• ابتداء
  • پچھلا
  • 5 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4888 / ڈاؤنلوڈ: 2084
سائز سائز سائز
یا علی علیہ السلام

یا علی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

وبذکر مولانا المهدی (عج)

قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم :

من کنت مولا ه فهذا علی مولاه

امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ افضل التحیة و الثناء و السلام کی ذات گرامی کے بارے میں لکھنا یقینًا بہت مشکل کام ہے اور خصوصًا یہ دعویٰ کرنا کہ آپ کی ذات گرامی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے اور ان کے گوناگوں کمالات کو الفاظ کے پیرائے میں سجایا جائے، یقینًا محال و ناممکن ہے۔آخر ان کی ذات کو کس طرح الفاظ کی قیود میں قید کیا جاسکتا ہے یا ان کی ذات کو کیونکر صفحات میں محدودکیا جا سکتا ہے ؟کیونکہ ایک مجرد جو مادہ و مادیات سے ہی پاک و منزہ نہیں بلکہ زمان و مکان کی پابندیوں سے بھی آزاد ہے اسے کس طرح مادی کاغذ و سیاہی میں پابند کیا جا سکتا ہے؟ ! کیونکہ مجرد تو لامحدود ہوتا ہے اسے مادہ کی حدود میں محدود کرنا کس طرح ممکن ہے !!!

اور شاید یہ کہنا بے جانہ ہو :

سمندر کو کوزے میں بند کرنا ممکن ہو سکتا ہے، لیکن مجرد کو مادہ میں مقید کرنا ممکن نہیں ہے۔

کیونکہ سمندر بھی کوزہ کی مانند مادی ہے اور مادی کو مادی میں سمونا شایدممکن ہو۔ لیکن مجرد کو مادی میں سمونا یقینًا محال و ناممکن ہے اور پھر جامع جمیع کمالات اور لا محدود صفاتِ حسنہ کا یعنی وہ ذات جس میں تمام کمالات و صفات پائی جاتی ہوں انہیں شمار کرنا کیسے ممکن ہے؟بھلا آسمان پر موجود تاروں کو کوئی گن سکتا ہے ؟ لیکن نہیں شاید یہ بھی ممکن ہو۔ کل کلاں کوئی تاروں کی تعداد، ان کا حجم، قُطر اور زمین سے فاصلہ تک بھی بتا دے۔ لیکن مولاعلی کی ذات میں موجود تمام کمالات شمار کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہو گا۔ اور پھر اس کے بارے میں کیا لکھا جائے جو خود مولا علی ارشاد فرماتے ہیں:

” تم جو کچھ ہم ( اہل بیت ) کی شان میں کہہ لو لیکن پھر جو کچھ ہمیں خدا ندِ متعال نے اپنے فضل و کر م سے عطا کیا ہے اس کی عشر عشیر کا عشر عشیر بھی نہیں بیان کر سکتے۔ “

پس اتنا کہا جا سکتا ہے: بعد از خدا توئی بزرگ قصہ مختصر

اور یہ غُلوّ یا مبالغہ نہیں ہے۔ حدِ غلو تو امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام نے خود یوں بیان کی ہے:

ہمیں رب نہیں کہو باقی جو کچھ کہ سکتے ہو کہ لو۔

ان تمام اعتراضات اور مکمل عاجزی کے اقدار کے باوجود ذیل میں ہم امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہم الصلوٰة والسلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہمالا یدرک کله لایترک کله جو تمام کام تمام درک نہ ہو سکے وہ سارے کا سارا ترک بھی نہیں کرنا چاہیئے تو آیئے آپ کی مبارک زندگی کا ایک جائزہ لیتے ہیں:

حضرت امیرالمؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کے والد گرامی حضرت ابوطالب ابن عبدالمطلب ہیں۔ حضرت ابو طالب کااصلی نام اپنے جدِ اعلیٰ کے نام پر عبدمناف تھا اور بعض تذکرہ نگاروں نے عمران لکھا ہے۔ جبکہ اکثر علماء کے نزدیک آپ کی کنیت ابوطالب ہی تھی اورنام ابو طالب ہی تھا۔آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ۳۵ بر س بڑے تھے۔

آپ نے ۴۳ برس حضرت عبد المطلب جیسی عظیم شخصیت کے زیر سایہ بسر کیے۔ انہی سے حکمت و اخلاق کے سبق لئے اورعلم و ادب کے درس پائے، اور اسی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں علمی و ادبی رفعتوں کے نقطہ کمال پر فائز ہوئے اور اپنے دور میں بلند پایہ ادیب، ممتاز سخن طراز، عظیم مفکر اور بالغ النظر قائد تسلیم کئے گئے۔

تاریخ میں ملتا ہے کہ اس تاریک معاشرے میں جبکہ انسانیت کی قدریں دم توڑ رہی تھیں اور عرب اخلاقی پستی کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ آپ نے اخلاقی رذائل سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیا۔جبکہ جگہ جگہ جؤا کھیلا جاتا تھا اور گھر گھر شراب پی جاتی تھی لیکن آپ نہ قمار بازی کی طرف رخ کیا اور نہ کبھی شراب کو منہ لگایا چنانچہ معروف سنی عالم دین اور مؤرخ احمد بن زینی دحلان لکھتے ہیں :

کان ابو طالب ممن حرم الخمرعلی نفسه فی الجاهلیه کابیه عبد المطلب ۔ (سیرت نبویہ ص ۸۰)

حضرت ابو طالب نے اپنے باپ حضرت عبدالمطلب کی مانند زمانہ جاہلیت میں بھی شراب اپنے اوپر حرام کر رکھی تھی۔

آپ کے حلم و بردباری کے بارے میں یہ کہ دینا کافی ہے:

جب احنف ابن قیس سے جو عرب میں حلم و بردباری کے لحاظ سے شہد ہ آفاق تھے۔ پوچھا گیا کہ تم نے یہ حلم و بردباری کس سے سیکھی ہے،اس نے کہا:قیس بن عاصم المنقری سے۔اور جب قیس بن عاصم سے پوچھا گیا کہ تم نے حلم و بردباری کا سبق کس سے لیا ہے؟کہا حکیم عرب اکثم ابن صیفی سے۔اور اکثم ابن صیفی سے دریافت کیا گیا کہ تم نے حکمت،ریاست،حلم اور سرداری و سربراہی کے اصول کس سے سیکھے ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا:

من حلیف الحلم و الادب سید العهم و العرب ابی طالب ابن عبدالمطلب ۔ (ھدیة الاحباب ص ۲۵۲)

یعنی سردار عرب و عجم،سراپا حلم و ادب ابوطالب ابن عبد المطلب سے۔

علاوہ ازیں آپ کے اشعار میں جو ( دیوان شیخ الابطحاء ) کے نام چھپ چکے ہیں، زمانہ جاہلیت کے دوسرے اشعار کے برعکس بے جا خود ستائی، ابتذال، اخلاقی باختگی اور بازاری پن کی جھلک تک نہیں پائی جاتی تھی۔ بلکہ روانی، سادگی، متانت، حسنِ نظر کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیمات، حق پرستی، حق نوازی کے زرین دروس سے بھرے ہوئے تھے۔ اسی لئے حضرت علی علیہ السلام ان کے اشعار کو عملی و اخلاقی سرمایہ قرار دیتے ہوئے فرماتے تھے:

تعملّوه و عَلّموه اولادَ کم فانّه کان علی دین اللّٰه وفیه علم کثیر ۔ ( بحارالانوار ج ۹ ، ص ۲۴)

ان کے اشعار پڑھو اور اپنی اولاد کو پڑھاؤ، اس لئے کہ وہ دینِ خدا پر تھے اور ان کے کلام میں علم کا بڑا ذخیرہ ہے۔

جبکہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جس طرح محبت و دلسوزی کا مظاہرہ کیا اور جس طرح ان کی تربیت و پرورش کی اس کا ہر مؤرخ نے اعتراف کیا ہے۔چنانچہ ابن سعد لکھتے ہیں :

کان یحبه حبّا شدیدًا الا یحب ولده و کان لا ینام الا الی جنبه و یخرج فیخرج معه و حب به ابوطالب حسبابة لم یصیب مثلها بشیٴٍ قط ۔ (طبقات ابن سعد ج ۱ ، ص ۱۱۹)

یعنی ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے انتہا محبت کرتے اور اپنی اولاد سے زیادہ انہیں چاہتے تھے۔ ان کے پہلو میں سوتے اور جیسا کہیں باہر جاتے توانہیں ساتھ لے جاتے اور دنیا جہاں کی ہر چیز سے زیادہ ان پر فریفتہ و گرویدہ تھے۔

چنانچہ یہ واقعہ بھی تاریخ کی کتب میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شام تک گھر نہ پلٹے۔ ابو طالب کو فکر دامن گیر ہوئی۔ آپ نے ہر جگہ تلاش کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ ملے۔ آپ نے چندہاشمی جوانوں کو بلایا اور کہا :

” اپنی آستینوں میں تیز دھار خنجر چھپا کر سردارانِ قریش کے پہلو میں بیٹھ جاؤاور ایک ابو جہل کے پہلو میں بیٹھ جائے۔ اگر یہ سنو کہ محمد قتل کر دیئے گئے ہیں تو ان پر ٹوٹ پڑنا اور سب کو بے دریغ قتل کر دینا، لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ رسول خدا صحیح و سالم ہیں اور اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ لیا تو ہاشمی نوجوانوں کو سردارانِ قریش کے پاس لے کر آئے اور کہا کہ انہیں اپنے خنجر دکھاؤ ۔“

اور پھر انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

واللّٰه لو قتلتموه ما بقیت منکم احدًا حتی نتفافی نحن و انتم ۔ ( طبقات ابن سعد ج ۱ ، ص ۲۰۳)

یعنی خدا کی قسم ! اگر تم محمد کو قتل کر دیتے تو میں تم میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑتا، ہم خود بھی مرجاتے اور تمہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے۔

اگرچہ بعض کج دھن اور کج فکر افراد نے آپ کے ایمان اور نجات پر شک و شبہ کرتے ہوئے نازیبا کلمات بھی استعمال کئے ہیں۔ لیکن خود آنحضرت اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام ان کے ایمان اور ان کی اخروی نجات پر کیا رائے و یک زبان ہیں ۔

عباس ابن عبدالمطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا؟ آپ ابوطالب کی نجات کے بارے میں پُر امید ہیں ؟

آپ نے فرمایا:

” کل الخیر ارجو من ربی“ (طبقات ابن سعد ج ۱ ، ص ۱۲۴)

یعنی میں ان کے لئے اپنے پروردگار سے ہر قسم کی بھلائی کا امیدوارہوں۔

امام محمد باقر علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

مات ابوطالب ابن عبدالمطلب مسلمًا مؤمنًا ۔ ( الحجت بن معد صفحہ ۲۷)

یعنی ابوطالب دنیا سے مسلمان اور مومن اٹھے۔

اس طرح امام موسیٰ کاظم علیہ الصلوٰة والسلام سے درست ابن ابی منصور نے ایمان ابوطالب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

”اقر بالنبی و بما جاء به ۔“( اُصول کافی صفحہ ۲۴۲)

انھوں نے رسول خدا کا اور جن چیزوں کو وہ لے کر آئے سب کا اقرار کیا۔

امام حسن عسکری علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

”ان ابا طالب کمؤمن آل فرعون یکتم ایمانه ۔“ ( الحجت بن معد صفحہ ۱۱۵)

یعنی ابوطالب مومن آل فرعون کی مانند تھے جو اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے۔

اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آنحضرت پر غم و الم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، آنکھوں سے آنسو امنڈ آئے اور گلوگیر آواز میں امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام سے فرمایا:

”اذهب فغسله وکفنه و واره غفرالله و رحمه ۔“ ( طبقات ابن سعدج ۱ صفحہ ۱۰۵)

یعنی جاؤ ! انہیں غسل و کفن پہناؤ اور دفن کا سامان کرو۔ خدا انہیں مغفرت کرے اور اپنی رحمت ان کے شاملِ حال رکھے۔

اور جب محسن و مربی چچا کوکفن میں لپٹا ہوا دیکھا تو بہت روئے اور فرمایا:

”یا عم ربیّت صغیرا و کفلت یتیمًا و نصرت کبیرا جزاک الله عنّی خیرًا “ ( تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۶)

یعنی اے چچا ! آپ نے بچپن میں پالا، یتیمی میں میری کفالت کی، بڑا ہونے پر میری نصرت و حمایت کی، خداوندِ متعال میری طرف سے آپ کو جزائے خیر دے۔

حضرت ابو طالب کی وفات کے پانچ ماہ بعد آپ کو اس وقت ایک اور غم اور افسوس ناک حادثہ کا سامنا کرنا پڑا جب جناب خدیجہ کا انتقال ہوا۔ اس حادثہ پرآپ نے فرمایا:

اجتمت علیٰ هذه الامة فی هذه الایّام مصیبتان لا ادری بایهما انا اشد جزعًا ( تاریخ یعقوبی ، ج ۲ ، ص ۲۶)

ان دنوں اس امت پر دو عظیم حادثے ایک ساتھ وارد ہوئے، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں صدموں میں کون سا صدمہ میرے لئے زیادہ رنج و کرب کا باعث ہے ۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد

حضرت فاطمہ بنت اسد حضرت علی علیہ السلام کی والدہ گرامی تھیں۔ اور اسد، قبیلہ بنت عامر کے بطن سے حضرت ہاشم کے فرزند تھے۔ اس لحاظ سے آپ (فاطمہ بنت اسد) حضرت ہاشم کی پوتی تھیں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی اور حرمِ ابو طالب ہونے کی بناء پر چچی ہوئیں۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابو طالب کی کفایت میں آئے تو انہی کی گود پیغمبر اکرم ایسے ہادی اکبر اور اہنمائے اعظم کی گہوارہ کی تربیت بنی اور انہی کی آغوش محبت و شفقت میں پرورش پائی۔ اور اس دلسوزی سے دیکھ بھال کی کہ یتیم عبداللہ کو ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔اوررسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی انہیں ماں سمجھتے، ماں کہہ کر پکارتے اور ماں ہی کی طرح عزت و احترام کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی شفقت و محبت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا:

لم یکن بعد ابی طالب ابربی منها ۔ (استیعاب ،ج ۲ ، ص ۷۷۴)

یعنی ابو طالب کے بعد ان (فاطمہ بنت اسد ) سے زیادہ کوئی مجھ پر شفیق و مہربان نہ تھا۔

واضح رہے کہ آپ کے بطن سے ابوطالب کی سات اولادیں ہوئیں۔ جن میں تین صاحبزادیاں تھیں: ریطہ ، جمانہ اور فاختہ جو اُمّ ہانی کی کنیت سے معروف ہیں۔

اور چار صاحبزادے تھے : طالب ، عقیل ، جعفر اور علی علیہم السلام ۔

طالب عقیل سے دس سال بڑے، عقیل جعفر سے دس سال بڑے اور جعفر مولا علی سے دس سال بڑے تھے۔

اپنے آباؤ اجداد کی طرح مسلک ابراہیمی کی پابند، دین حنیف کی پیرو اور کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک و صاف تھیں۔ چنانچہ آنحضرت سے حضرت علی سے صلبی و خلقی اشتراک کے سلسلے میں فرمایا:

ان الله عزوجل : ” نقلنا من صلب آدم فی اصلاب طاهرة الٰی ارحام زکیة فما نقلت من صلب و علی نقل فلم نزل کذلک حتی استودعنی خیر رحم وهی آمنة و استودع علیا خیر رحم و هی فاطمة بنت اسد ۔“ ( کفایة الطالب ص ۲۶)

یعنی خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں حضرت آدم کی صلب سے پاکیزہ صلبوں اور پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل کیا۔ جس صلب سے میں منتقل ہوا، اس صلب سے ایک ساتھ علی منتقل ہوئے، یہاں تک کہ خداوندِ عالم نے مجھے آمنہ کے شکم اطہر اور علی کو فاطمہ بنت اسد کے پاکیزہ شکم میں ودیعت فرمایا۔

اور جب دارِ دنیا سے آپ نے رحلت فرمائی تو حضرت علی روتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اطلاع دینے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا کہ کیا بات ہے؟ عرض کیا : ابھی ابھی میری والدہ انتقال کر گیئں ہیں۔

آنحضرت نے آبدیدہ ہو کر فرمایا:

خدا کی قسم ! وہ میری بھی ماں تھیں۔

اور پھر اپنی پیراہن اتار کر دی اور فرمایا :”یہ پیراہن انہیں کفن کے طور پر پہنائی جائے۔“

اور جب قبر کھودی جا چکی تو انہیں دفنانے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود قبر میں اترے، اسے کناروں سے کھود کر کشادہ کیا اور کچھ دیر کے لئے لحد میں لیٹ گئے۔ اور دائیں بائیں کروٹ لینے کے بعد باہر آئے اور روتے ہوئے فرمایا:

جزاک اللّٰه من ام خیر اللّٰه کنت خیر ام ۔( تاریخ خمیس ج ۲ ص ۵۲۶)

اے مادر گرامی ! خدا آپ کو جزائے خیر دے آپ بہترین ماں تھیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس امتیازی برتاؤ کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے کہا ۔یا رسول اللہ ! کسی اور کے لئے یہ چیزیں آپ سے دیکھنے میں نہیں آئیں ۔فرمایا:

میرے چچا ابو طالب کے بعد اس خاتون کے سب سے زیادہ مجھ پر احسانات ہیں۔

حضرت علی علیہ الصلوٰة و السلام کی ولادت با سعادت

حضرت علی علیہ السلام خداوندِ عالم کے پاک و پاکیزہ، متبرک اور باعظمت گھر میں روزِ جمعہ تیرہ رجب تیس عام الفیل ہوئے ۔ اور یہ شرف نہ اس سے پہلے کسی کو ملا اور نہ ان کے بعد کسی کو حاصل ہو گا۔اسے تمام محدثین و اہل سِیَر( سیرت نویس حضرات )نے قبول کیاہے۔

چنانچہ معروف سنی محدث حاکم نیشاپوری تحریر کرتے ہیں :

تواترت الاخبار ان فاطمة بنت اسد ولدت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب کرم الله وجهه فی جوف الکعبة

( مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۴۸۳)

یعنی اخبار متوارة سے ثابت ہے کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجھہ خانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن سے متولد ہوئے۔

اس طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی اس کی تصریح کرتے ہوئے قمطراز ہیں :

تواترت الاخبار ان فاطمة بنت الاسد ولدت امیرالمؤمنین علیًا فی جوف الکعبة فانه ولد فی یوم الجمعة ثالث عشر بن شهر رجب بعد عام الفیل بثلثین سنة فی الکعبة و لم یولد فیها احد سواه قبله والا بعده ( تاریخ الخلفاء)

یعنی متواتر روایات سے ثابت ہے کہ امیرالمؤمنین علی روز جمعہ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسدکے بطن سے پیدا ہوئے۔ اور آپ کے علاوہ نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا۔

نام ،لقب ،کنیت

حضرت ابو طالب نے اپنے جد قصی ابن کلاب کے نام پر آپ کا نام زید رکھا۔ اور فاطمة بنت اسد نے انپے باپ کے نام پر حیدر نام تجویز کیا۔(اسد اور حیدر دونوں کے معنی شیر کے ہیں ) ۔ چنانچہ آپ نے جنگ خیبر میں مرحب کے رجز کے جواب میں فرمایا:

ان الذی سمتنی امی حیدره

میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔

آپ کے القاب آپ کے گوناگوں اوصاف کے لحاظ سے متعدد ہیں جن میں سے مرتضٰی، وصی اور امیرالمؤمنین زبان زدِ عام ہیں۔

جب کہ مشہور و معروف کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ پہلی کنیت بڑے بیٹے حسن علیہ السلام کے نام پر ہے۔ اور عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ بڑے فرزند کے نام پر کنیت رکھتے تھے۔

اور دوسری کنیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجویز فرمائی تھی۔ چنانچہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ غزوہ عشیرہ کے موقع پر حضرت علی اور عمار یاسر بنی مدلج کے ایک چشمہ کی طرف نکل گئے اور درختوں کے سایہ میں ایک نرم و ہموار زمین پر لیٹ گئے۔ ابھی لیٹے زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ رسول اکرم بھی ادھر آ گئے۔ اور علی کا بدن خاک میں اٹا ہوا دیکھ کر فرمایا:

ما لک یا ابا تراب؟ اے ابو تراب! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟!

حلیہ و سراپا

سیرت و تاریخ کی کتب کی رو سے امیر المؤمنین علی کا حلیہ مبارک یہ تھا: جسم بھاری بھر کم ، رنگ کھلتا ہوا گندم گوں ،خدوخال انتہائی مو زوں اور دلکش ، چہرہ متبسم اور رات کے چودھویں رات کے چاند کی طرح درخشاں ۔

ابو الحجاج مدرک کہتے ہیں :

کان من احسن الناس وجهاً

یعنی امیر المؤمنین علی سب لوگوں سے زیادہ وجیہہ اور حسین تھے ۔

جبکہ ان کی پیشانی کشادہ تھی ، ابن عباس کہتے ہیں :

ما رایت احسن من شرصة علی

یعنی میں نے امیر المؤمنین علی کی کنپٹیوں سے حسین تر کنپٹیاں کسی کی نہیں دیکھیں۔

اسی طرح آپ کے ماتھے پر سجدوں کی کثرت سے گھٹا پڑا ہوا ، متوازن ناک ، آنکھیں بڑی اور سیاہ اور ان میں عزم و ایقان کی چمک ، پتیاں روشن ، بھنویں قوس نما ، پلکیں لمبی ، دانت سلکِ منظم کی طرح ضیا بار ، گردن صراحی دار ، سینہ چوڑا چکلا اور اس پر بال ، بازوں کی مچھلیا ابھری ہوئیں ، شانے بھرے بھرے ، کلائیاں ٹھوس ، کلائیوں اور بازؤں میں جوڑ کا پتہ نہ چلتا تھا ، ریش مبارک گھنی اور عریض ، سر اور داڑھی کے بال سفید قد میانہ سے کچھ نکلتا ہوا ، آواز پُر شکوہ ، چال بوقار اور جب میدان جنگ میں دشمن کی طرف بڑھتے تو تیزی کے ساتھ چلتے اور آنکھوں میں سرخی دوڑ جاتی تھی ۔

اخلاق اور عادات

امیر المؤمنین علی خندہ جبیں ، شگفتہ مزاج ، بے غرضی و اخلاص کا پیکر ، غریبوں کے ہمدرد ، یتیموں کے غم خوار اور اخلاق نبوی کا مکمل نمونہ تھے ، اعلیٰ و ادنیٰ سے یکساں خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے ، غلاموں سے عزیزوں جیسا برتاؤ کرتے ، عام لوگوں کی طرح سادہ اور معمولی خوراک کھاتے اور انہی کی طرح عام اور معمولی لباس پہنتے ، اکثر کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے ، اپنی جوتیاں خود گانٹھتے ، کپڑوں میں پیوند خود لگاتے اور بازار سے سودا سلف خود خرید کر لاتے ، کھیتوں میں ایک مزدور کی طرح کام کرتے ، اپنے ہاتھ چشمے کھودتے ، درخت لگاتے اور ان کی آبیاری کرتے ، رنگ و نسل کا امتیاز اور طبقاتی تفریق گوارا نہ کرتے ، حاجت مندوں کے کام آتے مہمانوں کو بڑے احترام سے ٹھہراتے ، کسی سائل کو خالی نہ لوٹاتے ، دینی معاملات میں سختی برتتے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ، حق وصداقت کے جادہ پر گامزن رہتے اور کسی کی رو رعایت نہ کرتے ، دشمن کے مقابلے میں مکر و فریب اور داؤ پیچ سے کام نہ لیتے ، رات کا بیشتر حصہ مناجات و نوافل میں گزارتے ، صبح کے تعقیبات اکے بعد قرآن و فقہ کی تعلیم دیتے ، خوف خدا سے لرزاں و ترساں رہتے اور دعا و مناجات میں اتنا روتے کہ ریش مبارک تر ہو جاتی ۔

ایک مرتبہ ضرار بن ضمرہ ضبائی معاویہ کے ہاں آئے ، معاویہ نے کہا کہ تمہیں تو امیر المؤمنین علی کی صحبت میں رہنے اور انہیں دیکھنے کا موقع ملا ہے ، کچھ ان کے متعلق بیان کرو ، ضرار نے معذرت چاہی ، جب اصرار زیادہ ہوا تو کہا :

کا ن والله شدید القویٰ یقول فصلًا و یحکم عدلًا یتفجر العلم من جوانبه و تنطق الحکمة من نواحیه و یستوحشمن الدنیا و زهرتها لقد رأیته فی بعض مواقفه و قد ارخیٰ اللیل سدلته و غارت نجومه قابضًا لحیته یتململ تململ السلیم و یبکی بکاء الحزین و یقول : یا دنیا غری غیری الیّ تعرضت ام الیّ تشوقت هیهات هیهات قد باینتک ثلاثاً لا رجعة فیها فعمرک قصیر و خطرک حقیر ، آه من قلة الزاد و بعد السفر و وحشة الطریق ( استیعاب ، ج ۲ ،ص ۴۶۳)

یعنی خدا کی قسم ! ان کے ارادے بلند اور قویٰ مضبوط تھیں ، فیصلہ کن بات کہتے اور عدل و انصاف کے ساتھ حکم کرتے ، ان کے پہلوؤں سے علم کے سوتے پھوٹتے اور کلام کے گوشوں سے حکمت و دانائی کے نقمے گونجتے تھے ، دنیا اور اس کی رونق و بہار سے وحشت کھاتے تھے (اور پھر آگے چل کر کہا ) خدا شاہد ہے :

” میں نے بعض مقامات پر جبکہ رات کے پردے آویزاں اور ستارے پنہاں ہوتے تھے انہیں دیکھا ہے کہ اپنی ریش مبارک کو ہاتھوں کو پکڑے ہوئے اس طرح تڑپتے تھے جس طرح کوئی مار گزیدہ تڑپتا ہے اور اس طرح روتے تھے کہ جیسے غمزدہ روتا ہے اور کہہ رہے تھے کہ اے دنیا! جا کسی اور فریب دے ، کیا میرے سامنے اپنے آپکو پیش کرتی ہے اور مجھ پر فریفتہ ہو کر آئی ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے ؟! میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع کی صورت نہیں تیری عمر چند روزہ اور تیری اہمیت بہت کم ہے ، افسوس زاد راہ کم اور سفر طویل اور راستہ وحشت ناک ہے۔“

جب ضرار بن ضمرہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اخلاق و کردار کا یہ نقشہ کھینچ رہے تھے، تو تاریخ بتاتی ہے کہ امیر شام جیسے شخص کے دربار میں موجود لوگ اس طرح دھاڑیں مار مار کر روئے کہ گلے میں پھندے پڑ گئے اور معاویہ کی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں۔

یہ حسن سیرت و حسن عمل کا مقناطیسی اثر تھا ، جس کے تذکرے نے اغیارتک کے دل موم کر دیئے۔امیرالمؤمنین علیہ السلام ہیبت و صولت اور رحم و رافت کے امتزاج کا ایک دلکش پیکر تھے۔ آپ پہاڑ کی مانند سخت اور اڑتے ہوئے بادلوں کی طرح نرم تھے۔چنانچہ ملا علی آذربائیجانی کیا خوب کہا ہے :

اسد اللّٰه اذا صال و صاح

ابو الایتام اذاجاد وبر

یعنی جب دشمن کوللکارتے اور اس پر حملہ آور ہوتے تو اللہ کے شیر اور بخشش و احسان کرتے تو یتیموں کے باپ نظر آتے۔

پوشش و لباس

امیرالمؤمنین علیہ السلام سیدھی سادی وضع کا عام اور کم قیمت لباس پہنتے تھے جو عرب میں اس دور کا غریب طبقہ پہنتا تھا۔ بلکہ بعض اوقات اس سطح سے بھی گر جاتا تھا۔ لباس سے صرف تن پوشی مطلوب تھی نہ کہ نمود و نمائش ۔ اس لئے اس میں کوئی امتیاز گوارا نہ کرتے اور نہ گرمی و سردی کے موسم کا لحاظ رکھتے۔

مسعودی لکھتے ہیں : آپ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں کبھی نیا لباس نہیں پہنا۔

نوف بکالی کہتے ہیں : میں نے حضرت علی کو دیکھا آپ کے جسم مبارک پر ایک کرتہ تھا اور پیروں میں کھجور کی چھال کے جوتے تھے۔

طعام و آدابِ طعام

لباس کی طرح امیرالمؤمنین علیہ السلام کا کھانا بھی روکھا، پھیکا اور انتہائی سادہ ہوتا تھا۔عمومًا جوکے اَن چھنے آٹے کی روٹی اور ستو پر قناعت کرتے۔ روٹی کے ساتھ کبھی نمک ہوتا، کبھی سرکہ، کبھی ساگ اور کبھی کبھار دودھ، گوشت کا استعمال بہت کم کرتے تھے۔ چنانچہ ابن بی الحدید نے تحریر کیا ہے :

کان یائتدم اذا ائتدم بخل و ملح فان ترقی من ذلک فبعض نبات الارض فان ارتفع عن ذلک فبقلیل من البان الابل ولا یأکل اللحم الا قلیلًاو یقول لا تجعلوا بطونکم قبور الحیوان ( مقدمہ شرح نہج البلاغہ)

یعنی امیرالمؤمنین علیہ السلام اگر روٹی کے ساتھ کوئی پسند استعمال کرتے تو وہ سرکہ ہوتا یا نمک۔ اس سے آگے بڑھتے تو کوئی سی سبزی۔ اور اس سے بھی آگے بڑھتے تو تھوڑا سا اونٹنی کا دودھ اور گوشت بہت کم کھایا کرتے اور فرمایا کرتے : اپنے شکموں کو جانوروں کی قبرستان مت بناؤ۔

عدی ابن حاتم کہتے ہیں :

میں نے ایک روزدیکھا کہ حضرت علی کے آگے جو کی روٹی کے سوکھے ٹکڑے اور نمک رکھا ہے اور ایک چھاگل پانی سے بھری رکھی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ دن کے اوقات میں مصروف جہاد اور راتوں کے لمحات میں مشغول عبادت رہتے ہیں اور پھر یہ کھانا کھاتے ہیں ؟ امیرالمؤمنین علیہ السلام میری طرف دیکھ کر فرمایا: نفس کو ریاضت کا خوگر بناؤ تاکہ وہ طغیانی و سرکش پر نہ اتر آئے اور پھر یہ شعر پڑھا :

علل النفس بالقنوع و الا طلبت منک فوق مایکفیها (مناقب ابن شہر آشوب )

سوید ابن غفلہ کہتے ہیں :

میں ایک مرتبہ عید کے موقع پر امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا حضرت کے آگے دستر خوان بچھا ہے اور اس پر روٹی اور خطیفہ ( آٹے اور دودھ کا دلیا)رکھا ہے۔ میں نے عرض کیا : آپ عید کے دن بھی ایسا کھانا کھاتے ہیں ؟

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا :

انما هذا عید لمن غفر له

عید صرف اس کے لئے ہے جسے خداوندِ متعال نے بخش دیا ہو۔

اولیت اسلام

آپ اوائل عمر سے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ رہے، انہی کی آغوش میں پرورش پائی،اور انہی کے عقائد و نظریات پر اپنے عقائد و نظریات کی بنیاد رکھی اور کبھی کفر و شرک سے واسطہ ہی نہیں رہا۔ چنانچہ احمد بن زینی دحلان لکھتے ہیں :

لم یتقدم من علی رضی الله عنه شرک ابدًا لانه کان مع رسول الله صلی الله علیه وسلم فی کفالته کاحد اولاده وتبعه فی جمیع اموره“ ( سیرت نبویہ ص ۱۷۷)

یعنی امیرالمؤمنین علیہ السلام کو کبھی شرک سے سابقہ نہیں پڑا، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت و کفایت میں ان کی اولاد کی مثل رہے۔ اور تمام امور میں انہی کی پیروی کرتے تھے۔

اور سب سے پہلے آپ ہی آنحضرت پر ایمان لائے۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں :

انا اول من اسلم مع النبی ۔( تاریخ خطیب بغدادی ج ۴ ص ۲۳۳)

سب سے پہلے میں نے نبی اکرم کی آواز پر اسلام قبول کیا۔

انس بن مالک کہتے ہیں :اوحی الی رسول الله یوم الاثنین و صلی علی یوم الثلاثاء ۔( مستدرک حاکم ۳۹ ص ۱۱۲)

یعنی پیر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور منگل کے دن علی علیہ السلام نے نماز پڑھی۔

مجاہد کا قول ہے :اول من صلی علی و هو ابن عشر سنین ۔( طبقات ابن سعدج ۳ ص ۳۱)

یعنی سب سے پہلے حضرت علی نے نماز پڑھی اس وقت آپ کی عمر دس سال تھی۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دوسرے فضائل و امتیازات کی ماننداس امتیاز کو بھی مخدوش اور کم اہمیت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام بچوں اور نابالغوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ جبکہ بالغوں اور مردوں میں سب سے پہلے ابو بکر نے اسلام قبول کیا۔حالانکہ تاریخ اسے تسلیم نہیں کرتی کہ وہ بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے، بلکہ ان سے پہلے کافی لوگ اسلام لاچکے تھے۔ چنانچہ محمد بن سعد کہتے ہیں میں نے اپنے والد سعد ابن ابی وقاص سے دریافت کیا کہ:أ کان ابوبکر اوّلکم اسلامًا فقال: لااسلم قبله اکثر من خمسین ۔

( تاریخ طبری ج ۲ ص ۶۰)

یعنی کیا آپ لوگوں میں سے سب سے پہلے ابوبکر اسلام لائے تھے ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، بلکہ پچاس سے زیادہ آدمی ان سے پہلے اسلام لا چکے تھے۔

اس کے علاوہ کبھی یہ شبہہ ایجاد کر کے آپ اولیت اسلام جیسی فضیلت کو کم اہمیت قرار دینے کی سعی اور یہ کہہ کہ سبقت کا پلہ سبک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ علی علیہ السلام صغیر السن( کم سن )و نابالغ تھے۔ انہوں نے صرف اپنے مربی کے زیر اثر اسلام قبول کیا۔ اس میں اگر سبقت ہو بھی تو یہ باعث امتیاز و فضیلت نہیں ہو سکتی، کیونکہ کم سنی کا اسلام علم و تحقیق پر مبنی نہیں بلکہ بزرگوں کی پیروی و تحقیق کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ البتہ جن لوگوں نے بعد از بلوغ اسلام قبول کیا ان کیا اسلام تحقیق اور حقیقت اسی پر مبنی تھا، اور تقلیدی اسلام سے تحقیقی اسلام کا درجہ بلند ترہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بلوغ لحاظ احکام شرعیہ اور فقہیہ سے ہوتا ہے ۔ اور ایمان کا تعلق امور عقلیہ سے ہے۔ جس میں عقل شعور کا اعتبار ہوتا ہے یعنی اگرچہ حضرت علی فقہ کی نظر میں بلوغ تک نہیں پہنچے تھے۔ یعنی پندرہ سال کے نہیں ہوئے تھے اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ چنانچہ کبھی فقہی طور پر نابالغ ، بالغ مردوں سے زیادہ با فہم، باشعور اور عاقل ثابت ہوتا ہے۔

چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

و آتیناه الحکم صبیًا

یعنی ابھی وہ بچے ہی تھے کہ ہم نے انہیں حکم و فہم سلیم عطا کیا۔

اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ انہوں نے گہوارے کے اندر سے کہا :

انی عبدالله آتانی الکتاب وجعلنی نبیًا

یعنی میں اللہ کا بندہ ہو، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔

یہاں عقلی بلوغ اپنے عروج پر نظر آتا ہے، حالانکہ فقہی بلوغ کی منزل ابھی دور تھی۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام بھی اگرچہ فقہی اعتبار سے نابالغ تھے۔ لیکن عقلی اور شعوری طور پر بلوغ کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی وارد نہیں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تائید و نصرت

دعوت ذوالعشیرہ کے دن امیرالمؤمنین علیہ السلام نے خدا اور رسول اکرم سے جو وعدہ کیا اسے پوری طرح نبھایا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کردینِ خدا کی تائید و نصرت کی۔ اور رسول اکرم کا مکمل دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ بھر پور کمک کی۔

چنانچہ وہ مکہ و طائف کی وادیوں میں سر پر پتھر کھانے کا موقع ہو یا شعب ابی طالب میں پیٹ پر پتھر باندھنے کا۔ وہ شب ہجرت کا مرحلہ ہو یا جنگ بدر، احد، خندق و خیبر کا، فتح مکہ کا واقعہ ہو یا غزوہ تبوک کا اندیشہ ۔

الغرض جہاں بھی دین خدا اور رسول اکرم کا حضرت علی کی مدد و نصرت کی ضرورت پیش آئی آپ نے مکمل طور پر اپنے آپ کو وقف کر دیا۔اگر حکم ہوا جاؤ عمروبن عبدود کا منہ بند کرو۔ تو بلاخوف و خطر اس طرح بڑھے جیسے عقاب اپنے شکار چھبٹتا ہے۔ اور اگر حکم ملا کہ جاؤ مرحب کو پچھاڑ کر قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑ دو تو بے درنگ آگے بڑھے اور شیر کی طرح مرحب پر لپکے اور اسے دو نیم کرنے کے بعد قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑکر رکھ دیا۔اور اگر حکم ملا کہ آپ نے مدینہ میں ہی رہنا ہے۔ تو بلا چون و چرا قبول کرلیا۔ اور حاسدوں اور منافقوں کے طعنے بھی برداشت کرتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جارہے ہیں۔

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۲۵ سال تک سکوت اختیار کرنا ضروری ہوا تو یہ بھی قبول کر لیا اور ۲۵ سال جتنا طویل عرصہ اس طرح گذار دیا کہ خود امیرالمؤمنین علیہ السلام کے اپنے بقول میری حالت یہ تھی، جیسے گلے میں ہڈی پھنسی ہو اور آنکھ میں کانٹا چبھا ہوا ہو۔بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی اولاد کی اس طرح تربیت فرمائی کہ دیکھو اگر کل کلاں معاویہ جیسے شخص سے صلح کرنی پڑے تو نصرتِ دین کی خاطر کر لینا اور اگر دینِ خدا کے لئے کربلا جیسا واقعہ بھی جنم دینا پڑے تو دے دینا۔ اگر اپنے شِیر خوار بچے کو اپنے ہاتھوں میں خون میں لت پت ہوتے دیکھنا پڑے یا جوان سال بیٹے کے سینے سے برچھی کا پھل کھینچنا پڑے تو کھینچ لینا۔ اگر اپنی مخدراتِ عصمت کا حجاب لٹانا پڑے تو لٹا دینا، اگر انہیں اسیر دیکھنا برداشت کرنا پڑے تو برداشت کر لینا۔ لیکن یاد رکھو! دعوت ذوالعشیرہ کے دن میں اسلام کی تائید و نصرت کا جو وعدہ کیا ہے اس پر آنچ نہ آنے پائے۔

بہر حال جیسا کہ آغازِ تحریر میں عرض کیا تھا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ تو محال و ناممکن ہے۔ لہٰذا صرف بعض پہلوؤں کا بحسبِ استطاعت جائزہ لیا جائے گا۔

واقعہ غدیر خم

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی سے کچھ ہی ہفتے پہلے ایک اہم حادثہ رونما ہو، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد اہم ترین اور بافضیلت و بابرکت ترین واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ بعثت کے نتیجے میں نبی اکرم جیسی عظیم المرتبت ہستی عالم ہستی کہ نصیب ہوئی۔ اور واقعہ غدیر کے نتیجے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام جیسی کثیر الجہات اور جامع جمیع صفات و کمالات شخصیت نصیب ہوئی۔ جو مظہر تجلی خدا تھے۔

یہ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد جب مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو کم بیش ایک لاکھ کا مجمع آپ کے ہمرکاب تھا جو مختلف شہروں اور بستیوں سے سمٹ کر جمع ہو گیا تھا اور اب فرض سے سبکبار ہو کر خوش خوش اپنے گھروں کو پلٹ رہا تھا۔

غرض قافلہ رواں دواں تھا کہ مقام جحفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک پُر خار وادی میں غدیر خم کہلاتی تھی، انہیں ٹھہر جانے کا حکم دیا گیا۔

اس کارواں کو روکنے کا مقصد یہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے مناسب موقع و محل کے منتظر تھے۔ اور اس سے مناسب کوئی اور موقع نہ ہو سکتا تھا۔

واقعہ غدیرسُنی احادیث کی روشنی میں

(حدیث غدیر) یہ حدیث رسالتمآب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اورمدینہ کے مابین بمقام غدیر خم پر حجة الوداع سے واپسی مدینے آتے ہوئے بیان فرمائی۔ اس حدیث کو اہل سنت کی کُتب کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

۱) یہ حدیث اہل السنة کی کتب صحاح ستہ میں سے صر ف دو کتب ” جامع الترمذی “ کے باب المناقب باب مناقب علی میں زید ابن ارقم، حذیفہ ابن اُسید اور ابو الطفیل ان تین صحابہ سے روایت کی گئی ہے۔ جبکہ ” سنن ابن ماجہ “ میں سعد بن ابی وقاص اور براء بن عازب دو صحابہ سے روایت کی گئی ہے۔ گویا کہ صحاح ستہ میں پانچ صحابہ سے مروی ہے۔

۲) اہل السنة کی دیگر احادیث میں سے ” مسند احمد بن حنبل ، مسند ابی یعلیٰ موصلی ، مسند بزار، مسند ابی داؤد طیالیسی کے علاوہ دیگر کتب مسانید میں کئی صحابہ سے روایت کی گئی ہے۔

۳) یہ حدیث مستدرک حاکم (جلد ۳ صفحہ ۱۰۹،۱۱۰،۱۳۳ اور ۵۳۳) میں زید ابن ارقم، حضرت ابن عباس اور بریدة اسلمی سے روایت کی گئی ہے۔

۴) کتب معاجم میں ” المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر میں حافظ طبرانی نے متعدد صحابہ سے روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ”المعجم “ ابن المقری میں حضرت علی علیہ السلام اور ابوھریرہ سے روایت کی گئی ہے۔

۵) حدیث غدیر کو امام نسائی نے اپنی کتاب ” السنن الکبریٰ اور خصائص علی “ میں عمران بن حصین، ابوالطفیل، زید بن ارقم، بریدة اسلمیٰ، سعد ابن ابی وقاص اور خود امیرالمؤمنین کے علاوہ عبداللّٰہ ابن مسعود سے روایت کیا ہے۔

۶) محدثین اہل السنة میں حافظ ذہبی، حافظ ابن کثیر، ملا علی قاری، جلال الدین سیوطی اور عبدالرؤف نساوی علاوہ دیگر کئی ایک محدثین نے اسے حدیث متواتر کہا ہے۔

۷) حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ترمذی نے اسے حدیث صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔

۸) ابن حزم ظاہری نے اپنی کتاب ” الفِصل “ میں اور ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” منہاج السنة “ میں اس حدیث کی صحت سے انکار کیا ہے۔

۹) ابن تیمیہ اور ابن حزم کی جرح کو کئی ایک محدثین اہل السنة نے رد کیا ہے۔ جن میں علامہ ناصر الدین البانی کے علاوہ دیگر ایک محدثین نے رد کیاہے۔

۱۰) حدیث غدیر ”من کنت مولاه فهذا علی مولاه “ یا ”من کنت ولیه فعلی ولیه اور اللّٰهم وال من والاه وعاد من عاده “ کے الفاظ سے اکثر طور روایت کی گئی ہے۔

۱۱) حدیث غدیر ”من کنت مولاه فعلی مولاه “ مولا بمعنیٰ اولیٰ ہے۔ ”من کنت اولیٰ به فعلی اولی به “ کے الفاظ سے ” المعجم الکبیر “ میں طبرانی نے حضرت وھب بن حمزہ سے روایت کیا ہے۔

۱۲) ” حدیث غدیر“ حضرت عمر کی مبارک باد ”بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصحبت وا مسیت “ کے الفاظ کے ” مسند احمد ابن حنبل کتاب مصنّف ابن ابی شیبہ میں جبکہ مشکوةٰ شریف کے باب مناقب علی میں ذکر کی گئی ہے۔

۱۳) ” حدیث غدیر “ بروایت عمر بن الخطاب ”من لم یکن مولاه فلیس بمؤمن “ کے الفاظ سے صواعق محرقہ میں روایت کی گئی ہے۔

۱۴) حدیث غدیر کو امیرالمؤمنین نے بمقام ” رحبہ “ کوفہ، مقام شوریٰ پر اپنی خلافت کے اثبات کے لئے بطور دلیل پیش کیا۔

۱۵) انس بن مالک اور زید ابن ارقم نے حدیث غدیر پر گواہی دینے سے انکار کیا، تو آپ نے دونوں کے حق میں بد دعا کی جس کی وجہ سے انس بن مالک کو برص ہو گیا جبکہ زید بن ارقم اندھا ہو گیا۔انس بن مالک کے برص ہونے کو ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ” المعارف “ میں اور زید بن ارقم کے اندھے ہونے کو طبرانی نے اپنی کتاب ” المعجم الکبیر “ میں ذکر کیا ہے۔

۱۶) اہل السنة نے حدیث غدیر خم میں وارد شدہ لفظ ” مولا “ کو بھی دوست مراد لیا ہے۔ حالانکہ یہ معنی صحیح نہیں کیونکہ ” مولاہ بمعنی اولیٰ بہ “ خود کلام رسالتمآب میں موجود ہے جیسا کہ طبرانی نے وھب بن حمزہ سے مروی ہے۔

۱۷) مذکورہ حدیث میں پیغمبر اکرم نے صرف علی کے مولا ہونے کو بیان نہیں کیا کہ علی تمہارے مولا ہیں بلکہ فرمایا ” من کنت مولاہ فھذ ا علی مولاہ “ کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔

۱۸) ان الفاظ کے ساتھ پیغمبر اکرم نے کسی اور صحابی کی ولایت یا دوستی کا اعلان نہیں کیا کہ جس کامیں مولا ہوں اس کے فلاں بزرگ بھی مولا ہیں۔

۱۹) اہل السنة کی کتبِ احادیث میں ہے کہ بروز غدیر خم رسالتمآب کے اپنی دستار مبارک امیرالمؤمنین کے سر پر رکھی۔ جیساکہ مسند ابی داؤد طبال صفحہ ۲۳ اور عمدة القاری شرح صحیح بخاری موجود ہے۔

۲۰) آیتِ قرآن ہے :

( یَا اَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَه ط وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکَفِرِیْنَ ) (سورةمائدہ : ۶۷)

بقول ابوسعید خدری اور ابن مسعود بروز غدیر خم حضرت علی کی فضیلت اور اعلانِ ولایت کے بارے میں اتری ہے۔ جیسا کہ علامہ سیوطی

نے ” دُرالمنثور جلد ۲ صفحہ ۲۹۸“ میں اور علامہ شوکانی نے تفسیر الغدیر میں ذکر کیا ہے۔

وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط “ اور اللہ آپ کو ان لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔تو آیت میں ’ الناس‘سے مراد کفار ومشرکین نہیں کیونکہ وہ تمام بڑے بڑے کفار و مشرکین مثلًا ابوجہل ، ابو لہب ،مرحب اور عمرو بن عبدود تو مر چکے تھے۔ بیرونی خطرہ کوئی نہیں کیونکہ یہ سورة مائدہ قرآن مجید کی آخری سورةہے۔

( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضَیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط ) (سورة مائدہ : ۳)

کہ جب دین پورا ہو گیا اور نعمت تمام ہو گئی تو سورة بھی آخری ہو گی ۔ یہ اس سورةکے آخری ہونے کی داخلی دلیل ہے۔ خارجی دلیل یہ ہے کہ بقول عائشہ یہ سورة قرآن مجید کی آخری سورة ہے۔

امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے سیاسی حالات

وہ ۴ یا ۵ سال کی مدت جس میں اسلامی ریاست کی زمامِ اقتدار آپ کے ہاتھ میں تھی ، اس میں جو بات سب سے زیادہ عیاں تھی وہ یہ کہ آپ نے پہلے دن سے لے کر اپنی شہادت کے وقت تک، کسی بھی وقت، کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی انداز میں اس انحراف کے سلسلے میں باطل سے کوئی مصلحت پسند نہ کی اور ” معاملت و مجاملت “ کے کسی بھی ایسے انداز کو پسند نہیں کیا جو اُمت کی کرامت و شرافت کے خلاف ہو اور کل کوئی یہ کہہ سکے کہ قوم کو معمولی قیمت پر فروخت کر دیا گیا۔” عدم مصالحت “ کی پالیسی پر ہمیں دو پہلوؤں پر خصوصی توجہ کرنے کی ضرورت ہے :

۱) سیاسی اور شرعی اور دنیاوی پہلو

۲) فقہی اور شرعی پہلو

جہاں تک سیاسی پہلو کا تعلق ہے تو کچھ لوگ جو امیرالمؤمنین کے زمانہ میں تھے جن لوگوں نے بعد میں اس کا تجزیہ کیا اور آپ کے سیاسی پہلوؤں کو سمجھنا چاہا ان میں سے بعض نے اسے اس لحاظ سے سوچنا شروع کیااور آپ کے مصائب میں اور اضافہ کیااس طرح آپ کی مشکلات میں اور اضافہ ہو گیا اور بالآخرآپ کو اس آخری نتیجے تک نہیں پہنچنے دیا جو صحیح اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں ان کے پیش نظر تھا۔چنانچہ مغیرہ بن شعبہ جس نے شروع میں آکر آپ کو مشورہ دیا تھا کہ :

” آپ معاویہ کو کچھ دنوں تک شام کا گورنر رہنے دیں۔“

اس کی دلیل یہ تھی کہ:

” اگر آپ اسے کچھ دنوں تک گورنر رہنے دیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت قبول کرے اور بعد میں جب آپ کے قدم جم جائیں اور پورے ا سلامی ممالک میں آپ کی حکومت مستحکم ہو جائے تو آپ اسے ہٹا کر کسی اور شخص کو اس صوبہ کا گورنر بنا سکیں گے۔ لہٰذا اس جیسے گورنروں کو آپ فی الحال خرید لیجیے۔ اوراگرچہ یہ اسلامی خزانے کے چور ہیں لیکن کچھ دنوں تک چوری کا مال ان ہی کی جیب میں پڑا رہے بعد میں ان سے واپس لے لیجیے گا۔“

لیکن امیرالمؤمنین نے اس کی منطِق تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا اور اس قسم کی کسی مصالحت یا معاملت کو قبول کرنا آپ نے اپنی روش کے بالکل خلاف سمجھا۔ جس کی وجہ سے آپ کے بعض معاصرین اور بعدمیں آنے والے بعض ایسے تجزیہ نگاروں نے جو معاملات کوصرف ڈپلومیسی (جمہوریت)کی نگاہ سے دیکھنا جانتے تھے۔اور یہاں تک کہاگیا کہ:

” اگر علی باطل سے مصالحت کی راہ اپناتے اور ڈپلومیسی سے کام لیتے تو سیاسی میدان میں ان کو سب سے زیادہ کامیابی نصیب ہو سکتی تھی (اور وہ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ عظیم الشان اور صاحب جبروت حکمران ہو سکتے تھے)۔“

اس طرح ایک فقہی نکتہ بھی عمومًا سامنے لایا جاتا ہے جوکہ فقہی کتابوں میں درج ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی اہم فریضہ کسی حرام کام پر موقوف ہوجائے اور وہ فریضہ ذاتی طور پر اتنا اہم ہوجس کے مقابلے میں اس حرام کی حیثیت کم ہو تو اس حرام کام کا ارتکاب کرنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ وہ اہم فریضہ پامال نہ ہونے پائے۔ مثلًا

” اگر کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور اس کی جان بچانے کے لئے ہمیں غصبی زمین سے گزرنا پڑے جس کا مالک ہمارے گزرنے پر راضی نہ ہو تو چونکہ اس شخص کی جان بچانا زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے زمین کے مالک کی ناراضگی کے باوجود اس کی زمین پر سے گزر جانا چاہیے اور اس کی ناراضگی کا خیال نہیں کرنا چاہیے۔“

جیسا کہ اس کی ایک مثال حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں بھی نظر آتی ہے کہ:

” اسلامی لشکر مجبور تھا کہ مدینے سے ایک خاص راستے سے نکلے۔ اتفاقًا اس راستہ میں ایک صحابی کی کھیتی تھی۔ اور یہ بات بھی واضح تھی کہ جب پورا لشکر گزرے گا تو بہت ساری کھیتی برباد ہو جائے گی اور اس کے مالک کو یقینی طور پر نقصان پہنچے گا۔ وہ صحابی جس کی کھیتی تھی اس نقصان کو برداشت کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس لئے اس نے فریاد کی اور رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کرنے لگا۔ کہ میری کھیتی خراب ہو رہی ہے، میرا مال برباد ہو رہا ہے۔ لیکن نبی اکرم نے اس شخص کی فریاد پر کوئی توجہ نہیں دی اور لشکر کوروانگی کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں لشکر اسی راستے سے گزرا اور اس کی کھیتی کو نقصان بھی پہنچا جس کا اندیشہ پہلے سے تھا۔“

لیکن ایک اہم مقصد پیش نظر تھا اس لئے اس مختصر نقصان پر توجہ نہیں دی گئی۔ کیونکہ لشکر پوری انسانی آبادی کی اصلاح کے لئے جارہا تھا۔ اب اگر اس راہ میں کسی کی کھیتی کو نقصان پہنچے یا کسی شخص کی چھوٹی سی ملکیت اصلاح خلق کی راہ میں ضائع ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور فقہی اعتبار سے اسے جائز قرار دیا جائے گا کیونکہ فقہ کے قوانین میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ اگر کسی واجب کی ادائیگی کسی حرام کے ارتکاب پر موقوف ہو اور وہ واجب فریضہ اس حرام کے مقابلے میں بہت اہم ہو تو اس کی خاطر اس حرام کا ارتکاب کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے اثرات مختصرہوں۔

تو اب یہی بات امیرالمؤمنین کے اقدام کے سلسلہ میں سوال بن کر سامنے آتی ہے کہ: ” انھوں نے بہت سی ایسی باتوں کو کیوں برداشت نہیں کر لیا جو ذاتی طور پر تو غلط تھیں لیکن ایک بڑے مقصد کی تمہید بن سکتیں تھیں۔ تو اتنے عظیم مقصد (اللہ تعالیٰ کی سرزمین میں اسلامی حکومت کاقائم کرنا) کے حصول کے لئے انھوں نے معاویہ کی ناجائز حکومت کو باقی رکھا ہوتا اور وہ حرام مال جو سابقہ حکومت کے دور میں بنی امیہ کے قبضے میں چلا گیا تھا اسے انہی لوگوں کے پاس باقی رہنے دیتے (اور لوگوں کی ناانصافیوں پر خاموش رہتے) تو آپ کی خاموشی کیوں غلط ہوتی اور ان اعمال کو کچھ دنوں کے لئے برداشت کرنا آپ کے لئے کیوں ناجائز ہوتا؟

یہ وہ کمزور دلیلیں ہیں جو امیرالمؤمنین کے بارے میں عمومًا پیش کی جاتی ہیں۔ ان کمزور دلیلوں کے جواب مندرجہ ذیل چند نکات میں پیش کرتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ امیرالمؤمنین عالمِ اسلام کے ایک نئے علاقہ (عراق کی سرزمین) پر اسلامی سلطنت کی نئے سرے سے بنیاد رکھ رہے تھے اور عراق وہ سرزمین ہے جہاں کہ لوگ ایمانی جذبات و احساسات کے اعتبار سے تو یقینًا آپ کے ساتھ تھے لیکن ابھی ان لوگوں کاشعور پختگی کی منزل پر نہیں تھا اور نہ وہ لوگ صحیح طور سے آپ کے موقف سے باخبر تھے۔ اس لئے یہ بات نہایت ضروری تھی کہ امیرالمؤمنین اس نئی تربیت پانے والی قوم اور راسخ العقیدہ لشکر کی اس طرح تربیت کریں کہ یہ آپ کے پیغام اور عالمِ اسلام کے محافظ نہیں اور ظاہر ہے کہ اگر آپ شروع ہی سے باطل کے ساتھ ” مصالحت کی پالیسی “ کو اپنا لیتے تو اس قوم کی صحیح تربیت کس طرح ممکن تھی؟--حتٰی کہ اگر وہ پالیسی ذاتی طور پر جائز بھی ہوتی تو یہاں اسے اپنانا مناسب نہ ہوتا۔ کیونکہ جہاں اس قسم کی پالیسی مزاج بن جائے وہاں سلمان و ابوذر و عمار جیسی شخصیت پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ اور نہ یہ جذبہ بیدار ہو سکتا ہے کہ ہماری جدوجہد کسی خاص شخصیت کیلئے نہیں ہے بلکہ دین و شریعت کے لئے ہے اور یہ جذبہ مذکورہ بالا پالیسی کے ماحول میں بیدار نہیں ہو سکتا ہے۔

اگر وہ پالیسی فقہی اعتبار سے جائز ہوتی تو بھی اس جگہ اسے اپنانے کا ہر گز محل نہیں تھا۔ کیونکہ اسے اپنانا امیرالمؤمنین کے مقصد کے بالکل برعکس ثابت ہوتا۔ کیونکہ آپ کے پیش نظر اہم ترین مقصد ، اسلامی ریاست کو ایسے اعلیٰ وارفع قوانین پر استوار کرنا تھا۔ جہاں شریعت کا پیغام ہی دور رس اہمیت کا حامل ہو۔ اور ظاہر ہے کہ آپ نے جس وقت زمامِ اقتدار سنبھالی ہے اس وقت کی صورتِ حال اس کے بالکل بر خلاف تھی۔ اس لئے درحقیقت آپ ہی کو صحیح نظام کی ازسرِنو بنیاد رکھنی تھی۔

لیکن چونکہ امیرالمؤمنین ایک فکر ونظر کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ اس لئے آپ کا فرض تھا کہ اس کے لئے نیک اور پاکیزہ سے پاکیزہ اشخاص کو اپنائیں اور مالک اَشتر جیسے کامل الایمان اور مخلص حضرات کو تقویت دیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے افراد مذکورہ بالاپالیسی کے ماحول سے روحانی، فکری، ایمانی، عقائدی اور حقیقی تربیت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ پالیسی تو اس کے برخلاف تربیت کرے گی اور قوت ایمان کے بجائے قوتِ نفاق کو تقویت پہنچے گی۔ لہٰذا ایک فکری گروہ پیدا کرنے اور جناب مالک اَشتر جیسے ہزاروں مخلص اور کامل ایمان افراد کی تربیت کے لئے یہ بات ناگزیر تھی کہ ان کا قائد ایک ایسا شخص ہو جو کسی دباؤ کے آگے جھکنے والا نہ ہو اور کسی بھی اعلیٰ یا ادنیٰ مفاد کے لئے باطل سے مصالحت کرنے پر کسی بھی صورت میں آمادہ نہ ہو۔اس لئے ایک مربی اور نمونہ کامل کے لحاظ سے بھی امیرالمؤمنین کا فرض یہ تھا کہ وہ مذکورہ بالا پالیسی سے ہٹ کر چلیں تاکہ ایمانی، فکری اور روحانی طور سے وہ ماحول پیدا ہو سکے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امیرالمؤمنین نے پُر امن ماحول میں حکومت نہیں سنبھالی تھی بلکہ درحقیقت ایک ایسے وقت میں زمامِ اقتدار سنبھالی تھی جب پوری قوم ایک ہیجانی کیفیت سے گزر رہی تھی اور حاکم وقت (عثمان بن عفان ) کو قتل کیا جاچکا تھا اور قتل کرنے والوں نے یہ کہہ کر قتل کیا تھا کہ :

یہ حاکم قرآن و سنت کے راستہ سے منحرف ہو چکا ہے ۔

ایسی حالت میں قوم کی قیادت سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور ایسی صورت میں اگر امیرالمؤمنین باطل سے مصالحت کی روش اپناتے اور پرانے ظالم حکمرانوں کو برداشت کرتے یعنی معاویہ اور اس جیسے گورنروں کو رہنے دیتے تو قومی سطح پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے اور بعد میں کسی بھی قسم کی اصلاح اور تبدیلی کی گنجائش باقی نہ رہتی اور امام کے لئے ایسا کوئی اقدام کرنا ممکن نہ رہتا۔

امیرالمؤمنین پوری شدت سے چاہتے تھے کہ معاویہ سے ان کی مخالفت کو دواشخاص، دوخاندانوں، دوقبیلوں یادو حکام کی باہمی رنجش نہ سمجھا جائے بلکہ اسے حق و باطل کی معرکہ آرائی کے نقطہِ نظر سے دیکھا جائے۔ یعنی آپ یہ بات اچھی طرح لوگوں کو ذہن نشین کرانا چاہتے تھے کہ بدرواُحد کے واقعات میں رسول اکرم اور کفر و جاہلیت کے درمیان جو معرکہ آرائی تھی وہ اسی طرح آج بھی قائم ہے۔ اب اگر ایسی صورت میں آپ ان گورنروں کو ان کے منصب پر تھوڑے دنوں کے لئے بھی باقی رہنے دیتے جن کا طرزِ عمل اسلامی تعلیمات کے یکسر خلاف تھا تو پوری امت کے اذہان میں یہ شبہ راسخ ہو جاتا کہ اختلافات کی نوعیت دینی ومذہبی نہیں بلکہ دنیاوی و سیاسی ہے۔ اور یہ شک وشبہ اس طرح ذہنوں میں بیٹھتا کہ پھر کبھی جُدانہ ہوتا۔

امیرالمؤمنین کا ہاتھ قوم کی نبض پر تھا اور وہ قوم کی اس انداز سے تربیت کرنا چاہتے تھے کہ ہر شخص کے دل میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ قوم قابلِ خرید وفروخت چیز نہیں ہے اور نہ کسی کو اس کی قسمت کا سودا کرنا چاہیے۔ اگر آپ خود ہی باطل سے معاملت کی پالیسی اپنا کر ابوسفیان کے بیٹے کی گورنری قبول کر لیتے تو قوم کے اندر اس شعور کو کیونکر ایجاد کرنے میں کا کامیاب ہوتے کہ ہمیں باطل کے آگے نہیں جھکنا چاہیے اور بادشاہوں اور حاکموں کی رضا کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کام کرنا چاہیے جو خلافت الہٰیہ کا اصل مقصد ہے اور معاویہ کو اپنی طرف سے گورنر مقرر کرنے کا واضح مطلب ہوتا کہ وہ سازش جو اسلامی ریاست کو اس کے اصل مزاج سے

محروم کرنا چاہتی تھی آپ اس کے ہمنوا بن جاتے اور اس طرح مولا خود اپنے اصول کو توڑ دیتے اور وہ اس سازش کے خلاف کوئی واضح اقدام نہ کر پاتے۔

امیرالمؤمنین کے اقدامات محض اس مختصر مدت کے لئے نہیں تھے جس میں آپ حکومت کے تخت پر متمکن تھے بلکہ وہ بلند تر مقاصد کے لئے قدم اٹھاتے تھے۔ وہ یہ محسوس کررہے تھے کہ جس بیمار کے علاج کے لئے وہ اٹھے ہیں اس کا مرض آخری منزل پر ہے اور اس وقت صرف معمولی علاج گارگر نہیں ہو سکتا بلکہ کچھ ضروری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ جس دن سے سقیفہ کی کاروائی مکمل ہوئی تھی اسلامی دستور و قانون پر انحرافات کے تیشے لگ رہے تھے جس کے نتیجے میں اس دین کا چہرہ بہت تبدیل ہو چکا تھا اور اب اس کی ایسی حالت ہو گئی تھی کہ یہ لوگوں کی روحانیت کی پاسبانی نہیں کرسکتا تھا پیغامِ الہٰی کی حفاظت تو دور کی بات ہے۔ کیونکہ وہ اسلام جس کی حکمرانی ہارون رشید، معاویہ بن سفیان یا عبدالملک مروان جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو اُس کاروحانی تقدس کیسے بچ سکتا ہے ؟

مذکورہ بالا گفتگو سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔

۱) امیرالمؤمنین عراق کی سرزمین پر خالص اسلامی ریاست کے لئے ایک نئی فکری لشکر ترتیب دے رہے تھے اور اس فکری اور عقائدی لشکر کی خالص دینی تربیت آپ کادنیاوی فرض تھا۔ جس کے لئے ڈپلومیسی اور شک و شبہ کی پالیسی سے پاک ماحول فراہم کرنا نہایت ضروری تھا۔ اس لئے باطل سے وقتی مصالحت کی پالیسی اگر فقہی لحاظ سے بعض اوقات جائز بھی ہے تو یہاں اس کا ہر گز موقع و محل نہیں تھا۔

۲) امیرالمؤمنین نے اس وقت زمامِ اقتدار سنبھالی ہے جب پوری قوم ایک انقلابی کیفیت سے گزر چکی تھی اور ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں کہیں قوم کے جذبات واحساسات یکسر مختلف ہوتے ہیں۔لہٰذا اسلام کے وسیع تر مفاد کا تقاضا یہ تھا کہ اس وقت جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ اسلامی تعلیمات کے بالکل مطابق ہو۔ اس میں کسی ڈپلومیسی کا شائبہ نہ ہو۔

۳) جیساکہ ہم نے سابقہ گفتگو میں اس کی وضاحت کی اگر امام کسی اقدام میں باطل سے مصالحت اور دنیاوی ڈپلومیسی شائبہ بھی پیدا ہو جاتا تو وہ اسلام کے تمام اعلیٰ وارفع مقاصد اور مستقبل کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دے دیتا۔کیونکہ جن عناصر نے آپ کے واضح طرزِ عمل کے باوجود اس قسم کے شک و شبہات پھیل کر ذہنوں کو سموم بنانے کی کوشش کی۔ اگر آپ کی طرف سے ان کو کوئی موقع فراہم کر دیا جاتاتو وہ لوگ ایک ایسا طوفان کھڑا کردیتے جو اسلام کی پوری عمارت کو زمین بوس کردینے کا سبب بنتا۔

۴) ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ اس وقت کوئی بھی ڈپلومیسی سازشی اذہان کی تقویت کا سبب بنتی اور اگر آپ وقتی مصلحت سے کام لیتے تو اس ذہنیت کو فروغ ہوتا کیونکہ حالات نے ایسا رُخ اختیار کر لیا تھا کہ اب صرف آپ کی زعامت و قیادت کے خلاف سازش نہیں ہو رہی تھی بلکہ اسلامی اقدار وتعلیمات کو مٹانے کی بھر پور سازش تیار کی جارہی تھی۔ آپ کو اس منصب سے ہٹا کر ایسے شخص کو لانے کی بھر پور کوشش کی جارہی تھی جو دینِ اسلام کی تعلیمات کو مٹا کر قیصر و کسریٰ کے انداز پر حکومت کرے لہٰذا اگر آپ دنیاوی ڈپلومیسی سے کام لیتے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ آپ بھی بالواسطہ قیصر وکسریٰ کے نظام کی تائید کر رہے ہیں( کیونکہ شام کا علاقہ بالکل قیصرو کسریٰ کے انداز پر چل رہا تھا)۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ امیرالمؤمنین اس کو برداشت کرتے۔اور ایک بات یاد رہے اسلام نے قیصرو کسریٰ کا کردار رکھنے والوں کو جو عہدہ و مقام ملا اُس کی بنیاد سقیفہ کی کاروائی نے ڈالی اور ایسے کردار کے حامل شخص کو مولا اپنے گورنر کی حیثیت سے قبول کرلیتے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ آپ اسلام میں قیصریت اور کسریت کی تائید فرما رہے ہیں جو آپ کے لئے ممکن نہیں تھا اس لئے آپ نے وقت کے تقاضے کے مطابق فتنہ کو کچلنے کے لئے سخت سے سخت موقف بھی اپنایا تاکہ قیصریت اور کسریت کی تائید نہ ہو اور اسلام کے درخشندہ چہرے کا اصل نکھار برقرار رہے۔

ان چار نکات کے علاوہ میں برادران کی توجہ ان چند خصوصی نکات کی طرف بھی مبذول کرانا چاہوں گا۔اور وہ یہ کہ اگرامیرالمؤمنین وقتی طور پر امیر شام کو گورنری کے عہدہ پر باقی رہنے دیتے تو پھر کسی بھی وقت اسے معزول کرنا آپ کے لئے ناممکن ہوتا اور اس نکتہ کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے اس پورے موقف کو سامنے رکھنا ہو گا جو امیرالمؤمنین اپنی حیاتِ طیبہ میں اختیار کیا یا جسے کوئی بھی الہٰی نمائندہ اس جیسے حالات میں اس موقف کو اپنا سکتا تھا۔کیونکہ معاشرہ کی اصلاح کے لئے جن عناصر کا قلع قمع ضروری ہے اگر اُن ہی کو معاون اور شریکِ کار بنا لیا جائے تو حالات کی اصلاح کیسے ہوگی ؟

اور اگر وقتی طور پر انھیں شریک کار بنا لیا جائے تو یہ برائیاں نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اور پروان بھی چڑھیں گی اور اگر بعد میں ان عناصر کو دور ہٹانے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ ہرگز جُدانہیں ہوں گے۔ بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھیں گے کہ ” اگر ہم بُرے تھے تو آپ نے ہمیں اپنا شریکِ کار کیوں بنایا اور اگر ہم

کل آپ کے شریکِ کاربن سکتے تھے تو آج کیوں نہیں بن سکتے ؟

اور پھر جب سربراہِ مملکت نے شروع سے ان ہی عناصر کو اپنا معاون و مددگار بنایا تو سارے معاشرے پر اُن ہی کا تسلط ہو گا۔ پھر وہ کون سی طاقت ہو گی جس کا سہارا لے کر اُن لوگوں کو ان کے منصب سے ہٹایا جائے۔ اور اس طرح معاشرے کی اصلاح کے لئے جن عناصر کا خاتمہ ضروری تھا وہی معاشرے پر غالب آجائیں گے۔اورجیسے جیسے ان عناصر کی قوت میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔اصلاح کے امکانات بھی اُسی طرح ختم ہوتے جائیں گے اور امیرالمؤمنین جو معاشرے کی کامل اصلاح کے امین و پاسبان تھے ان کے لئے یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ بُرے عناصر کو اپنا شریکِ کار بنائیں؟

اسی کے ساتھ اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امیرالمؤمنین معاویہ کو شام کی گورنری پر باقی رہنے دیتے تو آپ کی حکومت مضبوط ہو جاتی۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح گورنرِ شام کو بھی مزید طاقت مل جاتی(اور ایک اس کی اپنی ۲۵ برس کی حکومت کی طاقت اور امیرالمؤمنین کی حمایت اور تائید اس کی طاقت میں اور اضافہ کرتی)۔ اور چونکہ امیرالمؤمنین کی ذاتِ اقدس صفاتِ اسلام کی تمام تعلیمات اور اقدار کے لئے نمونہِ کامل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس لئے آپ کی طرف سے معاویہ کی وقتی حمایت بھی اُس کے ماضی کے تمام اقدامات کو جائز بنا دیتی۔ جس کے نتیجے میں معاویہ کو ایسی ٹھوس دلیل مل جاتی کہ جسے کوئی بھی شخص چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔

معاویہ کے طرزِ عمل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کی گورنری کو باقی رکھنے کا نتیجہ یہ ہر گز نہ ہوتا کہ وہ امیرالمؤمنین کی صدقِ دل سے بیعت کرکے شام کے علاقے میں بھی مرکزی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا اور وہاں سے آپ کو مدد پہنچاتا۔بلکہ آپ کی تائید کے بعد وہ اپنی ذاتی پوزیشن کو مضبوط کرتا اور گذشتہ پچیس برس سے اُسے اس علاقے میں جو اثر و رسوخ حاصل تھا جس کی ایک خاص تاریخی حیثیت تھی، جس کی پہلی خلافت میں بنیاد رکھی گئی ،دوسری خلافت میں اسے مزید تقویت ملی اور تیسری خلافت میں اسے ایسی طاقت حاصل ہو گئی کہ شام پر مدینہ کے اختیارات ہی ختم ہوگئے اور معاویہ ہر قسم کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا(شام کے علاقے میں اسلام نبی کریم کی وفات کے بعد پھیلا اور خلیفہ اول نے یزید بن سفیان کو اس کا گورنر بنایا تھا تاہم وہ زیادہ عرصہ حکومت نہ کرسکا اور اس دنیا سے چل بسا اس کے مرنے کے بعد معاویہ کو شام کا گورنر بنایا گیا تھا اور شام کے لوگ اسلام کی وہی تصویر جانتے تھے جو معاویہ اور اس کے کارندوں نے لوگوں کے سامنے پیش کی تھی اسی لئے شام کے لوگ اہلبیت علیہم السلام کو بُرا بھلا کہنے سے نہیں ہچکچاتے تھے)۔ اگرچہ یہ صوبہ دستوری لحاظ سے مدینہ کا تابع تھا لیکن معاویہ اپنے تمام فیصلوں میں اپنی مرضی کرتا تھا۔ اب ایسی صورت میں امیرالمؤمنین وہاں کے گورنروں کو کچھ دنوں تک اس کے عہدے پر باقی رکھ کر بھی معزول کرنے کی کوشش کرتے تو زیادہ مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا اور وہ اسلامی علاقوں میں شور مچاتا کہ اب مجھ سے کون سا ایسا قصور سرزد ہوا ہے کہ معزول کیا جارہا ہوں۔ اگر میں بُرا تھا تو پہلے میری تائید کیوں کی اور اب میرے اندر کیا خرابی پیدا ہو گئی؟جب امیرالمؤمنین نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مجھے گورنر بنایا تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انھوں نے مجھے ایک انصاف پسند اور صالح حکمران تسلیم کیا لہٰذا اب میرے معزول کرنے کی کیا وجہ ہے ؟

یہ ایک ایسی بات تھی جو پورے عالمِ اسلام کی رائے عامہ کو اس کا ہمنوا بنادیتی اور امیرالمؤمنین کے لئے ہر ایک کو مطمئن کرنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن جب آپ نے حکومت سنبھالی تو فورًا اسے معزول کیا تو اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ آپ اسے کسی بھی لحاظ سے اس قابل نہیں سمجھتے تھے۔

اس سلسلے کا آخری نکتہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ” بنی اُمیہ روزِ اوّل ہی سے اسلام کے دشمن تھے اور وہ پوری قوت صرف کر کے اسے مٹانا چاہتے تھے۔ چنانچہ ابوسفیان ( جو ساری عمر نبی کریم سے لڑتا رہا جب اسلامی حکومت اس کے خاندان میں پہنچی اور خلیفہ ثالث مسندِ اقتدار پر بیٹھا تو) جناب حمزہ کی قبر کے پاس آیا اور اسے اپنے پیروں سے روند کر کہنے لگا کہ :

دیکھو ! جس دین کی خاطر تم لوگوں نے ہم سے جنگ کی، اس کی راہ میں جان قربان کی اور مسلسل فداکاریاں کرتے رہے اُٹھ کر دیکھو، آج ایک گیند کی مانند ہمارے ہاتھ میں ہے جس سے ہمارے لڑکے دل کھول کر کھیل رہے ہیں۔

اسلام کو مٹانے کی سازش کی پہلی کڑی کے طور پر وفات رسول کے فورًا ہی بعد شام کی حکومت حاصل کر لی گئی۔ یزید بن ابی سفیان کے بعد معاویہ گورنر بنایا گیا اور اس طرح اس نے ۲۵ برس کے عرصہ میں پوری جما لیے۔ جس کے بعد معاویہ کوئی ایسا موقع ڈھونڈنے لگا کہ تمام اسلامی ممالک پر ہلہ بول دے۔ اور خلیفہ ثالث کے قتل نے اس کے لئے یہ سنہرا موقع بھی فراہم کر دیا وہ عثمان کے قصاص کے نام پر کھل کر میدان میں آگیا۔ حالانکہ جب عثمان کے خلاف شورشیں پھیلی ہوئی تھی تو وہ بار بار

معاویہ کو خط لکھ کر اس سے مدد طلب کر رہا تھا مگر معاویہ نے عثمان کی کسی قسم کی کوئی مدد نہ کی۔ جبکہ معاویہ عثمان کے لئے ایک ایسا لشکر بھیج سکتا تھا جو خلیفہ ثالث کا دفاع

کرے۔ لیکن معاویہ کی تو دل سے یہ خواہش تھی کہ عثمان قتل کر دیا جائے اور اس کے خون کابدلہ لینے کے بہانے میدان میں اترنے کا بہانہ ہاتھ آ جائے۔ معاویہ اب صرف گورنری کا کافی نہیں سمجھ رہا تھا۔ کیونکہ وہ تو ابتدائی مرحلہ تھا۔ اب ۲۵ برس کے بعد اسے اتنی قوت حاصل ہو چکی تھی کہ وہ جلد از جلد پورے اسلامی ممالک پر جا برانہ تسلط قائم کرلے۔

لہٰذا اگر وقتی طور پر اسے گورنری کے عہدے پر باقی رہنے دیا جاتا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ وہ اس پر قناعت کرنے والا تھا۔ تو پھر باطل سے مصالحت کا فائدہ اور اس کا جواز ہی کیا تھا؟

وہ فقہی قاعدہ جس کا شروع میں ذکر کیا گیا، اس صورت حال کے لئے ہے جب کسی الم واجب کی بقا کسی معمولی درجہ کے حرام کے ارتکاب پر موقوف ہو اور یہ یقین ہو کہ اس حرام کا ارتکاب کر کے اس اہم ترین فریضہ کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ امیرالمؤمنین کے سامنے جو صورتِ حال تھی وہ ایسی نہ تھی ۔ کون یہ یقین دہانی کرا سکتا ہے کہ آج گورنرِ شام کو آپ برداشت کر لیں۔ کل وہ آپ کا مطیع و فرمان بردار بن جائے گا؟

مندرجہ بالا حقائق وشواہد کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امیرالمؤمنین کے لئے باطل سے مصالحت کی ڈپلومیسی بالکل ضروری نہیں تھی۔ اگر آپ کو وقت ملتا اور جس نہج پر آپ قوم کو چلانا چاہتے تھے۔ اس پر چلنے دیا جاتا تو حالات کی اصلاح کی بھر پور توقع موجود تھی۔لیکن یہ توقع اس وقت یکسر ختم ہوگئی ، جب نامراد ابن ملجم نے زہر آلود تلوار سے آپ کو اس وقت زخمی کردیا جب آپ وقت کے سب سے بڑے ناسور کا آپریشن کرنے والے تھے اور خباثتوں کے سردار کے شر سے دنیا کوہمیشہ کے لئے پاک کر دینے والے تھے۔آپ کو خون میں نہایا ہوا دیکھ کر امام حسن نے گریہ شروع کیا تو آپ نے تسلی دیتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی برقرار رہے گی۔

اے نور نظر! تم لوگوں کو تمہارے منصب سے ہٹایا جائے گا، قتل بھی کیا جائے گااور جلاوطن کیا جائے گالیکن تم ثابت قدم رہنا یہاں تک کہ تمہیں زہر دے دیا جائے گا، پھر تمہارے بھائی حسین مقابلہ کریں گے ۔یہاں تک کہ وہ بھی شہید کر دیئے جائیں گے۔ لیکن پھر بھی حق و باطل کی معرکہ آرائی جاری رہے گی۔ یہاں تک کہ جس وقت قوم تقریبًا مُردنی کی کیفیت سے دوچار ہو جائے گی۔ اس وقت بھی یہ رزم آرائی برقرار رہے گی۔ کیونکہ ایک نہ ایک ہستی اسی بہرحال موجود رہے گی جو دین کو تباہ نہیں ہونے دے گی۔

امیرالمؤمنین نے جن امور کے بارے میں نشان دہی فرمائی تھی وہ تمام نشانیاں پوری ہوئیں۔ ہدایت کے ستون ایک ایک کر کے گرتے رہے یہاں تک آج بھی حق وباطل میں معرکہ آرائی جارہی ہے۔

ہم خداوندِعالم سے دعاگو ہیں کہ حق و باطل کی معرکہ آرائی میں امیرالمؤمنین کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرماآمین۔