تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27320
ڈاؤنلوڈ: 2007


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27320 / ڈاؤنلوڈ: 2007
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۸،۹،۱۰

۸ ۔( اللهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اٴُنثَی وَمَا تَغِیضُ الْاٴَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ ) ۔

۹ ۔( عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشّهََادَةِ الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِی ) ۔

۱۰ ۔( سَوَاءٌ مِنْکُمْ مَنْ اٴَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ ) ۔

ترجمہ

۸ ۔خدا ان تمام جنیوں سے آگاہ ہے جن کا ہر مادہ انسان یا مادہ جانور حامل ہے اور جسے رحم کرتے ہیں ( اور مقررہ مدت سے پہلے جتنے ہیں ) اور جسے زیادہ کرتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کی مقدار معین ہے ۔

۹ ۔ وہ غیب و شہود سے آگاہ ہے او ربزرگ و متعال ہے ۔

۱۰ ۔ اسے فرق نہیں پڑتا کہ تم میں سے کچھ پنہاں گفتگو کرتے ہیں یا آشکار اور وہ جو رات کو خفیہ حر کت کرتے ہیں یا دن کی روشنی میں ۔

خدا کا بے پایاں علم

ان آیات میں پر وردگار کی کچھ صفات بھی ہیں اور یہ آیات توحید اور معاد کی بحث کی تکمیل بھی کرتی ہیں ۔ یہاں پر وردگار کے وسیع علم اور ہر چیز کے بارے میں اس کی آگاہی کے متعلق گفتگو ہے۔ وہی علم جو نظام آفرینش ، عجائبات ِ خلقت اور دلائل ِ توحید کا سر چشمہ ہے ۔ وہی علم جو قیامت اور اس کی عظیم عدالت کی بیاد ہے ۔ ان آیات میں علم کے دونوں پہلوؤں ( نظام آفرینش کا علم اور بندوں کے اعمال کا علم ) کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : خدا ان جنینوں ( جو بچے شکم مادر میں ہوتے ہیں ) سے آگاہ ہے کہ جنہیں ہر عورت اور ہر مادہ جانور( اپنے شکم میں ) اٹھائے ہوتا ہے( اللهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اٴُنثَی )

اور اسی طرح انہیں بھی جانتا ہے جنہیں رحم وقت مقرہ سے پہلے جَن دیتے ہیں( وَمَا تَغِیضُ الْاٴَرْحَامُ ) ۔(۱)

اور یونہی ان سے باخبر ہے جنہیں رحم وقت مقررہ سے زیادہ روک رکھتے ہیں( وَمَا تَزْدَادُ ) ۔

مندرجہ بالا تین جملوں کی تفسیر کے بارے میں مفسیرن میں بہت اختلاف ہے ۔

جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے بعض مفسرین حمل کی تین قسموں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔ یعنی کبھی وقت مقررہ پر پیدا ہوتا ہے ، کبھی وقت مقررہ سے پہلے ( گویا در کار وقت کو اپنے اندر جذ کرلیتا ہے ) اور کبھی وقت مقررہ کے بعد ۔ خدا ان تمام کو جانتا ہے ۔ وہ جنین کی تاریخ تولد اور لمحہ ولادت سے بے کم و کاست آگاہ ہے اور یہ ایسے امور میں سے ہے جسے کوئی شخص اورکوئی مشینری حتماًمعین نہیں کرسکتی ۔ یہ علم پروردگار کی ذات پاک سے مخصوص ہے اور اس کی دلیل بھی واضح ہے کیونکہ رحمتوں اور جنینوں کی استعداد بالکل مختلف ہوتی ہے اور کوئی شخص بھی ان اختلافات سے حتماً اور کاملا ً آگاہ نہیں ہے ۔

بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ یہ تین جملے حمل کی مختلف حالتوں کی طرف اشارہ ہیں ۔ پہلا جملہ خود جنین کی طرف اشارہ ہے کہ رحم اسے محفوظ کرلیتا ہے ۔ دوسرا جملہ خونِ حٰض کی طرف اشارہ ہے جو رحم میں گرتا ہے اور جنین اسے جذب کرلیتا ہے ، اسے چوستا ہے اور اسے نگل لیتا ہے اور تیسرا جملہ اضافی خون کی طرف اشارہ ہے جو حمل کے دنوں میں کبھی کبھار باہر گرتا ہے یا ولادت کے وقت یا س کے بعد رحم سے الگ ہو تا ہے ۔(۲)

لیکن جو روایات تفسیر نو ر الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں آئمہ اہل بیتعليه‌السلام سے نقل ہوئی ہیں وہ زیادہ تر اسی پہلے منعی کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جو ہم متن میں ذکر کرچکے ہیں

اس آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں دیگر احتمالات بھی ذکر کئے گئے ہیں کہ جن میں سے کوئی بھی مختلف ہو نے کے باوجود دوسرے سے متضاد نہیں ہے اور ہوسکتا ہے یہ آیت ان تمام تفاسیر کی طرف اشارہ ہو ارگ چہ ظاہری مفہوم وہی ہے جو پہلی تفسیر کے ضمن میں پیش کیا گیا ہے ۔ کیونکہ لفظ ”تحمل“ جنین کے اٹھانے کا معنی دیتا ہے اور اس کے قرینہ سے ” تغیض“ اور ”تزداد“ کے الفاظ دورانِ حمل کی کمی اور بیشی کی طرف اشارہ ہیں ۔

ایک حدیث جو امام محمد باقرعلیہ السلام یا امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے ، اس طرح ہے :الغیض کل حمل دون تسعة اشهر ، وما تزداد کل شیء یزداد علی تسعة اشهر

”غیض“ ہر اس حمل کو کہتے ہیں جس کی مدت ۹ ماہ سے کم ہو اور ” ماتزداد“ ہر وہ چیز ہے جو ۹ ماہ سے زیادہ ہو ۔

اس حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں :کلمارأت المراة الدم الخالص فی حملها فانها تزداد و بعدد الایام التی زاد فیها فی حملها من الدم

جب عورت حمل کی حالت میں خالص خون دیکھے تو اس خون کے ایام کی تعداد کے برابر حمل کی مدت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔(۳)

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : ہر چیز خد اکے ہاں معین مقدار کی حامل ہے (وَکُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہُ بِمِقْدَارٍ )۔کہیں یہ خیال نہ ہو کہ مدت حمل کی یہ کمی بیشی بغیر کسی حساب کتاب کے اور بغیر کسی سبب کے ہے بلکہ اس مدت کی ہر گھڑی اور ہر لحظہ نپا تُلا ہے ۔

بعد والی آیت درحقیقت گذشتہ آیت میں بیان کی گئی بات کی دلیل ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : خدا غیب و شہود ( اور پنہاں و آشکار) سب کو جانتا ہے( عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشّهََادَةِ ) ۔

غیب و شہود کے بارے میں اس کی آگاہی اس بناء پر کہ ” وہ بزرگ و بر تر ہے ، ہر چیز کے لئے متعال ہے اور ہر چیز پر مسلط ہے “ اسی بناء پر وہ ہر جگہ حاضر ہے اور کوئی چیز اس کی نگاہِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے( الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِ )

اس بحث کی تکمیل کے لئے اور اس کے علم بے پایاں کے بارے میں تاکید کے لئے مزید فرمایا گیا ہے ” خدا کے لئے ان لوگوں میں کوئی فرق نہیں کہ جو اپنی بات چھپاتے ہیں اور وہ جو آشکار کرتے ہیں وہ سب کچھ جانتا اور سنتا ہے( سَوَاءٌ مِنْکُمْ مَنْ اٴَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ ) ۔

نیز اس کے لئے ان لوگوں میں کچھ فرق نہیں کہ جو خفیہ طور پر رات کی تاریکی میں اور ظلمت کے پردوں میں قدم اٹھاتے ہیں اور وہ کہ جو آشکارا روزِ روشن میں اپنے کارو بار کے لئے نکلتے ہیں( وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ )(۴)

چند اہم نکات

۱ ۔ قرآن اور جنین شناسی :

قر آ ن مجید میں بار ہا جنین ، اس کے عجائب و غرائب اور نظام کی طرف توحید ، خدا شناسی اور حضرتِ حق کے علم بے پایاں کی ایک دلیل کے طور پر اشارہ ہوا ہے ۔ البتہ جنین شناسی ایک بالکل نیا علم ہے ۔ گزشتہ زمانے میں علماء اور سائنسداں جنین اور اس کے مختلف مراحل کے بارے میں بہت محدود اطلاعات رکھتے تھے لیکن علم اور سائنس کی پیش رفت کے ساتھ اس علم میں تیزی سے غیر معمولی ترقی ہوئی ہے اور اس خاموش اور بے آواز دنای کے بہت سے اسرار و عجائب منکشف ہوئے ہیں اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ جنین کی خلقت ، اس کے تحول اور تکامل میں خدا شناسی کی ایک دنیا پوشیدہ ہے ۔

اس موجودہ کی کونخبر پا سکتا ہے کہ جو ہر کسی کی دسترس سے باہر ہو قرآنی الفاظ میں جو ” ظلمات ثلاث “ ( تین تاریکیوں ) میں موجود ہواور جس کی زندگی انتہائی ظریف اور دقیق ہو ۔ کو ن اسے ضروری مقدار میں غذا بہم پہنچا سکتا ہے اور کون تمام مراحل میں اس کی ہدایت کرسکتا ہے ۔

مندرجہ بالا آیات میں جب خدا فرماتا ہے کہ ” خدا جانتا ہے کہ ہر مادہ جانور کے رحم میں کیا ہے “ تو اس کا یہ مفہوم نہیں کہ صرف اس کی جنسیت ( یعنی نر یا مادہ ہونے ) کے بارے میں آگاہ ہے بلکہ اس کی تمام مشخصات ، استعداد، ذوق اور طاقت کہ جو بالقوہ اس میں پوشیدہ ہے کے متعلق آگاہ ہے اور یہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص کسی بھی ذریعے سے آگاہی حاصل نہیں کرسکتا ۔

اس بناء جنین میں حساب شدہ نظاموں کی موجودگی اور دقیق و پیچیدہ ارتقاء میں اس کی راہبری ایک عالم و قدار مبداء کے بغیر ممکن نہیں ۔

سورہ طلاق آیہ ۳ میں ہے :( قد جعل الله لکل شیء قدراً )

خدا انے ہر چیز کے لئے ایک مقدار معین کی ہے

سورہ حجر آیہ ۲۱ میں ہے :( و ان کان من شیء عنده نا خزائنه و ما ننزله الا بقدر معلوم )

ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم ایک معین مقدار کے سوا نازل نہیں کرتے ۔

زیر بحث آیات میں بھی ہم نے پڑھا ہے :( وکل شیء عنده بمقدار )

اور تمام چیزوں کی اس کے یہاں مقدار ہے ۔

یہ سب آیات اس امر کی طرف اشارہ ہیں کہ اس عالم کی کوئی چیزحساب کتا ب کے بغیر نہیں ہے یہاں تک کہ طبیعی دنیا میں جن موجودات کو ہم بغیر حساب کتاب کے فرض کرتے ہیں وہ سب دقیق او ر جچا تلا حساب رکھتی ہیں چاہے ہم اس سے جانیں یا نہ جانیں ۔ اصولی طو ر پر خدا کے حکیم ہو نے کا بھی اس کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں کہ ہر چیز کی خلقت میں ایک پروگرام ، حد اور مقدار معین ہوتی ہے ۔ جن اسرار ِ خلقت کو ہم نے آج علوم کے ذریعے معلوم کیا ہے وہ اس حقیقت کو پورے طور پر تاکید کرتے ہیں ۔ مثلاً انسان کا خون کہ جو اس کے وجود کی زندگی کا سب سے اہم مادہ ہے اور جو تمام ضروری مواد کو انسانی بدن کے تمام خلیوں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے ، بیس سے زیادہ عناصر کا مرکب ہے ان عناصر کا تناسب اور کیفیت اس قدر مہم دقیق اور جچی تلی ہے کہ اس میں تھوڑے سے تغیر سے بھی انسانی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے ۔یہی وجہ ہے بدن کی خرابیوں کو پہچاننے کے لئے فوراً خون ٹیسٹ کرتے ہیں اور شوگر ، چربی اور اورہ، آئرن اور دیگر اجزائے ترکیبی کا اندازہ لگا یا جاتا ہے اور ان اجزاکی کمی بیشی سے فوراً بدن کی بیماریوں کے علل و اسباب معلوم کرلئے جاتے ہیں ۔

ان کا خون ہی ایسی دقیق ترکیب نہیں رکھتا بلکہ یہی صورت تمام عالم ہستی کی ہے ۔

اس نکتے کی طرف توجہ کرنے سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ کبھی کبھار وہ چیزیں ہم عالم ہستی کی بے نظمیاں خیال کرتے ہیں اور دراصل ہمارے علم کی نارسائی اور ناپختگی سے مربوط ہیں ۔ ایک موحد اور سچا خدا پرست عالم کے بارے میں کبھی بھی ایسا تصور نہیں کرسکتا او رعلوم کی تدریجی پیش رفت اسی حقیقت کی گواہ ہے ۔

اس گفتگو سے ہم یہ سبق بھی سیکھ سکتے کہ انسانی معاشرہ جو پورے نظام ہستی کا ایک حصہ ہے اگر صحیح زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئیے کہ ” شیء عندہ بمقدار“ کا اصول اس کے سارے وجود پر حکمران ہو وہ ہر قسم کے افراط و تفریط سے بچے اور ہر اس کام سے پر ہیز کرے جو بغیر کسی حساب کتاب کے ہو اور اسکے تمام اجتماعی اصول جچے تلے ہونے چاہئیں ۔

۳ ۔ خد اکے لئے غیب و شہود برابر ہیں :

زیر بحث آیات میں یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ غیب و شہود بار گاہ خدا وندی میں واضح اور روشن ہے ۔ بنیادی طور پر غیب و شہود دو نسبتی مفہوم ہیں کہ جو ایسے موجود کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں جس کا علم اور ہستی محدود ہوں ۔

مثلاً ہم جو حواس خمسہ کے حامل ہیں تو جو کچھ ہماری آنکھوں ، قوتِ سماعت اور دیگر حواس کی پہنچ کے اندر ہے وہ ہمارے ”شہود“ ہے اور جو کچھ ہماری دید و شنید سے باہر ہے ہمارے لئے وہ ” غیب ہے “۔ فرض کیا اگر ہماری نگاہ کی قدرت لامحدود ہوتی، ہم اشیاء کے ظاہر و باطن کو دیکھ سکتے اور ذرات عالم کے اندے ہماری نظر اتر جاتی تو تمام چیزیں ہمارے لئے شہود“ ہو جاتیں ۔ خدا کی ذات پا ک کے علاوہ باقی تمام چیزیں چونکہ محدود ہیں لہٰذا ان تما م چیزوں کے لئے غٰب و شہود موجود ہے لیکن ذات الہٰی چونکہ لامحدود ہے اور ہر جگہ موجود ہے لہٰذا اس کے لئے تمام چیزیں شہود ہیں اور اس کی ذاتِ پاک کے برے میں ”غیب “کوئی مفہوم نہیں رکھتا ۔

اگر ہم کہتے ہیں کہ خدا ”( عالم الغیب و الشهادة ) “ ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لئے غیب یا شہود ہے اس کے لئے یکساں اور شہود ہے ۔

اگر ہم روشنی میں اپنی ہتھیلی کی طرف دیکھیں تو کیا ممکن ہے کہ جو کچھ اس میں ہو ہم اس سے بے خبر رہ جائیں ۔ عاللم ہستی علم خدا کے سامنے اس بھی کئی درجے زیادہ واضح و آشکار ہے ۔

۴ ۔ علم خدا کی طرف کے تربیتی آثار:

یہ جو ہم مندرجہ بالا آیات میں پڑھتے ہیں کہ خد اپنہاں و آشکار چیزوں کو ، رات اور دن کی آمدو رفت کو تمہاری تمام حرکات کو یکسا ں طور پر جانتا ہے اور اس کے علم کی بارگاہ میں یہ سب آشکار ہیں ۔ اس حقیقت پر اگر ہم حقیقی ایمان رکھتے ہوں اور یہ احساس رکھتے ہوں کہ وہ ہمارے اوپر ہر وقت نگران ہے تو اس سے ہماری روح ، فکر ، گفتار اور کردار میں ایک بہت گہرا انقلاب پیداہو جائے گا ۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صا دق علیہ السلام ایک سوال کیا : آپ کی زندگی کا پروگرام کیا ہے ؟

آپ نے چند امور بیان فرمانے کے بعد فرمایا :علمت ان الله مطلع علی فاستحییت

میراایک پروگرام یہ ہے کہ میں نے جان لیا ہے کہ خد امیرے تمام کاموں سے آگاہ ہے اور ان کے بارے میں باخبر ہے لہٰذا میں ا س کی نافرمانی سے حیا کرتا ہوں ۔

تاریخ اسلام میں اور حقیقی مسلمانوں کی روز مرہ زندگی میں ہم اس حقیقت کے بہت سے جلوہ مشاہدہ کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں ایک باپ بیٹا ایک باغ میں پہنچے ۔ باپ باغ کے مالک کی اجازت کے بغٰر پھل توڑنے کے لئے درخت پر چڑھ گیا ۔ اس کا بیٹا جو با معرفت نوجوان تھا کہنے لگا : ابّا ! نیچے اتر آؤ ۔

باپ پریشان ہوا اور ڈرا ۔ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے فوراً نیچے اتر آیا۔ اس نے پوچھا : مجھے نظر نہیں آیا، کوتھا جو مجھے دیکھ رہا تھا ؟ لڑکے نے کہا تمہارے اوپر سے ۔

اس نے اوپر کی کی طرف دیکھا تو اسے کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

بیٹے نے کہا، میری مراد خدا ہے ، جو ہم سب سے مافوق اور ہم سب پرمحیط ہے ، کیسے مکن ہے کہ ایک انسان کے دیکھنے سے تو تمہیں خوف آتا ہے لیکن خدا جو تمہیں ہر حالت میں دیکھ رہا ہے اس سے تجھے کوئی خوف نہیں آتا ۔ یہ کیا ایمان ہے ۔

____________________

۱۔ ”تغیض “ ” غیض“ کے مادہ سے ہے ۔ یہ اصل میں بہنے والی چیز کا نگل جانے اور اسے ٹھہرالینے کے معنی میں ہے اسی لئے یہ لفظ نقصان اور فساد کے معنی میں بھی آیاہے۔”غیض“ ایسے مکان اور جگہ کو کہا جاتا ہے جس میں پانی کھڑا ہو جائے اور اسے نگل جائے ” لیلة غائضة“تاریک رات کے معنی میں ہے ( یعنی ایسی رات جو سارا نور نگل گئی ہو )۔

۲۔ تفسیر المیزان میں آیت کی اس تفسیر کی تائید کے ضمن میں صاحبِ تفسیر کی تائید کے ضمن میں صاحبِ تفسیر فرماتے ہیں کہ آئمہ اہل بیتعليه‌السلام کی بعض روایات اس تفسیر کی تائید کرتی ہیں او رجو کچھ ابن عباس سے نقل ہو اہے وہ بھی حتما ً اسی معنی پر منطبق ہوتا ہے ۔

۳۔ نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۸۵۔

۴”سارب“ اصل میں ”سرب“ ( بر وزن” ضرر“ ) کے مادہ سے ”جاری پانی “ کے معنی میں ہے ۔ بعد از اں لفظ اس انسان کے بارے میں استعمال ہونے لگا جو کسی کام کے پیچھے چل رہا ہو۔اصولی طور پر اس شخص کے لئے نور و ظلمت ، تاریکی و روشنی اور غیب و شہود کوئی مفہوم نہیں رکھتے جو ہر جگہ حاضر و ناضر ہے ۔ وہ یکساں طور پر ان سب سے آگاہ اور با خبر ہے ۔

آیت ۱۱

۱۱ ۔( لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ یَحْفَظُونَهُ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ إِنَّ اللهَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِهِمْ وَإِذَا اٴَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوئًا فَلاَمَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ ) ۔

ترجمہ

۱۱ ۔انسان کے لئے کچھ مامورین ہیں کہ جو پے درپے سامنے اور اس کے پیچھے سے اسے ( غیر حتمی ) حوادث سے محفوظ رکھتے ہیں لیکن خدا کسی قوم ( اور ملت ) کی سر نوشت کو نہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ خود اسے تبدیل کریں اور جب خدا کسی قوم کے بارے میں ( ان کے اعمال کی وجہ سے ) بُرا ارادہ کرتا ہے تو کوئی اس کے لئے رکاوٹ نہیں ہوتی اور خد اکے علاوہ ان کا کوئی سر پرست نہیں ہو گا۔

غیبی محافظ

گزشتہ آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ خدا علم الغیب و الشہادة ہونے کی بناء پر لوگوں کے پنہاں اور آشکار سے باخبر ہے اور وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ۔

زیر بحث آیت میں مزید اشاد فرمایا گیا ہے : اس کے علاوہ کہ خدا اپنے بندوں کا محافظ اور نگہبان ہے ” کچھ مامورین ہیں کہ جو پے در پے آگے اور پیچھے سے حوادث سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں “( لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ یَحْفَظُونَهُ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ ) ۔(۱)

لیکن کوئی اس بناء پر کہ کوئی یہ اشتباہ نہ کرے کہ یہ حفاظت و نگہبانی بلا مشروط ہے اور انسان کہیں اپنے آپ کو ہر گڑھے میں نہ گرادے یاکہیں انسان ہر طرح کے گناہ کامرتکب نہ ہونے لگے اور اس طرح اپنے آپ کو عذاب کا سزا وار بنا کر بھی توقع رکھے کہ خدا اور اس کے مامو محافظین اس کی حفاظت کریں ، مزید فرمایا گیا ہے : خداکسی قوم و ملت کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ میں تبدیلی پیدا نہ کرے( إِنَّ اللهَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِهِمْ ) )۔دوبارہ اس لئے کہ کوئی غلط فہمی نہ ہو کہ انسانی حفاظت کے مامورین ہونے کے باوجود مجازات و سزا اور خدا ئی امتحانات کا کیا معنی ہے ، آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : جس وقت خدا کسی قوم کے لئے برائی کا رادہ کرتا ہے تو پھر دفاع اور بازگشت کی کوئی باگشت کی کوئی صورت نہیں ہے( وَإِذَا اٴَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوئًا فَلاَمَرَدَّ لَهُ ) ۔

” اور خدا کے علاوہ ان کو کوئی والی و ناصر اور یارو مدد گار نہیں ہو سکتا “( وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ ) ۔

اسی بناء پر جب کسی قوم کے لئے خدا کی طرف سے عذاب ، سزا اور نابودی کا فرمان صادر ہوجاتا ہے تو محافظین اور نگہبان الگ ہو جاتے ہیں اور انسان کو حوادث کے سپرد کردیتے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”معقبات“ کیا ہیں ؟

جیسا کہ طبرسی نے مجمع البیان میں اور بعض میں اور بعض دوسرے بزرگ مفسرین نے کہاہے ” معقبات“ جمع ہے ” معقبہ“کی جب خود ” معقبہ“ بھی ” معقب“ کی جمع ہے اور یہ اس گروہ کو کہتے ہیں جس کے افراد پے در پدے ایک دوسرے کی نیابت میں کسی کا کے لئے نکلیں ۔

اس آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالےٰ نے کچھ فرشتوں کی یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ رات دن باری انسان کے پاس آئیں اور آگے اور پیچھے سے اس کی حفاظت کریں ۔

بیشک انسان اپنی زندگی میں بہت سی آفات و بلیات سے دوچار ہے ۔ اندرونی و بیرونی حوادث ، طرح طرح کی بیماریاں ، جرائم اور مختلف قسم کے حادثات و خطرات کہ جو زمین و آسمان سے ابھر تے ہیں انسان کو گھیر ے ہوئے ہیں ۔ خصوصاًبچپن کے زمانے میں جب گردو پیش کی کیفیتوں سے انسان بہت کم آگاہ ہوتا ہے ، اسے کوئی تجربہ نہیں ہوتا، ہر قدم پر اسے کوئی نہ کوئی خطرہ در پیش ہوتا ہے او رکبھی تو انسان تعجب کرتا ہے کہ ان تمام حوادث سے بچہ طرح بچ نکلتا ہے اور بڑا ہو جاتا ہے خصوصاًایسے گھر انوں میں جہاں ماں باپ مسائل سے بالکل آگاہ بھی نہیں ہوتے یا ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے ۔ خاص طور پر دیہات میں پلنے بڑھنے والے وہ بچے جو محرومیوں کا شکارہوتے ہیں اور بیماری اور خطرات کے عوامل میں گھر ے ہوتے ہیں ۔

اگر ان مسائل پر ہم حقیقی طور پر غور وفکر کریں تو ہم محسوس کریں گے کہ ایک محافظ طاقت ہے کہ جو ان حوادث سے ہماری حفاظت کرتی ہے اور سپرد اور ڈھال کی طرح آگے اور پیچھے سے ہماری محافظ و نگہبان ہے ۔

بہت سے مواقع پر انسان کو خطر ناک حادثات پیش آتے ہیں اور وہ معجزانہ طور پر ان سے بچ نکلتا ہے اس طرح سے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ سب چیزیں اتفاقی نہیں ہیں کہ بلکہ ایک محافظ طاقت اس کی نگہبانی کررہی ہے ۔

پیشوایان ِ اسلام سے مروی بہت سی روایات بھی اس پر تاکید کرتی ہیں ۔ ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ زیر ِ بحث آیت کی تفسیر میں آپعليه‌السلام نے فرمایا :

بحفظ بامر الله من ان یقع فی رکی علیه حائط او یصیبه شیء حتی اذاجاء القدر خلو بینه و بین یدفعونه الیٰ المقادیر و هما ملکان یحفظانه باللیل و ملکان من نهار یتعاقبانه

حکم خدا سے انسان کی حفاظت ہوتی ہے ، کنویں میں گرنے سے یا دیوار پر آپڑ نے سے یا کوئی اور حادثہ سے مگر جب حتمی مقدرات آپہنچیں تو محافظین ایک طرف ہا جاتے ہیں اور اسے حوادث کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اور دو فرشتے انسان کی رات کو حفاظت کرتے ہیں اور ( ان کے علاوہ ) فر شتے دن کے وقت باری باری ذمہ داری پوری کرتے ہیں ۔ ۲

ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے :

مامن عبد الا و معه ملکان یحفظانه فاذا جاء الامر من عند الله خلیا بینه و بین امر اللهِ

کوئی بھی ایسا بندہ نہیں کہ جس کے ساتھ دو فرشتے نہ ہوں کہ جو اس کی حفاظت کرتے ہوں لیکن جب خدا کا قطعی فرمان آپہنچا ہے تو وہ اسے حوادث کے سپرد کردیتے ہیں ۔(۳)

(اس بناء پر وہ انسان کی حفاظت صرف ان حوادث سے کرتے ہیں جن کے بارے میں خدا کا قطعی حکم نہیں ہوتا )۔

نہج البلاغہ میں بھی حضر ت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا :

ان مع کل انسان ملکین یحفظانه فاذا جاء القدر خلیا بینه و بینه

یعنی ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں کہ جو اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن جب حتمی مقدرات آپہنچے تو وہ اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔(۴)

اسی طرح نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں فرشتوں کی تعریف اور ان کے مختلف گروہوں کے بارے میں ہے :

و منهم الحفظة لعباده

ان میں سے ایک گروہ خد اکے بندوں کا محافظ ہے ۔

البتہ حسّی ذرائع سے یا طبعی علوم کے ذریعے ان فرشتوں کے وجود کے بارے میں عدم آگاہی ان کے وجود کی نفی کی دلیل نہیں ہو سکتی اور یہ بات زیر بحث آیت میں منحصر نہیں ہے بلکہ قرآن مجید اور اسی طرح دیگر مذاہب بہت سے ایسے امور کی خبر دیتے ہیں جو حس ّ انسانی سے ماوراء ہیں کہ جن کے بارے میں انسان عام ذرائع سے آگاہی حاصل نہیں کرسکتا ۔

اس سے قطع نظر جیسا کہ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں کہا ہے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمیں اس محافظ قوت کی واضح نشانیاں نظر آتی ہیں اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ بہت سے تباہ کن حوادث سے ہم معجزانہ طور پر نجات حاصل کرتے ہیں کہ جن کی تفسیر عام طریقے سے نہیں ہوسکتی یا جنہیں اتفاق قرار دینا مشکل ہے ۔

خود راقم نے اپنی زندگی میں اس کے نمونے دیکھے ہیں کہ جو یقینا حیرت انگیز ہیں کہ جو مجھ جیسے جلدی یقین نہ کرنے والے شخص کے لئے بھی غیر مرئی محافظ کے وجود کے لئے دلیل تھے ۔

۲ ۔ تبدیلی ہمیشہ خود ہمارے ہاتھو سے آتی ہے :

( ان الله لایغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسهم ) “ یہ جمہ قرآن میں دو مواقع پر مختصر سے فرق کے ساتھ آیاہے اس میں ایک عمومی اور کلی قانون بیان کیا گیا ہے ۔ یہ ایک حیات ساز ، انقلاب آفریں ، اور خبر دار اور ہوشیار کرنے والا قانون ہے ۔

یہ قانون اسلام میں جہاں بینی او رمعاشرہ شناسی کی بنیاد ہے .....یہ قانون ہم سے کہتا ہے کہ تمہاری تقدیر ہر چیز اور ہر شخص سے پہلے خود تمہارے ہاتھ میں ہے اور قوموں کی خوش بختی و بد بختی کے سلسلے میں تبدیلی اور تغیر پہلے درجے میں خود انہی سے وابستہ ہے ۔ قسمت ، اقبال اتفاقات اور اوضاعِ فلکی کی تاثیر و غیرہ کوئی بھی بنیاد نہیں رکھتی ۔ اساس و بیاد یہی ہے کہ ہر شخص خود چاہے تو سر بلند اور کامیاب ہو یا اس کے علاوہ خود چاہے تو اپنے آپ کو ذلت ، زبوں حالی اور شکست کے سپرد کردے ۔ یہاں تک کہ لطف الہٰی کسی ملت پر بغیر کسی مقدمہ اور تمہید کے نہیں آتا۔

بلکہ یہ ملتوں کا اپنا ارادہ ، خواہش اور ان کے اندر ونی تغیرات ہیں کہ جو انہیں لطف ِ خدا یا عذابِ خدا کا مستحق بنا تے ہیں ۔

دوسرے لفظوں میں اسلام اجتماعی پرگرام کے ایک اہم ترین گوشے سے آگاہ کرنے والا یہ قانون ہم سے کہتا ہے کہ ہر قسم کے بیرانی تغیرات اور تبدیلیاں ملتوں اور قوموں کے اندرونی تغیرات پر منحصر ہوتی ہیں اور کسی قوم کو پیش آنے ہر قسم کی فتح و شکست کا سر چشمہ اس کے اندر ہو تا ہے ۔ لہٰذا وہ لوگ کہ جو اپنا دامن بچانے کے لئے ہر وقت ” بیرونی عوامل “ کے پیچھے پھرتے ہیں اور ہمیشہ اقتدار پرست اور استعماری طاقتوں کو اپنی بد بختی کا عامل شمار کر تے ہیں بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کیونکہ اگر کسی معاشرے کے اندر ان جہنمی طاقتوں کو کوئی مر کز حاصل نہ ہو تو یہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں ۔

اہم بات یہ ہے کہ ان توسیع پسندوں ، استعماری قوتوں اور سپرد طاقتوں کی چھاؤنیاں او رمراکز اپنے معاشرے سے در ہم برہم کردیں اور ان کی سر کوبی کریں تاکہ ان کے لئے نفوذ کی کوئی راہ ہی باقی نہ رہے ۔

یہ طاقتیں شیطان کی مانند ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ قرآن کے بقول شیطان ان لوگوں پر دسترس حاصل نہیں کرسکتا جو” عباد مخلصین “ ہیں ۔ وہ صرف ان لوگوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے جنہوں نے اپنے وجود کے اندر شیطان کے لئے کوئی جگہ بنا رکھی ہے ۔

قرآن کی اس بنیادی تعلیم کا تقاضا ہے کہ بد بختیوں او رناکامیوں کو ختم کرنے کے لئے اندرونی انقلاب کی طرف بڑھیں ۔ ایک فکری اور ثقافتی انقلاب کی طرف ، ایک ایمانی اور اخلاقی انقلاب کی طرف ۔ بد بختیوں کے چنگل میں گرفتاری کے وقت اپنے کمزور پہلوؤں کو فوراً تلاش کرنا چاہئیے ۔ ہمیں اپنی روح سے کمزوری کے داغ توبہ او رحق کی طرف باز گشت کے پانی سے دھونے چاہئیں ۔ا س طرح ہم ایک نیا جنم لیں گے ، نیا نور بصیرت ملے گا اور نئی طاقت حرکت پیدا ہو گی اور اس کے ذریعے ہم اپنی ناکامیوں اور شکستوں کو کامیابی میں بدل سکتے ہیں ۔ یہ کامیابی اس طرح سے ممکن نہیں کہ ہم اپنے کمزورپہلوؤں کو خود خواہی اور خود غرضی کے پردوں میں چھپا دیں اور عوامل شکست کو اپنے معاشرے کے باہر سے تلاش کرتے پھریں ۔

پہلے مسلمانوں کی فتح و کامرانی او ربعد والے مسلمانوں کی شکست کے عوامل پر اب تک بہت سی کتا بیں لکھی گئی ہیں ۔ ان میں سے بہت سی مباحث سنگلاخ زمین پر ہل چلانے اور بے سمت چلنے کے مترادف ہیں ۔ ہمیں چاہئیے کہ کامیابی اور ناکامی کے عوامل خود مسلمانوں کے فکری ، اعتقادی اور اخلاقی تغیرات میں تلاش کریں ۔ خود مسلمانوں کی عملی زندگی کا مطالعہ کریں نہ کہ اس سے ہٹ کر ۔

دورحاضر کے انقلابات کہ جن میں سے ایک ہماری ملت کا انقلاب ہے اسی طرح اگر ہم الجزائر ، افغانستان اور دیگر مقامات کی انقلابی جد و جہد کا مطالعہ کریں تو ہم ان میں واضح طورپر اس قرآنی اصل کی حاکمیت کا مشاہدہ کریں گے۔

یعنی سامراجی حکومتوں اورتو سیع پسند طاقتوں نے تو اپنی روش نہیں بدلی لیکن جب ہم اندر سے تبدیل ہو گئے تو ہر چیز بدل گئی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ صرف وہی رہبر اور قائد کا میاب ہوئے ہیں کہ جنہوں نے اس بنیادی قانون کے مطابق اپنی ملت کی رہبری کی ہے اور اس میں ایک انقلاب پیدا کیا ہے ۔

تاریخ اسلام اور دورِ حاضر کی تاریخ اس اساسی و بنیادی اور جاو دانی و دائمی قانون کی صداقت کے شواہد سے بھری پڑی ہے کہ جن کے تفصیلی ذکر سے ہماری بحث ہمیں اس تفسیر کی روش سے دور لے جائے گی ۔

____________________

۱۔ مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ ”لہ “ کی ضمیر کس کی طرف لوٹتی ہے ۔ مشہور تفسیر یہی ہے کہ یہ انسان کی طرف لوٹتی ہے جس کی طرف قبل کی آیت میں اشارہ ہوا ہے ۔ بعض نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ یہ پیغمبر یا خدا کی طرف لوٹتی ہے لیکن یہ احتمال ذیل کی آیت سے مناسبت نہیں رکھتا ( غورکیجئے گا )

۲۔ تفسیر بر ہان جل د ۲ ص ۳۸۳۔

۳۔ تفسیر بر ہان جل د ۲ ص ۳۸۳۔

۴۔نہج البلاغہ ، کلمات قصار جملہ ۲۰۱۔