تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 9%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32778 / ڈاؤنلوڈ: 3464
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تفسیر نمونہ جلد دہم

تفسیرنمونه ، آیه الله العظمی مکارم شیرازی (مدظله العالی) کی ۱۵ ساله زحمات کا نتیجه ہے جس کو معظم له نے اہل قلم کی ایک جماعت کی مدد سے فارسی زبان میں تحریر فرمایا ، اس کا اردو اور عربی زبان میں ترجمه ہو کر شایع ہوچکا ہے.

تعداد جلد: ۱۵جلد

زبان: اردو

مترجم : مولانا سید صفدر حسین نجفی (رح)

تاریخ اشاعت: ربیع الثانی ۱۴۱۷هجری

سورہ یوسف

آیات ۵۴،۵۵،۵۶،۵۷

۵۴۔( وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ اٴَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی فَلَمَّا کَلَّمَهُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِینٌ اٴَمِینٌ ) ۔

۵۵ ۔( قَالَ اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْاٴَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ ) ۔

۵۶ ۔( وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْاٴَرْضِ یَتَبَوَّاٴُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

۵۷ ۔( وَلَاٴَجْرُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۴ ۔(مصر کے) باد شا ہ نے کہا :اس ( یوسف ) کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں اسے اپنے ساتھ مخصوص کر لوں ۔

جب( یوسف اس کے پاس آئے اور )اس سے گفتگو کی ( تو باد شاہ کو ان کی عقل و فہم کا اندازہ ہوا) تو اس نے کہا: آج تو ہمارے ہاں اعلیٰ قدر و منزلت رکھتا ہے تو قابل اعتماد ہ۔

۵۵ ۔ (یوسف نے )کہا: مجھے ( مصر کی ) زمین کے خزانوں کا سر پرست بنادے کیونکہ میں حفاظت کرنے والا اور آگاہ ہوں ۔

۵۶ ۔ اس طرح ہم یوسف کو ( مصر کی ) زمین میں قدرت دی کہ اب جہاں چاہتا اس میں رہتا ( اور اس میں تصرف کرتا) ہم جسے چاہتے ہیں ( اور لائق سمجھے ہیں ) اپنی رحمت سے نواز تے ہیں اور ہم نیک لوگوں کا اجر ضائع کرتے ۔

۵۷ ۔ اور جو ایمان لائے ہیں اور پر ہیز گار ہیں آخرت کا اجر ان کے لئے بہتر ہے ۔

یوسفعليه‌السلام مصر کے خزانہ دار کی حیثیت سے

حضرت یوسف علیہ السلام جیسے عظیم نبی کی عجیب زندگی کی تفصیل میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ آخر ان کی پاکدامنی سب پر ثابت ہو گئی یہاں تک کہ ان کے دشمنوں نے ان کی پاکیز گی کی گواہی دی اور یہ ثا بت ہو گیا کہ جس گناہ کی وجہ سے وہ زندان میں ڈالے گئے تھے وہ پاکدامنی تقویٰ اور پر ہیز گاری کے سواکچھ نہ تھا۔

ضمناً یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ بے گناہ قیدی علم ، آگہی، دانشمندی ، انتظامی صلاحیت اور فہم و فراست کی بہت اعلیٰ سطح کا مرکز ہے کیونکہ اس نے ” ملک‘ ‘( بادشاہ مصر) کے خوان کی تعبیر بتاتے ہوئے آئندہ کی پیچیدہ اقتصادی مشکلات بیان کرتے ہوئے ساتھ ہی ان سے نجات کے راستے کی نشاندہی بھی کردی تھی ۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے ؛ ” باد شاہ نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لے آؤ تاکہ میں اسے اپنامشیر اور نمائندہ خاص بناؤ‘ ‘ اور اپنی مشکلات حل کرنے کے لئے اس کے علم و دانش اور انتظامی صلاحیت سے مدد لوں( وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ اٴَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی ) ۔

پادشاہ کا پر جوش پیام لیکر اس کا خاص نمائندہ قید خانے میں یوسف کے پاس پہنچا۔ اس نے بادشا ہ کی طرف سلام و دعا پہنچا یا اور بتا یا کہ اسے آ پ سے شدید لگاؤ ہو گیا ہے ۔ اس نے مصر کی عورتوں کے بارے میں تحقیق سے متعلق آپ کی درخواست کی عملی جامہ پہنا یا اور سب نے کھل کر آپ کی پاکدامنی اور بے گناہی کی گواہی دی ہے ۔ لہٰذا اب تاخیر کرنے کی گنجائش نہیں رہی اٹھیئے تاکہ ہم اس کے پاس چلیں ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام پادشاہ کے پاس تشریف لائے ۔ ان کی آپس میں بات چیت ہوئی ۔ باد شاہ نے ان کی گفتگو سنی اور آپ کی پر مغز اور نہایت اعلیٰ باتیں سنیں ۔ اس نے دیکھا کہ آپ کی باتیں انتہائی علم و دانش اور دانائی سے معمور ہیں تو پہلے سے بھی زیادہ آپ کا شیفتہ ہو گیا۔

کہنے لگا : آپ آج سے ہمارے ہاں اعلیٰ قدرت و منزل اور وسیع اختیارات کے حامل ہیں اور ہمارے نزدیک قابل ِ اعتماد رہیں گے( فَلَمَّا کَلَّمَهُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِینٌ اٴَمِینٌ ) ۔

آج سے اس ملک کے اہم کام آپ کے سپرد ہیں اور آپ کو امور کی اصلاح کے لئے کمر ہمت باندھ لینا چاہئیے کیونکہ میرے خواب کی جو تعبیر آپ نے بیان کی ہے اس کے مطابق اس ملک کو شدید اقتصادی بحران در پیش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس بحران پر صرف آپ ہی قابو پا سکتے ہیں ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام نے تجویز پیش کہ مجھے اس علاقہ ک ے خزانوں کی ذمہ داری سونپ دی جائے کیونکہ میں اچھا محافظ ہوں اور اس کام کے اسرار سے بھی واقف ہوں( قَالَ اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْاٴَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ ) ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام اچھی طرح جانتے تھے کہ ظلم سے بھرے اس معاشرے کی پریشانیوں کی ایک اہم بنیاد اس کے اقتصادی مسائل میں ہیں ۔ لہٰذا انھوں نے سوچا کہ جب کہ انہیں مجبور اً آپ کی طرف آنا پڑا تو کیا ہی اچھا ہے کہ مصر کی اقتصادیات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں اور محروم و مستضعف عوام کی مدد کے لئے آگے بڑھیں اور جتنا ہو سکے طبقاتی تفاقت اور اونچ نیچ کو کم کریں ، مظلوموں کا حق ظالموں سے لیں اور اس وسیع ملک کی بد حالی کو دور کریں ۔ آپ کی نظر میں تھا کہ خاص طور پر زرعی مسائل اس ملک میں زیادہ اہم ہیں اس بات پر بھی توجہ رکھنا ہو گی چندسال فراوانی کے ہوں گے اور پھر خشکی کے سال در پش ہوں گے لہٰذا لوگوں کو زیادہ سے زیادہ غلّے پیدا کرنے اور پھر انہیں احتیاط سے محفوظ رکھنے اور نہایت کم خرچ کرنے پر آمادہ کرنا ہو گا تاکہ قحط کے سالوں کے لئے غلہ ذخیرہ کیا جاسکے ۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے آپ کو یہی بہتر معلوم ہواکہ آپ مصر کے خزانوں کو اپنی سر پرستی میں لینے کی تجویز پیش کریں ۔

بعض نے لکھا ہے کہ اس سال بادشاہ سخت مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور کسی طرح ان سے نجات چاہتا تھا لہٰذا اس نے تمام امور کی باگ ڈور حضرت یوسفعليه‌السلام کے ہاتھ میں دے دی اور خود کنارہ کشی اختیار کرلی ۔

بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ اس نے عزیز مصرکی جگہ حضرت یوسفعليه‌السلام کواپنا وزیر اعظم بنا لیا۔

یہ احتمال بھی ہے کہ اس آیت کے ظاہری مفہوم کے مطابق وہ صرف مصر کے وزیر خزانہ بنے ہوں لیکن اسی سورہ کی آیت ۱۰۰ ۔ اور۔ ۱۰۱/ کہ جن کی تفسیر انشاء اللہ آئے گی اس امر کی دلیل ہیں کہ آخر کار آپ بادشاہ ہوگئے اورتمام امور مملکت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں آگئی ۔ اگر چہ آیت ۸۸/ میں ہے کہ یوسفعليه‌السلام کے بھائیوں نے ان سے کہا :” ی( ا ایها العزیز ) “ ۔

یہ امر کی دلیل ہے کہ آپ نے عزیز مصر کا منصب سنبھالا مگر اس میں کوئی مانع نہیں کہ آپ نے یہ مناسب تدریجاً حاصل کئے ہوں ۔ پہلے وزیر خزانہ ہوئے ہوں پھر وزیر اعظم اور پھر بادشاہ ۔

بہر حال اس مقام پر خدا کہتا ہے : اور اس طرح ہم نے یوسفعليه‌السلام سر زمین مصر پر قدرت عطا کی کہ وہ جیسے چاہتا ہے اس میں تصرف کرتا تھا( وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْاٴَرْضِ یَتَبَوَّاٴُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ ) ۔

جی ہاں ! ہم اپنی رحمت اور مادی و روحانی نعمتیں جسے چاہتے ہیں اور اہل پاتےہیں عطا کرتے ہیں ( نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ) ۔

اور ہم نیکو کاروں کا اجر ہرگز ضائع نہیں کریں گے “۔ اگر چہ اس میں تاخیر ہو جائے تاہم آخر کار جو کچھ ان کے لائق ہوا انہیں دیں گے کیونکہ ہم کسی نیک کو فراموش نہیں کرتے( وَلاَنُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم صرف دنیاوی اجر ہی نہیں دیں بلکہ ”جو اجر انہیں آخرت میں ملے گا وہ اہل ایمان اور صاحبان ِ تقویٰ کے لئے زیادہ اچھا ہے“( وَلَاٴَجْرُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ حضرت یوسفعليه‌السلام نے طاغوت وقت کی دعوت کیونکر قبول کی ؟

زیر بحث آیات کی طرف توجہ ہوتے ہیں پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جیسے عظیم نبی طاغوت زمانہ سے وزارت ِ خزانہ یا وزارت عظمیٰ کا منصب قبول کرنے اور اس کے ساتھ ملکر کام کرنے پر کیسے تیار ہو گئے؟

اس سوال کا جواب خود مندرجہ بالا آیات ہی میں پوشیدہ ہے ۔ وہ یہ کہ آپ نے یہ منصب ایک ’ حفیظ و علیم “ شخصیت کی حیثیت سے قبول کیا تاکہ عوام کے مفاد میں بیت المال کی حفاظت کریں اور اسے انہی کے مفاد میں خرچ کریں خصوصاً مستضعف اور محروم کے حقوق کو جو اکثر معاشروں میں پامال ہوتے ہیں ان تک پہنچائیں ۔

علاوہ ازیں جیسا کہ ہم نے کہا ہے وہ علم و تعبیر کے ذریعے جانتے تھے کہ مصری قوم کو ایک شدید اقتصادی بحران پیش آنے والا ہے لہٰذا اس کے مقابلے کے لئے دقیق پروگرام اور قریب سے اس کی نگرانی کے بغیر ممکن تھا کہ بہت سے لوگ تباہ و بر باد ہو جاتے، لہٰذا اس مصیبت سے عوال کی نجات اور بے گناہ انسانوں کی جان کی حفاظت کے لئے ضروری تھا کہ حضرت یوسفعليه‌السلام کو جو موقع مل رہا تھا اس سے فائدہ اٹھاتے اور تمام لوگوں خصوصاً محروم عوام کے لئے اس سے استفادہ کرتے کیونکہ اقتصادی بحران اور قحط سالی میں سب سے زیادہ خطرہ انہیں لوگوں کی جان کو تھا اور بحرانوں کی پہلی قربانی یہی لو گ ہوتے ہیں ۔

فقہ میں ظالم کی حکومت قبول کرنے کی بحث میں بھی یہ بات تفصیل سے آئی ہے کہ ظالم کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا ہمیشہ حرام نہیں ہوتا بلکہ کبھی مستحب بھی ہوتا ہے اور ایسا اس صورت میں ہوتاہے جب اس منصب کو قبول کرنے کے فوائد اور دینی تقاضے اس کی حکومت کی تقویت پہنچنے کے نقصانات سے زیادہ ہوں ۔

متعدد روایات میں آیاہے کہ آئمہ اہل بیتعليه‌السلام بھی اپنے قریبی ساتھیوں کو اس قسم کی اجازت دے دیتے تھے مثلاً علی بن یقطین امام موسی کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ انھوں نے اپنے زمانے کے فرعون ہارون رشید کی وزارت امامعليه‌السلام کی اجازت سے قبول کی ۔

بہرصورت اس قسم کے مناصب قبول کرنے یا رد کرنے کا انحصار ’ قانون ِ اہم و فہم “ پر ہے ۔ اس کے نفع و نقصان کو دینی اور اجتماعی لحاظ سے پرکھا جانا چاہیئے ۔ بہت سے مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ ایسا عہدہ قبول کرنا ظالم کی معزولی پر منتج ہوتا ہے ۔ جیسا کہ بعض روایات کے مطابق حضرت یوسفعليه‌السلام کے ساتھ بھی یہی اتفاق ہوا اور کبھی ایسا عمل بعد ازآں انقلاب و قیام کا سر چشمہ بن جاتا ہے کیونکہ منصب قبول کرنے والا شخص حکومت کے اندر سے انقلاب کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ شاید مومن آل ِ فرعون اسی قسم کی ایک مثال تھے ۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایسے افراد مظلوموں اور محروموں کے لئے پناہ گاہ بن جاتے ہیں اور ان کے لئے حکومتی ظلم میں کمی کاباعث بن جاتے ہیں ان مقاصد میں سے کوئی ایک بھی حاصل ہورہا ہوتو ایسے عہدہے قبول کرنے کا جواز بن جاتا ہے ۔

ایک مشہور روایت میں امام صادقعليه‌السلام ایسے ہی افرد کے بارے میں فرماتے ہیں :

کفارة عمل السلطان قضاء حوائج الاخوان

ظالم حکومت کا ساتھ دینے کا کفارہ یہ ہے کہ بھائیوں کی ضروریات پوری کی جائیں ۔(۱)

لیکن یہ مسئلہ ایسے مسائل میں سے ہے کہ جن میں حلال و حرام کی سر حد ایک دوسرے کے بہت نزدیک ہوتی ہے ۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ انسان تھوڑی سی سہل انگاری کی وجہ سے غلط طور پر ظالم کا ساتھ دینے لگتا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے جب کہ وہ سمجھ رہاہوتا ہے کہ میں عبادت اور خدمت خلق میں مشغول ہوں ۔

بعض اوقات سوء استفادہ کرنے والے افراد حضرت یوسفعليه‌السلام یا علی بن یقطین کا نام غلط طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں حالانکہ ان کے کام کوحضرت یوسفعليه‌السلام اور علی بن یقطین سے کوئی نسبت نہیں ہوتی ۔(۲)

یہاں ایک اور سوال سامنے آتا ہے ، وہ یہ کہ مصر کا ظالم بادشاہ اس کے لئے کیسے تیار ہو گیا جب کہ وہ جانتا تھا کہ حضرت یوسف ظلم و ستم استعماری ہتھکنڈوں اور استشمار کے لئے ہر گز تیار نہ ہوں گے بلکہ اس کے برعکس اس کے مظالم میں رکاوٹ بنیں گے ۔

ایک نکتے کی طرف توجہ کی جائے تو اس سوال کا جواب چندان مشکل نہیں رہتا ، وہ یہ کہ بعض اوقات معاشرتی اور اقتصادی بحران اس طرح کے ہوتے ہیں کہ خود سروں کی حکومت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیتے ہیں اسی طرح سے کہ انہیں اپنی ہر چیز خطرے میں نظر آتی ہے ۔ ایسے مواقع پر ہلاکت سے بچنے کے لئے وہ یہاں ک تیار ہو جاتے ہیں کہ ایک عادلانہ عموامی حکومت کو قبول کرلیں تاکہ اپنے آپ کو بچا سکیں ۔

۲ ۔ اقتصادی مسائل اور انتظامی صلاحیت کی اہمیت :

بعض مکاتب بالکل یک جہتی ہیں اور ہر چیز کو اقتصادی پہلو میں منحصر سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے انسان اور اس کے وجودکی مختلف جہات کو نہیں پہنچانا ۔ ہم اگر چہ ان مکاتب سے اتفاق نہیں کرتے تا ہم معاشروں کی زندگی میں خصوصیت سے اتصادی مسائل کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔مندر جہ بالا آیات بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کیونکہ تمام مناصب میں سے حضرت یوسفعليه‌السلام نے وزارت خزانہ کا انتخاب کیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کہ اگر انہوں نے اسے ٹھیک کرلیا تو مصر کی زیادہ تر پریشانیاں دور ہو جائیں گی اور عدالت ِ اقتصادی کے ذریعے وہ دوسری مشکلات پر بھی قابو پا سکیں گے ۔

اسلامی روایات میں بھی اس موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔ ان میں سے ایک مشہور حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے جس میں لوگوں کی روحانی او رمادی زندگی (قوام الدین و الدنیا )کی حقیقی دو بنیادوں میں سے ایک اقتصادی مسائل بیان کی گئی جب کہ دوسری آگہی اور علم و دانش کو شمار کیا گیا ہے ۔ گر چہ مسلمانوں نے ابھی تک اس اہمیت کی طرف توجہ نہیں کی کہ جو اسلام نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اس حصے کو دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان زندگی کے اس حصے میں اپنے دشمنوں سے پیچھے رہ گئے ہیں اور پس ماندہ ہیں ۔

لیکن مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں روز بروز بیداری اور آگاہی میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے ۔ اس سے امید بندھتی ہے کہ مستقبل میں مسلمان اقتصادی میدان میں کاوشوں کو ایک بہت بڑی اسلامی عبادت سمجھتے ہوئے انجام دینے لگیں کے اور اس لحاظ سے اسلام کے بے رحم دشمنوں کی نسبت جو پس ماندگی ہے اسے دور کریں گے ۔

ضمناً حضرت یوسفعليه‌السلام نے یہ جو کہا ہے کہ : ”( انی حفیظ علیم ) “ ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کے کسی حساس منصب کو قبول کرنے کے لئے صرف امانت داری ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیت بھی ضروری ہے اور اس کے علاوہ علم و آگاہی اور مہارت بھی ضروری ہے کیونکہ آپ نے ”حفیظ“کے ساتھ ساتھ ” علیم “ بھی کہا ہے ۔

ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ بے خبری ، عدم مہارت اور انتظامی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے جو خطرات پیدا ہوتے ہیں وہ خیانت سے پیدا ہونے والے خطرات سے کم نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات اس سے بد تر اور زیادہ ہوتے ہیں ۔

ان واضح اسلامی تعلیمات کے باوجود معلوم نہیں بعض مسلمان انتطامی صلاحیت اور علم و آگہی کے مسئلے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور عہدے سپرد کرنے کے لئے وہ صرف امانت و دیانت کو شرائط سمجھتے ہیں حالانکہ پیغمبر اسلام اور حضرت علیعليه‌السلام کی دور حکومت میں ان کی سیرت نشاندہی کرتی ہے کہ وہ بزرگوار آگاہی اور انتطامی صلاحیت کو امانت و دیانت کی طرح اہمیت دیتے تھے ۔

۳ ۔ مصارف کی نگرانی :

اقتصادی مسائل میں صرف زیادہ سے زیادہ اجناس پیدا کرنے کا مسئلہ نہیں ہے ۔ بعض اوقات مصارت او رمخارج پر کنٹرول کرنا اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام نے اپنے دورِ حکومت میں فراوانی نعمت کے سات سالوں میں مصارف پر سختی سے کنٹرول کیا تاکہ اجناس کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ سختی کے سالوں کے لئے بچا کر کھ سکیں ۔

در حقیقت یہ دونوں چیزیں ایک دوسر ے سے جدا نہیں ہوسکتیں ۔ زیادہ پیدا وار اس وقت مفید ہو تی ہے جب اسے زیادہ صحیح طور پر کنٹرول کرکے استعمال کیا جا سکے اور مصارف پر کنٹرول اس وقت زیادہ مفید ہے جب اس کے ساتھ پیداوار بھی زیادہ ے زیادہ ہو۔

مصر میں حضرت یوسفعليه‌السلام کی اقتصادی سیاست سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ترقی پذیر اقتصادی نظام صرف زمانہ حال پر نظر نہیں رکھتابلکہ آئندہ پر بھی نظر رکھتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی نظر ہوتی ہے اور یہ انتہائی خود غرضی ہے کہ ہم صرف اپنے آ کے منافع کی فکر میں رہیں مثلاًزمین میں موجود تمام ذخائر کو لوٹ لیں اور آئندہ آنے والوں کی کوئی فکر نہ کریں اور یہ نہ سوچین کہ وہ کن حالات میں زندگی بسر کریں گے کیا ہمارے بھائی صرف وہی ہیں جو آج ہمارے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور بعد میں آنے والے ہمارے کچھ نہیں لگتے؟

یہ بات جاذب نظر ہے کہ بعض اوقات روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام نے مصر کے لوگوں میں طبقاتی فاوت او رلوٹ کسوٹ کو ختم کرنے کے لئے قحط کے سالوں سے استفادہ کیا ۔ آپ نے زیادہ پیداوار کرکے عرصے میں لوگوں سے غذائی مواد خرید لیا اور اس کے لئے تیارکئے گئے بڑے بڑے گواموں میں اسے ذخیرہ کیا ۔ جب یہ سال گذر گئے اور قحط کے سال شروع ہوئے تو پہلے سال اجناس کو درہم و دینار کے بدلے بیچا ۔ اس طرح کرنسی کا ایک بڑا حصہ جمع کرلیا ۔ دوسرے سال اسباب زینت اور جواہرات کے بدلے اجناس کو بیچا۔

البتہ جن کے پاس یہ چیزیں نہ تھیں انہیں مستثنیٰ رکھا ۔ تیسرے برس چوپایوں کے بدلے ، چوتھے برس غلاموں اور کنیزوں کے عوض ، پانچویں برس عمارات کے بدلے ، چھٹے برس زرعی زمینوں اور پانی کے عوض اور ساتویں خود مصر کے لوگوں کے بدلے اجناس دیں ۔ پھر یہ سب چیزیں انہیں ( عادلانہ طور پر ) واپس کردیں اور کہا کہ میرا مقصد یہ تھا کہ عوام کو بلا ؤ مصیبت اور بے سروسامانی سے نجاد دلواں ۔(۳)

۴ ۔ اپنی تعریف یا اپنا تعارف :

اس میں اس میں شک نہیں کہ اپنی تعریف کرنا ایک ناپسند یدہ کام ہے لیکن اس کے باوجود یہ کلی قانون نہیں بعض اوقات حالات کا تقاضا ہوتا ہے اورضروری ہوتا ہے کہ انسان معاشرے کو اپنا تعارف کروائے تاکہ لوگ اسے پہچانیں اور اس کی مختلف خوبیوں اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں اور وہ ایک پوشیدہ اور متروک خزانے کی طرح نہ رہ جائے ۔

مندرجہ بالاآیات میں بھی ہم نے پڑھا ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام نے مصر کی وزارت ِ خزانہ کئے منصب کے لئے آپ کو تجویز کرتے ہوئے ” حفیظ علیم “ کے الفاظ سے اپنی تعریف کی کیونکہ ضروری تھا کہ بادشاہ ِ مصر اور دوسرے لو گ جان لیں کہ آپ ایسی صفات کے حامل ہیں جو اسے شعبے کی سر پرستی کے لئے بہت ہی ضروری ہیں ۔

اسی لئے تفسیر عیاشی میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپعليه‌السلام سے سوال کیا گیا : کیا جائز ہے کہ انسان آپ اپنی تعریف کرے ۔

آپعليه‌السلام نے فرمایا :نعم ،اذا اضطر الیه اما سمعت قول یوسف اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم وقول العبد الصالح و انا لکم ناصح امین ۔

جی ہاں ! جب اس کے سوا چارہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ کیا تو نے حضرت یوسفعليه‌السلام کا قول نہیں سنا ۔ انہوں نے فرمایا : مجھے زمین کے خزانوں پر مقر کردو کیونکہ میں امین او رآگاہ ہوں ۔ اسی طرح خدا کے عبد صالح ہودعليه‌السلام نے فرمایا :میں تمہارے لئے خیراخواہ اور امین ہوں ۔(۴)

یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ خطبہ شقشقیہ اور نہج البلاغہ کے دیگر خطبوں میں حضرت علیعليه‌السلام نے جو اپنی تعریف کی ہے اور اپنے آپ کو محور ِ خلافت کا قب قرار دیا ہے کہ جس کی اوج فکر اور مقام ِ والا تک فکر انسانی کا پرندہ پر نہیں مارسکتااور علوم کی آبشار ان کے کوہسار وجود سے گرتے ہیں ۔ اور اسی قسم کی دیگر تعریفیں سب اس لئے ہیں کہ نا آگاہ اور بے خبر لوگ ا ٓپ کے مقام کو سمجھیں اور آپ کے گنجینہ وجود سے معاشرے کی بہبود کے لئے استفادہ کریں ۔

۵ ۔ روحانی اجر بہتر ہے :

اگر چہ بہت سے نیک لوگوں کو اس جہان میں مادی اجر مل جاتا ہے جیساکہ حضرت یوسفعليه‌السلام نے اپنی پاکدامنی ، صبر ، پارسائی اور تقویٰ کا نتیجہ اسی دنیا میں پالیا اور اگر وہ پاکدامن نہ ہوتے تو ہرگز اس مقام تک نہ پہنچتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام لوگوں کو اس قسم کی توقع رکھنا چاہئیے اور اگر انہیں مادی اجر نہ ملے تو وہ یہ گمان کرنے لگ جائیں کہ ان پر ظلم ہوا ہے کیونکہ اصلی اجر توو ہ ہے جو آئندہ زندگی میں انسان کے انتظار میں ہے ۔

شاید اسی اشتباہ رفع کرنے اور اس توہم کو دور کرنے کے لئے قرآن زیر بحث ِ آیات میں حضرت یوسفعليه‌السلام کے دنیا وی اجر کا ذکر کرکے بعد مزید فرماتا ہے :( ولاجر الاٰخرة خیر للذین اٰمنوا وکانوا یتقون )

اہل ایمان اور صاحبان تقویٰ کے لئے اجر آخرت برتر و بہتر ہے ۔

۶ ۔قیدیوں کے حقوق کی حمایت :

قید خانوں میں ہمیشہ نیک لوگ ہی نہیں رہے ۔ ان میں کبھی بے گناہ رہے ہیں اور کبھی مجرم لیکن ہر صورت میں اصول ِ انسانی کا تقاضا ہے کہ انسانی حقوق کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئیے ۔ ہوسکتا ہے کہ آج کی دنیا یہ سمجھے کہ قید یوں کے حقوق کی آواز اسی دور میں بلند ہو ئی ہے لیکن اسلام کی پر افتخار تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی حکومت کی ابتداہی میں قید یوں کے بارے میں نصیحتیں فرمائیں نیز حضرت علیعليه‌السلام نے اپنے ظالم قاتل عبد الرحمن بن ملجم مرادی کے بارے میں جو وصیت فرمائی وہ تو ہم سب نے سنی ہے کہ آپعليه‌السلام نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے یہاں تک کہ آپعليه‌السلام نے اپنے لئے آنے والا دودھ اس کے لئے بھیجا اور اسے قتل کرنے کے بارے میں فرمایا: اسے ایک سے زیادہ ضرب نہ لگائی جائے کیونکہ اس نے صرف ایک ضرب لگائی ہے ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام بھی جب قید خانہ میں تھے تو آپ قیدیوں کے لئے مہربان رفیق ، دلسوز ساتھی اور خیر خواہ مشیر تھے اور جب آپ قید خانہ سے جانے لگے تو سب سے پہلے آپ نے دنیا کی توجہ قید یوں کے حالت کی طرف مبذول کرائی اور ان کے حقوق کی حمایت کی اور ان سے اظہار ِ ہمدردی کیا ۔ آپ نے حکم کہ قید خانہ کے دروازے پر عبارت لکھیں :

هٰذا قبور الاحیاء، و بیت الاحزانو تجربة الاصدقاء و شماتة الاعداء

یہ زندوں کا قبرستان ہے غموں کا گھر ہے ، دوستوں کی آزمائش گاہ ہے اور دشمنوں کی سر زنش کی جگہ ہے ۔ ۵

حضرت یوسفعليه‌السلام نے یہ دعا کرتے ہوئے قیدیوں سے اپنے لگاؤ کاظہارکیا :

اللهم اعطف علیهم بقلوب الاخیار ، ولا تعم علیهم الاخبار ۔

بارالہٰا ! اپنے نیک بندوں کے دل ان کی طرف متوجہ کردے اور ان سے خبروں کو پوشیدہ نہ رکھ ۔ ۶

یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں :

فذٰلک یکون اصحاب السجن اعرف الناس بالاخبار فی کل بلدة

یہی وجہ ہے کہ ہر شہر میں قیدی اس شہر کی خبروں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں ۔

اس بات کو خود ہم نے قید کے دوران آزامایاہے ۔ استثنائی مواقع کے علاوہ قیدیوں تک ایسی ایسی خبریں عجیب مخفی طریقوں سے پہنچ جاتی تھیں کہ جن سے قید خانے کے مامور آگاہ نہیں ہوتے تھے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ قید خانے میں آنے والے نئے قیدیوں کو قید خانے میں ایسی خبریں سننے کو ملتیں جن سے وہ باہر آگاہ نہ ہوتے تھے ۔

اب اگر ہم اس کی مثالوں میں پڑگئے تو مقصد سے دور ہو جائیں گے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشیعہ جلد ۲ ص ۱۳۹ ( سفینة البحار جلد ۲ ص۲۵۲ پر اسی قسم کا مضمون امام کاظم علیہ السلام سے علی بن یقطین کے بارے میں منقول ہے ) ۔

یہ روایت بھی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

۲۔کئی ایک روایات جو امام علی بن موسیٰ رضاعليه‌السلام سے منقول ہیں ، میں ہے کہ کچھ افراد جو اسلامی معیاروں سے ناآشنا تھے بعض اوقات آپعليه‌السلام پر اعتراض کرتے کہ آپعليه‌السلام نے اس زہد و تقویٰ اور دنیا سے بے اعتنائی کے باوجود مامون کی ولی عہدی کو قبول کرلیا ہے ۔ امامعليه‌السلام نے جواب میں فرمایا: کیا پیغمبر افضل ہے یا وصی پیغمبر ؟ انہوں نے کہا نہیں پیغمبر ہی افضل ہے ۔ فرمایا : کون افضل ہے مسلمان یا مشر ک ؟ انہوں نے عرض کیا: مسلمان، فرمایا عزیز مصر مشرک تھا اور یوسف پیغمبر تھے اور مومون ( ظاہراً) مسلمان ہے اور میں پیغمبر کا وصی ہوں اور یوسفعليه‌السلام نے عزیز مصر سے چاہا کہ انہیں مصر کے خزانوں پر مامون کریں اور کہا کہ میں حفیظ و علیم ہوں اور جب کہ میں اس منصب کو قبول کرنے پر مجبور تھا ۔( وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۱۴۶) ۔

۳۔ اس حدیث کو اختصارسے ذکر کیا گیاہے اورصرف مفہوم پیش کیا گیا ہے ۔ یہ امام علی بن موسیٰ رضاعليه‌السلام سے منقول ہے ۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۵ ص ۲۴۴۔ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۴ تفسیرالثقلین جلد ۲ ص ۴۳۳۔

۵۔نور الثقلین ، جلد ۲ ص ۴۳۲۔

۶-نور الثقلین ، جلد ۲ ص ۴۳۲۔

۵ ۔( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ۔

پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مددچاہتے ہیں ۔

انسان کے دربار خدا میں

یہاں سے ابتداء ہوتی ہے انسان کے دربار خدا میں پیش ہو کر حاجات اور تقاضوں کو بیان کرنے کی۔ حقیقت میں گفتگو کا لب و لہجہ یہاں سے بدل جاتا ہے کیونکہ گذشتہ آیات میں خدا کی حمد وثنا اور اس کی ذات پاک پر ایمان کا اظہار نیز قیامت کا اعتراف تھا۔ لیکن یہاں سے گویا بندہ اس محکم عقیدہ اور معرفت پروردگار کی وجہ سے اپنے آپ کو اس کے حضور اور اس کی ذات پاک کے روبرو دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اسے مخاطب کرکے پہلے اپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے اور پھر اس سے طلب امداد کے لئے گفتگو کرتے ہوء کہتا ہے کہ میں صرف تیری پرستش کرتاہو اور تجھی سے مدد چاہتا ہوں( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب گذشتہ آیات کے مفاہیم انسان کی روح میں سرایت کرجاتا ہیں ، اس کے وجود کی گہرائیاں اس اللہ کے نور سے روشن ہوجاتی ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اس کی عمومی و خصوصی رحمت اور روز جزا کی مالکیت کو جان لیتا ہے تو اب عقیدے کے لحاظ سے فرد کامل نظر آنے لگتا ہے۔ توحید کے اس گہرے عقیدے کا پہلا ثمرہ اور نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف انسان خدا کا خالص بندہ بن جاتا ہے، بتوں جباروں اور شہوات و خواہشات کی عبادت کے دائرے سے نکل آتا ہے اور دوسری طرف طلب امداد کے لئے اس کی ذات پاک کی طرف ہاتھ پھیلانے کے قابل ہوجاتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ آیات توحید ذات وصفات بیان کررہی ہیں اور یہاں توحید عبادت اور توحید افعال سے متعلق گفتگو ہے۔

توحید عبادت یہ ہے کہ کسی شخص یا چیز کو ذات خدا کے علاوہ پرستش کے لائق نہ سمجھا جائے،صرف اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔ صرف اس کے قوانین و احکام کو قبول کیاجائے اور اس کی ذات پاک کے علاوہ کسی کی کسی قسم کی عبادت و بندگی کرنے اور کسی اور کے سامنے سر افکندہ ہونے سے پرہیز کیا جائے۔

توحید افعال یہ ہے کہ سارے جہاں میں موثر حقیقی اسی کو سمجھا جائے (لامو‌ثر فی الوجود الا الله ، یعنی اللہ کے علاوہ کوئی موثر وجود نہیں رکھتا)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عالم اسباب کا انکار کردیا جائے اور سبب کی تلاش نہ کی جائے بلکہ ہمیں یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ ہر سبب کی یہ تاثیر حکم خدا کے تابع ہے وہی ہے جس نے آگ کو جلانے، سورج کو روشنی دینے اور پانی کو حیات بخشنے کی تاثیر دی ہے۔

اس عقیدے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان صرف اللہ پر بھروسہ کرے گا اور قدرت و عظمت کو اسی سے مربوط سمجھے گا اور اس کا غیر اس کی نظر میں فانی، زوال پذیر اور فاقد قدرت ہوگا۔

صرف خدا کی ذات قابل اعتماد و ستائش ہے اور یہ لیاقت رکھتی ہے کہ انسان اسے تمام چیزوں میں اپنا سہارا قرار دے یہ فکر اور اعتماد انسان کا ناطہ تمام موجودات سے توڑ کر صرف خدا سے جوڑ دے گا۔ یہاں تک کہ اب وہ عالم اسباب کی تلاش بھی حکم خدا کے تحت کرتا ہے یعنی اسباب میں بھی وہ قدرت خدا کا مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ خدا ہی مسبب الاسباب ہے۔

۱ ۔ آیت میں حصر کا مفہوم :

عربی ادبیات کے قوعد کے مطابق جب مفعول، فاعل پر مقدم ہوجائے تو اس سے حصر کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یہاں بھی ایاک ، کا نعبد اورنستعین پر مقدم ہونا دلیل حصر ہے۔ اور اس کا نتیجہ وہی توحید عبادت اور توحید افعال ہے جسے ہم پہلے بیان کرآئے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندگی اورعبودیت میں بھی ہم اس کی مدد کے محتاج ہیں اور اس کے لئے بھی ہم اسی سے طلب اعانت کرتے ہیں تاکہ کہیں انحراف، خود پسندی، ریاکاری اور ایسے دیگر امور میں گرفتار نہ ہوجائیں کیونکہ یہ چیزیں عبودیت کوریزہ ریزہ کردیتی ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ ہم پہلے جملے میں کہتے ہیں کہ ہم صرف تیری پرستش کرتے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ استقلال کی بو آتی ہے لہذا فورا ایاک نستعین سے ہم اس کی اصلاح کرلیتے ہیں اس طرح بین الامرین(نہ جبر نہ تفویض) کو اپنی عبادت میں جمع کرلیتے۔ یہ حالت ہمارے تمام کاموں کے لئے ایک نمونہ ہے۔

۲ ۔( نعبد و نستعین ) اور اسی طرح بعد کی آیات میں جمع کے صیغے آئے ہیں ۔

یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصا نماز کی اساس جمع و جماعت پر رکھی گئی ہے یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنے راز و نیاز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو جماعت و اجتماع کے ساتھ شمار کرے چہ جائے کہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔ اس بناء پر ہر قسم کی انفرادیت علیحدگی، گوشہ نشینی اور اس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود قرار پاتی ہیں ۔

نماز میں اذان و اقامت (جو نماز کے لئے اجتماع کی دعوت ہے)سے لے کرحی علی خیرالصلواة (نماز کی طرف جلدی آو)سے گزرتے ہوئے سورہ الحمد تک جو نماز کی ابتداء اورالسلام علیکم تک جو نماز کااختتام ہے، سب اس امر کی دلیل ہے کہ یہ عبادت در اصل اجتماعی پہلو رکھتی ہے یعنی اسے صورت جماعت میں انجام پذیر ہونا چاہئے اگر چہ یہ صحیح ہے کہ نماز فرادی بھی اسلام میں صحیح ہے لیکن عبادت فرادی جنبہ فرعی کی حامل ہے اور ایسی عبادت دوسرے درجے کی عبادت قرار پاتی ہے۔

۳ ۔ طاقتوں کے ٹکراؤ کے وقت استعانت خدا کی طلب :

انسان اس جہاں کئی ایک طاقتوں سے نبرد آزما ہے۔ چاہے وہ طاقتیں طبیعی و مادی ہوں یا انسان کے اندر کی طاقتیں ۔ تباہ و برباد اور منحرف کرنے والی چیزوں کا مقابلہ کرنے کےلئے انسان کو یارو مددگار کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے جہاں انسان اپنے تئیں پروردگار کے سایہ رحمت کے سپرد کرتا ہے۔ ہر روز انسان بستر خواب سے اٹھتا ہے اور ایاک نعبد و ایاک نستعین کی تکرار سے پروردگار کی عبودیت کا اعتراف کرکے اس کی ذت پاک سے اس بڑے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے اور شام کے وقت بھی اسی جملے کی تکرار سے سر اپنے بستر پر رکھتا ہے گویا اس کی یاد سے اٹھتا ہے۔ اور اسی کو یاد کرتے ہوئے طلب استعانت کے بعد سوتا ہے۔ ایسا شخص کتنا خوش نصیب ہے ۔ یہی شخص ایمان کے اس درجے پر پہنچ جاتا ہے کہ پھر کسی سرکش و طاقت ور کے سامنے سر نہیں جھکاتا اور مادیات کی کشمش کے مقابلے میں اپنے آپ کو دھوکا نہیں دیتا اور وہ پیغمبر اسلام(ص) کی پیروی میں کہتا ہے :( ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی لله رب العالمین ) ۔

یقینا میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اس خدا کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔ (الانعام، ۱۶۲) ۔

۶ ۔( اهدنا الصراط المستقیم )

ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت فرما۔

تفسیر

صراط مستقیم پر چلنا

پرور دگار کے سامنے اظہار تسلیم، اس کی ذات کی عبودیت ، اس سے طلب استعانت کے مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد بندے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اسے سیدھی راہ، پاکیزگی و نیکی کی راہ، عدل و داد کی راہ اور ایمان و عمل صالح کی ہدایت نصیب ہو۔ تاکہ خداجس نے اسے تمام نعمتوں سے نوازا ہے ہدایت سے بھی سرفراز فرمائے۔

اگر چہ یہ انسان ان حالات میں مومن ہے اور اپنے خدا کی معرفت رکھتا ہے لیکن یہ امکان ہے کہ کسی لحظے یہ نعمت کچھ عوامل کے باعث اس سے چھن جائے اور یہ صراط مستقیم سے منحرف اور گمراہ ہوجائے لہذا چاہئے کہ شب و روز میں دس مرتبہ اپنے خدا سے خواہش کرے کہ اسے کوئی لغزش و انحراف در پیش نہ ہو۔

یہ صراط مستقیم جو باالفاظ دیگر آئین و دستور حق ہے کے کئی مراتب و درجات ہں تمام افراد ان مدارج کو برابر طے نہیں کرتے انسان جس قدر ان درجات کو طے کرے اس سے بلند تر درجات موجود ہیں ۔ پس صاحب ایمان کو چاہئے کہ وہ خدا سے خواہش و دعا کرے کہ وہ اسے ان درجات کی ہدایت کرے۔

یہاں یہ مشہور سوال سامنے آتا ہے کہ ہم ہمیشہ خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کی درخواست کرتے رہتے ہیں ، کیا ہم گمراہ ہیں ؟

اور اگر بالفرض یہ بات ہمارے لئے درست ہے تو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اہل بیت جو انسان کامل کا نمونہ ہیں ان کے لئے کیونکر صحیح ہے؟؟

اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

جیسے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ انسان کے لئے راہ ہدایت میں ہر لمحہ لغزش و کجروی کا خوف ہے لہذا چاہئے کہ اپنے آپ کو پروردگار کے اختیار میں دیدے اور اس سے تقاضا کرے کہ وہ اسے سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھے۔ ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وجود ہستی اور دیگر تمام نعمات لمحہ بہ لمحہ اس مبداء عظیم ہی سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ اس سے قبل بھی کہا جا چکا ہے کہ ہماری اور تمام موجودات کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے اگر ہم دیکھیں کہ بلب کی روشنی مسلسل پھیل رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر لحظہ بجلی کے مرکز سے قوت حاصل کر رہی ہے کیونکہ بجلی کے مرکز سے ہر لحظہ نئی روشنی کی تولید جاری ہے اور یہ مربوط تاروں کے ذریعہ اسے بلب تک پہنچاتا ہے ہمارا وجود بھی بلب کی روشنی کی طرح جو بظاہر ایک مستقل پھیلے ہوئے وجود کی طرح ہے لیکن حقیقت میں ہمیں مرکز ہستی، آفریدگار فیاض سے ہر لحظہ ایک نیا وجود ملتا رہتا ہے۔ چونکہ ہمیں ہر لمحہ ایک تازہ وجود میسر آتا ہے اس لئے ہر لمحہ ہم نئی ہدایت کے محتاج ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ خدا اور ہمارے درمیان رابطے کی معنوی تاروں میں اگر کوئی مانع پیدا ہوجائے مثلا بے راہ روی، ظلم، ناپاکی وغیرہ تو اس سے منبع ہدایت کے ساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور یوں ہم صراط مستقیم سے منحرف ہوجائیں گے۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ موانع پیش نہ آئیں اور ہم صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہدایت کے معنی ہیں طریق تکامل کو طے کرنا یعنی انسان تدریجا مراحل نقص پیچھے چھوڑتا جائے اور مراحل بلند تک پہنچتا جائے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ راہ کمال، یعنی ایک کمال سے دوسرے کمال تک پہنچنے کا راستہ نامحدود ہے گویا یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔

اس بنا پر کوئی تعجب نہیں کہ انبیاء و آئمہ علیہم السلام بھی خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کا تقاضہ کریں کیونکہ کمال مطلق تو صرف ذات خدا ہے اور باقی سب بلا استثناء سیرتکامل میں ہیں لہذا کیا حرج ہے کہ وہ بھی خدا سے بالاتر درجات کی تمنا کریں ۔

کیا ہم نبی اکرم (ص( پر درود و سلام نہیں بھیجتے؟ اور کیا درود در اصل محمد و آل محمد پر پروردگار عالم سے نئی رحمت کا تقاضا نہیں ؟ ؟ کیارسول اللہ نہیں فرماتے ؟

رب زدنی علما (خدایا میرے علم(اور ہدایت)کو زیادہ فرما۔

کیا قرآن یہ نہیں کہتا :( ویزید الله الذین اهتدوا هدی ) ۔ یعنی خدا ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے۔ (مریم، ۷۶) ۔

یہ بھی قرآن میں ہے :( والذین اهتدوا ازادهم هدی و اتاهم تقواهم ) یعنی جو ہدایت یافتہ ہیں خدا ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں تقوی عطا کرتا ہے(محمد، ۱۷) ۔

اسی سے نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام پر درود بھیجنے کے متعلق سوال کا جواب مل جاتا ہے۔

ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کی وضاحت کے لئے ذیل کی دو حدیثوں کی طرف توجہ فرمائیں :

۱ ۔ حضرت امیرالمومنین علی(ع) جملہاهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :

یعنی آدم لنا توفیقک الذی اطعناک به فی ماضی ایامنا حتی نطیعک کذلک فی مستقبل اعمادنا ۔

خدا وند ا جو توفیقات تونے ماضی میں ہمیں عنایت کی ہیں ۔ جن کی برکت سے ہم نے تیری اطاعت کی ہے انہیں اسی طرح برقرار رکھ تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رہیں(۱) ۔

۲ ۔ حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :یعنی ارشدنا للزوم الطریق المو‌دی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والمانع من ان نتبع اهوائنا فنعطب او ان ناخذ بآرائنا فنهلک

خدا وندا ہمیں اس راستہ پر جو تیری محبت اور جنت تک ہے ثابت قدم رکھ کہ یہی راستہ ہلاک کرنے والی خواہشات اورانحرافی و تباہ کرنے والی آراء سے مانع ہے(۲) ۔

____________________

۱۔ تفسیر صافی (آیہ مذکورہ) بحوالہ معانی الاخبار و تفسیر امام حسن عسکری۔

۲۔ ایضا۔

صراط مستقیم کیا ہے ؟

آیات قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ صراط مستقیم آئین خدا پرستی، دین حق اور احکام خدا وندی کی پابندی کا نام ہے۔ جیسے سورہ انعام کی آیت ۱۶۱ میں ہے :( قل اننی هدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیما ملة ابراهیم حنیفا و ماکان من المشرکین ) ۔

یعنی کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو سیدھا دین ہے وہ کہ جو اس ابراہیم کا آئین ہے جس نے کبھی خدا سے شرک نہیں کیا۔

دین ثابت یعنی وہ دین جو اپنی جگہ قائم رہے ، ابراہیم کے آئین توحیدی اور ہرقسم کے شرک کی نفی کا تعارف یہاں پر صراط مستقیم کے عنوان سے ہوا ہے اور یہی بات اس اعتقادی پہلو کو مشخص کرتی ہے۔

سورہ یسن آیت ۶۰ ، ۶۱ میں ہے :( الم اعهد الیکم یبنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان، انه لکم عدو مبین، و ان اعبدونی هذا صراط مستقیم ) ۔

اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد و پیمان نہیں لا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا(اس کے احکام پر عمل نہ کرنا)کیونکہ یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم ہے۔

یہاں دین حق کے عمل پہلوؤں کیطرف اشارہ ہے جوہر قسم کے شیطانی فعل اور عملی انحراف کی نفی ہے سورہ آل عمراں آیت ۱۰۱ میں قرآن کے مطابق صراط مستقیم تک پہنچنے کا طریقہ خدا سے تعلق اور ربط پیدا کرنا ہے۔

ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔ جنہوں نے اللہ کے دامن رحمت کو تھامے رکھا انہی نے صراط مستقیم کی ہدایت پائی۔

اس نکتہ کی طرف بھی نظر ضروری ہے کہ صراط مستقیم صرف ایک ہی راستہ ہے کیونکہ دو نقطوں کے درمیان خط مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتا ہے جو نزدیک ترین راستے کو تشکیل دیتا ہے۔

لہذا اگر قرآن کہتا ہے کہ صراط مستقیم در اصل اعتقادی و عملی پہلوؤں سے دین و آئین الہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دین ہی نزدیک ترین راستہ ہے خدا سے ربط پیدا کرنے کا اور یہی وجہ ہے کہ دین حقیقی و واقعی ہے بھی فقط ایک۔( ان الدین عندالله الاسلام ) ۔ دین خدا کے نزدیک اسلام (ہی) ہے۔ (آل عمران ، ، ۱۹) ۔

انشاء اللہ ہم بعد میں بیان کریں گے کہ اسلام ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اس میں ہر وہ آئین توحید شامل ہے جو کسی بھی زمانے میں جاری تھا اور کسی نئے آئین سے منسوخ نہیں ہوا۔

یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ مفسرین نے صراط مستقیم کی جو مختلف تفاسیر بیان کی ہیں ان سب کی برگشت ایک ہی حقیقت کی طرف ہے۔

بعض نے اس کے معنی اسلام کئے ہیں بعض نے قرآن، کچھ مفسرین نے اس سے رسول و آئمہ برحق مراد لئے ہیں اور کچھ نے اللہ کا آئین کہ جس کے علاوہ خدا کو کوئی چیز قبول نہیں ۔ ان تمام معانی کی برگشت اسی دین و آئین الہی کی طرف ہے تمام تر اعتقادی و عملی پہلوؤں کے ساتھ۔

جو روایات مصادر اسلامی میں اس سلسلے میں وارد ہوئی ہں ان میں سے ہر ایک اس مسئلے کے ایک زاویے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سب کی بازگشت ایک ہی اصل کی طرف ہے۔ رسول اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا :الصراط المستقیم صراط الانبیاء وهم الذین انعم الله علیهم

صراط مستقیم انبیاء کا راستہ ہے اور انبیاء وہ ہستیاں ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا۔

امام صادق (ع) کا ارشاداهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں یوں ہے :

الطریق و معرفة الامام ۔ اس سے مراد امام کا راستہ اور اس کی معرفت ہے(۱) ۔

ایک اور حدیث میں امام صادق ہی سے منقول ہے :والله نحن صراط المستقیم ۔ بخدا ہم صراط مستقیم ہیں(۲)

ایک اور حدیث میں امام صادق (ع) نے فرمایا : صراط مستقیم امیرالمومنین علی(ع) ہیں(۳) ۔

یہ مسلم ہے کہ رسول اکرم، امیرالمومنین اور دیگر آئمہ اہل بیت سب کے سب اسی آئین توحید کی دعوت دیتے رہتے ہیں وہ دعوت جس میں اعتقاد بھی ہے اور عمل بھی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ راغب نے کتاب مفردات میں صراط کے معنی میں کہا ہے کحہ صراط کے معنی ہیں سیدھا راستہ لہذا مستقیم ہونے کا مفہوم خود صراط میں مضمر ہے گویا مستقیم ساتھ بطور صفت ہے جو اس مسئلے پر تاکید کے مفہوم میں ہے۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج ۱ ص ۲۱، ۲۰۔

۲۔ ایضا۔۳۔ ایضا۔

۷ ۔( صراط الذین انعمت علیهم غیر المغضوب علیهم والا الضالین ) ۔

ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا۔ ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ وہ کہ جو گمراہ ہوگئے۔

تفسیر

دو انحرافی خطوط

یہ آیت حقیقت میں صراط مستقیم کی واضح تفسیر ہے جسے ہم گذشتہ آیت کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں ۔ دعا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے راستے کی ہدایت فرما جنہیں قسم قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے (نعمت ہدایت و نعمت توفیق، مردان حق کی رہبری کی نعمت، نعمت علم وعمل اور نعمت جہاد و شہادت)۔ ان لوگوں کی راہ نہیں جن کے برے اعمال اور ٹیڑھے عقائد کے باعث تیرا غضب انہیں دامن گیر ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کی راہ جو شاہراہ حق کو چھوڑ کر بے راہ روی کے عالم میں ہیں ، گمراہ و سرگرداں ہیں( صراط الذین انعمت علیهم غیر المغضوب علیهم ولاالضالین ) ۔

حقیقت یہ ہے کہ چونکہ ہم راہ و رسم ہدایت سے پورے طور سے آشنا نہیں لہذا خدا ہمیں دستور ہدایت دے رہا ہے کہ ہم انبیاء ، صالحین اور دیگر وہ لوگ جو نعمت و الطاف الہی سے نوازے گئے ہیں ان کے راستے کی خواہش کریں ۔ نیز ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ تمہارے سامنے دو ٹیڑھے خطوط موجود ہیں ، خط مغضوب علیھم اور خط ضالین ان دونوں کی تفسیر ہم بہت جلد ذکر کریں گے۔

۱ ۔( الذین انعمت علیهم ) کون ہیں :

سورہ نساء آیت ۶۹ میں اس گروہ کی نشاندہی یوں کی گئی ہے :

( ومن یطع الله والرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین، وحسن اولئک رفیقا ) ۔

جو لوگ خدا و رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں خداانہیں ان لوگوں کے ساتھ قرار دے گا جنہیں نعمات سے نوازا گیا ہے اور وہ ہیں انبیاء، صدیقین، شہدائے راہ حق اور صالح انسان اور یہ لوگ بہترین ساتھی ہیں ۔

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اس آیت میں شاید اس معنی کی طرف اشارہ ہو کہ ایک صحیح وسالم، ترقی یافتہ اور مومن معاشرے کی تشکیل کے لئے پہلے انبیاء اور رہبران حق کو میدان عمل میں آنا چاہئے، ان کے بعد سچے اور راست باز مبلغ ہوں جن کی گفتار اور کردار میں ہم آہنگی ہو تاکہ وہ اس راستے سے انبیاء کے مقاصد کو تمام اطراف میں پھیلادیں ۔ فکری تربیت کے اس پروگرام پر عمل در آمد کے دوران میں بعض گمراہ عناصر راہ حق میں حائل ہونے کی کوشش کریں گے۔ ان کے مقابل ایک گروہ کو قیام کرنا چاہئے۔ ان میں سے کچھ لوگ شہید ہوں گے او راپنے خون مقدس سے شجر توحید کی آبیاری کریں گے۔ چوتھے مرحلے میں ان کوششوں کے نتیجے میں صالح لوگ وجود میں آئیں گے اور یوں ایک پاک و پاکیزہ،شائستہ اور معنویت و روحانیت سے پر معاشرہ وجود میں آجائے گا۔

اس لئے ہم روزانہ صبح وشام سورہ حمد میں پے بہ پے خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہم بھی ان چار گروہوں کے طریق حق کے راہی قرار پائیں حق کا راستہ، انبیاء کا راستہ، صدیقین کا راستہ، شہداء کا راستہ اور صالحین کا راستہ ہے۔

واضح ہے کہ ہر زمانے کو انجام تک پہنچانے کے لئے ہمیں ان میں سے کسی خط کی پیروی میں اپنی ذمہ داری کو انجام دینا ہوگا۔

۲ ۔( مغضوب علیهم ) اور( ضالین ) کو ن ہیں :

ان دونوں کو آیت میں الگ الگ بیان کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کسی خالص گروہ کی طرف اشارہ ہے۔

دونوں میں فرق کے سلسلے میں تین تفسیریں موجود ہیں :

۱ ۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ کے استعمال کے مواقع سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغضوب علیھم کا مرحلہ ضالین سے سخت تر اور بدتر ہے۔ بالفاظ دیگر ضالین سے مراد عام گمراہ لوگ ہیں اور مغضوب علیھم سے مراد لجوج (گمراہی پر مصر) یا منافق ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ایک موقعوں پر ایسے لوگوں کے لئے خدا کے غضب اور لعنت کا ذکر ہوا ہے۔

سورہ نحل آیت ۱۰۶ میں آیا ہے :( ولکن من شرح بالکفر صدرا فعلیهم غضب من الله ) ۔

جنہوں نے کفر کے لئے اپنے سینوں کو کھول رکھا ہے ان پر اللہ کا غضب ہے۔

سورہ فتح آیت ۶ میں ہے:( و یعذب المنافقین و المنافقات والمشرکین والمشرکات الظانین بالله ظن السوء علیهم دائرة السوء وغضب الله علیهم و لعنهم و اعدلهم جهنم )

منافقین مرد اور عورتیں اور مشرک مرد اور عورتین جو خدا کے بارے میں برے گمان کرتے ہیں خدا ان سب پر عذاب نازل کرے گا۔ ان سب پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے وہ انہیں اپنی رحمت سے دور رکھتا ہے اور انہی کے لئے اس نے جہنم تیار کررکھی ہے۔

بہرحال مغضوب علیھم وہ ہیں جو راہ کفر میں لجاجت و عناد اورحق سے دشمنی رکھنے کے علاوہ رہبران الہی اور انبیاء مرسلین کو ہر ممکن اذیت و آزار پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

سورہ آل عمران آیت ۱۱۲ میں ہے :( وباء و بغضب من الله و ضربت علیهم المسکنة ذلک بانهم کانو یکفرون بایت الله و یقتلون الانبیاء بغیر حق ذلک بما عصوا وکان یعتدون ) ۔

ان (یہودیوں ) پر خدا کا غضب ہو ا اور انہیں رسوائی نصیب ہوئی کیونکہ وہ انبیاء الہی کو ناحق قتل کرتے تھے اور حدود و شریعت سے تجاوز کے مرتکب ہوتے تھے۔

۲ ۔ مفسرین کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ضالین سے منحرف عیسائی اور مغضوب علیھم سے منحرف یہودی مراد ہیں یہ نظریہ ان دونوں گروہوں کے دعوت اسلام کے مقابلے میں ردعمل کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ قرآن جس طرح مختلف آیات میں صراحت کے ساتھ یاد دہانی کراتا ہے کہ یہودی دعوت اسلام کے بارے میں مخصوص کینہ و عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے اگر چہ ابتداء میں انہی کے علماء لوگوں کو اسلام کی بشارت دیا کرتے تھے لیکن تھوڑا ہی عرصہ گذرا کہ کئی ایک وجوہ(جن کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ) کی بناء پر وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہوگئے ان وجوہ میں ایک ان کے مادہی مفادات کا خطرے میں پڑ جانا بھی تھا۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی پیش رفت روکنے کے لئے ہر ممکن رکاوٹیں کھڑی کرت( آج بھی صیہونیوں کا مسلمانوں کے بارے میں وہی طریق کار ہے)۔

ان حالات میں انہیں مغضوب علیھم سے تعبیر کرنا درست معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یہ تعبیر حقیقت میں ان کے عمل کے باعث تطبیق کی صورت ہے نہ کہ مغضوب علیھم سے صرف یہودی مراد ہیں ۔ رہے نصاری تو اسلام کے بارے میں ان کا موقف اس قدر سخت نہ تھا بلکہ وہ فقط آئین حق کی پہچان میں گمراہ تھے لہذا لفظ ضالین سے عیسائی مراد لئے گئے ہیں اور یہ بھی ایک تطبیق ہے۔

احادیث اسلامی میں بارہا مغضوب علیھم سے یہودی اور ضالین سے عیسائی مراد لئے گئے ہیں ۔ اس کی وجہ پہلے ہی بیان کی جا چکی ہے(۱) ۔

۳ ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ضالین سے وہ گمراہ لوگ مراد ہیں جو دوسروں کو گمراہ کرنے پر مصر نہیں جب کہ مغضوب علیھم وہ لوگ ہیں جو خود تو گمراہ ہیں ہی دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنا ہم رنگ بنانے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔

اس بات کی دلیل وہ آیات ہیں جو ایسے اشخاص کے بارے میں ہیں جو راہ راست کی ہدایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں دوسرے لوگوں کے درمیان میں حائل ہوجاتے ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے :

یصدون عن سبیل اللہ“ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو راہ خدا سے روکتے ہیں ۔ (اعراف، ۴۵) ۔

سورہ شوری آیت ۱۶ کے الفاظ ہیں :( والذین یحاجون فی الله من بعد ما استجیب له حجتهم داحضة عند ربهم و علیهم غضب ولهم عذاب شدید ) ۔

وہ لوگ جو مومنین کی طرف سے دعوت اسلام قبول ہونے کے بعد نبی اکرم(ص) سے جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں ۔ خدا کے ہاں ان کی دلیل وحجت بے اساس ہے۔ ان پر اللہ کا غضب ہے اور سخت عذاب ان کا منتظر ہے۔

باوجود اس کے یوں نظر آتا ہے کہ ان تفاسیر میں جامع تر وہی پہلی تفسیر ہے اور وہ ایسی تفسیر ہے جس میں باقی تفسریں بھی مجتمع ہیں ۔ حقیقت میں باقی تفاسیر اس کے مصادیق میں شمار ہوتی ہیں لہذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم آیت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیں ۔

والحمد لله رب العالمین

(تفسیر سورہ حمد اختتام کو پہنچی)

سورہ بقرہ کے موضوعات

یہ سوره جو قرآن مجیدکی طویل ترین سورتوں میں سے ہے مسلما تمام کی تمام ایک دم نازل نہیں ہوئی بلکہ مختلف وقفوں سے مدینہ میں اسلامی معاشرے کی گوناگوں ضروریات کے مطابق نازل ہوئی ۔

اس کے باوجود اسلام کے اصول اعتقاد اور بہت سے عملی مسائل کی رو سے (جن میں عبادتی، اجتماعی سیاسی اور اقتصادی مسائل شامل ہیں ) اس کی جامعیت ناقابل انکار ہے۔ اس کے موضوعات ایک نظر میں یہ ہیں :

۱ ۔ توحید اور خدا شناسی کے متعلق بحثیں خصوصا وہ جو اسرار افرینش کے موضوع سے متعلق ہیں ۔

۲ ۔ قیامت اور موت کے بعد سے متعلق بحثیں بالخصوص حسی مثالیں ، جیسے حضرت ابراھیم کا واقعہ، پرندوں کا مرنے کے بعد زندہ ہونا اور حضرت عزیر کا واقعہ۔

۳ ۔ قران کے معجزہ ہونے کی بحثیں اور اس آسمانی کتاب کی اہمیت ۔

۴ ۔ یہودیوں اور منافقین کے بارے میں مفصل اور طویل بحثی۔ اسلام اور قرآن کے بارے میں ان کے مخصوص اعتراضات اوراس سلسلے میں ان کی کارستانیں اور رکاوٹیں ۔

۵ ۔ بڑے بڑے انبیاء خصوصا حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت موسی(ع) کی تاریخ کے سلسلے کی بحثیں ۔

۶ ۔ اسلام کے مختلف احکام سے متعلق ابحاث۔ جن میں نماز، روزہ، جہاد فی سبیل اللہ، حج،تغیر قبلہ، نکاح، طلاق، احکام، تجارت وقرض، سود کے بعض اہم احکام اور بہت سی دیگر مخصوص بحثیں شامل ہیں ۔

راہ خدا میں خرچ، مسئلہ قصاص، کئی ایک حرام گوشت، قمار، حرمت شراب، بعض احکام وصیت وغیرہ بھی اس کے موضوعات میں سے ہیں ۔

اس کے نام۔ البقرة۔ کی بناء ایک واقعہ ہے جو بنی اسرائیل میں ایک گائے کے سلسلے میں ہے جس کی تفصیل آیت ۶۷ تا ۷۳ میں انشاء اللہ آئے گی۔

فضیلت سوره بقره

اس سورت کی فضیلت سے متعلق کتب اسلامی میں بہت سی روایات موجود ہیں اس سلسلے میں مرحوم طبرسی نے ایک روایت رسول اکرم(ص) سے مجمع البیان میں نقل کی ہے۔

آپ سے پوچھا گیا :

ای سورة القرآن افضل؟ ۔ قرآن کی کونساسورہ افضل ہے

قال البقرة (فرمایا : سورہ بقرہ)۔

(قرآن کی کونسی آیت افضل ہے؟)

قال آیة الکرسی ۔ (فرمایا : آیة الکرسی)

ظاہرا اس سورت کی افضلیت اس کی جامعیت کی وجہ سے ہے اور آیة الکرسی کی افضلیت اس بناء پر ہے کہ اس میں توحید کے بارے میں بعض اہم امور بیان ہوئے ہیں جس کی تفصیل انشاء اللہ اس کی تفسیر میں آئے گی۔

یہ بات اس سے اختلاف نہیں رکھتی کہ قرآن کی بعض دیگر سورتوں کی کئی ایک جہات کی وجہ سے برتری بیان ہوئی ہے کیونکہ ان کی یہ فضیلت دیگر وجوہ کے پیش نظر ہے۔

حضرت علی بن الحسین کی وساطت سے رسول اکرم (ص) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

جو شخص سورہ بقرہ کی پہلی چار آیات، آیة الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور اس سورہ کی آخری تین آیات پڑھے وہ کبھی بھی اپنی جان و مال میں ناخوشگواری نہ پائے گا۔ شیطان اس کے نزیک نہیں آئے گا اور وہ قرآن کو نہیں بھولے گا( ۱) ۔

ہم یہاں اس اہم حقیقت کا تکرار ضروری سمجھتے ہیں کہ تلاوت قرآن یا سورتوں اور مخصوص آیات کے لئے جو ثواب، فضیلتیں اور ہم فائدے بیان ہوئے ہیں ان کا یہ مفہوم ہرگزنہیں کہ انسان انہیں بطور ورد پڑھے اور صرف زبان چلانے پر اکتفاء کرے بلکہ قرآن کا پڑھنا سمجھنے کے لئے اور سمجھنا غور و فکر کے لئے ہے اور غور و فکر عمل کرنے کے لئے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جو فضیلت کسی سورت یا آیت کے متعلق ذکر ہوئی ہے وہ اس سورت یا آیت کے موضوع سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔

مثلا ہم سورة نور کی فضیلت کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ جو اسے پڑھے گا خدا وند عالم اسے اور اس کی اولاد کو زنا کی آلودگی سے محفوظ رکھے گا۔ تو یہ اس بناء پر ہے کہ سورہ نور کے مضامین میں جنسی کجرویوں سے مقابلے کے لئے اہم رہنمائی موجود ہے۔ مجرد اشخاص کو جلد شادی کرنے کا حکم ہے، پردے کا حکم ہے، بری نگاہ اور ہوس رانی کی نگاہ ترک کرنے کا حکم ہے، نارو اور غلط نسبتوں کی ممانعت ہے اور آخر میں زنا کار مردوں اور عورتوں کے لئے حد شرعی کے اجراء کا حکم دیا گیا ہے۔

واضح ہے کہ سورہ نور کے مفاہیم و موضوعات کسی معاشرے یا خاندان میں عملی جامہ پہن لیں تو وہ زنا سے آلودہ نہیں ہوگا۔

اسی طرح سورہ بقرة کی وہ آیات جن کی طرف اوپر اشارہ ہوچکا ہے سب توحید، ایمان بالغیب، خدا شناسی اور شیطانی وسوسوں سے پرہیز کے بارے میں ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص دل و جان سے ان پر عمل پیرا ہو تو یقینا سب فضائل مذکور اسے حاصل ہوں گے۔

یہ درست ہے کہ قرآن کا پڑھنا بہرحال باعث ثواب ہے لیکن اصلی، اساسی اور آثار چھوڑنے والا ثواب اسی وقت ملے گا جب تلاوت غور و فکر او رعمل کے لئے مقدمہ و تمہید ہو۔

____________________

۱۔ نورالثقلین، ج ۱ ص ۲۶ بحوالہ کتاب، ثواب الاعمال۔

۵ ۔( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ۔

پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مددچاہتے ہیں ۔

انسان کے دربار خدا میں

یہاں سے ابتداء ہوتی ہے انسان کے دربار خدا میں پیش ہو کر حاجات اور تقاضوں کو بیان کرنے کی۔ حقیقت میں گفتگو کا لب و لہجہ یہاں سے بدل جاتا ہے کیونکہ گذشتہ آیات میں خدا کی حمد وثنا اور اس کی ذات پاک پر ایمان کا اظہار نیز قیامت کا اعتراف تھا۔ لیکن یہاں سے گویا بندہ اس محکم عقیدہ اور معرفت پروردگار کی وجہ سے اپنے آپ کو اس کے حضور اور اس کی ذات پاک کے روبرو دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اسے مخاطب کرکے پہلے اپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے اور پھر اس سے طلب امداد کے لئے گفتگو کرتے ہوء کہتا ہے کہ میں صرف تیری پرستش کرتاہو اور تجھی سے مدد چاہتا ہوں( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب گذشتہ آیات کے مفاہیم انسان کی روح میں سرایت کرجاتا ہیں ، اس کے وجود کی گہرائیاں اس اللہ کے نور سے روشن ہوجاتی ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اس کی عمومی و خصوصی رحمت اور روز جزا کی مالکیت کو جان لیتا ہے تو اب عقیدے کے لحاظ سے فرد کامل نظر آنے لگتا ہے۔ توحید کے اس گہرے عقیدے کا پہلا ثمرہ اور نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف انسان خدا کا خالص بندہ بن جاتا ہے، بتوں جباروں اور شہوات و خواہشات کی عبادت کے دائرے سے نکل آتا ہے اور دوسری طرف طلب امداد کے لئے اس کی ذات پاک کی طرف ہاتھ پھیلانے کے قابل ہوجاتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ آیات توحید ذات وصفات بیان کررہی ہیں اور یہاں توحید عبادت اور توحید افعال سے متعلق گفتگو ہے۔

توحید عبادت یہ ہے کہ کسی شخص یا چیز کو ذات خدا کے علاوہ پرستش کے لائق نہ سمجھا جائے،صرف اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔ صرف اس کے قوانین و احکام کو قبول کیاجائے اور اس کی ذات پاک کے علاوہ کسی کی کسی قسم کی عبادت و بندگی کرنے اور کسی اور کے سامنے سر افکندہ ہونے سے پرہیز کیا جائے۔

توحید افعال یہ ہے کہ سارے جہاں میں موثر حقیقی اسی کو سمجھا جائے (لامو‌ثر فی الوجود الا الله ، یعنی اللہ کے علاوہ کوئی موثر وجود نہیں رکھتا)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عالم اسباب کا انکار کردیا جائے اور سبب کی تلاش نہ کی جائے بلکہ ہمیں یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ ہر سبب کی یہ تاثیر حکم خدا کے تابع ہے وہی ہے جس نے آگ کو جلانے، سورج کو روشنی دینے اور پانی کو حیات بخشنے کی تاثیر دی ہے۔

اس عقیدے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان صرف اللہ پر بھروسہ کرے گا اور قدرت و عظمت کو اسی سے مربوط سمجھے گا اور اس کا غیر اس کی نظر میں فانی، زوال پذیر اور فاقد قدرت ہوگا۔

صرف خدا کی ذات قابل اعتماد و ستائش ہے اور یہ لیاقت رکھتی ہے کہ انسان اسے تمام چیزوں میں اپنا سہارا قرار دے یہ فکر اور اعتماد انسان کا ناطہ تمام موجودات سے توڑ کر صرف خدا سے جوڑ دے گا۔ یہاں تک کہ اب وہ عالم اسباب کی تلاش بھی حکم خدا کے تحت کرتا ہے یعنی اسباب میں بھی وہ قدرت خدا کا مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ خدا ہی مسبب الاسباب ہے۔

۱ ۔ آیت میں حصر کا مفہوم :

عربی ادبیات کے قوعد کے مطابق جب مفعول، فاعل پر مقدم ہوجائے تو اس سے حصر کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یہاں بھی ایاک ، کا نعبد اورنستعین پر مقدم ہونا دلیل حصر ہے۔ اور اس کا نتیجہ وہی توحید عبادت اور توحید افعال ہے جسے ہم پہلے بیان کرآئے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندگی اورعبودیت میں بھی ہم اس کی مدد کے محتاج ہیں اور اس کے لئے بھی ہم اسی سے طلب اعانت کرتے ہیں تاکہ کہیں انحراف، خود پسندی، ریاکاری اور ایسے دیگر امور میں گرفتار نہ ہوجائیں کیونکہ یہ چیزیں عبودیت کوریزہ ریزہ کردیتی ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ ہم پہلے جملے میں کہتے ہیں کہ ہم صرف تیری پرستش کرتے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ استقلال کی بو آتی ہے لہذا فورا ایاک نستعین سے ہم اس کی اصلاح کرلیتے ہیں اس طرح بین الامرین(نہ جبر نہ تفویض) کو اپنی عبادت میں جمع کرلیتے۔ یہ حالت ہمارے تمام کاموں کے لئے ایک نمونہ ہے۔

۲ ۔( نعبد و نستعین ) اور اسی طرح بعد کی آیات میں جمع کے صیغے آئے ہیں ۔

یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصا نماز کی اساس جمع و جماعت پر رکھی گئی ہے یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنے راز و نیاز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو جماعت و اجتماع کے ساتھ شمار کرے چہ جائے کہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔ اس بناء پر ہر قسم کی انفرادیت علیحدگی، گوشہ نشینی اور اس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود قرار پاتی ہیں ۔

نماز میں اذان و اقامت (جو نماز کے لئے اجتماع کی دعوت ہے)سے لے کرحی علی خیرالصلواة (نماز کی طرف جلدی آو)سے گزرتے ہوئے سورہ الحمد تک جو نماز کی ابتداء اورالسلام علیکم تک جو نماز کااختتام ہے، سب اس امر کی دلیل ہے کہ یہ عبادت در اصل اجتماعی پہلو رکھتی ہے یعنی اسے صورت جماعت میں انجام پذیر ہونا چاہئے اگر چہ یہ صحیح ہے کہ نماز فرادی بھی اسلام میں صحیح ہے لیکن عبادت فرادی جنبہ فرعی کی حامل ہے اور ایسی عبادت دوسرے درجے کی عبادت قرار پاتی ہے۔

۳ ۔ طاقتوں کے ٹکراؤ کے وقت استعانت خدا کی طلب :

انسان اس جہاں کئی ایک طاقتوں سے نبرد آزما ہے۔ چاہے وہ طاقتیں طبیعی و مادی ہوں یا انسان کے اندر کی طاقتیں ۔ تباہ و برباد اور منحرف کرنے والی چیزوں کا مقابلہ کرنے کےلئے انسان کو یارو مددگار کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے جہاں انسان اپنے تئیں پروردگار کے سایہ رحمت کے سپرد کرتا ہے۔ ہر روز انسان بستر خواب سے اٹھتا ہے اور ایاک نعبد و ایاک نستعین کی تکرار سے پروردگار کی عبودیت کا اعتراف کرکے اس کی ذت پاک سے اس بڑے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے اور شام کے وقت بھی اسی جملے کی تکرار سے سر اپنے بستر پر رکھتا ہے گویا اس کی یاد سے اٹھتا ہے۔ اور اسی کو یاد کرتے ہوئے طلب استعانت کے بعد سوتا ہے۔ ایسا شخص کتنا خوش نصیب ہے ۔ یہی شخص ایمان کے اس درجے پر پہنچ جاتا ہے کہ پھر کسی سرکش و طاقت ور کے سامنے سر نہیں جھکاتا اور مادیات کی کشمش کے مقابلے میں اپنے آپ کو دھوکا نہیں دیتا اور وہ پیغمبر اسلام(ص) کی پیروی میں کہتا ہے :( ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی لله رب العالمین ) ۔

یقینا میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اس خدا کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔ (الانعام، ۱۶۲) ۔

۶ ۔( اهدنا الصراط المستقیم )

ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت فرما۔

تفسیر

صراط مستقیم پر چلنا

پرور دگار کے سامنے اظہار تسلیم، اس کی ذات کی عبودیت ، اس سے طلب استعانت کے مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد بندے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اسے سیدھی راہ، پاکیزگی و نیکی کی راہ، عدل و داد کی راہ اور ایمان و عمل صالح کی ہدایت نصیب ہو۔ تاکہ خداجس نے اسے تمام نعمتوں سے نوازا ہے ہدایت سے بھی سرفراز فرمائے۔

اگر چہ یہ انسان ان حالات میں مومن ہے اور اپنے خدا کی معرفت رکھتا ہے لیکن یہ امکان ہے کہ کسی لحظے یہ نعمت کچھ عوامل کے باعث اس سے چھن جائے اور یہ صراط مستقیم سے منحرف اور گمراہ ہوجائے لہذا چاہئے کہ شب و روز میں دس مرتبہ اپنے خدا سے خواہش کرے کہ اسے کوئی لغزش و انحراف در پیش نہ ہو۔

یہ صراط مستقیم جو باالفاظ دیگر آئین و دستور حق ہے کے کئی مراتب و درجات ہں تمام افراد ان مدارج کو برابر طے نہیں کرتے انسان جس قدر ان درجات کو طے کرے اس سے بلند تر درجات موجود ہیں ۔ پس صاحب ایمان کو چاہئے کہ وہ خدا سے خواہش و دعا کرے کہ وہ اسے ان درجات کی ہدایت کرے۔

یہاں یہ مشہور سوال سامنے آتا ہے کہ ہم ہمیشہ خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کی درخواست کرتے رہتے ہیں ، کیا ہم گمراہ ہیں ؟

اور اگر بالفرض یہ بات ہمارے لئے درست ہے تو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اہل بیت جو انسان کامل کا نمونہ ہیں ان کے لئے کیونکر صحیح ہے؟؟

اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

جیسے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ انسان کے لئے راہ ہدایت میں ہر لمحہ لغزش و کجروی کا خوف ہے لہذا چاہئے کہ اپنے آپ کو پروردگار کے اختیار میں دیدے اور اس سے تقاضا کرے کہ وہ اسے سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھے۔ ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وجود ہستی اور دیگر تمام نعمات لمحہ بہ لمحہ اس مبداء عظیم ہی سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ اس سے قبل بھی کہا جا چکا ہے کہ ہماری اور تمام موجودات کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے اگر ہم دیکھیں کہ بلب کی روشنی مسلسل پھیل رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر لحظہ بجلی کے مرکز سے قوت حاصل کر رہی ہے کیونکہ بجلی کے مرکز سے ہر لحظہ نئی روشنی کی تولید جاری ہے اور یہ مربوط تاروں کے ذریعہ اسے بلب تک پہنچاتا ہے ہمارا وجود بھی بلب کی روشنی کی طرح جو بظاہر ایک مستقل پھیلے ہوئے وجود کی طرح ہے لیکن حقیقت میں ہمیں مرکز ہستی، آفریدگار فیاض سے ہر لحظہ ایک نیا وجود ملتا رہتا ہے۔ چونکہ ہمیں ہر لمحہ ایک تازہ وجود میسر آتا ہے اس لئے ہر لمحہ ہم نئی ہدایت کے محتاج ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ خدا اور ہمارے درمیان رابطے کی معنوی تاروں میں اگر کوئی مانع پیدا ہوجائے مثلا بے راہ روی، ظلم، ناپاکی وغیرہ تو اس سے منبع ہدایت کے ساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور یوں ہم صراط مستقیم سے منحرف ہوجائیں گے۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ موانع پیش نہ آئیں اور ہم صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہدایت کے معنی ہیں طریق تکامل کو طے کرنا یعنی انسان تدریجا مراحل نقص پیچھے چھوڑتا جائے اور مراحل بلند تک پہنچتا جائے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ راہ کمال، یعنی ایک کمال سے دوسرے کمال تک پہنچنے کا راستہ نامحدود ہے گویا یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔

اس بنا پر کوئی تعجب نہیں کہ انبیاء و آئمہ علیہم السلام بھی خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کا تقاضہ کریں کیونکہ کمال مطلق تو صرف ذات خدا ہے اور باقی سب بلا استثناء سیرتکامل میں ہیں لہذا کیا حرج ہے کہ وہ بھی خدا سے بالاتر درجات کی تمنا کریں ۔

کیا ہم نبی اکرم (ص( پر درود و سلام نہیں بھیجتے؟ اور کیا درود در اصل محمد و آل محمد پر پروردگار عالم سے نئی رحمت کا تقاضا نہیں ؟ ؟ کیارسول اللہ نہیں فرماتے ؟

رب زدنی علما (خدایا میرے علم(اور ہدایت)کو زیادہ فرما۔

کیا قرآن یہ نہیں کہتا :( ویزید الله الذین اهتدوا هدی ) ۔ یعنی خدا ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے۔ (مریم، ۷۶) ۔

یہ بھی قرآن میں ہے :( والذین اهتدوا ازادهم هدی و اتاهم تقواهم ) یعنی جو ہدایت یافتہ ہیں خدا ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں تقوی عطا کرتا ہے(محمد، ۱۷) ۔

اسی سے نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام پر درود بھیجنے کے متعلق سوال کا جواب مل جاتا ہے۔

ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کی وضاحت کے لئے ذیل کی دو حدیثوں کی طرف توجہ فرمائیں :

۱ ۔ حضرت امیرالمومنین علی(ع) جملہاهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :

یعنی آدم لنا توفیقک الذی اطعناک به فی ماضی ایامنا حتی نطیعک کذلک فی مستقبل اعمادنا ۔

خدا وند ا جو توفیقات تونے ماضی میں ہمیں عنایت کی ہیں ۔ جن کی برکت سے ہم نے تیری اطاعت کی ہے انہیں اسی طرح برقرار رکھ تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رہیں(۱) ۔

۲ ۔ حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :یعنی ارشدنا للزوم الطریق المو‌دی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والمانع من ان نتبع اهوائنا فنعطب او ان ناخذ بآرائنا فنهلک

خدا وندا ہمیں اس راستہ پر جو تیری محبت اور جنت تک ہے ثابت قدم رکھ کہ یہی راستہ ہلاک کرنے والی خواہشات اورانحرافی و تباہ کرنے والی آراء سے مانع ہے(۲) ۔

____________________

۱۔ تفسیر صافی (آیہ مذکورہ) بحوالہ معانی الاخبار و تفسیر امام حسن عسکری۔

۲۔ ایضا۔

صراط مستقیم کیا ہے ؟

آیات قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ صراط مستقیم آئین خدا پرستی، دین حق اور احکام خدا وندی کی پابندی کا نام ہے۔ جیسے سورہ انعام کی آیت ۱۶۱ میں ہے :( قل اننی هدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیما ملة ابراهیم حنیفا و ماکان من المشرکین ) ۔

یعنی کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو سیدھا دین ہے وہ کہ جو اس ابراہیم کا آئین ہے جس نے کبھی خدا سے شرک نہیں کیا۔

دین ثابت یعنی وہ دین جو اپنی جگہ قائم رہے ، ابراہیم کے آئین توحیدی اور ہرقسم کے شرک کی نفی کا تعارف یہاں پر صراط مستقیم کے عنوان سے ہوا ہے اور یہی بات اس اعتقادی پہلو کو مشخص کرتی ہے۔

سورہ یسن آیت ۶۰ ، ۶۱ میں ہے :( الم اعهد الیکم یبنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان، انه لکم عدو مبین، و ان اعبدونی هذا صراط مستقیم ) ۔

اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد و پیمان نہیں لا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا(اس کے احکام پر عمل نہ کرنا)کیونکہ یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم ہے۔

یہاں دین حق کے عمل پہلوؤں کیطرف اشارہ ہے جوہر قسم کے شیطانی فعل اور عملی انحراف کی نفی ہے سورہ آل عمراں آیت ۱۰۱ میں قرآن کے مطابق صراط مستقیم تک پہنچنے کا طریقہ خدا سے تعلق اور ربط پیدا کرنا ہے۔

ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔ جنہوں نے اللہ کے دامن رحمت کو تھامے رکھا انہی نے صراط مستقیم کی ہدایت پائی۔

اس نکتہ کی طرف بھی نظر ضروری ہے کہ صراط مستقیم صرف ایک ہی راستہ ہے کیونکہ دو نقطوں کے درمیان خط مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتا ہے جو نزدیک ترین راستے کو تشکیل دیتا ہے۔

لہذا اگر قرآن کہتا ہے کہ صراط مستقیم در اصل اعتقادی و عملی پہلوؤں سے دین و آئین الہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دین ہی نزدیک ترین راستہ ہے خدا سے ربط پیدا کرنے کا اور یہی وجہ ہے کہ دین حقیقی و واقعی ہے بھی فقط ایک۔( ان الدین عندالله الاسلام ) ۔ دین خدا کے نزدیک اسلام (ہی) ہے۔ (آل عمران ، ، ۱۹) ۔

انشاء اللہ ہم بعد میں بیان کریں گے کہ اسلام ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اس میں ہر وہ آئین توحید شامل ہے جو کسی بھی زمانے میں جاری تھا اور کسی نئے آئین سے منسوخ نہیں ہوا۔

یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ مفسرین نے صراط مستقیم کی جو مختلف تفاسیر بیان کی ہیں ان سب کی برگشت ایک ہی حقیقت کی طرف ہے۔

بعض نے اس کے معنی اسلام کئے ہیں بعض نے قرآن، کچھ مفسرین نے اس سے رسول و آئمہ برحق مراد لئے ہیں اور کچھ نے اللہ کا آئین کہ جس کے علاوہ خدا کو کوئی چیز قبول نہیں ۔ ان تمام معانی کی برگشت اسی دین و آئین الہی کی طرف ہے تمام تر اعتقادی و عملی پہلوؤں کے ساتھ۔

جو روایات مصادر اسلامی میں اس سلسلے میں وارد ہوئی ہں ان میں سے ہر ایک اس مسئلے کے ایک زاویے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سب کی بازگشت ایک ہی اصل کی طرف ہے۔ رسول اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا :الصراط المستقیم صراط الانبیاء وهم الذین انعم الله علیهم

صراط مستقیم انبیاء کا راستہ ہے اور انبیاء وہ ہستیاں ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا۔

امام صادق (ع) کا ارشاداهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں یوں ہے :

الطریق و معرفة الامام ۔ اس سے مراد امام کا راستہ اور اس کی معرفت ہے(۱) ۔

ایک اور حدیث میں امام صادق ہی سے منقول ہے :والله نحن صراط المستقیم ۔ بخدا ہم صراط مستقیم ہیں(۲)

ایک اور حدیث میں امام صادق (ع) نے فرمایا : صراط مستقیم امیرالمومنین علی(ع) ہیں(۳) ۔

یہ مسلم ہے کہ رسول اکرم، امیرالمومنین اور دیگر آئمہ اہل بیت سب کے سب اسی آئین توحید کی دعوت دیتے رہتے ہیں وہ دعوت جس میں اعتقاد بھی ہے اور عمل بھی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ راغب نے کتاب مفردات میں صراط کے معنی میں کہا ہے کحہ صراط کے معنی ہیں سیدھا راستہ لہذا مستقیم ہونے کا مفہوم خود صراط میں مضمر ہے گویا مستقیم ساتھ بطور صفت ہے جو اس مسئلے پر تاکید کے مفہوم میں ہے۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج ۱ ص ۲۱، ۲۰۔

۲۔ ایضا۔۳۔ ایضا۔

۷ ۔( صراط الذین انعمت علیهم غیر المغضوب علیهم والا الضالین ) ۔

ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا۔ ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ وہ کہ جو گمراہ ہوگئے۔

تفسیر

دو انحرافی خطوط

یہ آیت حقیقت میں صراط مستقیم کی واضح تفسیر ہے جسے ہم گذشتہ آیت کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں ۔ دعا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے راستے کی ہدایت فرما جنہیں قسم قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے (نعمت ہدایت و نعمت توفیق، مردان حق کی رہبری کی نعمت، نعمت علم وعمل اور نعمت جہاد و شہادت)۔ ان لوگوں کی راہ نہیں جن کے برے اعمال اور ٹیڑھے عقائد کے باعث تیرا غضب انہیں دامن گیر ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کی راہ جو شاہراہ حق کو چھوڑ کر بے راہ روی کے عالم میں ہیں ، گمراہ و سرگرداں ہیں( صراط الذین انعمت علیهم غیر المغضوب علیهم ولاالضالین ) ۔

حقیقت یہ ہے کہ چونکہ ہم راہ و رسم ہدایت سے پورے طور سے آشنا نہیں لہذا خدا ہمیں دستور ہدایت دے رہا ہے کہ ہم انبیاء ، صالحین اور دیگر وہ لوگ جو نعمت و الطاف الہی سے نوازے گئے ہیں ان کے راستے کی خواہش کریں ۔ نیز ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ تمہارے سامنے دو ٹیڑھے خطوط موجود ہیں ، خط مغضوب علیھم اور خط ضالین ان دونوں کی تفسیر ہم بہت جلد ذکر کریں گے۔

۱ ۔( الذین انعمت علیهم ) کون ہیں :

سورہ نساء آیت ۶۹ میں اس گروہ کی نشاندہی یوں کی گئی ہے :

( ومن یطع الله والرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین، وحسن اولئک رفیقا ) ۔

جو لوگ خدا و رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں خداانہیں ان لوگوں کے ساتھ قرار دے گا جنہیں نعمات سے نوازا گیا ہے اور وہ ہیں انبیاء، صدیقین، شہدائے راہ حق اور صالح انسان اور یہ لوگ بہترین ساتھی ہیں ۔

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اس آیت میں شاید اس معنی کی طرف اشارہ ہو کہ ایک صحیح وسالم، ترقی یافتہ اور مومن معاشرے کی تشکیل کے لئے پہلے انبیاء اور رہبران حق کو میدان عمل میں آنا چاہئے، ان کے بعد سچے اور راست باز مبلغ ہوں جن کی گفتار اور کردار میں ہم آہنگی ہو تاکہ وہ اس راستے سے انبیاء کے مقاصد کو تمام اطراف میں پھیلادیں ۔ فکری تربیت کے اس پروگرام پر عمل در آمد کے دوران میں بعض گمراہ عناصر راہ حق میں حائل ہونے کی کوشش کریں گے۔ ان کے مقابل ایک گروہ کو قیام کرنا چاہئے۔ ان میں سے کچھ لوگ شہید ہوں گے او راپنے خون مقدس سے شجر توحید کی آبیاری کریں گے۔ چوتھے مرحلے میں ان کوششوں کے نتیجے میں صالح لوگ وجود میں آئیں گے اور یوں ایک پاک و پاکیزہ،شائستہ اور معنویت و روحانیت سے پر معاشرہ وجود میں آجائے گا۔

اس لئے ہم روزانہ صبح وشام سورہ حمد میں پے بہ پے خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہم بھی ان چار گروہوں کے طریق حق کے راہی قرار پائیں حق کا راستہ، انبیاء کا راستہ، صدیقین کا راستہ، شہداء کا راستہ اور صالحین کا راستہ ہے۔

واضح ہے کہ ہر زمانے کو انجام تک پہنچانے کے لئے ہمیں ان میں سے کسی خط کی پیروی میں اپنی ذمہ داری کو انجام دینا ہوگا۔

۲ ۔( مغضوب علیهم ) اور( ضالین ) کو ن ہیں :

ان دونوں کو آیت میں الگ الگ بیان کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کسی خالص گروہ کی طرف اشارہ ہے۔

دونوں میں فرق کے سلسلے میں تین تفسیریں موجود ہیں :

۱ ۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ کے استعمال کے مواقع سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغضوب علیھم کا مرحلہ ضالین سے سخت تر اور بدتر ہے۔ بالفاظ دیگر ضالین سے مراد عام گمراہ لوگ ہیں اور مغضوب علیھم سے مراد لجوج (گمراہی پر مصر) یا منافق ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ایک موقعوں پر ایسے لوگوں کے لئے خدا کے غضب اور لعنت کا ذکر ہوا ہے۔

سورہ نحل آیت ۱۰۶ میں آیا ہے :( ولکن من شرح بالکفر صدرا فعلیهم غضب من الله ) ۔

جنہوں نے کفر کے لئے اپنے سینوں کو کھول رکھا ہے ان پر اللہ کا غضب ہے۔

سورہ فتح آیت ۶ میں ہے:( و یعذب المنافقین و المنافقات والمشرکین والمشرکات الظانین بالله ظن السوء علیهم دائرة السوء وغضب الله علیهم و لعنهم و اعدلهم جهنم )

منافقین مرد اور عورتیں اور مشرک مرد اور عورتین جو خدا کے بارے میں برے گمان کرتے ہیں خدا ان سب پر عذاب نازل کرے گا۔ ان سب پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے وہ انہیں اپنی رحمت سے دور رکھتا ہے اور انہی کے لئے اس نے جہنم تیار کررکھی ہے۔

بہرحال مغضوب علیھم وہ ہیں جو راہ کفر میں لجاجت و عناد اورحق سے دشمنی رکھنے کے علاوہ رہبران الہی اور انبیاء مرسلین کو ہر ممکن اذیت و آزار پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

سورہ آل عمران آیت ۱۱۲ میں ہے :( وباء و بغضب من الله و ضربت علیهم المسکنة ذلک بانهم کانو یکفرون بایت الله و یقتلون الانبیاء بغیر حق ذلک بما عصوا وکان یعتدون ) ۔

ان (یہودیوں ) پر خدا کا غضب ہو ا اور انہیں رسوائی نصیب ہوئی کیونکہ وہ انبیاء الہی کو ناحق قتل کرتے تھے اور حدود و شریعت سے تجاوز کے مرتکب ہوتے تھے۔

۲ ۔ مفسرین کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ضالین سے منحرف عیسائی اور مغضوب علیھم سے منحرف یہودی مراد ہیں یہ نظریہ ان دونوں گروہوں کے دعوت اسلام کے مقابلے میں ردعمل کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ قرآن جس طرح مختلف آیات میں صراحت کے ساتھ یاد دہانی کراتا ہے کہ یہودی دعوت اسلام کے بارے میں مخصوص کینہ و عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے اگر چہ ابتداء میں انہی کے علماء لوگوں کو اسلام کی بشارت دیا کرتے تھے لیکن تھوڑا ہی عرصہ گذرا کہ کئی ایک وجوہ(جن کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ) کی بناء پر وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہوگئے ان وجوہ میں ایک ان کے مادہی مفادات کا خطرے میں پڑ جانا بھی تھا۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی پیش رفت روکنے کے لئے ہر ممکن رکاوٹیں کھڑی کرت( آج بھی صیہونیوں کا مسلمانوں کے بارے میں وہی طریق کار ہے)۔

ان حالات میں انہیں مغضوب علیھم سے تعبیر کرنا درست معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یہ تعبیر حقیقت میں ان کے عمل کے باعث تطبیق کی صورت ہے نہ کہ مغضوب علیھم سے صرف یہودی مراد ہیں ۔ رہے نصاری تو اسلام کے بارے میں ان کا موقف اس قدر سخت نہ تھا بلکہ وہ فقط آئین حق کی پہچان میں گمراہ تھے لہذا لفظ ضالین سے عیسائی مراد لئے گئے ہیں اور یہ بھی ایک تطبیق ہے۔

احادیث اسلامی میں بارہا مغضوب علیھم سے یہودی اور ضالین سے عیسائی مراد لئے گئے ہیں ۔ اس کی وجہ پہلے ہی بیان کی جا چکی ہے(۱) ۔

۳ ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ضالین سے وہ گمراہ لوگ مراد ہیں جو دوسروں کو گمراہ کرنے پر مصر نہیں جب کہ مغضوب علیھم وہ لوگ ہیں جو خود تو گمراہ ہیں ہی دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنا ہم رنگ بنانے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔

اس بات کی دلیل وہ آیات ہیں جو ایسے اشخاص کے بارے میں ہیں جو راہ راست کی ہدایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں دوسرے لوگوں کے درمیان میں حائل ہوجاتے ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے :

یصدون عن سبیل اللہ“ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو راہ خدا سے روکتے ہیں ۔ (اعراف، ۴۵) ۔

سورہ شوری آیت ۱۶ کے الفاظ ہیں :( والذین یحاجون فی الله من بعد ما استجیب له حجتهم داحضة عند ربهم و علیهم غضب ولهم عذاب شدید ) ۔

وہ لوگ جو مومنین کی طرف سے دعوت اسلام قبول ہونے کے بعد نبی اکرم(ص) سے جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں ۔ خدا کے ہاں ان کی دلیل وحجت بے اساس ہے۔ ان پر اللہ کا غضب ہے اور سخت عذاب ان کا منتظر ہے۔

باوجود اس کے یوں نظر آتا ہے کہ ان تفاسیر میں جامع تر وہی پہلی تفسیر ہے اور وہ ایسی تفسیر ہے جس میں باقی تفسریں بھی مجتمع ہیں ۔ حقیقت میں باقی تفاسیر اس کے مصادیق میں شمار ہوتی ہیں لہذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم آیت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیں ۔

والحمد لله رب العالمین

(تفسیر سورہ حمد اختتام کو پہنچی)

سورہ بقرہ کے موضوعات

یہ سوره جو قرآن مجیدکی طویل ترین سورتوں میں سے ہے مسلما تمام کی تمام ایک دم نازل نہیں ہوئی بلکہ مختلف وقفوں سے مدینہ میں اسلامی معاشرے کی گوناگوں ضروریات کے مطابق نازل ہوئی ۔

اس کے باوجود اسلام کے اصول اعتقاد اور بہت سے عملی مسائل کی رو سے (جن میں عبادتی، اجتماعی سیاسی اور اقتصادی مسائل شامل ہیں ) اس کی جامعیت ناقابل انکار ہے۔ اس کے موضوعات ایک نظر میں یہ ہیں :

۱ ۔ توحید اور خدا شناسی کے متعلق بحثیں خصوصا وہ جو اسرار افرینش کے موضوع سے متعلق ہیں ۔

۲ ۔ قیامت اور موت کے بعد سے متعلق بحثیں بالخصوص حسی مثالیں ، جیسے حضرت ابراھیم کا واقعہ، پرندوں کا مرنے کے بعد زندہ ہونا اور حضرت عزیر کا واقعہ۔

۳ ۔ قران کے معجزہ ہونے کی بحثیں اور اس آسمانی کتاب کی اہمیت ۔

۴ ۔ یہودیوں اور منافقین کے بارے میں مفصل اور طویل بحثی۔ اسلام اور قرآن کے بارے میں ان کے مخصوص اعتراضات اوراس سلسلے میں ان کی کارستانیں اور رکاوٹیں ۔

۵ ۔ بڑے بڑے انبیاء خصوصا حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت موسی(ع) کی تاریخ کے سلسلے کی بحثیں ۔

۶ ۔ اسلام کے مختلف احکام سے متعلق ابحاث۔ جن میں نماز، روزہ، جہاد فی سبیل اللہ، حج،تغیر قبلہ، نکاح، طلاق، احکام، تجارت وقرض، سود کے بعض اہم احکام اور بہت سی دیگر مخصوص بحثیں شامل ہیں ۔

راہ خدا میں خرچ، مسئلہ قصاص، کئی ایک حرام گوشت، قمار، حرمت شراب، بعض احکام وصیت وغیرہ بھی اس کے موضوعات میں سے ہیں ۔

اس کے نام۔ البقرة۔ کی بناء ایک واقعہ ہے جو بنی اسرائیل میں ایک گائے کے سلسلے میں ہے جس کی تفصیل آیت ۶۷ تا ۷۳ میں انشاء اللہ آئے گی۔

فضیلت سوره بقره

اس سورت کی فضیلت سے متعلق کتب اسلامی میں بہت سی روایات موجود ہیں اس سلسلے میں مرحوم طبرسی نے ایک روایت رسول اکرم(ص) سے مجمع البیان میں نقل کی ہے۔

آپ سے پوچھا گیا :

ای سورة القرآن افضل؟ ۔ قرآن کی کونساسورہ افضل ہے

قال البقرة (فرمایا : سورہ بقرہ)۔

(قرآن کی کونسی آیت افضل ہے؟)

قال آیة الکرسی ۔ (فرمایا : آیة الکرسی)

ظاہرا اس سورت کی افضلیت اس کی جامعیت کی وجہ سے ہے اور آیة الکرسی کی افضلیت اس بناء پر ہے کہ اس میں توحید کے بارے میں بعض اہم امور بیان ہوئے ہیں جس کی تفصیل انشاء اللہ اس کی تفسیر میں آئے گی۔

یہ بات اس سے اختلاف نہیں رکھتی کہ قرآن کی بعض دیگر سورتوں کی کئی ایک جہات کی وجہ سے برتری بیان ہوئی ہے کیونکہ ان کی یہ فضیلت دیگر وجوہ کے پیش نظر ہے۔

حضرت علی بن الحسین کی وساطت سے رسول اکرم (ص) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

جو شخص سورہ بقرہ کی پہلی چار آیات، آیة الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور اس سورہ کی آخری تین آیات پڑھے وہ کبھی بھی اپنی جان و مال میں ناخوشگواری نہ پائے گا۔ شیطان اس کے نزیک نہیں آئے گا اور وہ قرآن کو نہیں بھولے گا( ۱) ۔

ہم یہاں اس اہم حقیقت کا تکرار ضروری سمجھتے ہیں کہ تلاوت قرآن یا سورتوں اور مخصوص آیات کے لئے جو ثواب، فضیلتیں اور ہم فائدے بیان ہوئے ہیں ان کا یہ مفہوم ہرگزنہیں کہ انسان انہیں بطور ورد پڑھے اور صرف زبان چلانے پر اکتفاء کرے بلکہ قرآن کا پڑھنا سمجھنے کے لئے اور سمجھنا غور و فکر کے لئے ہے اور غور و فکر عمل کرنے کے لئے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جو فضیلت کسی سورت یا آیت کے متعلق ذکر ہوئی ہے وہ اس سورت یا آیت کے موضوع سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔

مثلا ہم سورة نور کی فضیلت کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ جو اسے پڑھے گا خدا وند عالم اسے اور اس کی اولاد کو زنا کی آلودگی سے محفوظ رکھے گا۔ تو یہ اس بناء پر ہے کہ سورہ نور کے مضامین میں جنسی کجرویوں سے مقابلے کے لئے اہم رہنمائی موجود ہے۔ مجرد اشخاص کو جلد شادی کرنے کا حکم ہے، پردے کا حکم ہے، بری نگاہ اور ہوس رانی کی نگاہ ترک کرنے کا حکم ہے، نارو اور غلط نسبتوں کی ممانعت ہے اور آخر میں زنا کار مردوں اور عورتوں کے لئے حد شرعی کے اجراء کا حکم دیا گیا ہے۔

واضح ہے کہ سورہ نور کے مفاہیم و موضوعات کسی معاشرے یا خاندان میں عملی جامہ پہن لیں تو وہ زنا سے آلودہ نہیں ہوگا۔

اسی طرح سورہ بقرة کی وہ آیات جن کی طرف اوپر اشارہ ہوچکا ہے سب توحید، ایمان بالغیب، خدا شناسی اور شیطانی وسوسوں سے پرہیز کے بارے میں ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص دل و جان سے ان پر عمل پیرا ہو تو یقینا سب فضائل مذکور اسے حاصل ہوں گے۔

یہ درست ہے کہ قرآن کا پڑھنا بہرحال باعث ثواب ہے لیکن اصلی، اساسی اور آثار چھوڑنے والا ثواب اسی وقت ملے گا جب تلاوت غور و فکر او رعمل کے لئے مقدمہ و تمہید ہو۔

____________________

۱۔ نورالثقلین، ج ۱ ص ۲۶ بحوالہ کتاب، ثواب الاعمال۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31