انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 10%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95658 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

سیداصغربہرائچی (بھرائچ)

صحرا نورد ہوں تو مجھے شہر ناز دے

تو اپنی رحمتوں سے خدایا نواز دے

*

جی بھر کے تیری حمد و ثنا میں بھی کر سکوں

بھیجا ہے اس جہاں میں تو عمر دراز دے

*

گم ہو گیا ہوں میں بھی گنا ہوں کی بھیڑ میں

پروردگار مجھ کو تو ذوق نماز دے

*

گھر سے چلوں تو طیبہ میں جا کے رکیں قدم

یا رب مرے جنوں کو وہ اوج و فراز دے

*

ہر سنگ و آئینہ کو بھی محسوس کر سکوں

ایماں عطا کیا ہے تو دل بھی گداز دے

*

ذہن رسا پہ جس کے تھا محمود کو بھی ناز

اے کار ساز مجھ وہ تاریخ ساز دے

*

اصغرؔ کے کام آئے جو میدان حشر میں

بس اتنی التجا ہے وہ سامان و ساز دے

***

۱۶۱

عبرت بہرائچی (بھرائچ)

( ۱)

خار زاروں کو گلستاں مرے مولیٰ کر دے

ہر طرف دید کا ساماں مرے مولیٰ کر دے

*

دیکھ لوں گنبد خضریٰ کو نظر سے اپنی

یہ بھی پورا مرا ارماں، مرے مولیٰ کر دے

*

میرے دامن میں گنا ہوں کے سوا کچھ بھی نہیں

کچھ عطا دولت ایماں مرے مولیٰ کر دے

*

راہ چلنے نہیں دیتے ہیں گنا ہوں کے سفیر

مشکلیں اب مری آساں مرے مولیٰ کر دے

*

دل کے ہر تیرہ و تاریک صنم خانہ میں

شمع توحید فروزاں مرے مولیٰ کر دے

*

میں بھی ہوں سید کونین ؐ کا اک ادنیٰ غلام

مجھ کو بھی خلد بداماں مرے مولیٰ کر دے

*

نام لیوا نہ رہے ظلم کا دنیا میں کوئی

ایسا جاری کوئی فرماں مرے مولیٰ کر دے

*

آنکھیں پر نم ہیں دوا مانگ رہا ہے عبرتؔ

اس کے اب درد کا درماں مرے مولیٰ کر دے

***

۱۶۲

(۲)

ذرہ ذرہ کو ثریا کا تو ہمسر کر دے

قد سے محروم ہیں جو ان کو قد آور کر دے

*

تو اگر چاہے تو خاروں کو گل تر کر دے

ایک ہی پھول سے عالم کو معطر کر دے

*

تیری عظمت تری قدرت سے نہیں کچھ بھی بعید

آگ کو پھول تو قطرہ کو سمندر کر دے

*

کمتری کا اسے احساس نہ ہونے پائے

میرے بھائی کو مرے قد کے برابر کر دے

*

خشک سالی مرے ہونٹوں کی نہیں جاتی ہے

اب تو پیدا مرے ہونٹوں پہ سمندر کر دے

*

تیرگی بڑھتی ہی جاتی ہے مرے سینے کی

نور ایماں سے اسے آج منور کر دے

*

بے پری مجھ کو مدینہ نہیں جانے دیتی

بازوؤں کو تو مرے حاصل شہ پر کر دے

*

۱۶۳

مجھ گنہ گار سیہ کار کو اب رب قدیر

باغ جنت میں عطا چھوٹا سا اک گھر کر دے

*

مالک کون و مکاں سن لے دعائے عبرتؔ

اس کے بگڑے ہوئے حالات کو بہتر کر دے

***

۱۶۴

ڈاکٹر امین انعامدار (امراؤتی)

(۱)

تو برف کو بھی عطا سوز اور جلن کر دے

تجھے ہے سہل جو احساس کو بدن کر دے

*

اگرچہ حرص غلط ہے مگر مجھے یا رب

حریص علم بنا دے حریص فن کر دے

*

تم اپنی خوبی تقدیر پر نہ اتراؤ

نہ جانے کون سا لمحہ چمن کو بن کر دے

*

سنا ہے آج وہ تشریف لانے والے ہیں

خدائے پاک معطر مرا سخن کر دے

*

شہید عشق ہوں اے خاک یہ خیال رہے

ترا رویہ نہ میلا مرا کفن کر دے

*

بہ طرز ابن رواحہؓ و حضرت حسانؓ

مرے قلم کو مدیح شہ زمن کر دے

***

۱۶۵

(۲)

اے خدائے بزرگ و برتر دے

مجھ کو کامل یقین خود پر دے

*

مژدۂ فتح دے شکست کو پھر

پھر زمیں کو وہی بہتر دے

*

پھر ابابیلیں آسماں سے اتار

ان کی چونچوں میں پھر تو کنکر دے

*

یا تو دے دے مصیبتوں سے نجات

یا مرے دل کو اب زمیں کر دے

*

جن کی خوشبو سے دنیا مہک اٹھے

ایسے میری زباں کو اکشر دے

*

زیر ہے اور نہ پیش ہے یہ امینؔ

تو اگر چاہے تو زبر کر دے

***

۱۶۶

ڈاکٹر نثار جیراجپوری (اعظم گڑھ)

خدایا دین کی عزت ہو جان سے اوپر

کروں نہ فیصلہ کوئی قرآن سے اوپر

*

اب اور کتنا اٹھائے گی قوم یہ ذلت

دوبارہ کر دے اسے پھر جہان سے اوپر

*

سفینہ ڈوب نہ جائے ہوائیں برہم ہیں

ہواؤں کو تو اٹھا دے بادبان سے اوپر

*

نہ دین پاس ہے اپنے نہ علم ہے نہ ہنر

ہماری زندگی کر دے ڈھلان سے اوپر

*

خدا کا خوف بسائے رہو تصور میں

نہ خود کو رکھو کبھی آسمان سے اوپر

*

نثار دین کی عظمت رہے نگاہوں میں

سدا رکھو اسے دونوں جہان سے اوپر

***

۱۶۷

عطا عابدی (بہار)

( ۱)

یا رب چمن زیست کو گلہائے اماں دے

نفرت بھرے ماحول کو الفت کا سماں دے

*

ہم اہل جہاں کے لئے ہوں باعث صد رشک

وہ فکر وہ کردار دے وہ حسن بیاں دے

*

پھر لشکر اغیار ہزیمت سے ہو دوچار

پھر بازوئے ملت کو وہی تاب و تواں دے

*

سجدے کی زمیں نرغۂ اعدا میں ہے اللہ

ایوبیؓ و خالدؓ سا اس امت کو جواں دے

*

انسان کی خدمت ہو مرا مقصد و منصب

وہ حوصلہ وہ قلب دے وہ دست و زباں دے

*

ملت کا ہوں ہم فخر تو ہوں ملک کی ہم شان

توفیق ہمیں خیر کی بے حد و گماں دے

*

ہے دھوپ کا یہ شہر میں بے سایہ ہوں اللہ

سر اپنا چھپانے کو عطاؔ کو بھی مکاں دے

***

۱۶۸

(۲)

ہر رنگ نرالا دے، ہر روپ نمایاں دے

یا رب مرے گلشن کو وہ لطف بہاراں دے

*

تو زخم سے واقف ہے تو درد سمجھتا ہے

اس زخم کا مرہم دے اس درد کا درماں دے

*

دنیا کے جو طالب ہیں تو ان سے بچا مجھ کو

جو تجھ سے ملا پائے وہ صحبت انساں دے

*

ہر خوف نکل جائے دل سے مرے دنیا کا

بس ایک تیرا ڈر ہو وہ قوت ایماں دے

*

عصیاں سے بھرا دامن دھل جائے مرا جس سے

وہ ابر کرم دے اور وہ بارش احساں دے

*

جینے کی امنگیں ہوں، پر نور ترنگیں ہوں

اس بزم عطا کو تو وہ شمع فروزاں دے

***

۱۶۹

امتیاز احمد عاقل نقشبندی (بھدوہی)

لذت درد مصطفی دے دے

میرے ایمان کو جلا دے دے

*

ہر طرف ظلمتوں کا ڈیرا ہے

میرے مالک مجھے ضیا دے دے

*

راستے سے بھٹک گیا ہوں میں

گم شدہ مجھ کو راستہ دے دے

*

ہو گئی ہے ہماری منزل گم

ہم کو منزل کا تو پتہ دے دے

*

کتنی پستی میں جی رہے ہیں لوگ

بے شعوروں کو یہ پتہ دے دے

*

جو ہے معمور تیری رحمت سے

میرے سر کو وہی ردا دے دے

*

عاقلؔ بے عمل کے دل کو بھی

حب سرکار اے خدا دے دے

***

۱۷۰

پروفیسر اقتدار افسرؔ (بھوپال)

مرے اللہ جینے کا ہنر دے

مجھے تو سوز دل سوز جگر دے

*

محبت سے تری معمور وہ ہو

مجھے گرچہ حیات مختصر دے

*

دعائیں ہوں مری مقبول ساری

زباں میں تو مری ایسا اثر دے

*

جلا کر راکھ کر دیں ماسوا کو

تو دل کو عشق کے ایسے شرر دے

*

بنوں پروانۂ شمع رسالت

مجھے تو الفت خیر البشر دے

*

مجھے تو عشق بس اپنا ہی دینا

تو میری کاوشوں کا یہ ثمر دے

*

مقدس ذکر میں تیرے جو گزرے

مجھے وہ روز و شب شام و سحر دے

*

۱۷۱

پھروں توحید کی دعوت کو لے کر

مرے اللہ ایسا تو سفر دے

*

تری ہی حمد میں کرتا ہوں افسرؔ

مجھے تو سرخرو عقبیٰ میں کر دے

***

۱۷۲

سہیل عالم (کامٹی)

ہو کے مایوس ترے در سے جو خالی جائے

آس کیا لے کے کہیں اور سوالی جائے

*

میں گنہ گار و سیہ کار و خطا کار سہی

مجھ ریاکار کی کچھ راہ نکالی جائے

*

زندگی سے مجھے اتنی ہی تمنا ہے فقط

عشق میں تیرے بہ انداز بلالی جائے

*

مجھ سے لاچار پہ مولا ہو کرم کی بارش

مشکلوں میں مری حالت نہ سنبھالی جائے

*

صرف اخلاص و وفا شرط ہے سائل کیلئے

غیر ممکن ہے کہ در سے ترے خالی جائے

*

آس بس تجھ سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے سہیلؔ

دل مغموم کی فریاد نہ ٹالی جائے

***

۱۷۳

غلام مرتضیٰ راہی (فتح پور)

پل پل کی میں روداد رقم کرتا چلا جاؤں

صدیوں کے لئے خود کو بہم کرتا چلا جاؤں

*

اٹھ کر ترے در سے مجھے جانا ہو جہاں بھی

محسوس ترا لطف و کرم کرتا چلا جاؤں

*

رکھے مجھے توفیق سبک بار ہمیشہ

احسان کو احسان میں ضم کرتا چلا جاؤں

*

ٹھہروں ترے نزدیک میں کردار کا غازی

پورے میں سبھی قول و قسم کرتا چلا جاؤں

*

دنیا سے مرا فاصلہ بڑھتا رہے چاہے

تجھ سے جو ہے دوری اسے کم کرتا چلا جاؤں

*

ہر آن کوئی تازہ تڑپ رخت سفر ہو

جو زخم ملے سینے میں دم کرتا چلا جاؤں

*

فرق آئے نظر نشو و نما میں مجھے جن کی

ایسی سبھی شاخوں کو قلم کرتا چلا جاؤں

*

۱۷۴

آج اس کے چلے جانے کے افسوس میں شامل

کل اپنے نہ رہنے کا بھی غم کرتا چلا جاؤں

*

دریا کی خوشامد نہ کروں پیاس کے ہوتے

ہونٹوں پہ زباں پھیر کے نم کرتا چلا جاؤں

***

۱۷۵

اظہار سلیم (مالیگاؤں )

تحت الثریٰ میں قید ہوں باہر نکال دے

سات آسماں کی سیر کروں وہ کمال دے

*

مشعل بدست کوئی نہیں میرے شہر میں

ہر سمت روشنی کا سمندر اچھال دے

*

میں رنگ رنگ پھیل سکوں کائنات پر

قوس قزح کا روپ مجھے بے مثال دے

*

طائر ہوں دھوپ دھوپ جلا ہے مرا وجود

پیڑوں کی سرد چھاؤں ثمر ڈال ڈال دے

*

چار آئینوں کے گھر میں اندھیرا ہے کس قدر

اک تیرا عکس نور مگر لازوال دے

*

طالب ہوں حسن لفظ کا، روشن خیال کا

وصف سخنوری مرے کاسے میں ڈال دے

***

۱۷۶

حبیب راحت حباب (کھنڈوہ)

( ۱)

میں کہ تیرا محتاج عنایت یا رب العزت یا رب العزت

کب تک رہوں گا محروم رحمت یا رب العزت یا رب العزت

*

بیت رہی ہے کس مشکل سے، واقف ہے تو حال دل سے

عمر یونہی نہ جائے اکارت یا رب العزت یا رب العزت

*

تجھ سا نہیں کوئی قدرت والا تجھ سا نہیں کوئی حکمت والا

سب تیرے بندے سب تیری خلقت یا رب العزت یا رب العزت

*

رد بلا کر رد بلا کر رد بلا کر رد بلا کر

دور ہو ظلمت دور ہو ظلمت یا رب العزت یا رب العزت

*

ذکر محمد باعث رفعت، عشق محمد تیری عبادت

محمد بھی مدحت نعت بھی مدحت یا رب العزت یا رب العزت

*

رنگ میں تیرے رنگ جائے گا، تیرا یہ راحتؔ تیرے کرم سے

رنگ تو لائے رنگ طبیعت یا رب العزت یا رب العزت

***

۱۷۷

(۲)

دلوں کو پہلے تو صبر جمیل دے یا رب

پھر ہجر آشنا لمحہ طویل دے یا رب

*

اب اور کتنا لہو دیں عدو کے خنجر کو

اب اور ظلم کو اتنی نہ ڈھیل دے یا رب

*

ہر اک محاذ پہ نمرود ہیں مقابل میں

ہمیں بھی حوصلہ ہائے خلیل دے یا رب

*

مجھے عصائے کلیمی تو کر عطا پہلے

پھر اس کے بعد تو دریائے نیل دے یا رب

*

سر غرور نہ اونچا ہو تیری عظمت سے

تو اپنے ہونے کی کچھ تو دلیل دے یا رب

*

حبابؔ دیتا ہے اب واسطہ محمد ؐ کا

نہ فاصلے نہ دعا کو فصیل دے یا رب

***

۱۷۸

(۳)

پھر میرے قلب و نظر نور سے بھر دے مولا

پھر اٹھا دے یہ حجابات کے پردے مولا

*

ہو چکے راستے مسدود سبھی کوشش کے

اب دعاؤں کو ہی تاثیر و اثر دے مولا

*

آسمانوں کی بلندی تو تجھے زیبا ہے

خاک زاروں کو زمینوں کی خبر دے مولا

*

میرے احباب کے دل اور کشادہ کر دے

مجھ مہاجر کو نہ دیوار نہ در دے مولا

*

ہو تیرے حق و صداقت کا علم بردار حبابؔ

عیب لاکھوں دے اسے ایک ہنر دے مولا

***

۱۷۹

ڈاکٹر مسعودجعفری (حیدرآباد)

*

بھڑکتا جا رہا ہے کیوں چراغ دل مرے مولیٰ

بچانا لگ رہا ہے کس لئے مشکل مرے مولیٰ

*

تجھی سے مانگتا ہوں میں سکون دل مرے مولیٰ

بہت ہی دور ٹھہری ہے مری منزل مرے مولیٰ

*

تری تعریف ممکن ہی نہیں ہے کوئی بھاشا میں

کہاں تلگو، کہاں اردو ، کہاں تامل مرے مولیٰ

*

جواب دشمناں لکھوں تو مجھ کو روشنائی دے

رہے گی جرأت اظہار بھی کامل مرے مولیٰ

*

مری ہستی کو حق کی روشنی میں خوب نہلا دے

کھڑے ہیں ہر طرف کردار کے قاتل مرے مولیٰ

*

ترے ہی ذکر سے چلتی رہے یہ سانس کی دنیا

تری ہی یاد میں ڈوبا رہے یہ دل مرے مولیٰ

*

کہاں ہیں جعفریؔ کے پاس تخت و تاج عالم کے

کھڑی ہے آج بھی کشتی اب ساحل مرے مولیٰ

***

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193