انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات 20%

انتخاب حمد و مناجات مؤلف:
: محمد امین
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 193

انتخاب حمد و مناجات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95653 / ڈاؤنلوڈ: 2869
سائز سائز سائز
انتخاب حمد و مناجات

انتخاب حمد و مناجات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

محمد نصراللہ نصرؔ (ہاوڑہ)

( ۱)

پھول کو خوشبو قمر کی روشنی تو نے ہی دی

کائنات حسن کو یوں دلکشی تو نے ہی دی

*

اک فلک کو ماہ و انجم، اک زمیں کو پھول پھل

دونوں عالم کو ہر اک شئے دیدنی تو نے ہی دی

*

وسعت صحرا کو نخلستان کی ٹھنڈی ہوا

موج بحر بے کراں کو بے کلی تو نے ہی دی

*

طائر دلکش ادا کو حسن بھی دلکش دیا

عندلیب خوش نوا کو راگنی تو نے ہی دی

*

دن کو روشن کر دیا خورشید نور خاص سے

شب گزیدہ دہر کو یہ چاندنی تو نے ہی دی

*

علم کی دولت عطا کی، عقل بھی تیری عطا

ہاں بشر کو نیک و بد کی آگہی تو نے ہی دی

*

تیری حکمت کا بیاں ممکن نہیں الفاظ میں

ایک لفظ کن سے ہم کو زندگی تو نے ہی دی

*

بندۂ کمتر تری توصیف کرنا کس طرح

نصرؔ کو توفیق یا رب! مدح کی تو نے ہی دی

***

۸۱

(۲)

یہ مہر و ماہ منور غلام تیرے ہیں

تمام نور کے مظہر غلام تیرے ہیں

*

تغیرات زمانہ ہیں تری قدرت میں

یہ عرش و فرش کے منظر غلام تیرے ہیں

*

ترے غلام خدایا ہیں نغمہ بار پرند

تو نامہ بر یہ کبوتر غلام تیرے ہیں

*

ترے جہاں کے گداؤں کا ذکر کیا یا رب

زمانے بھر کے سکندر غلام تیرے ہیں

*

کروں نہ کیوں میں اطاعت تری مرے مولا

تمام پیر و پیمبر غلام تیرے ہیں

*

کہاں کہاں نہ غلامی میں ہے تری خلقت

یہ سیپ سیپ میں گوہر غلام تیرے ہیں

*

تری رضا پہ ہے موقوف فکر کی پرواز

تخیلات کے شہپر غلام تیرے ہیں

*

ترا غلام ترا نصرؔ کیوں نہ ہو یا رب

کہ ذی وقار سخنور غلام تیرے ہیں

***

۸۲

مشرف حسین محضر (علی گڑھ)

آنکھوں میں تو ہے دل میں تو ہے دل کے احساسات میں تو

تیری ذات کا میں شیدائی پنہاں میری ذات میں تو

*

صبح طرب کی سطح افق سے سورج بن کر ابھرا ہے

چاند کا روپ لیے آیا ہے غم کی کالی رات میں تو

*

عیش و مسرت تیرا کرم ہے فکرو فاقہ تیری رضا!

آسودہ لمحات میں تو تھا آشفتہ لمحات میں تو!

*

قہر ترا نافرمانوں پر رحم ترا ہر تابع پر

فیض و غضب کی آندھی میں تو رحمت کی برسات میں تو

*

کعبے کی دیوار پہ لکھے مصرعوں سے یہ ثابت ہے

لاثانی ہے تیرا کلام اور یکتا اپنی ذات میں تو

*

ماضی تیرا حال بھی تیرا مستقبل کا تو مالک!

ماضی کے حالات میں تو تھا موجودہ حالات میں تو

*

تو چاہے محضرؔ کے حق میں ناممکن، ممکن کر دے

ہر اک شئے پر تو قادر ہے سارے امکانات میں تو

***

۸۳

مراق مرزا (بمبئی)

گلستاں اس کے ریگزار اس کا

سارے عالم پہ اختیار اس کا

*

چاند ستاروں میں جلوہ گر ہے وہی

پھول کلیوں پہ ہے نکھار اس کا

*

اس کے دم سے رواں سمندر ہے

ہے ندی اس کی، آبشار اس کا

*

جانے کیوں ان دنوں لبوں پہ مرے

نام آتا ہے بار بار اس کا

*

ذرے ذرے میں وہ سمایا ہے

ہے زمیں اس کی کوہسار اس کا

*

جسم اس کا ہے، سانس اس کی ہے

ابن آدم ہے قرض دار اس کا

*

وہ مرا ہر گناہ بخشے گا

ہے مرے دل کو اعتبار اس کا

***

۸۴

رحمت اللہ راشد احمدآبادی (ناگپور)

ہے ترا ہر ذرے پہ احسان رب العالمین

کیا بیاں ہ سے ہو تیری شان رب العالمین

*

سرخرو ہو جائے ہر انسان رب العالمین

کر عطا ہر ایک کو ایمان رب العالمین

*

ساری خلقت آج بھی بے بس ہے تیرے سامنے

تیرے قبضے میں ہے سب کی جان رب العالمین

*

ذکر ہر مخلوق کرتی ہے ترا شام و سحر

لہر ہو دریا کی یا طوفان رب العالمین

*

سارا عالم، ساری دنیا تیرے ہی قبضے میں ہے

ہے ترا قرآں میں یہ اعلان رب العالمین

*

اک اشارے پر ترے پیارے خلیل اللہ نے

کر دیا بیٹے کو بھی قربان رب العالمین

*

جب بھی ٹوٹے تیرے راشدؔ پر مصیبت کے پہاڑ

کر دیا تو نے انھیں آسان رب العالمین

***

۸۵

حافظ اسرارسیفی (آرہ)

تو ہی میری آرزو ہے تو ہی میری جستجو

اول و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو

*

تو نے دامان زمیں کو موتیوں سے بھر دیا

اور جہان آسماں کو قمقموں سے بھر دیا

*

رازق و خلاق تو ہے حافظ و ناصر ہے تو

آنکھ سے اوجھل ہے لیکن ہر جگہ ظاہر ہے تو

*

نعمتیں ہیں ان گنت اور رحمتیں ہیں بے شمار

ہر قدم پر ہے عنایت تیری اے پروردگار

*

ہے منور نور بھی اور نور کا محور بھی تو

تو ہی ہے تحسین فطرت اور مہہ و اختر بھی تو

*

تو ہی مندر کا جرس ہے تو ہی مسجد کی اذاں

ذرے ذرے میں ہے روشن تیرے جلووں کا نشاں

*

قطرۂ ناچیز ہوں میں اور تو بحر رواں

تیری مدحت کے لیے ہے گنگ ناطق کی زباں

*

بخش دے سیفیؔ کو مولا ہے کرم تیرا بڑا

بندۂ ناچیز یہ ہے بحر عصیاں میں پڑا

***

۸۶

شاغل ادیب (حیدرآباد)

کاش مل جاتے مرے نالوں کو تاثیرنئی

تجھ سے اللہ ملے خوشیوں کی جاگیر نئی

*

رکھنا ایمان سلامت تو مرا اے اللہ

ہے یہ وعدہ نہ کروں گا کوئی تقصیر نئی

*

ہر نئی صبح رہے حمد نئی ہونٹوں پر

ہر نئی شام ہو، دل میں تری توقیر نئی

*

رات کے خواب مرے کڑوے بہت ہیں یارو

دن کے لمحات کو دے میٹھی سی تعبیر نئی

*

تیرے محبوبؐ کا بیمار جو ہو جاتا ہے

اس کو بے مانگے تو دے دیتا ہے اکسیر نئی

*

اپنے محبوبؐ کی امت پہ ہو رحمت کی نظر

اپنے محبوبؐ کی امت دے توقیر نئی

*

تیرے قرآں میں مسائل ہیں قیامت تک کے

آیتیں اس کی عطا کرتی ہیں تفسیر نئی

*

حمد شاغلؔ میں لکھوں یا کہ مناجات لکھوں

دے دے مولا تو قلم کو مرے تاثیر نئی

***

۸۷

فراغ روہوی (کلکتہ)

اعزاز مجھ کو ایک یہی ذوالجلال! دے

میری نگاہِ شوق کو ذوقِ جمال دے

*

مجھ کو خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے

ایسا دے پھر مزاج کہ دنیا مثال دے

*

تو نے عطا کیے ہیں یہ لوح و قلم تو پھر

جو دل گداز ہو وہی حسن خیال دے

*

شہرت سے تو نے مجھ کو نوازا تو ہے، مگر

تھوڑا سا انکسار بھی اے ذوالجلال! دے

*

میری نظر میں وہ کسی دریا سے کم نہیں

قطرہ جو میرے کوزے میں یا رب! تو ڈال دے

*

گمنامیوں کی قید میں گوہر جو ہے ابھی

یا رب! اسے صدف سے تو باہر نکال دے

*

محروم تیرے فیض سے صحرا جو ہے یہاں

اک بار اس کے سامنے دریا اچھال دے

*

ہو فیض یاب حرف دعا سے ترا فراغؔ

تاثیر بھی زباں میں اگر اس کی ڈال دے

***

۸۸

خضر ناگپوری (ناگپور)

اے مرے مالک مرے پروردگار

تیری رحمت ایک بحر بے کنار

*

آتش نمرود تو نے سرد کی

تو نے عیسیٰ کی بچائی زندگی

تو نے یوسف کا رکھا قائم وقار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

نور بخشا دیدۂ یعقوب کو

دم میں اچھا کر دیا ایوب کو

دی زلیخا کو جوانی کی بہار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

ہے عطا کی شان بھی کیا دیدنی

آگ کے طالب کو دی پیغمبری

ایک مانگے کوئی تو دے تو ہزار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

۸۹

نوح کی کشتی کا تو ہی ناخدا

راستہ موسیٰ کو دریا میں دیا

تیری قدرت ہے جہاں پر آشکار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

تاجدار انبیا کا واسطا

نعمت کونین اسے بھی کر عطا

خضرؔ بھی رحمت کا ہے امیدوار

اے مرے مالک مرے پروردگار

***

۹۰

بولو وہ کون ہے ؟

ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء (ناگپور)

بولو وہ کون ہے ؟ نظروں سے جو رہ کر پنہاں

ایک اک شے کے پس پردہ ہے جلوہ افشاں

*

بولو وہ کون ہے ؟ دیتا ہے جو سامان حیات

ہم کو بن مانگے عطا کرتا ہے کیا کیا نعمات

*

بولو وہ کون ہے ؟ ہر سمت ہے جس کا سکہ

حکمراں جو ہے فلک اور زمیں پر تنہا

*

بولو وہ کون ہے ؟ یہ دھرتی سجائی جس نے

چرخ پہ چادر نورانی بچھائی جس نے

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو قادر و قیوم بھی ہے

ہر دو عالم کا جو مسجود بھی مخدوم بھی ہے

*

بولو وہ کون ہے ؟ نازل کیا جس نے قرآں

اس میں صادر کئے حکمت بھرے کتنے فرماں

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو رزق عطا کرتا ہے

جس کی مرضی کے بنا پتہ نہیں ہلتا ہے

*

۹۱

بولو وہ کون ہے ؟ ہر امر پہ قدرت والا

جس سے بڑھ کر نہیں ہے کوئی بھی حکمت والا

جس نے پیدا کیا انساں کو بطرز احسن

زندگی کرنے کے پھر اس کو سکھائے ہیں چلن

جس نے مخلوق میں انساں کو بنایا اشرف

*

کون ہے وہ؟ جو ہے سجدوں کا ہمارے حقدار

ہر قدم پر ہمیں اس کی ہی مدد ہے درکار

ایسی ہی ہستی تو بجز رب العلیٰ کوئی نہیں

لائق حمد و ثنا اس کے سوا کوئی نہیں

***

۹۲

محسن باعشن حسرت (کلکتہ)

وہ جس نے دی ہم کو زندگانی

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

جو سب سے افضل ہے سب سے برتر

جو سب کا والی ہے سب کا یاور

*

وہ جس نے دونوں جہاں بنائے

زمین اور آسماں بنائے

*

وہ جس نے دولت ہمیں عطا کی

وہ جس نے شہرت ہمیں عطا کی

*

وہ جس نے دی ہم سبھوں کو عزت

وہ جس نے بخشی ہمیں مسرت

*

وہ جس کی ہم پر ہے مہربانی!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

وہ جس نے بخشی گلوں کو خوشبو

وہ جس نے دلکش بنائے جگنو

*

۹۳

وہ جس نے تارے سجائے ہر سو

وہ جس نے غنچے کھلائے ہر سو

*

یہ چاند سورج دیئے ہیں جس نے

پہاڑ پیدا کئے ہیں جس نے

*

وہ جس کے گن گا رہے ہیں سارے

وہ جس کے دم سے ہیں سب نظارے

*

جہاں پہ جس کی ہے حکمرانی!!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

***

۹۴

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

(۱)

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے

متاعِ صبر عطا کر دے ذوالجلال مجھے

*

فقط تری ہی محبت ہو خانۂ دل میں

اس آرزوئے حقیقی سے کر نہال مجھے

*

انا سے دل کو مرے پاک رکھ کہ اس کے سبب

عروج لے کے چلا جانبِ زوال مجھے

*

درست کر مری فطرت میں خامیاں ہیں بہت

نواز خوبیِ کردار و خوش خصال مجھے

*

وہ جس کمال نے صلحا کو سرفرازی دی

مرے کریم عطا کر وہی کمال مجھے

*

گناہگار ہوں ڈوبا ہوا ہوں عصیاں میں

تو اس عمیق سمندر سے اب نکال مجھے

***

۹۵

(۲)

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربی

مرا نصیب و مقدر سنوار دے ربی

*

ہوا ہے گلشنِ امید میرا پژمردہ

خزاں کی کوکھ سے فصلِ بہار دے ربی

*

قدم قدم پہ ہیں خارِ نفاق و بغض و حسد

اس امتحاں سے سلامت گزار دے ربی

*

میں مخلصانہ دعا دشمنوں کو دیتا رہوں

تو میرے دل میں وہ جذبہ ابھار دے ربی

*

میں جو کہوں یا لکھوں سب میں عشق ہو تیرا

میرے خیال کو اتنا نکھار دے ربی

*

بہت برا ہے گنا ہوں سے حال ساحلؔ کا

یہ بار سر سے تو اس کے اتار دے ربی

***

۹۶

(۳)

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولیٰ

راہ جو سیدھی ہے، وہ راہ بتا دے مولیٰ

*

تجھ کو پانے میں یہ قوت ہے رکاوٹ کا سبب

فتنہ و شر کو مرے دل سے مٹا دے مولیٰ

*

یہ گرفتار ہے گردابِ مسائل میں ابھی

کشتیِ زیست مری پار لگا دے مولیٰ

*

میرا ہر لفظ ترے عشق کا مظہر بن جائے

سوچ کو میری وہ پاکیزہ ادا دے مولیٰ

*

تیرے مصحف کی تلاوت کروں آسانی سے

نور آنکھوں کا مری اتنا بڑھا دے مولیٰ

*

عالمِ فانی و باقی میں بھلائی دے دے

نار دوزخ سے بھی ساحلؔ کو بچا دے مولیٰ

***

۹۷

(۴)

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دے دے

پیڑسرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دے دے

*

راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا

عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دے دے

*

خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری

سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دے دے

*

شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی

التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دے دے

*

سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا

صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دے دے

*

دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا

زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دے دے

***

۹۸

فرید تنویر (ناگپور)

میرے دل میں ہوئی جب بھی کوئی خواہش مولا

ہو گئی تیری عنایات کی بارش مولا

*

تیرے خورشید کرم کی یہ ضیا باری ہے

زندگی میں ہے اجالوں کی نمائش مولا

*

نکلا طوفان حوادث سے سفینہ میرا

یہ ترا فضل ہے، یہ تیری نوازش مولا

*

ہو مرے حال پہ ہر وقت ترا لطف و کرم

دور ہر دم رہے افلاک کی گردش مولا

*

التجا ہے ترے تنویرؔ کی اے رب کریم

زندگی بھر نہ ہو اس سے کوئی لغزش مولا

***

۹۹

منظورالحسن منظور (پونہ)

حیات مہنگی، ممات سستی ہے کیسا قہر و وبال یا رب

کہیں تو آ کر ہو ختم آخر، یہ دور حزن و ملال یا رب

*

یہ چینچی میں عتاب روسی، یہ بوسنی میں لہو کے دریا

ہے خوں میں ڈوبا ہوا فلسطیں، یہ کیسا طرز رجال یا رب

*

نکل کے بدر و احد سے آگے، یہ آئے ہیں کربلا سے غازی

تھکے ہیں سارے ہی آبلہ پا، تو آ کے انکو سنبھال یا رب

*

چلے ہیں سر سے کفن کو باندھے، صلیب کاندھوں پہ لیکے اپنے

زباں پہ تیرا ہے ذکر پیہم، نظر میں تیرا جمال یا رب

*

دلوں میں خیر البشرؐ کی عظمت، ادا میں قرآں کا بانکپن ہے

یہی تو ہے زادِ راہ اپنا، یہی ہے مال و منال یا رب

*

کھڑے ہیں دارو رسن کی زد پر، مگر ہنسی ہے سبھوں کے لب پر

یہ سرفروشی کا عزمِ راسخ، ہے مومنانہ کمال یا رب

*

یہ جوش صہبائے عشق احمدؐ، کہ زیر خنجر بھی کہہ رہے ہیں

لہو سے ہو کر ہی سرخ رو اب، ملے گا تیرا وصال یا رب

*

۱۰۰

بنا ہے مشق ستم فلسطیں مجاہدوں پر ہے وجد طاری

زباں پہ ہے لا الہٰ ان کی، یہی ہے انکا کمال یا رب

*

زمیں فلسطیں کی منتظر ہے، کہ کوئی ایوبؔ پھر سے آئے

ہے ارضِ اقصیٰ کا تیرے در پر، دراز دست سوال یا رب

*

اے رب کعبہ تو مقتدر ہے، تو خالق کل جہاں ہے مولیٰ

عطا ہو صبر و عمل کی قوت، کہ ہو گئے ہیں نڈھال یا رب

*

ہے شش جہت میں تری ہی خاطر، صدائے لبیک سب کے لب پر

دعا ہے شام و سحر کہ رکھیو، ہماری عزت بحال یا رب

*

دعا ہے منظورؔ ناتواں کی، جہاں میں امن و اماں ہو مولیٰ

ستم گروں سے ملے رہائی، دکھا دے اپنا جلال یا رب

***

۱۰۱

حمد باری تعالیٰ جل شانہٗ

بختیار مشرقی (اورئی)

تو مرا خدائے برحق

تو مکمل اور مطلق

تو قدیم اور محقق

*

میں زمیں نہ آسماں کا

تو ہے ثابت اور قائم

میں ہواؤں میں معلق

*

میں تمام تر معاصی

تری حمد کیا کروں میں

ترے وصف بیکراں ہیں

*

ترے انگنت فرشتے

تری حمد کر رہے ہیں

جو محیط آسماں ہیں

*

یہ کروڑہا پرندے

یہ وحوش یہ درندے

یہ ملخ یہ مور سارے

*

۱۰۲

وہ ہوں پتھروں کے کیڑے

کہ ہوں کرم قعر دریا

کہ زمیں کے چور سارے

*

تری حمد میں لگے ہیں

ترے گیت گا رہے ہیں

یہ تمام مرغ و ماہی

*

یہ شجر حجر یہاں کے

مہہ و مہر آسماں کے

گل و نجم صبح گاہی

*

مرا عجز کہہ رہا ہے

وہ خدا ہے جانتا ہے

کہ تری بساط کتنی!

*

تو بس ایک کام کر لے

کوئی نعت لکھ نبیؐ کی

مری بات مان اتنی!

*

کوئی نعت مصطفیٰؐ لکھ

یہ پسند کبریا ہے

یہی نسخہ کیمیا ہے

*

۱۰۳

تو بس اے خدائے برتر

یہ گناہ گار بدتر

ترے سجدے میں پڑا ہے

*

تری حمد کے بھی قابل

نہیں جانتا جو خود کو

بھلا نعت کیا کہے گا

*

یہ تو پل صراط سے بھی

بڑا سخت مرحلہ ہے

مری لاج رکھ خدایا

*

ترا حکم مانتا ہوں

میں درود بھیجتا ہوں

ترے پیارے مصطفی پر

*

سبھی آل مصطفیؐ پر

تو قبول کر لے یا رب

یہ ادائے بندہ پرور

*

مری التجا ہے یا رب

*

۱۰۴

مجھے بخش دے حضوری

در کعبۂ یقیں کی

مجھے صدقہ دے نبیؐ کا

مری بے بضاعتی تو

نہیں رہ گئی کہیں کی!

میں بڑا خطا کنندہ

تو بڑا رحیم یا رب

*

میں پہ سڑرہا ہوں

مجھے بخش دے الہٰا

ترے ہاتھ جوڑتا ہوں

ترے پاؤں پڑ رہا ہوں

ترے ہاتھ جوڑتا ہوں

ترے پاؤں پڑ رہا ہوں

یہاں کب سے سڑرہا ہوں

***

۱۰۵

دوہا حمد

عاجز ہنگن گھاٹی (ہنگن گھاٹ)

عزت اس کے ہاتھ ہے ذلت اس کے ہاتھ

گمنامی بھی بخشے وہ شہرت اس کے ہاتھ

*

بالکل سچی بات ہے اپنی کیا اوقات

کٹھ پتلی کے جیسے ہم فطرت اس کے ہاتھ

*

ہست و بود کا راز کیا اپنی ہستی خاک

بے شک مرنے جینے کی حرکت اس کے ہاتھ

*

افراتفری سب کے گھر الجھن سب کے پاس

چاہت ہم کو چین کی راحت اس کے ہاتھ

*

تخلیق اس کا کل جہاں واحد اس کی ذات

لفظ کن کے راز کی حکمت اس کے ہاتھ

*

بے شک وہ مختار ہے سب کا پالن ہار

عاجزؔ تو بھی مانگ لے رحمت اس کے ہاتھ

***

۱۰۶

حمدیہ ماہیے

مدہوش بلگرامی (ہردوئی)

رحمان و رحیم اللہ

اس سے ہے سب ممکن

ستاروکریم اللہ

٭

خلاق تو ہی بے شک

سب کو کھلاتا ہے

رزاق تو ہی بے شک

٭

غفار خدا ہے بس

میں ہوں بت عاصی

مختار خدا ہے بس

٭

ہر شے پہ حکومت ہے

کون و مکاں کس کا

ہے جس کا وہ قدرت ہے

٭

۱۰۷

ہے ذات تری طاہر

عرش بریں والے

ہر چیز پہ تو قادر

٭

چڑیوں کو زباں دی ہے

کھلتی کلی کو بھی

تو نے ہی ادادی ہے

٭

ہے عرش بریں تیرا

فکر و بیاں، لہجہ

اے نور یقیں تیرا

٭

حمد و ثنا کرتے

بحر و جزیرے بھی

توصیف خدا کرتے

٭

معبود ہر اک شے کا

ارض وسما اس کے

مسجود ہر اک شئے کا

***

۱۰۸

راہی صدیقی (ہردوئی)

پھولوں میں رنگ الگ اور خوشبو جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

سب چرند اور پرند مختلف رنگ کے

آدمی ملتے ہیں سب الگ ڈھنگ کے

شکل و صورت الگ بولیاں ہیں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جس میں چاقو لگے نکلے گا، خوں لئے

پر اسی سینے سے دودھ بچہ پئے

خون سے دودھ کو ایسے رکھا جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جب سمندر سے جا کر کے دریا ملا

اپنی پہچان کو ملتے ہی کھو دیا

اپنا اپنا وجود گر رہیں وہ جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

۱۰۹

ریگزاروں میں پیدا کئے ہیں شجر

رزق کیڑوں کو پتھر میں دے پیٹ بھر

ظاہراً بھی الگ باطناً بھی جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

کیسے کیسے عجوبے دہر میں ہوئے

یوں ملے حیرتوں میں ہی ڈوبے ہوئے

سر جڑے دھڑ جڑے جسم و جاں ہیں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

دھوپ تھی دھوپ کی تھیں ابھی گرمیاں

دیکھتے دیکھتے چھا گئیں بدلیاں

برسا پانی ہوا بادلوں سے جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

آندھیاں اور طوفان اور زلزلہ

آتے ہی یاد آ جائے جو برملا

وہ ہوا میں گھلا وہ ہوا سے جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

روز ہوتے طلوع اور ہوتے غروب

چاند سورج کا ہے یہ تماشہ بھی خوب

فرق پڑتا نہیں ڈھنگ نہ ہوتا جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

۱۱۰

**

اک طرف تیرگی اک طرف روشنی

اس طرف ہے غمی اس طرف ہے خوشی

ایک ہی وقت پر حادثے ہوں جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

جگنو پیدا کئے رات کے واسطے

بند اک جو کیا کھولے کئی راستے

ہر بقا بھی الگ ہر فنا بھی جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

پیاس ہونٹوں پہ ہے دل میں ہے تشنگی

بکھری بکھری سی لگتی ہے یہ زندگی

موت کا رنگ الگ موت کا ڈھنگ جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

**

حکم سے جس کے ہوتی عطا زندگی

موت بھی راہیؔ جس کی ہی طابع رہی

اس کی رحمت الگ اس کی حکمت جدا

بس یہی تو ہے قدرت یہی ہے خدا

***

۱۱۱

منصور اعجاز (آکولہ)

تو زمین آسمان کا رب ہے

تو ہی سارے جہان کا رب ہے

حکم چلتا ہے بحر و بر پہ ترا

رعب ہے خیر اور شر پہ ترا

چاند تاروں میں چاندنی تیری

ہے ہواؤں میں راگنی تیری

سبزہ و گل میں جان تیری ہے

چہچہوں میں زبان تیری ہے

سارے عالم پہ مہرباں تو ہے

حق پرستوں کا نگہباں تو ہے

تیرے محکوم ہیں یہ جن و ملک

تیرے تابع بشر ہیں عرض و فلک

تیری حمد و ثنا ہو کس سے بیاں

تو نہاں ہو کے بھی ہے سب پہ عیاں

سب فنا ہے بقا ہے تیرے لئے

ساری حمد و ثنا ہے تیرے لئے

***

۱۱۲

تخلیق کائنات

منصور اعجاز (آکولہ)

اگر تو یہ زمین نہیں بناتا

ہم خلاؤں میں تیرتے رہتے

*

تو نے زمیں کی کوکھ میں

آبی ذخیرے نہ سموئے ہوتے

ہم فضاؤں میں نمی چوستے ہوتے

تو نے خورشید کو تپش دے کر

چمکایا نہ ہوتا

فصلیں اگتی اور پکتی کیسے ؟

*

ہماری دنیا اندھی

اندھیاری ہو جاتی

رب اللعالمین!

تو نے زمین و آسمان کی

بے پناہ دولت اور خلافت

ہمیں عطا کر دی (کتنا سخت امتحان ہے )

۱۱۳

قیامت قریب ہے اور ہم

بے چین و پریشان

بے حس و حرکت

یا غفور الرحیم!

ہمیں ایمان کی حرارت سے پگھلا دے

کل کائنات پر پھیلا دے

ہم پر امید ہیں

تجھے بھی یہی مقصود ہے نا۔ ؟

***

۱۱۴

حمد

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ)

اے دنیا کے سرجن ہارے

اعلیٰ تو ہے

برتر تو ہے

ذات کو تیری نہیں زوال

قائم تیرا جاہ و جلال

توہے عین عز و کمال

مالک۔۔۔ روز حشر کا تو ہے

خالق۔۔۔ توہے رات کا دن کا

تو ہی۔۔۔ عبادت کے لائق ہے

تیرے لئے سب حمد و ثنا ہیں

تیرے غضب سے سب ہیں لرزاں

عالم کن کا رب جلیل

تو ہی رحیم

تو ہی کریم

پاشاؔ۔۔۔ تیرے در پہ کھڑا ہے

لب پہ دعا ہے

ہاتھ اٹھا ہے

۱۱۵

سچا نیک انسان بنا دے

سیدھا رستہ ہم کو دکھا دے

مجبوروں کے کام میں آؤں

دکھیاروں کا درد بٹاؤں

***

۱۱۶

اللہ تعالیٰ

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ)

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

شجر یہ ڈاب کے کس نے اگائے ہیں

کہ ڈابوں میں کہاں سے آتا ہے پانی یہ میٹھا سا

نظر جائے جہاں تک دور اس نیلے گگن پر

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

کہ ننھے منے چمکیلے سے تاروں کو

انھیں آکاش پہ کس نے سجایا ہے

میں اکثر سوچاکرتا ہوں

بنایا ہے یہ کس نے چندا ماما کو

جو شب بھرآسماں پر وہ چمکتا ہے

جو چلتا ہوں تو میرے ساتھ چلتا ہے

یہ اکثر سوچاکرتا ہوں

مجھے پیداکیاکس نے۔۔۔ ؟

مری امی یہ کہتی ہیں

کہ اک خالق ہے ان ساری ہی چیزوں کا

وہی برتر و بالا ہے

وہی اللہ تعالیٰ ہے

***

۱۱۷

تحفہ حمد بحضور خالق کائنات

خان حسنین عاقبؔ (پوسد)

مرا تصور بھٹک رہا ہے

مرا تخیل جھجک رہا ہے

*

مجھے خبر ہے نہیں یہ ممکن

کہ تیری تعریف کر سکوں میں

تری خدائی کی حد کو پاؤں

محال ہے اس پہ غور کرنا

مگر میں ٹوٹے ہوئے سے الفاظ کو

عقیدت کی چاشنی میں ڈبو رہا ہوں

اور اپنے جذبات کے سمندر کو

حرف و معنیٰ کے بس ایک کوزے

میں ڈرتے ڈرتے سمورہا ہوں

*

ہے میٹھے خوش رنگ پانیوں پر

ہے کھارے سمندروں پر

*

تری ہی قدرت و حکمرانی

*

۱۱۸

تو کن سے دنیا بنانے والا

تو پربتوں کو جمانے والا

کو کشتیوں کو چلانے والا

قیامتوں کو جگانے والا

مصیبتوں کو سلانے والا

تو ساحلوں پر ڈبونے والا

تو بیچ دریا بچانے والا

*

علیم تو ہے بصیر تو ہے

تجھے پتا ہے وہ بات بھی جو

ہر اک نظر سے چھپی ہوئی ہے

تری ہی قدرت میں ہے وہ آتش

جو راکھ ہی میں دبی ہوئی ہے

حسین شکلوں کو کس کا آخر جمال سمجھوں ؟

*

قلم سے اپنے نکلتی کرنوں

کو تیری مدحت کا نور سمجھوں !

کہ کوئی مجھ سے غریب شاعر

کا ہچکچاتا خیال سمجھوں ؟

*

۱۱۹

ہے رہبری بھی خضرؑ کی تجھ سے

عصائے موسیٰؑ تری عطا ہے

بلندیوں کو ہے سرفرازی کا شرف حاصل

تو سونی سونی ہے پستیوں کی ہر ایک محفل

مرے عمل کا ہر ایک دفتر

ہے چیدہ چیدہ

مگر بڑائی ہے کس کو زیبا؟

*

تری عطا کو!

کہ پھر خطاؤں کو عاصیوں کی؟

مجھے پتا ہے !

مری ندامت کو ڈھونڈتی ہیں

شفیق بانہیں ترے کرم میں

تو کشتیِ نوحؑ کو کھویّا

حرم سے لے کر مرے مکاں تک

تری عطا کے سمندروں پر

*

مری دعا کو

بس اتنا سا اختیار دے دے

حیات میری خزاں رسیدہ

تو اس کو حکم بہار دے دے

***

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193