انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 30%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95699 / ڈاؤنلوڈ: 2870
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ڈاکٹر بختیار نواز (بجرڈیہہ)

ابتدا تو ہے انتہا تو ہے

دونوں عالم کا رہنما تو ہے

*

چاند تاروں میں نور ہے تیرا

حد امکاں ظہور ہے تیرا

*

غنچۂ و گل میں ہے ادا تیری

تیرگی میں بھی ہے ضیا تیری

*

میں ہوں کمزور اور قوی تو ہے

میں ہوں محتاج اور غنی تو ہے

*

میرے ہستی سنوار دے مولیٰ

میرے دل کو قرار دے مولیٰ

*

سب کا ہے تو ہی مالک و مختار

تیرے آگے نوازؔ ہے لاچار

***

۶۱

حمد باری تعالیٰ

یونس انیس (ناگپور)

اے خالق رب العلا

اے مالک ارض و سما

اے ذات باری اے خدا

تو لائق حمد و ثنا

*

روز و شب و صبح مسا

ہم سب ترے مدحت سرا

*

الحمد للہ سب نور نور

ہر سمت بس تیرا ظہور

یہ کوہ یہ دشت و طیور

سب کلمہ گو تیرے حضور

*

پروردگار جز و کل

آب و گل و ہر خار و گل

*

سب سے بڑا سب سے عظیم

تو صاحبِ لطف عمیم

محتاج ہم سب تو نعیم

رحمن تو ہے تو رحیم

*

۶۲

اے کردگار انس و جاں

تو رحم والا مہرباں

*

ہم عاصیِ دامن تہی

از بسکہ ہے شرمندگی

اک آسرا ہے بس یہی

لا تقنطوا من رحمتی

*

لاریب فیہ اے خدا

تو مالکِ روزِ جزا

*

ہر چیز میں موجود تو

ہر چیز کا مقصود تو

ہم عابد و معبود تو

تو شاہد و مشہود تو

*

ہم ساجد و مسجود تو

ہم عابد و معبود تو

*

یا ربنا، یا ربنا

جو راہ حق ہے حق نما

وہ راہِ حق ہم کو دکھا

گم کردہ را ہوں سے بچا

*

فیضانِ جنت ہو مدام

نارِ جہنم ہو حرام

۶۳

حمد ربِ کائنات

کیفی اسماعیلی (کامٹی)

میرا اللہ تعالیٰ تو ہے رحمان بہت

مجھ گنہگار کی بخشش کا ہے امکان بہت

*

ہے رحیم اور بھی اک نام مرے مالک کا

کر رہا ہوں میں اسی نام کی گردان بہت

*

ڈوبتے ڈوبتے ایمان مرا تیر گیا؟

میں نے دل سے جو پڑھی سورۂ رحمان بہت

*

ورد آیات کریمہ کا اثر کیا کہئے

ہوتی رہتی ہیں مری مشکلیں آسان بہت

*

جس نے یونسؑ کو بچایا شکم ماہی میں

ہے بہر حال وہی میرا نگہبان بہت

*

دونوں عالم کے سمجھنے کو یہی کافی ہے

ہے ہمارے لئے اللہ کا عرفان بہت

*

سچ تو یہ ہے، کہ ہے سائنس اسی کا صدقہ

ہر مسلمان سمجھ کر پڑھے قرآن بہت

*

۶۴

ہر گھڑی کلمۂ توحید پڑھا کرتا ہوں

ہے اسی نور میں کھو جانے کا ارمان بہت

*

تر ہیں رخسار اگر اشک پشیمانی سے

ہے گنہگار کی بخشش کا یہ سامان بہت

*

مشرکین لاکھ لگاتے رہیں بہتان مگر

میرا مالک مرا مولا تو ہے سبحان بہت

*

ہے خداوند تعالیٰ کا کرم لامحدود

حمد کہنے کے لئے ملتے ہیں عنوان بہت

*

اس کی روزی میں بڑی برکتیں دیکھیں ہم نے

جس کے گھر آتے ہیں اللہ کے مہمان بہت

*

ہم نے خود رکھ دیا دشوار بنا کے ورنہ

ہے مرا مذہب اسلام تو آسان بہت

*

دے رہا ہے وہ بلا کسب ہی روزی کیفیؔ

مجھ پہ رزاق دو عالم کا ہے احسان بہت

***

۶۵

احمدرئیس (کلکتہ)

اعلیٰ ہے تو، عظیم ہے تو، رب ذوالجلال

رحمن ہے، رحیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

تیری نوازشوں کے طلب گار ہیں سبھی

سب س بڑا کریم ہے تو رب ذوالجلال

*

شعلوں میں کون، کون ہے مچھلی کے پیٹ میں

عالم ہے تو، علیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

صدیوں سے ہے یہ فرش زمیں بے ستون عرش

ان سب سے بھی قدیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

پوشیدہ حکمتیں ہیں ترے حرف حرف میں

حاکم ہے تو، حکیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

دیتا ہے رزق سب کو تو سب کے نصیب کا

قاسم ہے تو، قسیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

ذہن رئیسؔ پر بھی ہے مولا ترا کرم

اور دل میں بھی مقیم ہے تو رب ذوالجلال

***

۶۶

محمد افضل خان (ہوڑہ)

خالق، مالک، اعلیٰ تو ہی

سب سے عظمت والا تو ہی

*

شاہ و گدا سب تیرے غلام

پاتے ہیں تجھ سے انعام

*

عزت ذلت ہاتھ میں تیرے

شہرت دولت ہاتھ میں تیرے

*

جس کو چاہے علم و ہنر دے

تو ہی روزی روٹی گھر دے

*

رکھوالا عالم کا تو ہی

سب سے برتر بالا تو ہی

*

روز و شب ہیں تیرے دم سے

ہم ہیں زندہ تیرے کرم سے

*

تیری ثنا پڑھتا ہے افضلؔ

دم تیرا بھرتا ہے افضلؔ

***

۶۷

رزاق افسر (میسور)

تیری آرزو مری زندگی، مری بندگی تری جستجو

یہ ہے روز و شب مرا مشغلہ، مرے سلسلے یہی کو بکو

*

تری ذات منبع نور ہے، ترا نور کل کا ظہور ہے

تو مجیب اسود و طور ہے، تو نہاں کہیں کہیں روبرو

*

کوئی ایسا دیدہ و دل کہاں، تری ذات جس پہ نہ ہو عیاں

تو قدیم و خالق کن فکاں، تو محیط عالم رنگ و بو

*

تری راہ صبح کے رابطے، ترے فاصلے مرے رت جگے

یہ نیاز و ناز کے مرحلے، کہیں تشنہ لب کہیں آبجو

*

تری عظمتوں کے سرور سے ہوئی فکر میری نہال جب

تو ملا کمال سخن مجھے، بنی آئینہ مری گفتگو

*

ہو بیان کیا تری برتری، ترا نام جب بھی لیا کوئی

تو زبان خلق ہے کہہ اٹھی، تری شان جل جلالہٗ

***

۶۸

نظیر احمد نظیر (کامٹی)

شکم میں ماں کے ہر اک شکل کو بناتا ہے

مگر کسی کو کسی سے نہیں ملاتا ہے

*

میرے خدا یہ تیری شان کبریائی ہے

اندھیرے گھر سے اجالے میں تو ہی لاتا ہے

*

ملا کے رکھ دیا دہقاں نے خاک میں گندم

یہ تیری شان ہے اس کو تو ہی اگاتا ہے

*

میں اپنی نیند سے جاگوں مری مجال کہاں

تو ہی سلاتا ہے یا رب تو ہی اٹھاتا ہے

*

نظر میں تاب کہاں دیکھنے کی نظارے

تیرا ہی نور ہے آنکھوں میں جو دکھاتا ہے

*

پلک جھپکتے ہی یہ زندگی ہو جائے فنا

تیرا کرم ہے جو سانسوں میں آتا جاتا ہے

*

یہ بات سچ ہے کے جس کا مجھے نہیں انکار

نظیرؔ حکم سے تیرے قلم اٹھاتا ہے

***

۶۹

طالب صدیقی (کلکتہ)

درد کا درماں چین کا عنوان اک تو ہی

سب کے خانۂ دل کا مہماں اک تو ہی

*

تیری ذات لافانی کا کیا کہنا

ذرے ذرے میں ہے نمایاں اک تو ہی

*

باغ بھی تیرے، گل بھی تیرے ہیں مالک

رکھتا ہے شاداب گلستاں اک تو ہی

*

غم کی کوئی گنجائش ہو تو کیسے

جب رکھتا ہے دل کو شاداں اک تو ہی

*

کرنا ہے تا عمر خدایا مجھ کو طواف

میں پروانہ، شمع فروزاں اک تو ہی

*

بخشی ہے سورج کو تو نے تابانی

چاند کو بھی کرتا ہے درخشاں اک تو ہی

*

ہوتا ہے تاریک دل طالبؔ جب بھی

کر دیتا ہے اس میں چراغاں اک تو ہی

***

۷۰

رخشاں ہاشمی (مونگیر)

زندگی تیری مہربانی ہے

تیری بس تیری ہی کہانی ہے

*

تیرا جلوہ ہے چار سو روشن

ہے کرم تیرا زندگانی ہے

*

سارے منظر میں تجھ کو دیکھا ہے

سارا عالم تری نشانی ہے

*

تو ہی عزت دے تو ہی ذلت دے

آگ بھی تو ہے، تو ہی پانی ہے

*

تو جو چاہے تو سب فنا کر دے

ہر جگہ تیری راجدھانی ہے

*

یاد میں تیری کر رہا ہے جو

رخشاں ؔ کی آنکھ کا وہ پانی ہے

***

۷۱

صابر فخر الدین (یادگر)

جس کو حاصل ہے آگہی تیری

اس پہ رحمت فزوں ہوئی تیری

*

خود پہ احسان ہی تو کرتا ہے

وہ جو کرتا ہے بندگی تیری

*

میں اندھیروں کو چیر جاؤں گا

ہو اگر ساتھ روشنی تیری

*

ہر کہہ و مہہ کو جو نوازے ہے

ہو نظر مجھ پہ بھی وہی تیری

*

ٹھیک منزل سے جا ملاتی ہے

گم رہوں کو بھی رہبری تیری

*

چاند سورج ہوں یا وہ ارض و سما

سب ہی کرتے ہیں بندگی تیری

*

تیرے صابرؔ کے سامنے کیوں کر

ہو نہ مد نظر خوشی تیری

***

۷۲

صابر فخر الدین (یادگر)

نئے چراغ پرانے چراغ بھی تیرے

جو آ رہے ہیں نظر وہ ایاغ بھی تیرے

*

ہمارے دل کا گلستاں بھی ہے ترا یا رب

جو ہیں بہشت بریں میں وہ باغ بھی تیرے

*

نظر سے تیری نہیں ہے کوئی بھی شئے مخفی

قدم قدم پہ ہیں پھیلے سراغ بھی تیرے

*

جو تنگیاں ہیں وہ میرا نصیب ہیں یا رب

تمام وسعتیں سارے فراغ بھی تیرے

*

مجھے ملی ہیں جو علم و عمل کی سوغاتیں

ہیں ان کے طاق میں روشن چراغ بھی تیرے

***

۷۳

علیم الدین علیم (کلکتہ)

ہم کو ہر شے میں نظر آتا ہے جلوہ تیرا

سارے عالم میں ہے معبود اجالا تیرا

*

ایک پتا نہیں ہلتا کبھی شاخ گل پر

جب تلک ہوتا نہیں کوئی اشارا تیرا

*

لفظ کن سے کیا تخلیق جہاں کو تو نے

تیری مخلوق پہ احسان ہے ربا تیرا

*

کوئی معبود نہیں تیرے سوا اے اللہ

سر بہ سجدہ ہے ترے سامنے بندا تیرا

*

ہو کوئی جن کہ بشر یا ہوں چرند اور پرند

سب پہ یکساں ہے کرم خالق دنیا تیرا

*

تیرے بندوں کی عبادت کا ہے پہلا مرکز

کیوں نہ معمور ہو انوار سے کعبا تیرا

*

سانس جب تک مری چلتی رہے اے رب قدیر

ہو ادا مجھ سے ہر اک حال میں سجدا تیرا

*

سر جھکاتا ہے علیمؔ اس لیے تیرے آگے

اس کا معبود ہے تو اور وہ بندا تیرا

***

۷۴

حیدر علی ظفر دیگلوری

افضل ارفع اعلیٰ تو

مالک سب کا مولا تو

*

قائم دنیا تجھ سے ہے

ایسی ہستی والا تو

*

سب تیرے گن گاتے ہیں

شان و شوکت والا تو

*

خوشبو تیری ہر گل میں

گلشن گلشن صحرا تو

*

ہندو مسلم سکھ تیرے

سب کاموں داتا تو

*

بت خانہ ہو یا ہو کعبہ

ہر گھر کا رکھوالا تو

*

ہے تیرا محتاج ظفرؔ

میں بندہ ہوں آقا تو

***

۷۵

حامد رضوی حیدرآبادی

سب پہ لازم احترام اللہ کا

ذرہ ذرہ ہے غلام اللہ کا

*

سارے بندوں کی بھلائی کے لئے

عرش سے اترا کلام اللہ کا

*

بھوک دے کر بھول وہ جاتا نہیں

رزق کا دینا ہے کام اللہ کا

*

جس کو رکھنا ہے جہاں رکھتا ہے وہ

ایسا بہتر ہے نظام اللہ کا

*

ہے وہی مختار کل معبود حق

ہو لبوں پر صرف نام اللہ کا

*

یہ زمین و آسماں کل کائنات

راج ہے ہر جا تمام اللہ کا

*

کہتے ہیں حامدؔ جسے وہ رات دن

نام لیتا ہے مدام اللہ کا

***

۷۶

سکندر عرفان (کھنڈوہ)

سب کو جزا کا دینے والا اللہ تو

اور سزا کا دینے والا اللہ تو

*

یوں تو دوا کا دینے والا ہے انساں

صرف شفا کا دینے والا اللہ تو

*

ذلت تری ہی صرف بقا کی حامل ہے

حکم فنا کا دینے والا اللہ تو

*

موسیٰ جب مجبور کھڑے تھے دریا پر

ان کو عصا کا دینے والا اللہ تو

*

یہ نہ ملیں تو پل بھر میں مر جاتے ہم

پانی ہوا کا دینے والا اللہ تو

*

پودوں کے ان پژمردہ سے ہونٹوں کو

جام گھٹا کا دینے والا اللہ تو

*

غم بھی دئے ایوبؔ کو تو نے یہ سچ ہے

صبر و رضا کو دینے والا اللہ تو

*

میں نے کی عرفانؔ جو میری دنیا

صلہ وفا کا دینے والا اللہ تو

***

۷۷

صابر جوہری (بھدوہی)

(۱)

رقم اوصاف رب کے کر رہا ہے

قلم کاغذ پہ سجدے کر رہا ہے

*

کرم کی ہو رہی ہے عام بارش

زمانہ اس کے چرچے کر رہا ہے

*

منور نور ہستی سے تو یا رب!

دلوں کے آبگینے کر رہا ہے

*

عطا کر کے لقب یٰسین و طہٰ

بلند انساں کے درجے کر رہا ہے

*

اسے بھی رزق تو دیتا ہے یا رب!

خدائی کے جو دعوے کر رہا ہے

*

جہنم سے ڈراتا ہے اگر تو

تو جنت کے بھی وعدے کر رہا ہے

*

ترا احساں کہ ہر طوفاں کی زد سے

مری کشتی کنارے کر رہا ہے

*

۷۸

پرندہ بیٹھ کر ڈالی پہ ہر دم

ترا ہی ذکر جیسے کر رہا ہے

*

عطا ہو جائے علم و فن کی دولت

دعا صابرؔ یہ دل سے کر رہا ہے

***

۷۹

(۲)

سیاروں کی گردش میں پنہاں تیری قدرت ہے

تار نفس کی ہر لے میں جیسی تیری حکمت ہے

*

پھولوں سے اور خاروں سے سورج چاند ستاروں سے

دریاؤں کہساروں سے ظاہر تیری عظمت ہے

*

ہر اک پھول کی خوشبو میں قوس قزح کے جادو میں

جگمگ جگمگ جگنو میں یا رب! تیری جلوت ہے

*

مہر و ماہ و اختر میں، برق و شرر کے تیور میں

گردوں کے ہر منظر میں ترا جمال وحدت ہے

*

علم دیا عرفاں بخشا، لاثانی قرآں بخشا

بخشش کا ساماں بخشا تیری کیا کیا رحمت ہے

*

تیری رحمت کا طالب تنکا تنکا ہے لاریب

تیرے قہر سے خوف زدہ یا رب پربت پربت ہے

*

نوک خامہ تو بھی لکھ رب کی تحمید و تقدیس

ذرہ ذرہ روز و شب جب مشغول مدحت ہے

*

نور شمع ایماں سے روشن ہے دنیائے دل

صابرؔ پر مولائے کل تیری کتنی رحمت ہے

***

۸۰

محمد نصراللہ نصرؔ (ہاوڑہ)

( ۱)

پھول کو خوشبو قمر کی روشنی تو نے ہی دی

کائنات حسن کو یوں دلکشی تو نے ہی دی

*

اک فلک کو ماہ و انجم، اک زمیں کو پھول پھل

دونوں عالم کو ہر اک شئے دیدنی تو نے ہی دی

*

وسعت صحرا کو نخلستان کی ٹھنڈی ہوا

موج بحر بے کراں کو بے کلی تو نے ہی دی

*

طائر دلکش ادا کو حسن بھی دلکش دیا

عندلیب خوش نوا کو راگنی تو نے ہی دی

*

دن کو روشن کر دیا خورشید نور خاص سے

شب گزیدہ دہر کو یہ چاندنی تو نے ہی دی

*

علم کی دولت عطا کی، عقل بھی تیری عطا

ہاں بشر کو نیک و بد کی آگہی تو نے ہی دی

*

تیری حکمت کا بیاں ممکن نہیں الفاظ میں

ایک لفظ کن سے ہم کو زندگی تو نے ہی دی

*

بندۂ کمتر تری توصیف کرنا کس طرح

نصرؔ کو توفیق یا رب! مدح کی تو نے ہی دی

***

۸۱

(۲)

یہ مہر و ماہ منور غلام تیرے ہیں

تمام نور کے مظہر غلام تیرے ہیں

*

تغیرات زمانہ ہیں تری قدرت میں

یہ عرش و فرش کے منظر غلام تیرے ہیں

*

ترے غلام خدایا ہیں نغمہ بار پرند

تو نامہ بر یہ کبوتر غلام تیرے ہیں

*

ترے جہاں کے گداؤں کا ذکر کیا یا رب

زمانے بھر کے سکندر غلام تیرے ہیں

*

کروں نہ کیوں میں اطاعت تری مرے مولا

تمام پیر و پیمبر غلام تیرے ہیں

*

کہاں کہاں نہ غلامی میں ہے تری خلقت

یہ سیپ سیپ میں گوہر غلام تیرے ہیں

*

تری رضا پہ ہے موقوف فکر کی پرواز

تخیلات کے شہپر غلام تیرے ہیں

*

ترا غلام ترا نصرؔ کیوں نہ ہو یا رب

کہ ذی وقار سخنور غلام تیرے ہیں

***

۸۲

مشرف حسین محضر (علی گڑھ)

آنکھوں میں تو ہے دل میں تو ہے دل کے احساسات میں تو

تیری ذات کا میں شیدائی پنہاں میری ذات میں تو

*

صبح طرب کی سطح افق سے سورج بن کر ابھرا ہے

چاند کا روپ لیے آیا ہے غم کی کالی رات میں تو

*

عیش و مسرت تیرا کرم ہے فکرو فاقہ تیری رضا!

آسودہ لمحات میں تو تھا آشفتہ لمحات میں تو!

*

قہر ترا نافرمانوں پر رحم ترا ہر تابع پر

فیض و غضب کی آندھی میں تو رحمت کی برسات میں تو

*

کعبے کی دیوار پہ لکھے مصرعوں سے یہ ثابت ہے

لاثانی ہے تیرا کلام اور یکتا اپنی ذات میں تو

*

ماضی تیرا حال بھی تیرا مستقبل کا تو مالک!

ماضی کے حالات میں تو تھا موجودہ حالات میں تو

*

تو چاہے محضرؔ کے حق میں ناممکن، ممکن کر دے

ہر اک شئے پر تو قادر ہے سارے امکانات میں تو

***

۸۳

مراق مرزا (بمبئی)

گلستاں اس کے ریگزار اس کا

سارے عالم پہ اختیار اس کا

*

چاند ستاروں میں جلوہ گر ہے وہی

پھول کلیوں پہ ہے نکھار اس کا

*

اس کے دم سے رواں سمندر ہے

ہے ندی اس کی، آبشار اس کا

*

جانے کیوں ان دنوں لبوں پہ مرے

نام آتا ہے بار بار اس کا

*

ذرے ذرے میں وہ سمایا ہے

ہے زمیں اس کی کوہسار اس کا

*

جسم اس کا ہے، سانس اس کی ہے

ابن آدم ہے قرض دار اس کا

*

وہ مرا ہر گناہ بخشے گا

ہے مرے دل کو اعتبار اس کا

***

۸۴

رحمت اللہ راشد احمدآبادی (ناگپور)

ہے ترا ہر ذرے پہ احسان رب العالمین

کیا بیاں ہ سے ہو تیری شان رب العالمین

*

سرخرو ہو جائے ہر انسان رب العالمین

کر عطا ہر ایک کو ایمان رب العالمین

*

ساری خلقت آج بھی بے بس ہے تیرے سامنے

تیرے قبضے میں ہے سب کی جان رب العالمین

*

ذکر ہر مخلوق کرتی ہے ترا شام و سحر

لہر ہو دریا کی یا طوفان رب العالمین

*

سارا عالم، ساری دنیا تیرے ہی قبضے میں ہے

ہے ترا قرآں میں یہ اعلان رب العالمین

*

اک اشارے پر ترے پیارے خلیل اللہ نے

کر دیا بیٹے کو بھی قربان رب العالمین

*

جب بھی ٹوٹے تیرے راشدؔ پر مصیبت کے پہاڑ

کر دیا تو نے انھیں آسان رب العالمین

***

۸۵

حافظ اسرارسیفی (آرہ)

تو ہی میری آرزو ہے تو ہی میری جستجو

اول و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو

*

تو نے دامان زمیں کو موتیوں سے بھر دیا

اور جہان آسماں کو قمقموں سے بھر دیا

*

رازق و خلاق تو ہے حافظ و ناصر ہے تو

آنکھ سے اوجھل ہے لیکن ہر جگہ ظاہر ہے تو

*

نعمتیں ہیں ان گنت اور رحمتیں ہیں بے شمار

ہر قدم پر ہے عنایت تیری اے پروردگار

*

ہے منور نور بھی اور نور کا محور بھی تو

تو ہی ہے تحسین فطرت اور مہہ و اختر بھی تو

*

تو ہی مندر کا جرس ہے تو ہی مسجد کی اذاں

ذرے ذرے میں ہے روشن تیرے جلووں کا نشاں

*

قطرۂ ناچیز ہوں میں اور تو بحر رواں

تیری مدحت کے لیے ہے گنگ ناطق کی زباں

*

بخش دے سیفیؔ کو مولا ہے کرم تیرا بڑا

بندۂ ناچیز یہ ہے بحر عصیاں میں پڑا

***

۸۶

شاغل ادیب (حیدرآباد)

کاش مل جاتے مرے نالوں کو تاثیرنئی

تجھ سے اللہ ملے خوشیوں کی جاگیر نئی

*

رکھنا ایمان سلامت تو مرا اے اللہ

ہے یہ وعدہ نہ کروں گا کوئی تقصیر نئی

*

ہر نئی صبح رہے حمد نئی ہونٹوں پر

ہر نئی شام ہو، دل میں تری توقیر نئی

*

رات کے خواب مرے کڑوے بہت ہیں یارو

دن کے لمحات کو دے میٹھی سی تعبیر نئی

*

تیرے محبوبؐ کا بیمار جو ہو جاتا ہے

اس کو بے مانگے تو دے دیتا ہے اکسیر نئی

*

اپنے محبوبؐ کی امت پہ ہو رحمت کی نظر

اپنے محبوبؐ کی امت دے توقیر نئی

*

تیرے قرآں میں مسائل ہیں قیامت تک کے

آیتیں اس کی عطا کرتی ہیں تفسیر نئی

*

حمد شاغلؔ میں لکھوں یا کہ مناجات لکھوں

دے دے مولا تو قلم کو مرے تاثیر نئی

***

۸۷

فراغ روہوی (کلکتہ)

اعزاز مجھ کو ایک یہی ذوالجلال! دے

میری نگاہِ شوق کو ذوقِ جمال دے

*

مجھ کو خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے

ایسا دے پھر مزاج کہ دنیا مثال دے

*

تو نے عطا کیے ہیں یہ لوح و قلم تو پھر

جو دل گداز ہو وہی حسن خیال دے

*

شہرت سے تو نے مجھ کو نوازا تو ہے، مگر

تھوڑا سا انکسار بھی اے ذوالجلال! دے

*

میری نظر میں وہ کسی دریا سے کم نہیں

قطرہ جو میرے کوزے میں یا رب! تو ڈال دے

*

گمنامیوں کی قید میں گوہر جو ہے ابھی

یا رب! اسے صدف سے تو باہر نکال دے

*

محروم تیرے فیض سے صحرا جو ہے یہاں

اک بار اس کے سامنے دریا اچھال دے

*

ہو فیض یاب حرف دعا سے ترا فراغؔ

تاثیر بھی زباں میں اگر اس کی ڈال دے

***

۸۸

خضر ناگپوری (ناگپور)

اے مرے مالک مرے پروردگار

تیری رحمت ایک بحر بے کنار

*

آتش نمرود تو نے سرد کی

تو نے عیسیٰ کی بچائی زندگی

تو نے یوسف کا رکھا قائم وقار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

نور بخشا دیدۂ یعقوب کو

دم میں اچھا کر دیا ایوب کو

دی زلیخا کو جوانی کی بہار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

ہے عطا کی شان بھی کیا دیدنی

آگ کے طالب کو دی پیغمبری

ایک مانگے کوئی تو دے تو ہزار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

۸۹

نوح کی کشتی کا تو ہی ناخدا

راستہ موسیٰ کو دریا میں دیا

تیری قدرت ہے جہاں پر آشکار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

تاجدار انبیا کا واسطا

نعمت کونین اسے بھی کر عطا

خضرؔ بھی رحمت کا ہے امیدوار

اے مرے مالک مرے پروردگار

***

۹۰

بولو وہ کون ہے ؟

ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء (ناگپور)

بولو وہ کون ہے ؟ نظروں سے جو رہ کر پنہاں

ایک اک شے کے پس پردہ ہے جلوہ افشاں

*

بولو وہ کون ہے ؟ دیتا ہے جو سامان حیات

ہم کو بن مانگے عطا کرتا ہے کیا کیا نعمات

*

بولو وہ کون ہے ؟ ہر سمت ہے جس کا سکہ

حکمراں جو ہے فلک اور زمیں پر تنہا

*

بولو وہ کون ہے ؟ یہ دھرتی سجائی جس نے

چرخ پہ چادر نورانی بچھائی جس نے

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو قادر و قیوم بھی ہے

ہر دو عالم کا جو مسجود بھی مخدوم بھی ہے

*

بولو وہ کون ہے ؟ نازل کیا جس نے قرآں

اس میں صادر کئے حکمت بھرے کتنے فرماں

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو رزق عطا کرتا ہے

جس کی مرضی کے بنا پتہ نہیں ہلتا ہے

*

۹۱

بولو وہ کون ہے ؟ ہر امر پہ قدرت والا

جس سے بڑھ کر نہیں ہے کوئی بھی حکمت والا

جس نے پیدا کیا انساں کو بطرز احسن

زندگی کرنے کے پھر اس کو سکھائے ہیں چلن

جس نے مخلوق میں انساں کو بنایا اشرف

*

کون ہے وہ؟ جو ہے سجدوں کا ہمارے حقدار

ہر قدم پر ہمیں اس کی ہی مدد ہے درکار

ایسی ہی ہستی تو بجز رب العلیٰ کوئی نہیں

لائق حمد و ثنا اس کے سوا کوئی نہیں

***

۹۲

محسن باعشن حسرت (کلکتہ)

وہ جس نے دی ہم کو زندگانی

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

جو سب سے افضل ہے سب سے برتر

جو سب کا والی ہے سب کا یاور

*

وہ جس نے دونوں جہاں بنائے

زمین اور آسماں بنائے

*

وہ جس نے دولت ہمیں عطا کی

وہ جس نے شہرت ہمیں عطا کی

*

وہ جس نے دی ہم سبھوں کو عزت

وہ جس نے بخشی ہمیں مسرت

*

وہ جس کی ہم پر ہے مہربانی!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

وہ جس نے بخشی گلوں کو خوشبو

وہ جس نے دلکش بنائے جگنو

*

۹۳

وہ جس نے تارے سجائے ہر سو

وہ جس نے غنچے کھلائے ہر سو

*

یہ چاند سورج دیئے ہیں جس نے

پہاڑ پیدا کئے ہیں جس نے

*

وہ جس کے گن گا رہے ہیں سارے

وہ جس کے دم سے ہیں سب نظارے

*

جہاں پہ جس کی ہے حکمرانی!!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

***

۹۴

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

(۱)

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے

متاعِ صبر عطا کر دے ذوالجلال مجھے

*

فقط تری ہی محبت ہو خانۂ دل میں

اس آرزوئے حقیقی سے کر نہال مجھے

*

انا سے دل کو مرے پاک رکھ کہ اس کے سبب

عروج لے کے چلا جانبِ زوال مجھے

*

درست کر مری فطرت میں خامیاں ہیں بہت

نواز خوبیِ کردار و خوش خصال مجھے

*

وہ جس کمال نے صلحا کو سرفرازی دی

مرے کریم عطا کر وہی کمال مجھے

*

گناہگار ہوں ڈوبا ہوا ہوں عصیاں میں

تو اس عمیق سمندر سے اب نکال مجھے

***

۹۵

(۲)

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربی

مرا نصیب و مقدر سنوار دے ربی

*

ہوا ہے گلشنِ امید میرا پژمردہ

خزاں کی کوکھ سے فصلِ بہار دے ربی

*

قدم قدم پہ ہیں خارِ نفاق و بغض و حسد

اس امتحاں سے سلامت گزار دے ربی

*

میں مخلصانہ دعا دشمنوں کو دیتا رہوں

تو میرے دل میں وہ جذبہ ابھار دے ربی

*

میں جو کہوں یا لکھوں سب میں عشق ہو تیرا

میرے خیال کو اتنا نکھار دے ربی

*

بہت برا ہے گنا ہوں سے حال ساحلؔ کا

یہ بار سر سے تو اس کے اتار دے ربی

***

۹۶

(۳)

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولیٰ

راہ جو سیدھی ہے، وہ راہ بتا دے مولیٰ

*

تجھ کو پانے میں یہ قوت ہے رکاوٹ کا سبب

فتنہ و شر کو مرے دل سے مٹا دے مولیٰ

*

یہ گرفتار ہے گردابِ مسائل میں ابھی

کشتیِ زیست مری پار لگا دے مولیٰ

*

میرا ہر لفظ ترے عشق کا مظہر بن جائے

سوچ کو میری وہ پاکیزہ ادا دے مولیٰ

*

تیرے مصحف کی تلاوت کروں آسانی سے

نور آنکھوں کا مری اتنا بڑھا دے مولیٰ

*

عالمِ فانی و باقی میں بھلائی دے دے

نار دوزخ سے بھی ساحلؔ کو بچا دے مولیٰ

***

۹۷

(۴)

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دے دے

پیڑسرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دے دے

*

راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا

عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دے دے

*

خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری

سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دے دے

*

شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی

التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دے دے

*

سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا

صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دے دے

*

دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا

زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دے دے

***

۹۸

فرید تنویر (ناگپور)

میرے دل میں ہوئی جب بھی کوئی خواہش مولا

ہو گئی تیری عنایات کی بارش مولا

*

تیرے خورشید کرم کی یہ ضیا باری ہے

زندگی میں ہے اجالوں کی نمائش مولا

*

نکلا طوفان حوادث سے سفینہ میرا

یہ ترا فضل ہے، یہ تیری نوازش مولا

*

ہو مرے حال پہ ہر وقت ترا لطف و کرم

دور ہر دم رہے افلاک کی گردش مولا

*

التجا ہے ترے تنویرؔ کی اے رب کریم

زندگی بھر نہ ہو اس سے کوئی لغزش مولا

***

۹۹

منظورالحسن منظور (پونہ)

حیات مہنگی، ممات سستی ہے کیسا قہر و وبال یا رب

کہیں تو آ کر ہو ختم آخر، یہ دور حزن و ملال یا رب

*

یہ چینچی میں عتاب روسی، یہ بوسنی میں لہو کے دریا

ہے خوں میں ڈوبا ہوا فلسطیں، یہ کیسا طرز رجال یا رب

*

نکل کے بدر و احد سے آگے، یہ آئے ہیں کربلا سے غازی

تھکے ہیں سارے ہی آبلہ پا، تو آ کے انکو سنبھال یا رب

*

چلے ہیں سر سے کفن کو باندھے، صلیب کاندھوں پہ لیکے اپنے

زباں پہ تیرا ہے ذکر پیہم، نظر میں تیرا جمال یا رب

*

دلوں میں خیر البشرؐ کی عظمت، ادا میں قرآں کا بانکپن ہے

یہی تو ہے زادِ راہ اپنا، یہی ہے مال و منال یا رب

*

کھڑے ہیں دارو رسن کی زد پر، مگر ہنسی ہے سبھوں کے لب پر

یہ سرفروشی کا عزمِ راسخ، ہے مومنانہ کمال یا رب

*

یہ جوش صہبائے عشق احمدؐ، کہ زیر خنجر بھی کہہ رہے ہیں

لہو سے ہو کر ہی سرخ رو اب، ملے گا تیرا وصال یا رب

*

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193