انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 20%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95648 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

کرشن کمار طور (پنجاب)

ہے تپتی دھوپ میں سایا بس ایک اس کا نام

تلافیِ غم دنیا بس ایک اس کا نام

*

شکست و ریخت کے ان تپتے ریگزاروں میں

نسیم تازہ کا جھونکا بس ایک اس کا نام

*

مری رگوں میں ہے جاری اسی کی گرمیِ خوں

مرے لبوں سے شناسا بس ایک اس کا نام

*

سطر سطر سے عیاں اس کے ہر سخن کا لمس

کہ لفظ لفظ تراشا بس ایک اس کا نام

*

ہر ایک سانس معطر ہے اس کے ذکر سے طورؔ

بدن میں خوشبو سا پھیلا بس ایک اس کا نام

***

۲۱

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

( ۱)

کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا

قطرے کو تو نے سیپ میں گوہر بنا دیا

*

دستِ دعا کو دیکھ کے جب مہرباں ہوا

بے انتہا غریب کو افسر بنا دیا

*

اس طرح سے بچا لیا اپنے خلیلؑ کو

نارِ غضب کو پھول کا بستر بنا دیا

*

جس کو بھی چاہا اس کو دیا عزت و شرف

اور جس کو چاہا اپنا پیمبر بنا دیا

*

خنجر کو شاخِ گل کی کبھی دی نزاکتیں

اور شاخِ گل کو وقت پہ خنجر بنا دیا

*

لذت نشاط کی ملی ہر حال میں اسے

ساحلؔ کا تو نے ایسا مقدر بنا دیا

***

۲۲

(۲)

گردشِ شام اور سحر میں تو

ہر پرندے کے بال و پر میں تو

*

مور کے پنکھ میں تری قدرت

برق، سیلاب اور بھنور میں تو

*

ان کی تابندگی ہے امر ترا

لعل و یاقوت میں گہر میں تو

*

کوئی انکار کر نہیں سکتا

مٹی، پانی، ہوا، شرر میں تو

*

سارا عالم ہے تیرے قبضے میں

ملک، صوبہ، نگر نگر میں تو

*

دل میں ساحلؔ کے تو ہی رہتا ہے

اس کی مغموم چشمِ تر میں تو

* * * *

۲۳

(۳)

خدا قلاّش کو بھی شان و شوکت بخش دیتا ہے

وہی ذراتِ بے مایہ کو عظمت بخش دیتا ہے

*

وہ شہرت یافتہ کو پل میں کر دیتا ہے رسوا بھی

ذلیل و خوار کو چاہے تو عزت بخش دیتا ہے

*

کبھی دانشوروں پر تنگ کر دیتا ہے وہ روزی

کبھی جاہل کو بھی انعامِ دولت بخش دیتا ہے

*

وہ لے کر تاجِ شاہی کو کسی سرکش شہنشاہ سے

کسی کمزور کو دے کر حکومت بخش دیتا ہے

*

وہی بے چین رکھتا ہے امیرِ شہر کو شب بھر

یقیں کی سیج پر مفلس کو راحت بخش دیتا ہے

*

سمجھ لیتا ہے ساحلؔ جو بھی اس رازِ مشیت کو

وہ اس انسان کو نورِ حقیقت بخش دیتا ہے

*

ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون

بن گیا موتی اسے تابندگی دیتا ہے کون

*

۲۴

آ گیا موسم خزاں کا موت سب کو آ گئی

مردہ پودوں کو دوبارہ زندگی دیتا ہے کون

*

یہ ہیں سب بے جان ان میں جان کیسے آ گئی

تال، سر، لفظ و صدا کو دلکشی دیتا ہے کون

*

کھو گیا اس کی نوا میں تو مگر یہ بھی تو دیکھ

نالۂ بلبل میں درد و نغمگی دیتا ہے کون

*

ان کی تابانی سے نظروں کو ہٹا کر یہ بھی سوچ

انجم و شمس و قمر کو روشنی دیتا ہے کون

*

اپنے شعروں پر ہے ساحلؔ کیوں تجھے اتنا غرور

سوچ کہ شاعر کو ذوقِ شاعر ی دیتا ہے کون

***

۲۵

مدہوش بلگرامی (ہردوئی)

وہی میکدہ وہی بادہ کش وہی مئے ہے اور وہی جام ہے

وہی معرفت کا حصار ہے وہی زندگی کا نظام ہے

*

نہ یہاں خرد کے ہے دسترس نہ یہاں جنون کا کام ہے

یہ نیاز و ناز کی انجمن ہے یہ بندگی کا مقام ہے

*

کبھی دھوپ ہے کبھی چھاؤں ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے

ہیں خدا کی تابع حکم سب یہ اسی کا حسن نظام ہے

*

مرے ذکر میں مری فکر میں مرے صبح و شام کے ورد میں

مجھے ناز ہے کہ ترے حبیب کا اور تیرا ہی نام ہے

*

مری زندگی کا یہ میکدہ ہے کرم سے جن کے سجا ہوا

یہ جو میرے ہاتھ میں جام ہے یہ انہیں کا فیض دوام ہے

*

نہ سرور و کیف کی چاہ ہے نہ نشاط و عیش کی ہے طلب

مرے دل کا ہے وہی مدعا جو رضائے رب انام ہے

*

تو ہی ابتدا تو ہی انتہا ہے عیاں بھی تو ہے نہاں بھی تو

جو فراز عرش سے فرش تک ہے تو ہی وہ جلوۂ عام ہے

*

۲۶

مجھے رہزنوں کا خطر نہیں مجھے گمرہی کا بھی ڈر نہیں

مرا رہبر شہ دوجہاں مرے لب پہ رب کا کلام ہے

*

نہیں جان میکدہ روبرو تو کہاں وہ لطف مئے و سبو

یہ الگ ہے بات کہ سامنے وہی مئے ہے اور وہی جام ہے

*

کہیں درد و غم کے ہیں مرحلے تو کہیں خوشی بھرے زمزمے

یہ ہیں صبر و شکر کی منزلیں یہی میرے رب کا نظام ہے

***

۲۷

سیدطاہرحسین طاہر (ناندیٹر)

میں فنا ہوں، بقا بس تری ذات ہے

لا شریک اے خدا بس تری ذات ہے

*

تو ہی معبود ہے تو ہی مسجود ہے

مرحبا مرحبا بس تری ذات ہے

*

روز اول بھی تو روز آخر بھی تو

ابتدا انتہا بس تری ذات ہے

*

تجھ کو سجدہ روا تو ہی مختار کل

سب سے برتر خدا بس تری ذات ہے

*

تیری قدرت کا قرآن شاہد ہے خود

وقف حمد و ثنا بس تری ذات ہے

*

ساری مخلوق کا تو ہے حاجت روا

وصف جود و سخا بس تری ذات ہے

*

بالقیں تو نے پیدا کیے دو جہاں

لفظ کن کا صلہ بس تری ذات ہے

*

۲۸

تیرے رحم و کرم کا میں محتاج ہوں

اور عطا ہی عطا بس تری ذات ہے

*

جز تیرے میں کسی سے طلب کیوں کروں

حاصل مدعا بس تری ذات ہے

*

سب کا مالک ہے تو سب کی سنتا ہے تو

مستجاب الدعا بس تری ذات ہے

*

تیرا طاہرؔ سراپا گنہگار ہے

پرسش غمزدہ بس تری ذات ہے

***

۲۹

رہبر جونپوری(بھوپال)

خالق ارض و سما، اے مالک و پروردگار

ذرے ذرے سے ہے تیری شان و عظمت آشکار

*

مہرو مہ میں ہیں ترے ہی نور کی تابانیاں

تیری ہی قدرت میں ہیں آبادیاں ویرانیاں

*

کیا چمن کیا کوہ و صحرا کیا ندی کیا آبشار

قادر مطلق ہے تو سب پر ہے تجھ کو اختیار

*

ہیں تیرے محتاج سب یہ آب و گل ریگ و حجر

تو ہی دیتا ہے درختوں کو گل و برگ و ثمر

*

بحر کو سرشار کر دینا ترا ہی کام ہے

آگ کو گلزار کر دینا ترا ہی کام ہے

*

آسماں سے کھیتوں پر مینہ برساتا ہے تو

ہر کس و ناکس کو اس کا رزق پہنچاتا ہے

*

تو ہی دریاؤں کو دیتا ہے روانی کا مزاج

بطن گیتی سے اگاتا ہے جواہر اور اناج

*

۳۰

تو نے ہی بخشا ہے خضر راہ کو جام حیات

نوح کو طوفان محشر خیز سے دی ہے نجات

*

تو نے ہی یوسف کو بخشی چاہ ظلمت سے اماں

پائے اسماعیل سے تو نے کیا زم زم رواں

*

تو نے ہی کی ہے عطا یہ عقل و بینائی مجھے

تو نے ہی بخشی ہے یا رب تاب گویائی مجھے

*

تیرے ذکر و ورد کے لائق کہاں میری زباں

رہبرؔ عاصی کہاں حمد و ثنا تیری کہاں

***

۳۱

محفوظ اثر (ناگپور)

عکس میں ہوں مرا نِشاں تو ہے

یعنی آئینۂ جہاں تو ہے

*

تیری حکمت وجودِ عالم کُل

اپنی حکمت کا راز داں تو ہے

*

ماورا ذات تیری پیکر سے

نور ہی نور کا سماں تو ہے

*

فرش تا عرش مملکت تیری

دونوں عالم کا حکمراں تو ہے

*

تیرے کُن سے نظامِ عالمِ کُل

عالمِ سرِّ کُن فکاں تو ہے

*

حمدِ پروردگار اور اثرؔ

اُس کی کاوش میں بھی نہاں تو ہے

***

۳۲

عرش صہبائی (جموں )

(۱)

عظمتوں کا نشاں ہے تیرا نام

اک حسیں داستاں ہے تیرا نام

*

مجھ کو تجھ سے شکایتیں کیا کیا

پھر بھی ورد زباں ہے تیرا نام

*

دل میں یہ جذبے ہی سہی لیکن

روح میں بھی رواں ہے تیرا نام

*

میری را ہوں میں روشنی اس سے

سر بہ سر کہکشاں ہے تیرا نام

*

زندگی حادثوں کی دھوپ کڑی

دھوپ میں سائباں ہے تیرا نام

*

کتنی وسعت ہے اس کے معنوں میں

کس قدر بیکراں ہے تیرا نام

*

دل نشیں داستاں ہے یہ دنیا

حاصل داستاں ہے تیرا نام

*

۳۳

تیری عظمت سے انحراف جنہیں

ان پہ بھی مہرباں ہے تیرا نام

*

ہر زباں پر ہیں تذکرے تیرے

ہر زباں پر رواں ہے تیرا نام

*

صرف اس کو ثبات حاصل ہے

دہر میں جاوداں ہے تیرا نام

*

زندگی بخش اس کو شیرینی

یعنی اردو زباں ہے تیرا نام

*

عرشؔ سے کوئی صرف یہ پوچھے

شاعر ی میں کہاں ہے تیرا نام

***

۳۴

(۲)

دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے

دنیا بھی وہی حاصل دنیا بھی وہی ہے

*

شکلیں ہیں الگ اس کی نہیں اور کوئی فرق

دریا بھی وہی وسعت صحرا بھی وہی ہے

*

ہر کوئی مصیبت میں پریشان ہے ناحق

غم بھی ہے وہی غم کا مداوا بھی وہی ہے

*

یہ جام و سبو اپنی جگہ خوب ہیں لیکن

صہبا بھی وہی مستی صہبا بھی وہی ہے

*

جو کچھ بھی ہے دنیا میں کرم ہے یہ اسی کا

جلوہ بھی وہی حسن سراپا بھی وہی ہے

*

یہ دیکھنا لازم ہے کہ ہم کس کے ہیں قابل

اک آس بھی ہے یاس کی دنیا بھی وہی ہے

*

انسان تو بے سود ہی اتراتا ہے خود پر

ادنیٰ بھی وہی ہے یہاں اعلیٰ بھی وہی ہے

*

۳۵

ہم درد کے ماروں کی شکایت بھی اسی سے

ہم درد کے ماروں کا مسیحا بھی وہی ہے

*

جو لطف و کرم اس کے ہیں محدود نہیں عرشؔ

راحت کی ندی فیض کا دریا بھی وہی ہے

***

۳۶

اللہ ھو

افضل علی حیدری (ناگپور)

کہکشاں چاند سورج ستاروں میں تو

سبز پتوں میں پھولوں میں خاروں میں تو

کوہ میں دشت میں آبشاروں میں تو

باغِ ہستی کے رنگیں نظاروں میں تو

*

تیرے جلوے ہیں بکھرے ہوئے چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

تیرا ہی ذکر ہے انجمن انجمن

تیرا کلمہ تیری بات تیرا سخن

نور ہی نور تیرا چمن در چمن

موگرا یا سمن نرگس و نسترن

*

کہہ رہے ہیں یہ شبنم سے کر کے وضو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

کتنی اونچائی پر تیرا دربار ہے

خوب سے خوب تر تیری سرکار ہے

کوئی کیا جانے کیا تیرا اسرار ہے

سارے عالم کا تو ہی تو مختار ہے

*

۳۷

گونجتی ہے تیری ہی صدا چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

اہل دیر و حرم دیکھتے رہ گئے

پتھروں کے صنم دیکھتے رہ گئے

تیرا جاہ و حشم دیکھتے رہ گئے

تیری شانِ کرم دیکھتے رہ گئے

*

تو نے سب کا بھرا دامن آرزو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

تیرا بندہ ہوں تیرا گنہگار ہوں

زخم سے چور ہوں غم سے لاچار ہوں

گردشوں میں جہاں کی گرفتار ہوں

تیری نظر کرم کا طلب گار ہوں

*

حشر میں رکھنا افضلؔ کی تو آبرو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

۳۸

حبیب راحت حباب (کھنڈوہ)

(۱)

پروردگار عالم اعلیٰ مقام تیرا

تو رب ہے دو جہاں کا سارا نظام تیرا

*

ہر شے پہ تو ہی قادر ہر جا ہے تو ہی حاضر

ہر دل میں یاد تیری ہر لب پہ نام تیرا

*

پھل پھول کیا شجر کیا، حیوان کیا بشر کیا؟

ذروں سے آسماں تک ہے فیض عام تیرا

*

یہ چاند یہ ستارے، ندیاں پہاڑسارے

ہر شے میں تو ہی تو ہے جلوہ ہے عام تیرا

*

اک کن سے تیری داتا کل کائنات بدلے

کیا کوئی وصف لکھے مجھ سا غلام تیرا

*

بندے کو تو نے اپنے کچھ اس طرح نوازا

آیا ہے فرش پر بھی اکثر سلام تیرا

*

لب پر ہی دعا ہے یا رب طفیل احمد

لکھے حباب جو کچھ ہو سب کلام تیرا

***

۳۹

(۲)

آزمائش میں مجھے کا ہے کو ڈالا ربی

میں کہاں ایسا تیرا نیکیوں والا ربی

*

مار جائے نہ میری آس کو پالا ربی

میری اوقات ہی کیا خاک سفالہ ربی

*

سارا عالم ہے تیرے نور کی لو سے جھلمل

سارے عالم میں تیرے دم سے اجالا ربی

*

میری تخیل میں رکھ شمع ہدایت روشن

فکر کی آنکھ میں پڑ جائے نہ جالا ربی

*

خون دل سے ہو چراغاں سر مژگاں ایسا

اشک بن جائیں میرے لولوئے لالہ ربی

*

تیری رحمت کا طلب گار ہے راحتؔ کب سے

تیرے محبوب کا دے دے کے حوالہ ربی

***

۴۰

اختر بیکانیری

زباں تیری فلک تیرا ہر اک کو جستجو تیری

مکین ولا مکاں تیرا گلوں میں رنگ و بو تیری

*

عیاں ہے ذرے ذرے سے تیری شان کریمانہ

غرض تا حد امکاں تک ہے مدحت چار سو تیری

*

نہیں موقوف رسم بندگی دنیا میں انساں پر

چرندوں اور پرندوں کی زباں پر گفتگو تیری

*

جگا دیتی ہے بانگ مرغ شب میں سونے والوں کو

ادا کرتے ہیں برگ و گل عبادت با وضو تیری

*

دہلا دیتی ہے منھ غنچوں کا شبنم صبح دم آ کر

رواں صحن چمن ہوتی ہے صدائے حق و ہو تیری

*

ہر اک دل میں نہاں ہے اور ہے نظروں میں پوشیدہ

پھرا دونوں جہاں میں لے کے اخترؔ آرزو تیری

***

۴۱

رحمتِ الٰہی

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

صبحِ صادق کا چہرۂ خنداں

شامِ رنگیں کا جلوۂ محجوب

فرش کی طرح سے بچھی یہ زمیں

احمریں مہر یہ چمکتا ہوا

جگمگاتا یہ ماہتابِ حسیں

مسکراتے یہ انجمِ تاباں

بادِ صرصر کی شوخیِ پیہم

بحر، دریا، ندی کا آبِ رواں

کوہساروں کے سلسلوں کا سماں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۲

نغمۂ سرمدی پرندوں کے

پی پپیہے کی، کوک کوئل کی

جاں نوازیِ نالۂ بلبل

رقصِ طاؤس کا حسیں انداز

صحنِ گلشن کی ساری رعنائی

عطر بیزیِ خوشبوئے گلزار

رنگ در رنگ منظرِ دلکش

گل کا رُخ چومتی نسیمِ سحر

کفِ گل پر جمی ہوئی شبنم

تیرے ذوقِ جمال کے شاہد

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۳

ریشم و اون، اطلس و کمخواب

عنبر و مشک و عطر اور کافور

ننھی منی سی نحل کی تخلیق

چار پایوں کا نفع بخش وجود

باغ میوے کے، کھیت غلے کے

بحرِ پُر جوش کے تلاطم میں

موج کو چیرتے ہوئے یہ جہاز

ریت و ماہی و لولو و مرجاں

نعمتوں کا تری شمار کہاں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۴

مرسلات و مقسمات کا زور

حاملات اور زاریات کا زور

عاصفات اور ناشرات کا زور

جاریات اور فارقات کا زور

دوش پر ان کے اُڑتے ابرِ کرم

ارض کی تشنگی بجھاتے ہیں

مردہ سبزوں کو لہلہلاتے ہیں

بیج کو قوتِ نمو دے کر

پیڑ، پودے، شجر اگاتے ہیں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۵

زلزلہ، رعد، برق، قحط، وبا

موج، سیلاب اور طغیانی

کوہساروں میں آتش افشانی

برف باریِ موسمِ سرما

گرم موسم میں چلتی باد سموم

یورشِ آب و باد بارش میں

ہیں بظاہر ترے جلال مگر

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

***

۴۶

شبیر آصف (مالیگاؤں )

محبتوں کا صلہ بے مثال رکھتا ہے

وہ میرا مجھ سے زیادہ خیال رکھتا ہے

*

گو میرے حیطۂ ادراک میں نہیں آتا

مگر وہ دل سے تعلق بحال رکھتا ہے

*

میں سرد و گرم زمانے کے جھیل لیتا ہوں

وہ موسموں کو میرے حسب حال رکھتا ہے

*

نظام عالم امکاں سے آگہی کے لیے

وہ طرح نو میں بنائے زوال رکھتا ہے

*

شکست حربۂ بوجہل و بولہب کے لیے

وہ شہر سنگ میں آئینہ ڈھال رکھتا ہے

*

شعور حرف سخن سے نواز کر مجھ کو

وہ میرا طرز تکلم بحال رکھتا ہے

***

۴۷

صالحؔ بن تابش (مالیگاؤں )

مہکی مہکی ہوئی رہ گزر کس کی ہے

ایک خوشبو مری ہم سفر کس کی ہے

*

یہ جو لمحہ بہ لمحہ مرے ساتھ ہے

ہر نظر سے پرے وہ نظر کس کی ہے

*

مری ہستی تو تھی ایک سادہ ورق

اس پہ تحریر معجز اثر کس کی ہے

*

کون منظر یہ منظر ہے چھایا ہوا

اک کشش ہر طرف منتشر کس کی ہے

*

ننگی شاخوں نے کیں زیب تن خلعتیں

یہ عنایت شجر در شجر کس کی ہے

*

پل میں صالحؔ کو جو آئینہ کر گئی

غیرت شیشہ گر وہ نظر کس کی ہے

***

۴۸

سلیم شہزاد (مالیگاؤں )

دشت بے سمت میں یہ راہ گزر کس نے دیا

پر شکستہ ہوں مجھے اذن سفر کس نے دیا

*

کس نے پتھر کی سیاہی پہ سجایا سبزہ

گونگے لفظوں کی دعاؤں کو اثر کس نے دیا

*

کس نے چسپاں کئے بے رنگ فضا پر منظر

ریت کو آب تو بنجر کو شجر کس نے دیا

*

کس نے مایوس فضاؤں میں دیا حرف امید

خواب شب دے کے مجھے خواب سحر کس نے دیا

*

کس نے آفات و بلا میرے مقابل لائے

اور مجھے حوصلۂ خوف و خطر کس نے دیا

*

کس نے پہچان عطا کی مجھے این و آں کی

زشت و ناخوب میں یہ حسن نظر کس نے دیا

*

کس نے دی شعلہ نوائی مرے ہونٹوں کو سلیمؔ

شہر آہن میں مجھے دست ہنر کس نے دیا

****

۴۹

ڈاکٹر معین الدین شاہین (بیکانیر)

اک یہ ہی التجا ہے میری، میرے خدا سے

کر دے تو سرفراز مجھے اپنی عطا سے

*

آدم کا میں بیٹا ہوں خطا کرنے کا عادی

ناراض نہ ہو جانا کہیں میری خطا سے

*

اللہ تو کریم ہے، پروردگار ہے

محروم کیوں رہوں میں بھلا تیری عطا سے

*

اللہ کا نام کافی و شافی ہے بالیقیں

’’اے درد سروکار نہ رکھ کوئی دوا سے ‘‘

*

ہر وقت میرے ورد زباں ’’یا کریم‘‘ ہے

محفوظ اس لیے میں رہا رنج و بلا سے

*

تیری رضا کو اپنی سمجھتا ہوں میں رضا

تب ہی تو فیضیاب ہوں میں تیری دیا سے

*

راتوں کو جاگ جاگ کے کرتا ہوں میں دعا

ملتا ہے دل کو چین تری حمد و ثنا سے

*

۵۰

رکھ لینا لاج حشر میں بندے کی اے رحیم

عاصی ہوں خوف کھاتا ہوں میں روز جزا سے

*

شاہیں ؔ رہے خیال یہ اللہ کی حمد ہے

لفظوں کو پہلے تولنا تو حمد و ثنا سے

***

۵۱

بیتاب کیفی (بھوجپور)

تو ہے خلاق دو جہاں یا رب

تیری رحمت ہے بے کراں یا رب

*

ذرہ ذرہ فنا بداماں ہے

ایک تو ہی ہے جاوداں یا رب

*

پھول خوشبو بہار رعنائی

تیری عظمت کے ہیں نشاں یا رب

*

سب ہیں سیم و رجا میں سرگرداں

مرغ و ماہی و انس و جاں یا رب

*

حسن تیرا تمام بکھرا ہے

یہ زمیں ہو کہ آسماں یا رب

*

بخشش و مغفرت کے ساماں سے

عقل حیراں ہے چپ زباں یا رب

*

ساری دنیا میں فیض جاری ہے

بحر الطاف ہے رواں یا رب

*

۵۲

آج تک اس جہان فانی میں

راز سمجھا کوئی کہاں یا رب

*

سن بیتابؔ دل کی آوازیں

ہو عطا ندرت بیاں یا رب

***

۵۳

ڈاکٹر مقبول احمد مقبول (اودگیر)

ہے صبح و شام تجھ سے مری ایک ہی دعا

میرے لبوں پہ نام ہو تیرا ہی ائے خدا

*

کس کس کا شکر ادا کروں اے رب العالمین

تیری عنایتوں کی نہ حد ہے نہ انتہا

*

ہر شئے گواہی دیتی ہے تیرے وجود کی

ہر چیز سے عیاں تیری قدرت ہے ائے خدا

*

محدود میری فکر و نظر، تو محیط کل

حمد و ثنا کا حق ہو بھلا کس طرح ادا

*

میری بساط کیا ہے، یہ تیرا ہی ہے کرم

دنیائے شاعر ی میں جو مقبولؔ ہو گیا

***

۵۴

حمد باری تعالیٰ

فرید تنویر (ناگپور)

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

یہ زمیں، آسماں تری مخلوق

گلستاں، کہکشاں تری مخلوق

ذرہ ذرہ غلام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

فرش رنگیں و عرش عالیشاں

تو نے پیدا کئے ہزاروں جہاں

کتنا دلکش نظام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

۵۵

علم و حکمت کے بے بہا گوہر

عقل و دانش کے قیمتی جوہر

دینا دنیا کو کام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

یہ شجر، یہ حجر یہ گل بوٹے

ماہ و خورشید نور کے چشمے

تیری صنعت ہے کام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

پاک توریت، با صفا انجیل

نور قرآں، زبور کی قندیل

ذکر تیرا کلام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

*

علم تنویرؔ کو عطا کر دے

نور ایماں سے قلب کو بھر دے

ناتواں اک غلام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلیٰ مقام ہے تیرا

***

۵۶

پروردگار دیتا ہے

نور منیری (پونہ)

کسی کی آنکھ میں آنسو اتار دیتا ہے

کسی کے دل کو وہ، صبر و قرار دیتا ہے

*

کبھی امیر کو ٹھوکر پہ، مارتا ہے وہ

کبھی غریب کی، قسمت سنوار دیتا ہے

*

حسین پھول کھلاتا ہے، ریگزاروں میں

خزاں نصیب چمن کو، بہار دیتا ہے

*

فلک شگاف پہاڑوں کا چیر کر سینہ

زمیں کی پیاس کو، وہ آبشار دیتا ہے

*

بہاؤ بحر کا خشکی پہ کم نہ ہو تو وہ

سمندروں میں جزیرے ابھار دیتا ہے

*

وہ نغمہ بار پرندوں کے چہچہوں میں کبھی

زمین والوں پہ، رحمت اتار دیتا ہے

*

مرے گناہ پہ، چادر بھی ڈالتا ہے وہ

سماج میں بھی وہ، مجھ کو وقار دیتا ہے

*

۵۷

بھٹک بھی جاؤں، کسی دشت بیکراں میں اگر

تو مجھ کو پیار سے آ کر، سہار دیتا ہے

*

خیال رکھتا ہے، سب کی ضرورتوں کا وہ

کسی کو نقد، کسی کو ادھار دیتا ہے

*

کسی کے پیار کی کشتی، بھنور میں پھنس جائے

اسے بھی نورؔ کنارے اتار دیتا ہے

***

۵۸

راج پریمی (بنگلور)

مرے دل کو اب بدل دے اے رب عالمیں تو!

میں تو مشت آب و گل ہوں، ہے نور آفریں تو!

*

یہ اثر ہے بندگی کا، یا گردشوں کا حاصل

میں تو زیر آسماں ہوں، ہے محور زمیں تو!

*

میں ہوں، دوش کا شکاری، ترے رحم کا بھکاری

میں تو صرف اک خطا ہوں، ہے منصف و امیں تو!

*

ترا رنگ ہے نظر میں، ترا نور چار سو ہے

کوئی صدق دل سے دیکھے، مرے دل کے ہے قریں تو!

*

تری برکتوں کے سجدے، تری رحمتوں کے صدقے !

مری روح کی ہے عظمت، مری جان آفریں تو!

*

یہی دل کی آرزو ہے، یہی میرا مدعا ہے

ہر سانس تجھ پہ قرباں، اتنا ہے دل نشیں تو!

*

دنیا ہے صرف دھوکا، اے راجؔ کچھ نہیں ہے !

تُو ہی میرا آسرا ہے، مری جان کا امیں تو!

***

۵۹

امیر اللہ عنبر خلیقی (ناگپور)

میرا کیا ہے، سب تیرا ہے

بس یہ کافی، تو میرا ہے

*

تو ہی بقا اور تو ہی باقی

ہم سب کا فانی ڈیرا ہے

*

قرآنی تعلیم نے ہم کو

تیری جانب ہی پھیرا ہے

*

یہ قانون تری قدرت کا

وہ ہی کاٹے جو پیرا ہے

*

جانے کیا وہ تیری عظمت

جس کو دنیا نے گھیرا ہے

*

کیسے جھکوں اوروں کے آگے

معبودی حق جب تیرا ہے

*

شکر تیرا کرتا ہے عنبرؔ

اس پر احساں بہتیرا ہے

***

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193