کے خاندان کو اس کے ذریعہ دوگر و ہوں میں تقسیم کر اکے ایک حصہ کو آبی راستہ سے اور دوسرے گروہ کو خشکی کے راستہ سے ان کے اپنے وطن ایران روانہ کراتا ہے ۔ آخر کار عرب قبائل فیروز کی مدد کے لئے آتے ہیں اور خلیفہ کی طرف سے بھیجے گئے سپاہیوں کی ہمت افزائی اور ''مھاجر بن ابی امیہ '' کے ذریعہ قیس کی حکومت کا شیرازہ بکھیر کے رکھدیتا ہے اور قیس کو گرفتا ر کر کے دست بستہ خلیفہ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجتا ہے۔

سیف کے اس افسانہ نے امام المورخین طبری کی تاریخ کبیر کے دس صفحوں میں جگہ لی ہے

سیف نے اس افسانہ میں چھہ راوی پیش کئے ہیں اور ہر ایک کو دوسرے پر ناظر و موید قرار دیتا ہے کہ اس میں حقیقی راویوں کے ساتھ ساتھ اس کے جعلی اور خیالی راوی بھی نظر آتے ہیں ۔

سیف نے اس افسانہ کا نام'' یمانیوں کا دوسرا ارتداد '' رکھا ہے اور طبری نے بھی اسے اسی عنوان سے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے.

۱۸۱

طبری کے بعد اس کے مکتب کے شاگردوں جیسے ابن اکثیر اور ابن خلدون میں سے ہر ایک نے اپنی باری پر اس افسانہ کو اس سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ یہیں سے یہ موصنوع ارتداد کی دوسرے روایتوں ، اور اسی نام سے دوسری خونیں جنگوں اور بے رحمانہ قتل عاموں نے اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک زندہ دلیل دیدی ہے تاکہ وہ اس ذریعہ ادعا کر یں کہ اسلام تلوار کی ضرب اور زور زبردستی سے قائم ہو ا ہے نہ کہ کسی اور چیز سے ! عجیب بات یہ ہے کہ ابن حجر جیسے صحابی شناس علامہ نے سیف کی اس روایت کاپورا پورا فائدہ اٹھا کر ،اس سے ''ذویناق''اور شہر ''نامی دو اصحاب انکشاف کئے ہر ایک کے لئے الگ سے اپنی کتا ب ''اصابہ'' میں شرح لکھی اور ان کے آخر میں حرف(ز) لکھا ہے تاکہ سب جان لیں کہ ان کا صرف ابن حجر نے انکشاف کیا ہے نہ کہ کسی اورنے !

اس عالمنے ''ذویناق''کو اصحاب کے پہلے طبقہ میں رکھا ہے ، لیکن اس کی داستان کو ''شہر '' کی داستان کے حوالہ کیا ہے ۔

''شہر '' کی داستان اور اس کے حالات کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں درج کیا ہے اور اس کی روایت کو طبری سے نقل کیاہے اور ہم نے دیکھا کہ طبری نے خود اس داستان کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور اس کانام بھی ''شہر ذونیاف '' رکھا ہے نہ ''ذونیاق''۔!

٨٦واں جعلی صحابی معاویہ ثقفی

ابن حجر نے اس صحابی کے حالات کے سلسلہ میں ''یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' نامی سیف کی روایت سے استفادہ کر کے یوں لکھا ہے :

۱۸۲

معاویہ ثقفی احلاف سے :

طبری نے لکھا ہے کہ خلافت ابوبکر کی ابتداء میں '' معاویہ ثقفی'' بنی عقیل کے جنگجوؤں کے ایک گروہ کی سرپرستی میں ''فیروزدیلمی '' کی مدد کے لئے گیا تھا اور اس نے یمینوں کے مرتدوں کے چنگل سے اس کے رشتہ داروں کو نجات دلائی ہے ۔

سیف بن عمر نے بھی ان ہی مطالب کو درج کرکے اضافہ کیا ہے کہ معاویہ ثقفی''کی رہبری میں عقیلیوں نے فیروز دیلمی کے رشتہ داروں کو ''اسودعنسی کے مارے جانے سے پہلے ''قیس بن عبدلغیوث'' کی قید سے نجات دلائی ہے ۔ اس کے بعد ابن حجر مزید لکھتا ہے :

اس صحابی کا نسب ''عقیلی '' تھا ، گو یاوہ ''بنی عقیل ثقیف ''سے تھا ۔ ہم نے اس سے پہلے بھی یاددہا نی کی ہے کہ ۔ قریشوں اور ثقیفیوں میں سے وہ لوگ جنہوں نے ابوبکر کے زمانے میں یا ان ہی دنوں میں جنگوں میں شرکت کی تھی ، چونکہ وہ حجتہ الوداع میں حاضر تھے اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی شمار ہوتے ہیں !(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ابن حجر نے اپنی کتاب کی اسی جلد میں چند صفحات کے بعد ''معاویہ عقیلی ''نام کے ایک اورصحابی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان ہی مذکورہ مطالب کو حسب ذیل لکھا ہے :

معاویہ ٔ عقیلی :

وہ ان افراد میں سے ہے کہ جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ دیکھاہے ۔ سیف بن عمر نے اپنی کتاب''فتوح'' میں اس کا نام لیا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے ''فیروزویلمی کے خاندان اور دوسرے ایراینوں کو قیس کی قید سے نجات دلائی ہے اس ماجرا کی تفصیل یوں ہے :

جب ''قیس بن مکشوح '' نے صنعا پر قبضہ کیا اور ایرانی عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر یمن سے بالکل باہر کیا تو فیروز نے ان کی نجات کے لئے بنی عقیل سے مدد طلب کی اور اس کے نتیجہ میں عقیلوں نے ''معاویہ '' کی سرپرستی میں اس کی مدد کی اور راستے میں قیس کے سواروں کو پکڑ کر ان سے ایک جنگ لڑنے کے بعد انھیں باگھنے پر مجبور کیا۔ اس طرح ایرانی عورتوں اور بچوں کو ان سے آزاد کر انے میں کامیاب ہوئے۔ فیروز نے بھی چند اشعار کے ذریعہ ''معاویہ '' اور عقیلیوں کی قدر دانی کی ہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ابن حجر ''معاویہ ثقفی '' اور ''معاویہ عقیلی'' نام کے دو صحابیوں کو تنہا سیف کی روایت سے انکشاف کرکے مغالطہ کا شکار ہوا ہے ۔ اس نے ایک بار اس تنہا ''معاویہ کو ثقفی جان کر اس کے حالات پر روشنی ڈالی اور اسے طبقہ اول کے صحابیوں میں شمار کیا ہے اور دوسری دفعہ بھی اسی کو '' عقیلی'' کہکر صحابیوں کے تیسرے طبقہ میں شمار ہے ۔

۱۸۳

اس کی ایک دوسری فاش غلطیی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے :

اس صحابی کا نسب ''عقیلی '' ہے اور گویا ''بنی عقیل ثقیف''سے ہے !

ابن حجر اس لئے اس کوو ہم کا شکار ہو ا ہے کہ سیف بن عمر نے کہا ہے کہ:

فیروزنے ''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ '' کو ایک قاصد بھیجا اور اس سے مدد طلب کی ۔ عقیلی ، حلفاء سے ''معاویہ نام کے ایک شخص کی سرپرستی میں اس کی مدد کے لئے آگے ئ۔۔۔۔۔۔۔(تاآخر)

جبکہ ''عقیل بن ربیعہ بن عامر '' کی عقیلی اولاد معا ویہ بن بکربن ھوازن'' کی اولاد میں سے ہیں ، کہ انھیں ''عقیل '' کہتے تھے اور وہ بحرین میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ لیکن''ثقیف '' ''منبہ بن بکر بن ہو زان'' کی اولاد تھے اور طائف میں رہتے تھے ۔

اس لحاظ سے سیف کا معاویہ عقیلی '' ثقفی '' نہیں ہوسکتا ہے تاکہ ابن حجر اوراس کے ہمفکروں کے تصور کی بنیاد پر اس معاویہ کو صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا جاسکے ۔

اور اس معاویہ ٔ ثقفی کو غلطی سے ''معاویہ ثقفی بصری '' خیال نہیں کیا جانا چاہئے ۔کیونکہ ''معاویہ بصری بن عبدالکریم بن عبدالرحمان'' ، ثقیف کا اور ابوبکرہ کا آزاد کردہ ، ''ضال'' نام سے معروف ہے ١٨٠ھ میں وفات پائی ہے ۔

اور یہ جو ابن حجر کہتا ہے ، ''قریش وثقیف'' سے جن لوگوں نے ابوبکر کے زمانہ کی جنگوں میں شرکت کی ہے ،وہ اصحاب میں شمار ہوتے ہیں ، انشاء اﷲآیندہ ا س پر بحث و تحقیق کریں گے ،

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہاس عالم نے ،سیف کی اسی روایت کے پیش نظر ''سعید عافر'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کرتے ہوئے اس کے بارے میں کہا ہے :

سعید بن عافر:

یہ ان پانچ افراد میں سے ہے جنھیں ابوبکر نے خط لکھ کر ''فیروز ویلمی ''کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے ۔۔۔(تاآخر کلام ابن حجر)

ہم اس سعید بن عافر کو ان افراد میں سے شمار کرتے ہیں کہ سیف نے جن کیلئے صحابیت کو گڑھ لیا ہے۔ انشاء اﷲ ہم اس کتاب کے اگلے صفحات میں اس سعید اور اس جیسے دوسرے اشخاص کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ۔

۱۸۴

افسانہ ''شہرو معاویہ'' سے سیف کانتیجہ :

سیف نے ''قیس ''کے صنعا میں ابوبکرکے منصوب حاکم کے خلاف شورش کے افسانہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے مندرجہ ذیل دوصحابی جعل کئے ہیں ۔

١۔شہر ذویناف،یا (ذویناق)

٢۔معاویہ ٔثقفی

ان کو جعل کرنے کے علاوہ سیف بن عمر نے درج ذیل حقیقی اشخاص:

٣:معاویۂ عقیلی ۔

٤۔سعید بن عافر اور ان جیسے دیگر اشخاص کو ،جن کے حالات پر ہم بعد میں روشنی ڈالیں گے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی شمار کیا ہے ۔

اس کے علاوہ سیف نے ایسی روایت گڑھ کر اپنے قبیلہ کے دیر ینہ دشمنوں یعنی یمانی اور قحطانیوں پردوبار مرتد ہونے اور دین اسلام سے مخرف ہونے کی تہمت لگا کر ان کی سرزنش اور ملامت کی ہے ۔

سیف کے ان ہی جھوٹ کے پلندوں کی وجہ سے ، یہ اتہامات اسلام کے معتبر منابع ومصادر میں حقیقی اور تاریخی مآخذ کے طور پر درج کئے گئے ہیں تاکہ یمانی وقحطانیوں کے لئے رسوائی کے علاوہ خود اسلام کے پپیکر پر ایک کاری ضرب واقع ہو ! کیونکہ سیف نے ارتداد کی جنگوں کے تعجب انگریزافسانوں کو خلق کرکے ، لشکر کشیوں اور ہزارہا بے گناہ انسانوں کا خون بہا کر یہ دکھلایا ہے کہ اسلام زورزبردستی ، تلوار کی ضرب ، خون کی ہولی کھیل کر اور خوف ودہشت کے ذریعہ پھیلا ہے نہ کہ کسی اور چیز سے ۔افسوس ہے کہ اس کے افسانوں کو اسلام کی معتبر تاریخ کی کتابوں میں جگہ ملنے کی وجہ سے اس کے مقاصد پورے ہوئے ہیں ۔!

مصادر و مآخذ

ذویناف کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (١/٤٧٧) حصہ اول نمبر:٢٤٨٣

۱۸۵

شہر کے حالات:

١۔اصابہ ابن حجر (٢/١٦٣) حصہ سوم نمبر:٢٩٨٧

معاویہ ثقفی کے حالات:

١۔اصابہ ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر:٨٠٨٦

معاویہ عقیلی کے حالات:

''اصابہ''ابن حجر ٣/٤٧٣) حصہ سوم نمبر:٨٤٨٣

افسانہ شہر ، معاویہ ، اور قیس کے بارے میں سیف کی روایات:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٨٩۔١٩٩٩)

٢۔''تاریخ ابن اثیر'' (٢/٢٨٧۔٢٨٩)

٣۔تاریخ ابن کثیر (٦/٣٣١)

٤۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٧٤۔٢٧٨)

داستان قیس کے بارے میں تاریخی حقائق:

١۔''فتوح بلدان'' بلاذری (١٢٧)

معاویہ بن عبدالکریم کے حالات:

١۔''جرم و تعدیل'' (٤/٣٨١) حصہ اول نمبر: ١٧٤٩

٢۔''تاریخ بخاری '' (٤/٣٣٧) حصہ اول نمبر: ١٤٥١

٣۔''تذھیب الکمال'' (٣٢٦)

۱۸۶

ساتواں حصہّ:

حضرت ابوبکر کی جنگوں میں شرکت کرنے کے سبب بننے والا اصحاب

٨٧۔سیف بن نعمان لخمی

٨٨۔ ثمامہ بن اوس طائی

٨٩۔مہلہل بن زید طائی

٩٠۔غزال ھمدانی

٩١۔معاویہ بن آنَس سلمی

٩٢۔جرادبن مالک تمیمی

٩٣۔عبد بن غوث حمیری

۱۸۷

حضرت ابو بکر کی سپاہ کو مدد پہنچانے کے سبب بننے والے اصحاب۔

٧٩واں جعلی صحابی سیف بن نعمان

اس صحابی کو ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں یوں پہچنوایا ہے :

سیف بن نعمان لخمی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ ''سیف بن نعمان '' نے حضرت ابوبکر کی خلافت کے اوائل میں ''اسامہ بن زید'' کیساتھ ''بنی جُذام'' کی جنگ میں شرکت کی ہے اور اس کے کچھ اشعار بھی درج کئے ہیں (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب :

سیف بن عمرنے اس صحابی کو ''لخمی '' خلق کیا ہے کہ یہ '' بنی زید بن کہلان کے ابن سبأ کے مالک بن عدّی '' کے '' لخم ''سے نسبت ہے ۔ لخم و جذام دو قبیلے تھے اور یمن میں زندگی بسر کرتے تھے۔

سیف بن نعمان اور بنی جذام کی جنگ:

اسامہ بن زید کی جُذام سے جنگ کی خبر ١١ھکے حوارث کے ضمن میں تاریخ طبری میں آئی ہے لیکن اس میں سیف بن عمر کے خلق کئے گئے اور منظور نظر سیف بن نعمان کا کہن نام و نشان نہیں ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر نے اس صحابی کے حالات کو بلا واسطہ سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح '' سے نقل کیا ہے اور طبری نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔

۱۸۸

اس کے علاوہ سیف بن نعمان کا نام ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' کے علاوہ اسلامی منابع و مصادر کی کسی اور کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے ۔ اس لئے قاعدہ کے مطابق ہم نے اس سیف بن نعمان لخمی کو سیف بن عمر کے جعلی اصحاب میں شمار کیا ہے ۔ ابن حجر نے سیف بن نعمان لخمی کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں قرار دیا ہے کیونکہ سیف بن عمر نے کہا ہے کہ اس نے ابو بکر کی خلافت کے اوائل میں جذامیوں کی جنگ میں شرکت کی ہے !

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیف کا ''سیف بن نعمان لخمی'' '' سیف بن نعمانی'' سے الگ ہے کہ بخاری نے اپنی تاریخ میں اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور جس سیف کا بخاری نے نام لیا ہے وہ ''تابعین '' کے شاگردوں میں سے تھا نہ یہ کہ خود صحابی ہوتا ۔

مصادر و مآخذ.

سیف بن نعمان لخمی کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٢/١١٨) تیسرا حصہ نمبر:٣٧٢٦

خاندان لخمی کا نسب:

١'۔'اللباب'' (٣/٦٨)

اسامہ بن زید کی جذا میوں سے جنگ:

١۔تاریخ طبری (١/١٨٧٢)

سیف بن نعمان ، شاگرد و پیرو تابعین کے حالات:

١۔تاریخ بخاری (٢/١٧٢) دوسرا حصہ نمبر:٢٣٧٠

۱۸۹

٨٨واں جعلی صحابی ثمامہ بن اوس

ابن حجر اس صحابی کے تعارف میں یوں لکھتاہے :

ثمامہ بن اوس بن ثابت بن لام طائی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب''فتوح'' میں اس کا ذکرکیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوران جب '' ضرار بن ازور'' طلیحہ'' سے نبرو ازما تھا ، ثمامہ بن اوس'' نے اسے یعنی ضرار کو حسب ذیل مضمون کا ایک پیغام بھیجا ہے :

میرے ساتھہ'' جلدیلہ'' کے پانچ سو جنگجو ہیں ۔۔۔۔۔(تاآخرداستان)

اس مو ضوع سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا ہے ۔(ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

مذکورہ داستان کہ جس کے بارے میں ابن حجر نے صرف ایک اشارہ کیا ہے ، طبری نے ١١ ھ کی روداد کے ضمن میں '' طلیحہ سے ملحق ہونے کے بارے میں غطفان کی باقی خبر کو'' کے عنوان سے کہ جب وہ طلیحہ سے ملحقہ ہوئے ہیں ''عمارة بن فلان اسدی '' کے ذریعہ سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں حسب ذیل درج کیا ہے :

جب طلیحہ اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو ا ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''ضرار بن ازور '[ کو مأ مور کیا کہ بنی اسد '' میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارگزاروں سے رابط قائم کرکے انھیں طلیحہ کی بغاوت کو سر کو ب کرنے کے لئے آمادہ کرے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اشارہ پر طلیحہ سے جنگ کرنے کے لئے ایک سپاہ آمادہ ہوئی اور مسلمانوں نے ''واردات'' کے مرتدوں اور ''سمیرا'' مشرکوں کو سر کوب کرنے کے لئے مور چے سنبھالے۔ دوسری طرف ذوالخمار بن عوف جذمی '' اور اس کے ساتھی بھی ''طلیحہ '' کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے ۔

اسی اثنا ء میں '' ثمامہ بن اوس بن لام طائی '[ نے اس کے لئے پیغام بھیجا کہ:

میرے ساتھ ''جدیلہ '' کے پانچ سو جنگجو ہیں ، اگر کوئی مہم پیش آئے اور تمہارے لئے کام مشکل ہو تو ہم ''قردودہ یا النسر '' کی بلندیوں کے نذدیک مورچے سنبھالے ہوئے ہیں اور ہر لمحہ تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں ۔

ہم اس بحث پر دوبارہ روشنی ڈالیں گے ۔

۱۹۰

٨٩واں جعلی صحابی مہلہل بن زید

ابن حجر نے اس صحابی کا یوں تعارف کر ایا ہے :

مہلہل بن زید الخیل طائی :

''طی '' کی طرف سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمایندوں میں اس صحابی کا نام دکھائی نہیں دیتا ہے .، بہر حال سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور لکھا ہے کہ جب ''ضرار بن ازور'' پیغمبری کے مدعی ''طلیحہ '' سے لڑ رہا تھا ، ''مہلہل بن زید صا ئی '' نے اس کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ اگر طلیحہ سے جنگ میں مشکل سے دو چار ہوئے تو ہمیں اطلاع دینا ہم ، عرب جنگجوؤ ں کے ہمراہ ''اکناف ''،'' قید'' کے کنارے پر مورچے سنبھالے ہوئے ہیں ، اور تمہاری مدد کے لئے حاضر ہیں ۔

یہ مطلب اس بات کی دلیل ہے کہ اس صحابی' مہلہل بن یزیدنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ دیکھا ہے ،کیونکہ ''طلیحہ '' کی داستان ابوبکر کے زمانہ میں پیش آئی ہے اور اس کا باپ یزید الخیل بھی معروف صحابی ہے ۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مہلہل بن زید کا نام سیف کی ایک دوسری روایت میں ٢٢ھ کے حوارث کے ضمن میں ''تاریخ طبری '' میں آیا ہے ۔ طبری نے اس روایت میں سیف سے نقل کر کے لکھا ہے :

''نعیم بن مقر ن '' نے علاقہ ''دستبی'' کے نظم و انتظا م کوفہ کے سردار وں ''عصمتہ ابن عبداﷲضبّی'' اور ''مہلہل بن زید طائی '' میں تقسیم کیا اور ۔۔۔ (یہاں تک کہ کہتاہے :)

یہ لوگ ( یعنی عصمتہ ابن عبداﷲ اور مہلہل ) پہلے حاکم تھے جو علاقہ دستبی سے ''دیلمیوں '' سے جنگ کے لئے اٹھے ہیں ۔

یہ بات قابل بیان ہے کہ ''اسدالغابہ '' تجرید '' اور اصابہ '' میں '' مسلمہ البضی '' کی روایت کی بناپر ایک اور ''مہلہل '' کے حالات کی تشریح ملتی ہے کہ ابن حجر نے اس کی پہچان کے سلسلے میں لکھا ہے :

اس صحابی کو پہچنوانے کے سدمہ میں ایک ایسے راوی کانام ملتا ہے جو سخت مجہول اور نامعلوم ہے !

اس لحاظ سے ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے دو مہلہل دکھائی دیتے ہیں جو حسب ذیل ہیں :

١۔ مہلہل طائی ، کہ ابن حجر نے اس کے حالات کی تفصیل سیف بن عمر سے نقل کی ہے ۔

٢۔مہلہل مجہول النسب : اس کے حالات کی تشریح ایک مہجول اور نا معلوم راوی سے نقل کی گئی ہے ۔

۱۹۱

ثمامہ و مہلہل کے بارے میں ایک مجموعی بحث

ہم دوبارہ اصل داستان کی طرف پلٹتے ہیں :

طبری نے ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر سے نقل کرکے لکھا ہے کہ جب طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ضراربن ازور '' کو حکم دیا کہ قبائل بنی اسد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارگزاروں اورگماشتوں سے رابطہ برقرار کرکے انھیں طلیحہ کی بغاوت کو کچلنے کے لئے آمادہ کرے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے مسلمان آمادہ ہو کر طلیحہ سے لڑنے کے لئے باہر نکلے اور انہوں نے ''واردات'' کے مقام پر اور مشرکوں نے ''سمیرا'' کے مقام پر مورچے سنبھالے ۔ ''ذوالخمار بن عوف جذمی '' نے طلیحہ کے مقابلے میں اپنی سپاہ کو لا کھڑا کیا تھا۔

اسی اثنا ء میں '' ثمامہ بن اوس بن لام طائی '' نے ذوالخمار '' کو پیغام بھیجاکہ میں ''جدیلہ '' کے پانچ سو جنگجؤ ئی کے ہمراہ '' قردودہ یا انسر'' کی بلندیوں کے پاس مورچے سنبھالے ہوئے ہوں ، اگر طلیحہ سے جنگ میں کوئی مشکل پیش آئی تو ہم تمہاری مدد کے لئے آمادہ ہیں

مہلہل بن زید نے بھی ذو الخمار کو پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ قبیلہ ٔ طے '' غوثی '' کے جنگجو ہیں اور ہم نے ''فید '' کے اطراف میں مورچے سنبھالے ہیں ۔ اگر طلیحہ کے ساتھ تمہیں جنگ میں کوئی مشکل پیش آئی تو ہم مدد کے لئے آمادہ ہیں ۔

سیف نے یہاں پر خصوصی تاکید کی ہے کہ طی کے جنگجو ''ذوالخمار بن عوف '' کے گرد جمع ہو کر اس کے حکم کی اطاعت کررہے تھے ۔

۱۹۲

''ثمامہ اور مہلہل '' کے اسناد:

اس سے پہلے کہ ہم سیف کی روایت اور اس کی روایت کو سمجھنے میں ابن حجر کے مغالطہ کے بارے میں بحث کریں ، مناسب ہے کہ پہلے یہ دیکھیں کہ سیف نے اپنے افسانہ کو کن راویوں کی زبان سے جاری کیا ہے اوریہ افسانہ کس طرح اسلامی منابع و مصادر میں درج ہو اہے

سیف نے اپنی روایت کو ''طلحہ بن اعلم اور حبیب بن ربیعہ اسدی سے اور عمارة بن فلانی اسلامی '' سے روایت کی ہے کہ ان میں ''حبیب وعمارہ '' اس کے جعلی راوی ہیں ۔

معتبر منابع میں سیف کا افسانہ:

سیف کی یہی جعلی روایت مندرجہ ذیل جغرافیا کی کتابوں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے حالات پر مشتمل کتابوں میں نظر آتی ہے۔

عالم اسلام کا عفلیم جغرافیہ دان یاقوت حموی اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں لفظ '' اکناف '' کے سلسلے میں لکھتاہے :

''اکناف'':

جب طلیحہ بن خویلد نے پیغمبری کا دعویٰ کیا اور ''سمیرا'' میں پڑاؤ ڈالا۔ مہلہل بن زید طائی نے اس کے لئے پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ ''غوث '' کے دلیراور جنگجوہیں ، اگر کوئی مسٔلہ پیش آیا اور کسی قسم ضرورت محسوس کی ، تو ہم نے ''اکناف '' میں ''فید''کے نزدیک مورچے سنبھالے ہیں ۔

حموی نے بھی لفظ ''سمیراء '' کے سلسلہ میں سیف کی اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے اور مہلہل کے طلیحہ کو مدد کرنے کی روایت کی ہے ۔

۱۹۳