البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم20%

البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16911 / ڈاؤنلوڈ: 3920
سائز سائز سائز
البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

البَدرُ التَّمَامُ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰی صَاحِبِ الدُّنُوِّ وَ المَقَامِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

فصل : ۳۲

من صلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم صلي اﷲ عليه ومن سلم عليه صلي الله عليه وآله وسلم سلم اﷲ عليه

(جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر درود بھیجتا ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے اللہ اس پر سلام بھیجتا ہے)

۲۱۰ (۱) عن عبدالرحمٰن بن عوف رضي اﷲ عنه قال : خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فاتبعته حتٰي دخل نخلا فسجد فأطال السجود حتٰي خفت أوخشيت أن يکون اﷲ قد توفاه أو قبضه قال فجئت أنظر فرفع رأسه فقال مالک يا عبدالرحمٰن قال فذکرت ذلک له فقال إن جبريل عليه السلام قال لي : ألا أبشرک أن اﷲل يقول لک من صلٰي عليک صليت عليه ومن سلم عليک سلمت عليه.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۹۱، رقم : ۱۶۶۲

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۳۴۴، رقم : ۸۱۰

۳. بيهقي، السنن الکبريٰ، ۲ : ۳۷۰، رقم : ۳۷۵۲

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۲ : ۲۸۷

۵. مقدسي، الاحاديث المختاره، ۳ : ۱۲۶، رقم : ۹۲۶

۶. منذري، الترغيب والترهيب، رقم : ۲۵۶۱

۷. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، ۱ :. ۲۴۹، رقم : ۲۳۶

۸. صنعاني، سبل السلام، ۱ : ۲۱۱

’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجوروں کے ایک باغ میں داخل ہو گئے پھر وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لمبا سجدہ کیا اتنا لمبا کہ میں ڈر گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح قبض نہ کرلی ہو آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور اٹھایا اور فرمایا اے عبدالرحمٰن تیرا کیا معاملہ ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا ماجرا بیان کر دیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا کیا میں آپ کو خوش خبری نہ دوں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے میں اس پر درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہوں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے میں اس پر سلامتی بھیجتا ہوں۔‘‘

۲۱۱ (۲) عن عبدالرحمٰن بن عوف، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : إني لقيت جبرائيل عليه السلام فبشرني و قال : إن ربک يقول : من صلي عليک صليت عليه، و من سلم عليک سلمت عليه، فسجدت ﷲ عزَّوجلّ شکرًا.

۱. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۷۳۵، رقم : ۲۰۱۹

۲. عبد بن حميد، المسند، ۱ : ۸۲، رقم : ۱۵۷

۳. بيهقي، السنن الکبري، ۲ : ۳۷۱، رقم : ۳۷۵۳

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۲ : ۲۸۷، باب سجود الشکر

۵. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۴۳، رقم : ۵۲۶۱

۶. مقدسي، الاحاديث المختارة، ۳ : ۱۲۶، رقم : ۹۲۶

۷. شافعي، الام، ۲ : ۲۴۰

۸. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، ۱ : ۲۴۹، ۲۳۶

’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک میں جبرئیل علیہ السلام سے ملا تو اس نے مجھے یہ خوشخبری دی کہ بے شک آپ کا رب فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے میں بھی اس پر درود و سلام بھیجتا ہوں پس اس بات پر میں اﷲ کے حضور سجدہ شکر بجا لایا۔‘‘

۲۱۲ (۳) عن ابن عمر و أبي هريرة رضي الله عنه قالا : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صلُّوا عَلَيَّ صَلَّي اﷲُ عليکم.

مناوي، فيض القدير، ۴ : ۲۰۴

’’حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھ پر درود بھیجا کرو اﷲ تبارک و تعالیٰ تم پر درود (بصورتِ رحمت) بھیجے گا۔‘‘

۲۱۳ (۴) عن عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضي الله عنهم قال مَنْ صَلَّي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صلاة صلي اﷲ عليه وسلم و ملائکته سبعين صلاة، فَلْيقلَّ عبد من ذلک أولِيُکْثر.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۱۷۲، رقم : ۶۶۰۵

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۰

۳. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۲۵، رقم : ۲۵۶۶

۴. عجلوني، کشف الخفاء، ۲ : ۳۳۷، رقم : ۲۵۱۷

۵. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۲

’’حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھم روایت کرتے ہیں کہ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ درود بھیجتے ہیں پس اب بندہ کو اختیار ہے چاہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کم درود بھیجے یا زیادہ۔‘‘

۲۱۴ (۵) عن عبدالرحمٰن بن عوف رضي الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خرج عليهم يوما وفي وجهه البشر فقال : إن جبريل جاء ني فقال ألا أبشرک يا محمد صلي الله عليه وآله وسلم بما أعطاک اﷲ من أمتک و ما أعطا أمتک منک من صلي عليک منهم صلاة صلي اﷲ عليه و من سلم عليک سلم اﷲ عليه.

مقدسي، الاحاديث المختاره، ۳ : ۱۲۹، رقم : ۹۳۲

’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمایاں تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک جبرئیل امین نے میری خدمت میں حاضرہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں آپ علیہ الصلاۃ و السلام کو اس چیز کے بارے میں خوشخبری نہ سناؤں جو اﷲ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی طرف سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عطاء کی ہے اور وہ یہ کہ ان میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر درود بھیجتا ہے اور ان میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے اﷲ اس پر سلام بھیجتا ہے۔‘‘

۲۱۵ (۶) عن أبي طلحة : قال دخلت علٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فرأيت من بشره وطلاقته شيئا لم أره علٰي مثل تلک الحال قط فقلت يارسول اﷲ ما رأيتک علٰي مثل هذه الحال قط فقال وما يمنعي يا أباطلحه وقد خرج من عندي جبريل عليه السلام أنفأ فأ تاني ببشارة من ربي قال إن اﷲ عزوجل بعثني إليک أبشرُک أنَّه ليس أحَد من أمتک يصلي عليک صلاة إلا صلي اﷲ و ملائکته عليه بها عشرًا.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۵ : ۱۰۰، رقم : ۴۷۱۹

’’حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرا ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو کھلا ہوا اور اس طرح مسکراتا ہوا پایا کہ اس سے پہلے اس طرح بھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے پہلے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حال میں نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو طلحہ بات یہ ہے کہ ابھی ابھی جبرئیل امین میرے پاس سے گئے ہیں اور وہ میرے رب کی طرف سے میرے لئے بشارت لے کر حاضر ہوئے تھے اور کہا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بھیجا ہے تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشخبری سنا سکوں اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت و دعا) بھیجتے ہیں۔‘‘

فصل : ۳۳

من ذکرت عنده فليصل علي

(جس شخص کے پاس میرا ذکر کیا جائے اسے (سن کر) چاہیے کہ مجھ پر درود بھیجے )

۲۱۶ (۱) عن أنس بن مالک أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : من ذکرت عنده فليصل عَلَيَّ ومن صلي عَلَيَّ مرة واحدة صلي اﷲ عليه عشرًا.

۱. نسائي، السنن الکبريٰ، ۶ : ۲۱، رقم : ۹۸۸۹

۲. ابويعلي، المسند، ۷ : ۷۵، رقم : ۴۰۰۲

۳. ابو یعلی، المعجم، ۱ : ۲۰۳، رقم : ۲۴۰

۴. طبرانی، المعجم الاوسط، ۵ : ۱۶۲، رقم : ۴۹۴۸

۵. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۱۳۷، باب کتابة الصلاةعلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم لمن ذکره اوذکرعنده

۶. طيالسي، المسند، ۱ : ۲۸۳، رقم : ۲۱۲۲

۷. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۳، رقم : ۲۵۵۹

۸. مناوي، فيض القدير، ۶ : ۱۲۹

۹. نسائي، عمل اليوم الليلة، ۱ : ۱۶۵، رقم : ۶۱

۱۰. ابونعيم، حلية الاولياء، ۴ : ۳۴۷

۱۱. ذهبي، سيراعلام النبلاء، ۷ : ۳۸۳

۱۲. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۲

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے پا س میرا ذکر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ (ذکر سن کر) مجھ پر درود بھیجے اور جومجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

۲۱۷ (۲) عن جابر بن عبداﷲ قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من ذکرت عنده فلم يصل عَلَيَّ فقد شقي.

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۴ : ۱۶۲، رقم : ۳۸۷۱

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۳ : ۱۳۹، باب فيمن ادرک شهر رمضان فلم يصمه

۳. مناوي، فيض القدير، ۶ : ۱۲۹، رقم : ۸۶۷۸

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بدبخت ہے وہ شخص جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

۲۱۸ (۳) عن أنس قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من ذکرني فليصل عَلَيَّ ومن صلي عَلَيَّ واحدة صليت عليه عشرا.

۱. ابو يعلي، المسند، ۶ : ۳۵۴، رقم : ۳۶۸۱

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۱۳۷، باب کتابة الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم لمن ذکره او ذکر عنده

۳. مقدسي، الاحاديث المختارة، ۴ : ۳۹۵، رقم : ۱۵۶۷

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھی میرا ذکر کرتا ہے اسے چاہے کہ وہ مجھ پر درود بھیجے اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہوں۔‘‘

۲۱۹ (۴) عن محمد بن علي قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من الجفاء أن أذکر عند رجل فلا يصلي عَلَيَّ.

عبدالرزاق، المصنف، ۲ : ۲۱۷، رقم : ۳۱۲۱

’’حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ جفا (بے وفائی) ہے کہ کسی شخص کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

۲۲۰ (۵) عن أنس بن مالک عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : من ذکرت عنده فليصل عَلَيَّ وقال صلي الله عليه وآله وسلم أکثروا الصلاة عَلَيَّ في يوم الجمعة.

(۱) ابونصر، تهذيب مستمر الاوهام، ۱ : ۱۷۸

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس میرا ذکر ہو اسے چاہیے کہ وہ مجھ پر درود بھیجے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت اپنا معمول بنا لو۔‘‘

فصل : ۳۴

البخيل هوالذي إن ذکر عنده النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يصل عليه صلي الله عليه وآله وسلم

(بخیل ہے وہ شخص کہ جس کے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجے)

۲۲۱ (۱) عن حسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : البخيل الذي من ذُکِرتُ عنده لم يُصلِّ عليَّ.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۵۵۱، کتاب الدعوات، باب قول رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ’’رغم أنف رجل‘‘ رقم : ۳۵۴۶

۲. نسائي، السنن الکبري، ۶ : ۲۰، رقم : ۹۸۸۵

۳. ابو يعلي، المسند، ۱۲ : ۱۴۷، رقم : ۶۷۷۶

۴. بزار، المسند، ۴ : ۱۸۵

۵. طبراني، المعجم الکبير، ۳ : ۱۲۷، رقم : ۲۸۸۵

۶. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۴، رقم : ۱۵۶۷

۷. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۳۲، رقم : ۲۶۰۰

۸. شيباني، الآحاد و المثاني، ۱ : ۳۱۱، رقم : ۴۳۲

۹. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۳

’’حضرت حسین بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

۲۲۲ (۲) عن أبي ذر رضي الله عنه أنَّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : إنَّ أبخلَ الناس من ذُکِرتُ عنده، فلم يصلِّ عليَّ.

۱. حارث، المسند، ۲ : ۹۶۳، رقم : ۱۰۶۴

۲. مناوي، فيض القدير، ۲ : ۴۰۴

۳. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۳

’’حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

۲۲۳ (۳) عن الحسن رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کفي به شُحًا أن أذکر عنده ثم لا يصلي عَلَيَّ.

۱. ابن ابي شيبه، المصنف، ۲ : ۲۵۳، رقم : ۸۷۰۱

۲. ابن قيم، جلاء الافهام، ۵۴۵

’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی کے کنجوس ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ میرا ذکر اس کے سامنے کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

۲۲۴ (۴) عن أبي ذر رضي الله عنه قال : خرجت ذات يوم فأتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال صلي الله عليه وآله وسلم : ألا أخبرکم بأبخل الناس؟ قالوا : بلي يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قال : من ذکرت عنده فلم يصل عَلَيَّ.

۱. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۳۲، رقم : ۲۶۰۱

۲. عجلوني، کشف الخفاء، ۱ : ۳۳۲، رقم : ۸۸۶

’’حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دن باہر نکلا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں لوگوں میں سے سب سے زیادہ بخیل شخص کے بارے میں نہ بتاؤں صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے زیادہ بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

فصل : ۳۵

من صلي علٰي محمد صلي الله عليه وآله وسلم طهر قلبه من النفاق

(جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے اس کا دل نفاق سے پاک ہو جاتا ہے)

۲۲۵ (۱) عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ صلاة واحدة صلي اﷲ عليه عشراً ومن صلي عَلَيَّ عشرا صلي اﷲ عليه مائة ومن صلي عَلَيَّ مائة کتب اﷲ بين عينيه براء ة من النفاق و براء ة من النار وأسکنه اﷲ يوم القيامة مع الشهداء.

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۷ : ۱۸۸، رقم : ۷۲۳۵

۲. طبراني، المعجم الصغير، ۲ : ۱۲۶، رقم : ۸۹۹

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۳

۴. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۳، رقم : ۲۵۶۰

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہے اورجو مجھ پر دس مرتبہ درود بھیجتاہے اللہ اس پر سو مرتبہ درود (بصورتِ دعا) بھیجتا ہے اور جو مجھ پرسو مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں کے درمیان نفاق اور جہنم کی آگ سے براء ت لکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کا ٹھکانہ شہداء کے ساتھ کرے گا۔‘‘

۲۲۶ (۲) عن أبي المظفر محمد بن عبد اﷲ الخيام السمر قندي قال دخلت يومًا في مغارة لعب فضللت الطريق فإذا برجل رأيته فقلت ما إسمک قال أبو العباس و رأيت معه صاحبًا له فقلت ما إسمه فقال الياس بن سام فقلت هل رأيتما محمدًا صلي الله عليه وآله وسلم قالا نعم فقلت بعزة اﷲ أن تخبراني شيئًا حتي أروي عنکما قالا سمعنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول ما من مؤمن يقول صلي اﷲ علي محمدٍ الا طهر قلبه من النفاق و سمعاه يقول من قال صلي اﷲ علي محمد فقد فتح سبعين بابًا من الرحمة.

عسقلاني، لسان الميزان، ۵ : ۲۲۱، رقم : ۷۷۶

’’حضرت ابو مظفر محمد بن عبداﷲ خیام سمر قندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں کھیل والے غار میں داخل ہوا اور اپنا راستہ بھول گیا اچانک میں نے ایک آدمی کو دیکھا میں نے اس سے اس کا نام پوچھا اس نے کہا میرا نام ابو عباس ہے اس کے ساتھ اس کا دوست بھی تھا میں نے اس کا بھی نام پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کا نام الیاس بن سام ہے پھر میں نے ان سے پوچھا کیا تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہوا ہے انہوں نے ہاں میں جواب دیا پھر میں نے کہا اﷲ کی عزت کا واسطہ مجھے کسی ایسی چیز کے بارے بتاؤ جو میں تم سے روایت کر سکوں تو ان دونوں نے کہا کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مومن بھی صلی اﷲ علی محمد کہتا ہے اس کا دل نفاق سے پاک ہو جاتا ہے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو صلی اﷲ علی محمد کہتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر رحمت کے ستر دروازے کھول دیتا ہے۔‘‘

فصل : ۳۶

إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم يرد السلام علي من سَلَّمَ عليه صلي الله عليه وآله وسلم

(حضور علیہ الصلاۃ والسلام اپنے اوپر ہدیہ سلام بھیجنے والے کو سلام کا جواب دیتے ہیں)

۲۲۷ (۱) عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : مامن أحدٍ يسلم عَلَي إلا ردَّ اﷲ عَلَي روحي حتي أرد عليه السلام.

۱. ابو داؤد، السنن، ۲ : ۲۱۸، کتاب اللقطة، باب زيارة القبور، رقم : ۲۰۴۱

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۵۲۷، رقم : ۱۰۸۲۷

۳. بيهقي، السنن الکبريٰ، ۵ : ۲۴۵، رقم : ۱۰۰۵۰

۴. بيهقي، شعب الايمان، باب تعظيم النبي صلي الله عليه وآله وسلم واجلاله و توقيره، رقم : ۱۵۸۱

۵. هندي، کنزالعمال، ۱ : ۴۹۱، باب الصلاة عليه، رقم : ۲۱۶۱

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تبارک تعالیٰ مجھے میری روح لوٹا دیتا ہے پھر میں اس سلام بھیجنے والے کو سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘

۲۲۸ (۲) عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ بلغتني صلاته وصليت عليه وکتبت له سوي ذلک عشر حسنات.

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۲ : ۱۷۸، رقم : ۱۴۶۲

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۲

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۶، رقم : ۲۵۷۲

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کا درود مجھے پہنچ جاتا ہے اور جواباً میں بھی اس پر درود بھیجتا ہوں اور اس کے علاوہ اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔‘‘

۲۲۹ (۳) عن محمد بن عبدالرحمٰن أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : ما منکم من أحد يسلم علي إذا مت إلا جاء ني سلامه مع جبريل يقول يا محمد هذا فلان بن فلان يقرأ عليک السلام فأقول و عليه سلام اﷲ وبرکاته.

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، ۱۴ : ۲۳۷

’’حضرت محمد بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے مرنے کے بعد جو بھی تم میں سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ مجھے پہنچ جاتا ہے اور جبرئیل علیہ السلام مجھے کہتا ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں بن فلاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے پس میں کہتا ہوں کہ اس پر بھی اﷲ کی سلامتی اور برکات ہوں۔‘‘

۲۳۰ (۴) عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مامن مسلم سلم علي في شرق ولا غرب إلا أنا وملائکة ربي نرد عليه السلام. .

ابو نعيم، حلية الاولياء، ۶ : ۳۴۹

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شرق و غرب میں جو بھی مسلمان مجھ پر سلام بھیجتا ہے میں اور میرے رب کے فرشتے اسے اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔‘‘

۲۳۱ (۵) عن أبو قرصافة قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من أوي إلي فراشه ثم قرأسورة تبارک ثم قال أللهم رب الحل والحرام ورب البلد الحرام ورب الرکن والمقام ورب المشعر الحرام وبحق کل آية أنزلتها في شهر رمضان بلغ روح محمد صلي الله عليه وآله وسلم مني تحية وسلاما أربع مرات وکل اﷲ به الملکين حتي يأتيا محمدا صلي الله عليه وآله وسلم فيقولا له ذلک فيقول صلي الله عليه وآله وسلم وعلي فلان بن فلان مني السلام و رحمة اﷲ و برکاته.

ابن حيان، طبقات المحدثين بأصفهان، ۳ : ۴۳۴، رقم : ۴۴۱

’’حضرت ابو قرصافہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جو شخص اپنے بستر میں داخل ہونے کے بعد سورہ تبارک پڑھتا ہے اور پھر یوں کہتا ہے : اے حلال و حرام کے رب! اے حرمت والے شہر کے رب! اے رکن اور مقام کے رب! اور مشعرالحرام کے رب! تو ہر اس آیت کے واسطے جس کو تو نے شہر رمضان میں نازل فرمایا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مقدسہ کو میری طرف سے سلام بھیج اور وہ اس طرح چار مرتبہ کہے تو اﷲ تعالیٰ دو فرشتوں کو مقرر کردیتا ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جائیں اور ان کو ایسا ہی کہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ فلاں بن فلاں کو میری طرف سے سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکت عطا ہو۔‘‘

فصل : ۳۷

زينوا مجالسکم بالصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

(تم اپنی مجالس کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے ذریعے سجایا کرو)

۲۳۲ (۱) عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم زينوا مجالسکم بالصلوات عَلَيَّ فإن صلواتکم عَلَيَّ نور لکم يوم القيامة.

ديلمي، مسند الفردوس، ۲ : ۲۹۱، رقم : ۳۳۳۰

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی مجالس کو مجھ پر درود بھیج کر سجایا کرو بے شک تمہارا مجھ پر درود بھیجنا قیامت کے دن تمہارے لئے نور کا باعث ہوگا۔‘‘

۲۳۳ (۲) عن ابن عمر الخطاب رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم زينوا مجالسکم بالصلاة عَلَيَّ فإن صلا تکم عَلَيَّ نور لکم يوم القيامة.

مناوي، فيض القدير، ۴ : ۶۹

’’حضرت ابن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی مجالس کو مجھ پر درود بھیج کر سجایا کرو پس بے شک تمہارا مجھ پر درود بھیجنا قیامت کے روز تمہارے لئے نور کا باعث ہوگا۔‘‘

۲۳۴ (۳) عن عائشه رضي اﷲ تعالي عنها زينوا مجالسکم بالصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم و بذکر عمر بن الخطاب.

۱. عجلوني، کشف الخفاء، ۱ : ۵۳۶، رقم : ۱۴۴۳

۲. عسقلاني، لسان الميزان، ۲ : ۲۹۴، رقم : ۱۲۲۱

۳. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۷ : ۲۰۷، رقم : ۳۶۷۴

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ (اے لوگوں) تم اپنی مجالس کو حضور علیہ السلام پر درود بھیج کر اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ذکر کر کے سجایا کرو۔‘‘

۲۳۵ (۴) عن عائشه رضي اﷲ تعالي عنها مرفوعًا قالت : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : زينوا مجالسکم بالصلاة عَلَيَّ، فان صلاتکم عَلَيَّ نور لکم يوم القيامة.

عجلوني، کشف الخفاء، ۱ :. ۵۳۶، رقم : ۱۴۴۳

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا سے مرفوعًا روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (اے لوگو) تم اپنی محافل و مجالس کومجھ پر درود بھیج کر سجایا کرو بے شک تمہارا مجھ پر درود بھیجنا قیامت کے روز تمہارے لئے نور کا باعث ہو گا۔‘‘

۲۳۶ (۵) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال : رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : زينوا مجالسکم بالصلاة عَلَيَّ فإن صلاتکم تعرض عَلَيَّ أو تبلغني.

عجلوني، کشف الخفاء، ۱ : ۵۳۶، رقم : ۱۴۴۳

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (اے لوگو) مجھ پر درود بھیجنے کے ذریعے اپنی مجالس کو سجایا کرو بے شک تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے یا مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

فصل : ۳۸

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم تکفي الهموم

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا دافع رنج و بلاء ہے)

۲۳۷ (۱) عن أبي بن کعب رضي الله عنه قال : کا ن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا ذهب ثلثا الليل قام فقال يا أيهاالناس أذکروا اﷲ جاء ت الراجفة تتبعها الرادفة، جاء الموت بما فيه جاء الموت بما فيه قال أبي : قلت يارسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إني أکثر الصلاة عليک فکم أجعل لک من صلاتي فقال ما شئت قال قلت الربع قال ماشئت فإن زدت فهو خيرلک قلت النصف قال ماشئت فإن زدت فهو خير لک قال قلت فالثلثين قال ماشئت فإن زدت فهو خيرلک قلت أجعل لک صلاتي کلها قال إذا تکفي همک ويغفرلک ذنبک.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۴ : ۶۳۶، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب نمبر ۲۳، رقم : ۲۴۵۷

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۵ : ۱۳۶، رقم : ۲۱۲۸۰

۳. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۲ : ۴۵۷، رقم : ۳۵۷۸

۴. مقدسي، الاحاديث المختارة، ۳ : ۳۸۹، رقم : ۱۱۸۵

۵. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۱۸۷، رقم : ۱۴۹۹

۶. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۷، رقم : ۲۵۷۷

۷. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۱

’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب رات کا دو تہائی حصہ گزر جاتا تو گھر سے باہر تشریف لے آتے اور فرماتے اے لوگو! اللہ کا ذکر کرو اللہ کا ذکر کرو ہلا دینے والی(قیامت) آگئی۔ اس کے بعد پیچھے آنے والی (آ گئی) موت اپنی سختی کے ساتھ آگئی موت اپنی سختی کے ساتھ آ گئی۔ میرے والد نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردرود بھیجتا ہوں۔ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنا درود بھیجوں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جتنا تو بھیجنا چاہتا ہے میرے والد فرماتے ہیں میں نے عرض کیا (یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کیا میں اپنی دعا کا چوتھائی حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دعاء بھیجنے کے لئے خاص کردوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تو چاہے (تو ایسا کرسکتا ہے) لیکن اگر تو اس میں اضافہ کرلے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے میں نے عرض کیا اگرمیں اپنی دعا کا آدھا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کردوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تو چاہے لیکن اگر تو اس میں اضافہ کر دے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے میں نے عرض کیا اگر میں اپنی دعا کا تین چوتھائی حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کردوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تو چاہے لیکن اگر تو زیادہ کردے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اگر میں ساری دعا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کردوں تو؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو یہ درود تیرے تمام غموں کا مداوا ہوجائے گا اور تیرے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘

۲۳۸ (۲) عن حبان بن منقذ رضي الله عنه أن رجلاً قال يارسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أجعل ثلث صلاتي عليک قال نعم إن شئت قال الثلثين قال نعم قال فصلاتي کلها قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذن يکفيک اﷲ ماأهمک من أمر دنياک وآخرتک.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۴ : ۳۵، رقم : ۳۵۷۴

۲. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۸، رقم : ۲۵۷۸

’’حضرت حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں اپنی دعا کا تیسرا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کردوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اگر تو چاہے (تو ایسا کرسکتا ہے) پھر اس نے عرض کیا دعا کا دو تہائی حصہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کردوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں پھر اس نے عرض کیا ساری کی ساری دعا (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے خاص کر دوں) یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو اللہ تعالیٰ تیرے دنیا اور آخرت کے معاملات کے لئے کافی ہو گا۔‘‘

۲۳۹ (۳) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ عند قبري سمعته ومن صلي عَلَيَّ نائيا وکل بها ملک يبلغني وکفي أمر دنياه وآخرته وکنت له شهيدًا أو شفيعًا.

۱. هندي، کنزالعمال، ۱ : ۴۹۸، رقم : ۲۱۹۷، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

۲. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۳ : ۲۹۲

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے میں خود اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر ہے جو مجھے وہ درود پہنچاتا ہے اور یہ درود اس درود بھیجنے والے کی دنیا وآخرت کے معاملات کے لئے کفیل ہوجاتا ہے اور (قیامت کے روز) میں اس کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا۔‘‘

۲۴۰ (۴) عن أبي بکر نالصديق قال : الصلاة عَلٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم أمحق للخطايا من الماء للنار، والسلام عَلٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من عتق الرقاب، وحب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من مهج الأنفس أوقال : من ضرب السيف في سبيل اﷲ عزوجل.

۱. هندي، کنزالعمال، ۲ : ۳۶۷، رقم : ۳۹۸۲، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

۲. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۷ : ۱۶۱

’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا پانی کے آگ کو بجھانے سے بھی زیادہ گناہوں کو مٹانے والا ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجنا یہ غلاموں کو آزاد کرنے سے بڑھ کر فضیلت والا کام ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت یہ جانوں کی روحوں سے بڑھ کر فضیلت والی ہے یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر فضیلت والی ہے۔‘‘

فصل : ۳۹

صَلُّوا علٰي أنبياء اﷲ وَرُسُلِه

(اللہ کے انبیاء اور رسولوں پر درود بھیجو)

۲۴۱ (۱) عن ابن عباس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : يا علي إذا فرغت من التشهد فاحمد اﷲ وأحسن الثناء علي اﷲ و صل عَلَيَّ وعلٰي سائر النبيين. . الخ.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۵۶۳، کتاب الدعوات، باب في دعاء الحفظ، رقم : ۳۵۷۰

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۴۶۱، رقم : ۱۱۹۰

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۲۳۵، رقم : ۲۲۲۶

۴. عسقلاني، فتح الباري، ۱۱ : ۱۶۹

۵. ذهبي، سيراعلام النبلاء، ۹ : ۲۱۸

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی(رضی اللہ عنہ) جب تو تشھد سے فارغ ہو تو اﷲ تعالیٰ کی حمد بیان کر اور اﷲتعالیٰ کی خوب ثناء بیان کر پھر مجھ پر اور تمام انبیاء پر نہایت ہی خوبصورت انداز سے درود بھیج۔‘‘

۲۴۲ (۲) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم : صلوا علي أنبياء اﷲ ورسله، فإن اﷲ بعثهم.

۱. عبدالرزاق، المصنف، ۲ : ۲۱۶، رقم : ۳۱۱۸

۲. بيهقي، شعيب الايمان، ۱ : ۱۴۹، رقم : ۱۳۱

۳. ديلمي، مسند الفردوس، ۲ : ۳۸۵، رقم : ۳۷۱۰

۴. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۶۹۵، رقم : ۶۷۵

۵. مناوي، فيض القدير، ۴ : ۲۰۴

۶. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، ۳ : ۳۳۰

۷. عجلوني، کشف الخفائ. ۱ : ۹۶، رقم : ۲۵۰

۸. عسقلاني، المطالب العالية، ۳ : ۲۲۵، رقم : ۳۳۲۷

۹. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۸ : ۱۰۵

۱۰. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۷

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے نبیوں اور رسولوں پر درود بھیجا کرو بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں بھی بعثت عطاء کی (جس طرح کہ مجھے عطاء کی، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجے اور تمام انبیاء و رسل پر سلامتی ہو)۔‘‘

۲۴۳ (۳) عن أنس أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال إذا سلمتم علي فسلموا علٰي المرسلين فإنما أنا رسول من المرسلين.

۱. قرطبي، الجامع لاحکام القران، ۱۵ : ۱۴۲

۲. طبري، تفسير الاحکام القرآن، ۲۳ : ۱۱۶

۳. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۴ : ۲۶

۴. ابن حبان، طبقات المحدثين بأصبهان : ۲ : ۱۱

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم مجھ پر سلام بھیجو تو میرے ساتھ تمام رسولوں پر بھی سلام بھیجو بے شک میں ان رسولوں میں سے ایک ہوں۔‘‘

فصل : ۴۰

المواطن التي تستحب فيها الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

(وہ مقامات جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا مستحب ہے)

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بعد الأذان

(اذان کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۴۴ (۱) عن عبداﷲ بن عمرو رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي فإنه ليس من أحد يصلي عليَّ واحدة إلا صلي اﷲ عليه بها عشرا، ثم سلوا اﷲ لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة، لا تنبغي إلا لعبد من عباداﷲ عزوجل وأرجو أن أکون أنا هو فمن سألها لي حلت له شفاعتي.

مسلم، الصحيح، ۱ : ۲۸۸، کتاب الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذنِلمن سمعه ثم يصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ثم يسأل اﷲ له الوسيلة، رقم : ۳۸۴

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم مؤذن کو آذان دیتے ہوئے سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو پس جو بھی شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتاہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بے شک وسیلہ جنت میں ایک منزل ہے جوکہ اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک کو ملے گی اور مجھے امیدہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا پس جس نے اس وسیلہ کو میرے لئے طلب کیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔‘‘

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم عند قضاء الحاجات

(ضرورتوں کو پورا کرنے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۴۵ (۲) عن عبداﷲ بن أبي أوفي رضي الله عنه قال خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال من کانت له إلي اﷲ حاجة أو إلي أحد من بني ادم فليتوضأ فليحسن وضوء ه وليصل رکعتين ثم ليثن علي اﷲ تعالٰي و يصل علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ثم ليقل لا إله إلا اﷲ الحليم الکريم سبحان اﷲ رب العرش العظيم والحمدﷲ رب العالمين أسألک موجبات رحمتک وعزائم مغفرتک والغنيمة من کل بروالسلامة من کل ذنب وأن لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا همَّا إلأ فرجته ولا حاجة هي لک فيها رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين.

’’حضرت عبداﷲ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : جس شخص کو اﷲ تبارک وتعالیٰ یا کسی بندے سے کوئی حاجت درکار ہو تو وہ اچھی طرح سے وضؤ کرے پھر دو رکعت نماز نفل ادا کر پھر اﷲتعالیٰ کی ثناء بیان کرے اور مجھ پر درود بھیجے پھر یہ کہے کہ اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں جو کہ حلم والا اور عزت والا ہے اس کی ذات (ہر عیب ونقص سے) پاک ہے اور وہ عرش عظیم کا رب ہے اور تمام تعریفیں ہوں اس کے لئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اے اﷲ ! میں تجھ سے تیری رحمت کے موجبات اور تیری بخشش کے عزائم اور ہر نیکی کی غنیمت اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں اے اﷲ! میرے ہر گناہ کو معاف کردے اور میرے ہر غم کو دور کردے اور میری ہر اس حاجت کو جس میں تیری رضاء کارفرما ہے پورا کردے اے ارحم الراحمین۔‘‘

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم عند العطاس

(چھینک کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۴۶ (۳) عن نافع أن رجلاً عطس إلٰي حبنب بن عمرفقال : الحمد ﷲ والسلام عَلٰي رسول اﷲ، قال بن عمر : وأنا أقول الحمد ﷲ والسلام علي رسول اﷲ وليس هکذا علمنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم علمنا أن نقول : الحمد ﷲ علٰي کل حالٍ.

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۸۱، کتاب ا لأدب، باب ما يقول العاطس إذا عطس، رقم : ۲۷۳۸

۲. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۴ : ۲۹۵، رقم : ۷۶۹۱

۳. حارث، المسند، ۲ : ۷۹۷، باب ماجاء في العطاس، رقم : ۸۰۷

۴. زرعي، حاشيه ابن قيم، ۱۳ : ۲۵۲

۵. مزي، تهذيب الکمال، ۶ : ۵۵۳

’’حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چھینکا اور کہا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور سلامتی ہو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چھینک کے وقت میں بھی اسی طرح کہتا ہوں کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور سلامتی ہو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایسے نہیں سکھایا بلکہ ہمیں سکھایا ہے کہ ہم ہر حال میں اللہ کی حمد بیان کریں۔‘‘

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم في يوم الجمعة

(جمعہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۴۷ (۴) عن أوس بن أوس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم و فيه قبض، وفيه الصعقة، فأکثروا عَلَيَّّ من الصلاة فيه، فأن صلاتکم معروضة عَلَيَّ قالوا : يارسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت يعني بليت قال : إن اﷲ عزوجل حرم عَلٰي الارض أن تأکل أجساد الأنبياء.

ابواداؤد، السنن، ابواب الوتر، ۲ : ۸۸، باب في الاستغفار رقم : ۱۵۳۱

’’حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک تمہارے بہترین دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہوگی پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد کیسے آپ کو پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاک میں مل چکے ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کرام علیھم السلام کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔‘‘

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إذا قام الرجل من نوم الليل

(سو کر اٹھنے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۴۸ (۵) عن عبداﷲ بن مسعود رضي الله عنه قال : يضحک اﷲ عزوجل إلي رجلين رجل لقي العدو و هو علي فرس من أمثل خيل أصحابه فإنهزموا وثبت فإن قتل إستشهد، وإن بقي فذلک الذي يضحک اﷲ إليه، ورجل قام في جوف الليل لا يعلم به أحد فتوضأ فأسبغ الوضوء ثم حمد اﷲ و مجده وصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم واستفتح القرآن، فذلک الذي يضحک اﷲ إليه يقول : انظروا إلي عبدي قائماً لايراه أحد غيري.

۱. نسائي، السنن الکبريٰ، ۶ : ۲۱۷، رقم : ۱۰۷۰۳

۲. نسائي، عمل اليوم والليلة، ۱ : ۴۹۶، رقم : ۸۶۷

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دو آدمیوں پر اپنی رضا کا اظہار فرماتے ہیں، ایک وہ جو دشمن سے ملے درانحالیکہ وہ اپنے ساتھیوں کے گھوڑے پرسوار ہو وہ تمام پسپا ہوجائیںمگر وہ ثابت قدم رہے، اگر قتل ہوگیا تو شہید اگر زندہ رہا تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رضا کا اظہار فرماتا ہے دوسرا وہ شخص جو نصف رات کو اٹھتا ہے حالانکہ اس کی کسی کو خبر نہیں ہوتی وہ اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی حمد اور بزرگی بیان کرتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے اور قرآن شریف سے فتح طلب کرتا ہے یہ وہ شخص ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی رضا کا اظہار فرماتا ہے اور فرماتا ہے میرے بندے کو قیام کی حالت میں دیکھو کہ میرے سواء اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔‘‘

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم عند ذکره

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۴۹ (۶) عن أنس بن مالک قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من ذکرت عنده فليصل عَلَيَّ ومن صلي عَلَيَّ مرة واحدة صلي اﷲ عليه عشرًا.

نسائي، السنن الکبري، ۶ : ۲۱، رقم : ۹۸۸۹

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے پا س میرا ذکر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ مجھ پر درود بھیجے اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم عند دخول المسجد و خروجه

(مسجد میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۰ (۷) عن فاطمة رضي اﷲ عنها بنت رسول اﷲ قالت : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا دخل المسجد صلي علي محمد ثم قال : أللهم أغفرلي ذنوبي، وافتح لي أبواب رحمتک وإذا خرج صلي علي محمد ثم قال : أللهم أغفرلي ذنوبي وافتح لي أبواب فضلک.

احمد بن حنبل، المسند، ۶ : ۲۸۲، رقم : ۲۶۴۵۹

’’حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے اے اﷲ تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود بھیج پھر فرماتے اے اﷲ میرے گناہ معاف فرما اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے باہر تشریف لاتے تو فرماتے اے اﷲ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج پھر فرماتے اے اﷲ میرے گناہ بخش دے اور میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم علٰي الصفاء والمروة

(صفاء و مروہ کے درمیان سعی کرتے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۱ (۸) عن وهب بن الأجدع أنه سمع عمر يقول يبدأ بالصفاء ويستقبل البيت ثم يکبر سبع تکبيرات بين کل تکبيرتين حمد اﷲ والصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ويساله لنفسه و علي المروة مثل ذٰلک.

۱. ابن أبي شيبه، المصنف، ۳ : ۳۱۱، رقم : ۱۴۵۰۱

۲. ابن أبي شيبه، المصنف، ۶ : ۸۲، رقم : ۲۹۶۳۸

’’حضرت وہب بن اجدع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا صفاء سے (سعی کی) ابتداء کرو اور پھر بیت اﷲ کی طرف منہ کرکے سات تکبیریں کہو ہر دو تکبیروں کے درمیان اﷲ کی حمد بیان کرو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو اور پھر اﷲ سے اپنے حق میں دعا کرو اور مروہ کے مقام پر بھی ایسا ہی کرو۔‘‘

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقب الذنب إذا أراد ان يکفر عنه

(گناہ کے بعد اس کی بخشش کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۲ (۹) عن أبي کاهل قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : يا أبا کاهل أنه من صلي عَلَيَّ کل يوم ثلاث مرات وکل ليلة ثلاث مرات حباً بي و شوقًا کان حقًا علي اﷲ أن يغفر له ذنوبه تلک الليلة وذلک اليوم.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۱۸ : ۳۶۲، رقم : ۹۲۸

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۲۱۹

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۸، رقم : ۲۵۸۰

۴. منذري، الترغيب والترهيب، ۴ : ۱۳۲، رقم : ۵۱۱۵

۵. عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، ۷ : ۳۴۰

’’حضرت ابوکاھل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو کاہل جو شخص ہر دن اور رات مجھ پر محبت اور شوق کے ساتھ تین تین مرتبہ درود بھیجتا ہے تو یہ بات اللہ تعالیٰ پر واجب ہو جاتی ہے کہ اس شخص کے اس دن اور رات کے گناہ معاف فرما دے۔‘‘

الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم عند طنين الأذن

(کان کے بجنے کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۳ (۱۰) عن أبي رافع عن أبيه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إِذا طنت أذن أحدکم فليذکرني و ليصل عَلَيَّ وليقل ذکر اﷲ بخير من ذکرني.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۱ : ۳۲۱، رقم : ۹۵۸

۲. طبراني، المعجم الاوسط، ۹ : ۹۲، رقم : ۹۲۲۲

۳. طبراني، المعجم الصغير، ۲ : ۲۴۵، رقم : ۱۱۰۴

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۳۸، باب مايقول إذا طنت اذنه

۵. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، ۱ : ۳۳۲، رقم : ۱۳۲۱

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا کان بجے تو اسے مجھے یاد کرنا چاہیے اور مجھ پر درود بھیجنا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو خیر کے ساتھ یاد فرمائے جس نے مجھے (خیر کے ساتھ) یاد کیا۔‘‘

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بعد فراغ من الوضوء

(وضو سے فارغ ہونے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۴ (۱۱) عن عبداﷲ بن مسعود رضي الله عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : إذا تطهر أحدکم فليذکر اسم اﷲ عليه فإنه يطهر جسده کله فإن لم يذکر أحدکم إسم اﷲ علٰي طهوره لم يطهر إلا مامر عليه الماء فإذا فرغ أحدکم من طهوره فليشهد أن لا إله إلّا اﷲ و أن محمد عبده و رسوله ثم ليصل عَلَيَّ فإذا قال ذٰلک حسنة له أبواب الرحمة.

۱. بيهقي، السنن الکبريٰ، ۱ : ۴۴، رقم : ۱۹۹

۲. صيداوي، معجم الشيوخ، ۱ : ۲۹۲، رقم : ۲۵۲

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو (وضو کے دوران) اس کو اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کرنا چاہیے بے شک (وضو کے دوران) اللہ تعالیٰ کا نام لینا اس کے تمام جسم کو پاک کر دے گا اور اگر تم میں سے کوئی وضو کے دوران اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا تو اس کو سوائے ان اعضاء کے جن پر پانی پھرا ہے طہارت حاصل نہیں ہوتی اور جب تم میں سے کوئی طہارت سے فارغ ہو تو یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں پھر مجھ پر درود بھیجے پس جب وہ یہ کلمات اچھی طرح کہے گا تو جنت کے دروازے اس پر کھول دیے جائیں گے۔‘‘

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم عند زيارة قبره

(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۵ (۱۳) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ عند قبري سمعته ومن صلي عَلَيَّ نائياً أبلغته.

بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۸، رقم : ۱۵۸۳

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے میں خود اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘

الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم في أثنا صلاة العيدفإنه يستحب أن يحمد اﷲ ويصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

(نماز عید کے دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا مستحب ہے)

۲۵۶ (۱۴) عن علقمة أن ابن مسعود، وأبا موسي وخذيفة خرج إليهم الوليد بن عقبة قبل العيد فقال لهم : إن هذا العيد قد دنا فکيف التکبيرفيه؟ فقال عبداﷲ : تبدأ فتکبر تکبيرة تفتح بها الصلاة، وتحمد ربک وتصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ثم تدعوو تکبر وتفعل مثل ذلک، ثم تکبر وتفعل مثل ذلک، ثم تکبر و تفعل مثل ذٰلک، ثم تکبر و تفعل مثل ذٰلک ثم تقرأ و ترکع، ثم تقوم فتقرأ وتحمد ربک، وتصلي علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ثم تدعو ثم تکبر وتفعل مثل ذلک ثم تکبر وتفعل مثل ذلک، ثم تکبر و تفعل مثل ذلک، ثم تکبر و تفعل مثل ذٰلک.

۱. بيهقي، السنن الکبري، ۳ : ۲۹۱، رقم : ۵۹۸۱

۲. ابن قدامة، المغني، ۲ : ۱۲۰

’’حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عید سے ایک دن قبل حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت خذیفہ یمانی رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ آئے اور ان سے کہا کہ عید قریب ہے پس اس کی تکبیر کیسے کہی جائے تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا شروع میں ایک تکبیر کہو جس کے ساتھ تم اپنی نماز شروع کرتے ہو اور اپنے رب کی حمد بیان کرو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو پھر تکبیر کہو اور پہلے والا عمل دہراؤ پھر قراء ت کرو اور تکبیر کہو اور رکوع کرو پھر کھڑے ہوجاؤ اور قراء ت کرو اور اپنے رب کی حمد بیان کرو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو پھر دعا کرو اور تکبیر کہو اور پھر پہلے والا عمل دہراؤ پھر تکبیر کہو اور پہلے والا عمل دہراؤ پھر تکبیر کہو اور پہلے والا عمل دہراؤ پھر رکوع کرو پس حضرت حذیفہ اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنھم نے کہا حضرت ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔‘‘

الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم أول النهار وآخره

(صبح و شام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۷ (۱۵) عن أبي الدرداء رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ حين يصبح عشرًا وحين يمسي عشرًا أدرکته شفاعتي يوم القيامة.

۱. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۲۰

۲. منذري، الترغيب والترهيب، ۱ : ۲۶۱، رقم : ۹۸۷

۳. مناوي، فيض القدير، ۶ : ۱۶۹

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت مجھ پر دس مرتبہ درود بھیجتاہے اور شام کے وقت دس مرتبہ درود بھیجتا ہے تو قیامت کے روز میری شفاعت کا حق دار ٹھہرتا ہے۔‘‘

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم في الدعاء

(دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۸ (۱۶) عن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لا تجعلوني کقدح الراکب إن الراکب إذا علق معاليقه أخذ قدحه فملأه من الماء فإن کان له حاجة في الوضؤ تَوَضَّأ وإن کان له حاجة في الشرب شرب وَ إلَّا أهراق مافيه : اجْعَلُوْنِي فِي أَوَّل الدُّعَاءِ وَ وسط الدعاءِ وَ آخِرِ الدعاء.

عبد بن حميد، المسند، ۱ : ۳۴۰، رقم : ۱۱۳۲

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے قدح الراکب (مسافر کے پیالہ) کی طرح نہ بناؤ بیشک مسافر جب اپنی چیزوں کو اپنی سواری کے ساتھ لٹکاتا ہے تو اپنا پیالہ لے کر اس کو پانی سے بھر لیتا ہے پھر اگر (سفر کے دوران) اس کو وضو کی حاجت ہوتی ہے تو وہ (اس پیالے کے پانی سے) وضو کرتا ہے اور اگر اسے پیاس محسوس ہو تو اس سے پانی پیتا ہے وگرنہ اس کو بہا دیتا ہے۔ فرمایا مجھے دعا کے شروع میں وسط میں اور آخر میں وسیلہ بناؤ۔‘‘

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم عندکتابة اسمه الشريف

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۵۹ (۱۷) عن خالد صاحب الخلقان قال : کان لي صديق يطلب الحديث فتوفي فرأيته في منامي عليه ثياب خضر يرفل فيها فقلت له أليس کنت يافلان صديقًا لي وطلبت معي الحديث؟ قال بلي قلت فبم نلت هذا؟ قال لم يکن يمر حديث فيه ذکرالنبي صلي الله عليه وآله وسلم إلاکتبت فيه صلي اﷲ عليه و آله وسلم فکافأني بهذا.

خطيب بغدادي، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، ۱ : ۲۷۱، رقم : ۵۶۶

’’حضرت خالد صاحب خلقان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرا ایک دوست تھا جو احادیث جمع کرتا تھا پھروہ وفات پاگیا تو میں نے اسے خواب میں دیکھا کہ اس نے سبز لباس زیب تن کیا ہوا ہے تو میں نے اسے کہا اے فلاں کیا تو میرا دوست نہیں تھا اور میرے ساتھ احادیث نہیں طلب کیا کرتا تھا؟ اس نے کہا ہاں پھر میں نے کہا تمہیں یہ رتبہ کیسے نصیب ہوا؟ تو اس نے کہا کہ حدیث لکھتے وقت ہر حدیث میں جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) لکھتا پس اسی چیز نے مجھے یہ مقام عطاء کیا ہے۔‘‘

الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم عند النوم

(سونے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجنا)

۲۶۰ (۱۸) عن أبي قرصافة قال سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من آوي إلي فراشه ثم قرأ تبارک الذي بيده الملک ثم قال : اللهم رب الحل و الحرام، ورب البلد الحرام و رب الرکن والمقام ورب المشعر الحرام و بحق کل آية أنزلتها في شهر رمضان بلغ روح محمد صلي الله عليه وآله وسلم مني تحية و سلامًا أربع مرات وکل اﷲ تعالٰي به ملکين حتي يأتيا محمدًا صلي الله عليه وآله وسلم فيقولا له : ذٰلک فيقول صلي الله عليه وآله وسلم و علٰي فلان بن فلان مني.

ابن حيان، طبقات المحدثين بأصبهان، ۳ : ۴۳۴، رقم : ۴۴۱

’’حضرت ابوقرصافہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص سونے کے لئے اپنے بستر میں داخل ہوا اور پھر اس نے سورہ تبارک پڑھی پھر اس نے یہ دعا کی اے اللہ اے حلال و حرام کے رب، اے بلدالحرام اور رکن اور مشعرالحرام کے رب ہر اس آیت کے واسطے جو تونے رمضان کے مبارک مہینے میں نازل کی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مقدسہ کو میری طرف سے سلام پہنچا اور اس طرح چار مرتبہ کہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ دو فرشتوں کو مقرر کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بندے کا سلام پہنچاتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ فلاں بن فلاں کو میری طرف سے بھی سلام ہو۔‘‘

الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم عند کل أمرٍ خير ذي بال

(ہر اچھے کام سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۶۱ (۱۹) عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم أنه قال : کل أمر لم يبدأ فيه بحمد اﷲ والصلاة عَلَيَّ فهو أقطع أبتر ممحوق من کل برکة.

۱. ابويعلي، الارشاد، ۱ : ۴۴۹، رقم : ۱۱۹

۲. مناوي، فيض القدير، ۵ : ۱۴

۳. عجلوني، کشف الخفاء، ۲ : ۱۵۶، رقم : ۱۹۶۴

’’ہر وہ نیک اور اہم کام جس کو نہ تو اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے ساتھ شروع کیا جائے تو وہ ہر طرح کی برکت سے خالی ہو جاتا ہے۔‘‘

الصلاة علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم في کل مجلس

(ہر مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۶۲ (۲۰). عن أبي هريرة صلي الله عليه وآله وسلم قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : زينوا مجالسکم بالصلاة عَلَيَّ فإن صلاتکم تعرض عَليَّ أو تبلغني.

عجلوني، کشف الخفاء، ۱ : ۵۳۶، رقم : ۱۴۴۳

’’حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی مجالس کو مجھ پر درود بھیجنے کے ذریعے سجایا کرو بے شک تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے یا مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم عند المرور علي المساجد ورؤيتها

(مساجد کے پاس گزرنے اور ان کے دیکھنے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا)

۲۶۳ (۲۱) عن علي بن حسين قال : قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه : إذا مررتم بالمساجد فصلوا علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم.

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۴

’’حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب تم مساجد کے پاس سے گزرو تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کرو۔‘‘

فصل : ۷

إنَّ اﷲ يحط عمن يصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم عشر خطيئات و يرفعه عشردرجات

(اﷲ تبارک و تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے والے کے دس گناہ معاف فرماتا ہے اور دس درجات بلند کرتا ہے)

۵۸ (۱) عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صليّ عَلَيَّ صلاةً واحدةً صلي اﷲ عليه عشر صلوات و حُطَّتْ عنه عشر خطيئات و رفعت له عشر درجات.

۱. نسائي، السنن، ۳ : ۵۰، کتاب السهو، باب الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۱۲۹۷

۲. نسائي، السنن الکبري، ۱ : ۳۸۵، رقم : ۱۲۲۰

۳. احمد بن حنبل، المسند، ۳ : ۲۶۱

۴. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۱۸۵، رقم : ۹۰۱

۵. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۷۳۵، رقم : ۲۰۱۸

۶. ابن ابي شيبة، المصنف، ۲ : ۲۵۳، رقم : ۸۷۰۳

۷. مقدسي، الأحاديث المختارة، ۴ : ۳۹۵، رقم : ۱۵۶۶

۸. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۰، ر قم : ۱۵۵۴

۹. هيثمي، موارد الظمأن، ۱ : ۵۹۴، رقم : ۲۳۹۰

۱۰. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۳، رقم : ۲۵۵۹

۱۱. ابو الفرج، صفوة الصفوة، ۱ : ۲۳۲

۱۲. نسائي، عمل اليوم والليلة، ۱ : ۱۶۵، رقم : ۶۲

۱۳. مبارکفوري، تحفة الأحوذي، ۲ : ۴۷۹

۱۴. عجلوني، کشف الخفاء، ۲ : ۳۳۷، رقم : ۲۵۱۷

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درودبھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اس کے لئے دس درجات بلند کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘

۵۹ (۲) عن عبد الرحمٰن بن عوف رضي الله عنه قال : خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فتوجه نحو صدقته فدخل فاستقبل القبلة فخر ساجدًا فأطال السجود حتي ظننت أن اﷲ عزوجل قبض نفسه فيها فدنوت منه فجلست فرفع رأسه فقال : من هذا؟ قلت : عبد الرحمن قال ما شأنک قلت يا رسول اﷲ سجدت سجدةً خشيت أن يکون اﷲ عزوجل قد قبض نفسک فيها فقال : إن جبرئيل عليه السلام أتاني فبشَّرني فقال إن اﷲ عزوجل يقول : من صلي عليک صليت عليه و من سلم عليک سلمت عليه فسجدت ﷲل شکرًا.

۱. احمد بن حنبل، المسند، ۱ : ۱۹۱، رقم : ۱۶۶۴

۲. بيهقي، السنن الکبري، ۲ : ۳۷۰، رقم : ۳۷۵۲

۳. عبد بن حميد، المسند، ۱ : ۸۲، رقم : ۱۵۷

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۲ : ۲۸۷، باب سجود الشکر

۵. مبارکفوري، تحفة الأحوذي، ۲ : ۴۹۷

۶. مقدسي، الأحاديث المختارة، ۳ : ۱۲۷، رقم : ۱۲۶

۷. زرعي، حاشية ابن قيم، ۷ : ۳۲۷

۸. مروزي، تعظيم قدر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، ۱ : ۲۴۹، رقم : ۲۳۶، ۳ : ۱۲۷، رقم : ۹۲۸

’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نماز پڑھنے والی جگہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں داخل ہوئے اور قبلہ رخ سجدہ میں چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کو اتنا طول دیا کہ مجھے گمان گزرا کہ اﷲ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک اسی حالت میں قبض کر لی ہے پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو کر بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور اٹھایا اور فرمایا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا عبدالرحمٰن فرمایا کیا بات ہے میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے خطرہ لاحق ہو گیا کہ شاید اﷲ رب العزت نے آپ کی روح مقدسہ قبض کرلی ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابھی ابھی جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے تھے اور انہوں نے مجھے یہ خوش خبری دی کہ اﷲ عزوجل فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے میں اس پر درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہوں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے میں بھی اس پر سلام بھیجتا ہوں پس اﷲ تعالیٰ کے اس انعام پر شکر بجا لانے کے لئے میں نے اتنا لمبا سجدہ کیا۔‘‘

۶۰ (۳) عن عبدالرحمٰن بن عوف رضي الله عنه قال : کان لا يُفارق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم منا خمسة أو أربعة من أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم لما ينوبُهُ من حوائجه بالليل والنهار قال : فَجئتُ وقد خرج، فأتبعتهُ فدخل حائطًا من حيطان الأسواف، فصلي، فسجد فأطال السجود رجاء قبض اﷲ رُوحَهُ قال : فرفع صلي الله عليه وآله وسلم رأسه ودعاني فقال صلي الله عليه وآله وسلم : مالک؟ فقلت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! أطلت السجود قلت : قبض اﷲ روح رسوله أبدا قال صلي الله عليه وآله وسلم : سجدت شکرًا لربي فيما آتاني في أمتي من صلي عليَّ صلاة من أمتيکتب له عشر حسنات و محي عنه عشر سيًات.

۱. ابو يعلي، المسند، ۲ : ۱۷۳، رقم : ۸۶۹

۲. بزار، المسند، ۳ : ۲۲۰، رقم : ۱۰۰۶

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۲ : ۲۸۳، باب صلاة الشکر

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۱

۵. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۲۴، رقم : ۲۵۶۲

’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے پانچ یا چار صحابہ رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضروریات کی تکمیل کے لئے دن رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے راوی بیان کرتے ہیں کہ میں حاضر تھا اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر پہلے گھر سے نکل چکے ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چل پڑا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسواف کے باغوں میں سے ایک باغ میں داخل ہوئے نماز ادا کی اور ایک طویل سجدہ کیا۔ (یہ صورتحال دیکھ کر) مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اﷲ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مقدسہ کو قبض کر لیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور سجدے سے اٹھایا تو (میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نظر آیا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلاکر پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ میں نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا طویل سجدہ کیا کہ میں یہ سمجھا شاید اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح ہمیشہ کے لئے قبض کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ وہ سجدہ ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ کی اس عطا کے شکرانے کے طور پر اداء کیا ہے جو اس نے میری امت کے بارے میں مجھے ارزانی فرمائی کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔‘‘

۶۱ (۴) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلَّي عَلَيَّ مرة واحدة کتب اﷲ له بها عشر حسنات.

۱. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۱۹۵، ر قم : ۹۱۳

۲. ابو يعلي، المسند، ۱۱ : ۴۰۴، رقم : ۶۵۲۷

۳. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۰

۴. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۳، رقم : ۲۵۲۸

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے۔‘‘

۶۲ (۵) عن عمر بن الخطاب صقال : خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يَتبرَّزُ، فلم أجد أحدًا يتبعُهُ ففزع عمر رضي الله عنه فأتاه بمطهرة يعني إداوة، فوجد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ساجدًا في مشربة فتنحي عنه من خلفه حتي رفع النبي صلي الله عليه وآله وسلم رأسه : فقال : أحسنت يا عمر حين وجدتني ساجدًا فتنحيت عني إنَّ جبريل عليه السلام أتاني فقال : من صلي عليک من أمتک واحدة صلي اﷲ عليه عشرًا و رفعه بها عشر درجات.

۱. طبراني، المعجم الأوسط، ۶ : ۳۵۴، رقم : ۶۰۲

۲. طبراني، المعجم الصغير، ۲ : ۱۹۴، رقم : ۱۰۱۶

۳. بخاري، الأدب المفرد، ۱ : ۲۲۳

۴. هيثمي، مجمع الزوائد، ۲ : ۲۸۸، ۲۸۷، ۱۰ : ۱۶۱

۵. مقدسي، الأحاديث المختارة، ۱ : ۱۸۷

۶. حسيني، البيان والتعريف، ۱ : ۳۵، رقم : ۶۶

۷. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۲

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (قضاء حاجت کے لئے) نکلے تومیں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کوئی نہ پایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ خوفزدہ ہوگئے اور لوٹا لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چل پڑے پس آپ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھاس والی زمین پر سجدہ کی حالت میں پایا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ کر کچھ فاصلہ پر بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور اٹھایا اور فرمایا کہ عمر تو نے جب میں سجدے میں تھا پیچھے ہٹ کر بہت اچھا کیا بے شک جبرئیل امین میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر اس درود کے بدلے میں دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتاہے اور دس درجات بلند فرما دیتا ہے۔‘‘

۶۳ (۶) عن أبي بردة بن نيار قال : قال رسول اﷲْ صلي الله عليه وآله وسلم ما صلي عَلَيَّ عبد من أمتي صلاة صادقا بها في قلب نفسه إلا صلي اﷲ عليه وسلم بها عشر حسنات ورفع له بها عشر درجات ومحي عنه بها عشر سيئات.

طبراني، المعجم الکبير، ۲۲ : ۱۹۵، رقم : ۵۱۳

’’حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا جو بندہ بھی صدق دل کے ساتھ ایک مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس پر دس مرتبہ رحمت اور سلامتی نازل فرماتا ہے اور اس کے دس درجات بلند فرماتا ہے اور دس گناہ مٹاتا ہے۔‘‘

۶۴ (۷) عن عبداﷲ بن عمر رضي الله عنه أنه قال من صلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم کتبت له عشر حسنات وحط عنه عشر سيئات و رفع له عشر درجات.

ابن ابي شيبة، المصنف، ۲ : ۲۵۳، رقم : ۸۶۹۸، باب ثواب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے دس گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اس کے دس درجات بلند کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘

۶۵ (۸) عن عمير الأنصاري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عليّ من أمتي صلاة مخلصًا من قلبه صلي اﷲ عليه بها عشر صلوات، و رفعه بها عشر درجات، و کتب له بها عشر حسنات و محي عنه عشر سيئات.

۱. نسائي، السنن الکبريٰ، ۶ : ۲۱، رقم : ۹۸۹۲

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۲۲ : ۱۹۵، ۱۹۶، رقم : ۵۱۳

۳. نسائي، عمل اليوم و الليلة، ۱ : ۱۶۶، رقم : ۶۵

۴. عسقلاني، فتح الباري، ۱۱ : ۱۶۷

۵. مزي، تهذيب الکمال، ۱۱ : ۲۷

۶. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۴، رقم : ۲۵۶۴

’’حضرت عمیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں سے جو بھی خلوص دل سے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے بدلہ میں دس مرتبہ اس پر درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہے اور اس کے دس درجات بلند فرما دیتا ہے اور دس نیکیاں اس کے حق میں لکھ دیتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف کر دیتا ہے۔‘‘

۶۶ (۹) عن أبي جعفر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ بلغتني صلاته وصليت عليه و کتب له سوي ذلک عشر حسنات.

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۲ : ۱۷۸، رقم : ۱۴۶۲

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۲، برواية انس بن مالک

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۶، رقم : ۲۵۷۲، برواية انس بن مالک

’’حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کادرود مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے بدلہ میں میں اس شخص پر درود بھیجتا ہوں اور اس کے علاوہ اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔‘‘

۶۷ (۱۰) عن أبي طلحة قال : دخلت علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يومًا فوجدته مسرورًا فقلت يارسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما أدري متي رأيتک أحسن بشرا وأطيب نفسًا من اليوم قال و ما يمنعني وجبريل خرج من عندي الساعة فبشرني أن لکل عبدٍ صلي عَلَيَّ صلاة يکتب له بها عشر حسنات ويمحي عنه عشر سيئات ويرفع له عشر درجات و تعرض علي کما قالها ويرد عليه بمثل ما دعا.

عبدالرزاق، المصنف، ۲ : ۲۱۴، رقم : ۳۱۱۳

’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت خوش پایا پس میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے نہیں معلوم کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دن سے پہلے اتنا خوش دیکھا ہو جتنا کہ آج (اس کی کیاوجہ ہے؟) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آج مجھے خوش ہونے سے کون سی چیز روک سکتی ہے حالانکہ جبرئیل علیہ السلام ابھی ابھی میرے پاس سے گئے ہیں اور انہوں نے مجھے خوش خبری دی ہے کہ ہر اس بندہ مومن کے لئے جو مجھ پر درود بھیجتا ہے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اوراس کی دس خطائیں معاف کردی جاتی ہیں اور دس درجات بلند کر دے جاتے ہیں اور اس کادرود اسی طرح مجھے پیش کیا جاتا ہے جس طرح کہ وہ مجھ پر بھیجتا ہے اور جس طرح وہ دعا کرتا ہے اس کو اس کا جواب دیا جاتا ہے۔‘‘

۶۸ (۱۱) عن عمير الأ نصاري رضي الله عنه قال : قال لي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ صادقا من نفسه صلي اﷲ عليه عشر صلوات و رفعه عشر درجات وله بها عشرحسنات.

۱. ابو الحسين، معجم الصحابة، ۳ : ۲۳۳، رقم، ۷۴۳

’’حضرت عمیر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صدق دل سے مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجتا ہے اور اس کے دس درجات بلند فرما دیتا ہے اور اس شخص کو اس درود کے بدلے میں دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘

فصل : ۸

قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لا صلاة لمن لم يصل عليَّ فيها

(رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص نماز میں مجھ پر درود نہ بھیجے اس کی نماز کامل نہیں ہوتی)

۶۹ (۱) عن فضالة بن عبيد رضي الله عنه يقول : سمع النبي صلي الله عليه وآله وسلم رجلا يدعو في صلاته فلم يصل علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم. فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم عجل هذا، ثم دعاه فقال له أو لغيره : إذا صلي أحدکم فليبدأ بتمجيد اﷲ ثم ليصل علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم. ثم ليدعو بعد بما شاء. قال ابو عيسي هذا حديث حسن صحيح

۱. ترمذي، الجامع الصحيح، ۵ : ۵۱۷، کتاب الدعوات، باب : ۶۵، رقم : ۳۴۷۷

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۶ : ۱۸، رقم : ۲۳۹۸۲

۳. ابن حبان، الصحيح، ۵ : ۲۹۰، رقم : ۱۹۶۰

۴. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۴۰۱، رقم : ۹۸۹

۵. طبراني، المعجم الکبير، ۱۸ : ۳۰۷، رقم : ۷۹۱

۶. هيثمي، مجمع الزوائد. ۱۰ : ۱۵۵

۷. هيثمي، موارد الظمان، ۱ : ۱۳۶، رقم : ۵۱۰

۸. عسقلاني، تلخيص الحبير، ۱ : ۲۶۳، رقم : ۴۰۴

۹. عسقلاني، الدراية في تخريج احاديث الهداية، ۱ : ۱۵۷، رقم : ۱۸۹

۱۰. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، ۳ : ۵۰۹

’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو دورانِ نماز اس طرح دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اس نے اپنی دعا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجا اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے عجلت سے کام لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اپنے پاس بلایا اور اس کو یا اس کے علاوہ کسی اور کو (ازرہِ تلقین) فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے، تو اس کی دعا قبول ہو گی۔‘‘

۷۰ (۲) عن سهل بن سعد الساعدي : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يقول : لاصلاة لمن لا وضوء له ولا وضوء لمن لم يذکر اﷲ عليه ولا صلاة لمن لم يصل علي نبي اﷲ في صلاته.

۱. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۱ : ۴۰۲، رقم : ۹۹۲

۲. بيهقي، السنن الکبري، ۲ : ۳۷۹، رقم : ۳۷۸۱

۳. ديلمي، مسند الفردوس، ۵ : ۱۹۶، رقم : ۷۹۳۸

’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس کا وضو نہ ہو اور اس شخص کا وضو نہیں ہوتا جو اس میں اللہ تعالیٰ کا نام نہ لے اور اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجے۔‘‘

۷۱ (۳) عن سهل بن سعد الساعدي أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : لا صلاة لمن لم يصل علي نبيه صلي الله عليه وآله وسلم

۱. دار قطني، السنن، ۱ : ۳۵۵، باب ذکر وجوب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم رقم : ۵

۲. ابن عبدالبر، التمهيد، ۱۶ : ۱۹۵

۳. عسقلاني، الدراية في تخريج أحاديث الهداية، ۱ : ۱۵۸

۴. عسقلاني، تلخيص الحبير، ۱ : ۲۶۲، رقم : ۴۰۴

۵. أنصاري، خلاصة البدر المنير، ۱ : ۲۶۵، رقم : ۹۲۱

۶. شوکاني، نيل الأوطار، ۲ : ۳۲۲

’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو مجھ پر درور نہیں بھیجتا۔‘‘

۷۲ (۴) عن بريدة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يا أبا بريدة! إذا جلست في صلاتک فلا تترکن التشهد والصلاة علي فإنها زکاة الصلاة وسلم علي جميع أنبياء اﷲ ورسله وسلم علي عباد اﷲ الصالحين.

۱. دارقطني، السنن، ۱ : ۳۵۵، رقم : ۳، باب ذکر وجوب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۲ : ۱۳۲

۳. ديلمي، مسند الفردوس، ۵ : ۳۹۲، رقم : ۸۵۲۷

۴. مناوي، فيض القدير، ۱ : ۳۲۷

’’حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو بریدہ! جب تم اپنی نماز میں بیٹھو تو تشھد اور مجھ پر درود بھیجنا کبھی ترک نہ کرو وہ نماز کی زکاۃ ہے اور اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر اور اس کے نیک بندوں پر سلام بھیجا کرو۔‘‘

۷۳ (۵) عن سهل بن سعد الساعدي : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : لا صلاة لمن لا وضوء له ولا وضوء لمن لم يذکر اسم اﷲ عليه ولا صلاة لمن لا يصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ولا صلاة لمن لا يحب الأنصار.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۶ : ۱۲۱، رقم : ۵۶۹۸

۲. روياني، المسند، ۲ : ۲۸۲، رقم : ۱۰۹۸

۳. مناوي، فيض القدير، ۶ : ۴۳۰

۴. زيلعي، نصب الراية، ۱ : ۴۲۶

’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس کا وضو نہ ہو اور اس شخص کا وضو نہیں ہوتا جو اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام نہ لے اور اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجے اور اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو انصار سے محبت نہ کرے۔‘‘

۷۴ (۶) عن فضالة بن عبيد رضي الله عنه قال : بينا رسول ا ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قاعد إذ دخل رجل فصلي ثم قال : اللهم اغفرلي وارحمني فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. عجلت أيها المصلي، إذا صليت فقعدت فاحمداﷲ بما هوأهله، ثم صل عَلَيَّ ثم ادعه، ثم صلي آخر فحمداﷲ وصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. سل تعطه وفي رواية. قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عجل هذا المصلي ثم علمهم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ثم سمع رجلا يصلي فحمداﷲ وحده و صلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم. فقال : ادع اﷲ تجب وسل تعطه.

۱. طبراني، المعجم الکبير، ۱۸ : ۳۰۷، ۳۰۹، رقم : ۷۹۲

۲. طبراني، المعجم الکبير، ۱۸ : ۳۰۸، رقم : ۷۹۴

’’حضرت فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نماز کے بعد اس نے دعا کی اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : اے نمازی تو نے جلدی کی ہے جب تم نماز پڑھ لو تو بیٹھ کر اللہ کی حمد بیان کرو جو اس کی شان کے لائق ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو پھر اللہ سے دعا مانگو اسی طرح اس کے بعدایک اور آدمی نے نماز پڑھی (نماز پڑھنے کے بعد) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا اے نمازی اللہ سے مانگو تمہیں دیا جائے گا اور ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس نمازی نے عجلت کی پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو آداب دعا سکھائے پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے سنا جس نے اللہ کی حمد بیان کی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا اللہ سے دعا مانگو تمہاری دعا قبول ہوگی اور اللہ کے سوالی بن جاؤ عطا کئے جاؤ گے۔‘‘

۷۵ (۷) عن ابن عمر قال : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يعلمنا التشهد التحيات الطيبات الزاکيات ﷲ السلام عليک أيها النبي ورحمة اﷲ وبرکاته السلام علينا وعلي عباد اﷲ الصالحين. أشهد أن لا إله إلا اﷲ وحده لا شريک له وأن محمداً عبده و رسوله ثم يصلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم

۱. دارقطني، السنن، ۱ : ۳۵۱، رقم : ۷، باب صفة الجلوس للتشهد

۲. بيهقي، السنن الکبريٰ، ۲ : ۳۷۷، رقم : ۳۷۷۴

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تشھد اس طرح سکھاتے تھے کہ’’تمام جہانوں کی بادشاہتیں اور پاکیزگیاں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، اور ہم پر اور نیک بندوں پر سلامتی ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے۔‘‘

۷۶ (۸) عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي صلاة لم يصل فيها عَلَيَّ و لا علي أهل بيتي لم تقبل منه.

دار قطني، السنن، ۱ : ۳۵۵، باب ذکر وجوب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۶

’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ بھیجا تو اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔‘‘

۷۷ (۹) عن أبي مسعود الأنصاري قال : لو صليت صلاة لا أصلي فيها علي آل محمد صلي الله عليه وآله وسلم ما رأيت أن صلاتي تتم.

دارقطني، السنن، ۱ : ۳۵۵، باب ذکر وجوب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۶

’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں نے کوئی ایسی نماز پڑھی جس میں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود نہ بھیجا تو میں اس نماز کو کامل نہیں سمجھتا۔‘‘

۷۸ (۱۰) عن أبي مسعود قال : ما صليت صلاة لا أصلي فيها علي محمد إلّا ظننت أن صلاتي لم تتم.

دار قطني، السنن، ۱ : ۳۳۶، رقم : ۸

’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو بھی نماز پڑھوں اگر اس میں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجوں تو میں اس کو ناقص گمان کرتا ہوں۔‘‘

۷۹ (۱۱) عن أبي مسعود قال : ما أري أن صلاة لي تمت حتي أصلي فيها علي محمد و آل محمد.

۱. ائبن عبدالبر، التمهيد، ۱۶ : ۱۹۵

’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اپنی نماز کو اس وقت تک کامل نہیں سمجھتا جب تک میں اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود نہ بھیجوں۔‘‘

فصل : ۹

قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم : تبلغني صلاتکم و سلامکم حيث کنتم

(فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود و سلام مجھے پہنچ جاتا ہے)

۸۰ (۱) عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لاتجعلوا بيوتکم قبوراً ولاتجعلواقبري عيدا وصلوا عَلَيَّ فإن صلاتکم تبلغني حيث کنتم.

۱. ابو داؤد، السنن، ۲ : ۲۱۸، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، رقم : ۲۰۴۲

۲. احمد بن حنبل، المسند، ۲ : ۳۶۷، رقم : ۸۷۹۰

۳. طبراني، المعجم الأوسط، ۸ : ۸۱ - ۸۲، رقم : ۸۰۳۰

۴. بيهقي، شعب الايمان، ۳ : ۴۹۱، رقم : ۴۱۶۲

۵. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، ۳ : ۵۱۶

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ اور نہ ہی میری قبر کو عیدگاہ (کہ جس طرح عید سال میں دو مرتبہ آتی ہے اس طرح تم سال میں صرف ایک یا دو دفعہ میری قبر کی زیارت کرو بلکہ میری قبر کی جہاں تک ممکن ہو کثرت سے زیارت کیا کرو) اور مجھ پر درود بھیجا کرو پس تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

۸۱ (۲) عن علي بن حسين بن علي رضي الله عنه أنه رأي رجلاً يجيء إلي فرجة کانت عند قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيدخل فيها فيدعو فدعاه فقال ألا أحدثک بحديث سمعته من أبي عن جدي عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : لا تتخذوا قبري عيدا ولا بيوتکم قبورا وصلوا عليَّ فإن صلاتکم تبلغني حيث ما کنتم.

۱. ابن ابي شيبه، المصنف، ۲ : ۱۵۰، رقم : ۷۵۴۲

’’حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے قریب ایک بڑے سوراخ کی طرف آتا اور اس میں داخل ہو کر دعا مانگتا۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے اپنے والد سے سنی، انہوں نے اسے اپنے باپ سے انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (سن کر) اس کو روایت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری قبر کو عیدگاہ نہ بناؤ اور نہ ہی اپنے گھروں کو قبریں اور مجھ پر درود بھیجو بے شک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

۸۲ (۳) عن سهيل عن الحسن بن الحسن بن علي قال رأي قومًا عند القبر فنهاهم وقال إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : لا تتخذوا قبري عيداً ولا تتخذوا بيوتکم قبورا وصلُّوا عليَّ حيث ما کنتم فإن صلاتکم تبلغني.

۱. عبدالرزاق، المصنف، ۳ : ۵۷۷، رقم : ۶۷۲۶

۲. ابن ابي شيبة، المصنف، ۲ : ۱۵۲، رقم : ۷۵۴۱

۳. ابن أبي شيبة، المصنف، ۲ : ۱۵۰، رقم : ۷۵۴۳

۴. ابن أبي شيبة، المسنف، ۳ : ۳۰، رقم : ۱۱۸۱۸

۵. أبو طيب، عون المعبود، ۶ : ۲۴

۶. قزويني، التدوين في أخبار قزوين، ۴ : ۹۴

’’حضرت سہیل رضی اللہ عنہ حضرت حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض لوگوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس دیکھا تو انہیں منع کیا اور کہا کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری قبر کو عیدگاہ نہ بناؤ (کہ سال میں صرف دو دفعہ اس کی زیارت کرو بلکہ کثرت سے اس کی زیارت کیا کرو) اور نہ اپنے گھروں کو قبریں بناؤ (کہ ان میں نماز ہی نہ پڑھو) اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو بے شک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

۸۳ (۴) عن علي بن حسين أنه رأي رجلا يجيئ إلي فرجة کانت عند قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيدخل فيها فيدعو فنهاه فقال ألا أحدثکم حديثا سمعته من أبي عن جدي عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : لا تتخذوا قبري عيدا ولا بيوتکم قبورا فإن تسليمکم يبلغني أينما کنتم

۱. أبو يعلي، المسند، ۱ : ۳۶۱، رقم : ۴۶۹

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۴ : ۳

۳. مقدسي، الأحاديث المختارة، ۲ : ۴۹، رقم : ۴۲۸

۴. أبو طيب، عون المعبود، ۶ : ۲۴

۵. عسقلاني، لسان الميزان، ۲ : ۱۰۶

’’حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے قریب ایک بڑے سوراخ کی طرف آتا اور اس میں داخل ہو کر دعا مانگتا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے منع فرمایا اور فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے اپنے باپ سے سنی، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا اور انہوں نے اس کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (سن کر) روایت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے : میری قبر کو عیدگاہ نہ بناؤ اور نہ اپنے گھروں کو قبریں بناؤ اور بے شک تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا سلام مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

۸۴ (۵) عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ بلغتني صلاته وصليت عليه وکتبت له سوي ذلک عشر حسنات.

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۲ : ۱۷۸، رقم : ۱۶۴۲

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱۰ : ۱۶۲

۳. منذري، الترغيب و الترهيب، ۲ : ۳۲۶، رقم : ۲۵۷۲

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کا درود مجھے پہنچ جاتا ہے اور میں بھی اس پر درود بھیجتا ہوں اور اس کے علاوہ اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔‘‘

۸۵ (۶) عن ابن عباس رضي الله عنه قال : ليس أحد من أمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم صلي عليه صلاة إلا وهي تبلغه يقول الملک فلان يصلي عليک کذاوکذا صلاة.

بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۸، باب تعظيم النبي صلي الله عليه وآله وسلم وإجلا له و تو قيره، رقم : ۱۵۸۴

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو اس کا درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے اور فرشتہ کہتا ہے۔ فلاں بندہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح درود بھیجتا ہے۔،،

۸۶ (۷) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : زينوا مجالسکم بالصلاة عَلَيَّ فإن صلاتکم تعرض عَليَّ أو تبلغني.

عجلوني، کشف الخفاء، ۱ : ۵۳۶، رقم : ۱۴۴۳

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی مجالس کو مجھ پر درود بھیجنے کے ذریعے سجایا کرو بے شک تمہارا پیش کیا گیا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

۸۷ (۸) عن علي مرفوعاً قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سَلِّمُوا عَلَيَّ فإن تسليمکم يبلغني أينما کنتم.

عجلوني، کشف الخفاء، ۲ : ۳۲، رقم : ۱۶۰۲

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھ پر سلام بھیجا کرو بے شک تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا سلام مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

فصل : ۱۰

من صلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم في يوم مائة مرة قضي اﷲ له مائة حاجة

(جو شخص روزانہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجات پوری فرماتا ہے)

۸۸ (۱) عن أنس بن مالک خادم النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم إن أقربکم مني يوم القيامة في کل موطن أکثرکم عَلَيَّ صلاة في الدنياء من صلي عَلَيَّ في يوم الجمعة وليلة الجمعة مائة مرة قضي اﷲ له مائة حاجة سبعين من حوائج الآخرة وثلاثين من حوائج الدنيا ثم يوکل اﷲ بذلک ملکاً يدخله في قبري کما تدخل عليکم الهدايا يخبرني من صلي عَلَيَّ باسمه و نسبه إلي عشيرته فأثبته عندي في صحيفة بيضاء.

۱. بيهقي، شعب الايمان، ۳ : ۱۱۱، رقم : ۳۰۳۵

۲. هندي، کنزالعمال، ۱ : ۵۰۶، رقم : ۲۲۳۷، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے خدمت گار تھے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز تمام دنیا میں سے تم میںسب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو دنیا میں تم میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہوگا پس جو شخص جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری فرماتا ہے ان میں سے ستر (۷۰) آخرت کی حاجتوں میں سے اور تیس (۳۰) دنیا کی حاجتوں میں سے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جو اس درود کو میری قبر میں اس طرح مجھ پر پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں اور وہ مجھے اس آدمی کا نام اور اس کا نسب بمعہ قبیلہ بتاتا ہے، پھر میں اس کے نام و نسب کو اپنے پاس سفید کاغذ میں محفوظ کرلیتا ہوں۔‘‘

۸۹ (۲) عن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ في يوم مائة مرة قضي اﷲ له مائة حاجة، سبعين منها لآخرته وثلاثين منها لدنياه.

هندي، کنزالعمال، ۱ : ۵۰۵، رقم : ۲۲۳۲، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک دن میں مجھ پر سو (۱۰۰) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (۱۰۰) حاجتیں پوری فرماتا ہے ان میں سے ستر (۷۰) حاجتوں کا تعلق اس کی آخرت سے ہے اور تیس (۳۰) کا اس کی دنیا سے۔‘‘

۹۰ (۳) عن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ في يوم الجمعة و ليلة الجمعة مائة من الصلاة قضي اﷲ له مائة حاجة سبعين من حوائج الآخرة و ثلاثين من حوائج الدنيا، وکل اﷲ بذلک ملکًا يدخله قبري کما تدخل عليکم الهدايا إن علمي بعد موتي کعلمي في الحياة.

هندي، کنزالعمال، ۱ : ۵۰۷، رقم : ۲۲۴۲، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن اور رات مجھ پر سو (۱۰۰) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (۱۰۰) حاجتیں پوری فرماتا ہے۔ ان میں سے ستر (۷۰) آخرت کی حاجتوں میں سے اور تیس (۳۰) دنیا کی حاجتوں میں سے ہیں اور پھر ایک فرشتہ کو اس کام کے لئے مقرر فرما دیتا ہے کہ وہ اس درود کو میری قبر میں پیش کرے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں بے شک موت کے بعد میرا علم ویسا ہی ہے جیسے زندگی میں میرا علم تھا۔‘‘

۹۱ (۴) عن جعفربن محمد قال : من صلي علي محمد و علي أهل بيته مائة مرة قضي اﷲ له مائة حاجة.

مزي، تهذيب الکمال، ۵ : ۸۴

’’حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت پر سو (۱۰۰) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (۱۰۰) حاجتیں پوری فرما دیتا ہے۔‘‘

۹۲ (۵) عن أبي درداء قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا سألتم اﷲ حاجة فابدؤا بالصلاة عَلَيَّ فإن اﷲ أکرم من أن يسأل حاجتين فيقضي إحدهما ويرد الأخري.

عجلوني، کشف الخفاء، ۲ : ۳۹، رقم : ۱۶۲۰

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اللہ تعالیٰ سے کسی حاجت کا سوال کرو تو مجھ پر درود بھیج کر اس دعا کی ابتداء کرو بے شک اللہ تعالیٰ اس بات سے (بے نیاز) ہے کہ اس سے دو حاجتوں کا سوال کیا جائے اور وہ ان میں سے ایک کو پورا کر دے اور دوسری کو رد کر دے۔‘‘

فصل : ۱۱

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم نور علي الصراط

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا پل صراط پر نور ہوجائے گا)

۹۳ (۱) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الصلاة عَلَيَّ نور علي الصراط ومن صلي عَلَيَّ يوم الجمعة ثمانين مرة غفرله ذنوب ثمانين عامًا.

۱. ديلمي، مسند الفردوس، ۲ : ۴۰۸، رقم : ۳۸۱۴

۲. ذهبي، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ۳ : ۱۰۹، رقم : ۳۴۹۵

۳. مناوي، فيض القدير، ۴ : ۲۴۹

۴. عسقلاني، لسان الميزان، ۲ : ۴۸۱، رقم : ۱۹۳۸

۵. عجلوني، کشف الخفاء، ۱ : ۱۹۰

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر بھیجا ہوا درود پل صراط پر نور بن جائے گا اور جو شخص مجھ پر جمعہ کے دن اسی (۸۰) مرتبہ درود بھیجتاہے اس کے اسی (۸۰) سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

۹۴ (۲) عن عجلان رضي الله عنه قال : قال علي : من صلي علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة مائة مرة جاء يوم القيامة وعلي وجهه من النور نور يقول الناس أي شيئٍ کان يعمل هذا.

بيهقي، شعب الإيمان، ۳ : ۱۱۲، رقم : ۳۰۳۶

’’حضرت عجلان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر سو (۱۰۰) مرتبہ درود بھیجتا ہے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر بہت زیادہ نور ہوگا اور اس کے چہرے کے نور کو دیکھ کر لوگ(حیرت سے) کہیں گے کہ یہ شخص دنیا میں کونسا ایسا عمل کرتا تھا (جس کی بدولت آج اس کو یہ نور میسر آیا ہے)۔‘‘

۹۵ (۳) عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم زينوا مجالسکم بالصلوات عَلَيَّ فإن صلواتکم عَلَيَّ نور لکم يوم القيامة.

ديلمي، مسند الفردوس، ۲ : ۲۹۱، رقم : ۳۳۳۰

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی مجالس کو مجھ پر درود کے ذریعے سجایا کرو بے شک تمہارا مجھ پر درود بھیجنا قیامت کے دن تمہارے لئے نور کا باعث ہوگا۔‘‘

۹۶ (۴) عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ يوم الجمعة مائة مرة جاء يوم القيامة ومعه نور لو قسم ذلک النور بين الخلق لوسعهم.

۱. ابو نعيم، حليةالاولياء، ۸ : ۴۷

۲. هندي، کنزالعمال، ۱ : ۵۰۷، رقم : ۲۲۴۰، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر سو (۱۰۰) مرتبہ درود بھیجتا ہے وہ قیامت کے دن ایک ایسے نور کے ساتھ آئے گا کہ وہ نور اگر تمام مخلوق میں تقسیم کر دیا جائے تو وہ ان کے لئے کفایت کر جائے گا۔‘‘

فصل : ۱۲

قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أحسنوا الصلاة عَلَيَّ

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھ پر نہایت خوبصورت انداز سے درود بھیجا کرو‘‘)

۹۷ (۱) عن عبداﷲ بن مسعود رضي الله عنه قال : إذا صليتم علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأحسنوا الصلاة عليه فإنکم لاتدرون لعل ذلک يعرض عليه قال : فقالوا له : فعلمنا قال : قولوأ : أللهم اجعل صلاتک ورحمتک وبرکاتک علي سيدالمرسلين وإمام المتقين وخاتم النبيين محمد عبدک ورسولک إمام الخير وقائدالخير ورسول الرحمة، أللهم أبعثه مقاماً محمودا يغبطه به الأولون والآخرون أللهم صل علي محمد وعلي آل محمد کماصليت علي إبراهيم وعلي آل ابراهيم إنک حميد مجيد أللهم بارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم وعلي آل إبراهيم إنک حميد مجيد.

۱. ابن ماجة، السنن، ۱ : ۲۹۳، کتاب اقامة الصلاة، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۹۰۶

۲. ابو يعلي، المسند، ۹ : ۱۷۵، رقم : ۵۲۶۷

۳. شاشي، المسند، ۲ : ۷۹، رقم : ۶۱۱

۴. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۰۸، رقم، ۱۵۵۰

۵. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۹، رقم : ۲۵۸۸

۶. کناني، مصباح الزجاجة، ۱ : ۱۱۱، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : ۳۳۲

۷. ابو نعيم، حليةالاولياء، ۴ : ۲۷۱

۸. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، ۱۴ : ۲۳۴

۹. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۱۴ : ۲۳۴

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو تو نہایت خوبصورت انداز سے بھیجا کرو کیونکہ (شاید) تم نہیں جانتے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پیش کیا جاتا ہے آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں درود سکھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کہو : اے اللہ تو اپنے درود، رحمت اور برکات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص فرما جو کہ تمام رسولوں کے سردار اور تمام متقین کے امام اور انبیاء کے خاتم اور تیرے بندے اور رسول ہیں جو کہ بھلائی کے امام اور قائد ہیں اور رسول رحمت ہیں اے اللہ ان کو اس مقام محمود پر پہنچا دے جس کی خواہش پہلے اور بعد میں آنے والے لوگ کرتے چلے آئے ہیں۔ اے اللہ تو درود بھیج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل پر بے شک تو تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ تو برکت عطاء فرما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کو جیسا کہ تو نے برکت عطا فرمائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل کو بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔‘‘

۹۸ (۲) عن مجاهد قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إنکم تعرضون عَلَيَّ بأسمائکم و سيمائکم فأحسنوا الصلاة عَلَيَّ.

عبدالرزاق، المصنف، ۲ : ۲۱۴، رقم : ۳۱۱۱

’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے ناموں اور علامتوں کے ساتھ میرے سامنے پیش کیے جاتے ہو اس لئے مجھ پر نہایت خوبصورت انداز سے درود بھیجا کرو۔‘‘

۹۹ (۳) عن ابن مسعود رضي الله عنه قال : إذا صليتم فأحسنوا الصلاة علي نبيکم.

عبدالرزاق، المصنف، ۲ : ۲۱۴، رقم : ۳۱۱۲

’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب تم نماز پڑھ چکو تو نہایت خوبصورت انداز سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کرو۔‘‘

۱۰۰ (۴) عن عقبة بن عامرقال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا صليتم عَلَيَّ فأحسنوا الصلاة فإنکم لا تدرون لعل ذلک يعرض عَلَيَّ.

هندي، کنزالعمال، ۱ : ۴۹۷، رقم : ۲۱۹۳، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم مجھ پر درود بھیجو تو نہایت خوبصورت انداز سے بھیجو کیونکہ شاید تم نہیں جانتے کہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔‘‘

فصل : ۱۳

قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ عند قبري سمعته و من صلي عَلَيَّ نائياً أبلغته

(فرمان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جو میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے)

۱۰۱ (۱) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ عند قبري سمعته ومن صلي عَلَيَّ نائياً أبلغته.

۱. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۲۱۸، رقم : ۱۵۸۳

۲. هندي، کنزالعمال، ۱ : ۴۹۲، رقم : ۲۱۶۵، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

۳. مناوي، فيض القدير، ۶ : ۱۷۰

۴. شمس الحق، عون المعبود، ۶ : ۲۲

۵. ذهبي، ميزان الاعتدال، ۶ : ۳۲۸

۶. عسقلاني، فتح الباري، ۶ : ۴۸۸

۷. سيوطي، شرح السيوطي، ۴ : ۱۱۰

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود پڑھتا ہے میں خود اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ (بھی) مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘

۱۰۲ (۲) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ عند قبري سمعته ومن صلي عَلَيَّ نائيًا وکل بها ملک يبلغني وکفي أمر دنياه وآخرته وکنت له شهيدًا أو شفيعًا.

۱. هندي، کنزالعمال، ۱ : ۴۹۸، رقم : ۲۱۹۷، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

۲. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۳ : ۲۹۲

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے میں خود اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر ہے جو مجھے وہ درود پہنچاتا ہے اور یہ درود اس درود بھیجنے والے کی دنیا وآخرت کے معاملات کے لئے کفیل ہوجاتا ہے اور (قیامت کے روز) میں اس کا گواہ اور شفاعت کرنیوالا ہوں گا۔‘‘

۱۰۳ (۳) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ عند قبري سمعته، ومن صلي عَلَيَّ من بعيد علمته.

هندي، کنزالعمال، ۱ : ۴۹۸، رقم : ۲۱۹۸، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ جو میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے میں خود اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے میں اس کو بھی جان لیتا ہوں۔‘‘

فصل : ۱۴

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم أعظم أجراً من عشرين غزوة في سبيل اﷲ

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا اجر و ثواب میں اللہ کی راہ میں لڑے جانے والے بیس غزوات سے بھی زیادہ ہے)

۱۰۴ (۱) عن عبداﷲ بن الجرار قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : حجوا الفرائض فإنها أعظم أجرًا من عشرين غزوة في سبيل اﷲ عزوجل فإن الصلاة عَلَيَّ تعدل ذا کله.

۱. ديلمي، مسند الفردوس، ۲ : ۱۳۰، رقم : ۲۶۶۲

۲. هندي، کنزالعمال، ۱ : ۵۰۵، رقم : ۲۲۳۱، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

’’حضرت عبداللہ بن جرار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرائض حج ادا کرو بے شک اس کا اجر اللہ کی راہ میں لڑے جانے والے بیس غزوات سے بھی زیادہ ہے اور مجھ پر درود بھیجنے کا ثواب ان سب کے برابر ہے۔‘‘

۱۰۵ (۲) عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من حج حجة الإسلام، وغزا بعد هاغزاة، کتبت غزاته بأربعمائة حجة قال : فانکسرت قلوب قومٍ لا يقدرون علٰي الجهاد ولا الحج قال : فأوحٰي اﷲ تعالٰي إليهِ : ما صلي عليک أحداً إلاّ کتبت صلاتک بأربعمائة غزاة، کل غزاة بأربعمائة حجة.

۱. سخاوي، القول البديع : ۱۲۶

۲. فيروز آبادي، الصلات والبشر : ۱۱۴

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص فریضہ حج ادا کرتا ہے اور اس کے بعد کسی غزوۃ میں بھی شریک ہوتا ہے تو اس کے غزوہ میں شریک ہونے کا ثواب چار سو حج کے برابر لکھا جاتا ہے تو یہ خوشخبری سن کر ان لوگوں کا دل ٹوٹ گیا جو نہ تو جہاد اور نہ حج کرنے پر قدرت رکھتے تھے پس اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی فرمائی کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اس کا ثواب چار سو غزوات کے ثواب کے برابر لکھ دیتا ہوں اور ہر غزوۃ چار سو حج کے برابر ہے۔‘‘

فصل : ۱۵

الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم صدقة لمن لم يکن له مال

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا اس شخض کا صدقہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو)

۱۰۶ (۱) عن أبي سعيد رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أيما رجل لم يکن عنده صدقة فليقل في دعائه : ’’اللهم صل علي محمد عبدک و رسولک وصل علي المؤمنين والمؤمنات و المسلمين والمسلمات‘‘ فإنها له زکاة. هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه.

۱. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، ۴ : ۱۴۴، رقم : ۷۱۷۵

۲. ابن حبان، الصحيح، ۳ : ۱۸۵، رقم : ۹۰۳

۳. بخاري، الادب المفرد، ۱ : ۲۲۳، رقم : ۶۴۰

۴. هيثمي، موارد الظمان، ۱ : ۵۹۳، رقم : ۲۳۸۵

۵. ديلمي، مسند الفردوس، ۱ : ۳۴۹، رقم : ۱۳۹۵

۶. بيهقي، شعب الايمان، ۲ : ۸۶، رقم : ۱۲۳۱

۷. منذري، الترغيب والترهيب، ۲ : ۳۲۸، رقم : ۲۵۸۱

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کے پاس صدقہ کے لیے کچھ نہ ہو تو وہ اپنی دعا میں یوں کہے : ’’اے اللہ تو اپنے رسول اور بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں، مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں پر رحمتیں نازل فرما‘‘ یہی اس کا صدقہ ہو جائے گا اس حدیث کی اسناد صحیح ہے لیکن شیخین نے اس کی تخریج نہیں کی۔‘‘

۱۰۷ (۲) عن أنس بلفظ صلوا عليّ فإن الصلوة عليّ کفارة لکم وزکاة فمن صلي علي صلاة صلي اﷲ عليه عشرا.

سخاوي، القول البديع : ۱۰۳

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر درود بھیجو بے شک تمہارا مجھ پر درود بھیجنا تمہارے لئے (گناہوں کا) کفارہ ہے اور زکوٰۃ ہے جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اﷲ اس پر دس مرتبہ درود (بصورت رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

فصل : ۱۶

من سره أن يلقي اﷲ في حالة الرضاء فليکثر الصلاة عَلَيَّ

(جسے یہ پسند ہو کہ وہ حالت رضاء میں اللہ سے ملاقات کرے تو وہ مجھ پر کثرت سے درود بھیجے)

۱۰۸ (۱) عن عائشه رضي اﷲ عنها مرفوعًا قالت : قال رسول اﷲ من سره أن يلقي اﷲ وهو عنه راضٍ فليکثر الصلاة عَلَيَّ.

۱. ذهبي، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ۵ : ۲۳۵

۲. عسقلاني، لسان الميزان، ۴ : ۳۰۳، رقم : ۷۵۲

۳. جرجاني، تاريخ جرجان، ۱ : ۴۰۴، رقم : ۶۸۸

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے مرفوعًا روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جسے یہ پسند ہو کہ وہ حالت رضاء میں اللہ سے ملاقات کرے تو وہ مجھ پر کثرت کے ساتھ درود بھیجے۔‘‘

۱۰۹ (۲) عن عبداﷲ بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إن أولٰي الناس بي أکثرهم عَلَيَّ صلاة.

خطيب بغدادي، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، ۲ : ۱۰۳، رقم : ۱۳۰۴

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔‘‘

فصل : ۱۷

تستغفر الملائکة لمن صلی علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم في کتاب مادام إسمه صلي الله عليه وآله وسلم في ذلک الکتاب

( فرشتے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی کتاب میں درود بھیجنے والے کے لئے اس وقت تک استغفار کرتے رہتے ہیں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اس کتاب میں موجود ہے )

۱۱۰ (۱) عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ في کتاب لم تزل الملائکة تستغفر له مادام إسمي في ذلک الکتاب.

۱. طبراني، المعجم الاوسط، ۲ : ۲۳۲، رقم : ۱۸۳۵

۲. هيثمي، مجمع الزوائد، ۱ : ۱۳۶

۳. منذري، الترغيب والترهيب، ۱ : ۶۲، رقم : ۱۵۷

۴. ذهبي، ميزان الاعتدال في نقد الرجال ۲ : ۳۲، رقم : ۱۲۰۷

۵. عسقلاني، لسان الميزان، ۲ : ۲۶، رقم : ۹۳

۶. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، ۴ : ۱۰۷

۷. عجلوني، کشف الخفاء ۲ : ۳۳۸، رقم : ۲۵۱۸

۸. سيوطي، تدريب الراوي، ۲ : ۷۴، ۷۵

۹. سمعاني، ادب الاملاؤ الاستملاء، ۱ : ۶۴

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر کسی کتاب میں درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے اس وقت تک بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہتا ہے۔‘‘

۱۱۱ (۲) قال أبو عبداﷲ بن مندة سمعت حمزة بن محمد الحافظ يقول : کنت أکتب الحديث فلا أکتب وسلم بعد صلي اﷲ عليه فرأيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم في المنام فقال لي : أما تختم الصلاة عَلَيَّ في کتابک.

۱. ذهبي، سيراعلام النبلاء، ۱۶ : ۱۸۰

۲. قيسراني، تذکره الحفاظ، ۳ : ۹۳۴

’’حضرت ابو عبداللہ بن مندہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حمزہ بن محمد حافظ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا کرتا تھا پس میں ’’صلی اللہ علیہ‘‘ کے بعد ’’وسلم‘‘ نہیں لکھتا تھا تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا تو اپنی کتاب میں مجھ پر مکمل درود کیوں نہیں لکھتا۔‘‘

۱۱۲ (۳) عن محمد بن أبي سليمان الوراق قال : رأيت أبي في النوم فقلت : ما فعل اﷲ بک؟ قال : غفرلي، فقلت : بماذا؟ قال : بکتابتي الصلاة عَلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في کل حديث.

خطيب بغدادي، الجامع لاخلاق الراوي و آداب السامع، ۱ : ۲۷۲، رقم : ۵۶۷

’’حضرت محمد بن ابی سلیمان الوراق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد کو خواب میں دیکھا تو میں نے کہا (اے میرے باپ) اللہ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیاہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے معاف فرما دیا ہے۔ میں نے کہا یہ بخشش اللہ نے کس عمل کی وجہ فرمائی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نامِ نامی کے ساتھ درود لکھنے کی وجہ سے۔‘‘

۱۱۳ (۴) عن ابن عباس رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من صلي عَلَيَّ في کتاب لم تزل الصلاة جارية له مادام اسمي في ذلک الکتاب.

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۳ : ۵۱۷

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھ پر کسی کتاب میں درود بھیجتا ہے تو اس کے لئے اس وقت تک برکتیں جاری رہیں گی جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہے گا۔‘‘

۱۱۴ (۵) عن سفيان بن عيينة قال : کان لي أخ مؤاخ في الحديث فمات فرأيته في النوم فقلت : ما فعل اﷲ بک؟ قال غفرلي قلت بماذا؟ قال : کنت أکتب الحديث فإذا جاء ذکر النبي صلي الله عليه وآله وسلم کتبت صلي اﷲ عليه أبتغي بذٰلک الثواب فغفراﷲ لي بذالک.

خطيب بغدادي، الجامع لاخلاق الراوي وآداب السامع، ۱ : ۲۷۱، رقم : ۵۶۵

’’حضرت سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حدیث میں میرا بھائی بنا ہوا تھا وہ وفات پاگیا تو ایک دفعہ میں نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ تو اس نے کہا اللہ نے مجھے معاف فرما دیا ہے میں نے کہا کیسے؟ تو اس نے کہا کہ میں احادیث لکھا کرتا تھا جب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتا تو میں (اس کے ساتھ) ’’صلی اللہ علیہ‘‘ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے کے کلمات لکھتا تھا۔ اور ایسا میں ثواب کی خاطر کرتا سو اللہ نے مجھے اس وجہ سے بخش دیا ہے۔‘‘

۱۱۵ (۶) عن أبي سليمان الحراني قال : قال لي رجل من جواري يقال له الفضل وکان کثير الصوم و الصلاة کنت أکتب الحديث ولا أصلي علٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم إذ رأيته في المنام فقال لي إذا کتبت أو ذکرت لم لا تصلي عَلَيَّ؟ ثم رأيته صلي الله عليه وآله وسلم مرة من الزمان فقال لي قد بلغني صلاتک عَلَيَّ فإذا صليت عَلَيَّ أو ذکرت فقل صلي اﷲ تعالٰي عليه وسلم.

(۲) خطيب بغدادي، الجامع لاخلاق الراوي وآداب السامع، ۱ : ۲۷۲، رقم : ۵۶۹

’’حضرت ابو سلیمان الحرانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ہمسایوں میں سے ایک شخص جس کو ابو الفضل کہا جاتا تھا اور وہ بہت زیادہ نماز و روزے کا پابند تھا اس نے مجھے بتایا کہ میں احادیث لکھا کرتا تھا لیکن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہیں بھیجا کرتا تھا پھر اچانک ایک دفعہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ جب تو نے میرا نام لکھا یا یاد کیا تو تو نے مجھ پر درود کیوں نہیں بھیجا؟ پھر میں نے ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہارا درود پہنچ گیا ہے۔ پس جب بھی تو مجھ پر درود بھیجے یا میرا ذکر کرے تو’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہا کر۔‘‘

۱۱۶ (۷) عن أنس بن مالک قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إذا کان يوم القيامة جاء أصحاب الحديث بأيديهم المحابر فيأمر اﷲ عزوجل جبريل أن يأتيهم فيسألهم من هم؟ فيأتيهم فيسألهم فيقولون نحن أصحاب الحديث فيقول اﷲ تعالي أدخلوا الجنة طال ما کنتم تصلون علي النبي.

۱. ديلمي، مسند الفردوس، ۱ : ۲۵۴، رقم : ۹۸۳

۲. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ۳ : ۴۱۰، رقم : ۱۵۴۲

۳. سمعاني، أدب الإ ملاء و الإ ستملاء، ۱ : ۵۳

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو حدیث لکھنے والے لوگ آئیں گے درآنحالیکہ ان کے ہاتھوں میں دواتیں ہوں گی پس اللہ عزوجل حضرت جبرئیل کوحکم دے گا کہ وہ ان کے پاس جا کر ان سے پوچھے کہ وہ کون ہیں پس جبرئیل علیہ السلام ان کے پاس جاکران سے پوچھیں گے (کہ تم کون ہو؟) تو وہ کہیں گے ہم کاتبین حدیث ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جنت میں اتنے عرصے کے لئے داخل ہوجاؤ جتنا عرصہ تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے رہے ہو۔‘‘

۱۱۷ (۸) عن عمر بن الخطاب رضی الله عنه أنه قال الدعاء يحجب دون السماء حتي يصلي عَلٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فإذا جاء ت الصلاة عَلٰي النبي صلي الله عليه وآله وسلم رفع الدعاء وقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم من صلي عَلَيَّ في کتاب لم تزل الملائکة يصلون عليه مادام اسمي في ذلک الکتاب.

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، ۱۴ : ۲۳۵

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دعا اس وقت تک آسمان کے نیچے حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہیں بھیجا جاتا ہے پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے تو دعا آسمان کی طرف بلند ہوجاتی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی کتاب میں مجھ پر درود لکھتا ہے تو ملائکہ اس کے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہتا ہے۔‘‘

۱۱۸ (۹) عن أبي بکر الصديق قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من کتب عني علما و کتب معه صلاة علي لم يزل في أجر ماقرئ ذلک الکتاب.

خطيب بغدادي، الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع، ۱ : ۲۷۰، رقم : ۵۶۴

’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے میرے متعلق کوئی علم کی بات لکھی اور اس علم میں جہاں میرا نام آیا اس کے ساتھ مجھ پر درود بھی لکھا تو اس وقت تک اس شخص کو اجر ملتا رہے گا جب تک وہ کتاب پڑھی جاتی رہے گی۔‘‘


5

6

7

8

9

10