تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27162
ڈاؤنلوڈ: 1973


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27162 / ڈاؤنلوڈ: 1973
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

دو اہم نکات

۱ ۔لوح محو و اثبات اور ام الکتاب :

( یمحو الله مایشاء ویثبت ) “ مندرجہ بالا آیات میں اگرچہ انبیاء پر نزول معجزات یا آسمانی کتب کے نازل ہونے کے بارے میں آیا ہے لیکن اس میں ایک عمومی قانون بیان کیا گیا ہے کہ جس کی طرف مختلف منابع ِ اسلامی میں بھی اشارہ ہواہے اور وہ یہ کہ تحقق موجو دات اور عالم کے مختلف حوادث کے دو مرحلے ہیں ۔ ایک مرحلہ قطعیت ہے کہ جس میں کسی قسم کا کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا (مذکورہ بالاآیت میں ”ام الکتاب “ اسی کی طرف اشارہ ہے ) ۔ دوسرا مرحلہ غیر قطعی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ مشروط ہے کہ اس مرحلے میں تبدیلی ممکن ہے لہٰذا اسے مرحلہ محوو اثبات کہتے ہیں ۔

کبھی انہیں ” لوح محفوظ “ اور ”لوح محو و اثبات“ بھی کہا جاتا ہے ۔ گویا ان میں سے ایک لوح میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور وہ بالکل محفوظہے لیکن دوسری میں ممکن ہے کوئی چیز لکھی جائے اور پھر محو ہو جائے اور اس کی جگہ دوسری چیز لکھی جائے ۔

حقیقت ِ امر یہ ہے کہ کبھی ایک حادثہ پر ہم ا س کے ناقص اسباب کے ساتھ نظر ڈالتے ہیں ۔ مثلاً زہر قاتل کی طبیعت کا تقاضا ہے کہ انسان کو ختم کردے ، اسے نظر میں رکھتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ جو شخص اسے کھائے گامر جائے گا مگر اس سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اس زہر کے لئے ایک ” ضد زہر “ بھی ہے اگر اس کے بعد اسے کھا لیا تو اس کے اثرات ختم ہو جائیں گے ( البتہ ممکن ہے ہم بے خبر تو نہ ہوں لیکن اس ” ضد زہر“ کے بارے میں با ت کرنا مناسب نہ سمجھیں ) ۔

اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ حادثہ زہر کھانے سے موت، قطعی پہلو نہیں رکھتا یعنی اس مقام پر ” لوح ِ محو و اثبات “ ہے کہ جس میں دوسرے حوادث پرنظررکھتے ہوئے تغیر ممکن ہے لیکن اگر حاثے کو ا س کی علت ِ تامہ یعنی مقتضیٰ کے وجود ، تمام شرائط کی موجود گی او ر تمام موانع کے خاتمے کے ساتھ نظر میں رکھیں (مندرجہ بالا مثال میں زہر کھانے اور ”ضد زہر “ نہ کھانے کے ساتھ نظر میں رکھیں ) تو پھر یہاں حادثہ قطعی ہے اور اصطلاح کے مطابق اس کی جگہ لوح محفوظ اور ام الکتاب میں ہے اور اس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ۔

یہ بات ایک اور طرح سے بیان کی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ خدا کے علم کے دو مرحلے ہیں ۔ ” مقتضیات اور علل ِ ناقصہ کا علم “ اور ”علل تامہ کا علم “ جو دوسرے مرحلے سے مربوط ہے اسے علم الکتاب اور لوح محفوظ کہا جا تا ہے او رجو پہلے مرحلے سے مر بوط ہے اسے لوح محو و اثبات سے تعبیر کرتے ہیں ورنہ آسمان کے کسی گوشے میں کوئی لوح اور تختی نہیں رکھی ہوئی کہ جس پر کوئی چیز لکھی جاتی ہو یا مٹا کر اس پر دوسری چیز لکھی جاتی ہو۔

یہاں سے منابع اسلامی کے مطالعہ سے سامنے آنے والے بہت سے سوالات کا جواب دیا جاسکتا ہے کیونکہ کبھی کبھی روایات یا بعض قرآنی آیات میں ہم پڑھتے ہیں کہ فلاں کام فلاں نتیجے کا سبب بنتا ہے لیکن ہم بعض اوقات اس میں ایسا نتیجہ نہیں دیکھے۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس نتیجہ کا حصول بعض شرائط یا موانع کا حامل ہوتا ہے کہ جو شرط پوری نہ ہونے یا رکاوٹ دور نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا۔

نیز بہت سی روایات کہ جو لوحِ محفوظ ، لوح محو و اثبات او رانبیاء و آئمہ علیہم السلام کے علم کے بارے میں ہیں ان کا مفہوم اس بحث سے واضح ہو جاتا ہے ۔ ان میں سے چند روایات ہم بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :

۱) امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے مندر جہ بالا آیت کے بارے میں رسول اللہ سے سوال کیا تو حضور نے فرمایا :

لا قرن عینیک بتفسیر ها ولاقرن عین امتی بعدی بتفسیر ها، الصدقة علی وجهها وبر الوالدین و اصطناع المعروف یحول الشقاء سعادة، ویزید فی العمر، وقی مصادع السوء ۔

اس آیت کی تفسیر میں تیری آنکھوں کو روشن کرونگا اور اسی طرح اپنے بعد اپنی امت کی آنکھوں کو ضرورت مندوں کی صحیح طریقے سے مدد کرنا ۔ماں باپ سے نیکی کرنا اور اچھے کام انجام دینا شقاوقت کو سعادت میں دیتا بدل ہے ،زدگی کو طولانی کردیتا ہے اور خطرات سے بچا تا ہے ۔ ( المیزان جلد ۱۱ ص ۴۱۹) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سعادت و شقاوت کو حتمی اورناقابل تغیر امر نہیں ۔ یہاں تک کہ اگر انسان نے ایسے اعمال انجام دیئے ہوں کہ جن کی وجہ سے بدبختیوں کی صف میں شامل ہو تو وہ اپنی جگہ تبدیل کرکے اورنیکیوں کا رخ کرکے خصوصاًمخلوق خدا کی مدد اور خدمت کرکے اپنی سر نوشت کوبدل سکتا ہے کیونکہ ان امورکامقام لوحِ محو و اثبات ہے نہ کہام الکتاب ۔توجہ رہے کہ جوکچھ مندرجہ حدیث میں آیا ہے وہ مفہوم آیت کا ایک حصہ ہے کہ ایک مثال کے طور پر بیان ہوا ہے ۔

۲) امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

من الامور محتومة کائنة لامهالة، ومن الامور امور موقوفة عند الله ، یقدم فیها مایشاء و یمحو مایشاء ویثبت منها مایشاء

کچھ امور حوادث حتمی ہیں کہ جو یقینارونما ہوتے ہیں اور بعض خدا کے ہاں کچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں وہ جس میں مصلحت دیکھتاہے اسے مقدم کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثبت کردیتا ہے ۔ ( المیزان جلد ۱۱ ص ۴۱۹) ۔

نیز مرقوم ہے کہ امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام فرماکرتے تھے :

الولایة فی کتاب الله لحدثتکم بما کان مایکون الیٰ یوم القیامة ، فقلت له اٰیة فقال قال الله: یمحوا الله مایشاء و عنده ام الکتاب

اگر قرآن میں ایک حدیث نہ ہوتی تو میں گزشتہ اور آئندہ قیامت تک حوادث کی تمہیں خبر دیتا۔

راوی حدیث کہتا ہے : میں نے عرض کیا کہ کونسی آیت ہے تو فرمایا:

خدا فرماتا ہے :( یمحو ا الله مایشاء و یثبت و عند ه ام الکتاب ) ( نور الثقلین ،جلد ۲ ص ۵۱۲) ۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مختلف حوادث کے متعلق دین کے عظیم راہبروں کے کم از کم کچھ علوم لوح محو و اثبات سے مربوط ہیں اور لوح محفوظ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ اسے مخصوص ہے اوروہ اس کے کچھ حصے کی کہ جو میں مصلحت سمجھتا ہے اپنے خاص بندون کو تعلیم دے دیتا ہے ۔

و ان کنت من الاشقیاء فامحنی من الاشقایء و اکتبنی من السعدائ

اگر شقاوت مندوں میں سے ہوں تو ان میں سے خذف کرکے مجھے سعادت مندوں میں لکھ دے ( یعنی مجھے اس کام کی توفیق دے) ۔

بہرحال جیسا کہ کہا جاچکا ہے محو و اثبات کا ایک جامع مفہوم ہے ۔ شرائط کی تبدیلی اور موانع کی موجود گی کے زیر اثر اس میں ہر قسم کی تبدیلی شامل ہے اور یہ جوبعض مفسرین نے کسی خاص مصداق کی نشاندہی کی ہے مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ یہ تو بہ کے زیر اثر گناہوں کے محو ہونے یاحالات بدلنے سے روزی کم یازیادہ ہونے یا اس قسم کے امور کی طرف اشارہ ہے ان میں سے ہربات اسی صورت میں صحیح ہوسکتی ہے جب مراد ایک مصداق بیان کرنا ہو۔

۲ ۔ بداء کیا ہے ؟ شیعہ اور سنی میں جو ایک پیچیدہ بحث پیدا ہو گئی ہے وہ مسئلہ”بداء“ کے بارے میں ہے ۔

فخر رازی اپنی تفسیروں میں زیر بحث آیت کے ذیل میں کہتا ہے :۔

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خدا کے لئے ”بدا“ جائز ہے اور ان کے نزدیک بدا کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص ایک چیز کا معتقد ہو پرپھر ظاہرہو جائے کہ حقیقت اس کے اعتقاد کے برخلاف ہے اور یہ بات ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ”یمحوا اللہ مایشاء و یثبت“ کی آیت کا سہارا لیا ہے ۔

فخر رازی مزید کہتا ہے :

یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ علم ِ خدا اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے اور جو ایسا ہو اس میں تغیر و تبدل محال ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ بداکے بارے میں شیعہ عقیدہ سے عدم آگاہی اور لاعلمی کے سبب بہت سے اہل سنت بھائیوں نے شیعوں کی طرف ایسی ناروا نسبتیں دی ہیں ۔ اس کی وضاحت یہ ہے :

لغت میں لفظ ”بداء“ آشکار ہونے اور پوری طرح واضح ہونے کے معنی میں ہے نیز یہ لفظ پشیمانی کے معنی میں بھی آیا ہے کیونکہ جو شخص پشیمان ہوتا ہے یقینااسے کوئی نئی چیز پیش آتی ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ اس معنی ٰ کے لحاظ سے خدا کے بارے میں بداء کاکوئی مفہوم نہیں اور ممکن نہیں ۔ اور کسی عقلمند اور دانا کے لئے ممکن نہیں کہ اسے یہ احتمال ہوکہ کوئی مطلب خدا سے پوشیدہ ہوتا ہے اور پھر وقت گزرنے سے اس پر آشکار ہوجاتا ہے ۔اصولی طور پر یہ بات صریح کفر ہے اورکھٹکنے والی ہے ۔ اس بات کا لازمی مطلب یہ ہے کہ خدا کی ذات ِ پاک کی طرف جہالت کی نسبت دی جائے اور اس کی ذات کومحل تغیر اور محل حوادث سمجھا جائے حاشاوکل شیعہ امامیہ ذات پروردگار اور خدائے لایزال کے بارے میں ایسا احتمال ہر گز نہیں رکھتے ۔

جس میں شیعہ کا بداء کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں او رجس کے مطابق روایاتِ اہل بیت میں آیاہے کہماعرف الله حق معرفته من لم یعرفه بالبداء

وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ ہم علل و اسباب کے ظواہر کے مطابق محسوس کرتے ہیں کہ ایک واقعہ و قوع پذیر ہو گا یا کسی پیغمبر کو ایسا واقعہ پیش آنے کی خبر دی گئی حالانکہ ہم بعد میں دیکھتے ہیں ایسا واقع نہیں ہوا تو اس موقع پر ہم کہتے ہیں کہ ” بداء“ واقع ہوا ہے یعنی جس امر کو ہم واقع شدہ سمجھتے تھے اور اس کے رونما ہونے کو یقینی جانتے تھے اس کے خلاف ظاہر ہوا۔

اس بات کی بنیاد اور اصلی علم وہی ہے جو گزشتہ بحث میں بیان ہوچکی ہے اور وہ یہ کہ بعض اوقات ہماری آگاہی کا تعلق صرف علل ناقصہ سے ہوتا ہے اور ہم شرائط و موانع نہیں دیکھ پاتے اور ہم اس کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں اور اس کے بعد جب شرط کے فقدان یا مانع کے وجود سے سامنا کرنا پڑتا ہے اور جس کی ہم توقع کررہے ہوتے ہیں اس کے خلاف واقع ہو جاتا ہے تو ہم ان کے مسائل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔

اسی طرح کبھی امام پیغمبر یا امام لوح پیغمبر یا امام لوح محوو اثبات سے آگاہی حاصل کرلیتے ہیں جب کہ یہ طبعا ً قابل تغیر ہے اور پھر موانع پیش آنے اور شرائط مفقود ہونے کی بناء پر اس طرح رونما نہیں ہوتا۔

اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ” نسخ “اور ”بداء“ کا آپس میں موازنہ کرنا چاہیئے ۔ ہم جانتے ہیں کہ تمامسلمانوں کے نزدیک نسخ احکام جائز ہے ۔ یعنی ممکن ہے ایک حکم شریعت میں نازل ہو اور لوگ سمجھیں کہ یہ ابدی حکم ہے لیکن پھر وہ ذات ِپیغمبر کے ذریعے منسوخ قرار پاجائے اور اس کی جگہ دوسرا آجائے (جیسے ہم نے تفسیر ، فقہ اور حدیث میں قبلہ کی تبدیلی کے بارے میں پڑھا ہے ) ۔

یہ درحقیقت ”بداء“ کی ایک قسم ہے لیکن عام طور پر امور تشریعی اور احکام و قوانین میں اسے نسخ کہتے ہیں اور مور تکوینی میں بداء ایک قسم کا نسخ ہے ۔ کیا کوئی شخص ایسے منطقی امر کا انکار کرسکتا ہے سوائے ایسے شخص کے جو علت ِتامہ اور علت ناقصہ کے درمیان فرق نہ کر سکے یا یہ کہ وہ شیعیانِ اہل بیت کے خلاف ہونے والے منحوس پراپیکنڈا کا شکار ہو جائے اور اس کا تعصب اسے اجازت نہ دے کہ شیعہ عقائد کا مطالعہ خود ان کی کتب سے کرے ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ فخر الدین رازی نے ”یمحو اللہ مایشاء اللہ و یثبت “ کے ذیل میں بداء کے بارے میں شیعوں کے عقیدے کی با ت تو کی لیکن اس نے اس مسئلے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی کہ بداء اسی ”محو و اثبات“ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ اس نے تواپنے مخصوص تعصب کی بناء پر شیعوں پر کڑی نکتہ چینی کی ہے کہ وہ بداے کے قائل کیوں نہیں ۔

اجازت دیجئے کہ مسئلہ بداء کے کے بار ے میں چند ایسے نمونے پیش کئے جائیں کہ جنہیں سب کے قبول کیا ہے ۔

۱) حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں ہم نے پڑھا ہے کہ ان کی قوم کی نافرمانی سبب بنی کہ عذاب الہٰی ان کی طرف آئے اور اس عظیم پیغمبر نے بھی چونکہ انہیں قابل ہدایت نہ سمجھا اور انہیں مستحق ِعذاب جانا تو انہیں چھوڑ کر چلے گئے لیکن اچانک ”بداء واقع ہوا“ اس قوم کے ایک عالم نے جب آثار ِ عذاب دیکھے تو انہیں جمع کیا اور توبہ کی دعوت دی ۔ سب نے بات مان لی اور وہ عذاب کہ جس کی نشانیاں ظاہر ہو چکی تھیں ٹل گیا۔

( فلولا کانت قریة اٰمنت فنعها ایمانها الاقوم یونس لمّا اٰمنوا کشفنا عنهم عذاب الخزی فی الحیٰوة الدنیا و متعناهم الیٰ حین ) ۔ (یونس۔ ۹۸) ۔

۲) اسلامی تواریخ میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک دلہن کے بارے میں خبر دی کہ وہ اسی شب زفاف مرجائے گی لیکن وہ آپ کی پیش گوئی کے بر خلاف زندہ رہی جب آپ سے ماجرا پوچھا گیا تو فرمایا :

کیا تم نے اس سلسلہ میں کوئی صدقہ دیا ہے ۔

انہوں نے کہا :

جی ہاں

تو آپ نے فرمایا :

صدقہ حتمی بلاؤں کو دور کردیتاہے ۔(۱)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے در حقیقت لوحِ محو و اثبات سے ارتباط کی وجہ سے ایسے واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دی تھی حالانکہ یہ واقعہ مشروط تھا ( شرط یہ تھی کہ اس میں صدقہ کی طرح کو ئی مانع پیدا نہ ہو گیا ہو تو نتیجہ کوئی اور نکل آیا۔

۳) بہادربت شکن ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں ہے کہ وہ اسماعیل کو ذبح کرنے پر مامور ہوئے اور اس ماموریت کے بعد بیٹے کو قربان گاہ میں لے گئے لیکن جب انہوں نے ثابت کردیاکہ میں پوری طرح آمادہ ہو تو بداء واقع ہو گیا اور واضح ہو گیا کہ یہ ایک امتحان تھا اس عظیم پیغمبر اور انکے فرزند ارجمند کی اطاعت و تسلیم کو آزمایا جائے ۔

۴) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ پہلے وہ مامور ہوئے کہ اپنی قوم سے تیس دن تک علیحدہ رہیں اور احکام تورات حاصل کرنے کے لئے خدائی وعدہ گاہ کی طرف جائیں لیکن پھر ( بنی اسرائیل کی آزمائش کے لئے ) اس مدت کو دس دن بڑھا دیا گیا۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بداء کے ایسے واقعات کا کیا فائدہ؟

اس سوال کا جواب ان کے امور میں توجہ کرنے سے ظاہر اً مشکل نہیں رہتا جن کاسطور ِ بالا میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات اہم مسائل مثلاً کسی شخص کی آزمائش ،کسی قوم کا امتحان ، توبہ اور خدائی بازگشت ( جیسے داستان یونس میں آیاہے )صدقہ ، حاجتمندوں کی مدد اور نیک کاموں کے زیر اثر دردناک برطرف ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ماور تقاضا کرتے ہیں کہ آئندہ کے واقعات پہلے اس طرح سے منظم ہوں اور پھر شرائط و حالات بدلنے سے وہ بھی بدل جائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کی سر نوشت خود انہی کے ہاتھ ہے اور روش کی تبددیلی سے وہ اپنی تقدیر بدلنے پر قادر ہیں اور یہ بداء کے ساتھ نہیں پہچانا وہ اس کی پوری معرفت نہیں رکھتا، یہ بھی انہی حقائق کی طرف اشارہ ہے اسی لئے ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

مابعث الله عزوجل نبیاً حتی یأخذ علیه ثلاث خصال الاقرار بالعبودیة وخلع الانداد، و ان اله یقدم ما یشاء و یؤخر مایشاء

خدا نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس سے یہ تین پیمان لیے ۔ پر وردگار کی بندگی کا اقرار ، ہرقسم کے شرک کی نفی اور یہ کہ خدا جس چیز کو چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے موخر کرتا ہے ۔(۲)

حقیقت میں پہلا پیمان خدا کی اطاعت اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے مربوط ہے دوسرا عہد شرک کے خلاف قیام کرنے سے متعلق ہے اور تیسرا مسئلہ بداء سے مربوط ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ حالات تبدیل کرکے اپنے آپ کو لطف ِ الہٰی یا عذاب ِ خدا کا حقدار بنا لیتا ہے ۔

آخری بات یہ ہے کہ مندر جہ بالا پہلوؤں کی بناء پرعلماء شیعہ نے کہا ہے کہ جب ” بداء “ کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے تو یہ ”ابداء“ کے معنی میں ہوتی ہے یعنی کسی ایسی چیز کو ظاہر کردیتا ہے جو پہلے ظاہر نہ ہو او ر جس پیشین گوئی نہ کی جاسکتی ہو۔

لیکن شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کبھی کبھی اپنے کام پر پشیمان ہوجاتا ہے یا کسی ایسی چیز سے باخبر ہو جاتا ہے کہ جس سے پہلے آگاہ نہ ہو یہ بہت بڑی زیادتی ہے اور ایسی تہمت ہے جسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔

اسی لئے آئمہ معصومین علیہم السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا:

من زعم ان الله عزوجل یبد وله فی شیء لم یعلمه امس فابرؤا منه

جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا پر کوئی ایسی چیز آج آشکار ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا تو ایسے شخص سے بیزاری اختیار کرو۔(۳)

____________________

۱۔ بحار الانوار چاپ قدیم ، جلد ۲ ص ۱۳۱ از امالی صدوق ۔

۲۔اصول کافی ، جلد ۱ ص ۱۱۴، سفینة البحار جلد ۱ ص ۶۱۔

۳۔سفینة البحار جلد ۶۱۔

آیات ۴۱،۴۲،۴۳

۴۱ ۔( اٴَوَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّا نَأتی الْاٴَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اٴَطْرَافِهَا وَاللهُ یَحْکُمُ لاَمُعَقِّبَ لِحُکْمِهِ وَهُوَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ) ۔

۴۲ ۔( وَقَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ الْمَکْرُ جَمِیعًا یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ وَسَیَعْلَمُ الْکُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ )

۴۳ ۔( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ کَفَی بِاللهِ شَهِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْکِتَابِ ) ۔

ترجمہ

۴۱ ۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ہم ہمیشہ زمین کے اطراف (وجوانب) کو کم کررہتے ہیں ( معاشرے ، تمدن اور علماء تدیجاً ختم ہو تے رہتے ہیں )اور خدا حکومت کرتا ہے اور کسی شخص کو اسے روکنے یااس کے احکام رد کرنے کا یارا نہیں اور وہ سریع الحساب ہے ۔

وہ لوگ جنہوں نے ان سے پہلے سازشیں کیں اور منصوبے بنائے لیکن منصوبہ بنانا تو خدا کا کام ہے کہ جو ہر شخص کے کام سے آگاہ ہے اور عنقریب کفار جان لیں گے کہ دوسرے گھر میں ( نیک و بد ) انجام کس کا ہے ۔

۴۳ ۔ جو کافر ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ر ورسول نہیں ہے۔ کہہ دے کہ خدااور وہ لوگ کہ جن کے پاس علم کتاب ( اور قرآن کی آگاہی ) ہے (میری ۹ گواہی کے لئے کافی ہیں ۔

انسان اور معاشرے ختم ہو جاتے ہیں ، خدا باقی رہتا ہے

گزشتہ آیا ت میں روئے سخن رسول اللہ کی رسالت کے منکرین کی طرف تھا ۔ ان آیات میں اس بحث کو جاری رکھا گیا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ انہیں تنبیہ کی جائے ، انہیں بیدار کیا جائے ، ان کے سامنے استدلال کیا جائے الغرض مختلف طریقوں سے انہیں عقلی راہ پر لگا کر غور و فکر کرنے اور پھر اپنی حالت کی اصلاح کرنے پر آمادہ کیا جائے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : ان مغرور اور ہٹ دھرم افراد نے دیکھا نہیں کہ ہم مسلسل زمین کے اطراف و جوانب کو کم کرتے رہتے ہیں( اٴَوَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّا نَأتی الْاٴَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اٴَطْرَافِهَا ) ۔

واضح ہے کہ زمین سے یہاں مراد اہل زمین ہیں ۔ یعنی کیا وہ اس واقعیت کی طرف نگاہ نہیں کرتے کہ ہمیشہ اقوام ، تمدن اور حکومتیں زوال پذیر ہوتی ہیں ۔ وہ قومیں کہ جو ان سے زیادہ قوی تھیں ، زیادہ طاقتورتھیں اور زیادہ سر کش تھیں ، ان سب نے اپنے اپنے منہ می میں چھپا لئے۔ یہاں تک کہ علماء بزرگ اور دانشور کہ جو زمین کا سہارا تھے انہوں نے بھی اس جہان سے آنکھیں بند کرلیں اور ابدایت کے ساتھ وابستہ ہو گئے ۔ کیا یہ ہمہ گیر قانون ِحیات کہ جو تمام افراد، تمام انسانی معاشروں اور ہر چھوٹے بڑے پرجاری و ساری ہے ان کے بیدار ہونے کے لئے کا فی نہیں ہے کہ وہ اس چند روزہ زندگی کو ابدی نہ سمجھیں اور اسے غفلت میں نہ گزاردیں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : حکومت اور فرمان جار کرنا خدا کے لئے ہے اور کسی شخص میں اس کے فرمان کو رف کرنے اور سے روکنے کا یارا نہیں ہے( وَاللهُ یَحْکُمُ لاَمُعَقِّبَ لِحُکْمِه ) ۔اور وہ سریع الحساب ہے( وَهُوَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ) ۔

اس بناء پر ایک طرف تو اس نے تمام افراد اور سب قوموں کو پشیمانی پر قانون ِ فنا رقم کردیا ہے اور دوسری طرف کسی کی مجال نہیں کہ اس فرمان کو یا خدا کے دوسرے فرامین کو بدل سکے اور تیسری طرف وہ بندوں سے بڑی تیزی سے حساب لیتا ہے اور اس طر ح سے اس کی جزاء قطعی ہے ۔

کئی ایک روایات کو جوتفسیر برہان ،نور ثقلین ، دیگر تفاسیر اورکتب حدیث میں آئی ہیں ان میں زیر نظر آیت کی تفسیر علماء اور دانشمندبیان کی گئی ہے کیونکہ ان کا فقدان زمین اوراسلامی معاشرے کمی اور نقصان کا سبب بنتا ہے ۔

مفسر ِ بزرگ طبرسی اس آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں :

ننقصها بذهاب علمائها ، وفقهائها و خیارها

ہم زمین میں اس کے علماء فقہااو رنیک لوگوں کے لئے چلے جانے سے کمی واقع کریں گے ۔(۱)

ایک اور حدیث میں ہے کہ جس وقت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام شہید ہوئے تو عبد اللہ بن عمر نے یہ آیت پڑھی:انا نأتی الارض ننقصها من اطرافها

اس کے بعدکہا:یا امیر المومنین لقد کنت الطرف الاکبر فی العلم ، الیوم نقص علم الاسلام و مضی رکن الایمان

اے ا میر المومنین آپ عالم ِ انسانیت میں علم انسانیت میں علم کی بہت بڑی ”طرف“ تھے ۔ آپ شہادت سے آج اسلام کا علم و دانش نقصان کی طرف جھگ گیا اور ایمان کا ستون گر گیا ۔(۲)

باقی رہا یہ کہ بعض مفسرین نے احتما ل ظاہر کیا ہے کہ زمین کے نقصان سے مراد کفار کی زمینوں کاکم ہونااور مسلمان علاقوں میں اضافہ ہونا ہے اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس وقت تو ایسی فتوحات نہیں تھیں کہ کفار جنہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور قرآن ان کی طرف اشارہ کرتا۔ نیز یہ جو بعض مفسرین کہ جوعلوم طبیعی میں مستغرق ہیں وہ زیر نظر آیت کو قبطین کی طر ف سے زمین کے کم ہونے اور استوائی جانب سے زیادہ ابھر نے کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، بہت بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ قرآن کی زیر نظر آیت میں یہ چیز بیان کرنے کا موقع نہیں ہے ۔

بعد والی آیت میں اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا گیا ہے : صرف یہی گروہ نہیں کہ جو سازشوں اور مکرو فریب کے ساتھ تمہارے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ ” ان سے پہلے والے بھی سازشیں اور مکاریں کیا کرتے تھے “( وَقَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ) ۔

لیکن ان کے منصوبے نقش بر آب ہو گئے اور ان کی سازشیں حکم خدا سے بے اثر ہو کر رہ گئیں کیونکہ وہ ہر شخص کے معاملات خود اس سے بہتر جانتا ہے نکہ ” تمام منصوبے خدا کے لئے ہیں “( فَلِلَّهِ الْمَکْرُ جَمِیعًا ) ۔وہ ہے کہ جو ہر شخص کے کسب و کار سے آگاہ ہے اور ”وہ جانت اہے کہ ہر شخص کیا انجام دیتا ہے “( یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ ) ۔

اور پھر تہدید کے لہجے میں انہیں ان کے انجام کار سے ڈرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : کفار بہت ہی جلد جالیں گے کہ انجام ِ کار اور نیک و بد عاقبت دوسرے جہان میں کس کس کے لئے ہے( وَسَیَعْلَمُ الْکُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ ) ۔

جس طرح سے یہ سورت قرآن اور کتاب اللہ کے ذکر سے شروع ہوئی تھی اسی طرح زیر بحث آخری آیت میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بہت زیادہ تاکید گئی ہے اور اسی پر سورہ رعد ختم ہوتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : یہ کافر کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ) )

یہ لوگ ہر روز ایک نیا بہانہ تراشتے ہیں ، ہر وقت معجزہ کا تقاضا کرتے ہیں ا ور پھر بھی آخر کار کہتے ہیں کہ تو پیغمبر نہیں ہے ۔

ان کے جواب میں کہو :یہی کافی ہے کہ دو ہستیاں میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہیں ایک اللہ اور دوسرا وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم اور قرآن کی آگاہی موجود ہے( قُلْ کَفَی بِاللهِ شَهِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْکِتَابِ ) ۔ایک تو خودخدا جانتا ہے میں اس کا بھیجا ہوا ہوں اور دوسرے وہ لوگ کہ جو میری اس آسمانی کتاب یعنی قرآن کے بارے میں کافی آگھی رکھتے ہیں وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب انسانی دماغ کی ساختہ نہیں ہے خدایے بزرگ کے سوا یہ کسی اور کی ہو ،یہ بھی مختلف پہلوؤں سے قرآن کے اعجاز ہونے کے بارے میں ایک تاکید ہے۔اس کی تفصیل ہم دیگر خصوصا کتاب،،قرآن و آخرین پیامبر میں بیان کرچکے ہیں ۔

جو کچھ ہم نے سطوربالا میں کہا ہے اس کی بنا پر( ومن عنده علم الکتاب ) سے مراد مضامین قرآن مجید سے آگاہ افراد ہیں ۔

لیکن بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ اہل کتاب کے علماء کی طرف اشارہ ہے۔بہت سی روایات میں آیا ہے(من عندہ علم الکتاب)سے مراد حضرت علی بن ابی طالب اور دیگر ائمہ ھدی مراد ہیں ۔

اس سلسلے کی روایات تفسیر نورالثقلین اور تفسیر برہان می جمع کردی گئی ہیں لیکن یہ روایات اس بات کی دلیل نہیں کہ مفہوم آیت اسی پر منحصر نہیں ہے جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ ایک مصداق یا مصادیق تامہ وکاملہ کی طرف اشارہ ہیں ۔بہر حال یہ روایات پہلی تفسیر کہ جسے ہم نے انتخاب کیا ہے کی تایید کرتی ہیں ۔ناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ہم اپنی گفتگو پیغمبر اکرم سے منقول ایک رواےت پر ختم کریں

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر گرامی سے ،،قال الذی عندہ علم من الکتاب،،اس شخص نے کہا کہ جس کے پاس کتاب میں سے علم تھا (یہ آیت حضرت سلیمان کے واقعہ کے ضمن میں ہے )

کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:ذاک وصی اخی سلیمان بن داود

وہ میرے بھائی سلیمان بن داوود کا وصی اور جانشین تھا ابو سعید کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :،،( قل کفی بالله شهیدا بینی وبینکم ومن عنده علم الکتاب ) ،، کس کے بارے میں ہے اور کس طرف اشارہ ہے رسول اللہ نے فرمایا :ذاک اخی علی بن ابی طالب

وہ میرے بھائی علی بن ابی طالب ہیں ۔(المیزان ج، ۱۱ ص ۴۲۷)

پروردگارا! اپنی رحمت کے دروازے ہم پر کھول دے اور اپنی کتاب کا علم ہم پر ارزانی فرما ۔

بارالہا!قرآن کی آگہی سے ہمارے دل اس طرح سے روشن اور ہماری فکر کو ایسا توانا بنا ہم تجھے چھوڑ کر تےرے غےر کی طرف نہ جائیں ،کسی چیز کو تیری مشیت پر مقدم نہ کریں ،خودغرضیوں ،تنگ نظریوں اور خود بینیوں کے تنگ وتاریک گڑھوں میں نہ گریں ،تےرے بندوں کے درمیان تفرقہ نہ ڈالیں ،اپنے اسلامی انقلاب کو خطرے کی طرف کھینچ نہ لے جائیں اور اسلام ،قرآن اور ملت اسلامی کی مصلحتوں کو ہر چیز پر مقدم رکھیں ۔

خداوندا!عراق کے ظالم حکام کو خواب غفلت سے بیدار کر کہ جنہوں نے یہ خانماں سوز ،ویران گر اور تباہ کن جنگ دشمنان اسلام کی تحریک ہم پر مسلط کی ہے اور اگر وہ بیدار ہونے والے نہیں تو انہیں نابود فرما اور ہمیں اپنی کتاب کے زیر سایہ آگہی عطا فرما جس سے ہم حق وعدالت کے دشمنوں پر کامیابی کے لئے جائز اورتمام ممکنہ وسائل سے استفادہ کریں ۔

____________________

۱۔تفسیر برہان جلد ۲ ص ۳۰۱۔

۲۔البتہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے آیت کا ایک وسیع مفہوم ہے ۔ اس میں ہر قسم کا نقصان اور کمی شامل ہیں چاہے وہ افراد ہوں ، یا معاشرے یا بطور کلی اہل زمین ۔ یہ تمام لوگوں کے لئے جرس بیداری ہے چاہے وہ نیک ہوں یا برے حتی کہ علما ء اور دانشمندوں کے لئے بھی کہ جو انسانی معاشروں کے ستون ہیں جب کہ ان میں سے کبھی ایک کے چلے جانے سے پوری دنیا کو نقصان پہنچتا ہے ۔ یہ سب کے لئے بولتی ہوئی ہلادینے والی صدائے ہوشیار باش ہے ۔