انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 30%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95655 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کی ہے ایسی خالص عبادت، عشق محبوب سے مکمل لبریز ہے اور اس محبت کا اثر خدا کی جانب پیش قدمی کا بہت اہم سبب ہے، کمال مطلق کی جانب پیش قدمی گناہو ں اور تمام آلودگیو ں سے کنارہ کشی کا پیش خیمہ ہے ۔

حقیقی عبادت گذار اس بات کی سعی پیہم کرتا ہے کہ خود کو محبوب کے جیسا قراردے اور ا سی طرح سے خود کو صفات جمال و جلا ل الٰہیہ کا پر توقرار دیتا ہے اور یہ امور انسان کے تربیت وتکامل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

سوالات

۱۔خدا کی وحدانیت پر دلیل پیش کریں ؟

۲۔ مراتب توحید کیا ہیں ؟

۳۔ توحید افعال سے مراد کیاہے ؟

۴۔ توحید در عبادت کی وضاحت کیجئے ؟

۶۱

آٹھواں سبق

صفات خدا (فصل اول )

جس طرح سے شناخت خدا وندمتعال اور اس کے اصل وجو د کو جا ننا آسان ہے اسی طرح اس کے صفات سے آگاہی چنداں آسان نہیں ہے .کیونکہ خد اکی شنا خت کے لئے آسمان کے ستارے، درختوں کے پتے ،متنوع برگ وگیاہ ، جاندار اشیاء بلکہ ایٹمی ذرات کی تعداد یہ سب اس کے وجود پر دلیل ہیں یہ سب کے سب اس کے عظمت کی نشانیاں ہیں، لیکن اس کی صفات کی پہچان کے لئے غوروخو ض او ر دقت نظر کی ضرورت ہے تاکہ تشبیہ اور قیا س آرائی سے دور رہیں صفات خدا کی شناخت کی پہلی شرط ،صفات مخلو قات کی خدا سے نفی کرنا او رخدا کاکسی مخلوق سے تشبیہ نہ دینا ہے کیو نکہ خدا کی کسی صفت کا مخلوقات کی صفت سے کسی طرح موازنہ ہو ہی نہیں سکتا ،مادی صفات میں سے کو ئی صفت اس کی پاک ذات میں دخیل نہیں ہے کیو نکہ مادی صفت محدودیت کا سبب ہے اور وہ لا محدود ہے اور تمام مراتب کمال کا مجموعہ ہے لہٰذا ہم اس کی ذات کوکماحقہ درک نہیں کر سکتے اور اس طرح کی کو ئی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے ۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ عقل، خد اکی حقیقت ذات اور اس کے صفات کو کیوں نہیں درک کر سکتی ؟ تو اس کاجواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس ہررخ سے بے نظیر و لا محدود ہے ،علم ،قدرت اور اس کے تمام صفات اس کی ذات کی طرح لا محدود ہیں ، اور دوسری طرف ہم او رجو کچھ ہم سے مربوط ہے ، علم ،قدرت ،حیات ،فرمان ،مکا ن، سب محدود ومتناہی ہے ۔تو ان تمام تر محدودیت کے ساتھ اس کی حقیقت ذات کو کہ جولامحدود ہے کیسے درک کر سکتے ہیں ؟!اس کی حقیقت ذات کو آخر کیسے درک کریں جس کی کو ئی شبیہ ومثیل نہیں ؟۔

۶۲

صفات ثبوتیہ و سلبیہ :

صفات خدا کو دو قسموںمیں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ثبوتیہ و سلبیہ

صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

''عالم ،قادر ، حی، مرید ، مدرک ، سمیع ، بصیر ، متکلم و صادق ''۔خدا وند کمال مطلق ہے جو کچھ صفات ثبوتیہ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے وہ اصول صفات ہیں نہ یہ کہ خدا ان میں منحصر و محدود ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ

''وہ مرکب ومجسم نہیں ، قابل دید و محلول نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں ''

صفات ذات و صفات فعل

صفات ثبوتیہ کی دوقسمیں ہیں ۔ صفات ذات و صفات فعل

صفات ذات: جو اس کی عین ذات ہیں انہیں کو ذات خدا وندی سے جدا نہیں کرسکتے جیسے علم ،قدرت،حیات ،اور جن کی بھی ان تینوں صفات کی طرف بازگشت ہو جیسے سمیع ، بصیر، قدیم، ازلی، ابدی، مدرک، حکیم، غنی، کریم ،عزیز و غیرہ ۔

صفات فعل : وہ صفات جو افعال خدا وندسے متعلق ہیں یعنی جب تک وہ افعال اس سے صادر نہ ہو ں وہ صفات اس سے متصف نہیں ہو ںگے جیسے خالق رازق یااس کے ماننددوسرے صفات اور کبھی اس سے یہ صفات سلب بھی ہو جا تے ہیں جیسے''کان اللّٰهُ ولمْ یُخلق شیئاً ثُم خَلَق ۔أراد اللّه شیئاً ولم یرد شیئاً آخر شاء ولم یشائ''وه خدا تھا جس نے خلق نہیں کیا تھا پھراس نے خلق کیا، خدا نے ایک چیز کا ارادہ، کیا دوسری چیز کا ارادہ نہیں کیا ، چاہا اور نہیں چاہا ۔''تکلم مع موسیٰ ولم یتکلم مع فرعون یُحب مَن أطاعہُ ولا یُحب مَنْ عصاہ'' حضرت موسی سے ہم کلام ہوا فرعون سے کلام نہیںکیا ،جو اس کی اطاعت کرتا ہے اس کو دوست رکھتا ہے اور جو اس کی نا فرمانی کرتاہے اس کو دوست نہیں رکھتا ، اس کے صفات فعل میں ''اذا '' اور ''اِن'' کا لفظ داخل و شامل ہو تا ہے جیسے '' اِذا أراد شیئاً و اِن شائَ اللّه'' اس کی صفات ذات میں ''اِذا عَلِم اللّه ''اور''اِن عَلِم ''نہیں کہہ سکتے۔

۶۳

علم خداوند

وہ واجب الوجود جو عالم علم کل ہے اس کی حیرت انگیز نظم و ہماہنگی پوری کائنات پر محیط ہے ،جو اس کے لا متناہی علم کا بیّن ثبوت ہے اس کے علم کے لئے ماضی حال ،مستقبل سب برابر ہے ، اس کا علم ازل و ابد پر محیط ہے کروڑوں سال قبل و بعد کاعلم اس کے نزدیک آج کے علم کے برابر ہے جس طرح سے کل کا ئنا ت کا خالق ہے اسی طرح تمام ذرات کی تعداد اور ان کے اسرار مکنونہ کا مکمل عالم ہے انسان کے نیک و بد اعمال نیز ان کی نیات ومقاصد سے آگا ہ و باخبر ہے ،علم خداوند اس کی عین ذات ہے اور اس کی ذات سے جدا نہیں ۔

( وَ اعلموا أَنَّ اللّهَ بِکلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) جان لو کہ خد اہر شی ٔسے آگا ہ ہے۔( وَهَوَ اللّهُ فیِ السَّمٰواتِ وَ فیِ الأَرضِ یَعلَمُ سرَّکُم وَجَهَرَکُم وَ یَعلمُ ما تََکسِبُونَ ) ( ۲ ) ''وہ خد اوہ ہے جو زمینو ں و آسمانو ں میں تمہارے ظاہر و باطن کا عالم ہے او رجو کچھ تم انجام دیتے ہو اس کا عالم ہے'' ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة ۲۳۱

(۲)سورہ انعام آیة ،۳

۶۴

سوالات

۱۔عقل، خد اکی حقیقت ذات اور ا س کے صفات تک کیو ں نہیں پہنچ سکتی ؟

۲۔صفات ثبوتیہ وصفات سلبیہ کی تعریف کریں ؟

۳۔ صفات ذات و صفا ت فعل میں کیافرق ہے ؟

۶۵

نواں سبق

صفات خدا وند (فصل دوم )

خد اوند متعال بے پنا ہ قوتوں کامالک ہے اتنی بڑی کا ئنا ت اپنی تمام عظمتوں او روسعتوں کے ساتھ سیارات وکواکب ،کہکشائیں، بے کراں سمندر ، دریا اور ان میں مختلف النوع مخلو قات و موجودات سب کے سب اس کی قدرتوں کے کرشمہ ہیں ! خدا ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شی ٔپر اس کی قدرت یکساں و مساوی ہے۔

( تَبَارَک الّذیِ بِیَدِهِ المُلک وَهُوعلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں کا ئنا ت کی باگ ڈور ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے'' ۔

( لِلّه مُلک السَّمٰواتِ والأَرضِ وَماَ فِیهنَّ وَ هُو علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۲ ) ''زمین وآسمان اورجوکچھ اس کے درمیان ہے ان سب کی حکومت خدا سے مخصوص ہے او روہ ہرچیز پرقادر ہے'' ۔

( فلَا أُقسِمُ بِربِّ المَشَارقِ وَالمَغَاربِ اِنَّا لَقَادِرُونَ ) ( ۳ ) میں

____________________

(۱) سورہ ملک آیة ۱

(۲) مائدہ آیة ۱۲۰

(۳) معارج آیة ۴۰

۶۶

تمام مشرق و مغرب کے پروردگا ر کی قسم کھا کر کہتا ہو ں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں۔

قران کی متعدد آیات جوقدرت خداوندعالم کو بیا ن کرتی ہیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قدرت خد الئے کو ئی حدو قید نہیں ہے بلکہ جس وقت وہ چاہے انجام دے دیتا ہے او رجب کسی چیز کی نا بودی کا ارادہ کرے تواس چیز کومٹ ہی جا نا ہے ۔

خلا صہ یہ کہ کسی قسم کی ناتوانی او رضعف کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔آسمان، عظیم ترین سیارات اور ذرات سب اس کے لئے یکساںاور برابر ہیں ۔

عن علیٍّ علیه السلام :وما الجلیل واللطیف والثقیل والخفیف والقوی والضعیف من خلقه اِلّا سواء

امیر المومنین فرماتے ہیں:'' آشکا ر وپوشیدہ، وزنی او ر ہلکا ،قوی وضعیف یہ سب کے سب خلقت میں اس کے نزدیک برابر ہیں''( ۱ )

امام جعفر صادق نے فرمایا : جس وقت حضرت موسیٰ طور پر تشریف لے گئے عرض کی ! خدا یا ! اپنے خزانے کا نظارہ کرادے تو خدا نے فرمایا : میراخزانہ یوں ہے کہ جس وقت میں کسی چیز کا ارادہ کرکے کسی چیز کو کہو ںکہ ہو جا تو وہ وجو د میں آجائے گی( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۷

قدرت خداکے متعلق ایک سوال

کبھی کبھی یہ سوال اٹھا یا جا تا ہے کہ کیا خدا اپنا جیسا ایک خدا پیدا کرسکتا ہے؟

اگر یہ جواب دیا جا ئے کہ کیو ں نہیں ؟تو دو خداہو جا ئیں گے ! اوراگر کہا جائے کہ نہیں کرسکتا تو ایسی صورت میں قدرت خدا محدود ہو جا ئے گی ۔ یا یہ کہ کیا خدا اتنی بڑی کائنات کو ایک مرغی کے انڈے کے اندر دنیا کو چھوٹی اور انڈے کو بڑ ا کئے بغیر سمو سکتاہے۔؟

اس کے جو اب میں یہ کہا جا ئے گا کہ ایسے مواقع کے لئے (نہیں ہو سکتا ) یا (نہیں کرسکتا ) کی لفظیں استعمال نہیں کریں گے ،یا واضح لفظوں میں یہ کہا جا ئے کہ یہ سوال ہی نامعقول ہے کیو نکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کیا خدا اپنے جیسا دوسرا بنا سکتا ہے تو خود لفظ (خلقت) کے یہ معنی ہیں کہ وہ شیء ممکن الوجود و مخلو ق ہے اور جب ہم یہ کہیں گے (خدا وند ) کے معنی وہ شی ٔہے جو واجب الوجود ہے ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کیا خدا اس با ت پر قادر ہے کہ ایسی چیز کو خلق کرے جو ایک ہی وقت میں واجب الوجو د بھی ہو اور نہ بھی ہو، ممکن الوجود بھی ہو اور غیر ممکن الوجود بھی ، خالق بھی ہو اور مخلوق بھی یہ سوال غلط ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح سے جب یہ کہا جا ئے کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ کل کا ئنا ت کو ایک مرغی کے انڈے میں سمودے اس طرح سے کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ بڑی بھی ہے اور چھوٹی بھی اس سوال کے بے تکے ہو نے کی وجہ سے جواب کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیو نکہ محال سے قدرت کا تعلق خود محال ہے ۔

اسی سوال کو ایک شخص نے حضرت امیرںسے پوچھا تھا آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۸

اِنَّ اللّه تبارک وتعالیٰ لا ینسب اِلیٰ العجز والّذیِ سألتنیِ لا یکون ''خدا کی جا نب عجز و ناتوانی کی نسبت نہیں دی جاسکتی ؛لیکن تم نے جو سوال کیا وہ انہونی ہے''( ۱ )

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاںنے ( اس سوال کے جو اب میں ) فرمایا : ہا ں کیو ں نہیں انڈے سے بھی چھوٹی چیزمیں اس دنیا کو رکھ سکتا ہے خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو تمہاری آنکھ کے اندر رکھ دے جو انڈے سے بھی چھوٹی ہے (در حقیقت یہ جو اب مولا کا نقضی جو اب تھا کیو نکہ سوال کرنے والا ایسے مسائل کے تحلیل کی طاقت نہیں رکھتا تھا)۔( ۲ )

خدا حی وقیوم ہے

خدا حیات جاوداں کا مالک ہے وہ ثابت و قائم ہے وہ اپنی ذات پر قائم ہے دوسری موجودات اس کی وجہ سے قائم ہیں حیات خدا اور حیات موجو دات میں فرق ہے کیو نکہ حیات ،خد اکی عین ذات ہے نہ عارضی ہے اور نہ ہی وقتی ۔

حیات خدا یعنی اس کا علم او راس کی قدرت ،خدا کی حیات ذاتی ،ازلی ،ابدی، نہ بدلنے والی اور ہر طرح کی محدودیت سے خالی ہے وہ قیوم ہے یعنی موجودات کے مختلف امو ر اس کے ہاتھ میں ہیں مخلوقات کی رزق ،عمر ،حیات اور موت اس کے حسن تدبیر کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) توحید صدوق باب ۹ ، حدیث ۹

(۲)پیام قرآن ج ۴، ص ۱۸۳

۶۹

اسی لئے یا حی یا قیوم جا مع اذکا رمیں سے ایک ہے اس لئے کہ (حی) اس کے بہترین صفات ذات یعنی علم وقدرت میں سے ہے اور (قیوم ) اس کے صفات فعل میں سے ہے اس وجہ سے امیر المومنین سے نے ارشاد فرمایا :فلسنا نعلمُ کُنه عظمتک ِالَّا انَّا نعلم اِنَّک حیّ قیُّوم لا تاخذ ک سِنةُ ولا نوم ( ۱ )

''ہم کبھی تیری حقیقت ذات کو درک نہیں کر سکتے ہم بس اتنا جا نتے ہیں کہ حی و قیوم ہے اور کبھی بھی تجھے نینداور جھپکی نہیں آتی (اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے )''

امیر المو منین سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ سجدے میں سر رکھ کر ''یا حی یا قیوم '' کا ورد کر رہے ہیں کئی دفعہ گیا اور واپس آگیا آپ مستقل اسی ذکر کا ورد فرمارہے تھے یہا ں تک جنگ بدر فتح ہو گئی ۔( ۲ )

جو کچھ اب تک ذکر کیا گیا ہے وہ صفات خد ا کے اصول تھے اور دوسری صفات بھی ہیں کہ جن کے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا جائے گا ۔

قدیم و ابدی : یعنی ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اس کے لئے آغاز و انتہا نہیں ہے( هُوَ الأَوّلُ و الآخِرُ والظَّاهرُ والباطِنُ وَ هُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۳ ) ''وہ اول و آخر ہے وہ ظاہر و باطن ہے وہ ہرشی ٔکا جاننے والا ہے ''۔

____________________

(۱) نہج البلا غہ خ ،۱۶۰

(۲) تفسیر روح البیا ن آیہ الکرسی کے بیان میں۔

(۳) حدید آیة،۳

۷۰

مرید : یعنی وہ صاحب ارادہ ہے وہ اپنے کاموں میں مجبو ر نہیں ہے وہ جس کام کو بھی انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور اس کی حکمت پیش نظر ہو تی ہے (وہ حکیم ہے )

مدرک : ساری چیزوں کو درک کرتا ہے .ساری چیزوں کو دیکھتا ہے او رہر آواز کو سنتا ہے۔ ( وہ سمیع و بصیر ہے )

متکلم : خدا ہو ائوں میں آواز پیدا کر سکتا ہے وہ اپنے رسولوں سے گفتگو کرتا ہے اس کی گفتگو زبا ن و لب و حلق کی محتا ج نہیں ۔

صادق : یعنی خدا جوکچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اور عین حقیقت ہے کیو نکہ جھوٹ جھل ونادانی کے باعث یا کسی کمزوری کے سبب ہوتا ہے او رخد اان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلام یہ کہ خد اکمال مطلق ہے او رکسی قسم کا نقض و عیب اس کی ذات سے متصف نہیں اور ہم کو اس کی صفات کی شناخت میں بھی اپنے عجز کا اعتراف کرنا چاہئے ۔

۷۱

ذات خد امیں تفکر منع ہے

صفات کے بارے میں جو مختصر بیا ن تھا اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ صفات خدا عین ذات ہیں لہٰذانہ اس کی ذات او ر نہ ہی اس کی صفات میں از حد تفکر کریں کیو نکہ از حد تفکر حیرانی او ر سر گردانی کاسبب ہے صرف اس کی مخلوقات میں غور خوض کریں ۔

قال الاما مُ البا قر علیه السلام : ''تکلموا فیِ خلق اللّه ولا تکلموا فیِ اللّٰه فأَنَّ الکلام فی اللّٰهِ لا یزاد صاحبة الا تحیّراً ''خلقت خداکے با رے میں گفتگو کرو .خدا کے با رے میں گفتگو نہ کرو اس لئے کہ خدا کے بارے میں گفتگو صاحب کلا م کے حق میں تحیّر کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرے گا۔

علامہ مجلسی او ردیگر علما ء نے کہا ہے کہ ذات و صفات خدا میں تفکر و تکلم سے منع کرنے کا مطلب کیفیت ذات خدا وندعالم ہے ۔

قال الامام الباقر علیه السلام: اِیاکم و التفکّر فی اللّٰه لکن اِذَا أردتم أن تَنظروا اِلیٰ عظمته فانظروا اِلیٰ عظیم خلقه '' ذات خد امیں غور و خو ض سے پرہیز کرو جب جب بھی اس کی عظمتوں کودیکھنا چاہوتو اس کی عظیم خلقت (اس دنیا )کودیکھو ''۔( ۱ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب نہی از کلام در کیفیت حدیث ،۱۔۷

۷۲

سوالا ت

۱۔ خدا کے قدرت کی نشانیا ں کیا ہیں ؟

۲۔ قدیم ، ابدی ،متکلم ، صادق کے کیا معنی ہیں ؟

۳۔ ذات خد امیں غو ر و خو ض کیوں منع ہے ؟

۷۳

دسواں سبق

صفات سلبیہ

ایک جملہ میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ صفات سلبیہ یعنی : خدا وند ہر طرح کے عیب و نقص ، عوارض نیز صفات ممکنات سے پاک ومنزہ ہے ۔ لیکن ان صفات میں بعض پر بحث کی گئی ہے جیسے وہ مرکب نہیں ہے ، جسم نہیں رکھتا ، قابل رئویت نہیں ، اس کے لئے زمان ومکا ن ،کو ئی ٹھکا نہ یا جہت معین نہیں کرسکتے .وہ ہر طرح کے نیاز و احتیاج سے دور ہے، اس کی ذات والا صفات محل حوادث نہیں اور عوارض وتغییر وتبدل کا شکا ر نہیں ہو سکتی ،صفات خدا ونداس کی عین ذات ہے اس کی ذات مقدس پر اضا فہ نہیں ہے ۔

سید الاولیاء امیرالمومنین ایک خطبہ کی ابتدا میں یو ں گویا ہیں''لا یشغله شأن ولا یغیره زمان ولا یحویه مکان ولایصفه لسان ''کو ئی چیز اس کو اپنے آپ میں مشغول نہیں کرسکتی، زما نہ کا تغییر وتبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا کو ئی مکان اپنے میں سمو نہیں سکتا ،کو ئی زبا ن اس کی مدح نہیں کر سکتی۔( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ،۱۷۸

۷۴

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق سے نقل ہے کہ''اِنَّ اللّهَ تبارک و تعالیٰ لا یُوصف بزمان ولا مکان ولا حرکة ولا انتقال ولا سکون بل هو خالق الزمان والمکان والحرکة والانتقال تعالی اللّه عما یقول الظالمون علوًا کبیراً ''خدا وندتعالی کی تعریف وتوصیف زمان و مکا ن ،حرکت و انتقال مکان و سکو ن کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی ، وہ زمان ومکا ن نیزحرکت ونقل مکا ن، ،اور سکون کا خالق ہے ،خدا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو ظالم او رستمگر افراد تصور کرتے ہیں۔( ۱ )

صفات سلبی کی وضاحت

خدا مرکب نہیں ہے یعنی اجزاء ترکیبی نہیں رکھتا کیو نکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کامحتاج ہو تا ہے جبکہ خدا کسی شی ٔ کا محتا ج نہیں ہے ، وحدانیت کی بحث میں ہم نے یہ بات کہی تھی کہ خدا کمال مطلق ہے ، اور ا س کے لئے کو ئی حد ومقدار نہیں ہیں ،لہٰذا اس بات کی جا نب ہماری توجہ ضروری ہے کہ جو محدودیت یا احتیا ج کا سبب ہے وہ ممکنات سے مخصوص ہے خدا ان سے پاک و منزہ ہے تعالی اللّہ عنہ ذلک علواً کبیراً۔

خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا

( لاَ تُدرِکُهُ الأبصَارُ و هُوَ یُدرِک الأبصارَ وَهو اللّطِیفُ الخَبِیر ) ( ۲ ) آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی وہ تمام آنکھوں کو دیکھتا ہے وہ لطیف وخبیر ہے

____________________

(۱) کتاب بحارالانوار ج۳ ،ص،۳۰۹

(۲) سورہ انعام آیة ۔۱۰۳

۷۵

سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟

جواب : اس لئے کہ دیکھنے کے جو لوازمات ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں یعنی خدا کو اگردیکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو جہت اورسمت رکھتا ہو ،اجزاء رکھتا ہو اس لئے کہ ہر جسم اجزاء و عوارض جیسے رنگ ،حجم اور ابعاد رکھتا ہے ،نیز تمام اجسام تغییر وتبدل رکھتے ہیں اور مکا ن کے محتاج ہیں اور یہ سب ممکنات کی خصوصیات ہیں ، اورنیاز واحتیاج کے شکا رہیں خدا ان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلا م یہ کہ نہ خدا جسم ہے اورنہ ہی دیکھا جاسکتا ہے ( اہل سنت کے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ خدا روز محشر مجسم ہوگا اور دکھا ئی دے گا اس کے ضمن میں ان کی جانب سے بہت ساری باتیں مضحکہ خیز ہیں اورکسی عقل و منطق سے سروکا ر نہیں رکھتیں ۔

امام علی رضا سے روایت ہے :أنّه لَیس مِنَّا مَن زعم أَنَّ اللّٰه عزَّوجلَّ جسم ونحن منه براء فی الدنیا والآخرة ( ۱ ) جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ خدا جسم و جسمانیت رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے او رہم دنیا وآخرت میں ایسے شخص سے دور و بیزار ہیں ۔

____________________

(۱)توحید صدوق باب ۶، حدیث، ۲۰

۷۶

وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے

مادہ سے خالی ایک شی ٔ کی شناخت ان انسانو ں کے لئے جو ہمیشہ مادی

قیدخانہ میں اسیر رہے اور اس کے عادی ہو گئے بہت ہی مشکل کام ہے شناخت خدا کا پہلا زینہ اس (خدا ) کو صفات مخلوقات سے منزہ جاننا ہے ،جب تک ہم خداکو لا مکا ن ولا زمان نہ جا نیں گے در حقیقت اس کی معرفت ہی حاصل نہیںکر سکتے ۔محل او رمکان رکھنا جسم وجسمانیت کالازمہ ہے او رہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ وہ جسم نہیں رکھتا وہ ہر جگہ ہے ۔

وہ ہر جگہ ہے

( وَللَّهِ المَشرِقُ والمَغرِبُ فَأَینَمَا تُولُوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ اِنَّ اللّٰهَ واسِعُ عَلیمُ ) ( ۱ ) مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے اور تم جس جانب بھی رخ کروگے خدا وہاں موجود ہے خدا بے نیاز اور صاحب علم و حکمت ہے ۔

( وَهُوَ مَعَکُم أَینَ مَا کُنتُم وَاللّهُ بِمَا تَعملُونَ بَصیرُ ) ( ۲ ) تم جس جگہ بھی ہو خدا تمہارے ہمراہ ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس پر ناظر ہے ۔

امام موسی کا ظم ںنے فرمایا :اِنَّ اللّٰهَ تبارک وتعالیٰ کان لم ینزل بلا زمان ولا مکان وهو الآن کما کان لا یخلو منه مکان ولا یشغل به مکان ولا یحلّ فی مکان ( ۳ ) خدا ہمیشہ سے زمان ومکان کے بغیر موجود تھا اور اب بھی ہے، کو ئی جگہ اس سے خالی نہیں اور درعین حال کسی جگہ میں قید نہیںاس نے کسی مکا ن میں حلول نہیںکیا۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ص ۱۱۵۔

(۲) سورہ حدید آیة ،۴

(۳) توحید صدوق باب ۲۸،حدیث ۱۲

۷۷

ایک شخص نے حضرت امام علی سے سوال کیا کہ مولا ہمارا خدازمین وآسمان کو پید اکرنے سے پہلے کہاں تھا ؟آپ نے فرمایا : کہاں کا لفظ مکا ن کے حوالے سے ہے جبکہ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہیں تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) سابق حوالہ حدیث،۴

۷۸

خدا کہا ں ہے ؟

کتاب ارشاد واحتجاج میں ذکر ہے کہ ایک یہودی مفّکر، خلفاء میں سے ایک کے پاس آیا او رسوال کیا کہ آپ جانشین رسول ہیں ؟ انھو ں نے جو اب دیا ہاں اس نے کہا خد اکہا ں ہے ؟

انہو ں نے جواب دیا آسمان میں عرش اعظم پر بر اجمان ہے اس نے کہا پھر تو زمین اس کے حیطۂ قدرت سے خالی ہے خلیفہ ناراض ہو گئے اور چیخ کر بولے فوراً یہاں سے دفع ہو جا ئو ورنہ قتل کرادوںگا ،یہودی حیران ہوکر اسلام کا مذاق اڑا تا ہو ا باہر نکل گیا۔

جب امیرالمومنین ںکو اس بات کی اطلاع ہو ئی توآپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا میں تمہارے سوال اور دئے گئے جواب دونوںسے باخبر ہوں،لیکن میں بتاتا ہو ں کہ اس نے مکا ن کو خلق کیا ہے لہٰذا اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود صاحب مکان ہو اور کسی مکان میں مقید ہو۔

وہ اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ مکان اس کو اپنے آپ میں سمو لے ،کیاتم

۷۹

نے اپنی کتابوں میں نہیں پڑھا کہ ایک دن حضرت موسی بن عمران بیٹھے ہو ئے تھے۔

ایک فرشتہ مشرق سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ مغرب سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ آیاآپ نے سوال کیاکہاں سے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان میں خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ اور آیا اس سے سوال کیا کہا ں تھے؟ اس نے کہازمین کے ساتویں طبق سے خدا کے پاس تھا ،اس کے بعد حضرت موسی نے کہاپاک ہے وہ ذات جس کے وجود سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور اس کے نزدیک کوئی جگہ دوسری سے نزدیک نہیں ۔

یہودی نے کہا کہ : میں اس بات کی گواہی دیتا ہو ںکہ حق مبین یہی ہے اور آپ پوری کائنات میں سب سے زیادہ وصی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہلیت رکھتے ہیں ۔( ۱ )

ہم دعا کرتے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیوں بلند کرتے ہیں ؟

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک کا فر ،حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور'' الرحمن علی العرش استوی '' کی تفسیر جاننی چاہی امام نے دوران تفسیر وضاحت فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا : خدا کسی مخلوق ومکان کا محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں ، اس نے عرض کی تو پھر دعا کرتے وقت

____________________

(۱) پیام قرآن نقل جلد۴ ،ص ۲۷۴

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ڈاکٹر سید ساجد علی (بنگلور)

مدعا ہے میرے دل کا اے مرے پروردگار

ہوں میں نافرمان بندہ اے مرے پروردگار

*

تو نے ہم جن و بشر کو جس لئے پیدا کیا

وہ عبادت ہم سے کروا ے مرے پروردگار

*

بھول کر تیری ڈگر دنیا میں کھوئے ہیں سبھی

اپنی رحمت ہم پہ برسا اے مرے پروردگار

*

ہو نزع کا وقت جب ہم کو نہ کچھ احساس ہو

خیال میں چہرہ ہو شہؐ کا اے مرے پروردگار

*

شہؐ کے صدقے ان دعاؤں کو میری کر لو قبول

کر دو بیڑا پار میرا اے مرے پروردگار

*

بندگی ساجدؔ کی تم برتر پھر اعلیٰ تر کرو

بخش دو جام اس کو ایسا اے مرے پروردگار

***

۱۴۱

محمد حسین دلبرؔ ادیبی

تو اپنی رحمتوں کی عطا بے شمار دے

بے چینیاں سمیٹ لے دل کو قرار دے

*

میخانۂ الست میں ٹوٹے نہ جو کبھی

پیمانۂ رسولؐ سے ایسا خمار دے

*

عشقِ رسولؐ جذبۂ صادق لئے ہوئے

یا رب کرم سے امت مسلم پہ وار دے

*

طوفان غم میں کشتیِ مسلم ہے، اے خدا

اپنے کرم سے پھر سر ساحل اتار دے

*

آلودہ پھر کبھی نہ ہو عصیاں کے داغ سے

نورِ نبیؐ سے سینۂ دلبرؔ نکھار دے

***

۱۴۲

سلام نجمی (بنگلور)

ہم نہیں کہتے ہمیں شان سلیمانی تو بخش

یہ بھی ہم کہتے نہیں تخت اور سلطانی تو بخش

*

کوئی منصب کوئی عہدہ اور نہ دیوانی تو بخش

ہے ضرورت جس کی اب وہ جذب ایمانی تو بخش

*

یا خدا پھر سے متاع درس قرآنی تو بخش

ہم مسلمانوں کو پھر سچی مسلمانی تو بخش

*

زندگانی کو خدایا خوئے انسانی تو بخش

ذہن و دل کو روح کو توحید افشانی تو بخش

*

صدق، اخلاص و وفا اور عشق لاثانی تو بخش

یعنی یاران نبیؐ کا وصف قربانی تو بخش

*

اقلیت کے فرق کا یا رب نہ ہو ہم کو خیال

دعوت حق کا ہمیں اندازِ فارانی تو بخش

*

ہم مٹا دیں پھر سے یا رب فتنۂ باطل تمام

خالدؓ ایوبیؓ جیسی ہم کو جولانی تو بخش

*

۱۴۳

دور کر ملت سے یا رب مسلکی ناچاقیاں

اور دلوں کو جوڑ دے آپس میں اک جانی تو بخش

*

خار زاران وطن کو نیست کر نابود کر

اور یہاں کے ذرے ذرے کو گل افشانی تو بخش

*

پیروی کرنے لگے ہیں ہم سبھی اغیار کی

پھر سے یا رب ہم کو اپنی راہ نورانی تو بخش

*

ہر طرف سے بڑھ رہی ہیں ہر طرح کی مشکلیں

مہربانی ہم پہ فرما اور آسانی تو بخش

*

شعبۂ ہستی ہوا اپنا ہر اک تاریک تر

شعبۂ ہستی کو ہر اک اپنے تابانی تو بخش

*

اس مشینی دور کی جو بے حسی ہے ذوالجلال

بہر رحمت بے حسی کو ذوق روحانی تو بخش

*

جب دیا ہے دل تو درد دل بھی کر ہم کو عطا

یعنی ہم کو درد مندی اور درمانی تو بخش

*

جس میں تو ہی تو ہو رب دل کو وہ آئینہ بنا

اور بصیرت کو ہماری جلوہ سامانی تو بخش

*

۱۴۴

میں تری شان کریمی کے تصدق رب مرے

جس سے ملت کا بھلا ہو وہ سخندانی تو بخش

*

شاعر ی میں نعت گوئی ہو مری پہچان خاص

نعت گوئی کو مری ایسی فراوانی تو بخش

*

بندگی کی دے سدا توفیق رب ذوالجلال

اور نجمیؔ کو ترے حمد و ثنا خوانی تو بخش

***

۱۴۵

سید طاہر حسین طاہر (ناندیڑ)

ظلمتوں سے نجات دے اللہ

نور والی حیات دے اللہ

*

سب کو کل کائنات دے اللہ

مجھ کو طیبہ کی رات دے اللہ

*

باطلوں سے نباہ کیا ہو گا

اہل ایماں کا ساتھ دے اللہ

*

تیری مخلوق کے جو کام آئے

مجھ میں کچھ ایسی بات دے اللہ

*

حق پرستی میں عمر کٹ جائے

قابل رشک ذات دے اللہ

*

دے ارادوں کو تو ظفریابی

حوصلوں کو ثبات دے اللہ

*

سرخروئی ہو حشر میں جس سے

مجھ میں ایسی صفات دے اللہ

*

۱۴۶

میں ہوں حالات کے شکنجے میں

گردشوں سے نجات دے اللہ

*

ہم سے باطل ہے برسر پیکار

دشمن دیں کو مات دے اللہ

*

اس گنہگار کو تو فیض کرم

باعث التفات دے اللہ

*

لکھ رہا ہے تری ثنا طاہرؔ

شاعر ی کو ثبات دے اللہ

***

۱۴۷

رجب عمر (ناگپور)

تجھے پسند ہوں ایسے مرے مشاغل کر

حیات میری ہے طوفاں تو اس کو ساحل کر

*

تری طلب میں رہوں ڈھونڈتا پھروں تجھ کو

تو اپنے چاہنے والوں میں مجھ کو شامل کر

*

سنا ہے اب بھی ہیں اصحاب فیل حرکت میں

خدایا ان پہ ابابیل پھر سے نازل کر

*

بہت کٹھن ہے رہ مستقیم پہ چلنا

تو اپنے فضل سے آساں مرے مراحل کر

*

الجھنا خطروں سے بس میں نہیں ہے اب میرے

تو اپنے لطف سے ان کو خدایا باطل کر

***

۱۴۸

علیم الدین علیم (کلکتہ)

دل سے نکلے تری ثنا یا رب

میرے لب پہ رہے سدا یا رب

*

آسماں سے زمیں کے سینے تک

جلوہ تیرا ہے جا بہ جا یا رب

*

اپنی قدرت سے سارے عالم کو

زندگی تو نے کی عطا یا رب

*

باغ میں عندلیب ہیں جتنے

گیت گاتے ہیں سب ترا یا رب

*

بے زباں یا زبان والا ہو

سب کو دیتا ہے، تو غذا یا رب

*

درد معصوم کو جو دیتا ہے

کب ملے گی اسے سزا یا رب

*

سرورؐ انبیا کی امت کو

ہے فقط آسرا ترا یا رب

*

مانگتا ہے علیمؔ کیا تجھ سے

سن لے اب اس کی بھی دعا یا رب

***

۱۴۹

حسن رضا اطہر (بوکارو سیٹی)

متاع علم و ہنر لازوال دے اللہ

مجھے بلندیِ فکر و خیال دے اللہ

*

گداز و سوزش عشق بلال دے اللہ

شراب عشق مرے دل میں ڈال دے اللہ

*

مرا وجود ہے بے سور اس لئے مجھ سے

وہ کام لے کے زمانہ مثال دے اللہ

*

سروں پہ تان دے حفظ و اماں کی اک چادر

قصور وار ہیں رحمت کی شال دے اللہ

*

خیال سختی محشر سے مرتعش ہے بدن

کوئی نجات کی صورت نکال دے اللہ

*

وفا خلوص کی خوشبو ہی جسم سے پھیلے

سرشت بد نہ کوئی ابتذال دے اللہ

*

تو ہی تو رزاق مطلق ہے مالک و خالق

نبی کے صدقے میں رزق حلال دے اللہ

***

۱۵۰

تلک راج پارس (جبل پور)

گداز ریشمی گفت و شنید ہو مولا

متاع ذہن رسا بھی جدید ہو مولا

*

اک ایسا بندہ مرے گھر میں پرورش پائے

جو تیری راہ پہ چل کر شہید ہو مولا

*

جو مرے پاس ہے تاوان ہے سخاوت کا

یہ التفات و عنایت مزید ہو مولا

*

ہمارے ذہن کو عرفان آگہی دے دے

جو نسل نو کے لئے بھی مفید ہو مولا

*

یہ بد نمائی نمائش کبھی نہ کر پائے

جو احتجاج کا جذبہ شدید ہو مولا

*

ہمارے خون کی ہر بوند تیغ بن جائے

نظر کے سامنے جب بھی یزید ہو مولا

*

قبول ساری عبادت ہو روزہ داروں کی

جو تیری مرضی ہے ویسی ہی عید ہو مولا

***

۱۵۱

رخشاں ہاشمی (مونگیر)

اس فضا کو نکھار دے یا رب

سب کے دل میں تو پیار دے یا رب

*

نیک رستہ پہ تو چلا سب کو

سب کی دنیا سنوار دے یا رب

*

بندگی تیری بس ہم کرتے رہیں

زندگی با وقار دے یا رب

*

غم کے دن کو گزار لوں ہنس کر

حوصلہ دے اعتبار دے یا رب

*

تنگ پڑ جائے رخشاں ؔ کا دامن

خوشیوں کی تو، بہار دے یا رب

***

۱۵۲

رئیس احمد رئیس (بدایوں )

بدی کی راہ سے مجھ کو ہٹا دے یا اللہ

مطیع احمد مرسل بنا دے یا اللہ

*

تمام عمر حقیقت کو یہ بیان کرے

مری زبان کو وہ حوصلہ دے یا اللہ

*

جو میری نسلوں کا اب تک رہی ہے سرمایہ

دلوں میں پھر وہی الفت جگا دے یا اللہ

*

ہر ایک سمت جہالت کا بول بالا ہے

یہاں تو علم کی شمعیں جلا دے یا اللہ

*

تمام شہر میں، میں منفرد نظر آؤں !

تو میری ذات مثالی بنا دے یا اللہ!

*

ہر ایک لمحہ تیرا نام ہو زباں پہ مری!

تو مجھ کو اپنا دیوانہ بنا دے یا اللہ

*

ترے وجود کو تسلیم کر لیں منکر بھی!

کوئی تو معجزہ ایسا دکھا دے یا اللہ

*

تو اپنے پیارے نبیؐ رحمت دو عالم کی

دل رئیسؔ میں الفت جگا دے یا اللہ

***

۱۵۳

امیر اللہ عنبر خلیقی (ناگپور)

عرفان و آگاہی پاؤں، حرف ہدایت دے داتا

خود سمجھوں، سب کو سمجھاؤں ایسی صداقت دے داتا

*

رسم جہاں جانی پہچانی، دولت و شہرت آنی جانی

دائم و قائم جو رہ جائے، ایسی عزت دے داتا

*

ظلم و ستم کرنا ہے کس کو، جور و جفا سہنا ہے کس کو

رحم کرے جو انسانوں پر، ایسی مروت دے داتا

*

میں نے ہر خواہش کو چھوڑا، تیری جانب رخ کو موڑا

میں مخلص تیرا بندہ ہوں، رحمت و برکت دے داتا

*

حرص و ہوس کے چلتے جھونکے، دنیا میں مطلب اور دھوکے

اخلاق و اخلاص نبھاؤں، اتنی شرافت دے داتا

*

جھوٹ کا جب ماحول ہوا ہے جھوٹ یہاں انمول ہوا ہے

جگ میں ہمیشہ سچ کہنے کی جرأت و ہمت دے داتا

*

بجلی کوندے محنت کی اور برق بھی کوندے غیرت کی

میری رگ رگ اور لہو میں ایسی حرارت دے داتا

*

کرنے کو اصلاحی خدمت، عنبرؔ کو ابلاغ سے نسبت

ذکر میں کچھ ندرت لانے کو، فکر میں رفعت دے داتا

***

۱۵۴

ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی (بہرائچ)

یا رب نبیؐ کے باغ کی قربت نصیب ہو

مجھ کو میری حیات میں جنت نصیب ہو

*

نار سقر سے مجھ کو برأت نصیب ہو

سرکار دو جہاں کی محبت نصیب ہو

*

میدانِ حشر میں جو مرے کام آ سکے

محبوب دو جہاں کی وہ چاہت نصیب ہو

*

غم ہائے روزگار سے تنگ آ چکا ہوں میں

شہر نبیؐ میں مجھ کو سکونت نصیب ہو

*

میں بھی شفیع حشر کا ادنیٰ غلام ہوں

محشر کے روز مجھ کو شفاعت نصیب ہو

*

اچھے برے کی کچھ تو میں تمیز کر سکوں

روشن دماغ، چشم بصیرت نصیب ہو

*

جو سرزمین طیبہ پہ پہنچا سکے ہمیں

یا رب ہمیں وہ قوت و ہمت نصیب ہو

*

۱۵۵

بس اتنی التجا ہے مری تجھ سے اے خدا

دیدارِ مصطفی کی اجازت نصیب ہو

*

کوئی قمرؔ رئیس کو کاذب نہ کہہ سکے

بوبکرؓ کی اسے بھی صداقت نصیب ہو

***

۱۵۶

بیتاب کیفی (بھوجپور)

ہم پہ ہر وقت عنایت کی نظر ہو یا رب

زندگی نور کے سایہ میں بسر ہو یا رب

*

دل کی گہرائی سے ہر بات زباں تک آئے

ذہن روشن ہو دعاؤں میں اثر ہو یا رب

*

حسن اخلاق و محبت کی عطا ہو دولت

خدمت خلق سے لبریز جگر ہو یا رب

*

ایک پل بھی نہ تری یاد سے دل غافل ہو

بس اسی طرح بسر شام و سحر ہو یا رب

*

ہر طرف آج حوادث کی گھٹا چھائی ہے

اک نظر خاص نوازش کی ادھر ہو یا رب

*

دشمنوں کے لئے ہو درد کا دریا دل میں

دوستوں کو بھی منانے کا ہنر ہو یا رب

*

بخش دے گا تو گنا ہوں کو یقین کامل ہے

قلب صادق سے مناجات اگر ہو یا رب

*

۱۵۷

ہاتھ سے دامن تہذیب نہ چھوٹے ہرگز

عدل و انصاف کا ہر معرکہ سر ہو یا رب

*

دیکھ بس ایک دفعہ شہر مدینہ جا کر

زندگانی میں کبھی نیک سفر ہو یا رب

*

بھول کر آئے نہ اس سمت خزاں کا موسم

پھول کی طرح مہکتا ہوا گھر ہو یا رب

*

کج روی پر نہ حسیں قلب کبھی مائل ہو

ہر گھڑی پیش نظر سیدھی ڈگر ہو یا رب

*

جب بھی بیتابؔ مری روح بدن سے نکلے

سامنے سید کونین کا در ہو یا رب

***

۱۵۸

عارف حسین افسر (بلندشہری)

یا الٰہی پاک و اعلیٰ تیری ذات

معرفت سے ماوراء تیری صفات

*

بھیج سیدنا محمد ؐ پر سلام

حیثیت سے اپنی برکت اور صلوٰۃ

*

بخش دے یا رب خطاؤں کو مری

خیر میں تبدیل فرما سیّات

*

نفس اور شیطاں کے شر سے دے پناہ

دے بلاؤں اور فتنوں سے نجات

*

کر دئے تیرے حوالے معاملات

میرے رب تو ہی حل المشکلات

***

۱۵۹

حبیب سیفی آغاپوری (نئی دہلی)

خالق دو جہاں سن مری التجا

مجھ کو رکھنا فقط اپنے در کا گدا

سب سہارے ہیں دنیا کے جھوٹے خدا

تیری ہی ذات ہے اے خدا ماوریٰ

سارا عالم فنا ہونا ہے ایک دن

میرا ایمان ہے صرف تو ہے بقا

وحدہٗ لاشریک لہٗ، تو ہی تو

کر دیا ہے زباں سے بیاں مدعا

باقی کچھ جان ہے اور یہ ارمان ہے

ساتھ ایمان کے نکلے بس دم مرا

قبر کی ہولناکی سے ڈرتا ہوں میں

کرتا ہوں اس لئے مغفرت کی دعا

لاکھ عاصی ہوں میں تو تو رحمن ہے

در گزر کر دے تو میری بس ہر خطا

کیوں تمنا کروں میں کسی غیر کی

مجھ کو جو بھی ملا تیرے در سے ملا

میری ناکام مسرت کا رکھنا بھرم

تیرے آگے جھکایا ہے پھر سر خدا

***

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193