البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم20%

البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17315 / ڈاؤنلوڈ: 4322
سائز سائز سائز
البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

فصل : ۲۴

فضل المُکثِرِين مِن الصَّلاة عَلٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

( حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے والوں کی فضیلت )

۱۶۹ (۱) عن عبداﷲ بن مسعود : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال أولي الناس بي يوم القيامة أکثرهم عَلَيَّ الصلاة.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۲ : ۳۵۴، ابواب الوتر، باب ماجاء في فضل الصلاةعلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم رقم : ۴۸۴

۲. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۱۹۲، رقم : ۹۱۱

۳. ابو يعلي، المسند، ۸ : ۴۲۸، رقم : ۵۰۱۱

۴. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۲، رقم : ۱۵۶۳

۵. هيثمي، موررد الظمان، ۱ : ۵۹۴. رقم : ۲۳۸۹

۶. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۷، رقم : ۵۲۷۵

۷. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۱

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہوگا جو (دنیا میں) مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجا کرتا تھا۔‘‘

۱۷۰ (۲) عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : من سرّه أن يکتال له بالکميال الأوفي، إذا صلٰي علينا أهل البيت، فليقل : اللهم صل علٰي محمد النبي وأزواجه العالمين المؤمنين وذريته وأهل بيته کماصليت علٰي آل ابراهيم إنک حميد مجيد.

۱. ابوداؤد، السنن، ۱ : ۲۵۸، کتاب الصلاة، باب الصلاة عليٰ النبي صلي الله عليه وآله وسلم بعد التشهد، رقم : ۹۸۲

۲. بيهقي، السنن الکبريٰ، ۲ : ۱۵۱، رقم : ۲۶۸۲

۳. ديلمي، مسند الفردوس، ۳ : ۵۹۶، رقم : ۵۸۷۱

۴. عسقلاني، فتح الباري، ۱۱ : ۱۶۷

۵. مبارکفوري، تحفة الأحوذي، ۲ : ۴۹۵

۶. بخاري، التاريخ الکبير، ۳ : ۸۷

۷. مزي، تهذيب الکمال، ۱۹ : ۵۹

’’حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال (اجروثواب کے) پیمانے سے پورا پورا ناپا جائے جب وہ ہم اہل بیت پر درود بھیجے تو اسے یوں کہنا چاہے اے اللہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اطہار اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت پر جیسا کہ تونے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔‘‘

۱۷۱ (۳) عن حبان بن منقذ رضي الله عنه أن رجلاً قال يارسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أجعل ثلث صلاتي عليک قال نعم إن شئت قال الثلثين قال نعم قال فصلاتي کلها قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذن يکفيک اﷲ ماأهمک من أمر دنياک وآخرتک.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۴ : ۳۵، رقم : ۳۵۷۴

۲. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۸، رقم : ۲۵۷۸

’’حضرت حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں اپنی دعا کا تیسرا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کر دوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اگر تو چاہے (تو ایسا کرسکتا ہے) پھر اس نے عرض کیا دعا کا دو تہائی حصہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کر دوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں پھر اس نے عرض کیا ساری کی ساری دعا (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کر دوں) یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تواللہ تعالیٰ تیرے دنیا اور آخرت کے معاملات کے لئے کافی ہو گا۔‘‘

۱۷۲ (۴) عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : إن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : من صلي عَلَيََّّ صلاة کتب اﷲ له قيراطا والقيراط مثل أحد.

عبدالرزاق، المصنف، ۱ : ۵۱، رقم : ۱۵۳

’’حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک قیراط کے برابر ثواب لکھ دیتا ہے اور قیراط احد پہاڑ کی مثل ہے۔‘‘

۱۷۳ (۵) عن أبي أمامة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أکثروا عَلَيَّ من الصلاة في کل يوم جمعة فإن صلاة أمتي تعرض عَلَيََّّ في کل يوم جمعة فمن کان أکثرهم عَلَيَّ صلَاة کان أقربهم مني منزلة.

۱. بيهقي، السنن الکبري، ۳ : ۲۴۹، رقم : ۵۷۹۰

۲. بيهقي، شعب الايمان، ۳ : ۱۱۰، رقم : ۳۰۳۲

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۸، رقم : ۲۵۸۳

۴. ديلمي، مسند الفردوس، ۱ : ۸۱، رقم : ۲۵۰

’’حضرت ابو امامۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو بیشک میری امت کا درود ہر جمعہ کو مجھ پر پیش کیا جاتا ہے پس ان میں سے جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہو گا وہ مقام و مرتبہ میں بھی ان سب سے زیادہ میرے قریب ہو گا۔‘‘

۱۷۴ (۶) عن أنس بن مالک رضي الله عنه خادم النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : إن أقربکم مني يوم القيامة في کل موطن أکثرکم عَلَيَّ صلاة في الدنيا، من صلي علي في يو م الجمعة وليلة الجمعة مائة مرة قضي اﷲ له مائة حاجة، سبعين من حوائج الآخرة، وثلاثين من حوائج الدنيا، ثم يوکل اﷲ بذلک ملکا يد خله في قبري کما يد خل عليکم الهدايا، يخبرني من صلي عَلَيَّ باسمه ونسبه إلٰي عشيرته فأثبته عندي في صحيفة بيضاء.

بيهقي، شعب الايمان، ۳، ۱۱۱، رقم : ۳۰۳۵

’’حضرت انس بن مالک خادم النبی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک قیامت کے روز ہر مقام پر تم میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جو دنیا میں تم میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہو گا پس جو شخص جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر سو (۱۰۰) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری فرما دیتا ہے ستر حاجتیں آخرت کی حاجتوں سے اور تیس دنیا کی حاجتوں سے متعلق ہیں پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتے کو مقرر فرما دیتا ہے جو اسے اس طرح میری قبر انور میں پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں وہ فرشتہ مجھے اس شخص کا نام اور اس کے خاندا ن کا سلسلہ نسب بتاتا ہے پس میں یہ ساری معلومات اپنے پاس ایک سفید صحیفہ میں محفوظ کرلیتا ہوں۔‘‘

۱۷۵ (۷) عن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيََّّ في يوم ألف مرة لم يمت حتي يري مقعده من الجنة.

منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۸، رقم : ۲۵۷۹

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر ایک دن میں ہزار مرتبہ درود بھیجتا ہے اسے اس وقت تک موت نہیں آئی گی جب تک وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے۔‘‘

۱۷۶ (۸) عن عبداﷲ بن مسعود رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إن أولي الناس بي أکثرهم عَلَيَّ صلاة.

خطيب بغدادي، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، ۲ : ۱۰۳، رقم : ۱۳۰۴

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔‘‘

۱۷۷ (۹) عن أبي بکر الصديق موقوفاً قال : الصلاة عَلَيَّ النبي صلي الله عليه وآله وسلم امحق للخطايا من الماء للنار والسلام عليٰ النبي صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من عتق الرقاب وحب رسول اﷲ أفضل من مهج الأنفس : أو قال : ضربِ السيف في سبيل اﷲ.

۱. هندي، کنزالعمال، ۲ : ۳۶۷، رقم : ۳۹۸۲، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

۲. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۷ : ۱۶۱

’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے موقوفًا روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا پانی کے آگ کو بجھانے سے بھی زیادہ گناہوں کو مٹانے والا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجنا غلاموں کوآزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت جانوں کی روحوں سے زیادہ افضل ہے یا اس طرح کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ افضل ہے۔‘‘

فصل : ۲۵

تسليم الحجرو الشجر والجبل علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

( پتھروں، درختوں اور پہاڑوں کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجنا )

۱۷۸ (۱) عن جابر بن سمرة : قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إني لأعرف حجرًا بمکة کان يسلم عَلَيَّ قبل أن أبعث إني لأعرفه الآن.

۱. مسلم، الصحيح، ۴ : ۱۷۸۲، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلي الله عليه وآله وسلم و تسليم الحجر عليه صلي الله عليه وآله وسلم قبل النبوة، رقم : ۲۲۷۷

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۹۵

۳. دارمي، السنن، ۱ : ۲۴، رقم : ۲۰، باب ماکرم اﷲبه نبيه صلي الله عليه وآله وسلم

۴. ابن حبان، الصحيح، ۱۴ : ۴۰۲، رقم : ۶۴۸۲، باب المعجزات

۵. ابن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۱۳، رقم : ۳۱۷۰۵

۶. طبراني، المعجم الاوسط، ۲ : ۲۹۱، رقم : ۲۰۱۲

۷. طبراني، المعجم الکبير، ۲ : ۲۲۰، رقم : ۱۹۰۷

۸. طبراني، المعجم الصغير، ۱ : ۱۱۵، رقم : ۱۶۷

۹. ابونعيم، دلائل النبوة، ۱ : ۴۹، رقم : ۲۷

۱۰. أبو الفرج، صفوة الصفوة، ۱ : ۷۶

۱۱. أ صبهاني، العظمة، ۵ : ۱۷۱۰. ۱۷۱۱

۱۲. مبارکفوري، تحفة الأحوذي، ۱۰ : ۶۹

’’حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں مکہ کے اس پتھر کو جانتا ہوں جو میری بعثت سے پہلے مجھ پر سلام بھیجا کرتا تھا یقیناً میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘

۱۷۹ (۲) عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه : قال کنت مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم بمکة فخرجنا في بعض نواحيها فما استقبله جبل ولا شجر إلا و هو يقول ’’ السلام عليک يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ‘‘.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۵۹۳، کتاب المناقب، باب في آيات اثبات نبوة النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۳۶۲۶

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۲ : ۶۷۷، رقم : ۴۲۳۸

۳. دارمي، السنن، ۱ : ۲۵، رقم : ۲۱

۴. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۱۵۰، رقم : ۱۸۸۰

۵. مقدسي، الاحاديث المختار، ۲ : ۱۳۴، رقم : ۵۰۲

۶. مزي، تهذيب الکمال : ۱۴ : ۱۷۵، رقم : ۳۱۰۳

۷. أصبهاني، العظمة، ۵ : ۱۷۱۰

۸. جرجاني، تاريخ جرجان، ۱ : ۳۲۹

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں مکہ میں تھا ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مکہ سے باہر تشریف لے گئے پس راستے میں آنے والا ہر درخت اور پہاڑ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکار کر کہتا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلامتی ہو۔‘‘

۱۸۰ (۳) عن يعلٰي بن مرة الثقفي : هي شجرة إستأذنت ربها أن تسلم علي رسول اﷲ فأذن لها.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۴ : ۱۷۳

۲. عبد بن حميد، المسند، ۱ : ۱۵۴، رقم : ۴۰۵

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۹ : ۶

’’حضرت یعلی بن مرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اس درخت نے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کرے پس اسے اجازت مل گئی۔‘‘

۱۸۱ (۴) عن برة بنت أبي تجراة قالت : إن رسول اﷲ حين أراد اﷲ کرامته وابتداء ه بالنبوة کان إذا خرج لحاجته أبعد حتي لايري بيتًا ويفضي إلي الشعاب وبطون الأودية فلا يمر بحجرٍ ولا بشجرة إلا قالت ’’السلام عليک يارسول اﷲ‘‘ فکان يلتفت عن يمينه وشماله وخلفه فلا يري احداً.

۱. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۴ : ۷۹، رقم : ۶۹۴۲

۲. طبري، تاريخ الطبري، ۱ : ۵۲۹

۳. زهري، الطبقات الکبري، ۱ : ۱۵۷، ۸ : ۲۴۶

۴. أبو الفرج، صفوة الصفوة، ۱ : ۷۶

۵. فاکهي، أخبار مکة، ۵ : ۹۶، رقم : ۲۹۰۲

’’حضرت برۃ بنت ابو تجراۃ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بزرگی اور نبوت عطا کرنے کا ابتداء ً ارادہ فرمایا تو آپ قضائے حاجت کے لئے آبادی سے دور چلے جاتے گھاٹیاں اور کھلی وادیاں شروع ہو جاتیں تو آپ جس پتھر اور درخت کے پاس سے گزرتے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام عرض کرتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتے مگر کوئی انسان نظر نہ آتا۔‘‘

فصل : ۲۶

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بعد إجابة المؤذن

( مؤذن کی اذان کے بعد جواباً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا )

۱۸۲ (۱) عن عبداﷲ بن عمرو رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي فإنه ليس من أحد يصلي علي واحدة إلا صلي اﷲ عليه بها عشرا، ثم سلوا اﷲ لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة، لا تنبغي إلا لعبد من عباداﷲل وأرجو أن أکون أنا هو فمن سألها لي حلت له شفاعتي.

۱. مسلم، الصحيح، ۱ : ۲۸۸، کتاب الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذنِلمن سمعه ثم يصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ثم يسأل اﷲ له صلي الله عليه وآله وسلم الوسيلة، رقم : ۳۸۴

۲. نسائي، السنن، ۲ : ۲۵، کتاب الأذان، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بعدالاذان، رقم : ۶۷۷

۳. ابن خزيمه، الصيح، ۱ : ۲۱۸، باب فضل الصلاة علي البني صلي الله عليه وآله وسلم بعد افطر سماع الاذن، رقم : ۴۱۸

۴. عبد بن حميد، المسند، ۱ : ۱۳۹، رقم : ۳۵۴

۵. ابو عوانه، المسند، ۱ : ۲۸۱، رقم : ۹۸۳

۶. ابو نعيم، المسند المستخرج، ۲ : ۷، رقم : ۸۴۲

۷. نسائي، عمل اليوم والليلة، ۱ : ۱۵۸، رقم : ۴۵، باب الترغيب في الصلاة علي البني صلي الله عليه وآله وسلم و مسالة الوسيلة له صلي الله عليه وآله وسلم بين الاذان و الأقامة

۸. طبراني، مسند الشاميين، ۱ : ۱۵۳، رقم : ۲۴۶

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم مؤذن کو آذان دیتے ہوئے سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو پس جو بھی شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بے شک وسیلہ جنت میں ایک منزل ہے جو کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک کوملے گی اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا پس جس نے اس وسیلہ کو میرے لئے طلب کیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘

۱۸۳ (۲) عن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من قال حين ينادي المنادي أللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة النافعة صلِّ علي محمد وارض عني رضاء لا تسخط بعده إستجاب اﷲ له دعوته.

۱. احمد بن حنبل، المسند.۳ : ۳۳۷، رقم : ۱۴۶۵۹

۲. طبراني، المعجم الاوسط، ۱ : ۶۹، رقم : ۱۹۴

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۳۳۲

۴. منذري، الترغيب والترهيب، ۱ : ۱۱۶، رقم : ۳۹۶

۵. عجلوني، کشف الخفاء، ۱ : ۴۸۴

۶. صنعاني، سبل السلام، ۱ : ۱۳۱

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اذان سنتے وقت یہ کہا اے میرے اللہ اے اس دعوت کامل اور نفع دینے والی نماز کے رب تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج اور میرے ساتھ اس طرح راضی ہوجا کہ اس کے بعد تو (مجھ سے) ناراض نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس بندے کی دعا قبول فرما لیتا ہے۔‘‘

۱۸۴ (۳) عن عبداﷲ بن ضمرة السلولي قال : سمعت أبا الدرداء يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا سمع النداء قال : أللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة صلِّ علي محمد عبدک و رسولک واجعلنا في شفاعته يوم القيامة، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من قال هذه عندالنداء جعله اﷲ في شفاعتي يوم القيامة.

طبراني، المعجم الاوسط، ۴ : ۷۹، رقم : ۳۶۶۲

’’حضرت عبداللہ بن ضمرۃ سلولی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اذان کی آواز سنتے تو یہ فرماتے اے میرے اللہ اے اس دعوت کامل اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب تو اپنے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج اور قیامت کے روز ہمیں ان کی شفاعت عطا فرما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اذان سننے کے وقت اس طرح کہا تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کو میری شفاعت عطا کرے گا۔‘‘

۱۸۵ (۳) عن أبي الدرداء رضی الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يقول إذا سمِعَ المُوذِن : ’’اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة صل علي محمد وأعطه سؤله يوم القيامة وکان يسمعها من حوله ويجب أن يقولوا مثل ذلک إذا سمعوا المؤذن قال : ومن قال ذلک إذا سمع المؤذن وجبت له شفاعة محمد صلي الله عليه وآله وسلم يوم القيامة.

۱. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۳۳۳

۲. منذري، الترغيب والترهيب، ۱ : ۱۱۶، رقم : ۳۹۸

’’حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اذان سنتے تو یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے اے میرے اللہ اے اس دعوت کامل اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج اور قیامت کے روز انہیں ان کا اجر عطاء فرما اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کلمات اونچی آواز میں کہتے تاکہ اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے صحابہ کو سنا سکیں اور ان پر بھی واجب ہو کہ جب مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنیں تو اسی طرح کہیں جس طرح وہ کہتا ہے پھر راوی کہتے ہیں کہ جب کسی نے مؤذن کی اذان سن کر اس طرح کہا تو قیامت کے روز اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘

۱۸۶ (۵) عن أنس بن مالک قال : إذا أذن المؤذن فقال الرجل اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة أعط محمداً سؤله يوم القيامةإلا نالته شفاعة محمد صلي الله عليه وآله وسلم يوم القيامة.

۱. قيسراني، تذکره الحفاظ، ۱ : ۳۶۹، رقم : ۳۶۳

۲. ذهبي، سير اعلام النبلاء، ۱۰ : ۱۱۳، برواية يروي بن مالک

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی آدمی نے مؤذن کی اذان سن کر یہ کہا : اے میرے اللہ اے اس دعوت کامل اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت کے روز ان کا اجر عطا فرما تو قیامت کے روز وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا حقدار ٹھہرے گا۔‘‘

فصل : ۲۷

الملک موکل بقبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم يبلغه صلي الله عليه وآله وسلم باسم المصلي عليه صلي الله عليه وآله وسلم و أسم أبيه

( حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر مقرر فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنے والے کا نام اور اس کے والد کا نام پہنچاتا ہے)

۱۸۷ (۱) عن عمار بن ياسر رضی الله عنه يقول : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إن اﷲ وکل بقبري ملکا أعطاه أسماع الخلائق، فلا يصلي عَلَيَّ أحد إلي يوم القيامة، إلابلغني باسمه واسم أبيه هذا فلان بن فلان قد صلي عليک.

۱. بزار، المسند، ۴ : ۲۵۵، رقم : ۱۴۲۵

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۲

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۶، رقم : ۲۵۷۴

۴. اصبهاني، العظمة، ۲ : ۷۶۳

’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے میری قبر میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہوا ہے جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی آوازوں کو سننے (اور سمجھنے) کی قوت عطاء فرمائی ہے پس قیامت کے دن تک جو بھی مجھ پر درود پڑھے گا وہ فرشتہ اس درود پڑھنے والے کا نام اور اس کے والد کا نام مجھے پہنچائے گا اور کہے گا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں بن فلاں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا ہے۔‘‘

۱۸۸ (۲) عن يزيد الرقاشي قال : إن ملکا موکل بمن صلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم أن يبلغ عنه النبي صلي الله عليه وآله وسلم أن فلانا من أمتک صلي عليک.

۱. ابن ابي شيبه، المصنف، ۲ : ۲۵۳، رقم : ۸۶۹۹

۲. ا بن ابي شيبه، المصنف، ۶ : ۳۲۶، رقم : ۳۱۷۹۲

۳. سخاوي، القول البديع، ۲۳۵

’’حضرت یزید الرقاشی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بے شک ایک فرشتہ کو اس بات کے لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ جس کسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچائے اور یہ کہے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے فلاں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا ہے۔‘‘

۱۸۹ (۳) عن عمار بن ياسر رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إن ﷲ ملکا أعطاه أسماع الخلائق کلها وهو قائم علي قبري إذا مت فليس أحد من أمتي يصلي عَلَيَّ صلاة إلا اسماه بإسمه واسم أبيه قال : يا محمد صلي عليک فلان فيصلي الرب علي ذلک الرجل بکل واحدةعشرا.

۱. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۲

۲. منذري، الترغيب اولترهيب، ۲ : ۳۲۶، رقم : ۲۵۸۴

۳. مناوي، فيض القدير، ۲ : ۴۸۳

۴. اصبهاني، العظمة، ۲ : ۷۶۳

۵. مبارکفوري، تحفة الأحوذي، ۲ : ۴۹۷

’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جس کو اس نے تمام مخلوقات کی آوازں کو سننے (اور سمجھنے) کی قوت عطاء فرمائی ہے اور جب سے میں اس دنیا سے رخصت ہوا ہوں وہ میری قبر پر کھڑا ہے پس جب کوئی بھی میری امت میں سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ اس کا اور اس کے باپ کا نام لیتا ہے اور کہتا ہے اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ہر درود کے بدلہ اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا۔‘‘

۱۹۰ (۴) و رواه أبو علي الحسين بن نصير الطوسي في أحکامه و البزار في مسنده بلفظ أن اﷲ وکل بقبري ملکا أعطاه اﷲ أسماع الخلائق فلا يصلي عَلَيَّ أحد إلي يوم القيامة إلا أبلغني بإسمه واسم أبيه هذا فلان بن فلان قد صلي عليک.

۱. بزار، المسند، ۴ : ۲۵۵، رقم : ۱۴۲۵

۲. منذري الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۶، رقم : ۲۵۷۴

۳. سيوطي، شرح السيوطي، ۴ : ۱۱۰

’’اسی حدیث کو ابو علی حسین بن نصیر الطوسی نے اپنی کتاب الاحکام اور بزار نے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے میری قبر میں ایک فرشہ کو مقرر کیا ہے جس کو تمام مخلوقات کی آوازوں کو سننے کی قوت عطاء کی ہے پس قیامت تک جو کوئی بھی مجھ پر درود بھیجے گا وہ مجھے اس کا اور اس کے باپ کا نام پہنچا دے گا اور مجھے کہے گا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں بن فلاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے۔‘‘

۱۹۱ (۵) عن أبي أمامة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ صلي اﷲ عليه وسلم عشرًا بها، ملک موکل بها حتي يبلغنيها.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۸ : ۱۳۴، رقم : ۸۶۱۱

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۲

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۶، رقم : ۲۵۶۹

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے اور سلامتی نازل فرماتا ہے اور ایک فرشتہ (اس کام کے لئے) مقرر ہے کہ وہ درود مجھے پہنچائے۔‘‘

فصل : ۵

من ذکرت عنده فلم يصل عَلَيَّ فقد شقي

(بدبخت ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے)

۳۸ (۱) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : رغم أنفُ رجلٍ ذُکِرْتُ عنده، فلم يُصلِّ عَلَيَّ ورغم أنف رجل دخل عليه رمضان ثم انسلخ قبل أن يُغْفر لَه وَ رَغِمَ أنفُ رجل أدرک عنده أبواه الکبَر فلم يُدْخِلَاه الجنة.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۵۵۰، کتاب الدعوات، باب قول رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رغم أنف رجل، رقم : ۳۵۴۵

۲. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۱۸۹، رقم : ۹۰۸

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۲۵۴، رقم : ۷۴۴۴

’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا نام لیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔ اور ناک خاک آلود ہو اس آدمی کی جس کو رمضان کا مہینہ میسر آیا اور اس کی مغفرت سے قبل وہ مہینہ گزر گیا اور اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا لیکن وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرا سکے (کیونکہ اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوا)۔‘‘

۳۹ (۲) عن أبي هريرة رضي الله عنه : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم صعد المنبر فقال : آمين آمين آمين قيل : يا رسول اﷲ إنک حين صعدت المنبر قلت آمين آمين آمين قال : إن جبرئيل أتاني فقال من أدرک شهر رمضان و لم يغفر له فدخل النار فأبعده اﷲ قل : آمين فقلت : آمين و من أدرک أبويه أو أحدهما عند الکبر فلم يبرهما فمات فدخل النار فأبعده اﷲ قل آمين فقلت : آمين و من ذکرت عنده فلم يصل عليک فمات فدخل النار فأبعده اﷲ قل : آمين فقلت : آمين.

۱. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۱۸۸، رقم : ۹۰۷

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۵۴۹

۳. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۴ : ۱۷۰، رقم : ۷۲۵۶

۴. هيثمي، موارد الظمان، ۱ : ۵۹۳، رقم : ۲۳۸۷

۵. بخاري، الأدب المفرد، ۱ : ۲۲۵ باب من ذکر عنده النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم يصل عليه، رقم : ۶۴۶

۶. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۱۶۶

۷. عسقلاني، المطالب العالية، ۳ : ۲۳۳

۸. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۱۶۴، ۱۶۵

۹. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۳۱، رقم : ۲۵۹۵

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا آمین آمین آمین عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آمین آمین آمین، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک جبرئیل امین میرے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور اس کی بخشش نہ ہو اور وہ دوزخ میں داخل ہو جائے تو اﷲ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے (حضرت جبرئیل نے مجھ سے کہا) ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آمین کہئے‘‘ پس میں نے آمین کہا اور جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آیا اور جہنم کی آگ میں داخل ہوگیا اﷲ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں آمین پس میں نے آمین کہا اور وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا اور وہ جہنم کی آگ میں داخل ہوگیا پس اﷲ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں آمین تو میں نے کہا آمین۔‘‘

۴۰ (۳) عن جابر بن عبداﷲ رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من أدرک رمضان ولم يصمه فقد شقي ومن أدرک والديه أو أحدهما فلم يبره فقد شقي ومن ذکرت عنده فلم يصل عَلَيَّ فقد شقي.

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۴ : ۱۶۲، رقم : ۳۸۷۱

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۳ : ۱۳۹، ۱۴۰، باب فيمن ادرک شهر رمضان فلم يصمه

۳. مناوي، فيض القدير، ۶ : ۱۲۹، رقم : ۸۶۷۸

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بدبخت ہے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کے روزے نہ رکھے اور بدبخت ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کے ساتھ نیکی نہ کی اور بدبخت ہے وہ شخص جس کے سامنے میراذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔‘‘

۴۱ (۴) عن محمد بن عليقال : قال سول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من الجفاء ان أذکر عند رجل فلا يصلي عَلَيَّ.

۱. عبدالرزاق، المصنف، ۲ : ۲۱۷، رقم : ۳۱۲۱

۲. عسقلاني، فتح الباري، ۱۱ : ۱۶۸

’’حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بے وفائی ہے کہ کسی کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

فصل : ۶

کل دعاءٍ محجوب حتي يصلي علي محمدٍ صلي الله عليه وآله وسلم

(ہر دعا اس وقت تک حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجا جائے)

۴۲ (۱) عن عمربن الخطاب رضي الله عنه قال : إن الدعاء موقوف بين السماء و الأرض لا يصعد منه شييء حتي تصلي علي نبيک صلي الله عليه وآله وسلم

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۲ : ۳۵۶، کتاب الصلوٰة، باب ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۴۸۶

۲. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۳۰، رقم : ۲۵۹

۳. عسقلاني، فتح الباري، ۱۱ : ۱۶۴

۴. مزي، تهذيب الکمال، ۳۴، ۲۰۱، رقم : ۷۵۷۷

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعاء آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے اور اس میں سے کوئی بھی چیز اوپر نہیں جاتی جب تک تو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہیں بھیجے۔‘‘

۴۳ (۲) عن عبداﷲ قال کنت أصلي والنبي صلي الله عليه وآله وسلم وأبو بکر و عمر معه فلما جلست بدأت بالثناء علي اﷲ ثم الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ثم دعوت لنفسي فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم سل تعطه سل تعطه.

ترمذي، الجامع الصحيح، ۲ : ۴۸۸، کتاب الصلاة، باب ما ذکر في الثناء علي اﷲ والصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم قبل الدعاء، رقم : ۵۹۳

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا اور حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک نماز تھے پس جب میں تشھد میں بیٹھا تو سب سے پہلے میں نے اﷲ تعالیٰ کی ثناء بیان کی پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا پھر میں نے اپنے لئے دعا کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کچھ مانگو گے تمہیں عطا کیا جائے گا جو کچھ مانگو گے تمہیں عطا کیا جائے گا۔‘‘

۴۴ (۳) عن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لا تجعلوني کقدح الراکب إن الراکب إذا علق معاليقه أخذ قدحه فملأه من الماء فإن کان له حاجة في الوضؤ تَوَضَّأَ وإن کان له حاجة في الشرب شرب وَ إلَّا أهراق ما فيه : اجْعَلُوْنِي فِي أَوَّل الدُّعَاءِ وَ وسط الدعاءِ وَ آخِرِالدعاء.

۱. عبد بن حميد، المسند، ۱ : ۳۴۰، رقم : ۱۱۳۲

۲. قضاعي، مسند الشهاب، ۲ : ۸۹، رقم : ۹۴۴

۳. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۷، رقم : ۱۵۷۹

۴. ديلمي، مسند الفردوس، ۵ : ۱۵۸، رقم : ۷۴۵۱

۵. خلال، السنة، ۱ : ۲۲۵، رقم : ۲۲۶

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے قدح الراکب (مسافر کے پیالہ) کی طرح نہ بناؤ بے شک مسافر جب اپنی چیزوں کو اپنی سواری کے ساتھ لٹکاتا ہے تو اپنا پیالہ لے کر اس کو پانی سے بھر لیتا ہے پھر اگر (سفر کے دوران) اس کو وضو کی حاجت ہوتی ہے تو وہ (اس پیالے کے پانی سے) وضو کرتا ہے اور اگر اسے پیاس محسوس ہو تو اس سے پانی پیتا ہے وگرنہ اس کو بہا دیتا ہے۔ فرمایا مجھے دعا کے شروع میں وسط میں اور آخر میں وسیلہ بناؤ۔‘‘

۴۵ (۴) عن علي ابن ابي طالب رضي الله عنه قال : کل دعاءٍ محجوبٌ عن اﷲ حتي يصلي علي محمدٍ و علي آل محمد.

۱. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۶، رقم : ۱۵۷۵، ۱۵۷۶

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۰، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم في الدعاء وغيره

۳. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۳۰، رقم : ۲۵۸۹

۴. مناوي، فيض القدير، ۵ : ۵۴۳

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ ہر دعا اس وقت تک حجاب میں رکھتا ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود نہ بھیجا جائے۔‘‘

۴۶ (۵) عن علي رضي الله عنه قال : کل دعاء محجوب حتي يصلي علي محمد صلي الله عليه وآله وسلم

ديلمي، مسند الفردوس، ۳ : ۲۵۵، رقم : ۴۷۵۴

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر درود نہ بھیجا جائے۔‘‘

۴۷ (۶) عن ابن عمر رضي الله عنه بلفظ ان الدعاء موقوف بين السماء و الارض و لا يصعد منه شيء حتي يصلي علي محمدٍ

مناوي، فيض القدير، ۳ : ۵۴۳

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت ہے کہ بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے اور اس میں سے کوئی بھی چیز آسمان کی طرف نہیں بلند ہوتی جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہیں بھیجا جاتا۔‘‘

۴۸ (۷) عن أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما من دعاء إلَّا و بينه و بين اﷲ عزوجل حجاب حتي يصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فإذا فعل ذلک انخرق ذلک الحجاب و دخل الدعاء، و إذا لم يفعل ذلک رجع الدعاء.

ديلمي، مسندالفردوس، ۴ : ۴۷، رقم : ۶۱۴۸

’’امیر المؤمنین حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دعا ایسی نہیں جس کے اور اﷲ کے درمیان حجاب نہ ہو یہاں تک کہ دعا کرنے والا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودبھیجے اورجب وہ درود بھیجتا ہے تو جو پردہ حائل تھا وہ پھٹ جاتا ہے اور دعاء (حریم قدس میں) داخل ہو جاتی ہے اور اگر دعا کرنے والا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجے تو وہ دعا واپس لوٹ آتی ہے۔‘‘

۴۹ (۸) عن علي عن البني صلي الله عليه وآله وسلم أنه قال : الدعاء محجوب حتي يختم بالصلاة عَلَيَ.

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۱ : ۴۰۸، رقم : ۷۲۵

۲. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۶، رقم : ۱۵۷۶

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دعا اس وقت تک پردہ میں رہتی ہے جب تک اس کا اختتام مجھ پر درود کے ساتھ نہ کیا جائے۔‘‘

۵۰ (۹) عن علی رضي الله عنه قال : الدعاء محجوب عن السماء حتي يتبع بالصلاة علي محمدٍ و آله.

عسقلاني، لسان الميزان، ۴ : ۵۳، رقم : ۱۵۰

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ دعا آسمان سے اس وقت تک پردہ میں رہتی ہے جب تک اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود نہ بھیجا جائے۔‘‘

۵۱ (۱۰) عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : کل دعاءٍ محجوب عن السماء حتي يصلي علي محمد صلي الله عليه وآله وسلم وعلي آل محمد صلي الله عليه وآله وسلم

بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۶، رقم : ۱۵۷۵

’’حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر دعا اس وقت تک آسمان کے نیچے حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود نہ بھیجا جائے۔‘‘

۵۲ (۱۱) عن علي رضي الله عنه مرفوعًا : ما من دعاءٍ إلَّا بينه و بين السماء حجاب حتي يصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فإذا فعل ذٰلک انخرق الحجاب ودخل الدعاء، و إذا لم يفعل ذلک رجع الدعاء.

ديلمي، مسند الفردوس، ۴ : ۴۷، رقم : ۶۱۴۸

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے کہ کوئی دعا ایسی نہیں کہ جس کے اور آسمان کے درمیان حجاب نہ ہو یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا جائے پس جب ایسا کیا جاتا ہے تو وہ پردہ چاک ہو جاتا ہے اور دعا اس میں داخل ہو جاتی ہے اور جب ایسا نہیں کیا جاتا تو وہ واپس لوٹ آتی ہے۔‘‘

۵۳ (۱۲) قال أمير المؤمنين علي رضي الله عنه إذا دعا الرجل و لم يذکر النبي صلي الله عليه وآله وسلم رفرف الدعاء فوق رأسه، و إذا ذکر النبي صلي الله عليه وآله وسلم رفع الدعاء.

۱. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۱۲

۲. مقدسي، الأحاديث المختاره، ۹ : ۸۲

۳. سخاوي، القول البديع : ۲۲۲

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی آدمی دعا مانگتا ہے اور اس دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر نہیں کرتا تو وہ دعا اس کے سر پر منڈلاتی رہتی ہے اور جب وہ اس دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ دعا آسمانوں کی طرف بلند ہو جاتی ہے۔‘‘

۵۴ (۱۳) عن عبداﷲ بن بسر رضي الله عنه يقول : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الدعاء کله محجوب حتي يکون أوله ثناء علي اﷲ و صلاة علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ثُم يدعو يستجاب لدعائه.

۱. قيصراني، تذکرة الحفاظ، ۳ : ۱۰۲۶

۲. ذهبي، سيراعلام النبلاء، ۱۷ : ۱۱۴

’’حضرت عبد اﷲ بن بسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دعا ساری کی ساری پردہ میں رہتی ہے یہاں تک کہ اس کے شروع میں اﷲ عزوجل کی ثناء اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجا گیا ہو اور جب یہ چیزیں دعا کے شروع میں ہوں تو وہ مقبول ہوتی ہے۔‘‘

۵۵ (۱۴) عن ابن مسعود رضي الله عنه قال : إذا أراد أحدکم أن يسأل فليبدا بالمدحة و الثناء علي اﷲ بما هو أهله، ثم ليصل علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ثم ليسأل بعد فإنه أجدر أن ينجح

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۹ : ۱۵۵، رقم : ۸۷۸۰

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۵۵، باب فيما يستفتح به الدعاء من حسن الثناء علي اﷲ سبحانه و الصلاة علي النبي محمد صلي الله عليه وآله وسلم

۳. معمر بن راشد، الجامع، ۱۰ : ۴۴۱

’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی اﷲ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگنا چاہے تو سب سے پہلے وہ اﷲ تعالیٰ کی ایسی مدح و ثناء سے ابتدا کرے جس کا وہ اہل ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے پھر اﷲ تعالیٰ سے اپنی حاجت مانگے تو یہ دعا زیادہ اہل ہے کہ کامیاب ہو۔‘‘

۵۶ (۱۵) عن فضالة بن عبيد رضي الله عنه قال : بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قاعد إذا دخل رجل فصلي فقال : اللهم اغفرلي و ارحمني، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أيها المصلي إذا صليت فقعدت فاحمد اﷲ بما هو أهله و صَلِّ عَلَيَّ ثم أدعه.

۱. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۵۶، باب فيما يستفتح به الدعاء من حسن الثناء علي اﷲ سبحانه و الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھی پھر دعا کی اے اﷲ مجھے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے نماز ادا کرنے والے جب تم اپنی نماز ادا کر چکو تو بیٹھ کر اﷲ تعالیٰ کی ایسی تعریف کرو جس کا وہ اہل ہے اور مجھ پر درود بھیجا کرو پھر دعا کرو۔‘‘

۵۷ (۱۶) عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أنه قال : الدعاء يحجب دون السماء حتٰي يصلي علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فإذا جاء ت الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم رفع الدعاء.

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، ۱۴ : ۲۳۵

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دعا اس وقت تک آسمان کے نیچے حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجا جائے پس جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے تو وہ دعا بلند ہوجاتی ہے۔‘‘


4

5

6

7

8

9

10