تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27298
ڈاؤنلوڈ: 2004


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27298 / ڈاؤنلوڈ: 2004
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۵۸،۵۹،۶۰،۶۱،۶۲

۵۸ ۔( وَجَاءَ إِخْوَةُ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ ) ۔

۵۹ ۔( وَلَمَّا جهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِاٴَخٍ لَکُمْ مِنْ اٴَبِیکُمْ اٴَلاَتَرَوْنَ اٴَنِّی اٴُوفِی الْکَیْلَ وَاٴَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) ۔

۶۰ ۔( فَإِنْ لَمْ تَأتونِی بِهِ فَلاَکَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَتَقْرَبُونِی ) ۔

۶۱ ۔( قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ اٴَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ ) ۔

۶۲ ۔( وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَها إِذَا انقَلَبُوا إِلَی اٴَهْلِهمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۸ ۔اور یوسفعليه‌السلام کے بھائی آئے اور اس کے پاس پہنچے ۔ اس نے انہیں پہچان لیا لیکن وہ اسے نہ پہچان پائے ۔

۵۹ ۔ جب ( یوسف ) ان کے بار تیار کر چکا تو کہا( آئندہ جب آؤتو ) تمہارا جوباپ کی طرف سے بھائی ہے اسے میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پیمانے کا حق ادا کرتا ہوں اور میں بہترین میز بان ہوں ۔

۶۰ ۔ اور اگر تم اسے میرے ہاں نہ لاؤ توپھر میرے پاس تمہارے نہ کوئی کیل ( اور غلے کا پیمانہ )ہوگا اور نہ ہی ( تم ہرگز ) میرے پاس آنا ۔

۶۱ ۔ انہوں نے کہا ہم اس کے باپ سے بات کریں گے ( اور کوشش کریں گے کہ وہ مان جائے ) اور ہم یہ کام کریں گے ۔

۶۲ ۔ پھر اس نے اپنے کارندوں سے کہا : جو کچھ انہوں نے قیمت کے طور پر دیا ہے وہ ان کے سامان میں رکھ دو شاید اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ کر وہ اسے پہچانیں اور شاید پلٹ آئیں ۔

یوسفعليه‌السلام کی بھائیوں کو نئی تجویز

آخر کار جیسا کہ پیش گوئی ہوئی تھی سات سات پے در پے بارش ہونے کے سبب اور دریائے نیل کے پانی میں اضافے کے باعث مصر کی زرعی پیدا وار خوب تسلی بخش ہو گئی ۔ مصر کا خزانہ اور اقتصادی امور حضرت یوسفعليه‌السلام کے زیر نظر تھے ۔ آپ نے حکم دیا کہ غذائی اجناس کو خراب ہونے سے بچا نے کے لئے چھوٹے بڑے گودام بنائے جائیں ۔ آپ نے عوام کو حکم دیا کہ پیدا وار سے اپنی ضرورت کے مطابق رکھ لیں اور باقی حکومت کے پاس بیچ دیں ۔ اس طرح گودام غلّے سے بھر جائیں گئے ۔

نعمت و بر کت کی فراوانی کے یہ سات سال گزر گئے اور قحط سالی اور خشک سالی کا منحوس دور شروع ہوا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان زمین کے لئے بخیل ہو گیا ہے ۔ کھیتیاں اور نخلستان خشک ہو گئے ۔ عوام کو غلے کی کمی کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ جانتے تھے کہ حکومت نے غلے کے ذخائر جمع کر کھے ہیں لہٰذا وہ اپنی مشکلات حکومت ہی کے ذریعے دور کرتے تھے ۔ حضرت یوسفعليه‌السلام بھی پوری منصوبہ بندی اور پرو گرام کے تحت غلہ فروخت کرتے تھے اور عادلانہ طورپر ان کی ضرورت پوری کرتے تھے ۔

یہ خشک سالی صرف مصر ہی میں نہ تھی اطراف کے ملکوں کا بھی یہی حال تھا فلسطین اور کنعان مصر کے شمال مشرق میں تھے ۔ وہاں کے لو گ بھی انہی مشکلات سے دور چار تھے ۔ حضرت یعقوب کا خاندان بھی اسی علاقہ میں سکونت پذیر تھا ۔ وہ بھی غلے کی کمی سے دو چار ہو گیا ۔

حضرت یعقوبعليه‌السلام نے ان حالات میں مصمم ارادہ کیا کہ بنیامین کے علاوہ باقی بیٹیوں کو مصر کی طرف بھیجیں ۔ یوسف کی جگہ اب بنیامین ہی ان کے پاس تھا ۔ بہت حال وہ لوگ مصر کی طرف جانے والے قافلے کے ہمراہ ہولئے اوربعض مفسرین کے بقول اٹھارہ دن کی مسافت کے بعد مصر پہنچے ۔

جیسا کہ تواریخ میں ہے ، ضروری تھا کہ ملک سے باہر سے آنے والے افراد مصر میں داخل ہوتے وقت اپنی شناخت کروائیں تاکہ مامورین حضرت یوسفعليه‌السلام کو مطلع کریں ۔ جب مامورین نے فسلطین کے قافلہ کی خبر دی تو حضرت یوسفعليه‌السلام نے دیکھا کہ غلے کی درخواست کرنے والوں میں ان کے بھائیوں کے نام بھی ہیں ۔ آپ انہیں پہچان گئے اور یہ ظاہر کئے بغیر کے وہ آپ کے بھائی ہیں ، آپ نے حکم دیا کہ انہیں حاضر کیا جائے اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے : یوسفعليه‌السلام کے بھائی آئے اور ا س کے پاس پہنچے تو اس نے انہیں پہچان لیا لیکن انہوں نے اسے نہیں پہچانا( وَجَاءَ إِخْوَةُ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ ) ۔

وہ یوسفعليه‌السلام نہ پہچاننے میں حق بجانب تھے کیونکہ ایک طرف تو تیس یا چالیس سال تک کا عرصہ بیت چکا تھا ( اس دن سے لیکر جب انہوں نے حضرت یوسفعليه‌السلام کو کنویں میں پھینکا تھا ان کے مصر میں آنے تک ) اور دوسری طرف وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کابھائی عزیز مصر ہو گیا ہے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ اسے اپنے بھائی کے مشابہ بھی پاتے تو ایک اتفاق ہی سمجھتے ۔ ان تمام امور سے قطع نظر حضرت یو سفعليه‌السلام کے لباس کا اندازہ بھی بالکل بدل چکا تھا ، انہیں مصریوں کے نئے لباس میں پہچاننا کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ یوسفعليه‌السلام کے ساتھ جو کچھ ہو گزرا تھا اس کے بعد ان کی زندگی کا احتمال بھی ان کے لئے بہت بعید تھا ۔

بہر حال انہوں نے اپنی ضرورت کا غلہ خرید ا اور اس کی قیمت نقدی کی صورت میں اور یا موزے ، جوتے یا کچھ اجناس کی صورت میں ادا کی کہ جو وہ کنعان سے مصر لائے تھے ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائیوں نے بہت محبت کا برتاؤ کیا اور ان سے بات چیت کرنے لگے ۔ بھائیوں نے کہا: ہم دس بھائی ہیں اور حضرت یعقوبعليه‌السلام کے بیٹے ہیں ہمارے والد خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیمعليه‌السلام خلیل کے پوتے ہیں ۔ اگر آپ ہمارے باپ کو پہچانتے ہوتے تو ہمارا بہت احترام کرتے ۔ ہمارا بوڑھا باپ انبیاء الٰہی میں سے ہے لیکن ایک نہایت گہرے غم نے ان کے پورے وجود کو گھیر رکھا ہے ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام نے پوچھا :

یہ غم کس بنا پر ہے ۔

انہوں نے کہا :

اس کا ایک بیٹا تھا جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا ۔ عمر میں وہ ہم سے بہت چھوٹا تھا ۔ ایک دن ہمارے ساتھ شکار اورتفریح کے لئے صحرا میں گیا ۔ ہم ا س سے غافل ہو گئے تو ایک بھیڑیا اسے چیر پھار گیا ۔ اس دن سے لے کر آج تک اس کے لئے گریاں اور غمگین ہے ۔

بعض مفسرین نے اس طرح سے نقل کیا ہے :

حضرت یوسفعليه‌السلام کی عادت تھی کہ ایک شخص کو ایک اونٹ کے بارے سے زیادہ غلہ نہیں بیچتے تھے ۔ حضرت یوسفعليه‌السلام کے بھائی چونکہ دس تھے لہٰذا انہیں غلے کے دس بار دئیے گئے ۔

انہوں نے کہا : ہمارا بوڑھا باپ ہے اور ایک چھوٹا بھائی ہے جو وطن میں رہ گیا ہے ۔ باپ غم و اندوہ کی شدت کی وجہ سے سفر نہیں کرسکتا اور چھوٹا بھائی خد مت کے لئے اور مانوسیت کی وجہ سے اس کے پاس رہ گیا ۔ لہٰذا ان دونوں کا حصہ بھی ہمیں دیدیجئے ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام نے حکم دیا کہ دو اونٹوں کے بار کا اضافہ کیا جائے ۔ پھر حضرت یوسفعليه‌السلام ان کی طرف متوجہ ہوئے او رکہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ہوشمند اور مؤدب افراد ہواور یہ جو تم کہتے ہو کہ تمہارے بھائی کو تمہارے سب سے چھوٹے بھائی سے لگاؤ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر معمولی اور عام بچوں سے ہٹ کر ہے ۔میری خواہش ہے کہ تمہارے آئندہ سفر میں میں اسے ضرور دیکھوں ۔ علاوہ ازیں یہاں کے لوگوں کو تمہارے بارے میں کئی بد گمانیاں ہیں کیونکہ تم ایک دوسرے ملک سے تعلق رکھتے ہو لہٰذا بد ظنی کی اس فضا کو دور کرنے کے لئے آئندہ سفر میں چھوٹے بھائی کو نشانی کے طور پر ساتھ لے آنا ۔

یہاں قرآن کہتا ہے :جب یوسفعليه‌السلام نے ان کے بار تیار کئے تو ان سے کہا : تمہارا بھائی جو باپ کی طرف سے ہے اسے میرے پاس لے آؤ( وَلَمَّا جهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِاٴَخٍ لَکُمْ مِنْ اٴَبِیکُم ) ۔

اس کے بعد مزید کہا : کیا تم دیکھتے ہیں ہو کہ میں پیمانہ کا حق ادا کر تا ہوں اور میں بہترین میز بان ہوں( وَلاَتَرَوْنَ اٴَنِّی اٴُوفِی الْکَیْلَ وَاٴَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) ۔

اس تشویق اور اظہار محبت کے بعد انہیں یوں تہدید بھی کی : اگر اس بھائی کو میرے پاس نہ لائے تو نہ تمہیں میرے پاس سے غلہ ملے گا اور نہ تم خود میرے پاس پھٹکنا( فَإِنْ لَمْ تَأتونِی بِهِ فَلاَکَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَتَقْرَبُونِی ) ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام چاہتے تھے کہ جیسے بھی ہو بنیامین کو اپنے پاس بلائیں ۔ ا س کے لئے کبھی وہ لطف و محبت کا طریقہ اختیار کرتے اور کبھی تہدید کا ۔

ان تعبیرات سے ضمنی طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ مصر میں غلات کی خرید و فروخت تول کر نہیں ہوتی تھی بلکہ پیمانے سے ہوتی تھی ۔

نیز یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام اپنے بھائیوں اور دوسرے مہمانون کی بہت اچھے طریقے سے پذیرائی کرتے تھے اور ہر حوالے سے مہمان نواز تھے ۔

بھائیوں نےان کے جواب میں کہا : ہم اس کے باپ سے بات کریں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ رضامند ہوجائیں اور ہم یہ کام ضرورکریں گے( قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ اٴَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ ) ۔

” انا لفاعلون “ کی تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ انہیں یقین تھا کہ اس سلسلے میں وہ اپنے باپ کو راضی کرلیں گے اور ا ن کی موافقت حاصل کرلیں گے ۔ اسی لئے وہ عزیز مصر ایسا کا واعدہ کررہے تھے او رایسا ہی ہونا چاہئیے تھے کیونکہ جب وہ اپنے اصرار اور آہ و زاری سے یوسفعليه‌السلام کو اپنے باپ سے لے جاسکتے تھے تو بنیامین کو کیونکر ان سے جد انہیں کرسکتے تھے ۔

اس موقع پر ان کی ہمدردی اور توجہ کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے حضرت یوسفعليه‌السلام نے ” اپنے کارندوں سے کہا کہ ان کی نظر بچا کر وہ اموال ان کے غلے میں رکھ دیں جو انہوں نے اس کے بدلے میں دئیے تھے تاکہ جب وہ واپس اپنے خاندان میں جا کر اپنا سامان کھولیں تو انہیں پہچان لیں اور دوبارہ مصر کی طرف لوٹ آئیں( وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَها إِذَا انقَلَبُوا إِلَی اٴَهْلِهمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ حضرت یوسفعليه‌السلام نے بھائیوں نے اپنا تعارف کیوں نہیں کروا یا :

مندرجہ بالا آیات کے مطالعہ سے جو پہلا سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضر ت یوسفعليه‌السلام نے بھائیوں نے اپنا تعارف کیوں نہ کروایا کہ وہ جلد از آپ کو پہچان لیتے اور باپ کے پاس واپس جاکر انہیں آپ کی جدائی کے جانکاہ غم سے نکالتے َ ؟

یہ سوال زیادہ وسیع حوالے سے بھی سامنے آسکتا ہے اور وہ یہ کہ جس وقت حضرت یوسفعليه‌السلام کے بھائی آپ کے پا س آئے اس وقت آپ کی زندان سے رہائی کو کوئی آٹھ سال گزر چکے تھے کیونکہ گزشتہ سات سال فراوان نعمتوں پرمشتمل گزر چکے تھے جن کے دوران آپ قحط سالی کے عرصے کے لئے اناج ذخیرہ کرنے میں مشغول تھے ۔ آٹھویں سال قحط کا دور شروع ہوا ۔ اس سال یا اس کے بعد آپ کے بھائی غلہ لینے کے لئے مصر آئے ۔ کیا چاہئیے نہ تھا کہ ان آٹھ سالوں میں آپ کوئی قاصد کنعان کی طرف بھیجتے اور اپنے والد کو اپنے حالات سے آگاہ کرتے اور انہیں شدید غم سے نجات دلاتے ؟

بہت سے مفسرین نے مثلاً طبرسی نے مجمع البیان میں ، علامہ طباطبائی نے المیزان میں اور قر طبی نے الجامع الاحکام القرآن میں اس سوال کا جواب دیا ہے اور اس سلسلے میں کئی جوابات پیش کئے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ بہتر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی کیونکہ فراق ِ یوسفعليه‌السلام دیگر پہلوؤں کے علاوہ حضرت یعقوب کے لئے ایک امتحان بھی تھا اور ضروری تھا کہ آزمائش کا یہ دور فرمان الہٰی سے ختم ہوا اور اس کے پہلے حضرت یوسفعليه‌السلام خبر دینے کے مجاز نہ تھے ۔

علاوہ ازیں اگر حضرت یوسفعليه‌السلام فوراً ہی اپنے بھائیوں کو اپنا تعارر کروادیتے تو ممکن تھا کہ اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوتا اور ہوسکتا تھا جہ وہ اس سے ایسے وحشت زدہ ہوتے کہ پھر لوٹ کر آپ کے پاس نہ آتے کیونکہ انہیں یہ خیال پیدا ہوتا کہ ممکن ہے یوسفعليه‌السلام ان کے گزشتہ رویہ کا انتقال لیں ۔

۲ ۔غلہ کی قیمت کیوں واپس کردی :

حضرت یوسفعليه‌السلام نے یہ حکم کیوں دیا تھا کہ جو مال ان کے بھائیوں نے غلے کی قیمت کے طور پر دیا ہے وہ ان کے سامان میں رکھ دیا جائے ؟

اس سوال کے بھی کئی جواب دئیے گئے ہیں ۔ ان میں سے فخرالدین رازی نے اپنے تفسیر میں دس جوابات ذکر کئے ہیں ۔ بعض تو ان میں سے غیر مناسب ہیں البتہ خود مذکورہ آیت نے اس سوال کا جواب دیا ہے :”( لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَها إِذَا انقَلَبُوا إِلَی اٴَهْلِهمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُون ) “۔

یعنی حضرت یوسفعليه‌السلام کا مقصد یہ تھا کہ جب وہ وطن واپسی پر اپنا سامان دیکھیں گے تو انہیں عزیز مصر ( حضرت یوسفعليه‌السلام ) کی کرم نوازی کا پہلے سے زیادہ احساس ہو اور اسی بنیاد پر وہ دوبار ہ آپ کے پاس آجائیں یہاں تک کہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی پورے اطمینان ِقلب سے اپنے ساتھ لے آئیں اور خود حضرت یعقوبعليه‌السلام بھی یہ بات دیکھ کر بنیامین کو بڑے اعتماد سے مصر روانہ کردیں ۔

۳ ۔حضرت یوسفعليه‌السلام نے بیت المال کا مال کیوں بلا معاوضہ دے دیا؟ :

ایک اور سوال جو یہاں سامنے آتاہے یہ ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائیوں کو بیت المال کا کچھ حصہ کیوں بلا معاضہ دے دیا۔

اس سوال کا جوانب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے :

پہلا یہ کہ مصر کے بیت المال میں مستضعفین کا حق تھا( اور ہمیشہ ہوتا ہے ) اور مختلف ممالک میں موجود سر حدوں سے یہ حق ختم نہیں ہوتا ۔ اسی لئے حضرت یوسفعليه‌السلام اپنے بھائیوں کے لئے جو اس وقت مستضعف تھے اس حق سے استفادہ کیا جیسا کہ وہ دیگر مستضعفین کے لئے بھی کرتے تھے ۔

دوسرا یہ کہ حضرت یوسفعليه‌السلام اس وقت ایک حساس منصب پر تھے جس کی بناء پر ذاتی طور پر بھی ان کے کچھ حقوق تھے ، ان کا کم از کم یہ حق تھا کہ وہ اپنے معاشی ضروریات کا ، اپنے ضرورت مند اہل و عیال کا اور اپنے باپ اور بھا ئیوں جیسے رشتہ داروں کی کم از معاشی زندگی کا خیال رکھیں اسی بناء پر آپ نے اس بخشش و عطا میں اپنے حق سے استفادہ کیا۔

آیات ۶۳،۶۴،۶۵،۶۶

۶۳ ۔( فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی اٴَبِیهِمْ قَالُوا یَااٴَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَاٴَرْسِلْ مَعَنَا اٴَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۔

۶۴ ۔( قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا اٴَمِنتُکُمْ عَلَی اٴَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاللهُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ) ۔

۶۵ ۔( وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَااٴَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ اٴَهْلَنَا وَنَحْفَظُ اٴَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ )

۶۶ ۔( قَالَ لَنْ اٴُرْسِلَهُ مَعَکُمْ حَتَّی تُؤْتُونِی مَوْثِقًا مِنْ اللهِ لَتَأتونَنِی بِهِ إِلاَّ اٴَنْ یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللهُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ ) ۔

ترجمہ

۶۳ ۔ جب وہ اپنے والد کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : ابا جان ! ہم سے ( غلے کا) پیمانہ روک دیا گیا ہے لہٰذا ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے گا تاکہ ہم ( غلے کا ) حصہ لے سکیں اور ہم اس کی حفاظت کریں گے ۔

۶۴ ۔ اس نے کہا کہ کیا میں اس کے بارے میں تم پر بھروسہ کرلوں جیسا کہ اس کے بھائی ( یوسف ) کے بارے میں میں تم پر بھروسہ کیا تھا اور( میں نے دیکھا کہ کیا ہوا اور بہر حال ) خدا بہترین محافظ اور ارحم الراحمین ہے ۔

۶۵ ۔ اور جس وقت انہوں نے اپنا مال و متاع کھولا تو انہوں نے دیکھا کہ ان کا سرمایہ انہیں واپس کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا : ابا جان ! ہمیں اور کیاچاہئیے یہ( دیکھئے)ہمارا سرمایہ جو ہمیں واپس کردیا گیا ہے ( لہٰذا کیا ہی اچھا ہے کہ بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے) اور ہم اپنے گھر والوں کے لئے اناج لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور زیادہ بڑا پیمانہ حاصل کریں گے ، یہ تو چھوٹا پیمانہ ہے ۔

۶۶ ۔ اس نے کہا میں ہر گز اسے تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ مجھ سے پکا خدائی وعدہ نہ کرو کہ اسے حتماً میرے پاس لے آؤگے مگر یہ کہ ( موت یا کسی اور سبب سے ) تم سے قدرت سلب ہو جائے اور جس وقت انہوں نے اس سے قابل ِ وثوق وعدہ کرلیا تو اس نے کہا : جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں خدا اس پر ناظر و حافظ ہے ۔

آخرکار باپ راضی ہو گئے

حضرت یوسفعليه‌السلام کے بھائی مالا ہو کر خوشی خوشی کنعان واپس آئے لیکن آئندہ کی فکر تھی کہ اگر باپ چھوٹے بھائی (بنیامین )بھیجنے پر راضی نہ ہوئے تو عزیز ان کی پذیرائی نہیں کرے گا اور انہیں غلے کا حصہ بھی نہیں دے گا ۔

اسی لئے قرآن کہتا ہے : جب وہ باپ کے پاس لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا ابا جان ! حکم دیا گیا ہے کہ آئندہ ہمیں غلے کا حصہ نہ دیا جائے اور پیمانہ ہم سے روک دیا جائے( فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی اٴَبِیهِمْ قَالُوا یَااٴَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ ) ۔ اب جب یہ صورت در پیش ہے ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ ہم پیمانہ حاصل کر سکیں( فَاٴَرْسِلْ مَعَنَا اٴَخَانَا نَکْتَلْ ) ۔(۱)

اور آپ مطمن رہیں ہم اس کی حفاظت کریں گے( وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۔

باپ کہ جسے یوسفعليه‌السلام ہر گز نہ بھولتا تھا یہ بات سن کر پریشان ہوگیا ، ان کی طر فرخ کرکے اس نے کہا: کیا میں تم پر اس بھائی کے بارے میں بھروسہ کرلوں کہ اس کے بھائی یوسف (ع)کے بارے میں گزشتہ زمانے میں تم پر بھروسہ کیا تھا( قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا اٴَمِنتُکُمْ عَلَی اٴَخِیهِ مِنْ قَبْلُ ) ۔

یعنی جب تمہارا ایسا بر اماضی ہے کہ جو بھولنے کے قابل نہیں تو تم کس طرح توقع رکھتے ہو کہ دوبارہ تمہاری فرمائش مان لوں اور اپنے فرزند دلبند کو تمہارے سپرد کروں اور وہ بھی ایک دور دراز سفر اور پرائے دیس کے لئے ۔ اس کے بعد اس نے مزید کہا: ہر حالت میں خدا بہترین محافظ اور ارحم الراحمین ہے ۔

( فَاللهُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ) ۔

ہوسکتا ہے یہ جملہ اس طرف اشارہ ہوکہ تم جیسے برے ماضی والے افراد کے ساتھ میرے لئے مشکل ہے کہ بنیامین کو بھیجوں اوربھیجوں گا ، بھی تو خدا کی حفاظت میں اور اس کے ارحم الراحمین ہونے کے بھروسے پر نہ کہ تمہارے بھروسے پر ۔

لہٰذا مندرجہ بالا جمہ ان کی فرمائش قبول کرنے کی طرف قطعی اشارہ نہیں ہے بلکہ ایک احتمالی بات ہے کیونکہ بعد والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوبعليه‌السلام نے ابھی تک ان کی فرمائش قبول نہ کی تھی اور آپ نے پختہ عہد لینے اور پیش آمدہ دیگر واقعات کے بعد اسے قبول کیا۔

دوسرا یہ کہ ممکن ہے حضرت یوسفعليه‌السلام کی طرف اشارہ ہو کیونکہ اس موقع پر انہیں یوسفعليه‌السلام یاد آگئے اور وہ پہلے سے بھی جانتے تھے کہ وہ زندہ ہیں (اور بعد والی آیات میں بھی ہم پڑھ گئے ہیں کہ انہیں حضرت یوسفعليه‌السلام کے زندہ ہونے کا اطمینان تھا ) لہٰذا آپ نے ان کے محفوظ و سلامت رہنے کی دعا کی کہ خدا یا ! وہ جہاں کہیں بھی ہیں انہیں سلامت رکھ۔

پھر ان بھائیوں نے جن اپنا سامان کھولاتو انہوں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ وہ تمام چیزیں جو انہوں نے غلے کی قیمت کے طور پر عزیز مصر کو دی تھیں سب انہیں لوٹا دی گئی ہیں اور وہ ان کے سامان میں موجود ہیں( وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ ) ۔

جب انھوں نے دیکھا کہ یہ تو ان کی گفتگو پر سند قاطع ہے تو باپ کے پا س آئے اور ” کہنے لگے : ابا جان ! ہمیں اس سے بڑھ کر او رکیا چاہئیے ، دیکھئے انہوں نے ہمارا تمام مال و متاع ہمیں واپس کردیا ہے “۔( قَالُوا یَااٴَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا ) (۲)

کیا اس سے بڑ ھ کر کوئی عزت و احترام او رمہر بانی ہو سکتی ہے کہ ایک غیر ملک کا سر براہ ایسے قحط اور خشک سالی میں ہمیں اناج بھی دے اور اس کی قیمت بھی واپس کردے ، وہ بھی ایسے کہ ہم سمجھ ہی نہ پائیں اور شرمندہ نہ ہوں ؟ اس سے بڑھ کر ہم کیا تصور کرسکتے ہیں ؟ ؟

ابا جان ! اب کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے ساتھ بھیج دیں ” ہم اپنے گھر والوں کے لئے اناج لے آئیں گے “۔( وَنَمِیرُ اٴَهْلَنَا ) ۔(۳)

اور اپنے بھائی کی حفاظت کی کوشش کریں گے “۔( وَنَحْفَظُ اٴَخَانَا ) ۔” نیز اس کی وجہ سے ایک اونٹ کا بار بھی زیادہ لائیں گے ۔( وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیر ) ۔اورعزیر مصر جیسے محترم ، مہربان اور سخی شخص کے لئے کہ جسے ہم نے دیکھا ہے ایک آسان اور معمولی کام ہے( ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ ) ۔(۴)

ان تمام امور کے باوجود حضرت یعقوبعليه‌السلام اپنے بیٹے بنیامین کو ان کے ساتھ بھیجنے کے لئے راضی نہ تھے لیکن دوسری طرف ان کا اصرار تھا جو واضح منطق کی بنیاد پر تھا ۔ یہ صورت ِ حال انہیں آمادہ کرتی تھی کہ وہ ان کی تجویز قبول کرلیں ۔ آخر کار انہوں نے دیکھا کہ اس کے بغیر چارہ نہیں کہ مشروط طور پر بیٹے کوبھیج دیا جائے ۔ لہٰذا آپ نے انہیں اس طرح سے ” کہا : میں اسے ہر گز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا ، جب تک کہ تم ایک خدائی پیمان نہ دو اور کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے مجھے اعتماد پیدا ہو جائے کہ تم اسے واپس لے کر آؤ گے مگر یہ کہ موت یا موت یا اور عوامل کی وجہ سے یہ امر تمہارے بس میں نہ رہے( قَالَ لَنْ اٴُرْسِلَهُ مَعَکُمْ حَتَّی تُؤْتُونِی مَوْثِقًا مِنْ اللهِ لَتَأتونَنِی بِهِ إِلاَّ اٴَنْ یُحَاطَ بِکُم ) ۔

موثقاً من الله “سے مراد وہی قسم ہے جو خدا کے نام کے ساتھ ہے ۔

الا ان یحاط بکم “کامعنی اصل میں یہ ہے :

” مگر یہ کہ جو حوادث سے مغلوب ہو جاؤ“۔

یہ جملہ ہوسکتا ہے موت یا ایسے دوسرے حوادث کے لئے کنایہ ہو جو انسان کو بے بس کردیں ۔(۵)

( واحیط بثمره ) ( کہف ۔ ۴۲) لیکن واضح زیربحث آیات میں مراد بالخصوص ہلاکت نہیں ہے بلکہ ایسا عذر ہے جس کے باعث انسان کا اختیار ختم ہو جائے ۔

یہ استثناء حضرت یعقوبعليه‌السلام کی عظیم دانائی کی علامت ہے ۔ اس کے باوجود کہ وہ اپنے بیٹھے بنیامین سے اس قدر محبت رکھتے تھے انہوں نے اپنے دوسرے بیٹوں کو ایسی مشکل میں نہیں ڈالا جو ان کے بس میں نہ ہو لہٰذا کہا کہ میں تم سے اپنا بیٹا چاہتاہوں مگر یہ کہ ایسے حوادث پیش آجائیں جو تمہاری قدرت سے ماوراء ہوں اس صورت میں تمہاراکوئی گناہ نہ ہو گا۔واضح ہے کہ اگر ان میں سے بعض کسی حادثے میں گرفتار ہو جاتے اور ان سے قدرت چھن جاتی تو باقی رہ جانے والوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ باپ کی امانت اس تک پہنچا دیں ، اسی لئے حضرت یعقوبعليه‌السلام کہتے ہیں : مگر یہ کہ تم سب حوادث سے مغلوب ہو جاؤ ۔بہر حال یوسفعليه‌السلام کے بھائیوں نے باپ کی شرط قبول کرلی اور جب انہوں نے اپنے والد سے عہدو پیمان باندھا تو یعقوبعليه‌السلام نے کہا : شاہد ، ناظر اور محافظ ہے ، اس بات پر کہ جو ہم کہتے ہیں( فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللهُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ حضرت یعقوبعليه‌السلام کیسے راضی ہو گئے :

مندرجہ بالا آیا ت کے سلسلے میں جو پہلا سوال ذہن میں آتا ہے یہ ہے کہ حضرت عقوبعليه‌السلام بنیامین کو ان کے سپرد کرنے پر کیسے آمادہ ہو گئے جب کہ ان کے بھائی یو سفعليه‌السلام کے بارے میں اپنے سلوک کی وجہ سے پہلے برے کردار کے شمار ہوتے تھے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ صرف یوسفعليه‌السلام کے بارے میں اپنے دل میں کینہ و حسد نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ یہی احساسات اگر چہ نسبتاً خفیف ہی سہی بنیامین کے لئے بھی رکھتے تھے ۔ چنانچہ اس سورہ کی ابتدائی آیا ت میں ہے :

( اذقالوا لیوسف و اخوه احب الیٰ ابینا منا و نحن عصبة )

انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی باپ کے نزدیک ہم سے زیادہ محبوب ہے جب کہ ہم زیادہ طاقتور ہیں ۔

اس نکتے کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام والے حادثے کو تیس سے چالیس سال تک کا عرصہ بیت چکا تھا اور حضرت یوسفعليه‌السلام کے جو ان بھائی بڑحاپے کو پہنچ گئے تھے اور فطرتا ً ان کے ذہن پہلے زمانے کی نسبت پختہ ہو چکا تھا۔ علاوہ ازیں گھر کے ماحول پر اور اپنے مضطرب وجدان پر اپنے برے ارادے کے اثرات وہ اچھی طرح سے محسوس کرتے تھے اور تجربے نے ان پر ثابت کریا کہ یوسفعليه‌السلام کے فقدان سے نہ صرف یہ کہ ان کے لئے باپ کی محبت میں اضافہ ہوا بلکہ مزید مہری اور بے التفاتی پیدا ہو گئی ۔

ان سب باتوں سے قطع نظر یہ تو ایک زندگی کا مسئلہ ہے ۔ قحط سالی میں ایک گھرانے کے لئے اناج مہیا کرنا ایک بہت بڑی چیز تھی اور یہ سیر و تفریح کا معاملہ نہ تھا جیسا کہ انہوں نے ماضی میں حضرت یوسفعليه‌السلام کے متعلق فرمائش کی تھی ۔

ان تمام پہلوؤں کے پیش نظر حضرت یعقوبعليه‌السلام نے ان کی بات مان لی لیکن شرط کے ساتھ کہ آپ سے عہد و پیمان باندھیں کہ وہ اپنے بھائی بنیامین کو صحیح و سالم آپ کے پاس واپس لے آئیں گے ۔

۲ ۔ کیا صرف ایک قسم کافی تھی ؟

دوسرا سوال یہا ں یہ پید اہوتا ہے کہ کیا صرف قسم کھا لینا اور خدائی پیمان باندھ لینا کافی تھا کہ جس کی بنیاد پر بنیامین کو ان کے سپرد کردیا جاتا ۔ ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم ہے کہ عہدو پیمان اور قسم کھا لینا ہی کافی نہیں تھا لیکن قرائن و شواہد نشاندہی کرے تھے کہ اس دفعہ ایک حقیقت پیش نظر ہے نہ کہ سازش ، مکروفریب اور جھوٹ ۔ اس لئے وعدہ اور قسم زیادہ تاکید کے لئے تھی ۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی اشخاص سے مثلاً صدر مملکت اور اسمبلی کے ارکان سے ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے حلف ِ وفا داری لیا جاتا ہے جب کہ ان کے انتخاب میں بھی کافی دیکھ بھال سے کام لیا جاتا ہے ۔

____________________

۱۔”نکتل “ اصل میں ”کیل “ کے مادہ سے ” نکتال “ تھا یہ پیمانے سے کوئی چیز حاصل کرنے کے معنی میں ہے لیکن ” کال “ پیمانے سے کوئی دینے کے معنی میں ہے ۔

۲۔ہوسکتا ہے ” مانبغی“ استفہامیہ جملہ ہو اور اس کی تقدیر ”مانبغی وراء ذٰلک “ ( ہمیں اس سے زیادہ اور کیاچاہئیے ) ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نافیہ ہو اور اس کی تقدیر اس طرح ہو :”مانبغی بذٰلک الکذب ۔ او۔ مانبغی منک دراھم “ (ہم جھوٹ نہیں بولنا چاہتے یا یہ کہ ہم اور پیسے آپ سے نہیں چاہتے یہی مال کافی ہے ۔

۳۔”نمیرمیره “ مادہ سے کھانا اور غذائی مواد حاصل کرنے کے معنی میں ہے ۔

۴۔”ذٰلک کیل یسیر“ میں یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام کے بھائیوں کامقصد یہ تھا کہ جو کچھ لے آئے ہیں یہ تو تھو ڑا سا پیمانہ ہے اگر ہمارا چھوٹا بھائی ہمارے ساتھ چلے تو ہم زیاد ہ غلہ حاصل کرسکتے ہیں ۔

۵۔ یہ تفسیر قرآن مجید میں کئی مقامات پر صرف ہلاکت او رنابودی کے معنی میں استعمال ہوئی ہے ۔مثلاًوظنوا انهم احیط بهم ( یونس ۔۲۲)