تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 6%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32080 / ڈاؤنلوڈ: 3200
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

قیامت کے بارے میں کافروں کا تعجب

عظمت الہٰی کی نشانیوں کے بارے میں جو آیات گزری ہیں ان کے بعد زیر بحث پہلی آیت میں مسئلہ معاد پیش کیا گیا ہے او ر مسئلہ مبداء و معاد میں جو خاص ربط اور تعلق ہے اس کی بنیاد پر اس بحثکو پختگی دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے اگر تم کسی چیز پر تعجب کرنا چاہتے ہو تو ان کی اس بات پر تعجب کرو کہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو ہمیں نئی خلقت دی جائے گی( وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ اٴَئِذَا کُنَّا تُرَابًا اٴَئِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِید ) ۔(۱)

یہ وہی تعجب ہے جو تمام جاہل قوموں کو مسئلہ معاد کے بارے میں تھا ۔ وہ موت کے بعد حیات ِ نواور خلقت ِ جدید کو محال سمجھتے تھے حالانکہ گزشتہ آیات میں اور دیگر قرآنی آیات میں اس مسئلے کا اچھی طرح سے جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ آغاز ِ خلقت اور تجدید ِ خلقت میں کیا فرق ہے وہ ذات جو آغاز ِ خلقت میں انہیں پیدا کرنے پر قادرتھی وہ اس پر بھی قادر ہے کہ ان کے بدن کو حیات نو عطا کرے ۔ گویا یہ اپنی خلقت کی ابتدا کو بھول چکے ہیں تبھی تو اس کی تجدید کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔

پہلے کہتا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پر ور دگار کے کافر ہو گئے ہیں( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ) ۔کیونکہ اگریہ لوگ خدا کو اور اس کی ربوبیت کو قبول کرتے توپھر معاد اور تجدید حیاتِ انسانی کے بارے میں شک نہ کرتے لہٰذا مسئلہ معاد میں ان کی خرابی مسئلہ توحید و ربوبیت ِ الہٰی کے بارے میں ان کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔

دوسرا یہ کہ کفر اور بے ایمانی اختیار کرنے کی وجہ سے اور توحید کے پر چم آزادی کے سائے سے نکل جانے کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو طوق و زنجیر میں گرفتار کر لیا ہے ۔ انہوں نے بت پرستی ، ہوسپرستی ، مادہ پرستی اور جہالت و خرافات کے طوق اپنے ہاتھوں اپنی گردن میں ڈالے ہیں ” اور ان کی گردن میں یہ طوق ہیں “( وَاٴُوْلَئِکَ الْاٴَغْلَالُ فِی اٴَعْنَاقِهمْ ) ۔

” اور اس کیفیت اور کردار کی وجہ سے ایسے لوگ یقینا اہل دوزخ ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے“ اور ان کے لئے اس کے سوا کوئی نتیجہ اور توقع نہیں ہے( وَاٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِیهَا خَالِدُونَ )

بعد والی آیت میں مشرکین کی ایک اور غیر منطقی بات پیش کی گئی ہے ۔ فرمایا : بجائے اس کے کہ وہ تیرے ذریعے خدا سے رحمت کا تقاضا کرتے عذاب ، کیفر کردار اور سزا میں تعجیل کا تقاضا کرتے ہیں( وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ) ۔

یہ قوم اس قدر ہٹ دھرم اور جاہل کیوں ہے ۔ لوگ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر تو سچ کہتا تو ہم اس طرح یا س رحمت ِ خدا نازل کر ، الٹا کہتے ہیں کہ اگر تیری بات سچی ہے تو ہم پر عذاب ِ خدا نازل کر۔

کیا ان کا خیا ل ہے کہ خدا کی سزا اور عذاب کی بات غلط ہے ” حالانکہ گزشتہ زمانوں میں سر کش امتوں پر عذاب نازل ہو ئے “ جن کی خبریں صفحاتِ تاریخ پر اور زمین کے دل پر ثبت ہیں( وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهمْ الْمَثُلَاتُ )(۲)

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : لوگوں کی برائیوں ، قباحتوں اور ظلم و ستم کے مقابلے میں خدا صاحبِ مغفرت ہے اور شدید العقاب بھی ہے( وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَی ظُلْمِهمْ وَإِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ ) ۔

اس کی شدت عقاب و سزا اس کی رحمت ِ عام کے لئے ہر گز رکاوٹ نہیں جیسا کہ اس کی رحمت ِ عام شد ِت عقاب و سزا کا وٹ نہیں ہے ۔

یہ اشتباہ نہیں ہو نا چاہئیے کہ وہ ظالموں کو موقع دیتا ہے کہ جو کچھ وہ چاہیں کریں کیونکہ ایسے مواقع پرتو وہ شدید العقاب ہے ۔ پر وردگار کی یہ دو صفات یعنی ”ذو مغفرة“ اور ” شدید العقاب“ کے آثار کا تعلق خود انسان کے وجود سے ہے ۔

____________________

۱۔”ان تعجب فعجب قولهم“ ۔ اس جملے کا در حقیقت یہ معنی ہے کہ اگر تو چاہتا ہے کہ کسی چیز کے بارے میں تعجب کرے تو ا ن کی بات پر تعجب کرو کیونکہ یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے اور ” فعجب قولھم“ در اصل جملہ شرطیہ کی جزا ہے ۔

۲۔”مثلات“مثلة“کی جمع ہے ۔ یہ بلاؤں اور سزا ؤں کے معنی میں ہے جو گزشتہ امتوں پر اس طرح سے نازل ہوئیں کہ ضرب المثل ہوگئیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ خلقت ِ نو کے بارے میں تعجب کیوں ؟ قرآن کی مختلف آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی مشکلات میں سے ایک مشرک قوموں کے سامنے معادِ جسمانی کے اثبات کا مسئلہ تھا کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ اس بات پر تعجب کرتے تھے کہ کس طرح انسان مٹی ہونے کے بعد دوبارہ حیات کی طرف پلٹ آئے گا ۔ یہ جو محل بحث آیات میں ہے :

( ء اذا کنا تراباً ء انّا لفی خلق جدید )

کیا جب ہم مٹی ہو جائیں تو دوبارہ حیات ِ نو پائیں گے۔

ایسی تعبیرات تھوڑے بہت فرق کے ساتھ قرآن کی سات دیگر آیات میں موجود ہیں ، جو یہ ہیں :

مومنون ۔ ۳۵ ۔ مومنون ۸۲ نمل ۔ ۶۷ صافات ۔ ۵۳ ق ۳ اور واقعہ ۔ ۴۷

اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اعتراض ان کی نگاہ میں بہت ہی اہم تھا ۔ تبھی تو ہر جگہ اسی کا سہارا لیتے تھے لیکن قرآن مجید بہت ہی مختصر عبارتوں میں انہیں دو ٹوک اور قاطع جواب دیتا ہے ۔ مثلا ً سورہ اعراف کی آیہ ۲۹ میں :

( کمابداء کما تعودون )

جیسا کہ ابتداء میں تمہیں پیدا کیا گیا ہے اسی طرح پھر لوٹا ئے جاؤ گے۔

چند الفاظ میں یہ ایک دندان شکن جواب ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے :( وهو اهوان علیه )

تمہاری بازگشت تو تمہارے آغاز سے بھی سادہ اور آسان ہے ۔ ( روم ۔ ۲۷)

کیونکہ ابتداء میں تم کچھ بھی نہیں تھے لیکن اب کم از کم بوسیدہ ہڈی یا مٹی کی صورت میں تو تم موجود ہو۔

بعض مقامات پر قرآن لوگوں کو ہاتھ پکڑ کر وسیع کائنات زمین و آسمان میں عظمت قدرتِ خدا کا مشاہدہ کرواتا ہے او رکہتا ہے : کیا وہ ذات جو یہ سب کرات ، کہکشائیں ، ثوابت اور سیارے پیدا کرسکتی ہے اس کے اعادہ پر قادر نہیں ہے ۔(یٰسٓ۔ ۸)

۲ ۔کیا خدا ستمگر وں کو بخش دیتا ہے :مندرجہ بالاآیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ پر ور دگار لوگوں کے ظلم کے باوجود صاحبِ مغفرت و بخشش ہے۔ مسلم ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ خد ااپنی عفو و بخشش ان ظالموں کے شامل حال کرتا ہے جو اپنے ظلم پر اصرار کرتے ہیں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ظالموں کو بھی اس وسیلے سے بازگشت اور اپنی اصلاح کا امکان فراہم کرے ورنہ دوسرے جملے میں ان کے انجام کی طرف اشارہ موجود ہے کہ ” تیرا پر ور دگار شدید العقاب ہے “۔

ضمنا ً اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہانِ کبیرہ ( کہ جن میں سے ایک ظلم ہے ) بھی قابل بخشش ہیں ( تمام تر شرائط کے ساتھ ) یہ آیت اور اس جیسی دیگر آیات اس غلط بات کا دو ٹوک اور قاطع جواب دیتی ہے جو قدیم زمانے سے معتزلہ کے حوالے سے نقل ہو ئی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ گناہاں کبیرہ کبھی بھی نہیں بخشے جائیں گے ۔

بہر حال پروردگار کی ” وسیع مغفرت“ اور اس کے ” شدیدعقاب“ کا ذکر در حقیقت سب کو میانہ راہ پر اور خوف و رجا کے درمیان لے آتا ہے کہ جس کا اہم عامل انسان کی تربیت ہے کہ نہ بالکل رحمتِ الہٰی سے مایوس ہو جائے چاہے اس کا جرم سنگین بھی ہو اور نہ ہی کبھی اپنے آپ کو اس کی سزا سے مامون سمجھے چاہے اس کا گناہ خفیف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے روایت ہے :

لولا عفو الله وتجا وزه ما هنا احد العیش ، ولولا وعید الله و عقابه لاتکل کل واحد

اگر خدا کی عفو و بخشش نہ ہوتی تو زندگی ہر گز کسی کے حلق میں گوارانہ ہوتی اور اگرخدائی تہدیدیں اور سزائیں نہ ہوتیں تو ہر شخص اس کی رحمت کے نام پر جو چاہتا انجام دیتا۔۱

یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ گناہ انجام دیتے ہوئے بڑے غرور سے کہتے ہیں کہ ” خد اکریم ہے “ در حقیقت انہوں نے خدا کے کرم پر بھروسہ نہیں کیا وہ جھوٹ بولتے ہیں اور اصل میں وہ پروردگار کی سزا اور عذاب سے بے اعتنائی کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ص ۲۷۸ جلد ۵ و ۶ زیر بحث آیت کے ذیل میں ، تفسیر قرطبی جلد ۶ ص ۳۱۴۔

آیت ۷

۷ ۔( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّهِ إِنَّمَا اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ۔

ترجمہ

۷ ۔ اور وہ جو کافر ہو گئے کہتے ہیں کہ اس کے پر وردگار کی طرف سے اس پر آیت( اور معجزہ) کیوں نازل نہیں ہوا۔ تُوتو صرف ڈرانے والاہے اور ہر گروہ کے لئے ہدایت کرنے والا ہوتا ہے ( اور یہ تو سب بہانے ہیں نہ کہ حقیقت کی جستجو)۔

پھر بہانہ سازی

گزشتہ آیات میں کچھ اشارہ مسئلہ توحید کے متعلق کئے گئے ہیں اور ایک اشارہ مسئلہ ” معاد کی طرف کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد زیر بحث آیت میں ہٹ دھرم مشرکین کی طرف سے ” نبوت“ کے بارے میں ایک اعتراض بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہو تا ہے : کفار کہتے ہیں : اس کے پروردگار کی طرف سے اس پرکیوں کوئی معجزہ او ر نشانی نازل نہیں ہوئی( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْهِ آیَةٌ مِنْ رَبِّهِ )

واضح ہے کہ پیغمبر کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی حقانیت کی سند کے طور پر اور وحی الہٰی سے اپنے تعلق کے ثبوت میں معجزات پیش کرے اور متلاشیانِ حق نبوت کی دعوت میں شک و تردید کے موقع پر حق رکھتے ہیں کہ معجزے کا مطالبہ کریں لیکن اگر نبوت کے دلائل دوسرے طریقے سے آشکار اور واضح ہو ں تو پھر وہ حق نہیں رکھتے لیکن ایک نکتہ کی طرف بھر پور توجہ کرنا چاہئیے کہ مخالفین ِ انبیاء ہمیشہ حسنِ نیت کے حامل نہیں ہوتے تھے معجزات حق معلوم کرنے کے لئے طلب نہیں کرتے تھے بلکہ ہٹ دھرمی اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کے لئے بھی ہر وقت معجزے اور عجیب و غریب خارق ِ عادت کا تقاضا کرتے تھے۔ ایسے معجزات کہ جنہیں ” معجزات ِ اقتراحی“ کہا جاتا ہے ہر گز کشفِ حقیقت کے لئے نہیں تھے ۔ اسی لئے انبیاء ان کا تقا ضا تسلیم نہیں کر تے تھے ۔ در حقیقت ان ہٹ دھرم کفار کا یہ خیال تھا کہ پیغمبر (ص) کا دعویٰ ہے کہ میں ہر چیز انجام دینے پر قادر ہو ں اور معجزہ گر ہوں اور یہاں بیٹھا ہوں جو شخص بھی کسی معجزے کا تقاضا کرے گا وہ پیش کرودوں گا ۔

لیکن انبیاء یہ حقیقت بیان کرکے ایسے لوگوں کی خواہشات ٹھکرادیتے تھے کہ معجزات خدا کے ہاتھ میں ہیں اوراس کے حکم سے انجام پاتے ہیں اور ہماری ذمہ داری لوگوں کی تعلیم و تربیت ہے ۔

اسی لئے زیر بحث آیت میں ہے کہ خدا تعالیٰ اس گفتگو کے بعد فرماتا ہے : اے پیغمبر تو ُتو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم و ملت کے لئے ہادی و رہنما ہوتا ہے( إ ِنَّمَا اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ۔

دو سوال اور ان کے جواب

۱ ۔ کافروں کا جواب کیسے ہوا ؟

سوال پیدا ہوا کہ( إ ِنَّمَا اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) کس طرح کافروں کی معجزہ طلبی کا جواب ہو سکتا ہے ۔

جو بات مندرجہ بالا سطور میں کہی گئی ہے اس کی طرف توجہ دینے سے سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔ کیونکہ پیغمبر ایک ایسی شخصیت نہیں کہ ہر تقاضے، ہر مقصد اور ہر مراد کے لئے معجزہ ایجاد کردے ۔پہلے تو ا س کی ذمہ دای ہے ” انذار“ اور انہیں ڈرانا جو بے راہ چلتے ہیں اور صراط مستقیم کی دعوت دینا ۔ البتہ جس مقام پر انذار اور ڈرانے کی تکمیل کے لئے اور گمراہوں کی صراط مستقیم پر لانے کے لئے معجزے کی ضرورت ہو مسلم ہے کہ پیغمبر کوتاہی نہیں کرے گا ۔ البتہ ان ہٹ دھرم لوگوں کے جواب میں ہر گز اس کی ایسی کوئی ذمہ داری نہیں جو بالکل راستے پر نہیں آتے۔

در اصل قرآن کہتا ہے کہ یہ کفار پیغمبر کی اصلی ذمہ داری بھول چکے ہیں اور وہ ہے انذار ، ڈرانا اور خدا کی طرف دعوت دینا اور انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اس کی بنیادی ذمہ داری معجزہ دکھانا ہے ۔

۲ ۔”لکل قوم ھاد“ سے کیا مراد ہے ؟

کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں صفات” منذر“ ہادی“اور پیغمبر اکرم کی طرف لوٹتی ہیں ۔ ان کے خیال میں در اصل یہ جملہ یوں ہے :( انت منذر و هاد لکل قوم )

تو ہر قوم اور ہر گروہ کے لئے ڈرانے والا او ر ہادی ہے۔

لیکن یہی تفسیر مندر جہ بالا آیت کے ظاہرکے خلاف ہے کیونکہ واؤ نے ”( لکل قوم هاد ) “ کو”( انما انت منذر ) “سے جدا کردیا ہے ۔ ہا ں البتہ اگر لفظ ”هاد “ ”لکل قوم “ سے پہلے ہوتا تو یہ معنی پورے طور پر قابلِ قبول تھا لیکن ایسانہیں ہے ۔

کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں مقصد یہ تھا حق کی طرف دعوت کرن ے والوں کی دو قسمیں بیان کی جائیں ۔ پہلی قسم ان کے دعوت کرنے والوں کی جو انذار کریں اور ڈرائیں اور دوسری قسم ان دعوت کرنے والوں کی جو ہدایت کریں ۔

حتماً آپ سوال کریں گے کہ ” انذار“ اور” ہدایت “میں کیا فرق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ” انذار“ اس لئے کہ گمراہی اور بے راہ روی سے راستے کی طرف پلٹا یا جائے اور صراطِ مسقتیم پر پہنچایا جائے لیکن ”ہدایت “ اس لئے ہے کہ لوگوں کو راستے پر آجانے کے بعد آگے لے جایا جائے۔

حقیقت میں ” منذر“” علت محدثة“ یعنی ایجاد کرنے والے سبب“ کی طرح ہے اور ”ہادی“ ” علت مبقیة“ یعنی باقی رکھنے والے اور آگے لے جانے والے سبب “ کی مانند ہے اور یہ وہی چیز ہے جسے ہم ” رسول “ اور ” امام “ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ رسول ِ شریعت کی بنیاد رکھتا ہے اور امام شریعت کا محافظ اور نگہبان ہے ( اس میں شک نہیں کہ دیگر مواقع پر خود ذاتِ پیغمبرپر لفظ ”ہادی“ کا اطلاق ہوا ہے لیکن زیر بحث آیت میں ” منذر“ کے ذکر کے قرینے سے ہم سمجھتے ہیں کہ ” ہادی “ سے یہاں مراد وہ شخص ہے جو راہ پیغمبر کو جاری وساری رکھے اور اس کی شریعت کا محافظ و نگہبان ہو)۔

متعدد روایات کہ جو پیغمبر اسلام سے مروی ہیں اور شیعہ سنی کتب میں موجود ہیں ان میں آپ نے فرمایا ہے کہ : میں منذر ہو ں اور علی ہادی ہیں ۔

یہ روایات مندرجہ بالا تفسری کی مکمل طور پر تائید کرتی ہیں ۔ چند ایک روایات ذیل میں پیش کی جاتی ہیں :

۱) اسی آیت کے ذٰل میں فخر الدین رازی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :

وضع رسول الله یده علی صدره فقال انا المنذر، ثم اوماٴ الی منکب علیعليه‌السلام و قال انت الهادی بک یهتدی المهتدون من بعدی

رسول اللہ نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر مارا اور فرمایا : میں منذر ہو ں ۔ پھر علی کے کندھے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایاتو ہادی ہے اور تیرے ذریعے میرے بعد ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے ۔(۱)

یہ روایت اہل سنت کے مشہور عالم علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اسی طرح علامہ ابن صباغ مالکی نے ” فصول المہمہ “ میں ، گنجی شافعی نے کفایة الطالب میں ، طبری نے اپنے تفسیر میں ، ابو حیان اندلسی نے اپنی تفسیر ” بحر المحیط“ میں ، علامہ نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں اور اسی طرح دیگر بہت سے علماء نے نقل کی ہے

۲) حموینی جو اہل سنت کے مشہور عالم ہیں اپنی کتاب” فرائد السمطین “ میں ابو ہریرہ اسلمی سے اس طرح نقل کرتے ہیں :ان المراد بالهادی علی (ع)

ہادی سے مراد حضرت علیعليه‌السلام ہیں

۳) ” حبیب السیر“ کے مولف میر غیاث الدین اپنی کتاب کی دوسری جلد ص ۱۲ پر اس طرح لکھتے ہیں :

قد ثبت بطرق متعدده انه لما نزل قوله تعالیٰ ” انما انت منذر و لکل قوم هاد“ قال لعلی ” انا المنذر و انت الهادی بک یا علی یهتدی المهتدون من بعدی “۔

متعدد طریق سے نقل ہوا ہے کہ جب آیت ”( انما انت منذر و لکل قوم هاد ) “ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا:” میں منذر ہو ں اور تو ہادی ہے او رمیرے بعد ہدایت پانے والوں کی تیرے ذریعے ہدایت ہو گی “۔

آلوسی نے ” روح المعانی “ میں ، شبلنجی نے”نور الابصار“ میں اور شیخ سلیمان قندوزی نے ” ینابع المودة“ میں یہی حدیث انہیں الفاظ میں یا اس کے قریب قریب الفاظ میں نقل کی ہے ۔

اکرثر روایات میں اس حدیث کے راوی اگر چہ ابن عباس ہیں تا ہم یہ روایت ابن عباس میں منحصر نہیں ہے بلکہ حموینی کی نقل کے مطابق خود حضرت علیعليه‌السلام سے بھی مروی ہے ، آپعليه‌السلام فرماتے ہیں :

المنذر النبی و الهادی رجل من بنی هاشم یغنی نفسه

منذر پیغمبر ہیں ہادی بنی ہاشم میں سے ایک شخص ہے کہ اس سے مراد خود آپ کی ذات ہے ۔ ۲

____________________

۱۔تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۱۹ ص۱۴۔

۲۔ اس حدیث میں اگر چہ مسئلہ ولایت اور خلافتِ بلا فصل کی تصریح نہیں کی گئی تا ہم اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ہدایت اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے حضرت علیعليه‌السلام میں منحصر نہ تھی بلکہ تمام سچے علماء اور رسول اللہ کے خاص اصحاب یہ کام انجام دیتے تھے ، معلوم ہوتا ہے کہ ”ہادی “ کے طور پر حضرت علیعليه‌السلام کی تعارف آپ کے خاص امتیاز اور خصوصیت کی وجہ سے ہے ۔ آپعليه‌السلام بہترین اور افضل ترین ہادی کے مصداق ہیں اور اس قسم کامطلب ولایت اور خلافتِ پیغمبر سے جدا نہیں ہو سکتا ۔

آیات ۸۷،۸۸،۸۹،۹۰،۹۱،۹۲،۹۳

۸۷ ۔( یَابَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَاٴَخِیهِ وَلاَتَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّهُ لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ ) ۔

۸۸ ۔( فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْهِ قَالُوا یَااٴَیّهَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَاٴَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ فَاٴَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اللهَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ ) ۔

۸۹ ۔( قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَاٴَخِیهِ إِذْ اٴَنْتُمْ جَاهِلُونَ ) ۔

۹۰ ۔( قَالُوا اٴَئِنَّکَ لَاٴَنْتَ یُوسُفُ قَالَ اٴَنَا یُوسُفُ وَهذَا اٴَخِی قَدْ مَنَّ اللهُ عَلَیْنَا إِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

۹۱ ۔( قَالُوا تَاللهِ لَقَدْ آثَرَکَ اللهُ عَلَیْنَا وَإِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ ) ۔

۹۲ ۔( قَالَ لاَتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللهُ لَکُمْ وَهُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ) ۔

۹۳ ۔( اذْهَبُوا بِقَمِیصِی هَذَا فَاٴَلْقُوهُ عَلَی وَجْهِ اٴَبِی یَأت بَصِیرًا وَأتونِی بِاٴَهْلِکُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

ترجمہ

۸۷ ۔ اے میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف (علیه السلام) اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو کیونکہ خدا کی رحمت سے کافر کے سوا کوئی مایوس نہیں ہوتا ۔

۸۸ ۔ جب وہ اس ( یوسف ) کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : اے عزیز ! ہم اور ہمارا خاندان پریشانی میں گھر گیا ہے اور ہم ( اناج خریدنے کے لئے ) تھوڑی سی پونجی اپنے ساتھ لائے ہیں ۔ ہمارا پیمانہ پوری طرح بھر دے اور ہم پر صدقہ کردے کیونکہ خدا صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے ۔

۸۹ ۔ اس نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف (علیه السلام) اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا جب کہ تم جاہل تھے ۔

۹۰ ۔ انہوں نے کہا: کیاتو وہی یوسف (علیه السلام) ہے ۔ اس نے کہا : ( ہاں ) میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے خدانے ہم پر احسان کیا ہے ۔ جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور صبر و استقامت دکھائے ( آخر کا روہ کامیاب ہوتا ہے )کیونکہ خد انیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔

۹۱ ۔ انہوں نے کہا :خدا کی قسم ! تجھے ہم پر مقدم رکھا اور ہم خطا کار تھے ۔

۹۲ ۔ اس نے کہا: آج تم پر کوئی ملامت و سر زنش نہیں ہے ، خد اتمہیں بخشنے اور وہ ارحم الراحمین ہے ۔

۹۳ ۔ یہ میری قمیص لے جاؤ او رمیرے باپ کے چہرے پر ڈال دو تو وہ بینا ہو جائے گا اور تمام گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ ۔

کو شش کرو اور مایوس نہ ہو

مصر اور اطراف ِ مصر جس میں کنعان بھی شامل تھا میں قحط ظلم ڈھا رہا تھا ۔ اناج بالکل ختم ہو گیا تو حضرت یعقوب (علیه السلام) نے دوبارہ اپنے بیٹوں کو مصر کی طرف جانے اور غلہ حاصل کرنے کا حکم دیا لیکن اس مرتبہ اپنی آرزؤں کی بنیاد پر یوسف (علیه السلام) اور ان کے بھائی بنیامین کی تلاش کو قرار دیا اور کہا : ” میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف (علیه السلام) اور ا س کے بھائی کو تلاش کرو“( یَابَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَاٴَخِیه ) ۔

حضرت یعقوب (علیه السلام) کے بیٹے چونکہ اس بارے میں تقریباً مطمئن تھے کہ یوسف (علیه السلام) موجود ہی نہیں اس لئے وہ باپ کی اس نصیحت اور تاکید پر تعجب کرتے تھے ۔

یعقوب ان کے گوش گزار کرتے رہے تھے : ” رحمت الٰہی سے کبھی مایوس نہ ہونا “ کیونکہ اس کی قدرت تمام مشکلوں اور سختیوں سے مافوق ہے( وَلاَتَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ ) ۔کیونکہ صرف بے ایمان کافر کہ جو قدرت ِ خدا سے بے خبر ہیں ا س کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں( إِنَّهُ لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ ) ۔

” تحسس“ مادہ ” حس“ سے ہے اور یہ قوت حس کے ذریعے کسی چیز کی جستجو اور تلاش کے معنی میں ہے ۔ او ریہ کہ ” تجسس“ میں اور اس میں کیا فرق ہے ، اس سلسلے میں مفسرین اور ارباب ِ لغت کے درمیان اختلاف ہے ۔

ابن ِ عباس سے منقول ہے کہ ” تحسس“امور ِ خیر میں ہے اور تجسس“ امور شر میں ۔

بعض دوسروں نے کہا ہے کہ ” تحسس“ افراد اقوام کی سر گزشت جاننے کے لئے کو شش کرنے کے معنی میں ہے اور تجسس“ عیوب و نقائص کی جستجو کرنے کے معنی میں ہے ۔

بعض دیگر احباب نے دونوں سے ایک ہی معنی مراد لیا ہے ۔

لیکن اس حدیث کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جس میں فرمایا گیا ہے :لاتجسسوا ولا تحسسوا

. واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں آپس میں مختلف ہیں ۔ نیز ان دونوں کے درمیان فرق کے بارے میں ، زیربحث آیت کے معنی میں ، ابن عباس کانظریہ مناسب معلوم ہوتا ہے او راگر ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث میں دونوں سے منع کیا گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ یہ اس طرف اشارہ ہو کہ لوگوں کے کاموں او رمعاملات کی ٹوہ میں نہ رہو نہ ان کے اچھے کاموں کی ٹوہ میں اور نہ ہی برے کاموں کی ٹوہ میں ۔

”روح “ رحمت “ راحت ، سہولت اور کشائش ِ کارکے معنی میں ہے ۔ مفردات میں راغب کہتا ہے کہ ” روح “ ( بر وزنِ ” لوح “ ) اور ”روح “( بر وزن ”نوح “ )دونوں کا اصل میں ایک ہی معنی ہے او ریہ ”جان “ اور تنفس “ کے معنی میں ہیں ۔بعد ازاں ” روح “ ( بر وزن ”لوح “ رحمت اور کشائش کے معنی میں استعمال ہونے لگا ( اس بناء پر کہ ہمیشہ مشکلات ٹل جانے پر انسان نئی روح اور جان پاتا ہے اور آزاری کا سانس لیتا ہے ) ۔

بہر حال فرزندان یعقوب (علیه السلام) نے اپنامال و اسباب باندھا اور مصر کی طرف چل پڑے اور اب کے وہ تیسری مرتبہ داستانوں سے معمو ر اس سر زمین پ رپہنچے ۔ گزشتہ سفروں کے برخلاف اس سفر میں ان کی روح کو ایک احساس ِ ندامت کچوکے لگا رہا تھا کیونکہ مصر میں اور عزیز مصر کے نزدیک ان کا سابقہ کردار بہت برا تھا اور وہ بدنام ہو چکے تھے اور اندازہ تھا شاید بعض لوگ انہیں ”کنعان کے چور “ کے عنوان سے پہچانیں ۔ دوسری طرف ان کے پاس گندم اوردوسرے اناج کی قیمت دینے کے لئے درکار مال و متاع موجود نہیں تھا اور سا تھ ہی بھائی بنیامین کے کھو جانے اورباپ کی انتہائی پریشانی نے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیا تھا ۔ گویا تلوار ان کے حلقوم تک پہنچ گئی تھی ۔ بہت ساری مشکلات اور روح فرسا پریشانیوں نے انہیں گھیر لیا تھا ۔ ایسے میں جو چیز ان کی تسکین ِ قلب کاباعث تھی وہ صرف باپ کا آخری جملہ تھا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا کیونکہ اس کے لئے ہر مشکل آساں ہے ۔ اس عالم میں ” وہ یوسف (علیه السلام) (علیه السلام) کے پاس پہنچے اور اس وقت انتہائی پریشانی کے عالم میں انہوں نے اس کی طرف رخ کیا اور کہا: اے عزیز ! ہمیں او رہمارے خاندان کو قحط، پریشانی اور مصیبت نے گھیر لیا ہے “( فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْهِ قَالُوا یَااٴَیّهَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَاٴَهْلَنَا الضُّر ) ۔” اور ہمارے پاس صرف تھوڑی سی کم قیمت پونجی ہے “( وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ ) ۔(۱)

لیکن پھربھی ہمیں تیرے کرم اور شفقت پر بھروسہ ہے ” اور ہمیں توقع ہے کہ تو ہمارا پیمانہ بالکل پورا کرے گا “( فَاٴَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ ) ۔” اور ا س معاملے میں ہم پر احسان کرتے ہوئے صدقہ کر“( وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا ) ۔

اور اپنا اجر و ثواب ہم نے لے بلکہ اپنے خدا سے لے کیونکہ خدا کریموں اور صدقہ کرنے والوں کو اجر خیر دیتا ہے( إِنَّ اللهَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ ) ۔

یہ قابل توجہ ہے کہ برادران یوسف (علیه السلام) کو باپ نے تاکید کی تھی کہ پہلے یوسف (علیه السلام) اور اس کے بھائی کے لئے جستجو کریں اور بعد میں اناج حاصل کریں لیکن اس کے باوجود انہوں نے ا س بات کی طرف چنداں توجہ نہیں کی اور سب سے پہلے انہوں نے عزیز مصرسے اناج کا تقاضہ کیا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ انہیں یوسف (علیه السلام) کے ملنے کی چنداں امید نہ تھی یا ممکن ہے انہوں نے سوچا ہو کہ بہتر ہے کہ اپنے کو اناج کے خرید داروں کے طور پر پیش کریں جو کہ زیادہ طبعی اور فطری ہے اور بھائی کی آزادی کا تقاضا ضمناًرہنے دیں تاکہ یہ چیز عزیز مصر پر زیاد ہ اثر انداز ہو۔

بعض نے کہا کہ ” تصدق علینا “ سے مراد وہی بھائی کی آزادی ہے ورنہ وہ انا ج بغیر معاوضے کے حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے کہ اسے ”تصدق “ قرار دیا جاتا ۔

روایات میں بھی ہے کہ بھائی باپ کی طرف سے عزیز مصر کے نام ایک خط لے کر آئے تھے اس خط میں حضرت یعقوب (علیه السلام) نے عزیز مصر کے عدل و انصاف کاتذکرہ کیا ۔ اپنے خاندان سے ا س کی محبتوں اور شفقتوں کی تعریف کی ۔ پھر اپنا اور پانے خاندان نبوت کا تعارف کروایا ۔ اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا اور ساتھ ہی اس کے ضمن میں اپنے بیٹے یوسف (علیه السلام) اور دوسرے بیٹھے بنیامین کے کھوجانے اور خشک سالی سے پیدا ہونے والی مصیبتوں کا ذکر کیا ۔ خط کے آخر میں اس سے خواہش کی گئی تھی کہ بنیامین کو آزاد کردے اور تاکید کی تھی کہ ہمارے خاندان میں چوری وغیرہ ہر گز نہ تھی اور نہ ہوگی ۔

جب بھائیوں نے باپ کا خط عزیز مصر کو دیا تو انہوں نے اسے لے کر چوما او راپنی آنکھوں پر رکھا اور رونے لگے ۔ گریہ کا عا لم یہ تھا کہ قطرات ِ اشک انکے پیراہن پر گرنے لگے ۔(۲)

(یہ دیکھ کر بھائی حیرت وفکر میں ڈوب جاتے ہیں کہ عزیز مصر کو ان کے باپ سے کیا لگاؤ ہے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ ان کے باپ کے خط نے اس میں ہیجان و اضطراب کیون پید اکردیا ہے اور شاید اسی موقع پران کے دل میں یہ خیال بجلی کی طرح اترا ہو کہ ہو نہ ہو یہی یوسف (علیه السلام) ہو اور شاید باپ کے اسی خط کی وجہ سے یوسف (علیه السلام) اس قدر بیقرار ہو گئے کہ اب مزید اپنے آپ کو عزیز مصر کے نقاب میں نہ چھپا سکے او رجیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ بہت جلد بھائیوں سے بھائی کی حیثیت سے اپنا تعارف کروادیا ) ۔

اس موقع پر جبکہ دور آزمائش ختم ہورہا تھا اور یوسف (علیه السلام) بھی بیتاب اور پرشان نظر آرہے تھے تعارف کے لئے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بھائیوں کی طرف رخ کرکے آپ نے ” کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب تم جاہل و نادان تھے تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا( قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَاٴَخِیهِ إِذْ اٴَنْتُمْ جَاهِلُونَ ) ۔

حضرت یوسف (علیه السلام) کی عظمت اور شفقت ملاحظہ ملاحظہ کیجئے کہ اولاً تو ان کاگناہ مجمل طور پر بیان کیا اور کہا :”مافعلتم “ ( جو کچھ تم نے انجام دیا ہے اور اب تم عاقل اور سمجھدار ہو۔

ضمناً اس گفتگو سے واضح ہو تا ہے کہ گزشتہ زمانے میں انہوں نے صرف یوسف (علیه السلام) پر ظلم نہیں ڈھایا تھا بلکہ بنیامین بھی اس دور میں ان کے شر سے محفوظ نہیں تھے اور انہوں نے اس کے لئے بھی اس زمانے میں مشکلات پیدا کی تھیں ۔ جب بنیامین مصر میں یوسف (علیه السلام) کے پاس تھے شاید ان دنوں میں انہوں نے ان کی کچھ بے انصافیاں اپنے بھائی کو بتائی ہوں ۔

بعض روایات میں ہے کہ وہ زیادہ پریشان نہ ہوں اور یہ خیال نہ کریں کہ عزیز مصر ہم سے انتقام لینے والا ہے یوسف (علیه السلام) نے اپنی گفتگو کو ایک تبسم کے ساتھ ختم کیا ۔ اس تبسم کی وجہ سے بھائیوں کو حضرت یوسف (علیه السلام) کے خوبصورت دانت پوری طرح نظر آگئے ۔ جب انہوں نے خوب غور کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ دانت ان کے بھائی یوسف (علیه السلام) سے عجیب مشابہت رکھتے ہیں ۔(۳)

اس طرح بہت سے پہلو جمع ہو گئے ۔ ایک طرف تو انہوں نے دیکھا کہ عزیز مصر یوسف (علیه السلام) کے بارے میں اور اس پر بھائیوں کی طرف سے کئے گئے مظالم کے بارے میں گفتگو کررہا ہے جنہیں سوائے ان کے اور یوسف (علیه السلام) کے کوئی نہیں جانتا تھا ۔دوسری طرف انہوں نے دیکھا کہ یعقوب (علیه السلام) کے خط نے اس قدر مضطرب کردیا ہے جیسے اس کا یعقوب (علیه السلام) سے کوئی بہت ہی قریبی تعلق ہو۔

تیسری طر ف وہ اس کے چہرے مہرے پر جتنا غور کرتے انہیں اپنے بھائی یو سف (علیه السلام) سے بہت زیادہ مشابہت دکھائی دیتی ۔

لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ یوسف (علیه السلام) عزیز مصر کی مسند پر پہنچ گیا ہو ۔ وہ سوچتے کہ یوسف (علیه السلام) کہا اور یہ مقام کہاں ؟

لہٰذا انہوں نے شک و تردد کے لہجے میں ” کہا : کیا تم خوف یوسف (علیه السلام) تو نہیں( قَالُوا اٴَئِنَّکَ لَاٴَنْتَ یُوسُفُ ) ۔

یہ موقع بھائیوں پر بہت زیادہ حساس لمحات گزرا ۔ کیونکہ صحیح طور پر معلوم بھی نہیں تھا کہ عزیز ِ مصرکے سوال کے جواب میں کیا کہے گا ۔ کیا سچ مچ وہ پردہ ہٹا دے گا اور اپنا تعارف کروائے گا یا انہیں دیوانہ اور بے وقوف سمجھ کر خطاب کرے گا کہ انہوں نے ایک مضحکہ خیز بات کی ہے ۔

گھڑیاں بہت تیزی سے گزر رہی تھیں انتظار کے روح فرسا لمحے ان کے دل کو بوجھل کررہے تھے لیکن حضرت یوسف (علیه السلام) نے نہ چاہا کہ یہ زمانہ طویل ہو جائے ۔ اچانک انہوں نے حقیقت کے چہرے سے پر دہ ہٹا یا اور ” کہا: ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے “( قَالَ اٴَنَا یُوسُفُ وَهذَا اٴَخِی ) ۔لیکن اس بناء پر کہ وہ خدا کی نعمت پر شکر ادا کریں کہ جس نے یہ سب نعمات عطا فرمائی تھیں اور ساتھ ہی بھائیوں کو بھی ایک عظیم درس دیں انہوں نے مزید کہا : خدانے ہم پر احسان کیا ہے جو شخص بھی تقویٰ اور صبر اختیار کرے گا خدا اسے اس کا اجرو ثواب دے گا کیونکہ خدا نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا “( قَدْ مَنَّ اللهُ عَلَیْنَا إِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

کسی کو معلوم نہیں کہ ان حساس لمحات میں کیا گزری او رجب دسیوں سال بعد بھائیوں نے ایک دوسرے کو پہچانا تو کیسا شور و غوغا بپا کیا ، وہ کس طرح آپس میں بغل گیر ہوئے اور کس طرح سے ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو امڈپڑے ۔

ان تمام چیزوں کے باوجود بھائی اپنے آپ میں شرمندہ تھے ۔ وہ یوسف (علیه السلام) کے چہرے کی طرف نظر بھر کے نہیں دیکھ پارہے تھے ۔

وہ اس انتظا رمیں تھے کہ دیکھیں ان کا عظیم گناہ بخشش و عفو کے قابل بھی ہے یا نہیں ۔ لہٰذا انہوں نے بھائی کی طرف رخ کیا او رکہا :خدا کی قسم : اللہ نے تجھے ہم پر مقدم کیا ہے اور تجھے ترجیح دی ہے اور علم حلم اور عقل و حکومت کے لحاظ سے جھے فضیلت بخشی ہے( قَالُوا تَاللهِ لَقَدْ آثَرَکَ اللهُ عَلَیْنَا ) ۔(۴)

یقینا ہم خطاکار اور گناہ گار تھے( وَإِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ ) ۔(۵)

لیکن یوسف (علیه السلام) نہیں چاہتے تھے کہ بھائی اس طرح شرمسار رہیں خصوصاً جب کہ یہ ان کی اپنی کامیابی و کامرانی کا موقع تھا یا یہ کہ احتمالاً بھائیوں کے ذہن میں یہ بات نہ آئے کہ یوسف (علیه السلام) اس موقع پر انتقام لے گا لہٰذا فوراً یہ کہہ کر انہیں مطمئن اور پر سکون کردیا کہ ” آج تمہیں کوئی سر زنش اور توبیخ نہیں ہو گی “( قَالَ لاَتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ ) ۔(۶) تمہاری فکر آسودہ رہے اور وجدان کو راحت رہے اور گذشتہ گناہوں پر غم نہ کرو۔

اس بناء پر کہ انہیں بتایا جائے کہ انہیں نہ صرف یوسف (علیه السلام) کا حق بخش دیا گیا ہے بلکہ ان کی ندامت و پشمانی کی وجہ سے اس سلسلے میں خدائی حق بھی قابل بخشش ہے ، مزید کہا: اللہ بھی تمہیں بخش دے گا کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے( یَغْفِرُ اللهُ لَکُمْ وَهُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ) ۔

یہ حضرت یوسف (علیه السلام) کی انتہائی عظمت کی دلیل ہے کہ نہ صرف اپنا حق معاف کردیا بلکہ اس بات پر بھی تیار نہ ہوئے کہ انہیں تھوڑی سی بھی سر زنش کی جائے چہ جائیکہ ،بھائیوں کوکوئی سزا دیتے بلکہ حق الہٰی کے لحاظ سے بھی انہیں اطمینان دلا یا کہ خدا غفور اور بخشنے والا ہے بلکہ یہ بات ثابت کرنے کے لئے یہ استدلال پیش کیا کہ وہ ارحم الراحمین ہے ۔

اس موقع پر بھائیوں کو ایک اور غم بھی ستا رہا تھا اور وہ یہ کہ باپ اپنے بیٹوں کے غم میں نابینا ہوچکا تھا اور ا س کا اس طرح رہناپورے خاندان کے لئے ایک جانکاہ رنج ہے علاوہ ازیں ان کے جرم پر ایک مسلسل دلیل ہے ۔ لہٰذا یوسف (علیه السلام) نے اس عظیم مشکل کے حل کے لئے بھی فرمایا :” میر ایہ پیراہن لے جاؤ اور میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو تاکہ وہ بینا ہو جائے “( اذْهَبُوا بِقَمِیصِی هَذَا فَاٴَلْقُوهُ عَلَی وَجْهِ اٴَبِی یَأت بَصِیرًا ) ۔”اس کے بعد سارے خاندان کے ہمراہ میرے پاس آجاؤ “( وَأتونِی بِاٴَهْلِکُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

____________________

۱۔بضاعت ۔ بضع کے مادہ سے ہے بروزن جزء

۲۔ مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۳۔” تثریب“ اصل میں ” ثرب“(بروزن ” سرد “)کے مادہ سے ہے ”ثرب“ در اصل چربی کی اس نازک اور پتلی جھلی کو کہتے ہیں جس نے معدے اور آنتوں کوچھپا رکھا ہوتا ہے اور ” تثریب “ اسے الگ کردینے کے معنی میں ہے ۔ بعد ازاں یہ سر زنش و ملامت کے معنی میں استعمال ہو نے لگا گویا اس کام سے گناہ کا پر دہ دوسرے کے چہرے سے دور کردیا جاتا ہے ( قاموس ، مفردات راغب،تفسیر فخررازی اور روح المعانی کی طرف رجوع فرمائیں ) ۔

۴۔”اٰثرک“ ایثار کے مادہ سے ہے

۵۔ فخر رازی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ ” خاطی “ اور ” مخطی“کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”خاطی “ اس شخص کو کہتے ہیں جو جان بوجھ کر برے کام کرے اور ” مخطی “ اسے کہتے ہیں جو غلطی سے غلط کام کرے بیٹھے ۔۶۔ مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ یوسف (علیه السلام) کی قمیص کون لے کر گیا ؟

چند ایک روایات میں آیا ہے کہ حضرت یوسف (علیه السلام) نے کہا :

میرا شفا بخش کرتہ باپ کے پاس وہی لے کر جائے جو خون آلودہ کرتہ لے کر گیا تھا تاکہ جیسے اس نے باپ کو تکلیف پہنچائی اور پریشان کیا تھا اب کے اسے خوش و خرم کرے ۔

لہٰذا یہ کام ” یہودا“ کے سپرد ہواکیونکہ اس نے بتا تھا کہ وہ میں ہو جو خون آلودہ کرتہ لے کرباپ کے پاس گیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ آپ کے بیٹے کو بھیڑیا کھا گیا ہے ۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ یوسف (علیه السلام) اس قدر مشکلات او رمصائب میں گرفتار رہے لیکن اخلاقی مسائل کی باریکی سے غافل نہیں رہتے تھے ۔

۲ ۔ یوسف (علیه السلام) کی عظمت :

بعض دیگر روایا ت میں آیا ہے کہ اس ماجرے کے بعد حضرت یوسف (علیه السلام) کے بھائی ہمیشہ شرمسار رہتے تھے ۔ انہوں نے کسی کو یوسف (علیه السلام) کے پاس بھیجا او رکہلایا کہ آپ ہر صبح و شام ہمیں دستر خوا ن پر بٹھا تے ہیں اور آپ کا چہرہ دیکھ کر ہمیں شرم و خجالت محسوس ہو تی ہے کیونکہ ہم نے آپ کے ساتھ اس قدر جسارتیں کی ہیں ۔

اس بناء پر کہ انہیں نہ صرف احساس شرمندگی نہ ہو بلکہ یوسف (علیه السلام) کے دستر خوان پر ان کی موجو د گی کو یوسف (علیه السلام) کی ایک خدمت محسوس کریں ، حضرت یوسف (علیه السلام) نے انہیں بہت ہی عمدہ جواب دیا ۔ آپ نے کہا: مصر کے لوگ اب تک مجھے ایک زر خرید غلام کی نظر سے دیکھتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے :

سبحان من بلغ عبداً بیع بعشرین درهماً مابلغ

پاک ہے وہ ذات جس نے اس غلام کو کہ جو بیس درہم میں بیچا گیا اس مقام تک پہنچا یا ۔

لیکن اب جب کہ تم لوگ آگئے ہو اور میری زندگی کی کتاب ان کے سامنے کھل گئی ہے تو وہ سمجھنے لگے کہ غلام نہیں تھا بلکہ میں خاندان نبوت سے تعلق رکھتا ہوں اور ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد میں سے ہوں اور یہ میرے لئے باعث ِ افتخار ہے ۔(۱) ۔

۳ ۔ کامیابی کا شکرانہ :

مندرجہ بالا آیات میں یہ اہم اخلاقی درس اور واضح ترین اسلامی حکم موجود ہے کہ دشمن پر کامیابی کے وقت انتقام جو اور کینہ پر ور نہ بنو ۔

یوسف (علیه السلام) کے بھائیوں نے انہیں نہایت سخت صدمے پہنچائے تھے اور انہیں موت کی دہلیز تک پہنچا دیا تھا ۔ اگر لطف الہٰی شامل حال نہ ہوتا تو بچ جانا ان کے لئے ممکن نہ تھا صرف یہی نہیں کہ انہوں نے یوسف (علیه السلام) کو تکلیف پہنچائی تھی بلکہ ان کے والد کو بھی سخت مصیبت میں مبتلا کردیا تھا لیکن اب جب کہ وہ سب کے سب رازو نزار یوسف (علیه السلام) کے سامنے تھے اور یوسف (علیه السلام) کے پاس پوری قدرت و طاقت بھی تھی مگر حضرت یوسف (علیه السلام) کی گفتگو سے او ران کے کلمات کے اندر جھانکنے سے اچھی طرح محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دل میں نہ صرف یہ کہ کوئی کینہ موجو د نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات سے تکلیف ہوتی تھی کہ ان کے بھائی گزشتہ واقعے کو یاد کریں اور پریشان و غمزدہ ہوں اور شر مندگی محسوس کریں ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیه السلام) پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ احساس ان کی روح سے نکال دیں ۔ یہا ں تک کہ اس سے بھی بڑھ کر وہ چاہتے ہیں کہ انہیں یقین دلائیں کہ ان کا مصر میں آنا اس لحاظ سے باعث افتخار ہے کہ خود حضرت یوسف(علیه السلام) کے بارے میں مزید آگاہی کا سبب بنا ہے او رلوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ وہ خاندان ِ رسالت میں سے ہیں نہ کہ ایک کنعانی غلام ہیں کہ جسے چند درہموں میں بیچا گیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بھائی اس طرح محسوس کریں کہ نہ صرف یہ کہ میں ان پر احسان نہیں کررہا بلکہ وہ مجھ پر احسان کررہے ہیں ۔

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو ایسے ہیں حالات میں پیش آئے اور فتح مکہ کے موقع پر آپ کو خونخوار دشمنوں یعنی شرک و بت پرستی کے سر غنوں پر کامیابی حاصل ہو ئی تو ابن عباس کے بقول آ پ خانہ کعبہ کے پاس تشریف لائے ۔ اس وقت مخالفین کعبہ میں پناہ لے چکے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ پیغمبر اسلام ان کے بارے میں کیا حکم صادر کرتے ہیں ۔ ایسے میں آپ نے کعبہ کے کنڈے کو پکڑ کر فرمایا:الحمد لله الذی صدق وعده و نصرعبده و هزم الاحزاب وحده

شکر ہے خدا کا کہ جس کا وعدہ پورا ہوا اور اس نے اپنے بندے کو کامیاب کیا اور دشمنون کے گروہوں کو شکست دی ۔ اس کے بعد آپ (علیه السلام) نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا :ماذا تظنون معشر قریش

اے قریش والو! کیا گمان ہے کہ میں تمہارے بارے میں حکم دو ں گا ۔

قالوا خیراً ، اخ کریم ، و ابن اخ کریم و قد قدرت

انہوں نے جواب دیا : ہم تجھ سے خیر و نیکی کے علاوہ کوئی توقع نہیں رکھتے ۔ آپ کریم و شریف بھائی ہیں اور کریم و بزرگوار بھائی کے بیٹے ہیں اور اس وقت قدرت و طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

قال و انا اقول کما قال اخی یوسف : لاتثریب علیکم الیوم

اس پر پیغمبر اکرم نے فرمایا : میں تمہارے بارے میں وہی کچھ کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف (علیه السلام) نے اپنے بھائیوں کے کے بارے میں کامیابی کے وقت کہا تھا ” لاتثریب علیکم الیوم “۔ یعنی ۔ آج تمہارے لئے روز ملامت و سر زنش نہیں ہے ۔

عمر کہتے ہیں :

اس موقع پر میرے چہرے پر شرم و حیا سے پسینہ آگیا کیونکہ میں نے مکہ میں داخل ہوتے وقت ان سے کہا تھا : آج کے دن میں تم سے انتقام لوں گا ۔ جب پیغمبر نے وہ جملہ فرمایا تو مجھے اپنی گفتگو پر شرم آئی ۔(۲)

روایات اسلامی میں بھی بار ہا یہ آیا ہے کہ :

کامیابی کی زکات عفو و بخشش ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

اذا قدرت علی عدوک فاجعل العفو عنه شکراً للقدرة علیه ۔

جس وقت تو اپنے دشمن پر کامیاب ہو جائے تو عفو بخشش کو اپنی کامیابی کا شکرانہ قرار دے ۔(۳)

____________________

۱ ۔ تفسیر فخر رازی جلد ۱۸ ص ۲۰۶۔

۲۔ تفسیر قرطبی، جلد ۵ ص ۳۴۸۷۔

۳۔ نہج البلاغہ کلمات قصار ۔ جملہ ۱۱۔


6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31