انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 40%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95678 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

کرشن کمار طور (پنجاب)

ہے تپتی دھوپ میں سایا بس ایک اس کا نام

تلافیِ غم دنیا بس ایک اس کا نام

*

شکست و ریخت کے ان تپتے ریگزاروں میں

نسیم تازہ کا جھونکا بس ایک اس کا نام

*

مری رگوں میں ہے جاری اسی کی گرمیِ خوں

مرے لبوں سے شناسا بس ایک اس کا نام

*

سطر سطر سے عیاں اس کے ہر سخن کا لمس

کہ لفظ لفظ تراشا بس ایک اس کا نام

*

ہر ایک سانس معطر ہے اس کے ذکر سے طورؔ

بدن میں خوشبو سا پھیلا بس ایک اس کا نام

***

۲۱

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

( ۱)

کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا

قطرے کو تو نے سیپ میں گوہر بنا دیا

*

دستِ دعا کو دیکھ کے جب مہرباں ہوا

بے انتہا غریب کو افسر بنا دیا

*

اس طرح سے بچا لیا اپنے خلیلؑ کو

نارِ غضب کو پھول کا بستر بنا دیا

*

جس کو بھی چاہا اس کو دیا عزت و شرف

اور جس کو چاہا اپنا پیمبر بنا دیا

*

خنجر کو شاخِ گل کی کبھی دی نزاکتیں

اور شاخِ گل کو وقت پہ خنجر بنا دیا

*

لذت نشاط کی ملی ہر حال میں اسے

ساحلؔ کا تو نے ایسا مقدر بنا دیا

***

۲۲

(۲)

گردشِ شام اور سحر میں تو

ہر پرندے کے بال و پر میں تو

*

مور کے پنکھ میں تری قدرت

برق، سیلاب اور بھنور میں تو

*

ان کی تابندگی ہے امر ترا

لعل و یاقوت میں گہر میں تو

*

کوئی انکار کر نہیں سکتا

مٹی، پانی، ہوا، شرر میں تو

*

سارا عالم ہے تیرے قبضے میں

ملک، صوبہ، نگر نگر میں تو

*

دل میں ساحلؔ کے تو ہی رہتا ہے

اس کی مغموم چشمِ تر میں تو

* * * *

۲۳

(۳)

خدا قلاّش کو بھی شان و شوکت بخش دیتا ہے

وہی ذراتِ بے مایہ کو عظمت بخش دیتا ہے

*

وہ شہرت یافتہ کو پل میں کر دیتا ہے رسوا بھی

ذلیل و خوار کو چاہے تو عزت بخش دیتا ہے

*

کبھی دانشوروں پر تنگ کر دیتا ہے وہ روزی

کبھی جاہل کو بھی انعامِ دولت بخش دیتا ہے

*

وہ لے کر تاجِ شاہی کو کسی سرکش شہنشاہ سے

کسی کمزور کو دے کر حکومت بخش دیتا ہے

*

وہی بے چین رکھتا ہے امیرِ شہر کو شب بھر

یقیں کی سیج پر مفلس کو راحت بخش دیتا ہے

*

سمجھ لیتا ہے ساحلؔ جو بھی اس رازِ مشیت کو

وہ اس انسان کو نورِ حقیقت بخش دیتا ہے

*

ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون

بن گیا موتی اسے تابندگی دیتا ہے کون

*

۲۴

آ گیا موسم خزاں کا موت سب کو آ گئی

مردہ پودوں کو دوبارہ زندگی دیتا ہے کون

*

یہ ہیں سب بے جان ان میں جان کیسے آ گئی

تال، سر، لفظ و صدا کو دلکشی دیتا ہے کون

*

کھو گیا اس کی نوا میں تو مگر یہ بھی تو دیکھ

نالۂ بلبل میں درد و نغمگی دیتا ہے کون

*

ان کی تابانی سے نظروں کو ہٹا کر یہ بھی سوچ

انجم و شمس و قمر کو روشنی دیتا ہے کون

*

اپنے شعروں پر ہے ساحلؔ کیوں تجھے اتنا غرور

سوچ کہ شاعر کو ذوقِ شاعر ی دیتا ہے کون

***

۲۵

مدہوش بلگرامی (ہردوئی)

وہی میکدہ وہی بادہ کش وہی مئے ہے اور وہی جام ہے

وہی معرفت کا حصار ہے وہی زندگی کا نظام ہے

*

نہ یہاں خرد کے ہے دسترس نہ یہاں جنون کا کام ہے

یہ نیاز و ناز کی انجمن ہے یہ بندگی کا مقام ہے

*

کبھی دھوپ ہے کبھی چھاؤں ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے

ہیں خدا کی تابع حکم سب یہ اسی کا حسن نظام ہے

*

مرے ذکر میں مری فکر میں مرے صبح و شام کے ورد میں

مجھے ناز ہے کہ ترے حبیب کا اور تیرا ہی نام ہے

*

مری زندگی کا یہ میکدہ ہے کرم سے جن کے سجا ہوا

یہ جو میرے ہاتھ میں جام ہے یہ انہیں کا فیض دوام ہے

*

نہ سرور و کیف کی چاہ ہے نہ نشاط و عیش کی ہے طلب

مرے دل کا ہے وہی مدعا جو رضائے رب انام ہے

*

تو ہی ابتدا تو ہی انتہا ہے عیاں بھی تو ہے نہاں بھی تو

جو فراز عرش سے فرش تک ہے تو ہی وہ جلوۂ عام ہے

*

۲۶

مجھے رہزنوں کا خطر نہیں مجھے گمرہی کا بھی ڈر نہیں

مرا رہبر شہ دوجہاں مرے لب پہ رب کا کلام ہے

*

نہیں جان میکدہ روبرو تو کہاں وہ لطف مئے و سبو

یہ الگ ہے بات کہ سامنے وہی مئے ہے اور وہی جام ہے

*

کہیں درد و غم کے ہیں مرحلے تو کہیں خوشی بھرے زمزمے

یہ ہیں صبر و شکر کی منزلیں یہی میرے رب کا نظام ہے

***

۲۷

سیدطاہرحسین طاہر (ناندیٹر)

میں فنا ہوں، بقا بس تری ذات ہے

لا شریک اے خدا بس تری ذات ہے

*

تو ہی معبود ہے تو ہی مسجود ہے

مرحبا مرحبا بس تری ذات ہے

*

روز اول بھی تو روز آخر بھی تو

ابتدا انتہا بس تری ذات ہے

*

تجھ کو سجدہ روا تو ہی مختار کل

سب سے برتر خدا بس تری ذات ہے

*

تیری قدرت کا قرآن شاہد ہے خود

وقف حمد و ثنا بس تری ذات ہے

*

ساری مخلوق کا تو ہے حاجت روا

وصف جود و سخا بس تری ذات ہے

*

بالقیں تو نے پیدا کیے دو جہاں

لفظ کن کا صلہ بس تری ذات ہے

*

۲۸

تیرے رحم و کرم کا میں محتاج ہوں

اور عطا ہی عطا بس تری ذات ہے

*

جز تیرے میں کسی سے طلب کیوں کروں

حاصل مدعا بس تری ذات ہے

*

سب کا مالک ہے تو سب کی سنتا ہے تو

مستجاب الدعا بس تری ذات ہے

*

تیرا طاہرؔ سراپا گنہگار ہے

پرسش غمزدہ بس تری ذات ہے

***

۲۹

رہبر جونپوری(بھوپال)

خالق ارض و سما، اے مالک و پروردگار

ذرے ذرے سے ہے تیری شان و عظمت آشکار

*

مہرو مہ میں ہیں ترے ہی نور کی تابانیاں

تیری ہی قدرت میں ہیں آبادیاں ویرانیاں

*

کیا چمن کیا کوہ و صحرا کیا ندی کیا آبشار

قادر مطلق ہے تو سب پر ہے تجھ کو اختیار

*

ہیں تیرے محتاج سب یہ آب و گل ریگ و حجر

تو ہی دیتا ہے درختوں کو گل و برگ و ثمر

*

بحر کو سرشار کر دینا ترا ہی کام ہے

آگ کو گلزار کر دینا ترا ہی کام ہے

*

آسماں سے کھیتوں پر مینہ برساتا ہے تو

ہر کس و ناکس کو اس کا رزق پہنچاتا ہے

*

تو ہی دریاؤں کو دیتا ہے روانی کا مزاج

بطن گیتی سے اگاتا ہے جواہر اور اناج

*

۳۰

تو نے ہی بخشا ہے خضر راہ کو جام حیات

نوح کو طوفان محشر خیز سے دی ہے نجات

*

تو نے ہی یوسف کو بخشی چاہ ظلمت سے اماں

پائے اسماعیل سے تو نے کیا زم زم رواں

*

تو نے ہی کی ہے عطا یہ عقل و بینائی مجھے

تو نے ہی بخشی ہے یا رب تاب گویائی مجھے

*

تیرے ذکر و ورد کے لائق کہاں میری زباں

رہبرؔ عاصی کہاں حمد و ثنا تیری کہاں

***

۳۱

محفوظ اثر (ناگپور)

عکس میں ہوں مرا نِشاں تو ہے

یعنی آئینۂ جہاں تو ہے

*

تیری حکمت وجودِ عالم کُل

اپنی حکمت کا راز داں تو ہے

*

ماورا ذات تیری پیکر سے

نور ہی نور کا سماں تو ہے

*

فرش تا عرش مملکت تیری

دونوں عالم کا حکمراں تو ہے

*

تیرے کُن سے نظامِ عالمِ کُل

عالمِ سرِّ کُن فکاں تو ہے

*

حمدِ پروردگار اور اثرؔ

اُس کی کاوش میں بھی نہاں تو ہے

***

۳۲

عرش صہبائی (جموں )

(۱)

عظمتوں کا نشاں ہے تیرا نام

اک حسیں داستاں ہے تیرا نام

*

مجھ کو تجھ سے شکایتیں کیا کیا

پھر بھی ورد زباں ہے تیرا نام

*

دل میں یہ جذبے ہی سہی لیکن

روح میں بھی رواں ہے تیرا نام

*

میری را ہوں میں روشنی اس سے

سر بہ سر کہکشاں ہے تیرا نام

*

زندگی حادثوں کی دھوپ کڑی

دھوپ میں سائباں ہے تیرا نام

*

کتنی وسعت ہے اس کے معنوں میں

کس قدر بیکراں ہے تیرا نام

*

دل نشیں داستاں ہے یہ دنیا

حاصل داستاں ہے تیرا نام

*

۳۳

تیری عظمت سے انحراف جنہیں

ان پہ بھی مہرباں ہے تیرا نام

*

ہر زباں پر ہیں تذکرے تیرے

ہر زباں پر رواں ہے تیرا نام

*

صرف اس کو ثبات حاصل ہے

دہر میں جاوداں ہے تیرا نام

*

زندگی بخش اس کو شیرینی

یعنی اردو زباں ہے تیرا نام

*

عرشؔ سے کوئی صرف یہ پوچھے

شاعر ی میں کہاں ہے تیرا نام

***

۳۴

(۲)

دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے

دنیا بھی وہی حاصل دنیا بھی وہی ہے

*

شکلیں ہیں الگ اس کی نہیں اور کوئی فرق

دریا بھی وہی وسعت صحرا بھی وہی ہے

*

ہر کوئی مصیبت میں پریشان ہے ناحق

غم بھی ہے وہی غم کا مداوا بھی وہی ہے

*

یہ جام و سبو اپنی جگہ خوب ہیں لیکن

صہبا بھی وہی مستی صہبا بھی وہی ہے

*

جو کچھ بھی ہے دنیا میں کرم ہے یہ اسی کا

جلوہ بھی وہی حسن سراپا بھی وہی ہے

*

یہ دیکھنا لازم ہے کہ ہم کس کے ہیں قابل

اک آس بھی ہے یاس کی دنیا بھی وہی ہے

*

انسان تو بے سود ہی اتراتا ہے خود پر

ادنیٰ بھی وہی ہے یہاں اعلیٰ بھی وہی ہے

*

۳۵

ہم درد کے ماروں کی شکایت بھی اسی سے

ہم درد کے ماروں کا مسیحا بھی وہی ہے

*

جو لطف و کرم اس کے ہیں محدود نہیں عرشؔ

راحت کی ندی فیض کا دریا بھی وہی ہے

***

۳۶

اللہ ھو

افضل علی حیدری (ناگپور)

کہکشاں چاند سورج ستاروں میں تو

سبز پتوں میں پھولوں میں خاروں میں تو

کوہ میں دشت میں آبشاروں میں تو

باغِ ہستی کے رنگیں نظاروں میں تو

*

تیرے جلوے ہیں بکھرے ہوئے چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

تیرا ہی ذکر ہے انجمن انجمن

تیرا کلمہ تیری بات تیرا سخن

نور ہی نور تیرا چمن در چمن

موگرا یا سمن نرگس و نسترن

*

کہہ رہے ہیں یہ شبنم سے کر کے وضو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

کتنی اونچائی پر تیرا دربار ہے

خوب سے خوب تر تیری سرکار ہے

کوئی کیا جانے کیا تیرا اسرار ہے

سارے عالم کا تو ہی تو مختار ہے

*

۳۷

گونجتی ہے تیری ہی صدا چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

اہل دیر و حرم دیکھتے رہ گئے

پتھروں کے صنم دیکھتے رہ گئے

تیرا جاہ و حشم دیکھتے رہ گئے

تیری شانِ کرم دیکھتے رہ گئے

*

تو نے سب کا بھرا دامن آرزو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

تیرا بندہ ہوں تیرا گنہگار ہوں

زخم سے چور ہوں غم سے لاچار ہوں

گردشوں میں جہاں کی گرفتار ہوں

تیری نظر کرم کا طلب گار ہوں

*

حشر میں رکھنا افضلؔ کی تو آبرو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

***

۳۸

حبیب راحت حباب (کھنڈوہ)

(۱)

پروردگار عالم اعلیٰ مقام تیرا

تو رب ہے دو جہاں کا سارا نظام تیرا

*

ہر شے پہ تو ہی قادر ہر جا ہے تو ہی حاضر

ہر دل میں یاد تیری ہر لب پہ نام تیرا

*

پھل پھول کیا شجر کیا، حیوان کیا بشر کیا؟

ذروں سے آسماں تک ہے فیض عام تیرا

*

یہ چاند یہ ستارے، ندیاں پہاڑسارے

ہر شے میں تو ہی تو ہے جلوہ ہے عام تیرا

*

اک کن سے تیری داتا کل کائنات بدلے

کیا کوئی وصف لکھے مجھ سا غلام تیرا

*

بندے کو تو نے اپنے کچھ اس طرح نوازا

آیا ہے فرش پر بھی اکثر سلام تیرا

*

لب پر ہی دعا ہے یا رب طفیل احمد

لکھے حباب جو کچھ ہو سب کلام تیرا

***

۳۹

(۲)

آزمائش میں مجھے کا ہے کو ڈالا ربی

میں کہاں ایسا تیرا نیکیوں والا ربی

*

مار جائے نہ میری آس کو پالا ربی

میری اوقات ہی کیا خاک سفالہ ربی

*

سارا عالم ہے تیرے نور کی لو سے جھلمل

سارے عالم میں تیرے دم سے اجالا ربی

*

میری تخیل میں رکھ شمع ہدایت روشن

فکر کی آنکھ میں پڑ جائے نہ جالا ربی

*

خون دل سے ہو چراغاں سر مژگاں ایسا

اشک بن جائیں میرے لولوئے لالہ ربی

*

تیری رحمت کا طلب گار ہے راحتؔ کب سے

تیرے محبوب کا دے دے کے حوالہ ربی

***

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ڈاکٹر سید ساجد علی (بنگلور)

مدعا ہے میرے دل کا اے مرے پروردگار

ہوں میں نافرمان بندہ اے مرے پروردگار

*

تو نے ہم جن و بشر کو جس لئے پیدا کیا

وہ عبادت ہم سے کروا ے مرے پروردگار

*

بھول کر تیری ڈگر دنیا میں کھوئے ہیں سبھی

اپنی رحمت ہم پہ برسا اے مرے پروردگار

*

ہو نزع کا وقت جب ہم کو نہ کچھ احساس ہو

خیال میں چہرہ ہو شہؐ کا اے مرے پروردگار

*

شہؐ کے صدقے ان دعاؤں کو میری کر لو قبول

کر دو بیڑا پار میرا اے مرے پروردگار

*

بندگی ساجدؔ کی تم برتر پھر اعلیٰ تر کرو

بخش دو جام اس کو ایسا اے مرے پروردگار

***

۱۴۱

محمد حسین دلبرؔ ادیبی

تو اپنی رحمتوں کی عطا بے شمار دے

بے چینیاں سمیٹ لے دل کو قرار دے

*

میخانۂ الست میں ٹوٹے نہ جو کبھی

پیمانۂ رسولؐ سے ایسا خمار دے

*

عشقِ رسولؐ جذبۂ صادق لئے ہوئے

یا رب کرم سے امت مسلم پہ وار دے

*

طوفان غم میں کشتیِ مسلم ہے، اے خدا

اپنے کرم سے پھر سر ساحل اتار دے

*

آلودہ پھر کبھی نہ ہو عصیاں کے داغ سے

نورِ نبیؐ سے سینۂ دلبرؔ نکھار دے

***

۱۴۲

سلام نجمی (بنگلور)

ہم نہیں کہتے ہمیں شان سلیمانی تو بخش

یہ بھی ہم کہتے نہیں تخت اور سلطانی تو بخش

*

کوئی منصب کوئی عہدہ اور نہ دیوانی تو بخش

ہے ضرورت جس کی اب وہ جذب ایمانی تو بخش

*

یا خدا پھر سے متاع درس قرآنی تو بخش

ہم مسلمانوں کو پھر سچی مسلمانی تو بخش

*

زندگانی کو خدایا خوئے انسانی تو بخش

ذہن و دل کو روح کو توحید افشانی تو بخش

*

صدق، اخلاص و وفا اور عشق لاثانی تو بخش

یعنی یاران نبیؐ کا وصف قربانی تو بخش

*

اقلیت کے فرق کا یا رب نہ ہو ہم کو خیال

دعوت حق کا ہمیں اندازِ فارانی تو بخش

*

ہم مٹا دیں پھر سے یا رب فتنۂ باطل تمام

خالدؓ ایوبیؓ جیسی ہم کو جولانی تو بخش

*

۱۴۳

دور کر ملت سے یا رب مسلکی ناچاقیاں

اور دلوں کو جوڑ دے آپس میں اک جانی تو بخش

*

خار زاران وطن کو نیست کر نابود کر

اور یہاں کے ذرے ذرے کو گل افشانی تو بخش

*

پیروی کرنے لگے ہیں ہم سبھی اغیار کی

پھر سے یا رب ہم کو اپنی راہ نورانی تو بخش

*

ہر طرف سے بڑھ رہی ہیں ہر طرح کی مشکلیں

مہربانی ہم پہ فرما اور آسانی تو بخش

*

شعبۂ ہستی ہوا اپنا ہر اک تاریک تر

شعبۂ ہستی کو ہر اک اپنے تابانی تو بخش

*

اس مشینی دور کی جو بے حسی ہے ذوالجلال

بہر رحمت بے حسی کو ذوق روحانی تو بخش

*

جب دیا ہے دل تو درد دل بھی کر ہم کو عطا

یعنی ہم کو درد مندی اور درمانی تو بخش

*

جس میں تو ہی تو ہو رب دل کو وہ آئینہ بنا

اور بصیرت کو ہماری جلوہ سامانی تو بخش

*

۱۴۴

میں تری شان کریمی کے تصدق رب مرے

جس سے ملت کا بھلا ہو وہ سخندانی تو بخش

*

شاعر ی میں نعت گوئی ہو مری پہچان خاص

نعت گوئی کو مری ایسی فراوانی تو بخش

*

بندگی کی دے سدا توفیق رب ذوالجلال

اور نجمیؔ کو ترے حمد و ثنا خوانی تو بخش

***

۱۴۵

سید طاہر حسین طاہر (ناندیڑ)

ظلمتوں سے نجات دے اللہ

نور والی حیات دے اللہ

*

سب کو کل کائنات دے اللہ

مجھ کو طیبہ کی رات دے اللہ

*

باطلوں سے نباہ کیا ہو گا

اہل ایماں کا ساتھ دے اللہ

*

تیری مخلوق کے جو کام آئے

مجھ میں کچھ ایسی بات دے اللہ

*

حق پرستی میں عمر کٹ جائے

قابل رشک ذات دے اللہ

*

دے ارادوں کو تو ظفریابی

حوصلوں کو ثبات دے اللہ

*

سرخروئی ہو حشر میں جس سے

مجھ میں ایسی صفات دے اللہ

*

۱۴۶

میں ہوں حالات کے شکنجے میں

گردشوں سے نجات دے اللہ

*

ہم سے باطل ہے برسر پیکار

دشمن دیں کو مات دے اللہ

*

اس گنہگار کو تو فیض کرم

باعث التفات دے اللہ

*

لکھ رہا ہے تری ثنا طاہرؔ

شاعر ی کو ثبات دے اللہ

***

۱۴۷

رجب عمر (ناگپور)

تجھے پسند ہوں ایسے مرے مشاغل کر

حیات میری ہے طوفاں تو اس کو ساحل کر

*

تری طلب میں رہوں ڈھونڈتا پھروں تجھ کو

تو اپنے چاہنے والوں میں مجھ کو شامل کر

*

سنا ہے اب بھی ہیں اصحاب فیل حرکت میں

خدایا ان پہ ابابیل پھر سے نازل کر

*

بہت کٹھن ہے رہ مستقیم پہ چلنا

تو اپنے فضل سے آساں مرے مراحل کر

*

الجھنا خطروں سے بس میں نہیں ہے اب میرے

تو اپنے لطف سے ان کو خدایا باطل کر

***

۱۴۸

علیم الدین علیم (کلکتہ)

دل سے نکلے تری ثنا یا رب

میرے لب پہ رہے سدا یا رب

*

آسماں سے زمیں کے سینے تک

جلوہ تیرا ہے جا بہ جا یا رب

*

اپنی قدرت سے سارے عالم کو

زندگی تو نے کی عطا یا رب

*

باغ میں عندلیب ہیں جتنے

گیت گاتے ہیں سب ترا یا رب

*

بے زباں یا زبان والا ہو

سب کو دیتا ہے، تو غذا یا رب

*

درد معصوم کو جو دیتا ہے

کب ملے گی اسے سزا یا رب

*

سرورؐ انبیا کی امت کو

ہے فقط آسرا ترا یا رب

*

مانگتا ہے علیمؔ کیا تجھ سے

سن لے اب اس کی بھی دعا یا رب

***

۱۴۹

حسن رضا اطہر (بوکارو سیٹی)

متاع علم و ہنر لازوال دے اللہ

مجھے بلندیِ فکر و خیال دے اللہ

*

گداز و سوزش عشق بلال دے اللہ

شراب عشق مرے دل میں ڈال دے اللہ

*

مرا وجود ہے بے سور اس لئے مجھ سے

وہ کام لے کے زمانہ مثال دے اللہ

*

سروں پہ تان دے حفظ و اماں کی اک چادر

قصور وار ہیں رحمت کی شال دے اللہ

*

خیال سختی محشر سے مرتعش ہے بدن

کوئی نجات کی صورت نکال دے اللہ

*

وفا خلوص کی خوشبو ہی جسم سے پھیلے

سرشت بد نہ کوئی ابتذال دے اللہ

*

تو ہی تو رزاق مطلق ہے مالک و خالق

نبی کے صدقے میں رزق حلال دے اللہ

***

۱۵۰

تلک راج پارس (جبل پور)

گداز ریشمی گفت و شنید ہو مولا

متاع ذہن رسا بھی جدید ہو مولا

*

اک ایسا بندہ مرے گھر میں پرورش پائے

جو تیری راہ پہ چل کر شہید ہو مولا

*

جو مرے پاس ہے تاوان ہے سخاوت کا

یہ التفات و عنایت مزید ہو مولا

*

ہمارے ذہن کو عرفان آگہی دے دے

جو نسل نو کے لئے بھی مفید ہو مولا

*

یہ بد نمائی نمائش کبھی نہ کر پائے

جو احتجاج کا جذبہ شدید ہو مولا

*

ہمارے خون کی ہر بوند تیغ بن جائے

نظر کے سامنے جب بھی یزید ہو مولا

*

قبول ساری عبادت ہو روزہ داروں کی

جو تیری مرضی ہے ویسی ہی عید ہو مولا

***

۱۵۱

رخشاں ہاشمی (مونگیر)

اس فضا کو نکھار دے یا رب

سب کے دل میں تو پیار دے یا رب

*

نیک رستہ پہ تو چلا سب کو

سب کی دنیا سنوار دے یا رب

*

بندگی تیری بس ہم کرتے رہیں

زندگی با وقار دے یا رب

*

غم کے دن کو گزار لوں ہنس کر

حوصلہ دے اعتبار دے یا رب

*

تنگ پڑ جائے رخشاں ؔ کا دامن

خوشیوں کی تو، بہار دے یا رب

***

۱۵۲

رئیس احمد رئیس (بدایوں )

بدی کی راہ سے مجھ کو ہٹا دے یا اللہ

مطیع احمد مرسل بنا دے یا اللہ

*

تمام عمر حقیقت کو یہ بیان کرے

مری زبان کو وہ حوصلہ دے یا اللہ

*

جو میری نسلوں کا اب تک رہی ہے سرمایہ

دلوں میں پھر وہی الفت جگا دے یا اللہ

*

ہر ایک سمت جہالت کا بول بالا ہے

یہاں تو علم کی شمعیں جلا دے یا اللہ

*

تمام شہر میں، میں منفرد نظر آؤں !

تو میری ذات مثالی بنا دے یا اللہ!

*

ہر ایک لمحہ تیرا نام ہو زباں پہ مری!

تو مجھ کو اپنا دیوانہ بنا دے یا اللہ

*

ترے وجود کو تسلیم کر لیں منکر بھی!

کوئی تو معجزہ ایسا دکھا دے یا اللہ

*

تو اپنے پیارے نبیؐ رحمت دو عالم کی

دل رئیسؔ میں الفت جگا دے یا اللہ

***

۱۵۳

امیر اللہ عنبر خلیقی (ناگپور)

عرفان و آگاہی پاؤں، حرف ہدایت دے داتا

خود سمجھوں، سب کو سمجھاؤں ایسی صداقت دے داتا

*

رسم جہاں جانی پہچانی، دولت و شہرت آنی جانی

دائم و قائم جو رہ جائے، ایسی عزت دے داتا

*

ظلم و ستم کرنا ہے کس کو، جور و جفا سہنا ہے کس کو

رحم کرے جو انسانوں پر، ایسی مروت دے داتا

*

میں نے ہر خواہش کو چھوڑا، تیری جانب رخ کو موڑا

میں مخلص تیرا بندہ ہوں، رحمت و برکت دے داتا

*

حرص و ہوس کے چلتے جھونکے، دنیا میں مطلب اور دھوکے

اخلاق و اخلاص نبھاؤں، اتنی شرافت دے داتا

*

جھوٹ کا جب ماحول ہوا ہے جھوٹ یہاں انمول ہوا ہے

جگ میں ہمیشہ سچ کہنے کی جرأت و ہمت دے داتا

*

بجلی کوندے محنت کی اور برق بھی کوندے غیرت کی

میری رگ رگ اور لہو میں ایسی حرارت دے داتا

*

کرنے کو اصلاحی خدمت، عنبرؔ کو ابلاغ سے نسبت

ذکر میں کچھ ندرت لانے کو، فکر میں رفعت دے داتا

***

۱۵۴

ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی (بہرائچ)

یا رب نبیؐ کے باغ کی قربت نصیب ہو

مجھ کو میری حیات میں جنت نصیب ہو

*

نار سقر سے مجھ کو برأت نصیب ہو

سرکار دو جہاں کی محبت نصیب ہو

*

میدانِ حشر میں جو مرے کام آ سکے

محبوب دو جہاں کی وہ چاہت نصیب ہو

*

غم ہائے روزگار سے تنگ آ چکا ہوں میں

شہر نبیؐ میں مجھ کو سکونت نصیب ہو

*

میں بھی شفیع حشر کا ادنیٰ غلام ہوں

محشر کے روز مجھ کو شفاعت نصیب ہو

*

اچھے برے کی کچھ تو میں تمیز کر سکوں

روشن دماغ، چشم بصیرت نصیب ہو

*

جو سرزمین طیبہ پہ پہنچا سکے ہمیں

یا رب ہمیں وہ قوت و ہمت نصیب ہو

*

۱۵۵

بس اتنی التجا ہے مری تجھ سے اے خدا

دیدارِ مصطفی کی اجازت نصیب ہو

*

کوئی قمرؔ رئیس کو کاذب نہ کہہ سکے

بوبکرؓ کی اسے بھی صداقت نصیب ہو

***

۱۵۶

بیتاب کیفی (بھوجپور)

ہم پہ ہر وقت عنایت کی نظر ہو یا رب

زندگی نور کے سایہ میں بسر ہو یا رب

*

دل کی گہرائی سے ہر بات زباں تک آئے

ذہن روشن ہو دعاؤں میں اثر ہو یا رب

*

حسن اخلاق و محبت کی عطا ہو دولت

خدمت خلق سے لبریز جگر ہو یا رب

*

ایک پل بھی نہ تری یاد سے دل غافل ہو

بس اسی طرح بسر شام و سحر ہو یا رب

*

ہر طرف آج حوادث کی گھٹا چھائی ہے

اک نظر خاص نوازش کی ادھر ہو یا رب

*

دشمنوں کے لئے ہو درد کا دریا دل میں

دوستوں کو بھی منانے کا ہنر ہو یا رب

*

بخش دے گا تو گنا ہوں کو یقین کامل ہے

قلب صادق سے مناجات اگر ہو یا رب

*

۱۵۷

ہاتھ سے دامن تہذیب نہ چھوٹے ہرگز

عدل و انصاف کا ہر معرکہ سر ہو یا رب

*

دیکھ بس ایک دفعہ شہر مدینہ جا کر

زندگانی میں کبھی نیک سفر ہو یا رب

*

بھول کر آئے نہ اس سمت خزاں کا موسم

پھول کی طرح مہکتا ہوا گھر ہو یا رب

*

کج روی پر نہ حسیں قلب کبھی مائل ہو

ہر گھڑی پیش نظر سیدھی ڈگر ہو یا رب

*

جب بھی بیتابؔ مری روح بدن سے نکلے

سامنے سید کونین کا در ہو یا رب

***

۱۵۸

عارف حسین افسر (بلندشہری)

یا الٰہی پاک و اعلیٰ تیری ذات

معرفت سے ماوراء تیری صفات

*

بھیج سیدنا محمد ؐ پر سلام

حیثیت سے اپنی برکت اور صلوٰۃ

*

بخش دے یا رب خطاؤں کو مری

خیر میں تبدیل فرما سیّات

*

نفس اور شیطاں کے شر سے دے پناہ

دے بلاؤں اور فتنوں سے نجات

*

کر دئے تیرے حوالے معاملات

میرے رب تو ہی حل المشکلات

***

۱۵۹

حبیب سیفی آغاپوری (نئی دہلی)

خالق دو جہاں سن مری التجا

مجھ کو رکھنا فقط اپنے در کا گدا

سب سہارے ہیں دنیا کے جھوٹے خدا

تیری ہی ذات ہے اے خدا ماوریٰ

سارا عالم فنا ہونا ہے ایک دن

میرا ایمان ہے صرف تو ہے بقا

وحدہٗ لاشریک لہٗ، تو ہی تو

کر دیا ہے زباں سے بیاں مدعا

باقی کچھ جان ہے اور یہ ارمان ہے

ساتھ ایمان کے نکلے بس دم مرا

قبر کی ہولناکی سے ڈرتا ہوں میں

کرتا ہوں اس لئے مغفرت کی دعا

لاکھ عاصی ہوں میں تو تو رحمن ہے

در گزر کر دے تو میری بس ہر خطا

کیوں تمنا کروں میں کسی غیر کی

مجھ کو جو بھی ملا تیرے در سے ملا

میری ناکام مسرت کا رکھنا بھرم

تیرے آگے جھکایا ہے پھر سر خدا

***

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193