حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات

حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات0%

حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 24

حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات

مؤلف: ڈاکٹر سکندر عباس زیدی
زمرہ جات:

صفحے: 24
مشاہدے: 60152
ڈاؤنلوڈ: 3727

تبصرے:

حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 60152 / ڈاؤنلوڈ: 3727
سائز سائز سائز
حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات

حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

بسم الله الرحمن الرحیم

کتاب شریف : شجره طیبه زیدی سادات مقیم شبه قاره هند

مولف : دکتر سکندر عباس زیدی

زبان : اردو

سال تالیف : ۲۰۱۲

ماخذ: zaidi.persianblog.ir

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت زید شہید و شجرہ زیدی سادات

( إنَاّ اَعطَینٰکَ الکوَثَر فَصِلّ لِرَبّکَ وَ انحرَ اِّنَ شَائِنئَکَ هُوَالاَبتَرُ )

مؤ لف و مرتب : ڈاکٹر سکندر عباس زیدی

سال تالیف : ۲۰۱۲ ء

۴

انتساب :

والدمرحوم سید منظور حسین زیدی کے نام جن کی علمی تربیت اور اخلاص نے زندگی کے ہر موڑ اور امتحان میں میری رہنمائی فرمائی۔

۵

۱- مقدمہ

زیدی سادات اور ان کی اولاد کا تذکرہ و شجرہ جدید تقاضوں اور جانی پہچانی زبان میں حاضر ہے تاکہ نئی پود او ر آنے والی نسلوں کو تقسیم ہندوستان سے قبل صدیوں سے آباد ”زیدی سادات“ کے بزرگوں، ان کی طرزِ معاشرت اور ماضی کے مزارات کی پہچان میں دشواری محسوس نہ ہو ۔ حسب نسب اور آبا واجداد کے حالات قلمبند کرنے کا رواج صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ آج کے جمہوری دور میں اگرچہ حسب و نسب کی بات کرنے کا چنداں رواج نہیں رہا ۔مگر پھر بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو رشتہ داری کرتے وقت حسب نسب کی نجابت کو مادی امتیازات پر ترجیح دیتے ہیں۔ گردشِ شام و سحر کے ساتھ ساتھ انسانی افکار اور انسانی قدروں کی اہمیت کے احساسات میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اکثر پرانی قدریں جدید ناموں کے ساتھ پھر رواج پکڑتی رہتی ہیں۔معلوم نہیں مستقبل کے انسان کی کیا فکر ہو، اس کی ثقافتی ضروریات کیا ہوں، اس کے مذہبی رجحانات اسے کس طرف لئے جا رہے ہوں۔ لہٰذا یہی بہتر تصور کیا جاتا ہے کہ ہم بزرگوں کے طریقہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے نسب نامہ کو جدید اضافوں کے ساتھ تدوین کرکے آنے والی نسلوں کے حوالے کرجائیں تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں اور مزید اضافوں کے ساتھ اپنی اولاد کے لئے ورثہ چھوڑیں، یا پھر اسے ایک بے کار اور "پدرم سلطان بود ۔ تراچہ ۔ " کے مترادف سمجھتے ہوئے دریا برد کردیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہمیں یہ فیصلہ ان پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔

یہاں ایک اہم بات کا تذکرہ بھی کرتا چلوں اور وہ یہ کہ میں گذشتہ ایک دہائی سے ایران میں آباد ہوں اور لدہانہ ہماری تین چار صدیوں کے ماضی کا امین ہے اور اسی اعتبار سے ہماری آئندہ نسلوں کے لئے سنگ میل کا درجّہ رکھتا ہے۔ یہ تذکرہ اور شجرہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آئندہ دس بیس سال بعد لدہانہ سے ہجرت کیا ہوا کوئی ذی روح باقی نہیں رہے گا ۔ایسی صورت میں کون ہماری نئی نسلوں کو ان کے ماضی اور بزرگوں سے روشناس کرائے گا؟

حصولِ تعلیم، معاشی ترقی، سماجی خوشحالی اور اعلیٰ معیار کی زندگی کی خواہش اگر اخلاق واقدار کی حدود میں ہو تو شرف انسانی میں اضافے کاذریعہ ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کا کردار اس کے خاندانی خون سے عبارت ہوتا ہے ماضی میں بھی ان حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے جن افراد اور اقوام نے ترقی کا زینہ طے کیا وہ ہمارے لئے مثال کا درجہ پاگئے۔ آج بھی ہم میں سے جو لوگ ان حدود کا لحاظ پاس رکھ کرروبہ ترقی ہونے کے خواہش مند ہیں وہی اپنے اگلوں کے حقیقی وارث ہیں۔ ہم جو ایک تاریخی ماضی کے حامل لوگ ہیں، کس لئے اپنے ماضی پر شرمندہ ہوسکتے ہیں؟ ہم جو خیر البشر کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایسے پاکیزہ نشانوں کی نشاندہی کردینا چاہتے ہیں کہ اس برق رفتار اور تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں نئے آنے والے بھی اس حقیقت سے آگاہ رہیں کہ وہ کون ہیں؟ اور اب ان کےکیا فرائض ہیں؟

گوطرز بیاں میرا کوئی شوخ نہیں ہے

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

میں سمجھتا ہوں کہ بزرگوں کے صرف نام ہی جاننا کافی نہیں بلکہ ان کے افکار اور کردار سے بھی واقفیت ضروری ہے تاکہ انہیں مشعلِ راہ بنا کر اپنی راہیں متعین کرنے میں آسانی ہوجائے۔ چنانچہ جہاں تک ممکن ہوسکا میں نے اس عہد کے سیاسی ، معاشی اور مذہبی حالات کا کھوج لگا کر انہیں درج کیا ہے۔ اس لئے کہ یہی تینوں عناصر مل کرتہذیب و تمدن کو عام طور پر تخلیق کرتے ہیں اور ان سے بالواسطہ اندازِ فکر اور کردار متاثر ہوتے ہیں۔ بلاشبہ کچھ شخصیات تاریخ ساز ہوتی ہیں ۔ اس پس منظر کے پیشِ نظر میں نے ساداتِ امروہہ، ساداتِ بارہہ، ساداتِ آگرہ و نواحِ آگرہ ، ساداتِ نواز پورہ ، ساداتِ سامانہ کے خاندانی حالات اور شجروں کے علاوہ سیرت اور مستند تاریخی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ میں کس حد تک اپنی کوشش میں کامیاب ہوا ہوں اس بات کا بہترین فیصلہ تذکرہ پڑھنے اور شجرہ جات کا مطالعہ کرنے والے افراد ہی بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔شجرے کی تکمیل کے لیے معاونت پر سب احباب اورشخصیات خاص طور پر چچا اعجاز ، دلشاد بھائی اور محمد بھائی کے علاوہ خاندان کے دیگر احباب کا دلی مشکور ہوں کہ انہوں نے میری اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا او راپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر خاندان کے تاریخی اور ازدواجی حوالوں کو معّین کرنے میں میری معاونت فرمائی۔ میں ان تمام احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں، جنہوں نے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کے کوائف مجھے مہیا کئے۔ جنہوں نے مختلف اوقات میں مجھے ضروری معلومات بہم پہنچائیں اور عمدہ مشوروں سے نواز کر میری حوصلہ افزائی کی۔ جس کے لئے میں ہمیشہ ان کا شکر گزار بھی ہوں اور بارگاہ الٰہی میں ان کے لئے سراپا دعا بھی۔ میری قارئین سے التماس ہے کہ ہمارے زیدی خاندان کے مرحومین کی مغفرت اور ایصال ثواب کے لئے ایک دفعہ سورۃ الحمد اور تین مرتبہ سورۃ توحید کی تلاوت فرما کر مرحومین ان کی ارواح کو بخش دئیں ۔ شکریه

تصویر ادھوری ہے ابھی کاوشِ ناکام

لفظوں میں خیالات کے پیکر نہیں آئے

۶

۲- تاریخ سادات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

( انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلا )

ذرا دیکھو تو کہ ہم نے بعض لوگوں کو بعض پر کیسی فضیلت دی ہے اور آخرت کے درجے تو کہیں بڑھ کرہیں اور وہاں کی فضیلت بھی تو کہیں بڑھ کر ہے۔ (سورہ ، بنی اسرائیل آیت : ۱۲)

احدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

"قیامت کے دن ہر حسب و نسب منقطع ہوجائے گا بجز میرے حسب ونسب کے" (بحارا الانوار جلد ۷ ، صفحہ ۱۴۲)

ارشاد امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب:

" جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹادیں اُسے اُس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا" (نج البلاغہ)

سید کا لفظ ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ علیہا السلام بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد سے ہیں۔ عربی میں ان کے لئے شریف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔سید کا لفظی مطلب سردار کا ہے جو احتراماً ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرابت کی وجہ سے کہا جاتا ہے ۔ سادات ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں مگر ان کی زیادہ تعداد عرب علاقوں، ایران، پاکستان، ترکی اور وسط ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ سادات عموماً اپنے نام کے آخر میں یا اپنے اجداد کے آبائی وطن یا شہرکے حوالے سےجیسے بخارایی ، شیرازی ، سبزواری ، لد ہیانوی ، ساداتِ امروہہ، ساداتِ بارہہ وغیره یا ایک لفظ لگاتے ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کس امام کی اولاد سے ہیں مثلاً نقوی امام علی نقی علیہ السلام کی اولاد سے ہوں گے۔ کاظمیوں کے جد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہیں۔ نیچے ایک جدول میں زیادہ صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔

جد امجد - -- خطاب

علی علیہ السلام - -- علوی

حسن علیہ السلام - -- حسنی

حسین علیہ السلام - -- حسینی

زین العابدین علیہ السلام - -- عابدی / زیدی

محمد باقر علیہ السلام -- باقری

جعفر صادق علیہ السلام - -- جعفری

موسی کاظم علیہ السلام - -- موسوی / کاظمی

علی رضا علیہ السلام - -- رضوی

محمد تقی علیہ السلام - -- تقوی

علی نقی علیہ السلام --- نقوی/بخارایی

۳- برصغیر کے زیدی سادات

زیدی سادات بارہہ:

سادات باہرہ زیدی سادات اپنے آپ کو کہتے تھے یعنی وہ افراد جو امام زین العابدین(ع) کے فرزند زید شھید کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ،لیکن اب سادات بارہہ ایک علاقہ کے نام سے مشھور ہو گیا ہے جو ضلع مظفر نگر(یو پی،ھندوستان) کے چند گاؤں پر مشتمل ہے جن میں ککرولی ،جانسٹھ ،سندھاولی ،سمبھلہیڑہ ،قوال ،بہڑہ ، بہاری ،میرانپور ،وغیرہ شامل ہیں ،سادات بارہہ کی بڑی اور مشھور بستیوں میں ککرولی نمایاں حیثیت رکھتی ہے ککرولی میں شیعہ آبادی تقریباً ۲۰۰۰ ہے جن میں سادات اور غیر سادات دونوں شامل ہیں اور تقریباً ۴۰۰۰ سنی المسلک اور ۴۰۰۰ ھندو افراد پر ککرولی کی آبادی مشتمل ہے ۔ ککرولی میں دو انٹر کالج اور متعدد اسکول ہیں ۔ ککرولی میں سات امام بارگاہ اور چند مساجد ہیں ۔ یہاں کی شیعہ بڑی اور با علم ھستیوں میں کرنل بشیر حسین زیدی ،مولانا نظر محمد صاحب ، مولانا باقر حسنین صاحب تھیں ۔ اور فی الحال موجودہ علماء میں مولانا نعمت علی صاحب ، مولانا فیروز حیدر صاحب ،ریاض حیدر قمی صاحب وغیرہ ہیں ۔ معززین ڈاکٹر ضیاء عالم صاحب ، ماسٹر سلیم صاحب ،مشرف حسین عرف مسّن صاحب ،غلام حیدر عرف چنگا صاحب،غلام حر صاحب وغیرہ یہاں کے برجستہ بزرگواران میں سے ہیں ۔

زیدی سادات سا ڈھورہ :

ساڈھورہ بھارت کے ضلع انبالہ کا ایک قصبہ ہے جہاں تقسیم ہند سے پہلے زیدی سادات کی اکثریت آباد تھی۔ محرم الحرام میں عزاداری کا گڑھ ہونے کی وجہ سے اس چھوٹے سے شہر کی بہت شہرت تھی۔ تقسیم ہند سے پہلے سادات ساڈھورہ کے بزرگ سید عزادار حسین زیدی، سید علمدار حسین زیدی، سید علی نقی نشاط الواسطی زیدی محلہ واسطیان میں عزاداری کے روح رواں تھے، جبکہ سید علی اختر ترمزی، سید محمد عیسی ترمزی، سید محمد الیاس ترمزی اور حکیم سید خضر عباس ترمزی محلہ سوانیان میں عزاداری کے فروغ میں پیش پیش رہے۔ تقسیم کے بعد سادات ساڈھورہ پاکستان کے شہر گوجرانوالہ کے نواح میں واقع اکال گڑھ میں مقیم ہوئے۔ اکال گڑھ آج کل علی پور چٹھہ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں پر انجمن سادات ساڈھورہ کے پلیٹ فارم سے محرم الحرام کا مرکزی جلوس اور دیگر مجالس وغیرہ منعقد کی جاتی ہیں۔

زیدی سادات سامانہ

سامانہ نہایت قدیم بستی ہے مگر وثوق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کب آباد ہوئی اور اس کے ابتدائی نام کیا تھے۔ البتہ یہ بات تاریخ کی معتبر اور مستند کتابوں سے بھی ثابت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی فاتحانہ آمد سے قبل بھی یہ بستی بسی ہوئی تھی۔ ۱۱۲۹ءمیں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے تراوڑی کے میدانِ کار زار میں پرتھوی راج چوہان کو شکست فاش دینے کے بعد سامانہ میں آرام کی غرض سے قیام کیا اور یہاں پڑا ڈال کر اپنی فوجوں کو ازسر نو منظم اور اپنے بکھرے ہوئے حالات کو مربوط کیا۔ اسی طرح سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانے میں سامانہ اس کے چچیرے بھائی شیر خان سنکر کی جاگیر تھا اور ا س کے بعد بلبن کے بیٹے محمود کی جاگیر قرار پایا۔ سامانہ کا تذکرہ ”تاریخِ فرشتہ“ اور ”کیمبرج ہسٹری آف انڈیا“ میں متعدد مقامات پر آیا ہے ۔ اسی طرح سامانہ کو دِلی کے شمال میں تقریباً سومیل کے فاصلے پر حملے کی نیت سے آنے والوں کے خلاف دفاعی لائین بھی قرار دیا جاتا تھا۔ بلا شبہ سامانہ کو بنی فاطمہؑ نے آباد کیا اور وقتی مصلحتوں کے پیشِ نظر اس نوآبادی کو کسی معصوم کے نام گرامی سے منسوب کرنے کے بجائے حضرت امام محمد تقی ؑ کی زوجہ محترمہ حضرت "سمانہ خاتون " کے نام سے منسوب کردیا۔ چنانچہ سید ابوالفراح واسطی کے فرزندانِ ارجمند سامانہ کے ہی گردو نواح میں سکونت پذیر ہوئے تھے ۔ چار میں سے تین بستیاں تو صفحہ ہستی پر موجود نہیں البتہ سامانہ سے تقریباً تیس میل کے فاصلے پر چھت کی بستی موجودہ بنوڑ سے متصل ۱۹۴۷ء تک قائم تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ چھت میں کوئی سادات آباد نہیں تھے بلکہ اس سے دو ڈیڑھ میل کے فاصلے پر بنوڑ میں سادات کی بہت بڑی آبادی تھی۔ اس سے قریباً دوسو سال بعد شہاب الدین غوری، ترا وڑی کے میدان میں پرتھوی راج چوہان کے ٹڈی دل لشکر کو شکست دے کر سامانہ میں آرام کی غرض سے کچھ عرصہ مقیم رہا۔ (بحوالہ کیمبرج ہسٹری آف انڈیا، جلد سوئم)۔

سامانہ میں سادات کے چار محلے صدیوں سے آباد تھے جن کی اپنی اپنی مساجد اور امام بارگاہیں تھیں۔ یہاں بڑے زور و شور سے مراسم عزاداری کا انعقاد ہوتا اور ارد گر د کے علاقوں میں آباد مسلم اور غیر مسلم بھی بڑی عقیدت سے ان مراسم میں شریک ہوتے۔ شہر کے مشرقی حصے میں رضوی سادات اپنے مورث اعلیٰ میر امان اللہ ؒکے مزار کے گرد و نواح میں آباد تھے۔ ان کے مغرب میں بخاریوں کا محلہ تھا جس میں نقوی صاحبان آباد تھے۔ محلے کے مرکز میں ان کے جدِ اعلیٰ کا مزار ، امام بارگاہ اور مسجد تھی۔ ان کی کربلا علیحدہ تھی جو انہی کے محلے کے مشرق میں موجودہ منڈی اور محلے کے درمیان واقع تھی۔ محلہ بخاریاں کے مغر ب میں زیدی سادات آباد تھے۔ انہی کے محلے میں ان کے مورث اعلیٰ مخدوم سید فرید الدین المعروف دادا پیرؒ کا مزار ہے۔ مزار سے ملحق مسجد و امام بارگاہ آج بھی محکمہ اوقاف کے زیر انتظام محفوظ ہیں۔ یہ مزار آج بھی شہر کے مغربی حصے کی آخری عمارت ہے جبکہ امام مشہد علی صاحبؒ کا مزار سامانہ کے جنوب مغربی سرے پر واقع ہے۔ البتہ صرف بڈولی ضلع مظفر نگر کے مولانا سید نادر علی زیدی الواسطی ”محلہ رضویاں“میں آباد ہوئے تھے۔اسی طرح ”محلہ امام گڑھ“ میں دو خاندان رضویوں کے بھی آباد تھے جو کہ سید محمد حسن وکیل اور سید جعفر حسین کے گھرانوں پر مشتمل تھے۔

زیدی سادات لدھیانہ :

شجرہ ہا ئے نسب جو مرتب کیے گۓ ہیں ان کے مطابق اس خاندان کے ایک بزرگ سیدجو سادات بھوریاں بھی کہلاتے تھے شاہان وقت کے ظلم و ستم تنگ آکر سر زمین عراق کو خیر آباد کہنے کے بعد پہلے ایران پھر زاہدان اور افغانستان سے ہوتے ہوۓ وارد ہند ہمۓ اور اچ شریف میں قیام کیا۔ یہ خاندان وادی ہہران اور اچ سے نقل مقانی کر کے پرست کرنال کے پڑوس میں ایک بستی میں تقریباُ تین سو سال پہلے آ کر آباد ہوا ۔ برست میں سید بڈ ا کے سات واسطوں کے بعد اس خاندان کے مورث اعلی سید علی مردان زیدی قرار پاۓ۔ جن کے بیٹے سید امیر حسین جو میرے دادا کے دادا تھے اور برطانوی فوج میں صوبیدار تھے اپنے خاندان کےافراد کے ساتھ برست سےنقل مقانی کرکے ۱۸۶۰ء میں اندون پنجاب کی تحصیل لدھیانہ آکر آباد ہوۓ۔ ان کی خاندانی شرافت اور لیاقت کی وجہ سے ان بیٹے وزیر حسن کی شاد ی مقامی کاظمی سادات رئیس لدھیانہ میں ہوئی ۔

لدہیانہ

سنتا ہوں مرکز، علماء لدبیانہ ہے جن کی گلی گلی میں انہیں کا فسانہ ہے

کیوں آستاں غیر پر اس کو جھکاؤں میں یا رب یہ سر ہے اور ترا آستانہ ہے

جب ہم محمدؐ عربی کے غلام ہیں کیا غم اگر خلاف ہمارے زمانہ ہے

خدا وند کریم کی منشا کا تقاضا تھا کہ سید علی محمود موسوی اور سید علی مردان زیدی کی اولاد آگے چل کر ایک مشترک خاندان کی بنیاد رکھیں اور اس حکمت خداوندی کے تحت باہمی شادیوں کی صورت میں ان خاندانوں کا بخوبی ملاپ ہوا۔

سید تصدق حسین کی شادی حافظ مو لوی سید محمد حسین کی دختر نیک اختر سید ہ رضیہ بیگم سے انجام پائی۔ حافظ مو لوی سید محمد حسین ایک بزرگ ،دیندار اور نیک سیرت انسان تھے ۔آپ کی پوری زندگی اسلام کے لئے وقف تھی۔آپ نے لوگوں کو دین اسلام کی تبلیغ کی ۔ اس طرح اس شادی نے خاندان امام زین العابدین علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے خاندانی اشتراک کی بنیاد رکھی۔آپ کی اولاد میں سید منظور حسین ، سید ظہورحسین ، سید اعجاز حسین اور سیدہ حمیدہ خاتون شامل ہیں۔ آگے چل کر ان اولاد میں سید منظور حسین زیدی سے ذکیہ بیگم کاظمی دختر الطاف حسین کاظمی سے انجام پائی ۔ الطاف حسین کاظمی ان کے والد دوسرے بھائیوں میں شریف حسین ،شبیر حسین ،عاشق حسین ،حامد حسین،عباس حسین اورسجاد حسین شامل تھے ان کے والد کا نام خورشید علی کاظمی تھا جن کا تعلق بھی لدہیانہ کے معروف سادات خاندان سے تھا اور پھر ان کے بیٹے سکندر عباس زیدی نے مہ جبین کاظمی دختر مصطفی علی کاظمی ریئس لدہیانہ سے شادی کر کے اس خاندانی اشتراک کی روایت کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ مزید آگے بڑھایا۔

۷

۴- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم) کا خاندان

تمام حمد ہے اس خالق ازل کے لئے

سکون جھیل کو دیتا ہے جو کنول کے لیے

میں ان کے نام سے کرتا ہوں ابتداۓ کلام

وہ جن کے نام فرشتوں نے بھی سنبھل کے لیے

القریٰ، مکّہ کو آباد کرنے والے پیغمبرِ اکرم کے آبائے طاہرین عرب کے رئیس افراد تھے۔ یہ مقدّس گھرانہ عرب کا مقبول ترین اور رئیس گھرانہ تھا اور ان کے ذاتی تعلقات تاریخِ عالم میں اس وقت کی چار بڑی طاقتوں سے قائم تھے۔ ایک طرف قیصرِ روم تھا، دوسری طرف کسریٰ شاہِ فارس، تیسری طرف تُبعَانِ یمن اور چوتھی طرف حبشہ کے نجاشی۔ ان چار بڑی طاقتوں کے طفیلی بادشاہ بھی سیدنا عبدالمطلب کووسیلہ بنا کر حکومتیں لیتے تھے جن میں عراق کے منا ذرہ اور عرب و شام کے مشارفہ، حضرت کی خدمتگاری پر فخر کرتے تھے۔ تبُعانِ یمن کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیف بن ذی یزان کو یمن کی حکومت دلانے کا سہرا بھی سیدنا عبدالمُطّلِب کے سر ہے۔

سیّدنا سعد، جنہیں تاریخ ہاشم کے نام سے یاد کرتی ہے عرب کے رئیس الرّؤسا تھے۔ جب پورے عرب کو قحط نے بری طرح سے لپیٹ میں لے لیا اور بڑے بڑے رئیس دو وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے تو اس کڑے وقت میں روزانہ ہزاروں اُونٹ ذبح کر کے ان کے شوربے میں روٹیاں توڑ کر ڈال دیتے تھے اور لاکھوں قحط ذدہ افراد کو کھانا کھلاتے تھے اور انہیں ایک نئی زندگی عطا فرماتے تھے۔ اسی وقت عربوں نے آپ کو ’’ہاشم ‘‘ کا لقب دیا۔ ہاشم اس سخی کو کہتے ہیں جو اونٹ کے شوربے میں روٹیاں توڑ کر کھلائے۔اسی طرح یمن، شام اور حجاز میں اس خانوادے کی جائیدادیں اور ان کے متعلق صفحاتِتاریخ میں نقش وصیتیں وہ اہم دستاویزات ہیں جو دشمنانِ اسلام کا یہ مذموم پروپیگنڈا توڑ ڈالتی ہیں کہ سرورِ کائنات کے آبائے طاہرین مفلس و تنگدست اور غربت کا شکار رہے۔ یہ عظیم ہستیاں تو کائنات کو رزق تقسیم کرنے والی ہیں اور ان ہی کا صدقہ جملہ مخلوقات کو تقسیم کیا جاتا ہے۔رئیس ِبطحا سیدنا عمران بن عبدالمُطّلب المعروف حضرت ابوطالب کو ان دشمنان ِرسالت نے غربت کا شکار بیان کیا اور اسی غربت کے باعث مولائے کائنات ،اسدُ اللہ الغالب، علی ابن ابی طالب کو آغوشِ رسالت کے سپرد کرنے کا سبب قرار دیا اور "اَنا و عَلیِِِِ منِ نُورِ وَاحد" کی حدیثِ مبارکہ بھلا دی گئی۔ اگر سیدنا ابوطالب غریب تھے تو حضرت جعفر طیاراور بعد ازاں عبداللہ بن جعفر طیار کو منتقل ہونے والی شام ولبنان اور یمن کے باغات کی وراثت کہاں سے آگئی؟۔

عرش سے نور چلا اور حرم تک پہنچنا:

شان ِوحدت پہ نثار ، آبا ء و اجدادِرسول

عظمتوں کے کوہسار ، آباء و اجدادِ رسول

یہ خُدا کے برگزیدہ ، پاک ، پیارے ، عبد ہیں

ذی حشم او ر ذی وقار ، آباء واجداد رسول

خا نہ کعبہ کے متولّی رہے ہر دور میں

ہیں صفا مروہ کا ہار ، آباء واجداد رسول

آل ِ ابراہیم ہیں ، سیّد ، قریشی ، ہاشمی

حق نُما ، حق کی پکار ، آباء واجداد رسول

یہ ذبیح ُاللہ کے لخت ِجگر ، پیارے نبی

ہاجرہ کا ہیں سنگھار ، آباء واجداد رسول

پاک صلبوں ، پاک پشتوں اور پاک ارحام سے

گزرے احمد بار بار ، آباء و اجداد ِ رسول

یہ ابو طالب و عبدالمُطَّلِب کا خانداں

یہ ہیں عبداللہ کا پیار ، آباء واجداد رسول

جن کا ہر اِک نامور شخص ِ عظیم المرتبت

ہے مقرّبِ کردگار ، آباء واجداد ِ رسول

مقدّس جبینوں، پاکیزہ اصلاب، پاک ارحام سے ہوتا نورِ محمدی، "اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِین" کے مصداق اجدادِ اطہار کو خراجِ عقیدت دیتا، جبینِ عبدالمُطّلب کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ نصف نور سیدنا عبداللہ اور نصف سیدنا ابوطالب کو منتقل ہوا۔ سےّسیدناعبداللہ، سےّسیدناابو طالب عمران بن عبدالمُطّلِب سے پانچ برس صغیر السن تھے اور ۵۴۵عیسوی میں دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کی والدہ معظمہ سیدہ فاطمہ بنتِ عمروبن عائذبن عمران بن مخزوم تھیں۔سیدنا عبداللہ کے متعلق کتب ِتاریخ کے الفاظ ہیں،۔۔۔" آپ نہایت متین، سنجیدہ و شریف طبیعت کے انسان تھے اور نہ صرف جلالتِ نسب بلکہ مکارمِ اخلاق کی وجہ سے تمام جو انانِ قریش میں امتیاز کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ محاسن ِاخلاق اور شمائل مطبوع میں منفرد تھے۔ حرکات موزوں اور لطف و گفتار میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے"۔آپ کے فدیہ میں سیّدنا عبدالمُطّلب نے سو اونٹ قربان کئے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فخرِ موجودات نے فرمایا، " انا اِبنُ الذ ّبِیحَین " میں دو ذبیحوں، یعنی سیّدنا اسمٰعیل ذبیح ُ اللہ اور جناب عبداللہ ذبیح ُ اللہ کا بیٹا ہوں۔عربی زبان میں تثنیہ کا صیغہ برابری کے لئے استعما ل ہوتاہے۔ فرمان ِرسالت کی روشنی میں حضرت عبداللہ ذبیح ُ اللہ کا مقام و مرتبہ ملاحظہ فرمائیے۔

مرج البحرین :

بحکم ِایزدی سیّدنا عبداللہ کا عقد مبارک بنی زہرہ کے سردار، حضرت وہب بن عبد مناف کی دختر سیّدہ آمنہ سے ہوا۔ اس ذی وقار تقریب کے متعلق طبقات ابن سعد کے الفاظ ہیں،

’’ سیدہ آمنہ بنت وہب اپنے چچا وہیب ابن عبد مناف ابن زہرہ ابن کلاب کی کفالت میں تھیں۔ حضرت عبدالمطلب حضرت عبداللہ کو لے کر بنی زہرہ کی قیام گاہ پر گئے اور حضرت آمنہ کا خطبہ نکاح اپنے صاحبزادے عبداللہ پدر جناب رسالتمآب سے پڑھا اور آمنہ کو عبداللہ سے بیاہ دیا اور وہیب کی بیٹی ہالہ سے خود خطبہ نکاح پڑھ کر شادی کر لی اور یہ دونوں نکاح ایک ہی مجلس میں بیک وقت واقع ہوئے۔

جناب ہالہ کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے ہاں حضرت حمزہ پیدا ہوئے۔

دُرِ ّ یتیم:

حضرت آمنہ سےعقد مبارک کے آٹھ ماہ بعد ایک قافلہ تجارت کیساتھ واپس آتے ہوئے حضرت عبداللہ مدینہ کے قریب علیل ہوئے اور داعیِ اجل کو لبیک کہا ۔ وقت انتقال آپ کی عمر مبارک ۲۵ برس تھی۔ سیّدناعبداللہ کی جواں سال موت نے بنی ہاشم کے گھرانے میں کہرام برپا کر دیا۔ سیّدنا عبدالمُطّلب کو پیرانہ سالی میں اپنے جوان، عزیز از جان صاحبزادے کی موت کا شدید صدمہ برداشت کرنا پڑا جس کے باعث آپ کی آنکھوں کی دنیا تاریک ہو گئی۔

حضرت آمنہ کا مرثیہ:

سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا نے اس المناک موقع پر جو مرثیہ کہا اس کے چند اشعار کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔

۱۔ فرزندِہاشم کی وفات کے باعث کنارہ بطحاکا نام و نشان تک مٹ گیا۔ نوحہ و بکا و گریہ و غوغا کے غیر متمیّز شور میں باہر نکل کے وہ ایک لحد کے مجاور ہو گئے۔

۲۔ موت نے انہیں دعوت دی اور انہوں نے وہ دعوت قبول کر لی۔ انسانوں میں کسی ایک کو بھی موت نے ایسا نہ چھوڑا جو فرزندِہاشم جیسا ہوتا۔

۳۔ شب میں ان کاتابوت اٹھا کے چلے تو ان کے ساتھیوں نے انبوہ میں تابوتِ اقدس کو دست بدست کیا۔

اگر آپ فوت ہو گئے تو آپ کے آثارِ خیر تو زندہ ہیں۔ آپ نہایت درجہ فیاض اور بہت رحم دل تھے۔

ھاشم بن عبد مناف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پر دادا تھے۔ ان کی اولاد قریش کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم کے نام سے مشہور ہے۔ ان کا اصل نام عمرو تھا۔ ھاشم اس لیے نام ہوا کیونکہ وہ مکہ کے زائرین کی تواضع ایک خاص عربی شوربہ سے کرتے تھے جسے ھشم کہا جاتا ہے۔ یہ لقب اس وقت ملا جب ایک قحط کے دوران انہوں نے یہی شوربہ اہلِ مکہ کو کھلایا۔ آپ اولادِ اسمٰعیل علیہ السلام سے تھے۔ مکہ کے مشہور تاجر تھے اور نہایت معزز تھے۔ انہوں نے قریش کے تجارتی قافلے شروع کروائے اور ان کے لیے بازنطینی سلطنت کے ساتھ معاہدے کیے جن کے تحت قریش بازنطینی سلطنت کے تحت آنے والے ممالک میں بغیر محصول ادا کیے تجارت کر سکتے تھے اور تجارتی قافلے لے جا سکتے تھے۔ یہی معاہدے وہ حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ بھی کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا تمام قریش کو بے انتہا فائدہ ہوا اور ان کے قافلے شام، حبشہ، ترکی اور یمن میں جانے لگے۔ آپ دینِ حنیف (دینِ ابراہیمی) پر قائم تھے اور بت پرستی نہیں کرتے تھے۔

سیرت ابن ھشام کے مطابق آپ کی اولاد اس طرح تھی:

اسد ابن ھاشم (بنو اسد کے جد۔ حضرت علی علیہ السلام کی والدہ کے جد)

ابو سیفی ابن ھاشم

عبدالمطلب ابن ھاشم (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کے دادا)

ندلہ ابن ھاشم

الشفا بنت ھاشم

خالدہ بنت ھاشم

رقیہ بنت ھاشم

جنۃ بنت ھاشم

ضائفہ بنت ھاشم

جب سرکار دو جہاں دنیا میں ظاہر ہوئے تو سیّدہ آمنہ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور انتہائی ادب و احترام سے عرض کیا کہ " نو مولود کا اسمِ گرامی احمد ہے" سیدنا احمد کو آپ کے محترم چچا سیّدنا ابوطالب کی آغوش میں دیا گیا تو آپ نے کمال ِمحبت سے دیکھتے ہوئے فرمایا۔" میرا بھتیجا محمدہے" یہ اسمِ گرامی ذات قدرت کو اتنا پسند آیا کہ اسے کلمئہ اسلام بنا دیا گیا۔ حضرت عبدالمُطّلب جب عالمِ فنا سے دارالبقا تشریف لے کر جانے لگے تو عزیز از جان یتیم پوتے کی کفالت و حفاظت کی فکر دامن گیر ہوئی۔کافی غور و فکر کے بعددوشِ ابوطالب کا انتخاب ہوا اور انہیں ہدایت فرمائی۔

’’ دیکھو! اِن کی حفاظت کرنا۔انہوں نے نہ باپ کا لطف دیکھا ہے نہ ماں کی مامتا۔یہ آپ کے جگر کی مانند ہیں۔میں نے اپنی تمام اولاد میں آپ کا انتخاب کیا ہے۔اِس لئے کہ آپ اِن کے والد کے حقیقی بھائی ہیں۔

سیدنا ابو طالب نے پدر بزرگوار کی ہدایت پر عمل کرنے کا عہد فرمایا،جس پر حضرت عبدالمُطّلب نے فرمایا، ’’اب موت آسان ہو گئی‘‘۔

یہ عظیم المرتبت سعادت حضرت عبدالمطلب کے بعد سیدنا ابو طالب کو نصیب ہوئی۔حضرت ابو طالب کو ٍ ٍذمہ داری سونپنے کے بعد سیدنا عبدالمُطّلب کی زبانِ اقدس سے یہ اشعار وارد ہوئے۔

۱۔ میں نے ابوطالب جیسے تجربہ کار و دانا کو وصی بنایاہے۔

۲۔ اُن کے صاحبزادے کا جو مجھے انتہائی عزیز و محبوب تھااور اب جن کے واپس آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

سیدنا عبدالمُطّلب،قریش کے سردار کی حیثیت سے صنعا،یمن گئے اور سیف بن زوالیظن کو اس کی تخت نشینی کی مبارکباد دی۔یمن سے واپسی کے چند ہی دن بعد ۵۷۹ ء میں ۱۴۰برس کی عمر مبارک میں آپ نے مکّہ معظمہ میں انتقال فرمایا اور اپنے آبائی قبرستان ’’ حجون‘‘ میں دفن کئے گئے جو ’’جنت المُعلّٰی ‘‘ ہے۔

حضرت عبدالمُطّلب خاندانی وجاہت و عظمت کا نشان،امارت و صولت کا مرکز،زمزم و کعبہ کے متولی،غارِحرا کے عابد،عظمتِ رسالت کے محافظ،مصیبت زدوں کے غمگسار،اپاہجوں کے مددگار، شرافت کا نشان،مجیب الدعوٰۃ، قبولیتِ دعا کا ذریعہ،لواء کے مالک،اللہ رب العزّت کی وحدانیت کے داعی، مُبَلِّغ،قائدِملّت و حاکمِ وقت تھے۔

ُُنورِرسالت اورآغوشِ ابوطالب:

حضرت عبدالمُطّلب کے انتقالِ پرملال کے بعدنورِرسالت کی حفاظت کے لئے سےسیدناابو طالب کمربستہ ہوگئے اور ہر محاز پر کفّارِ مکہ اور جہلائِ عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔حضور نبی کریم کو اپنی اولاد سے بڑھ کر شفقت و پیار دیا اور بچپن ہی سے اپنے صاحبزادوں سیدنا طالب و عقیل او رجعفروعلی کو ناموسِ رسالت پر مر مٹنے اور کٹ جانے کا سبق دیا۔قریش میں حصارِ رسالت کے لئے شعبِ ابی طالب سے کون واقف نہیں جب اس دوران اپنے پیارے مصطفی کے بستر پر علی مرتضٰی شیرِخُدا اور جعفرطیار کو ُسلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے ابو طالب کے علاوہ اور کون ہیں۔حضرت ابو طالب اور آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسدسلام اللہ علیہانے حضور نبی کریم کی اسطرح حفاظت و غمگساری فرمائی کہ آپ ان مقدس ہستیوں کو یاد کر کے اکثرآبدیدہ ہو جاتے اور اِن کے لئے دعا فرماتے تھے۔حضرت فاطمہ بنتِ اسد کی وفات پر حضور نبی کریم نے اپنا کرتہ مبارک آپ کے کفن کے لئے بھیجااور ان کی قبرِاقدس میں لیٹ گئے اور گریہ زاری فرمائی۔تاریخ گواہ ہے ، جب بھی اسلام نازک دور سے گزرا ہے اولادِ ابوطالب نے اپنا خُون مبارک دے کر اس کی آبیاری فرمائی ہے۔حضرت ابوطالب پہلے نعت گو ہیں او ر ’’دیوانِ ابوطالب‘‘ حمد و نعت سے لبریز ہے۔آپ فرمایا کرتے تھے،

’’میرے بھتیجے!یہ کفُارِ مکہ ہر گز آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے،یہاں تک کہ مجھے مٹی میں دفن کر دیں اور میری قبر سے گزر کر آئیں‘‘۔

کفاّرِ مکہ نے منصوبہ سازی کی ۔ابوطالب کے جانے کاانتظار کرتے ہیں،جب ابوطالب دنیا سے جائیں گے تو محمد جانیں اور ہم۔ابو طالب دنیا سے چلے گئے۔کفارِ مکہ اکٹھے ہو کر شمعِ رسالت گُل کرنے آئے۔پیغمبرِاکرم نے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ قرار دیا۔کفار مکہ کے حملے روکنے کے لئے ابوطالب کے صاحبزادے علی مرتضیٰ شیرِخدا،جعفرطیار،عقیل اور طالب نے حصارِ رسالت کر لیا۔کفار کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ابو طالب کے جلیل القدربیٹے علی نے اسلام کو اپنے یدُاللّٰہی بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔دعوتِ ذوالعشیرہ سے لے کر بدر و احد،خندق و خیبر،اور فتحِ مکہ کے معرکے ابوطالب کے لختِ جگرنے سر کر لئے۔کفارِ مکہ مزیدانتظار میں پڑ گئے۔ابو طالب کا بیٹا معاملات الجھا رہا ہے۔انتظار کرو، ایک دن یہ بھی دنیا سے جائے گا۔پیغامِ محمدجانے اور ہم۔ابو طالب کا صاحبزادہ شہید ہو کر شہادت کو سرُخرو کر گیا۔ کفارِمکہ اکٹھے ہوئے۔شمعِ رسالت گُل کرنے کا منصوبہ بنا۔ابوطالب کا پوتا اسلام کا محافظ بن کر سامنے آیا۔

اے مؤرخ، وقت کے مغرور کرداروں سے پوچھ

پوچھ، تاریخِ عرب کے سب ستمگاروں سے پوچھ

کربلا کی ٹوٹتی ، بے لو چ تلواروں سے پوچھ

شام کی گلیوں سے،چوراہوںسے، بازاروں سے پوچھ

ذرّیت کس کی یزیدی حوصلوں پہ چھا گئی

کس کی پوتی ، ظلم و استبداد سے ٹکرا گئی

جس نے بخشی تھی تجھے توقیرِ عرفاں ، یاد کر

اے بنی آدم ، ابو طالب کے احساں ، یاد کر

جب سے کلمہ اسلام رائج ہے اور جب تک رہے گا تا قیامت " محمدُ رَسول اللہ" اور " اللّٰھُمَ صَلِّ علیٰ سیّدنا و مولانا محمد" پڑھنے والوں کا اجر و ثواب سیّدنا ابوطالب کی بارگاہِ اقدس میں پیش ہوتا رہے گا۔

۱) اولاد:

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد کی تعداد سات جن میں تین بیٹے اورچار بیٹیاں ہیں جن کے نام ذیل میں دیے جاتے ہیں :

بیٹے :

القاسم رضی اللہ تعالی عنہ ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ، ابراھیم رضی اللہ تعالی عنہ

بیٹیاں :

۱ – بی بی زینب رضی اللہ تعالی عنہا

-۲ بی بی رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا

- ۳ بی بی ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا

۴ - بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا

حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام اولاد ان کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی۔

۸

۵- شجرہ رسالت اور ولایت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ اور حضرت علی علیہ السلام بن ابوطالب کا شجرہ نسب یوں ہے کہ( محمد بن عبد اللہ اور علی ابن ابیطالب) بن عبد المطلب، بن ہاشم، بن عبد مناف، بن قصئِ، بن کلاب، بن مرہ بن کعب، بن لوئ، بن غالب، بن فہر (اِس فِہر کا لقب قُریش تھا اور قُریشی قبیلہ اِسی سے منسوب ہے ، اس کے آگے سلسلہ نسب یوں کہ فِہر )، بن مالک بن نضر، بن کنانہ، بن خزیمہ، بن مدرکہ، بن الیاس، بن مضر، بن نزار، بن معد، بن عدنان(جو کہ یقیناً اِسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں) بن اسمعیل علیہ السلام، بن ابراہیم علیہ السلام۔۔(صحیح سیرۃ النبویہ )

عدنان تک کے نسب نامہ کی صحت پر تمام محدثین ، سیرت نگاروں اور علمائے انساب کا اتفاق ہے۔ اور "عدنان" کے اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے ہونے کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔البتہ عدنان سے اوپر نابت بن اسماعیل علیہ السلام کا شجرہ نسب جو کہ محفوظ نہیں رہا یوں بتایا جاتا ہے :

بن اُدبن مقوِّم بن ناحور بن تَیرح بن یعرُب بن یشجب بن نابت بن اسماعیل بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام

اس طرح رسالت و امامت کا سلسہ حضرت آدم علیہ السلام سے جا ملتا ہے ۔ ان واسطوں میں مندرجہ ذیل انبیاء آتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انبیاء کرام

۱- حضرت آدم(ع)

شیت(ع)۔ حضرت انوش یا یونس۔ قینان یا قبتان۔

شیت(ع)۔۔۔ادریس(ع)۔۔۔نوح(ع)۔۔۔ابراہیم(ع)۔۔۔اسمعیل(ع)۔۔۔ عدنان(ع)۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

حضرت آدم(علیہ السلام) سے ہا شم تک

حضرت آدم(علیہ السلام) - شیت(علیہ السلام) – انوش قینان - مہلائیل – یرد (الیارد) – حضرت ادریس(علیہ السلام) – متوشلح – لمک (بالک) – حضرت نوح (علیہ السلام) – سام – ارفحشد – شالخ (شامخ) – عابر (عور)- قالغ (بلغ) – حضرت ارغو (ہود) (علیہ السلام) – ساروغ – سروع – ناحور – تارخ – حضرت ابرا ہیم(علیہ السلام) – حضرت اسمعیل (علیہ السلام) – قیدار - سلان ( مجل) – ثابت (راست) – ہمیسع (ماحی)- عسقی – عنتب – عبید – عتقی – حسان- انقاد – عوض- برد – مناسل- ناخود – عوام- عوض- لر- سما ئے- ذراح – ناجب – معطر – سلمان – السیع – ہمیسع – ادد – آد ( اد) - حضرت عدنان(علیہ السلام) – معد – نزار – نضر (مضر) – الیاس(علیہ السلام) – مدرک (مدرکہ) – خزیمہ - کنان (کنانہ) – نضر – مالک – فہر (لقب قریش)- غالب- لوی- کعب- مرّہ – کلاب- قصی- عبد المناف - ہا شم -

شجرہ نامہ انبیاء

آدم( ۹۳۰- حوا)

شیث( ۹۱۲)

انوش

قینان

مهلائیل

یارد

ادریس( ۲۶۵)

متوشالح

لمک

نوح ع( ۹۵۰- نبی الله)

آدم( ۹۳۰- حوا)

شیث( ۹۱۲)

انوش

قینان

مهلائیل

یارد

ادریس( ۲۶۵)

متوشالح

لمک

نوح ع

سام

ارفکشاد-(صالح ۴۳۳)

شالح

هود( ۴۶۴)- خضر

فالج

رعو

سروج

ناحور

تارح- لوط-شعیب

ابراهیم ع

(خلیل الله ۱۷۵)

آدم( ۹۳۰- حوا)

شیث( ۹۱۲)

انوش

قینان

مهلائیل

یارد

ادریس( ۲۶۵)

متوشالح

لمک

نوح ع

سام

ارفکشاد-(صالح ۴۳۳)

شالح

هود( ۴۶۴)- خضر

فالج

رعو

سروج

ناحور

تارح – لوط-شعیب( ۱۴۲)

ابراهیم ع

اسحاق( ۱۸۰ سارا)

- ایوب( ۱۴۰)

یعقوب( ۱۴۷)

لاوی -یوسف

قهات

عمران

موسی ع هارون

( ۱۲۰ کلیم الله)

اسباطیانقبا( ۱۲)

آدم( ۹۳۰- حوا)

شیث( ۹۱۲)

انوش

قینان

مهلائیل

یارد

ادریس( ۲۶۵)

متوشالح

لمک

نوح ع

سام

ارفکشا-(صالح ۴۳۳)

دشالح

هود( ۴۶۴)- خضر

فالج

رعو

سروج

ناحور

تارح- لوط-شعیب( ۱۴۲)

ابراهیم ع

اسحاق( ۱۸۰ سارا)

-

یعقوب( ۱۴۷)

یهودا –بن یامین

فارص

حصرون

ارام

عمیناداب

نخشون

شلمون

بوعز

عوبید

یس

داود( ۱۰۰)

سلیمان( ۵۳)

رحبعام

ابی

اس

یهوشاافاط

بورام

عزی

یوتام

احاز

حزقی

منسی

امون

یوشی

یکنی

سالتثیل

زروباب

ابیهود

ایلیاقیم

عازور

صادوق

باکین

ایلیهود

ایلعاذر

متان (ماثان)

عمران(یعقوب)

مریم

عیسی ع

( ۳۳ روح الله)

حواریون( ۱۲)

آدم( ۹۳۰- حوا)

شیث( ۹۱۲)

انوش

قینان

مهلائیل

یارد

ادریس( ۲۶۵)

متوشالح

لمک

نوح ع

سام

ارفکشاد-(صالح ۴۳۳)

شالح

هود( ۴۶۴)- خضر

فالج

رعو

سروج

ناحور

تارح- لوط-شعیب( ۱۴۲)

ابراهیم ع

اسماعیل( ۱۳۷- هاجر)

قیدار

حمد

ارز

نبت

سلافان

همیسع

الیسع

ادد

عدنان

معد

نزار

مضر

الیاس

مدرکه

خزیمه

کنانه

نضر

مالک

فهر

غالب

لوی

کعب

مره

کلاب

قصی

عبدمناف

هاشم- (امیه)

عبدالمطلب-(عباس-ابوطالب-ابولهب-حمزه)

عبدالله-(امنه)

محمد ص

( ۶۳ رسول الله)

امامان( ۱۲)

۹

۶- سادات کی ہندوستان آمد سے پاکستان ہجرت تک

سلاطین و شاھان وقت کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اور دین مبین محمد و آل محمد کی تبلیغ و سر بلندی کے لیے اس خاندان کے اجداد نے سر زمین عراق کو خیر باد کہا یہ خاندان پہلے ایران میں جا کر آباد ہوا وہاں سے ہجرت کرتے ہوۓ زاہدان اور افغانستان کے راستے عہدغزنوی میں ہندوستان میں آ کر آباد ہوا ۔اس خاندان کے اجداد سب سے پہلے اچ شریف میں آباد ہوۓ پھر اس خاندان نے اچ شریف اور وادی مہران سے نقل مکانی کر کے برست ضلع کرنال میں سکونت اختیار کی۔ پٹیالہ سے تقریباً ۵۲ کلومیٹر جنوب مغرب میں دریائے گھگر کے دائیں طرف نظر آئے گا۔ سامانہ ہندوستان میں خلافت عباسیہ کی حدود سے باہر پہلی مسلمان نوآبادی تھی جسے بنی فاطمہؑ نے تیسری یا چوتھی صدی عیسوی میں آباد کیا تھا۔ ساداتِ بنی فاطمہؑ نے تیسری صدی ہجری کے اواخر یا چوتھی صدی کے اوائل میں سامانہ میں قدم رکھا تھا۔ پھر جونہی انہوں نے اپنی عزت اور جان و مال کو محفوظ محسوس کیا، قدرتی طور پر اپنے عقائد کی اشاعت و ادائیگی زیادہ آزادی و تندہی سے انجام دینے میں مشغول ہوگئے۔ برصغیر کے ہندو حکمران سادات بنی فاطمہؑ کے لئے ان نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے مقابلے میں نیک دل اور خدا ترس ثابت ہوئے جنہوں نے محمد رسول اللہ کی نسل کو منقطع کرنے کے لئے کوئی حیلہ اور وسیلہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اگرچہ ان پناہ گزینوں کا ہندوستانی حکمرانوں سے رسمی طور پر پناہ مانگنا ، ان حکمرانوں کا مصیبت و ابتلاءمیں گھرے ہوئے ساداتِ کرام کا استقبال کرنا اور پناہ کے لئے کسی رسمی حکم نامہ کے اجراءکے تاریخی شواہد میسر نہیں آسکے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ پناہ گزین کرئہ ارض پر اُس عہد کی سب سے وسیع اور طاقت ور حکومت کی نظر میں باغی اور دشمن تصور کئے جاتے تھے۔ ایسے لوگوں کو پناہ دینا عظیم الشان عباسی سلطنت کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ سامانہ کے علاقے کے مقامی حکمرانوں کی توبات ہی کیا، پورے ہندوستان کے حکمران مل کر بھی عباسیوں کی طاقت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔

تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے واقف ہیں کہ ہمسائے میں چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستوں کو ہڑپ کرنے کے لئے طاقت ور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں مگر اسے قدرت کاکرشمہ کہنا چاہئے کہ عین اسی زمانے میں جب ساداتِ بنی فاطمہؑ سامانہ پہنچی، عباسی سلطنت میں داخلی خلفشار رونما ہورہا تھا۔ عین اسی زمانے میں ان کی عظیم الشان اور طاقت ور سلطنت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی تھی۔ بس اسی داخلی انتشار نے ہمارے بزرگوں کو ان ظالم و جابر حکمرانوں کی دسترس سے محفوظ رکھا اور اللہ نے کافر حکمرانوں کے دل میں مسلمان حکمرانوں کے ستائے ہوئے خاندانِ رسالت کے دربدر خاک بسر خانماں بربار شریف و نجیب افراد کے لئے اپنی حکمت بالغہ سے وہ اسباب پیدا کردیئے جن کی بدولت مسلمان بتدریج ہندو معاشرے میں تبلیغِ اسلام کی راہیں ہموار کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

تیسری صدی میں حکمرانوں کے مظالم بنی فاطمہ ؑ پر پہلے کی نسبت کہیں زیادہ شدت اختیار کرگئے تھے۔ اضطرابی کیفیت میں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق خروج بھی کئے گئے۔ ساداتِ اکرام جان کی حفاظت کے لئے اطرافِ عالم میں پناہ گزیں بھی ہوئے۔ بنی فاطمہؑ کے ستم رسیدہ افراد کے ایک گروہ کے ساتھ خلافت کی حدود سے باہر آکر سرہندجیسے سرسبز و شاداب علاقہ میں پناہ گزیں ہوئے۔ ان کی دلچسپیاں صرف دینِ اسلام کی سربلندی، اشاعتِ رموزِ قرآن و علومِ آل محمدؑ اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کی حد تک تھیں۔ علاقائی ہندو حکمرانوں نے ان کے کردار اور عزائم کے مدِ نظر ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ان کو مذہبی آزادی اور اپنے عقیدے کے مطابق امن و امان سے زندگی بسر کرنے دی۔ یہ اللہ کی ایک خاص مشیت تھی کہ یہ چھوٹے چھوٹے رجواڑے دنیا کی عظیم ترین حکومت کے مفروضہ باغیوں کو پناہ دینے میں ذرا بھی متردد نہیں ہوئے۔ ورنہ شمالی ہند تو کیا پورے ہندوستان کے حکمران بھی مل کر عباسی حکومت کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ امن و امان کی فضا میں اس بستی کی اہمیت بڑھتی گئی۔ سو ڈیڑھ سو سال بعد جب سلطان محمود غزنوی نے اس علاقہ کو سلطنتِ غزنی میں شامل کیا تو یہ دینِ اسلام کی نشرو اشاعت اور علومِ آلِ محمدؑ کی درس و تدریس کا اہم مرکز تھا۔

چنانچہ سید ابوالفراح واسطی کے فرزندانِ ارجمند سامانہ اور لدھیانہ کے ہی گردو نواح میں سکونت پذیر ہوئے تھے ۔ چار میں سے تین بستیاں تو صفحہ ہستی پر موجود نہیں البتہ سامانہ سے تقریباً تیس میل کے فاصلے پر چھت کی بستی موجودہ بنوڑ سے متصل ۱۹۴۷ تک قائم تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ چھت میں کوئی سادات آباد نہیں تھے بلکہ اس سے دو ڈیڑھ میل کے فاصلے پر بنوڑ میں سادات کی بہت بڑی آبادی تھی۔ اس سے قریباً دوسو سال بعد شہاب الدین غوری، ترا وڑی کے میدان میں پرتھوی راج چوہان کے ٹڈی دل لشکر کو شکست دے کر سامانہ میں آرام کی غرض سے کچھ عرصہ مقیم رہا۔ (بحوالہ کیمبرج ہسٹری آف انڈیا، جلد سوئم)

مغلیہ دو ر کے اواخر تک یہ ایک اہم فوج دار کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر گوروگوبند کے دو بچوں کے قتل میں سامانہ کے فوج دار کا ہاتھ بتایا جاتا تھا۔ جس کے بدلے میں بندہ بیراگی سنگھ سردار نے ۹۰۱۱ ءمیں سامانہ کو تاخت و تاراج کرڈالا۔ مکانوں اور املاک کو نذر آتش کیا۔ بحوالہ ”ہسٹری آف سکھ ریلجن“ سامانہ کے دس ہزار سادات اور مغل معززین کو قتل کیا گیا۔ اس اندھے اور سفاکانہ قتل عام کے بعد سامانہ ایک درمیانے درجے کا قصبہ رہ گیا۔ جلیل القدر فرزند حسین بن زید کی نسل سے ایک سلسلہ صدیوں سامانہ میں بود و باش رکھنے کے بعد امروہہ ضلع مرادآباد منتقل ہوگیا اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔ یہ خاندان نقوی سادات میں ایسا گھل مل گیا کہ امروہوی کہلانے لگا۔ سامانہ کے بزرگوں کے بیان کے مطابق اس خاندان کی نقلِ مکانی کا سبب سکھوں کا بغض و کینہ اور ناروا سلوک تھا اس لئے کہ سکھوں نے بندہ بیراگی سنگھ کو آلہ کار بنا کر فتنہ وفساد برپا کیا۔ اورسامانہ پر قبرستان کی جانب سے چڑھائی شروع کی۔ یہ تائید غیبی کا کرشمہ تھا کہ سکھوں نے قبروں کی طرف سے کثیر فوجوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا جس کا ان کے دلوں پر ایسا خوف طاری ہواکہ انھیں بھاگتے ہی بنی۔ اگلے روز سکھوں نے اپنے تائب ہونے کا اعلان کردیا۔ اس واقعہ کے بعد سید واصل علی اور سید فرزند علی پسران سید ابوالخیر نے ” سامانہ“ کو خیرباد کہا اور امروہہ میں جاکر آباد ہوگئے۔ لدھیانہ اور امروہہ بھی شرفاءوسادات کی بستی ہے۔

اکتوبر ۱۹۴۷ءمیں دونوں آزاد ہونے والے ملکوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح پر ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں طے پایا گیا تھا کہ پاکستانی پنجاب سے ہندوؤں اور سکھوں کو بھارت لے جایا جائے گا۔ اسی طرح بھارتی پنجاب اور اس کی ہندو سکھ ریاستوں یعنی بھارت کے موجودہ صوبہ پنجاب ، ہریانہ اور ہماچل پردیش سے مسلمان مکمل طور پر نقل مکانی کرکے پاکستان چلے جائیں گے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ سے کچھ ہی کم تھی ۔یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مشرقی پنجاب کے بارہ اضلاع اور ریاستوں میں تقسیم ہندوستان کے وقت مسلمانوں کی تعداد ۴۴ فی صد کے قریب تھی جبکہ اس وقت کے اعدادو شمار کے مطابق سکھ ۸ تا ۱۰ فی صد تھے اور باقی افراد ہندوتھے یادوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ سکھ درندوں نے وہ کون سا ظلم تھا جس کا انہیں موقع ملا ہو اور انہوں نے نہ کیا ہو۔ اس معرکہ میں ان کے خاندان کے بہت سے گمنام افراد شہید ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو شہداءکے ساتھ محشور فرمائے۔ستلج سے لے کر دِلی تک کے وسیع و عریض صوبہ سر ہند کا دارالخلافہ تو شہر سرہند ہی تھا ۔ ڈاکٹر گوپال سنگھ ہمارے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہم وطن بھی تھے اور ہم عصر بھی، انہوں نے اپنی بڑی شہرئہ آفاق کتاب ”دی ہسٹری آف سکھ ریلیجن“ میں تحریر کیا ہے کہ ”دس ہزار معزز سید اور مغل قتل کئے گئے تھے۔“ چنانچہ مقتول عوام الناس کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ رہی ہوگی۔

۷- حضرت زید شہید کے اجداد کی مختصر تاریخ

مرا بہ تیغ ستم کشت و گفت از ناز

چراغ دودۂ زید شهید روشن شد

حضرت زید شہید بن سجاد علیہ السلام کے والدین

امام سجاد علیہ السلام (علی بن الحسین، جن کے القاب زین العابدین اور سجاد تھے) چوتھے امام ہیں۔ آپ تیسرے امام (امام حسین علیہ السلام) کے فرزند تھے اور ایرانی بادشاہ یزد جرد کی بیٹی شھر بانو کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ آپ، امام سوم کے اکیلے فرزند تھے جو کربلا میں زندہ بچ گئے تھے ۔ آپ بھی اپنے والد کے ساتھ کربلا میں تشریف لائے تھے لیکن چونکہ سخت بیمار تھے اور ہتھیار اٹھانے اور جنگ میں شرکت کرنے کی طاقت نھیں رکھتے تھے اسی لئے جہاد اور شھادت سے معزور رہ گئے تھے اور حرم کے قیدیوں کے ساتھ شام بھیج دئیے گئے۔

سیّد السّاجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام

امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عدل گستر حکومت کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے شہرمدینہ میں ، گلستان محمدی کے ایک اور گل سرسبد ہستی کی خوشبو‏ؤں سے مشام ایمان و یقین معطر ہو گئے بوستان علوی میں ایک ایسا پھول کھلا کہ جس کی مہک سے نہ صرف زمین بلکہ آسمان والوں کےقلوب بھی تر و تازہ ہو گئے ۔ اور فرشتوں نے عشق و ارادت کے نغمے گنگنانے شروع کردئے اور ارض و سما سے درود و صلوات کے نعرے بلند ہونے لگے ۔ جی ہاں ! ایک معتبر روایت کے مطابق ۱۵ جمادی الاولی سنہ ۳۸ ہجری کو کاشانۂ زہراء سلام اللّہ علیہا میں ان کےنور نظرامام حسین علیہ السلام کو خداوند لم یلد و لم یولد نے وہ چاند سا بیٹا عطا کیا کہ اس کی روشنی سے عرب و عجم کے تمام گوشۂ و کنار روشن و منور ہوگئے ۔ عالم انوار سے عالم ہستی میں فرزند رسول امام زین العابدین علیہ السلام کی آمد کے یہ شب و روز تمام محبان اہلبیت رسول کو مبارک ہوں ۔ بلبل بوستان امامت ،سید سجاد امام زین العابدین علیہ السلام عشق و محبت سے سرشار اسی آشیانہ آدمیت و انسانیت میں جلوہ بار ہوئے تھے کہ جس کےمکینوں کی شان میں سورۂ ہل اتی نازل ہوا ۔ جن کا آیہ تطہیر نے قصیدہ پڑھا آیہ مودت نے مسلمانوں پر محبت واجب کی اور آیہ ولایت نے امامت و حقانیت کی تصدیق کردی باپ مولائے متقیان ، مشکل کشائے عالم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرزند ، سید و سردار جوانان بہشت ، سبط رسول الثقلین ، فاتح کربلا، حضرت امام حسین علیہ السلام تو ماں قدیم تہذیب و تمدن کےگہوارے ، ساسانی ایران کےآخری بادشاہ یزد گرد سوم کی بیٹی حضرت شہر بانو، جنہوں نے اپنی عفت و پاکدامنی کےسبب خانۂ عصمت و امامت میں وہ مقام حاصل کرلیا کہ ایک امام کی بہو ایک امام بیوی اورایک امام کی ماں بن کر پوری دنیا کےلئے مایہ افتخار بن گئیں ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کا اصلی نام علی تھا، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام فرزندوں کے نام اپنے والد کے نام پر علی ہی رکھے تھے ، امام زین العابدین علیہ السلام کی کنیت ابوالحسن اور ابو محمد تھی القاب زین العابدین ، سیدالساجدین ، سید سجاد ، زکی اور امین معروف ہیں ۔ ولادت کے چند دنوں بعد ہی ماں کے سایہ سے محروم ہوگئے اور غالبا اپنی خالہ، جناب محمد ابن ابی بکر کی زوجہ محترمہ ،گیہان بانو کی آغوش میں پرورش پائی جنہوں نے گورنر کی حیثیت سے مصر جاتے وقت شامی لشکر کے ہاتھوں اپنے شوہر محمدابن ابی بکر کی شہادت کے بعد بظاہر دوسری شادی کرنا گوارہ نہیں کی اور بھانجے کو ہی اپنے بچوں کی طرح پالا اوربڑا کیا۔ امام سجاد ابھی ۲ سال کے تھے کہ آپ کے دادا علی ابن ابی طالب شہید کردئے گئے آپ نے ۱۲ سال کی عمر تک امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام دو نوں کے فیوضات سے استفادہ کیا لیکن سنہ ۵۰ ھجری میں امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنےباپ کے ساتھ دس سال سکوت میں گزارے اورسنہ ۶۱ ھجری میں کربلا کےخونیں معرکہ میں بہ نفس نفیس شرکت کی اور کربلا کی تحریک کو ۳۵ سال تک اپنےکندھوں پر اٹھائے رکھا اور اسلام کےالہی پیغامات کی سخت ترین مراحل میں حفاظت و پاسبانی کا فریضہ انجام دیا۔ غالباسنہ ۵۷ ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صاحبزادی جناب فاطمہ سلام اللّہ علیہا سے آپ کی شادی ہوئی اور تاریخ اسلام میں ایک بار پھر ”مرج البحرین یلتقیان“ کا نظارہ پیش کرتے ہوئے علی ثانی اور فاطمۂ ثانی کے پاکیزہ رشتے کے نتیجہ میں رسول اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں فرزند حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کے صلب سے پانچویں امام ، امام محمد باقر علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام کی آغوش کی زینت قرار پائے چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام بھی واقعہ کربلامیں تقریبا چار سال کے موجود تھے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام کےایک اور فرزند جناب زید شہید ہیں ، جو بڑے ہی با فضیلت تھے اور سنہ ۱۲۱ ہجری میں امویوں کے ہاتھوں کوفے میں شہید ہوئے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کا۳۵ سالہ دور نہایت ہی گھٹن اور اذیت کا دوررہا ہےاس دورمیں یزید شقی کے بعد حکومت مروان اور آل مروان کے ہاتھوں میں منتقل ہوگ‏ئی حجاج ابن یوسف کے ہاتھوں آپ کے بےشمار دوستوں اور چاہنے والوں کوشہید کیاگیا ۔ یکے بعد دیگرے خلفائے بنی امیہ کے چھ حکمراں بر سر اقتدار اہل ابھی سیاست نے مذہب کو لوگوں کی زندگی سے دورکر دینے کی کوشش کی ، ایسے میں امام سجاد علیہ السلام نے اپنی بیداری کےلئے دعااور اشک کو اسلام وقرآن کی حفاظت و پاسبانی کاوسیلہ قراردیا اور دعا سے قلوب اور اشک سے آنکھوں کو تسخیر کیا ۔ صحیفہ سجادیہ دعاؤں کا شاہکار اور”عزاداری امام حسین“ آپ کے اشکوں کی یادگار ہے ۔ علمائے اسلام کامتفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا کی سب سے عظیم کتاب ، کلام اللّہ یعنی ‍ قرآن مجید اور لسان اللّہ کی تخلیق ، نہج البلاغہ کے بعد، صحیفۂ سجادیہ الہی حقائق و معارف کا سب سے زیادہ قیمتی خزانہ ہے اسی لئے بعض اسلامی دانشوروں نے اس کو اخت القرآن ، انجیل اہلبیت علیہم السلام اور زبور آل محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کا لقب عطا کیا ہے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک اور قیمتی یادگار آپ کا رسالہ حقوق ہے جس میں آپ نے انسانوں کے ایک دوسرے پر مختلف حقوق و فرائض ذکر کئے ہیں ۔ ہم اپنی اس مختصر گفتگو کو امام علیہ السلام کے اسی رسالہ حقوق کےچند جملوں پرختم کرتے ہیں ۔ امام فرماتے ہیں : ”آپ کے ساتھی اور دوست کا آپ پر یہ حق ہےکہ آپ اس پراحسان اور حسن سلوک سے کام لیں اوراگر ایسا نہ کر سکیں تواس کے حق میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں جہاں تک ممکن ہو اس کی دوستی میں کوتاہی نہ برتیں اس کے خیر خواہ و پشت پناہ رہیں اور رحمت و شفقت کا چشمہ بنے رہیں مشکل و عذاب کا باعث نہ بنیں“ ۔

قید کا زمانہ گزارنے کے بعد یزید کے حکم سے عوامی مخالفت کو نرم کرنے کے لئے آپ کو احترام کے ساتھ مدینے بھیج دیا گیا تھا مگر دوبارہ آپ کو اموی خلیفہ عبد الملک کے حکم سے پا بہ زنجیر مدینہ سے شام لایا گیا لیکن کچھ عرصے بعد پھر مدینے تشریف لے آئے۔امام چھارم مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اپنے گھر میں گوشہ نشین ھو گئے اور اپنے گھر کے دروازے تمام لوگوں پر بند کرکے خدا کی عبادت میں مشغول ھوگئے اور اپنے خاص شیعوں مثلاً ابوحمزہ ثمالی، ابو خالد کابلی اور ایسے ھی چند دوسرے افراد کے سوا کسی اور سے نھیں ملتے تھے۔ البتہ یہ خاص لوگ اپنے امام سے جو تعلیمات حاصل کرتے تھے آپ کے پیروکاروں تک پھنچا دیتے تھے اور اس طرح مذہب شیعہ روز بروز ترقی کرتا گیا جس کے بیشتر اثرات پانچویں امام کے زمانے میں رونما ھوئے۔ چوتھے امام کی دعاؤں کا مجموعہ ”صحیفہ سجادیہ “ کے نام سے مشہور ہے یہ ستاون دعاؤں پر مشتمل ہے جن میں بہت ہی عمیق اور اسرار و معارف الہی پوشیدہ ہیں ۔اسی ”مجموعے کو زبور آل محمد“ بھی کھا جاتا ھے۔ امام چھارم کو پینتیس سال کی امامت کے بعد بعض احادیث کے مطابق اموی خلیفہ ھشام بن عبد الملک کی ایما پر ولید بن عبد الملک نے زھر دیدیا تھا اور آپ ۹۵ ھ میں شھادت پا گئے تھے۔

نام و نسب

اسم گرامی : علی ابن الحسین (ع)

لقب : زین العابدین

کنیت : ابو محمد

والد کا نام : حسین (ع)

والدہ کانام : شھر بانو شاہ زناں

تاریخ ولادت : ۵ / شعبان دوسری روایت کے مطابق ۷/ شعبان ۳۸ ھء

جائے ولادت : مدینہ منورہ

مدت امامت : ۳۵/ سال

عمر : ۵۷/ سال

تاریخ شھادت : ۲۵/ محرم ۹۵ ھ

شھادت کا سبب: ھشام ابن عبد الملک نے زھر دیکر شھید کی

مزار مقدس : مدینہ منورہ ،جنت البقیع

اولاد کی تعداد : ۱۱/ بیٹے اور ۴/ بیٹیاں

بیٹوں کے نام : ( ۱) محمد باقر(ع) ( ۲) عبد اللہ ( ۳) حسن ( ۴) حسین ( ۵) زید ( ۶) عمرو( ۷) حسین اصغر ( ۸) عبد الرحمن ( ۹) سلیمان ( ۱۰) علی ( ۱۱) محمد اصغر

بیٹیوں کے نام : ( ۱) خدیجہ ( ۲) فاطمہ ( ۳) علیا ( ۴) ام کلثوم

انگوٹھی کے نگینے کا نقش : ”حسبی اللہ لکلّ ھمٍ“

ولادت :

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن تھے جب ۱۵ جمادی الثانی ۳۸ ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی ولادت ھوئی. آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور سارے خاندان کے لوگ اس مولود کو دیکھ کر بھت خوش ھوئے اور شاید علی علیہ السّلام ھی نے پوتے میں اپنے خدوخال دیکھ کر اس کانام اپنے نام پر علی رکھاتھا

تربیت:

حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کا ابھی دوبرس کاسن تھا جب آپ کے دادا حضرت امیر علیہ السّلام کاسایہ سر سے اٹھ گیا. امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سایہ میں پروان چڑھے بارہ برس کی عمر تھی جب امام حسن علیہ السّلام کی وفات ھوئی اب امامت کی ذمہ داریاںآپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سے متعلق تھیں .شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جھاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارہے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پھنچ کر جوانی کی حدوں میں قدم رکھ رھےتھے ۔

شادی:

اسی زمانہ میں جب کہ امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررھے تھے حضرت نے اپنے فرزند سید سجاد علیہ السّلام کی شادی اپنی بھتیجی یعنی حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی کے ساتھ کردی جن کے بطن سے امام محمدباقر علیہ السّلام کی ولادت ھوئی اور اس طرح امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بعد کے لئے سلسلۂ امامت کے باقی رھنے کاسامان خود اپنی زندگی میں فراھم کردیا

صحیفہ کا ملہ سجّادیہ :

آئمہ اہلِ بیتِ اطہار کے چوتھے تاجدار ، سیدنا و مولانا و مرشدنا، حضرت امام علی زین العابدین کی دعاؤں کے مقدس و متبرک مجموعے کو ’’صحیفہ کاملہ سجادیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مجموعہ عوام کی مشکلات، تکالیف اور شدائدِامورِ دنیا میں مدد گار ہے اور خواص کی تحقیق و جستجو، سلوک الیٰ اللہ اور تلاشِ حق میں مرشدِ کامل اور رہبر و راہنما ہے۔اسلام دشمن عناصر کے زہریلے ہتھکنڈے جب عقیدہ توحید مجروح کرنے لگے ،تو وارثِ اسلام حضرت امام زین العابدین کی رقت انگیز ، درد بھری، عاجزی و انکساری سے لبریز دعاؤں نے شانِ وحدت بیان کر کے ان مکروہ عزائم کو خاک میں ملا دیا۔عصر حاضر کے مادہ پرستی کے سیلاب میں جب کہ گمراہ کن عقائد، رنگ برنگے افکارا ور نت نئے فتنے سرا ٹھا رہے ہیں، اس نورانی دعاؤں کی کتاب کا

ہر گھر میں ہونا اشد ضروری ہے۔ افکارِ امام زین العابدین کی روشنی میں عقیدۂ توحید کو سمجھنا واجب ایمانی ہے۔

تیرا سجدہ تری مسجد ترا کعبہ سجاد

ہر عبادت میں ہے روشن ترا چہرا سجاد

اک طرف عظمت توریت و زبور و انجیل

اک طرف تیری دعاؤں کا صحیفہ سجاد

سو صحیفے ترے خطبے کے تقدس پہ نثار

تونے کوفے میں بھی بدلا نہیں لہجہ سجاد

سب کے سب ہیں ترے کنبے کی جلالت پر گواہ

سنگ اسود ہو صفا ہو کہ ہو مروہ سجاد

سر کے بل چلتا ہے کعبہ ترے پیچھے پیچھے

تیرا ہر نقش قدم ایک مصلی سجاد

کہکشاں ہے کہ ترے پاؤں سے لپٹی ہوئی دھول

چاند ہے یا ترے ناخن کا تراشاسجاد

سحرو شام ترے گیسو و رخسار کا عکس

اور سورج ہے ترا نقش کف پا سجاد

جس کو مل جائے ترے ہاتھوں کا دھون مولا

کیا کرے گا وہ زمانے کا خزانہ سجاد

پائی اسلام نے آکر ترے دامن میں پناہ

تونے قرآں پہ کیا دھوپ میں سایہ سجاد

پھر تصور میں مرے آگئے تیرے آنسو

پھر سمندر مجھے لگنے لگا قطرہ سجاد

بار وہ تونے اٹھا یا جو کسی سے نہ اٹھا

ہے رسولوں سے بڑا تیرا کلیجہ سجاد

صبر شبیر سے آگے ترے دل کی ہمت

عصر عاشور سے آگے ترا رستہ سجاد

وہاں ایوب بھی ہوتے تو جگر پھٹ جاتا

جہاں آیا نہ ترے رخ پہ پسینہ سجاد

میرے احساس کی دولت بھی ترے درد کی بھیک

یہ میرا خطۂ جاں تیرا علاقہ سجاد

تیری زنجیر کی نسبت سے قوی ہیں مرے ہاتھ

طوق منت سے ہے گردن میں اجالا سجاد

فرزدق نہیں نیر ہوں مگر تیرا ہوں

بس اسی ناز پہ لکھتا ہوں قصیدہ سجاد

حضرت زید بن علی کی والدہ

حضرت زید بن علی کی والدہ کے نام کے بارے میں مختلف مور خین کی مختلف آراء ہے۔کچھ نے ان کا نام غزالہ لکھا اور کچھ ان کا نام "جیّد "یا "جیدا " لکھتے ہیں۔ کچھ محققین انکو "حیدان" جبکہ خود امام سجاد علیہ السلام انکو "حوراء" کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ ایک نیک اور پرہیز گار خاتون تھیں ۔ان خصوصیات کی و جہ سے مختار بن ابی عبید ۀ ثقفی نے ان کا انتخاب امام سجاد علیہ السلام کے لیے کیا تھا۔ امام سجاد علیہ السلام سے ان کی اولاد میں تین بیٹے زید ،عمر، علی اور ایک بیٹی خدیجہ شامل تھی ۔ حضرت زید بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق پیغمبر اکرم کے چوتھے جانشین و تاجدار امامت حضرت امام علی ابن الحسین زین العابدین نے ۶۸ھ میں سندھ کی شہزادی سیدہ ھریہ سے عقد فرمایا جن سے آپ کے جلیل القدر فرزند حضرت سیدنا زید ابن علی تشریف لائے جو مؤرخین میں زید شہید کے نام سے معروف ہیں اور جن کی نسل زیدی سادات کہلاتی ہے۔ اس کے باعث سر زمین سندھ امام سجّاد کا سسرال اور مولائے کائنات کا سمدھیا نہ ہونے کا بھی اعزاز رکھتی ہے اور یہ دھرتی زیدی سادات عظام کا ننھیال بھی ہے۔ اسی شہزادی نے آستا نۀ امامت میں تین پھول اور بھی مہکائے جن کے اسمائے گرامی سیدنا حسن بن علی، سیدنا حسین بن علی اور سیدنا علی ابن علی ہیں۔

۱۰

۸- حضرت زید بن علی کی شخصیت اور احوال

تاریخ کی معتبر کتب میں تحریر ہے کہ حضرت زید بن علی بہت خوبصوت اور پر وقار شخصیت کے مالک تھے۔ آنکھیں بڑی اور سیاہ جبکہ ابرو کشیدہ جس سے آپ کی شخصیت دوسروں سے نمایاں نظر آتی تھی۔ بچپن ہی سے بہت ذہین اور لائق تھےآپ روحانی کمالات و معنوی جمالات کے ساتھ ساتھ شجاعت حیدر کرّار کے بھی وارث تھے۔علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاں پیدا ہوا ، شیرِ خدا معلوم ہوتا ہے.

زیدی سادات کا سلسلہ نصب اپنے جد بزرگوار حضرت زید شھید سے جا ملتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزندوں میں امام محمد باقر (ع) کے بعد سب سے زیادہ نمایاں حیثیت جناب زید شہید کی تھی ۔آپ بلند قامت، حسین اور پروقار شخصیت کے حامل انسان تھے۔انہوں نے اپنے والد گرامی اور بھائی کے زیر سایہ علم و معرفت کی منازل طے کیں۔تیرہ سال کی عمر میں قرآنی علوم میں دسترس حاصل کی اور "حلیف القرآن" کا لقب حاصل کیا۔ آپ نے دین مبین کی سر بلندی کے لیے حجاز ،شام اور عراق کا سفر کیا۔

یزید کے بعد امت امامیہ میں اتنا شعور پیدا ہوگیا تھا کہ جب اس کے بیٹے معاویہ بن یزید کو حکومت دی گئی تو اس نے صاف لفظوں میں یہ اعلان کردیا کہ خلافت روز اول سے غصبی ہے اور مجھے غصبی مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے جن لوگوں نے خلافت کو لے کر عیش کیا ہے وہی پر وردگار کی بارگاہ میں جواب دہ بھی ہوں گے ۔ میں جواب دہی کا ذمہ دار کیوں بنو یہ ہے واقعہ کربلا کا اثر کہ دنیا سمجھتی تھی کہ امام حسین (ع) فنا ہوگئے آل محمد (ص) کا نام مٹ گیا دین الہی بنی ہاشم کا کھیل تماشا بن گیا ۔ لیکن امام حسین (ع) نے آواز دی کہ سر کٹا کر بھی خلافت و حکومت کو اتنا رسو ا کردوں گا کہ بیٹا بھی باپ کی جگہ لینے کے لئے تیار نہ ہو اور گھر کا راز گھر ہی سے کھلے ۔ میں نہیں جانتا کہ یزید کا بیٹا کتنا نیک نیت تھا اور اس نے کس خلوص سے یہ اعلان کیا تھا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ شہادت امام حسین (ع) اس قدر پر اثر تھی کہ اس نے غیرت دار بیٹے کوباپ کی جگہ لینے سے انکار کرنے پر مجبور کردیا ۔

۶۵ سے ۸۶ ہجری تک عبدا لملک بن مروان کی حکومت رہی ۔ یہ شخص حکومت سے پہلے بڑا نمازی اور عبادت گزار تھا ۔ لیکن جس دن یہ خبر ملی کہ خلافت آپ کے حصے میں آگئی ہے ، فورا قرآن اٹھا کر بند کردیا اور آواز دی "ھذا فراق بینی و بینک " آج میرے اور تیرے درمیان جدائی ہوگئی ۔ اب خلافت قبضہ میں آگئی ہے ۔ اب قرآن کی ضرورت نہیں ہے ۔ علامہ اقبال کو اسی مقام پر مرثیہ پڑھنا پڑا ہے ۔

چوں خلافت رشتہ از قرآن گیخت

حریت را زہر اندر کام ریخت

جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا توحریت و آزادی کے کام و دہن میں سوائے زہر کے کچھ نہ رہ گیا ۔ میں عرض کروں گا حضرت علامہ !! ابھی کتنے دن گذرے ہیں جب خلافت نے عترت سے کنارہ کشی کی تھی اتنی جلدی قرآن بھی ہاتھ سے نکل گیا ۔ اب آپ نے دیکھ لیا کہ قرآن و عترت میں کتنا اتحاد ہے کہ جس سے عترت الگ ہوجاتی ہے اس سے قرآن بھی الگ ہوجاتا ہے ۔

یزید کے بعد ہشام بن عبد الملک بادشاہ ہوا اس کا دور حکومت ۱۰۵ ہجری سے ۱۲۵ ہجری تک ۲۰ سال قائم رہا اور جس قدر ظلم کا امکان تھا آل محمد (ص) پر ظلم کیا گیا ۔ جناب زید بن علی بن الحسین (ع) کی شہادت اسی کے دور کا المیہ ہے ۔ جناب زید امام زین العابدین (ع) کے فرزند تھے ۔ ان کی والدہ کا نام حوریہ تھا جنھیں جناب مختار نے امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ زید نے ہشام کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ۔ ابو حنیفہ نے ان کا ساتھ دیا ۔ اور ان کی حمایت میں فتوی دیا لیکن ہشام نے انھیں امام بنا کر توڑ لیا اور زید کا یہ عالم ہوگیا کہ چالیس ہزار کی فوج میدان جنگ تک صرف ۸۸نفر رہ گئی ۔

جناب زید شہید ہوگئے اور ظالموں نے ان سر کاٹ کر ہشام کے پاس دمشق بھیج دیا ۔ وہاں یہ سر صدر دروازے پر معلق رہا ۔ اس کے بعد لاش کو سولی دی گئی اور پھر سولی سے اتار کر در کوفہ پر لٹکا دیا گیا ۔ اور چار برس تک مظالم کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔ یہاں تک کہ لاش کو نذر آتش کردیا گیا - دنیا کہتی ہے کہ واقعہ کربلا میں اتنے مظالم نہیں ہوئے ۔ لشکر یزید بھی تو انسان ہی تھا انسان انسان پر اتنا ظلم نہیں کرسکتا لیکن میں کہوں گا کہ کربلا کی بات تو چھوڑئیے ۔ یہ کربلا کے بعد کاواقعہ ہے ۔ جب سارے عالم اسلام کے احتجاج کے بعد اتنا بڑا ظلم ہوسکتا ہے تو پوری دنیا ئے اسلام کی بیعت کے بعد کیا نہیں ہوسکتا ۔

ولادت با سعادت

آپ سیّد السّاجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پرہیز گار اور متقی فرزند ارجمند تھے۔ حضرت زید بن علی کی ولادت باسعادت امام زین العابدین علیہ السلام کے بیت الشرف واقع مدینہ منورہ میں ہوئی۔ ان کی تاریخ ولادت پرمختلف مورخین کے درمیان اختلاف راۓ موجود ہے ۔ مشہور محقق ابن عساکر نے ان کی تاریخ ولادت ۷۸ ہجری جبکہ ایک اور مورخ محلی ان کی تاریخ ولادت ۷۵ ہجری لکھتے ہیں۔چند مورخین کے مطابق ان کی تاریخ ولادت ۸۰ ہجری بنتی ہے۔ ابن عساکر نے اپنی کتاب تھذیب تاریخ دمشق الکبیر کی جلد ۶ کے صفحہ ۱۸ پر لکھا کہ آپ کی شھادت ۴۲ سال کی عمر میں سن ۱۲۰ق میں ہوئی اس حساب سے آپ کا سال ولادت با سعادت ۷۸ھ ہی بنتا ہے۔ لیکن شیخ مفید اپنی کتاب مسارالشیعتہ میں ان کا سال شھادت اول ماہ صفر ۱۲۱ھ لکھا۔ مشہور کتاب مسند امام زید جو کہ حضرت زید بن علی کی شرح احوال کے بارے میں ہے اس میں آپ کا سال ولادت با سعادت ۷۶ ھ جبکہ سال شھادت ۱۲۲ھ د رج ہے۔اس طرح آپ کی عمر ۴۶ سال بنتی اور زیدی سادات اس کو درست تسلیم کرتے ہیں اور یہی تاریخ قرین قیاس ہے۔

حضرت زید بن علی کے القابات

شہید

حلیف القرآن

زیدالازیاد

عالم آل محمّد

فقیہ اہلبیت

حضرت زید بن علی شہید ( رح) کی زوجہ محترمہ

حضرت ریطہ بنت محمدحنفیہ

زیدابن علی نے مولا علی مشکلکشا ، شیر خدا کی پڑپوتی سیدہ ریطہ دختر سیدنا ابو ہاشم عبداللہ فرزند حضرت محمد حنیفہ بن امام علی سے عقد فرمایا ۔ اس طرح ان کا سلسلہ تین واسطوں سے حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ حضرت ابو ہاشم کا شمار اپنے دور کے نامور بزرگوں میں ہوتا تھا۔وہ سادات علوی اور حضرت علی علیہ السلام کی اولاد تھے ۔سلمان بن عبدالملک مروان کے حکم سے آپ کو بیدر دی سے شہید کیا گیا۔ حضرت ریطہ کا شمار خاندان ہاشمی کی معزز اورمحترم خواتین میں ہوتا ہے۔ ان کی شہادت کوفہ کے ظالم اور جابر حاکم یوسف بن عمر کے ناپاک ہاتھوں سے ہوئی۔اس ظالم حاکم نے حکم دیا تھا کہ حضرت زید کی ذوجہ محترمہ پر کوڑے برساۓ جائیں۔تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ اس قدر کوڑے لگاۓ گۓ کہ آپ کا جسم مبارک زخموں سے لہو لہان ہو گیا ۔اس طرح اس شدید زخمی حالت میں ان کو کوفہ شہر سے باہر پھینک آنے کا حکم دیا گیا ۔ یوں خاندان بنی ہاشم کی یہ بہادر اور نڈر خاتون اپنےاجداد اور شوہر نامدارحضرت زید بن علی شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ دین حق کی بقا کے لۓ شہادت کے رتبہ پر فائز ہوئیں۔

حضرت علی

امام حسین

محمد حنفیه

امام سجاد

عبدالله

زید شہید

ریطہ بی بی

حضرت یحیی

شہادت

اس دوران کئی بارعلوی سادات نے اپنے اپنے زمانے کی حکومتوں کے ظلم و ستم اوردباؤ کے خلاف تحریکیں شروع کیں لیکن ان کو ھر بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور آخر کار اس راہ میں اپنی جان کی بازی لگاتے رھے۔ اس وقت کی حکومتوں نے ان کے جان ومال کو پامال کرنے میں کوئی کسر اٹھانھیں رکھی تھی ۔ قابل ذکر ہے کہ سنہ ۶۱ ھ ق کے واقعہ کربلا کے بعد مسلمانوں میں حق پسندی کا جذبہ بیدار ہوا ۔وہ بنی امیّہ کی ظالم اور فاسق و فاجر حکومت کے خلاف جد و جہد کے لئے بے تاب رہتے تھے اور جہاں انہیں کوئی رہبر ملتا تھا حکومت کے خلاف تحریک شروع کردیتے تھے ۔چنانچہ اس جانگداز واقعے کے بعد متعدد انقلابی تحریکیں سامنے آئیں جن میں صرد خزاعی کی قیادت میں توابین کی تحریک اور امیر مختار کی قیادت میں خون حسین علیہ السلام کے انتقام کی تحریک کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ان تمام انقلابی تحریکوں کا مقصد بنی امیہ کی ظالم حکومت کا خاتمہ کرنا تھا ۔ انہوں نے بنی امیہ کے ظلم وستم کا مقابلہ کرنے اور انقلاب امام حسین علیہ السلام کے ثمرات کے تحفظ کے لئے بنی امیہ کی حکومت کے خلاف تحریک کو جاری رکھا ۔ تاریخ میں رقم ہے کہ جب دوران جنگ زید بن علی کہ پیشانی پر تیر لگا ۔لوگ ان کو ایک گھر میں اٹھا لے گئے اور انھوں نے وفات پائی اس طرح صفر ۱۲۱ ھ کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند حضرت زید شہید ہوئے ۔ تاریخ ابن الوردی میں ہے کہ عراق کے والی یوسف بن عمر ثقفی نے زید شہید کا دھڑ سولی پر چڑھا دیا دشمن کا جذبہِ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہونے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالاگیا اور سر کو جدا کرکے ہشام بن عبد الملک کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا ۔ایک روایت کے مطابق ہشام نے سر زید شہید دس ہزار درہم انعام کے طور پر دیۓ اور لاش کو دروازہ کوفہ پر سولی پر آویزاں رکھا گیا تاریخ خمیس میں ہے کہ جب زید شہید کا برہنہ جسم دار پر چڑھا یا گیا تو مکڑی نے جالا لگا کر ان کی شرم گاہ کو چھپادیا۔ اس کے بعد لاش کوسولی سے اتار کر آگ میں جلا دیا گیا اور راکھ کو ھوا میں اڑا دیا گیا- جناب زید شہید کی شہادت کے ایک سال بعد ان کے بیٹے یحیٰی ابن زید بھی شہید ہوگئے ۔ اصابہ ابن حجر عسقلانی میں بروایت کوکبی سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ حکیم بن عیاش کلبی آپ لوگوں کو ہجو کیا کرتا ہے ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تجھ کو اس کا کچھ کلام یاد ہو بیان کر۔ اس نے دوشعر سنائے ( جن کا حاصل مقصود یہ ہے کہ) ہم نے زید کو شاخ درخت خرمہ پر سولی دیدی حالانکہ ہم نے نہیں دیکھا۔

مقبرہ :

روایات میں ہے کہ ہشام بن عبدالمالک کے حکم پر آپ کا سر مبارک تن سے جدا کیا گیا جب آپ کے سرمبارک کو آپ کے ساتھیوں کے سروں کے ہمراہ پہلے شام اور شام سے مدینہ لایا جا رہا تھا تو مدینہ کے راستے میں اردن میں حجاز اور شام کو متصل کرنے والی قدیم سلطنتی شاہراہ پر واقع موتہ کے شمال میں ۲۲ کلو میٹر کے فاصلے پر قدیم شہر رومی میں واقع قصبہ میں جناب زید شہید کا سر مبارک کےدفن کا مقام ہے جس کا نام" ربہ" ہے جہاں حجاز اور شام کو متصل کرنے والی قدیم سلطنتی شاہراہ گزرتی ہے۔ مزار پر نصب ایک پتھر کی تختی پر کندہ تھا کہ یہ قبر مبارک زید بن علی علیہ السلام بن حسین علیہ السلام بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ہے جسے بندہ حقیر سلمان قانونی نے تعمیر کیا۔ یہ پتھر کی سل اب تک شہداء موتہ کے مزارات کے میوزیم میں موجود ہے۔ اس روایت کی مقامی افراد اب تلک تصدیق کرتے ہیں۔ معتبر تواریخ بھی اس بات کی تائیدکرتی ہیں کہ آپ کا سر مبارک مدینہ پہچنے سے پہلے دفن ہوا۔ ان سروں کے دفن ہونے کےبعد یہ مقام مسلمانوں کے مبارک قبرستان میں تبدیل ہو گیا۔جہاں اب بہت سی شخصیات دفن ہیں۔ مصدقہ حوالوں کے مطابق فاطمی حکومت کے عہد میں یہاں روضہ تعمیر کیا گیا اور جس کی تجدید عثمانی حکومت کے سلطان سلیمان قانونی نے کی۔

۱۱

۹- حضرت زید بن علی کا مقام و منزلت اور کرامات

شیخ طوسی اپنی کتاب "فہرست" میں عمر بن موسی وجہی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ قرآنی آیات کی تشخیص میں کوئی بھی اس زمانے میں حضرت زید بن علی سے بڑھ کر نہ تھا۔ وہ نہ صرف یہ کہ ایک نامورمفسسر قرآن تھے بلکہ صحیفہ سجادیہ کے کاتب اور راوی بھی تھے۔امام ابوحنیفہ اورسفیان ثوری کے بقول وہ ایک وہ نہ صرف تقوی و علم و فضل کے اعتبار سے بلند مرتبہ تھے بلکہ فہم وفراست کے لحاظ سے اور خوش بیانی کے اعتبار سے بینظیر تھے۔حضرت زید بن علی نہ صر ف یہ کہ زہد ، تقوی،شجاعت اور سخاوت میں مشہور تھے بلکہ بہادری اور شجاعت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ علم و دانش آپ کو وراثت میں ملی تھی۔ احکام الہی اور شریعی مسائل پر اس قدر عبور تھا کہ ان کو عالم آل محمد اور فقیہ آل محمد کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان علمی فضیلت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خدا زید بن علی پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے وہ نہ صرف راست گو تھے بلکہ احکام الہی پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ جبکہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے قول کے مطابق ان کا شمار علماء اہلیبت میں ہوتا تھا۔ امام سجاد (علیه السلام ) نے اپنے والد امام حسین (علیه السلام ) سے اور وہ اپنے بابا امیرالمؤ منین سےنقل فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن علی جیسے مجاہد انسانی تاریخ میں کم ہی نظر آ تے ہیں ۔ احدیث کا پہلا با ضابطہ مجموعہ جو حضرت زید بن علی نے مرتب کیا مسند امام زید کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ کتاب بعد میں عبدالعزیز بن اسحاق بغدادی (م ۳۶۳ ق) کے ذریعے تدوین و تنظیم کی گئی۔ جس کے چودہ ابواب ہیں اور ۶۸۷احدیث مشتمل ہے۔ اس کا شمار حدیث کی قدیم اور اہم کتب میں شمار ہوتا ہے۔

شانِ زید ابن علی لکھی قلم نےجس دم

ان کو اسلام کی عزت کا مصاعد لکھ

پڑھ کے تاریخ نتیجہ یہ نکالا میں نے

ہر مورخ نے میرے جد کو مجاہد لکھ

زید بن علی کی کرامات

دشمنوں نے جب آپ کے بدن اقدس کو سولی پر چڑھایا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوۓ کہ آپ کا بدن قبلہ رو موڑ جاتا جتنی بار وہ تبدیل کرتے اتنی با وہ قبلہ کی طرف ہو جاتا۔

کتاب امالی میں نقل ہے کہ بلدہی نامی ایک شخص بلنجر سے جب کوفہ پہنچا اور حضرت زید شھید کے بدن کو سولی پر دیکھ کر ہرزہ سرائی کرنے لگا لیکن زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ دونوں آنکھوں سے نابینا ہو گیا۔

کتاب «الحدائق الورد یہ» میں رقم ہے کہ دو لوگ کناسیہ سے کوفہ پہنچے اورحضرت زید شھید کے بدن کو سولی پر دیکھ کر رک گۓ ایک سولی پر ہاتھ رکھ کر کر ہرزہ سرائی کرنے لگا جوں ہی ہاتھ اٹھایا تو ہاتھ کے شدید درد میں مبتلا ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا۔

کتاب «الحدائق الورد یہ» میں ہی نقل ہے کہ طایفہ اسدی میں سے عزرمہ نامی ایک شخص حضرت زید شھید کے بدن کو دار پر دیکھ کر ہرزہ سرائی کی اور جسارت کرتے ہوۓ آپ کی جسد مبارک پر پتھر پھنکا اسماعیل بن یسمع عامری کے مطابق خدا گواہ موت کے وقت عزرمہ کی آنکھیں دو بلوری شیشوں کی طرح وحشتناک طریقے سے باہر نکلی ہوئیں تھیں۔

حضرت زید شہید کے برہنہ بدن کو سولی پر چڑھایا گیا تو لوگوں یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوئی کہ آپ کی شرم گاہ کو مکڑی نے جالا تان کر چھپا لیا۔جب بھی جلا اتارہ جاتا مکڑی پھر جالا بنا لیتی۔

کتاب «الحدائق الورد یہ» میں ہی نقل ہے کہ ایک خاتون نے جب حضرت زید شھید کے برہنہ بدن کو سولی پر دیکھ کر اپنا نقاب آپ کے برہنہ بدن کی طرف اچھال دیا خدا کے حکم سے آپ کے بدن نے یہ لباس کی صورت پہن لیا.

حضرت زید شھید کا بدن جو سولی پر لٹک رہاتھا اس کے نگہبان کے مطابق ایک رات خواب میں دیکھا کہ رسول خدا کا اس مقام سے گزر ہوا حضرت زید شھید کے بدن کو دار پر دیکھ کر حیرت سےفرمایا میرے بعد میری اولاد سے کیا یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔

اسی کتاب میں ہے کہ جب حضرت زید شھید کے جسد خاکی کو جلاکر فرات کے پانی میں بہایا گیا تو دیکھا کہ ان کے بدن کی راکھ سے ایک نور کا ہالہ چمک رہا ہے.

۱۰- حضرت زید بن علی کی تصانیف اور خطبات

علم کلام ،فقہ اور حدیث وغیرہ پر آپ کی دس سے زیادہ تصانیف موجود ہیں ۔

کتاب «الصفوہ» و مسالہ امامت

مجموع الفقہی

القلہ و الجماعہ

المجموع الحدیثی

تفسیر غریب القرآن

اثبات الوصیہ

قرائتہ الخاصہ

قرائہ جدہ علی بن ابی طالب

منسک الحج

الصفوہ

اخبار زید (علیہ السلام) خطبہ لُمَّہ

تاریخ عالم میں طوالت کے لحاظ سے باب مدینۃالعلم کے اٹھائیس اوراق پر مشتمل خطبہ جسے فرزندِ سیدنا اما م زین العابدین ، حضرت زید شہید نے اپنے والد کے حوالے سے نقل کیا ہے، جنہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنی پھپھی معظمہ،عقیلہ بنی ہاشم ،سیدہ زینب الکبریٰ سے یہ مقدس الفاظ سنے تھے۔ اس خطبہ کی ادائیگی کے وقت سیدہ خاتون جنت ، مستورات کے جھرمٹ میں تھیں ،اس لئے اسے خطبہ لُمَہ کہا جاتا ہے۔

ترجمہ:

حمد و ستائش ہے پروردگا رکی اس کی نعمات پر،شکر ہے اس کا ان افکار و معارف پر جو اس نے الہام کئے۔میں شہادت دیتی ہوں کہ میرے والد محمد ،خدا کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ نے انہیں تخلیق جبلت سے بھی پہلے چن لیااور مبعوث کرنے سے قبل مصطفٰی کیا اور ظاہر کرنے سے پہلے مسمٰی کیا،جب تمام مخلوق پردہ غیب میں تھی اور سرابِوجودکے حجاب میں گم تھی اور عدم کے پرلے کنارے پر کھڑی تھی۔ اللہ عزوجل کو تو ان امور کا علم تھا اور اللہ اپنی تقدیر کی تقسیم کو جانتا تھا۔پھر اللہ تعالیٰ عزوجل نے مبعوث کیا تا کہ اس کا امر تمام ہو جائے اور اس کا پختہ ارادہ تھا کہ میں اپنے حکم کو جاری و ساری کردوں۔

حضرت زید کی عظمت علماء کی کتب میں:

علماء --- کتب

شیخ مفید--- ارشاد

شہید اول--- قواعد

شیخ محمّد بن شیخ--- صاحب معالم شرح استبصار

علامہ مجلسی--- مرآہ العقول او ر بحارالانوار

شیخ حر عاملی--- وسائل (جلد ۲۰) چاپ جدید

شیخ نوری--- خاتمہ «مستدرک»

مامقانی--- تنقیح المقال

خزاز قمی--- کفایہ الاثر

نسابہ عمری--- المجدی

ابن داوود--- رجالش

استرآبادی--- رجالش

ابن ابی جامع--- رجالش

میرزا عبداللّہ اصفہانی--- ریاض العلماء

شیخ عبدالنبی کاظمینی--- تکملہ الرجال

سید محمّد جدّ آیہ اللّہ بحرالعلوم--- رسالہ اش

شیخ ابی علی--- رجالش

طبرسی--- اعلام الوری

علامہ سید محسن امین--- اعیان الشیعہ

آیت اللّہ سید ابوالقاسم خوئی--- معجم رجال الحدیث

آیت اللّہ منتظری--- درس خارج فقہ مبحث ولایت فقیہ اور مبانی حکومت اسلامی

محدث نوری--- رجال مستدرک الوسائل

خزاز قمی--- کفایہ الاثر

ابن ابی الحدید معتزلی--- شرح نہج البلاغہ، ج ۱ ، ص ۳۱۵

مرحوم سید علی خان--- نکت البیان

قیروانی--- زہر الاداب

اردبیلی--- جامع الرواہ

سید جلیل علتی بن عبدالحمید نیلی نجفی--- انوار المضیئہ

علامہ شہید قاضی نوراللّہ شوشتری--- احقاق الحق

شہید اول حضرت زید کے قیام کو اذن امام کے مطابق جانتے تھے۔

۱۲

۱۱- حضرت زید بن علی کا دور اور قیام

اس وقت دمشق میں ہشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی اس زمانہ سلطنت میں ملک میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہوچکا تھا مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہورہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے تھے , ان میں نمایاں ہستی حضرت زید(رض) کی تھی جو امام زین العابدین علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے .ان کی عبادت زہد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شہرہ تھا مستند اور مسلّم حافظ ُ قران تھے بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آکر انھوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالم بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ آپ زید(رض) کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید(رض) آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا ۔ خود ان کی ذات سے آپ کو انتہائی ہمدردی تھی آپ نے مناسب طریقہ پر انھیں مصلحت اندیشی کی دعوت دی مگر اہل عراق کی ایک بڑی جماعت کے اقرار اطاعت و وفاداری نے جناب زیدکے اندر کامیابی کی توقعات پیدا کردیں.ہشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن عبدالملک پھر یزید بن ولید بن عبدالملک اس کے بعد ابراہیم بن ولید بن عبدالملک اور آخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا جب سلطنت کی داخلی کمزوریاں قہر و غلبہ کی چولیں ہلا چکی ہوں تو قدرتی بات ہے کہ وہ لوگ جو اس حکومت کے مظالم کا مدتوں نشانہ رہ چکے ہوں اور جنھیں ان کے حقوق سے محروم کرکے صرف تشدد کا نشانہ بنایاگیا ہو وہ قفس کی کمزور تتلیوں کی طرح پھڑ پھڑانے کی کوشش کریں گے اور حکومت کے شکنجے کو ایک دم توڑ دینا چاہیں گے , سوائے ایسے بلند افراد کے جو جذبات کی پیروی سے بلند ہوں عام طور پر اس طرح کی انتقامی کوششوں میں مصلحت اندیشی کادامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے کا امکان ہے مگر وہ انسانی فطرت کا ایک کمزور پہلو ہے جس سے خاص خاص افراد ہی مستثنیٰ ہوسکتے ہیں بنی ہاشم میں عام طور پر سلطنت بنی امیہ کے اس آخری دور میں اسی لیے ایک حرکت اور غیر معمولی اضطراب پایا جارہا تھا اس اضطراب سے بنی عباس نے فائدہ اٹھایا انھوں نے آخری دور امویت میں پوشیدہ طریقے سے ممالکِ اسلامیہ میں ایک ایسی جماعت بنائی جس نے قسم کھائی تھی کہ ہم سلطنت کو بنی امیہ سے لے کر بنی ہاشم تک پہنچائیں گے جن کا وہ واقعی حق ہے حالانکہ حق تو ان میں سے مخصوص ہستیوں ہی میں منحصر تھا جو خدا کی طرف سے نوع ُ انسانی کی رہبری اور سرداری کے حقدار بنا کر بھیجے گئے تھے یہ وہی جذبات سے بلند انسان تھے جو موقع کی سیاسی رفتار سے ہنگامی فوائد حاصل کرنا اپنا نصب العین نہ رکھتے تھے

سلسلہ بنی ہاشم میں سے ان حضرات کی خاموشی قائم رہنے کے ساتھ اس ہمدردی کو جو عوام میں خاندان ہاشم کے ساتھ پائی جاتی تھی , بنی عباس نے اپنے لیے حصول ُ سلطنت کاذریعہ قرار دیا حالانکہ انھوں نے سلطنت پانے کے ساتھ بنی ہاشم کے اصل حقداروں سے ویسا ہی یا اس سے زیادہ سخت سلوک کیا جو بنی امیہ ان کے ساتھ کرچکے تھے بنی عباس میں سے سب سے پہلے محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے بنی امیہ کے خلاف تحریک شروع کی اور ایران میں مبلغین بھیجے جنھو ں نےمخفی طریقہ پر لوگوں سے بنی ہاشم کی وفاداری کاعہدوپیمان حاصل کیا محمد بن علی کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم قائم مقام ہوئے .جناب زید(رض )اور ان کے صاحبزادے جناب یحییٰ (رض )کے دردناک واقعات شہادت سے بنی امیہ کے خلاف غم وغصہ میں اضافہ ہوگیا اس سے بھی بنی عباس نے فائدہ اٹھایا اور ابو سلمہ خلال کے ذریعہ سے عراق میں بھی اپنے تاثرات قائم کرنے کا موقع ملا رفتہ رفتہ اس جماعت کے حلقہ اثر میں اضافہ ہوتا گیا اور ابو مسلم خراسانی کی مدد سے عراق عجم کا پورا علاقہ قبضہ میں آ گیا اور بنی امیہ کی طرف سے حاکم کو وہاں سے فرار اختیار کرنا پڑا

سلسلہ بنی ہاشم میں سے ان حضرات کی خاموشی قائم رہنے کے ساتھ اس ہمدردی کو جو عوام میں خاندان ہاشم کے ساتھ پائی جاتی تھی , بنی عباس نے اپنے لیے حصول ُ سلطنت کاذریعہ قرار دیا حالانکہ انھوں نے سلطنت پانے کے ساتھ بنی ہاشم کے اصل حقداروں سے ویسا ہی یا اس سے زیادہ سخت سلوک کیا جو بنی امیہ ان کے ساتھ کرچکے تھے ۶۳۱ھ میں ابو عبداللہ سفاح بنی عباس کے پہلے خلیفہ کا انتقال ہوگیا جس کے بعداس کا بھائی ابو جعفر منصور تخت ُ خلافت پر بیٹھا جو منصور دوانقی کے نام سے مشہور ہے سادات پر مظالم یہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ بنی عباس نے ان ہمدردیوں سے جو عوام کو بنی فاطمہ کے ساتھ تھیں ناجائز فائدہ اٹھایا تھا اور انھوں نے دنیا کو یہ دھوکا دیا تھا کہ ہم اہلبیتِ رسول کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے ہیں چنانچہ انھوں نے رضائے الِ محمد ہی کے نام پر لوگوں کو آپنی نصرت وحمایت پر امادہ کیاتھا اور اسی کو آپنانعرئہ جنگ قرار دیا تھا اس لیے انھیں برسر اقتدار انے کے بعد اور بنی امیہ کو تباہ کرنے کے بعد سب سے بڑا اندیشہ یہ تھا کہ کہیں ہمارایہ فریب دنیا پر کھل نہ جائے اور تحریک پیدا نہ ہوجائے کہ خلافت بنی عباس کی بجائے بنی فاطمہ کے سپرد ہونا چاہیے , جو حقیقت میں الِ رسول ہیں ابو سلمہ خلال بنی فاطمہ کے ہمدردوں میںسے تھے اس لیے یہ خطرہ تھا کہ وہ اس تحریک کی حمایت نہ کرے , لہذا سب سے پہلے ابو سلمہ کو راستے سے ہٹا یا گیا وہ باوجود ان احسانات کے جو بنی عباس سے کرچکا تھا سفاح ہی کے زمانے میں تشدد بنا اور تلوار کے گھاٹ اتارا گیا ایران میں ابو مسلم خراسانی کااثر تھا , منصور نے انتہائی مکاری اور غداری کے ساتھ اس کی زندگی کا بھی خاتمہ کردیا اب اسے آپنی من مانی کاروائیوں میںکسی بااثر اور صاحبِ اقتدار شخصیت کی مزاحمت کا اندیشہ نہ تھالٰہذا اس کا ظلم وستم کا رخ سادات بنی فاطمہ کی طرف مڑ گیا مولانا شبلی سیر ت نعمان میں لکھتے ہیں .»صرف بد گمانی پر منصور نے سادات علویئین کی بیخ کنی شروع کردی جو لوگ ان میں ممتاز تھے ان کے ساتھ بے رحمیاں کی گئیں .محمد ابن ابراہیم کہ حسن وجمال میںیگانہ روز گار تھے اور اسی وجہ سے دیب ج کہلاتے تھے زندہ دیواروں میں چنوادیئے گئے ان بے رحمیوں کی ایک داستان ہے جس کے بیان کرنے کو بڑا سخت دل چاہیے

اس وقت دمشق میں ہشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی اس زمانہ سلطنت میں ملک میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہوچکا تھا مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہورہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے تھے , ان میں نمایاں ہستی حضرت زید(رض) کی تھی جو امام زین العابدین علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے .ان کی عبادت زہد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شہرہ تھا مستند اور مسلّم حافظ ُ قران تھے بنی امیہ کے مظالم سے تنگ اکر انھوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالم بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ آپ زید(رض) کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید(رض) آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا مگر آپ کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ یہ اقدام کسی مفید نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا اس لیے عملی طور پرآپ ان کاساتھ دینامناسب نہ سمجھتے تھے مگر یہ واقعہ ہوتے ہوئے بھی خود ان کی ذات سے آپ کو انتہائی ہمدردی تھی آپ نے مناسب طریقہ پر انھیں مصلحت اندیشی کی دعوت دی مگر اہل عراق کی ایک بڑی جماعت کے اقرار اطاعت ووفاداری نے جناب زید(رض) اندر کامیابی کی توقعات پیدا کردیں اور آخر ۱۲۰ھ میں شام کی ظالم فوج سے تین روز تک بہادری کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد شہید ہوئے دشمن کا جذبہِ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہونے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالاگیا اور سر کو جدا کرکے ہشام کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا اور لاش کو دروازہ کوفہ پر سولی دے دی گئی اور کئی برس تک اسی طرح آویزاں رکھا گیا جناب زید(رض ) کی شہادت کے ایک سال بعد ان کے بیٹے یحیٰی ابن زید علیہ السّلام بھی شہید ہوگئے .یقیناً ان حالات کا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے دل پر گہرا اثر پڑ رہا تھا مگر آپ نے جذبات سے بلند رہ کر ان فرائض کو ادا کیا جو قدرت کی جانب سے آپ کے سپرد تھے اور آپ نے شریعت اور معارف اسلامی کی نشر و اشاعت میں نمایاں کام انجام دیا اور مسلسل اس کام میں مشغول رہے بنی امیہ کی حکومت کا آخری دور ہنگاموں اور سیاسی کشمکشوں کا مرکز بن گیا تھا جس کے نتیجے میں تیزی کے ساتھ حکومتوں میں تبدیلیاں ہورہی تھیں اور اسی لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام کو بہت سی دنیوی سلطنتوں کے دور سے گزرنا پڑا ہشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن عبدالملک پھر یزید بن ولید بن عبدالملک اس کے بعد ابراہیم بن ولید بن عبدالملک اور آخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا

مظالم بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہورہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے تھے , ان میں نمایاں ہستی حضرت زید کی تھی جو امام زین العابدین علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے .ان کی عبادت زہد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شہرہ تھا مستند اور مسلّم حافظ ُ قران تھے بنی امیہ کے مظالم سے تنگ اکر انھوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالم بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ آپ زید(رض) کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید(رض) آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا مگر آپ کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ یہ اقدام کسی مفید نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا اس لیے عملی طور پرآپ ان کاساتھ دینامناسب نہ سمجھتے تھے مگر یہ واقعہ ہوتے ہوئے بھی خود ان کی ذات سے آپ کو انتہائی ہمدردی تھی

قیام کے مقاصد

زید بن علی تاریخ قیام کی تاریخ منگل کی رات اول صفر سال ۱۲۱ قمری تھی. تاریخ طبری اور دوسرے مورخین کے مطابق کوفہ کے ۴۰ ہزار افراد نے ان کےہاتھ پر بیعت کی تھی جبکہ صرف ۲۱۸ افراد جنگ کے وقت آپ کے ہمراہ تھے۔حضر ت زید نے بڑی جوانمردی سے جنگ کی۔

خاندان پیامبر اور آن کی اولاد پر حکوت وقت کے ظلم ستم کے خلاف

انتقام خون شہیدان کربلا کے لیے

خدا ا و ر پیامبر کے احکامات کی ترویج کے لیے

امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، و اصلاح وضع جامع مسلمین کے لیے

حکومت اسلامی کے قیام کے لیے

۱۲- حضرت زید شہید سے وابستہ شخصیات اور شاگرد

امام زادوں اور سادات کی بڑی تعداد کے علاوہ مندرجہ ذیل شخصیات ہر اچھے اور برے وقت میں آپ کے ساتھ رہیں۔

ابوحنیفہ جو فقہ حنفیہ کے امام بھی ہیں نے دو سال سے زیادہ عرصہ تک کوفہ میں آپ کی شاگردی اختیار کی اور اسلامی معارف اور علوم حاصل کیے۔

عبداللّہ بن شبرمہ بن طفیل. جو کہ اس دو ر کے مشہور قاضی ،شاعر ،عالم اور محدث بھی تھے۔

اعمش سلیمان بن مہران کوفی کاہلی. کہ اس دو ر کے مشہور بزرگان شیعہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

سلیمان بن خالد. جو کہ امام صادق علیہ السّلام کی اجازت سے ان کے ساتھ شامل جہاد ہوۓ۔

منصور بن معتمر. علامہ حلی کے بقول وہ اصحاب امام باقر میں سے تھے جو آپ کے ساتھ شامل ہوۓ۔

مسعد بن کدام. وہ راویان حدیث میں سے تھے ۔

یزید بن ابی زیاد. وہ عالم، فاضل ا ور محدثین میں سے تھے جو آپ کے ہر موقع پر ساتھ رہے۔

قیس بن ربیع. جو دانشمند شخصیت کے حامل تھے۔

ابوحصین، عثمان بن عاصم

حجاج بن دینار. جو آپ کے ساتھ شامل رہے ۔

ہارون بن سعد عجلی کوفی. وہ کوفہ عالم، فاضل بزرگان میں سے تھے۔

۱۱. محمّد بن عبدالرحمن.

زبید بن حارث بن عبدالکریم امامی. فاضل ا ور محدثین میں سے تھے جو آپ کے ہر موقع پر ساتھ رہے۔

ہلال بن خباب. فاضل قاضی ا ور محدثین میں سے تھے جو آپ کے ہر موقع پر ساتھ رہے۔

ابوہاشم زمانی. ان کا نام یحیی بن دینار تھا۔

ہاشم بن زید. وہ بزرگان شیعہ‌ اور اہل سنت میں سے تھے۔

سلمہ بن کہیل. جو دانشمند شخصیت کے حامل تھے۔

عبدہ بن کثیر جرمی. جو کہ عراق کے دانشمندوں میں سے تھے۔

حسن بن سعد.

سفیان ثوری.

یحیی بن دینار واسطی-

حضرت زید شہید کے شاگرد

یحیی بن زید

محمّد بن مسلم (بزرگان اسلام)

ابی حمہ ثمالی (اسلام کے بڑے مفکر)

محمّد بن بکیر (اسلام کے بڑے مفکر)

ابن شہاب زہری

شعبہ بن حجاج

ابوحنیفہ (جو ایک مدت تک شاگرد مکتب علمی امام باقر و امام صادق رہے اور دو سال تک زید بن علی کی شاگردی اختیار کی)

سلمہ بن کہیل

یزید بن ابی زیاد

ہارون بن سعید عجلی

ابو ہاشم بن رمانی

حجاج بن دینار

آدم بن عبداللّہ خثعمی

اسحاق بن سالم

بسام بن صیرفی

راشد بن سعد

زیاد بن علاقہ

عبداللّہ بن عمرو بن معاویہ

خاندان بنو ہاشم کی شاگرد شخصیات

ابراہیم بن حسن مثنی

حسن مثلث

حسین بن علی بن الحسین الشہید

عبیداللّہ بن محمّد بن عمر بن علی بن ابی طالب (علیہ السلام)

عبداللّہ بن محمّد بن عمر بن علی

۱۳

۱۳- زید بن علی اور مسئلہ امامت

زید ابن علی ابن الحسین امام محمد باقر علیہ السّلام کے بھائی ہیں اور صالح و محترم شخص ہیں۔ ہمارے ائمہ نے آپ کی اور آپ کے مجاہدانہ اقدام کی تعریف کی ہے۔ بلکہ آپ امام محمد باقر علیہ السّلام کی خلافت کے خواہاں تھے، یہ مسلم ہے کہ ہمارے ائمہ نے آپ کی تعریف و توصیف کی ہے اور آپ کو شہید کہا ہے۔ اور یہی ان کی عظمت کے لئے کافی ہےکہ:" مضیٰ واللہ شھیداً " وہ شہید ہوکر دنیا سے اٹھے ۔ آپ نے خود فرمایا کہ لوگوں کو بتادوں کہ میں بھی اس نکتہ سے غافل نہیں ہوں۔ وہ کہیں شبہ کا شکار نہ ہوں، میں بھی اس مسئلہ کو نہ صرف جانتا ہوں بلکہ اس کا اعتراف و اعتقاد بھی رکھتا ہوں۔ گفتگو کے آخری جملہ میں اسی مطلب کا اظہار ہے کہ میں پورے علم و ارادہ کے ساتھ نیز اپنے بھائی کے حکم سے جہاد کے لئے اٹھ رہاہوں۔ آپ نے خود فرمایا کہ میرے بھائی امام محمد باقر علیہ السّلام نے مدینہ میں مجھ سے فرمایا:" انی اقتل واصلب بالکناسۃ" کہ تمہیں قتل کیا جائےگا اور کانسۂ کوفہ پر سولی دی جائے گی۔" وان عندہ لصحیفۃ فیھا قتلی وصلبی" اور ان کے پاس ایک صحیفہ (کتاب) ہے جس میں میرے قتل کئے جانے اور دار پر چڑھائے جانے کا ذکر ہے۔ شیخ مفید اپنی کتاب ارشاد میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ حضرت زید کی امامت کے بارے میں اس طرح وضاحت فرمائی کیونکہ حضرت نے قیام کی دعوت کےوقت فرمایا تھا کہ میں یہ آل محمد کی خوشنودی کے لئے کر رہا ہوں اس لئے کچھ لوگ غلط فہمی سے آپ کو امام جان لیا جبکہ خود آپ نے خود اپنے بھائی امام باقر علیہ السّلام اور امام صادق علیہ السّلام کی امامت کا اعتراف او ر اقرار کیا تھا۔

آپ کی وفات کے بعد ایک مستقل فرقہ وجود میں آ گیا جو زیدیہ کہلایا ۔ آپ کے ماننے والے امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد امام محمد باقر علیہ السلام کی بجائے آپ کو امام مانتے ہیں۔ اس فرقہ کے ماننے والوں کی اب بھی کافی تعداد موجود ہے۔ یہ فرقہ خلافت کو بھی تسلیم کرتا ہے اور امامت کو بھی مانتا ہے۔ یہ حضرت زید بن علی بن حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب کے پیروکار ہیں۔ امام کے متعلق بھی ان کا نظریہ کا فی حد تک معتدل تھا۔ان کے نزدیک امامت منصوص بالوحی نہیں ہوتی بلکہ ہر فاطمی ،عالم،زاھد،بہادر،سخی اور حق کے راستہ میں جہاد کی قدرت رکھنے والاامام ہو سکتا ہے اگروہ مطالبہِ خلافت کے لیے سلاطین کے خلاف خروج کی اہلیت رکھتا ہو۔اس لحاظ سے ان کے ہاں امامت عملی چیز تھی سلبی نہیں۔خروج کے باب میں آپ کے بھائی محمد باقر اور کئی شیعہ آپ کے ہم خیال نہ تھے۔ امام باقر فرمایا کرتے تھے کہ تمھارے مذہب کی رُو سے تو تمھارے والد بھی امام نہیں کیونکہ انھوں نے کبھی خروج نہ کیا۔ زیدیہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اپنے ائمہ کو الوہیت یا رسالت کے منصب پر فائز کرتے تھے۔ تعدّدِخلفاء کے بارے میں زیدیہ کازاویہ نگاہ یہ تھا کہ دوالگ الگ ملکوں میں دوجداگانہ امام پائے جا سکتے ہیں۔جبکہ ایک ہی ملک میں دو خلفاء کاوجود ممکن نہیں۔ مرتکبِ کبائر کے بارے میں یہ اعتزالی ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ کبائر کا مرتکب اگر توبہ نہ کرے توابدی جہنمی ہے۔حضرت زید کے بعد آپ کے بیٹے حضرت یحییٰ کی بیعت کی گئی۔حضرت یحییٰ ٰ نے بھی ۱۲۵ھء میں خروج کیا پھر جب آپ مقتول ہوئے تو بعد میں عبداللہ ابن حسن کے دونوں بیٹوں محمد اورابراہیم کی بیعت کی گئی۔عبداللہ بن حسن امام ابوحنیفہ کے محترم استاد تھے۔پھر ابراہیم نے عراق میں خروج کیا اور محمد نے مدینہ میں اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ کو عراق میں اور امام مالک کومدینہ میں بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔اگرچہ یہ فرقہ آج تک یمن میں موجود چلاآرہا ہے مگرخلیفہ ابوجعفر منصور کے دور میں زیرِعتاب آنے کی وجہ سے یہ فرقہ کمزور پڑ گیااور دوسرے شیعہ اس پر غالب آگئے اس لیے یہ اپنی خصوصیات کھو بیٹھے۔یہ مفضول کی امامت کے عقیدہ سے منحرف ہو گئے اور ان روافض میں شمار ہونے لگے اس سے ان کی عظیم خصوصیت جاتی رہی۔انتشار کا شکار ہونے سے یہ دو فرقوں میں بٹ گئے۔

۱۔متقدمین جو روافض میں شمار نہیں ہوتے اور شیخین کی امامت کے قائل ہیں۔

۲۔متا خرین جورافضی ہیں اور شیخین کی امامت کو تسلیم نہیں کرتے۔

۱۴- حسینییت کی عالمی تحریکیں

امام حسین کی شہادت کے بعد ہمارے دیگر ائمہ نے بھی اپنے زمانے کی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ،مقتضائے وقت کے مطابق اپنی جد وجہد جاری رکھی ۔البتہ ائمہ کے فرزندوں اور ان کے شیعوں نے مسلح جد و جہد سے بھی دریغ نہیں کیا ، چنانچہ جن لوگوں نے حکام جور اور ظالم حکومتوں کے خلاف مسلح انقلاب بپا کئے ہیں ان کے اسماء اور سَنِ انقلاب کو اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں :

۱۵- یمن کے زیدیہ اور تحریک یمن

یمن کے زیدیہ متقدمین زیدیہ سے بہت قریب ہیں اور وہی عقائد رکھتے ہیں۔ ۲۰۰۴ میں یمنیوں پر کئی بڑے حملے ہوئے اور شیعیان یمن وسائل نہ ہونے کے باوجود دارالحکومت صنعا تک پیش قدمی کرکے جنرل علی عبداللہ صالح کے لئے خطرہ بن گئے تو وہ قطر کی ثالثی سے اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوا ۔ یمن جزیرہ نمائے عرب کے انتہائی جنوب میں واقع ہے؛ یہ ملک شمال کی جانب سعودی عرب اور عمان کا ہمسایہ ہے اور مغرب کی جانب سے بحر احمر کے ساحل پر واقع ہے اور اس کے سمندر پار پڑوسی سومالیہ اور ایتھوپیا ہیں جب کہ جنوب اور مغرب کی جانب سے بحر ہند کے کنارے واقع ہے۔ اس ملک کے باشندے حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ہیں اور یہ ملک صدر اول سے ہی تشیع کی ترقی و ترویج کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور یہاں کے عوام اہل بیت علیہم السلام ولایت اور امامت کی پیروی کے حوالے سے مشہور ہیں۔

صوبہ صعدہ یمن کے شمال میں واقع ہے اور سعودی سرحد پر واقع ہے؛ یہ ایک کوہستانی علاقہ ہے جو دارالحکومت صنعا سے ۲۴۳ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس صوبے کی آبادی کی اکثریت زیدی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔یمن ۱۹۹۰ تک شمالی اور جنوبی یمن کی صورت میں دو حصوں میں بٹا رہا اور ۱۹۹۰ میں شمالی اور جنوبی یمن متحد ہوئے اور ۱۲ سال تک شمالی یمن کی صدارت کے عہدے پر براجماں رہنے والے جنرل علی عبداللہ صالح یمن کی تعمیر و ترقی کا نعرہ لگا کر متحدہ یمن کا تا حیات صدر بن بیٹھا۔ اس زمانے سے یمن میں ترقی کا عمل تو درکنار، یہ ملک متعدد بحرانوں سے دوچار رہا اور بڑی طاقتوں نے جنرل صالح کو بارہا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا مگر کبھی یمن کی دستگیری کے لئے کسی نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا اور جنرل صالح عرب ممالک ممالک کے مالدار حکام کے ساتھ بیٹھ کرکے عیاشی کے مزے لوٹ کر اپنی مملکت ویراں میں بھی بادشاہوں کی سی زندگی گذارتا رہا مگر اس کی خوشیاں عرب کانفرنس ہالوں اور صنعا کے صدارتی محل کی چار دیواری تک محدود رہیں۔ یمن میں کوئی بھی سنجیدہ ترقیاتی منصوبہ نافذ نہیں ہوا اور ملک روز بروز غریب سے غریب تر ہوتا گیا اور یمنی آمر نے شمالی اور جنوبی یمن کے شافعی اور شیعہ باشندوں کو حقوق سے محروم کرکے صنعا اور اس کے نواح کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی مگر صنعا بھی یمن ہی کا شہر تھا اور غربت ملک پر غالب تھی چنانچہ صنعا کا چہرہ بھی تبدیل ہونے سے قاصر رہا۔

یمن کی ۴۲ فیصد آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے اور اہل تشیع زیدی، اسماعیلی اور اثناعشری مکاتب میں بٹے ہوئے ہیں۔ اہل تشیع کی اکثریت زیدیوں پر مشتمل ہے۔اہل تشیع کو خاص طور پر بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور متحدہ یمن کی تشکیل کے بعد ان کے مسائل و مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً:

شیعیان یمن اپنے دینی مدارس کی تعمیر اور اپنے مذہب کے مطابق تعلیم و تربیت کا حق نہیں رکھتے۔

شیعیان یمن کو ہر بہانے سے گرفتار کرکے اذیت خانوں میں منتقل کیا جاتا ہے اور ان کے علماء کو قسم قسم کے آزار و اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اہل تشیع، خاص طور پر علمائے شیعہ کو عید غدیر اور دیگر دینی مراسمات منانے سے زبردستی روکا جاتا ہے

اہل تشیع کے مقدسات کی سرکاری طور پر توہین کی جاتی ہے اور نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ اور دینی و فقہی احکام کے رسالے علی الاعلان نذر آتش کئے جاتے ہیں۔

اہل تشیع کو اذیت و آزار پہنچانے، ان کے مقدسات کی توہین کرنے اور انہیں دینی اعمال و عبادات سے روکنے کے عمل میں یمنی آمریت ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔

شیعیان یمن کی اکثریت زیدیوں پر مشتمل ہے اور زیدی مذہب شیعہ، حنفی، اور معتزلی افکار کا آمیزہ ہے لیکن زیدیوں کی فقہ کے ۹۰ فیصد تک مسائل اثنی عشری ـ جعفری فقہ کے ساتھ مشترک ہیں۔زیدی‌ پنجتن آل عبا علیہم السلام کی عصمت، امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت بلافصل، امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کی امامت اور آخر الزمان کے نجات دہندہ حضرت امام زمانہ (عج) پر راسخ ایمان و عقیدہ رکھتے ہیں۔ یمن کی کل آبادی تقریبا دو کروڑ کے لگ بھگ ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی سنی مسلمانوں کے شافعی مذہب کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور دوسرے درجے پر زیدی شیعہ ہیں جن کی آبادی ۲۵ فیصد ہے جبکہ اثنی عشری شیعیان اہل بیت (ع) مذہبی اقلیت ہیں جو محرومیت کے لحاظ سے پہلے رتبے پر ہیں۔ شیعیان اثنی عشری صوبہ صعدہ اور دارالحکومت صنعا میں سکونت پذیر ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اثنی عشری معاشرتی محرومیوں کے باوجود علمی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں اور یمن کے اکثر علماء، دانشوروں، اساتذہ، اور اطباء و مہندسین (انجنئیرز) کا تعلق اثناعشری مکتب سے ہے اور سرکاری یونیورسٹیوں کے اکثر اساتذہ بھی اثنا عشری ہیں۔

یمن کے اہل تشیع میں سے پچاس لاکھ سادات ہیں جو مجموعی طور پر ۲۰۰ خاندانوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے ۹۰ فیصد حسنی سادات اور ۱۰ فیصد حسینی سادات ہیں۔الحوثی گروہ زیدیوں پر مشتمل ہے جو شمالی یمن کے صوبہ صعدہ میں سکونت پذیر ہیں؛ یہ لوگ بدرالدین حوثی سے منسوب ہیں اور حوثی کے نام سے مشہور۔ حوثی گروہ ۱۹۸۰ کی دہائی میں تشکیل پایا ہے اور اب تک اپنے حقوق کے حصول کی خاطر چھ مرتبہ تباہ کن حملوں کا نشانہ بنا ہیں۔حوثی گروہ دینی و سیاسی سرگرمیوں سے محرومی، زیدیوں کے عقائد اور ان کی تہذیب کے خاتمے کی سرکاری کوششوں سمیت یمنی آمر کی جانب سے صوبہ صعدہ میں تعمیر و ترقی کے عمل کی مخالفت پر معترض ہے۔

جنرل علی عبداللہ صالح ۱۲ سال تک شمالی یمن کا صدر تھا اور ۱۹۹۰ میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد سے اب تک (۱۹ سال کے عرصے سے) متحدہ یمن کا صدر ہے۔ صدر کو ملک کی تعمیر و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس نے چند سال قبل امریکہ اور سعودی بادشاہت کے ساتھ بعض قراردادیں منعقد کی ہیں جس کے بعد اس نے اعلان کیا کہ حوثی گروہ کی سرکوبی کے لئے فوجی کاروائی کے لئے بھی تیار ہیں اور وہ صعدہ میں حوثیوں کو کچل دیں گے۔ویسے تو جنرل علی عبداللہ صالح کا دعوی ہے کہ وہ خود زیدی شیعہ ہے مگر اس کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بعثی ہے شیعہ ور سنی سب کو یکساں طور پر کچل ڈالنے پر مصر نظر آتا ہے اور اس کا بھی کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ جنرل صالح کی پوری کوشش رہی ہے کہ شمالی یمن میں سماجی ڈھانچہ تبدیل کرکے شیعہ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردے۔انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی اثناعشری مکتب کے پیروکاروں کی آبادی میں بہت اضافہ ہوا اور اس زمانے کے بعد زیدی اور اثنی عشری اہل تشیع کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم و دائم ہے اور "وحدت شیعیان جزیرہ" نامی تنظیم زیدی اور اثنی عشری اہل تشیع کی سرگرمیوں کو ہماہنگ کرتی ہے اور اتحاد کی حفاظت کرتی ہے۔ زیدیوں کا عقیدہ ہے کہ ہر زمانے میں حکومت کا حق صرف حسنی اور حسینی سادات کا ہے اور ان کے سوا کوئی بھی حاکم غاصب تصور کیا جاتا ہے۔ یمن کے اہل تشیع کے پاس ذرائع ابلاغ تک رسائی کے وسائل بھی نہیں ہیں اور ریڈیو ایران کی عربی سروس ان کو بیرونی دنیا سے باخبر رکھتی ہے اور وہ اتنی بڑی آبادی کے باوجود عید غدیر اور محرم الحرام کے

حضرت زید بن علی کی اولاد

* ۱- حسین بن زید (ذوالدمعہ یا ذی العبرہ)

* ۲- محمد بن زید

* ۳ - عیسی بن زید (موتم الاشبال)

* ۴- یحیی بن زید (سیف ُ الاسلام)

۱۴

۱۶- عیسی (موتم الاشبال) بن زید

عیسی بن زید جو کہ موتم الاشبال کے لقب سے مشہور تھے۔ ان کی کنیت یحیی اور ابوالحسن تھی۔ وہ ۱۰۹ ق کو شام میں پیدا ہوۓ۔ان کی ولادت کے بارے میں لکھا گیا کہ جب حضرت زید خلیفہ ہشام کے دور میں اپنی ذوجہ محترمہ جن کا نام سکن تھا اور ان کا تعلق نوبہ سے تھا ان کے ہمراہ مدینہ سے شام کے سفر پر جا رہے تھے راستے میں ایک عیسائی راہب کی عبادت گاہ کے نزدیک قیام کیا۔ اسی رات عیسی بن زید کی ولادت ہوئی۔ اتفاق سے ویہی دن حضرت عیسی عیلہ السلام کے ولادت کا تھا۔ اسی مناسبت سے آپ کا نام عیسی رکھا گیا۔ اسدور علماء کے مطابق آپ اپنے دور کے بڑے دانشمند،عظیم عالم، متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کے چند اشہار کا تذکرہ کتاب "معجم شعراء الطالبیین" میں ملتا ہے۔ان کا شمار روایان حدیث و فرامین معصومین میں ہوتا ہے جن کو انہوں نے حضرت امام جعفر صادق عیلہ السلام کی تربیت سے حاصل کیا۔ والد کی شہادت کے وقت وہ صرف بارہ سال کے تھے۔خلیفہ منصور عباسی کے شر سے محفوظ رہنے کے لۓ کو فہ میں گمنامی اور گوشہ نشینی کی زند گی بسسر کی یہاں تک کہ منصور کی موت کے بعد اور اس کے بیٹے مہدی اورپوتے ہادی عباسی کے دور میں گوشہ نشینی میں مختلف مشاغل میں گزر بسر کی۔تاکہ سقائ کا کام انجام دیا۔ آپ کی ذوجہ کا نام خدیجہ تھا جو علی بن عمر بن علی بن الحسین علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔

ابن علاّق صیرفی و دیگر ( حاضر ) ، و سوم صباح زعفرانی ، و چہارم حسن بن صالح آپ کے خاص اصحاب میں سے تھے ۔ آپ کی وفات کے بعد جبکہ حسن بن صالح بھی فوت ہو چکے تھے - صباح زعفرانی آپ کے بچوں احمد اور زید کو بغداد لے گئے ۔ صباح زعفرانی نے خلیفہ مہندی سے ان بچوں کے حق میں امان طلب کی۔ اس طرح ان بچوں دربار میں پیش کیا اور خلیفہ مہندی نے ان کی کفالت کی۔

خدمات ؛

شیخ طوسی نے بہت سی روایات اپنے رسالہ "تہذیب" میں عیسی بن زید سے نقل کیں ہیں بہت سی احادیث اور روایات ایسی ہیں جن کو حضرت امام جعفر صادق عیلہ السلام نے ان کو تعلیم فرمائی۔جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اولاد حضرت زید اپنے والد ماجد کی طرح امامت کے منسب اور عترت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ ان کا پورا احترام کرتے تھے اور احکامات کے سلسلے میں معصومین عیلہ السلام سے رجوع کرتے رہے۔

کنیت : (ابو یحیى)

لقب؛ (موتم الاشبال)

نازم به این شرف که ز آل پیغمبرم

آنم که نی به ناخن شیر فلک کنم

دانند صاحبان بسیرت بهای من

تب از هراس حربة من شیر شرزه ر

ثبت است مُهر خاص نبوّت

فرزند ارشد اسدالله صفدرم

لعل ثمین زید شهید است گوهرم

یاد از سلاح موتم الاشبال خنجرم

(کلیات فارسی آزاد، ص ۱۸۵ )

اس دور کے لوگوں نے آپ کو موتم الاشبال یعنی خونخوار شیر کے بچوں کو یتیم کرنے والا کا لقب دیا اس لقب کی وجہ یہ تھی کہ جب آپ جنگ بصرہ سے فارغ ہو کر کوفہ کی جانب روانہ ہوۓ تو راستے میں ایک خونخوار شیر نے آپ پر حملہ کر دیا۔ عیسی نے شجاعت علوی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ شیر کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور ہمیشہ کے لیے اس کا خاتمہ کر کے لوگوں کو اس کے خوف اور ظلم سے نجات دلائی۔ علاقے کے لوگوں نے اس خطرناک شیر کی ہلاکت کی خبر سن کر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا ہمارے آقا نے جرات سے خونخوار شیر کے بچوں کو یتیم کر دیا۔ آزاد ایک قصیده‌ میں بیان کرتا ہے :

گرچه باشد موتم الاشبال عیسی جدّ من

عیسی جان بخش شیرانم بامداد نفس

آپ نے فرمایا انا موتم الاشبال اس طرح اس دن کے بعد آپ کو اسی نام اور لقب سے یاد کیا جاتا رھا۔ یموت بن مزرع شاعر اہل بیت علیہ السلام اور اس طرح شمیطی جو ایک معروف شاعر امامیہ تھے اور جنہوں نے حضرت زید کے ساتھ قیام کیا تھا نے اپنے اشعار میں آپ کو اسی لقب سے یاد کیا۔

سن ظلم الامام للناس زید

ان ظلم الامام ذوعقال

و بنو الشیخ و القتیل بفخ

بعد یحیى و موتم الاشبال

اولاد:

روایت میں ہے کہ آپ کے چار بیٹے تھے۔

حسن بن عیسی جو اپنے والد کی زندگی میں وفات پا گئے

حسین بن عیسی جنہوں نے حسن بن صالح کی بیٹی سے شادی کی اور کوفہ میں زندگی گزاری۔ جن کے بیٹے زید ان کے بیٹے عیسی – ان کے بیٹے حسن تھے۔

احمد (محمد ) بن عیسی چون (وفات ۲۴۷ق) جو خلیفہ مہدی عباسی کے دور میں آخری وقت تک مدینے میں گوشہ نشین ر ہے ۔ ان کی والدہ کا نام خدیجہ تھا جو علی بن عمر بن علی بن الحسین علیہ السلام کی بیٹی تھیں. جن کے بیٹے علی کا مزار شہر ری تہران میں ہے -

زید بن عیسی جو مدینے میں گوشہ نشین تھے انہیں ہارون رشید کے جاسوسوں نے گرفتار کر کے زندان ہارون میں ڈال دیا گیا ۔ انہوں نے تیس مرتبہ پیدل خانہ خدا کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ محمد اور علی ان کے بیٹوں میں شامل تھے۔ جب کہ علی کے بیٹے یحیی کا مزار شیراز کے نواع میں واقع ہے۔آپ کے بیٹے کےعلی بن احمد کے مطابق وہ کے خلیفہ متوکل کے دور میں ۲۳ رمضان ۲۴۷ھ کو بصرہ میں وفات پا گئے۔

آپ نے دشمنوں سے اپنی سیادت کو چھپایا ھوا تھا آپ سے ایک غیر سید نے دختر کا رشتہ طلب کیا تو آپ نے

جواب میں جو دعا فرمائی ۔۔۔۔۔ اس کا منظوم ترجمہ یہ ھے

اے خدا اے حافظِ آلِ محمدّ ربِ کل

طخل ایمن سے مرا نخل سیادت کم نہیں

ہم مظاہر ہیں تری تقدیس اور تحریر

تیری عظمت کی نمائندہ سیادت کی جبیں

وقف تسلیم و رضا رہنا ہماری فصل گل

لذتِ آلام ، خاطر میں ہماری آنگبیں

آج ٹوٹا ہےمرے سر پر نیا کوہِ الم

جس کو یہ میری سیادت اب اٹھا سکتی نہیں

ایک سید کی طرح رہنا مجھے دشوارہے

تنگ ہے اب تو سیادت کیلئے تیری زمیں

مصلحت تھی وقت کی میرا یہ اخفائے نسب

ہاتھ سے جاتا ہے ورنہ دامنِ دنیا و دیں

ہر ستم سہہ کر رہا میں حاملِ حمد و ثنا

قتل ھونا سہہ چکا ہوں اپنے ہی اجداد کا

آج کی تازہ قیامت میں اٹھا سکتا نہیں

اس سیادت کو چھپانے کی قیامت الاماں

میری غیرت اور حمیت کی بھی کچھ تدبیر کر

تیری رحمت ہیں اگرچہ اس جہاں میں بیٹیاں

غیرت کس طرح کر لے گوارا اے خدا

غیر کی نظروں میں آئیں ، آہ سید زادیاں

خواستگاری مجھ سے بیٹی کیلئے کرتے ہیں غیر

اک قیامت ہیں یہ خالق بے خبر گستاخیاں

تجھ کو اس بنت محمدّ کے تقدس کی قسم

توڑ دے بنت نبیّ کی زندگی کی چوڑیاں

ختم کر دے میری بیٹی کی حیاتِ پر الم

توڑ دے سانسوں کے رشتے کی الجھتی رسیاں

تو بلا لے میری لخت دل کو جنت کی طرف

اک نبیّ زادے کی غیرت کا نہ لے تو امتحاں

تھی ابھی لب پر دعا عرشِ خدا تھرا گیا

اس نبیّ زادی کے رخ پر موت کا رنگ آ گی

وفات ؛

عیسی وراق نے محمّد بن محمّد نوفلی اور انہوں نے اپنے والد اور چچا سے روایت کی ہے کہ عیسی جنگ باخمری کے بعد آپ نے ایک مدت گمنامی کی زندگی گزار نے کے بعد خلیفہ مہدی عباسی کے دور میں ۱۶۹ ھ ق کو ساٹھ سال کی عمر میں فوت ہوۓ۔

شجره مبارکه خاندان نوربخش

سید حَبیب و الشَریف النَسب حضرت السَید میران بیگ بن حَضرت سَید سَرخوش بیگ بن حضرت شاه امام قلی خان بن حضرت سید (آتش بخش) معروف به آتش بیگ بن سید جلیل و الطاهر عارف بالله حضرت سید مُحمد بیگ مشهور به نوربخش بن حضرت سید شاه ابراهیم معروف به شاه ویسقلی بن سید سلطان بن سید عیسی بن سید قنبر شاهو بن سید خضر بن سید نورالدین بن سید صدرالدین بن سید عمرویه بن سید ابی العباس احمد بن سید عیسی مُوتم الاشبال بن سید یحیی بن سید الحُسین ذی الدمعه بن حضرت سید زید الشهید بالکوفه بن حضرت الامام زین العابدین (ع) علی بن الحُسین (ع) بن علی بن ابی الطالب عَلیهم السلام

۱۷- یحییٰ بن زید شہید

زید شہید ابن علی نے مولا علی مشکل کشا ، شیر خدا کی پڑپوتی سیدہ ریطہ دختر سیدنا ابو ہاشم عبداللہ فرزند حضرت محمد حنیفہ بن امام علی سے عقد فرمایا اور "صاحبِ سیف و قلم"سیدنا یحییٰ بن زید ، ۱۰۷ہجری میں پیدا ہوئے ۔ آپ روحانی کمالات و معنوی جمالات کے ساتھ ساتھ شجاعت حیدر کرّار کے بھی وارث تھے۔ایران کا شہر تنکا بن جو کہ بعدمیں صوبہ گیلان کا حصہ بن گیا اور جس کی حدود چالوس تک جا ملتی ہیں وہاں دوسری صدی ہجری کے آغاز تک یہاں کے لوگوں کا مذہب زرتشتی تھا۔ عرب خلفاء عمر بن العلاء (۱۴۵-۱۵۷ ھ) کے دور میں لوگ اسلام کی طرف مائل ہوۓ اورسیدنا یحییٰ بن زید نے مذہب حقہ کی ترویج کی ۔صفوی (شاه عباس اول) حکومت کے دور میں جو زید یہ فرقہ کی طرف مائل تھے امامیہ کی طرف راغب ہوۓ۔

اولاد :

ان کے بیٹوں میں علی اور عمر تھے – علی کے بیٹے اسمعیل جب کہ عمر کے بیٹے محمد اور ان کے بیٹے حسین اور قاسم تھے۔ مشہور صوفی گیسو دراز یا دراز گیسو جن کی اولاد سے تھے۔

سیّد محمّد ابن سیّد علی ابن سید مصطفی (جد رئیسی) ابن سید احمد ابن میر حیدر(جد رئیسی و میرحیدری و بنی کریمی و میرکریمی ) ابن نصراللہ ( جد قسمت اعظم طائفہ) ابن میرکریم (جد ل طائفہ موجود )ابن سّید علی ابن میرکریم ابن سیّد علی ابن سیّد عظیم ابن سّید میرکریم (مدفون در کُرم حیدرآباد) ابن سیّد علی (وی نقطہ اتصّال سادات میرکریم و گیسودراز یا درازگیسو و فرزند یوسف و یوسف نیز فرزند سّید علی) ابن محّمد ابن یوسف ابن حسین ابن محّمد ابن علی ابن حمزہ ابن داوود ابن زید ابن جندی ابن حسین ابن فدان ابن محّمد الاکبر ابن عمرو ابن یحیی ابن ذی الدمعہ (یحیی ابن زید مدفون در گنبد کاووس) ابن زید ابن زین العابدین(ع) ابن الحسین (ع) ابن علی(ع) و فاطمہ بنت رسول اللہ (ص)

لقب

علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاںپیدا ہوا ، شیرِ خدا معلوم ہوتا ہے.سیدنا یحییٰ بن زید نے اپنی انتہائی مختصر زندگی اہداف اسلامی کے دفاع اور دشمنان دین خدا کے ظلم و ستم گری کے خلاف نبردآزما رہتے گزار دی اور اپنے عظیم الشان والد کے نقش قدم اپناتے ہوئے شہادت پائی۔ آپ اہل علم میں’’ سیف ُ الاسلام‘‘ کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ حضرت یحییٰ بن زید کی دلیری اور بہادری کے باعث اموی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئیں اورعمالِ حکومت جو تمام سلطنت میں خیانت ،خونریزی اور اموالِ مسلمین ہتھیانے کے ماہر تھے آپ کے وجود سے خوف کھانے لگے۔

شہادت

آپ نے دشمنانِ اسلام ، بنی امیہ کی حکومت کی بنیادیں متزلزل کر دیں۔ حیدری خون، قصرِ سفیانیت فتح کرنے لگا۔ آپ نینوا سے مدائن اور مدائن سے خراسان تشریف لے گئے۔ قیام ِخراسان کے دوران آپ نے کچھ دلیرانہ معرکوں کے بعد اپنے اثر ورسوخ قائم کر لیا اور حضور نبی کریم کے افکار و سیرتِ عالیہ کو اہل خراسان میں پھیلانا شروع کیا۔

اہل خراسان مین آپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر دشمنان اسلام اور منافقین کو آپ کا وجود مسعود سنگین ترین خطرہ محسوس ہوا اور اس خطرے کے پیش نظر والیء ہرات، نصر بن سیاراور والیء خراسان سلم بن احو ذمازنی نے آپ پر حملہ کر دیا۔ آپ کے جانثار ساتھی داد شجاعت دیتے شہید ہوتے گئے اور بالاآخر بروز جمعہ، ۱۲۵ہجری اپنے دادا سیدنا امام عالیمقام، امام حسین کے وقتِ شہادت، بوقت عصر خراسان اور ہرات کے درمیان واقع جو ز جان میں، کنپٹی پر تیر لگنے کے باعث آپ کی شہادت ہو گئی۔ حضرت زید شہادت سے قبل بار بار یہ شعر پڑھتے تھے،

" ہم اپنی جانوں کو ہیچ سمجھتے ہیں اور جنگ کے روز جانوں کو ہیچ سمجھنا ہی ان کے حق کا پورا کرنا ہے"

دشمن کا جذبہِ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہونے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالاگیا اور سر کو جدا کرکے ہشام کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا اور لاش کو دروازہ کوفہ پر سولی دے دی گئی اور کئی برس تک اسی طرح آویزاں رکھا گیا اہل خراسان کے ہاں ایک سال تک جو بچہ پیدا ہوتا اس کا نام یحیٰی یا زید رکھا جاتا۔ بلا شبہ یہ سیف الاسلام، سیدنا یحےیٰ بن زید شہید کا امت مسلمہ پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے ا پنے باپ دادا کے نورانی تبرکات و ملفوظات کو عام فرمایا اور ان کی خاطر صرف اٹھارہ برس کی عمر میں شہید ہو کر سولی چڑھا دئیے گئے۔

آپ نے صرف اٹھارہ برس حیات دنیا پائی اور ان اٹھارہ برسوں میں کمالاتِ سیادت کے وہ جواہر صفحات تاریخ کی نظر کئے کہ مؤرخ ان کے بدل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بعد شہادت آپ کے جسد اطہر کو سولی پہ چڑھا دیا گیا اور سر اقدس کاٹ کر ولید بن یزید بن عبدالملک بن مروان کے پاس دمشق بھیج دیا گیا۔ آپ کا سر اقدس، سر حسین کی مانند دمشق کے بازاروں سے ہوتا مدینہ پہنچا جہاں آپ کی مقدس والدہ معظمہ کی گود اطہر میں پھینک دیا گیا۔ ام المصائب کی وارث نے آپ کے سر اقدس کو جنت البقیع میں دفن کیا۔

آپ کا تن اقدس کئی سال سولی پہ رہا اور اس میں ذرہ بھر بھی تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ ابو مسلم خراسانی نے آپ کو سولی سے اتار کر غسل و کفن دیا اور آپکے بے سر بدن کو نہایت احترام سے سپرد لحد کر دیا۔ آپ کے بدن اطہر سے کئی سال گزرنے کے بعد بھی خوشبوئے مصطفی آتی تھی جو آج بھی آپ کے روضئہ اطہر کی زیارت کرنے والے عارفین محسوس کرتے ہیں ۔ آپ کی نورانی بارگاہ مستجاب الد عوات ہے اور ایران کے شہر، مشہد مقدس سے نصف گھنٹے کی مسافت پر گاؤں ’’مےٰامی شریف ‘‘ میں جلوہ نما ہے۔ انوارِ سجّادیہ و زیدیہ کی یہ درگاہ ہزاروں زائرین کا مرکز ہے اور جگرگوشہ زین العابدین کا بے سر بدن انوارِ الٰہیہ کے نزول کا منبع ہے۔

خدمات

آپ اہل علم میں’’ سیف ُ الاسلام‘‘ کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔سیف ُالاسلام ،حضرت یحییٰ بن زید کی دلیری اور بہادری کے باعث اموی حکمرانوںکی نیندیں حرام ہو گئیں اورعمالِ حکومت جو تمام سلطنت میں خیانت ،خونریزی اور اموالِ مسلمین ہتھیانے کے ماہر تھے آپ کے وجود سے خوف کھانے لگے۔ آپ نے دشمنانِ اسلام ، بنی امیہ کی حکومت کی بنیادیں متزلزل کر دیں۔ حیدری خون، قصرِ سفیانیت فتح کرنے لگا۔ آپ نینوا سے مدائن اور مدائن سے خراسان تشریف لے گئے۔ قیامِخراسان کے دوران آپ نے کچھ دلیرانہ معرکوں کے بعد اپنے اثر ورسوخ قائم کر لیا اور حضور نبی کریم کے افکار و سیرتِ عالیہ کو اہل خراسان میں پھیلانا شروع کیا۔شریعت محمدی کی روح اور حقیقی اسلام کی ترویج واشاعت کی وجہ سے اس دور کے ظالم و جابر حکمرانوں نے خاندان اہلیبت پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ر کھا ۔ سانحہ کربلا کے بعد بنو ہاشم ایک عرصہ تک اس کش مکش سے الگ رہے۔ امام سجاد علیہ السلام جنہوں نے کربلا کے لرزہ خیز واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ اس آرزو سے قطعاً لا تعلق رہے ۔

امت پر احسانِ عظیم:

متوکل ابن ہارون کا کہنا ہے کہ میں نے امامزادہ یحییٰ بن زید سے خراسان میں ملاقات کی اور سلام عرض کیا۔ آپ نے پوچھا۔ "تم کہاں سے آرہے ہو؟"میں نے کہا حج سے واپس آرہا ہوں۔ آپ نے اپنے اعزا، چچا زاد بھائیوں کے حالات دریافت کئے جو مدینہ منورہ میں تھے اور بہت دیر تک چھٹے تاجدار امامت سیدنا امام جعفر صادق کے حالات دریافت فرماتے رہے۔آپ نے عنقریب اپنے شہید ہو جانے کے متعلق بیان فرمایا:

اللہ جس بات کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس بات کو چاہتا ہے نقش کر دیتا ہے اور اس کے پاس لوح محفوظ ہے۔

پھر فرمایا،

’’ اے متوکل ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے ذریعے اس دین کو تقویت پہنچائی اور ہمارے حصے میں علم اور تلوار آئی ہے‘‘۔

آپ نے زمین میں آنکھیں گاڑ دیں اور پھر سر اٹھایا اور فرمایا،

’’علم سے تو ہم سب ہی بہرہ مند ہیں۔ کیا تم نے میرے ابن عم حضرت امام جعفر صادق کے افادات لکھے ہیں؟‘‘۔

میں نے عرض کیا،جی ہاں۔ فرمایا،’’۔ جو کچھ لکھا ہے مجھے دکھاؤ ‘‘۔میں نے مختلف علوم کے سلسلے میں حضرت کے ارشادات دکھائے اور ایک دعا بھی دکھائی جو حضرت نے مجھے لکھوائی تھی اور فرمایا تھا کہ میرے والد بزر گوار محمد ابن علی الباقرنے مجھے لکھوائی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ دعا میرے والد علی بن الحسین کی ادعیہ ’’ صحیفہ کاملہ‘‘ میں سے ہے۔

یحییٰ نے اسے آخر تک دیکھا اور فرمایا،

" میں تمہیں دعاؤں کا ایک صحیفہ دکھاؤں گا جو میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد بزرگوار سے یاد کی تھیں اور مجھے میرے والد نے ان کے محفوظ رکھنے کی ہدایت کی تھی کہ نا اہل لوگوں سے انہیں پوشیدہ رکھوں‘‘۔

متوکل نے اُٹھ کر آپ کے سرِ اقدس کو بوسہ دیا اور عرض کیا۔ "خدا کی قسم!اے فرزندِرسول ،میں آپ کی دوستی و اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ وہ میری زندگی اور میرے مرنے کے بعد آپ کی محبت و دوستی کی وجہ سے سعادت و نیک بختی بخشے‘‘۔

اس کے بعد سے ایک صندوقچہ طلب کیا اور اس میں سے ایک مقفّل و سربمہر صحیفہ نکالا۔ اس مہر کو دیکھا تو اسے بوسہ دیا اور گر یہ فرمایا۔ پھر اس کی مہر توڑی ، قفل کھولا اور صحیفہ کو پھیلا کر اپنی آنکھوں سے لگایا اور چہرے پر ملا اور فرمایا:

’’اے متوکل! خدا کی قسم! اگر میں شہید نہ کیا جاتا اور سولی پہ نہ لٹکایا جاتا تو میں ہرگز یہ صحیفہ تمہارے حوالے نہ کرتا ۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ علمی ذخیرہ بنی امیہ کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے چھپا ڈالیں اور اپنے خزانوں میں صرف اپنے لئے ذخیرہ کر لیں۔ لہذا تم اسے اپنے پاس رکھو اور میری جگہ اس کی حفاظت کر واور منتظر رہنا اور اس صحیفہ کو اپنے پاس امانت رکھنا اور جب اللہ میرا اور اس قوم کا جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے، کر دے تو اسے میرے چچا زاد بھائیوں محمد و ابراہیم کے پاس پہنچا دینا کیونکہ وہی میرے بعد اس سلسلے میں میرے قائمقام ہیں۔

متوکل نے وہ صحیفہ لے لیا اور جب سیف الاسلام ،سےّدنا یحییٰ بن زید شہید کر دئیے گئے تو مدینہ پہنچ کر عالم اسلام کی پہلی یونیورسٹی کے چانسلر سےّدنا امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یحےیٰ کا تمام واقعہ بیان کیا۔ حضرت امام جعفر صادق بہت دیر تک روتے رہے اور یحییٰ کے واقعات سن کر انتہائی غمگین ہوئے اور فرمایا،

’’خدا رحمت نازل کر ے میرے ابن عم پر اور انہیں ،ان کے آباء واجداد کے ساتھ رکھے، وہ صحیفہ کہاں ہے ؟‘‘۔

متوکل نے پیش کیا۔ آپ نے اسے کھولا اور فرمایا،

’’ خدا کی قسم ! یہ میرے چچا زید کی تحریر ہے اور میرے دادا علی ابن الحسین کی دعائیں ہیں‘‘۔ پھر آپ نے اپنے فرزند اسمٰعیل سے فرمایا کہ جا کر وہ دعائیں لے کر آئیں جن کی حفاظت و نگہداشت کی میں نے ہدایت کی تھی۔ امامزادہ اسمٰعیل گئے اور ایک صحیفہ لائے جو بالکل ویسا ہی تھا جیسا سےّدنا یحےیٰ بن زیدنے دیا تھا۔

حضرت امام جعفر صادق نے اس صحیفہ کو بوسہ دیا، اپنی آنکھوں سے لگایا اور فرمایا:۔

"یہ میرے والد بزرگوار کا خط ہے جسے میرے سامنے میرے دادا علی ابن الحسین زین العابدین نے لکھوایا تھا‘‘۔

متوکل نے عرض کی، "اے فرزند رسول! اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس صحیفہ کا زید و یحےیٰ کے صحیفے سے موازنہ کر لوں‘‘۔

حضرت نے اجازت دی اور فرمایا کہ میں تمہیں اس کا اہل پاتا ہوں۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ دونوں صحیفے ایک ہی ہیں اور ایک حرف بھی دونوں کا ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔حضرت امام جعفر صادق نے وہ دعائیں متوکل ابن ہارون کو لکھوا دیں اور انہیں نشر کرنے اور پھیلانے کا حکم دیا۔ ان دعاؤں کی تعداد پچھتر (۷۵) تھی۔

السلام اے یحییٰ ابنِ زید، دیں کے پاسباں

السلام اے مصطفی و مرتضٰی کی کہکشاں

السلام اے فاطمہ زھرا کے دل کے ترجماں

السلام اے زین العابدین کے جری جواں

السلام اے زید کے لختِ جگر، ریطہ کی جاں

السلام اے آلِ پیغمبر کے میر کارواں

السلام اے دین کی تلوار ، نگہبانِ قرآں

السلام اے حق کے نگہدار ، اے صاحبقراں

السلام اے کشتہء راہِ صداقت السلام

السلام عبّاس کے پیرِ طریقت السلام

بلا شبہ یہ سیف الاسلام، سیدنا یحییٰ بن زید شہید کا امت مسلمہ پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے ا پنے باپ دادا کے نورانی تبرکات و ملفوظات کو عام فرمایا اور ان کی خاطر صرف اٹھارہ برس کی عمر میں شہید ہو کر سولی چڑھا دئیے گئے۔

مزار :

یحیی ابن زید گنبد کاووس میں مدفون ہیں۔

۱۵

۱۸- حسین بن زید ذوالدّمعہ یا ذی العبرہ

آپ حضرت زید کے دوسرے بڑے فرزند تھے آپ کی کنیت ابو عبداللہ جب کہ ذوالدمعہ یا ذی العبرہ یعنی (صاحب اشک ) آنسؤں والا اور ربیب امام صادق علیہ السلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔کیونکہ وہ اپنے والدکی دردناک شہادت پر اکثر گریہ زاری کرتے تھے اس لۓ ان کو (صاحب اشک ) یا آنسوؤں والا کہا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ آخری عمر میں ان کی بینائی ختم ہو گئ۔ ان کی عمر ۷۶ سال تھی۔ جو ۱۱۴ یا ۱۱۵ ہجری قمری میں ملک شام میں پیدا ہوۓ ان کی والدہ کا نام ا م ولد تھا۔ صاحب علم شخصیت رکھتے تھے۔

وہ سات سال کے تھے کہ والد شہید ہو گۓ۔ والد کی وفات کے بعد امام جعفرصادق علیہ السلام آپ کی پروش اور تربیت فرمائی۔ علم و حکمت کا درس دیا اس طرح انہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام کی شخصیت سے بہت زیادہ کسب و فیض حاصل کیا۔ حسین بن زید نے حضرت عبداللہ بن حسین کے بیٹوں محمد اور ابراہیم کے ہمراہ قیام کیا ایک مدت تک گوشہ نشین رہے اور ۷۶سال کی عمر میں فوت ہوۓ۔آپ کے بیٹوں میں یحیی مشہور ہوۓ ۔ جو کہ دلیر اور شجاع انسان تھے۔تہران میں شاہ عبدالعظیم کے پہلو میں د فن امام زادہ طاہر بھی آپ کی اولاد میں سے تھے جو اس طرح ہیں۔

ابن یحیی النّسابہ نقب النّقباء القائم بہ کوفہ ابن الحسین النّسابہ النّقیب الطّاہر ابن ابی عاتقہ احمد محدّث ابن ابی علی عمر بن یحیی بن الحسین ذوالدّمعہ ابن زید الشّہید ابن امام زین العابدین علیہ السلام

طاہر فرزند محمد، محمد فرزند محمد، محمد فرزند حسن ، حسن با لقب صالح فرزند حسین ، حسین فرزند عیسی ، عیسی فرزند یحیی ، یحیی فرزند حسین ، حسین فرزند زید، زید فرزند علی بن حسین زین العابدین (علیہ السلام ) است.

سید اجل بہاءالشّرف نجم الدین ابوالحن محمد آپ کی اولاد میں سے تھے۔سید اجل بہاءالشّرف نجم الدین ابوالحن محمد بن الحسن بن احمد بن علی بن محمد بن عمر بن یحیہ ابن الحسین النّسابہ بن احمد المحّدث ابن عمر بن یحیی بن الحسین ذوالدّمعہ

۱۹- محمّد زید

آپ حضرت زید شہید کے چھوٹے بیٹے تھے ۔ آپ کی والدہ کا تعلق سندھ سے تھا۔علم و فضل میں اپنی مثال آپ تھے۔وہ اپنے وقت کے بہترین مقرر تھے۔ ان کی کنیت ابوجعفر اور ابوعبداللّہ تھی-محمّد بن زید کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں. آپ کی ذوجہ فاطمہ تھی جو علی بن جعفر بن اسحاق بن علی بن عبداللّہ بن جعفر بن ابی طالب کی بیٹی تھی۔

اولاد :

بیٹے : جعفر ، قاسم ، حسن ، حسین ، علی اور محمّد

بیٹیاں : فاطمہ ، ام الحسن ا ور کلثوم

آپ کے بیٹےجعفر بڑے عالم اور فقیہ اور ادیب اور شاعر مشہور تھے ۔ جو کہ بعد میں نیشاپور میں مقیم ہوۓ۔اور احمد سکین جن کی اولاد میں سے ہیں۔نصرالدّین ابوجعفر احمد سکین جو کہ مقرب خدمت حضرت امام رضا علیہ السلام تھے ا و روہ ( فقہ الرضا ) کو اپنےہاتھ سے مرتب کرتے تھے ۔حمزہ بن محمد معروف بہ علوی قزوینی ان کی اولاد میں سے تھے۔حمزہ بن محمد بن احمد بن جعفر بن محمد بن زید

۲۰- محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورمعصومین کا خاندان :

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ :

والدہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا شجرہ نسب :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی والدہ محترمہ کا شجرہ نسب اُن کے والد عبداللہ کے ساتھ قصی بن کلاب سےجا ملتا ہے ۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم -بن آمنہ بی بی ۔ بنت وہب - بن عبد مناف - بن زہرہ ۔ بن کلاب ۔ بن مرہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم - ابن عبد اللہ - بن عبد المطلب- بن ہا شم- بن عبد المناف- بن قصی - کلاب - بن مرّہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنّانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن محدّ بن عدنان(سلام اللہ علیہم) – عدنان کا تعلق حضرت اسماعیل( ذبیح اللہ) بن ابراہیم( خلیل اللہ) کی اولاد سے تھا۔جبکہ حضرت اسماعیل کی مادر گرامی بی بی ہاجرہ کی جد بھی قریش سے جا ملتی ہے۔

فرزندان عبد المطلب سلام اللہ علیہ-

عبد الکعبہ –حارث- مصعب غیرق- حاجل-حمزہ-ابو طالب- قاسم –عباس-عبد اللہ

عبد اللہ بن عبد المطلب دار النابغ کے باغ جو کہ یثرب میں ہے میں دفن ہیں۔ حضرت آمنہ بی بی والدہ گرامی حضرت پیامبر جب اپنے شوہر (عبداللہ) کی قبر پر تشریف لائیں وہی وفات پائی.

ازفرزندا ن ابوطالب –سلام اللہ علیہ-:امام علی مرتضی(علیہم السلام)

فرزندان امام علی مرتضی(علیہ السلام) از حضرت زہرا (سلام اللہ علیہ)کہ سلام و درود خدا ہو ان پاک ہسستیوں پر

امام حسن مجتبی علیہ السلام –امام حسین علیہ السلام –امام سجاد علیہ السلام –امام باقر علیہ السلام –امام صادق علیہ السلام –امام کاظم علیہ السلام –امام رضا علیہ السلام –امام جواد علیہ السلام –امام ہادی علیہ السلام –امام حسن عسکری علیہ السلام – امام مہدی علیہ السلام موعود عجل اللہ تعالی فرجہ الشر

۱۶

۲۱۔ شجرہ مبارک

شجرہ آدم سے ہاشم تک

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ اور حضرت علی علیہ السلام بن ابوطالب کا شجرہ نسب یوں ہے کہ( محمد بن عبد اللہ اور علی ابن ابیطالب) بن عبد المطلب، بن ہاشم، بن عبد مناف، بن قصئِ، بن کلاب، بن مرہ بن کعب، بن لوئ، بن غالب، بن فہر (اِس فِہر کا لقب قُریش تھا اور قُریشی قبیلہ اِسی سے منسوب ہے ، اس کے آگے سلسلہ نسب یوں کہ فِہر ) ، بن مالک بن نضر، بن کنانہ، بن خزیمہ، بن مدرکہ، بن الیاس، بن مضر ، بن نزار ، بن معد ، بن عدنان(جو کہ یقیناً اِسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں) بن اسمعیل علیہ السلام، بن ابراہیم علیہ السلام۔۔(صحیح سیرۃ النبویہ )

عدنان تک کے نسب نامہ کی صحت پر پر تمام محدثین ، سیرت نگاروں اور علمائے انساب کا اتفاق ہے۔ اور "عدنان" کے اولادِ اسماعہل علیہ السلام سے ہونے کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔البتہ عدنان سے اوپر نابت بن اسماعہل علیہ السلام کا شجرہ نسب جو کہ محفوظ نہیں رہا یوں بتایا جاتا ہے :

بن اُدبن مقوِّم بن ناحور بن تَیرح بن یعرُب بن یشجب بن نابت بن اسماعیل بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام

اس طرح رسالت و امامت کا سلسہ حضرت آدم علیہ السلام سے جا ملتا ہے ۔ ان واسطوں میں مندرجہ ذیل انبیاء آتے ہیں۔

سلاسل نبوت:

حضرت آدم(ع)

شیت(ع)۔ حضرت انوش یا یونس۔ قینان یا قبتان۔

شیت(ع) ۔ ادریس (ع) - نوح(ع) ۔ ابراہیم(ع) - اسمعیل(ع) ) - عدنان(ع)۔۔۔

- حضرت آدم(علیہ السلام) - شیت(علیہ السلام) - انوش قینان - مہلائیل - یرد (الیارد) - حضرت ادریس(علیہ السلام) - متوشلح - لمک (بالک) - حضرت نوح (علیہ السلام) - سام - ارفحشد - شالخ (شامخ) - عابر (عور) - قالغ (بلغ) - حضرت ارغو (ہود) (علیہ السلام) - ساروغ - سروع ناحور تارخ - حضرت ابرا ہیم(علیہ السلام) - حضرت اسمعیل (علیہ السلام)

قیدار - سلان ( مجل) - ثابت (راست) - ہمیسع (ماحی) - عسقی - عنتب عبید - تقی - حسان - انقاد - عوض - برد - مناسل - ناخود - عوام - عوض - لر - سما ئے - ذراح - ناجب - معطر - سلمان - السیع - ہمیسع - ادد آد ( اد) - حضرت عدنان(علیہ السلام) - معد - نزار - نضر (مضر) - الیاس(علیہ السلام) - مدرک (مدرکہ) - خزیمہ - کنان (کنانہ) - نضر - مالک - فہر (لقب قریش) - غالب - لوی - کعب - مرّہ - کلاب - قصی - عبد المناف - ها شم -

ہاشم سے زید شہید تک

عبدالمطلب----- ابوطالب/ فاطمہ بنت اسد

عبداللہ/ ذوجہ بی بی آمنہ ----- حضرت علی (ع) / فاطمہ(س)----- حضرت محمد(ص) / بی بی خدیجہ

امام حسن(ع)----- امام حسین(ع)----- حضرت فاطمہ(س)

حضرت امام زین العابدین(ع)

حضرت زید بن علی

یحیی بن زید (سیف ُ الاسلام)----- حسین(ذوالدمعہ)----- محمد بن زید (ابوجعفر ) ----- عیسی (موتم الاشبال)

عیسی

علی----- عمر----- یحیی----- جعفر----- زید----- حسین

اسمعیل(خرقان)----- محمد----- عیسی----- احمد----- محمد----- زید

حسین ----- حسین----- محمد----- حسن (قزوین)----- عیسی

زید----- حمزہ----- حسن

داؤد

حمزه

علی

محمد

حسین

یوسف

محمد

علی

یوسف

محمد گیسو دراز

صوفی گیسو دراز :

فارسی اور عربی کتب کے مصنف جو اپنے درس اردو زبان میں دیتے اور ہندوستان کے مشہور صوفی گیسو دراز یا دراز گیسو یحی بن زید کی اولاد سے تھے ۔ وہ پہلا نام ہے جس سے دکنی اردو ادب کی بنیاد رکھی ۔ وہ مشہور صوفی نظام الدین اولیاء کے خلیفہ نصیرالدین چراغ دہلوی سب سے اہم شاگرد اور خلیفہ تھے۔ان کے معتقدین کی تعداد شمالی ہند میں بہت زیادہ تھی۔وہ تبلیغ کے سلسلہ میں ۱۳۹۹ میں گلبرگہ چلے آئے۔ ہندی ، دکنی اور اردو میں آٹھ کتب لکھیں۔اکثر کتب کھڑی زبان میں لکھیں ہیں جس میں پنجابی اوربرج زبان کی آمیزش ہے۔اردو کی پہلی نثری کتاب معراج العاشقین کےبھی مصنف ہیں۔ان کے پوتے عبداللہ حسینی نے جو خود بھی صوفی تھے نے ان کی کتاب نشاۂ العشق کا اردو ترجمہ کیا۔

امام زادہ طاہر :

جبکه تہران میں شاہ عبدالعظیم کے پہلو میں د فن امام زادہ طاہر بھی حسین(ذوالدمعہ) کی اولاد میں سے تھے. محمد بن زید کے بیٹےجعفر بڑے عالم اور فقیہ اور ادیب اور شاعر مشہور تھے ۔ جو کہ بعد میں نیشاپور میں مقیم ہوۓ۔اور احمد سکین جن کی اولاد میں سے ہیں۔نصرالدّین ابوجعفر احمد سکین جو کہ مقرب خدمت حضرت امام رضا علیہ السلام تھے ا و روہ ( فقہ الرضا ) کو اپنےہاتھ سے حضرت سے مرتب کرتے تھے حمزہ بن محمد معروف بہ علوی قزوینی بھی ان کی اولاد میں سے تھے۔

۱۷

۲۲- شجرہ زیدی سادات لدہیانہ

حضرت زید بن علی

عیسی (موتم الاشبال) سے سید مخدوم جمال الدین عاشق تک----- عیسی (موتم الاشبال) وفات ۱۶۹ ق دور خلیفه مهدی عباسی

سید احمد یا محمد بالکوفہ(وفات ۲۴۷ ھ ق) دور خلیفہ مہدی عباسی

سید علی (شہر ری تہر ان)

سید حسین

سید علی عراقی

سید حسن

سید علی

سید زید الحرابی

سید شاه عمرنر

سید زید ثالث(ظفری)

سید یحیی (عیسی)

سید حسین یا حسن جنگسوار

سید داؤد

سید عبداللہ الحسین الملقب سید ابوالفرج واسطی چوتهی صدی هجری میں دور تغلق دہلی ہندوستان آئے

سید ابوالفراس----- سید ابوالفضائل عرف فیضی----- سید داؤد----- سید نجم الدین

سید فرح الثانی ----- سید ابوالفتح

سید حسین----- سید علی

سید مسعود----- سید بہاؤالدین

سید علی----- سید احمد عرف سید علی

سید حسن فخرالدین(مظفر نگر)----- سیدمحمد

سید مخدوم جمال الدین

سید میزان ۔ سید بای زید ۔ سید سلطان ۔ حیات علی حیاتی ۔ دیوان سید حسین۔ شہاب الدین ۔ کمال الدین ۔ جلال الدین ۔ عبد الحق ۔ محمد زمان ۔ ابنہاشم علی ۔ قاسم علی ۔ ہاہر علی ۔ ظفر علی ۔ اشرف علی ۔ باسط علی ۔ جیون علی ۔ خورشید حسن ۔ غلام امیر ۔ ابن انعام حیدر ۔ سید سبط حیدر زیدی

سید مخدوم جمال الدین زیدی(اولیا ء مراد آباد )

سید اسماعیل----- سید غلام حیدر----- سید میرن----- ودودن النساء

سیدشادان----- سید شیخ

سیدمحمد طاہر----- سید عطا اللہ (اولیاء ملو پوری)

سید افضل کلاں----- سید بڈھن

سید شاہان----- سید چاند

سیدجلال----- سید جمن

سید شاہان----- سید عطا اللہ ثانی - سید احمد (سید عمر)

سید شرف الدین----- سید علی ثالث

سید خان محمد----- سید تاج الدین

سید لطف علی----- سید غلام محی الدین

سیدسیدن----- سید گھاسی

سید ہینگا شوری----- سید غلام محی الدین ثانی

سید حسین علی----- سید مقصود علی

سید بڈا (بڈھا)----- سید نوازش علی عرف میاں بھکو

سید علی احمد ----- سید قدرت علی

سید محمد مراد

سید محمد مراد سے سید علی رض

سید باقر علی

سید نور علی

سید احسان علی

سید علی احمد

سیدبرہان علی

سید سکھوا

سید باگھ علی ۔ سید کرم حسین ۔ سیدنتھو ا ----- سید عنایت علی ۔ سید پرورش علی ۔ سید غلام علی

تصدق حسین ----- تفضل حسین ----- علی مردان ۔ نوازش علی ----- سید امداد علی ۔ سید نیاز علی

سید فداحسین----- سید علی رضا ----- سید نظیر علی ۔ سید ولایت علی ۔ نا معلوم

سید امیر حسن۱۸۶۰ ء ----- سید مہدی حسن ----- سید ابوالحسن

مختار علی، وزیر حسن ،محمدحسن، اکبر حسین ----- سید آغا حسین ----- سید رضا علی

سید علی رضا سے تصدق حسین

سید علی رضا

سید امیر حسن۱۸۶۰ ء / صغری بی بی وفات۱۹۱۰ء

وزیر حسن وفات ۱۹۲۰ ء بیگم شجاعت بی بی /صغری بی بی

سخاوت حسین / کبری بی بی - وزیر بی بی ----- تصدق حسین/ رضیہ بی بی ----- ریاض حسین / اختری بی بی ----- محمدی بیگم ذوجہ عادل حسین ----- معصومہ بیگم ذوجہ شریف حسین

۱۸

حوالہ جات:

۱: ابوالاحسان ہاشمی ،مؤلف بزم مشاہیر ،یکم اگست ۱۹۶۸۔

۲: غلام حسن محرمی ،تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک، ترجمہ سید نسیم رضا آصف

۳: سید اشتیاق علی زیدی، ترتیب و تالیف جدید ، تذکرہ و شجرہ زیدی سادات سامانہ

۴: حسین کریمان، سیرہ و قیام زید بن علی، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ یکم، تہران- ۱۳۸۲

۵: سید ابوفاضل رضوی اردکانی، «شخصیت و قیام زید بن علی»، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، ۱۳۷۵

۶: سید عبدالرزاق کمونہ حسینی، «آرامگہ ہای خاندان پاک پیامبر و بزرگان صحابہ و تابعین»، انتشارات آستان قدس رضوی، چاپ دوم، ۱۳۷۵

۷: دکتر محمد جعفری ہرندی، «فقہا و حکومت»، انتشارات رئزنہ، چاپ اول، ۱۳۷۹

۸: حضرت آیت اللہ العظمی منتظری، «مبانی فقہی حکومت اسلامی»، ترجمہمحمود صلواتی، موسسہ کیہان، چاپ اول، ۱۳۷۶

۹: دکتر محمد جواد مشکور، «فرہنگ فرق اسلامی»، انتشارات آستان قدس رضوی، چاپ چہارم، ۱۳۸۶

۱۰: زینب متقی‌زادہ، «جغرافیای سیاسی شیعیان منطقہ خلیج فارس»، موسسہ شیعہ شناسی، چاپ اول، ۱۳۸۴

۱۱. دکتر محمد جعفری ہرندی، "کتاب فقہ و فقہاً، دانشگاہ آزاد اسلامی واحد بابل، چاپ دوم، ۱۳۷۴

۱۲: محمد ابوزہرہ، الامام زید، دارالثقافہالعربیہ للطباعہ، ۱۳۷۸ قمری.

۱۳: عبدالرزاق الموسوی المقرم، زید الشہید، نجف، ۱۳۵۵ قمری.

۱۴: ابوالفرج الصفہانی، مقاتل الطالبین و اخبارہم، ترجمہ سید ہاشم رسولی محلاتی،

۱۵: سید ابوفاضل رضوی اردکانی ،شخصیت و قیام زید بن علی ، دفتر تبلیغات اسلامی۱۳۷۵

۱۶: زید شہید- ص ۸

۱۷: لباب الانساب- ص ۹۱

۱۸: سیرہ و قیام زید بن علی- ص ۱۰

۱۹: اعیان الشیعہ، ج ۷ ص ۱۰۷ چاپ جدید

۲۰: مقاتل- ص ۵۱

۲۱ :دلایل الرہانیہ، غارات، ج ۲ ، ص ۸۶۰

۲۲: زید شہید- ص ۸

۲۳: سیرہ و قیام زید بن علی- ص ۱۱

۲۴: نورالابصار، شبلنجی ص ۱۷۸

۲۵: تاریخ طبری ج ۸ ص ۲۷۵ / تاریخ ابن عساکر ج ۶ ص ۲۰ / شرح ابن ابی الحدید ج ۱ ص ‍ ۳۱۵

۲۶: سید بن طاووس- ربیع الشیعہ

۲۷: علامہ امینی - الغدیر

۲۹: تہذیب ابن عساکر ج ۶ ص ۱۸

۳۰: الحدائق الوریہ فی مناقب الائمہ الزیدیہ، ج ۱ ص ۱۴۳ / روض النضیر، ج ۱ ص ۵۲

۳۱: ثورہ زید بن علی، ناجی حسن ص ۲۵

۳۲: ارشاد ص ۱۴۸.

۳۳: ارشاد ص ۱۴۸ / تاریخ طبری ج ۸ ص ۲۷۲

۳۴: مسندالامام زید، ص ۱۰ چاپ بیروت

۳۵: الغدیر، ج ۲ ص ۲۲۱

۳۶: سفینہ البحار ج ۱ کلمہ زید / الغدیر ج ۳ ص ۷۱ بہ نقل از عیون اخبار الرضا

۳۷: رجال کشی، ص ۱۸۴ / الغدیر ج ۳ ص ۷۰

۳۸: مقاتل الطالبیین ص ۱۲۹

۳۹: مقاتل الطالبیین ص ۱۲۹

۴۰: جامع الرواہ ج ۱ ص ۳۴۳

۴۱: مامقانی حرف (ز) ج ۱ ص ۴۶۷

۴۲: زید الشہید ص ۱۴

۴۳: زید الشہید ص ۱۴

۴۴: الخطط المقریزی، ج ۴ ص ۳۰۷ / وقایع الایام تالیف خیابانی ص ۷۱ / زید الشہید ص ۱۴

۴۵: مقتل الحسین ج ۲ ، ص ۱۱۰

۴۶: لواقح الانوار تالیف شعرانی، ج ۱ ص ۳۲

۴۷: طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۲۴۰ / تهذیب ابن عساکر، ج ۶ ص ۱۹ / تاریخ الاسلام ذہبی، ج ۵ ، ص ۷۴

۴۸: زید شہید - مرحوم مقرم

۴۹: المواعظ و الاعتبار بذکر الخطط و الا ثار، تالیف مقریزی، ج ۲ ، ص ۴۳۶

۵۰: الکشاف عن حقائق التنزیل ج ۱ ص ۴۳ تالیف زمخشری

۵۱: تہذیب ابن عساکر ج ۶ ص ۱۸

۵۲: البتہاین صحیفہ‌ای کہ در دست است املای امام صادق است بہ متوکل بن ہارون کهہامام آن را از پدرش و او از پدرش گرفتہ‌است و خوانندگان عزیز توجہ داشتید کہ متوکل گفت موقعی من صحیفہامام صادق را با صحیفہ زید مقایسہ کردم حتی یک حرف با ہم فرقی نداشتند

۵۳: این کتاب بصورت خطی بہ خط نسخ در کتابخانہ بریتانیا تحت شماره ۲۰۳ زیدیہ حفظ شدہاست، کہآن را در سال ۱۰۱۹ قمری مدون کردہ‌اند. ناجی حسن، کلیشہ صفحہ اول و آخر کتاب را در آخر ی کی از کتابہایش چاپ کردہ‌است

۵۴: الروض النضیر ج ۱ ص ۵۸

۵۵: مدرک بالا

۵۶: زید الشہید تالیف مرحوم مقرم ص ۱۳ - ۱۷

۵۷: تہذیب ابن عساکر ج ۶ ص ۱۵.

۵۸: تہذیب ابن عساکر ج ۶ ص ۱۵.

۵۹: روض النضیر ج ۱ ص ۶۶

۶۰: جامع الرواہ ج ۲ ص ۳۴۰

۶۱: جامع الرواہ ج ۱ ص ۵۳۰

۶۲: جامع الرواہ اردبیلی ج ۱ ص ۵۰۶

۶۳: الحدائق الوردیہ، ج ۱ ص ۱۴۹

۶۴: ابن رشیق قیروانی، صاحب کتاب زہر الادب، مطلب فوق را در ج ۱ ص ۷۸ ، نقل کردہ‌است

۶۵: ارشاد مفید ص ۲۵۱.

۶۶: جامع الرواہ ج ۱ ص ۳۴۳ چاپ جدید

۶۷: جال طوسی ص ۸۹ باب اصحاب علی بن الحسین

۶۸: مقاتل الطالبیین ص ۱۲۷ / بحارالانوار ج ۴۶ ص ۳۰۹

۶۹: تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۳۱۶ چاپ بیروت

۷۰: اغانی ج ۶ ص ۱۰۰ / عقدالفرید ج ۶ ص ۴۵۰ / ثورہ زید ص ۷۸

۷۱: تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۳۲۸.

۷۲: ریاض السالکین در شرح صحیفہ سجادیہسید علی خان شیرازی اوائل کتاب

۷۳: قواعد شہید باب امر بہ معروف و نہی از منکر

۷۴: تنقیح المقال مامقانی، ج ۱ ص ۴۶۹ حرف (زی)

۷۵: شرح استبصار

۷۶: معجم رجال الحدیث ج ۷ ص ۳۵۸ چاپ نجف

۷۷: تاریخ طبری ج ۵ ص ۴۹۱

۷۸: تاریخ ابن اثیر ج ۵ ص ۹۲

۷۹: مقاتل الطالبیین ص ۱۳۵

۸۰: تاریخ طبری ج ۵ ص ۴۹۱ چاپ قاہرہ

۸۱: مقاتل الطالبیین-ص ۱۳۵

۸۲: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۵

۸۳: مقاتل الطالبین- ص ۱۴۷

۸۴: الحدائق الوردیہ ج ۱ ص ۱۵۲

۸۵: امع الرواہ اردبیلی ج ۱

۸۶: المراجعات سید شرف الدین ص ۹۱

۸۷: المراجعات ص ۱۲۳

۸۸: جامع الرواہ ج ۲ ص ۲۲۸

۸۹: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۵

۹۰: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۸

۹۱: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۸.

۹۲: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۶.

۹۳: جامع الرواہ اردبیلی ج ۲ ص ۱

۹۴: طبقات ابن سعد، ج ۷ ص ۳۱۹.

۹۵: تہذیب التہذیب

۹۶: تہذیب التہذیب ج ۱۱ ص ‍ ۱۶

۹۷: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۶

۹۸: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۷.

۹۹: سیرہ و قیام زید بن علی- ص ۷۸

۱۰۰: تاریخ طبری ج ۵ ص ۴۹۵ / کامل ابن اثیر ج ۵ ص ۹۶.

۱۰۱ : تاریخ طبری ج ۵ ص ۲۹۵ / مقاتل الطالبیین ص ۱۴۴.

۱۰۲: مقاتل الطالبین، ص ۵۵

۱۰۳: تاریخ طبری ج ۵ ص ۴۸۵ / تاریخ ابن اثیر ج ۵ ص ۹۶.

۱۰۴: مقاتل الطالبیین ص ۱۳۷.

۱۰۵: انساب الاشراف ج ۳ ص ۲۰۲

۱۰۶: مقاتل الطالبیین ص ۱۳۷.

۱۰۷: مقاتل الطالبیین ص ۴۰

۱۰۸: انساب الاشراف ج ۳ ص ۲۰۲.

۱۰۹: انساب الاشراف ج ۳ ص ۲۰۳ / مقاتل الطالبیین ص ۱۴۱ – ۱۴۲ / شرح نہج البلاغہابن ابی الحدید ج ۳ ص ۲۸۷ چاپ جدید.

۱۱۰: مجالس المومنین، ص ۳۴۹ / نامہ دانشوران، ج ۵ ، ص ۱۰۵ / سفینة البحار، ج ۱ ، ص ۵۷۸ / اعیان الشیعہ، ج ۱ ، ص ۲۵

۱۱۱: وقایع الایام ص ۱۰۵

۱۱۲: مقاتل الطالبیین)) ص ۱۴۱.

۱۱۳: انساب الاشراف ج ۳ ص ۲۰۳.

۱۱۴: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۱.

۱۱۵: طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۲۴۰ / مقاتل الطالبیین ص ۱۳۰

۱۱۶: تاریخ طبری ج ۸ ص ۲۷۶

۱۱۷: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۲ - / انساب الاشراف ج ۳ ص ۲۰۳

۱۱۸: طبری ج ۸ ص ۲۷۶

۱۱۹: تاریخ طبری ج ۸ ص ۲۷۶ / مقاتل الطالبیین ص ۱۴۲ و ۱۴۳

۱۲۰: الغدیر ج ۳ ص ۷۵

۱۲۱: مناقب ج ۳ ص ۳۶۰ / بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۹۲

۱۲۲: سورہ مائدہ آیہ ۳۳

۱۲۳: مقاتل الطالبیین ص ۱۴۴

۱۲۴: زید الشہید ص ۱۶۳

۱۲۵: زید الشہید ص ۱۶۳

۱۲۶: زید الشہید ص ۱۶۳.

۱۲۷: قاموس الرجال، ج ۲ ص ۲۷۴.

۱۲۸: زید الشہید ص ۱۶۰.

۱۲۹: زید الشہید ص ۱۶۰

۱۳۰: مقاتل الطالبین، ص ۵۸ / فوات الوفیات، ج ۱ ص ۲۱۱ / عمدہ الطالب، ص ۲۴۸ / نامہ دانشوران، ج ۵ ، ص ۱۰۷ و...

۱۳۱: مقاتل الطالبین، ص ۵۲

۱۳۲: تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۳۶

۱۳۳: تاریخ طبری ج ۸ ص ۲۷۶ / مقاتل الطالبیین ص ۱۴۲

۱۳۴: تحفہ الاخبار ص ۱۱۴

۱۳۵: تاریخ طبری ج ۸ ص ۲۷۷

۱۳۶: شرح نہج البلاغہ ج ۲ ص ۲۱۲.

۱۳۷: عمدہ الطالب ص ۲۵۸.

۱۳۸: النجوم الزاہرہ فی اخبار المصر و القاہرہ ابن تغری بردی، ج ۱ ص ۲۸۱.

۱۳۹: الولاہ و کتاب القضاہ کندی ص ۱۴۷.

۱۴۰: زید الشہید مرحوم مقرم ص ۱۶۲

۱۴۱: زید الشہید مرحوم مقرم ص ۱۵۵.

۱۴۲: مراقد المعارف ج ۱ ص ۳۲۰.

۱۴۳: ارشاد ص ۲۵۲.

۱۴۴: مرآہ العقول ج ۱ ص ۲۶۱.

۱۴۵: تنقیح المقال ج ۱ ص ۴۶۹.

۱۴۶: خزاز قمی در کفایہ الا ثر

۱۴۷: مجالس المؤ منین ج ۲ ص ۲۵۵.

۱۴۸: بحارالانوار ج ۴۶.

۱۴۹: اخباری کہ در الفاظ مختلف، و در معنا شریک باشند

۱۵۰: نگاہ کنید بہ کتاب زید بن علی نوشتہ حسین کریمان- باب دوم بہ بعد

۱۵۱: قواعد الشہید باب الامر بالمعروف و النہی عن المنکر)) ج ۲ ص ۲۰۷ چاپ جدید

۱۵۲: رسالہ اثبات وجود الامام المنتظر

۱۵۳: وسائل الشیعہ، جلد آخر، باب زاء ص ۲۰۲.

۱۵۴: اصول کافی ج ۲ ص ۱۷۰ حدیث ۱۶

۱۵۵: نکت البیان مرحوم سید علیخان

۱۵۶: معجم الرجال الحدیث ج ۷ ص ۳۵۸ چاپ نجف

۱۵۷: منہاج السنہ ج ۲ ص ۱۲۶

۱۵۸: الغدیر، ج ۳ ص ۶۹

۱۹

فہرست

انتساب : ۵

۱- مقدمہ ۶

۲- تاریخ سادات ۸

۳- برصغیر کے زیدی سادات ۹

زیدی سادات بارہہ: ۹

زیدی سادات سا ڈھورہ : ۹

زیدی سادات سامانہ ۱۰

زیدی سادات لدھیانہ : ۱۱

لدہیانہ ۱۱

۴- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم) کا خاندان ۱۳

مرج البحرین : ۱۵

دُرِ ّ یتیم: ۱۵

حضرت آمنہ کا مرثیہ: ۱۵

ُُنورِرسالت اورآغوشِ ابوطالب: ۱۷

۱) اولاد: ۱۹

بیٹے : ۱۹

بیٹیاں : ۱۹

۵- شجرہ رسالت اور ولایت ۲۰

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انبیاء کرام ۲۰

۲۰