انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 0%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف: محمد امین
: محمد امین
زمرہ جات:

صفحے: 193
مشاہدے: 73658
ڈاؤنلوڈ: 1368

تبصرے:

انتخاب حمد و مناجات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73658 / ڈاؤنلوڈ: 1368
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

کرشن کمار طور (پنجاب)

ہے تپتی دھوپ میں سایا بس ایک اس کا نام

تلافیِ غم دنیا بس ایک اس کا نام

*

شکست و ریخت کے ان تپتے ریگزاروں میں

نسیم تازہ کا جھونکا بس ایک اس کا نام

*

مری رگوں میں ہے جاری اسی کی گرمیِ خوں

مرے لبوں سے شناسا بس ایک اس کا نام

*

سطر سطر سے عیاں اس کے ہر سخن کا لمس

کہ لفظ لفظ تراشا بس ایک اس کا نام

*

ہر ایک سانس معطر ہے اس کے ذکر سے طورؔ

بدن میں خوشبو سا پھیلا بس ایک اس کا نام

***

۲۱

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

( ۱)

کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا

قطرے کو تو نے سیپ میں گوہر بنا دیا

*

دستِ دعا کو دیکھ کے جب مہرباں ہوا

بے انتہا غریب کو افسر بنا دیا

*

اس طرح سے بچا لیا اپنے خلیلؑ کو

نارِ غضب کو پھول کا بستر بنا دیا

*

جس کو بھی چاہا اس کو دیا عزت و شرف

اور جس کو چاہا اپنا پیمبر بنا دیا

*

خنجر کو شاخِ گل کی کبھی دی نزاکتیں

اور شاخِ گل کو وقت پہ خنجر بنا دیا

*

لذت نشاط کی ملی ہر حال میں اسے

ساحلؔ کا تو نے ایسا مقدر بنا دیا

***

۲۲

(۲)

گردشِ شام اور سحر میں تو

ہر پرندے کے بال و پر میں تو

*

مور کے پنکھ میں تری قدرت

برق، سیلاب اور بھنور میں تو

*

ان کی تابندگی ہے امر ترا

لعل و یاقوت میں گہر میں تو

*

کوئی انکار کر نہیں سکتا

مٹی، پانی، ہوا، شرر میں تو

*

سارا عالم ہے تیرے قبضے میں

ملک، صوبہ، نگر نگر میں تو

*

دل میں ساحلؔ کے تو ہی رہتا ہے

اس کی مغموم چشمِ تر میں تو

* * * *

۲۳

(۳)

خدا قلاّش کو بھی شان و شوکت بخش دیتا ہے

وہی ذراتِ بے مایہ کو عظمت بخش دیتا ہے

*

وہ شہرت یافتہ کو پل میں کر دیتا ہے رسوا بھی

ذلیل و خوار کو چاہے تو عزت بخش دیتا ہے

*

کبھی دانشوروں پر تنگ کر دیتا ہے وہ روزی

کبھی جاہل کو بھی انعامِ دولت بخش دیتا ہے

*

وہ لے کر تاجِ شاہی کو کسی سرکش شہنشاہ سے

کسی کمزور کو دے کر حکومت بخش دیتا ہے

*

وہی بے چین رکھتا ہے امیرِ شہر کو شب بھر

یقیں کی سیج پر مفلس کو راحت بخش دیتا ہے

*

سمجھ لیتا ہے ساحلؔ جو بھی اس رازِ مشیت کو

وہ اس انسان کو نورِ حقیقت بخش دیتا ہے

*

ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون

بن گیا موتی اسے تابندگی دیتا ہے کون

*

۲۴

آ گیا موسم خزاں کا موت سب کو آ گئی

مردہ پودوں کو دوبارہ زندگی دیتا ہے کون

*

یہ ہیں سب بے جان ان میں جان کیسے آ گئی

تال، سر، لفظ و صدا کو دلکشی دیتا ہے کون

*

کھو گیا اس کی نوا میں تو مگر یہ بھی تو دیکھ

نالۂ بلبل میں درد و نغمگی دیتا ہے کون

*

ان کی تابانی سے نظروں کو ہٹا کر یہ بھی سوچ

انجم و شمس و قمر کو روشنی دیتا ہے کون

*

اپنے شعروں پر ہے ساحلؔ کیوں تجھے اتنا غرور

سوچ کہ شاعر کو ذوقِ شاعر ی دیتا ہے کون

***

۲۵

مدہوش بلگرامی (ہردوئی)

وہی میکدہ وہی بادہ کش وہی مئے ہے اور وہی جام ہے

وہی معرفت کا حصار ہے وہی زندگی کا نظام ہے

*

نہ یہاں خرد کے ہے دسترس نہ یہاں جنون کا کام ہے

یہ نیاز و ناز کی انجمن ہے یہ بندگی کا مقام ہے

*

کبھی دھوپ ہے کبھی چھاؤں ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے

ہیں خدا کی تابع حکم سب یہ اسی کا حسن نظام ہے

*

مرے ذکر میں مری فکر میں مرے صبح و شام کے ورد میں

مجھے ناز ہے کہ ترے حبیب کا اور تیرا ہی نام ہے

*

مری زندگی کا یہ میکدہ ہے کرم سے جن کے سجا ہوا

یہ جو میرے ہاتھ میں جام ہے یہ انہیں کا فیض دوام ہے

*

نہ سرور و کیف کی چاہ ہے نہ نشاط و عیش کی ہے طلب

مرے دل کا ہے وہی مدعا جو رضائے رب انام ہے

*

تو ہی ابتدا تو ہی انتہا ہے عیاں بھی تو ہے نہاں بھی تو

جو فراز عرش سے فرش تک ہے تو ہی وہ جلوۂ عام ہے

*

۲۶

مجھے رہزنوں کا خطر نہیں مجھے گمرہی کا بھی ڈر نہیں

مرا رہبر شہ دوجہاں مرے لب پہ رب کا کلام ہے

*

نہیں جان میکدہ روبرو تو کہاں وہ لطف مئے و سبو

یہ الگ ہے بات کہ سامنے وہی مئے ہے اور وہی جام ہے

*

کہیں درد و غم کے ہیں مرحلے تو کہیں خوشی بھرے زمزمے

یہ ہیں صبر و شکر کی منزلیں یہی میرے رب کا نظام ہے

***

۲۷

سیدطاہرحسین طاہر (ناندیٹر)

میں فنا ہوں، بقا بس تری ذات ہے

لا شریک اے خدا بس تری ذات ہے

*

تو ہی معبود ہے تو ہی مسجود ہے

مرحبا مرحبا بس تری ذات ہے

*

روز اول بھی تو روز آخر بھی تو

ابتدا انتہا بس تری ذات ہے

*

تجھ کو سجدہ روا تو ہی مختار کل

سب سے برتر خدا بس تری ذات ہے

*

تیری قدرت کا قرآن شاہد ہے خود

وقف حمد و ثنا بس تری ذات ہے

*

ساری مخلوق کا تو ہے حاجت روا

وصف جود و سخا بس تری ذات ہے

*

بالقیں تو نے پیدا کیے دو جہاں

لفظ کن کا صلہ بس تری ذات ہے

*

۲۸

تیرے رحم و کرم کا میں محتاج ہوں

اور عطا ہی عطا بس تری ذات ہے

*

جز تیرے میں کسی سے طلب کیوں کروں

حاصل مدعا بس تری ذات ہے

*

سب کا مالک ہے تو سب کی سنتا ہے تو

مستجاب الدعا بس تری ذات ہے

*

تیرا طاہرؔ سراپا گنہگار ہے

پرسش غمزدہ بس تری ذات ہے

***

۲۹

رہبر جونپوری(بھوپال)

خالق ارض و سما، اے مالک و پروردگار

ذرے ذرے سے ہے تیری شان و عظمت آشکار

*

مہرو مہ میں ہیں ترے ہی نور کی تابانیاں

تیری ہی قدرت میں ہیں آبادیاں ویرانیاں

*

کیا چمن کیا کوہ و صحرا کیا ندی کیا آبشار

قادر مطلق ہے تو سب پر ہے تجھ کو اختیار

*

ہیں تیرے محتاج سب یہ آب و گل ریگ و حجر

تو ہی دیتا ہے درختوں کو گل و برگ و ثمر

*

بحر کو سرشار کر دینا ترا ہی کام ہے

آگ کو گلزار کر دینا ترا ہی کام ہے

*

آسماں سے کھیتوں پر مینہ برساتا ہے تو

ہر کس و ناکس کو اس کا رزق پہنچاتا ہے

*

تو ہی دریاؤں کو دیتا ہے روانی کا مزاج

بطن گیتی سے اگاتا ہے جواہر اور اناج

*

۳۰

تو نے ہی بخشا ہے خضر راہ کو جام حیات

نوح کو طوفان محشر خیز سے دی ہے نجات

*

تو نے ہی یوسف کو بخشی چاہ ظلمت سے اماں

پائے اسماعیل سے تو نے کیا زم زم رواں

*

تو نے ہی کی ہے عطا یہ عقل و بینائی مجھے

تو نے ہی بخشی ہے یا رب تاب گویائی مجھے

*

تیرے ذکر و ورد کے لائق کہاں میری زباں

رہبرؔ عاصی کہاں حمد و ثنا تیری کہاں

***

۳۱

محفوظ اثر (ناگپور)

عکس میں ہوں مرا نِشاں تو ہے

یعنی آئینۂ جہاں تو ہے

*

تیری حکمت وجودِ عالم کُل

اپنی حکمت کا راز داں تو ہے

*

ماورا ذات تیری پیکر سے

نور ہی نور کا سماں تو ہے

*

فرش تا عرش مملکت تیری

دونوں عالم کا حکمراں تو ہے

*

تیرے کُن سے نظامِ عالمِ کُل

عالمِ سرِّ کُن فکاں تو ہے

*

حمدِ پروردگار اور اثرؔ

اُس کی کاوش میں بھی نہاں تو ہے

***

۳۲

عرش صہبائی (جموں )

(۱)

عظمتوں کا نشاں ہے تیرا نام

اک حسیں داستاں ہے تیرا نام

*

مجھ کو تجھ سے شکایتیں کیا کیا

پھر بھی ورد زباں ہے تیرا نام

*

دل میں یہ جذبے ہی سہی لیکن

روح میں بھی رواں ہے تیرا نام

*

میری را ہوں میں روشنی اس سے

سر بہ سر کہکشاں ہے تیرا نام

*

زندگی حادثوں کی دھوپ کڑی

دھوپ میں سائباں ہے تیرا نام

*

کتنی وسعت ہے اس کے معنوں میں

کس قدر بیکراں ہے تیرا نام

*

دل نشیں داستاں ہے یہ دنیا

حاصل داستاں ہے تیرا نام

*

۳۳

تیری عظمت سے انحراف جنہیں

ان پہ بھی مہرباں ہے تیرا نام

*

ہر زباں پر ہیں تذکرے تیرے

ہر زباں پر رواں ہے تیرا نام

*

صرف اس کو ثبات حاصل ہے

دہر میں جاوداں ہے تیرا نام

*

زندگی بخش اس کو شیرینی

یعنی اردو زباں ہے تیرا نام

*

عرشؔ سے کوئی صرف یہ پوچھے

شاعر ی میں کہاں ہے تیرا نام

***

۳۴

(۲)

دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے

دنیا بھی وہی حاصل دنیا بھی وہی ہے

*

شکلیں ہیں الگ اس کی نہیں اور کوئی فرق

دریا بھی وہی وسعت صحرا بھی وہی ہے

*

ہر کوئی مصیبت میں پریشان ہے ناحق

غم بھی ہے وہی غم کا مداوا بھی وہی ہے

*

یہ جام و سبو اپنی جگہ خوب ہیں لیکن

صہبا بھی وہی مستی صہبا بھی وہی ہے

*

جو کچھ بھی ہے دنیا میں کرم ہے یہ اسی کا

جلوہ بھی وہی حسن سراپا بھی وہی ہے

*

یہ دیکھنا لازم ہے کہ ہم کس کے ہیں قابل

اک آس بھی ہے یاس کی دنیا بھی وہی ہے

*

انسان تو بے سود ہی اتراتا ہے خود پر

ادنیٰ بھی وہی ہے یہاں اعلیٰ بھی وہی ہے

*

۳۵

ہم درد کے ماروں کی شکایت بھی اسی سے

ہم درد کے ماروں کا مسیحا بھی وہی ہے

*

جو لطف و کرم اس کے ہیں محدود نہیں عرشؔ

راحت کی ندی فیض کا دریا بھی وہی ہے

***

۳۶

اللہ ھو

افضل علی حیدری (ناگپور)

کہکشاں چاند سورج ستاروں میں تو

سبز پتوں میں پھولوں میں خاروں میں تو

کوہ میں دشت میں آبشاروں میں تو

باغِ ہستی کے رنگیں نظاروں میں تو

*

تیرے جلوے ہیں بکھرے ہوئے چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

تیرا ہی ذکر ہے انجمن انجمن

تیرا کلمہ تیری بات تیرا سخن

نور ہی نور تیرا چمن در چمن

موگرا یا سمن نرگس و نسترن

*

کہہ رہے ہیں یہ شبنم سے کر کے وضو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

کتنی اونچائی پر تیرا دربار ہے

خوب سے خوب تر تیری سرکار ہے

کوئی کیا جانے کیا تیرا اسرار ہے

سارے عالم کا تو ہی تو مختار ہے

*

۳۷

گونجتی ہے تیری ہی صدا چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

اہل دیر و حرم دیکھتے رہ گئے

پتھروں کے صنم دیکھتے رہ گئے

تیرا جاہ و حشم دیکھتے رہ گئے

تیری شانِ کرم دیکھتے رہ گئے

*

تو نے سب کا بھرا دامن آرزو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

تیرا بندہ ہوں تیرا گنہگار ہوں

زخم سے چور ہوں غم سے لاچار ہوں

گردشوں میں جہاں کی گرفتار ہوں

تیری نظر کرم کا طلب گار ہوں

*

حشر میں رکھنا افضلؔ کی تو آبرو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

۳۸

حبیب راحت حباب (کھنڈوہ)

(۱)

پروردگار عالم اعلیٰ مقام تیرا

تو رب ہے دو جہاں کا سارا نظام تیرا

*

ہر شے پہ تو ہی قادر ہر جا ہے تو ہی حاضر

ہر دل میں یاد تیری ہر لب پہ نام تیرا

*

پھل پھول کیا شجر کیا، حیوان کیا بشر کیا؟

ذروں سے آسماں تک ہے فیض عام تیرا

*

یہ چاند یہ ستارے، ندیاں پہاڑسارے

ہر شے میں تو ہی تو ہے جلوہ ہے عام تیرا

*

اک کن سے تیری داتا کل کائنات بدلے

کیا کوئی وصف لکھے مجھ سا غلام تیرا

*

بندے کو تو نے اپنے کچھ اس طرح نوازا

آیا ہے فرش پر بھی اکثر سلام تیرا

*

لب پر ہی دعا ہے یا رب طفیل احمد

لکھے حباب جو کچھ ہو سب کلام تیرا

***

۳۹

(۲)

آزمائش میں مجھے کا ہے کو ڈالا ربی

میں کہاں ایسا تیرا نیکیوں والا ربی

*

مار جائے نہ میری آس کو پالا ربی

میری اوقات ہی کیا خاک سفالہ ربی

*

سارا عالم ہے تیرے نور کی لو سے جھلمل

سارے عالم میں تیرے دم سے اجالا ربی

*

میری تخیل میں رکھ شمع ہدایت روشن

فکر کی آنکھ میں پڑ جائے نہ جالا ربی

*

خون دل سے ہو چراغاں سر مژگاں ایسا

اشک بن جائیں میرے لولوئے لالہ ربی

*

تیری رحمت کا طلب گار ہے راحتؔ کب سے

تیرے محبوب کا دے دے کے حوالہ ربی

***

۴۰