حمد و مناجات اورنعت

حمد و مناجات اورنعت مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 53

حمد و مناجات اورنعت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21678 / ڈاؤنلوڈ: 2484
سائز سائز سائز
حمد و مناجات اورنعت

حمد و مناجات اورنعت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

حمد ونعت

ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل

ماخذ :اردو کی برقی کتاب

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

کس زباں سے میں کروں حمد خدائے قیوم

کام دیتی ہے یہاں پر نہ فراست، نہ علوم

۔ ۔ ۔ ساحل۔ ۔ ۔

۳

حمد باریِ تعالیٰ

(۱)

فہم و ادراک تھک گئے مولا

تو سمجھ سے اس قدر بالا

*

صرف چھ دن میں لفظ کُن کہہ کر

تو نے پیدا کیے ہیں ارض و سما

*

تیری قدرت کے شاہکارِ حسیں

پھول، برگِ حنا و موجِ صبا

*

بحر، دریا، ندی، پہاڑ، دھنک

گلستاں، کھیت، وادی و صحرا

*

بیج کو قوتِ نمو دے کر

شق کیا ارضِ سخت کا سینا

*

ساری دنیا کو کر دیا غرقاب

تیرا قہر و جلال ہے ایسا

*

رس و تبّع و ایکہ، عاد و ثمود

سب کو تیرے عذاب نے گھیرا

*

۴

سینۂ کوہ چیر کر تو نے

حاملہ اونٹنی کیا پیدا

*

سرفرازیِ اہلِ حق کے لیے

تیری قدرت سے پھٹ گیا دریا

*

امر سے اپنے ابنِ مریمؑ کو

کر کے ظاہر، شرف جہاں میں دیا

*

اپنے محبوبؐ کی دعا سن کر

ماہتابِ حسیں دو ٹکڑے کیا

*

سر بلندی فقط اسی کو ملی

تیری عظمت کو جس نے پہچانا

*

تو جو چاہے تو سنگ پانی ہو

تیرے قبضے میں سب ہیں یا اللہ

*

التجا بس یہی ہے ساحل کی

اِس گنہگار پر کرم فرما

***

۵

حمد ہے آفتاب کا منظر

(۲)

حمد ہے آفتاب کا منظر

گردشِ انقلاب کا منظر

*

بادلوں کے سیاہ جھرمٹ میں

تیز رو ماہتاب کا منظر

*

بحرِ پُر شور کے تلاطم میں

لہر و موج و حباب کا منظر

*

تتلیوں کے پروں کی نقّاشی

حسنِ رنگِ گلاب کا منظر

*

نرم و نازک ہوا کے کاندھوں پر

اُڑتے پھرتے سحاب کا منظر

*

اُس کی قدرت کا ہی کرشمہ ہے

موسمِ لاجواب کا منظر

*

فرش مخمل پہ کروٹیں لیتا

زندگی کے عذاب کا منظر

*

۶

حالتِ بیکسی میں کانٹوں پر

شوقِ کارِ ثواب کا منظر

*

ظلمتِ شب میں، گھر کے کونے میں

شمع کے التہاب کا منظر

*

عہدِ طفلی سے عہدِ پیری تک

نعمتِ بے حساب کا منظر

*

فکرِ ساحل کو روک دیتا ہے

حیرت و استعجاب کا منظر

***

۷

جو پُر یقیں ہیں انھی کو اٹھان دیتا ہے

(۳)

جو پُر یقیں ہیں انھی کو اٹھان دیتا ہے

خدا پرند کو اونچی اڑان دیتا ہے

*

اسی کا کلمۂ توحید افضل و اعلا

یہ دیکھ روز مؤذّن اذان دیتا ہے

*

دعائیں مانگ اسی سے تو بے مکانی پر

وہی زمین پہ سب کو مکان دیتا ہے

*

اگر وہ چاہے ہری کھیتوں کو کر دے تباہ

اُسی کے اِذن پہ فصلیں کسان دیتا ہے

*

غرور کس لیے تجھ کو ہے خوش کلامی پر

وہ چاہتا ہے تو شیریں زبان دیتا ہے

*

عطا وہ کرتا ہے جنت کی اُس کو ہر نعمت

جو اُس کے دیں کے لیے اپنی جان دیتا ہے

*

اُسی کی ذات پہ ساحل یقین رکھ، ورنہ

وہ انحراف پہ وہم و گمان دیتا ہے

***

۸

خدا قلاّش کو بھی شان و شوکت بخش دیتا ہے

(۴)

خدا قلاّش کو بھی شان و شوکت بخش دیتا ہے

وہی ذراتِ بے مایہ کو عظمت بخش دیتا ہے

*

وہ شہرت یافتہ کو پل میں کر دیتا ہے رسوا بھی

ذلیل و خوار کو چاہے تو عزت بخش دیتا ہے

*

کبھی دانشوروں پر تنگ کر دیتا ہے وہ روزی

کبھی جاہل کو بھی انعامِ دولت بخش دیتا ہے

*

وہ لے کر تاجِ شاہی کو کسی سرکش شہنشاہ سے

کسی کمزور کو دے کر حکومت بخش دیتا ہے

*

وہی بے چین رکھتا ہے امیرِ شہر کو شب بھر

یقیں کی سیج پر مفلس کو راحت بخش دیتا ہے

*

فضائے شر میں، کارِ خیر کو ملتی ہے یوں عزت

وہ جب نفرت کے بدلے دل کو چاہت بخش دیتا ہے

*

سمجھ لیتا ہے ساحلؔ جو بھی اس رازِ مشیت کو

وہ اُس انسان کو نورِ حقیقت بخش دیتا ہے

***

۹

گردشِ شام اور سحر میں تو

(۵)

گردشِ شام اور سحر میں تو

ہر پرندے کے بال و پر میں تو

*

مور کے پنکھ میں تری قدرت

برق، سیلاب اور بھنور میں تو

*

تیری توحید کی علامت ہیں

پھول، غنچہ، کلی، ثمر میں تو

*

ان کی تابندگی ہے امر ترا

لعل و یاقوت میں گہر میں تو

*

ریگِ صحرا میں، صحنِ گلشن میں

کھیت میں، دشت میں، کھنڈر میں تو

*

کوئی انکار کر نہیں سکتا

مٹی، پانی، ہوا، شرر میں تو

*

سارا عالم ہے تیرے قبضے میں

ملک، صوبہ، نگر نگر میں تو

*

۱۰

یہ نتیجہ ہے حسنِ فطرت کا

بس گیا ہے مری نظر میں تو

*

دل میں ساحلؔ کے تو ہی رہتا ہے

اس کی مغموم چشمِ تر میں تو

***

۱۱

وجود اُس کا ہے مشک و گلاب سے ظاہر

(۶)

وجود اُس کا ہے مشک و گلاب سے ظاہر

یہ جگمگائے ہوئے ماہتاب سے ظاہر

*

جو اُس کے حکم سے روشن ازل سے ہے اب تک

حریفِ ظلمتِ شب، آفتاب سے ظاہر

*

نسیم، برق، شرر، بادِ تند، قوسِ قزح

شفق، نجوم، خلا و سراب سے ظاہر

*

بہشت و دوزخ و قہر و جلال، حور و ملک

جزا، سزا و ثواب و عذاب سے ظاہر

*

منی و علقہ و مضغہ کی پرورش سے عیاں

ضعیفی، طفلی، و عہدِ شباب سے ظاہر

*

ہر ایک لفظ میں کونین جذب ہے جس کے

اُسی مقدس و اطہر کتاب سے ظاہر

*

یقین آئے نہ اِن پر تو ہوگا وہ ساحلؔ

بروزِ حشر حساب و کتاب سے ظاہر

***

۱۲

مسکراتے ہوئے شہروں کو مٹایا تو نے

(۷)

مسکراتے ہوئے شہروں کو مٹایا تو نے

اور ویران علاقوں کو بسایا تو نے

*

رونے والوں کو اچانک ہی ہنسایا تو نے

ہنسنے والوں کو اِسی طرح رُلایا تو نے

*

ماں کی ممتا میں سما کر سبھی بچوں کو سدا

تھپکی دے دے کے محبت سے سلایا تو نے

*

وقت پر اپنے گرا بارشِ رحمت بن کر

بحرِ پُر شور سے بادل جو اٹھایا تو نے

*

اس سے سیراب ہے ہر لمحہ حیاتِ انساں

رحمتِ خاص کا وہ دریا بہایا تو نے

*

یہ بھی رحمت ہے تری بھیج کے دنیا میں رسولؐ

اپنی توحید کا پیغام سنایا تو نے

*

تیری توصیف میں یہ مصرعِ ساحل بھی ہے

اس کی رسوائی سے ہر وقت بچایا جائے

***

۱۳

کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا

(۸)

کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا

قطرے کو تو نے سیپ میں گوہر بنا دیا

*

یہ بھی اصل میں تری تقدیر کا کمال

جس نے امیرِ شہر کو نوکر بنا دیا

*

دستِ دعا کو دیکھ کے جب مہرباں ہوا

بے انتہا غریب کو افسر بنا دیا

*

کل رو رہا تھا جو، ہے وہی آج شادماں

بدتر کو تو نے آن میں بہتر بنا دیا

*

علما بھی اس کی فکر گم ہوکے رہ گئے

کم علم کو اک ایسا سخنور بنا دیا

*

اس طرح سے بچا لیا اپنے خلیلؑ کو

نارِ غضب کو پھول کا بستر بنا دیا

*

جس کو بھی چاہا اس کو دیا عزت و شرف

اور جس کو چاہا اپنا پیمبر بنا دیا

*

۱۴

خنجر کو شاخِ گل کی کبھی دی نزاکتیں

اور شاخِ گل کو وقت پہ خنجر بنا دیا

*

لذت نشاط کی ملی ہر حال میں اسے

ساحلؔ کا تو نے ایسا مقدر بنا دیا

***

۱۵

ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون

(۹)

ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون

بن گیا موتی اسے تابندگی دیتا ہے کون

*

آگیا موسم خزاں کا، موت سب کو آ گئی

مردہ پودوں کو دوبارہ زندگی دیتا ہے کون

*

بن گئی ہیں پھول سب اپنے چٹکنے کے سبب

لب پہ کلیوں کے اچانک ہی ہنسی دیتا ہے کون

*

یہ ہیں سب بے جان ان میں جان کیسے آ گئی

تال، سر، لفظ و صدا کو دلکشی دیتا ہے کون

*

کھو گیا اس کی نوا میں تو مگر یہ بھی تو دیکھ

نالۂ بلبل میں درد و نغمگی دیتا ہے کون

*

ان کی تابانی سے نظروں کو ہٹا کر یہ بھی سوچ

انجم و شمس و قمر کو روشنی دیتا ہے کون

*

اپنے شعروں پر ہے ساحلؔ کیوں تجھے اتنا غرور

سوچ کہ شاعر کو ذوقِ شاعری دیتا ہے کون

***

۱۶

ردائے ظلمتِ شب پل میں پھاڑ کر تو نے

(۱۰)

ردائے ظلمتِ شب پل میں پھاڑ کر تو نے

نکالی گردشِ ایام کی سحر تو نے

*

میرا عقیدہ ہے، ایسا ہے قادرِ مطلق

جو سنگ ریزے تھے ان کو کیا گہر تو نے

*

جو مضطرب رکھے اس کو جگر کے ٹکڑے پر

دیا ہے ماں کو وہی عشقِ معتبر تو نے

*

رسولِؐ صادق و مصدوق و امّی کے ذریعے

بدل دی خیرِ مکمل سے فکرِ شر تو نے

*

اٹھائی جس پہ، اسے معرفت ملی تیری

عطا کی بندۂ مومن کو وہ نظر تو نے

*

مرے کریم! ترا شکر اس عنایت پر

دیا ہے مجھ کر ضرورت کا مال و زر تو نے

*

ہے اعتراف کہ ساحل ہے مطمئن اس میں

دیا ہے اس کو وراثت میں ایسا گھر تو نے

***

۱۷

واحد ہے، بے نیاز و بے اولاد و آل ہے

(۱۱)

واحد ہے، بے نیاز و بے اولاد و آل ہے

تو ربِ کائنات ہے اور ذوالجلال ہے

*

ہر شے میں اس جہاں کی جو حسنِ و جمال ہے

تیری ہی صنعتوں کا یہ روشن کمال ہے

*

احسن ہے کون تیرے سوا خالقین میں

کاریگری میں تیری بڑا اعتدال ہے

*

سیارے سارے رہتے ہیں اپنی حدود میں

شمسی و قمری نظم ترا بے مثال ہے

*

اک دوسرے کو لے نہیں سکتے گرفت میں

سیّارگان میں کہاں اتنی مجال ہے

*

قائم ہے تیرے حکم سے ہی ان کی گردشیں

ورنہ یہ کام اصل میں امرِ محال ہے

*

یہ التجا ہے حسبِ ضرورت ہی دے اسے

ساحل کا تیرے آگے جو دستِ سوال ہے

***

۱۸

معبودِ حقیقی

نہیں معبود کوئی

بس اک اللّٰہ معبودِ حقیقی ہے

*

چراغِ نور ہو جیسے کسی قندیل کے اندر

رکھا ہو ایک شیشے کے کنول میں وہ

ہے شیشے کا کنول شفاف مثلِ کوکبِ پُر نور

وہ روشن روغن زیتون سے ہے جو مبارک اک شجر ہے

*

ہے اس کی روشنی مشرق کی جانب

اور نہ ہی مغرب کی جانب

وہی ہے حیّ و قیّوم

*

نہ اس کو اونگھ آتی ہے

نہ اس کو نیند آتی ہے

زمیں اور آسمانوں میں ہے جو کچھ

سب اس کی ملکیت ہے

بغیرِ اذن اس کے کر نہیں سکتا

سفارش کوئی بھی اس سے کسی کے واسطے

ہمارے آگے جو کچھ ہو رہا ہے

ہمارے پیچھے جو کچھ ہو چکا ہے

*

۱۹

اسے سب کی خبر ہے

احاطہ کر نہیں سکتا ہے کوئی علم کا اس کے کسی شئی میں

مگر وہ جتنا چاہے

اسی کی حکمرانی ہے زمین و آسمانوں میں

وہ تھکتا ہی نہیں اپنی حکومت کو چلانے میں

وہی ہے اکبر و مولیٰ

وہی سب حاکموں کا حاکمِ اعلا

وہ جس کو چاہتا ہے حکمرانی بخش دیتا ہے

وہ جس سے چاہتا ہے حکمرانی چھین لیتا ہے

وہ جس کو چاہتا ہے عزت و ناموس دیتا ہے

وہ جس کو چاہتا ہے خوار کر دیتا ہے پل بھر میں

وہ جس کو چاہتا ہے سب سے زیادہ رزق دیتا ہے

ہے اس کے ہاتھ میں سب کچھ

وہی ہے حاکمِ اعلا

***

۲۰

۲۱

۲۲

۲۳

۲۴

۲۵

۲۶

۲۷

۲۸

۲۹

۳۰

۳۱

۳۲

۳۳

۳۴

۳۵

۳۶

۳۷

۳۸

۳۹

۴۰

۳ ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

۴ ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت ۲۸۶)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت ۶۰)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

۵ ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج ۲ ص ۱۶)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

۱ ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

۲ ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت ۶)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

۱۱ ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

۱۲ ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً ۲۰ آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

۱۳ ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

۱۴ ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

۱۵ ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت ۳)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

۱۶ ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت ۱۷۳)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

۱۷ ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت ۹)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت ۹۵)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت ۱۳۰)

۵۳