تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27335
ڈاؤنلوڈ: 2014


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27335 / ڈاؤنلوڈ: 2014
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،

۱۹ ۔( اٴَفَمَنْ یَعْلَمُ اٴَنَّمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ هُوَ اٴَعْمَی إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اٴُوْلُوا الْاٴَلْبَابِ ) ۔

۲۰ ۔( الَّذِینَ یُوفُونَ بِعَهْدِ اللهِ وَلاَیَنقُضُونَ الْمِیثَاقَ ) ۔

۲۱ ۔( وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِهِ اٴَنْ یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبّهُمْ وَیَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ ) ۔

۲۲ ۔( وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاٴَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً وَیَدْرَئُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اٴُوْلَئِکَ لَهُمْ عُقْبَی الدَّارِ ) ۔

۲۳ ۔( جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَاٴَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِکَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْهِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ ) ۔

۲۴ ۔( سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) ۔

ترجمہ

۱۹ ۔ کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ تیرے پر وردگار کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے حق ہے ، اس شخص کی طرح ہے جو نابینا ہے بس سمجھدار لوگ ہیں نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔

۲۰ ۔ وہی کہ جو عہد الہٰی کو وفا کرتے ہیں اورپیمان شکنی نہیں کرتے ۔

۲۱ ۔ وہی کہ جو وہ پیوند بر قرار رکھتے ہیں کہ جن کے بارے میں خدا نے حکم دیا ہے اور جو اپنے پر ورگار سے ڈرتے ہیں اور ( روز قیامت کے ) حساب کی برائی سے ڈرتے ہیں ۔

۲۲ ۔ اور وہ کہ جو اپنے پر وردگا رکی ( پاک) ذات کے لئے صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو روزی دی ہے اس میں سے پنہاں اور آشکار خرچ کرتے ہیں اور حسنات کے ذریعے سیئات کو ختم کرتے ہیں ۔ ان کے لئے آخرت میں اچھا گھر ہے ۔

۲۳ ۔وہ جنت کے سدا بہار باغوں میں داخل ہوں گے اسی طرح ان کے آباء ، ازواج اور اولاد میں سے صالح افراد بھی (داخل بہشت ہوں گے ) اور ہر دروازے سے ان کے لئے فرشتے داخل ہو ں گے ۔

۲۴ ۔ ( اور ان سے کہیں گے ) سلام ہو تم پر ، صبر و استقامت کی بناء پر ۔ تمہیں یہ آخری گھر کیسا اچھا نصیب ہوا ہے ۔

اہل شعور کا طرز عمل جنت کے آٹھ دروازے

زیر نظر آیات میں حق کے طرفدارون کے اصلاحی طرز عمل کے جزئیات کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ یہ آیات گزشتہ آیات کی بحث کو مکمل کرتی ہیں ۔

زیر نظر پہلی آیت میں استفہام ِ انکاری کی صورت میں فرمایا گیا ہے : کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ تیرے پر وردگار کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے حق ہے ، اس شخص جیسا ہے جو نابینا ہے( اٴَفَمَنْ یَعْلَمُ اٴَنَّمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ هُوَ اٴَعْمَی ) ۔

یہ کیسی عمدہ تعبیر ہے ۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص جانتا ہے کہ یہ قرآن بر حق ہے کیا وہ اس کی مانند ہے کہ جو نہیں جانتا بلکہ فرمایا کیا جو جانتا ہے وہ اندھے کی طرح ہے ؟ یہ تعبیر ایک اس امر کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ اس حقیقت کو نہ جاننا کسی بھی طرح ممکن نہیں سوائے اس کے کہ انسان کے دل کی آنکھ بالکل بے کارہوچکی ہو ورنہ کیسے ممکن ہے کہ چشم بینا رکھنے والا رخ آفتاب نہ دیکھ سکے اور اس قرآن کی عظمت بالکل نورِ آفتاب کی مانند ہے ۔

اسی لئے آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے : صرف وہی لوگ نصیحت پاتے ہیں جو اولو الالباب ہیں اور صاحبان ِ فکر و نظر ہیں( إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اٴُوْلُوا الْاٴَلْبَابِ ) ۔

”الباب “ جمع ہے ”لب “ کی جو ہر چیز کے ”مغز“ کے معنی میں ہے ۔ اسی بناء پر” اولو الالباب “ کا متضاد بے مغز ، کھوکھلے اور وہ افراد ہیں جن کے اندر کچھ نہ ہو۔

بعض عظیم مفسرین کے بقول یہ آیت لوگوں کو حصولِ علم اورجہالت کا زیادہ سے زیادہ مقابلہ کرنے کی تاکید کرتی ہے کیونکہ اس میں بے علم اور دانش سے محروم افراد کو نابینا قرار دیا گیا ہے ۔

اس کے بعد ” اولو الالباب “ کی تفسیر کے طور پر صاحبانِ حق کے طرز عمل کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں سب سے پہلے ایفائے عہد کرتے ہیں اور پیمان شکنی نہیں کرتے( الَّذِینَ یُوفُونَ بِعَهْدِ اللهِ وَلاَیَنقُضُونَ الْمِیثَاقَ ) ۔

اس میں شخص نہیں کہ” عہد اللہ “( عہد الہٰی ) کا ایک وسیع مفہوم ہے ۔ اس میں فطری عہد و پیمان کہ جو خدا نے تضاجائے فطرت کے مطابق انسان سے لئے ہیں وہ بھی شامل ہیں ۔ مثلاً توحید اور حق عدالت سے انسان کی فطری محبت کا عہد ۔ اسی طرح عقلی عہد پیمان یعنی وہ عہد کہ جو غور و فکر سوچ بچار اور قوتِ عقل کے نتیجے میں ناگزیر ہو جاتے ہیں جیسے عالم ہستی اور مبداء و معاد کے حقائق کا ادراک انہیں غور و فکر کے نتیجے میں کرلیتا ہے ۔

اسی طرح اس میں شرعی پیمان شامل ہیں یعنی وہ پیمان جو پیغمبر نے مومنین سے لیا ہے کہ وہ احکام ِ خدا وندی کی اطاعت کریں گے اور اس کی نا فرمانی اور گانہ ترک کردیں گے ۔

یونہی وہ پیمان کہ جو انسان دوسرے انسانوں سے باندھتا ہے عہد الہٰی کے مفہوم میں شامل ہیں کیونکہ خدا ہی کا حکم ہے کہ یہ پیمان بھی پورے کئے جائیں بلکہ ایسے پیمان تشریعی بھی ہیں اور عقلی بھی ۔

اہل شعور کے لائحہ عمل کا دوسرا حصہ رشتہ ناتوں کی حفاظت اور پاسداری ہے ، جیسا کہ فرمایا گیا ہے : یہ وہی لوگ ہیں جو ان رشتوں اور رابطوں کو قائم کھتے ہیں جن کی حفاظت کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے( وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِهِ اٴَنْ یُوصَلَ ) ۔

اس سلسلے میں اس سے زیادہ وسیع تعبیر نہیں مل سکتی کیونکہ انسان کا تعلق خدا سے بھی ہے ، انبیاء سے بھی ہے ، اوررہبروں سے بھی ہے ۔ انسان کا رابطہ باقی تمام انسانوں کے ساتھ بھی ہے چاہے وہ دوست ہوں ، ہمسائے ہیں ، رشتہ دار ہوں ، دینی بھائی ہوں یا ہم نوع ہوں ۔

اس کا تعلق خود اپنے ساتھ ہے ۔ مندرجہ بالا حکم میں تمام رشتہ ناتوں کو محترم شمار کیاگیا ہے ۔ سب کا حق ادا کرنا چاہئیے اور ایسا کام انجام نہیں دینا چاہئیے جس سے ان میں سے کسی ایک سے تعلق منقطع ہونے تک جا پہنچے ۔

درحقیقت انسان ایک ایسا موجود نہیں جو دوسرے سے کٹ کر او رجدا ہو کررہ سکے بلکہ اس ک اوجود سر تا پا رشتے ناتوں ، تعلق اور رابطوں سے تشکیل پاتا ہے ۔

ایک طرف سے اس کا تعلق پیدا کرنے والے کی بارگاہ سے ایسا ہے کہ اگر یہ اسے منقطع کرلے تو نابود ہو جائے ۔ جیسے ایک بلب کا رابطہ اگر بجلی پیداکرنے والے مبداء سے کٹ جائے ۔ لہٰذا جیسے تکوینی لحاظ سے انسان اس عظیم مبداء سے تعلق رکھتا ہے چاہیئے کہ تشریعی اعتبار سے بھی اس کے ساتھ اطاعت کا رشتہ برقرار رکھے۔

دوسری طرف اس کا رشتہ پیغمبر اور امام سے رہبر، راہنما اور پیشوا کے حوالے سے ہے اور ارگ یہ رشتہ ٹوٹ گیا تو انسان بے راہ رو اور سر گرداں ہو جائے گا۔ تیسری طرف انسان کا ایک رشتہ پورے انسانی معاشرے سے بھی ہے خصوصاً ان افراد سے جو اس پر زیادہ حق رکھتے ہیں جیسے ماں ، باپ ، رشتہ دار ، دوستاور مربی۔

چوتھی طرف اپنی ذات سے بھی اس کا ایک تعلق ہے اس لحاط سے وہ اپنے مصالح کی حفاظت اور اپنی ترقی اور کمال تک پہنچنے کا ذمہ دار ہے ۔

در حقیقت ان تمام رشتوں اور رابطوں کو بر قرار رکھنا ”یصلون ماامر اللہ بہ ان یوصل“ کا مصداق ہے اور ان میں سے کسی کو منقطع کرنا“ ما امر اللہ بہ ان یوصل“ کو منقطع کرنا ہے کیونکہ خدا نے ان تمام کے ”وصل “ کاحکم دیا ہے ۔

جو کچھ ہم نے کہا ہے کہ اس سے ان احادیث کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے جو آیت کی تفسیر میں کبھی خاندان اور رشتہ داروں سے تعلق کو قائم رکھنے کاکہتی ہیں ، کبھی امام اور پیشوائے دین سے مر بوط رہنے کا کہتی ہیں ، کبھی آل محمد سے رابطے کا حکم دیتی ہیں اور کبھی تمام اہل ایمان سے تعلق کوکہتی ہیں ۔

مثلاً ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مر وی ہے کہ آپ سے ” الذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل“ کی تفسیر کے بارے میں سوا ل کیا گیا تو۔فقال قرابتک

فرمایا : تیرے اپنے قریبی مراد ہیں ۔ ( نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۹۴) ۔

ایک اور حدیث میں اما م صادق علیہ السلام ہی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

نزلت فی رحم اٰل محمد و قد یکون فی قرابتک

یہ جملہ آل محمد کے رشتے کے بارے میں ہے نیز تیرے اپنے قریبوں کے بارے میں بھی ہے ۔

یہ بات جاذب نظر ہے کہ اس حدیث کے آخر میں ہے کہ امام نے فرمایا:

فلاتکونن ممن یقول للشیء انه فی شیءً واحد

تو ایسا شخص نہ ہو جا کہ جو آیت کے معنی کو ایک ہی مصداق میں منحصر کردے ۔ ( نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۹۴) ۔

نیز ایک تیسری حدیث بھی اسی عظیم راہنما سے مروی ہے جس میں آپ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا :

هو صله الامام فی کل سنة بما قل او کثر ثم قال وما ارید بذٰلک الا تزکیتکم

اس سے مراد مسلمانوں کے امام اور پیشوا سے ہر سال مالی امداد کے ذریعے رشتہ بر قرار رکھنا ہے چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اس کام سے میری مراد صرف یہ ہے کہ تمہیں پا ک و پاکیزہ کروں ۔ (نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۹۵) ۔

حامیان حق کا تیسرا اور چوتھا طرز عمل یہ ہے کہ ” وہ اپنے پر وردگا رسے ڈرتے ہیں اور قیامت کی عدالت کے حساب کی برائی سے خوف کھاتے ہیں( وَیَخْشَو نَ رَبّهُمْ وَیَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ ) ۔

اس سلسلے میں کہ” خشیت“اور ” خوف “ میں کیا فرق ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ ” خشیت“ وہ خوف ہے جو دوسرے کے احترام اور علم ویقین کی بنیاد پر ہو ۔ لہٰذا قرآن میں یہ حالت علماء سے مخصوص شمار کی گئی ہے ۔ ارشاد الہٰی ہے :( انما یخشی الله من عباده العلمائ )

بندگان خدا سے صرف علماء اس سے خشیت رکھتے ہیں ۔( فاطر۔ ۲۸) ۔

لیکن قرآن میں یہ لفظ جہاں جہاں استعمال ہوا ہے ان بہت سے مواقع کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لفظ بالکل ” خوف“ کے مترادف کے طور پر آیا ہے اور اس کا ہم معنی ہے ۔

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیاپر وردگار سے ڈرنا اس کے حساب و کتاب اور عذاب و سزا سے ڈرنے کے علاوہ کوئی اور خوف ہے ، اور اگر ایسا ہے تو پھر ” یخشون ربھم “ اور ” یخافون سوء الحساب“ کے درمیان کیا فرق ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ خدا سے ڈر نا ہمیشہ او رلازما ً اس کے عذاب اور حساب کتاب سے ڈر نے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ خوف اس کے مقام کی عظمت کا احساس ہے اور بندگی کی ذمہ دای کے سنگین ہونے کے خیال سے (یہاں تک کہ سزا اور عذاب کی طرف توجہ کے بغیر بھی یہ احساس پیدا ہو سکتا ہے )اہل ایمان کے دلوں میں یہ احساس خود بخود ایک خوف اور وحشت کی حالت پیدا کردیتا ہے ۔ وہ خوف جو ایمان کی پیدا وار ہے ، عظمت الہٰی سے آگہی کا نتیجہ ہے اور اس کی بار گاہ میں احساس ِ مسئولیت کی بدولت ہے ( سورہ فاطر کی آیہ ۲۸ ممکن ہے اسی معنی کی طرف اشارہ ہوا ) ۔

ایک اور سوال یہاں ”سوء الحساب “ کے حوالے سے سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ کیا قیامت میں واقعاً محاسبہ اعمال کے موقع پر بعض افراد کو ” بد حسابی“ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

گزشتہ چند آیات کے ذیل میں ہم اس سوال کا جواب ذکر کر چکے ہیں ۔ وہاں بھی بالکل یہی لفظ استعمال ہوا ہے ۔ وہاں ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس سے مراد کسی در گزر کے بغیر تمام جزئیات کا باریک بینی سے حساب لیا جانا ہے ۔ اصطلاحا ً جسے بال کی کھال اتارنا کہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک جاذب نظر حدیث بھی وارد ہوئی ہے جو وہاں بیان کی جاچکی ہے ۔

نیز جیسا کہ ہم نے وہاں کہا ہے کہ یہ احتمال بھی ہے کہ ”سوء الحساب “ سے مراد ایسا محاسبہ ہ وکہ جس میں سر زنش بھی شامل ہو ۔ بعض نے ”سوء الحساب “ کی تفسیر ”سوء الجزاء “ یعنی بری سزا کے طور پر کی ہے ۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں کا حساب چکا دو یعنی اسے سزا دو ۔

ہم نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ”سوء الحساب “ کا ایک جامع مفہوم ہے اور اس میں یہ تمام معانی شامل ہیں ۔

ان کا پانچواں طرزِ عمل تمام مشکلات کے مقابلے میں صبرو استقامت ہے ، وہ مشکلات کہ جو اطاعت ، ترکِ گناہ دشمن کے خلاف جہاد اور ظلم و سر کشی کے مقابلے کے راستے میں پیش آتی ہیں ۔(۱)

وہ صبر و استقامت بھی پر وردگار کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ہو۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے پر وردگار کی رضا اور کوشنودی حاصل کرنے کے لئے صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں( وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ ) ۔

ہم بار ہا صبر کے معنی کہ جو استقامت کے وسیع مفہوم کاحامل ہے ، کے بارے میں وضاحت کر چکے ہیں ۔ رہا ”وجہ ربھم “ تو اس کے دو میں سے ایک معنی ہیں ۔

پہلا یہ کہ ”وجہ “ ایسا مواقع پر ” عظمت “ کے معمنی میں ہے جیسے کسی اہم نظرے اور رائے کے بارے میں کہا جاتا ہے :( هٰذا وجه الراٴی ) یعنی یہ اہم رائے ہے ۔

اور یہ شاید اس بناء پر ہے کہ اصل میں ”وجہ “ کا معنی ہے ”چہرہ “ اور انسان کا چہرہ ظاہری بدن کا اہم ترین حصہ ہے کیونکہ بینائی ، شنوائی اور گویا ئی جیسے اہم اعجاز اس میں موجود ہیں ۔

دوسرا یہ کہ ”وجہ رب“ یہاں ” پر وردگار کی رضا“ کے معنی میں ہے ۔ یعنی وہ لوگ حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تمام مشکلات کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں ۔ اس معنی میں ”وجہ “ استعمال اس بناء پر ہے کہ جب انسان کسی کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ا س کے چہرے کو اپنی طرف متو جہ کرتا ہے ( اس بناء پر ” وجہ “ یہاں کنایتاًآیا ہے ) ۔

بہر صورت یہ جملہ اس مر کے لئے واضح دلیل ہے کہ صبر و شکیبائی بلکہ کلیة ہر عمل خیر اسی صورت میں قدر و قیمت رکھتا ہے جب ”ابتغاء وجہ اللہ “ اور خد اکے لئے ہو اور اگر اس کے کوئی اور اسباب ہوں مثلاً ریا کاری اورلوگوں کی توجہ حاصل کرنا کہ وہ سمجھیں کہ یہ بڑا صابر اور نیکو کار شخص ہے یا حتی اپنے غرورکے پیش نظر کوئی کام انجام دے تو پھر اس کی کوئی وقعت اور قدر و قیمت نہیں ہے ۔

بعض مفسرین کے بقول کبھی انسان نا گوار حوادث پر صبر کرتا ہے تاکہ لوگ کہیں کہ یہ کس قدر صابر اور صاحب ِ استقامت ہے ، کبھی اس خوف سے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ کیسا کم ظرف آدمی ہے، کبھی اس لئے کہ دشمن اسے طعنہ نہ دیں ، کبھی اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ بے تابی اور داد فریاد یہاں فضول ہے کبھی اس لئے کہ لوگوں کے سامنے اپنی مظلومیت پیش کرے تاکہ لوگ اس کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہو ں ان امور میں سے کوئی بھی نفس انسانی کے کمال کی دلیل نہیں ہے ۔ لیکن جس وق حکم ِ خدا کی اطاعت کی بناء پر اور اس لئے کہ زندگی میں رونما ہونے والے ہر حادثے کی کوئی وجہ ، حکمت اور مصلحت ہوتی ہے کوئی شخص صبر و استقامت سے کام لیتا ہے اور اس طرح وہ اس حادثے کی عظمت کو ختم کردیتا ہے ، کفر ان میں زبان نہیں کھولتااور ایسا کوئی کام نہیں کرتاجو جزع و فزع کی دلیل بنے تو یہی وہ صبر ہے کہ جس کی طرف آیت بالامیں اشارہ کیا گیا ہے اور یہی صبر ”ابتغا وجه الله “ شمار ہوتا ہے ۔

ان کا چھٹا طرز عمل یہ ہے کہ ”وہ نماز قائم کرتے ہیں “( وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ ) ۔

نماز قائم کرنا اگر چہ عہد الہٰی کے وفا کرنے کے مصادیق میں سے ہے بلکہ خدائی رشتوں کی حفاظت کا ایک زندہ مصداق ہے اور ایک لحاظ سے صبر واستقامت کے مصادق میں سے ہے لیکن ان کلی مفا ہیم کے بعض مصادیق بہت اہم ہیں جو انسانی سر نو شت میں بہت زیادہ موثر ہیں لہذا ان کی خصوصی طور پرنشاند ہی کی گئی ہے۔

اس سے بڑھ کر اہم کیا بات ہوگی کہ انسان ہر صبح شام خدا سے اپنے رابطے او ر تعلق کی تجدید کرے ، اس کے ساتھ راز و نیاز کے لئے کھڑا ہو ، اس کی عظمت اور اپنی ذمہ داریوں کو یاد رکھے اور اس عمل کے ذریعے اپنے قلب و روح سے گناہ کا غبار اور زنگ دھوڈالے اور پانے قطرہ وجود کے ہستی حق کے بیکراں سمندر سے ملحق ہونے کا شرف حاصل کرے ،جی ہاں !نماز میں یہ تمام اثرات وبرکات موجود ہیں ۔

اس کے بعد حق جو افراد کا ساتواں طرز عمل اسی طرح سے بیان کیاگیا ہے :وہ ایسے لوگ ہیں کہ ہمارے عطا کردہ رزق سے پنہان و آشکار خرچ کرتے ہیں( وَاٴَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً ) ۔

انفاق او ر زکوٰة کا مسئلہ صرف اسی آیت میں نماز کے بعد بیان نہیں ہوا بلکہ بہت سی آیات قرآن میں زکوة کو نماز کے پہلو میں رکھا گیا ہے کیونکہ ان میں سے ایک چیز انسان کے رشتے کو”خدا“ سے مستحکم کرتی ہے اور دوسری ”مخلوق“ سے تعلق کو۔

یہاں اگر ہم ”ممارزقناهم “ کی طرف توجہ دیں تو وہ ہر قسم کی عنایت و بخشش کے بارے میں چاہے مال ہو یا علم ،طاقت و حیثیت ہویا اجتماعی اثر و رسوخ ایسا ہونا ضروری بھی ہے کیونکہ انفاق اور خرچ کرنے کا ایک پہلونہیں ہو چاہئیے ،بلکہ یہ خرچ تمام پہلوؤں سے اور تمام نعمات سے ہونا چاہئیے۔

”سراوعلانة“(پنہان اورآشکار )یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے مصارف میں اس حقیقت کی طرف بھی نظر رکھتے ہیں کیونکہ کبھی ایساہوتا ہے کہ اگر انفاق مخفی طور پر ہوتو وہ زیادہ موثر ہوتا ہے ۔ مثلاًاگر دوسرے کی حیثیت کا تقاضا ہو کہ اسے مخفی رکھا جائے یا انفاق کرنے والا ریا اور دکھا وے سے بچنا چاہتا ہو اور کبھی انفاق آشکار طور پر کیا جائے تو اس کا اثر زیادہ وسیع ہوتا ہے مثلاً ایسے مواقع پر جبکہ ایسا کرنا دوسروں کی تشویق کا باعث بنے اور انہیں اس عمل کی اقتدا کی ترغیب دے او انفاق کرنے کا ایک عمل ایسے سینکڑوں اور ہزاروں کاموں کا سبب بنے ۔

یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مثبت عمل کی انجام دہی کے لئے قرآن کس قدر باریک بینی سے کام لیتا ہے وہ صرف اصل کام کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ تاکید کرتا ہے کہ اصل عمل بھی خیر ہو اور اس کے انجام پانے کی کیفیت بھی اچھی ہو ( ایسے مواقع پر جہاں ایک کام کی انجام دہی مختلف کیفیات سے ممکن ہو) ۔

آخر میں ا س کا آٹھواں اور آخری طرز عمل بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ وہ ”حسنات“( نیکیوں ) کے ذریعے اپنی” سیئات “(برائیوں ) کو ختم کردیتے ہیں( وَیَدْرَئُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ ) ۔

اس معنی میں کہ وہ ایک گناہ اور لغزش کے ارتکاب پر صرف پشیمان ہونے اور ندامت و استغفار پر قناعت نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر تلافی کے لئے قدم اٹھاتے ہیں اور جس قدر ان کا گناہ اور لغزش زیادہ ہو اسی قدر حسنات اور نیکیاں بھی زیادہ انجام دیتے ہیں تاکہ اپنے اور معاشرے کے وجود سے گناہ کی آلودگی کو حسنات کو پانی سے دھو ڈالیں ۔

”یدرؤن“ ” درء “ ( بروزن ”زرع“)کے مادہ سے دفع کرنے کے معنی میں ہے ۔

اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ برائی کی تلافی برائی کے ذریعے نہیں کررتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر کسی شخص کی طرف سے انہیں برائی پہنچے تو اس کے حق میں نیکی انجام دے کر اسے شرمندہ ہونے او تجدید نظر پر آمادہ کریں ۔جیسا کہ سورہ فصلت کی آیہ ۳۵ میں ہے :( ادفع بالتی هی احسن فاذا الذی بینک و بینه عداوة کانه ولیّ حمیم )

بدی کو اس طریقہ سے اپنے سے دور کرجو زیادہ اچھا ہے کیونکہ اس موقع پر وہ شخص جس کے اور تیرے درمیان عداوت ہے اپنا چہرہ یوں بدل لیتا ہے گویا وہ تیرا مخلص اور پکا دوست ہے ۔

بہر حال اس میں کوئی مانع نہیں کہ زیر بحث آیت دونوں مفاہیم لئے ہوئے ہو۔ احادیث اسلامی میں بھی کچھ احادیث دونوں تفاسیر بیان کرتی ہیں ۔

ایک حدیث پیغمبر اکرم سے منقول ہے ، آپ معاذ بن جبل سے فرماتے ہیں :

فاذا عملت سیئةفاعمل بجنبها حسنة تمحها ۔

جب کوئی برا کام کر بیٹھو توا س کےساتھ ہی کوئی نیک کام انجام دو جو اسے محو کردے۔

مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

عاتب اخاک بالاحسان الیه واردو شره بالانعام علیه ۔

اپنے بھائی کو کوئی غلط کام انجام دینے پر نیکی کے ذریعے سر زنش کرو اور اس کے شرکو انعام اور احسان کے ذریعے اس کی طرف پلٹا دو۔(۲)

البتہ ان طرف توجہ رہے کہ یہ ایک اخلاقی حکم ہے جو بعض مواضع سے مخصوص ہے کہ جہاں اس قسم کی طرز عمل موثر ہوتا ہے ورنہ حد جار ی کرنا اور بدکاروں کو سزا دینا اسلام کے قوانین میں سے ہیں اور ان تمام افراد کے لئے یکساں طو پر ہے کہ جواس کے دائرے میں آتے ہیں ۔

مختلف طرز عمل کے بعد ” اولو الباب “صاحبان فکر و نظر ،طرفداران حق او ر ایسے طریقوں پر عمل کرنے والوں کے انجام کا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : دوسرا گھر جو نیک او اچھی عاقبت کا حامل ہے ، ان کے لئے( اٴُوْلَئِکَ لَهُمْ عُقْبَی الدَّارِ ) ۔(۳)

بعد والی آیت میں اس نیک انجام اور عاقبت ِ خیر کی توضیح کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کا انجام کا جنت کے دائمی باغات ہیں کہ جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے صالح اور نیک آباؤ و اجداد ، ازواج اور اولاد بھی( جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَاٴَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیَّاتِهِمْ ) ۔

اور جو چیز ان عظیم اور بے پایا ں نعمتوں کی تکمیل کرتی ہے یہ ہے کہ ” ہر دروازے سے ان کے ئے فرشتے داخل “( وَالْمَلَائِکَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْهِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ ) ۔

اورانہیں کہیں گے ”تم پر سلام ہو تمہارے صبر و استقامت کی بناء پر( سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ) ۔ذمہ داریوں کی انجام دہی میں اور شدائد و مصائب بر داشت کرنے میں تمہارا صبر و استقامت ہے جو اس اسلامی کا باعث ہوا ہے ۔یہاں انتہائی امن، آرام اور چین و سکون سے رہوگے ۔ یہاں نہ جنگ و جدال ہے ،نہ نزاع ہے، نہ سختی ،نہ مخالفت ہے او رنہ جھگڑا ،ہر جگہ امن ہی امر ہے اور تمام چیزیں تمہارے سامنے تبسم کناں ہیں اور ایسا آرام و سکون جس میں اضطراب ِقلب کا شائبہ تک نہیں وہ یہیں پر ہے ۔

آخر میں ارشاد ہوتا ہے یہ کیسا اچھا انجام اور کیسی اچھی عاقبت ہے( فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) ۔

____________________

۱۔صبر صرف اطاعت ، مصیبت سے بچنے اور مصیبت کے موقع پر منحصر نہیں ہے بلکہ نعمت کے موقع پر بھی صبر کرنا چاہئیے یعنی وہ انسان کو مغرور او ربے لگام نہ بنادے ۔

۲۔نہج البلاغہ کلمات قصا ر جملہ ۵۸۔

۳۔”عقبیٰ“ عاقبت اورانجام کار کے معنی میں ہے چاہے اچھا ہویا برالیکن قرینہ حالیہ او رمقالیہ کی طرف توجہ کی جائے تو مذکورہ آیت میں اس سے مراد عاقبت خیر ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ صرف”صبر“کا ذکر کیوں ہوا ہے ؟

سلام علیکم بماصرتهم “ کے جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے اہل جنت یوں سے کہیں گے :”تم پر تمہارے صبر و استقامت کی وجہ سے سلام ہو “ حالانکہ مندرجہ بالاآیت میں ان کے آٹھ قسم کے اچھے کاموں اور اہم طرز ہائے عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس جملے میں آٹھ امور میں سے صرف”صبر “ کی نشاندہی ہی کی گئی ہے ۔

اس امر کی وجہ حضرت علی کے ایک زندہ اور پر مغز بیان سے سمجھی جاتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :

ان الصبر من الایمان کالراس من الجسد ولاخیر فی جسد لاراٴس معه ولافی ایمان لاصبر معه ۔

صبر کی ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کی جسم سے ہے۔بدن سے کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا اور ایمان بی صبر کے بغیر کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔(۱)

درحقیقت تمام انفرادی اور اجتماعی اصلاحی پروگراموں کا سہارا صبر و شکیبائی اور استقامت ہے ۔ اگر یہ نہ ہو تو ان میں سے کچھ بھی انجام نہیں پاسکتا کیونکہ ہر مثبت کام کی راہ میں مشکلات او ر رکاوٹیں ہوتی ہیں کہ جن پر صبر و استقامت کی قوت کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی نہ ایفائے عہد صبر و استقامت کے بغیر ممکن ہے ،نہ خدا رشتوں کی حفاظت اس کے بغیر ممکن ہو سکتی ہے ،نہ اسکے بغیر خدا اور عدالت ِ قیامت کاخوف ہوتا ہے ، نہ اس کے بنا قیام نماز ممکن ہے ،نہ خدائی نعمتوں میں سے اس کے بغیر کرچ ہوتا ہے او رنہ ہی اس کے بغیر حسنات کے ذریعے خطاؤں کی تلافی ہو سکتی ہے ۔

۲ ۔جنت کے دروازے :

آیات قرآن سے بھی اور روایات سے بھی یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ جنت کے دروازے ہیں لیکن یہ متعدد دروازے اس بناء پرنہیں ہیں کہ جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر وہ ایک ہی دروازے سے داخل ہونا چاہیں تو زحمت ہوگی، نہ ہی اس کی وجہ وجہ یہ ہے کہ طبقات میں اختلاف ہے او ر جس کی بناء پر ہر گز گروہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دروازے سے آئے ، نہ ہی اس کی وجہ راستے کی نزدیکی یا دوری ہے اور نہ ہی دروازوں کی کثرت خوبصورتی زیبائی اور تنوع کا باعث ہے اصولی طور پر جنت کے دروازے دنیا کے دروازوں کی طرح نہیں ہیں کہ وباغات،محلات اور مکانات میں داخل ہو نے کے لئے ہوتے ہیں بلکہ یہ دروازے اعمال و کردار کی طرف اشارہ ہیں کہ جو جنت میں داخل ہونے کاسبب ہو ں گے اسی لئے چند ایک احادیث میں ہے کہ جنت کے دروازے کے مختلف نام ہیں ۔ ان میں سے ایک کانام ”باب المجاھدین “( مجاہدین کا دروازہ) ہے اور مجاہدین اسی اسلحہ سے مسلح ہو کر اس دوازے سے جنت میں داخل ہو ں گے جس کے ساتھ وہ جہاد کر تے تھے اور فرشتے انہیں ” خوش آمدید“کہیں گے۔(۲)

ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :اعلموا ان للجنة ثمانیة ابواب عرض کل باب منها میسرةاربعین سبعة

جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں کہ جن میں ہر دروازے کا عرض چالیس سال کی مسافت کے برابر ہے ۔(۳)

یہ حدیث نشاندہی کرتی ہے کہ ایسے مواقع پر دروازے کا مفہوم ہماری رو زمرہ کی گفتگو سے وسیع تر ہے ۔

یہ بات جاذب نظر ہے کہ قرآن حکیم میں ہے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں :لھا سبعة ابواب (حجر ۴۴)

اور روایا ت کے مطابق جنت کے اس آٹھ دروازے ہیں ۔یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جہنم میں پہنچنے کے راستوں کی نسبت سعادت بہشت جاوداں تک پہنچنے کے راستے زیادہ ہیں اور خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے جیسا کہ دعاء جوشن کبیر کے الفاظ ہیں :یا من سبقت رحمتہ غضبہ

اس سے بھی زیااؤدی جاذب نظر امر یہ ہے کہ مندرجہ بالاآیات میں بھی”اولوالالباب“کے طرزہائے عمل کے بارے میں آٹھ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک دراصل جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور سعادت جاوداں تک پہنچنے کا راستہ ہے ۔

۳ ۔اہل جنت سے وابستگی رکھنے والے ان سے جاملیں گے:

نہ صرف مندرجہ بالاآیت بلکہ قرآن کی دوسی آیات بھی یہ بات صراحت سے بیان کرتی ہیں کہ جنت میں اہل بہشت او ر ان کے ماں باپ ،بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک اور صالح ہوں گے داخل ہوں گے ۔یہ در حقیقت ان پر خدائی نعمات کی تکمیل ہے تاکہ وہ وہاں کسی قسم کی کمی محسوس نہ کریں یہاں تک کہ جن افراد سے ان کا لگاؤہے ان کی جدائی بھی نہ ہو۔نیز چونکہ اس دار آخرت میں کہ جو نیا اور کامل گھر ہے ہر چیز تازہ اور نئی ہوتی ہوجاتی ہے لہٰذا وہ لوگ بھی تازہ اور نئے چہروں کے ساتھ اور زیادہ خلوص و محبت کے ساتھ وہاں داخل ہو ں گے ، ایسی مہر و محبت کو جو نعماتِ بہشت کی قدر و قیمت کئی گناہ کردے گی۔

مندرجہ بالاآیت میں اگر چہ صرف ماں باپ ، اولاد اور ازواج کا ذکر ہے لیکن درحقیقت وہاں تمام وابستگان اکھٹے ہوں گے کیونکہ اولاد اور ماں باپ ( یا باپ داد) کی موجودگی بہن بھائیوں کے بغیر بلکہ دیگر وابستگان کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ تھوڑا سا غور وخوض کیا جائے تو یہ مطلب واضح ہوجاتا ہے کیونکہ نیک باپ جنتی ہے لہٰذا ا سکے تمام بیٹے اس سے آملیں گے ۔ اس طرح بھائی آپس میں مل جائیں گے اور اسی طرح دیگر وابستگان اور عزیز و اقارب اکھٹے ہوجائیں گے ( کیجئے گا) ۔

قرآن کی مختلف آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت اہل جنت اہل بہشت کے لئے ابدی اور جاودانی گھر ہے لیکن جیسا کہ ہم نے سورہ توبہ کی آیہ ۷۲ کے ذیل میں کہا جاتا ہے ، قرآن کی چند ایک آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات ِ عدن میں ایک مخصوص مقام ہے جو جنت کے دیگر باغات سے امتیاز رکھتا ہے اور اس میں صرف تین طرح کے لوگ رہیں گے انبیاء مر سلین صدقین ( یعنی انبیاء کے خاص دوست احباب ) اور شہدا۔(۴)

۴۔ گناہ کے آثار دھلنا :

اجمالی طور پر ”حسنات“ اور ”سیئات“ ایک دوسرے پر متقابل اثررکھتے ہیں اور ا سمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ حتی کہ ہم اس چیز کے نمونے اپنی روز مرہ زندگی میں بھی مشاہدہ کرتے ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان سالہا سال زحمت اٹھاتا ہے اور بہت زیادہ محنت و مشقت کرکے سرمایہ جمع کرتا ہے لیکن ناسمجھی، ہو و ہوس کی پیروی یا بے پر واہی سے اسے گنوابیٹھتا ہے یہ بالکل مادی حسنات کو گنوابیٹھنے کے اور کچھ نہیں ہے جسے قرآن میں ” حبط“ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ا س کے بر عکس کبھی انسان بہت سی غلطیوں کا مرتکب ہوتا ہے اور ان کے باعث سنگین خسارے کے بوجھ تلے دب جاتا ہے لیکن ایک عقلمندانہ عمل سے یا عاشقانہ جہاد کے ذریعے ان سب نقصانات کی تلافی کردیتا ہے ۔ مثلاًہمارے زمانے کے اسی اسلامی انقلاب میں ہم نے بہت سے افراد دیکھے ہیں کہ وہ سابق ظالم و جابر نظام میں بہت سے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے اور اسی وجہ سے وہ جیل میں تھے لیکن جب ملک کے دشمنوں کے خلاف جہاد شروع ہوا تو اس وقت ان کی فوجی مہارت کی بناء پر انہیں میدانِ جنگ میں آنے کی دعوت دی گئی ۔ انہوں نے بی بے نظیر شجاعت و فداکاری سے پیکر دشمن پر مہلک ضربیں لگائیں ۔

اس دوران ان میں سے بعض شہید ہو گئے اور بعض زندہ ہیں ۔ دونوں صورتوں میں انہون نے اپنی گزشتہ غلطیوں کی تلافی کرلی ۔

زیر بحث آیات کہ جن میں فرمایا گیا ہے :وید رء ون بالحسنة السیئة

اہل ایمان عقلاء اور ارباب ِ فکر و نظر اپنی برائیوں کو نیکیوں کے ذریعے دور کرتے ہیں ۔

یہ اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ غیر معصوم انسان کبھی نہ کبھی غلطیوں اور لغزشوں میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس کے بعد وہ ان کی تلافی کی فکر میں رہے نہ صرف گناہ کے اجتماعی آثار جو اپنے اعمال ِ خیر کے ساتھ دھوڈالے بلکہ وہ ظلمت ِ گناہ جو انسان کے قلب و روح پر جاپڑتی ہے اسے بھی ”حسنات“ کے ذریعے دور کرے اور اسے فطری نورانیت اور شفافیت کی طرف پلٹا ئے ۔ قرآن کی زبان میں ا س کام کو ”تکفیر “ ( ڈھانپنا ) اور پاک کرنا کہتے ہیں ( اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد دوم ص ۶۶ ( اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں ) ۔

البتہ جیسا کہ ہم مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں کہہ چکے ہیں ہوسکتا ہے ” وید رء ون بالحسنة“ ایک او راہم اخلاقی فضیلت کی طرف اشارہ ہو او روہ یہ کہ ” اولوالالباب “ دوسروں کی برائی کا برائی سے جواب نہیں دیتے اور انتقام لینے کی بجائے نیکی اور اچھائی کرتے ہیں تاکہ دوسرا خود شرمندہ ہو جائے ، پاکیزگی کی طرف پلٹ آئے اور اپنی اصلاح کرلے ۔

____________________

۱۔ جنات ِ عدن کیا ہے ؟ جنات“ کامعنی ہے ”باغات “ اور ”عدن“کامعنی ہے ” طولانی توقفِ“ اور یہاں ابدیت اور ہمیشگی کے معنی میں ہے اور یہ جو ” معدن“( کان ) کو ” معدن “ کہتے ہیں وہ بھی اس جگہ کسی مواد کے طولانی توقف کی بناء پر ہے ۔

۲۔ منھاج البراعةفی شرح نہج البلاغہ جلد ۳ ص ۹۹۵۔

۳۔خصال صدوق ابواب ثمانیہ۔

۴۔ مزید وضاحت کے لئے جلد ۸ ( ار دو ترجمہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔